گی رہ مختصرے
مقصود حسنی
ابوزر برقی کت خ نہ فروری
مندرج ت اچھ نہیں ہوت
منظومہ
آئندہ کے لیے
منس نہ
منہ سے نک ی
منس نہ
یک مشت
منس نہ
دیگچہ تہی دامن تھ
لوک نہ
حک عدولی
لوک نہ
لوگ کی ج نیں
لوک نہ
چپ ک مع ہدہ
منس نہ
ک لی زب ن
لوک نہ
ف یص ہ
لوک نہ
ق تل
منس نہ
اچھ نہیں ہوت ہ ں میں موت ن ں میں بہن ک گھر اجڑت تھ برسوں ک بن کھیل بگڑت تھ چپ میں ک سکھ تھ چ ر سو بچھ دکھ تھ زندگی کی تھی اک وب ل تھ بھ گ نک نے کو نہ کوئی رستہ بچ تھ پہیہ زندگی ک پٹڑی سے اتر رہ تھ زیست ک پ ؤں بےبصر دلدل میں گر رہ تھ بےچ رگی ک نی دانت نکل رہ تھ بہنوئی کی آنکھوں میں سکوں کی ہری لی تھی آتی ہر گھڑی اس کے لیے کرم والی تھی بہن کی آنکھ سے چپ کے آنسو گرتے م ں کی آنکھوں کے حسیں سپنے بےکسی کے قدموں میں بکھرتے
کی کرت کدھر کو ج ت خود کو بچ ت کہ م ں کے آنسوؤں کے صدقے واری ج ت زہر ک پی لہ مرے رو بہ رو تھ تذبذ کی ص ی پہ لٹک کے شنی اپنے ک رے میں س ل ہوا پیت تو یہ خود کشی ہوتی ٹھکرات تو خود پرستی ہوتی پیچھے ہٹوں کہ آگے بڑھوں ہ ں نہ کے پل پر بےکسی کی میت اٹھ ئے کھڑا تھ آگے پیچھے اندھیرا منہ پھ ڑے فیص ے کی راہ دیکھ رہ تھ پھر میں آگے بڑھ اور زہر ک پی لہ اٹھ لی خودکشی حرا سہی کی کرت
بہن کی بےکسی م ں کے آنسو بےوق ر کیوں کرت اب یس قہقے لگ رہ تھ نہ پیت ت بھی اسی کی جیت تھی پھر بھی وہ قہقے لگ ت دوزخی با نے مرے گھر قد رکھ گھر ک ہر ذرہ لرز لرز گی میں بھی موت کے گھ ٹ اتر گی جسے ت دیکھ رہے ہو ہنستی بستی زندگی ک بےک ن اشہ ہے پہ ے دو ٹھک نے لگ آئی تھی اشے کو کیوں ٹھک نے لگ تی اشے ک م س کھ چکی ہے ہڈی ں مگر ب قی ہیں بہن اشے کو دیکھ کر روتی ہے ہڈی ں مگر کی تی گ کریں
آنسوؤں کے قدموں میں کی دھریں کوئی اس کو ج کر بت ئے السہ سرحدوں کی ک چیز ہے جہ ں ت کھڑی ہو وہ تو فقط اس کی دہ یز ہے کوئی ح دثہ ہی تمہیں خ وند کی السہ کے جہن سے ب ہر ائے گ پھر تمہ را ہر آنسو پچھت وے کی اگنی میں ج ے گ ت تک ہڈی ں بھی یہ دوزخ کی رانی کھ چکی ہوگی راکھ ہو گی نہ کوئی رفتہ کی چنگ ری ہو گی تو السہ کی آری دکھ ک دری بہہ رہ ہو گ ہر لمحہ تمہیں کہہ رہ ہو گ ح کی بھی کبھی سوچ لی کرو لقموں ک د بھرن اچھ نہیں ہوت اچھ نہیں ہوت
آئندہ کے لیے بہت اع ی درجے کی چیزیں میسر ہوں‘ لیکن آدمی ک بس اوق ت ان سے ک تر درجے کی چیز کھ نے کو جی چ ہنے لگت ہے۔ ایک مرتبہ‘ اس کے س تھ بھی کچھ ایسی ہی صورت گزری۔ س کچھ میسر تھ ‘ لیکن مولی کھ نے کے لیے‘ اس کی طبیعت مچل مچل گئی۔ پھر وہ سبزی منڈی کی طرف بڑھ گی ۔ منڈی کے دروازے سے ایک ب ب جی‘ جنہوں نے اپنے کندھے پر‘ مولیوں ک گٹھ اٹھ رکھ تھ ‘ نک ے۔ اس میں سے ایک مولی نک ی اور نیچے گر گئی۔ اس نے نیچے سے مولی اتھ ئی اور ب ب جی کو دینے کی غرض سے آگے بڑھ ۔ ج اس نے آواز دی تو ب ب جی نے مڑ کر دیکھ ۔ ج ب ب جی نے مڑ کر دیکھ ‘ تو اس نے مولی ان کی ج ن بڑھ تے ہوئے کہ :ب ب جی یہ مولی گر گئی تھی‘ لے لیں۔ وہ مسکرائے اور کہ :ت لے لو۔ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گیے۔ پہ ے تو اس نے غور نہ کی ‘ اس کے بعد اس نے غور کی کہ مولیوں ک گٹھ ‘ اس انداز سے بندھ تھ کہ مزید مولی ں گرنے ک قوی امک ن تھ ۔ پھر وہ چھوٹے قدموں ان کے پیچھے پیچھے چ نے لگ ۔ ک فی دور تک گی ‘ لیکن مزید کوئی مولی نہ گری۔ اچ نک ب ب جی نے دوب رہ سے پیچھے مڑ کر دیکھ ‘ تو اس نے
کہ :ب ب جی میں یہ مولی آپ کو دینے کے لیے‘ آپ کے پیچھے آ رہ تھ ۔ یہ سن کر‘ ب ب جی نے بڑے غصے سے اس کی ج ن دیکھ ۔ مولی تو نہ لی‘ لیکن بڑی سنجیدگی سے کہ :ی د رکھو ہ تمہیں اور تمہ ری ح ج ت کو‘ ت سے زی دہ ج نت ہے اور اس کے مط ب عط کر دیت ہے۔ ج بھی‘ موجود میں مزید ک طمع کرو گے‘ پہ ے سے بھی ہ تھ دھو بیٹھو گے۔ موجود پر ہ ک شکر ادا کرو‘ ت کہ وہ تمہیں تمہ ری ضرورت کے مط ب عط فرم ت رہے۔ اسے اپنی حرکت پر سخت شرمندگی ہوئی‘ لیکن آئندہ کے لیے ک ن ہو گئے۔ محتر ڈاکٹر مقصود حسنی ص ح السا ع یک مختصر ،پرمغز ،سب آموز ،فکر ک مواد لئے یہ افس نہ بہت اچھ لگ ۔ خ ص کر یہ ہم ری دور ح ضر کی " اشرافیہ" کے منہ پر طم نچہ نہیں ب کہ تپنچہ ہے لیکن اگر اشرافیہ ڈھیٹ ہو ،جو ہے ،بڑے بڑے توپ بھی بےک ر ہیں۔ ڈاکٹر ص ح مع شرہ کو آئینہ دکھ ن آپ ک ک ہے اسی احسن طریقہ سے نب ہتے رہئے۔ سدا سامت رہیں اور ق ک پ س کرتے رہیں۔
والسا ط ل دع ک یل آحمد http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10463.0
منہ سے نک ی ج بھی کوئی بچہ گر ج ت ی اسے کسی اور وجہ سے چوٹ آ ج تی‘ فتو کے منہ سے بےس ختہ نکل ج ت :ہ ئے تیری م ں مرے۔ یہ فتو کے نہیں‘ ممت کے منہ نک ی آواز ہوتی اور اس میں درد بھی ہوت ۔ م ں بےشک م ں ہوتی ہے اور دنی میں اس ک کوئی متب دل رشتہ موجود نہیں۔ اس قس کی م درانہ ش قت‘ میں اپنی م ں کے ہ ں بھی دیکھت اور سنت آرہ ہوں۔ ت ہی تو تک یف میں بےس ختہ منہ سے ہ ئے م ں نکل ج ت ہے۔ ایک ب ر میں بیم ر پڑا۔ فتو میرا سر دب رہی تھی۔ تک یف میں شدت ہوئی تو میرے منہ سے ہ ئے م ں نکل گی ۔ فتو نے وہیں
ہ تھ روک لیے اور غصہ سے اپنی چ رپ ئی پر ج کر لیٹ گئی۔ میں نے اس کی طرف دیکھ اور کہ :کی ہوا‘ کیوں روٹھ کر چ ی گئی ہو۔ دیکھ تو رہی ہو کہ میں تک یف میں ہوں۔ بڑی غصی ی آواز میں کہنے لگی :دب میں رہی ہوں‘ ی د م ں کو کرتے ہو۔ ج ؤ اسی سے دبوا لو۔ اس کی ب ت میں د تھ اور میں شرمندہ س ہو گی ۔ ک فی دیر تک من من کرت رہ لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ منہ سے نک ی کیسے منہ میں ج سکتی تھی۔ آئندہ سے اس ک ن لینے ک وعدہ بھی کی ح اں کہ یہ بس سے ب ہر کی چیز تھی۔ اس روز چھوٹی ک کی گر پڑی مجھے دکھ ہوا۔ میں تیزی سے اس کی ج ن بڑا۔ میری پدرت پورے پہ ر کے س تھ ج گی۔ س بقہ تجربے کے ت بع‘ میں نے منہ سے ہ ئے تیری م ں مرے نک ا۔ اپنی اصل میں یہ م درت کی قدر کرنے کے مترادف تھ ۔ وہ ک کی ک دکھ تو بول گئی اور دونوں پ ؤں سمیت مجھ پر چڑھ دوڑی۔ ہ ں ہ ں ت تو چ ہتے کہ میں مر ج ؤں ،میں بڑے دنوں سے تمہ رے بدلے بدلے تیور دیکھ رہی ہوں۔ ت تو ہو ہی ن شکرے۔ جتن کرو یہ ں اس کیے کی کوئی وٹک نہیں۔ یہ کہہ کر بھ ئی کے گھر روٹھ کر ج نے کے لیے تی ر ہونے لگی۔ میں نے قس کھ کر اس پر اصل حقیقت واضح کرنے کی کوشش کی ،مگر کہ ں جی خاصی نہیں کر رہی تھی۔
م نت ہوں میرے کہے میں سو فی صد دانستگی تھی۔ دس بیس پرسنٹ خواہش بھی تھی لیکن خواہش سو فی صد نہ تھی۔ دوسرا میرے کہے پر وہ مر تھوڑا ج تی۔ اگر ایس ہوت تو دنی میں کوئی عورت ب قی نہ رہتی۔ اس کے منہ سے سیکڑوں ب ر ہ ئے تیری م ں مرے نکا لیکن وہ ایک ب ر بھی نہ مری تھی۔ کچھ ب تیں کہنے کی ہوتی ہیں لیکن ہونے ک اس سے کوئی تع واسطہ نہیں ہوت ۔ خیر چھوڑیے مجھے اپنی اس دانستگی کی بڑی کڑی سزا م ی۔ منتیں ترلے تو کیے ہی‘ ک نوں کو ہ تھ لگ ن پڑے‘ س تھ میں پا بھی جھ ڑن پڑا۔ عزیز مکر حسنی ص ح :سا مسنون آپ کے یہ مختصر لیکن معنی آفریں انش ئیے دلچسپ اور سب آموز ہوتے ہیں ب ہر لوگ ان کو بہت شو سے پڑھتے ہیں۔ افسوس کہ ہر شخص (بشمول راق الحروف) ہر انش ئیے پر اظہ ر خی ل نہیں کرت ہے اور ش ید کر بھی نہیں سکت ۔ میری ن چیز داد ح ضر ہے۔ ہ آپ کو نوازے آپ کی موجودگی ہم رے لئے ب عث مسرت وافتخ ر ہے۔ اور اردو انجمن اس عن یت کے لئے آپ کی ممنون احس ن ہے۔ یقین ہے کہ اپ اسی طرح ہم ری ہمت افزائی کرتے رہیں گے۔
ایک گزارش ہے۔ آپ لکھتے رہتے ہیں لیکن دوسروں کی تخ یق ت پر کبھی اظہ ر خی ل نہیں کرتےہیں۔ آپ کی اع نت اور رہنم ئی اور گ ہےگ ہے داد کی ہ س کو ضرورت ہے۔ خدا را دوسروں پر بھی لکھئے اورصرف رسمی ست ئش نہیں ب کہ ن قدانہ نگ ہ ڈالئے۔ بڑی عن یت ہوگی۔ شکریہ سرور راز http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10464.0
یک مشت شہ دین س را دن دفتر میں ص ح کی چ کری کرت ۔ وہ ں سے ایک مل م لک کے گھر ج ت ۔ ان ک سودا س ف ات ی کوئی اور ک ہوت تو وہ انج دیت ۔ کبھی آٹھ بجے تو کبھی دس بجے وہ ں سے خاصی پ ت تو گھر آت ۔ اس وقت اس ک جس ٹوٹ پھوٹ س گی ہوت اور اسے آرا کی اشد ضرورت ہوتی۔ مگر کہ ں‘ گھر آت تو کوئی ن کوئی گھری و رپھڑ اس ک انتظ ر کر رہ ہوت ۔ اسے نپٹ نے میں اچھ خ ص وقت اٹھ ج ت ۔ گھر والی اس سے بےنی ز تھی کہ وہ س را دن کتنی مشقت اٹھ ت ہے۔ گھر کی دال روٹی چانے کے لیے اسے کتنے پ پڑ بی ن پڑتے ہیں۔ اس روز بھی کچھ ایس ہی ہوا۔ اس نے گھر کی دہ یز پر قد رکھ ہی تھ کہ زکو اپنے دانت درد ک سی پ لے کر بیٹھ گئی۔ اس نے بڑے تحمل سے کہ ۔ ک کے کو س تھ لے کر ڈاکٹر سے دوا لے آن تھی۔ ابھی ایک پیراسیٹ مول کی گولی لے لو اور س تھ میں اچھی طرح حکی ص ح واا منجن کر لو۔ مجھے کھ نے کو کچھ دو سخت بھوک لگی ہوئی ہے۔ تمہیں کھ نے کی پڑی ہے ادھر میں درد سے مر رہی ہوں۔ وہ بڑ بڑ کرت ہوا صبر شکر کرکے بھوک ہی چ رپ ئی پر لیٹ گی ۔ تھک ہوا تھ سخت بھوک کے ب وجود نیند نے اس کو اپنی گرفت میں لے لی ۔ چوں کہ پیش کرکے نہیں سوی تھ اس لیے اسے آدھی رات کو اٹھن
پڑا۔ زکو گہری نیند سو رہی تھی لہذا اس نے اسے جگ ن من س نہ سمجھ اور دوب رہ آ کر لیٹ گی ۔ صبح ٹھیک ٹھ ک اٹھی بچوں کو کھا پا کر سکول بھیج دی ۔ پھر خود بھی پیٹ بھر کر کھ ی ۔ وہ بھی اتنی دیر میں ک پر ج نے کے لیے تی ر ہو گی ۔ ن شتہ پ نی دینے کی بج ئے دانت ک درد لے کر بیٹھ گئی۔ کہنے لگی س ری رات درد سے سو نہیں ح اں کہ وہ خراٹے بھری نیند سوئی تھی۔ وہ خود ہی ‘سکی رسوئی میں گھس گی ۔ بھوک نے اسے نڈل کر دی ‘ جو ہ تھ لگ کھ لی ۔ وہ متواتر بولے ج رہی تھی۔ اس نے ک پر ج تے ہوئے کہ :ڈاکٹر کے پ س ج کر دوائی لے آن ۔ دانت ک درد سخت تک یف دیت ہے۔ پیسے تمہ رے پ س ہیں ہی۔ اس کے بعد کوئی جوا سنے بغیر ک پر چا گی ۔ اسے زکو کی اس حرکت پر کوئی غصہ نہ آی ‘ کیوں کہ یہ کوئی نئی ب ت نہ تھی روز ک رون تھ ۔ رات کو ج گھر لوٹ تو اس نے پوچھ :دوا ائی ہو۔ دانت میں سخت درد ہو رہ ہے۔ ‘اس نے جواب کہ :نہیں ائی ان تھی۔ خواہ مخواہ درد برداشت کر رہی ہو۔ ‘کیوں نہیں ائی لگت ہے دانت نک وان پڑے گ ۔ کیوں نک واتی ہو‘ دانت دوب رہ تو نہیں اگے گ ۔ کھ نے پینے میں دشواری ہو گی۔
ب طنی طور پر وہ چ ہت تھ کہ نک وا ہی لے چ و چ ر دن تو اس کے منہ کو چپ لگے گی۔ پھر وہ اس سے جع ی ہ دردانہ بحث کرت رہ ۔ اسے مع و تھ کہ جس ک سے وہ منع کرئے گ زکو وہ ک کرکے ہی رہے گی۔ ک فی دیر بحث کرنے کے بعد اس نے کہ چ و جس طرح من س سمجھتی ہو‘ کر لو۔ اچھ تو کل میں گ ؤں ج تی ہوں وہ ں سے دانت نک واتی ہوں۔ ہم رے گ ؤں ک ڈاکٹر بڑا سی ن ہے۔ دلی طور پر وہ چ ہت تھ کہ چ ی ہی ج ئے چ ر دن تو سکون کے کٹیں گے۔ دانت نک وا کر آئے گی تو بھی دو ایک دن اس کے منہ کو سکون رہے گ ۔ اس نے کہ :شہر چھوڑ کر گ ؤں ج تی ہو۔۔۔۔ نہیں نہیں یہ ں ہی سے نک وا لو ی ڈاکٹر کو دیکھ لو جو مشورہ دے گ کر لین ۔ اسے دوب رہ سے ن ٹک کرن پڑا۔ وہ گ ؤں ج نے پر اڑی رہی۔ پھر اس نے کہ اچھ جیسے تمہ ری مرضی کر لو۔ وہ اپنی جیت پر خوش تھی۔ ح اں کہ جیت اسی کی ہوا کرتی تھی۔ اگ ے دن صبح صبح ہی وہ گ ؤں ج نے کے لیے بچوں سمیت تی ر ہو گئی۔ ک پر ج تے ہوئے اس نے کہ گھر کی چ بی خ لہ رحمتے کو دے دین ۔ زکو گ ؤں میں پورا ہ تہ گزار کر آئی۔ اس نے گھر آتے ہی اس سے دانت کے متع پوچھ ۔ تمہیں اس سے کی ۔ ت کون س میرا
پوچھنے گ ؤں آ گئے تھے۔ اس نے ہ تہ عیش اور مرضی ک گزرا تھ ۔ دانت اس نے نک وای ی نہیں نک وای وہ یہ نہ ج ن سک ہ ں البتہ اس نے اس کی کوت ہی کی پ داش میں ہ تہ بھر کی یک مشت کسر نک ل دی اور اسے چوں تک کرنے ک موقع فراہ نہ کی ۔ ………………..
دیگچہ تہی دامن تھ بہت پہ ے کی ن سہی لیکن اتن ضرور طے ہے کہ یہ ب ت پہ ے کی ہے۔ ا کہ دو نمبری کے لیے اتنی مشقت نہیں اٹھ ن پڑتی۔ دو نمبری ک س م ن س می خود اپنے ہ تھ سے فراہ کرتی ہے۔ ہ ں یہ ب ت حتمی طور پر نہیں کہی ج سکتی کہ دو نمبری کے لیے دو نمبر ک س م ن فراہ کی ج ت ہے۔ یہ بھی کہ چھین لینے ک رواج ع ہو گی ہے۔ ہتھی ر آکڑ خ ن کے لیے اٹھ ن پڑت ہے ورنہ قدرے شریف کو آنکھیں دیکھ کر اس کی گرہ ص ف کر لی ج تی ہے۔ اسی طرح قدرے شریف‘ شریف سے اونچی ی گا پھ ڑ آواز سے ک لے کر اس کی گرہ خ لی کرنے ک ڈھنگ خو خو ج نت ہے۔ اس روز ان چ روں کو ک فی مشقت سے ک لین پڑا ت ج کر ڈوموں کی مرغی ہ تھ لگی۔ مرغی پ ی پائی ن یس اور بڑی نخرے والی تھی۔ جھ نسہ دینے میں بھی بڑی ط تھی۔ ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر آنے ج نے میں اسے م کہ ح صل تھ ۔ وہ بھی ہٹ کے پکے تھے۔ ان ک روز ک ک تھ کیسے بچ کر نکل ج تی۔ س تھ کے گ ؤں کے مولوی ص ح سے تکبیر پڑھ ئی اور اسے ڈکرے ڈکرے کرکے دیگچے کے حوالے کر دی ۔ پکنے کے بعد حس مع ہدہ چوتھ ئی مولوی ص ح کی خدمت میں نذرانہ پیش کر دی ۔ یہ ان ک یقین بہت بڑا احس ن تھ
وہ حرا کو حال میں تبدیل کرنے میں ک یدی کردار ادا کرتے آ رہے تھے ت ہ حال کو حرا قرار دین بھی ان کے لیے قطع دشوار نہ تھ ۔ کھ نے لگے تو انہیں ایک انوکھ طور سوجھ ۔ ان میں سے ایک کہنے لگ ۔ اس پکوان کو کل صبح وہ کھ ئے جو س سے اچھ اور بڑھی خوا دیکھے۔ یہ تجویز س کو بھ ئی۔ پھر وہ آرا اور سکون کی نیند سو گئے۔ اگ ی صبح اٹھے اور اپن اپن خوا سن نے لگے۔ ایک نے اپن خوا سن ی کہ وہ س ری رات پیرس کے ب زاروں میں پھرا اور خو خریداری کی۔ پیرس کی نخری ی چھوریوں کے س تھ آنکھ مٹک کرت رہ ۔ ایک دو تو اس کی ب ہوں میں بھی رہیں۔ س نے واہ واہ کی اور اس کے خوا کی اچھی خ صی داد دی۔ دوسرے نے خوا سن ی کہ اسے خوا میں امریکی صدر کی ج ن سے امریکہ آنے کی دعوت م ی۔ وہ خوشی خوشی ہوائی جہ ز پر بیٹھ کر امریکہ گی ۔ امریکی صدر اور اس کے اع ی عہدےدار ہوائی اڈے پر اس ک استقب ل کرنے آئے۔ اس کے بعد وہ امریکی صدر کے س تھ بھ ری پہرے میں امریکہ کی سیر کرت رہ ۔ ایک دو جگہ پر اسے خط کرنے ک موقع بھی ما۔ خوا کے اچھ نہیں‘ بہت اچھ ہونے میں رائی بھر شک نہ تھ ۔
زمینی خدا کے س تھ ہون اور پھر اتنی عزت م ن کوئی ع ب ت نہ تھی۔ ا تیسرے کی ب ری تھی۔ اس نے کہ خوا میں آسم نی گھوڑا اسے اسم نوں کی سیر کرانے کے لیے آ گی ۔ اس نے دل بھر کر چ ند ست روں کی سیر کی۔ حوریں اور فرشتے قط ر در قط ر اس کے س تھ رہے۔ پھر اس نے جنت کی سیر کی۔ بڑے بڑے بزرگوں سے بھی ماق ت ہوئی۔ یہ خوا پہ ے دونوں کو کٹ کر رہ تھ ۔ پکوان پر اسی ک ح ٹھہرت تھ ۔ چوتھے نے کہ ی ر رات کو میرے س تھ بڑا دھرو ہو گی ۔ س پریش ن ہو گئے اور یک زب ن ہو کر بولے کیوں کی ہوا۔ بوا ی ر ہون کی تھ میں گہری نیند سو رہ تھ کہ ایک حبشی جس کے ہ تھ میں تیز دھ ر ت وار تھی۔ اس نے مجھے زور سے جھنجھوڑا۔ میں ڈر کر اٹھ بیٹھ ۔ اس نے ت وار دیکھ تے ہوئے کہ :یہ تمہ رے دوست ہیں تمہیں یہ ں اکیا چھوڑ کر موج مستی کر رہے ہیں۔ چل اٹھ اور تو مرغی کھ کر دیگچہ خ لی کر۔ میں نے ج پس وپیش کی تو اس نے مجھے ت وار دیکھ تے ہوئے کہ اگر نہیں کھ ئے گ تو تمہ را سر اڑا دوں گ ۔ زور دبردستی کے س منے ک کسی کی چ ی ہے‘ مجبورا مجھے س را دیگچہ خ لی کرن پڑا۔ یقین م نیں پریش نی اور بدہضمی کے سب اس کے بعد مجھے نیند نہ آ سکی۔
تینوں ج دی سے دیگچے کی ج ن بڑے‘ دیکھ دیگچہ اپنی تہی دامنی پر خون کے آنسو بہ رہ تھ ۔
حک عدولی زندگی جو جیسی تھی‘ چل رہی تھی۔ ہر کوئی اپنے ک میں مگن تھ ۔۔ گری ‘ گربت عسرت بےبسی بےچ رگی اور تنگی ترسی‘ چودھری بامشقت عیش وعشرت اور مولوی ص ح مذہبی مس ے مس ئل سن کر چوپڑی کھ نے میں مصروف تھے۔ کوئی مع م ہ الجھ ج ت تو چودھری کے ڈیرے پر چا ج ت اور وہ ں سے اپنے بندے انص ف لے کر خوشی خوشی اور جیت کے نشے میں گھر لوٹتے۔ کوئی الجھ ؤ کی گھمیر صورت نہ تھی۔ ہر کسی ک شخصی اسٹیٹس طے تھ ۔ صدیوں سے چودھری زمین ک م لک تھ ‘ ب قی اس کے ک مے ی پھر کچھ کمی تھے۔ مراسی ب طور ڈاکی اور ای چی اپنے فرائض انج دیت تھ ۔ مولوی ص ح مذہبی امور اپنی مرضی اور اپنے س یقے سے طے کرتے تھے۔ م ئی ص حبہ بچوں کو چ ر دیواری میں تع ی دیتی تھیں۔ گوی زندگی س لوں سے ایک ہی ڈگر پر چ ی آ رہی تھی۔ چھوٹی موٹی زمینی و سم وی آف تیں ٹوٹتی رہتی تھیں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ان سے نپٹتے رہتے تھے اور اپنی بس ت میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کرتے۔ کچھ مجبوروں کی مجبوری سے ف ئدہ بھی اٹھ تے۔ چودھری اپنوں اور جوان بیٹیوں اور بہنوں والوں کی مدد کرت ۔ ب قی لوگوں کو تس ی تش ی
دیت ۔ اپنے حری وں ی بدتمیزوں کی م لی اور زب نی خو لہہ پہہ کرت ۔ مولوی ص ح دع وغیرہ کرنے کے س تھ س تھ لوگوں کو ان کے گن ہوں کی ی د داتے۔ اکثر فرم تے یہ س ش مت اعم ل ہے۔ تمہ رے کیے کے جر میں یہ عذا اترا ہے۔ توبہ کرو صدقہ خیرات کرو اور ہ کے گھر کی خو خدمت کرو ت کہ ت پر آسم ن سے آس نی ں ن زل ہوں۔ وہ مصیبت ی عذا سے زی دہ قی مت تھی۔ اس ہڑ کے سب لوگ پریش نی اور افرات ری میں گھر گئے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہ تھ کہ کی کریں اور کی نہ کریں۔ لوگوں کو اشی سے زی دہ ج ن کی فکر تھی۔ ج ن بچ گئی تو یہ چیزیں دوب رہ سے بن ج ئیں گی۔ ج ن ہی نہ رہی تو چیزوں کو سر میں م رن ہے۔ چودھری کو اپنی پڑی تھی وہ کسی اپنے بندے کی کی مدد کرت ۔ آخر س جڑ کر مولوی ص ح کے پ س گئے کہ دع کریں کہ آسم ن سے آس نی ں ن زل ہوں۔ مولوی ص ح کے اپنے ہ تھوں کے توتے اڑے ہوئے تھے۔ اس کے ب وجود انہوں نے کہ کہ ت س ہ کو م ننے والے ہو بس ہ شریف پڑھو اور پ نی میں قد رکھو اور اس کی برکت سے دوسرے کن رے پر پہنچ ج ؤ۔ چودھری سمیت س نے مولوی ص ح کے کہے پر عمل کی اور ہ کے فضل وکر اور احس ن سے‘ سامتی کے س تھ دری کے دوسرے کن رے پر پہنچ گئے۔ انہیں کچھ بھی نہ ہوا‘ ح اں کہ دری س کچھ مٹ دینے پر تا ہوا تھ ۔ ہ کے کا اور ہ پر
ک مل یقین ہونے کے سب وہ ان ک کچھ بھی نہ بگ ڑ سک ۔ مولوی ص ح ان میں نہ تھے۔ لوگ پریش ن ہوئے کہ اتن نیک اور ہ ک بندہ ان کے س تھ نہیں ہے۔ انہوں نے دیکھ مولوی ص ح اپنے بیوی بچوں سمیت چودھری کی رہ ئش گ ہ کی تیسری منزل پر کھڑا تھ ۔ انہوں نے مولوی ص ح کو آوازیں دی کہ آپ بھی ہ کو ی د کرکے بس ہ شریف پڑھ کر آ ج ئیں۔ مولوی ص ح ٹس سے مس نہ ہوئے۔ پھر ایک قی مت خیز لہر ابھری اور گ ؤں ک ن و نش ن تک ب قی نہ رہ ۔ ہ ں البتہ مولوی ص ح ک بڑا بیٹ ب پ کی حک عدولی کرکے گ ؤں والوں کے س تھ آ گی تھ ۔
لوگ کی ج نیں شمو کی ش دی کو چھے س ل ہو گئے تھے۔ یہ اس کے پی ر کی تیسری ش دی تھی۔ اس کی گود ابھی تک خ لی تھی۔ پہ ے پی ر سے حمل ہوا تھ جو اس نے دوسرے پی ر میں اندھی ہو کر گرا دی تھ ۔ دوسرا تین س ل چا لیکن امید سے نہ ہوئی۔ تیسرے پی ر سے ابھی تک کوئی پی ر کی نش نی س منے نہ آ سکی تھی۔ پھر وہ اچ نک ایک مق می ب ب ص ح کے مزار پر ح ضری دینے لگی۔ بگو نے سمجھ بےچ ری کی گود خ لی ہے اسی لیے ب ب ص ح کے درب ر پر ح ضری دینے لگی ہے۔ بگو ک دل بھی گھر کی رون کے لیے مچل مچل رہ تھ لیکن یہ اس کے اختی ر میں نہ تھ ۔ یہ تو ہ کری کی مہرب نی ہوتی ہے کہ وہ گھر کو رونقیں بخش دے ی وہ ویرانہ رہے۔ اگر یہ شخص کے بس ک روگ ہوت تو دھن دولت ہی نہیں اواد ک میوا بھی اہل ثروت اپنے تک محدود رکھتے۔ نے سوچ کیوں نہ یکھ ج ئے کہ ش و ب ب ص حب یک کے رب ر پ کس ط سے ور کی ع م نگتی ہے۔ وہ رب ر کے عقب میں چھپ گی ۔ ش و کی ع سن ک حی ت میں گم ہو گی ور کچھ نہ س ھ پ ی ۔ وہ بڑی آہ تگی سے بڑے ق موں ق م کی ع کیوں سے پہ ے گھ آ گی ور سوچنے لگ کہ وہ نے ک سوچ سوچ ک م پھٹنے لگ ۔ م نگ رہی ہے۔
گ ے رو وب رہ سے رب ر پ ج نے ک فی ہ ک لی ۔ تنی ی میں ش و گھ لوٹ آئی۔ وہ چپ رہ ور ش و کو کچھ نہ جت ی ۔ گ ے وہ ش و سے تھوڑ پہ ے رب ر پ پہنچ گی ۔ ش و بھی نے وب رہ تھوڑی ی کے ب رب ر کے ن ر خل ہوئی۔ سے ع م نگن ش و ک ی۔ پی بگو کو ن ھ ک چڑھ ؤں گی۔
ے میں میٹھے چ ولوں کی یگ چڑھو
بگو نے آو ب ل ک کہ :ٹھیک ہے بچہ ہم تی ی ع قبول ک تے ہیں۔ پ یک ش ط ہے۔ حکم ک سوہنی پی پنے شوہ کو ی ی گھی میں ی ی م غ بھو ج بچہ تیس کی آنکھوں میں چ بی چڑھ آئے گی ور وہ کچھ ک کھا۔ بھی نہ یکھ سکے گ ۔ ٹھیک ے پی میں آج سے ہی یہ ک ش و ک
یتی ہوں۔
نے گھ آ ک ی ی م غ بح ک و ی ور سے ی ی گھی میں بھون ۔ بگو کو بڑی پ یٹ میں ڈ ل ک ے ی ۔ بگو ج ی حی نی سے کہنے لگ ۔ بھ ی بڑی خ مت ک رہی ہو خی تو ہے۔ ش و نے بھ پور ک ری یکھ تے ہوئے کہ :میں نے سوچ ک بہت ک تے ہو ت ہیں چھی ور ب ست خور ک کی ض وت ہے۔
ی ی گھی میں بھن م غ کھ ؤ گے تو ت ہ ری ج کچھ ج ئے گی۔
بن
و ہ بھ ی و ہ۔ کی ب ت ہے۔ پھ وہ کچھ ی تک ج ی پی ر محبت کی ب تیں ک تے رہے۔ ی ی گھی میں بھن م غ کھ کھ ک بگو کی و ق ی ج بن گ ی۔ م غ کھ تے وہ ب ئی و ں تھ ۔ بگو کہنے لگ ۔ ش و ی ر یہ م ھے کی ہو رہ ہے۔ جی گھب رہ ہے ور آنکھوں میں ت رے سے ن چنے لگے ہیں۔ ش و جی میں خو ہوئی کہ پی کی ک مت س منے آ رہی ہے۔ وہ یہ نہیں ج نتی تھی کہ سچے پی ک ی ک ک ی بھی صورت میں ب نہیں ک تے۔ نے قی متی م ک ہٹ کے س تھ کہ کچھ نہیں ہو بس ت ہیں وہم ہو رہ ہے۔ نے ن کے کم ور پھ تق یب ختم ہونے کی کے ب خب سن ئی۔ آخ تی ویں کچھ بھی ن نہ آنے کی خو ک تھ ۔ خب ی سن ہی ی۔ وہ ش و کی خوشیوں ک مین پ پی ہی نہیں آ رہ تھ ۔ بگو نے کہ :میں ک ی ک ک نہیں رہ ڈیوڑی میں می من بچھ و ور می کھونڈ ے و کتے ب ے ن ر نہ آنے وں گ ۔ آ ک چی وں ک ستی ن م ر یتے ہیں۔
ش و نے کہ :ٹھیک ہے۔ نے ڈیوڑی میں سے من بچھ ی ۔ وہ ج نت تھ کہ ش و ج گ رہی ہے۔ تھوڑی ہی ی ب وہ ج ی خ ٹے بھ نے لگ ۔ ش و گھ سے چپکے سے ب ہ نکل گ ی ور کچھ ی کے ب یکھ ۔ بگو گہ ی نین سو رہ نے چھی ط و پس آ گ ی۔ تھ ۔ کچھ ہی ی ہوئی ہو گی کہ یک مشٹنڈ چپکے چپکے گھ میں کے س پ خل ہونے لگ ۔ وہ ہنی طور پ تی ر تھ ۔ بگو نے ی کھونڈ م ر کہ وہ چوں بھی نہ ک سک ور پ ؤں پ ٹکی ہو گی ۔ گھنٹہ ہی گ ر ہو گ یک ور مشٹنڈ گھ میں خل ہونے لگ س گی وی ے تک گی رہ ڈھی کے س تھ بھی وہی کچھ ہو ۔ غ ہو گ ے۔ ن ر ش و چ رپ ئی پ ک و ٹیں لے رہی تھی۔ سے پنے پی روں کے پی ر پ س ت غ ہ آ رہ تھ ۔ پھ وہ تھک ہ ر ک سو رہی۔ نے ڈبو چ سی کو ج ٹھ ی ۔ بگو چ رپ ئی سے ٹھ ور نے پہ ے ہی بن وب ت ک رکھ تھ ۔ جب وہ کے م ل پ نی ک نے سے نوٹ وکھ ئے ور آس نو کی سی یں ک نے لگ تو کہ ی ر یہ ا ری میں پھنک آؤ ور آ ک س رے نوٹ لے لو۔ نے یو ر کے ڈبو چ سی ری میں ا پھینکنے چا گی تو س تھ وس ی ا کھڑی ک ی۔
و پس آ ک کہنے لگ اؤ نوٹ تو بگو نے کہ ا تو پھینک ک آؤ وب رہ سے آ گ ی ہے۔ ڈبو چ سی ر ت بھ سی ک میں م وف رہ ۔ جب آت ا وہ ں کھڑی ہوتی۔ گی رویں ا چڑھ گی تھ ور یک بن ہ ری نہ ک ٹھک نے لگ تے تق یب گھ و پس ج رہ تھ ۔ ڈبو چ سی کو بڑ قہ آی کہ یہ پھ سے پکڑ ور نے سے گ وب رہ سے و پس ج رہ ہے۔ گ لی ں بکت ہو ری کے ن ر لے گی ۔ سے خو ڈبکی ں یں جب م گی تو و پس بگو کے پ آ گی ور کہنے لگ س ا ری سے نکل ک و پس آ رہ تھ ش نہیں آئے گ ش میں سے م ر ک ہی و پس آی ہوں۔ بگو ہن ور کہنے لگ گی رہ ش و کے یک ت ہ ر ۔ ڈبو چ سی کچھ نہ س ھ ور مط ب پوچھنے لگ ۔ خی چھوڑو تم یہ کش لگ ؤ ور نوٹ جیب میں پ ک غ ئب ہو ج ؤ۔ صبح عاقے میں کہ مچ گی لوگ کی ج نیں کہ گی رہ جن ی پی ر کی بھینٹ چڑھ گ ے جب کہ ب ہ و ں ح ویں جن ی پی ر کی غ ق بی کی ر ہ میں آنے کے سبب ری ب ہو گی
چپ ک مع ہدہ ہم ری س تھ کی گ ی میں ایک ص ح رہ کرتے تھے جو آنٹ جی کے ن سے معروف تھے۔ کی ک کرتے تھے۔ کوئی نہیں ج ن پ ی ن ہی کسی کے پ س اتن وقت تھ کہ ان کی کھوج کو نک ت ‘ ان کی بیگ اتنی م نس ر نہ تھی کہ اس کے پ س عورتیں آ کر بیٹھ ج تیں۔ وہ کسی سے کوئی ب ت ہی نہ کرتی تھی۔ اگر کوئی عورت اس کے پ س ج تی تو مسکرا کر م تی۔ آنے والی کی ب تیں سن لیتی لیکن خود ہوں ہ ں سے زی دہ ب ت نہ کرتی۔ مح ہ میں کسی عورت سے م نے ی اس کے دکھ سکھ میں نہ ج تی۔ ہ ں آنٹ جی کوئی مر ج ت تو اس ک جن زہ ہر صورت میں اٹنڈ کرتے اور بس وہیں سے گھر لوٹ ج تے۔ ش کو گھر آتے اور پھر تھوڑی ہی دیر بعد بیٹھک میں آ بیٹھ ج تے اور دیر تک اکی ے ہی بیٹھے رہتے۔ ہ ں مح ہ کے چھوٹے چھوٹے بچے ان کی بیٹھک میں جمع رہتے اور وہ ان کے س تھ بچوں کی طرح کھی تے ان کے س تھ خو موج مستی کرتے۔ جی میں کھا رکھتے با ت ری بچوں کو پیسے دیتے۔ چھٹی واا دن ان بچوں کے س تھ بیٹھک میں گزارتے۔ کسی بچے کو کوئی م رت تو لڑ پڑتے چ ہے اس بچے ک ب پ ہی کیوں نہ ہوت ۔
میں نے غور کی ایک بچے کے س تھ وہ خصوصی برت ؤ کرتے۔ وہ بچہ بھی ان کے س تھ بڑا م نوس تھ ۔ ایک ب ر میں نے دیکھ کہ اس بچے ک ن ک بہہ رہ تھ اور وہ اس ک ن ک بڑے پی ر سے اپنے روم ل کے س تھ صآف کر رہے تھے۔ میں ان کی بیٹھک میں داخل ہو گی ۔ انہوں نے بڑی اپن ہت سے بیٹھنے کو کہ اور دوب رہ سے اس بچے ک ن ک ص ف کرنے لگے۔ میں نے پوچھ ہی لی کہ یہ آپ ک بچہ ہے۔ انہوں نے میری طرف دیکھنے کی بج ئے اس بچے سے پوچھنے لگے تمہ ری م ں کو میں نے دیکھ ہوا ہے۔ بچے نے ن ی میں سر ہای ۔ ج میں نے اس کی م ں کو دیکھ ہی نہیں تو اس کی کیسے دیکھ لی۔ پھر میری طرف دیکھ اور کہ نہیں جی یہ میرا بچہ نہیں ہے۔ مجھے ان کی اس حرکت پر حیرت ہوئی اور میں چپ چ پ اٹھ کر وہ ں سے چا گی ۔ مجھے ان کی یہ حرکت بڑی عجی لگی۔ یہ حرکت تھی بھی عجی نوعیت کی تھی۔ ایک دن مع و ہوا آنٹ جی فوت ہو گئے ہیں اور بیٹھک میں ہی ان کی موت ہوئی۔ کی وہ اندر نہیں سوتے تھے۔ اس روز وہ آنٹی دھ ڑیں م ر م ر کر روئی اور انہیں اکاپے ک احس س ہوا۔ وہ ان کی تھی تو بیوی لیکن بیوی کے اطوار نہ رکھتی تھی۔ وہ اس ک ہر قس ک خرچہ پ نی اٹھ ئے ہوئے تھے۔
دس بیس س ل پہ ے منہ میں ڈھ ئی گز زب ن رکھتی تھی۔ اس ک آگ پچھ کوئی بھی نہ تھ ۔ ب نجھ بھی تھی۔ اس کے ب وجود انہوں نے اسے برداشت کی ہوا تھ ۔ تین ب ر طا طا طا کہنے سے ہمیشہ کے لیے خاصی ہو سکتی تھی۔ وہ ان کی خ لہ کی لے پ لک بیٹی تھی۔ م ں نے مرتے وقت بیٹے سے اپنے سر پر ہ تھ رکھ کر قس لی تھی کہ کبھی اور کسی صورت میں اس ک س تھ نہیں چھوڑے گ ۔ بس آنٹ جی کے منہ کو ت ا لگ گی اور وہ بیٹھک اور مح ہ کے بچوں کے ہو رہے۔ آنٹی اور آنٹ جی کے درمی ن چپ ک مع ہدہ ہو گی تھ ۔ ا وہ دروازے کی دہ یز پر بیٹھی رہتی تھی۔ ج بھی کوئی آنٹ جی ک ذکر کرت تو زار و قط ر رونے لگتی لیکن منہ سے کچھ نہ کہتی۔ بڑی ب ت ہے کہ اتن بڑا س نحہ گزر گی آنٹ جی ہمیشہ کے لیے چ ے گئے پھر بھی اس نے چپ ک مع ہدہ نہ توڑا۔
ک لی زب ن جیج ں اور س ئیں کی دو س ل سے سا دع چل رہی تھی۔ انہوں نے ایک س تھ مرنے جینے قسمیں کھ رکھیں تھیں۔ مع شقہ اپنی جگہ دونوں برے نہ تھے اور ن ہی ان کی محبت رواجی اور وقتی تھی۔ انہوں نے ایک س تھ رہ کر اور موقع م نے کے ب وجود کوئی ن ش ئستہ حرکت نہ کی تھی۔ اس رشتے کے ب رے ہر روز دونوں گھروں میں گرم گر بحث اور تکرار چ تی۔ مع م ہ سنورنے کی بج ئے دن بہ دن الجھت ہی ج رہ تھ ۔ س ئیں کی م ں ج کہ جیج ں ک ب پ اس رشتے کے زبردست ح می تھے۔ اطراف میں کڑی منڈا اپنی جگہ می ں بیوی ک جھگڑا چ ت ۔ ب طور ہ س یہ تع ق ت بھی برے نہ تھے۔ وہ لوگ ایک دوسرے کی عزت اور پ س لح ظ کرتے تھے۔ لین دین بھی تھ ۔ اوکھے سوکھے وقت میں ایک دوسرے کے ک بھی آتے تھے لیکن رشتہ داری بننے کی راہ میں ظ ل سم ج بنے ہوئے تھے۔ کہ ج ت تھ کہ س ئیں کی زب ن ک لی ہے۔ اس روز ب پ بیٹے میں بڑی تکرار ہوئی۔ وہ ایک دوسرے کو م رنے پر ت ے ہوئے تھے۔ س ئیں تھک ہ ر کر سر پکڑ کر وہیں زمین پر بیٹھ گی ۔ اس کی م ں آ گئی اور بیٹے کو داس دینے لگی۔ س ئیں ک ب پ بوا جتنے مرضی داسے دے لو میں یہ رشتہ نہیں کرنے واا۔ س ئیں کے منہ سے بےس ختہ نکل گی ی ہ میرا ب پ مر ہی
ج ئے۔ س ئیں ک ب پ اندر سے ک نپ گی لیکن اکڑ ق ئ رکھتے ہوئے کہنے لگ :جتنی مرضی بددع ئیں م نگ لو میرا کچھ نہیں بگڑے گ ۔ س ئیں ک ب پ س ری رات نہ سو سک ۔ اس کے اندر قی مت مچی رہی۔ صبح وہ صحیح سامت اٹھ ۔ ہ ں البتہ جیج ں ک ب پ مر گی ۔ وہ س ئیں کی م ں کو شریف عورت سمجھ رہ تھ لیکن وہ تو چھپی رست نک ی۔ یہ ب ت ضرور خوش آئند تھی کہ وہ بچ گی اور یہ بھی پردہ میں رہ گی کہ جیج ں مرحو کی نہیں لبھو کی بیٹی ہے۔ س ئیں کی ک لی زب ن نے ایک ک پردہ ج کہ دوسرے ک پردہ چ ک کر دی ۔
ف یص ہ ندی پر بڑی سی لکڑی رکھ کر لوگوں کی سہولت کے لیے چودھری نے پل بنوای تھ ۔ ندی پ ر آب دی نہ تھی محض جھ ڑی ں تھیں۔ عورتیں مل کر رات کو جھ ڑے کے لیے ندی پ ر ج تی تھیں۔ جھ ڑے کے س تھ س تھ مع مات کی مش ورت ج ری رہتی۔ زی دہ تر س س سسر ی پھر نند کی زی دتی ں ی پھر جنسی کرتوتوں کے قصے بھی زیر بحث آتے۔ دو ایک خ وند بھی گ تگو کی گرفت میں آ ج تے۔ رات کو ہونے والے مذاکرات اگ ی صبح گھر کے ک ک ج سے فراغت اور خ ندوں کو ک پر روانہ کرنے کے بعد دو دو گھنٹے بعض اوق ت اس سے بھی زی دہ وقت دیوار پر کھڑے ہو کر رواں اور باتھک ن تبصرے ہوتے۔ اس دن چودھری کے ڈیرے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ شیدو نے بت ی کہ اس کی عورت نے بت ی ہے کہ ندی پ ر رات کو کبوتر آتے ہیں۔ ڈیرے سے سنی ب ت کھبو نے گھر آ کر اپنی زن نی کو بت ئی۔ اس کی زن نی نے پت نہیں رات بھر یہ ب ت کس طرح ہض کی پھر صبح اٹھتے ہی ہ س ئی کے ک ن میں ڈالی۔ پھر یہ ب ت ایک سے دوسری پھر تیسری غرض ش تک وہ مح ہ کی آس پ س کے مح وں میں اپڑ گئی۔ اگ ے وقتوں میں ریڈیو ٹی وی ی موب ئل فون نہیں ہوا کرتے تھے‘ بس اسی طرح سے دور دراز کے عاقوں کی خبریں دنی بھر میں پھیل ج تیں تھیں۔ کوئی
دوسری وائت سے آت کوئی نئی خبر ات تو یہ پورے عاقے میں پھیل کر مخت ف نوعیت کے تبصروں کی زد میں آ ج تی۔ یہ خبر کہ را نگر کی جھ ڑیوں میں کبوتروں کی ڈاریں کی ڈاریں رات کو اترتی ہیں‘ جئےپور پہنچنے میں کوئی زی دہ دیر نہ لگی۔ وہ ں کے معروف شک ری رات کو ان جھ ریوں میں پہنچ گیے۔ صبح تک کبوتروں ک انتظ ر کرتے رہے لیکن صبح تک ایک کبوتر بھی نہ آی ۔ انہوں نے صبح اٹھ کر دیکھ ۔ ایک کبوتر کے کچھ پر بکھرے پڑے تھے۔ انہیں سخت م یوسی ہوئی۔ انہوں نے طے کی آئندہ زن نیوں کی ب توں میں آ کر عم ی قد نہیں اٹھ ئیں گے۔ افسوس یہ فیص ہ محض زب نی کامی ک تھ ۔ عمل زن نیوں کے کہے پر ہی ہوت رہ اور ہوت آ رہ ہے۔ اگ ے وقتوں میں کھم سے ڈار بنتے تھوڑا وقت لگت تھ لیکن آج بھا ہو موب ئل فون ک ایس ہونے کے لیے منٹ سکنٹ خرچ ہوتے ہیں۔ مڈی بھی کمپنی کی مشہوری کے لیے کچھ ک کچھ بن دیت ہے۔
ق تل بہت سے اوروں کے ک رن مے ش ہوں اور ش ہ والوں کے کھ تے چڑھتے آئے ہیں اور آتے وقتوں میں ان ک رن موں کے حوالہ سے ش ہ اور ش ہ والے ج نے اور پہچ نے گئے ہیں۔ اسی طرح ن کردہ ی ش ہوں کے کردہ پ پ اور جر ک زوروں ک مقدر ٹھہرے ہیں۔ ہٹ ر انس نیت ک بدترین دشمن کہ ج ت ہے لیکن ٥میں خون میں رنگ دینے واا چٹ س ہل پر نہ ی ت ریخ کے اورا پر نظر آت ہے۔ دھرتی اور دھرتی والوں سے غداری کرنے والے شورےف میں داخل ہوئے۔ اندھیر یہ کہ آج بھی انہیں قو کے ہیرو سمجھ اور ج ن ج ت ہے۔ شکورے کے س تھ بھی کچھ ایس ہی ہوا ح اں کہ وہ وچ رہ ش ہ ی کسی ش ہ والے ک غدار نہ تھ ۔ مشقتی تھ صبح ج ت رات کو آت ۔ جو محنت نہ میسر آت بیوی بچوں پر خرچ کر دیت ۔ اپنے لیے ایک پ ئی بھی بچ کر نہ رکھت ۔ اس ک مؤقف تھ اگر یہ پل سمبھ گئے تو وہ س ل ہو ج ئے گ ۔ اس ک خ وص اور پی ر اس کی کپتی بیوی کے نزدیک ص ر کی حیثیت نہ رکھت تھ ۔ اس ک خی ل تھ کہ شکورے نے ب ہر ب ہر بہت کچھ جمع کر رکھ ہے اور اس جمع پونجی پر س نپ بن کر بیٹھ ہوا ہے۔ اکھ قسمیں کھ نے اور یقین دانے کے ب وجود وہ اپنی ہٹ پر ڈٹی ہوئی تھی۔ وہ چ ہتی تھی کہ س ری جمع پونجی اور مک ن جو شکورے کو
واراثت ما تھ ۔ اس کے ن کرکے مرنے کی کرے۔ اس کے پ س تھ ہی لی جو بیوی کے ن کر دیت ۔ رہ گی مک ن وہ کون س اس نے قبر میں لے ج ن تھ ۔ بچوں ک ہی تو تھ ۔ اس کی بیوی ک اصل مس ہ یہ تھ کہ وہ س کچھ ح صل کرکے اپنے ی ر ڈرائیور کے س تھ جنت بس ن چ ہتی تھی۔ خود تو س را دن کھ تی پیتی اور جی بھر کر سوتی ج شکورا گھر آت تو کوئی ن کوئی بہ نہ تراش کر رات گئے تک اس کی م ں بہن ایک کر دیتی۔ وہ وہ ب تیں اس سے منسو کر دیتی جن ک اس کے فرشتوں کو بھی ع نہ ہوت ۔ وہ ج ن چھڑانے کی اکھ کوشش کرت مگر کہ ں۔ رات گئے تک مخت ف قس کے میزائل اور ب برس تی۔ بڑی مشکل سے خاصی ہوتی تو بن کھ ئے پئے صبر شکر کے گھونٹ پی کر سو رہت ۔ وہ یہ س اس لیے برداشت کرت کہ اس کے بچے بڑے ہو کر یہ نہ کہیں کہ ب پ نے انہیں راہ میں ہی چھوڑ دی ۔ اس دن تو کم ل ہی ہو گی ۔ ش نو نے ایس الزا اس پر دھر دی جو کبھی اس سے متع رہ ہی نہ تھ ۔ لڑائی میں کہنے لگی ت نے اپنی پہ ی بیوی اور بچے کو اپنی معشوقہ رجو کے لیے زہر دے کر م ر دی ۔ اس بیوی کو م را جو اس کی ج ن تھی ج کہ بچہ بڑی منتوں مرادوں سے ہوا تھ ۔ شکورے نے پوچھ یہ تمہیں کس نے بت ی ‘ کہنے لگی تمہ ری بھرج ئی نے جو بڑی کھری عورت تھی۔ وہ کھری عورت جو پچ س خص بدل کر آئی
تھی۔ سچ اور ح کی سخت دشمن تھی۔ وہ یہ س سن کر بڑا حیران ہوا اس نے اپنے بچے اور بیوی کو اس رجو کے لیے م را جسے اس نے کبھی دیکھ سن ہی نہ تھ ۔ ج ن پہچ ن ی پی ر محبت تو بڑی دور کی ب ت۔ آدھی رات کو ب آواز ب ند کہی گئی اس ب ت کو آج چ لیس برس ہو چ ے ہیں۔ وہ بہ مشکل چ ت پھرت ہے لوگ اسے آج بھی بیوی اور بچے ک ق تل سمجھتے ہیں۔ وہ مسجد میں سر پر کا مقدس رکھ کر قسمیں کھ چک ہے لیکن لوگ کہتے ہیں چور ی ر اور ٹھگ کی قس ک اعتب ر نہیں کی ج سکت ۔ اس کی شرافت اور عاقہ کے لوگوں سے بھائی کسی کو ی د تک نہیں۔ قی مت یہ کہ اسے اس کے بچے بھی بڑی امی اور اپنے بڑے بھ ئی ک ق تل سمجھتے ہیں۔ حیرت کی ب ت یہ کہ شکورے کی بیوی نہ ش ہ تھی اور نہ ش ہ والی تھی اس کے ب وجود اس ک کہ ش ہ ی ش ہ والی ک س ث بت ہوا۔
گی رہ مختصرے
مقصود حسنی
ابوزر برقی کت خ نہ فروری