گیارہ مختصرے

Page 1

‫گی رہ مختصرے‬

‫مقصود حسنی‬

‫ابوزر برقی کت خ نہ‬ ‫فروری‬


‫مندرج ت‬ ‫اچھ نہیں ہوت‬

‫منظومہ‬

‫آئندہ کے لیے‬

‫منس نہ‬

‫منہ سے نک ی‬

‫منس نہ‬

‫یک مشت‬

‫منس نہ‬

‫دیگچہ تہی دامن تھ‬

‫لوک نہ‬

‫حک عدولی‬

‫لوک نہ‬

‫لوگ کی ج نیں‬

‫لوک نہ‬

‫چپ ک مع ہدہ‬

‫منس نہ‬

‫ک لی زب ن‬

‫لوک نہ‬

‫ف یص ہ‬

‫لوک نہ‬

‫ق تل‬

‫منس نہ‬


‫اچھ نہیں ہوت‬ ‫ہ ں میں موت‬ ‫ن ں میں بہن ک گھر اجڑت تھ‬ ‫برسوں ک بن کھیل بگڑت تھ‬ ‫چپ میں ک سکھ تھ‬ ‫چ ر سو بچھ دکھ تھ‬ ‫زندگی کی تھی اک وب ل تھ‬ ‫بھ گ نک نے کو نہ کوئی رستہ بچ تھ‬ ‫پہیہ زندگی ک پٹڑی سے اتر رہ تھ‬ ‫زیست ک پ ؤں بےبصر دلدل میں گر رہ تھ‬ ‫بےچ رگی ک نی دانت نکل رہ تھ‬ ‫بہنوئی کی آنکھوں میں سکوں کی ہری لی تھی‬ ‫آتی ہر گھڑی اس کے لیے کرم والی تھی‬ ‫بہن کی آنکھ سے چپ کے آنسو گرتے‬ ‫م ں کی آنکھوں کے حسیں سپنے‬ ‫بےکسی کے قدموں میں بکھرتے‬


‫کی کرت کدھر کو ج ت‬ ‫خود کو بچ ت‬ ‫کہ م ں کے آنسوؤں کے صدقے واری ج ت‬ ‫زہر ک پی لہ مرے رو بہ رو تھ‬ ‫تذبذ کی ص ی پہ لٹک کے‬ ‫شنی اپنے ک رے میں س ل ہوا‬ ‫پیت تو یہ خود کشی ہوتی‬ ‫ٹھکرات تو خود پرستی ہوتی‬ ‫پیچھے ہٹوں کہ آگے بڑھوں‬ ‫ہ ں نہ کے پل پر‬ ‫بےکسی کی میت اٹھ ئے کھڑا تھ‬ ‫آگے پیچھے اندھیرا منہ پھ ڑے‬ ‫فیص ے کی راہ دیکھ رہ تھ‬ ‫پھر میں آگے بڑھ اور زہر ک پی لہ اٹھ لی‬ ‫خودکشی حرا سہی‬ ‫کی کرت‬


‫بہن کی بےکسی‬ ‫م ں کے آنسو بےوق ر کیوں کرت‬ ‫اب یس قہقے لگ رہ تھ‬ ‫نہ پیت ت بھی اسی کی جیت تھی‬ ‫پھر بھی وہ قہقے لگ ت‬ ‫دوزخی با نے مرے گھر قد رکھ‬ ‫گھر ک ہر ذرہ لرز لرز گی‬ ‫میں بھی موت کے گھ ٹ اتر گی‬ ‫جسے ت دیکھ رہے ہو‬ ‫ہنستی بستی زندگی ک بےک ن اشہ ہے‬ ‫پہ ے دو ٹھک نے لگ آئی تھی‬ ‫اشے کو کیوں ٹھک نے لگ تی‬ ‫اشے ک م س کھ چکی ہے‬ ‫ہڈی ں مگر ب قی ہیں‬ ‫بہن اشے کو دیکھ کر روتی ہے‬ ‫ہڈی ں مگر کی تی گ کریں‬


‫آنسوؤں کے قدموں میں کی دھریں‬ ‫کوئی اس کو ج کر بت ئے‬ ‫السہ سرحدوں کی ک چیز ہے‬ ‫جہ ں ت کھڑی ہو وہ تو فقط اس کی دہ یز ہے‬ ‫کوئی ح دثہ ہی‬ ‫تمہیں خ وند کی السہ کے جہن سے ب ہر ائے گ‬ ‫پھر تمہ را ہر آنسو پچھت وے کی اگنی میں ج ے گ‬ ‫ت تک‬ ‫ہڈی ں بھی یہ دوزخ کی رانی کھ چکی ہوگی‬ ‫راکھ ہو گی نہ کوئی رفتہ کی چنگ ری‬ ‫ہو گی تو السہ کی آری‬ ‫دکھ ک دری بہہ رہ ہو گ‬ ‫ہر لمحہ تمہیں کہہ رہ ہو گ‬ ‫ح کی بھی کبھی سوچ لی کرو‬ ‫لقموں ک د بھرن اچھ نہیں ہوت‬ ‫اچھ نہیں ہوت‬


‫آئندہ کے لیے‬ ‫بہت اع ی درجے کی چیزیں میسر ہوں‘ لیکن آدمی ک بس اوق ت‬ ‫ان سے ک تر درجے کی چیز کھ نے کو جی چ ہنے لگت ہے۔‬ ‫ایک مرتبہ‘ اس کے س تھ بھی کچھ ایسی ہی صورت گزری۔ س‬ ‫کچھ میسر تھ ‘ لیکن مولی کھ نے کے لیے‘ اس کی طبیعت مچل‬ ‫مچل گئی۔ پھر وہ سبزی منڈی کی طرف بڑھ گی ۔‬ ‫منڈی کے دروازے سے ایک ب ب جی‘ جنہوں نے اپنے کندھے‬ ‫پر‘ مولیوں ک گٹھ اٹھ رکھ تھ ‘ نک ے۔ اس میں سے ایک‬ ‫مولی نک ی اور نیچے گر گئی۔ اس نے نیچے سے مولی اتھ ئی‬ ‫اور ب ب جی کو دینے کی غرض سے آگے بڑھ ۔ ج اس نے‬ ‫آواز دی تو ب ب جی نے مڑ کر دیکھ ۔ ج ب ب جی نے مڑ کر‬ ‫دیکھ ‘ تو اس نے مولی ان کی ج ن بڑھ تے ہوئے کہ ‪ :‬ب ب جی‬ ‫یہ مولی گر گئی تھی‘ لے لیں۔ وہ مسکرائے اور کہ ‪ :‬ت لے لو۔‬ ‫یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گیے۔‬ ‫پہ ے تو اس نے غور نہ کی ‘ اس کے بعد اس نے غور کی کہ‬ ‫مولیوں ک گٹھ ‘ اس انداز سے بندھ تھ کہ مزید مولی ں گرنے‬ ‫ک قوی امک ن تھ ۔ پھر وہ چھوٹے قدموں ان کے پیچھے پیچھے‬ ‫چ نے لگ ۔ ک فی دور تک گی ‘ لیکن مزید کوئی مولی نہ گری۔‬ ‫اچ نک ب ب جی نے دوب رہ سے پیچھے مڑ کر دیکھ ‘ تو اس نے‬


‫کہ ‪ :‬ب ب جی میں یہ مولی آپ کو دینے کے لیے‘ آپ کے پیچھے‬ ‫آ رہ تھ ۔ یہ سن کر‘ ب ب جی نے بڑے غصے سے اس کی ج ن‬ ‫دیکھ ۔ مولی تو نہ لی‘ لیکن بڑی سنجیدگی سے کہ ‪ :‬ی د رکھو‬ ‫ہ تمہیں اور تمہ ری ح ج ت کو‘ ت سے زی دہ ج نت ہے اور اس‬ ‫کے مط ب عط کر دیت ہے۔ ج بھی‘ موجود میں مزید ک طمع‬ ‫کرو گے‘ پہ ے سے بھی ہ تھ دھو بیٹھو گے۔ موجود پر ہ ک‬ ‫شکر ادا کرو‘ ت کہ وہ تمہیں تمہ ری ضرورت کے مط ب عط‬ ‫فرم ت رہے۔‬ ‫اسے اپنی حرکت پر سخت شرمندگی ہوئی‘ لیکن آئندہ کے لیے‬ ‫ک ن ہو گئے۔‬ ‫محتر ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح السا ع یک‬ ‫مختصر‪ ،‬پرمغز‪ ،‬سب آموز‪ ،‬فکر ک مواد لئے یہ افس نہ بہت‬ ‫اچھ لگ ۔ خ ص کر یہ ہم ری دور ح ضر کی " اشرافیہ" کے منہ‬ ‫پر طم نچہ نہیں ب کہ تپنچہ ہے لیکن اگر اشرافیہ ڈھیٹ ہو ‪ ،‬جو‬ ‫ہے ‪ ،‬بڑے بڑے توپ بھی بےک ر ہیں۔‬ ‫ڈاکٹر ص ح‬ ‫مع شرہ کو آئینہ دکھ ن آپ ک ک ہے اسی احسن طریقہ سے‬ ‫نب ہتے رہئے۔‬ ‫سدا سامت رہیں اور ق ک پ س کرتے رہیں۔‬


‫والسا‬ ‫ط ل دع‬ ‫ک یل آحمد‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10463.0‬‬

‫منہ سے نک ی‬ ‫ج بھی کوئی بچہ گر ج ت ی اسے کسی اور وجہ سے چوٹ آ‬ ‫ج تی‘ فتو کے منہ سے بےس ختہ نکل ج ت ‪ :‬ہ ئے تیری م ں‬ ‫مرے۔‬ ‫یہ فتو کے نہیں‘ ممت کے منہ نک ی آواز ہوتی اور اس میں درد‬ ‫بھی ہوت ۔ م ں بےشک م ں ہوتی ہے اور دنی میں اس ک کوئی‬ ‫متب دل رشتہ موجود نہیں۔ اس قس کی م درانہ ش قت‘ میں اپنی‬ ‫م ں کے ہ ں بھی دیکھت اور سنت آرہ ہوں۔ ت ہی تو تک یف‬ ‫میں بےس ختہ منہ سے ہ ئے م ں نکل‬ ‫ج ت ہے۔‬ ‫ایک ب ر میں بیم ر پڑا۔ فتو میرا سر دب رہی تھی۔ تک یف میں‬ ‫شدت ہوئی تو میرے منہ سے ہ ئے م ں نکل گی ۔ فتو نے وہیں‬


‫ہ تھ روک لیے اور غصہ سے اپنی چ رپ ئی پر ج کر لیٹ گئی۔‬ ‫میں نے اس کی طرف دیکھ اور کہ ‪ :‬کی ہوا‘ کیوں روٹھ کر چ ی‬ ‫گئی ہو۔ دیکھ تو رہی ہو کہ میں تک یف میں ہوں۔‬ ‫بڑی غصی ی آواز میں کہنے لگی‪ :‬دب میں رہی ہوں‘ ی د م ں کو‬ ‫کرتے ہو۔ ج ؤ اسی سے دبوا لو۔‬ ‫اس کی ب ت میں د تھ اور میں شرمندہ س ہو گی ۔ ک فی دیر تک‬ ‫من من کرت رہ لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ منہ سے نک ی‬ ‫کیسے منہ میں ج سکتی تھی۔ آئندہ سے اس ک ن لینے ک‬ ‫وعدہ بھی کی ح اں کہ یہ بس سے ب ہر کی چیز تھی۔‬ ‫اس روز چھوٹی ک کی گر پڑی مجھے دکھ ہوا۔ میں تیزی سے‬ ‫اس کی ج ن بڑا۔ میری پدرت پورے پہ ر کے س تھ ج گی۔ س بقہ‬ ‫تجربے کے ت بع‘ میں نے منہ سے ہ ئے تیری م ں مرے نک ا۔‬ ‫اپنی اصل میں یہ م درت کی قدر کرنے کے مترادف تھ ۔‬ ‫وہ ک کی ک دکھ تو بول گئی اور دونوں پ ؤں سمیت مجھ پر چڑھ‬ ‫دوڑی۔ ہ ں ہ ں ت تو چ ہتے کہ میں مر ج ؤں‪ ،‬میں بڑے دنوں‬ ‫سے تمہ رے بدلے بدلے تیور دیکھ رہی ہوں۔ ت تو ہو ہی‬ ‫ن شکرے۔ جتن کرو یہ ں اس کیے کی کوئی وٹک نہیں۔‬ ‫یہ کہہ کر بھ ئی کے گھر روٹھ کر ج نے کے لیے تی ر ہونے‬ ‫لگی۔ میں نے قس کھ کر اس پر اصل حقیقت واضح کرنے کی‬ ‫کوشش کی‪ ،‬مگر کہ ں جی خاصی نہیں کر رہی تھی۔‬


‫م نت ہوں میرے کہے میں سو فی صد دانستگی تھی۔ دس بیس‬ ‫پرسنٹ خواہش بھی تھی لیکن خواہش سو فی صد نہ تھی۔‬ ‫دوسرا میرے کہے پر وہ مر تھوڑا ج تی۔ اگر ایس ہوت تو دنی‬ ‫میں کوئی عورت ب قی نہ رہتی۔ اس کے منہ سے سیکڑوں ب ر‬ ‫ہ ئے تیری م ں مرے نکا لیکن وہ ایک ب ر بھی نہ مری تھی۔‬ ‫کچھ ب تیں کہنے کی ہوتی ہیں لیکن ہونے ک اس سے کوئی تع‬ ‫واسطہ نہیں ہوت ۔‬ ‫خیر چھوڑیے مجھے اپنی اس دانستگی کی بڑی کڑی سزا م ی۔‬ ‫منتیں ترلے تو کیے ہی‘ ک نوں کو ہ تھ لگ ن پڑے‘ س تھ میں پا‬ ‫بھی جھ ڑن پڑا۔‬ ‫عزیز مکر حسنی ص ح ‪ :‬سا مسنون‬ ‫آپ کے یہ مختصر لیکن معنی آفریں انش ئیے دلچسپ اور سب‬ ‫آموز ہوتے ہیں ب ہر لوگ ان کو بہت شو سے پڑھتے ہیں۔‬ ‫افسوس کہ ہر شخص (بشمول راق الحروف) ہر انش ئیے پر‬ ‫اظہ ر خی ل نہیں کرت ہے اور ش ید کر بھی نہیں سکت ۔ میری‬ ‫ن چیز داد ح ضر ہے۔ ہ آپ کو نوازے‬ ‫آپ کی موجودگی ہم رے لئے ب عث مسرت وافتخ ر ہے۔ اور‬ ‫اردو انجمن اس عن یت کے لئے آپ کی ممنون احس ن ہے۔ یقین‬ ‫ہے کہ اپ اسی طرح ہم ری ہمت افزائی کرتے رہیں گے۔‬


‫ایک گزارش ہے۔ آپ لکھتے رہتے ہیں لیکن دوسروں کی‬ ‫تخ یق ت پر کبھی اظہ ر خی ل نہیں کرتےہیں۔ آپ کی اع نت اور‬ ‫رہنم ئی اور گ ہےگ ہے داد کی ہ س کو ضرورت ہے۔ خدا را‬ ‫دوسروں پر بھی لکھئے اورصرف رسمی ست ئش نہیں ب کہ‬ ‫ن قدانہ نگ ہ ڈالئے۔ بڑی عن یت ہوگی۔ شکریہ‬ ‫سرور راز‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10464.0‬‬


‫یک مشت‬ ‫شہ دین س را دن دفتر میں ص ح کی چ کری کرت ۔ وہ ں سے‬ ‫ایک مل م لک کے گھر ج ت ۔ ان ک سودا س ف ات ی کوئی اور‬ ‫ک ہوت تو وہ انج دیت ۔ کبھی آٹھ بجے تو کبھی دس بجے وہ ں‬ ‫سے خاصی پ ت تو گھر آت ۔ اس وقت اس ک جس ٹوٹ پھوٹ س‬ ‫گی ہوت اور اسے آرا کی اشد ضرورت ہوتی۔ مگر کہ ں‘ گھر آت‬ ‫تو کوئی ن کوئی گھری و رپھڑ اس ک انتظ ر کر رہ ہوت ۔ اسے‬ ‫نپٹ نے میں اچھ خ ص وقت اٹھ ج ت ۔ گھر والی اس سے بےنی ز‬ ‫تھی کہ وہ س را دن کتنی مشقت اٹھ ت ہے۔ گھر کی دال روٹی‬ ‫چانے کے لیے اسے کتنے پ پڑ بی ن پڑتے ہیں۔‬ ‫اس روز بھی کچھ ایس ہی ہوا۔ اس نے گھر کی دہ یز پر قد‬ ‫رکھ ہی تھ کہ زکو اپنے دانت درد ک سی پ لے کر بیٹھ گئی۔ اس‬ ‫نے بڑے تحمل سے کہ ۔ ک کے کو س تھ لے کر ڈاکٹر سے دوا‬ ‫لے آن تھی۔ ابھی ایک پیراسیٹ مول کی گولی لے لو اور س تھ‬ ‫میں اچھی طرح حکی ص ح واا منجن کر لو۔ مجھے کھ نے کو‬ ‫کچھ دو سخت بھوک لگی ہوئی ہے۔ تمہیں کھ نے کی پڑی ہے‬ ‫ادھر میں درد سے مر رہی ہوں۔ وہ بڑ بڑ کرت ہوا صبر شکر‬ ‫کرکے بھوک ہی چ رپ ئی پر لیٹ گی ۔ تھک ہوا تھ سخت بھوک‬ ‫کے ب وجود نیند نے اس کو اپنی گرفت میں لے لی ۔ چوں کہ‬ ‫پیش کرکے نہیں سوی تھ اس لیے اسے آدھی رات کو اٹھن‬


‫پڑا۔ زکو گہری نیند سو رہی تھی لہذا اس نے اسے جگ ن من س‬ ‫نہ سمجھ اور دوب رہ آ کر لیٹ گی ۔‬ ‫صبح ٹھیک ٹھ ک اٹھی بچوں کو کھا پا کر سکول بھیج دی ۔‬ ‫پھر خود بھی پیٹ بھر کر کھ ی ۔ وہ بھی اتنی دیر میں ک پر‬ ‫ج نے کے لیے تی ر ہو گی ۔ ن شتہ پ نی دینے کی بج ئے دانت ک‬ ‫درد لے کر بیٹھ گئی۔ کہنے لگی س ری رات درد سے سو نہیں‬ ‫ح اں کہ وہ خراٹے بھری نیند سوئی تھی۔ وہ خود ہی ‘سکی‬ ‫رسوئی میں گھس گی ۔ بھوک نے اسے نڈل کر دی ‘ جو ہ تھ لگ‬ ‫کھ لی ۔ وہ متواتر بولے ج رہی تھی۔ اس نے ک پر ج تے ہوئے‬ ‫کہ ‪ :‬ڈاکٹر کے پ س ج کر دوائی لے آن ۔ دانت ک درد سخت‬ ‫تک یف دیت ہے۔ پیسے تمہ رے پ س ہیں ہی۔ اس کے بعد کوئی‬ ‫جوا سنے بغیر ک پر چا گی ۔ اسے زکو کی اس حرکت پر‬ ‫کوئی غصہ نہ آی ‘ کیوں کہ یہ کوئی نئی ب ت نہ تھی روز ک رون‬ ‫تھ ۔‬ ‫رات کو ج گھر لوٹ تو اس نے پوچھ ‪ :‬دوا ائی ہو۔‬ ‫دانت میں سخت درد ہو رہ ہے۔ ‘اس نے جواب کہ ‪ :‬نہیں ائی‬ ‫ان تھی۔ خواہ مخواہ درد برداشت کر رہی ہو۔ ‘کیوں نہیں ائی‬ ‫لگت ہے دانت نک وان پڑے گ ۔‬ ‫کیوں نک واتی ہو‘ دانت دوب رہ تو نہیں اگے گ ۔ کھ نے پینے میں‬ ‫دشواری ہو گی۔‬


‫ب طنی طور پر وہ چ ہت تھ کہ نک وا ہی لے چ و چ ر دن تو اس‬ ‫کے منہ کو چپ لگے گی۔ پھر وہ اس سے جع ی ہ دردانہ بحث‬ ‫کرت رہ ۔ اسے مع و تھ کہ جس ک سے وہ منع کرئے گ زکو‬ ‫وہ ک کرکے ہی رہے گی۔ ک فی دیر بحث کرنے کے بعد اس نے‬ ‫کہ چ و جس طرح من س سمجھتی ہو‘ کر لو۔‬ ‫اچھ تو کل میں گ ؤں ج تی ہوں وہ ں سے دانت نک واتی ہوں۔‬ ‫ہم رے گ ؤں ک ڈاکٹر بڑا سی ن ہے۔‬ ‫دلی طور پر وہ چ ہت تھ کہ چ ی ہی ج ئے چ ر دن تو سکون کے‬ ‫کٹیں گے۔ دانت نک وا کر آئے گی تو بھی دو ایک دن اس کے‬ ‫منہ کو سکون رہے گ ۔‬ ‫اس نے کہ ‪ :‬شہر چھوڑ کر گ ؤں ج تی ہو۔۔۔۔ نہیں نہیں یہ ں ہی‬ ‫سے نک وا لو ی ڈاکٹر کو دیکھ لو جو مشورہ دے گ کر لین ۔‬ ‫اسے دوب رہ سے ن ٹک کرن پڑا۔ وہ گ ؤں ج نے پر اڑی رہی۔‬ ‫پھر اس نے کہ اچھ جیسے تمہ ری مرضی کر لو۔‬ ‫وہ اپنی جیت پر خوش تھی۔ ح اں کہ جیت اسی کی ہوا کرتی‬ ‫تھی۔ اگ ے دن صبح صبح ہی وہ گ ؤں ج نے کے لیے بچوں‬ ‫سمیت تی ر ہو گئی۔ ک پر ج تے ہوئے اس نے کہ گھر کی چ بی‬ ‫خ لہ رحمتے کو دے دین ۔‬ ‫زکو گ ؤں میں پورا ہ تہ گزار کر آئی۔ اس نے گھر آتے ہی اس‬ ‫سے دانت کے متع پوچھ ۔ تمہیں اس سے کی ۔ ت کون س میرا‬


‫پوچھنے گ ؤں آ گئے تھے۔ اس نے ہ تہ عیش اور مرضی ک‬ ‫گزرا تھ ۔ دانت اس نے نک وای ی نہیں نک وای وہ یہ نہ ج ن سک‬ ‫ہ ں البتہ اس نے اس کی کوت ہی کی پ داش میں ہ تہ بھر کی یک‬ ‫مشت کسر نک ل دی اور اسے چوں تک کرنے ک موقع فراہ نہ‬ ‫کی ۔‬ ‫‪………………..‬‬


‫دیگچہ تہی دامن تھ‬ ‫بہت پہ ے کی ن سہی لیکن اتن ضرور طے ہے کہ یہ ب ت پہ ے‬ ‫کی ہے۔ ا کہ دو نمبری کے لیے اتنی مشقت نہیں اٹھ ن پڑتی۔‬ ‫دو نمبری ک س م ن س می خود اپنے ہ تھ سے فراہ کرتی ہے۔‬ ‫ہ ں یہ ب ت حتمی طور پر نہیں کہی ج سکتی کہ دو نمبری کے‬ ‫لیے دو نمبر ک س م ن فراہ کی ج ت ہے۔ یہ بھی کہ چھین لینے‬ ‫ک رواج ع ہو گی ہے۔ ہتھی ر آکڑ خ ن کے لیے اٹھ ن پڑت ہے‬ ‫ورنہ قدرے شریف کو آنکھیں دیکھ کر اس کی گرہ ص ف کر لی‬ ‫ج تی ہے۔ اسی طرح قدرے شریف‘ شریف سے اونچی ی گا‬ ‫پھ ڑ آواز سے ک لے کر اس کی گرہ خ لی کرنے ک ڈھنگ‬ ‫خو خو ج نت ہے۔‬ ‫اس روز ان چ روں کو ک فی مشقت سے ک لین پڑا ت ج کر‬ ‫ڈوموں کی مرغی ہ تھ لگی۔ مرغی پ ی پائی ن یس اور بڑی‬ ‫نخرے والی تھی۔ جھ نسہ دینے میں بھی بڑی ط تھی۔ ادھر‬ ‫سے ادھر اور ادھر سے ادھر آنے ج نے میں اسے م کہ ح صل‬ ‫تھ ۔ وہ بھی ہٹ کے پکے تھے۔ ان ک روز ک ک تھ کیسے بچ‬ ‫کر نکل ج تی۔ س تھ کے گ ؤں کے مولوی ص ح سے تکبیر‬ ‫پڑھ ئی اور اسے ڈکرے ڈکرے کرکے دیگچے کے حوالے کر‬ ‫دی ۔ پکنے کے بعد حس مع ہدہ چوتھ ئی مولوی ص ح کی‬ ‫خدمت میں نذرانہ پیش کر دی ۔ یہ ان ک یقین بہت بڑا احس ن تھ‬


‫وہ حرا کو حال میں تبدیل کرنے میں ک یدی کردار ادا کرتے آ‬ ‫رہے تھے ت ہ حال کو حرا قرار دین بھی ان کے لیے قطع‬ ‫دشوار نہ تھ ۔‬ ‫کھ نے لگے تو انہیں ایک انوکھ طور سوجھ ۔ ان میں سے ایک‬ ‫کہنے لگ ۔ اس پکوان کو کل صبح وہ کھ ئے جو س سے اچھ‬ ‫اور بڑھی خوا دیکھے۔ یہ تجویز س کو بھ ئی۔ پھر وہ آرا‬ ‫اور سکون کی نیند سو گئے۔‬ ‫اگ ی صبح اٹھے اور اپن اپن خوا سن نے لگے۔‬ ‫ایک نے اپن خوا سن ی کہ وہ س ری رات پیرس کے ب زاروں‬ ‫میں پھرا اور خو خریداری کی۔ پیرس کی نخری ی چھوریوں‬ ‫کے س تھ آنکھ مٹک کرت رہ ۔ ایک دو تو اس کی ب ہوں میں بھی‬ ‫رہیں۔‬ ‫س نے واہ واہ کی اور اس کے خوا کی اچھی خ صی داد دی۔‬ ‫دوسرے نے خوا سن ی کہ اسے خوا میں امریکی صدر کی‬ ‫ج ن سے امریکہ آنے کی دعوت م ی۔ وہ خوشی خوشی ہوائی‬ ‫جہ ز پر بیٹھ کر امریکہ گی ۔ امریکی صدر اور اس کے اع ی‬ ‫عہدےدار ہوائی اڈے پر اس ک استقب ل کرنے آئے۔ اس کے بعد‬ ‫وہ امریکی صدر کے س تھ بھ ری پہرے میں امریکہ کی سیر‬ ‫کرت رہ ۔ ایک دو جگہ پر اسے خط کرنے ک موقع بھی ما۔‬ ‫خوا کے اچھ نہیں‘ بہت اچھ ہونے میں رائی بھر شک نہ تھ ۔‬


‫زمینی خدا کے س تھ ہون اور پھر اتنی عزت م ن کوئی ع ب ت‬ ‫نہ تھی۔‬ ‫ا تیسرے کی ب ری تھی۔ اس نے کہ خوا میں آسم نی گھوڑا‬ ‫اسے اسم نوں کی سیر کرانے کے لیے آ گی ۔ اس نے دل بھر کر‬ ‫چ ند ست روں کی سیر کی۔ حوریں اور فرشتے قط ر در قط ر اس‬ ‫کے س تھ رہے۔ پھر اس نے جنت کی سیر کی۔ بڑے بڑے‬ ‫بزرگوں سے بھی ماق ت ہوئی۔‬ ‫یہ خوا پہ ے دونوں کو کٹ کر رہ تھ ۔ پکوان پر اسی ک ح‬ ‫ٹھہرت تھ ۔‬ ‫چوتھے نے کہ ی ر رات کو میرے س تھ بڑا دھرو ہو گی ۔ س پریش ن‬ ‫ہو گئے اور یک زب ن ہو کر بولے کیوں کی ہوا۔ بوا ی ر ہون کی تھ‬ ‫میں گہری نیند سو رہ تھ کہ ایک حبشی جس کے ہ تھ میں تیز دھ ر‬ ‫ت وار تھی۔ اس نے مجھے زور سے جھنجھوڑا۔ میں ڈر کر اٹھ بیٹھ ۔‬ ‫اس نے ت وار دیکھ تے ہوئے کہ ‪ :‬یہ تمہ رے دوست ہیں تمہیں یہ ں‬ ‫اکیا چھوڑ کر موج مستی کر رہے ہیں۔ چل اٹھ اور تو مرغی کھ کر‬ ‫دیگچہ خ لی کر۔ میں نے ج پس وپیش کی تو اس نے مجھے ت وار‬ ‫دیکھ تے ہوئے کہ اگر نہیں کھ ئے گ تو تمہ را سر اڑا دوں گ ۔ زور‬ ‫دبردستی کے س منے ک کسی کی چ ی ہے‘ مجبورا مجھے س را‬ ‫دیگچہ خ لی کرن پڑا۔ یقین م نیں پریش نی اور بدہضمی کے سب اس‬ ‫کے بعد مجھے نیند نہ آ سکی۔‬

‫تینوں ج دی سے دیگچے کی ج ن بڑے‘ دیکھ دیگچہ اپنی تہی‬ ‫دامنی پر خون کے آنسو بہ رہ تھ ۔‬


‫حک عدولی‬ ‫زندگی جو جیسی تھی‘ چل رہی تھی۔ ہر کوئی اپنے ک میں مگن‬ ‫تھ ۔۔ گری ‘ گربت عسرت بےبسی بےچ رگی اور تنگی ترسی‘‬ ‫چودھری بامشقت عیش وعشرت اور مولوی ص ح مذہبی‬ ‫مس ے مس ئل سن کر چوپڑی کھ نے میں مصروف تھے۔ کوئی‬ ‫مع م ہ الجھ ج ت تو چودھری کے ڈیرے پر چا ج ت اور وہ ں‬ ‫سے اپنے بندے انص ف لے کر خوشی خوشی اور جیت کے‬ ‫نشے میں گھر لوٹتے۔ کوئی الجھ ؤ کی گھمیر صورت نہ تھی۔‬ ‫ہر کسی ک شخصی اسٹیٹس طے تھ ۔ صدیوں سے چودھری‬ ‫زمین ک م لک تھ ‘ ب قی اس کے ک مے ی پھر کچھ کمی تھے۔‬ ‫مراسی ب طور ڈاکی اور ای چی اپنے فرائض انج دیت تھ ۔ مولوی‬ ‫ص ح مذہبی امور اپنی مرضی اور اپنے س یقے سے طے‬ ‫کرتے تھے۔ م ئی ص حبہ بچوں کو چ ر دیواری میں تع ی دیتی‬ ‫تھیں۔ گوی زندگی س لوں سے ایک ہی ڈگر پر چ ی آ رہی تھی۔‬ ‫چھوٹی موٹی زمینی و سم وی آف تیں ٹوٹتی رہتی تھیں لوگ اپنی‬ ‫مدد آپ کے تحت ان سے نپٹتے رہتے تھے اور اپنی بس ت میں‬ ‫رہتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کرتے۔ کچھ مجبوروں کی‬ ‫مجبوری سے ف ئدہ بھی اٹھ تے۔ چودھری اپنوں اور جوان‬ ‫بیٹیوں اور بہنوں والوں کی مدد کرت ۔ ب قی لوگوں کو تس ی تش ی‬


‫دیت ۔ اپنے حری وں ی بدتمیزوں کی م لی اور زب نی خو لہہ پہہ‬ ‫کرت ۔ مولوی ص ح دع وغیرہ کرنے کے س تھ س تھ لوگوں کو‬ ‫ان کے گن ہوں کی ی د داتے۔ اکثر فرم تے یہ س ش مت اعم ل‬ ‫ہے۔ تمہ رے کیے کے جر میں یہ عذا اترا ہے۔ توبہ کرو‬ ‫صدقہ خیرات کرو اور ہ کے گھر کی خو خدمت کرو ت کہ ت‬ ‫پر آسم ن سے آس نی ں ن زل ہوں۔‬ ‫وہ مصیبت ی عذا سے زی دہ قی مت تھی۔ اس ہڑ کے سب لوگ‬ ‫پریش نی اور افرات ری میں گھر گئے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہ‬ ‫تھ کہ کی کریں اور کی نہ کریں۔ لوگوں کو اشی سے زی دہ ج ن‬ ‫کی فکر تھی۔ ج ن بچ گئی تو یہ چیزیں دوب رہ سے بن ج ئیں‬ ‫گی۔ ج ن ہی نہ رہی تو چیزوں کو سر میں م رن ہے۔‬ ‫چودھری کو اپنی پڑی تھی وہ کسی اپنے بندے کی کی مدد کرت ۔‬ ‫آخر س جڑ کر مولوی ص ح کے پ س گئے کہ دع کریں کہ‬ ‫آسم ن سے آس نی ں ن زل ہوں۔ مولوی ص ح کے اپنے ہ تھوں‬ ‫کے توتے اڑے ہوئے تھے۔ اس کے ب وجود انہوں نے کہ کہ ت‬ ‫س ہ کو م ننے والے ہو بس ہ شریف پڑھو اور پ نی میں‬ ‫قد رکھو اور اس کی برکت سے دوسرے کن رے پر پہنچ ج ؤ۔‬ ‫چودھری سمیت س نے مولوی ص ح کے کہے پر عمل کی‬ ‫اور ہ کے فضل وکر اور احس ن سے‘ سامتی کے س تھ دری‬ ‫کے دوسرے کن رے پر پہنچ گئے۔ انہیں کچھ بھی نہ ہوا‘ ح اں‬ ‫کہ دری س کچھ مٹ دینے پر تا ہوا تھ ۔ ہ کے کا اور ہ پر‬


‫ک مل یقین ہونے کے سب وہ ان ک کچھ بھی نہ بگ ڑ سک ۔‬ ‫مولوی ص ح ان میں نہ تھے۔ لوگ پریش ن ہوئے کہ اتن نیک‬ ‫اور ہ ک بندہ ان کے س تھ نہیں ہے۔ انہوں نے دیکھ مولوی‬ ‫ص ح اپنے بیوی بچوں سمیت چودھری کی رہ ئش گ ہ کی‬ ‫تیسری منزل پر کھڑا تھ ۔ انہوں نے مولوی ص ح کو آوازیں‬ ‫دی کہ آپ بھی ہ کو ی د کرکے بس ہ شریف پڑھ کر آ ج ئیں۔‬ ‫مولوی ص ح ٹس سے مس نہ ہوئے۔ پھر ایک قی مت خیز لہر‬ ‫ابھری اور گ ؤں ک ن و نش ن تک ب قی نہ رہ ۔ ہ ں البتہ مولوی‬ ‫ص ح ک بڑا بیٹ ب پ کی حک عدولی کرکے گ ؤں والوں کے‬ ‫س تھ آ گی تھ ۔‬


‫لوگ کی ج نیں‬ ‫شمو کی ش دی کو چھے س ل ہو گئے تھے۔ یہ اس کے پی ر کی‬ ‫تیسری ش دی تھی۔ اس کی گود ابھی تک خ لی تھی۔ پہ ے پی ر‬ ‫سے حمل ہوا تھ جو اس نے دوسرے پی ر میں اندھی ہو کر گرا‬ ‫دی تھ ۔ دوسرا تین س ل چا لیکن امید سے نہ ہوئی۔ تیسرے پی ر‬ ‫سے ابھی تک کوئی پی ر کی نش نی س منے نہ آ سکی تھی۔ پھر‬ ‫وہ اچ نک ایک مق می ب ب ص ح کے مزار پر ح ضری دینے‬ ‫لگی۔ بگو نے سمجھ بےچ ری کی گود خ لی ہے اسی لیے ب ب‬ ‫ص ح کے درب ر پر ح ضری دینے لگی ہے۔ بگو ک دل بھی گھر‬ ‫کی رون کے لیے مچل مچل رہ تھ لیکن یہ اس کے اختی ر میں‬ ‫نہ تھ ۔ یہ تو ہ کری کی مہرب نی ہوتی ہے کہ وہ گھر کو‬ ‫رونقیں بخش دے ی وہ ویرانہ رہے۔ اگر یہ شخص کے بس ک‬ ‫روگ ہوت تو دھن دولت ہی نہیں اواد ک میوا بھی اہل ثروت‬ ‫اپنے تک محدود رکھتے۔‬ ‫نے سوچ کیوں نہ یکھ ج ئے کہ ش و ب ب ص حب‬ ‫یک‬ ‫کے رب ر پ کس ط سے ور کی ع م نگتی ہے۔ وہ رب ر‬ ‫کے عقب میں چھپ گی ۔ ش و کی ع سن ک حی ت میں گم ہو گی‬ ‫ور کچھ نہ س ھ پ ی ۔ وہ بڑی آہ تگی سے بڑے ق موں‬ ‫ق م کی ع کیوں‬ ‫سے پہ ے گھ آ گی ور سوچنے لگ کہ وہ‬ ‫نے‬ ‫ک سوچ سوچ ک م پھٹنے لگ ۔‬ ‫م نگ رہی ہے۔‬


‫گ ے رو وب رہ سے رب ر پ ج نے ک فی ہ ک لی ۔ تنی ی‬ ‫میں ش و گھ لوٹ آئی۔ وہ چپ رہ ور ش و کو کچھ نہ جت ی ۔‬ ‫گ ے وہ ش و سے تھوڑ پہ ے رب ر پ پہنچ گی ۔ ش و بھی‬ ‫نے وب رہ‬ ‫تھوڑی ی کے ب رب ر کے ن ر خل ہوئی۔‬ ‫سے ع م نگن ش و ک ی۔‬ ‫پی بگو کو ن ھ ک‬ ‫چڑھ ؤں گی۔‬

‫ے میں میٹھے چ ولوں کی یگ چڑھو‬

‫بگو نے آو ب ل ک کہ ‪ :‬ٹھیک ہے بچہ ہم تی ی ع قبول ک تے‬ ‫ہیں۔ پ یک ش ط ہے۔‬ ‫حکم ک سوہنی پی‬ ‫پنے شوہ کو ی ی گھی میں ی ی م غ بھو‬ ‫ج بچہ تیس‬ ‫کی آنکھوں میں چ بی چڑھ آئے گی ور وہ کچھ‬ ‫ک کھا۔‬ ‫بھی نہ یکھ سکے گ ۔‬ ‫ٹھیک ے پی میں آج سے ہی یہ ک ش و ک‬

‫یتی ہوں۔‬

‫نے گھ آ ک ی ی م غ بح ک و ی ور سے ی ی گھی‬ ‫میں بھون ۔ بگو کو بڑی پ یٹ میں ڈ ل ک ے ی ۔ بگو ج ی‬ ‫حی نی سے کہنے لگ ۔ بھ ی بڑی خ مت ک رہی ہو خی تو ہے۔‬ ‫ش و نے بھ پور ک ری یکھ تے ہوئے کہ ‪ :‬میں نے سوچ ک‬ ‫بہت ک تے ہو ت ہیں چھی ور ب ست خور ک کی ض وت ہے۔‬


‫ی ی گھی میں بھن م غ کھ ؤ گے تو ت ہ ری ج‬ ‫کچھ‬ ‫ج ئے گی۔‬

‫بن‬

‫و ہ بھ ی و ہ۔ کی ب ت ہے۔‬ ‫پھ وہ کچھ ی تک ج ی پی ر محبت کی ب تیں ک تے رہے۔‬ ‫ی ی گھی میں بھن م غ کھ کھ ک بگو کی و ق ی ج بن گ ی۔‬ ‫م غ کھ تے وہ ب ئی و ں تھ ۔ بگو کہنے لگ ۔ ش و ی ر یہ‬ ‫م ھے کی ہو رہ ہے۔ جی گھب رہ ہے ور آنکھوں میں ت رے‬ ‫سے ن چنے لگے ہیں۔ ش و جی میں خو ہوئی کہ پی کی‬ ‫ک مت س منے آ رہی ہے۔‬ ‫وہ یہ نہیں ج نتی تھی کہ سچے پی ک ی ک ک ی بھی صورت‬ ‫میں ب نہیں ک تے۔‬ ‫نے قی متی م ک ہٹ کے س تھ کہ کچھ نہیں ہو بس ت ہیں‬ ‫وہم ہو رہ ہے۔‬ ‫نے ن کے کم ور پھ تق یب ختم ہونے کی‬ ‫کے ب‬ ‫خب سن ئی۔ آخ تی ویں کچھ بھی ن نہ آنے کی خو‬ ‫ک‬ ‫تھ ۔‬ ‫خب ی سن ہی ی۔ وہ ش و کی خوشیوں ک‬ ‫مین پ پی ہی نہیں آ رہ تھ ۔‬ ‫بگو نے کہ ‪ :‬میں ک ی ک ک نہیں رہ ڈیوڑی میں می من‬ ‫بچھ و ور می کھونڈ ے و کتے ب ے ن ر نہ آنے وں گ ۔ آ‬ ‫ک چی وں ک ستی ن م ر یتے ہیں۔‬


‫ش و نے کہ ‪ :‬ٹھیک ہے۔‬ ‫نے ڈیوڑی میں سے من بچھ ی ۔ وہ ج نت تھ کہ ش و‬ ‫ج گ رہی ہے۔ تھوڑی ہی ی ب وہ ج ی خ ٹے بھ نے لگ ۔‬ ‫ش و گھ سے چپکے سے ب ہ نکل گ ی ور کچھ ی کے ب‬ ‫یکھ ۔ بگو گہ ی نین سو رہ‬ ‫نے چھی ط‬ ‫و پس آ گ ی۔‬ ‫تھ ۔‬ ‫کچھ ہی ی ہوئی ہو گی کہ یک مشٹنڈ چپکے چپکے گھ میں‬ ‫کے س پ‬ ‫خل ہونے لگ ۔ وہ ہنی طور پ تی ر تھ ۔ بگو نے‬ ‫ی کھونڈ م ر کہ وہ چوں بھی نہ ک سک ور پ ؤں پ ٹکی ہو‬ ‫گی ۔‬ ‫گھنٹہ ہی گ ر ہو گ یک ور مشٹنڈ گھ میں خل ہونے لگ‬ ‫س گی وی ے تک گی رہ ڈھی‬ ‫کے س تھ بھی وہی کچھ ہو ۔ غ‬ ‫ہو گ ے۔ ن ر ش و چ رپ ئی پ ک و ٹیں لے رہی تھی۔ سے پنے‬ ‫پی روں کے پی ر پ س ت غ ہ آ رہ تھ ۔ پھ وہ تھک ہ ر ک‬ ‫سو رہی۔‬ ‫نے ڈبو چ سی کو ج ٹھ ی ۔‬ ‫بگو چ رپ ئی سے ٹھ ور‬ ‫نے پہ ے ہی بن وب ت ک رکھ تھ ۔ جب وہ‬ ‫کے م ل پ نی ک‬ ‫نے سے نوٹ وکھ ئے ور‬ ‫آس نو کی سی یں ک نے لگ تو‬ ‫کہ ی ر یہ ا ری میں پھنک آؤ ور آ ک س رے نوٹ لے لو۔‬ ‫نے یو ر کے‬ ‫ڈبو چ سی ری میں ا پھینکنے چا گی تو‬ ‫س تھ وس ی ا کھڑی ک ی۔‬


‫و پس آ ک کہنے لگ اؤ نوٹ تو بگو نے کہ ا تو پھینک ک‬ ‫آؤ وب رہ سے آ گ ی ہے۔ ڈبو چ سی ر ت بھ سی ک میں‬ ‫م وف رہ ۔ جب آت ا وہ ں کھڑی ہوتی۔ گی رویں ا‬ ‫چڑھ گی تھ ور یک بن ہ ری نہ ک‬ ‫ٹھک نے لگ تے تق یب‬ ‫گھ و پس ج رہ تھ ۔ ڈبو چ سی کو بڑ قہ آی کہ یہ پھ‬ ‫سے پکڑ ور‬ ‫نے سے گ‬ ‫وب رہ سے و پس ج رہ ہے۔‬ ‫گ لی ں بکت ہو ری کے ن ر لے گی ۔ سے خو ڈبکی ں یں جب‬ ‫م گی تو و پس بگو کے پ آ گی ور کہنے لگ س ا ری سے‬ ‫نکل ک و پس آ رہ تھ ش نہیں آئے گ ش میں سے م ر ک ہی‬ ‫و پس آی ہوں۔‬ ‫بگو ہن ور کہنے لگ گی رہ ش و کے یک ت ہ ر ۔ ڈبو چ سی‬ ‫کچھ نہ س ھ ور مط ب پوچھنے لگ ۔ خی چھوڑو تم یہ کش‬ ‫لگ ؤ ور نوٹ جیب میں پ ک غ ئب ہو ج ؤ۔ صبح عاقے میں‬ ‫کہ مچ گی لوگ کی ج نیں کہ گی رہ جن ی پی ر کی بھینٹ چڑھ‬ ‫گ ے جب کہ ب ہ و ں ح ویں جن ی پی ر کی غ ق بی کی ر ہ میں‬ ‫آنے کے سبب ری ب ہو گی‬


‫چپ ک مع ہدہ‬ ‫ہم ری س تھ کی گ ی میں ایک ص ح رہ کرتے تھے جو آنٹ جی‬ ‫کے ن سے معروف تھے۔ کی ک کرتے تھے۔ کوئی نہیں ج ن‬ ‫پ ی ن ہی کسی کے پ س اتن وقت تھ کہ ان کی کھوج کو نک ت ‘‬ ‫ان کی بیگ اتنی م نس ر نہ تھی کہ اس کے پ س عورتیں آ کر‬ ‫بیٹھ ج تیں۔ وہ کسی سے کوئی ب ت ہی نہ کرتی تھی۔ اگر کوئی‬ ‫عورت اس کے پ س ج تی تو مسکرا کر م تی۔ آنے والی کی‬ ‫ب تیں سن لیتی لیکن خود ہوں ہ ں سے زی دہ ب ت نہ کرتی۔ مح ہ‬ ‫میں کسی عورت سے م نے ی اس کے دکھ سکھ میں نہ ج تی۔‬ ‫ہ ں آنٹ جی کوئی مر ج ت تو اس ک جن زہ ہر صورت میں اٹنڈ‬ ‫کرتے اور بس وہیں سے گھر لوٹ ج تے۔‬ ‫ش کو گھر آتے اور پھر تھوڑی ہی دیر بعد بیٹھک میں آ بیٹھ‬ ‫ج تے اور دیر تک اکی ے ہی بیٹھے رہتے۔ ہ ں مح ہ کے چھوٹے‬ ‫چھوٹے بچے ان کی بیٹھک میں جمع رہتے اور وہ ان کے س تھ‬ ‫بچوں کی طرح کھی تے ان کے س تھ خو موج مستی کرتے۔‬ ‫جی میں کھا رکھتے با ت ری بچوں کو پیسے دیتے۔ چھٹی‬ ‫واا دن ان بچوں کے س تھ بیٹھک میں گزارتے۔ کسی بچے کو‬ ‫کوئی م رت تو لڑ پڑتے چ ہے اس بچے ک ب پ ہی کیوں نہ ہوت ۔‬


‫میں نے غور کی ایک بچے کے س تھ وہ خصوصی برت ؤ کرتے۔‬ ‫وہ بچہ بھی ان کے س تھ بڑا م نوس تھ ۔ ایک ب ر میں نے دیکھ‬ ‫کہ اس بچے ک ن ک بہہ رہ تھ اور وہ اس ک ن ک بڑے پی ر‬ ‫سے اپنے روم ل کے س تھ صآف کر رہے تھے۔ میں ان کی‬ ‫بیٹھک میں داخل ہو گی ۔ انہوں نے بڑی اپن ہت سے بیٹھنے کو‬ ‫کہ اور دوب رہ سے اس بچے ک ن ک ص ف کرنے لگے۔ میں نے‬ ‫پوچھ ہی لی کہ یہ آپ ک بچہ ہے۔ انہوں نے میری طرف‬ ‫دیکھنے کی بج ئے اس بچے سے پوچھنے لگے تمہ ری م ں‬ ‫کو میں نے دیکھ ہوا ہے۔ بچے نے ن ی میں سر ہای ۔ ج میں‬ ‫نے اس کی م ں کو دیکھ ہی نہیں تو اس کی کیسے دیکھ لی۔‬ ‫پھر میری طرف دیکھ اور کہ نہیں جی یہ میرا بچہ نہیں ہے۔‬ ‫مجھے ان کی اس حرکت پر حیرت ہوئی اور میں چپ چ پ اٹھ‬ ‫کر وہ ں سے چا گی ۔ مجھے ان کی یہ حرکت بڑی عجی لگی۔‬ ‫یہ حرکت تھی بھی عجی نوعیت کی تھی۔‬ ‫ایک دن مع و ہوا آنٹ جی فوت ہو گئے ہیں اور بیٹھک میں ہی‬ ‫ان کی موت ہوئی۔ کی وہ اندر نہیں سوتے تھے۔ اس روز وہ‬ ‫آنٹی دھ ڑیں م ر م ر کر روئی اور انہیں اکاپے ک احس س ہوا۔‬ ‫وہ ان کی تھی تو بیوی لیکن بیوی کے اطوار نہ رکھتی تھی۔ وہ‬ ‫اس ک ہر قس ک خرچہ پ نی‬ ‫اٹھ ئے ہوئے تھے۔‬


‫دس بیس س ل پہ ے منہ میں ڈھ ئی گز زب ن رکھتی تھی۔ اس ک‬ ‫آگ پچھ کوئی بھی نہ تھ ۔ ب نجھ بھی تھی۔ اس کے ب وجود انہوں‬ ‫نے اسے برداشت کی ہوا تھ ۔ تین ب ر طا طا طا کہنے‬ ‫سے ہمیشہ کے لیے خاصی ہو سکتی تھی۔ وہ ان کی خ لہ کی‬ ‫لے پ لک بیٹی تھی۔ م ں نے مرتے وقت بیٹے سے اپنے سر پر‬ ‫ہ تھ رکھ کر قس لی تھی کہ کبھی اور کسی صورت میں اس ک‬ ‫س تھ نہیں چھوڑے گ ۔ بس آنٹ جی کے منہ کو ت ا لگ گی اور‬ ‫وہ بیٹھک اور مح ہ کے بچوں کے ہو رہے۔ آنٹی اور آنٹ جی‬ ‫کے درمی ن چپ ک مع ہدہ ہو گی تھ ۔‬ ‫ا وہ دروازے کی دہ یز پر بیٹھی رہتی تھی۔ ج بھی کوئی آنٹ‬ ‫جی ک ذکر کرت تو زار و قط ر رونے لگتی لیکن منہ سے کچھ‬ ‫نہ کہتی۔ بڑی ب ت ہے کہ اتن بڑا س نحہ گزر گی آنٹ جی ہمیشہ‬ ‫کے لیے چ ے گئے پھر بھی اس نے چپ ک مع ہدہ نہ توڑا۔‬


‫ک لی زب ن‬ ‫جیج ں اور س ئیں کی دو س ل سے سا دع چل رہی تھی۔ انہوں‬ ‫نے ایک س تھ مرنے جینے قسمیں کھ رکھیں تھیں۔ مع شقہ‬ ‫اپنی جگہ دونوں برے نہ تھے اور ن ہی ان کی محبت رواجی اور‬ ‫وقتی تھی۔ انہوں نے ایک س تھ رہ کر اور موقع م نے کے‬ ‫ب وجود کوئی ن ش ئستہ حرکت نہ کی تھی۔ اس رشتے کے ب رے‬ ‫ہر روز دونوں گھروں میں گرم گر بحث اور تکرار چ تی۔‬ ‫مع م ہ سنورنے کی بج ئے دن بہ دن الجھت ہی ج رہ تھ ۔‬ ‫س ئیں کی م ں ج کہ جیج ں ک ب پ اس رشتے کے زبردست‬ ‫ح می تھے۔ اطراف میں کڑی منڈا اپنی جگہ می ں بیوی ک جھگڑا‬ ‫چ ت ۔ ب طور ہ س یہ تع ق ت بھی برے نہ تھے۔ وہ لوگ ایک‬ ‫دوسرے کی عزت اور پ س لح ظ کرتے تھے۔ لین دین بھی تھ ۔‬ ‫اوکھے سوکھے وقت میں ایک دوسرے کے ک بھی آتے تھے‬ ‫لیکن رشتہ داری بننے کی راہ میں ظ ل سم ج بنے ہوئے تھے۔‬ ‫کہ ج ت تھ کہ س ئیں کی زب ن ک لی ہے۔ اس روز ب پ بیٹے میں‬ ‫بڑی تکرار ہوئی۔ وہ ایک دوسرے کو م رنے پر ت ے ہوئے‬ ‫تھے۔ س ئیں تھک ہ ر کر سر پکڑ کر وہیں زمین پر بیٹھ گی ۔ اس‬ ‫کی م ں آ گئی اور بیٹے کو داس دینے لگی۔ س ئیں ک ب پ بوا‬ ‫جتنے مرضی داسے دے لو میں یہ رشتہ نہیں کرنے واا۔‬ ‫س ئیں کے منہ سے بےس ختہ نکل گی ی ہ میرا ب پ مر ہی‬


‫ج ئے۔ س ئیں ک ب پ اندر سے ک نپ گی لیکن اکڑ ق ئ رکھتے‬ ‫ہوئے کہنے لگ ‪ :‬جتنی مرضی بددع ئیں م نگ لو میرا کچھ نہیں‬ ‫بگڑے گ ۔‬ ‫س ئیں ک ب پ س ری رات نہ سو سک ۔ اس کے اندر قی مت مچی‬ ‫رہی۔ صبح وہ صحیح سامت اٹھ ۔ ہ ں البتہ جیج ں ک ب پ مر گی ۔‬ ‫وہ س ئیں کی م ں کو شریف عورت سمجھ رہ تھ لیکن وہ تو‬ ‫چھپی رست نک ی۔ یہ ب ت ضرور خوش آئند تھی کہ وہ بچ گی‬ ‫اور یہ بھی پردہ میں رہ گی کہ جیج ں مرحو کی نہیں لبھو کی‬ ‫بیٹی ہے۔ س ئیں کی ک لی زب ن نے ایک ک پردہ ج کہ دوسرے‬ ‫ک پردہ چ ک کر دی ۔‬


‫ف یص ہ‬ ‫ندی پر بڑی سی لکڑی رکھ کر لوگوں کی سہولت کے لیے‬ ‫چودھری نے پل بنوای تھ ۔ ندی پ ر آب دی نہ تھی محض جھ ڑی ں‬ ‫تھیں۔ عورتیں مل کر رات کو جھ ڑے کے لیے ندی پ ر ج تی‬ ‫تھیں۔ جھ ڑے کے س تھ س تھ مع مات کی مش ورت ج ری رہتی۔‬ ‫زی دہ تر س س سسر ی پھر نند کی زی دتی ں ی پھر جنسی‬ ‫کرتوتوں کے قصے بھی زیر بحث آتے۔ دو ایک خ وند بھی‬ ‫گ تگو کی گرفت میں آ ج تے۔ رات کو ہونے والے مذاکرات اگ ی‬ ‫صبح گھر کے ک ک ج سے فراغت اور خ ندوں کو ک پر روانہ‬ ‫کرنے کے بعد دو دو گھنٹے بعض اوق ت اس سے بھی زی دہ‬ ‫وقت دیوار پر کھڑے ہو کر رواں اور باتھک ن تبصرے ہوتے۔‬ ‫اس دن چودھری کے ڈیرے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ شیدو نے‬ ‫بت ی کہ اس کی عورت نے بت ی ہے کہ ندی پ ر رات کو کبوتر‬ ‫آتے ہیں۔ ڈیرے سے سنی ب ت کھبو نے گھر آ کر اپنی زن نی کو‬ ‫بت ئی۔ اس کی زن نی نے پت نہیں رات بھر یہ ب ت کس طرح ہض‬ ‫کی پھر صبح اٹھتے ہی ہ س ئی کے ک ن میں ڈالی۔ پھر یہ ب ت‬ ‫ایک سے دوسری پھر تیسری غرض ش تک وہ مح ہ کی آس‬ ‫پ س کے مح وں میں اپڑ گئی۔ اگ ے وقتوں میں ریڈیو ٹی وی ی‬ ‫موب ئل فون نہیں ہوا کرتے تھے‘ بس اسی طرح سے دور دراز‬ ‫کے عاقوں کی خبریں دنی بھر میں پھیل ج تیں تھیں۔ کوئی‬


‫دوسری وائت سے آت کوئی نئی خبر ات تو یہ پورے عاقے‬ ‫میں پھیل کر مخت ف نوعیت کے تبصروں کی زد میں آ ج تی۔‬ ‫یہ خبر کہ را نگر کی جھ ڑیوں میں کبوتروں کی ڈاریں کی‬ ‫ڈاریں رات کو اترتی ہیں‘ جئےپور پہنچنے میں کوئی زی دہ دیر‬ ‫نہ لگی۔ وہ ں کے معروف شک ری رات کو ان جھ ریوں میں پہنچ‬ ‫گیے۔ صبح تک کبوتروں ک انتظ ر کرتے رہے لیکن صبح تک‬ ‫ایک کبوتر بھی نہ آی ۔ انہوں نے صبح اٹھ کر دیکھ ۔ ایک کبوتر‬ ‫کے کچھ پر بکھرے پڑے تھے۔ انہیں سخت م یوسی ہوئی۔ انہوں‬ ‫نے طے کی آئندہ زن نیوں کی ب توں میں آ کر عم ی قد نہیں‬ ‫اٹھ ئیں گے۔‬ ‫افسوس یہ فیص ہ محض زب نی کامی ک تھ ۔ عمل زن نیوں کے‬ ‫کہے پر ہی ہوت رہ اور ہوت آ رہ ہے۔ اگ ے وقتوں میں کھم‬ ‫سے ڈار بنتے تھوڑا وقت لگت تھ لیکن آج بھا ہو موب ئل فون‬ ‫ک ایس ہونے کے لیے منٹ سکنٹ خرچ ہوتے ہیں۔ مڈی بھی‬ ‫کمپنی کی مشہوری کے لیے کچھ ک کچھ بن دیت ہے۔‬


‫ق تل‬ ‫بہت سے اوروں کے ک رن مے ش ہوں اور ش ہ والوں کے کھ تے‬ ‫چڑھتے آئے ہیں اور آتے وقتوں میں ان ک رن موں کے حوالہ‬ ‫سے ش ہ اور ش ہ والے ج نے اور پہچ نے گئے ہیں۔ اسی طرح‬ ‫ن کردہ ی ش ہوں کے کردہ پ پ اور جر ک زوروں ک مقدر‬ ‫ٹھہرے ہیں۔ ہٹ ر انس نیت ک بدترین دشمن کہ ج ت ہے لیکن‬ ‫‪ ٥‬میں خون میں رنگ دینے واا چٹ س ہل پر نہ ی ت ریخ‬ ‫کے اورا پر نظر آت ہے۔ دھرتی اور دھرتی والوں سے غداری‬ ‫کرنے والے شورےف میں داخل ہوئے۔ اندھیر یہ کہ آج بھی‬ ‫انہیں قو کے ہیرو سمجھ اور ج ن ج ت ہے۔‬ ‫شکورے کے س تھ بھی کچھ ایس ہی ہوا ح اں کہ وہ وچ رہ ش ہ‬ ‫ی کسی ش ہ والے ک غدار نہ تھ ۔ مشقتی تھ صبح ج ت رات کو‬ ‫آت ۔ جو محنت نہ میسر آت بیوی بچوں پر خرچ کر دیت ۔ اپنے لیے‬ ‫ایک پ ئی بھی بچ کر نہ رکھت ۔ اس ک مؤقف تھ اگر یہ پل سمبھ‬ ‫گئے تو وہ س ل ہو ج ئے گ ۔ اس ک خ وص اور پی ر اس کی‬ ‫کپتی بیوی کے نزدیک ص ر کی حیثیت نہ رکھت تھ ۔ اس ک خی ل‬ ‫تھ کہ شکورے نے ب ہر ب ہر بہت کچھ جمع کر رکھ ہے اور اس‬ ‫جمع پونجی پر س نپ بن کر بیٹھ ہوا ہے۔ اکھ قسمیں کھ نے‬ ‫اور یقین دانے کے ب وجود وہ اپنی ہٹ پر ڈٹی ہوئی تھی۔ وہ‬ ‫چ ہتی تھی کہ س ری جمع پونجی اور مک ن جو شکورے کو‬


‫واراثت ما تھ ۔ اس کے ن کرکے مرنے کی کرے۔ اس کے پ س‬ ‫تھ ہی لی جو بیوی کے ن کر دیت ۔ رہ گی مک ن وہ کون س اس‬ ‫نے قبر میں لے ج ن تھ ۔ بچوں ک ہی تو تھ ۔‬ ‫اس کی بیوی ک اصل مس ہ یہ تھ کہ وہ س کچھ ح صل کرکے‬ ‫اپنے ی ر ڈرائیور کے س تھ جنت بس ن چ ہتی تھی۔ خود تو س را‬ ‫دن کھ تی پیتی اور جی بھر کر سوتی ج شکورا گھر آت تو‬ ‫کوئی ن کوئی بہ نہ تراش کر رات گئے تک اس کی م ں بہن ایک‬ ‫کر دیتی۔ وہ وہ ب تیں اس سے منسو کر دیتی جن ک اس کے‬ ‫فرشتوں کو بھی ع نہ ہوت ۔ وہ ج ن چھڑانے کی اکھ کوشش‬ ‫کرت مگر کہ ں۔ رات گئے تک مخت ف قس کے میزائل اور ب‬ ‫برس تی۔ بڑی مشکل سے خاصی ہوتی تو بن کھ ئے پئے صبر‬ ‫شکر کے گھونٹ پی کر سو رہت ۔ وہ یہ س اس لیے برداشت‬ ‫کرت کہ اس کے بچے بڑے ہو کر یہ نہ کہیں کہ ب پ نے انہیں‬ ‫راہ میں ہی چھوڑ دی ۔‬ ‫اس دن تو کم ل ہی ہو گی ۔ ش نو نے ایس الزا اس پر دھر دی‬ ‫جو کبھی اس سے متع رہ ہی نہ تھ ۔ لڑائی میں کہنے لگی ت‬ ‫نے اپنی پہ ی بیوی اور بچے کو اپنی معشوقہ رجو کے لیے زہر‬ ‫دے کر م ر دی ۔ اس بیوی کو م را جو اس کی ج ن تھی ج کہ‬ ‫بچہ بڑی منتوں مرادوں سے ہوا تھ ۔ شکورے نے پوچھ یہ‬ ‫تمہیں کس نے بت ی ‘ کہنے لگی تمہ ری بھرج ئی نے جو بڑی‬ ‫کھری عورت تھی۔ وہ کھری عورت جو پچ س خص بدل کر آئی‬


‫تھی۔ سچ اور ح کی سخت دشمن تھی۔ وہ یہ س سن کر بڑا‬ ‫حیران ہوا اس نے اپنے بچے اور بیوی کو اس رجو کے لیے‬ ‫م را جسے اس نے کبھی دیکھ سن ہی نہ تھ ۔ ج ن پہچ ن ی پی ر‬ ‫محبت تو بڑی دور کی ب ت۔‬ ‫آدھی رات کو ب آواز ب ند کہی گئی اس ب ت کو آج چ لیس برس ہو‬ ‫چ ے ہیں۔ وہ بہ مشکل چ ت پھرت ہے لوگ اسے آج بھی بیوی‬ ‫اور بچے ک ق تل سمجھتے ہیں۔ وہ مسجد میں سر پر کا مقدس‬ ‫رکھ کر قسمیں کھ چک ہے لیکن لوگ کہتے ہیں چور ی ر اور‬ ‫ٹھگ کی قس ک اعتب ر نہیں کی ج سکت ۔ اس کی شرافت اور‬ ‫عاقہ کے لوگوں سے بھائی کسی کو ی د تک نہیں۔ قی مت یہ کہ‬ ‫اسے اس کے بچے بھی بڑی امی اور اپنے بڑے بھ ئی ک ق تل‬ ‫سمجھتے ہیں۔ حیرت کی ب ت یہ کہ شکورے کی بیوی نہ ش ہ‬ ‫تھی اور نہ ش ہ والی تھی اس کے ب وجود اس ک کہ ش ہ ی ش ہ‬ ‫والی ک س ث بت ہوا۔‬


‫گی رہ مختصرے‬

‫مقصود حسنی‬

‫ابوزر برقی کت خ نہ‬ ‫فروری‬


Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.