1
ہزار ک نوٹ منس نہ مقصود حسنی جی خ لی ہونے کے سب اور تو اور‘ میرے اپنے بچے اور ان کی م ں‘ جن کے لیے میں دن رات جی اور زندگی کی مشقت اٹھ ت رہ ۔ ان کی خوش ح لی اور بہبود کے لیے میری سوچیں‘ خون پسینے میں نہ تی رہیں‘ پی ر تو بہت دور کی ب ت‘ ٹوٹ ٹوٹ پڑتے تھے۔ وہ مجھے الیعنی اور بےک ر ک بوجھ سجھتے تھے۔ دنی چ ری کے تحت دو وقت کی بچی کچی چ ر و ن چ ر مہی کر رہے تھے۔ گھر کے ہر چھوٹے بڑے کے منہ یہ ہی رہت ‘ ت نے ہم رے لیے کی ہی کی ہے۔ ح الں کہ میں نے زندگی ک ہر لمحہ ان کے لیے گزرا تھ ۔ بچے اسی عمل سے گزر رہے تھے‘ لیکن انہیں کبھی بھی یاد نہ آی کہ اب بھی ان مراحل سے گزرا ہو گ ۔ مجھے دو روپیے دیتے ہوئے‘ ان پر غشی کی سی کی یت ط ری ہو ج تی۔ میرا لنگوٹی کر الہی کم ئی کے لیے والیت گی ہوا تھ ۔ ایک عرصہ بعد واپس لوٹ ۔ ایک روز مجھے م نے آ گی ۔ میرے گھر والوں نے اس کی بڑی عزت کی۔ اس کے ب وجود اس نے نوٹ 2
کی کہ جی کے بےوف ئی نے مجھے گ ی کے کتے سے بھی بدتر کر دی ہے۔ میں نے اس سے ان لوگوں کی کوئی شک یت نہ کی تھی۔ ان کے میرے س تھ رویے اور لب س کی عسرت نے اس پر س کچھ کھول دی ۔ اس نے چ تے ہوئے ہزار ک نوٹ ۔۔۔۔۔ یقین م نیں ہزار ک نوٹ‘ میری مٹھی میں بند کر دی اور آنکھوں آنکھوں میں کہہ دی :احتی ط سے خود پر خرچ کرتے رہو‘ دیر تک چ ے گ ۔ میری آنکھیں تشکر سے لبریز ہو گیئں۔ یہ کوئی معمولی ب ت نہیں۔ اس سے میرا کوئی خون رشتہ نہ تھ ۔ بیس پچیس س ل پہ ے کی سال دع تھی۔ بےشک یہ بہت بڑے جگرے کی ب ت تھی۔ میری جی کی ہری لی ج نے گھر والوں پر کس طرح کھل گئی کہ وہ ہی گھر والے مجھے ہ تھوں پر اٹھ ئے پھرتے تھے۔ بڑے لڑکے نے اپن تقریب نی جوڑا مجھے دے دی ۔ گھر والی میری چ ئے پ نی ک خی ل کرنے لگی۔ میمو ٹھگنی کی طرح شہد سے بڑھ کر میٹھی ہو گئی۔ میں ان کی ان اداؤں کو سمجھ رہ تھ ۔ میں نے انہیں اپن پ و نہ پکڑای اور گ نٹھ ک پک رہ ۔ گ ؤں میں ہزار ک کھال مل ج ن ممکن نہ تھ ۔ سوچ کر الہی ہی سے کہت ہوں کہ اس ک کھال کروا دو۔ پھر سوچ گزرا کہیں اتن بڑا نوٹ اس کی نیت ہی خرا نہ کر دے۔ میں نے چ ر کوس ک س ر طے کرن من س ج ن ۔ ب زار آ کر کھال کروای اور کھ ے پر گرفت کرکے اکی ے میں اسے گن تو اس میں سے بیس ک تھے۔ 3
مجھے بڑا افسوس ہوا کہ شحص کے اندر بددی نتی کس طرح گھر کیے ہوئے ہے۔ ا وہ ہزار ک نوٹ نہیں نو سو اسی تھے۔ پھر مجھے خود اپنے اندر کی بددی نتی ک احس س ہوا کہ ی ر بال م نگے دینے واال واپس کیوں لے گ ،کیسے ہیں ہ لوگ جو اوروں پر تو انگ ی رکھتے ہیں لیکن اپنے گریب ن میں نہیں جھ نکتے۔ ش ید م سی و ن داری شخص کے سوچ کو گھٹی بن دیتی ہے۔ میں ان میں سے تھوڑے تھوڑے کرکے استعم ل میں الت رہ ۔ ایک دن گنتی کی تو مع و ہوا کہ وہ س ت سو اسی روپیے تھے۔ میں دیر تک غور کرت رہ کہ ہزار کے نوٹ کی یہ اوق ت ہے کہ اپنی ح لت برقرار نہیں رکھ سک ۔ اس ہزار کے لیے س میری عزت کر رہے تھے اور اس کے نہ ہونے کے سب مجھے کتے سے بھی برتر سمجھ رہے تھے۔ میں نے بقیہ رق رشتے سے بڑھ کر نوٹ کی عزت کرنے والوں میں تقسی کر دی اور خود مسجد میں ظہر کی نم ز ادا کرنے چال گی ۔ میں نے سوچ جو ہللا م ں کے پیٹ میں رز فراہ کرت مجھے کرت ہی رہے گ ۔ ہللا کو بھول کر نوٹ کے پج ریوں کی گرہ کیوں دیکھوں۔ اس ب ت کو دو س ل ہو گئے ہیں یقین م نیں کبھی ف قہ سے نہیں سوی ۔ کہیں ن کہیں سے میسر آ ہی رہ ہے۔ ابوزر برقی کت خ نہ م رچ ٧ 4