چھے اختص ریے
مقصود حسنی
فہرست سہ گنی
لوک نہ
اسے م و نہ تھ
لوک نہ
ان دنوں
منس نہ
آنٹی ثمرین
منس نہ
انص ف ک قتل
لوک نہ
بےک ر کی شر س ری منس نہ
سہ گنی لوک نہ ایک ب دش ہ اور اس ک وزیر گشت پر نک ے ہوئے تھے۔ دیکھ ایک درخت کے نیچے ایک ادمی سوی ہوا ہے۔ وزیر نے ب دش ہ سے کہ :ب دش ہ سامت درخت کے نیچے سوی ہوا آدمی بڑے ک ک ہے۔ وہ دونوں اس شخص کے پ س چ ے گئے۔ اسے جگ ی اور پوچھ کہ ت کی کی ہنر رکھتے ہو۔ اس شخص نے بت ی کہ میں تین گن رکھت ہوں: اول -میں اص ی اور نق ی ہیرے کی ج نچ کر سکت ہوں۔ دوئ -مجھے نس ی اور غیرنس ی گھوڑوں کی پہچ ن ہے۔ سوئ -مجھے آدمیوں کی پہچ ن ہے۔ ب دش ہ اسے اپنے س تھ لے آی اور اس کی پ نچ روپے م ہ نہ تنخواہ مقرر کر دی اور اسے کہ ج ؤ ہم رے قر وجوار میں موج کرو ج تمہ ری ضرورت پڑے گی با لیں گے۔ ایک مرتبہ درب ر میں ہیروں ک سوداگر آی ۔ ب دش ہ کو ہیرے دکھ ئے۔ ب دش ہ کو ایک ہیرا بہت پسند آی ۔ اچ نک اسے اپن سہ گنی ماز ی د آ گی ۔ اسے بای گی اور پسند کیے گئے ہیرے کے مت پوچھ ۔ اس نے وہ خو صورت ہیرا دیکھ ۔ ج نچنے کے ب د کہنے لگ یہ ہیرا نق ی ہے اور اس میں ریت بھری ہوئی ہے
اور سوداگر سے کہ ت خ ک ہیروں کے سوداگر ہو جو اص ی اور نق ی ہیرے کی پہچ ن نہیں رکھتے۔ سوداگر کے تو ہ تھوں کے طوطے اڑ گئے اور وہ بہت پریش ن ہوا۔ حیران تو ب دش بھی ہوا۔ ب دش ہ نے سوداگر سے کہ اگر اس شخص کی ب ت صحیح نک ی تو میں تمہ را سر اڑا دوں گ اگر یہ ہیرا اص ی نکا تو خرید لوں گ ۔ پھر اس شخص سے کہ اگر ہیرا درست نکا تو ت ج ن سے ج ؤ گے۔ ہیرا توڑا گی تو ہیرے میں سے ریت برآمد ہوئی۔ ب دش ہ اس شخص سے راضی ہوا اور اس کی پ نچ روپے تنخواہ برقرار رکھی۔ کچھ ہی وقت گزا ہو گ کہ ایک گھوڑوں ک سوداگر آی ۔ اس کے پ س ون سونی نسل کے گھوڑے تھے۔ ان میں سے ب دش ہ کو ایک گھوڑا بہت پسند ای ۔ پہچ ن کے لیے اس شخص کو دوب رہ سے ط کی گی گی اور اپنی پسند کے گھوڑے کے مت دری فت کی ۔ اس شخص نے گھوڑے کو دیکھنے کے ب د کہ :گھوڑے کے نس ی ہونے میں کوئی شک نہیں لیکن اس کی کمر میں رسولی ہے۔ گھوڑوں کے سوداگر سے کہ ت کیسے گھوڑوں کے سوداگر ہو کہ ج نور میں موجود اعض ئی نقص سے بےخبر رہتے ہو۔
گھوڑوں کے سوداگر کو سخت پریش نی ہوئی۔ اس گھوڑے کے حوالہ سے اسے ان واکرا م نے کی امید تھی۔ ج نوروں کے امراض کے م ہر کو بای گی ۔ اس نے گھوڑے ک طبی م ئینہ کی اور کمر میں رسولی ہونے کی تصدی کر دی۔ ب دش ہ گھوڑوں کے سوداگر سے سخت خ ہوا اور اسے درب ر سے دھکے دے کر نک ل دی ۔ ب دش ہ اپنے اس ماز کی پرکھ پہچ ن پر بہت راضی ہوا اور اس کی تنخواہ پ نچ روپے برقرار رکھی۔ ایک دن ب دش ہ نے سوچ کیوں نہ تیسری خوبی بھی آزم ئی ج ئے۔ اسے بای گی ۔ ب دش ہ نے اس سے پوچھ کہ ت میرے ب رے میں کی کہتے ہو کہ میں کون ہوں۔ ب دش ہ کو اپنے اع ی نسل ہونے ک یقین تھ اور اس پر فخر و غرور بھی تھ ۔ اس شخص نے ک فی پس و پیش سے ک لی لیکن ب دش ہ ک اصرار بڑھت گی ۔ اس شخص نے ج ن بخشی کی درخواست کی۔ ب دش ہ نے ج ن بخشی ک وعدہ کی تو اس شخص نے بت ی کہ ت چوڑے کی اواد ہو۔ ب دش ہ نے ت وار نی سے نک لی اور کہ کہ یہ ت کیسے اور کس بنی د پر کہتے ہو۔ ب دش ہ کے ہ تھ میں وعدہ خافی کے حوالہ سے ت وار دیکھی تو زوردار قہقہ لگ کر کہنے لگ :اے ب دش ہ میں نے ہیرے کی پرکھ بت ئی ت خوش ہوئے لیکن میری تنخواہ پ نچ ہی رہنے دی۔ گھوڑے کے مت درست بت ی ت خوش
ہوئے لیکن میری پ نچ روپے ہی رہنے دی۔ ا وعدہ خافی کرکے ت وار نی سے نک ل رہے ہو۔ ج میں نے بت نے سے انک ر کی تو تمہیں ع یدگی میں پوچھن چ ہیے تھ ۔ تمہ رے ک ہی چوڑوں جیسے ہیں‘ میں نے اسی بنی د پر تمہیں چوڑے کی اواد کہ ہے۔ مجھے قتل کرنے سے پہ ے اپنی م ں سے ج کر پوچھ کہ ت کس کی اواد ہو۔ ب دش ہ غصہ سے ہ تھ میں ننگی ت وار لے کر م ں کی طرف بھ گ ۔ اس کی م ں آرا کر رہی تھی۔ اس نے ج کر م ں کو اٹھ ی اور کہ سچ بت کہ میں کس کی اواد ہوں۔ م ں اس ک یہ رویہ اور تیور دیکھ کر حیران رہ گئی۔ اس نے کہ اپنے ب پ کی اواد ہو اور کس کی ہو۔ پھر ب دش ہ نے ت وار لہرائی اور کہ سچ سچ بت ؤ کہ میں کس کی اواد ہوں۔ پھر اس کی م ں نے بت ی کہ میرا خ وند جنگ میں تھ اور اسے گھر آئے ک فی دن ہو گئے میرا دل بڑا چ ہ تو میں نے گھر میں جھ ڑو بھ ری کرنے والے کو است م ل کر لی اور پھر وہ ہی میرے ک آنے لگ ۔ تمہ را وزیر
وہی چوڑا ہی تو ہے۔ مح وں میں یہ الگ سے اور انوکھ واق ہ نہیں ہے۔ یہ سنن تھ کہ ب دش ہ چکرا گی اور وہیں سر پکڑ کر زمین پر بیٹھ گی ۔
اسے م و نہ تھ لوک نہ ایک شخص درخت کے نیچے منہ کھولے گہری نیند سو رہ تھ کہ ایک سپولیہ اس کی ج ن بڑھ ۔ دریں اثن ایک گھڑسوار وہ ں آ پہنچ ۔ وہ پھرتی سے گھوڑے سے نیچے اترا۔ اس کے نیچے اترتے اترتے سپولیہ سوئے ہوئے شخص کے منہ میں گھس گی ۔ وہ بڑا پریش ن ہوا۔ اچ نک اسے کچھ سوجھ اور اس نے سوئے ہوئے شخص کو زور زور سے چھ نٹے م رن شروع کر دیے۔ سوی ہوا شخص گھبرا کر ج گ اٹھ اور اس نے گھڑسوار سے چھ نٹے م رنے کی وجہ پوچھی‘ اس نے کہ وجہ چھوڑو اور تیز رفت ری سے بھ گو ورنہ اور زور سے م روں گ ۔ اس شخص نے بھ گن شروع کر دی ۔ ج رکنے لگت تو وہ چھ نٹے م رن شروع کر دیت ۔ رستے میں ایک ندی آ گئی۔ گھڑسوار نے کہ پ نی پیو۔ اس نے پی ۔ اس نے چھ نٹ م رتے ہوئے کہ اور پیو۔ اس نے اور پی اور کہ ا مزید نہیں پی سکت ۔ اچھ نہیں پی سکتے تو بھ گو۔ وہ بھ گت ج رہ تھ اور س تھ میں وجہ بھی پوچھے ج ت ۔ گھڑسوار وجہ نہیں بت رہ تھ ہ ں البتہ بھ گنے کے لیے کہے ج ت تھ ۔
تھوڑا آگے گیے تو ایک سیبوں ک ب آ گی ۔ گھڑ سوار نے کہ نیچے گرے ہوئے سی کھ ؤ۔ اس نے کھ ئے اور کہ مزید نہیں کھ سکت ۔ گھڑسوار نے زوردار چھ نٹ م رتے ہوئے کہ ‘ میں کہت ہوں اور کھ ؤ۔ اس نے کھ ن شروع کر دی ۔ پھر کہنے لگ اور نہیں کھ سکت مجھے قے آ رہی ہے۔ ہ ں ہ ں کھ تے ج ؤ ج تک قے نہیں آ ج تی تمہیں سی کھ تے رہن ہو گ ۔ وہ سی کھ ت رہ کہ اسے زوردار قے آ گئی۔ قے کے س تھ ہی سپولیہ بھی ب ہر آ گی ۔ ت اس پر اصل م جرا کھا۔ وہ گھڑسوار ک شکرگزار ہوا اور اس نے م فی م نگی کہ وہ بھ گتے پ نی پیتے اور سی کھ تے ہوئے جی ہی جی میں اسے گ لی ں اور بددع ئیں دے رہ تھ اور اس مصبیت سے چھٹک رے کے لیے دع ئیں کر رہ تھ ۔ تمہ ری بددع ئیں مٹی ہوئیں ہ ں البتہ دع ئیں ک رگر ث بت ہوئیں۔۔ اسے قط م و نہ تھ کہ اس ظ ہری برائی میں خیر چھپی ہوئی ہے۔ گھڑسوار مسکرای اور اپنی منزل کو چل دی
ان دنوں لوک نہ
اس بچی ک اصل ن ارش د تھ لیکن سی ہ رنگت کے سب ک لی م ت ن عرف ع میں آ گی تھ ۔ خصوص بچے اسے چھیڑنے کے لیے ش داں ک لی م ت کہہ کر پک رتے۔ وہ اس ن پر پٹ پٹ ج تی۔ اکثر نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ ج تی۔ وہ تو چڑتی تھی ہی لیکن اس کی م ں اس سے زی دہ ت ؤ میں آ ج تی اور چھیڑنے والے کو اگ ے گھر تک پہنچ کر آتی۔ اس روز ہ س ئے ک لڑک جو عمر میں ش داں کے برابر ک تھ ۔ ش داں کو ک لی م ت کہہ کر اپنے گھر بھ گ گی ۔ ش داں نے اپنی م ں کو آ کر شک یت لگ ئی۔ ش داں کی م ں نے نہ آؤ دیکھ نہ ت ؤ ان کے گھر ج کر اس لڑکے کو دو تین زوردار جڑ آئی۔ پھر کی تھ میدان لگ گی ۔ اس لڑکے کی م ں نے اونچی اونچی بولن شروع کر دی ۔ ش داں کی م ں بھی نیچے چونکی رکھ کر دیوار کے س تھ کھڑی ہو گئی۔ پہ ے س دا گر ک ری ہوئی اس کے ب د آلودہ ل ظوں کے دھ رے کھل گئے۔ دونوں بیبی ں تھکنے ک ن ہی نہیں لے رہی تھیں۔ انہوں نے ایک دوسرے کے نئے پرانے راز اگل کر رکھ دیے۔ بہت سی پس پردہ ب تیں اور حق ئ کھل گئے اور دونوں کی کردای شرافت پر برسوں ک پڑا پردہ اٹھ گی ۔
ابھی زور دار ب ب ری ک س س ہ ج ری تھ کہ ش داں ک دادا گھر آ گی ۔ بہو کو گرجتے برستے دیکھ کر م جرہ پوچھ ۔ ش داں کی م ں نے بہت سی پ س سے لگ کر سسر کو کہ نی ں سن ئیں۔ یہ بھی بت ی کہ ک فٹین ک بیٹ میری ش داں کو ک لی م ت کہہ کر چھیڑت ہے۔ بندہ سی ن تھ ۔ اس نے بہو سے پوچھ ش داں کدھر ہے۔ ش داں کی م ں نے گھر میں ادھر ادھر اسے تاش وہ گھر پر نہ تھی۔ ش داں ک دادا کہنے لگ اسے نہ تاشو وہ گھر میں نہیں ہے ب ہر بچوں کے س تھ کھیل رہی ہے۔ اس کی پ رٹی میں ہ س ئی ک لڑک ہے۔ پھر اس نے اونچی آواز میں ہ س ئی سے کہ بیٹ بچوں کی وجہ سے نہ لڑو‘ ت ادھر لڑ رہی ہو ب ہر یہ ہی بچے آپس میں مل کر کھیل رہے ہیں۔ بچوں کے لیے لڑن کھ ی حم قت ہے۔ ب ڑے کی ب تیں سن کر دونوں بیبی ں بڑی شرمندہ ہوئیں اور شر سے اندر گھس گئیں۔ بچوں نے تو ان کے پ ے کچھ نہ چھوڑا تھ ۔ کئی دنوں تک بول بارے کے نتیجہ میں ان کی ب ہمی رنجش چ تی رہی اور پھر م ضی گئی گزری کی قبر میں دفن ہو گی ۔ وقت پر لگ کر محو س ر رہ ۔ بچے جوان ہو گئے۔ شیداں اور ک فٹین ک لڑک جیرا آپس میں سٹ ہو گئے۔ ان کی یہ ب ہمی ہی و ہ ئے دو س ل تک چ ی۔ عزت بچ نے کی خ طر دونوں کے م ئی
ب پ کو راضی ہون پڑا اور ان کی ش دی طے کر دی گئی۔ ان دنوں جیرا اور شیداں ایک چھت ت ے رہ رہے ہیں اور جیرے کے لیے شیداں حسینہ ع ل ہے۔ وہ اس کی ب ت ٹ لنے کو بھی پ پ سمجھت ہے۔
آنٹی ثمرین منس نہ م ں کی محبت کے ب رے میں کچھ کہن سورج کو چ ند دکھ نے والی ب ت ہے۔ یہ کسی دلیل ی ثبوت کی محت ج نہیں ہوتی۔ م ں بچوں کے لیے جو مشقت اٹھ تی ہے کوئی اٹھ ہی نہیں سکت ۔ اس کی س نسیں اپنے بچے کے س تھ اول ت آخر جڑی رہتی ہیں۔ وہ اپنے بچے کے لیے کسی بھی سطع تک ج سکتی ہے۔ اس ک ہر کی با ک حیرت انگیز ہوت ہے۔ م ں بچے کے لیے اپنی ج ن سے بھی گزر ج تی ہے۔ یہ محبت اور ش قت اس کی ممت کی گرہ میں بندھ ہوا ہوت ہے اس لیے حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔ محبت اس کی ممت ک خ ص اور ازمہ ہے۔ عورت اپنے پچھ وں کے م م ہ میں اواد سے بھی زی دہ حس س ہوتی ہے۔ اس ذیل میں اس ک قول زریں ہے کہ نہ م ں ب پ نے دوب رہ آن ہے اور نہ بہن اور بھ ئی پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس ک دو نمبر بھ ئی بھی قط نم اور ب پ کو نبی قری سمجھتی ہے۔ ان کی کوئی کمی خ می ی خرابی اس کو نظر نہیں آتی ی ان سے کمی کوت ہی سرزد ہوتی ہی نہیں۔ ج کہ خ وند کی م ں عموم ف ے کٹن اور ب پ لوبھی اور الچی ہوت ہے۔ بہن بھ ئی تو خیر دو نمبری کی آخری سطع کو چھو رہے ہوتے ہیں۔
کر بی بی بھی اول ت آخر عورت تھی اور وہ بھی یہ ہی اصولی اطوار رکھتی تھی۔ وہ اپنے بیٹے کے لیے بہن کی بیٹی ان چ ہتی تھی ج کہ اس ک خ وند ادھر رشتہ نہیں کرن چ ہت تھ ۔ لڑکی میں کوئی کجی ی خ می نہ تھی۔ بس وہ ادھر رشتہ نہیں کرن چ ہت تھ ۔ ان کے گھر میں کئی م ہ سے یہ ہی رگڑا جھگڑا چل رہ تھ ۔ جوں ہی گھر میں وہ
قد رکھت کل ک ی ن شروع ہو ج تی اور یہ اگ ے دن اس کے ک پر ج نے تک تھوڑے تھوڑے وق ے کے س تھ چ تی رہتی۔
ایک دن اس نے اپنے ایک قریبی دوست سے م م ہ شیئر کی ، وہ ہنس پڑا او ی ر اس میں پریش نی والی کی ب ت ہے۔ بھ بی کو اپنی ڈال دو س ٹھیک ہو ج ئے گ ۔ اپنی کی ڈالوں۔ یہ ہی کہ ت درسری ش دی کرنے والے ہو۔ عورت ت نے پسند کر لی ہے۔ اس نے کہ ی ر میں پ گل ہوں جو ایک ب ر شدگی کے ب د کوئی عورت پسند کروں گ ۔ تمہیں کس نے کہ ہے کہ یہ حم قت کرو‘ ج ی کردار تخ ی کرو۔ اسے اپنے دوست ک آئیڈی پسند آی ۔ طے یہ پ ی کہ وہ ٹی ی فون پر مس ک ل کرے گ ۔ اس کے ب د وہ ج ی عورت سے دیر تک
روم ن پرور ب تیں کرت رہے گ ۔ پہ ے ہ تے زب نی کامی اگ ے ہ تے سے ٹی ی فونک س س ہ چ ے گ ۔ اس دن ج رشتے کی ب ت شروع ہوئی تو اس نے اپنی محبت کی کہ نی چھیڑ دی۔ پہ ے تو اس کی بیوی کو یقین نہ آی ۔ اس ک خی ل تھ کہ اسے کون پسند کرے گی۔ اس نے بت ی کہ وہ بڑے ب ند مرتبہ شخص کی س لی ہے۔ اسے طا ہو گئی ہے۔ بڑی ہی خو صورت ہے۔ اس کی چھوٹی چھوٹی دو بیٹی ں ہیں۔ کر بی بی کچھ دن اسے اف زنی خی ل کرتی رہی ۔ اگ ے ہ تے ٹی ی فون آن شروع ہو گئے۔ وہ دیر تک ج ی عورت سے ج ی روم ن پرور ب تیں کرت ۔ کئی ب ر ب توں کے درمی ن کہیں سے ٹی ی فون بھی آی ۔ کر بی بی اتنی پیدل ہو گئی کہ اس نے غور ہی نہ کی کہ ٹی ی فون کرنے کے دوران ٹی ی فون کیسے آ سکت ہے۔ کر بی بی بھ نجی ک رشتہ انے ک مس ہ بھول سی گئی اسے اپنی پڑ گئی۔ اسے گھر میں اپنے وجود ک خطرہ اح ہو گی ۔ گھر میں اکی ی دھندن تی تھی سوت کے آ ج نے کے دکھ نے اسے ادھ موا کر دی ۔ ان ہی دنوں لڑکے ک رشتہ آ گی جیسے سوت کے آنے سے پہ ے کر لی گی مب دہ سوت کے آنے کے ب د کی ح ات ہوں۔ کر بی بی کے ذہن میں یہ ب ت نقش ہو گئی کہ سوت کے آنے کے ب د ح ات برعکس ہو ج ئیں گے۔
لڑکے کی ش دی کو ابھی دس دن ہی گزرے ہوں گے کہ ولی محمد اپنے کمرے میں اداس بیٹھ ہوا تھ ۔ ب ت ب ت پر برہ ہوت اور کبھی رونے لگت ۔ کوئی کچھ سمجھ نہیں پ رہ تھ کہ اسے اچ نک کی ہو گی ہے۔ اتن اداس اور رنجیدہ کیوں ہے۔ س ب ر ب ر پوچھتے کہ آپ اتنے پریش ن اور اداس کیوں ہیں۔ ہر کسی سے یہ ہی کہت ک پریش ن ہوں۔ میں کیوں اور کس سے اداس ہونے لگ ۔ آخر کر بی بی ہی دور کی کوڑی ائی۔ کہنے لگی تمہ ری ثمرین تو دغ نہیں دے گئی ۔ ولی محمد نے حیرت سے پوچھ تمہیں کیسے پت چا۔ کوئی ٹی ی فون تو نہیں ای ۔ کر بی بی کی ب چھیں کھل گئیں۔ کہنے لگی کہتی تھی ن کہ ت سے عین غین بندے سے کون نبھ کر سکت ہے وہ میں ہی ہوں جو تمہ رے س تھ نبھ کر رہی ہوں ۔ کر بی بی با تھک ن بولتی رہی وہ موٹے موٹے آنسوبہ ت گی ۔ اس کی یہ کئی م ہ اور خصوص اس روز کی اداک ری دلیپ کم ر بھی دیکھ لیت تو عش عش کر اٹھت ۔ اس گی میں اسے تین نوعیت کے دکھوں سے پ ا پڑا۔ س لی کی بیٹی ک بیٹے کے لیے رشتہ نہ لینے کی وجہ سے ع رضی سہی قی مت سے گزرن پڑا۔ ج ی ثمرین کی ج ی محبت ک ڈرامہ زبردست بےسکونی ک سب بن لیکن اصل مس ہ حل ہو گی ۔
ج ی ثمرین آج بھی کنبہ میں اپنے حقیقی وجود کے س تھ موجود ہے۔ آج ج وہ بوڑھ ہو چک ہے۔ چ نے پھرنے سے بھی ق صر وع جز ہے اسے ثمرین سے دیوانگی کے س تھ محبت ک ط نہ م ت ہے۔ یہ ط نہ اسے اتن ذلیل نہیں کرت جتن کہ اس کے چھوڑ ج نے ک ط نہ ذلیل کرت ہے۔ کر بی بی کہتی آ رہی ہے اگر ت س ؤ پتر ہوتے تو وہ تمہیں چھوڑ کر کیوں ج تی۔ یہ میں ہی ہوں جو ت ایسے بندے کے س تھ گزرا کرتی چ ی آ رہی ہوں کوئی اور ہوتی تو ک کی چھوڑ کرچ ی ج تی۔ خ ندانی ہوں اور میں اپنے م ئی ب پ کی اج نبھ رہی ہوں۔
انص ف ک قتل
لوک نہ ایک ب ر ایک ب دش ہ جوانوں کے لنگر خ نے گی ۔ ص ئی ستھرائی چیک کی‘ درست تھی۔ پھر اس نے پوچھ کہ جوانوں کے لیے کی پک ی ہے۔ جوا ما بت ؤں ی نی بیگن۔ ب دش ہ سخت ن راض ہوا کہ جوانوں کے لیے اتن گھٹی کھ ن کیوں پک ی گی ہے۔ اس کے مشیر نے بیگن کی بدت ری ی میں زمین آسم ن ایک کر دیے۔ بہر کیف لنگر کم نڈڑ نے م ذرت کی اور آئندہ سے بیگن نہ پک نے اور اچھ کھ ن پک نے ک وعدہ کی تو ب دش ہ لنگرخ نے سے رخصت ہو گی ۔ کچھ وقت گزرنے کے ب د ب دش ہ کو دوب رہ سے جوانوں کے لنگرخ نے ج نے ک ات ہوا۔ سوئے ات اس روز بھی بیگن پک ئے گئے تھے۔ ب دش ہ نے بیگن کی ت ریف کی۔ وہ ہی مشیر س تھ تھ اس نے بیگن کی ت ریف میں ممکنہ سے بھی آگے بیگن کے فوائد بی ن کر دیے۔ گوی بیگن کے توڑ کی کوئی سبزی اور پکوان ب قی نہ رہے۔ لنگر کم نڈر خوش ہوا اور آگے سے بیگن کے برابر اور متوار پک ئے ج نے ک وعدہ کی ۔ ب دش ہ اس مشیر کی ج ن مڑا اور کہنے لگ کہ اس دن میں نے بیگن کی بدت ری ی کی تو ت نے بیگن کی بدت ری ی میں کوئی
کسر نہ چھوڑی۔ آج ج کہ میں نے ت ریف کی ہے تو ت نے بیگن کی ت ریف میں کوئی کسر اٹھ نہیں رکھی‘ کیوں۔ اس نے جواب کہ حضور میں آپ ک غا ہوں بیگن ک نہیں۔ یہ سن کر ب دش ہ نے کہ ت سے جی حضوریے ح اور سچ کو س منے نہیں آنے دیتے جس کے سب ص ح اقتدار متکبر ہو ج تے ہیں اور اس کے نتیجہ میں ان سے انص ف نہیں ہو پ ت ۔ انص ف ک قتل ہی قوموں کے زوال ک سب بنت ہے۔ پہ ے تو وہ جی حضوریہ چپ رہ پھر کہنے لگ حضور ج ن کی ام ن پ ؤں تو ایک عرض کروں۔ ب دش ہ نے کہ :کہو کی کہن چ ہتے ہو۔ حضور سچ اور ح کی کہنے والے ہمیشہ ج ن سے گئے ہیں۔ ب دش ہ نے کہ :ی د رکھو سچ اور ح ج ن سے بڑھ کر قیمتی ہیں۔ مرن تو ایک روز ہے ہی سچ کہتے مرو گے تو ب قی رہو گے۔ ہ ں جھوٹ کہنے ی اس پر درست کی مہر ثبت کرنے کی صورت میں بھی زندہ رہو گے لیکن ل نت اور پھٹک ر اس زندگی ک مقدر بنی رہے گی۔
بےک ر کی شر س ری منس نہ یہ ہی کوئی پچیس تیس س ل پہ ے کی ب ت ہے۔ یہ ں ہ بخشے مولوی دین محمد ہوا کرتے تھے۔ بڑے ہنس مکھ اور خوش طبع تھے۔ کھ نے پینے کے م م ہ میں بڑے س دہ اور فراخ مزاج واقع ہوئے تھے۔ پہ ے کتن بھی کھ چکے ہوتے اس کے ب د بھی جو م ت بس ہ کرکے ہڑپ ج تے۔ اس ذیل میں انک ر ن کی چیز سے بھی ن آشن تھے۔ اواد بھی ہ نے انہیں ک فی سے زی دہ دے رکھی تھی۔ ان کی رن حد درجہ کی کپتی تھی۔ عزت افزائی کرتے آی گی بھی نہ دیکھتی تھی۔ گوی وہ مولوی ص ح کی لہہ پہ کے لیے موقع تاشتی رہتی تھی۔ ب ض اوق ت باموقع بھی بہت کچھ منہ سے نک ل ج تی تھی۔ انس ن تھے چھوٹی موٹی غ طی ہو ہی ج تی بس پھر وہ شروع ہو ج تی۔ س ج نتے تھے کہ حد درجہ کی بوار ہے۔ ہ ں اس کے بوارے سے مولوی ص ح کے بہت سے پوشیدہ راز ضرور کھل ج تے۔ مولوی ص ح نے کبھی اسے ذلیل کرنے کے لیے موقع کی تاش نہ کی تھی۔ ہ ں البتہ خود بچ ؤ کی ح لت میں ضرور رہتے تھے۔
انس ن تھے آخر ک تک برداشت کرتے‘ انہوں نے بھی اسے ذلیل کرنے کی ٹھ ن لی۔ ایک مرتبہ ان کے گھر میں بہت سے مہم ن آئے ہوئے تھے۔ کھرے میں دھونے والے ک فی برتن پڑے ہوئے تھے‘ انہیں دھونے بیٹھ گئے اور س تھ میں مولوی نہ انداز میں آواز لگ ئی کہ کوئی اور برتن موجود ہو تو دے ج ؤ۔ ان کی بیوی نے نوٹس لی اور گرج دار آواز میں کہنے لگی کیوں ذلیل کرنے پر اتر آئے ہو پہ ے ت دھوتے ہو۔ پھر اس نے زبردستی انہیں وہ ں سے اٹھ دی ۔ مولوی نے اس کے ہ رے ہ رے سے طور کو خو انجوائے کی ۔ کچھ ہی دنوں ب د ایک اور ایس واق ہ پیش آی ۔ اندر پ ن س ت عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں یہ کپڑے دھونے کے انداز میں بیٹھ گئے اور آواز لگ ئی کوئی اور دھونے واا کپڑا پڑا ہو تو دے ج ؤ مجھے کہیں ج ن ہے۔ کوئی رہ گی تو مجھے نہ کہن ۔ مولوی نی پر پہ ے کی کی یت ط ری ہو گئی اور اس نے انہیں کھرے سے اٹھ دی کہ کیوں ذلیل کرتے ہو۔ مولوی ص ح ک خی ل تھ کہ ان کی رن عورتوں میں ذلیل ہو ج ئے گی اور س اسے توئے توئے کریں گے لیکن م م ہ الٹ ہو گی ۔ عورتوں میں مشہور ہو گی کہ مولوی ص ح کے پہ ے کچھ نہیں رہ ت ہی تو اتن تھ ے لگ گی ہے۔ پ گل تھیں کہ اگر مولوی ص ح کے پ ے کچھ نہ ہوت تو اتنے بچے کیسے ہو گئے۔ رشتہ داروں میں ج تے ی گ ی سے گزرتے تو عورتیں
انہیں دیکھ کر ہنستیں۔ وہ کیسے ان س کو یقین داتے کہ وہ ٹھیک ہیں انہوں نے تو یہ س ان کے س تھ ہونی ک بدا ات رنے کے لیے کی تھ ۔ اتنے خوش طبع مولوی ص ح سنجیدہ سے ہو گئے۔ اسی طرح لوگوں کے ہ ں سے کھ نے پینے کے مواقع بھی بےک ر کی شر س ری کی لحد میں اتر گیے۔ اس واق ے کے ب د انہوں نے کہن شروع کر دی کہ کوئی کی کرت ہے اس کو مت دیکھو ت ہمیشہ اچھ کی کرو کیوں کہ اچھ کرنے میں ہی خیر اور اچھ ئی ہے۔
.....................................
ابوزر برقی کت خ نہ فروری ٧