اردو اور شبد ہائے فارس مقصود حسنی ابوزر برقی کتب خانہ جوالئی ٢٠١٦
فہرست اردو کے تناظر میں حضرت بوعلی قلندر کے فارسی کالم کا لسانیاتی مطالعہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی فارسی شاعری اور اردو زبان قصہ سفرالعشق کے فارسی حواشی حافظ شیرازی کی شاعری اور اردو زبان گورنمنٹ اسالمیہ کالج قصور اور فارسی زبان و ادب کالم :حضرت بو علی قلندر مترجم :مقصود حسنی کالم :حضرت سخی شہباز قلندر اردو ہدیہ کار :مقصود حسنی کالم :حافظ شیرازی اردو ترجمہ :مقصود حسنی
اردو کے تناظر میں حضرت بوعلی قلندر کے فارسی کالم کا لسانیاتی مطالعہ
برصغیر کا' ایران سے مختلف حوالوں سے رشتہ' صدیوں پر محیط ہے۔ برصغیر کے یودھا' ایران کی فوج میں شامل تھے۔ ایک دوسرے کے ہاں بیٹیاں بیاہی گئیں۔ مختلف شعبوں سے متعلق لوگ' برصغیر میں آئے۔ رشد و ہدایت کے لیے صالیحین کرام' برصغیر میں تشریف التے رہے۔ یہاں کی خواتین سے ان کی شادیاں ہوئیں اور ان کی نسل یہاں کی ہو کر رہ گئی۔ کچھ کنبہ سمیت یہاں آئے' ان آنے والوں کی نسل نے بھی' برصغیر کو اپنی مستقل اقامت ٹھہرایا۔ ان تمام امور کے زیر' اثر رسم و رواج' علمی و ادبی اور سماجی روائتوں کا تبادل ہوا۔ اشیا اور شخصی نام یہاں کی معاشرت کا حصہ بنے۔ اس میں دانستگی کا عمل دخل نہیں تھا' یہ سب ازخود نادانسہ اور نفسیاتی سطع پر
ہوتا رہا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ صدیوں پرانے' تہذیبی اور لسانی اثرات' برصغیر میں واضح طور پر محسوس کیے جا سکتے۔ یہاں حضرت بوعلی قلندر کے فارسی کالم کا' اردو کے تناظر میں' ناچیز سا لسانیاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے' جس سے یہ کھل جائے گا کہ یہ دونوں زبانیں' آج بھی ایک دوسرے سے کتنا قریب ہیں۔ آخر میں' تین اردو شعرا کے دو چار مصرعے' مع جائزہ' اپنے موقف کی وضاحت کے لیے درج کر دیے ہیں۔ اس مطالعے میں کئی صورتیں اختیار کی گئی ہیں' وہ لفظ الگ کیے گیے ہیں' جو آج بھی اردو والوں کے استعمال میں ہیں۔ کچھ لفظ ایسے الگ کیے گیے ہیں' جو آوازوں کی ہیر پھیر سے' اردو میں مستعمل ہیں۔ کچھ اشعار باطور نمونہ پیش کیے گیے ہیں' جن میں محض ایک دو لفظوں کی تبدیلی کی گئی اور اب وہ اردو کا ذخیرہ ادب خیال کیے جائیں گے۔ میں نے باطور تجربہ کچھ اشعار اردو انجمن پر رکھے' جناب سرور عالم راز ایسے بڑے
اردو دان نے' انہیں غیراردو نہیں کہا۔ ان کا کہنا ہے: کاش یہ ترجمہ باوزن بھی ہوتا تو مزا دوباال ہو جاتا۔ خیر معنی قاری تک پہنچا دینا بھی بہت .بڑا کام ہے http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10160.0
یہ امر' اس بات کا واضح اور زندہ ثبوت ہے' کہ اردو اور فارسی قریب قریب کی زبانیں ہیں۔ دونوں کی لسانیاتی عمر کا تعین اس سے الگ بات ہے .تاہم حضرت بوعلی قلندر کے دور تک تو عمر کا تعین ہو ہی جاتا ہے۔ .............. ہست در سینہ ما جلوہ جانانہ ما بت پرستیم دل ماست صنم خانہ ما سینہ جلوہ بت دل صنم خانہ بت پرستیم:
بت پرستی
جانانہ:
جاناں
جانان
اے خضر چشمہ حیوان کہ بران می نازی بود یک قطرہ ز درت ِہ پیمانہ ما اے خضر چشمہ حیوان یک قطرہ ت ِہ پیمانہ بران نازی
براں
مزید براں ناز
مثال کسی خاتون کا فرح ناز نام ہے' یائے مصدری کے اضافے اور الڈ پیار سے عرفی نام' نازی بھی سننے کو آتا رہتا ہے' گویا لفظ نازی' اردو والوں کے لیے نیا نہیں' تہہ میں مفاہیم بھی تقریبا وہ ہی پوشیدہ ہیں۔ جنت و نار پس ماست بصد مرحلہ دور می شتابد بہ کجا ہمت مردانہ ما
جنت و نار پس بصد مرحلہ دور بہ کجا ہمت مردانہ شتابد:
شتاب
شتابی
جنبد از جائے فتد بر سر افالک برین بشنود عرش اگر نعرہ مستانہ ما از جائے بر سر افالک عرش اگر نعرہ مستانہ برین:
بریں
عرش بریں
بشنود
شنید
گفت و شنید
ہمچو پروانہ بسوزیم و بسازیم بعشق اگر آں شمع کند جلوہ بکاشانہ ما پروانہ و اگر شمع جلوہ بسوزیم:
بسوز
سوز
سوزی
بعشق: آں:
بعشق
عشق
آنحضرت کاشانہ
بکاشانہ:
ما بنازیم بتو خانہ ترا بسپاریم گر بیائی شب وصل تو درخانہ ما خانہ ترا گر شب وصل تو در خانہ نازیم :ناز نازی بتو:
تو
گفت اوخندہ زنان گریہ چو کردم بدرش بو علی ہست مگر عاشق دیوانہ ما خندہ گریہ بو علی مگر عاشق دیوانہ
گفت:
گفت گفتگو گفتار
کردم:
کر
''''''''''''''''''''' اے ثنائت رحمتہ اللعالمین یک گدائے فیض تو روح االمین اے رحمتہ اللعالمین یک فیض تو روح االمین ثنائت:
ثنا
گدائے:
گدا
اے کہ نامت را خدائے ذوالجالل زد رقم بر جبہہ عرش برین
اے کہ خدائے ذوالجالل رقم عرش برین نامت:
نام
زد;
زد
جبہہ:
جبہ جبین
بر:
برباد برسراقتدار برسرپیکار برسرروزگار
نامزد قلمزد
آستان عالی تو بے مشل آسمانے ہست باالئے زمین آستان عالی تو بے مشل زمین آسمانے:
آسمان
باالئے :باال
باالتر باالئے طاق
آفرین بر عالم حسن تو باد مبتالئے تست عالم آفرین
آفرین بر عالم حسن تو عالم آفرین باد :آباد برباد زندہ باد مردہ باد شاد باد مبتالئے:
مبتالئے عشق
یک کف پاک از در پر نور اُو ہست مارا بہتر از تاج و نگین یک کف پاک از در پر نور بہتر از تاج و نگین از:
ازاں ازیں از قصور تا پان پت
خرمن فیض ترا اے ابر فیض ہم زمین و ہم زمان شد خوشہ چین خرمن فیض ترا اے ابر فیض ہم زمین و ہم زمان خوشہ چین
شد:
ختم شد
از جمال تو ہمے بینم مسا جلوہ در آینہ عین الیقین از جمال تو جلوہ آینہ عین الیقین بینم:
بین خوردبین دوربین کتاب بینی
در:
دربار درگاہ درپیش درگزر درکنار
خلق را آغاز و انجام از تو ہست اے امام اولین و آخرین خلق آغاز و انجام از تو اے امام اولین و آخرین غیر صلوۃ و سالم و نعت تو
بو علی را نیست ذکر دلنشین غیر صلوۃ و سالم و نعت تو بو علی ذکر دلنشین
''''''''''''''''''''' اے شرف خواہی اگر وصل حبیب نالہ مے زن روز و شب جون عندلیب خواہی :خواہ
خیر خواہ خیر خواہی
زن :موجزن غوطہ زن خیمہ زن اے شرف چاہے ہے اگر وصل حبیب نالہ کرتا رہ روز و شب جون عندلیب
من مریض عشقم و از جان نفور دست بر نبض من آرد چون طبیب عشقم:
عشق
مریض عشق اور بےزار از جان ہوں مرے دست بر نبض کیوں رکھے طبیب بر :اردو میں بے ب کی آواز پے پ میں بدل گئی ہے پر' تاہم بر بھی فقرے میں قابل فہم ہے۔ مرے نبض پر دست کیوں رکھے طبیب رسم و راہ ما نداند ہر کہ او در دیار عاشقی ماند غریب رسم و راہ نہ جانے کہ ہر کوئی دیار عاشقی میں مانند غریب
شربت دیدار دلداران خوش است گر نصیب ما نباشد یا نصیب دلداران :دل داران شربت دیدار خوش آتا ہے دل داروں کو نصیب میں ہے یا ہوں میں بےنصیب ما ازو دوریم دور اے وائے ما از رگ جان است او ما را قریب دوریم:
دوری
وائے:
ہائے وائے' اردو میں مستعمل ہے
ما ازو دوریم دور اے وائے ما
اس سے دور ہائے ہائے میں دور ہوں مگر رگ جان سے بھی وہ مرے قریب بر سرم جنبیدہ تیغ محتسب در دلم پوشیدہ اسرار عجیب سرم:
سر
دلم:
دل
سر پر تنی ہے تیغ محتسب دل میں پوشیدہ اسرار عجیب بو علی شاعر شدی ساحر شدی این چہ انگیزی خیاالت غریب شدی :شدہ
اردو میں ختم شد' تمام شد' شادی شدہ وغیرہ مرکبات مستعمل ہیں بو علی شاعر ہوا ساحر ہوا کرے ہے انگیزی خیاالت غریب
''''''''''''''''''''' اگر رندم اگر من بت پرستم قبولم کن خدایا ہر چہ ہستم رندم:
رند
پرستم :پرست قبولم :قبول اگر رند ہوں اگر میں بت پرست ہوں قبول کر خدایا جو جیسا بھی ہوں ندارم ننگ و عا ر از بت پرستی
کہ یارم بت بود من بت پرستم ندارم:
ندارد
بت پرستم:
بت پرست
یارم:
یار
از' ادو میں مستعمل ہے ننگ و عار نہیں بت پرستی سے کہ یار بت ہے میں بت پرست ہوں بہ پیچ و تا ب عشق افتادم آنگہ دل اندر زلف پیچان تو بستم بہ :اردو میں مستعمل ہے دور افتادہ
افتادم:
افتاد
بستم:
بستہ بستی بند و بست
پیچ و تا ب عشق میں گرفتار ہوں دل اندر زلف پیچان کا بسیرا ہے
''''''''''''''''''''' ہم شرح کمال تو نگنجد بہ گمانہا ہم وصف جمال تو نیاید بہ بیانہا شرح کمال' شرح کمال گمان' بیان' تو ہا :جمع بنانے کے لیے اردو میں ہا اور ہائے مستعمل ہیں یک واقف اسرار تو نبود کہ بگوید از ہیبت راز تو فرد بستہ زبانہا واقف اسرار' ہیبت راز' فرد بستہ
زبانہا زبان ہا ما مرحلہ در مرحلہ رفتن نتوانیم در وادئے توصیف تو بگستہ عنانہا مرحلہ در مرحلہ' ادئے توصیف رفتن:
رفتہ' رفتار
نتوانیم :ن توان یم ناتواں عنانہا :عنان ہا
عنان حکومت
حسن تو عجیب است جمال تو غریب است حیران تو دلہا و پریشان تو جانہا دلہا و پریشان :دلہا و پریشان جانہا :جان ہا حسن تو عجیب' جمال تو غریب' حیران' پریشان
چیزے نبود جز تو کہ یک جلوہ نماید گم در نظر ماست مکینہا و مکانہا جز' تو کہ' گم' نظر چیزے :چیز یک جلوہ مکینہا :مکین ہا مکانہا :مکان ہا یک ذرہ ندیدیم کہ نبود ز تو روشن جستیم ز اسرار تو در دہر نشانہا یک ذرہ' اسرار تو روشن' دہر ندیدیم :دید' نادید' نادیدہ جستیم :جست نشانہا :نشان ہا
یک تیر نگاہت را ہمسر نتوان شد صد تیر کہ برجستہ ز آغوش کمانہا یک تیر' صد تیر' تیر نگاہ' آغوش کمان نگاہت :نگاہ کمانہا :کمان ہا ہمسر' برجستہ دارد شرف از عشق اے فتنہ دوران در سینہ نہان آتش و در حلق فغانہا فتنہ دوران .فتنہ دوراں' نہان آتش۔ آتش نہاں' حلق فغاں اے' عشق' سینہ' حلق فغانہا :فغان ہا
'''''''''''''''''''''
من کہ باشم از بہار جلوہ دلدار مست چون منے ناید نظر در خانہ خمار مست بہار جلوہ دلدار مست نظر در خانہ خمار مست باشم :میم ہٹانے سے باش' اردو میں شاباش' شب باش' پرباش مستعمل ہیں۔ مے نیاید در دلش انگار دنیا ہیچ گاہ زاہدا ہر کس کہ باشد از ساغر سرشار مست دلش :شین ہٹا دیں دل مے انگار دنیا ہیچ گاہ زاہدا ہر کس کہ از ساغر سرشار مست دلش :شین ہٹا دیں دل
جلوہ مستانہ کردی دور ایام بہار شد نسیم و بلبل و نہر و گلزار مست جلوہ مستانہ دور ایام بہار نسیم و بلبل و نہر و گلزار مست کردی کاف ہٹانے سے ردی دی ہٹانے سے کر کر ہٹانے سے دی اور دی سے سردی گردی وردی من کہ از جام الستم مست ہر شام کہ سحر در نظر آید مرا ہر دم درو دیوار مست کہ از جام مست ہر شام کہ سحر نظر مرا ہر دم درو دیوار مست الستم کا میم گرانے سے الست' اردو میں الست مست مرکب مستعمل ہے
چون نہ اندر عشق او جاوید مستیہا کنیم شاہد مارا بود گفتار و ہم رفتار مست نہ اندر عشق جاوید شاہد گفتار و ہم رفتار مست چون :اردو میں چونکہ مستعمل ہے مستیہا کو الگ الگ لکھیں مستی ہا' صرف مکتوبی صورت اس لفظ کو اردو میں داخل کر دیتی ہے۔ تا اگر راز شما گوید نہ کس پروا کند زین سبب باشد شمارا محرم اسرار مست تا اگر راز نہ کس پروا زین سبب محرم اسرار مست غافل از دنیا و دین و جنت و نار است او در جہان ہر کس کہ میباشد قلندر وار مست
غافل از دنیا و دین و جنت و نار در جہان ہر کس کہ قلندر وار مست
''''''''''''''''''''' بوعلی قلندر کے نو اشعار کا' اردو کے تناظر میں تجزیہ پیش ہے۔ ان نو اشعار کے نو قوافی درج ہیں۔ یہ اردو والوں کے لیے اجنبی نہیں ہیں۔۔ آدم' دمادم' ابکم' محرم' اعظم' پیہم' اعظم' آرم' مسلم مصرعوں کے پہلے لفظ جمالت' کہ' اگر' ہزاراں' اگر' تو' بر' مالئک' کسے' حریم
کالم میں استعمال ہونے والے مرکبات' اردو والوں کے لیے غیریت نہیں رکھتے۔ روئے آدم' جملہ آدم' ہزاران سجدہ' جملہ اسما' حریم قدس' کورا زبان' نوشتہ بر جبین' عرش اعظم' صاحب نام' اسم اعظم' صورت پاک' جمال ال یزالی اردو میں مستعمل الفاظ اندر روئے آہزاراندم کہ مے شرف بر جملہ آدم اگر نقطہ عزازیل ہزاران سجدہ دمادم آدم منکشف جملہ اسمائے مالئک اندران جا کسے کورا زبان بستہ حریم قدس محرم نامے چند فصلے نوشتہ بر جبین عرش اعظم نام را جانم بہ قربان نام دور پیہم خوشا نامے و خوش صاحب نام بہ جز اسم اعظم بہ عشق دنیا و دین مست اگر مستانہ آوازے بر آرم شرف در صورت عیان دید جمال ال یزالی مسلم آوازیں گرانے یا معمولی تبدیلی سے اردو میں داخل ہونے والے الفاظ۔ جمالت بودش دانستے آوردے ماندہ ثنائش رود نامش
جمالت :تے گرانے سے جمال۔ جمال' اردو میں عام استعمال کا لفظ ہے۔ روئے :ئے گرا دینے سے رو .روئے بھی مستعمل ہے۔ بودش :بود' بود و باش دانستے :دانست' دانستہ' مرکب دیدہ دانستہ آوردے :آورد' آمد آورد دونوں اصطالحیں اردو شاعری کے لیے مستعمل ہیں۔ ماندہ :پس ماندہ' درماندہ ثنائش :ثناء پاکش :شین گرانے سے پاک رود :رود کوثر شیخ اکرام کی کتاب کا نام ہے۔ نامش :شین گرا دیں نام تلمیحات' جو اردو میں بھی استعمال ہوتی ہیں۔ آدم عزازیل سجدہ اسما مالئک حریم قدس عرش اسم اعظم ال یزالی مسلم
سابقہ ال ال یزالی :ال کا سابقہ اردو کے استعمال میں ہے۔ مثال الیعنی الحاصل امرجہ دنیا حریم قدس عرش اعظم اب کالم پڑھیں' اردو اور فارسی کو' قریب قریب کی زبانیں' محسوس کریں گے۔ جمالت بود اندر روئے آدم کہ مے بودش شرف بر جملہ آدم اگر این نقطہ دانستے عزازیل ہزاران سجدہ آوردے دمادم
بر آدم منکشف جملہ اسمائے مالئک اندران جا ماندہ ابکم کسے کورا زبان بر بستہ نبود حریم قدس او را نیست محرم چہ نامے ثنائش چند فصلے نوشتہ بر جبین عرش اعظم رود آن نام را جانم بہ قربان کنم آں نام را من دور پیہم خوشا نامے و خوش آن صاحب نام بہ جز نامش نباشد اسم اعظم
بہ عشق او شود دنیا و دین مست اگر مستانہ آوازے بر آرم شرف در صورت پاکش عیان دید جمال ال یزالی را مسلم
''''''''''''''''''''' جدید غالب کی ایک معروف غزل کے چار مصرعہءثانی پیش ہیں' ردیف کے سوا باقی الفاظ' فارسی والوں کے لیے غیر نہیں ہیں۔ سامان صد ہزار نمک داں کئے ہوۓ ِ ساز چمن طراز ِی دَاماں کئے ہوئے ِ
جاں نذر دل فریبی عنواں کئے ہوے ت درباں کئے ہوئے بار من ّ ِ سر زیر ِ :غالب شاعر ......... جدیدتر عالمہ طالب جوہری کے ان چاروں مصرعوں میں' تین لفظوں :کی' میں اور ہو کے سوا کوئی لفظ فارسی والوں کے لیے اجنبی نہیں ہو گا۔ اے فکر جواں! صفحہءدانش پہ رقم ہو اے فرق گماں! علم کی دہلیز پہ خم ہو اے خامہء جاں! دشت معنی میں علم ہو اے طبع رواں! زیب دہ نون و قلم ہو
اب اس مصرعے کو دیکھیں اردو اور فارسی والوں کے لیے غیر نہیں ہے۔ باسطوت افکار و بہ جوش معنی :طالب جوہری شاعر ......... جدید ترین اب مہر افروز کے یہ مصرعے مالحظہ فرمائیں: عشق ہے' خواب ہیں ،میرے دم ساز ہے ہیں میرے عشق خواب دم ساز
میری دیوانگی کی عمر دراز میری کی دیوانگی عمر دراز ہوں عطا عشق کے نئے انداز ہوں کے عطا عشق نئے انداز ت بیچارگی میں گم آواز دش ِ میں ت بیچارگی گم آواز دش ِ شاعر :مہر افروز
دونوں زبانوں کا لسانیاتی اشتراک' نادانستہ طور پر اور مستقل رویے پر انحصار کرتا ہے۔ غالب کا دور' انگریز اور انگریز سے پہلے سے متعلق ہے۔ مغلیہ عہد نام نہاد سہی' پرانی روش اور روایات سے متعلق تھا۔ پرانی روایات برقرار تھیں۔ طالب جوہری' انگریز کے آخری اور تقسیم ہند کے بعد سے تعلق کرتے ہیں' جب کہ مہر افروز موجود یعنی تقسیم ہند کے بعد سے' تعلق کرتی ہیں۔ ان کی زبان میں فارسی کا نام و نشان تک نہیں ہونا چاہیے' لیکن ان کے ہاں استعمال میں آنے والے لفظ' اہل فارسی کے لیے غیرمانوس اور اجنبی نہیں ہوں گے۔ یہ لفظ ان کے ہاں آج بھی مستعمل ہیں۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی فارسی شاعری اور اردو زبان زبانیں مفرد' مرکب آوازوں اور لفظوں کی سانجھ کے حوالہ سے' ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ ہاں البتہ ان کے استعمال کی ذیل میں' اپنی مرضی اور لسانیاتی معامالت کو
اولیت دیتی ہیں۔ جس زبان سے لفظ اختیار کرتی ہیں' اس زبان کا جانو بھی' اپنی زبان کے لفظوں کی پہچان سے' دور رہتا ہے۔ مثال لیڈیاں' پنسلیں' کریمیں لفظ کسی انگریز کی پہچان میں نہ آ سکیں گے۔ حور' احوال' اوقات کوئی عربی واحد تسلیم نہیں کرے گا۔ ہونسلو' فاسلو مفہومی قربت کے باوجود' عربی نہیں رہے۔ حلیم' غریب' خصم کا معنوی اعتبار سے' عربی سے دور کا بھی رشتہ نہیں رہا۔ کامی' ہم دیسی لوگوں کے لیے قابل فہم ہے' اجنبی نہیں ہے' لیکن جاپانی معنی قطعی الگ سے ہیں .شاید انہیں یہ معلوم نہ ہو گا کہ اس لفظ کی اصل کس عالقہ سے متعلق بھالو میں اور بھال میں قربت موجود ہے گویا ہے۔ اردو کی بنگلہ سے' سانجھ نکل رہی ہے۔ غرض ایسی سیکڑوں مثالیں پپش کی جا سکتی ہیں' لیکن اپنی اصل کے مطابق یہ اردو کے لفظ بھی نہیں ہیں۔ بولتے' سمجھتے' پڑھتے اور لکھتے وقت ماں بولی والے
بھی یہ نہیں جانتے' کہ وہ کس زبان کے لفظ کو کس طرح اور کس انداز سے' استعمال میں ال رہے ہیں۔ اردو اس وقت استعمال میں آنے والی' دنیا کی دوسری بڑی زبان ہے۔ لچک پذیری' الفاظ گھڑنے اور اختیار کرنے میں فراخ دل واقع ہوئی ہے۔ انگریز کے ابتدائی عہد کے عالوہ' سرکاری سطع پر' اس کی کبھی بھی سرپرستی یا حوصلہ افزائی نہیں ہوئی۔ میں نے زبانوں کے اشتراک کے مطالعہ کے دوران محسوس کیا ہے' کہ اس نے دیسی اور بدیسی زبانوں سے' ہیلو ہائے رکھنے میں کبھی بخل اور تھوڑدلی سے کام نہیں لیا۔ صوفیا کرام کے کالم کا مطالعہ کرتے' میں نے محسوس کیا کہ انسان ہی اانسان سے دور رہتا ہے' ورنہ زبانیں تو ایک دوسری کے قریب ہیں۔ اگر کوئی معمولی سا غور کرے تو اردو کو دوسری زبانوں کے قریب تر پائے گا۔
حضرت خواجہ معیین الدین چشتی کے کچھ فارسی کالم کا مطالعہ پیش کر رہا ہوں۔ اس مطالعے کو پڑھنے کے بعد' شاید اردو زبان کا قاری ان کے وجد آمیز کالم سے لطف اٹھا سکے گا۔
ہست ہستی وجود موجود یعنی ہونے کے لیے ہے۔ ........... آواز بڑھانے سے نتواں :ناتواں ........... است :الف گرا کر ست' ست سے درست ہر دو یعنی در اور ست فارسی میں مستعمل ہیں۔
است کے ساتھ ر بڑھانے سے استر ........... آوازیں گرانے سے :گہش گہ' گاہ سازد :ساز بلبلیم :بلبل باالں :باال رازے :راز دمے :دم ........... آواز میم گرانے سے بوستانم :بوستان
وجودم :وجود دلم:
دل
........... آواز میم گرانے سے گویم :گوی گناہیم :گناہی خواہیم :خواہی گیاہیم :گیاہی مصطفائیم :مصطفائی گدائیم :گدائی لولوئیم :لولوئی گناہیم:
گناہ' گناہی
........... خواہی:
خیر خواہی
آپ کریم نے بیگانوں کی بھی خیر خواہی چاہی ہے۔ خدائی :خدائی فیصلہ مصطفائیم :مصطفائی مصطفائی میں خدائی ہے۔ گیاہیم :آب و گیاہ گیاہی عالقے خوش حال رہے ہیں گدائیم :گدائی حضور کریم کے در کی گدائی' دنیا کی بادشاہی سے کہیں بڑھ کر ہے۔ ........... مرکب آواز یم گرانے سے گناہیم :گناہ
بےگناہ
خواہیم :خواہ خیر خواہ گیاہیم :گیاہ آب و گیاہ آمدیم :آمد' خوشامد
گویم :گو گفتگو ........... مرکب آواز یم اردو میں بھی مستعمل ہے۔ مثال کریم :انگریزی سپریم' آئس کریم -عربی عبدالکریم' حریم; حریم غائب عالمہ مشرقی کے شعری مجموعے کا نام - شمیم' نسیم حلیم :مقامی سطع پر ایک پکوان کا نام ہے۔ ........... آواز ے گرانے سے :سرودے سرود' سرود جان ضافت سے پڑھنے پر سرودے جان پڑھا جائے گا۔ :درودے درود پاک دال کے نیچے زیر ہے یعنی اضافت سے ڑھنے
پر درودے پاک پڑھا جائے گا۔ ........... :در درکار' درگزر' دراصل مگو مرکب لفظ :گومگو حقا حق سے حقا; حقانی' حقانیت' حقائی' حقارت حقیقت حقیر :حق پر یر کا الحقہ جس میں حقیقت کی کمی ہو' حقیقت سے خالی معمولی' تھوڑا سا ........... جہدست :جہد' جہد است جہد دست
مرکب :جدوجہد ........... مفرد آواز :و بلند و باال' سیاہ و سفید' شب و روز ........... مرکب آوازیں :چوں چوں کہ' چونکہ :از از قصور تا اجمیر' ازاں :بز
دو اسموں ترکیب پایا لفظ :بزدل :امت امتاں :پنجابی اور قدیم اردو میں جمع بنانے کے اں الحقہ مستعمل تھا۔ اب یں رائج ہے; امتیں' حوریں' راہیں معین سے معینے اردو اور خصوصا پنجابی میں پکارنے یا بالنے کے لیے ے بڑھا دیتے ہیں۔ جیسے فضل فجے' شوکت سے شوکے' نور سے نورے عرفی نام کے لیے ے بڑھا دیتے ہیں۔ جیسے برکت بی بی سے برکتے' کرامت بی بی سے کرامتے :بشنود; شنود خوشنود احمد' خوشنود علی' خوشنود حسین' نام سننے کو ملتے ہیں۔ خوشنودی بھی استعمال میں ہے۔ ........... بہ ....بچشم :بہ چشم' بہ چشم نم
بباز :بہ باز کبوتر بہ کبوتر باز بہ باز بگذری :بہ گذری ساتھ' کے ساتھ کے لیے بہ با سابقہ بڑھاتے ہیں۔ مثال باذوق' باوفا' باہمت' باوردی' مشبہ بہ الف کا تبادل حائے مقصورہ ہے۔ لفظ کے ساتھ لکھتے ہذف ہو جاتا ہے۔ ........... مصدر گفتن سے لفظ ترکیب پائے ہیں تاہم اردو میں اس کی بنیادی صورت گفت رہی ہے اور اسی سے لفظ اور مرکب تشکیل پائے ہیں۔ اردو میں' گفت شگفت وغیرہ کا کوئی مصدر موجود نہیں' لیکن اس نوع کے بہت سے لفظ' کثرت سے رواج رکھتے ہیں۔ گفت :گفتار' گفتگو' گفت و شونید فارسی میں گفت کی اشکال دیگر اشکال جو حضرت خواجہ صاحب کے ہاں استعمال میں آئی ہیں۔ گفتن گویم بگو گفتنی گفتی بگفت گفتمش گفتند
........... گشت :فورسز میں عام استعمال کا لفظ ہے۔ گشتی' فاحشہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ آنکہ :آں کہ خطوط میں عموما لکھا جاتا تھا صورت احوال آنکہ یہ بھی استعمال میں تھا صورت احوال یہ ہے کہ لفظوں کو اکٹھا لکھا جانا عام رواج میں تھا۔ یہ رواج آج بھی موجود ہے۔ جیسے اسکی' اسکے' انکے وغیرہ۔ اکٹھا لکھتے نون غنہ نون میں بدل جاتا ہے۔ مثال کروں گا سے کرونگا۔ بولنے میں کروں گا ہی آتا ہے۔
سابقے :با باذوق' باعزت' باجماعت :بر براعظم' برصغر' بحر و بر' برتؤ :ما ماقبل' مابعد' مانع داد دادرسی داد دینا' داد فریاد' داد و فریاد در دربان' درکنار' درگزر درگاہ' دربار' درماندہ' درکار درست' درستی' درندہ' درندگی درگزر' درحقیقت'درکنار' درجہ' درمن
درگا' نام دیوی دال کے اوپر پیش ہے۔ دیکھنے میں دونوں ایک سے ہیں لیکن دونوں کا تلفظ ایک نہیں۔ در و دیوار :چو چور' چورس' چوگرد الحقے :را ہمارا' تمہارا' سہارا' کھارا' گارا :چہ چنانچہ' خواں چہ خوانچہ' دیگ چہ دیگچہ' باغیچہ مخواں :خواں قرآن خوان' نعت خوان' مرثیہ خوان' نوحہ خوان یائے مصدری بڑھانے سے :قرآن خوانی' نعت خوانی' مرثیہ خوانی' نوحہ خوانی
:داد خداداد :شد ختم شد :خواہ خوامخواہ' بدخواہ :کرد حاصل کردہ' کارکردگی کن :کارکن' رکن ہاہے مقصورہ بڑھانے سے کنہ کنی :دو رکنی' کان کنی دانی لفظ دانی اردو میں باطور الحقہ رواج رکھتا ہے۔ مثال صابن دانی
گو من نمی گویم انا الحق یار می گوید بگو چوں نگویم چوں مرا دلدار می گوید بگو :گویم نگویم بولوں کہ نہ بولوں .کہا' نہ کہا .کیا' نہ کیا کچھ مرکب آوازیں جن کے کوئی ذاتی معنی نہیں ہوتے لیکن لفظوں کو نئی معنویت سے ہم کنار کرتی ہیں۔ مثال ئی اور ئے ئی :دریائی' گرمائی' شرمائی خواجہ صاحب کے ہاں اس کا استعمال مالحظہ ہو۔ ایں دوئی را از میاں بر دار می گوید بگو ئے :آئے' پائے' جائے جائے' جگہ اور جانے سے متتعلق ہے۔ مثال
وہ جائے گا۔ قیامت کے روز شیطان کو جائے پناہ میسر آ سکے گی۔ خواجہ صاحب کے ہاں اس کا استعمال مالحظہ ہو۔ تا کہ من مست از تجلی ہائے ربانی شدم حقا کہ بنائے ال الہ ہست حسین اردو میں رائج الفاظ شاہ حسین بادشاہ دین دین پناہ سر دست یزید کہ بنائے ال الہ جان منزل جانان محمد صد کشا دل از جان باغ و دیگر قرآں بستان محمد غم اے آب و گل جان و دل تا بہ یژب افغان دیگر برسر واں کہ یاور برہان محمد خون عاشق عشق اگر ہدر فردا دوست تاوان درد زخم عصیاں غم مرہم شفاعت درمان محمد مستغرق ہرچند عذر پژمردہ باران گلستان احمد مرجاں عمان محمد یا رب کہ اندر نور حق فانی مطلع انوار فیض ذات سبحانی ذرہ ذرہ از طالب دیدار تا کہ مست از تجلی ہائے ربانی زنگ غیرت مرآت دود عشق تا واقف اسرار پنہانی بیروں ظلمت ہستی تا نور
ہستی دانی گر دود نفس ظلمت پاک سوختہ امتزاج آتش عشق تو نورانی خلق راہ را بدشواری اے عفاک ہللا کہ بارے بآسانی دم بدم روح القدس اندر معینی مگر عیسی ثانی اگر حقیقت وجود خود بینی قیام جملہ اشیاء بہبود خود بینی دجود نار موسوی اگر از سر تو دود خود بینی قعر لجہ توحید عشق کہ گنج مخفی حق را نفود خود بینی بہ قصر عشق ترا پایہ از سر کہ تخت ہر دو جہاں خود بینی تو فرشتہ نظر جمال دوست نہ لعیں کہ ہمیں سجود خود بینی شاید کہ تا دنا خود بینی آ و نور دوست نگر تو چند شیشہ سرخ و کبود خود بینی اگر آئینہ زنگ حدوث بزوائی جمال شائد حق شہود خود بینی بند دیدہ اعیاں کہ تا ز عین عیاں وجود دوست جان وجود خود بینی بزم گدایاں شہ نشاں خودی کہ تا نتیجہ احساں وجود خود بینی آ بہ مجلس مسکیں معین شوریدہ کہ نقل و بادہ گفت و شنود خود بینی انا الحق یار مرا دلدار بار اندر صومعہ با زاہداں بے تحاشا سر بازار محرم با در و دیوار سر منصوری نہاں حد ہم ہم دار آتش عشق درخت جان من زد علم با موسی آں یار نیم مدام اسرار اے صبا کہ پرسدت طالب دین سلطان محمد معیں دوئی میاں دار خویش خانہ بروں ازیں خانہ بروں ازیں
خویش :اول خویش بعد درویش' معروف مقولہ ہے۔ امروز :ایک اردو اخبار اس نام سے شائع ہوتا رہا ہے۔ .................. اس معروف چومصرعے کے چاروں ابتدائی لفظ اردو میں بھی مستعمل ہیں۔ شاہ ہست حسین پادشاہ ہست حسین دین ہست حسین دین پناہ ہست حسین سر داد نداد دست در دست یزید حقا کہ بنائے ال الہ ہست حسین .................. اگلے دس شعروں کے قوافی مالحظہ ہوں جانان' جان' گلستان' باران' باران' تاوان' سلطان' برہان' افغان' بستان
در جان چو کرد منزل جانان ما محمد صد در کشا در دل از جان ما محمد ما بلبلیم باالں در گلستان احمد ما لولوئیم و مرجاں عمان ما محمد مستغرق گناہیم ہر چند عذر خواہیم پژ مردہ چوں گیاہیم باران ما محمد از درد زخم عصیاں مارا چہ غم چو سازد از مرہم شفاعت درمان ما محمد امروز خون عاشق در عشق اگر ہدر شد فردا ز دوست خواہم تاوان ما محمد
ما طالب خدایئم بر دین مصطفائیم بر در گہش گدائیم سلطان ما محمد از امتاں دیگر ما آمدیم برسر واں را کہ نیست یاور برہان ما محمد اے آب و گل سرودے وی جان و دل درودے تا بشنود بہ یژب افغان ما محمد در باغ و بوستانم دیگر مخواں معینے باغم بشست قرآں بستان ما محمد خواجہ معین الدین چشتی ..................
ان سات اشعار کے قوافی سے متعلق الفاظ' اردو میں رواج رکھتے ہیں فانی' سبحانی' ربانی' پنہانی' دانی' نورانی' بآسانی' ثانی ایں منم یا رب کہ اندر نور حق فانی شدم مطلع انوار فیض ذات سبحانی شدم ذرہ ذرہ از وجودم طالب دیدار گشت تا کہ من مست از تجلی ہائے ربانی شدم زنگ غیرت را ز مرآت دلم بزدود عشق تا بکلی واقف اسرار پنہانی شدم من چناں بیروں شدم از ظلمت ہستی خویش تا ز نور ہستی او آنکہ می دانی شدم
گر ز دود نفس ظلمت پاک بودم سوختہ ز امتزاج آتش عشق تو نورانی شدم خلق می گفتند کیں راہ را بدشواری روند اے عفاک ہللا کہ من بارے بآسانی شدم دم بدم روح القدس اندر معینی می دمد من نمی دانم مگر عیسی ثانی شدم خواجہ معین الدین چشتی .................. ان آٹھ اشعار کے قوافی اردو میں مستعمل الفاظ ہیں۔ یار' دلدار' بار' بازار' دیوار' دار' یار' اسرار' دار
من نمی گویم انا الحق یار می گوید بگو چوں نگویم چوں مرا دلدار می گوید بگو ہر چہ می گفتنی بمن بار می گفتی مگو من نمی دانم چرا ایں بار می گوید بگو آں چہ نتواں گفتن اندر صومعہ با زاہداں بے تحاشا بر سر بازار می گوید بگو گفتمش رازے کہ دارم با کہ گویم در جہاں نیست محرم با در و دیوار می گوید بگو سر منصوری نہاں کردن حد چوں منست چوں کنم ہم ریسماں ہم دار می گوید بگو
آتش عشق از درخت جان من بر زد علم ہر چہ با موسی بگفت آں یار می گوید بگو گفتمش من چوں نیم در من مدام می دمے من نخواہم گفتن اسرار می گوید بگو اے صبا کہ پرسدت کز ما چہ می گوید معیں ایں دوئی را از میاں بر دار می گوید بگو خواجہ معین الدین چشتی .................. ان اشعار کے ابتدائی الفاظ اردو میں بھی مستعمل ہیں۔ اگر' قیام' کہ' تو' نہ' بباز' جمال' یہ' وجود' در
ردیف خود بینی اردو والوں کے لیے اجنبی نہیں۔ اگر بچشم حقیقت وجود خود بینی قیام جملہ اشیاء بہبود خود بینی دجود ہیزمیت نار موسوی گردد اگر بروں کنی از سر تو دود خود بینی ز قعر لجہ توحید در عشق برار کہ گنج مخفی حق را نفود خود بینی بہ قصر عشق تراپایہ از سر جہدست کہ تخت ہر دو جہاں را فرود خود بینی
تو چوں فرشتہ نظر بر جمال دوست گمار نہ چوں لعیں کہ ہمیں در سجود خود بینی ازیں حضیض و دنایت چو بگذری شاید کہ تا دنا فتدلی صعود خود بینی بباز خانہ بروں آ ونور دوست نگر تو چند شیشہ سرخ و کبود خود بینی اگر ز آئینہ زنگ حدوث بزوائی جمال شائد حق در شہود خود بینی بہ بند دیدہ ز اعیاں کہ تا ز عین عیاں وجود دوست چو جان وجود خود بینی
بیا بزم گدایاں شہ نشاں خودی ست کہ تا نتیجہ احساں وجود خود بینی در آ بہ مجلس مسکیں معین شوریدہ کہ نقل و بادہ ز گفت و شنود خود بینی خواجہ معین الدین چشتی .................. قصہ سفرالعشق کے فارسی حواشی
عرصہ قدیم سے' ایران اور برصغیر کے درمیان' سیاسی' معاشی' سماجی' تہذیبی' نظریاتی اورخونی رشتے استوار
چلے آتے ہیں۔ طالع آزما جنگ جو' تاجر' صوفیا' علما اور فضال مختلف ادوار میں' مختلف حوالوں سے' برصغیر میں آتے جاتے رہے ہیں۔ برصغیر کی معاشرت پر' اپنے اپنے حوالوں سے' اثرانداز ہوتے رہے ہیں۔ بالواسطہ اور بالواسط ' مقامی بولیاں اور زبانیں; فارسی ادبیات سے اثر لیتی رہی ہیں۔ برصغیر کی شاید ہی کوئی زبان ہو گی' جسے فارسی نے' فکری اور اسلوبی اعتبار سے' متاثر نہیں کیا ہو گا۔ فارسی کے بےشمار الفاظ' ان زبانوں میں داخل ہو گیے ہیں۔ مختلف حاالت میں' ان کی مختلف صورتیں رہی ہیں۔ اصل صوت' ہئیت اور مفاہیم کے ساتھ فارسی زبان کے الفاظ' برصغیر کی زبانوں میں داخل ہوئے ہیں یا ان زبانوں نے ان الفاظ کی ہیتی صوتی اور تفہیمی وسعت پذیری کی وجہ سے' دانستہ طور اپنا لیا ہے۔ مطابقت بھی لفظوں کو اپنانے کا سبب بنی ہے۔ غربت خصم اور گربت کھسم قریب کے لفظ ہیں۔ آج قفلی کوئی لفظ نہیں رہا' اسی طرح گربت اور کھسم استعمال میں نہیں رہے۔
الفاظ کی ہئیت اور صوت برقرار نہیں رہی ہے لیکن ان کے مفاہیم میں تبدیلیاں نہیں آئیں۔ الفاظ کی اصل ہئیت اور صوت تو برقرار رہی ہے لیکن ان کے مفاہیم میں تبدیلیاں آئی ہیں یا مفاہیم یکسر بدل گیے ہیں۔ مقامیت کے زیر اثر یا بدلتے حاالت کے تحت' فارسی الفاظ کی مختلف اشکال نے جنم لے لیا ہے۔ یہ بھی کہ ان نئی اشکال کے نئے مرکبات پڑھنے سننے کو ملتے ہیں۔ انگریزی کی قہرمانی اور فتنہ سامانی کے بوجود' از خود اور نادانستہ طور پر' یہ تبدیلیوں کا عمل ہر سطع پر جاری و ساری ہے۔ مقامی زبانوں کے الفاظ کے ساتھ' فارسی سابقوں الحقوں کی پیوندکاری کا عمل مضبوط سے مضبوط تر ہوا ہے۔
ایرانی اشیا اور مختلف حلقوں سے متعلق اشخاص کے اسما اور شہروں وغیرہ کے ناموں کا استعمال' ادبی اور سماجی حلقوں میں باکثرت ملتا ہے۔ ایرانی اہل ہنر اور ہیروز کے کارناموں کا تذکرہ یا حوالہ مقامی زبانوں کی تصانیف میں ملتا ہے۔ فارسی محاورے' روزمرے اور اقوال و امثال بالتکلف' مقامی زبانوں میں استعمال ہوئی ہیں۔ فارسی اصطالحات کا استعمال' ان زبانوں میں کسی قسم کے اوپرے پن کا احساس تک ہونے نہیں دیتا۔ فارسی شعرونثر سے متعلق تخلیقات کے تراجم مقامی زبانوں میں ہوتے آئے ہیں۔ مقامی زبانوں کے تبادالت میں' اصل الفاظ کی روح کسی ناکسی سطع پر' متحرک رہی ہے۔
دور کیا جانا ہے' مغلیہ عہد جو مئی 1857تک قائم رہا۔ فارسی کا دربار' بازار مکتب اور بعض آزاد ریاستوں میں سکہ چلتا رہا ہے۔ اس حوالہ سے' بڑی جان دار اور مستند کتب' فارسی کے ورثہ میں داخل ہوئی ہیں۔ ان تصانیف میں' مقامی زبانوں کے الفاظ اشیا و اشخاص کے نام رسوم وغیرہ کے نام فارسی' زبان کے مخصوص لب و لہجہ کے ساتھ داخل ہوئے ہیں۔ ان حوالوں کی واپسی' فارسی اطوار کے ساتھ ہوئی ہے۔ اب ان پر دیسی ہونے کا گمان تک نہیں گزرتا۔ اہل لغت نے ان پر فارسی ہونے کی مہر تک ثبت کر دی ہے۔ شاہی محالت میں' روز زوال تک' بعد ازاں مغل شاہی گھروندوں میں بھی فارسی کا سکہ چلتا رہا۔ بہت سے شعرا فارسی میں کہتے رہے۔ گلستان بوستان کی اہمیت باقی رہی۔ محالتی مکینوں یا ان سے متعلق حضرات کا کلچر عمومی اور عوامی کلچر سے ہٹ کر رہا۔ شاہ سے متعلق اہل قلم نے عوامی دائروں میں رہ کر سوچا لیکن اپنے سوچ کو زبان اور طور شاہی دیا۔
شاہی جبریت کے بعد' برٹش استحصالیت کے زمانے میں' سوچی سمجھی سازش کے تحت فارسی کا پتا کاٹنے کے لیے' مقامی زبانوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ فارسی کے متعلق۔۔۔۔۔۔ پڑھو فارسی بیچو تیل۔۔۔۔۔۔ ایسی خرافات' عرف عام میں آ گئیں۔ اس ناقدری اور حوصلہ شکنی کے :باوجود فارسی کی کسی ناکسی سطع پر مداخلت باقی رہی۔ 1- رومی' سعدی' حافظ' خیام' جامی وغیرہ کے فکری و 2- لسانی حسن کا سکہ' نادانستہ طور پر سہی' آج بھی باقی ہے۔ برٹش عہد میں' اردو کو برصغیر زبان ہونے کے ناتے' عزت دی گئی جب کہ پنجابی نے بھی انگریز کی ماتحتی کی' لیکن اس کا فارسی سے رشتہ ختم نہ ہوا۔ معروف مثنویوں کے عنوانات اور حواشی فارسی میں ملتے ہیں۔ ........... پنجابی قصہ۔۔۔۔۔ سفرالعشق ۔۔۔۔۔۔۔ المعروف بہ سیف الملوک
کا پنجابی کالسیکی ادب میں بڑا بلند پایہ ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی قدر و قیمت میں ہرچند اضافہ ہی ہوا ہے۔ دیہاتوں اور شہروں میں' اس قصے کو بڑے شوق سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ برصغیر کے معرف فن کاروں نے'اسے صوفیانہ کالم قرار دے کر' عقیدت اور احترام سے گایا ہے۔ میاں محمد بخش صاحب کی بہت سی تصانیف ہیں۔ جن میں :قصہ سوہنی' شیرین فرہاد' نیرنگ عشق' مرزا صاحباں' شاہ منصور' سی حرفی سسی پنوں' سی حرفی ہیر رانجھا' تذکرہ مقیمی' گلزار فقیر' ہدایت المسلمین' تحفہ میراں کرامات غوث اعظم' تحفہ رسولیہ' معجزات سرور کائنات' سخی خواص خاں خاص طور معروف ہوئیں تاہم قصہ سفر العشق میاں محمد بخش صاحب کی شہرت کا سبب بنا۔ یہ قصہ 1859میں رقم ہوا۔ اس وقت میاں محمد بخش صاحب کی عمر تنتیس برس تھی۔ ان کی جوانی' اس قصے کی زبان اور فکر میں بھرپور انداز میں رقصاں ہے۔ یہ قصہ کل ترسٹھ عنوانات پر مشتمل ہے۔ ان میں سے سترہ عنوان حمد نعت مدح جات اوصاف قصہ منازل ہائے
تصوف وغیرہ پر مشتمل ہے جب کہ قصہ کے اختامیہ سے متعلق ہیں۔ گویا اصل قصہ سے متعلق کل بیالیس عنوانات :ہیں۔ تفصیل کچھ یوں ہے آغاز قصہ تولد1شدن شاہ زادہ سیف الملوک دیدن شاہ زادہ تصاویر شاہ مہرہ و عاشق شدنش جواب سیف الملوک عاشق با پدر مہلت خواستن پدر و بیان کردن کیفیت مورت پند دادن پدر پسر را جواب شہزادہ التماس بادشاہ پیش فرزند رحم آوردن پسر بر پدر بیان دیوانہ شدن شہزادہ در بیان خواب دیدن سیف الملوک رخصت طلبیدن شہزادہ از مادر زاری نمودن شہزادہ از درد مادر
داستان رواں شدن سیف الملوک از مصر نامہ نوشتن شاہ فغفور جانب شاہزادہءمصر در جواب شہزادہ بہ فغفور چین دربیان غرق شدن کشتی ہائے در طوفان و جدا شدن صاعد گرفتار شدن سیف الملوک بدست بوزنگاں در بیان جنگ با سنگساراں گرفتار شدن سیف الملوک بدست زنگیاں رفتن شاہزادہ در شہر زناں در بیان مشقت دیدن شاہزادہ از گرسنگی و تشنگی و سوال و جواب عقل و نفس رسیدن شاہزادہ در قلعہ دیوان و خالص کنائیدن ملکہ خاتون را در وصف جمال ملکہ خاتون رواں شدن شہزادہ مع ملکہ خاتون مالقات صاعد با شاہزادہ در وصف جمال بدرہ خاتون و عاشق شدن صاعد بروے
آمدن بدیع الجمال بہ ساندیپ در وصف بدیع الجمال حاصل کالم در غزلیات و دوہڑا سرائیدن شاہزادہ در وصف شہزادہ سیف الملوک نامہ بدالجمال بطرف مہر افروز داستان خبر شدن دیوان قلزم را و کشتن بہرام شہزادہ نامہ نوشتن شاہپال بطرف ہاشم شاہ جواب نامہ از طرف ہاشم شاہ بر جنگ تیار شدن شاہپال و ہاشم شاہ جنگ کردن شاہپال شاہ با ہاشم شاہ دیواں نامہ نوشتن سیف الملوک بطرف پدر دردمند آمدن ساعد در سفر و تیار شدن عاصم شاہ بر شارستان وفات یافتن عاصم شاہ وفات یافتن سیف الملوک و نالیدن بدیع الجمال از درد
بات پنجابی قصے کے عنوانات تک محدود نہیں بل کہ قصے کے حواشی بھی فارسی میں درج کیے گیے ہیں۔ یہ حوشی پانچ سو کے قریب ہیں۔ فارسی حواشی درج کرتے احتیاط سے کام نہیں لیا گیا۔ ڈھنگ سے پروف ریڈنگ تک نہیں کی گئی۔ میرے پیش نظر حمیدیہ بک ڈپو' اردو بازار' الہور 1993کا نسخہ ہے۔ متنی ابالغ کے حوالہ سے حواشی کی صحت کی ضرورت کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس سے اچھی خاصی لغت سامنے آ سکتی ہے۔ ان حواشی میں مختلف نوعیت معومات فراہم کی گئی ہیں : لفظوں کے مفاہیم بعض لفظوں کی زبان کا تعین اشخاص کا تعارف اور ان سے متعلق معلومات مختلف قسم کی اصطالحات اور محاورات سے متعلق معلومات اس تحریر کے تیسرے حصہ میں پنجابی الفاظ کے ساتھ فارسی حواشی درج کر دیے گیے ہیں تا کہ قاری اس لغت
کی مدد سے قصے کی بہتر تفہیم کر سکے۔
............................. متولد 1- آدی :لفظ سنسکریت قدیم شعر 3ص94 آسہ :ناامید شدن و مرگ اختیاری شعر 203ص293 آواز :آواز شعر 2ص 91 آہلناں :آشیانہ۔۔۔۔گھونسلہ۔۔۔۔۔ شعر 35ص 76 اپراہدی :کار مشکل کنندہ ش 230ص242 اجل :دانہ ہائے آخر چنیدہ شعر 3ص212 اچھاڑ :غالف شعر 305ص183 اڈیوں :شعلہ آتش کہ بلند می شود شعر 1ص384 ارنی ارنی :رمزے است از رموز حقیقی کہ در مجاز گفتہ شد شعر 185ص 252 ارداسی :عاجزانہ شعر 286ص 257
اشتر :ہفتاد۔ ہفتاد خچر و شتر بار گراں برداشتہ شعر 513 ص193 افالطون و ارسطو در عہد سکندر حکمائے یونان شعر77 ص53 اکا :بالکل آرام نہ داشت استخوان و مغز استخوان میسوخت ہمچوں ہنیرم خورد خشک شد شعر 515ص 326 اکایاں :تنگ و الچار کردہ شعر 174ص149 اگوڑی :بھن اگوڑی بمعنی تازہ زدہ تن یا پیچ و تاب داد شعر 426ص412 ان جل :آب و دانہ شعر 13ص 88 الدنیا غریب :دنیا جائے سفر است دریں دنیا جائے قرار نیست بلکہ بےقرار است شعر 278ص181 الیماں :تیاری فوج شعر 499ص 193 ان۔ ماس :ان یعنی ہر قسم اناج و ماس گوشت شعر2 ص331 انباروں :بسیار خور شعر 74ص101 انٹے :بیضہ شعر 9ص93
ان بدھا :بے سوراخی کہ بسیار قیمتدار۔۔۔۔۔ پرارزش۔۔۔۔۔۔ باشد مراد از ملکہ خاتون کہ بکر بود شعر 1ص140 ان بدھے :بے شگاف یا بے سوراخ شعر 86ص234 انازوں :اناج شعر 255ص 403 اوائی :خبر آمدن شعر 242ص 152 اوبل :جوشندہ شعر 35ص168 اوکڑ :مشکل مہم شعر 2ص92 ایرا :بنیاد زریں شعر 6ص 133 این :حکم شعر 6ص94 ایڈ سپورن :بہ بسیار یعنی کہ پیغامہای کسان۔۔۔۔۔ دیگر می برند کہ ایشاں پیغام دیگرے دارند مثال ہر کہ گوید پیغام رسانند را گویا زاغ درد رسوائی خانہ نہ گرد باورچی خانہ خود انداختہ کہ بسیار نار او است ازاں کہ ہر چیز بخورد و کرامت بسیار ست شعر 776ص329 بابت:چیز شعر 306ص183 باتی :چراغ شعر 17ص 75
بادر :طاقت شعر 38ص83 باز :باز اول بمعنی قوت آنا و باز دوم بمعنی باز شاری شعر 53ص125 باقی :لتیلہ از پنبہ کہ در چراغ می سوزو شعر 71 ص131 بانا :لباس سبز ۔۔۔۔۔لباس' لباس فقرا۔۔۔۔۔ شعر 253ص 255 بائی :گفتن بزبان پوٹھوہاری عنوان منزل فقر شعر 1 ص41 ببتا :مصیبت :شعر 66ص131 ببدی :آنا آنکہ ہر چہار طریق طے کردہ بدرجہ علوی رسیدہ اند از ہمہ لوائث دنیا وی پاک شدہ اند' گناہ و ثواب در آں نمی رسد وہللا اعلم بالصواب شعر 11ص40 بتا :فریب شعر 14ص 135 بتا :حیلہ و مکر و بہانہ سازی بسیار کردہ شعر 173 ص149 بجگ :بفتحہ اول معجمہ کسر دوم معجمہ و سوم فارسی
مشدد یعنی آفت و باالئے آسمانی مثل برق ژالہ وغیرہ شعر 3ص343 بجگ :بجگ یعنی بجیم تازی مکسور کاف فارسی مشد یعنی آفت ناگہانی شعر 60ص218 بدر منیر :آوردن لفظ بدر منیرو ملک در آسمانی ایں ہمہ از تالزمہ شاعرے است شعر 1ص215 بدر منیر :ماہ چار دہ روزہ و نیز معشوقہ بےنظیر برج ستارہ :محاورات نجومیہ را می گویند شعر 21ص 50 بشیرال :مار سیاہ شعر 14ص123 بک اجاڑی :غزالہ بیابانی شعر 66ص233 بل :بل در زبان کشمیری محلہ را گویند شعر 36ص124 بلی :قالو ابلی گفت و رنج و بال گرفت شعر 838ص327 برم :تازیانہ سخت کہ چابک سواراں دارند و اسپ را بدو جنبا آواز آں سخت باشد شعر 428ص412 بن :بغیر نوشیدہ شعر 69ص234 بندی :خال شعر 10ص141
بندے :نام زیور شعر 86ص117 بندے بندے :ساعت بساعت شعر 388ص 187 بوٹی :پارہء گوشت شعر 102ص 288 بہچھن :گفتار ہا کہ در بہوشی خواب گفتہ شدد آن بمعنی باشد یعنی اولیا اگر گفتار کنند در فہم نیایند آنہم راست و صحیح بداں ہ یشاں ہر چہ گویند بر لوح محفوظ دیدہ بگویند و آں رائے نیست اگرچہ آں در فہم ما نیاید۔ قصور افہام عام ست نہ در کالم آن ش 117ص 248 بہنی :بندوبست تن تمام خوب شعر 12ص104 بینک :جدا نہ شود شعر 141ص124 بےوفائی :در زمانہ ہمیشہ رسم بےوفائی است شعر12 ص 261 پاربدی :نام مطرب خسرو پرویز کہ دریں فن بکمال رسیدہ بود شعر 249ص 403 پانی چھڑ دا :در آب رفتے شعر 19ص129 پاہرو :پہرہ دا۔۔۔۔۔ کشیچکی ۔۔۔۔۔ شعر 61ص 136
پتا :زہرہ شعر 7ص 110 پج :رسیدن شعر 261ص 257 پچریاں :پازیب شعر 428ص412 پچھاک :پس ماندہ شعر 506ص 193 پچھل :زلزلہ شعر 16ص 116 پراک :یعنی جناں را قوت زیادہ از حد آدم ست کہ چندیں فریب کنند و لیکن از یک صورت آدمی زورآور است کہ اگر جسم جامہ پاک دارد جن عفریت ظاہری بر غلبہ کردن نتواند باایں چنیں اگر در باطن پاکی باشد نفس و شیطان را قوت غلبہ نہ باشد شعر 181ص149 پرچتی :بہ گناہ گار رحم کردی شعر 462ص165 پرکالے :پرزہ شد شعر 332ص183 پروے :پارچہ کہ از آں آرد آسیا کنند شعر 125ص221 پکیرا :اشارت ست بداں خلق آدم کہ حسن ذات او وظاہر شد مخفی نماند یعنی اول عشق و محبت خود شروع کردی کہ انسان را برائے دوستی جز آفریدے و او را انسان مرے وانا سرہ شعر 125ص289
پکھیرو :ہر پرندہ را گویند ص 238 پگسی :میرسد شعر 65ص90 پلچھی :خشک شدن زبان در دہان شعر 175ص292 پلنگر :نام زنگی کہ با سکندر جنگ کرد شعر 12ص91 پون بازاں :پون بازاں آنکہ بر یک ساریک دہر ثانی شش و بر ثالث بر شش او تیران بر یک سار پنج بر دو دوم شش بر سوم دو آنرا تیرہ گفتہ شعر 537ص195 پوند :پوند اول مفتوح و واو ساکن و نون غنہ یعنی اول و نخست و ایں لفظ زبان پنجابی ست در عالقہ بھیرہ خوشاب ایں شال گویند شعر 917ص331 پوئے :بازی قمار پوئے یک پون دوئے دو پون پنج پنج پون چھکے شش پون شعر 85ص 144 پہاڑہ :خوشامد کنندہ شعر 158ص291 پنہیاں :آنکہ حاکماں بہ طریق بیگار آسیا کنا نند یعنی بادشاہ عشق تراہم آسیا گردانے عشق فرمودہ شعر 42 ص 263 پیٹر پنیٹر :پیچ و تاب شعر 166ص175
تراہے :مثل جنبش ناگہاں شعر 277ص 154 تاڑی :دستک زدن شعر 355ص185 تاڑی :دیدشعر 355ص185 تریہرے :کچے باراں آنکہ بریک ساکانہ باشد و بر دوم پنج و بر سوم شش آزا کچے شہر دہ دراصالح قماریان شعر 536ص195 تسلے :سختی شعر 96ص 133 تغلے :خورند شعر 24ص98 تکڑی :طاقتور شعر 23ص 111 تکیاں لہالن وگن :از دیدن آں میوہ از دہان آب شعر65 ص100 تہاراں :تیغ کوہ شعر 18ص88 توڑی :انتہا شعر 20ص98 توڑی :شکستہ شعر 20ص98
تلو پسلے :بے آرام :شعر 14ص 114 تلیاں :اول معنی کف دست دوم بمعنی سوزم ش193 ص240 تلیر :نام پرندہ شعر 23ص 111 تن حویلی :تن حویلی است دراں کہ فدا ہستی و جان ہم مکان تست شعر 264ص296 تہاڑی :ٹوپہ کہ بدو غلہ وزن می کنند ش 327ص155 تہوے :یعنی کاوے زمین شعر 79ص219 ٹال :ٹال بتائے ہندی مفتوح و ثانی مشد چوب کالں کردہ بستہ را گویند کہ در دریا برائے سوار شدن اندختہ بر او سوار شدند شعر 6ص167 ٹال :نام کوہ شعر 16ص 111 ٹنگار :ناز و نخرے شعر 66ص115 ٹنگے :آویختہ شعر 10ص128 ٹہل دیون :در دریا زنند شعر 67ص233 جال :سہ معنی دارد
اول آلہ ماہی گرفتن کہ از رشتہ تنبدہ سازند دوم بر تافتن و طاقت آں داشتن سوم سوختن یعنی آنچہ جال بنیدہ در دریا تحمل و حوصلہ کردا خاموش نشیند اگر ماہی گیر بیند ماہی گیر را غم آں می سوزد شعر 25ص333 جان :اگرچہ واقف راز دار۔۔۔۔۔دوست۔۔۔۔ ہمراہ باشد چوں بوصل یار تنہائی پسند باشد و تن کہ ہمراہ و ہمسایہ است آنکہ حجاب دارد دہیدہ باید ابا جاناں رسیدہ شعر 99 ص220 جانی :جان جان توے شعر 296ص298 جائی :اول بمعنی زائیدہ جائی بمعنی رفتن شعر 426ص 189 جریاں :طعمات کہ گوشت و ساگ آمیختہ پزند بسیار لذیذ باشد شعر 8ص 230 جستہ :نام سازیست کہ از نواختن آن با خفتہ و بیہوش شدہ را خیزانیدہ ہمہ را باز بخانہ خود روانہ گرداند
شعر 271ص 256 جگ :زمانہ گذشتہ بزبان سنسکریت شعر 3ص20 جل :آب شعر 23ص129 جلدی :اول بمعنی شتابی دوم بمعنی سوختہ شعر 13ص 265 جلے :جنبیدن شعر 21ص 168 جنڈ :گر اندا ہر دو نام درخت ہائے خار دار شعر51 ص130 جنڈ :خار جنے دی :جوان خوبصورت کی شعر 273ص181 جوڑی :جفت ' پیوستہ شد شعر 193ص150 جون :ہر قسم حیواناات شعر 282ص297 جہتباں :زخمان خار شعر 86ص 132 جی :دل شعر 27ص199 جیبی :زبان شعر 48ص99 چاٹ :شوق و لذت چہ افتاد تر شعر 801ص325
چار مہینے :قولہ چار مہینے الخ از صوفیائے کرام و دیگر فیلسوف ۔۔۔۔۔فیلسوفان ۔۔۔۔۔ آوردہ اند کہ ابتدائے وقت تعلیم چہار سال چہار ماہ چہار ایام است چرا کہ عمل نمودن نشان زیادتی علوم است شعر 49ص 51 چاندی :چہرہ مانند آفتاب بود و بینی دراں چشمہ مثل ماہی سیمیں سپید گال داشت یعنی از جلوہ رخ شب تار روشن شدے 23ص141 چاہ :چاہ دو معنی دارد ایں جا مراد ہر دو است چیزے نوشیدنے و نیز نام محبت و خواہش شعر 418ص304 چبہ :چبہ قوت است در مضافات کوہ و ریاست کشمیر کہ خود را در اقوام عالیہ مے شمارد شعر 121ص289 چتے :بےشرمی' دلیری شعر 27ص 105 چٹا پونی :بررنگ سپید شعر 336ص183 چٹکے :عشق شعر 355ص185 چر :دیگدان کالں شعر 27ص 262 چشماں :چشم کشادہ بہرجائے کہ دیدے چشم او مثل کٹار بر دل کردہ دلہا را لینا کردن شعر 14ص215
چکی :برداشتہ شعر 287ص182 چنگ :نام سازے است شعر 51ص 227 چنگوں :سارنگی شعر 135ص 147 چنن :نام درخت کہ ماربر آں باشند شعر 7ص140 چنے چباں :یعنی لوہے کے چنے مراد از تکلیف۔۔۔۔۔۔ زحمت ۔۔۔۔۔۔ بسیار شعر 429ص163 چوراسے :در فکر اندیشہ شعر 62ص 136 چوکڑیاں :جنبیدن شعر 33ص124 چوہدیں :ماہ چہار دہم بدرہ خاتون زیادہ سر سیاہ راوید حیران ایستادہ بودہ خورشید چہرہ ۔ چہرا صاعد دیدہ خورشید از شرم زیر زمین پوشیدہ بود بہ حد بست بیان بودہ شعر 584ص314 چیرے :چیرا منزلے از منازل عمارات بلند شعر 7ص 133 چیتے :اول چیتے بمعنی پلنگ دوم بمعنی ہوشیار شعر 512ص193 چیج بہوٹی :نام کرمی است کہ رنگش بسیار سرخ باشد
شعر 91ص 229 حبسی :بخشش یافتہ شعر 465ص 191 حسن میمندی :وزیرے بود شاہ محمود غزنوی ۔۔۔۔۔۔یکی از وزرای پادشاہ ۔۔۔۔۔ شعر 54ص33 حے :شہر ازاں جائے کہ سلیم نامی شتربان آمدہ بہ نجد رسیدہ بمجنون مالقی شعر 11ص 225 خاکوں:از آدم شعر 479ص369 خضر :بہت نیک اور عمر رسیدہ آدمی کو خضر سے تشبیہ دی جاتی ہے شعر 48ص22 دانے :عقلمند شعر 491ص 191 دایا :حوصلہ شعر 72ص218 دروگ :غار تاریک ش 99ص172 دل بستہ :معشوق و تن بستہ از خستگے دہم راہ بیرون بستہ و بند شدہ شعر 244ص358 دمڑی لے کروڑاں بخشیں مراد بخشش است از جناب پیر پیران شاہ کہ سوا الکھ دمڑی۔۔۔۔۔سکہ۔۔۔۔۔۔ ہر روز نیاز ایشاں در نذر شود دہندہ حاصل شود شعر 214ص178
دنگا :اگر موئے تراکے غم کند یعنی اندک دہد من بدو جنگ کنم دنگا نفح جنگ را گویند شعر 28ص 268 دنیا اے :اشارہ بایں وہا خلقت الجن و االنس یعبدون شعر 214ص294 دوہدل :شیردار ش 179ص239 دہاڑے :شب رفتہ و روز آمد شعر 88ص394 دہمیں :صبح روشن شعر 274ص 279 ڈٹھا :بارش باریدن ش 379ص160 ڈل ڈل کر دے نین :پشیمان روداری گویا در دل آید یعنی در بحر عظیم غرق شدہ اند ازیں باعث حال دل بود شعر 801ص325 ڈولی :آں محاورہ کلس یعنی فرق سر آن شعر299 ص182 ڈولی :اول بمعنی عمارہ دوم ڈولے بمعنی وجہءساخت سوم ڈولے لرزیدن شعر 306ص183 ڈولے :اول تراشیدہ دوم بازو مثل شیر شعر 19ص 265 ڈولے :بہ بازویئ ہر شیر بستہ تیار کردہ کاریگر تعویز
چوکی یعنی بازوبند شعر 125ص 140 ڈوری :حیرانی شعر 65ص233 ڈورے بھورے :نیم خواب مستانہ شعر 403ص304 ڈہاں :ختم شعر 34ص 262 ذیلے :در تابع شعر 70ص100 رام :آں کس است رام یعنی دوست او کہ عشق آں در سینہ باشد چوں عاشق را معشوق بکمال باشد ہماں یار او را بمنزلہ معبود گردو شعر 139ص272 رب مالنی :مردم را کار کردن باید حیران و مایوس نہ شدن باید کامرانی بدست ایزد متعال ست شعر 297ص155 رٹاں :شہپر شعر 157ص148 رکھی :بے لذت و بے مزہ و خشک شعر 167ص149 رن :میدان جنگ شعر 5ص77 رنگ پتنگ :رنگ تو مثل شمع بود ۔ اکنوں پروانہ پریدہ و سوختہ پرندہ شدند و پتنگ دو معنی دارد اول پروانہ دوم پتنگ کاغذی کہ ہوا می پرانند شعر 800ص325 روندی :تہ مرگ گل خوش رنگ روایت دیدران نوا خوش
نالہائے را رو است در عین وصل ایں ۔۔۔۔۔ نالہءفرہاد داشت و ما را جلوہءمعشوق در ایں کار داشت شعر 81ص 287 زال :نام پہلوان' نام پدر رستم زبور :کتابے است الہامیہ کہ بر نبی حضرت داؤد علیہ السالم نازل شدہ بود قصائد و غزل وغیرہ در و منقول است ازتیں شعرائے عجم ازاں اقتباس می کنند شعر 28ص68 زہرہ :نام ستارہ ایست بر آسمان سوم کہ سعد است و طالع از و نیک گردو شعر 260ص358 زی مسلم :مراد قصیدہ بردہ ۔۔۔۔۔۔۔حضرت رسالت مآب صلی ہللا علیہ وسلم کہ بیعت رضوان زیر درخت ببول کہ آں را در زبان عربی مسلم میگویند بدیں وجہ زی مسلم خطاب حضور پرنور را مخاطب فرمود شعر 402ص 188 سات سر۔ سرندے :ہفت سر۔ سرندے نام سازیست شعر 250ص402 سار :آہنی ہتھیار .....سالح آہنی ۔۔۔۔۔۔۔ شعر 17ص93 ستار :نام ساز شعر 355ص185
سارنگ :سے رنگ صد رنگ۔ نام راگ شعر 250 ص403 ساس اوڈن :جان بلب شعر 30ص129 سالک :اشارت ست بآن سالک کہ بمنزل قریب والیت رسیدہ در کشف و کرامات خوش شدہ مشغول انداز قرب محبوب اصلی دور د محبوب دارند منازل دیگر شعر 194ص341 سانگاں :تیاری ایشاں شعر 7ص 109 ست تار :ہفت تار سرایند شعر 355ص185 سجناں :اگر تو با من اتفاق کردی تا حیات دنیا مرا پری برتیوں خوش آمدے شعر 210ص294 سجی :خاکستر شعر 130ص147 سدھر :خواہش و طلب شعر 30ص 105 سردار جیاں :سردار جانداراں شعر 46ص99 سرسامے :نام پدر زال شعر 12ص 109 سرکردے :اول سرکردہ سسررداراں دووم سر را قربان کردن شعر 449ص 190 سرگاہیں :پامال کردن شعر 87ص 132
سعد :نام ستارہ ایست کہ سعد اکبر ست و آں قاضی فلک بر آسمان ششم باشد شعر 270ص358 سلوتر :سوال و جواب برابری شعر 183ص292 سمد :خبر نیامدن شعر 123ص 146 سنا :چنداں راز ہا کشودن نتواند کہ کار ہائے ضروری بسیار اند دیار دکر انتظار قصہ ش 67ص169 سنی :سنے بمعنی نامور شعر 60ص 227 سنسار :جانور آبی شعر 36ص169 سنگٹھاں :بندش گلوے شعر 79ص 142 سنے وزیراں :با وزیراں شعر 294ص182 سنیئر :سننے واال۔۔۔۔۔۔ کسی کے طعن و تشنع می شنود شعر 115ص248 سوانی :زنان اصیل شعر 306ص183 سودا :صد ہنر۔سودا یعنی دل۔ سودا نام مرض ست شعر 554ص312 سہور :سسرال شعر 148ص222
سوراخ درگ :غار تاریک شعر 33ص115 سہاندے :خرگوش شعر 20ص91 سہانے :نام حکیم یونان شعر 78ص53 سہیلی :خوب صفادموزدن شعر 14ص123 سہیلی اردو لفظ ہے۔ فارسی میں مونث مذکر نہیں ہے لہذا یار۔۔۔یاراں' دوست۔۔۔۔دوستاں سیاں :سہلیاں شعر 184ص 274 سیاہی:تہمت شعر 479ص369 سیلے :نام سالح جنگ شعر 6ص 109 سیاں :سہیلیاں۔۔۔۔۔دوستاں۔۔۔۔۔۔ شعر 338ص183 سیہے :خار پشت شعر 24ص115 شارت :بے الف یعنی اشارت برائے وزن دور کردہ شد شعر 527ص310 شارستانے :زالل آب بہ صفت موصوف سرد و شریں و کوزہ آں آبہائے شارستان مثل زالل بود
شعر 846ص327 شریں و شکر :ہر نام شاہزادیاں خسرو پرویز بود بسیار خوبصورت شعر 24ص142 شکر وپچن واال :شکر فروش عمرت دراز بارے چرا بہ نقصدے نکنی عندلیب شیدا را شعر 9ص 260 شمس پری :سعدین ددو ستارہ ایست وقتیکہ ہر دو از مقامے دروے طلوع شوند آن را مبارک دانند و بچہ ای در آن ساعت پیدا شد او را مبارک و نیک نہاد می دانند شعر 97ص247 شہابی :نام ستارہ کہ او را بر شیطان زنند چوں ببر آسمان رود شعر 351ص357 شہزادی :مراد ملکہ خاتون شعر 321ص183 شیرے :مراد حاجی بگا شیر درکالی شریف رحمتہ ہللا علیہ شعر 36ص20 ضاعیں :ضائع شعر 90ص 145 عجائز :نام پری مصورہ بمعنی طویل العمر شعر 26ص68 عذرا بدر منیر :عذرا بدر منیر در بالد عرب دو مشہور
عاشق و معشوق گذشتہ اند 34ص142 عنبر اشہب :نام قسمے از عنبر کہ بسیار قیمت دار باشد و بر مغز مالند شخصے بیہوشی گرمی آید و از گرمی عشق چوں بیہوش شدند آں زمان ہم بکار آید کہ مفید است شعر 51ص339 عود وجود :خود را آتش سوختہ بود خود را نابود کرد شعر 354ص 185 غول :دیوے۔۔۔۔دیواں کہ مردم را از راہ بردہ ترساند شعر 94ص 132 فرہاد :فرہاد شہزادہ چین بود زنجار در اخبار دیدہ شدہ مولوی نظامی و امیر خسرو این فرمودہ در شرین و خسرو آں عشق کہ ما ایشاں ظلم یا عدل کرد ہماں عشق جانب بدیع الجمال شعر 215ص 276 فرہاد :فرہاد شنیدہ بود کہ شیریں ازیں جہاں رفت فرہاد نیز برائے جستجوئے او بداں جہاں رفتہ و از بر داشتن غم عاجز شدہ شعر 37ص130 قابو :گرفتار شعر 44ص 106 قائم سما :بجائے شیشہ و گل کار از کردہ شدہ و گروہ اش
مثل آسمان گردندہ و آں گنبد است شعر 59ص125 قرانی :نزدیکی شعر 24ص 114 قالچ :سہ نیم ہفت کہ دو گز باشد قدر کم عر 344 ص300 قلم ربانی :قلم ربانی در دست ولی است ہہر چہ خواھد بنوید شعر 60ص169 کاٹھی :پرات چوبی شعر 28ص 114 کافوں :کاف و نون مراد از کن فیکون شعر 249ص 403 کان :برائے فرزند دعا مے کردے شعر 58ص169 کرپا :مہربانی ش 379ص160 کپر :برسرخود شعر 133ص222 کتھا :بیان شعر 22ص123 کٹھا :زوند بدن و سینہ جمع کنم شعر 282ص297 کٹھاں :گوشہ ہا شعر 70ص101 کج :دو راز دوستی من بگریز ست شعر 211ص294 کراری :نمکین و لذیذ شعر 28ص123
کریوں :شتر شعر 16ص 28 کستہ کردہ شعر 26ص 111 کل :نسل من 344ص 184 کالں :شیر از جادو تیار کردہ نہادہ کہ حملہ اندک کردند شعر 111ص 139 کالں :حکمت آنچناں برائے ترسائیدن دیگراں نہادہ اند شیر جہاندار نبود شعر 118ص 139 کلچیٹ :۔۔۔۔۔۔ کلچیت۔۔۔۔۔۔۔ پرندہ ایست کہ خوش گلو باشد شعر 13ص17 کلس :فق سسراں شعر 305ص183 کلی :قلعی شعر 36ص33 کمام :کارہائے شعر 56ص201 کماناں :مژگاں شعر 12ص123 کن :کدام شعر 98ص 145 کنڈ :پشت دادہ براے اینکہ سوئے ایشاں نہ بینی شعر 91 ص127
کنڈھی :کنارہ دریا شعر 26ص168 کنڈے دی اری :پشت مثل آرہ برکشتی زدہ او را پارہ پارہ کردن شعر 90ص101 کنگ :لفظ اصلی کنگاش است بمعنی مشورہ' باہم صالح کنندہ شعر 150ص223 کوکھ :شکم شعر 336ص183 کوہ کوہ :پہاڑ ش کیں :کس در شعر 27ص80 گاتر :دونے کہ تیغ در گردن بداں آویزند و کمر دوال کمر ہ بداں کمربہ بند دو مردان جنگ قسم بداں کنند شعر 251ص 296 گٹھے :خاک' گم شد شعر 101ص 145 گڈیاں :گڈیاں کہ دختران در اول عمر بایشاں بازی کننددہ و باہم نشستہ بیک دیگر ازدواج کنند شعر 137ص272 گزاری :روز رفت و شب رسید شعر 72ص 228 گل داؤدی منہ دے وانگر :سرنگوں نہادہ شکل پستان نوخاستہ شعر 2 8ص141
گلگل :نام میوہءترش شعر 259ص 278 گمانی :چال شان دار شعر 17ص91 گرنڈے :خار گنگی :آب گنگ بسیار صاف است شعر 424ص412 گنیاں :ہنرمند چہ کن بکاف فارسی مضموم بسکون نون ہندی مردارا گویند در زبان ہندی شعر 26ص199 گوراں :قبراں شعر 109ص 495 گوڈریاں :گلیم ہا شعر 50ص280 الڈ :بر ناز او غرہ نباید شد چرا کہ اول بناز فریب دادہ شیفتہ خود کند چنانچہ برادران یوسف اول بدوش برداشتند باز بچاہ انداختند شعر 5ص97 لتڑایا :دراز شد گو در خواب شد شعر 51ص130 لکھے دھر درگا :لکھی یعنی نوشتہءتقدیر ش141 ص237 اللی :سرخی شعر 84ص234 لوالکی :لوالکی مراد ایں است کہ ہللا ثعالی نبی علیہ السالم را ارشاد فرمودا گر ترا پیدا نہ کردم چیزے را نیا وردم شعر
7ص 332 چیزے ہم تخلیق نمی کردم للکریاں :در جوش آمدہ حملہ نمودن شعر 67ص393 لندھور :نام پہلوان شعر 14ص 109 لنگر :لنگر کشتی شعر 12ص91 لنگوٹیا :تہ بند بستہ شعر 17ص129 لوں :باد گرم سخت کہ در ماہ جیٹھ و زد شعر 50ص130 لوہکی :صغر سنی شعر 26ص83 لوہندی :نام جانوریست کہ بر باز غالب باشد شعر 260 ص211 لوں لوں :مو بمو شعر 271ص297 لوہڑے :پنیرم تراشدہ صاف و نگہدار کردہ شعر 19ص 265 لہورے :شکایات; گلہ گزاری ش 222ص241 لویں :ساقیان جوان و شراب کہنہ کہ بسیار نشہ دارد باشد شعر 20ص95
لوے :برگ آمدہ نازک ونرم شعر 79ص 137 لئی :ہمراہ کردہ خود شعر 509ص193 لی مع ہللا وقت :حدیث شریف شعر 14ص 225 لیک :شگاف شعر 50ص233 لیلی :اول بمعنی شب امروزہ دوم بمعنی شب ہائے گذشتہ سوم بمعنی معشوقہ مجنوں چہارم بمعنی حاصل کردم ش74 ص246 مس :اغاز ریش شعر 71ص264 مسکر :نام سازیست کہ از نواختن آن شنوندہ بیہوش میگرد شعر 267ص 256 مستورہ :باحجاب شعر 113
ص236
مضحک :نام سازیست کہ از نواختن آن شنوندہ را خندہء بسیار می آید شعر 268ص 256 منوم :نام سازیست کہ از نواختن آن خواب بسیار مغز آید ہر شنوندہ را شعر 269ص 256 مالی :یعنی باغبان اولیا ش 62ص169 مانی ارژنگ :2نام مصور چین شعر 32ص57
ارژنگ مانی :کتاب مانی ماہی :عاشق بمراد رانجھا شعر 28ص 262 مایا :دولت بےحساب شعر 412ص 188 مچھ کچھوے :جانوران آبی کہ نقصان رساں اند شعر 198ص208 محصول :دادنے دار محصولی عمر و جنس نقد بدست کن تا آں رفت بکار آید شعر 49ص263 مرجنت :شاید کہ باشم۔۔۔۔ جنت در آمدہ ام ورنہ من شایستہ چنیں عیش کجا بودم شعر 507ص309 مرگ :ہرن شعر 20ص91 مرمکی :مردہ تمام شدن شعر 287ص182 مساں مساں :باہزار حیلہ شعر 95ص102 بمشکل مصبر :مصبر دارد است تلخ دافع درد و ہلیلہ بلیلہ درد شکم از بادی نزول آید رفع شود بوقت خوردں و بےمزہ و بیرون آمدن خواہد درد شکم رفتن شعر 578ص197 معشوق :عاشق و معشوق را در عیش وصال دید فراق در
غضب آمد و گفت کہ شما را سزاے سخت خواہم داد در عشق' عیش' گناہ کبیرہ ست چرا کہ دید شعر 606 ص315 مقرہ :ضرور شعر 65ص90 منتر روئی :آں زنی کہ او را ڈائن گویند شعر 14ص 114 منہ کھروکنار :نام امراض چارپایان شعر 561ص312 موہرا توالں :ظاہر کردن شعر 27ص 105 میناں :مقابلہ جانورے کہ ہمندیش میناں گویند آں گفتے من پیدا نہ شدے شعر 84ص 137 فارسی میں خوشبو کا مطلب ہے اچھی خوشبو واال۔۔۔۔والی شعر 69ص 228 ناری :زن شعر 479ص369 ناری :آتش شعر 479ص369 نجد :نجد کوہیست کہ حضرت مجنوں بر آں بودے شعر 5 ص 133 نڈھی :نوعمر' وڈی' بزرگ شعر 75ص126 نگاہنے :پا برہنہ شعر 97ص 133
نگھرگیاں :غرق شدہ شعر 339ص183 نمیں :یک روز در شکم مادر افتادیم و یک روز زادیم شعر 40ص99 نونہال :خوبرو عاشق گلبدن یعنی نوجوان دیدن مثل گل و سادہ و دہیز او شعر 14ص 265 نوہنہ :سرخ مانند قلم شنگرف نویس از نوشتن کلمہءخونی عشق سرخ بودند 15ص141 نئیں قیاساں :در قیاس نہ آیند 234ص179 نویں خوشبو :از سرنو خوشبو رسیدش بوی خوش رسیدن واتوں :دلہن شعر 333ص 184 واس :جائے سکونت و مسان نام قسمے از دیو باشد شعر 96ص 132 واسط :نام شہر اشہر است شعر 241ص179 واہو واہی :شتابی' پے در پے نالہا۔۔۔۔ نالہ ہائے شیون' دردناک شعر 66ص264 وٹائی کایاں :صورت اصل را مبدل بصورت دیگر کردن
شعر 174ص149 وٹے:ددل بدل کردند با یکدیگر و معنی دوم آنکہ مستک بادل نہادہ یعنی دل سخت شعر 379ص302 وسئوں :آبادی شعر 2ص 72 ول :دو معنی دارد یکے طرف دوم صحت یابی شعر4 ص93 وہڑیاں :بمعنی مرد سانہ مشک کہ بر زلفہاے ساختہ ش 147ص174 وہن :موج دریا شعر 68
ص234
ویر :برادر شوہر ش 147ص174 ہاتھی عاشق :فیل عاشق است و دلبر فیل بان بار بار او را دلیر کند بہ خون عشق شعر 585ص 264 ہار :مانند شعر 480ص369 ہاہڑ :دندان بزرگ شعر 16ص113 ہاسے :فن سپاہ گری در وصف مرداں و ناتواں باداگر خالف عجم شعر 251ص296 ہتھ ڑئیں :دست بدست شعر 30ص112
ہتھ مارے :از کشش دل دست شعر 276ص297 ہتھی:در دست دادہ شعر 87ص 117 ہٹر :عذر بہانہ شعر 213ص294 ہڑے :کانگ شعر 19ص98 ہسیرے :داغ جدائی بمعنی غمزدہ شعر 445ص 190 ہشدھاتی :ہشت دھات ۔۔۔۔۔ ہشت دہ۔۔۔۔۔۔ شعر 50ص 136 ہفت اندام :دریں جادو معنی دارد اول مراد از تن کہ مرشد ترک او فرماید و دوم از گیکہ برائے دفع خون غلیظ کشایدش شعر 164ص 273 ہک ارم :غزالہءصحرا ش 135ص237 ہک :ہک اول یعنی بار اولین دوم سینہ شعر 77ص219 ہگاڑ :باز کردن چشم شعر 49ص 233 ہما :پرندہ ایست خیالی حکماے گفتہ اند کہ پرندہ ہما اگر بدست کسے افتد بادشاہ می گردد ص 297 ہنجواں :سنگ چقماق کہ ازاں آتش بر آرند شعر18 ص129
ہنگالئی :خواب نرم شعر 182ص 274 ہنیری :روز رفت و شب آمد شعر 84ص39 ہنیاں :عاجز و بےزور شعر 103ص 288 ہور :چناہ میوہ بود کہ مثل او مثل سر آدمی بود چوں شب شدے دندان بر زمین آمدے' چوں روز شدے بازیر شاخ بجائے خود رفتے و نیز شعلہ وآتش ازاں درخت ۔۔۔۔۔ چوں ہیچ آثار آتش نمودے شعر 104ص102 یاجو :قوم یاجوج و ماجوج کہ ذوالقرین آناں را مفید کردہ بود شعر 37ص 105 یاسمین :نام گل سپید شعر 266ص 278 یوسف :آوردہ اند حضرت یوسف در شکل و صورت بر ہمہ انساناں گوئے سبقت بردہ بود کسیکہ می دید فریفتہ می گرددید شعر 24ص67 بھا :معلوم کردہ شدہ شعر 661ص318 بھتریجی :برادر زادی شعر 244ص 179 بھانج :دویدن پسپا شدن۔ پشت نمودن بای دشمن میدان خالی کردن وغیرہ شعر 24ص385
بھاوس :پسندیدہ شعر 330
ص300
بھائی :برادر شعر 66 بھس :خاک شعر 93ص 71 بھنبل :بھوسے لفظ مرکب خستہ حال و سرگردان می روم شعر 257ص153 بھنک :چیزے اندک ایں لفظ باول مکسور بہ ثانی موم و ثالث زدہ و کاف فارسی چیزے نرم شعر 212ص 253 بھننی :اندازہ بدن' کمر باریک و سینہ فراخ شعر270 ص181 بھور :عاشق بھور و بلبل دو سیر ش 66ص169 بھوکس :خوف شعر 161ص 121 بھیراں :نقارہ شعر 11ص167 پھرلے :عالج کارگر شد شعر162ص275 پھرناں :جگر شعر 9ص97 پھرناں :سینہ شعر 9ص77 پھنڈا :فربہ شدہ شعر 298ص182
پھک :خردہ شعر 166ص 273 پھکا :بےلذت شعر 172ص292 پھکی :بےقوت ۔۔۔۔۔ بالنمک و فلفل سرخ۔۔۔۔۔۔ شعر 5 ص282 پھل اللے :گل اللہ۔ نام گل سرخ داغدار لہ لہ یعنی روشن و درخشاں شعر 44ص99 پھروالں :ظاہر کردن شعر 25ص 105 پھیر :پا پیادہ شعر 290ص 257 تھرتھلی :تباہ می شدے مفتح دوم مشدد و چوب کالں باہم بستہ برائے سوار شدن بر دریا و تھرتھلی یعنی جنبش زیر و باال شدہ گگن ۔۔۔۔۔ہر دو کاف فارسی ۔۔۔۔۔ باول مفتوح با ثانی شدہ باال اسمائے و تپاں باول دو مفتوح فارسی تمام زمین را گویند اصل آنکہ آں ٹلہ را جنبش چناں آمد کہ چون زیر شدے زیر زمین رفتے و چوں باال شدے بر بلندی آسمان رفتے شعر 37ص169 ٹھاٹھ :موج شعر 19ص98 ٹھلیوس :در آب چاہ شدن شعر 206ص293
جھلی :قبول نہ کردی شعر 481ص369 جھنگاں :عضو و اندام شعر 687ص319 جھنگڑ :انبوہ دختاں شعر 110ص 119 جھوالں :موج کالں شعر 30ص98 چھپن :جائہائے پوشیدہ شدن ......جاہای پوشیدہ شدن۔۔۔۔۔۔ شعر 13ص 134 چھٹ :بزدوے ربائیدن ۔۔۔۔۔ربودن ۔۔۔۔۔شعر 163ص175 چھٹی :نصیبہ ش 379ص 160 چھٹالئے :در بہوشی چشم بند شد شعر 281ص155 چھجلپ :مار سیاہ از خواب لرزاں شعر 184ص274 چھڑیاں :دست و پاے دے شعر 116ص 119 چڑھیا :پسند آمد شعر 5ص123 چھکوں :کشش شعر 6ص97 چھم چھم :متواتر آواز تبراں ۔۔۔۔۔ صدای پیہم تبرہا ۔۔۔۔۔ شعر 5ص 109 چھوپے :چھوپے بداں را گویند کہ دحتران جمع شدہ محفل
خود مے کنندہ چھوکریاں :کنیزاں شعر 17ص95 چھوہ :کمین گاہ شعر 62ص233 چھوہارے :خرما شعر 83ص234 چھیکڑ :آخر و تمامیت شعر 65ص131 دھاراں :کنگرہءکوہ شعر 81ص219 دھاراں :شیر شعر 18ص88 دھاراں :دلیل کنم شعر 18ص88 دھاڑاں :فوج شعر 18ص88 دھانی :روان شدن شعر 319ص183 دھتولر :در ایں خانہ' محل' شاہی اقامت گاہ دھرم :مراد از دھرم چرا کہ ایں کتاب بزبان پنجابی تصنیف شدہ است ازیں اکثر محاورات بھاشا سنسکریت مصنفش می آرد ش 325ص 157 دھروتی :امان شعر 30ص123 دھولر :جائے نشتن بیگمان بادشاہ شعر 198ص 342
دھولے :موئے سفید شعر 12ص 109 دھونسہ :نقارہ شعر 2ص91 دھی :دختر شعر 284ص182 دھیاں :دختراں پیدا شوند نہ طفل شعر 68ص125 ڈھاہاں :مسمار کردن شعر 34ص 262 ڈھولے :نام زیوار شعر 125ص140 ڈھیری :آنانکہ تکیہ بر ذات ایزدی نہادہ اند ہر مشکلے کہ افتد نمی بنیند و کامران می شدید شعر 407ص161 کھپائے :غرق کردن۔ احوال یاراں پیشینہ و حال یاران چال کہ دریں زمانہ اند ش 147ص174 کھڑیاں:شگفتہ شعر 44ص 232 کھناں :خنجر آبدار کہ از صفائی باریک ترین است شعر 112ص221 کھوہ :چاہ شعر 260ص 255 کھیروں کھیروں :جدا جدا شعر 54ص100 گھا :زخم نو شعر 234ص 152
گھس :برطرف دیگر شد شعر 63ص100 گھگی :نام جانور یکہ طوق در گردنش باشد او گفتے کشتہ مرا جناں کارد امر شعر 86ص 137 گھوگھی :نام جانوریست۔۔۔۔۔پرندہ۔۔۔۔۔۔ کہ خاک رنگ باشد قد برابر کبوتر و در گردن طبق سیاہ دارد شعر 5ص212
حافظ شیرازی کی شاعری اور اردو زبان
نام :شمس الدین محمد نام والد :بہاؤ الدین
پیدائش :شیراز‘ ایران سن پیدائش١٣٢٠ :یا ١٣٢٥ حافظ قرآن تھے؛ اسی حوالہ سے حافظ‘ شیراز کے حوالہ شیرازی‘ تو گویا اس طرح حافظ شیرازی معروف ہوئے۔ باپ کو سن سن کر‘ قرآن مجید حفظ ہو گیا۔ ان ہی سے سن کر سعدی‘ رومی‘ نظامی اور عطار جیسے بڑے شعرا کا کالم یاد ہو گیا۔ بالشبہ‘ وہ غضب کا حافظہ رکھتے تھے۔ اکیس سال کی عمر میں‘ ایک خاتون سے عشق بھی ہوا۔ اکیس سال کی عمر میں‘ عطار سے مالقات ہوئی اوران کی شاگردی اختیار کی۔ درباری بھی رہے‘ جس سے شہرت میسر آئی۔ ملکی ناگواری حاالت کے تحت اصفحان کی مہاجرت اختیار کی۔ باون سال کی عمر میں شاہی دعوت پر واپسی اختیار کی۔ ان کی شاعری‘ پانچ سو غزلوں‘ بیالیس رباعیات اور کچھ قصائد پر مبنی ہے۔ یا ١٣٨٩میں‘ انہتر سال عمر پا کر انتقال کیا۔ ١٣٨٨ حافظ شیرازی کی شاعری اور اردو زبان
اردو اور فارسی انتہائی قریب کی زبانیں ہیں۔ ان دونوں کے مابین‘ حیرت ناک لسانیاتی مماثلتں موجود ہیں۔ درج ذیل سطور میں حافظ شیرازی کی شاعری کے تناظر میں‘ اردو کا لسانیاتی مطالعہ کی ناچیز سی سعی کی گئی ہے۔ یقین ہے احباب کو خوش آئے گی۔ حافظ کی شاعری ورفتگی کی بہترین مثال ہے۔ اس ورفتگی کی بنیادی وجہ خوب صورت مرکبات کی تشکیل اور ان کا برمحل استعمال ہے۔ ان کی شاعری میں مختلف نوعیت کے استعمال ہونے والے یہ مرکبات اردو والوں کے لیے نئے اور ناقابل فہم بھی نہیں ہیں۔ باطور نمونہ چند ایک مرکبات مالحظہ فرمائیں۔ اضافتی مرکبات برق عصیاں‘ تیغ اجل‘ بحر عشق‘ اف ِ ت ا َیّام‘ ایئن پادشاہی‘ ِ ِ ت بیدار‘ را ِہ گنج‘ رسم جرم ستارہ‘ چشم خماری‘ دول ِ ِ سنگ خارہ‘ شادی ی ِار‘ شطرنج بدعہدی‘ را ِہ دل‘ زخم نہاں‘ ِ
قصر دل‘ گنا ِہ رنداں‘ طریق ادب عزم صلح‘ غمزہ خطا‘ ِ طالع‘ مرغ دل‘ مرغ بہشتی‘ مجال شاہ‘ مجال آہ‘ منزل اسائش عطفی مرکبات آب و رنگ و خال و خط‘ جان و دِل‘ دانہ و اب‘ دشمن و دوست‘ راہ و رسم‘ رسم و راہ‘ شیخ و زاہد‘ قرار و خواب‘ مال وجاہ‘ مرغ و ماہی‘ موج و گردابی‘ نالہ و فریاد‘ یار و اغیار اندیشہ ء امرزش‘ ترانہ ء چنگ‘ چشمہء خرابات‘ خرقہ ء مے‘ طریقہء ِرندی‘ گوشہ ء میخانہ پروائے ثواب‘ دعائے پیر مغاں‘ کوئے نیک نامی صفتی مرکب شـب :تاریک و بیم شـب تاریک و بیم موج و گردابی چنین ھایل
عنبر افشاں :عنبر افشاں بتماشائے ریاحیں امد ریاحیں :عنبر افشاں ریاحیں ریحان وغیرہ قصر دل افروز کہ منزل گہہ اُنسی ای ِ قصر :دل افروز ِ خوابم بشداز دیدہ درین فکر جگر سوز فکر :جگر سوز تشبیہی مرکب ہر دیدہ جائے جلوہء آں ماہ پارہ نیست آں :ماہ پارہ ۔۔۔۔۔ وہ :ماہ پارہ کچھ غزلیں ایسی ہیں جن کے ہر شعر کا پہال لفظ اردو والوں کے اجنبی نہیں۔ ذرا اس غزل کو دیکھیں۔ دل می رود ز دستم صاحبدالں خدا را
دردا کہ راز پنہاں خواہد شد آشکارا دل‘ دردا‘ کشتی‘ باشد‘ با دوستاں‘ در‘ گر‘ حافظ‘ اے اس میں ایک لفظ باشد الگ سے ہے ورنہ ہر لفظ اردو والوں کے استعمال میں ہے۔ ان کی بیشتر غزلوں کے قوافی‘ اردو میں مستعمل الفاظ ہی نہیں‘ باطور قوافی بھی استعمال میں آتے رہے ہیں۔ حافظ :کی فقط دو غزلوں کے قوافی مالحظہ ہوں
1 بحر عشق کہ بہیچش کنارہ نیست بحریست ِ آن جا ُجز اینکہ جاں بسپارند چارہ نیست کنارہ‘ چارہ‘ استخارہ‘ کارہ‘ ستارہ‘ پارہ‘ آشکارہ‘ خارہ 2
زاہد ظاہر پرست از حال ما آگاہ نیست در حق ما ہر چہ گوید جائے ہیچ اکراہ نیست آگاہ‘ اکراہ‘ گمراہ‘ شاہ‘ آہ‘ نآگاہ‘ ہللا‘ درگاہ‘ کوتاہ‘ راہ‘ گاہ جاہ بعض غزلوں کے ردیف اردو والوں کے لیے اپنے سے ہیں۔ مثال ایک غزل کا ردیف آمد ہے۔ لفظ آمد اردو میں عام استعمال کا لفظ ہے۔ حافظ کی شاعری کی زبان‘ عرصہ دراز کی فارسی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے‘ کہ اس کا تکیہءکالم اور طرز تکلم کی کئی ایک مثالیں‘ آج بھی اردو والوں کے لیے نئی نہیں ہیں۔ یہ مانوس ہی نہیں‘ آج بھی رائج ہے۔ اردو میں بالنے کے لیے اے مستعمل ہے۔ مثال اے لڑکے فارسی میں بھی اے بالنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
مثال اے شاہد قدسی اے شاہد قدسی کہ کشد بن ِد نقابت پنجابی میں بالنے کے لیے وے مستعمل ہے۔ مثال وے نور جماال فارسی میں بھی وے بالنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جیسے وے مرغ بہشتی وے مرغ بہشتی کہ دہد دانہ و ابت یہ صیغہءمخاطب‘ شاید پنجابی ہی سے‘ فارسی میں منتقل ہوا ہے۔ کجا کجا فارسی لفظ ہے‘ لیکن پنجابی میں فارسی معنوں اور پنجابی طور کے ساتھ عمومی استعمال کا لفظ ہے۔ مثال
:فارسی چراغ مردہ کـجا شمـع آفـتاب کـجا صـالح کار کـجا و مـن خراب کـجا :پنجابی گوشت روٹی کجا دال روٹی کجا کجا پہکھ ننگ کجا تخت سکندری کجا پہکھ ننگ کجا بادشاہی اردو میں لفظ کہاں استعمال میں آتا ہے حافظ کے ہاں مستعمل سابقے الحقے اور ان سے ترکیب پانے والے الفاظ‘ اردو میں عام استعمال کے ہیں۔ مثال سابقے بد ھمـه کارم ز خود کامی به بدنامی کشید آخر
نا ہر چہ ہست از قامت ناساز بی اندام ماست ز عشـق ناتـمام ما جمال یار مستغنی اسـت بے تنہا جہاں بگیرد و بےمنت سپاہی الحقے یہ لفظ اردو میں عام استعمال کے ہیں :مے آلود‘ ظاہر پرست‘ میخانہ‘ خانقاہ‘ عذر خواہ‘ تکیہ گاہ‘ سبک بار‘ سـعادت مـند مزید اردو کے الحقوں سے بننے والے الفاظ :گردآلود بت پرست‘ کتب خانہ‘ خانقاہ‘ خیر خیر‘ عید گاہ‘ گراں بار‘ عقیدت مند آلود‘ بار‘ پرست‘ خانہ‘ خواہ‘ قاہ‘ گاہ‘ مـند
حافظ بخود نپوشد ایں خرقہ ء مے آلود زاہد ظاہر پرست از حال ما آگاہ نیست منم کہ گوشہ ء میخانہ خانقاہ من ست نوائے من بسحر آہ عذر خواہ من ست فراز مسند خورشید تکیہ گاہ من ست کـجا دانـند حال ما سبک باران ساحـلھا جوانان سـعادت مـند پـند پیر دانا را حافظ کے ہاں استعمال ہونے والی تلمیحات‘ اردو والوں کے لیے غیرمانوس نہیں ہیں۔ مثال برق عصیاں بر ادم صفی زد جائیکہ ِ بر اہرمن نتابد انوار اسم اعظم ز پادشاہ و گدا فارغم بحمدہللا گفت برخیز کہ اں خسرو شیریں امد
در حشمت سلیمان ہر کس کہ شک نماید گفتم خوش اں ہوائے کز باغ خلد خیزد اال یا ایھا الـساقی ادر کاسا و ناولـھا حضوری گر ھمیخواھی از او غایب مشو حافظ مـتی ما تلق من تھوی دع الدنیا و اھملـھا حافظ کے ہاں ضدین کا استعمال‘ اردو والوں سے مختلف نہیں۔ دو ایک مثالیں مالحظہ فرمائیں۔ ساقیا مے بدہ و غم مخور از دشمن و دوست ز پادشاہ و گدا فارغم بحمدہللا سـماع وعـظ کـجا نغمـه رباب کجا چراغ مردہ کـجا شمـع آفـتاب کـجا متعلق الفاظ کا استعمال بھی اردو والوں سے مختلف نہیں۔
در طریقت ہر چہ پیش سالک آید خیر اوست کایں ہمہ زخم نہاں ہست و مجال آہ نیست حافظ کے ہاں‘ شاعری کے مختلف انداز اختیار کے گیے ہیں۔ ان میں سواال جوابا یا مکالماتی انداز بھی اختیار کیا گیا ہے۔ یہ انداز اردو والوں کے لیے الگ سے نہیں ہے۔ حافظ کی ایک پوری غزل اس انداز میں ملتی ہے۔ مطلع کے دونوں مصرعوں میں‘ پہلے سوال پھر جواب گفتم غم تو دارم گفتا غمت سر آید گفتم کہ ماہ من شو ،گفتا اگر برآید باقی غزل میں ایک مصرعے میں سوال دوسرے مصرعے میں جواب گفتم ز مہرواں رسم وفا بیاموز گفتا ز ماہ رعیاں ایں کار کمتر اید
ہم مرتبہ لفظوں کا بھی بالتکلف کر جاتے ہیں۔ مثال جرم ستارہ نیست جاناں گنا ِہ طالع و ِ مصرعے کے مصرعے اردو والوں کے لیے‘ مانوس سے ہیں۔ تفہیم میں دقت پیش نہیں آتی۔ مثال سـماع وعـظ کـجا نغمـه رباب کجا چراغ مردہ کـجا شمـع آفـتاب کـجا رس عاشق مسکیں امد نالہ فریاد ِ انوار پادشاہی اے در ُرخ تو پیدا ِ صد چشمہ اب حیواں از قطرہ سیاہی ت ہیچ اِستخارہ نیست کار خیر حاج ِ در ِ آخری مصرعے میں‘ لفظ نیست اردو میں مستعمل نہیں لیکن لفظ نیستی بامعنی کاہلی سستی استعمال میں ہے۔
نیست کو نہیں میں بدل دیں۔ ت ہیچ اِستخارہ نہیں کار خیر حاج ِ در ِ اردو اور فارسی کی حیرت انگیز ماثلتوں کو دیکھ کر‘ اس تذبذب میں پڑ جاتا ہوں‘ کہ اردو فارسی سے یا فارسی اردو سے متاثر ہے۔ یہ الگ سے کام ہے‘ کہ دونوں کا ماضی کیا تھا۔ اس حقیقت کا کھوج لگانے کے لیے‘ سنجیدہ اور غیرجانب دار سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
گورنمنٹ اسالمیہ کالج قصور اور فارسی زبان و ادب
اہل فارس کا‘ برصغیر سے صدیوں کا نہیں‘ ہزاروں سال کا تعلق ہے۔ سماجی معاسی اور سیاسی تعلق کے عالوہ‘ ان کی رشتہ داریاں بھی رہی ہیں۔ یہاں تک کہ برصغیر کے یودھا‘ ایرانی فوج میں شامل رہے ہیں‘ جس سے باہمی
اعتماد کا پہلو‘ واضح طور پر سامنے آتا ہے۔ علمی ادبی سانجھوں کو بھی کسی سطع پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انگریزی تعلیم سے پہلے‘ درس گاہوں میں فارسی کا چرچا تھا۔ پڑھائ کا آغاز ہی سعدی شیرازی کی‘ گلستان اور بوستان سے ہوتا تھا۔ ناصرف فاری کتب کا مقامی زبانوں میں ترجمہ ہوا‘ بلکہ یہاں کے مقامی اہل علم حضرات نے‘ قابل قدر کتب فاری زبان میں تصنیف کیں۔ بعض کتب کو بے حد پذیرائ حاصل ہوئ اور انھیں سند کا درجہ حاصل رہا۔ ان کتب کے مقامی زبانوں میں تراجم ہوئے۔ کچھ تراجم‘ آج بھی کئ دینی مدارس کے کورس میں داخل ہیں۔ اس حوالہ سے عملی تعلق واسطے کی براہ راست صورت سامنے آتی ہے۔ یہ پہلو‘ فارس سے تعلق کا واضح ثبوت ہے۔ بات یہاں تک ہی محدود نہیں فارسی کی آوازیں اور الفاظ‘ کسی ناکسی صورت میں‘ آج بھی مقامی زبانوں میں داخل ہیں۔ اس امر کا قدرے تفصیلی جائزہ‘ میں اپنے مضمون ‘فارسی کے پاکستانی زبانوں پر اثرات‘ میں پیش کر چکا ہوں۔
گورنمنٹ اسالمیہ کالج قصور‘ پاکستان‘ کا بھی فارسی سے گہرا رشتہ رہا ہے۔ یہاں فارسی ناصرف تدریسی مضمون رہا ہے بلکہ اس کالج سے متعلق اہل قلم نے بھی بساط بھر اپنا کردار ادا کیا ہے۔ جس کی تفصیل درج کر رہا ہوں۔ ہو سکتا ہے‘ کسی ناکسی سطع پر‘ اہل تحقیق اور اہل ذوق کے کام کی نکلے۔ میں یہاں تالش کے بعد میسر آنے والی معلومات درج کر رہا ہوں ہو سکتا ہے‘ کوئ کام میری کوشش کے داءرہ میں نہ آ سکا ہو۔ اسے میری کوشش کی کم کوسی نہ سمجھا جاءے بلکہ وقت کی دھول نے بہت سے نقوش کو غاءب کر دیا ہے۔ کسی دوسرے محقق کی سنجیدہ کوشش سے ممکن ہے‘ وہ کام بھی منظر عام پر آسکے گا۔ پروفیسر غالم ربانی عزیز کالج کے پہلے پرنسپل تھے۔ وہ عربی‘ فارسی‘ اردو اور انگریزی زبانوں پر دسترس رکھتے تھے۔ انھوں نے دیوان غنیمت کنجاہی‘ مثنوی غنیمت کنجاہی‘ دیوان واقف بٹالوی‘ دیوان دلشاد پسروری‘ کلیات آفرین جلد اول اور قصاءد آفرین کی تصیح وترتیب کا کام انجام دیا۔ آخری کتاب کے عالوہ تمام کتب شائع
ہوئیں۔ مزید براں انھوں نے‘ غنیمت کنجاہی سے متعلق‘ کالج میگزین کے لیے تین مضامین دیے۔ غنیمت کی شاعری
١٩٦٠
غنیمت کی شاعری کا ایک پہلو ٦٢-١٩٦١ غنیمت شکایت روزگار ٦٣-١٩٦٢ احمد یار خاں مجبور اردو پنجابی اور فارسی کے شاعر تھے۔ انھوں نے عمر خیام کی رباعیات کا چھے مصرعی‘ پنجابی ترجمہ بھی کیا۔ تین رباعیات کا اردو میں ترجمہ کیا جو ایم فل کے مقالہ ‘بابا مجبور شخصیت فن اور شاعری‘ مملوکہ عالمہ اقبال اوپن یونیورسٹی‘ اسالم آباد میں موجود ہے۔ مقصود حسنی کالج ہذا میں اردو کے استاد رہے ہیں۔ ١٩٩٦میں ان کی ‘کتاب شعریات خیام‘ شائع ہوئ۔ اس
کتاب میں عمر خیام۔۔۔۔۔ سوانح و شخصیت اور اس کا عہد رباعیات خیام کا تنقیدی و تشریحی مطالعہ رباعیات خیام کے شعری محاسن عمر خیام کے نظریات و اعتقادات عمر خیام کا فلسفہ وجود عمر خیام سے متعلق مواد کے عالوہ چوراسی رباعیات خیام کا سہ مصرعی ترجمہ بھی پیش کیا گیا۔ کتاب میں ڈاکٹر عبدالقوی ضیا‘ ڈاکٹر آغا سہیل‘ ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی‘ ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی‘ ڈاکٹر اسلم ثاقب‘ ڈاکٹر اختر علی‘ ڈاکٹر وفا راشدی‘ ڈاکٹر صابر آفاقی‘ ڈاکٹر منیرالدین احمد‘ پروفیسر کلیم ضیا‘ پروفیسر رب نواز ماءل‘ پرفیسر اکرام ہوشیارپوری‘ پروفیسر امجد علی شاکر‘ پروفیسر حسین سحر‘ بروفیسر عطاالرحمن‘ ڈاکٹر رشید امجد‘ ڈاکٹر محمد امیں‘ علی دیپک قزلباش‘ سید نذیر
حسین فاضل شرقیات کی آرا شامل ہیں۔ مقصود حسنی نے قرتہ العین طاہرہ کی فارسی غزلوں کا اردو اور پنجابی میں ترجمہ کیا۔ مزید براں میاں محمد بخش کی پنجابی مثنوی ‘قصہ سفر العشق‘ کے فارسی حواشی کو جمع کیا۔ کالج میگزین االدب میں پروفیسر منشا سلیمی کے دو مضمون بعنوان امیر خسرو کی غزل گوئ ١٩٥٩ بادہءحافظ ١٩٦٠ شائع ہوئے۔ دو مضمون پروفیسر اکرام ہوشیاری کے‘ درج ذیل عنوانات کے تحت شائع ہوئے۔ شیخ سدی شیرازی
٧١- ١٩٧٠ شیخ سدی شیرازی ٨٧-١٩٨٦ ان مضامین کے عالوہ سات مختلف موضوعات پر االدب میں مضامین اشاعت پذیر ہوئے پاکستان و فارسی زبان فیاض احمد ١٩٥٨
١-
امیر خسرو کی تصانیف کی تاریخی حیثیت قمرالحق ١٩٥٨
٢-
پروفیسر وحیدہ شیخ پروین اعتصامی ١٦٦٦
٣-
حافظ شیرازی
ارشد شیخ ١٩٦٦
٤-
موالنا روم اور ان کی تعلیات شمشیر خاں ٦٨-١٩٦٧
٥-
فارسی میں مرزا غالب کا مقام محمد عباس انجان
٦-
٧٢ -١٩٧١ پنجاب میں حافظ شیرازی کا مقلد! قصوری ڈاکٹر ٧- ٩٨-١٩٩٧ عارف نوشاہی ڈاکٹر عارف نوشاہی اسالمیہ کالج قصور کے سٹاف میں سے نہیں تھے۔ االدب کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے‘ کہ اس کے میگزین االدب میں‘ مختلف موضوعات پر‘ مشاہیر کی تحریریں شائع ہوتی رہی ہیں۔ فقط ایک ادارے میں فارسی زبان ادب پر معقول کاوش ہا فکر اشاعت پذیر ہوئیں۔ برصغیر میں صد ہا ادارے ہیں‘ وہاں فارسی کے حوالہ سے مواد شائع ہوا ہو گا۔ اس کا‘ اس ادارے کی مثال سے باخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ تاہم باور رہنا چاہیے‘ کہ یہ مضافاتی تعلیمی ادارے‘ مراکز کے اداروں سے‘ کسی طرح پیچھے نہیں رہے۔
کالم :حضرت بو علی قلندر مترجم :مقصود حسنی
اے شرف چاہے ہے اگر وصل حبیب نالہ کرتا رہ روز و شب جوں عندلیب مریض عشق اور بےزار از جان ہوں مرے نبض پر دست کیوں رکھے طبیب رسم و راہ نہ جانے کہ ہر کوئی دیار عاشقی میں ہے مانند غریب شربت دیدار خوش آتا ہے دل داروں کو نصیب میں ہے یا ہوں میں بےنصیب اس سے دور ہائے ہائے میں دور ہوں مگر رگ جان سے بھی وہ مرے قریب
سر پر تنی ہے تیغ محتسب دل میں پوشیدہ اسرار عجیب بو علی شاعر ہوا ساحر ہوا کرے ہے انگیزی خیاالت غریب
''''''''''''''''''''' اگر رند ہوں اگر میں بت پرست ہوں قبول کر خدایا جو جیسا بھی ہوں ننگ و عار نہیں بت پرستی سے کہ یار بت ہے میں بت پرست ہوں
پیچ و تاب عشق میں گرفتار ہوں دل اندر زلف پیچان کا بسیرا ہے
'''''''''''''''''''''
کالم :حضرت شہباز قلندر ہدیہ کار اردو :مقصود حسنی شاہ دو عالم محمد عربی ہیں مقصود آدم محمد عربی ہیں
صد شکر خدا کہ پشت و پناہ خلق شاہنشاہے مکرم محمد عربی ہیں اپنے جرم و حال پریشاں پر کیسا غم جب کہ پیشوائے عالم محمد عربی ہیں کیسا غم' مرے سر پر ان کا سایہ ہے غم خوار حال زارم محمد عربی ہیں مدد کریں کہ میں نابود آتش عشق ہوں مطلوب و جان جانم ،محمد عربی ہیں ختم رسل چراغ رہ دین و نور حق کہ رحمت دو عالم محمد عربی ہیں
وہ سرور خالئق و رہمنائے دیں صدر و بدر عالم محمد عربی ہیں آپ کعبہ معارف آپ قبلہ یقین شاہ دین پناہم محمد عربی ہیں کر پیروی ان کی کہ ہو تری نجات شاہنشاہے معظم محمد عربی ہیں کالم :حضرت سخی شہباز قلندر اردو ہدیہ کار :مقصود حسنی بے محمد در حق بار نہیں بے روا از کبریا دیدار نہیں
اے محقق ذات حق با صفات بے تجلی ہیچ کہ اظہار نہیں ہر دو عالم جز تمثل نہیں نہیں مطلع جز صاحب اسرار نہیں سوا جمال دوست جو دیکھے حرام نزد بینا کار غیر اس کار نہیں غرق ہوتا ہے جمال دوست‘ دوست عاشق سرمست سے ہوتی گفتار نہیں اسے زندہ نہ کہو اس جہاں میں ہر کہ دربار جاناں جسے بار نہیں
دو عالم کا علم اس نقطے میں ہے عارفوں کا کار با ضر وار نہیں رو اپنا تو راجا اپنی طرف کر کہ عارفوں کے پاس سوا دل بیدار نہیں لقائے یار سے مسرور ہوتا ہے یار ایسا نہیں ہے تو‘ وہ یار‘ یار نہیں
کالم :حافظ شیرازی اردو ترجمہ :مقصود حسنی بحر عشق کا کوئی کنارہ نہیں ہوتا
سوا جان دینے کے چارہ نہیں ہوتا کوچہء عشق میں گزرا جو پل‘ اچھا ہے ت و اِستخارہ نہیں ہوتا کار خیر میں حاج ِ ِ بنا کر عقل کو مفتی نہ ڈرا ہم کو شراب ال کوئے عشق میں عقل کا کارہ نہیں ہوتا اپنی آنکھوں سے پوچھ کون کرے ہے قتل جرم ستارہ نہیں ہوتا جان من گنا ِہ طالع و ِ دھلی نظروں سے اس رخ ہاللی کو دیکھ ہر آنکھ سے ماہ پارہ کا نظارہ نہیں ہوتا غنیمت جان طور رندی کو کہ یہ نِشاں
را ِہ گنج ہے ہمہ کس آشکارہ نہیں ہوتا ِگریہء حافظ ترے حضور رائیگاں ٹھہرا سنگ خارہ نہیں ہوتا یار‘ اتنا تو سخت دل ِ