ممصود حسنی کے نو افسانے پیش کار شہال کنور عباس ابوزر برلی کتب خانہ ٢٠١٦ فہرست وہ اندھی تھی ١- کچھ بعید نہیں ٢- ڈی سی سر مائیکل جان ٣- پرایا دھن ٤- کتا اس لیے بھونکا ٥- یہ ہی ٹھیک رہے گا ٦- کردہ کا انتمام ٧- حمیمت پس پردہ تھی ٨- الحول وال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٩-
وہ اندھی تھی
وہ لنکویل لبیلے کا سانپ کم' چھالوہ زیادہ تھا۔ دوسرا حجم اور لمبائی چوڑائی میں بھی' جہنمی بال لگتا تھا۔ کسی ایک جگہ ٹھکانہ رکھتا تو گرفت کا کوئی ناکوئی رستہ ضرور نکل آتا' مصیبت تو یہ تھی کہ اس کا کوئی مستمل ٹھکانہ نہ تھا۔ لوگ سوچ میں تھے' آخر کہیں ناکہیں آرام تو کرتا ہو گا۔ یہ بال' پتا نہیں اچانک کیوں نازل ہو گئی تھی۔ عاللے کے سربراہ مہاراج چرچی ناتھ کی آمد اچانک نہ تھی' اس کے پیچھے ایک عوامی خون خوار تاریخی پس منظر تھا۔ اس سپرپاور' جس کے سامنے عاللے کے پھنے خاں بھی' لطعی مجبور وبےبس تھے۔ گھروں میں
بیٹھے' ان پر ہراس کے موسم کی کپکپی طاری تھی۔ وہ گھریلو مویشیوں کے لیے بھی' عذاب بن گیا تھا۔ نر مویشی جان سے جاتے' جب کہ مادہ مویشیوں کا دودھ نچوڑ لیتا۔ جسے ڈستا پاؤں پر ٹکی ہو جاتا۔ جگہ جگہ الشیں بکھری پڑی تھیں۔ بو اور تعفن سے' سانس لینا محال ہو گیا تھا۔ عاللے کے ہر چھوٹے بڑے کو' بےچارگی اور بےبسی کا یہ عالم' مایوسی کے دروازے تک لے آیا تھا۔ ذاتی اور اجتماعی طور پر' غوروفکر کیا جا رہا تھا لیکن کوئی حتمی حل ہاتھ نہیں لگ رہا تھا۔ زبانی جمع خرچ بہت ہوا' مگرمیدان میں کوئی اترنے کے لیے تیار نہ ہو رہا تھا۔ کون اترتا' جان ہر کسی کو پیاری تھی۔ ایک دوسرے سے تولع' وابستہ کی جا سکتی تھی یا پھر کسی غیبی مدد کا انتظار کیا جا سکتا تھا۔ کئی دن گزر گئے' کچھ نہ ہو سکا۔ بھوک پیاس اور تعفنی
گھٹن سے' موتیں ہو رہی تھیں۔ انسانوں اور مویشیوں کی الشیں ٹھکانے نہیں لگ رہی تھیں جس کے باعث' باہر کی بدبو تو تھی ہی' گھروں میں بھی بدبو پھیل گئی تھی۔ ہر کسی کا منہ لٹکا ہوا تھا۔ کمزوری کے سبب جیتے جاگتے انسان' چلتی پھرتی الشیں لگ رہے تھے۔ ایک دن دوسری والیت سے آنے واال گامو سوچیار' چونکا دینے والی خوش خبری الیا۔ اس نے بتایا ادھر شہاب دین کے کھیت میں' ایک لنکویل لبیلے کا اژدھا' ایک مریل اور کرم خوردہ کتے کے منہ میں' بےبسی کے عالم میں' پیچ و تاب کھا رہا ہے۔ یہ سننا تھا کہ لوگ' گامو سوچیار سے لپٹ گئے۔ پھر لوگ' شہاب دین کے کھیت کی جانب دوڑ پڑے۔ یہ دینو نائی کا بیمار کتا تھا۔ سانپ کے درمیان' اس کے دانت گڑے ہوئے تھے۔ سانپ آدھا ادھر آدھا ادھر بےبسی کے عالم میں' چھٹکارے کی کوشش میں تھا۔ وہ بار بار اسے ڈس رہا تھا۔ ہر ڈنگ' ہیروشیما پر پر گرے بم سے' کسی طرح کم نہ تھا۔ الٹا سیدھا ہو کر ڈرون گرا رہا تھا۔ مگر کہاں' کچھ بھی نہیں ہو پا رہا تھا۔
اصول یہ ہی رہا ہے' طالت سے ہر کوئی دور ہی رہا ہے اور اسی میں' عافیت خیال کرتا رہا ہے۔ اس رویے کے سبب' طالت کو شہ ملی ہے اور عاللے میں دندناتی پھرتی ہے۔ ہر سامنے آنے واال ' کم زور یا طالتور' جان سے جاتا ہے' تاہم ایک کی بلی اوروں کی نجات کا سبب بنتی ہے۔ دینو کا کتا' ادھر سے گزرا ہو گا۔ اس گستاخی کی سزا میں' اس پر فرار کے چاروں رستے بند کر دیے گیے ہوں گے اور اس پر ترس کھانے کی بجائے' جھپٹ پڑا ہو گا۔ موتی کا پہلے داؤ لگ گیا ہو گا۔ ڈنگ لگنے سے اس کی موت والع ہو گئی ہو گی اور اکڑاؤ آ گیا ہو گا۔ اب اس کی کون اور کیوں مدد کرتا۔ تکبر تماشا بن چکا تھا۔ طالت عبرت نہیں لیتی کیوں کہ وہ اندھی ہوتی ہے۔
کچھ بعید نہیں
میں ایک دفتر میں مالزم ہوں۔ سارا دن‘ بہت سے سائل یا ان کے سفید پوش اور چرب زبان دلے دالل‘ جنہیں شورےفا کی زبان میں ایجنٹ کہا جاتا ہے‘ مک مکا کرتے‘ چائے پانی پالتے لگاتے اور دو طرفہ مسکراہٹ میں اپنی راہ لیتے۔ ہم لوگ‘ ایک دوسرے کی جان پہچان میں ہیں۔ ناگہانی حاالت میں‘ آنکھوں کی زبان میں‘ کافی کچھ کہہ سن لیتے ہیں۔ ممامی افسر بھی‘ ان سے ناوالف نہیں ہیں۔ آنکھوں کی زبان کا استعمال‘ کسی باال افسر کے آنے کی صورت میں ہوتا ہے۔ بس ایک جعلی سی پردہ داری ہے۔ حاالں کہ آنے والے کے ہاں‘ یہاں سے کہیں بڑھ کر‘ انھی مچی ہوتی ہے۔ ماہنانہ لفافے کی ترسیل کی‘ ہم میں سے کوئی ڈیوٹی انجام دیتا ہے۔ بس ایک بھرم سا چال آتا ہے۔ کہیں کھال اور کہیں فی صد بھی طے ہے۔ عموم میں‘ لفافہ ہی متحرک رہتا ہے۔ گویا ہم دفتر والے‘ گردوپیش‘ باال دفاتر اور دفاتر سے منسلک دلے داللوں کے مزاج‘ رویے اور اطوار سے خوب آگاہ ہیں۔
دفتر آتے جاتے‘ ایک چھوٹے لد کے شخص سے ماللات ہوتی رہتی تھی۔ وہ کسی دفتر کا مالزم نہیں تھا‘ کیوں کہ میں ممامی دفتر کے ہر مالزم سے والف ہوں۔ وہ یمینا کسی دفتر کا مستند دال تھا۔ جب ملتا‘ ہاتھ اٹھا کر‘ بڑے ادب سے سالم کرتا۔ میں بھی خوش خلمی سے سالم کا جواب دیتا۔ یہ دال حضرات بڑے عجیب والع ہوئے ہیں۔ چغلی اور مخبری میں بھی کمال کے ماہر ہوتے ہیں۔ بہت سے‘ میر جعفر کے بھی پیو ہیں۔ کھٹی بھی چغلی مخبری کی کھاتے ہیں۔ یہ اس لماش کا دال نہ تھا۔ باادب سالم بھی حفظ ما تمدم کرتا تھا‘ کہ کبھی اور کسی ولت بھی‘ کوئی کام پڑ سکتا تھا۔ اس لسم کے باادب سالم‘ کام نکلوانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ وہ مجھے نہیں جانتا تھا۔ میں کام کی وصولی میں بڑا سخت اور کورا والع ہوا ہوں۔ میرے اس اصول سے‘ اپنے پرائے خوب خوب آگاہ ہیں۔ سالم دعا کے حوالہ سے‘ رو رعایت کو دو نمبری سمجھتا ہوں۔ اگر رو رعایت سے کام لیتا تو اتنی بڑی جائیداد کبھی بن نہ پاتی۔
ایک دن مال‘ بڑے رومنٹک اور مالپڑے سے موڈ میں تھا۔ میرے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ میں نے ہنس کر کہا‘ بھئی خیر تو ہے‘ کوئی کام تو نہیں۔ سالم دعا اپنی جگہ‘ لیکھے میں بااصول ہوں۔ ہنس پڑا اور کہنے لگا :سرکار میں جانتا ہوں۔ تو کہو‘ کیا کام ہے۔ سرکار بڑی نفیس اور شان دار بکری ہاتھ آئی ہے۔ طبیت راضی ہو جائے گی۔ صرف اور صرف ایک ہزار میں۔ میں حیران ہو گیا۔ کیسا بندہ ہے۔ بکری میں نے کیا کرنی ہے۔ پھر خیال گزرا‘ ایک ہزار میں مل رہی ہے‘ لے لیتا ہوں۔ چار دن چھوٹا گوشت کھائیں گے۔ صاحب اور پھر مخصوص احباب کی دعوت بھی کر لوں گا۔ میں نے ہنس کر پوچھا :ایسی ویسی تو نہیں۔ ایسی ویسی سے میری مراد چوری کی تھی۔ ہوتی بھی تو کیا فرق پڑتا‘ مجھے تو ایک ہزار میں مل رہی تھی۔ :بےغیرت سی ہنسی میں کہنے لگا
نہیں سرکار‘ نمبر ون ہے۔ پھر اس نے کئی نام گنوائے‘ جو پانچ ولتے اور مونچھ چٹ تھے۔ اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ سرکار مزا نہ آئے تو پھر کہنا۔ جب اس نے یہ بات کہی‘ تو بکری کا مفہوم سمجھ میں آیا۔ مجھے افسوس ہوا‘ کہ میں داللوں کی ہر اصطالح سے آگاہ ہوں۔ یہ اصطالح‘ میرے لیے لطعی الگ سے تھی۔ دوسرا گشتوڑ اور بکری کی مماثلت میرے لیے لطعی نئی تھی۔ میں مانتا ہوں‘ رشوت ٹھوک کر لیتا ہوں لیکن زانی نہیں ہوں‘ ورنہ رشوت خور زانی اور گھونٹ نہ لگاتا ہو‘ بھال کیسے ہو سکتا ہے۔ مجھے اس پر بڑا تاؤ آیا۔ میں نے پوچھا :تمہاری کوئی جوان بہن بھی ہے۔ کہنے لگا :جی ہاں تو اسے لے آؤ‘ میں اس کے ساتھ موج مستی کروں گا۔ ہزار کا دو ہزار دوں گا۔ چلتی پھرتی ہو تو بھی لے آؤ‘ چلے گا۔
اس نے بڑے لہر سے میری جانب دیکھا اور بڑبڑاتا ہوا دوسری جانب نکل گیا۔ میں نے بیوی کا جان بوجھ کر نہیں کہا تھا‘ ایسے بےغیرتوں سے کچھ بعید نہیں‘ شاید لے ہی آتا۔
ڈی سی سر مائیکل جان
المبے لد کا مہنگا ماچھی‘ غربت کی آخری سطع پر تھا۔ جوتے ہیں تو کپڑے نہیں‘ کپڑے ہیں تو جوتے نہیں۔ سارا دن جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر التا‘ رات کو آگ کے سامنے بیٹھتا۔ جب ہی‘ رنگ توے سے زیادہ سیاہ ہو گیا
تھا۔ نہاتا بھی شاید ضرورت بری کے بعد تھا۔ اس سے گوڈے گوڈے بو آتی تھی۔ پتا نہیں‘ کیا درک لگی کہ یو کے جا پہہنچا۔ اس کی بیوی صوباں سگھڑ عورت تھی۔ اس نے مہنگے کی کمائی سے‘ جہاں میکے کی بھوک نکالی‘ وہاں گھر کی حالت بھی سنوار دی۔ تین سال میں‘ جھونپڑی نما مکان نے‘ عالی شان کوٹھی کی شکل اختیار کر لی۔ خود اور بچے‘ شان دار کپڑے پہننے لگے۔ شرفا کی خواتین سے علیک سلیک ہو گئی۔ صوباں‘ صوباں کم‘ میم زیادہ لگتی تھی۔ چوتھے سال دروازے پر تختی آویزاں ہوگئی۔ ڈی سی سر مائیکل جان یو کے گلی نبر چار‘ کوٹ امر ناتھ رام پور خاص چاروں اور باتیں ہونے لگیں۔ یار مہنگا تو سکا ان پڑھ‘ بل کہ ان پاڑ ‘ یو کے میں ڈی سی کیسے ہو گیا۔ آخر اس نے ایسا کون سا کارنامہ انجام دیا ہو گا‘ جس کی پاداش میں اتنا بڑا عہدہ ہاتھ لگ گیا۔ صوباں کی کوئی ایرا غیرا سہیلی نہ رہی تھی‘ جو کچھ دریافت کرتی۔ ان کے ہاں فمط بیگمات
کا آنا جانا تھا۔ ہمارے ہاں کسی کی خوش حالی اور ترلی دیکھ کر‘ گھروں اور گلیوں میں‘ بےچینی سی ضرور سر اٹھاتی ہے۔ کسی کی خوش حالی اور ترلی دیکھ کر‘ خوش ہونا‘ ہماری عادت اور فطرت کا خاصہ نہیں۔ کیا ہو سکتا ہے‘ جسے هللا دے‘ اسے زمین پر کون ال سکتا ہے۔ حمی سچی بات یہ بھی ہے کہ اپنی ذات کے گریبوں کی‘ تھوڑی بہت مدد بھی کرتی تھی۔ چار سال بعد‘ مہنگا دو ماہ کے لیے واپس رام پور آیا۔ مہنگا‘ مہنگا کم ڈی سی سر مائیکل جان زیادہ لگتا تھا۔ اس کا رنگ ڈھنگ‘ لباس‘ اٹھنا بیٹھنا‘ ملنا جلنا‘ کھانا پینا‘ غرض سب کچھ بدل گیا تھا۔ انگریزی فرفر بولتا تھا۔ پھنے خاں میڑک پاس بھی‘ اس کے سامنے بھیگی چوہی بن جاتے۔ سب حیران تھے‘ آخر اس کے ہاتھ ایسی کون سی گیدڑ سنگی لگی ہے‘ جو فمط چار سالوں میں‘ مالی‘ شخصی اور اطواری تبدیلیوں کا سبب بنی۔ کچھ تو اس کے پیچھے رہا ہو گا۔ مخبر اپنے کام میں بڑی جان فشانی سے مصروف تھے۔
کب تک معاملہ مخمصے میں رہتا‘ خیر کی خبر آ ہی گئی۔ وہ وہاں دریا پر‘ میموں کے کتے نہالتا تھا۔ ڈی سی مراد ڈوگ کلینر تھا۔ کھودا پہاڑ نکال چوہا‘ وہ بھی مرا ہوا۔ سب کھل جانے کے بعد بھی‘ انڈر پریشر اور احساس کہتری کے مارے لوگ‘ اسے سالم کرتے تھے۔ اسے کیا‘ یہ دھن کو سالم تھا۔ مغرب میں ڈوگ صاحب بہادر وفاداری کے حوالہ سے معتبر اور باعزت نہیں‘ بل کہ کئی ایک ذاتی اور خفیہ خدمات کے تحت‘ نام و ممام رکھتے ہیں۔ یہ تو اچھا ہے‘ مطلب بری کے بعد کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔ گوریاں ڈوگ صاحب بہادر کی بڑی ہی عزت کرتی ہیں۔ اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتی ہیں۔ اسے نہالنے دھالنے والے کو‘ معمول عوضانہ پپش کرتی ہیں۔ دریا کنارے‘ سن باتھ کرنے آئی گوریاں‘ ڈی سی کے حوالے اپنے ڈوگی کر دیتی ہیں۔ ڈی سی تہرا البھ اٹھاتا ہے۔ مختصر چڈی اور بریزئر میں ملبوس پتلی‘ موٹی اور پیپا گوریاں مالحظہ کرتا ہے۔ الکھ حاجی شریف سہی‘ آنکھیں تو بند نہیں کر سکتا۔
بھیگی‘ سیکسی اور رومان پرور مسکراہٹیں وصولتا ہے۔ پاؤنڈ گرہ لگتے ہیں۔ ہمارے ہاں کے لوگ بھی عجیب ہیں‘ گرمیوں میں مری جاتے ہیں۔ پگلے ساتھ گھر والی بھی لے جاتے ہیں۔ اچھا خاصا خرچہ کرتے ہیں۔ گرمیوں میں چار پیسے زیادہ خرچ کرکے‘ مغرب کے کسی دریا کا رخ کریں۔ پیسے کمائیں اور دوہری ٹھنڈک حاصل کریں۔ ہمارے ہاں کتا گریب کا ہو یا امیر کا‘ وفاداری کے حوالہ سے بلند ممام و مرتبہ رکھتا ہے۔ اگرچہ یہ وفاداری محض ایک دل کو بہالنے کا ذریعہ ہے۔ میر جعفر نے ٹیپو کو اپنی وفاداری کا یمین دال رکھا تھا لیکن اندرخانے بک چکا تھا۔ اپنی وفاداری کے انعام میں‘ ٹیپو سے بھی دو دن پہلے ٹھکانے لگ گیا۔ سیانے چور‘ اپنے ساتھ ہڈی واال گوشت لے کر جاتے ہیں۔ کتا گوشت پر‘ چور سامان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ کتا مالک کا
نہیں ہڈی کا وفادار ہوتا ہے۔ رشوت خور کو دیکھ لیں‘ جہاں سے ہڈی ملتی ہے‘ وہاں میرٹ بنا دے گا۔ ایمان کوئی مادی شے نہیں‘ جو اس سے وفاداری نبھائے۔ نوٹ اور ڈبہ نظر آتے ہیں‘ ایمان نظر نہیں آتا۔ کتے کو گوشت نظر آتا ہے‘ مالک نہیں‘ مالک تو سویا ہوتا ہے۔ مالک رات کو پیٹ بھر کھالتا ہے‘ لیکن کتے کی آنکھ نہیں بھرتی‘ اسی لیے ہڈی اس کی ترجیح میں رہتی ہے۔ میرے کرائےدار سرور کو‘ هللا نے تین پیارے پیارے بچوں سے نوازا۔ اس کی بیوی بیمار پڑ گئی۔ کئی ماہ بیماری سے لڑی‘ لیکن لڑائی ہار گئی۔ میں نے اسے سمجھایا کہ بچوں کا خیال رکھنا۔ اب تم ہی ان کی ماں اور تم ہی ان کے باپ ہو۔ اسے جلد ہی‘ ایک کنوری مل گئی۔ مال‘ پورے ادب و آداب کے ساتھ اس کا ذکر کرتا رہا۔ گن گنوانے میں زمین آسمان ایک کر دیا۔ بچے سکول سے اٹھا لیے گیے ہیں اور ان کے مندے حال ہیں۔ مرحومہ بیماری میں بھی بچوں کا خیال رکھتی تھی۔ کتا کتنا ہی نسلی اور اعلی پائے کا
کیوں نہ ہو‘ اس کی وفاداری ہڈی سے مشروط رہتی ہے۔ ڈی سی سر مائیکل جان نے‘ سترہ سال گوریوں کے ڈوگ صاحب بہادران کی نہالئی دھالئی کی۔ اب وہ بوڑھا اور چڑ چڑا ہو گیا تھا۔ اسے ایک ایسے ڈوگ صاحب بہادر سے‘ پاال پڑا جو نچال نہیں بیٹھتا تھا۔ اس نے تاؤ میں آ کر‘ اسے پان سات جڑ دیں۔ پھر کیا تھا‘ اچھی خاصی مرمت ہوئی‘ جیل بھی گیا۔ جیل کی یاترا کے بعد‘ گھر کی راہ دکھائی گئی۔ اب وہ بےکار اور نکمی شے سے زیادہ نہ تھا۔ گھر میں صوباں تو ایک طرف‘ اس کے نازوں پلے بچے‘ اسے توئے کرتے رہتے۔ غضب خدا کا گھر پر نکما نہیں‘ گھر کا نسلی کتا ٹومی بالناغہ دو ٹائم نہالتا ہے۔ اس کے باوجود‘ بےولار ہو چکا ہے۔ جس دن نہالنے میں تھوڑا دیر ہو جائے‘ ٹومی غراتا نہیں‘ بھونکتا ہے۔ خدمت یہ کرتا ہے‘ دم گھر والوں یا ان کے ملنے والوں کے سامنے ہالتا ہے۔ ٹومی خوب جانتا ہے‘ خدمت کرنے واال اس کا مالک نہیں‘ تھرڈ کالس نوکر ہے۔
دروازے سے تختی اتر چکی ہے۔ اس کی انگریزی بےاولات ہو چکی ہے۔ باہر نکلتا ہے تو کل تک سالم کرنے والے‘ مذاق اڑاتے ہیں۔ وہ اب مہنگا نہیں‘ مہنگو کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔
پرایا دھن
ہنسی مذاق میں‘ احممانہ گفت گو یا حرکت چل جاتی ہے لیکن سنجیدہ اور دکھ سکھ کے معامالت میں‘ احممانہ گفت گو یا حرکت کی‘ سرے سے گنجائش نہیں ہوتی۔ بخشو کے
بیٹے کا‘ اس کی سگی سالی کی بیٹی سے نکاح ہونے جا رہا تھا۔ شوکے کی ماں اور بہنیں‘ مختلف نوعیت کے شگن کر رہی تھیں۔ وہ سب خوش تھیں۔ بذات خود شوکا بڑا ہی خوش تھا۔ بخشو بھی‘ خوشی خوشی جملہ معامالت انجام دے رہا تھا۔ جوں ہی شوکا سہرہ باندھے‘ گلے میں ماال ڈالے‘ سجی پھبی گھوڑی پر بیٹھنے لگا‘ بخشو نے نیا ہی تماشا کھڑا کر دیا۔ اس نے شوکے کو گلے لگا لیا اور زارولطار رونے لگا۔ یہ بالکل الگ سے بات تھی اور سمجھ سے باالتر تھی۔ لوگ بیٹوں کی شادی پر خوشیاں مناتے‘ یہ احمك رو رہا تھا۔ پہاگاں حسب سابك اور حسب عادت آپے سے باہر ہو گئی۔ اس دن کچھ زیادہ ہی ہو گئی۔ اس نے بخشو کی بہہ بہہ کرا دی۔ بخشو کے لیے‘ یہ کوئی نئی اور الگ سے بات نہ تھی۔ برداشت کر گیا۔ برداشت کیوں نہ کرتا‘ جھوٹا تھا‘ سب فٹکیں دے رہے تھے۔ خوشیاں غم و غصہ میں بدل گئیں۔ وہ تو خیر ہوئی‘ چاچا فضلو ساتھ تھا۔ اس نے بیچ میں پڑ کر‘ بچ بچاؤ کا رستہ نکال لیا‘ ورنہ جنگ عظیم چہارم کا آغاز تو ہو ہی گیا تھا۔
تمام رسمیں ہوئیں۔ شوکے اور گھر والوں نے‘ جعلی ہنسی اور خوشی میں سب نبھایا۔ ہاں البتہ براتیوں کی ہنسی اور لہمہے لطعی جعلی نہ تھے۔ بخشو نے حرکت ہی ایسی کی تھی‘ آج تک دیکھنے سننے میں نہ آئی تھی۔ دوسری طرف لوگ یہ بھی سوچ رہے تھے کہ بخشو نے ایسا کیا‘ تو کیوں کیا۔ بخشو پاگل نہیں‘ سیانا بیانا اور چار بندوں میں بیٹھنے واال تھا۔ معامالت میں لوگ اس سے مشاورت کرتے تھے۔ اس دن پتا نہیں اسے کیا ہو گیا تھا۔ سب خاموشی اور حیرت میں‘ تمام ہوا۔ دلہن گھر لے آئے۔ شوکے کی ماں اور بہنوں نے نئے جی کے گھر آنے کی خوشیاں منائیں۔ رات دیر گیے تک‘ بخشو پال جھاڑتا رہا۔ جیب ڈھیلی رکھنے کے باوجود‘ چھبتی اور زہرناک نگاہوں کا شکار رہا۔ روٹی پانی تو دور کی بات‘ کسی نے اس کی طرف دیکھنا تک گوارا نہ کیا۔ اس نے بھی خود کو‘ بری طرح نظرانداز کیا۔ سگریٹ پہ سگریٹ پیتا رہا اور دیر تک چارپائی پر کروٹیں لیتا رہا۔
دھوم کا ولیمہ ہوا۔ اچھے خاصے لوگ بالئے گیے تھے۔ خوب وصولیاں ہوئیں۔ کھتونی کے کئی کورے پنے کالے ہوئے۔ تمام خرچے بخشو کی گرہ سے ہوئے‘ لیکن ہر لسم کی وصولیاں‘ پہگاں کے پلے بندھیں۔ اس روز بھی اسے کسی نے پوچھا تک نہیں۔ اس کی حیثیت‘ گرہ دار موئے کتے سے زیادہ نہ رہی تھی۔ شادی گزر گئی‘ لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو گیے۔ صاف ظاہر ہے‘ بخشو کے ساتھ بری ہوئی ہو گی۔ یہ والعہ دوستوں یاروں میں کئی دن‘ باطور مذاق چلتا رہا اور پھر گزرے دنوں کی یاد سے زیادہ نہ رہا۔ ہر کوئی فکر معاش میں گرفتار ہے‘ کون معاملے کی کھوج میں پڑتا۔ ایک دن بخشو دوستوں میں بیٹھا ہوا تھا۔ اچھو نے شرارتا اور مذالا پوچھ ہی لیا۔ یار بخشو تمہیں کیا سوجھی کہ بیٹے کی شادی پر‘ خوش ہونے کی بجائے‘ اس گلے لگا کر باں باں کرنے لگے۔ کتنے احمك ہو تم بھی۔
بخشو جذباتی سا ہو گیا اور کہنے لگا :آج تک سنتے آئے ہیں‘ بیٹیاں پرایا دھن ہیں۔ میں کہتا ہوں یہ غلط ہے‘ بیٹیاں نہیں‘ بیٹے پرایا دھن ہیں۔ میری اماں نے‘ ابا کے ماں باپ بہن بھائی‘ سب چھڑا دیے۔ یہ ہی تائی اماں اور ممانی نے کیا۔ خیر ان کو چھوڑو‘ تم سب بھائی‘ الگ ہو گیے ہو۔ تمہارے بڈھا بڈھی بےچارگی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کچھ دینا لینا تو دور کی بات‘ زبانی کالمی نہیں پوچھتے ہو۔ شوکا بھی دوسرے ہفتے ہی ہمیں چھوڑ گیا۔ کہاں گیا ماں کا پیار اور ماں کی ممتا۔ وہاں شوکے کی ساس کا آرڈر چلتا ہے۔ ہر جگہ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ میں بھی‘ چوری چھپے اماں ابا سے ملنے جاتا تھا۔ تم سب اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھو‘ کتنے کو اپنے مائی باپ کے فرماں بردار ہو۔ بہن بھائیوں سے‘ کتنی اور کس سطع کی لربت رکھتے ہو۔ میں کہتا ہوں‘ بیٹیاں نہیں‘ بیٹے پرایا دھن ہیں۔ میرا بیٹا دور ہو رہا تھا‘ کیوں نہ روتا۔ بخشو کی کھری کھری سن کر‘ سب کو چپ سی لگ گئی۔ ایک کرکے سب اٹھ گیے۔ بخشو اکیال ہی رہ گیا۔ یہ معلوم
نہ ہو سکا‘ کہ سچ کی کڑواہٹ برداشت نہ کر سکے یا ندامت کا گھیراؤ کچھ زیادہ ہی گہرا ہو گیا تھا۔
کتا اس لیے بھونکا
ملکیت میں کوئی کم یا زیادہ لیمت کی چیز‘ جہاں ذی روح کو اس کے ہونے کا احساس دالتی ہے‘ وہاں اس میں تکبر کا عنصر بھی سر اٹھا لیتا ہے۔ یہ الگ بات ہے‘ کہ فرعون کو یہ میں لے ہی ڈوبی۔ وہ تاریخ تو الگ رہی‘ الہامی کتب میں بھی مردود اور لابل دشنام لرار پایا۔ یہ سب جانتے ہیں‘ انسان کی ملک میں کچھ بھی نہیں۔ اصل مالک هللا کی
سوہنی اور سچی ذات ہے۔ سب کچھ اسی کی طرف پھرتا ہے۔ ملکیت کی چیز‘ چھن سکتی ہے کسی خرابی کا شکار ہو سکتی ہے۔ کسی ولت بھی حادثے کی نذر ہو سکتی ہے بالوجہ ریورس کے عمل میں داخل ہو سکتی ہے۔ موت تہی دست کر دیتی ہے۔ جب یہ طے ہے کہ انسان کا ذاتی کچھ نہیں‘ تو کچھ ہونے کی صورت میں‘ تشکر باری سے منہ موڑ کر تکبر کی وادی میں لدم رکھنا‘ جائز نہیں بنتا۔ اچھی کرنی اچھی کہنی ہی امرتا کا جام نوش کرتی ہے۔ کہاں ہے ممتدر یا مال ابو عمر حمادی کسی کو معلوم تک نہیں کہ یہ کون ہیں‘ منصور کو ہر کوئی جانتا ہے۔سمراط کو کس بدبخت بادشاہ نے موت کے گھاٹ اتارا‘ اس کا کوئی نام تک نہیں جانتا۔ سمراط کو کون نہیں جانتا۔ کل میں
انٹرنیٹ پر سرمد شہید کا مزار دیکھ رہا تھا‘ پھول اور عمیدت مند موجود تھے۔ اورنگ زیب بادشاہ تھا‘ ممبرہ تو بن گیا‘ وہاں ویرانیوں کا پہرہ تھا۔ مجھے تکبر اورعجز کا فرق محسوس ہو گیا۔ انتمام لینا ناجائز نہیں‘ ہاں البتہ معاف کر دینا‘ کہیں بڑھ کر بات ہے۔ جیسے کو تیسا‘ بہرطور رویہ موجود رہا ہے۔ انو‘ بڑا ہی مذالیہ ہے۔ روتے کو ہنسا دینا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ یہ ہی کوئی پان سات دن پہلے کی بات ہے‘ گلی میں سے گزر رہا تھا کہ شرفو درزی کا کتا بال چھیڑے‘ اس پر بھونکنے لگا۔ وہ نیچے بیٹھ گیا اور جوابا بھونکنے لگا۔ کتا چپ ہو گیا اور اسے بٹر بٹر دیکھنے لگا۔ شاید پہلی بار‘ عجب لسم کا ہم جنس دیکھنے کو مال تھا۔ میں نے پوچھا :یار تم ادھر لینے کیا گیے تھے۔ اوہ جی جانا کیا تھا‘ بہن کے گھر آٹا لینے گیا تھا۔ مل گیا۔ جی ہاں‘ مل گیا۔ میں کون سا پہلی بار گیا۔ مل ہی جانا تھا۔ میرے اندر عرفی کا یہ مصرع‘ مچلنے لگا۔
آواز سگاں کم نہ کند رزق گدا را کتا غالبا بل کہ یمینا‘ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے۔ پاگل کسی غیر کے سامنے دست سوال دراز کرنے کی بجائے‘ رب سے کیوں نہیں مانگتے۔ خیر انو تو ایک طرف‘ ہماری دفتر شاہی ہو کہ محالتی دنیا‘ کاسہ تھامے نظر آتی ہے۔ مولویوں سے کیا گلہ‘ جو درس میں پڑھنے والے بچوں کو‘ گھر گھر مانگنے بھیج دیتے ہیں۔ دست سوال دراز کرنے والے ذلت اٹھاتے ہیں‘ سو اٹھا رہے ہیں۔ زکراں کا باپ‘ توڑے بھر سامان لے جاتا‘ تو بابے فجے کآ ناہنجار کتا ضرور بھونکتا۔ چوروں اور بھرے کھیسے والوں پر کتے ضرور بھونکتے ہیں اوریہ فطری امر ہے۔ ہمارے ہاں کے لوگ‘ میمیں کرتے آ رہے ہیں۔ داماد یا داماد کے ملک کے وسائل سے البھ اٹھانا‘ ان کا آئینی حك ہے۔ یہ سب صفرر ہی تو ہیں ‘ جو مصلحت کی صلیب پر مصلوب ہو رہے ہیں۔ ایک کی ککرے آمیز بینائی‘ بہت
سوؤں کے گوڈوں گٹوں میں بیٹھتی ہے‘ سو بیٹھ رہی ہے۔ کسی کم زور پر کتے کا بھونکنا‘ بہ ظاہر حیرت سے خالی نہیں۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں‘ کتے کم زورں پر بھونکے اور ان کی جانب لپکے ہیں۔ کم زوروں کے پاس بہت زیادہ ناسہی‘ ان کا کھیسہ خالی نہیں رہا۔ سومنات کا مندر یوں ہی نہیں توڑا گیا‘ اس میں منوں سونا تھا۔ زہے افسوس‘ فردوسی سے چوری خور لوگوں نے ایک لٹیرے کو نبی لریب کر دیا۔ اصل حمائك پس پشت چلے گیے۔ مائی چراغ بی بی بیس سال سے رنڈیپا کاٹ رہی تھی۔ اس کے کردار پر انگی رکھنا‘ بہت بڑی زیادتی ہو گی۔ بےچاری تھکے لدموں گلی میں سے گزر رہی تھی۔ گلی کا عام آوارہ بدبخت کتا پڑ گیا۔ گرنے کو تھی کہ پیچھے شیدے تیلی نے سمبھاال دے دیا۔ دعا دینے کی بجائے‘ بولنا کیا‘ نوکیلی اور دھار دھار آواز میں بھونکنے لگی۔ بڑھاپے میں بھی یہ زناٹا‘ ارے توبہ۔ اس کی پوترتا کو سالم و پرنام۔ بڑھاپے کی جو بھی صورت رہی ہو‘ لگی ہونے کا احساس پوری شدت سے موجود تھا۔ کتا اس لیے بھونکا‘
کہ اس کے ہاتھ میں کلو بھر گوشت کا شاپر تھا۔
یہ ہی ٹھیک رہے گا
اسے اپنے بےمثل اور یکتائے عالم ہونے کا شک گزرا۔ نر شیر ببر ہونے کے شک سے‘ اس کی رگ وپے سے تکبر کے آتش فشانی شعلے‘ بلند ہونے لگے۔ اس امر کے اعالن کے لیے‘ تکبر کی کامل شکتی کے ساتھ دھاڑا۔ اس منہ سے دھاڑ تو نہ سکا‘ ہاں البتہ اس کے منہ سے‘ صور اسرافیل سے مماثل غرغراہٹ ضرور نکل گئی کہ مخلوق ارضی ڈر اور خوف سے لرز لرز گئی۔ اس سے‘ اس کی
انا کو تسکین ملی اور انا نے اس کی میں کو مزید شکتی دان کی۔ پھر کیا تھا‘ جسم و جان تکبر کی مستی کے کھڈ میں جا گرے۔ ہاں یہ ہوش رہا‘ کہ کہاں دولتی چالنا ہے۔ اس نے دور کے ایک عاللے میں پوری شان سے دولتی چالئی کہ وہ عاللہ مٹ گیا۔ چھوٹے بڑے کم زور اور طالت ور نر مادہ دم توڑ گیے۔ کچھار گھونسلے گھروندے زمین بوس ہو گیے۔ سرشاری میسر نہ آ سکی۔ سرشاری کے لیے دوبارہ سے‘ بال غرارئے‘ ایک اور دولتی جڑ دی۔ ایک اور عاللہ خاک و خون میں نہا گیا۔ بھوک اور سیری‘ حددوں کی چیزیں نہیں ہیں۔ توکل سیری کی من بھاتی کھا جا ہے‘ جب کہ بھوک‘ مزید کی گرفت میں رہتی ہے۔ اس نے لوٹ مار اور لتل وغارت کا بازار گرم کر دیا۔ اس نے ہر تکڑے کے‘ ناصرف ناخن کٹوا دیے بل کہ اپاہج کرکے‘ عزت وشرف سے سرفراز کیا۔ اس کا کھا کر‘ ہڈی اس کے سامنے پھینک دیتا تا کہ وہ مصروف رہے اور اس کی دیا کے‘ گن گاتا رہے۔ ہاں البتہ گاہے بگاہے بھونکتا‘ ٹونکتا اور غراتا رہتا تا کہ سرکشی جنم ہی نہ لے اور کسی کو‘ میں کا دورہ نہ پڑے۔ ہڈی اور حفظ
ماتمدم کے لیے‘ عاللے کے سبھی لگڑبگڑ اس کے سآتھ ہو لیے تھے۔ انہیں پیٹ اور جی بھر ہڈیاں میسر آ رہی تھیں۔ کسی کی خوارک بند کر دیتا۔ کسی کی خوراک کی ترسیل کے رستے‘ بند کر دیتا۔ کسی پر جھپٹ پڑتا۔ خبرگیری کے توتے‘ اسے لمحہ لمحہ کی‘ اطراف کی خبریں پہنچاتے رہتے تھے۔ توتے کبھی کسی کے سگے نہیں رہے۔ وفاداری ان کی فطرت میں داخل نہیں۔ وفاداری ان کی فطرت میں ہوتی تو توتے کیوں کہالتے۔ توتے ہمہ ولت چوری کے متمنی رہتے ہیں۔ وفاداری‘ چوری آمد کے ساتھ مشروط ہوتی ہے۔ آمد لوٹ مار سے وابستہ ہے۔ لتل و غارت سے گدھ بھی البھ اٹھاتے ہیں۔ جنگلی حیات میں‘ حك سچ کی کوئی معنویت نہیں ہوتی۔ گدھوں کی آواز‘ کوئل کی آواز سے بڑھ کر سریلی محسوس ہوتی ہے۔ آتا کل‘ گزرے کل کو‘ ان آوازوں کے حوالہ سے پہچانتا ہے۔ کوئل کی آواز‘ سات پردوں کے پیچھے جا چکی ہوتی ہے۔ ڈھول کے سامنے ہر ساز کی آواز‘ اپنے وجود سے عاری
ہو جاتی ہے۔ چار پرانے بیٹھے ہوئے تھے۔ عصری حاالت و معامالت پر گفت گو کر رہے تھے۔ کم زوروں کی حالت زار کا رونا رو رہے تھے۔ سب مایوس اور بےبس ہو چکے تھے۔ ان میں سے ایک بوال :یار اپنے لیڈر سے کیا امید باندھیں‘ وہ تو اپاہج گیڈر ہے۔ شیر کا ٹائیٹل تو اعزازی ہے۔ بولیں گے تو جوتے کھائیں گے۔ دوسرا بوال :جو چل رہا ہے چلنے دیں‘ جنگل میں جنگل کا لانون چلتا ہے۔ تیسرا بوال :کچھ تبدلی آئے گی۔ چوتھے نے کہا :ہاں یار‘ کچھ تو تبدیلی آئے گی۔ پہال :سب ایک جگہ جمع ہو کر دعا تو کر سکتے ہیں۔ اگر اسی پتا چل گیا تو دولتی سے کیسے بچیں گے دوسرا ہاں یہ تو ہے پہال تو پھر کیا کریں۔ چوتھے :گھروں میں بیٹھ کر دعا کر سکتے ہیں۔
پہال :یہ ٹھیک رہے گا۔ تیسرا :مخبری ہو گئی تو پہال :ہاں بعید از لیاس نہیں دوسرا :کچھ تو کرنا پڑے گا۔ دوسرا :کرنا کیا ہے‘ جو چل رہا ہے‘ چلنے دیں۔ چوتھا :ہاں یہ ہی درست رہے گا۔ پھر سب یک زبان ہو کر بولے :ہاں ہاں یہ ہی ٹھیک رہے گا ،یہ ہی ٹھیک رہے گا اور وہ چاروں اپنے اپنے گھروں کو چل دیے۔
کردہ کا انتمام
اس کا اصل نام ممتاز تھا‘ ممو کپتی سسرالی نہیں‘ اس کے میکے کا دیا ہوا نام تھا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وہ اطراف میں‘ اسی نام سے معروف تھی۔ یہ نام اصلی سا ہو گیا تھا۔ اصل نام محض کاغذوں کی زینت ہو کر رہ گیا تھا۔ یہ تو معلوم نہیں کہ یہ نام کس نے دیا‘ لیکن ایسا چال کہ سب اس کے اصل نام کو ہی بھول گیے۔ جس کے پیچھے پڑ جاتی‘ اسے جان چھڑانی مشکل ہو جاتی۔ یہ ہی وجہ تھی کہ اس کی کوئی ہاں کی نہ کرتا‘ بل کہ جان چھڑنے میں ہی عافیت سمجھتا۔ ساس نندیں تو ایک طرف‘ چودھری باغ علی کا عاللے میں وجکرہ اور بڑا ٹوہر ٹپا تھا‘ وہ بھی ممو سے کنی کتراتا تھا۔ نادانی کے پیار کی سزا بھگت رہا تھا۔ جو بھی سہی‘ اسے ممو کے پیار اور کردار پر پورا پورا بھروسہ تھا۔ اس کا کہنا تھا: ممو میری بیوی ہے‘میں اسے جانتا ہوں‘ وہ زبان کی تلخ اور کوتھری ضرور ہے‘ لیکن دل کی بری نہیں۔
زمانہ بھی کتنا منافك ہے‘ منہ پر سچ کہنے سے کتراتا ہے۔ بہنیں ممو کی اصلیت سے آگاہ تھیں لیکن وہ بھی چپ کے روزے میں رہتیں۔ کیا کرتیں‘ وہ جانتی تھیں کہ ان کا بھائی‘ بیوی کی ہی مانے گا اور وہ منہ کی سالم دعا سے بھی جائیں گی۔ اپنوں کی یہ حالت تھی تو کسی غیر کو کیا پڑی کہ آ بیل مجھے مار کی راہ لیتا۔ اس کی بیوی ہے‘ وہ جانے اور اس کا کام جانے۔ چودھری باغ علی‘ بنیادی طور پر شریف آدمی تھا۔ گھر میں سادہ لباس پہنتا‘ جب پرے پنچایت ٰمیں آتا تو پورے بن ٹھن کے ساتھ آتا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ بات اور لول کا بڑا پکا اور سچا تھا۔ جو کہتا یا وعدہ کرتا‘ ہر حال میں پورا کرتا۔ ایک طرف پوری دنیا‘ یہاں تک کہ ممو بھی ہوتی‘ چودھری اپنی بات سے رائی بھر بھی ادھر ادھر نہ ہوتا ،یہ ہی وجہ تھی کہ لوگ‘ دل سے اسے اپنا چودھری تسلیم کرتے تھے۔ زندگی کے ہر معاملے میں‘ اس کا اعتبار کرتے اور اس کا ساتھ دیتے۔ دکھ سکھ میں‘ اس کے ساتھ کھڑے ہوتے۔ بہنیں اسے رن مرید سمجھتی تھیں حاالں کہ اصولوں پر سمجھوتا کرتا ہی نا تھا۔ جو کرتا راہ
خدا کرتا۔ بھلوں کے ساتھ آزمائش ہمیشہ کھڑی رہتی ہے۔ ممو ہر معاملے میں فٹ فاٹ تھی۔ گوشت کی دو دو پلیٹں ڈکار جاتی۔ تیز تیز چلتی‘ فٹا فٹ بولتی بل کہ چالتی‘ مجال ہے‘ جو کبھی دم آیا ہو۔ دیکھنے میں چنگی بھلی تھی۔ عجیب بات ہے‘ دسمبر کی سردیوں میں بھی‘ اسے سخت گرمی لگتی تھی۔ چودھری نے کوئی حکیم‘ ڈاکٹر‘ پیر فمیر نہ چھوڑا‘ لیکن کہیں سے فیض نہ مال۔ اب تو وہ مایوس سا ہو گیا تھا۔ پرائمری سکول کے ساتھ ہی‘ ایک یک کمرہ مسجد تھی۔ مسجد کے پچھواڑے میں‘ ایک شخص پڑا رہتا تھا۔ لوگ اس کی جانب کوئی دھیان نہیں دیتے تھے۔ پتا نہیں صبح و شام‘ اسے روٹی کون دے جاتا تھا۔ ایک کتا اس کے پاس آتا رہتا تھا۔ کچھ دیر بیٹھتا اور چال جاتا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ کتا‘ اس کے لیے روٹی التا ہے۔ کتے کے منہ کی روٹی کھاتا۔ لوگوں کی نفرت کے لیے یہ انکشاف کافی تھا۔ لوگ شاید اسے گاؤں سے نکال ہی دیتے‘ لیکن چودھری
نے ایسا کرنے سے سختی سے منع کر دیا تھا۔ لوگوں نے اسے کبھی بولتے یا کسی سے بات کرتے نہیں دیکھا تھا۔ جب کبھی موڈ میں ہوتا تو کہتا واہ مالکا توں توں ای ایں یعنی واہ مالک تم تم ہی ہو ایک دن چاروں طرف سے مایوس چودھری‘ اس کے پاس چال گیا۔ چودھری حیران ہوا کہ لوگ کہتے ہیں‘ اس سے بدبو آتی ہے۔ اسے بدبو کی بجائے‘ اس سے ایسی خوش بو آئی کہ اس کے تن بدن میں عجیب طرح کی تازگی اور سرشاری گردش کرنے لگی۔ وہ سب کچھ بھول گیا۔ دیر تک ٰیوں ہی اس کے پاس بیٹھا رہا۔ دونوں طرف گہری خاموشی کا عالم طاری رہا۔ پھر اس نے اشارے سے اٹھ جانے کو کہا اور وہ اٹھ کر چال گیا۔ وہ اپنا تجربہ اوروں سے بھی شیئر کرنا چاہتا تھا‘ لیکن اس نے سوچا ایک فمیر کا بھید ہے‘ جسے کھولنے کا اسے کوئی حك نہیں۔ پھر وہ وہاں آنے جانے لگا اور خوش بو سے حظ لینے لگا۔ کئی دن یہ سلسلہ چلتا رہا۔ وہاں جا کر‘ وہ سب کچھ
بھول جاتا۔ اسے ان جانا سا آنند ملتا۔ ایک دن‘ تھوڑی دیر ہی بیٹھا ہو گا‘ کہ وہ بندہءخدا بوال :رزق حرام‘ بد نیتی‘ مالک سے غداری‘ ناشکری اور تکبر سے بھرے جسم میں زمین پر ہی جہنم رکھ دی جاتی ہے۔ یہ مسلہ ممو کا ہی نہیں‘ سب کا ہے۔“ اس کے بعد اس نے چودھری کو ٰ وہاں سے اٹھا دیا اور ایک لمحہ بھی مزید بیٹھنے کی اجازت نہ دی۔ وہ سارے رستے غور کرتا رہا‘ اس درویش کا کہا غلط نہ تھا۔ چودھری کی بڑے بڑے چودھریوں سے ماللات رہتی تھی۔ دو منٹ کے لیے یہ چودھری‘ اے سی والے کمرے سے باہر آ جاتے تو ان کی جان لبوں پر آ جاتی۔ وہ سارے پرلے درجے کے حرام خور‘ بد نیت‘ ناشکرے اور متکبر تھے۔ اصل گھتی تو ممو کی تھی۔ چودھری حرام رزق کھانا تو دور کی بات‘ اس پر تھوکنا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔ اسی طرح بالی چاروں باتیں بھی‘ حیرت سے خالی نہ تھیں۔ اسے یمین تھا کہ وہ درویش غلط بھی نہیں کہہ سکتا۔ کہیں
ناکہیًں گڑبڑ ضرور ہے۔ پھر اس نے حمیمت کھوجنے کا ارادہ کر لیا۔ اسے دکھ ہو رہا تھا کہ وہ ممو پر اندھا اعتماد کرتا رہا۔ وہ اس کے اعتماد کو بڑی بیدردی سے پائمال کرتی رہی۔ غصہ کیا آنا تھا‘ دکھ کا ہمالہ اس پر آن گرا تھا۔ اس نے پوری دیانت کے ساتھ‘ پانچوں امور کی تہ تک جانے کی کوشش کی۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس سے غصہ کے عالم میں کچھ غلط سلط ہو جائے۔ ممو متکبر تو شروع ہی سے تھی۔ اسے اپنے خوب صورت ہونے کا احساس‘ کچھ زیادہ ہی تھا۔ خیر اب تو وہ چودھرین تھی‘ گویا ایک کریال اوپر سے نیم چڑھا۔ کھوج کی تکمیل کے بعد‘ اسے مزید دکھی ہونا پڑا‘ جسے وہ سیتا و مریم کی طرح پوتر سجھ رہا تھا‘ وہ گندگی کے ڈھیر سے زیادہ نہ تھی۔ اب اسے سجھ آیا‘ کہ وہ اپنے کپتےپن سے‘ اپنے کرتوتوں پر پردے ڈالنا چاہتی تھی۔
اردگرد کے لوگ اس کے اس کپتےپن سے ڈر کر‘ منہ پر چپ کے تالے ڈالے رکھیں۔ وہ اپنے اس ہنر کی بدولت‘ سب کچھ کرکے بھی‘ عموم و خصوص میں بی حجن بنی ہوئی تھی۔ چور کو پکڑ کر بھی‘ چودھری اسے چور نہیں کہہ سکتا تھا۔ بچے اس کے پاؤں کی زنجیر بنے ہوئے تھے۔ عین ممکن ہے‘ ان میں سے کوئی بچہ بھی اس کا نہ ہو۔ اس نے انہیں بڑے الڈ پیار سے پاال تھا‘ اب وہ انہیں چھوڑ بھی نہیں سکتا تھا۔ اسے ان سے بڑا پیار تھا۔ اس نے بڑا سوچا کہ کوئی حل ڈھونڈ نکالے‘ لیکن سارے رستے جیسے بند ہو گئے تھے۔ جب سوچ سوچ کر تھک گیا اور کوئی حل تالش نہ سکا تو اس درویش کی جانب چل دیا۔ اسے یمین تھا‘ کوئی ناکوئی رستہ نکل ہی آئے گا۔ جب وہاں پہنچا تو دیکھا‘ وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ کافی دیر وہاں بیٹھا رہا لیکن درویش لوٹ کر نہ آیا۔ کتا بھی دور تک دکھائی نہ دے رہا تھا۔ جانے والے لوٹ کر کب آتے ہیں۔ اگر انہیں لوٹ آنا ہو تو جائیں ہی
کیوں۔ اب ممو کے بدن میں دہکتا جہنم‘ اسے لدرت کی جانب سے کردہ کا انتمام محسوس ہوا۔ وہ بڑ بڑایا ممو کو تامرگ اس جہنم میں جلتے رہنا ہو گا۔ لدرت اسے پیار اور اعتماد سے سے غداری کی سزا دے رہی ہے۔ پھر اس کے منہ سے بےاختیار نکل گیا واہ مالکا توں توں ای ایں اس نے پگڑی کھسہ اتارا اور پرے روڑی پر پھینک دیا اور خود آنکھیں بند کرکے‘ اس درویش کی جگہ پر بیٹھ گیا۔ لوگ اسے فرار کا نام دے رہے تھے‘ لیکن اس کے دل میں یہ بات گھر کر گئی‘ کہ دنیا رہنے کی جگہ نہیں۔ اس کا اور دنیا کا رستہ‘ ایک نہیں ہو سکتا۔
حمیمت پس پردہ تھی
صابر علی اور اس کی بیوی‘ زندگی کا آخری موسم دیکھ رہے تھے۔ تمام بچے اپنے اپنے گھروں میں آباد ہو گئے تھے‘ بس حمید‘ جو سب سے چھوٹا تھا‘ کا گھر آباد کرنا بالی رہ گیا تھا۔ ان کی نظروں میں اچھے اچھے رشتے بھی تھے‘ لیکن وہ شادی کے نام سے بدک جاتا تھا۔ ایک دن‘ میاں بیوی نے پروگرام بنایا کہ یہ اس طرح سے ماننے واال نہیں‘ زبردستی شادی کر دیتے ہیں‘ شاید ہم بھی اس کی اوالد کا منہ دیکھ لیں۔ پھر انہوں نے‘ رشتہ ڈنڈھ نکاال اور بات بھی پکی کر دی۔ حمید نے الکھ عذر پیش کیے‘ لیکن انہوں نے اس کی ایک نہ سنی۔ اشاروں کنائیوں میں‘ شادی نہ کرنے کی وجوہ بھی پیش کیں۔ شاید انہوں نے‘ اس کی ایک بھی نہ سننے کی لسم کھا لی تھی۔ شادی کے دن طے ہو گئے۔ شادی کی تیاریاں ہونے لگیں۔
گھر میں خوشیوں نے ڈیرے ڈال لیے۔ جوں جوں شادی کے دن نزدیک آتے گئے‘ گھر میں خوشیاں رلص کرنے لگیں۔ بہنیں‘ رات کو ڈھولک لے کر بیٹھ جاتیں۔ ہنسی مذاق ہوتا‘ اور خوب چھیڑ چھاڑ چلتی۔ لباس زیر گفتگو آتے۔ بڑی بوڑھیوں میں‘ جہاں گھریلو اور مالی مسائل کا رونا رویا جاتا‘ وہاں چغلیوں بخیلیوں کا بھی جمعہ بازار لگ جاتا۔ مردوں کی بےرخی‘ الپرواہی اور ان کی‘ ان کے اپنوں پر شاہ خرچی کا دکھڑا بھی زیر بحث آتا۔ یہ ہی نہیں‘ ان کی جنسی کم زوری وغیرہ کا بھی رونا رویا جاتا۔ ہر کوئی اپنے حاالت میں مست تھا۔ کسی نے حمید کی جانب توجہ نہ دی‘ کہ پریشان اور چپ چپ کیوں ہے۔ اسے غصہ آتا‘ کہ یہ کیسے مائی باپ اور بہن بھائی ہیں‘ جو اس کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں دیتے۔ خیر‘ یہ اس کی غلطی بھی تھی‘ کہ وہ اپنے کسی کزن ہی سے بات کر لیتا‘ کہ اس نے غلط کاری میں سب کچھ کھو دیا ہے اور اب وہ شادی کے لابل ہی نہیں رہا۔ اپنے طور پر‘ حکیموں ڈاکٹروں کے نسخے آزماتا رہا۔ بہتری کی
بجائے‘ خرابی کا دروازہ ہی کھال۔ کسی کو حمید کی رائی بھر فکر نہ تھی‘ کہ وہ دن بہ دن‘ ذہنی اور جسمانی طور پر نیچے آ رہا تھا۔ بارات جانے میں‘ تین دن بالی رہ گیے تھے کہ حمید چارپائی لگ گیا۔ فورا ایمرجنسی میں لے جایا گیا۔ وہاں بھی‘ اس کے گھر والوں سے مماثل لوگ‘ الامت گزین تھے۔ وہ تکلیف سے مر رہا تھا‘ لیکن ہسپتال والے اپنے حال میں مست تھے۔ بےبابائی لوگ‘ ہمیشہ ذلت کا شکار رہے ہیں۔ بابائی انڈر کیر تھے اور حمید ابھی تک‘ محض ایمرجنسی کا مریض تھا۔ جھڑنے کے بعد‘ اس کی بھی سنی گئی۔ سترہ گھنٹے وہ ایمرجنسی میں رہا۔ بوتلیں شوتلیں اور ٹیکے شیکے لگے تو بہتری کی صورت نکلی۔ بالی ولت ہی کتنا رہ گیا تھا۔ انتظام ہو چکے تھے۔ پیغامات بھیجے جا چکے تھے۔ حمید بستر سے اٹھ بیٹھا تھا۔ ہسپتال سے چھٹی لے لی گئی۔ بےسوادی میں ہی بارات گئی۔ باہر باپ اور بھائی‘ جب کہ اندر بہنیں‘ دلہا کے پاس اور کنمریب رہیں۔ سسرال میں
بھی چوں کہ اطالع ہو چکی تھی‘ کہ دلہا ہسپتال کی یاترا سے لوٹا ہے‘ لہذا کوئی ہلہ غلہ نہ کیا گیا۔ بس ہلکی پھلکی ہنسی مذاق کا سماں رہا۔ دلہا کی خاموشی اور چہرے کی زردی کو بیماری کے اثرات پر محمول کیا گیا۔ جب کہ اصل حمیمت کچھ اور ہی تھی۔ وہ آتے ولت کے جنسی معامالت کے خوف سے نیال پیال ہو رہا تھا۔ پھر اس کا چہرا کھل اٹھا۔ اس اچانک تبدیلی پر‘ سب حیران تھے۔ سب نے اسے شادی کی خوشی سمجھا۔ اصل بات کوئی اور تھی۔ حمید کو پہا خادم کا لول یاد آ گیا تھا۔ مرحوم کا کہنا تھا‘ کہ خیالی پالؤ میں رسد کی کمی خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ اس لول کے زیر اثر اس نے‘ آتے لمحوں کا منصوبہ تیار کر لیا تھا۔ حمید کے چہرے پر رلصاں شادابی کے بعد‘ خوشیوں کا ناک نمشہ ہی بدل گیا۔ دلہن کے گھر النے تک‘ ہر طرح کی رسمیں پوری کی گئیں۔ گھر آنے تک‘ رات کے نو بج چکے تھے۔ دو گھنٹے لڑکیوں اور عورتوں نے لے لیے‘ سالمیاں وغیرہ ہوتی رہیں۔ ادھر لڑکے حمید کے ساتھ چھیڑ چھاڑ میں مصروف رہے۔ وہ بھی خوش دلی سے‘ اس ہنسی مذاق میں شامل
رہا۔ گیارہ بجے حمید‘ دلہن کے کمرے میں داخل ہوا۔ اس کا امتحان شروع ہو چکا تھا۔ وہ کمال کی اداکاری کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ اس کی اداکاری کو‘ دلیپ کمار بھی دیکھ لیتا‘ تو عش عش کر اٹھتا۔ اس کا کمرے میں داخل ہونا‘ اداکار امریش پوری سے مماثل تھا۔ دلہن کا گھونگھٹ اٹھانا‘ وحید مراد کا سا تھا۔ جعلی بےاختیاری سے‘ واہ واہ کر اٹھا۔ وہیں سجدہ میں گر گیا۔ پھر دلہن کے پاس ہی بیٹھ گیا اور کہنے لگا :هللا کا الکھ الکھ شکر ہے‘ کہ تم ایسی حسین بیوی مجھے ملی۔ حوریں بھی کیا ہوں گی‘ تم الکھوں میں ایک ہو۔ میں تمہارے ممابلے میں کچھ بھی نہیں ہوں‘ دیکھو کبھی بھی میرا ساتھ نہ چھوڑنا۔ دلہن اس بات پر فخریہ مسکرائی۔ میک اپ نے اسے تھوڑا بنا سنوار دیا تھا‘ ورنہ حسن نام کی چیز اس میں سرے سے موجود ہی نہ تھی۔ پھر وہ تھوڑا فرینک ہو کر‘ اس کے پاس ہی بیٹھ گیا اور کہنے لگا :سب کچھ ہوتا رہے گا‘ آج پہلے دن ہی زندگی کا منصوبہ بنا لیتے ہیں اور پھر‘ اس کے بعد‘ اس منصوبے
پر عمل کرکے‘ زندگی کو سکھی بنا لیں گے۔ تم ہی بتاؤ‘ کیسی زندگی گزارنا چاہتی ہو۔ دلہن تھوڑا شرمائی اور کہنے لگی :جانو میں چاہتی ہوں‘ ہمارا اپنا ایک گھر ہو‘ جہاں صرف اور صرف ہم دونوں ہوں۔ مجھے غیروں کی مداخلت لطعی پسند نہیں۔ دیر تک باتیں ہوئیں۔ عالی شان کوٹھی خریدی گئی۔ اس کوٹھی میں ضرورت کی ہر چیز سجائی گئی۔ سواری کے لیے نئی اور اچھے والی کار خریدی گئی۔ باتوں کے دوران اس نے ایسی کوئی حرکت نہ کی کہ کوئی گالواں گلے پڑتا اور اصلیت کھل جاتی۔ باتوں باتوں م ٰیں صبح کی آزان ہونے لگی۔ اف میرے خدا‘ تمہارے ساتھ گزرے لمحے کتنی جلدی گزر گیے ہیں کہ پتا بھی نہیں چال۔ کتنا اچھا ساتھ ہے۔ ہماری زندگی خوب گزرے گی۔ پریشانی کا دور تک نام و نشان نہیں ہو گا۔ تم سے اچھا ساتھی مل ہی نہیں سکتا۔ اچھا اب تم سو رہو‘ میں مسجد جا رہا ہوں۔ نماز پڑھوں گا۔ تم سا
ساتھی ملنے پر شکرانے کے نوافل ادا کروں گا۔ مجھے تم مل گئی ہو‘ اب کسی اور چیز کی تمنا ہی نہیں رہی۔ دلہن مسکرائی‘ اس کی مسکراہٹ میں بال کی گرمی تھی‘ کوئی اور ہوتا تو وہیں ڈھیر ہو جاتا۔ ہر ایمرجنسی اور جلدی ساکت و جامد ہو جاتی۔ وہ بھی ٹھٹھکا‘ مگر گزرے کل کی غلطیوں نے‘ اسے دروازے سے باہر دھکیل دیا۔ مجبوری تھی‘ کیا کر سکتا تھا۔ دلہن دکھائے گئے سبز باغوں کی آغوش میں چلی گئی اور سکون کی نیند نے اسے آ لیا۔ صبح ہوئی‘ سب خیر خیریت سے گزر گیا۔ رات گئی بات گئی۔ دلہن خوش تھی کہ اسے اتنا اچھا شوہر مل گیا ہے۔ پھر میکے والے آئے اور اسے ساتھ لے کر چلے گیے۔ دلہن نے ماں کے گھر جا کر حمید کی تعریفوں کے پل باندھ دیے۔ دلہن کے گھر میں خوشیاں منائی جا رہی تھیں کہ پہلی رات میں ہی دلہا کو گھٹنوں تلے رکھ لیا گیا ہے‘ ورنہ اس میں کچھ تو ولت لگتا ہی ہے۔ اس نے عالی شان کوٹھی‘ کار‘ فریج کی خریداری کے عالوہ الکھوں روپیے کی شاپنگ کی۔ شادیانے تو بجنے ہی تھے۔
ادھر حمید نے مسلہ کھڑا کر دیا کہ میں اس عورت کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتا‘ جو پہلے روز ہی ماں باپ اور بہن بھائیوں سے مجھے دور کر رہی ہے‘ آتے ولتوں میں پتا نہیں کیا کیا گل کھالئے گی۔ اگر نہیں یمین آتا تو یہ :ریکارڈنگ سن لیں جانو میں چاہتی ہوں‘ ہمارا اپنا ایک گھر ہو‘ جہاں صرف اور صرف ہم دونوں ہوں۔ مجھے غیروں کی مداخلت لطعی پسند نہیں۔ ریکارڈنگ سن کر‘ سب سیخ پا ہو گیے۔ طرح طرح کے بیانات جاری ہوئے۔ صابر اور اس کی بیوی کو بڑا دکھ ہوا۔ حمید کی ماں بولی‘ بوتھی سے کتنی شریف اور بھولی بھالی لگ رہی تھی۔ صابر بوال‘ بڑی سیانی بنی پھرتی ہو‘ تم نے ہی میرے بیٹے کی زندگی برباد کی ہے۔ دونوں میں کافی بحث چلی۔ کنیز کا یہ بیان برادری کیا‘ آس پاس میں خوب مشہور ہوا۔ کئی ماہ دونوں خاندانوں میں ٹھنی رہی اور آخرکار طالق ہو گئی۔ چؤًں کہ حمیمت
پس پردہ تھی‘ اس لیے حمید کی کامیاب اداکاری کی‘ کوئی داد نہ دے سکا۔
الحول وال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں خود سے پیدا نہیں ہوا‘ میری تخلیك میں هللا کی مرضی اور رضا شامل تھی۔ میں نہیں جانتا تھا کہ میں کون ہوں‘ اس نے مجھے شناخت دی۔ نوری و ناری مخلوق کو‘ میں نے نہیں کہا کہ مجھے سجدہ کرو۔ یہ بھی هللا‘ جو میرا خالك ہے‘ نے حکم دیا۔ سب هللا کی مرضی سے چلتا ہے‘ عزازیل خوب جانتا تھا۔ میں کی گرفت میں آ گیا۔ میں کی گرفت بڑی بری ہوتی ہے۔ اس کی پکڑ میں آیا‘ اپنے آپے میں نہیں رہ پاتا۔ حکم کی تعمیل نہ کرکے‘ سب کچھ کھو بیٹھا۔ اسے اپنی شناخت تک یاد نہ رہی۔ شناخت یاد میں آ جاتی‘ تو توبہ کے دروازے پر ضرور آتا۔ عجب الٹی کھوپڑی کا مالک ہے۔ میرا اور اس کا‘ سرے سے کوئی مسلہ ہی نہیں‘ لیکن تنگ مجھے کرتا ہے۔ آج صبح میں مسجد سے نماز پڑھ کر نکل رہا تھا کہ ایک لاتل حسینہ کے روپ میں‘ میرے سامنے آ گیا۔ میری طرف بڑی
رومان خیز مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا۔ سچی بات تو یہ ہے‘ کہ میں لطعا بھول گیا‘ کہ نماز پڑھ کر مسجد سے نکل رہا ہوں۔ اس نے رفتار کم کر دی اور میں اس کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ مجھے یہ بھی یاد نہ رہا‘ کام پر بھی جانا ہے۔ اس مسکراہٹ میں ممناطیسی لوت تھی۔ میں تو خود کو بھول ہی گیا تھا‘ میرے اندر بیٹھے شخص نے کہا :کتے‘ یہ کیا کررہے ہو۔ ہڈی دیکھی اور پیچھے پیچھے چل دیے ہو۔ لعنت ہے تمہارے دوہرے رویے پر‘ مسجد میں نماز پڑھتے ہو اور ایک مسکان پر مر مٹے ہو‘ تم کیسے بندے ہو۔ اس آواز نے‘ مجھے شرم سے پانی پانی کر دیا اور میں نے دل ہی دل میں‘ الحول وال پڑی۔ پھر کیا تھا‘ اس نے میری طرف کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور دوسری گلی میں داخل ہو گیا۔ اگر هللا احسان نہ کرتا‘ تو میں مارا گیا تھا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ میری نماز تو فسك ہو گئی ہے‘ میں جہاں کھڑا تھا‘ وہیں سجدہ ریز ہو گیا۔ میں نے لوگوں اور زمین پر پڑی گندگی کی پرواہ نہ کی۔ یہ اس
گندگی سے بڑھ کر نہ تھی‘ جو میرے اندر گھس آئی تھی۔ دفتر میں میرا اور اس کا ٹاکرا ہوتا رہتا ہے۔ سائل بن کر‘ نیلے پیلے اور سرخ نوٹوں کے ساتھ آتا رہتا ہے۔ ظالم مجھے بکاؤ مال سمجھتا ہے۔ میں طوائف نہیں ہوں‘ جو اس کے بہکاوے میں آ جاؤں گا۔ اس کی کمینگی کی حد تو دیکھیں‘ یہ ہی کوئی چھے سات دن پہلے کی بات ہے۔ میں ابھی دفتر سے لوٹا ہی تھا‘ کہ گھر پر آ گیا۔ میں نے بیٹھک میں بٹھایا۔ ٹھنڈا پانی پیش کیا۔ اس نے نوٹ وکھائے کہ ناحك کرنے کے لیے‘ میرا موڈ بنے۔ مجھے بڑا تاؤ آیا اور میرا چہرا غصے سے سرخ ہو گیا۔ گمان تھا کہ اندر خبر نہیں ہوئی‘ شازیہ کو چھپ چھپ کر باتیں سننے کا ٹھرک ہے۔ اسے حمیمت کا علم ہو گیا تھا۔ خیر‘ میں نے جی میں ال حول وال پڑی‘ اس نے کھا جانے والی نظروں سے مجھے دیکھا اور اٹھ کر چال گیا۔ وہ تو چال گیا‘ ہنستی مسکراتی شازیہ دہکتا انگارہ بن گئی۔ میرے ساتھ جو ہوا‘ مت پوچھیے‘ وہ بھی سچی تھی کہ میں نے آتے نوٹوں کو دھتکارا تھا۔
بڑا ڈھیٹ ہے‘ خواہ مخواہ میرے ساتھ پنگا لیتا رہتا ہے۔ میں ناک کی سیدھ پر جا رہا ہوں‘ جانے دے۔ میں کوئی بہت بڑا آدمی نہیں ہوں‘ مجھ سے اسے کیا مل سکتا۔ کسی بڑے آدمی کے پاس جائے۔ اسے معلوم ہے‘ کسی بڑے آدمی کے پاس گیا تو وہ ناسیں سیک دے گا۔ میں ہوں کیا‘ کچھ بھی نہیں‘ یہ جانتے ہوئے بھی میرے آس پاس میں الامت کئے ہوئے ہے۔ دفتر کی نوکری میں ایسے حادثے‘ روز کا معمول تھا۔ جھگڑے سے میری بڑی جان جاتی ہے۔ شیطان سے ہر روز کی لڑائی سے تنگ آ کر‘‘ میں نے دفتر کی نوکری ہی چھوڑ دی۔ مجھے فرار ہی میں عافیت نظر آئی۔ گھر میں بھی کم آمدنی پر ہر روز جھگڑا ہوتا تھا۔ پوری تنخواہ ہتھیلی پر رکھ دیتا تھا۔ روز کا خرچہ شازیہ سے لے کر جاتا تھا۔ جب بھی بس کا کرایہ وغیرہ مانگتا‘ بڑی لہ پہا کرتی‘ میں سب برداشت کر جاتا۔ تنخواہ میں سے کچھ رکھتا تو مجرم ٹھہرتا۔ تنخواہ کے عالوہ کدھر سے التا۔ جب کہ وہ اوروں کی مثالیں دیتی۔
میں نے الء کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی تھی۔ سوچا وکالت کرتا ہوں۔ اس طرح بےگناہ لوگوں کی مدد بھی کر سکوں گا اور دال روٹی بھی چلتی رہے گی۔ میدان عمل میں لدم رکھا تو معاملہ ہی برعکس نکال۔ کچری میں جا کر معلوم ہوا‘ کمائی چوروں‘ لاتلوں‘ اور دو نمبر لوگوں کی مدد کرنے سے ممکن تھی۔ ان کو بےگناہ اور بےگناہوں کو گناہ گار ثابت کرکے‘ لمے نوٹ کمائے جا سکتے تھے۔ یہاں کے طور طریمے‘ دفتر کے طور طریموں کے بھی پیو نکلے۔ چند ہی دنوں میں‘ میرا دل وہاں سے بھی کھٹا ہو گیا۔ لگتا تھا‘ انصاف گاہ میں تو اس نے مستمل ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ لدم لدم پر میری اس سے ماللات ہوتی۔ مجھے دیکھ کر لہمہے لگاتا‘ سرعام میرا مذاق اڑاتا۔ عاللے کی مسجد میں‘ میری ماللات حاجی عمر سے ہوئی۔ پنج ولتے تھے اور شلوار ٹخنوں سے اوپر رکھتے تھے۔ بڑے اصول پرست سمجھے جاتے تھے۔ ان کا الکھوں کا کاروبار تھا۔ حساب کتاب کے معاملے میں‘ میں بھی معروف تھا۔ سوچا‘ یہاں ٹھیک رہے گا۔ میں ان کے کھاتے میں منشی کی سیٹ پر تعینات ہو گیا۔
چند دن گزرنے کے بعد معلوم ہوا‘ یہاں بھی‘ شیطان مہاراج کا سکہ چلتا ہے۔ بڑی حیرت ہوئی کہ حاجی صاحب کا ظاہر کتنا صاف ستھرا ہے اور باطن غالظتوں سے لبریز ہے۔ وہاں بھی دہائی کا گھپال تھا۔ کارکنوں کے ساتھ جو ہو رہا تھا‘ وہ تو ہو رہا تھا‘ لیکن حساب کتاب کے دو کھاتے تھے‘ ایک سرکار کو دیکھانے کے لیے‘ دوسرا اصلی کھاتہ جو دفتر میں نہیں رکھا جاتا تھا۔ سرکاری کھاتے میں گھاٹے کے سوا کچھ نہ تھا۔ بجلی کے لیے بھی‘ بجلی اہل کار کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ یہاں حرام اور حرام کے سوا کچھ نہ تھا۔ دفتر میں‘ تنخواہ تو کم از کم حالل تھی۔ یہاں سے ملنے والی تنخواہ سرے سے شفاف نہ تھی۔ یہ معاملہ تو پہلے سے بھی کہیں بڑھ کر تھا۔رکھتے تھے۔ بڑے اصول پرست سمجھے جاتے تھے۔ ان کا الکھوں کا کاروبار تھا۔ حساب کتاب کے معاملے میں بھی معروف تھا۔ سوچا‘ یہاں ٹھیک رہے گا۔ میں ان کے کھاتے میں منشی کی سیٹ پر تعینات ہو گیا۔
وہاں جا کر معلوم ہوا کہ وہاں بھی دہائی کا گھپال ہے۔ کارکنوں کے ساتھ ہو رہا تھا‘ وہ تو ہو رہا تھا لیکن حساب کتاب کے دو کھاتے تھے‘ ایک سرکار کو دیکھانے کے لیے‘ دوسرا اصلی کھاتہ جو دفتر میں نہیں رکھا جاتا تھا۔ سرکاری کھاتے میں گھاٹے کے سوا کچھ نہ تھا۔ بجلی کے لیے بھی‘ ایک بجلی اہل کار کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ یہاں حرام اور حرام کے سوا کچھ نہ تھا۔ دفتر میں‘ تنخواہ تو کم از کم حالل تھی۔ یہاں سے ملنے والی تنخواہ سرے سے شفاف نہ تھی۔ یہ معاملہ تو پہلے سے بھی کہیں بڑھ کر تھا۔ میں نے وہ مالزمت چھوڑ کر‘ کاروبار کرنے کی ٹھان لی۔ عاللے میں‘ لوگوں کو دودھ کی بڑی پریشانی تھی۔ سوچا‘ دودھ کا کاروبار برا نہیں۔ میں خود جا کر دودھ التا۔ میرے سامنے گواال دودھ دھوتا۔ اس کے باوجود دودھ پتال ہوتا۔ یہ تسلی تھی کہ وہ پانی نہیں ڈالتا‘ کیوں کہ وہ میرے سامنے دودھ دھوتا تھا۔ ہاں البتہ آخر میں‘ ہنگال کے طور پر تین پاؤ کے لریب‘ یہ دودھ نما پانی ڈال دیتا۔ دو دن تو میں چپ رہا‘ تیسرے دن مجھ سے رہا نہ گیا۔ منع کرنے پر
کہنے لگا :یہاں سے تو دودھ ایسا ہی ملے گا‘ نہیں وارہ کھاتا تو کوئی اور بندوبست کر لو۔ اس نے بڑی بدتمیزی سے جواب دیا۔۔ میں نے بھی کہا :چلو ٹھیک ہے‘ بندوبست کر لوں گا۔ بعد میں پتا چال وہ برتن میں پہلے ہی پانی ڈال لیتا تھا۔ دو چار اور لوگوں سے واسطہ رہا‘ وہاں بھی یہ ہی کچھ تھا۔ کوئی شعبہ تو چھوڑ دیتا‘ ظالم نے ہر شعبے میں ٹانگ پھنسائی ہوئی تھی۔ خیال گزرا‘ کیوں نہ صحافت اختیار کر لوں۔ وہاں لدم رکھا تو بہت ہی مایوسی ہوئی۔ جتنا اچھا پیشہ ہے‘ اتنا ہی آلودہ ہے۔ صحافت‘ صحافت کم‘ بلیک میلنگ زیادہ نکلی۔ پراپرٹی ڈیلنگ کا کام بھی راس نہ آیا‘ کیوں کہ وہ بھی کثافتوں سے لبریز نکال۔ اس میں جھوٹی لسمیں اور چکنی چوپڑی باتیں‘ پہلی سیڑھی تھی۔ شازیہ میری ان حرکتوں سے اکتا کر بچے لے کر‘ اپنے بھائی کے ہاں چلی گئی۔ یہ حیران کن بات تھی۔ ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا تھا‘ جس دن میں یا گھر کے لوگ‘ بھوکے سوئے ہوں گے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ هللا کی
مخلوق بھوکی سوئے۔ وہ اس کی بھوک کو خوب خوب جانتا ہے اور رزق فراہم کرنے میں‘ کسی لسم کے تساہل کا شکار نہیں ہوتا۔ رزق حالل کی تالش میرا فطری حك تھا۔ ہر موڑ اور ہر گھاٹ پر شیطان سے ماللات رہی۔ اس کا اپنا رستہ تھا‘ میرا اپنا رستہ تھا۔ میں حالل کھانا چاہتا تھا‘ وہ مجھے حرام کھانے کی دعوت دے رہا تھا۔ وہ بڑا ضدی نکال‘ اسے کیا معلوم‘ کہ میں ہر مشکل میں‘ هللا کی مدد طلب کر لیتا ہوں۔ میری ایک بار پڑھی الحول واللوة اال باهلل‘ اس کے میدان سے لدم اکھیڑ دیتی تھی۔ جو بھی سہی‘ شیطان جو مرضی کر لے‘ جتنا مرضی زور لگا لے‘ میرا هللا مدد طلب کرنے والوں کی‘ میدان عمل میں کنڈ نہیں لگنے دیتا۔