مقصود حسنی کے نو افسانے

Page 1


‫ممصود حسنی کے نو افسانے‬ ‫پیش کار‬ ‫شہال کنور عباس‬ ‫ابوزر برلی کتب خانہ ‪٢٠١٦‬‬ ‫فہرست‬ ‫وہ اندھی تھی ‪١-‬‬ ‫کچھ بعید نہیں ‪٢-‬‬ ‫ڈی سی سر مائیکل جان ‪٣-‬‬ ‫پرایا دھن ‪٤-‬‬ ‫کتا اس لیے بھونکا ‪٥-‬‬ ‫یہ ہی ٹھیک رہے گا ‪٦-‬‬ ‫کردہ کا انتمام ‪٧-‬‬ ‫حمیمت پس پردہ تھی ‪٨-‬‬ ‫الحول وال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‪٩-‬‬


‫وہ اندھی تھی‬

‫وہ لنکویل لبیلے کا سانپ کم' چھالوہ زیادہ تھا۔ دوسرا‬ ‫حجم اور لمبائی چوڑائی میں بھی' جہنمی بال لگتا تھا۔ کسی‬ ‫ایک جگہ ٹھکانہ رکھتا تو گرفت کا کوئی ناکوئی رستہ‬ ‫ضرور نکل آتا' مصیبت تو یہ تھی کہ اس کا کوئی مستمل‬ ‫ٹھکانہ نہ تھا۔ لوگ سوچ میں تھے' آخر کہیں ناکہیں آرام‬ ‫تو کرتا ہو گا۔ یہ بال' پتا نہیں اچانک کیوں نازل ہو گئی‬ ‫تھی۔ عاللے کے سربراہ مہاراج چرچی ناتھ کی آمد اچانک‬ ‫نہ تھی' اس کے پیچھے ایک عوامی خون خوار تاریخی‬ ‫پس منظر تھا۔ اس سپرپاور' جس کے سامنے عاللے کے‬ ‫پھنے خاں بھی' لطعی مجبور وبےبس تھے۔ گھروں میں‬


‫بیٹھے' ان پر ہراس کے موسم کی کپکپی طاری تھی۔‬ ‫وہ گھریلو مویشیوں کے لیے بھی' عذاب بن گیا تھا۔ نر‬ ‫مویشی جان سے جاتے' جب کہ مادہ مویشیوں کا دودھ‬ ‫نچوڑ لیتا۔ جسے ڈستا پاؤں پر ٹکی ہو جاتا۔ جگہ جگہ‬ ‫الشیں بکھری پڑی تھیں۔ بو اور تعفن سے' سانس لینا‬ ‫محال ہو گیا تھا۔ عاللے کے ہر چھوٹے بڑے کو' بےچارگی‬ ‫اور بےبسی کا یہ عالم' مایوسی کے دروازے تک لے آیا‬ ‫تھا۔‬ ‫ذاتی اور اجتماعی طور پر' غوروفکر کیا جا رہا تھا لیکن‬ ‫کوئی حتمی حل ہاتھ نہیں لگ رہا تھا۔ زبانی جمع خرچ بہت‬ ‫ہوا' مگرمیدان میں کوئی اترنے کے لیے تیار نہ ہو رہا تھا۔‬ ‫کون اترتا' جان ہر کسی کو پیاری تھی۔ ایک دوسرے سے‬ ‫تولع' وابستہ کی جا سکتی تھی یا پھر کسی غیبی مدد کا‬ ‫انتظار کیا جا سکتا تھا۔‬ ‫کئی دن گزر گئے' کچھ نہ ہو سکا۔ بھوک پیاس اور تعفنی‬


‫گھٹن سے' موتیں ہو رہی تھیں۔ انسانوں اور مویشیوں کی‬ ‫الشیں ٹھکانے نہیں لگ رہی تھیں جس کے باعث' باہر کی‬ ‫بدبو تو تھی ہی' گھروں میں بھی بدبو پھیل گئی تھی۔ ہر‬ ‫کسی کا منہ لٹکا ہوا تھا۔ کمزوری کے سبب جیتے جاگتے‬ ‫انسان' چلتی پھرتی الشیں لگ رہے تھے۔‬ ‫ایک دن دوسری والیت سے آنے واال گامو سوچیار'‬ ‫چونکا دینے والی خوش خبری الیا۔ اس نے بتایا ادھر‬ ‫شہاب دین کے کھیت میں' ایک لنکویل لبیلے کا اژدھا' ایک‬ ‫مریل اور کرم خوردہ کتے کے منہ میں' بےبسی کے عالم‬ ‫میں' پیچ و تاب کھا رہا ہے۔ یہ سننا تھا کہ لوگ' گامو‬ ‫سوچیار سے لپٹ گئے۔ پھر لوگ' شہاب دین کے کھیت کی‬ ‫جانب دوڑ پڑے۔ یہ دینو نائی کا بیمار کتا تھا۔ سانپ کے‬ ‫درمیان' اس کے دانت گڑے ہوئے تھے۔ سانپ آدھا ادھر‬ ‫آدھا ادھر بےبسی کے عالم میں' چھٹکارے کی کوشش میں‬ ‫تھا۔ وہ بار بار اسے ڈس رہا تھا۔ ہر ڈنگ' ہیروشیما پر پر‬ ‫گرے بم سے' کسی طرح کم نہ تھا۔ الٹا سیدھا ہو کر ڈرون‬ ‫گرا رہا تھا۔ مگر کہاں' کچھ بھی نہیں ہو پا رہا تھا۔‬


‫اصول یہ ہی رہا ہے' طالت سے ہر کوئی دور ہی رہا ہے‬ ‫اور اسی میں' عافیت خیال کرتا رہا ہے۔ اس رویے کے‬ ‫سبب' طالت کو شہ ملی ہے اور عاللے میں دندناتی پھرتی‬ ‫ہے۔ ہر سامنے آنے واال ' کم زور یا طالتور' جان سے جاتا‬ ‫ہے' تاہم ایک کی بلی اوروں کی نجات کا سبب بنتی ہے۔‬ ‫دینو کا کتا' ادھر سے گزرا ہو گا۔ اس گستاخی کی سزا‬ ‫میں' اس پر فرار کے چاروں رستے بند کر دیے گیے ہوں‬ ‫گے اور اس پر ترس کھانے کی بجائے' جھپٹ پڑا ہو گا۔‬ ‫موتی کا پہلے داؤ لگ گیا ہو گا۔ ڈنگ لگنے سے اس کی‬ ‫موت والع ہو گئی ہو گی اور اکڑاؤ آ گیا ہو گا۔ اب اس کی‬ ‫کون اور کیوں مدد کرتا۔ تکبر تماشا بن چکا تھا۔ طالت‬ ‫عبرت نہیں لیتی کیوں کہ وہ اندھی ہوتی ہے۔‬


‫کچھ بعید نہیں‬

‫میں ایک دفتر میں مالزم ہوں۔ سارا دن‘ بہت سے سائل یا‬ ‫ان کے سفید پوش اور چرب زبان دلے دالل‘ جنہیں‬ ‫شورےفا کی زبان میں ایجنٹ کہا جاتا ہے‘ مک مکا کرتے‘‬ ‫چائے پانی پالتے لگاتے اور دو طرفہ مسکراہٹ میں اپنی‬ ‫راہ لیتے۔ ہم لوگ‘ ایک دوسرے کی جان پہچان میں ہیں۔‬ ‫ناگہانی حاالت میں‘ آنکھوں کی زبان میں‘ کافی کچھ کہہ‬ ‫سن لیتے ہیں۔ ممامی افسر بھی‘ ان سے ناوالف نہیں ہیں۔‬ ‫آنکھوں کی زبان کا استعمال‘ کسی باال افسر کے آنے کی‬ ‫صورت میں ہوتا ہے۔ بس ایک جعلی سی پردہ داری ہے۔‬ ‫حاالں کہ آنے والے کے ہاں‘ یہاں سے کہیں بڑھ کر‘ انھی‬ ‫مچی ہوتی ہے۔ ماہنانہ لفافے کی ترسیل کی‘ ہم میں سے‬ ‫کوئی ڈیوٹی انجام دیتا ہے۔ بس ایک بھرم سا چال آتا ہے۔‬ ‫کہیں کھال اور کہیں فی صد بھی طے ہے۔ عموم میں‘ لفافہ‬ ‫ہی متحرک رہتا ہے۔ گویا ہم دفتر والے‘ گردوپیش‘ باال‬ ‫دفاتر اور دفاتر سے منسلک دلے داللوں کے مزاج‘ رویے‬ ‫اور اطوار سے خوب آگاہ ہیں۔‬


‫دفتر آتے جاتے‘ ایک چھوٹے لد کے شخص سے ماللات‬ ‫ہوتی رہتی تھی۔ وہ کسی دفتر کا مالزم نہیں تھا‘ کیوں کہ‬ ‫میں ممامی دفتر کے ہر مالزم سے والف ہوں۔ وہ یمینا‬ ‫کسی دفتر کا مستند دال تھا۔ جب ملتا‘ ہاتھ اٹھا کر‘ بڑے ادب‬ ‫سے سالم کرتا۔ میں بھی خوش خلمی سے سالم کا جواب‬ ‫دیتا۔ یہ دال حضرات بڑے عجیب والع ہوئے ہیں۔ چغلی اور‬ ‫مخبری میں بھی کمال کے ماہر ہوتے ہیں۔ بہت سے‘ میر‬ ‫جعفر کے بھی پیو ہیں۔ کھٹی بھی چغلی مخبری کی کھاتے‬ ‫ہیں۔‬ ‫یہ اس لماش کا دال نہ تھا۔ باادب سالم بھی حفظ ما تمدم‬ ‫کرتا تھا‘ کہ کبھی اور کسی ولت بھی‘ کوئی کام پڑ سکتا‬ ‫تھا۔ اس لسم کے باادب سالم‘ کام نکلوانے میں معاون ثابت‬ ‫ہوتے ہیں۔ وہ مجھے نہیں جانتا تھا۔ میں کام کی وصولی‬ ‫میں بڑا سخت اور کورا والع ہوا ہوں۔ میرے اس اصول‬ ‫سے‘ اپنے پرائے خوب خوب آگاہ ہیں۔ سالم دعا کے حوالہ‬ ‫سے‘ رو رعایت کو دو نمبری سمجھتا ہوں۔ اگر رو رعایت‬ ‫سے کام لیتا تو اتنی بڑی جائیداد کبھی بن نہ پاتی۔‬


‫ایک دن مال‘ بڑے رومنٹک اور مالپڑے سے موڈ میں تھا۔‬ ‫میرے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔‬ ‫میں نے ہنس کر کہا‘ بھئی خیر تو ہے‘ کوئی کام تو نہیں۔‬ ‫سالم دعا اپنی جگہ‘ لیکھے میں بااصول ہوں۔‬ ‫ہنس پڑا اور کہنے لگا‪ :‬سرکار میں جانتا ہوں۔‬ ‫تو کہو‘ کیا کام ہے۔‬ ‫سرکار بڑی نفیس اور شان دار بکری ہاتھ آئی ہے۔ طبیت‬ ‫راضی ہو جائے گی۔ صرف اور صرف ایک ہزار میں۔‬ ‫میں حیران ہو گیا۔ کیسا بندہ ہے۔ بکری میں نے کیا کرنی‬ ‫ہے۔ پھر خیال گزرا‘ ایک ہزار میں مل رہی ہے‘ لے لیتا‬ ‫ہوں۔ چار دن چھوٹا گوشت کھائیں گے۔ صاحب اور پھر‬ ‫مخصوص احباب کی دعوت بھی کر لوں گا۔‬ ‫میں نے ہنس کر پوچھا‪ :‬ایسی ویسی تو نہیں۔‬ ‫ایسی ویسی سے میری مراد چوری کی تھی۔ ہوتی بھی تو‬ ‫کیا فرق پڑتا‘ مجھے تو ایک ہزار میں مل رہی تھی۔‬ ‫‪:‬بےغیرت سی ہنسی میں کہنے لگا‬


‫نہیں سرکار‘ نمبر ون ہے۔‬ ‫پھر اس نے کئی نام گنوائے‘ جو پانچ ولتے اور مونچھ‬ ‫چٹ تھے۔‬ ‫اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ سرکار مزا نہ آئے تو‬ ‫پھر کہنا۔‬ ‫جب اس نے یہ بات کہی‘ تو بکری کا مفہوم سمجھ میں آیا۔‬ ‫مجھے افسوس ہوا‘ کہ میں داللوں کی ہر اصطالح سے آگاہ‬ ‫ہوں۔ یہ اصطالح‘ میرے لیے لطعی الگ سے تھی۔ دوسرا‬ ‫گشتوڑ اور بکری کی مماثلت میرے لیے لطعی نئی تھی۔‬ ‫میں مانتا ہوں‘ رشوت ٹھوک کر لیتا ہوں لیکن زانی نہیں‬ ‫ہوں‘ ورنہ رشوت خور زانی اور گھونٹ نہ لگاتا ہو‘ بھال‬ ‫کیسے ہو سکتا ہے۔‬ ‫مجھے اس پر بڑا تاؤ آیا۔ میں نے پوچھا‪ :‬تمہاری کوئی‬ ‫جوان بہن بھی ہے۔‬ ‫کہنے لگا‪ :‬جی ہاں‬ ‫تو اسے لے آؤ‘ میں اس کے ساتھ موج مستی کروں گا۔‬ ‫ہزار کا دو ہزار دوں گا۔ چلتی پھرتی ہو تو بھی لے آؤ‘‬ ‫چلے گا۔‬


‫اس نے بڑے لہر سے میری جانب دیکھا اور بڑبڑاتا ہوا‬ ‫دوسری جانب نکل گیا۔‬ ‫میں نے بیوی کا جان بوجھ کر نہیں کہا تھا‘ ایسے‬ ‫بےغیرتوں سے کچھ بعید نہیں‘ شاید لے ہی آتا۔‬

‫ڈی سی سر مائیکل جان‬

‫المبے لد کا مہنگا ماچھی‘ غربت کی آخری سطع پر تھا۔‬ ‫جوتے ہیں تو کپڑے نہیں‘ کپڑے ہیں تو جوتے نہیں۔ سارا‬ ‫دن جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر التا‘ رات کو آگ کے‬ ‫سامنے بیٹھتا۔ جب ہی‘ رنگ توے سے زیادہ سیاہ ہو گیا‬


‫تھا۔ نہاتا بھی شاید ضرورت بری کے بعد تھا۔ اس سے‬ ‫گوڈے گوڈے بو آتی تھی۔ پتا نہیں‘ کیا درک لگی کہ یو کے‬ ‫جا پہہنچا۔ اس کی بیوی صوباں سگھڑ عورت تھی۔ اس نے‬ ‫مہنگے کی کمائی سے‘ جہاں میکے کی بھوک نکالی‘ وہاں‬ ‫گھر کی حالت بھی سنوار دی۔ تین سال میں‘ جھونپڑی نما‬ ‫مکان نے‘ عالی شان کوٹھی کی شکل اختیار کر لی۔ خود‬ ‫اور بچے‘ شان دار کپڑے پہننے لگے۔ شرفا کی خواتین‬ ‫سے علیک سلیک ہو گئی۔ صوباں‘ صوباں کم‘ میم زیادہ‬ ‫لگتی تھی۔ چوتھے سال دروازے پر تختی آویزاں ہوگئی۔‬ ‫ڈی سی سر مائیکل جان یو کے‬ ‫گلی نبر چار‘ کوٹ امر ناتھ‬ ‫رام پور خاص‬ ‫چاروں اور باتیں ہونے لگیں۔ یار مہنگا تو سکا ان پڑھ‘ بل‬ ‫کہ ان پاڑ ‘ یو کے میں ڈی سی کیسے ہو گیا۔ آخر اس نے‬ ‫ایسا کون سا کارنامہ انجام دیا ہو گا‘ جس کی پاداش میں‬ ‫اتنا بڑا عہدہ ہاتھ لگ گیا۔ صوباں کی کوئی ایرا غیرا سہیلی‬ ‫نہ رہی تھی‘ جو کچھ دریافت کرتی۔ ان کے ہاں فمط بیگمات‬


‫کا آنا جانا تھا۔ ہمارے ہاں کسی کی خوش حالی اور ترلی‬ ‫دیکھ کر‘ گھروں اور گلیوں میں‘ بےچینی سی ضرور سر‬ ‫اٹھاتی ہے۔ کسی کی خوش حالی اور ترلی دیکھ کر‘ خوش‬ ‫ہونا‘ ہماری عادت اور فطرت کا خاصہ نہیں۔ کیا ہو سکتا‬ ‫ہے‘ جسے هللا دے‘ اسے زمین پر کون ال سکتا ہے۔ حمی‬ ‫سچی بات یہ بھی ہے کہ اپنی ذات کے گریبوں کی‘ تھوڑی‬ ‫بہت مدد بھی کرتی تھی۔‬ ‫چار سال بعد‘ مہنگا دو ماہ کے لیے واپس رام پور آیا۔‬ ‫مہنگا‘ مہنگا کم ڈی سی سر مائیکل جان زیادہ لگتا تھا۔ اس‬ ‫کا رنگ ڈھنگ‘ لباس‘ اٹھنا بیٹھنا‘ ملنا جلنا‘ کھانا پینا‘‬ ‫غرض سب کچھ بدل گیا تھا۔ انگریزی فرفر بولتا تھا۔ پھنے‬ ‫خاں میڑک پاس بھی‘ اس کے سامنے بھیگی چوہی بن‬ ‫جاتے۔ سب حیران تھے‘ آخر اس کے ہاتھ ایسی کون سی‬ ‫گیدڑ سنگی لگی ہے‘ جو فمط چار سالوں میں‘ مالی‘‬ ‫شخصی اور اطواری تبدیلیوں کا سبب بنی۔ کچھ تو اس کے‬ ‫پیچھے رہا ہو گا۔‬ ‫مخبر اپنے کام میں بڑی جان فشانی سے مصروف تھے۔‬


‫کب تک معاملہ مخمصے میں رہتا‘ خیر کی خبر آ ہی گئی۔‬ ‫وہ وہاں دریا پر‘ میموں کے کتے نہالتا تھا۔ ڈی سی مراد‬ ‫ڈوگ کلینر تھا۔ کھودا پہاڑ نکال چوہا‘ وہ بھی مرا ہوا۔ سب‬ ‫کھل جانے کے بعد بھی‘ انڈر پریشر اور احساس کہتری‬ ‫کے مارے لوگ‘ اسے سالم کرتے تھے۔ اسے کیا‘ یہ دھن‬ ‫کو سالم تھا۔‬ ‫مغرب میں ڈوگ صاحب بہادر وفاداری کے حوالہ سے‬ ‫معتبر اور باعزت نہیں‘ بل کہ کئی ایک ذاتی اور خفیہ‬ ‫خدمات کے تحت‘ نام و ممام رکھتے ہیں۔ یہ تو اچھا ہے‘‬ ‫مطلب بری کے بعد کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔ گوریاں‬ ‫ڈوگ صاحب بہادر کی بڑی ہی عزت کرتی ہیں۔ اس کی ہر‬ ‫ضرورت کا خیال رکھتی ہیں۔ اسے نہالنے دھالنے والے‬ ‫کو‘ معمول عوضانہ پپش کرتی ہیں۔ دریا کنارے‘ سن باتھ‬ ‫کرنے آئی گوریاں‘ ڈی سی کے حوالے اپنے ڈوگی کر دیتی‬ ‫ہیں۔ ڈی سی تہرا البھ اٹھاتا ہے۔‬ ‫مختصر چڈی اور بریزئر میں ملبوس پتلی‘ موٹی اور پیپا‬ ‫گوریاں مالحظہ کرتا ہے۔ الکھ حاجی شریف سہی‘ آنکھیں‬ ‫تو بند نہیں کر سکتا۔‬


‫بھیگی‘ سیکسی اور رومان پرور مسکراہٹیں وصولتا ہے۔‬ ‫پاؤنڈ گرہ لگتے ہیں۔‬ ‫ہمارے ہاں کے لوگ بھی عجیب ہیں‘ گرمیوں میں مری‬ ‫جاتے ہیں۔ پگلے ساتھ گھر والی بھی لے جاتے ہیں۔ اچھا‬ ‫خاصا خرچہ کرتے ہیں۔ گرمیوں میں چار پیسے زیادہ خرچ‬ ‫کرکے‘ مغرب کے کسی دریا کا رخ کریں۔ پیسے کمائیں اور‬ ‫دوہری ٹھنڈک حاصل کریں۔‬ ‫ہمارے ہاں کتا گریب کا ہو یا امیر کا‘ وفاداری کے حوالہ‬ ‫سے بلند ممام و مرتبہ رکھتا ہے۔ اگرچہ یہ وفاداری محض‬ ‫ایک دل کو بہالنے کا ذریعہ ہے۔ میر جعفر نے ٹیپو کو اپنی‬ ‫وفاداری کا یمین دال رکھا تھا لیکن اندرخانے بک چکا تھا۔‬ ‫اپنی وفاداری کے انعام میں‘ ٹیپو سے بھی دو دن پہلے‬ ‫ٹھکانے لگ گیا۔‬ ‫سیانے چور‘ اپنے ساتھ ہڈی واال گوشت لے کر جاتے ہیں۔‬ ‫کتا گوشت پر‘ چور سامان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ کتا مالک کا‬


‫نہیں ہڈی کا وفادار ہوتا ہے۔‬ ‫رشوت خور کو دیکھ لیں‘ جہاں سے ہڈی ملتی ہے‘ وہاں‬ ‫میرٹ بنا دے گا۔ ایمان کوئی مادی شے نہیں‘ جو اس سے‬ ‫وفاداری نبھائے۔ نوٹ اور ڈبہ نظر آتے ہیں‘ ایمان نظر‬ ‫نہیں آتا۔ کتے کو گوشت نظر آتا ہے‘ مالک نہیں‘ مالک تو‬ ‫سویا ہوتا ہے۔ مالک رات کو پیٹ بھر کھالتا ہے‘ لیکن‬ ‫کتے کی آنکھ نہیں بھرتی‘ اسی لیے ہڈی اس کی ترجیح‬ ‫میں رہتی ہے۔‬ ‫میرے کرائےدار سرور کو‘ هللا نے تین پیارے پیارے بچوں‬ ‫سے نوازا۔ اس کی بیوی بیمار پڑ گئی۔ کئی ماہ بیماری‬ ‫سے لڑی‘ لیکن لڑائی ہار گئی۔ میں نے اسے سمجھایا کہ‬ ‫بچوں کا خیال رکھنا۔ اب تم ہی ان کی ماں اور تم ہی ان کے‬ ‫باپ ہو۔ اسے جلد ہی‘ ایک کنوری مل گئی۔ مال‘ پورے ادب‬ ‫و آداب کے ساتھ اس کا ذکر کرتا رہا۔ گن گنوانے میں زمین‬ ‫آسمان ایک کر دیا۔ بچے سکول سے اٹھا لیے گیے ہیں‬ ‫اور ان کے مندے حال ہیں۔ مرحومہ بیماری میں بھی بچوں‬ ‫کا خیال رکھتی تھی۔ کتا کتنا ہی نسلی اور اعلی پائے کا‬


‫کیوں نہ ہو‘ اس کی وفاداری ہڈی سے مشروط رہتی ہے۔‬ ‫ڈی سی سر مائیکل جان نے‘ سترہ سال گوریوں کے ڈوگ‬ ‫صاحب بہادران کی نہالئی دھالئی کی۔ اب وہ بوڑھا اور چڑ‬ ‫چڑا ہو گیا تھا۔ اسے ایک ایسے ڈوگ صاحب بہادر سے‘‬ ‫پاال پڑا جو نچال نہیں بیٹھتا تھا۔ اس نے تاؤ میں آ کر‘ اسے‬ ‫پان سات جڑ دیں۔ پھر کیا تھا‘ اچھی خاصی مرمت ہوئی‘‬ ‫جیل بھی گیا۔ جیل کی یاترا کے بعد‘ گھر کی راہ دکھائی‬ ‫گئی۔ اب وہ بےکار اور نکمی شے سے زیادہ نہ تھا۔ گھر‬ ‫میں صوباں تو ایک طرف‘ اس کے نازوں پلے بچے‘ اسے‬ ‫توئے کرتے رہتے۔‬ ‫غضب خدا کا گھر پر نکما نہیں‘ گھر کا نسلی کتا ٹومی‬ ‫بالناغہ دو ٹائم نہالتا ہے۔ اس کے باوجود‘ بےولار ہو چکا‬ ‫ہے۔ جس دن نہالنے میں تھوڑا دیر ہو جائے‘ ٹومی غراتا‬ ‫نہیں‘ بھونکتا ہے۔ خدمت یہ کرتا ہے‘ دم گھر والوں یا ان‬ ‫کے ملنے والوں کے سامنے ہالتا ہے۔ ٹومی خوب جانتا‬ ‫ہے‘ خدمت کرنے واال اس کا مالک نہیں‘ تھرڈ کالس نوکر‬ ‫ہے۔‬


‫دروازے سے تختی اتر چکی ہے۔ اس کی انگریزی‬ ‫بےاولات ہو چکی ہے۔ باہر نکلتا ہے تو کل تک سالم‬ ‫کرنے والے‘ مذاق اڑاتے ہیں۔ وہ اب مہنگا نہیں‘ مہنگو‬ ‫کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔‬

‫پرایا دھن‬

‫ہنسی مذاق میں‘ احممانہ گفت گو یا حرکت چل جاتی ہے‬ ‫لیکن سنجیدہ اور دکھ سکھ کے معامالت میں‘ احممانہ گفت‬ ‫گو یا حرکت کی‘ سرے سے گنجائش نہیں ہوتی۔ بخشو کے‬


‫بیٹے کا‘ اس کی سگی سالی کی بیٹی سے نکاح ہونے جا‬ ‫رہا تھا۔ شوکے کی ماں اور بہنیں‘ مختلف نوعیت کے شگن‬ ‫کر رہی تھیں۔ وہ سب خوش تھیں۔ بذات خود شوکا بڑا ہی‬ ‫خوش تھا۔ بخشو بھی‘ خوشی خوشی جملہ معامالت انجام‬ ‫دے رہا تھا۔ جوں ہی شوکا سہرہ باندھے‘ گلے میں ماال‬ ‫ڈالے‘ سجی پھبی گھوڑی پر بیٹھنے لگا‘ بخشو نے نیا ہی‬ ‫تماشا کھڑا کر دیا۔ اس نے شوکے کو گلے لگا لیا اور‬ ‫زارولطار رونے لگا۔ یہ بالکل الگ سے بات تھی اور‬ ‫سمجھ سے باالتر تھی۔ لوگ بیٹوں کی شادی پر خوشیاں‬ ‫مناتے‘ یہ احمك رو رہا تھا۔‬ ‫پہاگاں حسب سابك اور حسب عادت آپے سے باہر ہو گئی۔‬ ‫اس دن کچھ زیادہ ہی ہو گئی۔ اس نے بخشو کی بہہ بہہ‬ ‫کرا دی۔ بخشو کے لیے‘ یہ کوئی نئی اور الگ سے بات نہ‬ ‫تھی۔ برداشت کر گیا۔ برداشت کیوں نہ کرتا‘ جھوٹا تھا‘ سب‬ ‫فٹکیں دے رہے تھے۔ خوشیاں غم و غصہ میں بدل گئیں۔‬ ‫وہ تو خیر ہوئی‘ چاچا فضلو ساتھ تھا۔ اس نے بیچ میں پڑ‬ ‫کر‘ بچ بچاؤ کا رستہ نکال لیا‘ ورنہ جنگ عظیم چہارم کا‬ ‫آغاز تو ہو ہی گیا تھا۔‬


‫تمام رسمیں ہوئیں۔ شوکے اور گھر والوں نے‘ جعلی ہنسی‬ ‫اور خوشی میں سب نبھایا۔ ہاں البتہ براتیوں کی ہنسی اور‬ ‫لہمہے لطعی جعلی نہ تھے۔ بخشو نے حرکت ہی ایسی کی‬ ‫تھی‘ آج تک دیکھنے سننے میں نہ آئی تھی۔ دوسری‬ ‫طرف لوگ یہ بھی سوچ رہے تھے کہ بخشو نے ایسا کیا‘‬ ‫تو کیوں کیا۔ بخشو پاگل نہیں‘ سیانا بیانا اور چار بندوں‬ ‫میں بیٹھنے واال تھا۔ معامالت میں لوگ اس سے مشاورت‬ ‫کرتے تھے۔ اس دن پتا نہیں اسے کیا ہو گیا تھا۔‬ ‫سب خاموشی اور حیرت میں‘ تمام ہوا۔ دلہن گھر لے آئے۔‬ ‫شوکے کی ماں اور بہنوں نے نئے جی کے گھر آنے کی‬ ‫خوشیاں منائیں۔ رات دیر گیے تک‘ بخشو پال جھاڑتا رہا۔‬ ‫جیب ڈھیلی رکھنے کے باوجود‘ چھبتی اور زہرناک نگاہوں‬ ‫کا شکار رہا۔ روٹی پانی تو دور کی بات‘ کسی نے اس کی‬ ‫طرف دیکھنا تک گوارا نہ کیا۔ اس نے بھی خود کو‘ بری‬ ‫طرح نظرانداز کیا۔ سگریٹ پہ سگریٹ پیتا رہا اور دیر تک‬ ‫چارپائی پر کروٹیں لیتا رہا۔‬


‫دھوم کا ولیمہ ہوا۔ اچھے خاصے لوگ بالئے گیے تھے۔‬ ‫خوب وصولیاں ہوئیں۔ کھتونی کے کئی کورے پنے کالے‬ ‫ہوئے۔ تمام خرچے بخشو کی گرہ سے ہوئے‘ لیکن ہر لسم‬ ‫کی وصولیاں‘ پہگاں کے پلے بندھیں۔ اس روز بھی اسے‬ ‫کسی نے پوچھا تک نہیں۔ اس کی حیثیت‘ گرہ دار موئے‬ ‫کتے سے زیادہ نہ رہی تھی۔‬ ‫شادی گزر گئی‘ لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو‬ ‫گیے۔ صاف ظاہر ہے‘ بخشو کے ساتھ بری ہوئی ہو گی۔ یہ‬ ‫والعہ دوستوں یاروں میں کئی دن‘ باطور مذاق چلتا رہا اور‬ ‫پھر گزرے دنوں کی یاد سے زیادہ نہ رہا۔ ہر کوئی فکر‬ ‫معاش میں گرفتار ہے‘ کون معاملے کی کھوج میں پڑتا۔‬ ‫ایک دن بخشو دوستوں میں بیٹھا ہوا تھا۔ اچھو نے شرارتا‬ ‫اور مذالا پوچھ ہی لیا۔‬ ‫یار بخشو تمہیں کیا سوجھی کہ بیٹے کی شادی پر‘ خوش‬ ‫ہونے کی بجائے‘ اس گلے لگا کر باں باں کرنے لگے۔‬ ‫کتنے احمك ہو تم بھی۔‬


‫بخشو جذباتی سا ہو گیا اور کہنے لگا‪ :‬آج تک سنتے آئے‬ ‫ہیں‘ بیٹیاں پرایا دھن ہیں۔ میں کہتا ہوں یہ غلط ہے‘ بیٹیاں‬ ‫نہیں‘ بیٹے پرایا دھن ہیں۔ میری اماں نے‘ ابا کے ماں باپ‬ ‫بہن بھائی‘ سب چھڑا دیے۔ یہ ہی تائی اماں اور ممانی نے‬ ‫کیا۔ خیر ان کو چھوڑو‘ تم سب بھائی‘ الگ ہو گیے ہو۔‬ ‫تمہارے بڈھا بڈھی بےچارگی کی زندگی گزار رہے ہیں۔‬ ‫کچھ دینا لینا تو دور کی بات‘ زبانی کالمی نہیں پوچھتے‬ ‫ہو۔ شوکا بھی دوسرے ہفتے ہی ہمیں چھوڑ گیا۔ کہاں گیا‬ ‫ماں کا پیار اور ماں کی ممتا۔ وہاں شوکے کی ساس کا آرڈر‬ ‫چلتا ہے۔ ہر جگہ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ میں بھی‘ چوری‬ ‫چھپے اماں ابا سے ملنے جاتا تھا۔ تم سب اپنے گریبانوں‬ ‫میں جھانک کر دیکھو‘ کتنے کو اپنے مائی باپ کے فرماں‬ ‫بردار ہو۔ بہن بھائیوں سے‘ کتنی اور کس سطع کی لربت‬ ‫رکھتے ہو۔ میں کہتا ہوں‘ بیٹیاں نہیں‘ بیٹے پرایا دھن ہیں۔‬ ‫میرا بیٹا دور ہو رہا تھا‘ کیوں نہ روتا۔‬ ‫بخشو کی کھری کھری سن کر‘ سب کو چپ سی لگ گئی۔‬ ‫ایک کرکے سب اٹھ گیے۔ بخشو اکیال ہی رہ گیا۔ یہ معلوم‬


‫نہ ہو سکا‘ کہ سچ کی کڑواہٹ برداشت نہ کر سکے یا‬ ‫ندامت کا گھیراؤ کچھ زیادہ ہی گہرا ہو گیا تھا۔‬

‫کتا اس لیے بھونکا‬

‫ملکیت میں کوئی کم یا زیادہ لیمت کی چیز‘ جہاں ذی روح‬ ‫کو اس کے ہونے کا احساس دالتی ہے‘ وہاں اس میں تکبر‬ ‫کا عنصر بھی سر اٹھا لیتا ہے۔ یہ الگ بات ہے‘ کہ فرعون‬ ‫کو یہ میں لے ہی ڈوبی۔ وہ تاریخ تو الگ رہی‘ الہامی کتب‬ ‫میں بھی مردود اور لابل دشنام لرار پایا۔ یہ سب جانتے‬ ‫ہیں‘ انسان کی ملک میں کچھ بھی نہیں۔ اصل مالک هللا کی‬


‫سوہنی اور سچی ذات ہے۔ سب کچھ اسی کی طرف پھرتا‬ ‫ہے۔‬ ‫ملکیت کی چیز‘ چھن سکتی ہے‬ ‫کسی خرابی کا شکار ہو سکتی ہے۔‬ ‫کسی ولت بھی حادثے کی نذر ہو سکتی ہے‬ ‫بالوجہ ریورس کے عمل میں داخل ہو سکتی ہے۔‬ ‫موت تہی دست کر دیتی ہے۔‬ ‫جب یہ طے ہے کہ انسان کا ذاتی کچھ نہیں‘ تو کچھ ہونے‬ ‫کی صورت میں‘ تشکر باری سے منہ موڑ کر تکبر کی‬ ‫وادی میں لدم رکھنا‘ جائز نہیں بنتا۔ اچھی کرنی اچھی کہنی‬ ‫ہی امرتا کا جام نوش کرتی ہے۔‬ ‫کہاں ہے ممتدر یا مال ابو عمر حمادی کسی کو معلوم تک‬ ‫نہیں کہ یہ کون ہیں‘ منصور کو ہر کوئی جانتا ہے۔سمراط‬ ‫کو کس بدبخت بادشاہ نے موت کے گھاٹ اتارا‘ اس کا‬ ‫کوئی نام تک نہیں جانتا۔ سمراط کو کون نہیں جانتا۔ کل میں‬


‫انٹرنیٹ پر سرمد شہید کا مزار دیکھ رہا تھا‘ پھول اور‬ ‫عمیدت مند موجود تھے۔ اورنگ زیب بادشاہ تھا‘ ممبرہ تو‬ ‫بن گیا‘ وہاں ویرانیوں کا پہرہ تھا۔ مجھے تکبر اورعجز کا‬ ‫فرق محسوس ہو گیا۔‬ ‫انتمام لینا ناجائز نہیں‘ ہاں البتہ معاف کر دینا‘ کہیں بڑھ کر‬ ‫بات ہے۔ جیسے کو تیسا‘ بہرطور رویہ موجود رہا ہے۔ انو‘‬ ‫بڑا ہی مذالیہ ہے۔ روتے کو ہنسا دینا اس کے بائیں ہاتھ کا‬ ‫کھیل ہے۔ یہ ہی کوئی پان سات دن پہلے کی بات ہے‘ گلی‬ ‫میں سے گزر رہا تھا کہ شرفو درزی کا کتا بال چھیڑے‘‬ ‫اس پر بھونکنے لگا۔ وہ نیچے بیٹھ گیا اور جوابا‬ ‫بھونکنے لگا۔ کتا چپ ہو گیا اور اسے بٹر بٹر دیکھنے‬ ‫لگا۔ شاید پہلی بار‘ عجب لسم کا ہم جنس دیکھنے کو مال‬ ‫تھا۔ میں نے پوچھا‪ :‬یار تم ادھر لینے کیا گیے تھے۔‬ ‫اوہ جی جانا کیا تھا‘ بہن کے گھر آٹا لینے گیا تھا۔‬ ‫مل گیا۔‬ ‫جی ہاں‘ مل گیا۔ میں کون سا پہلی بار گیا۔ مل ہی جانا تھا۔‬ ‫میرے اندر عرفی کا یہ مصرع‘ مچلنے لگا۔‬


‫آواز سگاں کم نہ کند رزق گدا را‬ ‫کتا غالبا بل کہ یمینا‘ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے۔ پاگل‬ ‫کسی غیر کے سامنے دست سوال دراز کرنے کی بجائے‘‬ ‫رب سے کیوں نہیں مانگتے۔ خیر انو تو ایک طرف‘ ہماری‬ ‫دفتر شاہی ہو کہ محالتی دنیا‘ کاسہ تھامے نظر آتی ہے۔‬ ‫مولویوں سے کیا گلہ‘ جو درس میں پڑھنے والے بچوں‬ ‫کو‘ گھر گھر مانگنے بھیج دیتے ہیں۔ دست سوال دراز‬ ‫کرنے والے ذلت اٹھاتے ہیں‘ سو اٹھا رہے ہیں۔‬ ‫زکراں کا باپ‘ توڑے بھر سامان لے جاتا‘ تو بابے فجے کآ‬ ‫ناہنجار کتا ضرور بھونکتا۔ چوروں اور بھرے کھیسے‬ ‫والوں پر کتے ضرور بھونکتے ہیں اوریہ فطری امر ہے۔‬ ‫ہمارے ہاں کے لوگ‘ میمیں کرتے آ رہے ہیں۔ داماد یا‬ ‫داماد کے ملک کے وسائل سے البھ اٹھانا‘ ان کا آئینی حك‬ ‫ہے۔ یہ سب صفرر ہی تو ہیں ‘ جو مصلحت کی صلیب پر‬ ‫مصلوب ہو رہے ہیں۔ ایک کی ککرے آمیز بینائی‘ بہت‬


‫سوؤں کے گوڈوں گٹوں میں بیٹھتی ہے‘ سو بیٹھ رہی ہے۔‬ ‫کسی کم زور پر کتے کا بھونکنا‘ بہ ظاہر حیرت سے خالی‬ ‫نہیں۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں‘ کتے کم زورں پر بھونکے‬ ‫اور ان کی جانب لپکے ہیں۔ کم زوروں کے پاس بہت زیادہ‬ ‫ناسہی‘ ان کا کھیسہ خالی نہیں رہا۔ سومنات کا مندر یوں‬ ‫ہی نہیں توڑا گیا‘ اس میں منوں سونا تھا۔ زہے افسوس‘‬ ‫فردوسی سے چوری خور لوگوں نے ایک لٹیرے کو نبی‬ ‫لریب کر دیا۔ اصل حمائك پس پشت چلے گیے۔‬ ‫مائی چراغ بی بی بیس سال سے رنڈیپا کاٹ رہی تھی۔ اس‬ ‫کے کردار پر انگی رکھنا‘ بہت بڑی زیادتی ہو گی۔ بےچاری‬ ‫تھکے لدموں گلی میں سے گزر رہی تھی۔ گلی کا عام‬ ‫آوارہ بدبخت کتا پڑ گیا۔ گرنے کو تھی کہ پیچھے شیدے‬ ‫تیلی نے سمبھاال دے دیا۔ دعا دینے کی بجائے‘ بولنا کیا‘‬ ‫نوکیلی اور دھار دھار آواز میں بھونکنے لگی۔ بڑھاپے‬ ‫میں بھی یہ زناٹا‘ ارے توبہ۔ اس کی پوترتا کو سالم و‬ ‫پرنام۔ بڑھاپے کی جو بھی صورت رہی ہو‘ لگی ہونے کا‬ ‫احساس پوری شدت سے موجود تھا۔ کتا اس لیے بھونکا‘‬


‫کہ اس کے ہاتھ میں کلو بھر گوشت کا شاپر تھا۔‬

‫یہ ہی ٹھیک رہے گا‬

‫اسے اپنے بےمثل اور یکتائے عالم ہونے کا شک گزرا۔ نر‬ ‫شیر ببر ہونے کے شک سے‘ اس کی رگ وپے سے تکبر‬ ‫کے آتش فشانی شعلے‘ بلند ہونے لگے۔ اس امر کے اعالن‬ ‫کے لیے‘ تکبر کی کامل شکتی کے ساتھ دھاڑا۔ اس منہ‬ ‫سے دھاڑ تو نہ سکا‘ ہاں البتہ اس کے منہ سے‘ صور‬ ‫اسرافیل سے مماثل غرغراہٹ ضرور نکل گئی کہ مخلوق‬ ‫ارضی ڈر اور خوف سے لرز لرز گئی۔ اس سے‘ اس کی‬


‫انا کو تسکین ملی اور انا نے اس کی میں کو مزید شکتی‬ ‫دان کی۔ پھر کیا تھا‘ جسم و جان تکبر کی مستی کے کھڈ‬ ‫میں جا گرے۔ ہاں یہ ہوش رہا‘ کہ کہاں دولتی چالنا ہے۔‬ ‫اس نے دور کے ایک عاللے میں پوری شان سے دولتی‬ ‫چالئی کہ وہ عاللہ مٹ گیا۔ چھوٹے بڑے کم زور اور طالت‬ ‫ور نر مادہ دم توڑ گیے۔ کچھار گھونسلے گھروندے زمین‬ ‫بوس ہو گیے۔ سرشاری میسر نہ آ سکی۔ سرشاری کے‬ ‫لیے دوبارہ سے‘ بال غرارئے‘ ایک اور دولتی جڑ دی۔‬ ‫ایک اور عاللہ خاک و خون میں نہا گیا۔‬ ‫بھوک اور سیری‘ حددوں کی چیزیں نہیں ہیں۔ توکل سیری‬ ‫کی من بھاتی کھا جا ہے‘ جب کہ بھوک‘ مزید کی گرفت‬ ‫میں رہتی ہے۔ اس نے لوٹ مار اور لتل وغارت کا بازار‬ ‫گرم کر دیا۔ اس نے ہر تکڑے کے‘ ناصرف ناخن کٹوا دیے‬ ‫بل کہ اپاہج کرکے‘ عزت وشرف سے سرفراز کیا۔ اس کا‬ ‫کھا کر‘ ہڈی اس کے سامنے پھینک دیتا تا کہ وہ مصروف‬ ‫رہے اور اس کی دیا کے‘ گن گاتا رہے۔ ہاں البتہ گاہے‬ ‫بگاہے بھونکتا‘ ٹونکتا اور غراتا رہتا تا کہ سرکشی جنم ہی‬ ‫نہ لے اور کسی کو‘ میں کا دورہ نہ پڑے۔ ہڈی اور حفظ‬


‫ماتمدم کے لیے‘ عاللے کے سبھی لگڑبگڑ اس کے سآتھ‬ ‫ہو لیے تھے۔ انہیں پیٹ اور جی بھر ہڈیاں میسر آ رہی‬ ‫تھیں۔‬ ‫کسی کی خوارک بند کر دیتا۔ کسی کی خوراک کی ترسیل‬ ‫کے رستے‘ بند کر دیتا۔ کسی پر جھپٹ پڑتا۔ خبرگیری کے‬ ‫توتے‘ اسے لمحہ لمحہ کی‘ اطراف کی خبریں پہنچاتے‬ ‫رہتے تھے۔ توتے کبھی کسی کے سگے نہیں رہے۔‬ ‫وفاداری ان کی فطرت میں داخل نہیں۔ وفاداری ان کی‬ ‫فطرت میں ہوتی تو توتے کیوں کہالتے۔ توتے ہمہ ولت‬ ‫چوری کے متمنی رہتے ہیں۔ وفاداری‘ چوری آمد کے ساتھ‬ ‫مشروط ہوتی ہے۔ آمد لوٹ مار سے وابستہ ہے۔‬ ‫لتل و غارت سے گدھ بھی البھ اٹھاتے ہیں۔ جنگلی حیات‬ ‫میں‘ حك سچ کی کوئی معنویت نہیں ہوتی۔ گدھوں کی آواز‘‬ ‫کوئل کی آواز سے بڑھ کر سریلی محسوس ہوتی ہے۔ آتا‬ ‫کل‘ گزرے کل کو‘ ان آوازوں کے حوالہ سے پہچانتا ہے۔‬ ‫کوئل کی آواز‘ سات پردوں کے پیچھے جا چکی ہوتی ہے۔‬ ‫ڈھول کے سامنے ہر ساز کی آواز‘ اپنے وجود سے عاری‬


‫ہو جاتی ہے۔‬ ‫چار پرانے بیٹھے ہوئے تھے۔ عصری حاالت و معامالت پر‬ ‫گفت گو کر رہے تھے۔ کم زوروں کی حالت زار کا رونا رو‬ ‫رہے تھے۔ سب مایوس اور بےبس ہو چکے تھے۔‬ ‫ان میں سے ایک بوال‪ :‬یار اپنے لیڈر سے کیا امید باندھیں‘‬ ‫وہ تو اپاہج گیڈر ہے۔ شیر کا ٹائیٹل تو اعزازی ہے۔ بولیں‬ ‫گے تو جوتے کھائیں گے۔‬ ‫دوسرا بوال‪ :‬جو چل رہا ہے چلنے دیں‘ جنگل میں جنگل کا‬ ‫لانون چلتا ہے۔‬ ‫تیسرا بوال‪ :‬کچھ تبدلی آئے گی۔‬ ‫چوتھے نے کہا‪ :‬ہاں یار‘ کچھ تو تبدیلی آئے گی۔‬ ‫پہال‪ :‬سب ایک جگہ جمع ہو کر دعا تو کر سکتے ہیں۔‬ ‫اگر اسی پتا چل گیا تو دولتی سے کیسے بچیں گے‬ ‫دوسرا ہاں یہ تو ہے‬ ‫پہال تو پھر کیا کریں۔‬ ‫چوتھے‪ :‬گھروں میں بیٹھ کر دعا کر سکتے ہیں۔‬


‫پہال‪ :‬یہ ٹھیک رہے گا۔‬ ‫تیسرا‪ :‬مخبری ہو گئی تو‬ ‫پہال‪ :‬ہاں بعید از لیاس نہیں‬ ‫دوسرا‪ :‬کچھ تو کرنا پڑے گا۔‬ ‫دوسرا‪ :‬کرنا کیا ہے‘ جو چل رہا ہے‘ چلنے دیں۔‬ ‫چوتھا‪ :‬ہاں یہ ہی درست رہے گا۔‬ ‫پھر سب یک زبان ہو کر بولے‪ :‬ہاں ہاں یہ ہی ٹھیک رہے‬ ‫گا‪ ،‬یہ ہی ٹھیک رہے گا اور وہ چاروں اپنے اپنے گھروں‬ ‫کو چل دیے۔‬

‫کردہ کا انتمام‬


‫اس کا اصل نام ممتاز تھا‘ ممو کپتی سسرالی نہیں‘ اس کے‬ ‫میکے کا دیا ہوا نام تھا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وہ اطراف میں‘‬ ‫اسی نام سے معروف تھی۔ یہ نام اصلی سا ہو گیا تھا۔ اصل‬ ‫نام محض کاغذوں کی زینت ہو کر رہ گیا تھا۔ یہ تو معلوم‬ ‫نہیں کہ یہ نام کس نے دیا‘ لیکن ایسا چال کہ سب اس کے‬ ‫اصل نام کو ہی بھول گیے۔ جس کے پیچھے پڑ جاتی‘ اسے‬ ‫جان چھڑانی مشکل ہو جاتی۔ یہ ہی وجہ تھی کہ اس کی‬ ‫کوئی ہاں کی نہ کرتا‘ بل کہ جان چھڑنے میں ہی عافیت‬ ‫سمجھتا۔ ساس نندیں تو ایک طرف‘ چودھری باغ علی کا‬ ‫عاللے میں وجکرہ اور بڑا ٹوہر ٹپا تھا‘ وہ بھی ممو سے‬ ‫کنی کتراتا تھا۔ نادانی کے پیار کی سزا بھگت رہا تھا۔ جو‬ ‫بھی سہی‘ اسے ممو کے پیار اور کردار پر پورا پورا‬ ‫بھروسہ تھا۔ اس کا کہنا تھا‪:‬‬ ‫ممو میری بیوی ہے‘میں اسے جانتا ہوں‘ وہ زبان کی تلخ‬ ‫اور کوتھری ضرور ہے‘ لیکن دل کی بری نہیں۔‬


‫زمانہ بھی کتنا منافك ہے‘ منہ پر سچ کہنے سے کتراتا‬ ‫ہے۔ بہنیں ممو کی اصلیت سے آگاہ تھیں لیکن وہ بھی چپ‬ ‫کے روزے میں رہتیں۔ کیا کرتیں‘ وہ جانتی تھیں کہ ان کا‬ ‫بھائی‘ بیوی کی ہی مانے گا اور وہ منہ کی سالم دعا سے‬ ‫بھی جائیں گی۔ اپنوں کی یہ حالت تھی تو کسی غیر کو کیا‬ ‫پڑی کہ آ بیل مجھے مار کی راہ لیتا۔ اس کی بیوی ہے‘ وہ‬ ‫جانے اور اس کا کام جانے۔‬ ‫چودھری باغ علی‘ بنیادی طور پر شریف آدمی تھا۔ گھر‬ ‫میں سادہ لباس پہنتا‘ جب پرے پنچایت ٰمیں آتا تو پورے بن‬ ‫ٹھن کے ساتھ آتا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ بات اور لول کا‬ ‫بڑا پکا اور سچا تھا۔ جو کہتا یا وعدہ کرتا‘ ہر حال میں‬ ‫پورا کرتا۔ ایک طرف پوری دنیا‘ یہاں تک کہ ممو بھی‬ ‫ہوتی‘ چودھری اپنی بات سے رائی بھر بھی ادھر ادھر نہ‬ ‫ہوتا‪ ،‬یہ ہی وجہ تھی کہ لوگ‘ دل سے اسے اپنا چودھری‬ ‫تسلیم کرتے تھے۔ زندگی کے ہر معاملے میں‘ اس کا‬ ‫اعتبار کرتے اور اس کا ساتھ دیتے۔ دکھ سکھ میں‘ اس‬ ‫کے ساتھ کھڑے ہوتے۔ بہنیں اسے رن مرید سمجھتی تھیں‬ ‫حاالں کہ اصولوں پر سمجھوتا کرتا ہی نا تھا۔ جو کرتا راہ‬


‫خدا کرتا۔‬ ‫بھلوں کے ساتھ آزمائش ہمیشہ کھڑی رہتی ہے۔ ممو ہر‬ ‫معاملے میں فٹ فاٹ تھی۔ گوشت کی دو دو پلیٹں ڈکار‬ ‫جاتی۔ تیز تیز چلتی‘ فٹا فٹ بولتی بل کہ چالتی‘ مجال ہے‘‬ ‫جو کبھی دم آیا ہو۔ دیکھنے میں چنگی بھلی تھی۔ عجیب‬ ‫بات ہے‘ دسمبر کی سردیوں میں بھی‘ اسے سخت گرمی‬ ‫لگتی تھی۔ چودھری نے کوئی حکیم‘ ڈاکٹر‘ پیر فمیر نہ‬ ‫چھوڑا‘ لیکن کہیں سے فیض نہ مال۔ اب تو وہ مایوس سا‬ ‫ہو گیا تھا۔‬ ‫پرائمری سکول کے ساتھ ہی‘ ایک یک کمرہ مسجد تھی۔‬ ‫مسجد کے پچھواڑے میں‘ ایک شخص پڑا رہتا تھا۔ لوگ‬ ‫اس کی جانب کوئی دھیان نہیں دیتے تھے۔ پتا نہیں صبح و‬ ‫شام‘ اسے روٹی کون دے جاتا تھا۔ ایک کتا اس کے پاس‬ ‫آتا رہتا تھا۔ کچھ دیر بیٹھتا اور چال جاتا۔ بعد میں معلوم ہوا‬ ‫کہ وہ کتا‘ اس کے لیے روٹی التا ہے۔ کتے کے منہ کی‬ ‫روٹی کھاتا۔ لوگوں کی نفرت کے لیے یہ انکشاف کافی تھا۔‬ ‫لوگ شاید اسے گاؤں سے نکال ہی دیتے‘ لیکن چودھری‬


‫نے ایسا کرنے سے سختی سے منع کر دیا تھا۔ لوگوں نے‬ ‫اسے کبھی بولتے یا کسی سے بات کرتے نہیں دیکھا تھا۔‬ ‫جب کبھی موڈ میں ہوتا تو کہتا‬ ‫واہ مالکا توں توں ای ایں یعنی واہ مالک تم تم ہی ہو‬ ‫ایک دن چاروں طرف سے مایوس چودھری‘ اس کے پاس‬ ‫چال گیا۔ چودھری حیران ہوا کہ لوگ کہتے ہیں‘ اس سے‬ ‫بدبو آتی ہے۔ اسے بدبو کی بجائے‘ اس سے ایسی خوش‬ ‫بو آئی کہ اس کے تن بدن میں عجیب طرح کی تازگی اور‬ ‫سرشاری گردش کرنے لگی۔ وہ سب کچھ بھول گیا۔ دیر‬ ‫تک ٰیوں ہی اس کے پاس بیٹھا رہا۔ دونوں طرف گہری‬ ‫خاموشی کا عالم طاری رہا۔ پھر اس نے اشارے سے اٹھ‬ ‫جانے کو کہا اور وہ اٹھ کر چال گیا۔ وہ اپنا تجربہ اوروں‬ ‫سے بھی شیئر کرنا چاہتا تھا‘ لیکن اس نے سوچا ایک‬ ‫فمیر کا بھید ہے‘ جسے کھولنے کا اسے کوئی حك نہیں۔‬ ‫پھر وہ وہاں آنے جانے لگا اور خوش بو سے حظ لینے‬ ‫لگا۔ کئی دن یہ سلسلہ چلتا رہا۔ وہاں جا کر‘ وہ سب کچھ‬


‫بھول جاتا۔ اسے ان جانا سا آنند ملتا۔ ایک دن‘ تھوڑی دیر‬ ‫ہی بیٹھا ہو گا‘ کہ وہ بندہءخدا بوال‪ :‬رزق حرام‘ بد نیتی‘‬ ‫مالک سے غداری‘ ناشکری اور تکبر سے بھرے جسم‬ ‫میں زمین پر ہی جہنم رکھ دی جاتی ہے۔ یہ مسلہ ممو کا‬ ‫ہی نہیں‘ سب کا ہے۔“ اس کے بعد اس نے چودھری کو‬ ‫ٰ‬ ‫وہاں سے اٹھا دیا اور ایک لمحہ بھی مزید بیٹھنے کی‬ ‫اجازت نہ دی۔‬ ‫وہ سارے رستے غور کرتا رہا‘ اس درویش کا کہا غلط نہ‬ ‫تھا۔ چودھری کی بڑے بڑے چودھریوں سے ماللات رہتی‬ ‫تھی۔ دو منٹ کے لیے یہ چودھری‘ اے سی والے کمرے‬ ‫سے باہر آ جاتے تو ان کی جان لبوں پر آ جاتی۔ وہ سارے‬ ‫پرلے درجے کے حرام خور‘ بد نیت‘ ناشکرے اور متکبر‬ ‫تھے۔‬ ‫اصل گھتی تو ممو کی تھی۔ چودھری حرام رزق کھانا تو‬ ‫دور کی بات‘ اس پر تھوکنا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔ اسی‬ ‫طرح بالی چاروں باتیں بھی‘ حیرت سے خالی نہ تھیں۔‬ ‫اسے یمین تھا کہ وہ درویش غلط بھی نہیں کہہ سکتا۔ کہیں‬


‫ناکہیًں گڑبڑ ضرور ہے۔ پھر اس نے حمیمت کھوجنے کا‬ ‫ارادہ کر لیا۔ اسے دکھ ہو رہا تھا کہ وہ ممو پر اندھا اعتماد‬ ‫کرتا رہا۔ وہ اس کے اعتماد کو بڑی بیدردی سے پائمال‬ ‫کرتی رہی۔ غصہ کیا آنا تھا‘ دکھ کا ہمالہ اس پر آن گرا تھا۔‬ ‫اس نے پوری دیانت کے ساتھ‘ پانچوں امور کی تہ تک‬ ‫جانے کی کوشش کی۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس سے غصہ‬ ‫کے عالم میں کچھ غلط سلط ہو جائے۔‬ ‫ممو متکبر تو شروع ہی سے تھی۔ اسے اپنے خوب‬ ‫صورت ہونے کا احساس‘ کچھ زیادہ ہی تھا۔ خیر اب تو وہ‬ ‫چودھرین تھی‘ گویا‬ ‫ایک کریال اوپر سے نیم چڑھا۔‬ ‫کھوج کی تکمیل کے بعد‘ اسے مزید دکھی ہونا پڑا‘ جسے‬ ‫وہ سیتا و مریم کی طرح پوتر سجھ رہا تھا‘ وہ گندگی کے‬ ‫ڈھیر سے زیادہ نہ تھی۔ اب اسے سجھ آیا‘ کہ وہ اپنے‬ ‫کپتےپن سے‘ اپنے کرتوتوں پر پردے ڈالنا چاہتی تھی۔‬


‫اردگرد کے لوگ اس کے اس کپتےپن سے ڈر کر‘ منہ پر‬ ‫چپ کے تالے ڈالے رکھیں۔ وہ اپنے اس ہنر کی بدولت‘‬ ‫سب کچھ کرکے بھی‘ عموم و خصوص میں بی حجن بنی‬ ‫ہوئی تھی۔‬ ‫چور کو پکڑ کر بھی‘ چودھری اسے چور نہیں کہہ سکتا‬ ‫تھا۔ بچے اس کے پاؤں کی زنجیر بنے ہوئے تھے۔ عین‬ ‫ممکن ہے‘ ان میں سے کوئی بچہ بھی اس کا نہ ہو۔ اس‬ ‫نے انہیں بڑے الڈ پیار سے پاال تھا‘ اب وہ انہیں چھوڑ‬ ‫بھی نہیں سکتا تھا۔ اسے ان سے بڑا پیار تھا۔ اس نے بڑا‬ ‫سوچا کہ کوئی حل ڈھونڈ نکالے‘ لیکن سارے رستے‬ ‫جیسے بند ہو گئے تھے۔‬ ‫جب سوچ سوچ کر تھک گیا اور کوئی حل تالش نہ سکا تو‬ ‫اس درویش کی جانب چل دیا۔ اسے یمین تھا‘ کوئی ناکوئی‬ ‫رستہ نکل ہی آئے گا۔ جب وہاں پہنچا تو دیکھا‘ وہاں کچھ‬ ‫بھی نہ تھا۔ کافی دیر وہاں بیٹھا رہا لیکن درویش لوٹ کر‬ ‫نہ آیا۔ کتا بھی دور تک دکھائی نہ دے رہا تھا۔ جانے والے‬ ‫لوٹ کر کب آتے ہیں۔ اگر انہیں لوٹ آنا ہو تو جائیں ہی‬


‫کیوں۔‬ ‫اب ممو کے بدن میں دہکتا جہنم‘ اسے لدرت کی جانب سے‬ ‫کردہ کا انتمام محسوس ہوا۔ وہ بڑ بڑایا ممو کو تامرگ اس‬ ‫جہنم میں جلتے رہنا ہو گا۔ لدرت اسے پیار اور اعتماد سے‬ ‫سے غداری کی سزا دے رہی ہے۔ پھر اس کے منہ سے‬ ‫بےاختیار نکل گیا‬ ‫واہ مالکا توں توں ای ایں‬ ‫اس نے پگڑی کھسہ اتارا اور پرے روڑی پر پھینک دیا‬ ‫اور خود آنکھیں بند کرکے‘ اس درویش کی جگہ پر بیٹھ‬ ‫گیا۔ لوگ اسے فرار کا نام دے رہے تھے‘ لیکن اس کے دل‬ ‫میں یہ بات گھر کر گئی‘ کہ دنیا رہنے کی جگہ نہیں۔ اس کا‬ ‫اور دنیا کا رستہ‘ ایک نہیں ہو سکتا۔‬


‫حمیمت پس پردہ تھی‬

‫صابر علی اور اس کی بیوی‘ زندگی کا آخری موسم دیکھ‬ ‫رہے تھے۔ تمام بچے اپنے اپنے گھروں میں آباد ہو گئے‬ ‫تھے‘ بس حمید‘ جو سب سے چھوٹا تھا‘ کا گھر آباد کرنا‬ ‫بالی رہ گیا تھا۔ ان کی نظروں میں اچھے اچھے رشتے‬ ‫بھی تھے‘ لیکن وہ شادی کے نام سے بدک جاتا تھا۔ ایک‬ ‫دن‘ میاں بیوی نے پروگرام بنایا کہ یہ اس طرح سے‬ ‫ماننے واال نہیں‘ زبردستی شادی کر دیتے ہیں‘ شاید ہم بھی‬ ‫اس کی اوالد کا منہ دیکھ لیں۔ پھر انہوں نے‘ رشتہ ڈنڈھ‬ ‫نکاال اور بات بھی پکی کر دی۔ حمید نے الکھ عذر پیش‬ ‫کیے‘ لیکن انہوں نے اس کی ایک نہ سنی۔ اشاروں کنائیوں‬ ‫میں‘ شادی نہ کرنے کی وجوہ بھی پیش کیں۔ شاید انہوں‬ ‫نے‘ اس کی ایک بھی نہ سننے کی لسم کھا لی تھی۔‬ ‫شادی کے دن طے ہو گئے۔ شادی کی تیاریاں ہونے لگیں۔‬


‫گھر میں خوشیوں نے ڈیرے ڈال لیے۔‬ ‫جوں جوں شادی کے دن نزدیک آتے گئے‘ گھر میں‬ ‫خوشیاں رلص کرنے لگیں۔ بہنیں‘ رات کو ڈھولک لے کر‬ ‫بیٹھ جاتیں۔ ہنسی مذاق ہوتا‘ اور خوب چھیڑ چھاڑ چلتی۔‬ ‫لباس زیر گفتگو آتے۔ بڑی بوڑھیوں میں‘ جہاں گھریلو اور‬ ‫مالی مسائل کا رونا رویا جاتا‘ وہاں چغلیوں بخیلیوں کا بھی‬ ‫جمعہ بازار لگ جاتا۔ مردوں کی بےرخی‘ الپرواہی اور ان‬ ‫کی‘ ان کے اپنوں پر شاہ خرچی کا دکھڑا بھی زیر بحث آتا۔‬ ‫یہ ہی نہیں‘ ان کی جنسی کم زوری وغیرہ کا بھی رونا رویا‬ ‫جاتا۔ ہر کوئی اپنے حاالت میں مست تھا۔‬ ‫کسی نے حمید کی جانب توجہ نہ دی‘ کہ پریشان اور چپ‬ ‫چپ کیوں ہے۔ اسے غصہ آتا‘ کہ یہ کیسے مائی باپ اور‬ ‫بہن بھائی ہیں‘ جو اس کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں دیتے۔‬ ‫خیر‘ یہ اس کی غلطی بھی تھی‘ کہ وہ اپنے کسی کزن ہی‬ ‫سے بات کر لیتا‘ کہ اس نے غلط کاری میں سب کچھ کھو‬ ‫دیا ہے اور اب وہ شادی کے لابل ہی نہیں رہا۔ اپنے طور‬ ‫پر‘ حکیموں ڈاکٹروں کے نسخے آزماتا رہا۔ بہتری کی‬


‫بجائے‘ خرابی کا دروازہ ہی کھال۔ کسی کو حمید کی رائی‬ ‫بھر فکر نہ تھی‘ کہ وہ دن بہ دن‘ ذہنی اور جسمانی طور‬ ‫پر نیچے آ رہا تھا۔‬ ‫بارات جانے میں‘ تین دن بالی رہ گیے تھے کہ حمید‬ ‫چارپائی لگ گیا۔ فورا ایمرجنسی میں لے جایا گیا۔ وہاں‬ ‫بھی‘ اس کے گھر والوں سے مماثل لوگ‘ الامت گزین‬ ‫تھے۔ وہ تکلیف سے مر رہا تھا‘ لیکن ہسپتال والے اپنے‬ ‫حال میں مست تھے۔ بےبابائی لوگ‘ ہمیشہ ذلت کا شکار‬ ‫رہے ہیں۔ بابائی انڈر کیر تھے اور حمید ابھی تک‘ محض‬ ‫ایمرجنسی کا مریض تھا۔ جھڑنے کے بعد‘ اس کی بھی‬ ‫سنی گئی۔ سترہ گھنٹے وہ ایمرجنسی میں رہا۔ بوتلیں‬ ‫شوتلیں اور ٹیکے شیکے لگے تو بہتری کی صورت نکلی۔‬ ‫بالی ولت ہی کتنا رہ گیا تھا۔ انتظام ہو چکے تھے۔ پیغامات‬ ‫بھیجے جا چکے تھے۔ حمید بستر سے اٹھ بیٹھا تھا۔‬ ‫ہسپتال سے چھٹی لے لی گئی۔‬ ‫بےسوادی میں ہی بارات گئی۔ باہر باپ اور بھائی‘ جب کہ‬ ‫اندر بہنیں‘ دلہا کے پاس اور کنمریب رہیں۔ سسرال میں‬


‫بھی چوں کہ اطالع ہو چکی تھی‘ کہ دلہا ہسپتال کی یاترا‬ ‫سے لوٹا ہے‘ لہذا کوئی ہلہ غلہ نہ کیا گیا۔ بس ہلکی پھلکی‬ ‫ہنسی مذاق کا سماں رہا۔ دلہا کی خاموشی اور چہرے کی‬ ‫زردی کو بیماری کے اثرات پر محمول کیا گیا۔ جب کہ اصل‬ ‫حمیمت کچھ اور ہی تھی۔ وہ آتے ولت کے جنسی معامالت‬ ‫کے خوف سے نیال پیال ہو رہا تھا۔‬ ‫پھر اس کا چہرا کھل اٹھا۔ اس اچانک تبدیلی پر‘ سب حیران‬ ‫تھے۔ سب نے اسے شادی کی خوشی سمجھا۔ اصل بات‬ ‫کوئی اور تھی۔ حمید کو پہا خادم کا لول یاد آ گیا تھا۔‬ ‫مرحوم کا کہنا تھا‘ کہ خیالی پالؤ میں رسد کی کمی‬ ‫خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ اس لول کے زیر اثر اس نے‘ آتے‬ ‫لمحوں کا منصوبہ تیار کر لیا تھا۔ حمید کے چہرے پر‬ ‫رلصاں شادابی کے بعد‘ خوشیوں کا ناک نمشہ ہی بدل گیا۔‬ ‫دلہن کے گھر النے تک‘ ہر طرح کی رسمیں پوری کی‬ ‫گئیں۔ گھر آنے تک‘ رات کے نو بج چکے تھے۔ دو گھنٹے‬ ‫لڑکیوں اور عورتوں نے لے لیے‘ سالمیاں وغیرہ ہوتی‬ ‫رہیں۔ ادھر لڑکے حمید کے ساتھ چھیڑ چھاڑ میں مصروف‬ ‫رہے۔ وہ بھی خوش دلی سے‘ اس ہنسی مذاق میں شامل‬


‫رہا۔‬ ‫گیارہ بجے حمید‘ دلہن کے کمرے میں داخل ہوا۔ اس کا‬ ‫امتحان شروع ہو چکا تھا۔ وہ کمال کی اداکاری کا مظاہرہ‬ ‫کر رہا تھا۔ اس کی اداکاری کو‘ دلیپ کمار بھی دیکھ لیتا‘‬ ‫تو عش عش کر اٹھتا۔ اس کا کمرے میں داخل ہونا‘ اداکار‬ ‫امریش پوری سے مماثل تھا۔ دلہن کا گھونگھٹ اٹھانا‘‬ ‫وحید مراد کا سا تھا۔ جعلی بےاختیاری سے‘ واہ واہ کر‬ ‫اٹھا۔ وہیں سجدہ میں گر گیا۔ پھر دلہن کے پاس ہی بیٹھ گیا‬ ‫اور کہنے لگا‪ :‬هللا کا الکھ الکھ شکر ہے‘ کہ تم ایسی حسین‬ ‫بیوی مجھے ملی۔ حوریں بھی کیا ہوں گی‘ تم الکھوں میں‬ ‫ایک ہو۔ میں تمہارے ممابلے میں کچھ بھی نہیں ہوں‘‬ ‫دیکھو کبھی بھی میرا ساتھ نہ چھوڑنا۔‬ ‫دلہن اس بات پر فخریہ مسکرائی۔ میک اپ نے اسے تھوڑا‬ ‫بنا سنوار دیا تھا‘ ورنہ حسن نام کی چیز اس میں سرے‬ ‫سے موجود ہی نہ تھی۔‬ ‫پھر وہ تھوڑا فرینک ہو کر‘ اس کے پاس ہی بیٹھ گیا اور‬ ‫کہنے لگا‪ :‬سب کچھ ہوتا رہے گا‘ آج پہلے دن ہی زندگی کا‬ ‫منصوبہ بنا لیتے ہیں اور پھر‘ اس کے بعد‘ اس منصوبے‬


‫پر عمل کرکے‘ زندگی کو سکھی بنا لیں گے۔ تم ہی بتاؤ‘‬ ‫کیسی زندگی گزارنا چاہتی ہو۔‬ ‫دلہن تھوڑا شرمائی اور کہنے لگی‪ :‬جانو میں چاہتی ہوں‘‬ ‫ہمارا اپنا ایک گھر ہو‘ جہاں صرف اور صرف ہم دونوں‬ ‫ہوں۔ مجھے غیروں کی مداخلت لطعی پسند نہیں۔‬ ‫دیر تک باتیں ہوئیں۔ عالی شان کوٹھی خریدی گئی۔ اس‬ ‫کوٹھی میں ضرورت کی ہر چیز سجائی گئی۔ سواری کے‬ ‫لیے نئی اور اچھے والی کار خریدی گئی۔ باتوں کے دوران‬ ‫اس نے ایسی کوئی حرکت نہ کی کہ کوئی گالواں گلے پڑتا‬ ‫اور اصلیت کھل جاتی۔ باتوں باتوں م ٰیں صبح کی آزان‬ ‫ہونے لگی۔‬ ‫اف میرے خدا‘ تمہارے ساتھ گزرے لمحے کتنی جلدی گزر‬ ‫گیے ہیں کہ پتا بھی نہیں چال۔ کتنا اچھا ساتھ ہے۔ ہماری‬ ‫زندگی خوب گزرے گی۔ پریشانی کا دور تک نام و نشان‬ ‫نہیں ہو گا۔ تم سے اچھا ساتھی مل ہی نہیں سکتا۔ اچھا اب‬ ‫تم سو رہو‘ میں مسجد جا رہا ہوں۔ نماز پڑھوں گا۔ تم سا‬


‫ساتھی ملنے پر شکرانے کے نوافل ادا کروں گا۔ مجھے تم‬ ‫مل گئی ہو‘ اب کسی اور چیز کی تمنا ہی نہیں رہی۔ دلہن‬ ‫مسکرائی‘ اس کی مسکراہٹ میں بال کی گرمی تھی‘ کوئی‬ ‫اور ہوتا تو وہیں ڈھیر ہو جاتا۔ ہر ایمرجنسی اور جلدی‬ ‫ساکت و جامد ہو جاتی۔ وہ بھی ٹھٹھکا‘ مگر گزرے کل کی‬ ‫غلطیوں نے‘ اسے دروازے سے باہر دھکیل دیا۔ مجبوری‬ ‫تھی‘ کیا کر سکتا تھا۔ دلہن دکھائے گئے سبز باغوں کی‬ ‫آغوش میں چلی گئی اور سکون کی نیند نے اسے آ لیا۔‬ ‫صبح ہوئی‘ سب خیر خیریت سے گزر گیا۔ رات گئی بات‬ ‫گئی۔ دلہن خوش تھی کہ اسے اتنا اچھا شوہر مل گیا ہے۔‬ ‫پھر میکے والے آئے اور اسے ساتھ لے کر چلے گیے۔‬ ‫دلہن نے ماں کے گھر جا کر حمید کی تعریفوں کے پل‬ ‫باندھ دیے۔ دلہن کے گھر میں خوشیاں منائی جا رہی تھیں‬ ‫کہ پہلی رات میں ہی دلہا کو گھٹنوں تلے رکھ لیا گیا ہے‘‬ ‫ورنہ اس میں کچھ تو ولت لگتا ہی ہے۔ اس نے عالی شان‬ ‫کوٹھی‘ کار‘ فریج کی خریداری کے عالوہ الکھوں روپیے‬ ‫کی شاپنگ کی۔ شادیانے تو بجنے ہی تھے۔‬


‫ادھر حمید نے مسلہ کھڑا کر دیا کہ میں اس عورت کے‬ ‫ساتھ زندگی نہیں گزار سکتا‘ جو پہلے روز ہی ماں باپ‬ ‫اور بہن بھائیوں سے مجھے دور کر رہی ہے‘ آتے ولتوں‬ ‫میں پتا نہیں کیا کیا گل کھالئے گی۔ اگر نہیں یمین آتا تو یہ‬ ‫‪:‬ریکارڈنگ سن لیں‬ ‫جانو میں چاہتی ہوں‘ ہمارا اپنا ایک گھر ہو‘ جہاں صرف‬ ‫اور صرف ہم دونوں ہوں۔ مجھے غیروں کی مداخلت لطعی‬ ‫پسند نہیں۔‬ ‫ریکارڈنگ سن کر‘ سب سیخ پا ہو گیے۔ طرح طرح کے‬ ‫بیانات جاری ہوئے۔ صابر اور اس کی بیوی کو بڑا دکھ ہوا۔‬ ‫حمید کی ماں بولی‘ بوتھی سے کتنی شریف اور بھولی‬ ‫بھالی لگ رہی تھی۔‬ ‫صابر بوال‘ بڑی سیانی بنی پھرتی ہو‘ تم نے ہی میرے‬ ‫بیٹے کی زندگی برباد کی ہے۔‬ ‫دونوں میں کافی بحث چلی۔ کنیز کا یہ بیان برادری کیا‘‬ ‫آس پاس میں خوب مشہور ہوا۔ کئی ماہ دونوں خاندانوں‬ ‫میں ٹھنی رہی اور آخرکار طالق ہو گئی۔ چؤًں کہ حمیمت‬


‫پس پردہ تھی‘ اس لیے حمید کی کامیاب اداکاری کی‘ کوئی‬ ‫داد نہ دے سکا۔‬


‫الحول وال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫میں خود سے پیدا نہیں ہوا‘ میری تخلیك میں هللا کی‬ ‫مرضی اور رضا شامل تھی۔ میں نہیں جانتا تھا کہ میں کون‬ ‫ہوں‘ اس نے مجھے شناخت دی۔ نوری و ناری مخلوق کو‘‬ ‫میں نے نہیں کہا کہ مجھے سجدہ کرو۔ یہ بھی هللا‘ جو میرا‬ ‫خالك ہے‘ نے حکم دیا۔ سب هللا کی مرضی سے چلتا ہے‘‬ ‫عزازیل خوب جانتا تھا۔ میں کی گرفت میں آ گیا۔ میں کی‬ ‫گرفت بڑی بری ہوتی ہے۔ اس کی پکڑ میں آیا‘ اپنے آپے‬ ‫میں نہیں رہ پاتا۔ حکم کی تعمیل نہ کرکے‘ سب کچھ کھو‬ ‫بیٹھا۔ اسے اپنی شناخت تک یاد نہ رہی۔ شناخت یاد میں آ‬ ‫جاتی‘ تو توبہ کے دروازے پر ضرور آتا۔‬ ‫عجب الٹی کھوپڑی کا مالک ہے۔ میرا اور اس کا‘ سرے‬ ‫سے کوئی مسلہ ہی نہیں‘ لیکن تنگ مجھے کرتا ہے۔ آج‬ ‫صبح میں مسجد سے نماز پڑھ کر نکل رہا تھا کہ ایک لاتل‬ ‫حسینہ کے روپ میں‘ میرے سامنے آ گیا۔ میری طرف بڑی‬


‫رومان خیز مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا۔ سچی بات تو یہ‬ ‫ہے‘ کہ میں لطعا بھول گیا‘ کہ نماز پڑھ کر مسجد سے نکل‬ ‫رہا ہوں۔ اس نے رفتار کم کر دی اور میں اس کے پیچھے‬ ‫پیچھے چل دیا۔ مجھے یہ بھی یاد نہ رہا‘ کام پر بھی جانا‬ ‫ہے۔ اس مسکراہٹ میں ممناطیسی لوت تھی۔‬ ‫میں تو خود کو بھول ہی گیا تھا‘ میرے اندر بیٹھے شخص‬ ‫نے کہا‪ :‬کتے‘ یہ کیا کررہے ہو۔ ہڈی دیکھی اور پیچھے‬ ‫پیچھے چل دیے ہو۔ لعنت ہے تمہارے دوہرے رویے پر‘‬ ‫مسجد میں نماز پڑھتے ہو اور ایک مسکان پر مر مٹے ہو‘‬ ‫تم کیسے بندے ہو۔‬ ‫اس آواز نے‘ مجھے شرم سے پانی پانی کر دیا اور میں‬ ‫نے دل ہی دل میں‘ الحول وال پڑی۔ پھر کیا تھا‘ اس نے‬ ‫میری طرف کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور دوسری‬ ‫گلی میں داخل ہو گیا۔ اگر هللا احسان نہ کرتا‘ تو میں مارا‬ ‫گیا تھا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ میری نماز تو فسك ہو گئی‬ ‫ہے‘ میں جہاں کھڑا تھا‘ وہیں سجدہ ریز ہو گیا۔ میں نے‬ ‫لوگوں اور زمین پر پڑی گندگی کی پرواہ نہ کی۔ یہ اس‬


‫گندگی سے بڑھ کر نہ تھی‘ جو میرے اندر گھس آئی تھی۔‬ ‫دفتر میں میرا اور اس کا ٹاکرا ہوتا رہتا ہے۔ سائل بن کر‘‬ ‫نیلے پیلے اور سرخ نوٹوں کے ساتھ آتا رہتا ہے۔ ظالم‬ ‫مجھے بکاؤ مال سمجھتا ہے۔ میں طوائف نہیں ہوں‘ جو‬ ‫اس کے بہکاوے میں آ جاؤں گا۔ اس کی کمینگی کی حد تو‬ ‫دیکھیں‘ یہ ہی کوئی چھے سات دن پہلے کی بات ہے۔ میں‬ ‫ابھی دفتر سے لوٹا ہی تھا‘ کہ گھر پر آ گیا۔ میں نے‬ ‫بیٹھک میں بٹھایا۔ ٹھنڈا پانی پیش کیا۔ اس نے نوٹ‬ ‫وکھائے کہ ناحك کرنے کے لیے‘ میرا موڈ بنے۔ مجھے‬ ‫بڑا تاؤ آیا اور میرا چہرا غصے سے سرخ ہو گیا۔ گمان تھا‬ ‫کہ اندر خبر نہیں ہوئی‘ شازیہ کو چھپ چھپ کر باتیں‬ ‫سننے کا ٹھرک ہے۔ اسے حمیمت کا علم ہو گیا تھا۔ خیر‘‬ ‫میں نے جی میں ال حول وال پڑی‘ اس نے کھا جانے والی‬ ‫نظروں سے مجھے دیکھا اور اٹھ کر چال گیا۔ وہ تو چال‬ ‫گیا‘ ہنستی مسکراتی شازیہ دہکتا انگارہ بن گئی۔ میرے‬ ‫ساتھ جو ہوا‘ مت پوچھیے‘ وہ بھی سچی تھی کہ میں نے‬ ‫آتے نوٹوں کو دھتکارا تھا۔‬


‫بڑا ڈھیٹ ہے‘ خواہ مخواہ میرے ساتھ پنگا لیتا رہتا ہے۔‬ ‫میں ناک کی سیدھ پر جا رہا ہوں‘ جانے دے۔ میں کوئی‬ ‫بہت بڑا آدمی نہیں ہوں‘ مجھ سے اسے کیا مل سکتا۔ کسی‬ ‫بڑے آدمی کے پاس جائے۔ اسے معلوم ہے‘ کسی بڑے‬ ‫آدمی کے پاس گیا تو وہ ناسیں سیک دے گا۔ میں ہوں کیا‘‬ ‫کچھ بھی نہیں‘ یہ جانتے ہوئے بھی میرے آس پاس میں‬ ‫الامت کئے ہوئے ہے۔‬ ‫دفتر کی نوکری میں ایسے حادثے‘ روز کا معمول تھا۔‬ ‫جھگڑے سے میری بڑی جان جاتی ہے۔ شیطان سے ہر‬ ‫روز کی لڑائی سے تنگ آ کر‘‘ میں نے دفتر کی نوکری ہی‬ ‫چھوڑ دی۔ مجھے فرار ہی میں عافیت نظر آئی۔ گھر میں‬ ‫بھی کم آمدنی پر ہر روز جھگڑا ہوتا تھا۔ پوری تنخواہ‬ ‫ہتھیلی پر رکھ دیتا تھا۔ روز کا خرچہ شازیہ سے لے کر‬ ‫جاتا تھا۔ جب بھی بس کا کرایہ وغیرہ مانگتا‘ بڑی لہ پہا‬ ‫کرتی‘ میں سب برداشت کر جاتا۔ تنخواہ میں سے کچھ‬ ‫رکھتا تو مجرم ٹھہرتا۔ تنخواہ کے عالوہ کدھر سے التا۔‬ ‫جب کہ وہ اوروں کی مثالیں دیتی۔‬


‫میں نے الء کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی تھی۔ سوچا‬ ‫وکالت کرتا ہوں۔ اس طرح بےگناہ لوگوں کی مدد بھی کر‬ ‫سکوں گا اور دال روٹی بھی چلتی رہے گی۔ میدان عمل‬ ‫میں لدم رکھا تو معاملہ ہی برعکس نکال۔ کچری میں جا کر‬ ‫معلوم ہوا‘ کمائی چوروں‘ لاتلوں‘ اور دو نمبر لوگوں کی‬ ‫مدد کرنے سے ممکن تھی۔ ان کو بےگناہ اور بےگناہوں‬ ‫کو گناہ گار ثابت کرکے‘ لمے نوٹ کمائے جا سکتے تھے۔‬ ‫یہاں کے طور طریمے‘ دفتر کے طور طریموں کے بھی پیو‬ ‫نکلے۔ چند ہی دنوں میں‘ میرا دل وہاں سے بھی کھٹا ہو‬ ‫گیا۔ لگتا تھا‘ انصاف گاہ میں تو اس نے مستمل ڈیرے ڈال‬ ‫رکھے ہیں۔ لدم لدم پر میری اس سے ماللات ہوتی۔ مجھے‬ ‫دیکھ کر لہمہے لگاتا‘ سرعام میرا مذاق اڑاتا۔‬ ‫عاللے کی مسجد میں‘ میری ماللات حاجی عمر سے ہوئی۔‬ ‫پنج ولتے تھے اور شلوار ٹخنوں سے اوپر رکھتے تھے۔‬ ‫بڑے اصول پرست سمجھے جاتے تھے۔ ان کا الکھوں کا‬ ‫کاروبار تھا۔ حساب کتاب کے معاملے میں‘ میں بھی‬ ‫معروف تھا۔ سوچا‘ یہاں ٹھیک رہے گا۔ میں ان کے کھاتے‬ ‫میں منشی کی سیٹ پر تعینات ہو گیا۔‬


‫چند دن گزرنے کے بعد معلوم ہوا‘ یہاں بھی‘ شیطان‬ ‫مہاراج کا سکہ چلتا ہے۔ بڑی حیرت ہوئی کہ حاجی صاحب‬ ‫کا ظاہر کتنا صاف ستھرا ہے اور باطن غالظتوں سے لبریز‬ ‫ہے۔ وہاں بھی دہائی کا گھپال تھا۔ کارکنوں کے ساتھ جو ہو‬ ‫رہا تھا‘ وہ تو ہو رہا تھا‘ لیکن حساب کتاب کے دو کھاتے‬ ‫تھے‘ ایک سرکار کو دیکھانے کے لیے‘ دوسرا اصلی‬ ‫کھاتہ جو دفتر میں نہیں رکھا جاتا تھا۔ سرکاری کھاتے میں‬ ‫گھاٹے کے سوا کچھ نہ تھا۔‬ ‫بجلی کے لیے بھی‘ بجلی اہل کار کی خدمات حاصل کی گئی‬ ‫تھیں۔ یہاں حرام اور حرام کے سوا کچھ نہ تھا۔ دفتر میں‘‬ ‫تنخواہ تو کم از کم حالل تھی۔ یہاں سے ملنے والی تنخواہ‬ ‫سرے سے شفاف نہ تھی۔ یہ معاملہ تو پہلے سے بھی‬ ‫کہیں بڑھ کر تھا۔رکھتے تھے۔ بڑے اصول پرست سمجھے‬ ‫جاتے تھے۔ ان کا الکھوں کا کاروبار تھا۔ حساب کتاب کے‬ ‫معاملے میں بھی معروف تھا۔ سوچا‘ یہاں ٹھیک رہے گا۔‬ ‫میں ان کے کھاتے میں منشی کی سیٹ پر تعینات ہو گیا۔‬


‫وہاں جا کر معلوم ہوا کہ وہاں بھی دہائی کا گھپال ہے۔‬ ‫کارکنوں کے ساتھ ہو رہا تھا‘ وہ تو ہو رہا تھا لیکن حساب‬ ‫کتاب کے دو کھاتے تھے‘ ایک سرکار کو دیکھانے کے‬ ‫لیے‘ دوسرا اصلی کھاتہ جو دفتر میں نہیں رکھا جاتا تھا۔‬ ‫سرکاری کھاتے میں گھاٹے کے سوا کچھ نہ تھا۔ بجلی کے‬ ‫لیے بھی‘ ایک بجلی اہل کار کی خدمات حاصل کی گئی‬ ‫تھیں۔ یہاں حرام اور حرام کے سوا کچھ نہ تھا۔ دفتر میں‘‬ ‫تنخواہ تو کم از کم حالل تھی۔ یہاں سے ملنے والی تنخواہ‬ ‫سرے سے شفاف نہ تھی۔ یہ معاملہ تو پہلے سے بھی‬ ‫کہیں بڑھ کر تھا۔‬ ‫میں نے وہ مالزمت چھوڑ کر‘ کاروبار کرنے کی ٹھان لی۔‬ ‫عاللے میں‘ لوگوں کو دودھ کی بڑی پریشانی تھی۔ سوچا‘‬ ‫دودھ کا کاروبار برا نہیں۔ میں خود جا کر دودھ التا۔ میرے‬ ‫سامنے گواال دودھ دھوتا۔ اس کے باوجود دودھ پتال ہوتا۔‬ ‫یہ تسلی تھی کہ وہ پانی نہیں ڈالتا‘ کیوں کہ وہ میرے‬ ‫سامنے دودھ دھوتا تھا۔ ہاں البتہ آخر میں‘ ہنگال کے طور‬ ‫پر تین پاؤ کے لریب‘ یہ دودھ نما پانی ڈال دیتا۔ دو دن تو‬ ‫میں چپ رہا‘ تیسرے دن مجھ سے رہا نہ گیا۔ منع کرنے پر‬


‫کہنے لگا‪ :‬یہاں سے تو دودھ ایسا ہی ملے گا‘ نہیں وارہ‬ ‫کھاتا تو کوئی اور بندوبست کر لو۔ اس نے بڑی بدتمیزی‬ ‫سے جواب دیا۔۔ میں نے بھی کہا‪ :‬چلو ٹھیک ہے‘ بندوبست‬ ‫کر لوں گا۔ بعد میں پتا چال وہ برتن میں پہلے ہی پانی ڈال‬ ‫لیتا تھا۔ دو چار اور لوگوں سے واسطہ رہا‘ وہاں بھی یہ‬ ‫ہی کچھ تھا۔ کوئی شعبہ تو چھوڑ دیتا‘ ظالم نے ہر شعبے‬ ‫میں ٹانگ پھنسائی ہوئی تھی۔‬ ‫خیال گزرا‘ کیوں نہ صحافت اختیار کر لوں۔ وہاں لدم رکھا‬ ‫تو بہت ہی مایوسی ہوئی۔ جتنا اچھا پیشہ ہے‘ اتنا ہی آلودہ‬ ‫ہے۔ صحافت‘ صحافت کم‘ بلیک میلنگ زیادہ نکلی۔ پراپرٹی‬ ‫ڈیلنگ کا کام بھی راس نہ آیا‘ کیوں کہ وہ بھی کثافتوں‬ ‫سے لبریز نکال۔ اس میں جھوٹی لسمیں اور چکنی چوپڑی‬ ‫باتیں‘ پہلی سیڑھی تھی۔‬ ‫شازیہ میری ان حرکتوں سے اکتا کر بچے لے کر‘ اپنے‬ ‫بھائی کے ہاں چلی گئی۔ یہ حیران کن بات تھی۔ ایک دن‬ ‫بھی ایسا نہیں گزرا تھا‘ جس دن میں یا گھر کے لوگ‘‬ ‫بھوکے سوئے ہوں گے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ هللا کی‬


‫مخلوق بھوکی سوئے۔ وہ اس کی بھوک کو خوب خوب‬ ‫جانتا ہے اور رزق فراہم کرنے میں‘ کسی لسم کے تساہل‬ ‫کا شکار نہیں ہوتا۔‬ ‫رزق حالل کی تالش میرا فطری حك تھا۔ ہر موڑ اور ہر‬ ‫گھاٹ پر شیطان سے ماللات رہی۔ اس کا اپنا رستہ تھا‘‬ ‫میرا اپنا رستہ تھا۔ میں حالل کھانا چاہتا تھا‘ وہ مجھے‬ ‫حرام کھانے کی دعوت دے رہا تھا۔ وہ بڑا ضدی نکال‘‬ ‫اسے کیا معلوم‘ کہ میں ہر مشکل میں‘ هللا کی مدد طلب کر‬ ‫لیتا ہوں۔ میری ایک بار پڑھی الحول واللوة اال باهلل‘ اس‬ ‫کے میدان سے لدم اکھیڑ دیتی تھی۔ جو بھی سہی‘ شیطان‬ ‫جو مرضی کر لے‘ جتنا مرضی زور لگا لے‘ میرا هللا مدد‬ ‫طلب کرنے والوں کی‘ میدان عمل میں کنڈ نہیں لگنے دیتا۔‬




Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.