1
2
قی مت دیکھیے منس نے‘ لوک نے اور شغالنے مقصود حسنی
ابوزر برقی کت خ نہ م رچ ٧
3
فہرست سوال یہ نہیں تھ جیسے کو تیس وہ ج نت تھ صرف اور صرف کھٹور کھٹن ئی حالل کی بوٹی نہ ج ئے م ندن نہ پ ئے رفتن سنیئر سیٹیزنز قی مت دیکھیے ہللا م ف کرے قد قد پر ایسوں میں ہ ں البتہ چ لیس برس ہونے کی تمہیں م و نہیں ب ت تو کوئی بڑی نہ تھی
4
سوال یہ نہیں تھ منس نہ سوال یہ نہیں تھ کہ چوری کیوں ہوئی سوال یہ تھ چور کو چوری کرنے ک موقع کیوں فراہ کی گی ۔ دوسرا گھر میں اگر کچھ تھ تو ہی چور کو موقع مال اور گھر میں چوری ہوئی۔ گھر کے م لک کی کوت ہی کے سب نقص امن کی صورت نک ی۔ گھر میں گربت اور عسرت ک پہرہ ہوت تو چوری نہ ہوتی۔ یہ بھی کہ گری لوگوں میں ص ح حیثیت ک بھال کی ک ۔ لوگ پھل سے بھرے آوارہ اور برسرع پیڑ کی طرف آتے ہیں۔ پھل لگ ب م لک پیڑ ہمیشہ سے ب عث عزت و احترا ٹھہرا ہے۔ خوش ح لی ک تق ض تھ کہ رہ ئش فحش ایریے میں بن ئی ج تی۔ ص ح حیثیت اور شرےف وہ ں ہی رہ ئش کرتے ہیں۔ وہ ں بنے گھروں سے ب ہر کچھ ج ت نہیں بل کہ محت ف حوالوں اور ذری وں سے وہ ں ج کر مح وظ ہو ج ت ہے۔ چور اچکے کی پھنے خ ں سے پھنے خ ں دہشت گرد بھی وہ ں کی فو ال طرت مخ و کو کورنش بج الت ہے۔ ایک طرح سے چور نے عالقے کے لوگوں پر نیکی ہی کی۔ وہ عالقے میں تھوڑا الگ سے لگتے تھے اور لوگوں ک انہیں سال میں پہل کرن سم جی مجبوری تھی۔ ا ایک صف میں
5
کھڑے ہو گئے تھے محمود و ای ز۔ عین ممکن تھ کچھ ہی وقت ب د وہ عالقے کی سپر پ ور کے طور پر س منے آتے اور لوگوں کی ان اور عزت غیرمح وظ ہو ج تے۔ انتظ میہ اور جم ہ دو نمبری لوگ ان کے اشیرواد کے محت ج ہو ج تے۔ شورےف کی بستی میں گھر نہ بن ن ن شکری کے مترادف تھ ۔ ن شکری کی سزا تو م ن تھ ۔ ایک طرف اصول کی دھجی ں اڑائی گئی تھیں اوپر سے الی نی شور مچ ی ج رہ تھ کہ چوری ہو گئی ہے۔ چور ک اس میں آخر کی قصور تھ ۔ یہ ان ک فرض تھ کہ گھر کی ح ظت ک خصوصی بندوبست کرتے۔ ت لے اچھے خریدتے۔ چوتھے درجے کے کنڈے ت لے کیوں لگ ئے گئے تھے۔ اگر اس طرح کے م مولی م مولی ک موں کے لیے پ س والے دوڑ بھ گ کریں گے تو ک ر سرک ر کس طرح انج دے سکیں گے۔ کہ ج ت ہے کہ پ س والوں کی تنخواہ م قول ہے ح الں کہ اس ک حقیقت سے دور ک بھی ت واسطہ نہیں۔ یہ محض زب نی کالمی کی ب ت ہے۔ ایک شحص پنڈ پیسے بھر کر پ س میں بھرتی ہوت ہے۔ اس کے ب وجود اسے شرےف ک جیون میسر نہ ہو تو پیسے بھرنے کی ضرورت ہی کی ہے۔ اس قس کے الپرواہ جو اپنے گھروں کی ح ظت نہیں کر سکتے ہی ان کی ج ن بن نے ک ذری ہ بنتے ہیں۔
6
پ س والے بڑے ب خبر لوگ ہوتے ہیں۔ اگر وہ خبرگیری میں تیز طرار نہ ہوں تو لو کالس زندگی کریں۔ جہ ز میں مختف والئتوں کے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک شخص فرانس ک تھ کہنے لگ ہم ری پولیس چوبیس گھنٹے میں چور تالش کر لیتی ہے۔ جرمن ک ب شندہ ہنس اور کہنے لگ کہ یہ کون س ک رن مہ ہوا۔ ہم ری پولیس ب رہ گھنٹوں میں تالش کر لیتی ہے۔ س بڑے حیران ہوئے۔ وہ ں ہم رے عالقے ک ب شندہ بھی تشریف فرم تھ ۔ دونوں م کوں کے ب شندوں کی پولیس کی غیر ذمہ دار پر ہنس اور کہنے لگ او پ گ و ت ہم را مق ب ہ نہیں کر سکتے ہم ری پولیس کو تو چوبیس گھنٹے پہ ے م و ہوت ہے کہ ک اور کہ ں چوری ہونے والی ہے۔ اتنی ًمخبری تو کہیں نہیں ہو سکتی۔ خیر چوری تو ہوئی تھی اس لیے اس گھر کے لوگ پکڑ لیے گئے کہ آخر الپرواہی سے ک کیوں لی گی ۔ جن پر شک تھ وہ بھی ال کر حواالت میں بند کر دیے گئے۔ اطراف کے ہ س یوں پر بھی گرفت کی گئی کہ ہمس یہ م ں پیو ج ی ہوت ہے وہ اپنے ہ س ئے کے ب رے میں اتنے الپرواہ کیوں ہو گئے۔ گھر کے بڑے لڑکے پر شک کی گی کہ وہ بےشک چوروں سے مال ہو گ ۔ م لک کو اس لیے کڑی سختی میں رکھ گی کہ عین ممکن ہے م ل م ں کے ہ ں پنچ آی ہو اور چوری ک ن ٹک رچ رہ ہو۔ ب قول گھر کی
7
بیگ کے کہ اس کے م ئی ب پ بڑے لوبھی ہیں اور انہوں نے ہم را کچھ بننے ہی نہیں دی ۔ تھ نے میں ایک طرف سوگ وار تو دوسری طرف عید ک سم ں تھ ۔ س منت سم جت سے ک لے رہے تھے لیکن م تے میں ب ت نہ بن رہی تھی۔ بےچ رے ممبر کو ہی زحمت اٹھ ن پڑی اور وہ اپنے اور اپنوں کے ک ک ج چھوڑ کر آ گی ۔ تھ نے والوں سے مک مک کی اور اس وعدہ پر رہ ئی دلوائی کہ وہ آتے الیکشوں میں اسے ووٹ دیں گے۔ بال شبہ وہ برے وقت میں ان کے ک آی تھ ووٹ ک صحیح اور اصولی ح دار تھ ۔ پچھواڑے کے ہ س ئے گری تھے کچھ نہ جھڑ سکے اس لیے چوری کے الزا میں ان کے دونوں بیٹوں کے خالف ایف آئی آر درج کر لی گئی۔ برآمدی بھی ڈال دی گئی۔ برآمدی کے س م ن سے مدعی مت نہ تھے۔ خیر ان کے مت ہونے ی نہ ہونے سے کی فر پڑت تھ پولیس والے تو مت تھے‘ بس اتن ہی ک فی تھ ۔ ا م م ہ کورٹ کچہری میں تھ ۔ پولیس ک جہ ں تک فرض تھ اس نے م م ے کو عصری اصولوں کے مط ب طے کر دی ۔ ا عدالت ج نے م م ے کے مدعی اور م ز ج نیں۔
8
جیسے کو تیس منس نہ اکر بڑے حوص ے واال تھ ۔ اسے کوئی کچھ بھی کہہ دیت غصہ نہ کرت بس تھوڑا س سنجیدہ ہو ج ت ۔ اس کی یہ سنجیدگی بھی لمحوں کی ہوتی۔ تھوڑی ہی دیر ب د ن رمل ہو ج ت ۔ کی ب ت ہے‘ پہ ڑ جگرے ک م لک تھ ۔ ش ید یہ اسے وراثت میں مال تھ ۔ اس ک ب پ بھی کم ل برداشت اور صبر ک م لک تھ ۔ زب ن میں لکنت تھی۔ بہت سے حرف بولنے پر اس کی زب ن قدرت نہ رکھتی تھی۔ اس کی اس خ می کے سب لوگ اسے اکو طوے طوے کہہ کر پک رتے۔ ذرا غصہ نہ کرت ۔ یوں ظ ہر ہوت جیسے اس ک ن ہی اکو طوے طوے رہ ہو۔ ایک دن پت نہیں اسے کی سوجھی کہ عمرے‘ جو ہ س میں چنچل اور دھ ئی ک شغ ی تھ ‘ سے کہنے لگ :میری طرح ب تیں کرکے دکھ دو میں س کو ق دے ح وائی کی مٹھ ئی کھالؤں گ ۔ عمرے نے دو تین ب ر منہ سنورا پھر ہوبہو اسی کی طرح ب تیں کرنے لگ ۔ ایس لگت تھ کہ جیسے اس نے حد سے زی دہ اس طور سے ب تیں کرنے کی مش کی ہو۔ س حیران رہ گئے اور ایک دوسرے ک منہ دیکھنے لگے۔ اکو طوے طوے کو مٹھ ئی پڑ گئی۔ اس نے بڑی خوش دلی سے مٹھ ئی کھالئی بھی۔
9
ا ج بھی وہ ہم رے درمی ن بیٹھت ایک دو ب تیں اکو کے طور پر ضرور کرت ۔ سمجھ نہ آئی کہ اکو نے یہ شرط کیوں لگ ئی تھی۔ ش ید اسے امید ہی نہ تھی کہ وہ اس طور سے ب ت کر سکے گ ۔ اس ب ت کو کئی م ہ گزر گئے۔ اکو کو دیکھتے ہی اکو کی طرح ضرور ب ت کرت اور یہ اس کی ع دت سی بن گئی۔ ایک روز سکندر نے شرارت سے اسے عمرو توتال کہہ کر پک را تو وہ بھڑک اٹھ اور اس پر بڑا گر ہوا۔ ا کہ اکو خو ہنس ۔ اس ک چڑن بڑا ہی پرلطف تھ ۔ اس کے ب د ج بھی ہ میں سے کوئی شغل کے موڈ میں ہوت تو اسے عمرو توتال کہہ دیت ۔ وہ فورا سے پہ ے آپے سے ب ہر ہو ج ت ۔ گ ؤں کے لوگوں کو ج اس کی چیڑ ک پت چال تو وہ اسے عمرو توتال کہہ کر پک رنے لگے اور اس کی بدحواسی سے خو لطف اندوز ہوتے۔ پھر کی تھ عمرو توتال اس ک ن پڑ گی ۔ ج وہ چڑت تو اکو کہت اسے کہتے ہیں جیسے کو تیس ۔ جو بیجو گے وہ ہی ک ٹو گے۔ آج دونوں کو دنی چھوڑے کئی س ل بیت گئے ہیں۔ لوگ اکو کو اکو طوے طوے کہہ کر بہت ک ی د کرتے ہیں۔ اسے صرف اکو ہی کہتے ہیں ج کہ عمرو کو عمرو توتال کہہ کر ی د کرتے ہیں ح الں کہ وہ سرے سے توتال نہ تھ ۔ گوی مرنے کے ب د بھی جیسے کو تیس لحد میں نہیں اتر سک ۔
10
وہ ج نت تھ منس نہ فیج ں کے ت ی ابو اسے م نے کے لیے آئے۔ دیکھ بدرا گھر پر اکیال ہی بیٹھ ہوا تھ ۔ ابتدائی سال دع کے ب د بیٹھ گئے۔ بیٹھنے کے فورا ب د فیج ں ک دری فت کی کہ کہ ں ہے۔ اس نے ذرا ت خ لہجے میں کہ اسے دورہ پڑ گی تھ اور ٹیکہ لگوانے گئی ہے۔ یہ سن کر فورا اٹھ گئے اور چل دیے۔ اس کے روکنے کے ب وجود نہ رکے۔ انہوں نے گھر سے ب ہر آ کر اس کے بڑے بھ ئی جو گر اور ت خ مزاج ک تھ کو فون کی اور بت ی کہ اس کی بہن کو دورہ پڑ گی ہے اور وہ ہسپت ل میں ہے اور تمہ را بہنوئی آرا سکون سے گھر بیٹھ ہوا ہے اور اسے بیوی کی رائی بھر چنت نہیں۔ اس نے ک سے چھٹی لی اور گھر کی راہ لی۔ گھر آ کر م ں پر خو گرج برس کہ اس کی پی ری بہن ک کس الپرواہ سے رشتہ کر دی تھ ۔ م ں نے خ وند کو ب وای وہ بھی ک چھوڑ کر گھر آ گی ۔ اچھ خ ص شور مچ ۔ پورے مح ہ میں یہ ب ت مشہور ہو گئی کہ فیج ں کو دورہ پڑ گی ہے اور اس ک خ وند بڑی الپرواہی سے گھر پر آرا کر رہ ہے۔ یہ ب ت از خود مشہور ہو گئی کہ فیج ں
11
کے خ وند نے اسے کچھ کر دی ہے اور وہ ہسپت ل میں آخری دموں پر ہے۔ ایک ص ح ہ دردی میں آ کر فیج ں کے قتل کی س زش کی اطالع قریبی تھ نے میں بھی کر آئے۔ گھر ک س را ال لشکر بدرے کے گھر آ پہنچ اور اس کی کچھ سنے بغیر ہی اس پر جوتوں سمیت چڑھ دوڑا۔ وہ ان کی لغوی ت بڑے تحمل سے سنت رہ ۔ اس ک س ال نہ لہ تو ب ر ب ر اسے م رنے کے لیے اس کی طرف آت ۔ وہ تو بھال ہو م موں ش ک جو اسے روک لیت ۔ اس ک موقف یہ تھ کہ اگر کوئی سٹ پیٹ آ گئی تو کیس برابر ہو ج ئے گ اور بدرا کڑی سزا سے بچ ج ئے گ۔ ابھی یہ رگڑا جھگڑا چل ہی رہ تھ کہ پولیس آ گئی انہوں نے آؤ دیکھ نہ ت ؤ بدرے کی خو ٹھک ئی کر دی۔ ان سے ایک پولیس :واال کہنے لگ کنجر کہیں ک ۔ بیوی کو قتل کر رہ تھ ۔ ل ظ کنجر پر وہ بھڑک اٹھ اور کہنے لگ :میں کنجر نہیں بےغیرت ہوں۔ اس کی گرج دار آواز اور اس کے ال ظ سن کر س سکتے میں آ گئے کہ یہ کی کہہ رہ ہے۔ کسی نے یہ کھوجنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی تھی کہ وہ دورے ی شدید زخمی ح لت میں ہسپت ل اپنے پ ؤں پر کیسے چ ی گئی۔
12
پولیس اسے پکڑ کر لے ج رہی تھی اور ابھی گھر کے دروازے سے ب ہر بھی نہ نکل پ ئی تھی کہ فیج ں چنگی بھی گھر میں داخل ہوئی۔ اس پر خم ر کی سی کی یت ط ری تھی۔ وہ ں موجود لوگوں نے اس کی خم ری کی یت نوٹ کی۔ جوں اس نے گھر میں اتنے س رے لوگ اور پولیس دیکھی تو جنسی آسودگی کے خم ر سے ب ہر آ گئی۔ فیج ں کو ٹھیک ٹھ ک دیکھ کر س حیران رہ گئے۔ اس ک بڑا بھ ئی غصے سے بوال کہ ں گئی تھی۔ ادھر ہی تھی ادھر ہی تھی۔ وہ گھبرا گئی۔ پولیس نے اس کے بھ ئی کو پرے دھک دی اور فیج ں سے پوچھنے لگے کہ بی بی ت کہ ں گئی تھیں۔ اس نے کوئی جوا نہ دی ۔ دریں اثن فیج ں ک ب پ پولیس والے کی طرف بڑھ اور اس کی مٹھی میں کچھ لگ دی ۔ پولیس والے خ موشی سے گھر سے ب ہر نکل گئے۔ سی ن آدمی تھ پولیس کے چ ے ج نے کے ب د بوال۔ ہمیں اطالع کی تصدی کر لینی چ ہیے تھی اور ہ دوڑے آئے۔ ان کے گھر ک مس ہ تھ ۔ می ں بیوی میں جھگڑا ہو ہی ج ت ہے یہ کون سی بڑی ب ت ہے۔ فیج ں ک خ وند منہ کھولنے کو ہی تھ کہ اسے خی ل گزرا کہ وہ تو بیم ر شم ر رہت ہے اس ک کی پت ہے۔ غ طی پر تو فیج ں ہے اور وہ اپنی عزت ک خی ل نہیں کر رہی۔ اگر اس نے بھری مج س میں فیج ں کی کرتوتوں کو نشر کر دی تو اس ک اک وت بیٹ جو ہ سٹل میں داخل تھ مرتے د تک یہ ط نہ سنت رہے گ کہ اس
13
کہ م ں ایک ف حشہ عورت ہے۔ یہ ط نہ سن کر وہ کس طرح پرسکون زندگی گزار سکے گ ۔ چ و کوئی ب ت نہیں وہ عورت کی کم ئی تو نہیں کھ رہ ۔ اپنی کرنی خود بھگتے گی۔ وہ دال نہیں بےغیرت ہے اور اسے اس بےغیرتی کی آگ میں چند اور س نسوں ج ن پڑے گ ۔ اگر س تھ بھیج دیت تو چند م زز بیچ میں پڑ کر ص ح ص ئی کرا دیتے ی عرصہ دراز تک کچہری کی خ ک چھ نن پڑتی۔ ہوت کی ‘ کچھ بھی نہیں۔ وہ خو ج نت تھ کہ اس اندھر نگری میں کچھ بھی نہ ہو سکے گ ۔ یہ ں ح سچ آنچ میں ج ت ہے اور دغ فری کو کوئی آنچ نہیں۔
14
صرف اور صرف لوک نہ ایک خوش مدی نے ب دش ہ سے کہ :حضور آپ کی کی ب ت ہے۔ آپ س نہ کوئی ہوا ہے اور نہ کبھی کوئی ہوگ ۔ آپ کی بڑی لمبی عمر ہے اور آپ ت دیر سالمت رہیں گے۔ ج کوئی نہیں ہو گ ت بھی آپ کی ب دش ہت ق ئ ہو گی۔ دری کی منہ زور لہریں بھی آپ کے حک کی ت بع ہیں اور ت بع رہیں گی۔ وہ بھی آپ کے حک کے بغیر حرکت میں نہیں آتیں۔ خوش آمدی کے کہے نے ب دش ہ کی روح کو سکون دی اور دل تر وت زہ کر دی ۔ اس نے بہت سی اشرفی ں اس کی آغوش میں ڈال دیں۔ ب دش ہ نے پ س کھڑے گم شتے سے کہ ۔ رم ی کو ب واؤ۔ اس نے فورا سے پہ ے ای چی کو حک دی کہ رم ی کو ش ہی درب ر میں ح ضر کی ج ئے۔ وہ تیر کی طرح اڑت ہوا رم ی کو بالنے چال گی ۔ دریں اثن ب دش ہ نے جی حضوریے سے کہ کہ ہم را تخت فوری طور پر دری کے کن رے لگوای ج ئے۔ جی حضوریہ ب دش ہ کے حک کی ت میل میں جٹ گی ۔
15
رم ی آ گی ۔ ب دش ہ نے کہ کہ ہم رے اس ک رندے نے کہ ہے کہ ہ ت دیر جیئں گے۔ ج کچھ بھی نہیں ہو گ اس وقت بھی ہم ری ب دش ہت ق ئ ہو گی۔ بت ؤ اس ک کہن کہ ں تک درست ہے۔ رم ی تھوڑی دیر تک حس کت لگ ت رہ ۔ وہ ج نت تھ کہ ب دش ہ سچ اور ح کی سننے کے ع دی نہیں ہوتے۔ ح سچ کی کہنے والے ہمیشہ ج ن سے گیے ہیں۔ اگر اس نے بھی آج ح سچ کی کہی تو ج ن سے ج ئے گ ۔ خوش مدی ان و اکرا لے کر گی ہے اور وہ اپنے قدموں واپس گھر نہ ج سکے گ ۔ پھر اس نے ج ی خوش خبری لبریز خوشی کے س تھ اس خبر کی تصدی کر دی۔ یہ ہی نہیں اس نے پ ن س ت جم ے اپنے پ س سے بھی جڑ دیئے۔ رم ی کی ب توں نے ب دش ہ کو خوش کر دی ہ ں البتہ خوش آمدی پر ن راض ہوا کہ اس نے س ری ب تیں کیوں نہیں بت ئیں۔ اسی دوران حک ش ہی کی ت میل میں ب دش ہ ک تخت دری کن رے آراستہ کر دی گی ۔ ب دش ہ چی وں‘ چمٹوں‘ گم شتوں‘ خوش آمدیوں وغیرہ کے س تھ دری کن رے لگے تخت پر آ بیٹھ ۔ سرد اور روم ن خیز ہوا نے اسے بہت لطف دی ۔ ب دش ہ نے م حول اور فض کی ت ریف کی اور آئندہ سے دری کن رے تخت آراستہ کرنے ک حک دی ۔ کسی کو اصل حقیقت کہنے کی جرآت نہ ہوئی۔
16
ب دش ہ خوش آمدیوں کی خوش آمد سننے میں مگن تھ کہ دری کی ایک منہ زور لہر آئی س کچھ بہ کر لے گئی۔ ب دش ہ کی ٹ نگیں اوپر اور سر نیچے ہو گی ۔ ب دش ہ ک تخت بہت ہوا ج نے کہ ں چال گی اور وہ خود بہت ہوا اپنی س طنت کی حدوں بہت دور نکل گی ۔ دیکھ وہ ں ویرانیوں کے سوا کچھ بھی نہ تھ ۔ کسے حک ج ری کرت کہ اسے اس کے قدموں پر کرے۔ ہ ں ہللا کے حک کی ت میل میں موت ک فرشتہ اس کے س منے کھڑا مسکرا رہ تھ اور چند لمحوں کی مہ ت دینے کے لیے بھی تی ر نہ تھ ۔ رم ی سی ن تھ ت ہی تو خبر کی تصدی اور اپنے جھوٹ ک ان لے کر چپکے سے درب ر سے کھسک گی تھ ۔ دری کی ایک لہر نے ث بت کر دی کچھ ب قی رہنے کے لیے نہیں ہے۔ بق صرف اور صرف ہللا ہی کی ذات کے لیے ہے۔
17
کھٹور کھٹن ئی لوک نہ کی عج طور ہے ک کرنے والے ی م ننے والے پر مزید بوجھ ڈاال ج ت ہے ج کہ نکمے ک چور ی نہ م ننے والے کو دفع کرو کے کھ تے میں رکھ ج ت ہے۔ ایک شخص ک لی م ت ک م نت تھ ج کہ اس ک بڑا بھ ئی ک لی م ت کو نہیں م نت تھ ۔ ایک دن ک لی م ت نے اسے کہ :اپنے بڑے بھ ئی سے کہو مجھے م نے اور میری بھگتی کرے اگر نہ م ن تو میں تمہ ری ٹ نگ توڑ دوں گی۔ اس نے اپنے بڑے بھ ئی سے کہ کہ ک لی م ت کو م ن لے ورنہ وہ میری ٹ نگ توڑ گی۔ اس نے بھ ئی کو ک لی م ت کی وارننگ سے مط ع کی اور ک لی م ت کو م ننے کی استدع بھی کی۔ بڑے بھ ئی نے اسے م ننے سے ص ف انک ر کر دی ۔ حک کی ت میل نہ ہونے کے سب ک لی م ت نے اس کی ٹ نگ توڑ دی۔ اس نے بھ ئی سے کہ دیکھو ک لی م ت نے میری ٹ نگ توڑ دی ہے۔ اگر آپ ک لی م ت کو م ن لیتے تو وہ میری ٹ نگ تو نہ توڑتی۔
18
بڑے بھ ئی نے کہ یہ ات قیہ ہو گی ہے اور اس میں ک لی م ت ک کوئی عمل دکل نہیں۔ بےچ رہ چپ ہو گی ۔ اگ ی مرتبہ ک لی م ت اسے پھر م ی اور کہنے لگی بھ ئی کو ق ئل کرو اگر وہ ق ئل نہ ہوا تو میں تمہ را ب زو توڑ دوں گی۔ چھوٹے بھ ئی نے پھر سے بڑے بھ ئی کو ک لی م ت کی وارننگ سے آگ ہ کی ۔ اس نے بڑی منتیں بھی کیں ہر طرح سے ق ئل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ پھر بھی نہ م ن ۔ ک لی م ت نے اس ک ب زر توڑ دی ۔ چھوٹے بھ ئی نے بڑے بھ ئی کو آگ ہ کی اور کہ آپ کے نہ م ننے سے میں ٹ نگ اور ب زو سے محرو ہو گی ۔ اس نے اس م م ے کو محض ات ق ت سے ت بیر کی ۔ ک لی م ت اسے تیسری ب ر پھر م ی اور کہنے لگی دیکھو ت نے میرے کہے ک پ لن نہیں کی ۔ ا میں تیسرا موقع دیتی ہوں اگر ا بھی نہ م ن تو تمہ ی گردن توڑ دوں گی۔ ا کہ تو اس نے منت سم جت کی حد کر دی لیکن بڑے بھ ئی کے ک ن پر جوں تک نہ رینگی۔ وہ بڑا پریش ن ہوا‘ کی ہو سکت تھ ۔ دوسری طرف ک لی م ت بھی مجبور تھی اگر وہ گردن نہ توڑتی تو اپنے کہے میں جھوٹی پڑتی۔ اس پر ب ور ہو ج ت کہ بڑا بھ ئی ٹھیک کہت تھ کہ ہر مرتبہ کی ہونی محض ات ق ت میں تھ ۔ اپنے بھگت کی گردن توڑن ک لی م ت کی مجبوری تھی لہذا اس نے اس کی گردن توڑ دی۔
19
بڑا بھ ئی افسوس کرنے والوں کے س تھ بیٹھ ہوا تھ اور کہہ رہ تھ کہ چھوٹ ت نگے سے گرنے کی وجہ سے ٹ نگ سے محرو ہو گی تو اس نے اسے ک لی م ت ک ک رن مہ قرار دے دی ۔ دیوار سے گرا تو اسے بھی اس نے ک لی م ت کی ک روائی میں ش مل کر دی ا ج کہ چھت سے گر کر گردن تڑوا بیٹھ ۔ جیتے جی اسے بھی ک لی م ت کے کھ تے میں ڈال رہ تھ ۔ اگر میں اسے ک لی م ت کی ک روائی م ن بھی لوں تو اس ک مط یہ ہو گ کہ ک لی م ت اپنے بھگتوں کی رکھش سے زی دہ ان کی مرتیو ک ک رن بنتی ہے۔ اسے م ن کر میں کیوں مرتی کو گ ے لگ ؤں۔ پت نہیں مجھ سے کون س الٹ سیدھ ک کرواتی۔ اچھ ہی ہوا جو میں نے اس کو نہ م ن ورنہ میں بھی کسی کھٹور کھٹن ئی کی گرفت میں آ چک ہوت ۔
20
حالل کی بوٹی لوک نہ ایک ب ب جی کی سرک ر میں بہت سے لوگ ح ضر تھے۔ ب ب جی انہیں اچھ ئی اور خیر ک درس دے رہے تھے۔ پھر اچ نک ان کی آواز ب ند ہو گئی۔ وہ فرم رہے تھے محنت اور مشقت کی کھ ؤ۔ تمہ را جس خیر و برکت سے لبریز ہو ج ئے گ ۔ حرا اور دوسرے کی کم ئی ک چرای ی ہتھی ی ایک لقمہ تمہیں شیط ن کی بستی میں لے ج ئے گ ۔ وہ دیر تک رز حالل اور رز حرا کے فر کو واضح کرتے رہے پھر اچ نک خ موش ہو گئے اور پھر دیر تک خ موش رہے۔ ہوا یہ تھ کہ ایک شخص آی تھ ن صرف درگ ہ میں پیش گی بل کہ ج تے ہوئے ب ب جی کی سرک ر میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے جوتے بھی اٹھ کر لے گی ۔
کر
ان میں سے ایک نے کہ :سرک ر آپ نے اسے کیوں نہیں گرفت میں لی ۔ ب ب جی نے جواب کہ :میں نے اس ک تین کوس پیچھ کی تھ ۔ دوسرے نے پوچھ :پھر سرک ر آپ نے اسے پکڑا کیوں نہیں انہوں نے جواب کہ :اس کے جس میں کوئی حالل کی بوٹی لگی
21
ہوتی تو ہی پکڑت ۔ ایک اور جو من ف تھ بوال :اگر آپ کہیں تو میں اس کو پکڑ الؤں۔ ب ب جی نے اسے گہری نظر سے دیکھ اور پوچھ :پکڑ الؤ گے۔ کہنے لگ :نہیں سرک ر‘ یہ میرے بس ک روگ نہیں۔ دنی میں رہتے ہوئے دیکھ گی ہے کہ جن کے جس سراپ حرا سے پھ ے پھولے ہوں کبھی گرفت میں نہیں آئے۔ گرفت کے ٹھیکے دار اپنے لقمے کی حرص میں ان کے قری سے بھی نہیں گزرتے۔ ہ ں البتہ ح اور سچ کے بندے گرفت سے کبھی ب ہر نہیں رہے۔
22
نہ ج ئے م ندن نہ پ ئے رفتن منس نہ کسی کے م م ے میں یوں ہی ٹ نگ اڑان بال ط مشورہ دین ی ذاتی م مالت میں دخل اندازی مجھے اچھی نہیں لگتی۔ ہ ں کسی برائی سے روکن مجھے کبھی برا نہیں لگ ۔ کوئی غصہ کرت ہے تو کرت رہے‘ میں نےکبھی اس کی پرواہ نہیں کی۔ اچھ ئی کے زمرے میں‘ میں کسی کمپروم ئز ک ق ئل نہیں۔ برائی کو ہر ح ل میں برائی ہی کہ ج ن چ ہیے۔ برائی کی ت ئید ی خ موشی بہت بڑے سم جی نقص ن ک موج ہو سکتی ہے۔ میں کسی کے کی اپنی اوالد کے ذاتی گھری و م مالت میں دخل اندازی ک ق ئل نہیں۔ ہ ں البتہ مشورہ ط کرنے کی صورت میں بڑی دی نت داری سے دو ٹوک اور بال لگی لپٹی اپنی رائے ک اظہ ر کر دیت ہوں۔ یہ پہال موقع تھ کہ میں نے ڈرتے ڈرتے اور جھجکتے ہوئے اس سے پوچھ ہی لی کہ وہ گھر میں صرف دو لوگ رہتے ہیں تو پھر اتن گوشت کیوں لے کر ج تے ہو۔ مہم ن بھی کوئی خ ص آتے ج تے نہیں دیکھے۔ میری سن کر وہ کھل کھال کر ہنس پڑا اور کہنے لگ ۔ میری بیگ صرف گوشت کھ ن پسند کرتی ہے۔ گوشت کی مخت ف نوعیت کی ڈیشیں بن نے میں مہ رت رکھتی ہے۔ وہ سبزی سے چڑتی ہے لیکن میں گوشت
23
پسند نہیں کرت ۔ لیگ پیس تو اس کی من بھ تی کھ ج ہے۔ رات کو آخر سون بھی ہوت ہے۔ ابے لیگ پیس اور رات کو سون بھی ہوت ہے کوئی میل کھ تی ب ت نہیں۔ ب لکل بےسری سی کہہ گئے ہو جن
بےسری نہیں حقیقت اور میل کھ تی ہوئی ب ت کی ہے۔
وہ کیسے‘ میں سجھ نہیں جن مر کی ٹ نگیں نہیں ال کر دوں گ تو ہو سکت ہے کہ رات کو اس ک موڈ بن ج ئے اور اٹھ کر میری ایک ی زی دہ ضرورت کی صورت میں دونوں ہڑپ ج ئے اور مجھے صبح اٹھ کر پت چ ے۔ ایک ٹ نگوں سے ج ؤں اوپر سے یہ م ن سنوں‘ ت جی کے بڑے پکے ہو‘ یہ الگ ب ت ہے کہ میری کوئی جی ہی نہیں جی تو اسی کی ہے۔ میں اس کی ب ت پر ہنس بھی اور مجھے اس کی کم ل کی مب لغہ آرائی نے لطف بھی دی ، اس نے بت ی کہ اس کی زوجہ سرک ر نے فقط چ ر شو پ لے ہیں۔ کھ ن ‘ لڑن ‘ سون اور چوتھ ڈیش ڈیش ڈیش۔ ان چ روں میں سے کسی ایک پر کمپروم ئز نہیں ہو سکت ۔ لڑائی میں چ ردیواری میں مق ل آواز کی ق ئل نہیں۔
24
اس کی آواز صور اسرافیل سے مم ثل ہوتی ہے۔ گھر کے در و دیوار پر لرزہ ط ری ہوج ت ہے۔ ل ظوں کے پھوٹتے انگ رے میرے وجود اور روح کو چھ نی کر رہے ہوتے ہیں ج کہ مح ہ ل ظوں کی ادائیگی اس و اور نشت و برخواست سے لظف اندوز ہو رہ ہوت ہے۔ وہ ان لمح ت میں غ ط اور صحیح کو ایک آنکھ سے دیکھ رہی ہوتی ہے۔ اس کے منہ سے نک تے زہر آلود ل ظ‘ ل ظ ک ح ویہ کے دہکتے انگ رے زی دہ ہوتے ہیں جو ان اور ہونے کی حسوں کو تنور کی راکھ میں بدل رہے ہوتے ہیں۔ ان خوف ن ک لمحوں میں ک نوں میں ش ئیں ش ئیں ہوتی ہے اور آنکھوں میں اندھیرا چھ رہ ہوت ہے۔ اپنی خیر من تے کوئی بچ بچ کے لیے راہ میں نہیں آت ۔ دسمبر کی ق ی بن دینے والی سردی میں پنکھ فل اسپیڈ پر چال کر استراحت فرم تی ہے۔ سوچت ہوں جہن میں گئی تو جہن کی آگ ک اس پر کی اثر انداز ہو سکے گی ہ ں البتہ اس میں تیزی ضرور آ ج ئے گی۔ بےچ رے جہنمیوں پر مزید قی مت توڑے گی۔ ایک مرتبہ غ طی سے میں سگریٹ ایش ٹرے کی بج ئے نیچے پھینک بیٹھ ۔ یہ ننگے پ ؤں تھی اس ک پ ؤں سگریٹ پر آ گی ۔ یوں پٹ پٹ پئی جیسے تنور میں گر گئی ہو۔ میرے س تھ جو ہوا اس کو چھوڑیے مجھ پر یہ انکش ف ضرور ہوا کہ آگ‘ آگ کو بھی جالتی ہے اور ک زور آگ ازیت ک شک ر ہوتی ہے۔
25
پھر خی ل گزرا اگر خدا نخواستہ جنت میں داخل ہو گئی تو وہ ں ک م حول حبسی ہو ج ئے گ ۔ اس ب ت کو چھوڑیے میرا کی بنے گ ۔ ہر وقت میری بہتر حوروں کو اسٹینڈ ٹو رکھے گی۔ میری ہر چھوٹی موٹی غ طی پر ی غ ر ک ک شن ج ری کرتی رہے گی۔ میں اٹھن چ ہت تھ کہ یہ حضرت چل سو چل ہو گئے تھے۔ ان کی را کہ نی خت ہونے ک ن نہیں لے رہی تھی۔ میری کی یت نہ ج ئے م ندن نہ پ ئے رفتن کی سی تھی۔ اٹھت ہوں تو بد اخالقی بیٹھ رہت ہوں تو دم میں سوراخ ہو رہے تھے۔ پہ ے تو میں مداخ ت کو غیراخالقی ک سمجھت تھ لیکن ا م و ہوا کہ مداخ ت وقت اور دم کے زی ں سے زی دہ چیز نہیں۔ میں نے دل ہی دل میں توبہ کی کہ اس کے ب د ایسی غ طی نہیں کروں گ ۔ دو حرفی ب ت کو انہوں نے شیط ن کی آنت بن دی ۔
26
سنیئر سیٹیزنز لوک نہ لڑکی والوں نے کہ کہ ب رات کے س تھ کوئی بوڑھ نہیں آن چ ہیے۔ بڑی عج اور بےتکی ڈیم نڈ تھی۔ ایک طرح سے یہ بزرگوں کو مسترد کر دینے کے مترادف تھ ۔ آخر بڑے بزرگوں کو کس طرح نظرانداز کی ج ئے۔ گھر کے س لوگ مل کر بیٹھ گیے اور سوچنے لگے کہ یہ کیوں کہ گی ہے اور اس ک کی حل نک ال ج ئے۔ ہر کسی نے یہ ہی مشورہ دی ج ئے کہ رشتہ ہی چھوڑ دی ج ئے لیکن گ مے کے اب ک موقف تھ کہ ہ اپنی منگ کسی قیمت پر نہیں چھوڑیں گے۔ آخر طے یہ پ ی کہ بڑے اب جو بیم ر تھے اور چل پھر نہیں سکتے تھے سے مشورہ لی ج ئے۔ بڑے اب اپنے کمرے میں لیٹے ہوئے تھے۔ دو تین لوگ ان کے پ س گئے اور س را م جرا انہیں کہہ سن ی گی ۔ انہوں نے کچھ دیر کے لیے سوچ پھر کہنے لگے کہ ڈیم نڈ م ن لو اور مجھے کسی ن کسی طرح چھپ کر س تھ لے ج ؤ۔ س نے کہ چ و تھیک ہے۔ ان کے کہے پر س نے آمین کہ اور پھر جنج تی ر ہونے لگی۔ بڑے اب کو ایک صندو میں چھپ لی گی اور ہنسی خوشی واجے واج تے ہوئے دلہن کے گھر کی راہ لی گئی۔ بڑے اب کو
27
صندو ہی میں ہر چیز مہی کر دی گئی۔ جنج میں ش مل چند ایک کے سوا کوئی نہیں ج نت تھ کہ بڑے اب س تھ کر لیے گئے ہیں کیوں کہ ب ت نکل سکتی تھی۔ نک ح وغیرہ کی رس سے ف ر ہوئے اور روٹی کھ نے سے پہ ے کڑی والوں نے کہ ہر ج نجی کے لیے ایک دیگ ک اہتم کی گی ہے اور وہ اسے کھ ن ہی ہو گی اگر نہ کھ ئی تو کڑی نہیں ٹوریں گے۔ یہ سنن تھ کہ س کو ہتھڑے پڑ گئے۔ ایک شخص کے لیے ایک دیگ ک کھ ن ممکن ہی نہ تھ ۔ ب ت بڑے اب تک الئی گئی۔ انہوں نے کچھ دیر کے لیے سوچ پھر کہنے لگے ٹھیک ہے منظور کر لو اور کہہ دو کہ ایک وقت میں ایک دیگ پک کر کھ ن دسترخوان پر پروسیں۔ اس طرح ایک ایک دیگ پک تے ج ئیں۔ کڑی والوں سے کہ گی کہ ٹھیک ہے ہر ج نجی ایک ہی دیگ کھ ئے گ ت ہ ایک وقت میں ایک پک ئی اور پروسی ج ئے۔ کڑی والوں نے ان کی ب ت م ن لی اور ک شروع ہو گی ۔ وہ ایک ایک دیگ پک تے گئے یہ کھ تے گیے۔ اس عمل سے کڑی والوں کی شرط پوری کر دی گئی۔ ہر ج نجی بآس نی ایک دیگ کھ گی ۔ س حیرت میں ڈو گئے کہ یہ کی ہو گی ہے۔ کڑی ک بڑا بھ ئی کہنے لگ ت لوگ ضرور اپنے س تھ کوئی ب ب الئے ہو ورنہ ہم ری شرط پوری ہو ہی نہیں سکتی تھی۔
28
اس ب ت نے ث بت کر دی کہ ب بے چوں کہ تجربہ ک ر ہوتے ہیں اس لیے اوکڑ ک حل نک ل ہی لیتے ہیں۔ اس روز سے ہر دو عالقوں میں ب بوں کی قدر کی ج نے لگی۔ ک ش س رے عالقوں میں سنیئر سیٹیزنز کو خصوصی نظر سے دیکھ ج ئے۔ بڑھ پے کے سب وہ اس ک ح بھی رکھتے ہیں۔
29
قی مت دیکھیے منس نہ مردود رد سے ہے۔ رد کی گئی چیز پسند میں نہیں آنی چ ہیے۔ سچ ئی اور نی ؤ کی تو یہ ہی ہے لیکن عمل سے سوائے محدودے چند اس سے کن رہ کش نہیں ہوئے۔ منہ زب نی رد پر ل نت کرنے اور پن ہ م نگنے والے ہی اسی کی آغوش میں آسودگی محسوس کرتے چ ے آئے ہیں‘ ج کہ اس سے کوسوں دور بسنے والے گنتی کے چند ان زب نی کالمی کی پن ہ م گنے والوں کے ہ تھوں درد اور کر کی ص ی پر مص و ہوتے آئے ہیں۔ من ی ک ردعمل م و ہوتے‘ اس کے موڈھی کے دیکھ ئے گئے حسن و جم ل کی گرہ میں بڑے بڑے یودھ بندھ گئے ہیں اور انہیں نت ئج کی کبھی پرواہ نہیں رہی۔ اس کے نتیجہ میں ہوئی برب دی سے اگال شک ر عبرت نہیں لیت ۔ عج حقیقت ہے کہ برب دی کے نش ن ت کو دیکھ کر بھی اس راہ کو تی گن مشکل ترین عمل رہ ہے۔ برائی ی خرابی کو زب ن سے برا ی خرا کہن ہی ک فی نہیں ہوت ج تک اسے عمل میں داخل نہیں کی ج ت ۔ بال اجتن وہ برائی ی خرابی نہیں کہال سکتی۔ ہر مرتشی رشوت کے خالف لمب چوڑا
30
لیکچر دیت نظر ائے گ لیکن اس کی رشوت کے بغیر آنکھ کی قبض نہیں ٹوٹتی۔ شب نہ کی م ں پس کوئ ہ اور پسے کچے چ ول رات سوتے وقت کھ تی اور اس کے ب د چ ئے پیتی تھی۔ خیر دن کو بھی کبھی کبھی ان اشی کو کھ کر لطف اندوز ہوتی تھی۔ یہ ع دت بد اس کے لیے ع دت بد نہ تھی۔ شدید عاللت ک شک ر ہوئی۔ سسک سسک کر د دی ۔ اس کی عبرت ن ک موت ک منظر دیکھ کر لوگ ک نپ ک نپ گئے اور توبہ توبہ کر اٹھے۔ وہ روکنے پر بھی نہ رکی تھی۔ ب ریک نظر کی خبر گیری کے ب وجود کوئی ن کوئی چور رستہ نک ل ہی لیتی۔ اسے م و تھ یہ شغل اسے رفتہ رفتہ موت کی ج ن لے ج رہ ہے اس کے ب وجود اس نے اس ع ت بد سے ہ تھ نہ کھنچ بل کہ روکنے والوں کو وہ اپن دشمن سمجھتی تھی ح الں کہ وہ ہی اس کی ج ن کے سجن تھے۔ ہسپت ل کے خرچے اور لے ج نے کی ص وبت اپنی جگہ وہ چ ہتے تھے کہ شب نہ کی م ں ج ن سے نہ ج ئے اور آسودہ زندگی بسر کرے۔ دوا دارو میں م مولی نوعیت کے تس ہل پر بھی وہ بھڑک اٹھتی۔ اس کی کر ن ک موت کو دیکھ کر ہر کسی ک ک نوں کو ہ تھ لگ ن بنت ہے۔ قی مت دیکھیے اس کی بہو کے س منے اس کی موت ہوئی وہ بھی اس ع ت بد ک شک ر ہو گئی۔ ان دنوں
31
ش خ نؤں کی خ ک چھ ن رہی ہے۔ ادوی ت کی ک کریں گی ج کہ وہ اس ص ی پر لٹک رہنے میں آسودگی محسوس کرتی ہے۔ گھر والے پہرہ دیتے ہیں لیکن کڑی نگرانی میں بھی روزانہ کسی ن کسی طرح داؤ لگ ہی لیتی ہے۔ دیکھو ک موت کو پی ری ہوتی ہے۔
32
ہللا م ف کرے منس نہ آدمی دکھ میں الکھ کوشش کرئے‘ ہنسن تو دور کی ب ت‘ اص ی اور خ لص مسکراہٹ سے بھی آوازار ہو ج ت ہے۔ خوشی ی کسی ہنسی کی ب ت میں اس کے چہرے کی مسکراہٹ ج ی اور زبردستی کی ہوتی ہے۔ یہ کی یت کسی م س اور ن دار سے مخصوص نہیں‘ بڑے بڑے ن ڈو خ ں بھی دکھ درد اور بیم ری‘ اگرچہ وہ خود سم جی بیم ری ہی کیوں نہ ہوں‘ میں اص ی مسکراہٹ دیکھ نہیں پ تے۔ مزے کی ب ت یہ کہ ان کے ہ ں طواف کرنے والے‘ ان کے اپنے ی ان کے کسی کن قری کے س منے بھی مسکرانے کی زحمت نہیں اٹھ تے۔ وہ بھی یوں منہ بسورتے نظر آتے ہیں جیسے دکھ کی بھٹی میں پڑے س گ ہوں۔ گھر پر بھی ص ح کے دکھ ک تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔ نک واحد ایس بندہ دیکھ ہے جو دکھ درد تک یف اور بیم ری سے ب ال تر ہو کر ہنست ہے اور مسکرات بھی ہے۔ کوئی اندازہ نہیں کر پ ت کہ ان لمحوں میں وہ کسی دکھ درد ی مصیبت میں ہے۔ کہیں سے م و پڑت کہ وہ فالں پریش نی میں گرفت ر ہے۔ ج دیکھو ہنست مسکرات نظر آت ہے۔ اس کی اس ادا کے سب س اس قری رہتے ہیں۔ کچھ بھی ہو ج ئے عمومی لوگوں کی
33
طرح م نند سگ بھونکت ی ٹونکت نہیں۔ بھونکن ٹوکن ی چپ اختی ر کرن اس کے ک غذوں میں نہیں۔ اس روز پت نہیں اسے کی ہوا تھ کہ خ موشی کی بکل سے نکل ہی نہیں رہ تھ ۔ الکھ پوچھ کریدا اس کی چپ ک کوئی سرا ہ تھ نہ لگ ۔ اس کی ہوں ہ ں بھی کسی کی گرہ میں نہ پڑ رہی تھی۔ س را دن اسی ح لت میں گزر گی ۔ ش کو پت چال گ ؤں کی مسجد کے می ں ص ح نے بالی تھ اور اسے کچھ کہ تھ ۔ ش نی عید نم ز بھی پڑھنے نہیں ج ت تھ ۔ اس دن عش ء کی نم ز پڑھنے چال گی ۔ ہ جولی ڈیرے پر بیٹھے ش نی ک انتظ ر کر رہے تھے۔ وہ نکے کی چپ ک راز ج نن چ ہتے تھے۔ ش نی ج مسجد سے لوٹ تو س اس کی ج ن لپکے۔ اس نے بت ی کہ نکے کو مولوی ص ح نے بالی تھ اور اسے بت ی کہ وہ بہت بڑے گن ہ ک مرتک ہوا ہے۔ فوری طور پر توبہ کرئے اور اپنے کیے ک ک رہ ادا کرے۔ یہ ب ت تو چ تے چ تے ہوئی تھی۔ ج ش نی بیٹھ تو س نے پوچھ آخر نکے سے ہوا کی جس کی وجہ سے گن ہ گ ر ٹھہرا۔ اس نے بت ی کہ اس سے ہوا تو برا ہے۔ کسی ک مذا اڑان واق ی درست تو نہیں۔ ہ ہنسی ہنسی میں ایک دوسرے ک مذا اڑاتے رہتے ہیں ہمیں اس سے پرہیز رکھن چ ہیے۔
34
او ی ر آخر ہوا کی جو اس کی بوکی گر گئی۔ کچھ پت بھی تو چ ے۔ بکی نے الجھے الجھے لہجے میں کہ نکے کی بیوی بین نے می ں ص ح سے شک یت لگ ئی تھی کہ نک اٹھتے بیٹھتے اس ک مج کھ اڑات ہے۔ می ں ص ح نے اس کے اس گن ہ پر حد لگ دی۔ کی مذا اڑات تھ ۔ شبو نے پوچھ اس کی بیوی ک تکیہ کال تھ ہللا م ف کرے۔ اس روز ج اس کے منہ سے ہللا م ف کرے نکال تو وہ دوڑا دوڑا اس کے پ س گی اور مذاقیہ انداز میں پوچھنے لگ کہ کی کر بیٹھی ہو جو ہللا سے م فی ں م نگ رہی ہو۔ پہ ے تو اس نے خود خو بول بوالرا کی اس کے ب د می ں ص ح سے شک یت کر دی۔ توبہ ت ئ کرتے رہن چ ہیے اس سے گن ہ ک ہوتے ہیں۔ نکے نے واق ی گن ہ کی جو توبہ ت ئ ہوتے بندے کی راہ میں آ گی ۔ عمرے نے لقمہ دی ک فی دیر تک س دوست اس مدے پر گ ت گو کرتے رہے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ نکے نے بہت بڑا گن ہ کی ہے۔ اسے ک رہ ادا کرن چ ہیے۔ وہ دن ج ئے اور آج ک آئے‘ لوگ ہنسی مذا کی روایت سے دست بردار ہو گیے ہیں۔ ہنست مسکرات نک چپ کے ب دلوں میں
35
کہیں کھو گی ہے۔ اس کے ب د کسی نے اس کے منہ پر کبھی شوخی کے گال کھ تے ہوئے نہیں دیکھے۔
36
قد قد پر منس نہ وہ بڑا ہی ش طر اور چ ل ب ز ہے۔ لذت کی راہیں بت ت ہے۔ لذت کے ذائقوں سے آگ ہ کرت ہے۔ یہ ہی نہیں استوار کرنے میں بھی م ونت کرت ہے۔ بدبخت ج بھی کڑا وقت آن پڑت ہے‘ م ونت تو دور کی ب ت‘ اکثر ڈھونڈے سے نظر نہیں آت ۔ اس وقت تک اسے کوئی دوسرا شک ر مل چک ہوت ہے۔ کسی بڑے ٹ سک کی توقع میں شک ر کی کٹھن گزار راہوں میں اس کے گندے انڈے بچے دوڑے چ ے آتے ہیں۔ مضرو ج ن لڑات ہے لیکن کسی موڑ پر اس کی چل نہیں پ تی۔ اس نے کرایہ پر مک ن ح صل کرن تھ ۔ م لک مک ن کے س منے بڑا شریف اور مسکین بن کر آی ۔ اس کی شرافت اسے بھ گئی اور اس نے اسے کرایہ پر اپنے مک ن ک ب الئی حصہ دے دی ۔ ج کرائے کے مک ن کی گ ی میں داخل ہوت ن صرف نظریں نیچی کرکے گزرت بل کہ سر پر پرن بھی رکھ لیت ۔ مسجد میں ب جم عت صبح کی نم ز ادا کرت ۔ ہر کسی سے مسکرا کر اور عجز و مسکینی کے س تھ م ت ۔ اس کی شرافت میں م وف اداؤں کے س ق ئل ہی نہیں گھ ئل بھی ہو گئے اور اسے عالقے کے شریف وسنیکوں میں شم ر کرنے لگے۔
37
اس روز وہ گھر پر اکیال ہی تھ ۔ اس کی بیوی کہیں گئی ہوئی تھی۔ م لک مک ن کی آٹھ نو س ل کی بچی اپنے کرایہ دار کے بچوں کے س تھ کھی نے کے لیے آ گئی۔ اس نے شرافت ک ج ی لب دہ وہ پرے پھینک اور ن صرف اسے اپنی ہوس ک نش نہ بن ی بل کہ اس کی ج ن بھی لے لی۔ پھر موقع پ کر اسے ب ہر پھینک آی ۔ لمح تی لذت کے لیے اس نے ن صرف زن کی بل کہ قتل ایس جر بھی کی ۔ بڑوں سے اس ک بیر کم ن تو سمجھ میں آت ہے لیکن بچوں کے س تھ دشمنی سمجھ سے ب التر ہے۔ انس ن تو انس ن ج نور کے بچے بھی پی رے لگتے ہیں۔ بچوں کے س تھ زی دتی ہون ی ان کی اس طرح سے ج ن ج ن ‘ افسوس ن ک ہی نہیں شر ن ک ف ل بھی ہے۔ پر کی کریں وہ انس ن کے بچوں کے س تھ بھی روز اول کی دشمنی کم ت ہے۔ اس کے لیے انس ن کو ہی مہرہ بن ت ہے‘ چ ہے وہ بچہ ہو ی بڑا۔ وہ ان لمحوں میں انس ن کی رگ میں اپنے مق صد لذت کے روپ میں ات ر دیت ہے۔ عالقے میں اس سے پہ ے بھی اس قس ک واق ہ ہو چک تھ اور لے دے کرکے م م ہ رفع دفع ہو چک تھ ۔ لوگ اکثر سوچتے کہ ق تل کون ہے زن کرکے م صو بچی کو کو م ر کر پھینک دینے واال ی اس کے م ئی ب پ جنہوں نے سکوں کے عوض اسے زن اور قتل م ف کر دی ۔
38
خیر وہ تو اس کے بڑے ک ک تھ اسی لیے قد قد پر اس کی مدد کرت رہ اور مواقع دستی کرنے میں اپنے حربے است م ل کرت رہ ۔ اس کے گندے انڈے بچے متحرک رہے۔ اس کے برعکس یہ کچھ زی دہ ک ک نہ تھ دوسرا اس سے بڑھ کر مردود تالش لی ہو گ ورنہ اس کی ج ن نہ ج نے دیت ۔
39
ایسوں میں منس نہ یہ کوئی نئی ب ت نہیں بل کہ ہمیشہ سے چ ی آتی ہے کہ مجر ہل پر نہ ئے اور ص ف ستھرے لوگ مجر ٹھہرے ہیں۔ آتے وقتوں میں ہر اچھ مجرموں کے ن کر دی گی ہے اور ہر برا اچھوں ک مقدر بن دی گی ہے۔ یہ کبھی دانستہ کہ اپن بندہ ہے‘ کبھی سنی سن ئی کے زیر اثر‘ کبھی م م ے کی ظ ہری صورت دیکھ کر ت ہیمی کجی بھی برعکس سمجھنے اور ج ننے ک سب بنتی رہی ہے۔ اس طرح سچ اور حقیقت کھل نہیں پ تے۔ خونی ت بھی اکثر سچ ئی کو پس پردہ کر دیت ہے۔ دیکھتے اور ج نتے ہوئے بھی غ ط‘ غ ط نہیں لگت ۔ ہ س بہن بھ ئی اور والد ص ح چھوٹی ک پہ عین غین سے رشتہ نہیں کرن چ ہتے تھے۔ اب کی گھر میں حیثیت اور وق ت تھی لیکن وہ بڑے بیٹے کے داؤ میں آ ج تے تھے۔ اس کی دونوں بیوی ں بےنک حی بال کی چ ل ب ز اور ش طر تھیں۔ چھوٹی بیوی‘ جو ک فٹین عرف رکھتی تھی‘ چ ل ب زی میں شیط ن کی بھی ن نی تھی۔ چھوٹی کے رشتے ک رگڑا جھگڑا چل رہ تھ ۔ پہ عین غین کے اپنے‘ رشتہ کے لیے آئے ہوئے تھے۔ گھر کے س لوگ جمع تھے ،ان کی مہم ن داری کی ج رہی تھی لیکن
40
رشتہ دینے کے حوالہ سے‘ ان کی جھولی میں ن ں ہی ڈالی ج رہی تھی۔ ک فٹین نے کچھ دینے سے بچ ؤ کے لیے‘ ہم رے بڑے بھ ئی کو مشورہ دی کہ ت ج کر ہ ں کر دو‘ پھر گھر آنے کی کرو۔ وہ طوف ن اور اندھی کی طرح آی اور رشتے کی ہ ں کرکے چ ت بن ۔ اس طرح اس نے فس د ک رستہ کھول دی ۔ ش ید چھوٹی ک دانہ پ نی ہی ادھر تھ اس لیے رگڑے جھگڑے کے ب وجود رشتہ ہو گی ۔ ہ س کو اس رشتے کے ہو ج نے ک سخت دکھ ہوا لیکن کی ہو سکت تھ کہ تیر کم ن سے نکل چک تھ ۔ چھوٹی وہ ں خوش اور سکھی تھی اس لیے ہ نے اس رشتے کو قبول کر لی ت ہ پہ عین غین ہم ری نظر میں دو نمبری ہی رہ ۔ ہ نے اس پہ و پر کبھی غور نہیں کی عورت مرد کو درستی کی ج ن ال سکتی ہے۔ یہ رز حالل پر پ ی رز حرا کو گ ے لگ رہی تھی یہ ہی نہیں پہ عین غین کی م ون اور مددگ ر بھی بن گئی تھی۔ ہ میں سے کسی نے غور ہی نہ کی کہ عورت مرد کو غ ط سے درست اور درست سے غ ط کی طرف لے ج نے میں بڑا توان کردار ادا کر سکتی ہے۔ چوں کہ بہن تھی ہمیں کبھی اس میں غ طی ی خرابی نظر نہ آئی۔ اس نے پہ عین غین کے گھر ج تے ہی اس کی مرحو بیوی
41
کے بچوں کو بڑے حی وں حربوں اور چ ل ب زی سے گھر سے چ ت کی ۔ ان کی ت ی اور تربیت کی ج ن توجہ نہ دی۔ بےشک ان م صوموں پر یہ حد درجہ کی زی دتی تھی۔ ہ میں سے کسی کو یہ زی دتی نظر نہ آئی اور ہ چھوٹی کو م صو اور ہ درد عورت سمجھتے رہے۔ میں کوئی سیٹھ تو نہیں لیکن س ید پوش ضرور ہوں۔ میری ازدواجی زندگی خوشگوار نہ تھی۔ جسے وہ ب ریکی سے نوٹ کر رہی تھی۔ اس نے میرے لیے اپنے ہ تھ ک رشتہ تالش ۔ میرے شدید انک ر پر بھی اس نے انہیں ہ ں کر دی۔ اس کی ہ ں کے ب وجود میں اڑا رہ تو کہنے لگی میں زب ن دے چکی ہوں کی ت پوری برادری میں میرا ن ک کٹواؤ گے۔ کی کرت مجھے سولی چڑھن پڑا۔ پہ بی ک فٹین تک نے کہہ دی افسوس چپس کی کھرلی کے س تھ چھوٹی نے بھینس ب ندھ دی ہے۔ سچی ب ت ہے‘ اس نے افسوس اور ہ دردی ک اظہ ر بھی کی ۔ میں اسے پہ عین غین کی س زش سمجھت رہ لیکن یہ نہ سمجھ سک کہ اس کی تہ میں میری ہی بہن ک ہ تھ ہے۔ یہ تو ایک واق ہ ہے اس طرح کے بیسیوں واق ے دیکھنے اور سننے کو م ے۔ میں پہ عین غین ہی کو قصور وار سمجھت رہ اور کبھی یہ غور نہ کی کہ س را قصور اس ک نہیں۔ حالل پر پ ی
42
اسے کسی ن کسی طرح راہ راست پر ال سکتی تھی لیکن وہ اس کے گھر ج کر خود شیط ن کی ن نی بن گئی تھی۔ یہ تو پہ بی ک فٹین سے بھی دونمبری میں کئی قد آگے نکل چکی تھی۔ پہ بی ک فٹین کردار کی اچھی نہ تھی ج کہ یہ رز حرا کے درآمد میں اپنے خ وند کی ب نہہ بی ی تھی۔ اسے روکنے کی بج ئے النے پر مجبور کرتی تھی۔ مجھے افسوس ہے کہ میں ایک عرصہ گزر ج نے کے ب د حقیقت سے آگ ہ ہوا۔ پہ عین غین کے غ ط ہونے میں کوئی شک نہیں لیکن اس کے سراپ غ ط ہونے میں خود میری اپنی بہن ک ہ تھ تھ ۔ اگر وہ غ ط کی الف بے سے سدھ ر کی کوشش کرتی تو کتن اچھ ہوت لیکن وہ اسے یے تک لے کر گئی۔ یہ تو فقط ایک مث ل ہے ورنہ ایسی کئی مث لیں ہوں گی جن میں پت ی کی حرکت پر نظر رہتی ہے اس ک حرکت کنندہ نظر میں نہیں آ پ ت ۔ زم نہ اور پھر وقت کی انگ ی حرکت کنندہ پر ہی اٹھی رہتی ہے۔ م م ے ک محرک س منے نہیں آ پ ت ۔ بس اوق ت وہ بڑے سچ پتر کے طور پر بھی وقت اور زم نے کی کت میں مندرج ہو ج ت ہے۔ اس کے لیے محبت اور عزت و احترا کے جذبے دلوں کو مسخر کیے رکھتے ہیں۔ ج کہ حقیقت تو یہ ہوتی ہے کہ وہ انس نی ن رت کے بھی ق بل نہیں ہوت ۔ اس ک زب ن پر ن آن بھی زب ن کو پ ید کرنے کے مترادف ہوت ہے۔ چھوٹی ک ایسوں میں شم ر کرن بہرطور کسی طرح غ ط نہیں۔
43
ہ ں البتہ شغالنہ ہ دوستوں میں کوئی مولوی ش مل نہیں۔ بڑھ پے کے ہ عمر دوستوں میں بچوں کے دکھ سکھ ی اپنی بیم ری موضوع گ ت گو رہتی ہے ج کہ جوانی میں شغل ٹھٹھہ اور لڑکیآں موضوع کال بنتی ہیں۔ یہ بھی کہ ضروری نہیں ہر وقت سنجیدہ ب تیں ہی کی ج ئیں۔ ہنسی مذا میں واہی ت قس کی ب ت بھی ہو سکتی ہے بل کہ ہوتی ہی رہتی ہے۔ یہ ات تھ کہ ہ بیٹھے ہوئے تھے کہ ہم ری مسجد کے مولوی ص ح ک ادھر سے گزر ہوا۔ پوچھ کی ہو رہ ہے۔ کچھ نہیں جن ‘ بس یوں ہی بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ بھی بیٹھ گئے۔ پھر کی تھ س کو چپ سی لگ گئی۔ آخر مولوی ص ح نے ہی سکوت توڑا اور کہنے لگے یوں ہی بےک ر میں وقت نہ ض ئع کی کرو۔ کچھ ن کچھ ک کرتے رہ کرو۔ بےک روں پر شیط ن ج د گرفت کرت ہے۔ ک ک ج کرو گے تو مصروف رہو گے اور غ ط س ط نہیں سوچو گے۔ ان کی ب ت سولہ آنے درست تھی لہذا س نے ان کی ب ت پر تصدی کی مہر ثبت کر دی اور آئندہ سے بےک ر نہ بیٹھنے ک وعدہ کی ۔
44
عیدا ہ میں تھوڑا چنچل شرارتی اور گل ب تی ہے۔ کہنے لگ : مولوی ص ح ‘ مولوی حضرات ح وہ کیوں پسند کرتے ہیں۔ جواب مولوی ص ح کہنے لگے :آج کل مولوی ک ح وہ کھ تے ہیں۔ یہ پرانے وقتوں کے مولوی ص حب ن کی خوراک تھی۔ بکرو نے کہ :ہ ں جی آپ ک کہن درست ہے۔ آج کل تو مولوی ص حب ن آوارہ ککڑ پسند کرتے ہیں۔ یہ کھ ی گست خی تھی۔ س ڈر گئے کہ کل جم ہ شریف ہے سمجھو یہ جم ہ ان پر ہی لگے گ ۔ خالف توقع مولوی ص ح بھی شغل میں آ گئے اور فرم نے لگے :ہ ں ت درست کہتے ہو لیکن ب نگیں بھی تو مولوی ہی دیتے ہیں۔ س نے کہ جی ہ ں جی ہ ں آپ ک کہن درست ہے۔ عبدو نے دوب رہ سے گرہ لگ ئی‘ گ ے میں چکن ئی ہو تو ہی خوش الح نی ممکن ہو سکے گی۔ مولوی ص ح نے کچھ نہ کہ بل کہ ہنس دیے اور اٹھ کر چ ے گئے ہ ں البتہ ہ دوستوں پر یہ ضرور کھول گیے کہ مولوی ص حب ن بھی حس ظرافت رکھتے ہیں۔
45
چ لیس برس ہونے منس نہ ب ب جی کھ ن تن ول فرم رہے تھے کہ ان کی دو ڈھ ئی س ل کی بچی ب ر ب ر آ کر ن صرف ڈسٹر کر دیتی بل کہ اپنے مٹی م ے ہ تھ چپ توں کو لگ تی۔ وہ مسکرا دیتے اور کھ ن ج ری رکھتے۔ مج ل ہے جو ان کے م تھے پر س وٹ پڑتی۔ ان کی بیگ اسے اٹھ کر لے ج تی اور وہ دوب رہ سے آ ج تی۔ ایک ب ر انہوں نے ڈانٹ اور ایک ہ کی سی چپت بھی رکھ دی۔ ب ب ص ح خ ہوئے کہ بھئی م صو ہے اسے کی پت ۔ بڑے ن ز نخرے سے اس کی پرورش ہوئی۔ دینی ت ی کے س تھ مدرسے کی ت ی سے بھی اسے اراستہ کی گی ،دھو سے اس کی ش دی کی۔ اپنی بس ت سے بڑھ کر جہیز میں س م ن دی ۔ دع ؤں کے س یہ میں اس کی رخصتی کی۔ ہللا کے احس ن مند ہوئے کہ اس نے انہیں اس فرض سے سرخرو کی ۔ اپنے دونوں بچوں کے س تھ نصرت عرف نشو م ئی ب پ کے ہ ں آئی ہوئی تھی۔ اپنی م ں سے ب تیں کرنے کے س تھ س تھ اپنے دونوں بچوں کو ک ٹ ک ٹ کر آ کھال رہی تھی۔ ب ب جی چ رپ ئی پر لیٹے ہوئے تھے۔ اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنی بیٹی نشو سے کہنے لگے :ایک آ ک ٹ کر مجھے بھی دین ۔
46
ٹوکری میں آ ک فی پڑے ہوئے تھے۔ آ ک ٹ کر دینے کی بج ئے کہنے لگی :منڈی آرڈر بھجوای ہوا ہے۔ ب ب جی مسکرائے اور کہنے لگے :بیٹ اوالد ہر رشتے یہ ں تک کہ م ں ب پ سے بھی بڑھ کر پی ری ہوتی ہے۔ جن کی بیٹی ں بی ہ کر الن ان سے اچھ اور پی ر بھرا س وک کرن ۔ انہیں بھی اپنی بچی ں اسے طرح پی ری ہوں گی جس طرح تمہیں اپنے بیٹوں سے پی ر ہے۔ اس ب ت کو چ لیس برس ہونے کے قری ہیں۔ اس وقت تو ب ب جی کی ب ت سمجھ میں نہ آ سکی تھی ا ج کہ دونوں کی بیوی ں آ چکی ہے۔ ان میں ایک سگی بھتجی ہے۔ اس نے ان ک جین حرا کی ہوا ہے۔ ج ان کے خ وند ان کے پ س بیٹھتے ہیں ی اپنی بیویوں کے لیے کوئی چیز التے ہیں تو فورا شور مچ دیتی ہے۔ ہ ئے میں مر گئی میرا دل بیٹھ رہ ہے۔ ہ ئے میرا س نس رک گی ۔ وہ اسی طرح اپنے کمرے میں قد رکھنے سے پہ ے ہی اس چیز سمیت م ں کے حضور ح ضر ہو ج تے ہیں۔ وہ چیز ان کی بیویوں کے نصی میں نہ ہوتی ح الں کہ وہ اپنی بیویوں کے لیے الئے ہوتے۔ اس کی بیٹی ں سسرال میں ک اس کے پ س
47
بچوں سمیت زی دہ رہتیں۔ وہ ہی چیزیں وہ اور ان کے بچے ڈک رتے۔ چھوٹ اپنی بیوی‘ جو نشو کی بھتجی بھی تھی ک تھوڑا بہت خی ل رکھت تھ ۔ وہ بھی اسے نہ بھ ی ۔ اس نے اپنی دونوں بیٹیوں سے صالح مشورہ کرکے ڈی وری سے پہ ے ہی اس پر الزا رکھ دی اور اسے چ ت کی ۔ وہ سچی تھی کہ بچے کی پیدائش کے ب د اس کے بیٹے نے ک ی طور پر بیوی اور بچے ک ہو رہن تھ ۔ ص ف ظ ہر ہے‘ دوسرے رشتے ایک طرف‘ اوالد م ں ب پ سے بھی پی ری ہوتی ہے۔ اسے بھ ئی کی عزت اور اس کے اپنے بیٹے کے گھر کے برب د ہونے ک رائی بھر مالل نہ تھ ۔ اس سے بڑھ کر کھیڈ اس نے اپنے خ وند کی مرحو بیوی کے بچوں کو گھر بدر کرنے کے لیے رچ ئی تھی۔ آج چ نے پھرنے سے م ذور ہے لیکن اس نے اپن چ ال نہیں بدال۔ ہللا کی ہللا ہی ج نت ہے کہ اس نے شیط ن کو اتنی لمبی عمر اور کھ ی چھوٹ کیوں دے رکھی ہے۔ خود ل نت کی جیت ہے اوروں کی زندگی کو بھی ل نتی بن کر دنی میں شر اور فس د کو ع کر دیت ہے۔ بڑے بزرگوں ک کہ محض قصہ کہ نی ہو کر رہ ج ت ہے۔
48
کی تمہیں م و نہیں شغالنہ ش کو ک ک ج سے فراغت کے ب د دونوں دوست قریبی پ رک میں چ ے ج تے۔ چہل قدمی کے س تھ س تھ ت ڑا ت ڑی ک شغل بھی ج ری و س ری رہت ۔ عالقے کی یہ واحد ت ریح گ ہ تھی جہ ں ش کو شورےف اور عمو بھی گھر والوں کے س تھ ت زہ اور ص ف ش ف ہوا خوری کے لیے چ ے آتے تھے۔ ہوا خوری کے س تھ س تھ پہونڈی ک عمل بھی زور و شور سے ج ری رہت ۔ یہ م م ہ یک طرفہ نہ تھ ۔ صنف ن زک ادائیں اور صنف غیر ن زک مردانہ جواہر ک مظ ہرہ کرتے۔ مسک نوں اور اش روں کی زب ن میں بہت کچھ کہ سن ج ت ۔ کچھ جوان اور جواننی ں ک آن ہی ت ڑا ت ڑی کے لیے ہوت تھ لہذا ان کے م م ے کو ان س سے الگ رکھ ج سکت ہے۔ ایک آدھ اڑپھس بھی ہو رہتی۔ پہ ے سے پھسوں کی انجوائےمنٹ دوسروں سے قط ی الگ تر ہوتی۔ بوڑھے اپنی بیم ری ک رون روتے۔ دواؤں اور ٹسٹوں پر گ ت گو کرتے۔
49
جگہ جگہ بیبیوں کے چغ یوں اور بخ یوں پر مشتمل مش ہرے ہو رہے ہوتے۔ آنسو اور بےم نی و ب م نی ج ی اور نی اص ی ل ظوں کے رونے دیکھنے کو م تے۔ ایک دن ان دونوں میں سے ایک دوست ک دوست بھی چہل قدمی کے لیے س تھ آی ہوا تھ ۔ وہ دونوں حس روٹین چہل قدمی کے س تھ س تھ ت نک جھ نکی میں مصروف تھے۔ وہ جوان حوروں کے حسن سے لطف اندوز ہو رہے تھے لیکن یہ مہم ن دوست بوڑھی اور آدھ کھڑھ بیبیوں ک حدود ارب ہ ن پ رہے تھے۔ حمید نے توقیر سے م جرہ پوچھ کہ تمہ را دوست بھی عجی ہے۔ حسن کی شہزادیوں کو چھوڑ کر پرانی بوسیدہ اور بوریوں کو ہی کیوں اتنی دل چسپی اور پی ر سے دیکھ رہ ہے۔ وہ کھ کھال کر ہنس پڑا اور کہنے لگ :کی تمہیں م و نہیں کہ یہ کب ڑہ ہے۔ کب ڑ میں جو جوہروگوہر اسے نظر آتے ہیں ہمیں نظر نہیں آتے۔ حمید نے اپنے دوست تنویر سے کہ ی ر کسی دن اس کے پ س ج کر اس فی ڈ ک بھی ن لج ح صل کرتے ہیں۔ وہ پھر ہنس اور کہنے لگ :چھوڑو اپنی اپنی فی ڈ ہے ہر کسی کو اپنی ہی فی ڈ سے وابستہ رہن چ ہیے۔ یہ ہی درست اور بہتر ہوت ہے۔
50
ب ت تو کوئی بڑی نہ تھی منس نہ میری کی ‘ ہر کسی کی آنکھیں بین ئی موجود ہونے کی صورت میں لوگوں کو اور زندگی کے بےشم ر من ظر دیکھتی ہیں۔ خو صورت من ظر اور زن نہ و مردانہ چہرے طب یت پر اچھے ت ثرات چھوڑتے ہیں۔ زن نہ چہرے اور من س جثے قدرے بہتر ی ل ٹ کرانے والے ہوں تو کی ہی ب ت ہے۔ طب یت بالتک ف اور خواہ مخواہ م ئل و ق ئل اور مچل مچل ج تی ہے۔ یہ ہی نہیں اکثر اوق ت ان میں حوروں اور پریوں کے ج وے نم ی ں ہو ج تے ہیں۔ مط بری کے ب د کچھ ی د نہیں رہت کہ وہ کون تھیں۔ ی دداشت کے م م ہ میں ش ید ان ک بھی یہ ہی ح ل رہ ہو گ ۔ یہ ہی آنکھیں طب یت اور مزاج سے میل نہ کھ تے من ظر کو خرا اور بےک ر قرار دے دیتی ہیں۔ اس طرح بوڑھے آدھ کھڑے بےڈھبے ی بےل ٹے چہروں پر ن پسندیدگی کی مہر ثبت کر دیتی ہیں۔ انس ن کی آنکھیں س کو اور س کچھ دیکھتی اور دیکھ سکتی ہیں لیکن یہ کتنی عجی حقیقت ہے خود کو نہیں دیکھ سکتیں۔ جس چہرے پر آویزاں ہوتی ہیں اس کو دیکھنے سے ع ری ہوتی ہیں۔ اپنی ہی پشت کو دیکھنے سے م ذور رہتی ہیں۔ جس
51
جس ک حصہ ہوتی ہیں اس جس کے اندر کی کچھ ہے اور کیس ہے ان کی بص رت کی رس ئی اس تک ممکن نہیں۔ جو آنکھیں خود کو نہیں دیکھ سکتیں اور مخت ف ح الت میں اپنے چہرے کے ات ر چڑھ دیکھنے سے ع ری ہیں انہیں کسی دوسرے میں موجود خرابیوں پر انگ ی رکھنے ک کی ح بنت ہے۔ یہ کوئی چ لیس پچ س س ل پی ے کی ب ت ہے میرے دوست شریف نے اپنے کسی م نے والے کے ک کے س س ہ میں اس کے س تھ مجھے الہور بھیج ۔ اس روز جم ہ تھ ۔ جم ے ک ٹ ئ بھی ہو رہ تھ لیکن ہ اپنے ک میں مصروف تھے اور س تھ میں ب تیں بھی کیے ج تے تھے۔ وہ کہنے لگ :دیکھو جی‘ لوگ مذہ سے کتنے دور ہو گئے ہیں۔ آج جم ہ ہے لیکن بالتردد اپنے اپنے ک موں میں مصروف ہیں کوئی مسجد ک رخ نہیں کر رہ ۔ میں نے کہ :ی ر ت کہتے تو ٹھیک ہو۔ ہ مذہ سے دور ہو گئے ہیں‘ مذہ سے دوری ہی ہمیں ذلیل و رسوا کر رہی ہے۔ ت بھی تو مسجد میں جم ہ پڑھنے نہیں گئے۔ میرے جوا پر وہ خ ہوگی اور کہنے لگ کہ آپ پرسنل ہو گئے ہیں۔ میں تو لوگوں کی ب ت کر رہ تھ ۔ اس نے مجھ سے اپن رستہ جدا اختی ر کر لی ۔ میں اس کے ک آی تھ اور ک بھی کروا دی تھ ۔ ص ف ظ ہر ہے اس کے ک آی
52
تھ آنے ج نے ک کرایہ اسی نے بھرن تھ ۔ آتی ب ر تو اس نے بھرا لیکن ا ج تی ب ر بھی اسی نے ادا کرن تھ ۔ میں نے رستہ ص ف کرنے کی بڑی کوشش کی لیکن وہ نہ م ن ۔ اس ک ک نکل گی تھ اور ا اسے میری ضرورت نہ تھی۔ ن چ ر مجھے اپن کرایہ بھر کر واپس آن پڑا۔ ب ت تو کوئی بڑی نہ تھی کہ اس نے جسے بتنگڑ بن دی ۔ ش ید وہ بھی کرایہ بچ نے کے لیے یہ ن ٹک رچ گی تھ ۔ اوپر سے شریف سے بہت کچھ الٹ سیدھ کہہ دی ۔ وہ کئی دن تک مجھ سے نہ بوال۔
53