چھے اختصاریے

Page 1

‫چھے اختص ریے‬

‫مقصود حسنی‬

‫فہرست‬ ‫سہ گنی‬

‫لوک نہ‬

‫اسے م و نہ تھ‬

‫لوک نہ‬

‫ان دنوں‬

‫منس نہ‬

‫آنٹی ثمرین‬

‫منس نہ‬

‫انص ف ک قتل‬

‫لوک نہ‬

‫بےک ر کی شر س ری منس نہ‬


‫سہ گنی‬ ‫لوک نہ‬ ‫ایک ب دش ہ اور اس ک وزیر گشت پر نک ے ہوئے تھے۔ دیکھ‬ ‫ایک درخت کے نیچے ایک ادمی سوی ہوا ہے۔ وزیر نے ب دش ہ‬ ‫سے کہ ‪ :‬ب دش ہ سامت درخت کے نیچے سوی ہوا آدمی بڑے‬ ‫ک ک ہے۔ وہ دونوں اس شخص کے پ س چ ے گئے۔ اسے‬ ‫جگ ی اور پوچھ کہ ت کی کی ہنر رکھتے ہو۔ اس شخص نے‬ ‫بت ی کہ میں تین گن رکھت ہوں‪:‬‬ ‫اول‪ -‬میں اص ی اور نق ی ہیرے کی ج نچ کر سکت ہوں۔‬ ‫دوئ ‪ -‬مجھے نس ی اور غیرنس ی گھوڑوں کی پہچ ن ہے۔‬ ‫سوئ ‪ -‬مجھے آدمیوں کی پہچ ن ہے۔‬ ‫ب دش ہ اسے اپنے س تھ لے آی اور اس کی پ نچ روپے م ہ نہ‬ ‫تنخواہ مقرر کر دی اور اسے کہ ج ؤ ہم رے قر وجوار میں‬ ‫موج کرو ج تمہ ری ضرورت پڑے گی با لیں گے۔‬ ‫ایک مرتبہ درب ر میں ہیروں ک سوداگر آی ۔ ب دش ہ کو ہیرے‬ ‫دکھ ئے۔ ب دش ہ کو ایک ہیرا بہت پسند آی ۔ اچ نک اسے اپن سہ‬ ‫گنی ماز ی د آ گی ۔ اسے بای گی اور پسند کیے گئے ہیرے کے‬ ‫مت پوچھ ۔ اس نے وہ خو صورت ہیرا دیکھ ۔ ج نچنے کے‬ ‫ب د کہنے لگ یہ ہیرا نق ی ہے اور اس میں ریت بھری ہوئی ہے‬


‫اور سوداگر سے کہ ت خ ک ہیروں کے سوداگر ہو جو اص ی‬ ‫اور نق ی ہیرے کی پہچ ن نہیں رکھتے۔‬ ‫سوداگر کے تو ہ تھوں کے طوطے اڑ گئے اور وہ بہت پریش ن‬ ‫ہوا۔ حیران تو ب دش بھی ہوا۔ ب دش ہ نے سوداگر سے کہ اگر‬ ‫اس شخص کی ب ت صحیح نک ی تو میں تمہ را سر اڑا دوں گ‬ ‫اگر یہ ہیرا اص ی نکا تو خرید لوں گ ۔ پھر اس شخص سے کہ‬ ‫اگر ہیرا درست نکا تو ت ج ن سے ج ؤ گے۔‬ ‫ہیرا توڑا گی تو ہیرے میں سے ریت برآمد ہوئی۔ ب دش ہ اس‬ ‫شخص سے راضی ہوا اور اس کی پ نچ روپے تنخواہ برقرار‬ ‫رکھی۔‬ ‫کچھ ہی وقت گزا ہو گ کہ ایک گھوڑوں ک سوداگر آی ۔ اس کے‬ ‫پ س ون سونی نسل کے گھوڑے تھے۔ ان میں سے ب دش ہ کو‬ ‫ایک گھوڑا بہت پسند ای ۔ پہچ ن کے لیے اس شخص کو دوب رہ‬ ‫سے ط کی گی گی اور اپنی پسند کے گھوڑے کے مت‬ ‫دری فت کی ۔‬ ‫اس شخص نے گھوڑے کو دیکھنے کے ب د کہ ‪ :‬گھوڑے کے‬ ‫نس ی ہونے میں کوئی شک نہیں لیکن اس کی کمر میں رسولی‬ ‫ہے۔ گھوڑوں کے سوداگر سے کہ ت کیسے گھوڑوں کے‬ ‫سوداگر ہو کہ ج نور میں موجود اعض ئی نقص سے بےخبر‬ ‫رہتے ہو۔‬


‫گھوڑوں کے سوداگر کو سخت پریش نی ہوئی۔ اس گھوڑے کے‬ ‫حوالہ سے اسے ان واکرا م نے کی امید تھی۔‬ ‫ج نوروں کے امراض کے م ہر کو بای گی ۔ اس نے گھوڑے ک‬ ‫طبی م ئینہ کی اور کمر میں رسولی ہونے کی تصدی کر دی۔‬ ‫ب دش ہ گھوڑوں کے سوداگر سے سخت خ ہوا اور اسے درب ر‬ ‫سے دھکے دے کر نک ل دی ۔ ب دش ہ اپنے اس ماز کی پرکھ‬ ‫پہچ ن پر بہت راضی ہوا اور اس کی تنخواہ پ نچ روپے برقرار‬ ‫رکھی۔‬ ‫ایک دن ب دش ہ نے سوچ کیوں نہ تیسری خوبی بھی آزم ئی‬ ‫ج ئے۔ اسے بای گی ۔ ب دش ہ نے اس سے پوچھ کہ ت میرے‬ ‫ب رے میں کی کہتے ہو کہ میں کون ہوں۔ ب دش ہ کو اپنے اع ی‬ ‫نسل ہونے ک یقین تھ اور اس پر فخر و غرور بھی تھ ۔ اس‬ ‫شخص نے ک فی پس و پیش سے ک لی لیکن ب دش ہ ک اصرار‬ ‫بڑھت گی ۔ اس شخص نے ج ن بخشی کی درخواست کی۔ ب دش ہ‬ ‫نے ج ن بخشی ک وعدہ کی تو اس شخص نے بت ی کہ ت چوڑے‬ ‫کی اواد ہو۔‬ ‫ب دش ہ نے ت وار نی سے نک لی اور کہ کہ یہ ت کیسے اور کس‬ ‫بنی د پر کہتے ہو۔ ب دش ہ کے ہ تھ میں وعدہ خافی کے حوالہ‬ ‫سے ت وار دیکھی تو زوردار قہقہ لگ کر کہنے لگ ‪ :‬اے ب دش ہ‬ ‫میں نے ہیرے کی پرکھ بت ئی ت خوش ہوئے لیکن میری تنخواہ‬ ‫پ نچ ہی رہنے دی۔ گھوڑے کے مت درست بت ی ت خوش‬


‫ہوئے لیکن میری پ نچ روپے ہی رہنے دی۔ ا وعدہ خافی‬ ‫کرکے ت وار نی سے نک ل رہے ہو۔ ج میں نے بت نے سے‬ ‫انک ر کی تو تمہیں ع یدگی میں پوچھن چ ہیے تھ ۔ تمہ رے ک‬ ‫ہی چوڑوں جیسے ہیں‘ میں نے اسی بنی د پر تمہیں چوڑے کی‬ ‫اواد کہ ہے۔ مجھے قتل کرنے سے پہ ے اپنی م ں سے ج کر‬ ‫پوچھ کہ ت کس کی اواد ہو۔‬ ‫ب دش ہ غصہ سے ہ تھ میں ننگی ت وار لے کر م ں کی طرف‬ ‫بھ گ ۔ اس کی م ں آرا کر رہی تھی۔ اس نے ج کر م ں کو اٹھ ی‬ ‫اور کہ سچ بت کہ میں کس کی اواد ہوں۔ م ں اس ک یہ رویہ‬ ‫اور تیور دیکھ کر حیران رہ گئی۔ اس نے کہ اپنے ب پ کی اواد‬ ‫ہو اور کس کی ہو۔ پھر ب دش ہ نے ت وار لہرائی اور کہ سچ سچ‬ ‫بت ؤ کہ میں کس کی اواد ہوں۔ پھر اس کی م ں نے بت ی کہ میرا‬ ‫خ وند جنگ میں تھ اور اسے گھر آئے ک فی دن ہو گئے میرا دل‬ ‫بڑا چ ہ تو میں نے گھر میں جھ ڑو بھ ری کرنے والے کو‬ ‫است م ل کر لی اور پھر وہ ہی میرے ک آنے لگ ۔ تمہ را وزیر‬

‫وہی چوڑا ہی تو ہے۔ مح وں میں یہ الگ سے اور انوکھ واق ہ نہیں‬ ‫ہے۔‬ ‫یہ سنن تھ کہ ب دش ہ چکرا گی اور وہیں سر پکڑ کر زمین پر بیٹھ‬ ‫گی ۔‬


‫اسے م و نہ تھ‬ ‫لوک نہ‬ ‫ایک شخص درخت کے نیچے منہ کھولے گہری نیند سو رہ تھ‬ ‫کہ ایک سپولیہ اس کی ج ن بڑھ ۔ دریں اثن ایک گھڑسوار وہ ں‬ ‫آ پہنچ ۔ وہ پھرتی سے گھوڑے سے نیچے اترا۔ اس کے نیچے‬ ‫اترتے اترتے سپولیہ سوئے ہوئے شخص کے منہ میں گھس‬ ‫گی ۔ وہ بڑا پریش ن ہوا۔ اچ نک اسے کچھ سوجھ اور اس نے‬ ‫سوئے ہوئے شخص کو زور زور سے چھ نٹے م رن شروع کر‬ ‫دیے۔ سوی ہوا شخص گھبرا کر ج گ اٹھ اور اس نے گھڑسوار‬ ‫سے چھ نٹے م رنے کی وجہ پوچھی‘ اس نے کہ وجہ چھوڑو‬ ‫اور تیز رفت ری سے بھ گو ورنہ اور زور سے م روں گ ۔‬ ‫اس شخص نے بھ گن شروع کر دی ۔ ج رکنے لگت تو وہ‬ ‫چھ نٹے م رن شروع کر دیت ۔ رستے میں ایک ندی آ گئی۔‬ ‫گھڑسوار نے کہ پ نی پیو۔ اس نے پی ۔ اس نے چھ نٹ م رتے‬ ‫ہوئے کہ اور پیو۔ اس نے اور پی اور کہ ا مزید نہیں پی‬ ‫سکت ۔ اچھ نہیں پی سکتے تو بھ گو۔‬ ‫وہ بھ گت ج رہ تھ اور س تھ میں وجہ بھی پوچھے ج ت ۔‬ ‫گھڑسوار وجہ نہیں بت رہ تھ ہ ں البتہ بھ گنے کے لیے کہے‬ ‫ج ت تھ ۔‬


‫تھوڑا آگے گیے تو ایک سیبوں ک ب آ گی ۔ گھڑ سوار نے کہ‬ ‫نیچے گرے ہوئے سی کھ ؤ۔ اس نے کھ ئے اور کہ مزید نہیں‬ ‫کھ سکت ۔ گھڑسوار نے زوردار چھ نٹ م رتے ہوئے کہ ‘ میں‬ ‫کہت ہوں اور کھ ؤ۔ اس نے کھ ن شروع کر دی ۔ پھر کہنے لگ‬ ‫اور نہیں کھ سکت مجھے قے آ رہی ہے۔ ہ ں ہ ں کھ تے ج ؤ‬ ‫ج تک قے نہیں آ ج تی تمہیں سی کھ تے رہن ہو گ ۔‬ ‫وہ سی کھ ت رہ کہ اسے زوردار قے آ گئی۔ قے کے س تھ ہی‬ ‫سپولیہ بھی ب ہر آ گی ۔ ت اس پر اصل م جرا کھا۔ وہ گھڑسوار‬ ‫ک شکرگزار ہوا اور اس نے م فی م نگی کہ وہ بھ گتے پ نی‬ ‫پیتے اور سی کھ تے ہوئے جی ہی جی میں اسے گ لی ں اور‬ ‫بددع ئیں دے رہ تھ اور اس مصبیت سے چھٹک رے کے لیے‬ ‫دع ئیں کر رہ تھ ۔‬ ‫تمہ ری بددع ئیں مٹی ہوئیں ہ ں البتہ دع ئیں ک رگر ث بت ہوئیں۔۔‬ ‫اسے قط م و نہ تھ کہ اس ظ ہری برائی میں خیر چھپی‬ ‫ہوئی ہے۔ گھڑسوار مسکرای اور اپنی منزل کو چل دی‬


‫ان دنوں‬ ‫لوک نہ‬

‫اس بچی ک اصل ن ارش د تھ لیکن سی ہ رنگت کے سب ک لی‬ ‫م ت ن عرف ع میں آ گی تھ ۔ خصوص بچے اسے چھیڑنے‬ ‫کے لیے ش داں ک لی م ت کہہ کر پک رتے۔ وہ اس ن پر پٹ پٹ‬ ‫ج تی۔ اکثر نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ ج تی۔ وہ تو چڑتی تھی‬ ‫ہی لیکن اس کی م ں اس سے زی دہ ت ؤ میں آ ج تی اور چھیڑنے‬ ‫والے کو اگ ے گھر تک پہنچ کر آتی۔‬ ‫اس روز ہ س ئے ک لڑک جو عمر میں ش داں کے برابر ک تھ ۔‬ ‫ش داں کو ک لی م ت کہہ کر اپنے گھر بھ گ گی ۔ ش داں نے اپنی‬ ‫م ں کو آ کر شک یت لگ ئی۔ ش داں کی م ں نے نہ آؤ دیکھ نہ ت ؤ‬ ‫ان کے گھر ج کر اس لڑکے کو دو تین زوردار جڑ آئی۔ پھر کی‬ ‫تھ میدان لگ گی ۔ اس لڑکے کی م ں نے اونچی اونچی بولن‬ ‫شروع کر دی ۔ ش داں کی م ں بھی نیچے چونکی رکھ کر دیوار‬ ‫کے س تھ کھڑی ہو گئی۔ پہ ے س دا گر ک ری ہوئی اس کے ب د‬ ‫آلودہ ل ظوں کے دھ رے کھل گئے۔ دونوں بیبی ں تھکنے ک ن‬ ‫ہی نہیں لے رہی تھیں۔ انہوں نے ایک دوسرے کے نئے پرانے‬ ‫راز اگل کر رکھ دیے۔ بہت سی پس پردہ ب تیں اور حق ئ کھل‬ ‫گئے اور دونوں کی کردای شرافت پر برسوں ک پڑا پردہ اٹھ گی ۔‬


‫ابھی زور دار ب ب ری ک س س ہ ج ری تھ کہ ش داں ک دادا گھر آ‬ ‫گی ۔ بہو کو گرجتے برستے دیکھ کر م جرہ پوچھ ۔ ش داں کی‬ ‫م ں نے بہت سی پ س سے لگ کر سسر کو کہ نی ں سن ئیں۔ یہ‬ ‫بھی بت ی کہ ک فٹین ک بیٹ میری ش داں کو ک لی م ت کہہ کر‬ ‫چھیڑت ہے۔‬ ‫بندہ سی ن تھ ۔ اس نے بہو سے پوچھ ش داں کدھر ہے۔ ش داں‬ ‫کی م ں نے گھر میں ادھر ادھر اسے تاش وہ گھر پر نہ تھی۔‬ ‫ش داں ک دادا کہنے لگ اسے نہ تاشو وہ گھر میں نہیں ہے ب ہر‬ ‫بچوں کے س تھ کھیل رہی ہے۔ اس کی پ رٹی میں ہ س ئی ک‬ ‫لڑک ہے۔ پھر اس نے اونچی آواز میں ہ س ئی سے کہ بیٹ‬ ‫بچوں کی وجہ سے نہ لڑو‘ ت ادھر لڑ رہی ہو ب ہر یہ ہی بچے‬ ‫آپس میں مل کر کھیل رہے ہیں۔ بچوں کے لیے لڑن کھ ی حم قت‬ ‫ہے۔‬ ‫ب ڑے کی ب تیں سن کر دونوں بیبی ں بڑی شرمندہ ہوئیں اور شر‬ ‫سے اندر گھس گئیں۔ بچوں نے تو ان کے پ ے کچھ نہ چھوڑا‬ ‫تھ ۔‬ ‫کئی دنوں تک بول بارے کے نتیجہ میں ان کی ب ہمی رنجش‬ ‫چ تی رہی اور پھر م ضی گئی گزری کی قبر میں دفن ہو گی ۔‬ ‫وقت پر لگ کر محو س ر رہ ۔ بچے جوان ہو گئے۔ شیداں اور‬ ‫ک فٹین ک لڑک جیرا آپس میں سٹ ہو گئے۔ ان کی یہ ب ہمی ہی و‬ ‫ہ ئے دو س ل تک چ ی۔ عزت بچ نے کی خ طر دونوں کے م ئی‬


‫ب پ کو راضی ہون پڑا اور ان کی ش دی طے کر دی گئی۔‬ ‫ان دنوں جیرا اور شیداں ایک چھت ت ے رہ رہے ہیں اور جیرے‬ ‫کے لیے شیداں حسینہ ع ل ہے۔ وہ اس کی ب ت ٹ لنے کو بھی‬ ‫پ پ سمجھت ہے۔‬


‫آنٹی ثمرین‬ ‫منس نہ‬ ‫م ں کی محبت کے ب رے میں کچھ کہن سورج کو چ ند دکھ نے‬ ‫والی ب ت ہے۔ یہ کسی دلیل ی ثبوت کی محت ج نہیں ہوتی۔ م ں‬ ‫بچوں کے لیے جو مشقت اٹھ تی ہے کوئی اٹھ ہی نہیں سکت ۔‬ ‫اس کی س نسیں اپنے بچے کے س تھ اول ت آخر جڑی رہتی ہیں۔‬ ‫وہ اپنے بچے کے لیے کسی بھی سطع تک ج سکتی ہے۔ اس‬ ‫ک ہر کی با ک حیرت انگیز ہوت ہے۔ م ں بچے کے لیے اپنی‬ ‫ج ن سے بھی گزر ج تی ہے۔ یہ محبت اور ش قت اس کی ممت‬ ‫کی گرہ میں بندھ ہوا ہوت ہے اس لیے حیران ہونے کی‬ ‫ضرورت نہیں۔ محبت اس کی ممت ک خ ص اور ازمہ ہے۔‬ ‫عورت اپنے پچھ وں کے م م ہ میں اواد سے بھی زی دہ‬ ‫حس س ہوتی ہے۔ اس ذیل میں اس ک قول زریں ہے کہ نہ م ں‬ ‫ب پ نے دوب رہ آن ہے اور نہ بہن اور بھ ئی پیدا ہو سکتے ہیں۔‬ ‫اس ک دو نمبر بھ ئی بھی قط نم اور ب پ کو نبی قری‬ ‫سمجھتی ہے۔ ان کی کوئی کمی خ می ی خرابی اس کو نظر نہیں‬ ‫آتی ی ان سے کمی کوت ہی سرزد ہوتی ہی نہیں۔ ج کہ خ وند‬ ‫کی م ں عموم ف ے کٹن اور ب پ لوبھی اور الچی ہوت ہے۔ بہن‬ ‫بھ ئی تو خیر دو نمبری کی آخری سطع کو چھو رہے ہوتے ہیں۔‬


‫کر بی بی بھی اول ت آخر عورت تھی اور وہ بھی یہ ہی اصولی اطوار‬ ‫رکھتی تھی۔ وہ اپنے بیٹے کے لیے بہن کی بیٹی ان چ ہتی تھی ج کہ‬ ‫اس ک خ وند ادھر رشتہ نہیں کرن چ ہت تھ ۔ لڑکی میں کوئی کجی ی‬ ‫خ می نہ تھی۔ بس وہ ادھر رشتہ نہیں کرن چ ہت تھ ۔ ان کے گھر میں‬ ‫کئی م ہ سے یہ ہی رگڑا جھگڑا چل رہ تھ ۔ جوں ہی گھر میں وہ‬

‫قد رکھت کل ک ی ن شروع ہو ج تی اور یہ اگ ے دن اس کے ک‬ ‫پر ج نے تک تھوڑے تھوڑے وق ے کے س تھ چ تی رہتی۔‬

‫ایک دن اس نے اپنے ایک قریبی دوست سے م م ہ شیئر کی ‪،‬‬ ‫وہ ہنس پڑا‬ ‫او ی ر اس میں پریش نی والی کی ب ت ہے۔ بھ بی کو اپنی ڈال دو‬ ‫س ٹھیک ہو ج ئے گ ۔‬ ‫اپنی کی ڈالوں۔‬ ‫یہ ہی کہ ت درسری ش دی کرنے والے ہو۔ عورت ت نے پسند‬ ‫کر لی ہے۔ اس نے کہ‬ ‫ی ر میں پ گل ہوں جو ایک ب ر شدگی کے ب د کوئی عورت پسند‬ ‫کروں گ ۔‬ ‫تمہیں کس نے کہ ہے کہ یہ حم قت کرو‘ ج ی کردار تخ ی‬ ‫کرو۔‬ ‫اسے اپنے دوست ک آئیڈی پسند آی ۔ طے یہ پ ی کہ وہ ٹی ی فون‬ ‫پر مس ک ل کرے گ ۔ اس کے ب د وہ ج ی عورت سے دیر تک‬


‫روم ن پرور ب تیں کرت رہے گ ۔ پہ ے ہ تے زب نی کامی اگ ے‬ ‫ہ تے سے ٹی ی فونک س س ہ چ ے گ ۔‬ ‫اس دن ج رشتے کی ب ت شروع ہوئی تو اس نے اپنی محبت‬ ‫کی کہ نی چھیڑ دی۔ پہ ے تو اس کی بیوی کو یقین نہ آی ۔ اس ک‬ ‫خی ل تھ کہ اسے کون پسند کرے گی۔ اس نے بت ی کہ وہ بڑے‬ ‫ب ند مرتبہ شخص کی س لی ہے۔ اسے طا ہو گئی ہے۔ بڑی ہی‬ ‫خو صورت ہے۔ اس کی چھوٹی چھوٹی دو بیٹی ں ہیں۔‬ ‫کر بی بی کچھ دن اسے اف زنی خی ل کرتی رہی ۔ اگ ے ہ تے‬ ‫ٹی ی فون آن شروع ہو گئے۔ وہ دیر تک ج ی عورت سے ج ی‬ ‫روم ن پرور ب تیں کرت ۔ کئی ب ر ب توں کے درمی ن کہیں سے‬ ‫ٹی ی فون بھی آی ۔ کر بی بی اتنی پیدل ہو گئی کہ اس نے غور‬ ‫ہی نہ کی کہ ٹی ی فون کرنے کے دوران ٹی ی فون کیسے آ سکت‬ ‫ہے۔‬ ‫کر بی بی بھ نجی ک رشتہ انے ک مس ہ بھول سی گئی اسے‬ ‫اپنی پڑ گئی۔ اسے گھر میں اپنے وجود ک خطرہ اح ہو گی ۔‬ ‫گھر میں اکی ی دھندن تی تھی سوت کے آ ج نے کے دکھ نے‬ ‫اسے ادھ موا کر دی ۔ ان ہی دنوں لڑکے ک رشتہ آ گی جیسے‬ ‫سوت کے آنے سے پہ ے کر لی گی مب دہ سوت کے آنے کے ب د‬ ‫کی ح ات ہوں۔ کر بی بی کے ذہن میں یہ ب ت نقش ہو گئی کہ‬ ‫سوت کے آنے کے ب د ح ات برعکس ہو ج ئیں گے۔‬


‫لڑکے کی ش دی کو ابھی دس دن ہی گزرے ہوں گے کہ ولی‬ ‫محمد اپنے کمرے میں اداس بیٹھ ہوا تھ ۔ ب ت ب ت پر برہ ہوت‬ ‫اور کبھی رونے لگت ۔ کوئی کچھ سمجھ نہیں پ رہ تھ کہ اسے‬ ‫اچ نک کی ہو گی ہے۔ اتن اداس اور رنجیدہ کیوں ہے۔ س ب ر‬ ‫ب ر پوچھتے کہ آپ اتنے پریش ن اور اداس کیوں ہیں۔ ہر کسی‬ ‫سے یہ ہی کہت ک پریش ن ہوں۔ میں کیوں اور کس سے اداس‬ ‫ہونے لگ ۔‬ ‫آخر کر بی بی ہی دور کی کوڑی ائی۔ کہنے لگی تمہ ری‬ ‫ثمرین تو دغ نہیں دے گئی ۔ ولی محمد نے حیرت سے پوچھ‬ ‫تمہیں کیسے پت چا۔ کوئی ٹی ی فون تو نہیں ای ۔‬ ‫کر بی بی کی ب چھیں کھل گئیں۔ کہنے لگی کہتی تھی ن کہ ت‬ ‫سے عین غین بندے سے کون نبھ کر سکت ہے وہ میں ہی ہوں‬ ‫جو تمہ رے س تھ نبھ کر رہی ہوں ۔ کر بی بی با تھک ن بولتی‬ ‫رہی وہ موٹے موٹے آنسوبہ ت گی ۔ اس کی یہ کئی م ہ اور‬ ‫خصوص اس روز کی اداک ری دلیپ کم ر بھی دیکھ لیت تو عش‬ ‫عش کر اٹھت ۔‬ ‫اس گی میں اسے تین نوعیت کے دکھوں سے پ ا پڑا۔ س لی کی‬ ‫بیٹی ک بیٹے کے لیے رشتہ نہ لینے کی وجہ سے ع رضی سہی‬ ‫قی مت سے گزرن پڑا۔ ج ی ثمرین کی ج ی محبت ک ڈرامہ‬ ‫زبردست بےسکونی ک سب بن لیکن اصل مس ہ حل ہو گی ۔‬


‫ج ی ثمرین آج بھی کنبہ میں اپنے حقیقی وجود کے س تھ‬ ‫موجود ہے۔‬ ‫آج ج وہ بوڑھ ہو چک ہے۔ چ نے پھرنے سے بھی ق صر‬ ‫وع جز ہے اسے ثمرین سے دیوانگی کے س تھ محبت ک ط نہ‬ ‫م ت ہے۔ یہ ط نہ اسے اتن ذلیل نہیں کرت جتن کہ اس کے چھوڑ‬ ‫ج نے ک ط نہ ذلیل کرت ہے۔ کر بی بی کہتی آ رہی ہے اگر ت‬ ‫س ؤ پتر ہوتے تو وہ تمہیں چھوڑ کر کیوں ج تی۔ یہ میں ہی ہوں‬ ‫جو ت ایسے بندے کے س تھ گزرا کرتی چ ی آ رہی ہوں کوئی‬ ‫اور ہوتی تو ک کی چھوڑ کرچ ی ج تی۔ خ ندانی ہوں اور میں‬ ‫اپنے م ئی ب پ کی اج نبھ رہی ہوں۔‬


‫انص ف ک قتل‬

‫لوک نہ‬ ‫ایک ب ر ایک ب دش ہ جوانوں کے لنگر خ نے گی ۔ ص ئی‬ ‫ستھرائی چیک کی‘ درست تھی۔ پھر اس نے پوچھ کہ جوانوں‬ ‫کے لیے کی پک ی ہے۔ جوا ما بت ؤں ی نی بیگن۔ ب دش ہ سخت‬ ‫ن راض ہوا کہ جوانوں کے لیے اتن گھٹی کھ ن کیوں پک ی گی‬ ‫ہے۔ اس کے مشیر نے بیگن کی بدت ری ی میں زمین آسم ن ایک‬ ‫کر دیے۔ بہر کیف لنگر کم نڈڑ نے م ذرت کی اور آئندہ سے‬ ‫بیگن نہ پک نے اور اچھ کھ ن پک نے ک وعدہ کی تو ب دش ہ‬ ‫لنگرخ نے سے رخصت ہو گی ۔‬ ‫کچھ وقت گزرنے کے ب د ب دش ہ کو دوب رہ سے جوانوں کے‬ ‫لنگرخ نے ج نے ک ات ہوا۔ سوئے ات اس روز بھی بیگن‬ ‫پک ئے گئے تھے۔ ب دش ہ نے بیگن کی ت ریف کی۔ وہ ہی مشیر‬ ‫س تھ تھ اس نے بیگن کی ت ریف میں ممکنہ سے بھی آگے‬ ‫بیگن کے فوائد بی ن کر دیے۔ گوی بیگن کے توڑ کی کوئی سبزی‬ ‫اور پکوان ب قی نہ رہے۔ لنگر کم نڈر خوش ہوا اور آگے سے‬ ‫بیگن کے برابر اور متوار پک ئے ج نے ک وعدہ کی ۔‬ ‫ب دش ہ اس مشیر کی ج ن مڑا اور کہنے لگ کہ اس دن میں نے‬ ‫بیگن کی بدت ری ی کی تو ت نے بیگن کی بدت ری ی میں کوئی‬


‫کسر نہ چھوڑی۔ آج ج کہ میں نے ت ریف کی ہے تو ت نے‬ ‫بیگن کی ت ریف میں کوئی کسر اٹھ نہیں رکھی‘ کیوں۔‬ ‫اس نے جواب کہ حضور میں آپ ک غا ہوں بیگن ک نہیں۔‬ ‫یہ سن کر ب دش ہ نے کہ ت سے جی حضوریے ح اور سچ کو‬ ‫س منے نہیں آنے دیتے جس کے سب ص ح اقتدار متکبر ہو‬ ‫ج تے ہیں اور اس کے نتیجہ میں ان سے انص ف نہیں ہو پ ت ۔‬ ‫انص ف ک قتل ہی قوموں کے زوال ک سب بنت ہے۔‬ ‫پہ ے تو وہ جی حضوریہ چپ رہ پھر کہنے لگ حضور ج ن کی‬ ‫ام ن پ ؤں تو ایک عرض کروں۔‬ ‫ب دش ہ نے کہ ‪ :‬کہو کی کہن چ ہتے ہو۔‬ ‫حضور سچ اور ح کی کہنے والے ہمیشہ ج ن سے گئے ہیں۔‬ ‫ب دش ہ نے کہ ‪ :‬ی د رکھو سچ اور ح ج ن سے بڑھ کر قیمتی‬ ‫ہیں۔ مرن تو ایک روز ہے ہی سچ کہتے مرو گے تو ب قی رہو‬ ‫گے۔ ہ ں جھوٹ کہنے ی اس پر درست کی مہر ثبت کرنے کی‬ ‫صورت میں بھی زندہ رہو گے لیکن ل نت اور پھٹک ر اس زندگی‬ ‫ک مقدر بنی رہے گی۔‬


‫بےک ر کی شر س ری‬ ‫منس نہ‬ ‫یہ ہی کوئی پچیس تیس س ل پہ ے کی ب ت ہے۔ یہ ں ہ بخشے‬ ‫مولوی دین محمد ہوا کرتے تھے۔ بڑے ہنس مکھ اور خوش طبع‬ ‫تھے۔ کھ نے پینے کے م م ہ میں بڑے س دہ اور فراخ مزاج‬ ‫واقع ہوئے تھے۔ پہ ے کتن بھی کھ چکے ہوتے اس کے ب د‬ ‫بھی جو م ت بس ہ کرکے ہڑپ ج تے۔ اس ذیل میں انک ر ن‬ ‫کی چیز سے بھی ن آشن تھے۔ اواد بھی ہ نے انہیں ک فی سے‬ ‫زی دہ دے رکھی تھی۔‬ ‫ان کی رن حد درجہ کی کپتی تھی۔ عزت افزائی کرتے آی گی بھی‬ ‫نہ دیکھتی تھی۔ گوی وہ مولوی ص ح کی لہہ پہ کے لیے موقع‬ ‫تاشتی رہتی تھی۔ ب ض اوق ت باموقع بھی بہت کچھ منہ سے‬ ‫نک ل ج تی تھی۔ انس ن تھے چھوٹی موٹی غ طی ہو ہی ج تی بس‬ ‫پھر وہ شروع ہو ج تی۔ س ج نتے تھے کہ حد درجہ کی بوار‬ ‫ہے۔ ہ ں اس کے بوارے سے مولوی ص ح کے بہت سے‬ ‫پوشیدہ راز ضرور کھل ج تے۔ مولوی ص ح نے کبھی اسے‬ ‫ذلیل کرنے کے لیے موقع کی تاش نہ کی تھی۔ ہ ں البتہ خود‬ ‫بچ ؤ کی ح لت میں ضرور رہتے تھے۔‬


‫انس ن تھے آخر ک تک برداشت کرتے‘ انہوں نے بھی اسے‬ ‫ذلیل کرنے کی ٹھ ن لی۔ ایک مرتبہ ان کے گھر میں بہت سے‬ ‫مہم ن آئے ہوئے تھے۔ کھرے میں دھونے والے ک فی برتن‬ ‫پڑے ہوئے تھے‘ انہیں دھونے بیٹھ گئے اور س تھ میں مولوی نہ‬ ‫انداز میں آواز لگ ئی کہ کوئی اور برتن موجود ہو تو دے ج ؤ۔‬ ‫ان کی بیوی نے نوٹس لی اور گرج دار آواز میں کہنے لگی‬ ‫کیوں ذلیل کرنے پر اتر آئے ہو پہ ے ت دھوتے ہو۔ پھر اس نے‬ ‫زبردستی انہیں وہ ں سے اٹھ دی ۔ مولوی نے اس کے ہ رے‬ ‫ہ رے سے طور کو خو انجوائے کی ۔‬ ‫کچھ ہی دنوں ب د ایک اور ایس واق ہ پیش آی ۔ اندر پ ن س ت‬ ‫عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں یہ کپڑے دھونے کے انداز میں بیٹھ‬ ‫گئے اور آواز لگ ئی کوئی اور دھونے واا کپڑا پڑا ہو تو دے‬ ‫ج ؤ مجھے کہیں ج ن ہے۔ کوئی رہ گی تو مجھے نہ کہن ۔‬ ‫مولوی نی پر پہ ے کی کی یت ط ری ہو گئی اور اس نے انہیں‬ ‫کھرے سے اٹھ دی کہ کیوں ذلیل کرتے ہو۔‬ ‫مولوی ص ح ک خی ل تھ کہ ان کی رن عورتوں میں ذلیل ہو‬ ‫ج ئے گی اور س اسے توئے توئے کریں گے لیکن م م ہ الٹ‬ ‫ہو گی ۔ عورتوں میں مشہور ہو گی کہ مولوی ص ح کے پہ ے‬ ‫کچھ نہیں رہ ت ہی تو اتن تھ ے لگ گی ہے۔ پ گل تھیں کہ اگر‬ ‫مولوی ص ح کے پ ے کچھ نہ ہوت تو اتنے بچے کیسے ہو‬ ‫گئے۔ رشتہ داروں میں ج تے ی گ ی سے گزرتے تو عورتیں‬


‫انہیں دیکھ کر ہنستیں۔ وہ کیسے ان س کو یقین داتے کہ وہ‬ ‫ٹھیک ہیں انہوں نے تو یہ س ان کے س تھ ہونی ک بدا ات رنے‬ ‫کے لیے کی تھ ۔‬ ‫اتنے خوش طبع مولوی ص ح سنجیدہ سے ہو گئے۔ اسی طرح‬ ‫لوگوں کے ہ ں سے کھ نے پینے کے مواقع بھی بےک ر کی شر‬ ‫س ری کی لحد میں اتر گیے۔ اس واق ے کے ب د انہوں نے کہن‬ ‫شروع کر دی کہ کوئی کی کرت ہے اس کو مت دیکھو ت ہمیشہ‬ ‫اچھ کی کرو کیوں کہ اچھ کرنے میں ہی خیر اور اچھ ئی ہے۔‬

‫‪.....................................‬‬


‫ابوزر برقی کت خ نہ‬ ‫فروری ‪٧‬‬


Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.