اردو اور شبد ہائے فارس

Page 1

‫اردو اور شبد ہائے فارس‬ ‫مقصود حسنی‬ ‫ابوزر برقی کتب خانہ‬ ‫جوالئی ‪٢٠١٦‬‬


‫فہرست‬ ‫اردو کے تناظر میں حضرت بوعلی قلندر کے فارسی کالم‬ ‫کا لسانیاتی مطالعہ‬ ‫حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی فارسی شاعری اور‬ ‫اردو زبان‬ ‫قصہ سفرالعشق کے فارسی حواشی‬ ‫حافظ شیرازی کی شاعری اور اردو زبان‬ ‫گورنمنٹ اسالمیہ کالج قصور اور فارسی زبان و ادب‬ ‫کالم‪ :‬حضرت بو علی قلندر‬ ‫مترجم‪ :‬مقصود حسنی‬ ‫کالم‪ :‬حضرت سخی شہباز قلندر‬ ‫اردو ہدیہ کار‪ :‬مقصود حسنی‬ ‫کالم‪ :‬حافظ شیرازی‬ ‫اردو ترجمہ‪ :‬مقصود حسنی‬


‫اردو کے تناظر میں حضرت بوعلی قلندر کے فارسی کالم‬ ‫کا لسانیاتی مطالعہ‬

‫برصغیر کا' ایران سے مختلف حوالوں سے رشتہ' صدیوں‬ ‫پر محیط ہے۔ برصغیر کے یودھا' ایران کی فوج میں شامل‬ ‫تھے۔ ایک دوسرے کے ہاں بیٹیاں بیاہی گئیں۔ مختلف‬ ‫شعبوں سے متعلق لوگ' برصغیر میں آئے۔ رشد و ہدایت‬ ‫کے لیے صالیحین کرام' برصغیر میں تشریف التے رہے۔‬ ‫یہاں کی خواتین سے ان کی شادیاں ہوئیں اور ان کی نسل‬ ‫یہاں کی ہو کر رہ گئی۔ کچھ کنبہ سمیت یہاں آئے' ان آنے‬ ‫والوں کی نسل نے بھی' برصغیر کو اپنی مستقل اقامت‬ ‫ٹھہرایا۔ ان تمام امور کے زیر' اثر رسم و رواج' علمی و‬ ‫ادبی اور سماجی روائتوں کا تبادل ہوا۔ اشیا اور شخصی نام‬ ‫یہاں کی معاشرت کا حصہ بنے۔ اس میں دانستگی کا عمل‬ ‫دخل نہیں تھا' یہ سب ازخود نادانسہ اور نفسیاتی سطع پر‬


‫ہوتا رہا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ صدیوں پرانے' تہذیبی اور‬ ‫لسانی اثرات' برصغیر میں واضح طور پر محسوس کیے جا‬ ‫سکتے۔‬ ‫یہاں حضرت بوعلی قلندر کے فارسی کالم کا' اردو کے‬ ‫تناظر میں' ناچیز سا لسانیاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے' جس‬ ‫سے یہ کھل جائے گا کہ یہ دونوں زبانیں' آج بھی ایک‬ ‫دوسرے سے کتنا قریب ہیں۔ آخر میں' تین اردو شعرا کے‬ ‫دو چار مصرعے' مع جائزہ' اپنے موقف کی وضاحت کے‬ ‫لیے درج کر دیے ہیں۔‬ ‫اس مطالعے میں کئی صورتیں اختیار کی گئی ہیں' وہ لفظ‬ ‫الگ کیے گیے ہیں' جو آج بھی اردو والوں کے استعمال‬ ‫میں ہیں۔ کچھ لفظ ایسے الگ کیے گیے ہیں' جو آوازوں‬ ‫کی ہیر پھیر سے' اردو میں مستعمل ہیں۔ کچھ اشعار باطور‬ ‫نمونہ پیش کیے گیے ہیں' جن میں محض ایک دو لفظوں‬ ‫کی تبدیلی کی گئی اور اب وہ اردو کا ذخیرہ ادب خیال کیے‬ ‫جائیں گے۔ میں نے باطور تجربہ کچھ اشعار اردو انجمن پر‬ ‫رکھے' جناب سرور عالم راز ایسے بڑے‬


‫اردو دان نے' انہیں غیراردو نہیں کہا۔ ان کا کہنا ہے‪:‬‬ ‫کاش یہ ترجمہ باوزن بھی ہوتا تو مزا دوباال ہو جاتا۔ خیر‬ ‫معنی قاری تک پہنچا دینا بھی بہت ‪.‬بڑا کام ہے‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=10160.0‬‬

‫یہ امر' اس بات کا واضح اور زندہ ثبوت ہے' کہ اردو اور‬ ‫فارسی قریب قریب کی زبانیں ہیں۔ دونوں کی لسانیاتی عمر‬ ‫کا تعین اس سے الگ بات ہے‪ .‬تاہم حضرت بوعلی قلندر‬ ‫کے دور تک تو عمر کا تعین ہو ہی جاتا ہے۔‬ ‫‪..............‬‬ ‫ہست در سینہ ما جلوہ جانانہ ما‬ ‫بت پرستیم دل ماست صنم خانہ ما‬ ‫سینہ جلوہ بت دل صنم خانہ‬ ‫بت پرستیم‪:‬‬

‫بت پرستی‬


‫جانانہ‪:‬‬

‫جاناں‬

‫جانان‬

‫اے خضر چشمہ حیوان کہ بران می نازی‬ ‫بود یک قطرہ ز درت ِہ پیمانہ ما‬ ‫اے خضر چشمہ حیوان یک قطرہ ت ِہ پیمانہ‬ ‫بران‬ ‫نازی‬

‫براں‬

‫مزید براں‬ ‫ناز‬

‫مثال کسی خاتون کا فرح ناز نام ہے' یائے مصدری کے‬ ‫اضافے اور الڈ پیار سے عرفی نام' نازی بھی سننے کو‬ ‫آتا رہتا ہے' گویا لفظ نازی' اردو والوں کے لیے نیا نہیں'‬ ‫تہہ میں مفاہیم بھی تقریبا وہ ہی پوشیدہ ہیں۔‬ ‫جنت و نار پس ماست بصد مرحلہ دور‬ ‫می شتابد بہ کجا ہمت مردانہ ما‬


‫جنت و نار پس بصد مرحلہ دور بہ کجا ہمت مردانہ‬ ‫شتابد‪:‬‬

‫شتاب‬

‫شتابی‬

‫جنبد از جائے فتد بر سر افالک برین‬ ‫بشنود عرش اگر نعرہ مستانہ ما‬ ‫از جائے بر سر افالک عرش اگر نعرہ مستانہ‬ ‫برین‪:‬‬

‫بریں‬

‫عرش بریں‬

‫بشنود‬

‫شنید‬

‫گفت و شنید‬

‫ہمچو پروانہ بسوزیم و بسازیم بعشق‬ ‫اگر آں شمع کند جلوہ بکاشانہ ما‬ ‫پروانہ و اگر شمع جلوہ‬ ‫بسوزیم‪:‬‬

‫بسوز‬

‫سوز‬

‫سوزی‬


‫بعشق‪:‬‬ ‫آں‪:‬‬

‫بعشق‬

‫عشق‬

‫آنحضرت‬ ‫کاشانہ‬

‫بکاشانہ‪:‬‬

‫ما بنازیم بتو خانہ ترا بسپاریم‬ ‫گر بیائی شب وصل تو درخانہ ما‬ ‫خانہ ترا گر شب وصل تو در خانہ‬ ‫نازیم‪ :‬ناز نازی‬ ‫بتو‪:‬‬

‫تو‬

‫گفت اوخندہ زنان گریہ چو کردم بدرش‬ ‫بو علی ہست مگر عاشق دیوانہ ما‬ ‫خندہ گریہ بو علی مگر عاشق دیوانہ‬


‫گفت‪:‬‬

‫گفت گفتگو گفتار‬

‫کردم‪:‬‬

‫کر‬

‫'''''''''''''''''''''‬ ‫اے ثنائت رحمتہ اللعالمین‬ ‫یک گدائے فیض تو روح االمین‬ ‫اے رحمتہ اللعالمین یک فیض تو روح االمین‬ ‫ثنائت‪:‬‬

‫ثنا‬

‫گدائے‪:‬‬

‫گدا‬

‫اے کہ نامت را خدائے ذوالجالل‬ ‫زد رقم بر جبہہ عرش برین‬


‫اے کہ خدائے ذوالجالل رقم عرش برین‬ ‫نامت‪:‬‬

‫نام‬

‫زد;‬

‫زد‬

‫جبہہ‪:‬‬

‫جبہ جبین‬

‫بر‪:‬‬

‫برباد برسراقتدار برسرپیکار برسرروزگار‬

‫نامزد قلمزد‬

‫آستان عالی تو بے مشل‬ ‫آسمانے ہست باالئے زمین‬ ‫آستان عالی تو بے مشل زمین‬ ‫آسمانے‪:‬‬

‫آسمان‬

‫باالئے‪ :‬باال‬

‫باالتر باالئے طاق‬

‫آفرین بر عالم حسن تو باد‬ ‫مبتالئے تست عالم آفرین‬


‫آفرین بر عالم حسن تو عالم آفرین‬ ‫باد‪ :‬آباد برباد زندہ باد مردہ باد شاد باد‬ ‫مبتالئے‪:‬‬

‫مبتالئے عشق‬

‫یک کف پاک از در پر نور اُو‬ ‫ہست مارا بہتر از تاج و نگین‬ ‫یک کف پاک از در پر نور بہتر از تاج و نگین‬ ‫از‪:‬‬

‫ازاں ازیں از قصور تا پان پت‬

‫خرمن فیض ترا اے ابر فیض‬ ‫ہم زمین و ہم زمان شد خوشہ چین‬ ‫خرمن فیض ترا اے ابر فیض ہم زمین و ہم زمان خوشہ‬ ‫چین‬


‫شد‪:‬‬

‫ختم شد‬

‫از جمال تو ہمے بینم مسا‬ ‫جلوہ در آینہ عین الیقین‬ ‫از جمال تو جلوہ آینہ عین الیقین‬ ‫بینم‪:‬‬

‫بین خوردبین دوربین کتاب بینی‬

‫در‪:‬‬

‫دربار درگاہ درپیش درگزر درکنار‬

‫خلق را آغاز و انجام از تو ہست‬ ‫اے امام اولین و آخرین‬ ‫خلق آغاز و انجام از تو اے امام اولین و آخرین‬ ‫غیر صلوۃ و سالم و نعت تو‬


‫بو علی را نیست ذکر دلنشین‬ ‫غیر صلوۃ و سالم و نعت تو بو علی ذکر دلنشین‬

‫'''''''''''''''''''''‬ ‫اے شرف خواہی اگر وصل حبیب‬ ‫نالہ مے زن روز و شب جون عندلیب‬ ‫خواہی‪ :‬خواہ‬

‫خیر خواہ خیر خواہی‬

‫زن‪ :‬موجزن غوطہ زن خیمہ زن‬ ‫اے شرف چاہے ہے اگر وصل حبیب‬ ‫نالہ کرتا رہ روز و شب جون عندلیب‬


‫من مریض عشقم و از جان نفور‬ ‫دست بر نبض من آرد چون طبیب‬ ‫عشقم‪:‬‬

‫عشق‬

‫مریض عشق اور بےزار از جان ہوں‬ ‫مرے دست بر نبض کیوں رکھے طبیب‬ ‫بر‪ :‬اردو میں بے ب کی آواز پے پ میں بدل گئی ہے پر'‬ ‫تاہم بر بھی فقرے میں قابل فہم ہے۔‬ ‫مرے نبض پر دست کیوں رکھے طبیب‬ ‫رسم و راہ ما نداند ہر کہ او‬ ‫در دیار عاشقی ماند غریب‬ ‫رسم و راہ نہ جانے کہ ہر کوئی‬ ‫دیار عاشقی میں مانند غریب‬


‫شربت دیدار دلداران خوش است‬ ‫گر نصیب ما نباشد یا نصیب‬ ‫دلداران‪ :‬دل داران‬ ‫شربت دیدار خوش آتا ہے دل داروں کو‬ ‫نصیب میں ہے یا ہوں میں بےنصیب‬ ‫ما ازو دوریم دور اے وائے ما‬ ‫از رگ جان است او ما را قریب‬ ‫دوریم‪:‬‬

‫دوری‬

‫وائے‪:‬‬

‫ہائے وائے' اردو میں مستعمل ہے‬

‫ما ازو دوریم دور اے وائے ما‬


‫اس سے دور ہائے ہائے میں دور ہوں‬ ‫مگر رگ جان سے بھی وہ مرے قریب‬ ‫بر سرم جنبیدہ تیغ محتسب‬ ‫در دلم پوشیدہ اسرار عجیب‬ ‫سرم‪:‬‬

‫سر‬

‫دلم‪:‬‬

‫دل‬

‫سر پر تنی ہے تیغ محتسب‬ ‫دل میں پوشیدہ اسرار عجیب‬ ‫بو علی شاعر شدی ساحر شدی‬ ‫این چہ انگیزی خیاالت غریب‬ ‫شدی‪ :‬شدہ‬


‫اردو میں ختم شد' تمام شد' شادی شدہ وغیرہ مرکبات‬ ‫مستعمل ہیں‬ ‫بو علی شاعر ہوا ساحر ہوا‬ ‫کرے ہے انگیزی خیاالت غریب‬

‫'''''''''''''''''''''‬ ‫اگر رندم اگر من بت پرستم‬ ‫قبولم کن خدایا ہر چہ ہستم‬ ‫رندم‪:‬‬

‫رند‬

‫پرستم‪ :‬پرست‬ ‫قبولم‪ :‬قبول‬ ‫اگر رند ہوں اگر میں بت پرست ہوں‬ ‫قبول کر خدایا جو جیسا بھی ہوں‬ ‫ندارم ننگ و عا ر از بت پرستی‬


‫کہ یارم بت بود من بت پرستم‬ ‫ندارم‪:‬‬

‫ندارد‬

‫بت پرستم‪:‬‬

‫بت پرست‬

‫یارم‪:‬‬

‫یار‬

‫از' ادو میں مستعمل ہے‬ ‫ننگ و عار نہیں بت پرستی سے‬ ‫کہ یار بت ہے میں بت پرست ہوں‬ ‫بہ پیچ و تا ب عشق افتادم آنگہ‬ ‫دل اندر زلف پیچان تو بستم‬ ‫بہ‪ :‬اردو میں مستعمل ہے‬ ‫دور افتادہ‬

‫افتادم‪:‬‬

‫افتاد‬

‫بستم‪:‬‬

‫بستہ بستی بند و بست‬


‫پیچ و تا ب عشق میں گرفتار ہوں‬ ‫دل اندر زلف پیچان کا بسیرا ہے‬

‫'''''''''''''''''''''‬ ‫ہم شرح کمال تو نگنجد بہ گمانہا‬ ‫ہم وصف جمال تو نیاید بہ بیانہا‬ ‫شرح کمال' شرح کمال‬ ‫گمان' بیان' تو‬ ‫ہا‪ :‬جمع بنانے کے لیے اردو میں ہا اور ہائے مستعمل ہیں‬ ‫یک واقف اسرار تو نبود کہ بگوید‬ ‫از ہیبت راز تو فرد بستہ زبانہا‬ ‫واقف اسرار' ہیبت راز' فرد بستہ‬


‫زبانہا زبان ہا‬ ‫ما مرحلہ در مرحلہ رفتن نتوانیم‬ ‫در وادئے توصیف تو بگستہ عنانہا‬ ‫مرحلہ در مرحلہ' ادئے توصیف‬ ‫رفتن‪:‬‬

‫رفتہ' رفتار‬

‫نتوانیم‪ :‬ن توان یم ناتواں‬ ‫عنانہا‪ :‬عنان ہا‬

‫عنان حکومت‬

‫حسن تو عجیب است جمال تو غریب است‬ ‫حیران تو دلہا و پریشان تو جانہا‬ ‫دلہا و پریشان‪ :‬دلہا و پریشان‬ ‫جانہا‪ :‬جان ہا‬ ‫حسن تو عجیب' جمال تو غریب' حیران' پریشان‬


‫چیزے نبود جز تو کہ یک جلوہ نماید‬ ‫گم در نظر ماست مکینہا و مکانہا‬ ‫جز' تو کہ' گم' نظر‬ ‫چیزے‪ :‬چیز‬ ‫یک جلوہ‬ ‫مکینہا‪ :‬مکین ہا‬ ‫مکانہا‪ :‬مکان ہا‬ ‫یک ذرہ ندیدیم کہ نبود ز تو روشن‬ ‫جستیم ز اسرار تو در دہر نشانہا‬ ‫یک ذرہ' اسرار تو‬ ‫روشن' دہر‬ ‫ندیدیم‪ :‬دید' نادید' نادیدہ‬ ‫جستیم‪ :‬جست‬ ‫نشانہا‪ :‬نشان ہا‬


‫یک تیر نگاہت را ہمسر نتوان شد‬ ‫صد تیر کہ برجستہ ز آغوش کمانہا‬ ‫یک تیر' صد تیر' تیر نگاہ' آغوش کمان‬ ‫نگاہت‪ :‬نگاہ‬ ‫کمانہا‪ :‬کمان ہا‬ ‫ہمسر' برجستہ‬ ‫دارد شرف از عشق اے فتنہ دوران‬ ‫در سینہ نہان آتش و در حلق فغانہا‬ ‫فتنہ دوران ‪ .‬فتنہ دوراں' نہان آتش۔ آتش نہاں' حلق فغاں‬ ‫اے' عشق' سینہ' حلق‬ ‫فغانہا‪ :‬فغان ہا‬

‫'''''''''''''''''''''‬


‫من کہ باشم از بہار جلوہ دلدار مست‬ ‫چون منے ناید نظر در خانہ خمار مست‬ ‫بہار جلوہ دلدار مست نظر در خانہ خمار مست‬ ‫باشم‪ :‬میم ہٹانے سے باش' اردو میں شاباش' شب باش'‬ ‫پرباش مستعمل ہیں۔‬ ‫مے نیاید در دلش انگار دنیا ہیچ گاہ‬ ‫زاہدا ہر کس کہ باشد از ساغر سرشار مست‬ ‫دلش‪ :‬شین ہٹا دیں دل‬ ‫مے انگار دنیا ہیچ گاہ زاہدا ہر کس کہ از ساغر سرشار‬ ‫مست‬ ‫دلش‪ :‬شین ہٹا دیں دل‬


‫جلوہ مستانہ کردی دور ایام بہار‬ ‫شد نسیم و بلبل و نہر و گلزار مست‬ ‫جلوہ مستانہ دور ایام بہار نسیم و بلبل و نہر و گلزار مست‬ ‫کردی‬ ‫کاف ہٹانے سے ردی‬ ‫دی ہٹانے سے کر‬ ‫کر ہٹانے سے دی اور دی سے سردی گردی وردی‬ ‫من کہ از جام الستم مست ہر شام کہ سحر‬ ‫در نظر آید مرا ہر دم درو دیوار مست‬ ‫کہ از جام مست ہر شام کہ سحر نظر مرا ہر دم درو دیوار‬ ‫مست‬ ‫الستم کا میم گرانے سے الست' اردو میں الست مست مرکب‬ ‫مستعمل ہے‬


‫چون نہ اندر عشق او جاوید مستیہا کنیم‬ ‫شاہد مارا بود گفتار و ہم رفتار مست‬ ‫نہ اندر عشق جاوید شاہد گفتار و ہم رفتار مست‬ ‫چون‪ :‬اردو میں چونکہ مستعمل ہے‬ ‫مستیہا کو الگ الگ لکھیں مستی ہا' صرف مکتوبی‬ ‫صورت اس لفظ کو اردو میں داخل کر دیتی ہے۔‬ ‫تا اگر راز شما گوید نہ کس پروا کند‬ ‫زین سبب باشد شمارا محرم اسرار مست‬ ‫تا اگر راز نہ کس پروا زین سبب محرم اسرار مست‬ ‫غافل از دنیا و دین و جنت و نار است او‬ ‫در جہان ہر کس کہ میباشد قلندر وار مست‬


‫غافل از دنیا و دین و جنت و نار در جہان ہر کس کہ قلندر‬ ‫وار مست‬

‫'''''''''''''''''''''‬ ‫بوعلی قلندر کے نو اشعار کا' اردو کے تناظر میں تجزیہ‬ ‫پیش ہے۔‬ ‫ان نو اشعار کے نو قوافی درج ہیں۔ یہ اردو والوں کے‬ ‫لیے اجنبی نہیں ہیں۔۔‬ ‫آدم' دمادم' ابکم' محرم' اعظم' پیہم' اعظم' آرم' مسلم‬ ‫مصرعوں کے پہلے لفظ‬ ‫جمالت' کہ' اگر' ہزاراں' اگر' تو' بر' مالئک' کسے' حریم‬


‫کالم میں استعمال ہونے والے مرکبات' اردو والوں کے لیے‬ ‫غیریت نہیں رکھتے۔‬ ‫روئے آدم' جملہ آدم' ہزاران سجدہ' جملہ اسما' حریم قدس'‬ ‫کورا زبان' نوشتہ بر جبین' عرش اعظم' صاحب نام' اسم‬ ‫اعظم' صورت پاک' جمال ال یزالی‬ ‫اردو میں مستعمل الفاظ‬ ‫اندر روئے آہزاراندم کہ مے شرف بر جملہ آدم اگر نقطہ‬ ‫عزازیل ہزاران سجدہ دمادم آدم منکشف جملہ اسمائے‬ ‫مالئک اندران جا کسے کورا زبان بستہ حریم قدس محرم‬ ‫نامے چند فصلے نوشتہ بر جبین عرش اعظم نام را جانم‬ ‫بہ قربان نام دور پیہم خوشا نامے و خوش صاحب نام بہ‬ ‫جز اسم اعظم بہ عشق دنیا و دین مست اگر مستانہ آوازے‬ ‫بر آرم شرف در صورت عیان دید جمال ال یزالی مسلم‬ ‫آوازیں گرانے یا معمولی تبدیلی سے اردو میں داخل ہونے‬ ‫والے الفاظ۔‬ ‫جمالت بودش دانستے آوردے ماندہ ثنائش رود نامش‬


‫جمالت‪ :‬تے گرانے سے جمال۔ جمال' اردو میں عام‬ ‫استعمال کا لفظ ہے۔‬ ‫روئے‪ :‬ئے گرا دینے سے رو‪ .‬روئے بھی مستعمل ہے۔‬ ‫بودش‪ :‬بود' بود و باش‬ ‫دانستے‪ :‬دانست' دانستہ' مرکب دیدہ دانستہ‬ ‫آوردے‪ :‬آورد' آمد آورد دونوں اصطالحیں اردو شاعری‬ ‫کے لیے مستعمل ہیں۔‬ ‫ماندہ‪ :‬پس ماندہ' درماندہ‬ ‫ثنائش‪ :‬ثناء‬ ‫پاکش‪ :‬شین گرانے سے پاک‬ ‫رود‪ :‬رود کوثر شیخ اکرام کی کتاب کا نام ہے۔‬ ‫نامش‪ :‬شین گرا دیں نام‬ ‫تلمیحات' جو اردو میں بھی استعمال ہوتی ہیں۔‬ ‫آدم عزازیل سجدہ اسما مالئک حریم قدس عرش اسم اعظم‬ ‫ال یزالی مسلم‬


‫سابقہ ال‬ ‫ال یزالی‪ :‬ال کا سابقہ اردو کے استعمال میں ہے۔ مثال الیعنی‬ ‫الحاصل‬ ‫امرجہ‬ ‫دنیا حریم قدس عرش اعظم‬ ‫اب کالم پڑھیں' اردو اور فارسی کو' قریب قریب کی زبانیں'‬ ‫محسوس کریں گے۔‬ ‫جمالت بود اندر روئے آدم‬ ‫کہ مے بودش شرف بر جملہ آدم‬ ‫اگر این نقطہ دانستے عزازیل‬ ‫ہزاران سجدہ آوردے دمادم‬


‫بر آدم منکشف جملہ اسمائے‬ ‫مالئک اندران جا ماندہ ابکم‬ ‫کسے کورا زبان بر بستہ نبود‬ ‫حریم قدس او را نیست محرم‬ ‫چہ نامے ثنائش چند فصلے‬ ‫نوشتہ بر جبین عرش اعظم‬ ‫رود آن نام را جانم بہ قربان‬ ‫کنم آں نام را من دور پیہم‬ ‫خوشا نامے و خوش آن صاحب نام‬ ‫بہ جز نامش نباشد اسم اعظم‬


‫بہ عشق او شود دنیا و دین مست‬ ‫اگر مستانہ آوازے بر آرم‬ ‫شرف در صورت پاکش عیان دید‬ ‫جمال ال یزالی را مسلم‬

‫'''''''''''''''''''''‬ ‫جدید‬ ‫غالب کی ایک معروف غزل کے چار مصرعہءثانی پیش‬ ‫ہیں' ردیف کے سوا باقی الفاظ' فارسی والوں کے لیے غیر‬ ‫نہیں ہیں۔‬ ‫سامان صد ہزار نمک داں کئے ہوۓ‬ ‫ِ‬ ‫ساز چمن طراز ِی دَاماں کئے ہوئے‬ ‫ِ‬


‫جاں نذر دل فریبی عنواں کئے ہوے‬ ‫ت درباں کئے ہوئے‬ ‫بار من ّ ِ‬ ‫سر زیر ِ‬ ‫‪:‬غالب شاعر‬ ‫‪.........‬‬ ‫جدیدتر‬ ‫عالمہ طالب جوہری کے ان چاروں مصرعوں میں' تین‬ ‫لفظوں‪ :‬کی' میں اور ہو کے سوا کوئی لفظ فارسی والوں‬ ‫کے لیے اجنبی نہیں ہو گا۔‬ ‫اے فکر جواں! صفحہءدانش پہ رقم ہو‬ ‫اے فرق گماں! علم کی دہلیز پہ خم ہو‬ ‫اے خامہء جاں! دشت معنی میں علم ہو‬ ‫اے طبع رواں! زیب دہ نون و قلم ہو‬


‫اب اس مصرعے کو دیکھیں اردو اور فارسی والوں کے‬ ‫لیے غیر نہیں ہے۔‬ ‫باسطوت افکار و بہ جوش معنی‬ ‫‪:‬طالب جوہری شاعر‬ ‫‪.........‬‬ ‫جدید ترین‬ ‫اب مہر افروز کے یہ مصرعے مالحظہ فرمائیں‪:‬‬ ‫عشق ہے' خواب ہیں‪ ،‬میرے دم ساز‬ ‫ہے ہیں میرے‬ ‫عشق خواب دم ساز‬


‫میری دیوانگی کی عمر دراز‬ ‫میری کی‬ ‫دیوانگی عمر دراز‬ ‫ہوں عطا عشق کے نئے انداز‬ ‫ہوں کے‬ ‫عطا عشق نئے انداز‬ ‫ت بیچارگی میں گم آواز‬ ‫دش ِ‬ ‫میں‬ ‫ت بیچارگی گم آواز‬ ‫دش ِ‬ ‫شاعر‪ :‬مہر افروز‬


‫دونوں زبانوں کا لسانیاتی اشتراک' نادانستہ طور پر اور‬ ‫مستقل رویے پر انحصار کرتا ہے۔ غالب کا دور' انگریز‬ ‫اور انگریز سے پہلے سے متعلق ہے۔ مغلیہ عہد نام نہاد‬ ‫سہی' پرانی روش اور روایات سے متعلق تھا۔ پرانی‬ ‫روایات برقرار تھیں۔ طالب جوہری' انگریز کے آخری اور‬ ‫تقسیم ہند کے بعد سے تعلق کرتے ہیں' جب کہ مہر افروز‬ ‫موجود یعنی تقسیم ہند کے بعد سے' تعلق کرتی ہیں۔ ان کی‬ ‫زبان میں فارسی کا نام و نشان تک نہیں ہونا چاہیے' لیکن‬ ‫ان کے ہاں استعمال میں آنے والے لفظ' اہل فارسی کے‬ ‫لیے غیرمانوس اور اجنبی نہیں ہوں گے۔ یہ لفظ ان کے‬ ‫ہاں آج بھی مستعمل ہیں۔‬

‫حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی فارسی شاعری اور‬ ‫اردو زبان‬ ‫زبانیں مفرد' مرکب آوازوں اور لفظوں کی سانجھ کے‬ ‫حوالہ سے' ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ ہاں البتہ ان کے‬ ‫استعمال کی ذیل میں' اپنی مرضی اور لسانیاتی معامالت کو‬


‫اولیت دیتی ہیں۔ جس زبان سے لفظ اختیار کرتی ہیں' اس‬ ‫زبان کا جانو بھی' اپنی زبان کے لفظوں کی پہچان سے'‬ ‫دور رہتا ہے۔ مثال‬ ‫لیڈیاں' پنسلیں' کریمیں لفظ کسی انگریز کی پہچان میں نہ‬ ‫آ سکیں گے۔‬ ‫حور' احوال' اوقات کوئی عربی واحد تسلیم نہیں کرے گا۔‬ ‫ہونسلو' فاسلو مفہومی قربت کے باوجود' عربی نہیں رہے۔‬ ‫حلیم' غریب' خصم کا معنوی اعتبار سے' عربی سے دور‬ ‫کا بھی رشتہ نہیں رہا۔‬ ‫کامی' ہم دیسی لوگوں کے لیے قابل فہم ہے' اجنبی نہیں‬ ‫ہے' لیکن جاپانی معنی قطعی الگ سے ہیں‪ .‬شاید انہیں یہ‬ ‫معلوم نہ ہو گا کہ اس لفظ کی اصل کس عالقہ سے متعلق‬ ‫بھالو میں اور بھال میں قربت موجود ہے گویا‬ ‫ہے۔‬ ‫اردو کی بنگلہ سے' سانجھ نکل رہی ہے۔‬ ‫غرض ایسی سیکڑوں مثالیں پپش کی جا سکتی ہیں' لیکن‬ ‫اپنی اصل کے مطابق یہ اردو کے لفظ بھی نہیں ہیں۔‬ ‫بولتے' سمجھتے' پڑھتے اور لکھتے وقت ماں بولی والے‬


‫بھی یہ نہیں جانتے' کہ وہ کس زبان کے لفظ کو کس طرح‬ ‫اور کس انداز سے' استعمال میں ال رہے ہیں۔‬ ‫اردو اس وقت استعمال میں آنے والی' دنیا کی دوسری‬ ‫بڑی زبان ہے۔ لچک پذیری' الفاظ گھڑنے اور اختیار کرنے‬ ‫میں فراخ دل واقع ہوئی ہے۔ انگریز کے ابتدائی عہد کے‬ ‫عالوہ' سرکاری سطع پر' اس کی کبھی بھی سرپرستی یا‬ ‫حوصلہ افزائی نہیں ہوئی۔‬ ‫میں نے زبانوں کے اشتراک کے مطالعہ کے دوران‬ ‫محسوس کیا ہے' کہ اس نے دیسی اور بدیسی زبانوں‬ ‫سے' ہیلو ہائے رکھنے میں کبھی بخل اور تھوڑدلی سے‬ ‫کام نہیں لیا۔‬ ‫صوفیا کرام کے کالم کا مطالعہ کرتے' میں نے محسوس‬ ‫کیا کہ انسان ہی اانسان سے دور رہتا ہے' ورنہ زبانیں تو‬ ‫ایک دوسری کے قریب ہیں۔ اگر کوئی معمولی سا غور‬ ‫کرے تو اردو کو دوسری زبانوں کے قریب تر پائے گا۔‬


‫حضرت خواجہ معیین الدین چشتی کے کچھ فارسی کالم کا‬ ‫مطالعہ پیش کر رہا ہوں۔ اس مطالعے کو پڑھنے کے بعد'‬ ‫شاید اردو زبان کا قاری ان کے وجد آمیز کالم سے لطف‬ ‫اٹھا سکے گا۔‬

‫ہست‬ ‫ہستی وجود موجود یعنی ہونے کے لیے ہے۔‬ ‫‪...........‬‬ ‫آواز بڑھانے سے‬ ‫نتواں‪ :‬ناتواں‬ ‫‪...........‬‬ ‫است‪ :‬الف گرا کر ست' ست سے درست ہر دو یعنی در اور‬ ‫ست فارسی میں مستعمل ہیں۔‬


‫است کے ساتھ ر بڑھانے سے استر‬ ‫‪...........‬‬ ‫آوازیں گرانے سے‬ ‫‪:‬گہش‬ ‫گہ' گاہ‬ ‫سازد‪ :‬ساز‬ ‫بلبلیم‪ :‬بلبل‬ ‫باالں‪ :‬باال‬ ‫رازے‪ :‬راز‬ ‫دمے‪ :‬دم‬ ‫‪...........‬‬ ‫آواز میم گرانے سے‬ ‫بوستانم‪ :‬بوستان‬


‫وجودم‪ :‬وجود‬ ‫دلم‪:‬‬

‫دل‬

‫‪...........‬‬ ‫آواز میم گرانے سے‬ ‫گویم‪ :‬گوی‬ ‫گناہیم‪ :‬گناہی‬ ‫خواہیم‪ :‬خواہی‬ ‫گیاہیم‪ :‬گیاہی‬ ‫مصطفائیم‪ :‬مصطفائی‬ ‫گدائیم‪ :‬گدائی‬ ‫لولوئیم‪ :‬لولوئی‬ ‫گناہیم‪:‬‬

‫گناہ' گناہی‬

‫‪...........‬‬ ‫خواہی‪:‬‬

‫خیر خواہی‬


‫آپ کریم نے بیگانوں کی بھی خیر خواہی چاہی ہے۔‬ ‫خدائی‪ :‬خدائی فیصلہ‬ ‫مصطفائیم‪ :‬مصطفائی‬ ‫مصطفائی میں خدائی ہے۔‬ ‫گیاہیم‪ :‬آب و گیاہ‬ ‫گیاہی عالقے خوش حال رہے ہیں‬ ‫گدائیم‪ :‬گدائی‬ ‫حضور کریم کے در کی گدائی' دنیا کی بادشاہی سے کہیں‬ ‫بڑھ کر ہے۔‬ ‫‪...........‬‬ ‫مرکب آواز یم گرانے سے‬ ‫گناہیم‪ :‬گناہ‬

‫بےگناہ‬

‫خواہیم‪ :‬خواہ خیر خواہ‬ ‫گیاہیم‪ :‬گیاہ آب و گیاہ‬ ‫آمدیم‪ :‬آمد' خوشامد‬


‫گویم‪ :‬گو گفتگو‬ ‫‪...........‬‬ ‫مرکب آواز یم اردو میں بھی مستعمل ہے۔ مثال‬ ‫کریم‪ :‬انگریزی سپریم' آئس کریم‪ -‬عربی عبدالکریم' حریم;‬ ‫حریم غائب عالمہ مشرقی کے شعری مجموعے کا نام ‪-‬‬ ‫شمیم' نسیم‬ ‫حلیم‪ :‬مقامی سطع پر ایک پکوان کا نام ہے۔‬ ‫‪...........‬‬ ‫آواز ے گرانے سے‬ ‫‪:‬سرودے‬ ‫سرود' سرود جان ضافت سے پڑھنے پر سرودے جان پڑھا‬ ‫جائے گا۔‬ ‫‪:‬درودے‬ ‫درود پاک دال کے نیچے زیر ہے یعنی اضافت سے ڑھنے‬


‫پر درودے پاک پڑھا جائے گا۔‬ ‫‪...........‬‬ ‫‪:‬در‬ ‫درکار' درگزر' دراصل‬ ‫مگو‬ ‫مرکب لفظ‪ :‬گومگو‬ ‫حقا‬ ‫حق سے حقا; حقانی' حقانیت' حقائی' حقارت حقیقت‬ ‫حقیر‪ :‬حق پر یر کا الحقہ‬ ‫جس میں حقیقت کی کمی ہو' حقیقت سے خالی‬ ‫معمولی' تھوڑا سا‬ ‫‪...........‬‬ ‫جہدست‪ :‬جہد' جہد است جہد دست‬


‫مرکب‪ :‬جدوجہد‬ ‫‪...........‬‬ ‫مفرد آواز‬ ‫‪:‬و‬ ‫بلند و باال' سیاہ و سفید' شب و روز‬ ‫‪...........‬‬ ‫مرکب آوازیں‬ ‫‪:‬چوں‬ ‫چوں کہ' چونکہ‬ ‫‪:‬از‬ ‫از قصور تا اجمیر' ازاں‬ ‫‪:‬بز‬


‫دو اسموں ترکیب پایا لفظ‪ :‬بزدل‬ ‫‪:‬امت‬ ‫امتاں‪ :‬پنجابی اور قدیم اردو میں جمع بنانے کے اں الحقہ‬ ‫مستعمل تھا۔ اب یں رائج ہے; امتیں' حوریں' راہیں‬ ‫معین سے معینے‬ ‫اردو اور خصوصا پنجابی میں پکارنے یا بالنے کے لیے‬ ‫ے بڑھا دیتے ہیں۔ جیسے فضل فجے' شوکت سے شوکے'‬ ‫نور سے نورے‬ ‫عرفی نام کے لیے ے بڑھا دیتے ہیں۔ جیسے برکت بی بی‬ ‫سے برکتے' کرامت بی بی سے کرامتے‬ ‫‪:‬بشنود; شنود‬ ‫خوشنود احمد' خوشنود علی' خوشنود حسین' نام سننے‬ ‫کو ملتے ہیں۔ خوشنودی بھی استعمال میں ہے۔‬ ‫‪...........‬‬ ‫بہ‬ ‫‪....‬بچشم‪ :‬بہ چشم' بہ چشم نم‬


‫بباز‪ :‬بہ باز کبوتر بہ کبوتر باز بہ باز‬ ‫بگذری‪ :‬بہ گذری‬ ‫ساتھ' کے ساتھ کے لیے بہ با سابقہ بڑھاتے ہیں۔ مثال‬ ‫باذوق' باوفا' باہمت' باوردی' مشبہ بہ‬ ‫الف کا تبادل حائے مقصورہ ہے۔ لفظ کے ساتھ لکھتے‬ ‫ہذف ہو جاتا ہے۔‬ ‫‪...........‬‬ ‫مصدر گفتن سے لفظ ترکیب پائے ہیں تاہم اردو میں اس‬ ‫کی بنیادی صورت گفت رہی ہے اور اسی سے لفظ اور‬ ‫مرکب تشکیل پائے ہیں۔ اردو میں' گفت شگفت وغیرہ کا‬ ‫کوئی مصدر موجود نہیں' لیکن اس نوع کے بہت سے لفظ'‬ ‫کثرت سے رواج رکھتے ہیں۔‬ ‫گفت‪ :‬گفتار' گفتگو' گفت و شونید‬ ‫فارسی میں گفت کی اشکال دیگر اشکال جو حضرت خواجہ‬ ‫صاحب کے ہاں استعمال میں آئی ہیں۔‬ ‫گفتن گویم بگو گفتنی گفتی بگفت گفتمش گفتند‬


‫‪...........‬‬ ‫گشت‪ :‬فورسز میں عام استعمال کا لفظ ہے۔ گشتی' فاحشہ‬ ‫کے لیے استعمال ہوتا ہے۔‬ ‫آنکہ‪ :‬آں کہ‬ ‫خطوط میں عموما لکھا جاتا تھا‬ ‫صورت احوال آنکہ‬ ‫یہ بھی استعمال میں تھا‬ ‫صورت احوال یہ ہے کہ‬ ‫لفظوں کو اکٹھا لکھا جانا عام رواج میں تھا۔ یہ رواج آج‬ ‫بھی موجود ہے۔ جیسے اسکی' اسکے' انکے وغیرہ۔ اکٹھا‬ ‫لکھتے نون غنہ نون میں بدل جاتا ہے۔ مثال کروں گا سے‬ ‫کرونگا۔ بولنے میں کروں گا ہی آتا ہے۔‬


‫سابقے‬ ‫‪:‬با‬ ‫باذوق' باعزت' باجماعت‬ ‫‪:‬بر‬ ‫براعظم' برصغر' بحر و بر' برتؤ‬ ‫‪:‬ما‬ ‫ماقبل' مابعد' مانع‬ ‫داد‬ ‫دادرسی‬ ‫داد دینا' داد فریاد' داد و فریاد‬ ‫در‬ ‫دربان' درکنار' درگزر‬ ‫درگاہ' دربار' درماندہ' درکار‬ ‫درست' درستی' درندہ' درندگی‬ ‫درگزر' درحقیقت'درکنار' درجہ' درمن‬


‫درگا' نام دیوی دال کے اوپر پیش ہے۔ دیکھنے میں دونوں‬ ‫ایک سے ہیں لیکن دونوں کا تلفظ ایک نہیں۔‬ ‫در و دیوار‬ ‫‪:‬چو‬ ‫چور' چورس' چوگرد‬ ‫الحقے‬ ‫‪:‬را‬ ‫ہمارا' تمہارا' سہارا' کھارا' گارا‬ ‫‪:‬چہ‬ ‫چنانچہ' خواں چہ خوانچہ' دیگ چہ دیگچہ' باغیچہ‬ ‫مخواں‪ :‬خواں‬ ‫قرآن خوان' نعت خوان' مرثیہ خوان' نوحہ خوان‬ ‫یائے مصدری بڑھانے سے‪ :‬قرآن خوانی' نعت خوانی'‬ ‫مرثیہ خوانی' نوحہ خوانی‬


‫‪:‬داد‬ ‫خداداد‬ ‫‪:‬شد‬ ‫ختم شد‬ ‫‪:‬خواہ‬ ‫خوامخواہ' بدخواہ‬ ‫‪:‬کرد‬ ‫حاصل کردہ' کارکردگی‬ ‫کن‪ :‬کارکن' رکن‬ ‫ہاہے مقصورہ بڑھانے سے کنہ‬ ‫کنی‪ :‬دو رکنی' کان کنی‬ ‫دانی‬ ‫لفظ دانی اردو میں باطور الحقہ رواج رکھتا ہے۔ مثال صابن‬ ‫دانی‬


‫گو‬ ‫من نمی گویم انا الحق یار می گوید بگو‬ ‫چوں نگویم چوں مرا دلدار می گوید بگو‬ ‫‪:‬گویم نگویم‬ ‫بولوں کہ نہ بولوں‪ .‬کہا' نہ کہا‪ .‬کیا' نہ کیا‬ ‫کچھ مرکب آوازیں جن کے کوئی ذاتی معنی نہیں ہوتے‬ ‫لیکن لفظوں کو نئی معنویت سے ہم کنار کرتی ہیں۔ مثال ئی‬ ‫اور ئے‬ ‫ئی‪ :‬دریائی' گرمائی' شرمائی‬ ‫خواجہ صاحب کے ہاں اس کا استعمال مالحظہ ہو۔‬ ‫ایں دوئی را از میاں بر دار می گوید بگو‬ ‫ئے‪ :‬آئے' پائے' جائے‬ ‫جائے' جگہ اور جانے سے متتعلق ہے۔ مثال‬


‫وہ جائے گا۔‬ ‫قیامت کے روز شیطان کو جائے پناہ میسر آ سکے گی۔‬ ‫خواجہ صاحب کے ہاں اس کا استعمال مالحظہ ہو۔‬ ‫تا کہ من مست از تجلی ہائے ربانی شدم‬ ‫حقا کہ بنائے ال الہ ہست حسین‬ ‫اردو میں رائج الفاظ‬ ‫شاہ حسین بادشاہ دین دین پناہ سر دست یزید کہ بنائے ال‬ ‫الہ جان منزل جانان محمد صد کشا دل از جان باغ و دیگر‬ ‫قرآں بستان محمد غم اے آب و گل جان و دل تا بہ یژب‬ ‫افغان دیگر برسر واں کہ یاور برہان محمد خون عاشق‬ ‫عشق اگر ہدر فردا دوست تاوان درد زخم عصیاں غم مرہم‬ ‫شفاعت درمان محمد مستغرق ہرچند عذر پژمردہ باران‬ ‫گلستان احمد مرجاں عمان محمد یا رب کہ اندر نور حق‬ ‫فانی مطلع انوار فیض ذات سبحانی ذرہ ذرہ از طالب دیدار‬ ‫تا کہ مست از تجلی ہائے ربانی زنگ غیرت مرآت دود‬ ‫عشق تا واقف اسرار پنہانی بیروں ظلمت ہستی تا نور‬


‫ہستی دانی گر دود نفس ظلمت پاک سوختہ امتزاج آتش‬ ‫عشق تو نورانی خلق راہ را بدشواری اے عفاک ہللا کہ‬ ‫بارے بآسانی دم بدم روح القدس اندر معینی مگر عیسی‬ ‫ثانی اگر حقیقت وجود خود بینی قیام جملہ اشیاء بہبود خود‬ ‫بینی دجود نار موسوی اگر از سر تو دود خود بینی قعر‬ ‫لجہ توحید عشق کہ گنج مخفی حق را نفود خود بینی بہ‬ ‫قصر عشق ترا پایہ از سر کہ تخت ہر دو جہاں خود بینی تو‬ ‫فرشتہ نظر جمال دوست نہ لعیں کہ ہمیں سجود خود بینی‬ ‫شاید کہ تا دنا خود بینی آ و نور دوست نگر تو چند شیشہ‬ ‫سرخ و کبود خود بینی اگر آئینہ زنگ حدوث بزوائی جمال‬ ‫شائد حق شہود خود بینی بند دیدہ اعیاں کہ تا ز عین عیاں‬ ‫وجود دوست جان وجود خود بینی بزم گدایاں شہ نشاں‬ ‫خودی کہ تا نتیجہ احساں وجود خود بینی آ بہ مجلس‬ ‫مسکیں معین شوریدہ کہ نقل و بادہ گفت و شنود خود بینی‬ ‫انا الحق یار مرا دلدار بار اندر صومعہ با زاہداں بے تحاشا‬ ‫سر بازار محرم با در و دیوار سر منصوری نہاں حد ہم ہم‬ ‫دار آتش عشق درخت جان من زد علم با موسی آں یار‬ ‫نیم مدام اسرار اے صبا کہ پرسدت طالب دین سلطان محمد‬ ‫معیں دوئی میاں دار خویش خانہ بروں ازیں خانہ بروں‬ ‫ازیں‬


‫خویش‪ :‬اول خویش بعد درویش' معروف مقولہ ہے۔‬ ‫امروز‪ :‬ایک اردو اخبار اس نام سے شائع ہوتا رہا ہے۔‬ ‫‪..................‬‬ ‫اس معروف چومصرعے کے چاروں ابتدائی لفظ اردو میں‬ ‫بھی مستعمل ہیں۔‬ ‫شاہ ہست حسین پادشاہ ہست حسین‬ ‫دین ہست حسین دین پناہ ہست حسین‬ ‫سر داد نداد دست در دست یزید‬ ‫حقا کہ بنائے ال الہ ہست حسین‬ ‫‪..................‬‬ ‫اگلے دس شعروں کے قوافی مالحظہ ہوں‬ ‫جانان' جان' گلستان' باران' باران' تاوان' سلطان' برہان'‬ ‫افغان' بستان‬


‫در جان چو کرد منزل جانان ما محمد‬ ‫صد در کشا در دل از جان ما محمد‬ ‫ما بلبلیم باالں در گلستان احمد‬ ‫ما لولوئیم و مرجاں عمان ما محمد‬ ‫مستغرق گناہیم ہر چند عذر خواہیم‬ ‫پژ مردہ چوں گیاہیم باران ما محمد‬ ‫از درد زخم عصیاں مارا چہ غم چو سازد‬ ‫از مرہم شفاعت درمان ما محمد‬ ‫امروز خون عاشق در عشق اگر ہدر شد‬ ‫فردا ز دوست خواہم تاوان ما محمد‬


‫ما طالب خدایئم بر دین مصطفائیم‬ ‫بر در گہش گدائیم سلطان ما محمد‬ ‫از امتاں دیگر ما آمدیم برسر‬ ‫واں را کہ نیست یاور برہان ما محمد‬ ‫اے آب و گل سرودے وی جان و دل درودے‬ ‫تا بشنود بہ یژب افغان ما محمد‬ ‫در باغ و بوستانم دیگر مخواں معینے‬ ‫باغم بشست قرآں بستان ما محمد‬ ‫خواجہ معین الدین چشتی‬ ‫‪..................‬‬


‫ان سات اشعار کے قوافی سے متعلق الفاظ' اردو میں رواج‬ ‫رکھتے ہیں‬ ‫فانی' سبحانی' ربانی' پنہانی' دانی' نورانی' بآسانی' ثانی‬ ‫ایں منم یا رب کہ اندر نور حق فانی شدم‬ ‫مطلع انوار فیض ذات سبحانی شدم‬ ‫ذرہ ذرہ از وجودم طالب دیدار گشت‬ ‫تا کہ من مست از تجلی ہائے ربانی شدم‬ ‫زنگ غیرت را ز مرآت دلم بزدود عشق‬ ‫تا بکلی واقف اسرار پنہانی شدم‬ ‫من چناں بیروں شدم از ظلمت ہستی خویش‬ ‫تا ز نور ہستی او آنکہ می دانی شدم‬


‫گر ز دود نفس ظلمت پاک بودم سوختہ‬ ‫ز امتزاج آتش عشق تو نورانی شدم‬ ‫خلق می گفتند کیں راہ را بدشواری روند‬ ‫اے عفاک ہللا کہ من بارے بآسانی شدم‬ ‫دم بدم روح القدس اندر معینی می دمد‬ ‫من نمی دانم مگر عیسی ثانی شدم‬ ‫خواجہ معین الدین چشتی‬ ‫‪..................‬‬ ‫ان آٹھ اشعار کے قوافی اردو میں مستعمل الفاظ ہیں۔‬ ‫یار' دلدار' بار' بازار' دیوار' دار' یار' اسرار' دار‬


‫من نمی گویم انا الحق یار می گوید بگو‬ ‫چوں نگویم چوں مرا دلدار می گوید بگو‬ ‫ہر چہ می گفتنی بمن بار می گفتی مگو‬ ‫من نمی دانم چرا ایں بار می گوید بگو‬ ‫آں چہ نتواں گفتن اندر صومعہ با زاہداں‬ ‫بے تحاشا بر سر بازار می گوید بگو‬ ‫گفتمش رازے کہ دارم با کہ گویم در جہاں‬ ‫نیست محرم با در و دیوار می گوید بگو‬ ‫سر منصوری نہاں کردن حد چوں منست‬ ‫چوں کنم ہم ریسماں ہم دار می گوید بگو‬


‫آتش عشق از درخت جان من بر زد علم‬ ‫ہر چہ با موسی بگفت آں یار می گوید بگو‬ ‫گفتمش من چوں نیم در من مدام می دمے‬ ‫من نخواہم گفتن اسرار می گوید بگو‬ ‫اے صبا کہ پرسدت کز ما چہ می گوید معیں‬ ‫ایں دوئی را از میاں بر دار می گوید بگو‬ ‫خواجہ معین الدین چشتی‬ ‫‪..................‬‬ ‫ان اشعار کے ابتدائی الفاظ اردو میں بھی مستعمل ہیں۔‬ ‫اگر' قیام' کہ' تو' نہ' بباز' جمال' یہ' وجود' در‬


‫ردیف خود بینی اردو والوں کے لیے اجنبی نہیں۔‬ ‫اگر بچشم حقیقت وجود خود بینی‬ ‫قیام جملہ اشیاء بہبود خود بینی‬ ‫دجود ہیزمیت نار موسوی گردد‬ ‫اگر بروں کنی از سر تو دود خود بینی‬ ‫ز قعر لجہ توحید در عشق برار‬ ‫کہ گنج مخفی حق را نفود خود بینی‬ ‫بہ قصر عشق تراپایہ از سر جہدست‬ ‫کہ تخت ہر دو جہاں را فرود خود بینی‬


‫تو چوں فرشتہ نظر بر جمال دوست گمار‬ ‫نہ چوں لعیں کہ ہمیں در سجود خود بینی‬ ‫ازیں حضیض و دنایت چو بگذری شاید‬ ‫کہ تا دنا فتدلی صعود خود بینی‬ ‫بباز خانہ بروں آ ونور دوست نگر‬ ‫تو چند شیشہ سرخ و کبود خود بینی‬ ‫اگر ز آئینہ زنگ حدوث بزوائی‬ ‫جمال شائد حق در شہود خود بینی‬ ‫بہ بند دیدہ ز اعیاں کہ تا ز عین عیاں‬ ‫وجود دوست چو جان وجود خود بینی‬


‫بیا بزم گدایاں شہ نشاں خودی ست‬ ‫کہ تا نتیجہ احساں وجود خود بینی‬ ‫در آ بہ مجلس مسکیں معین شوریدہ‬ ‫کہ نقل و بادہ ز گفت و شنود خود بینی‬ ‫خواجہ معین الدین چشتی‬ ‫‪..................‬‬ ‫قصہ سفرالعشق کے فارسی حواشی‬

‫عرصہ قدیم سے' ایران اور برصغیر کے درمیان' سیاسی'‬ ‫معاشی' سماجی' تہذیبی' نظریاتی اورخونی رشتے استوار‬


‫چلے آتے ہیں۔ طالع آزما جنگ جو' تاجر' صوفیا' علما اور‬ ‫فضال مختلف ادوار میں' مختلف حوالوں سے' برصغیر میں‬ ‫آتے جاتے رہے ہیں۔ برصغیر کی معاشرت پر' اپنے اپنے‬ ‫حوالوں سے' اثرانداز ہوتے رہے ہیں۔ بالواسطہ اور‬ ‫بالواسط ' مقامی بولیاں اور زبانیں; فارسی ادبیات سے اثر‬ ‫لیتی رہی ہیں۔ برصغیر کی شاید ہی کوئی زبان ہو گی'‬ ‫جسے فارسی نے' فکری اور اسلوبی اعتبار سے' متاثر‬ ‫نہیں کیا ہو گا۔ فارسی کے بےشمار الفاظ' ان زبانوں میں‬ ‫داخل ہو گیے ہیں۔ مختلف حاالت میں' ان کی مختلف‬ ‫صورتیں رہی ہیں۔‬ ‫اصل صوت' ہئیت اور مفاہیم کے ساتھ فارسی زبان کے‬ ‫الفاظ' برصغیر کی زبانوں میں داخل ہوئے ہیں یا ان‬ ‫زبانوں نے ان الفاظ کی ہیتی صوتی اور تفہیمی وسعت‬ ‫پذیری کی وجہ سے' دانستہ طور اپنا لیا ہے۔‬ ‫مطابقت بھی لفظوں کو اپنانے کا سبب بنی ہے۔ غربت خصم‬ ‫اور گربت کھسم قریب کے لفظ ہیں۔ آج قفلی کوئی لفظ نہیں‬ ‫رہا' اسی طرح گربت اور کھسم استعمال میں نہیں رہے۔‬


‫الفاظ کی ہئیت اور صوت برقرار نہیں رہی ہے لیکن ان‬ ‫کے مفاہیم میں تبدیلیاں نہیں آئیں۔‬ ‫الفاظ کی اصل ہئیت اور صوت تو برقرار رہی ہے لیکن ان‬ ‫کے مفاہیم میں تبدیلیاں آئی ہیں یا مفاہیم یکسر بدل گیے‬ ‫ہیں۔‬ ‫مقامیت کے زیر اثر یا بدلتے حاالت کے تحت' فارسی الفاظ‬ ‫کی مختلف اشکال نے جنم لے لیا ہے۔ یہ بھی کہ ان نئی‬ ‫اشکال کے نئے مرکبات پڑھنے سننے کو ملتے ہیں۔‬ ‫انگریزی کی قہرمانی اور فتنہ سامانی کے بوجود' از خود‬ ‫اور نادانستہ طور پر' یہ تبدیلیوں کا عمل ہر سطع پر جاری‬ ‫و ساری ہے۔‬ ‫مقامی زبانوں کے الفاظ کے ساتھ' فارسی سابقوں الحقوں‬ ‫کی پیوندکاری کا عمل مضبوط سے مضبوط تر ہوا ہے۔‬


‫ایرانی اشیا اور مختلف حلقوں سے متعلق اشخاص کے‬ ‫اسما اور شہروں وغیرہ کے ناموں کا استعمال' ادبی اور‬ ‫سماجی حلقوں میں باکثرت ملتا ہے۔‬ ‫ایرانی اہل ہنر اور ہیروز کے کارناموں کا تذکرہ یا حوالہ‬ ‫مقامی زبانوں کی تصانیف میں ملتا ہے۔‬ ‫فارسی محاورے' روزمرے اور اقوال و امثال بالتکلف'‬ ‫مقامی زبانوں میں استعمال ہوئی ہیں۔‬ ‫فارسی اصطالحات کا استعمال' ان زبانوں میں کسی قسم‬ ‫کے اوپرے پن کا احساس تک ہونے نہیں دیتا۔‬ ‫فارسی شعرونثر سے متعلق تخلیقات کے تراجم مقامی‬ ‫زبانوں میں ہوتے آئے ہیں۔ مقامی زبانوں کے تبادالت میں'‬ ‫اصل الفاظ کی روح کسی ناکسی سطع پر' متحرک رہی ہے۔‬


‫دور کیا جانا ہے' مغلیہ عہد جو مئی ‪ 1857‬تک قائم رہا۔‬ ‫فارسی کا دربار' بازار مکتب اور بعض آزاد ریاستوں میں‬ ‫سکہ چلتا رہا ہے۔ اس حوالہ سے' بڑی جان دار اور مستند‬ ‫کتب' فارسی کے ورثہ میں داخل ہوئی ہیں۔ ان تصانیف‬ ‫میں' مقامی زبانوں کے الفاظ اشیا و اشخاص کے نام‬ ‫رسوم وغیرہ کے نام فارسی' زبان کے مخصوص لب و‬ ‫لہجہ کے ساتھ داخل ہوئے ہیں۔ ان حوالوں کی واپسی'‬ ‫فارسی اطوار کے ساتھ ہوئی ہے۔ اب ان پر دیسی ہونے کا‬ ‫گمان تک نہیں گزرتا۔ اہل لغت نے ان پر فارسی ہونے کی‬ ‫مہر تک ثبت کر دی ہے۔‬ ‫شاہی محالت میں' روز زوال تک' بعد ازاں مغل شاہی‬ ‫گھروندوں میں بھی فارسی کا سکہ چلتا رہا۔ بہت سے‬ ‫شعرا فارسی میں کہتے رہے۔ گلستان بوستان کی اہمیت‬ ‫باقی رہی۔ محالتی مکینوں یا ان سے متعلق حضرات کا‬ ‫کلچر عمومی اور عوامی کلچر سے ہٹ کر رہا۔ شاہ سے‬ ‫متعلق اہل قلم نے عوامی دائروں میں رہ کر سوچا لیکن‬ ‫اپنے سوچ کو زبان اور طور شاہی دیا۔‬


‫شاہی جبریت کے بعد' برٹش استحصالیت کے زمانے میں'‬ ‫سوچی سمجھی سازش کے تحت فارسی کا پتا کاٹنے کے‬ ‫لیے' مقامی زبانوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ فارسی کے‬ ‫متعلق۔۔۔۔۔۔ پڑھو فارسی بیچو تیل۔۔۔۔۔۔ ایسی خرافات' عرف‬ ‫عام میں آ گئیں۔ اس ناقدری اور حوصلہ شکنی کے‬ ‫‪:‬باوجود‬ ‫فارسی کی کسی ناکسی سطع پر مداخلت باقی رہی۔ ‪1-‬‬ ‫رومی' سعدی' حافظ' خیام' جامی وغیرہ کے فکری و ‪2-‬‬ ‫لسانی حسن کا سکہ' نادانستہ طور پر سہی' آج بھی باقی‬ ‫ہے۔‬ ‫برٹش عہد میں' اردو کو برصغیر زبان ہونے کے ناتے'‬ ‫عزت دی گئی جب کہ پنجابی نے بھی انگریز کی ماتحتی‬ ‫کی' لیکن اس کا فارسی سے رشتہ ختم نہ ہوا۔ معروف‬ ‫مثنویوں کے عنوانات اور حواشی فارسی میں ملتے ہیں۔‬ ‫‪...........‬‬ ‫پنجابی قصہ۔۔۔۔۔ سفرالعشق ۔۔۔۔۔۔۔ المعروف بہ سیف الملوک‬


‫کا پنجابی کالسیکی ادب میں بڑا بلند پایہ ہے۔ وقت کے‬ ‫ساتھ ساتھ اس کی قدر و قیمت میں ہرچند اضافہ ہی ہوا‬ ‫ہے۔ دیہاتوں اور شہروں میں' اس قصے کو بڑے شوق‬ ‫سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ برصغیر کے معرف فن کاروں‬ ‫نے'اسے صوفیانہ کالم قرار دے کر' عقیدت اور احترام‬ ‫سے گایا ہے۔ میاں محمد بخش صاحب کی بہت سی‬ ‫تصانیف ہیں۔ جن میں‪ :‬قصہ سوہنی' شیرین فرہاد' نیرنگ‬ ‫عشق' مرزا صاحباں' شاہ منصور' سی حرفی سسی پنوں'‬ ‫سی حرفی ہیر رانجھا' تذکرہ مقیمی' گلزار فقیر' ہدایت‬ ‫المسلمین' تحفہ میراں کرامات غوث اعظم' تحفہ رسولیہ'‬ ‫معجزات سرور کائنات' سخی خواص خاں خاص طور‬ ‫معروف ہوئیں تاہم قصہ سفر العشق میاں محمد بخش‬ ‫صاحب کی شہرت کا سبب بنا۔ یہ قصہ ‪ 1859‬میں رقم ہوا۔‬ ‫اس وقت میاں محمد بخش صاحب کی عمر تنتیس برس‬ ‫تھی۔ ان کی جوانی' اس قصے کی زبان اور فکر میں‬ ‫بھرپور انداز میں رقصاں ہے۔‬ ‫یہ قصہ کل ترسٹھ عنوانات پر مشتمل ہے۔ ان میں سے‬ ‫سترہ عنوان حمد نعت مدح جات اوصاف قصہ منازل ہائے‬


‫تصوف وغیرہ پر مشتمل ہے جب کہ قصہ کے اختامیہ سے‬ ‫متعلق ہیں۔ گویا اصل قصہ سے متعلق کل بیالیس عنوانات‬ ‫‪:‬ہیں۔ تفصیل کچھ یوں ہے‬ ‫آغاز قصہ‬ ‫تولد‪1‬شدن شاہ زادہ سیف الملوک‬ ‫دیدن شاہ زادہ تصاویر شاہ مہرہ و عاشق شدنش‬ ‫جواب سیف الملوک عاشق با پدر‬ ‫مہلت خواستن پدر و بیان کردن کیفیت مورت‬ ‫پند دادن پدر پسر را‬ ‫جواب شہزادہ‬ ‫التماس بادشاہ پیش فرزند‬ ‫رحم آوردن پسر بر پدر‬ ‫بیان دیوانہ شدن شہزادہ‬ ‫در بیان خواب دیدن سیف الملوک‬ ‫رخصت طلبیدن شہزادہ از مادر‬ ‫زاری نمودن شہزادہ از درد مادر‬


‫داستان رواں شدن سیف الملوک از مصر‬ ‫نامہ نوشتن شاہ فغفور جانب شاہزادہءمصر‬ ‫در جواب شہزادہ بہ فغفور چین‬ ‫دربیان غرق شدن کشتی ہائے در طوفان و جدا شدن صاعد‬ ‫گرفتار شدن سیف الملوک بدست بوزنگاں‬ ‫در بیان جنگ با سنگساراں‬ ‫گرفتار شدن سیف الملوک بدست زنگیاں‬ ‫رفتن شاہزادہ در شہر زناں‬ ‫در بیان مشقت دیدن شاہزادہ از گرسنگی و تشنگی و سوال‬ ‫و جواب عقل و نفس‬ ‫رسیدن شاہزادہ در قلعہ دیوان و خالص کنائیدن ملکہ‬ ‫خاتون را‬ ‫در وصف جمال ملکہ خاتون‬ ‫رواں شدن شہزادہ مع ملکہ خاتون‬ ‫مالقات صاعد با شاہزادہ‬ ‫در وصف جمال بدرہ خاتون و عاشق شدن صاعد بروے‬


‫آمدن بدیع الجمال بہ ساندیپ‬ ‫در وصف بدیع الجمال‬ ‫حاصل کالم‬ ‫در غزلیات و دوہڑا سرائیدن شاہزادہ‬ ‫در وصف شہزادہ سیف الملوک‬ ‫نامہ بدالجمال بطرف مہر افروز‬ ‫داستان خبر شدن دیوان قلزم را و کشتن بہرام شہزادہ‬ ‫نامہ نوشتن شاہپال بطرف ہاشم شاہ‬ ‫جواب نامہ از طرف ہاشم شاہ‬ ‫بر جنگ تیار شدن شاہپال و ہاشم شاہ‬ ‫جنگ کردن شاہپال شاہ با ہاشم شاہ دیواں‬ ‫نامہ نوشتن سیف الملوک بطرف پدر دردمند‬ ‫آمدن ساعد در سفر و تیار شدن عاصم شاہ بر شارستان‬ ‫وفات یافتن عاصم شاہ‬ ‫وفات یافتن سیف الملوک و نالیدن بدیع الجمال از درد‬


‫بات پنجابی قصے کے عنوانات تک محدود نہیں بل کہ‬ ‫قصے کے حواشی بھی فارسی میں درج کیے گیے ہیں۔ یہ‬ ‫حوشی پانچ سو کے قریب ہیں۔ فارسی حواشی درج کرتے‬ ‫احتیاط سے کام نہیں لیا گیا۔ ڈھنگ سے پروف ریڈنگ تک‬ ‫نہیں کی گئی۔ میرے پیش نظر حمیدیہ بک ڈپو' اردو بازار'‬ ‫الہور ‪ 1993‬کا نسخہ ہے۔ متنی ابالغ کے حوالہ سے‬ ‫حواشی کی صحت کی ضرورت کو نظر انداز نہیں کیا جانا‬ ‫چاہیے۔ اس سے اچھی خاصی لغت سامنے آ سکتی ہے۔‬ ‫ان حواشی میں مختلف نوعیت معومات فراہم کی گئی ہیں ‪:‬‬ ‫لفظوں کے مفاہیم‬ ‫بعض لفظوں کی زبان کا تعین‬ ‫اشخاص کا تعارف اور ان سے متعلق معلومات‬ ‫مختلف قسم کی اصطالحات اور محاورات سے متعلق‬ ‫معلومات‬ ‫اس تحریر کے تیسرے حصہ میں پنجابی الفاظ کے ساتھ‬ ‫فارسی حواشی درج کر دیے گیے ہیں تا کہ قاری اس لغت‬


‫کی مدد سے قصے کی بہتر تفہیم کر سکے۔‬

‫‪.............................‬‬ ‫متولد ‪1-‬‬ ‫آدی‪ :‬لفظ سنسکریت قدیم شعر ‪ 3‬ص‪94‬‬ ‫آسہ‪ :‬ناامید شدن و مرگ اختیاری شعر ‪ 203‬ص‪293‬‬ ‫آواز‪ :‬آواز شعر‪ 2‬ص ‪91‬‬ ‫آہلناں‪ :‬آشیانہ۔۔۔۔گھونسلہ۔۔۔۔۔ شعر ‪ 35‬ص ‪76‬‬ ‫اپراہدی‪ :‬کار مشکل کنندہ ش‪ 230‬ص‪242‬‬ ‫اجل‪ :‬دانہ ہائے آخر چنیدہ شعر ‪ 3‬ص‪212‬‬ ‫اچھاڑ‪ :‬غالف شعر‪ 305‬ص‪183‬‬ ‫اڈیوں‪ :‬شعلہ آتش کہ بلند می شود شعر ‪ 1‬ص‪384‬‬ ‫ارنی ارنی‪ :‬رمزے است از رموز حقیقی کہ در مجاز گفتہ‬ ‫شد شعر ‪ 185‬ص ‪252‬‬ ‫ارداسی‪ :‬عاجزانہ شعر ‪ 286‬ص ‪257‬‬


‫اشتر‪ :‬ہفتاد۔ ہفتاد خچر و شتر بار گراں برداشتہ شعر ‪513‬‬ ‫ص‪193‬‬ ‫افالطون و ارسطو در عہد سکندر حکمائے یونان شعر‪77‬‬ ‫ص‪53‬‬ ‫اکا‪ :‬بالکل آرام نہ داشت استخوان و مغز استخوان میسوخت‬ ‫ہمچوں ہنیرم خورد خشک شد شعر ‪ 515‬ص ‪326‬‬ ‫اکایاں‪ :‬تنگ و الچار کردہ شعر‪ 174‬ص‪149‬‬ ‫اگوڑی‪ :‬بھن اگوڑی بمعنی تازہ زدہ تن یا پیچ و تاب داد‬ ‫شعر ‪ 426‬ص‪412‬‬ ‫ان جل‪ :‬آب و دانہ شعر ‪ 13‬ص ‪88‬‬ ‫الدنیا غریب‪ :‬دنیا جائے سفر است دریں دنیا جائے قرار‬ ‫نیست بلکہ بےقرار است شعر‪ 278‬ص‪181‬‬ ‫الیماں‪ :‬تیاری فوج شعر‪ 499‬ص ‪193‬‬ ‫ان۔ ماس‪ :‬ان یعنی ہر قسم اناج و ماس گوشت شعر‪2‬‬ ‫ص‪331‬‬ ‫انباروں‪ :‬بسیار خور شعر ‪ 74‬ص‪101‬‬ ‫انٹے‪ :‬بیضہ شعر‪ 9‬ص‪93‬‬


‫ان بدھا‪ :‬بے سوراخی کہ بسیار قیمتدار۔۔۔۔۔ پرارزش۔۔۔۔۔۔‬ ‫باشد مراد از ملکہ خاتون کہ بکر بود شعر ‪ 1‬ص‪140‬‬ ‫ان بدھے‪ :‬بے شگاف یا بے سوراخ شعر ‪ 86‬ص‪234‬‬ ‫انازوں‪ :‬اناج شعر ‪ 255‬ص ‪403‬‬ ‫اوائی‪ :‬خبر آمدن شعر ‪ 242‬ص ‪152‬‬ ‫اوبل‪ :‬جوشندہ شعر ‪ 35‬ص‪168‬‬ ‫اوکڑ‪ :‬مشکل مہم شعر‪ 2‬ص‪92‬‬ ‫ایرا‪ :‬بنیاد زریں شعر‪ 6‬ص ‪133‬‬ ‫این‪ :‬حکم شعر‪ 6‬ص‪94‬‬ ‫ایڈ سپورن‪ :‬بہ بسیار یعنی کہ پیغامہای کسان۔۔۔۔۔ دیگر می‬ ‫برند کہ ایشاں پیغام دیگرے دارند مثال ہر کہ گوید پیغام‬ ‫رسانند را گویا زاغ درد رسوائی خانہ نہ گرد باورچی خانہ‬ ‫خود انداختہ کہ بسیار نار او است ازاں کہ ہر چیز بخورد و‬ ‫کرامت بسیار ست شعر ‪ 776‬ص‪329‬‬ ‫بابت‪:‬چیز شعر‪ 306‬ص‪183‬‬ ‫باتی‪ :‬چراغ شعر ‪ 17‬ص ‪75‬‬


‫بادر‪ :‬طاقت شعر ‪ 38‬ص‪83‬‬ ‫باز‪ :‬باز اول بمعنی قوت آنا و باز دوم بمعنی باز شاری‬ ‫شعر ‪ 53‬ص‪125‬‬ ‫باقی‪ :‬لتیلہ از پنبہ کہ در چراغ می سوزو شعر ‪71‬‬ ‫ص‪131‬‬ ‫بانا‪ :‬لباس سبز ۔۔۔۔۔لباس' لباس فقرا۔۔۔۔۔ شعر ‪ 253‬ص‬ ‫‪255‬‬ ‫بائی‪ :‬گفتن بزبان پوٹھوہاری عنوان منزل فقر شعر ‪1‬‬ ‫ص‪41‬‬ ‫ببتا‪ :‬مصیبت‪ :‬شعر ‪ 66‬ص‪131‬‬ ‫ببدی‪ :‬آنا آنکہ ہر چہار طریق طے کردہ بدرجہ علوی‬ ‫رسیدہ اند از ہمہ لوائث دنیا وی پاک شدہ اند' گناہ و ثواب‬ ‫در آں نمی رسد وہللا اعلم بالصواب شعر ‪ 11‬ص‪40‬‬ ‫بتا‪ :‬فریب شعر ‪ 14‬ص ‪135‬‬ ‫بتا‪ :‬حیلہ و مکر و بہانہ سازی بسیار کردہ شعر ‪173‬‬ ‫ص‪149‬‬ ‫بجگ‪ :‬بفتحہ اول معجمہ کسر دوم معجمہ و سوم فارسی‬


‫مشدد یعنی آفت و باالئے آسمانی مثل برق ژالہ وغیرہ‬ ‫شعر‪ 3‬ص‪343‬‬ ‫بجگ‪ :‬بجگ یعنی بجیم تازی مکسور کاف فارسی مشد یعنی‬ ‫آفت ناگہانی شعر ‪ 60‬ص‪218‬‬ ‫بدر منیر‪ :‬آوردن لفظ بدر منیرو ملک در آسمانی ایں ہمہ‬ ‫از تالزمہ شاعرے است شعر ‪ 1‬ص‪215‬‬ ‫بدر منیر‪ :‬ماہ چار دہ روزہ و نیز معشوقہ بےنظیر‬ ‫برج ستارہ‪ :‬محاورات نجومیہ را می گویند شعر ‪ 21‬ص‬ ‫‪50‬‬ ‫بشیرال‪ :‬مار سیاہ شعر‪ 14‬ص‪123‬‬ ‫بک اجاڑی‪ :‬غزالہ بیابانی شعر ‪ 66‬ص‪233‬‬ ‫بل‪ :‬بل در زبان کشمیری محلہ را گویند شعر‪ 36‬ص‪124‬‬ ‫بلی‪ :‬قالو ابلی گفت و رنج و بال گرفت شعر ‪ 838‬ص‪327‬‬ ‫برم‪ :‬تازیانہ سخت کہ چابک سواراں دارند و اسپ را بدو‬ ‫جنبا آواز آں سخت باشد شعر ‪ 428‬ص‪412‬‬ ‫بن‪ :‬بغیر نوشیدہ شعر ‪ 69‬ص‪234‬‬ ‫بندی‪ :‬خال شعر ‪ 10‬ص‪141‬‬


‫بندے‪ :‬نام زیور شعر‪ 86‬ص‪117‬‬ ‫بندے بندے‪ :‬ساعت بساعت شعر‪ 388‬ص ‪187‬‬ ‫بوٹی‪ :‬پارہء گوشت شعر‪ 102‬ص ‪288‬‬ ‫بہچھن‪ :‬گفتار ہا کہ در بہوشی خواب گفتہ شدد آن بمعنی‬ ‫باشد یعنی اولیا اگر گفتار کنند در فہم نیایند آنہم راست و‬ ‫صحیح بداں ہ یشاں ہر چہ گویند بر لوح محفوظ دیدہ‬ ‫بگویند و آں رائے نیست اگرچہ آں در فہم ما نیاید۔ قصور‬ ‫افہام عام ست نہ در کالم آن ش‪ 117‬ص ‪248‬‬ ‫بہنی‪ :‬بندوبست تن تمام خوب شعر‪ 12‬ص‪104‬‬ ‫بینک‪ :‬جدا نہ شود شعر‪ 141‬ص‪124‬‬ ‫بےوفائی‪ :‬در زمانہ ہمیشہ رسم بےوفائی است شعر‪12‬‬ ‫ص ‪261‬‬ ‫پاربدی‪ :‬نام مطرب خسرو پرویز کہ دریں فن بکمال رسیدہ‬ ‫بود شعر ‪ 249‬ص ‪403‬‬ ‫پانی چھڑ دا‪ :‬در آب رفتے شعر ‪ 19‬ص‪129‬‬ ‫پاہرو‪ :‬پہرہ دا۔۔۔۔۔ کشیچکی ۔۔۔۔۔ شعر ‪ 61‬ص ‪136‬‬


‫پتا‪ :‬زہرہ شعر ‪ 7‬ص ‪110‬‬ ‫پج‪ :‬رسیدن شعر ‪ 261‬ص ‪257‬‬ ‫پچریاں‪ :‬پازیب شعر ‪ 428‬ص‪412‬‬ ‫پچھاک‪ :‬پس ماندہ شعر‪ 506‬ص ‪193‬‬ ‫پچھل‪ :‬زلزلہ شعر ‪ 16‬ص ‪116‬‬ ‫پراک‪ :‬یعنی جناں را قوت زیادہ از حد آدم ست کہ چندیں‬ ‫فریب کنند و لیکن از یک صورت آدمی زورآور است کہ اگر‬ ‫جسم جامہ پاک دارد جن عفریت ظاہری بر غلبہ کردن‬ ‫نتواند باایں چنیں اگر در باطن پاکی باشد نفس و شیطان را‬ ‫قوت غلبہ نہ باشد شعر‪ 181‬ص‪149‬‬ ‫پرچتی‪ :‬بہ گناہ گار رحم کردی شعر‪ 462‬ص‪165‬‬ ‫پرکالے‪ :‬پرزہ شد شعر‪ 332‬ص‪183‬‬ ‫پروے‪ :‬پارچہ کہ از آں آرد آسیا کنند شعر ‪ 125‬ص‪221‬‬ ‫پکیرا‪ :‬اشارت ست بداں خلق آدم کہ حسن ذات او وظاہر شد‬ ‫مخفی نماند یعنی اول عشق و محبت خود شروع کردی کہ‬ ‫انسان را برائے دوستی جز آفریدے و او را انسان مرے‬ ‫وانا سرہ شعر‪ 125‬ص‪289‬‬


‫پکھیرو‪ :‬ہر پرندہ را گویند ص ‪238‬‬ ‫پگسی‪ :‬میرسد شعر‪ 65‬ص‪90‬‬ ‫پلچھی‪ :‬خشک شدن زبان در دہان شعر ‪ 175‬ص‪292‬‬ ‫پلنگر‪ :‬نام زنگی کہ با سکندر جنگ کرد شعر‪ 12‬ص‪91‬‬ ‫پون بازاں‪ :‬پون بازاں آنکہ بر یک ساریک دہر ثانی شش و‬ ‫بر ثالث بر شش او تیران بر یک سار پنج بر دو دوم شش‬ ‫بر سوم دو آنرا تیرہ گفتہ شعر ‪ 537‬ص‪195‬‬ ‫پوند‪ :‬پوند اول مفتوح و واو ساکن و نون غنہ یعنی اول و‬ ‫نخست و ایں لفظ زبان پنجابی ست در عالقہ بھیرہ خوشاب‬ ‫ایں شال گویند شعر ‪ 917‬ص‪331‬‬ ‫پوئے‪ :‬بازی قمار پوئے یک پون دوئے دو پون پنج پنج‬ ‫پون چھکے شش پون شعر‪ 85‬ص ‪144‬‬ ‫پہاڑہ‪ :‬خوشامد کنندہ شعر ‪ 158‬ص‪291‬‬ ‫پنہیاں‪ :‬آنکہ حاکماں بہ طریق بیگار آسیا کنا نند یعنی‬ ‫بادشاہ عشق تراہم آسیا گردانے عشق فرمودہ شعر ‪42‬‬ ‫ص ‪263‬‬ ‫پیٹر پنیٹر‪ :‬پیچ و تاب شعر ‪ 166‬ص‪175‬‬


‫تراہے‪ :‬مثل جنبش ناگہاں شعر ‪ 277‬ص ‪154‬‬ ‫تاڑی‪ :‬دستک زدن شعر ‪ 355‬ص‪185‬‬ ‫تاڑی‪ :‬دیدشعر ‪ 355‬ص‪185‬‬ ‫تریہرے‪ :‬کچے باراں آنکہ بریک ساکانہ باشد و بر دوم پنج‬ ‫و بر سوم شش آزا کچے شہر دہ دراصالح قماریان شعر‬ ‫‪ 536‬ص‪195‬‬ ‫تسلے‪ :‬سختی شعر ‪ 96‬ص ‪133‬‬ ‫تغلے‪ :‬خورند شعر‪ 24‬ص‪98‬‬ ‫تکڑی‪ :‬طاقتور شعر ‪ 23‬ص ‪111‬‬ ‫تکیاں لہالن وگن‪ :‬از دیدن آں میوہ از دہان آب شعر‪65‬‬ ‫ص‪100‬‬ ‫تہاراں‪ :‬تیغ کوہ شعر‪ 18‬ص‪88‬‬ ‫توڑی‪ :‬انتہا شعر‪ 20‬ص‪98‬‬ ‫توڑی‪ :‬شکستہ شعر‪ 20‬ص‪98‬‬


‫تلو پسلے‪ :‬بے آرام‪ :‬شعر‪ 14‬ص ‪114‬‬ ‫تلیاں‪ :‬اول معنی کف دست دوم بمعنی سوزم ش‪193‬‬ ‫ص‪240‬‬ ‫تلیر‪ :‬نام پرندہ شعر ‪ 23‬ص ‪111‬‬ ‫تن حویلی‪ :‬تن حویلی است دراں کہ فدا ہستی و جان ہم‬ ‫مکان تست شعر‪ 264‬ص‪296‬‬ ‫تہاڑی‪ :‬ٹوپہ کہ بدو غلہ وزن می کنند ش‪ 327‬ص‪155‬‬ ‫تہوے‪ :‬یعنی کاوے زمین شعر ‪ 79‬ص‪219‬‬ ‫ٹال‪ :‬ٹال بتائے ہندی مفتوح و ثانی مشد چوب کالں کردہ‬ ‫بستہ را گویند کہ در دریا برائے سوار شدن اندختہ بر او‬ ‫سوار شدند شعر‪ 6‬ص‪167‬‬ ‫ٹال‪ :‬نام کوہ شعر ‪ 16‬ص ‪111‬‬ ‫ٹنگار‪ :‬ناز و نخرے شعر‪ 66‬ص‪115‬‬ ‫ٹنگے‪ :‬آویختہ شعر‪ 10‬ص‪128‬‬ ‫ٹہل دیون‪ :‬در دریا زنند شعر ‪ 67‬ص‪233‬‬ ‫جال‪ :‬سہ معنی دارد‬


‫اول آلہ ماہی گرفتن کہ از رشتہ تنبدہ سازند‬ ‫دوم بر تافتن و طاقت آں داشتن‬ ‫سوم سوختن‬ ‫یعنی آنچہ جال بنیدہ در دریا تحمل و حوصلہ کردا خاموش‬ ‫نشیند اگر ماہی گیر بیند ماہی گیر را غم آں می سوزد‬ ‫شعر ‪ 25‬ص‪333‬‬ ‫جان‪ :‬اگرچہ واقف راز دار۔۔۔۔۔دوست۔۔۔۔ ہمراہ باشد چوں‬ ‫بوصل یار تنہائی پسند باشد و تن کہ ہمراہ و ہمسایہ است‬ ‫آنکہ حجاب دارد دہیدہ باید ابا جاناں رسیدہ شعر ‪99‬‬ ‫ص‪220‬‬ ‫جانی‪ :‬جان جان توے شعر ‪ 296‬ص‪298‬‬ ‫جائی‪ :‬اول بمعنی زائیدہ جائی بمعنی رفتن شعر‪ 426‬ص‬ ‫‪189‬‬ ‫جریاں‪ :‬طعمات کہ گوشت و ساگ آمیختہ پزند بسیار لذیذ‬ ‫باشد شعر ‪ 8‬ص ‪230‬‬ ‫جستہ‪ :‬نام سازیست کہ از نواختن آن با خفتہ و بیہوش‬ ‫شدہ را خیزانیدہ ہمہ را باز بخانہ خود روانہ گرداند‬


‫شعر‪ 271‬ص ‪256‬‬ ‫جگ‪ :‬زمانہ گذشتہ بزبان سنسکریت شعر‪ 3‬ص‪20‬‬ ‫جل‪ :‬آب شعر ‪ 23‬ص‪129‬‬ ‫جلدی‪ :‬اول بمعنی شتابی دوم بمعنی سوختہ شعر‪ 13‬ص‬ ‫‪265‬‬ ‫جلے‪ :‬جنبیدن شعر‪ 21‬ص ‪168‬‬ ‫جنڈ‪ :‬گر اندا ہر دو نام درخت ہائے خار دار شعر‪51‬‬ ‫ص‪130‬‬ ‫جنڈ‪ :‬خار‬ ‫جنے دی‪ :‬جوان خوبصورت کی شعر‪ 273‬ص‪181‬‬ ‫جوڑی‪ :‬جفت ' پیوستہ شد شعر‪ 193‬ص‪150‬‬ ‫جون‪ :‬ہر قسم حیواناات شعر‪ 282‬ص‪297‬‬ ‫جہتباں‪ :‬زخمان خار شعر ‪ 86‬ص ‪132‬‬ ‫جی‪ :‬دل شعر ‪ 27‬ص‪199‬‬ ‫جیبی‪ :‬زبان شعر‪ 48‬ص‪99‬‬ ‫چاٹ‪ :‬شوق و لذت چہ افتاد تر شعر‪ 801‬ص‪325‬‬


‫چار مہینے‪ :‬قولہ چار مہینے الخ از صوفیائے کرام و دیگر‬ ‫فیلسوف ۔۔۔۔۔فیلسوفان ۔۔۔۔۔ آوردہ اند کہ ابتدائے وقت تعلیم‬ ‫چہار سال چہار ماہ چہار ایام است چرا کہ عمل نمودن نشان‬ ‫زیادتی علوم است شعر‪ 49‬ص ‪51‬‬ ‫چاندی‪ :‬چہرہ مانند آفتاب بود و بینی دراں چشمہ مثل ماہی‬ ‫سیمیں سپید گال داشت یعنی از جلوہ رخ شب تار روشن‬ ‫شدے ‪ 23‬ص‪141‬‬ ‫چاہ‪ :‬چاہ دو معنی دارد ایں جا مراد ہر دو است چیزے‬ ‫نوشیدنے و نیز نام محبت و خواہش شعر ‪ 418‬ص‪304‬‬ ‫چبہ‪ :‬چبہ قوت است در مضافات کوہ و ریاست کشمیر کہ‬ ‫خود را در اقوام عالیہ مے شمارد شعر‪ 121‬ص‪289‬‬ ‫چتے‪ :‬بےشرمی' دلیری شعر‪ 27‬ص ‪105‬‬ ‫چٹا پونی‪ :‬بررنگ سپید شعر‪ 336‬ص‪183‬‬ ‫چٹکے‪ :‬عشق شعر ‪ 355‬ص‪185‬‬ ‫چر‪ :‬دیگدان کالں شعر ‪ 27‬ص ‪262‬‬ ‫چشماں‪ :‬چشم کشادہ بہرجائے کہ دیدے چشم او مثل کٹار بر‬ ‫دل کردہ دلہا را لینا کردن شعر ‪ 14‬ص‪215‬‬


‫چکی‪ :‬برداشتہ شعر‪ 287‬ص‪182‬‬ ‫چنگ‪ :‬نام سازے است شعر ‪ 51‬ص ‪227‬‬ ‫چنگوں‪ :‬سارنگی شعر ‪ 135‬ص ‪147‬‬ ‫چنن‪ :‬نام درخت کہ ماربر آں باشند شعر ‪ 7‬ص‪140‬‬ ‫چنے چباں‪ :‬یعنی لوہے کے چنے مراد از تکلیف۔۔۔۔۔۔‬ ‫زحمت ۔۔۔۔۔۔ بسیار شعر‪ 429‬ص‪163‬‬ ‫چوراسے‪ :‬در فکر اندیشہ شعر ‪ 62‬ص ‪136‬‬ ‫چوکڑیاں‪ :‬جنبیدن شعر ‪ 33‬ص‪124‬‬ ‫چوہدیں‪ :‬ماہ چہار دہم بدرہ خاتون زیادہ سر سیاہ راوید‬ ‫حیران ایستادہ بودہ خورشید چہرہ ۔ چہرا صاعد دیدہ‬ ‫خورشید از شرم زیر زمین پوشیدہ بود بہ حد بست بیان‬ ‫بودہ شعر‪ 584‬ص‪314‬‬ ‫چیرے‪ :‬چیرا منزلے از منازل عمارات بلند شعر ‪ 7‬ص‬ ‫‪133‬‬ ‫چیتے‪ :‬اول چیتے بمعنی پلنگ دوم بمعنی ہوشیار شعر‬ ‫‪ 512‬ص‪193‬‬ ‫چیج بہوٹی‪ :‬نام کرمی است کہ رنگش بسیار سرخ باشد‬


‫شعر ‪ 91‬ص ‪229‬‬ ‫حبسی‪ :‬بخشش یافتہ شعر‪ 465‬ص ‪191‬‬ ‫حسن میمندی‪ :‬وزیرے بود شاہ محمود غزنوی ۔۔۔۔۔۔یکی از‬ ‫وزرای پادشاہ ۔۔۔۔۔ شعر ‪ 54‬ص‪33‬‬ ‫حے‪ :‬شہر ازاں جائے کہ سلیم نامی شتربان آمدہ بہ نجد‬ ‫رسیدہ بمجنون مالقی شعر ‪ 11‬ص ‪225‬‬ ‫خاکوں‪:‬از آدم شعر ‪ 479‬ص‪369‬‬ ‫خضر‪ :‬بہت نیک اور عمر رسیدہ آدمی کو خضر سے تشبیہ‬ ‫دی جاتی ہے شعر‪ 48‬ص‪22‬‬ ‫دانے‪ :‬عقلمند شعر‪ 491‬ص ‪191‬‬ ‫دایا‪ :‬حوصلہ شعر ‪ 72‬ص‪218‬‬ ‫دروگ‪ :‬غار تاریک ش‪ 99‬ص‪172‬‬ ‫دل بستہ‪ :‬معشوق و تن بستہ از خستگے دہم راہ بیرون‬ ‫بستہ و بند شدہ شعر‪ 244‬ص‪358‬‬ ‫دمڑی لے کروڑاں بخشیں مراد بخشش است از جناب پیر‬ ‫پیران شاہ کہ سوا الکھ دمڑی۔۔۔۔۔سکہ۔۔۔۔۔۔ ہر روز نیاز ایشاں‬ ‫در نذر شود دہندہ حاصل شود شعر‪ 214‬ص‪178‬‬


‫دنگا‪ :‬اگر موئے تراکے غم کند یعنی اندک دہد من بدو‬ ‫جنگ کنم دنگا نفح جنگ را گویند شعر‪ 28‬ص ‪268‬‬ ‫دنیا اے‪ :‬اشارہ بایں وہا خلقت الجن و االنس یعبدون شعر‬ ‫‪ 214‬ص‪294‬‬ ‫دوہدل‪ :‬شیردار ش‪ 179‬ص‪239‬‬ ‫دہاڑے‪ :‬شب رفتہ و روز آمد شعر ‪ 88‬ص‪394‬‬ ‫دہمیں‪ :‬صبح روشن شعر ‪ 274‬ص ‪279‬‬ ‫ڈٹھا‪ :‬بارش باریدن ش‪ 379‬ص‪160‬‬ ‫ڈل ڈل کر دے نین‪ :‬پشیمان روداری گویا در دل آید یعنی‬ ‫در بحر عظیم غرق شدہ اند ازیں باعث حال دل بود‬ ‫شعر‪ 801‬ص‪325‬‬ ‫ڈولی‪ :‬آں محاورہ کلس یعنی فرق سر آن شعر‪299‬‬ ‫ص‪182‬‬ ‫ڈولی‪ :‬اول بمعنی عمارہ دوم ڈولے بمعنی وجہءساخت‬ ‫سوم ڈولے لرزیدن شعر‪ 306‬ص‪183‬‬ ‫ڈولے‪ :‬اول تراشیدہ دوم بازو مثل شیر شعر ‪ 19‬ص ‪265‬‬ ‫ڈولے‪ :‬بہ بازویئ ہر شیر بستہ تیار کردہ کاریگر تعویز‬


‫چوکی یعنی بازوبند شعر ‪ 125‬ص ‪140‬‬ ‫ڈوری‪ :‬حیرانی شعر ‪ 65‬ص‪233‬‬ ‫ڈورے بھورے‪ :‬نیم خواب مستانہ شعر ‪ 403‬ص‪304‬‬ ‫ڈہاں‪ :‬ختم شعر ‪ 34‬ص ‪262‬‬ ‫ذیلے‪ :‬در تابع شعر‪ 70‬ص‪100‬‬ ‫رام‪ :‬آں کس است رام یعنی دوست او کہ عشق آں در سینہ‬ ‫باشد چوں عاشق را معشوق بکمال باشد ہماں یار او را‬ ‫بمنزلہ معبود گردو شعر‪ 139‬ص‪272‬‬ ‫رب مالنی‪ :‬مردم را کار کردن باید حیران و مایوس نہ شدن‬ ‫باید کامرانی بدست ایزد متعال ست شعر ‪ 297‬ص‪155‬‬ ‫رٹاں‪ :‬شہپر شعر ‪ 157‬ص‪148‬‬ ‫رکھی‪ :‬بے لذت و بے مزہ و خشک شعر ‪ 167‬ص‪149‬‬ ‫رن‪ :‬میدان جنگ شعر ‪ 5‬ص‪77‬‬ ‫رنگ پتنگ‪ :‬رنگ تو مثل شمع بود ۔ اکنوں پروانہ پریدہ و‬ ‫سوختہ پرندہ شدند و پتنگ دو معنی دارد اول پروانہ دوم‬ ‫پتنگ کاغذی کہ ہوا می پرانند شعر ‪ 800‬ص‪325‬‬ ‫روندی‪ :‬تہ مرگ گل خوش رنگ روایت دیدران نوا خوش‬


‫نالہائے را رو است در عین وصل ایں ۔۔۔۔۔ نالہءفرہاد داشت‬ ‫و ما را جلوہءمعشوق در ایں کار داشت شعر‪ 81‬ص ‪287‬‬ ‫زال‪ :‬نام پہلوان' نام پدر رستم‬ ‫زبور‪ :‬کتابے است الہامیہ کہ بر نبی حضرت داؤد علیہ‬ ‫السالم نازل شدہ بود قصائد و غزل وغیرہ در و منقول است‬ ‫ازتیں شعرائے عجم ازاں اقتباس می کنند شعر ‪ 28‬ص‪68‬‬ ‫زہرہ‪ :‬نام ستارہ ایست بر آسمان سوم کہ سعد است و طالع‬ ‫از و نیک گردو شعر ‪ 260‬ص‪358‬‬ ‫زی مسلم‪ :‬مراد قصیدہ بردہ ۔۔۔۔۔۔۔حضرت رسالت مآب صلی‬ ‫ہللا علیہ وسلم کہ بیعت رضوان زیر درخت ببول کہ آں را‬ ‫در زبان عربی مسلم میگویند بدیں وجہ زی مسلم خطاب‬ ‫حضور پرنور را مخاطب فرمود شعر‪ 402‬ص ‪188‬‬ ‫سات سر۔ سرندے‪ :‬ہفت سر۔ سرندے نام سازیست شعر‬ ‫‪ 250‬ص‪402‬‬ ‫سار‪ :‬آہنی ہتھیار ‪.....‬سالح آہنی ۔۔۔۔۔۔۔ شعر ‪ 17‬ص‪93‬‬ ‫ستار‪ :‬نام ساز شعر ‪ 355‬ص‪185‬‬


‫سارنگ‪ :‬سے رنگ صد رنگ۔ نام راگ شعر ‪250‬‬ ‫ص‪403‬‬ ‫ساس اوڈن‪ :‬جان بلب شعر‪ 30‬ص‪129‬‬ ‫سالک‪ :‬اشارت ست بآن سالک کہ بمنزل قریب والیت رسیدہ‬ ‫در کشف و کرامات خوش شدہ مشغول انداز قرب محبوب‬ ‫اصلی دور د محبوب دارند منازل دیگر شعر‪ 194‬ص‪341‬‬ ‫سانگاں‪ :‬تیاری ایشاں شعر ‪ 7‬ص ‪109‬‬ ‫ست تار‪ :‬ہفت تار سرایند شعر ‪ 355‬ص‪185‬‬ ‫سجناں‪ :‬اگر تو با من اتفاق کردی تا حیات دنیا مرا پری‬ ‫برتیوں خوش آمدے شعر ‪ 210‬ص‪294‬‬ ‫سجی‪ :‬خاکستر شعر ‪ 130‬ص‪147‬‬ ‫سدھر‪ :‬خواہش و طلب شعر‪ 30‬ص ‪105‬‬ ‫سردار جیاں‪ :‬سردار جانداراں شعر‪ 46‬ص‪99‬‬ ‫سرسامے‪ :‬نام پدر زال شعر ‪ 12‬ص ‪109‬‬ ‫سرکردے‪ :‬اول سرکردہ سسررداراں دووم سر را قربان‬ ‫کردن شعر‪ 449‬ص ‪190‬‬ ‫سرگاہیں‪ :‬پامال کردن شعر ‪ 87‬ص ‪132‬‬


‫سعد‪ :‬نام ستارہ ایست کہ سعد اکبر ست و آں قاضی فلک بر‬ ‫آسمان ششم باشد شعر‪ 270‬ص‪358‬‬ ‫سلوتر‪ :‬سوال و جواب برابری شعر ‪ 183‬ص‪292‬‬ ‫سمد‪ :‬خبر نیامدن شعر‪ 123‬ص ‪146‬‬ ‫سنا‪ :‬چنداں راز ہا کشودن نتواند کہ کار ہائے ضروری‬ ‫بسیار اند دیار دکر انتظار قصہ ش ‪ 67‬ص‪169‬‬ ‫سنی‪ :‬سنے بمعنی نامور شعر ‪ 60‬ص ‪227‬‬ ‫سنسار‪ :‬جانور آبی شعر‪ 36‬ص‪169‬‬ ‫سنگٹھاں‪ :‬بندش گلوے شعر ‪ 79‬ص ‪142‬‬ ‫سنے وزیراں‪ :‬با وزیراں شعر‪ 294‬ص‪182‬‬ ‫سنیئر‪ :‬سننے واال۔۔۔۔۔۔ کسی کے طعن و تشنع می شنود‬ ‫شعر‪ 115‬ص‪248‬‬ ‫سوانی‪ :‬زنان اصیل شعر‪ 306‬ص‪183‬‬ ‫سودا‪ :‬صد ہنر۔سودا یعنی دل۔ سودا نام مرض ست‬ ‫شعر‪ 554‬ص‪312‬‬ ‫سہور‪ :‬سسرال شعر ‪ 148‬ص‪222‬‬


‫سوراخ درگ‪ :‬غار تاریک شعر‪ 33‬ص‪115‬‬ ‫سہاندے‪ :‬خرگوش شعر‪ 20‬ص‪91‬‬ ‫سہانے‪ :‬نام حکیم یونان شعر ‪ 78‬ص‪53‬‬ ‫سہیلی‪ :‬خوب صفادموزدن شعر‪ 14‬ص‪123‬‬ ‫سہیلی اردو لفظ ہے۔ فارسی میں مونث مذکر نہیں ہے لہذا‬ ‫یار۔۔۔یاراں' دوست۔۔۔۔دوستاں‬ ‫سیاں‪ :‬سہلیاں شعر ‪ 184‬ص ‪274‬‬ ‫سیاہی‪:‬تہمت شعر ‪ 479‬ص‪369‬‬ ‫سیلے‪ :‬نام سالح جنگ شعر ‪ 6‬ص ‪109‬‬ ‫سیاں‪ :‬سہیلیاں۔۔۔۔۔دوستاں۔۔۔۔۔۔ شعر‪ 338‬ص‪183‬‬ ‫سیہے‪ :‬خار پشت شعر‪ 24‬ص‪115‬‬ ‫شارت‪ :‬بے الف یعنی اشارت برائے وزن دور کردہ شد‬ ‫شعر ‪ 527‬ص‪310‬‬ ‫شارستانے‪ :‬زالل آب بہ صفت موصوف سرد و شریں و‬ ‫کوزہ آں آبہائے شارستان مثل زالل بود‬


‫شعر‪ 846‬ص‪327‬‬ ‫شریں و شکر‪ :‬ہر نام شاہزادیاں خسرو پرویز بود بسیار‬ ‫خوبصورت شعر ‪ 24‬ص‪142‬‬ ‫شکر وپچن واال‪ :‬شکر فروش عمرت دراز بارے چرا بہ‬ ‫نقصدے نکنی عندلیب شیدا را شعر‪ 9‬ص ‪260‬‬ ‫شمس پری‪ :‬سعدین ددو ستارہ ایست وقتیکہ ہر دو از‬ ‫مقامے دروے طلوع شوند آن را مبارک دانند و بچہ ای در‬ ‫آن ساعت پیدا شد او را مبارک و نیک نہاد می دانند شعر‬ ‫‪ 97‬ص‪247‬‬ ‫شہابی‪ :‬نام ستارہ کہ او را بر شیطان زنند چوں ببر آسمان‬ ‫رود شعر‪ 351‬ص‪357‬‬ ‫شہزادی‪ :‬مراد ملکہ خاتون شعر‪ 321‬ص‪183‬‬ ‫شیرے‪ :‬مراد حاجی بگا شیر درکالی شریف رحمتہ ہللا علیہ‬ ‫شعر ‪ 36‬ص‪20‬‬ ‫ضاعیں‪ :‬ضائع شعر‪ 90‬ص ‪145‬‬ ‫عجائز‪ :‬نام پری مصورہ بمعنی طویل العمر شعر‪ 26‬ص‪68‬‬ ‫عذرا بدر منیر‪ :‬عذرا بدر منیر در بالد عرب دو مشہور‬


‫عاشق و معشوق گذشتہ اند ‪ 34‬ص‪142‬‬ ‫عنبر اشہب‪ :‬نام قسمے از عنبر کہ بسیار قیمت دار باشد و‬ ‫بر مغز مالند شخصے بیہوشی گرمی آید و از گرمی عشق‬ ‫چوں بیہوش شدند آں زمان ہم بکار آید کہ مفید است شعر‬ ‫‪ 51‬ص‪339‬‬ ‫عود وجود‪ :‬خود را آتش سوختہ بود خود را نابود کرد شعر‬ ‫‪ 354‬ص ‪185‬‬ ‫غول‪ :‬دیوے۔۔۔۔دیواں کہ مردم را از راہ بردہ ترساند شعر‬ ‫‪ 94‬ص ‪132‬‬ ‫فرہاد‪ :‬فرہاد شہزادہ چین بود زنجار در اخبار دیدہ شدہ‬ ‫مولوی نظامی و امیر خسرو این فرمودہ در شرین و خسرو‬ ‫آں عشق کہ ما ایشاں ظلم یا عدل کرد ہماں عشق جانب بدیع‬ ‫الجمال شعر ‪ 215‬ص ‪276‬‬ ‫فرہاد‪ :‬فرہاد شنیدہ بود کہ شیریں ازیں جہاں رفت فرہاد نیز‬ ‫برائے جستجوئے او بداں جہاں رفتہ و از بر داشتن غم‬ ‫عاجز شدہ شعر ‪ 37‬ص‪130‬‬ ‫قابو‪ :‬گرفتار شعر‪ 44‬ص ‪106‬‬ ‫قائم سما‪ :‬بجائے شیشہ و گل کار از کردہ شدہ و گروہ اش‬


‫مثل آسمان گردندہ و آں گنبد است شعر‪ 59‬ص‪125‬‬ ‫قرانی‪ :‬نزدیکی شعر‪ 24‬ص ‪114‬‬ ‫قالچ‪ :‬سہ نیم ہفت کہ دو گز باشد قدر کم عر ‪344‬‬ ‫ص‪300‬‬ ‫قلم ربانی‪ :‬قلم ربانی در دست ولی است ہہر چہ خواھد‬ ‫بنوید شعر‪ 60‬ص‪169‬‬ ‫کاٹھی‪ :‬پرات چوبی شعر‪ 28‬ص ‪114‬‬ ‫کافوں‪ :‬کاف و نون مراد از کن فیکون شعر ‪ 249‬ص ‪403‬‬ ‫کان‪ :‬برائے فرزند دعا مے کردے شعر‪ 58‬ص‪169‬‬ ‫کرپا‪ :‬مہربانی ش‪ 379‬ص‪160‬‬ ‫کپر‪ :‬برسرخود شعر ‪ 133‬ص‪222‬‬ ‫کتھا‪ :‬بیان شعر‪ 22‬ص‪123‬‬ ‫کٹھا‪ :‬زوند بدن و سینہ جمع کنم شعر‪ 282‬ص‪297‬‬ ‫کٹھاں‪ :‬گوشہ ہا شعر‪ 70‬ص‪101‬‬ ‫کج‪ :‬دو راز دوستی من بگریز ست شعر ‪ 211‬ص‪294‬‬ ‫کراری‪ :‬نمکین و لذیذ شعر ‪ 28‬ص‪123‬‬


‫کریوں‪ :‬شتر شعر‪ 16‬ص ‪28‬‬ ‫کستہ کردہ شعر ‪ 26‬ص ‪111‬‬ ‫کل‪ :‬نسل من ‪ 344‬ص ‪184‬‬ ‫کالں‪ :‬شیر از جادو تیار کردہ نہادہ کہ حملہ اندک کردند‬ ‫شعر ‪ 111‬ص ‪139‬‬ ‫کالں‪ :‬حکمت آنچناں برائے ترسائیدن دیگراں نہادہ اند شیر‬ ‫جہاندار نبود شعر ‪ 118‬ص ‪139‬‬ ‫کلچیٹ‪ :‬۔۔۔۔۔۔ کلچیت۔۔۔۔۔۔۔ پرندہ ایست کہ خوش گلو باشد‬ ‫شعر‪ 13‬ص‪17‬‬ ‫کلس‪ :‬فق سسراں شعر‪ 305‬ص‪183‬‬ ‫کلی‪ :‬قلعی شعر ‪ 36‬ص‪33‬‬ ‫کمام‪ :‬کارہائے شعر ‪ 56‬ص‪201‬‬ ‫کماناں‪ :‬مژگاں شعر‪ 12‬ص‪123‬‬ ‫کن‪ :‬کدام شعر‪ 98‬ص ‪145‬‬ ‫کنڈ‪ :‬پشت دادہ براے اینکہ سوئے ایشاں نہ بینی شعر ‪91‬‬ ‫ص‪127‬‬


‫کنڈھی‪ :‬کنارہ دریا شعر‪ 26‬ص‪168‬‬ ‫کنڈے دی اری‪ :‬پشت مثل آرہ برکشتی زدہ او را پارہ پارہ‬ ‫کردن شعر‪ 90‬ص‪101‬‬ ‫کنگ‪ :‬لفظ اصلی کنگاش است بمعنی مشورہ' باہم صالح‬ ‫کنندہ شعر ‪ 150‬ص‪223‬‬ ‫کوکھ‪ :‬شکم شعر‪ 336‬ص‪183‬‬ ‫کوہ کوہ‪ :‬پہاڑ ش‬ ‫کیں‪ :‬کس در شعر‪ 27‬ص‪80‬‬ ‫گاتر‪ :‬دونے کہ تیغ در گردن بداں آویزند و کمر دوال کمر ہ‬ ‫بداں کمربہ بند دو مردان جنگ قسم بداں کنند شعر‪ 251‬ص‬ ‫‪296‬‬ ‫گٹھے‪ :‬خاک' گم شد شعر‪ 101‬ص ‪145‬‬ ‫گڈیاں‪ :‬گڈیاں کہ دختران در اول عمر بایشاں بازی کننددہ‬ ‫و باہم نشستہ بیک دیگر ازدواج کنند شعر‪ 137‬ص‪272‬‬ ‫گزاری‪ :‬روز رفت و شب رسید شعر ‪ 72‬ص ‪228‬‬ ‫گل داؤدی منہ دے وانگر‪ :‬سرنگوں نہادہ شکل پستان‬ ‫نوخاستہ شعر‪ 2 8‬ص‪141‬‬


‫گلگل‪ :‬نام میوہءترش شعر ‪ 259‬ص ‪278‬‬ ‫گمانی‪ :‬چال شان دار شعر‪ 17‬ص‪91‬‬ ‫گرنڈے‪ :‬خار‬ ‫گنگی‪ :‬آب گنگ بسیار صاف است شعر ‪ 424‬ص‪412‬‬ ‫گنیاں‪ :‬ہنرمند چہ کن بکاف فارسی مضموم بسکون نون‬ ‫ہندی مردارا گویند در زبان ہندی شعر ‪ 26‬ص‪199‬‬ ‫گوراں‪ :‬قبراں شعر ‪ 109‬ص ‪495‬‬ ‫گوڈریاں‪ :‬گلیم ہا شعر ‪ 50‬ص‪280‬‬ ‫الڈ‪ :‬بر ناز او غرہ نباید شد چرا کہ اول بناز فریب دادہ‬ ‫شیفتہ خود کند چنانچہ برادران یوسف اول بدوش برداشتند‬ ‫باز بچاہ انداختند شعر ‪ 5‬ص‪97‬‬ ‫لتڑایا‪ :‬دراز شد گو در خواب شد شعر ‪ 51‬ص‪130‬‬ ‫لکھے دھر درگا‪ :‬لکھی یعنی نوشتہءتقدیر ش‪141‬‬ ‫ص‪237‬‬ ‫اللی‪ :‬سرخی شعر ‪ 84‬ص‪234‬‬ ‫لوالکی‪ :‬لوالکی مراد ایں است کہ ہللا ثعالی نبی علیہ السالم‬ ‫را ارشاد فرمودا گر ترا پیدا نہ کردم چیزے را نیا وردم شعر‬


‫‪ 7‬ص ‪332‬‬ ‫چیزے ہم تخلیق نمی کردم‬ ‫للکریاں‪ :‬در جوش آمدہ حملہ نمودن شعر ‪ 67‬ص‪393‬‬ ‫لندھور‪ :‬نام پہلوان شعر ‪ 14‬ص ‪109‬‬ ‫لنگر‪ :‬لنگر کشتی شعر‪ 12‬ص‪91‬‬ ‫لنگوٹیا‪ :‬تہ بند بستہ شعر‪ 17‬ص‪129‬‬ ‫لوں‪ :‬باد گرم سخت کہ در ماہ جیٹھ و زد شعر ‪ 50‬ص‪130‬‬ ‫لوہکی‪ :‬صغر سنی شعر‪ 26‬ص‪83‬‬ ‫لوہندی‪ :‬نام جانوریست کہ بر باز غالب باشد شعر ‪260‬‬ ‫ص‪211‬‬ ‫لوں لوں‪ :‬مو بمو شعر‪ 271‬ص‪297‬‬ ‫لوہڑے‪ :‬پنیرم تراشدہ صاف و نگہدار کردہ شعر ‪ 19‬ص‬ ‫‪265‬‬ ‫لہورے‪ :‬شکایات; گلہ گزاری ش‪ 222‬ص‪241‬‬ ‫لویں‪ :‬ساقیان جوان و شراب کہنہ کہ بسیار نشہ دارد باشد‬ ‫شعر ‪ 20‬ص‪95‬‬


‫لوے‪ :‬برگ آمدہ نازک ونرم شعر ‪ 79‬ص ‪137‬‬ ‫لئی‪ :‬ہمراہ کردہ خود شعر ‪ 509‬ص‪193‬‬ ‫لی مع ہللا وقت‪ :‬حدیث شریف شعر ‪ 14‬ص ‪225‬‬ ‫لیک‪ :‬شگاف شعر‪ 50‬ص‪233‬‬ ‫لیلی‪ :‬اول بمعنی شب امروزہ دوم بمعنی شب ہائے گذشتہ‬ ‫سوم بمعنی معشوقہ مجنوں چہارم بمعنی حاصل کردم ش‪74‬‬ ‫ص‪246‬‬ ‫مس‪ :‬اغاز ریش شعر ‪ 71‬ص‪264‬‬ ‫مسکر‪ :‬نام سازیست کہ از نواختن آن شنوندہ بیہوش میگرد‬ ‫شعر‪ 267‬ص ‪256‬‬ ‫مستورہ‪ :‬باحجاب شعر ‪113‬‬

‫ص‪236‬‬

‫مضحک‪ :‬نام سازیست کہ از نواختن آن شنوندہ را خندہء‬ ‫بسیار می آید شعر ‪ 268‬ص ‪256‬‬ ‫منوم‪ :‬نام سازیست کہ از نواختن آن خواب بسیار مغز آید ہر‬ ‫شنوندہ را شعر‪ 269‬ص ‪256‬‬ ‫مالی‪ :‬یعنی باغبان اولیا ش ‪ 62‬ص‪169‬‬ ‫مانی ارژنگ‪ :2‬نام مصور چین شعر‪ 32‬ص‪57‬‬


‫ارژنگ مانی‪ :‬کتاب مانی‬ ‫ماہی‪ :‬عاشق بمراد رانجھا شعر ‪ 28‬ص ‪262‬‬ ‫مایا‪ :‬دولت بےحساب شعر‪ 412‬ص ‪188‬‬ ‫مچھ کچھوے‪ :‬جانوران آبی کہ نقصان رساں اند شعر‬ ‫‪ 198‬ص‪208‬‬ ‫محصول‪ :‬دادنے دار محصولی عمر و جنس نقد بدست کن تا‬ ‫آں رفت بکار آید شعر ‪ 49‬ص‪263‬‬ ‫مرجنت‪ :‬شاید کہ باشم۔۔۔۔ جنت در آمدہ ام ورنہ من شایستہ‬ ‫چنیں عیش کجا بودم شعر ‪ 507‬ص‪309‬‬ ‫مرگ‪ :‬ہرن شعر‪ 20‬ص‪91‬‬ ‫مرمکی‪ :‬مردہ تمام شدن شعر‪ 287‬ص‪182‬‬ ‫مساں مساں‪ :‬باہزار حیلہ شعر‪ 95‬ص‪102‬‬ ‫بمشکل‬ ‫مصبر‪ :‬مصبر دارد است تلخ دافع درد و ہلیلہ بلیلہ درد‬ ‫شکم از بادی نزول آید رفع شود بوقت خوردں و بےمزہ و‬ ‫بیرون آمدن خواہد درد شکم رفتن شعر ‪ 578‬ص‪197‬‬ ‫معشوق‪ :‬عاشق و معشوق را در عیش وصال دید فراق در‬


‫غضب آمد و گفت کہ شما را سزاے سخت خواہم داد در‬ ‫عشق' عیش' گناہ کبیرہ ست چرا کہ دید شعر ‪606‬‬ ‫ص‪315‬‬ ‫مقرہ‪ :‬ضرور شعر‪ 65‬ص‪90‬‬ ‫منتر روئی‪ :‬آں زنی کہ او را ڈائن گویند شعر‪ 14‬ص ‪114‬‬ ‫منہ کھروکنار‪ :‬نام امراض چارپایان شعر ‪ 561‬ص‪312‬‬ ‫موہرا توالں‪ :‬ظاہر کردن شعر‪ 27‬ص ‪105‬‬ ‫میناں‪ :‬مقابلہ جانورے کہ ہمندیش میناں گویند آں گفتے من‬ ‫پیدا نہ شدے شعر ‪ 84‬ص ‪137‬‬ ‫فارسی میں خوشبو کا مطلب ہے اچھی خوشبو واال۔۔۔۔والی‬ ‫شعر‪ 69‬ص ‪228‬‬ ‫ناری‪ :‬زن شعر ‪ 479‬ص‪369‬‬ ‫ناری‪ :‬آتش شعر ‪ 479‬ص‪369‬‬ ‫نجد‪ :‬نجد کوہیست کہ حضرت مجنوں بر آں بودے شعر ‪5‬‬ ‫ص ‪133‬‬ ‫نڈھی‪ :‬نوعمر' وڈی' بزرگ شعر ‪ 75‬ص‪126‬‬ ‫نگاہنے‪ :‬پا برہنہ شعر ‪ 97‬ص ‪133‬‬


‫نگھرگیاں‪ :‬غرق شدہ شعر‪ 339‬ص‪183‬‬ ‫نمیں‪ :‬یک روز در شکم مادر افتادیم و یک روز زادیم‬ ‫شعر‪ 40‬ص‪99‬‬ ‫نونہال‪ :‬خوبرو عاشق گلبدن یعنی نوجوان دیدن مثل گل و‬ ‫سادہ و دہیز او شعر‪ 14‬ص ‪265‬‬ ‫نوہنہ‪ :‬سرخ مانند قلم شنگرف نویس از نوشتن کلمہءخونی‬ ‫عشق سرخ بودند ‪ 15‬ص‪141‬‬ ‫نئیں قیاساں‪ :‬در قیاس نہ آیند ‪ 234‬ص‪179‬‬ ‫نویں خوشبو‪ :‬از سرنو خوشبو رسیدش‬ ‫بوی خوش رسیدن‬ ‫واتوں‪ :‬دلہن شعر ‪ 333‬ص ‪184‬‬ ‫واس‪ :‬جائے سکونت و مسان نام قسمے از دیو باشد شعر‬ ‫‪ 96‬ص ‪132‬‬ ‫واسط‪ :‬نام شہر اشہر است شعر‪ 241‬ص‪179‬‬ ‫واہو واہی‪ :‬شتابی' پے در پے نالہا۔۔۔۔ نالہ ہائے شیون'‬ ‫دردناک شعر ‪ 66‬ص‪264‬‬ ‫وٹائی کایاں‪ :‬صورت اصل را مبدل بصورت دیگر کردن‬


‫شعر‪ 174‬ص‪149‬‬ ‫وٹے‪:‬ددل بدل کردند با یکدیگر و معنی دوم آنکہ مستک‬ ‫بادل نہادہ یعنی دل سخت شعر ‪ 379‬ص‪302‬‬ ‫وسئوں‪ :‬آبادی شعر‪ 2‬ص ‪72‬‬ ‫ول‪ :‬دو معنی دارد یکے طرف دوم صحت یابی شعر‪4‬‬ ‫ص‪93‬‬ ‫وہڑیاں‪ :‬بمعنی مرد سانہ مشک کہ بر زلفہاے ساختہ‬ ‫ش‪ 147‬ص‪174‬‬ ‫وہن‪ :‬موج دریا شعر ‪68‬‬

‫ص‪234‬‬

‫ویر‪ :‬برادر شوہر ش‪ 147‬ص‪174‬‬ ‫ہاتھی عاشق‪ :‬فیل عاشق است و دلبر فیل بان بار بار او را‬ ‫دلیر کند بہ خون عشق شعر ‪ 585‬ص ‪264‬‬ ‫ہار‪ :‬مانند شعر ‪ 480‬ص‪369‬‬ ‫ہاہڑ‪ :‬دندان بزرگ شعر ‪ 16‬ص‪113‬‬ ‫ہاسے‪ :‬فن سپاہ گری در وصف مرداں و ناتواں باداگر‬ ‫خالف عجم شعر‪ 251‬ص‪296‬‬ ‫ہتھ ڑئیں‪ :‬دست بدست شعر ‪ 30‬ص‪112‬‬


‫ہتھ مارے‪ :‬از کشش دل دست شعر‪ 276‬ص‪297‬‬ ‫ہتھی‪:‬در دست دادہ شعر‪ 87‬ص ‪117‬‬ ‫ہٹر‪ :‬عذر بہانہ شعر ‪ 213‬ص‪294‬‬ ‫ہڑے‪ :‬کانگ شعر‪ 19‬ص‪98‬‬ ‫ہسیرے‪ :‬داغ جدائی بمعنی غمزدہ شعر‪ 445‬ص ‪190‬‬ ‫ہشدھاتی‪ :‬ہشت دھات ۔۔۔۔۔ ہشت دہ۔۔۔۔۔۔ شعر ‪ 50‬ص ‪136‬‬ ‫ہفت اندام‪ :‬دریں جادو معنی دارد اول مراد از تن کہ مرشد‬ ‫ترک او فرماید و دوم از گیکہ برائے دفع خون غلیظ‬ ‫کشایدش شعر ‪ 164‬ص ‪273‬‬ ‫ہک ارم‪ :‬غزالہءصحرا ش‪ 135‬ص‪237‬‬ ‫ہک‪ :‬ہک اول یعنی بار اولین دوم سینہ شعر ‪ 77‬ص‪219‬‬ ‫ہگاڑ‪ :‬باز کردن چشم شعر ‪ 49‬ص ‪233‬‬ ‫ہما‪ :‬پرندہ ایست خیالی حکماے گفتہ اند کہ پرندہ ہما اگر‬ ‫بدست کسے افتد بادشاہ می گردد ص ‪297‬‬ ‫ہنجواں‪ :‬سنگ چقماق کہ ازاں آتش بر آرند شعر‪18‬‬ ‫ص‪129‬‬


‫ہنگالئی‪ :‬خواب نرم شعر ‪ 182‬ص ‪274‬‬ ‫ہنیری‪ :‬روز رفت و شب آمد شعر ‪ 84‬ص‪39‬‬ ‫ہنیاں‪ :‬عاجز و بےزور شعر‪ 103‬ص ‪288‬‬ ‫ہور‪ :‬چناہ میوہ بود کہ مثل او مثل سر آدمی بود چوں شب‬ ‫شدے دندان بر زمین آمدے' چوں روز شدے بازیر شاخ‬ ‫بجائے خود رفتے و نیز شعلہ وآتش ازاں درخت ۔۔۔۔۔ چوں‬ ‫ہیچ آثار آتش نمودے شعر‪ 104‬ص‪102‬‬ ‫یاجو‪ :‬قوم یاجوج و ماجوج کہ ذوالقرین آناں را مفید کردہ‬ ‫بود شعر‪ 37‬ص ‪105‬‬ ‫یاسمین‪ :‬نام گل سپید شعر ‪ 266‬ص ‪278‬‬ ‫یوسف‪ :‬آوردہ اند حضرت یوسف در شکل و صورت بر ہمہ‬ ‫انساناں گوئے سبقت بردہ بود کسیکہ می دید فریفتہ می‬ ‫گرددید شعر ‪ 24‬ص‪67‬‬ ‫بھا‪ :‬معلوم کردہ شدہ شعر‪ 661‬ص‪318‬‬ ‫بھتریجی‪ :‬برادر زادی شعر‪ 244‬ص ‪179‬‬ ‫بھانج‪ :‬دویدن پسپا شدن۔ پشت نمودن بای دشمن میدان‬ ‫خالی کردن وغیرہ شعر ‪ 24‬ص‪385‬‬


‫بھاوس‪ :‬پسندیدہ شعر ‪330‬‬

‫ص‪300‬‬

‫بھائی‪ :‬برادر شعر ‪66‬‬ ‫بھس‪ :‬خاک شعر‪ 93‬ص ‪71‬‬ ‫بھنبل‪ :‬بھوسے لفظ مرکب خستہ حال و سرگردان می روم‬ ‫شعر ‪ 257‬ص‪153‬‬ ‫بھنک‪ :‬چیزے اندک ایں لفظ باول مکسور بہ ثانی موم و‬ ‫ثالث زدہ و کاف فارسی چیزے نرم شعر ‪ 212‬ص ‪253‬‬ ‫بھننی‪ :‬اندازہ بدن' کمر باریک و سینہ فراخ شعر‪270‬‬ ‫ص‪181‬‬ ‫بھور‪ :‬عاشق بھور و بلبل دو سیر ش ‪ 66‬ص‪169‬‬ ‫بھوکس‪ :‬خوف شعر ‪ 161‬ص ‪121‬‬ ‫بھیراں‪ :‬نقارہ شعر‪ 11‬ص‪167‬‬ ‫پھرلے‪ :‬عالج کارگر شد شعر‪162‬ص‪275‬‬ ‫پھرناں‪ :‬جگر شعر‪ 9‬ص‪97‬‬ ‫پھرناں‪ :‬سینہ شعر ‪ 9‬ص‪77‬‬ ‫پھنڈا‪ :‬فربہ شدہ شعر‪ 298‬ص‪182‬‬


‫پھک‪ :‬خردہ شعر ‪ 166‬ص ‪273‬‬ ‫پھکا‪ :‬بےلذت شعر ‪ 172‬ص‪292‬‬ ‫پھکی‪ :‬بےقوت ۔۔۔۔۔ بالنمک و فلفل سرخ۔۔۔۔۔۔ شعر ‪5‬‬ ‫ص‪282‬‬ ‫پھل اللے‪ :‬گل اللہ۔ نام گل سرخ داغدار لہ لہ یعنی روشن و‬ ‫درخشاں شعر‪ 44‬ص‪99‬‬ ‫پھروالں‪ :‬ظاہر کردن شعر ‪ 25‬ص ‪105‬‬ ‫پھیر‪ :‬پا پیادہ شعر ‪ 290‬ص ‪257‬‬ ‫تھرتھلی‪ :‬تباہ می شدے مفتح دوم مشدد و چوب کالں باہم‬ ‫بستہ برائے سوار شدن بر دریا و تھرتھلی یعنی جنبش زیر‬ ‫و باال شدہ گگن ۔۔۔۔۔ہر دو کاف فارسی ۔۔۔۔۔ باول مفتوح با‬ ‫ثانی شدہ باال اسمائے و تپاں باول دو مفتوح فارسی تمام‬ ‫زمین را گویند اصل آنکہ آں ٹلہ را جنبش چناں آمد کہ چون‬ ‫زیر شدے زیر زمین رفتے و چوں باال شدے بر بلندی‬ ‫آسمان رفتے شعر ‪ 37‬ص‪169‬‬ ‫ٹھاٹھ‪ :‬موج شعر‪ 19‬ص‪98‬‬ ‫ٹھلیوس‪ :‬در آب چاہ شدن شعر ‪ 206‬ص‪293‬‬


‫جھلی‪ :‬قبول نہ کردی شعر ‪ 481‬ص‪369‬‬ ‫جھنگاں‪ :‬عضو و اندام شعر ‪ 687‬ص‪319‬‬ ‫جھنگڑ‪ :‬انبوہ دختاں شعر‪ 110‬ص ‪119‬‬ ‫جھوالں‪ :‬موج کالں شعر‪ 30‬ص‪98‬‬ ‫چھپن‪ :‬جائہائے پوشیدہ شدن ‪ ......‬جاہای پوشیدہ شدن۔۔۔۔۔۔‬ ‫شعر ‪ 13‬ص ‪134‬‬ ‫چھٹ‪ :‬بزدوے ربائیدن ۔۔۔۔۔ربودن ۔۔۔۔۔شعر ‪ 163‬ص‪175‬‬ ‫چھٹی‪ :‬نصیبہ ش ‪ 379‬ص ‪160‬‬ ‫چھٹالئے‪ :‬در بہوشی چشم بند شد شعر ‪ 281‬ص‪155‬‬ ‫چھجلپ‪ :‬مار سیاہ از خواب لرزاں شعر‪ 184‬ص‪274‬‬ ‫چھڑیاں‪ :‬دست و پاے دے شعر‪ 116‬ص ‪119‬‬ ‫چڑھیا‪ :‬پسند آمد شعر‪ 5‬ص‪123‬‬ ‫چھکوں‪ :‬کشش شعر‪ 6‬ص‪97‬‬ ‫چھم چھم‪ :‬متواتر آواز تبراں ۔۔۔۔۔ صدای پیہم تبرہا ۔۔۔۔۔ شعر‬ ‫‪ 5‬ص ‪109‬‬ ‫چھوپے‪ :‬چھوپے بداں را گویند کہ دحتران جمع شدہ محفل‬


‫خود مے کنندہ‬ ‫چھوکریاں‪ :‬کنیزاں شعر ‪ 17‬ص‪95‬‬ ‫چھوہ‪ :‬کمین گاہ شعر ‪ 62‬ص‪233‬‬ ‫چھوہارے‪ :‬خرما شعر ‪ 83‬ص‪234‬‬ ‫چھیکڑ‪ :‬آخر و تمامیت شعر ‪ 65‬ص‪131‬‬ ‫دھاراں‪ :‬کنگرہءکوہ شعر ‪ 81‬ص‪219‬‬ ‫دھاراں‪ :‬شیر شعر ‪ 18‬ص‪88‬‬ ‫دھاراں‪ :‬دلیل کنم شعر‪ 18‬ص‪88‬‬ ‫دھاڑاں‪ :‬فوج شعر ‪ 18‬ص‪88‬‬ ‫دھانی‪ :‬روان شدن شعر‪ 319‬ص‪183‬‬ ‫دھتولر‪ :‬در ایں خانہ' محل' شاہی اقامت گاہ‬ ‫دھرم‪ :‬مراد از دھرم چرا کہ ایں کتاب بزبان پنجابی تصنیف‬ ‫شدہ است ازیں اکثر محاورات بھاشا سنسکریت مصنفش می‬ ‫آرد ش‪ 325‬ص ‪157‬‬ ‫دھروتی‪ :‬امان شعر ‪ 30‬ص‪123‬‬ ‫دھولر‪ :‬جائے نشتن بیگمان بادشاہ شعر ‪ 198‬ص ‪342‬‬


‫دھولے‪ :‬موئے سفید شعر ‪ 12‬ص ‪109‬‬ ‫دھونسہ‪ :‬نقارہ شعر‪ 2‬ص‪91‬‬ ‫دھی‪ :‬دختر شعر‪ 284‬ص‪182‬‬ ‫دھیاں‪ :‬دختراں پیدا شوند نہ طفل شعر‪ 68‬ص‪125‬‬ ‫ڈھاہاں‪ :‬مسمار کردن شعر ‪ 34‬ص ‪262‬‬ ‫ڈھولے‪ :‬نام زیوار شعر ‪ 125‬ص‪140‬‬ ‫ڈھیری‪ :‬آنانکہ تکیہ بر ذات ایزدی نہادہ اند ہر مشکلے کہ‬ ‫افتد نمی بنیند و کامران می شدید شعر ‪ 407‬ص‪161‬‬ ‫کھپائے‪ :‬غرق کردن۔ احوال یاراں پیشینہ و حال یاران چال‬ ‫کہ دریں زمانہ اند ش‪ 147‬ص‪174‬‬ ‫کھڑیاں‪:‬شگفتہ شعر ‪ 44‬ص ‪232‬‬ ‫کھناں‪ :‬خنجر آبدار کہ از صفائی باریک ترین است شعر‬ ‫‪ 112‬ص‪221‬‬ ‫کھوہ‪ :‬چاہ شعر ‪ 260‬ص ‪255‬‬ ‫کھیروں کھیروں‪ :‬جدا جدا شعر‪ 54‬ص‪100‬‬ ‫گھا‪ :‬زخم نو شعر‪ 234‬ص ‪152‬‬


‫گھس‪ :‬برطرف دیگر شد شعر‪ 63‬ص‪100‬‬ ‫گھگی‪ :‬نام جانور یکہ طوق در گردنش باشد او گفتے کشتہ‬ ‫مرا جناں کارد امر شعر ‪ 86‬ص ‪137‬‬ ‫گھوگھی‪ :‬نام جانوریست۔۔۔۔۔پرندہ۔۔۔۔۔۔ کہ خاک رنگ باشد قد‬ ‫برابر کبوتر و در گردن طبق سیاہ دارد شعر ‪ 5‬ص‪212‬‬

‫حافظ شیرازی کی شاعری اور اردو زبان‬

‫نام‪ :‬شمس الدین محمد‬ ‫نام والد‪ :‬بہاؤ الدین‬


‫پیدائش‪ :‬شیراز‘ ایران‬ ‫سن پیدائش‪١٣٢٠ :‬یا ‪١٣٢٥‬‬ ‫حافظ قرآن تھے؛ اسی حوالہ سے حافظ‘ شیراز کے حوالہ‬ ‫شیرازی‘ تو گویا اس طرح حافظ شیرازی معروف ہوئے۔‬ ‫باپ کو سن سن کر‘ قرآن مجید حفظ ہو گیا۔ ان ہی سے سن‬ ‫کر سعدی‘ رومی‘ نظامی اور عطار جیسے بڑے شعرا کا‬ ‫کالم یاد ہو گیا۔ بالشبہ‘ وہ غضب کا حافظہ رکھتے تھے۔‬ ‫اکیس سال کی عمر میں‘ ایک خاتون سے عشق بھی ہوا۔‬ ‫اکیس سال کی عمر میں‘ عطار سے مالقات ہوئی اوران کی‬ ‫شاگردی اختیار کی۔ درباری بھی رہے‘ جس سے شہرت‬ ‫میسر آئی۔ ملکی ناگواری حاالت کے تحت اصفحان کی‬ ‫مہاجرت اختیار کی۔ باون سال کی عمر میں شاہی دعوت پر‬ ‫واپسی اختیار کی۔ ان کی شاعری‘ پانچ سو غزلوں‘ بیالیس‬ ‫رباعیات اور کچھ قصائد پر مبنی ہے۔‬ ‫یا ‪ ١٣٨٩‬میں‘ انہتر سال عمر پا کر انتقال کیا۔ ‪١٣٨٨‬‬ ‫حافظ شیرازی کی شاعری اور اردو زبان‬


‫اردو اور فارسی انتہائی قریب کی زبانیں ہیں۔ ان دونوں کے‬ ‫مابین‘ حیرت ناک لسانیاتی مماثلتں موجود ہیں۔ درج ذیل‬ ‫سطور میں حافظ شیرازی کی شاعری کے تناظر میں‘ اردو‬ ‫کا لسانیاتی مطالعہ کی ناچیز سی سعی کی گئی ہے۔ یقین‬ ‫ہے احباب کو خوش آئے گی۔‬ ‫حافظ کی شاعری ورفتگی کی بہترین مثال ہے۔ اس ورفتگی‬ ‫کی بنیادی وجہ خوب صورت مرکبات کی تشکیل اور ان کا‬ ‫برمحل استعمال ہے۔ ان کی شاعری میں مختلف نوعیت کے‬ ‫استعمال ہونے والے یہ مرکبات اردو والوں کے لیے نئے‬ ‫اور ناقابل فہم بھی نہیں ہیں۔ باطور نمونہ چند ایک مرکبات‬ ‫مالحظہ فرمائیں۔‬ ‫اضافتی مرکبات‬ ‫برق عصیاں‘ تیغ اجل‘‬ ‫بحر عشق‘‬ ‫اف ِ‬ ‫ت ا َیّام‘ ایئن پادشاہی‘ ِ‬ ‫ِ‬ ‫ت بیدار‘ را ِہ گنج‘ رسم‬ ‫جرم ستارہ‘ چشم خماری‘ دول ِ‬ ‫ِ‬ ‫سنگ خارہ‘ شادی ی ِار‘ شطرنج‬ ‫بدعہدی‘ را ِہ دل‘ زخم نہاں‘‬ ‫ِ‬


‫قصر دل‘ گنا ِہ‬ ‫رنداں‘ طریق ادب عزم صلح‘ غمزہ خطا‘ ِ‬ ‫طالع‘ مرغ دل‘ مرغ بہشتی‘ مجال شاہ‘ مجال آہ‘ منزل‬ ‫اسائش‬ ‫عطفی مرکبات‬ ‫آب و رنگ و خال و خط‘ جان و دِل‘ دانہ و اب‘ دشمن و‬ ‫دوست‘ راہ و رسم‘ رسم و راہ‘ شیخ و زاہد‘ قرار و خواب‘‬ ‫مال وجاہ‘ مرغ و ماہی‘ موج و گردابی‘ نالہ و فریاد‘ یار و‬ ‫اغیار‬ ‫اندیشہ ء امرزش‘ ترانہ ء چنگ‘ چشمہء خرابات‘ خرقہ ء‬ ‫مے‘ طریقہء ِرندی‘ گوشہ ء میخانہ‬ ‫پروائے ثواب‘ دعائے پیر مغاں‘ کوئے نیک نامی‬ ‫صفتی مرکب‬ ‫شـب‪ :‬تاریک و بیم‬ ‫شـب تاریک و بیم موج و گردابی چنین ھایل‬


‫عنبر افشاں‪ :‬عنبر افشاں بتماشائے ریاحیں امد‬ ‫ریاحیں‪ :‬عنبر افشاں‬ ‫ریاحیں ریحان وغیرہ‬ ‫قصر دل افروز کہ منزل گہہ اُنسی‬ ‫ای‬ ‫ِ‬ ‫قصر‪ :‬دل افروز‬ ‫ِ‬ ‫خوابم بشداز دیدہ درین فکر جگر سوز‬ ‫فکر‪ :‬جگر سوز‬ ‫تشبیہی مرکب‬ ‫ہر دیدہ جائے جلوہء آں ماہ پارہ نیست‬ ‫آں‪ :‬ماہ پارہ ۔۔۔۔۔ وہ‪ :‬ماہ پارہ‬ ‫کچھ غزلیں ایسی ہیں جن کے ہر شعر کا پہال لفظ اردو‬ ‫والوں کے اجنبی نہیں۔ ذرا اس غزل کو دیکھیں۔‬ ‫دل می رود ز دستم صاحبدالں خدا را‬


‫دردا کہ راز پنہاں خواہد شد آشکارا‬ ‫دل‘ دردا‘ کشتی‘ باشد‘ با دوستاں‘ در‘ گر‘ حافظ‘ اے‬ ‫اس میں ایک لفظ باشد الگ سے ہے ورنہ ہر لفظ اردو‬ ‫والوں کے استعمال میں ہے۔‬ ‫ان کی بیشتر غزلوں کے قوافی‘ اردو میں مستعمل الفاظ ہی‬ ‫نہیں‘ باطور قوافی بھی استعمال میں آتے رہے ہیں۔ حافظ‬ ‫‪:‬کی فقط دو غزلوں کے قوافی مالحظہ ہوں‬

‫‪1‬‬ ‫بحر عشق کہ بہیچش کنارہ نیست‬ ‫بحریست ِ‬ ‫آن جا ُجز اینکہ جاں بسپارند چارہ نیست‬ ‫کنارہ‘ چارہ‘ استخارہ‘ کارہ‘ ستارہ‘ پارہ‘ آشکارہ‘ خارہ‬ ‫‪2‬‬


‫زاہد ظاہر پرست از حال ما آگاہ نیست‬ ‫در حق ما ہر چہ گوید جائے ہیچ اکراہ نیست‬ ‫آگاہ‘ اکراہ‘ گمراہ‘ شاہ‘ آہ‘ نآگاہ‘ ہللا‘ درگاہ‘ کوتاہ‘ راہ‘ گاہ‬ ‫جاہ‬ ‫بعض غزلوں کے ردیف اردو والوں کے لیے اپنے سے‬ ‫ہیں۔ مثال ایک غزل کا ردیف آمد ہے۔ لفظ آمد اردو میں عام‬ ‫استعمال کا لفظ ہے۔‬ ‫حافظ کی شاعری کی زبان‘ عرصہ دراز کی فارسی ہے۔‬ ‫حیرت کی بات یہ ہے‘ کہ اس کا تکیہءکالم اور طرز تکلم‬ ‫کی کئی ایک مثالیں‘ آج بھی اردو والوں کے لیے نئی نہیں‬ ‫ہیں۔ یہ مانوس ہی نہیں‘ آج بھی رائج ہے۔‬ ‫اردو میں بالنے کے لیے اے مستعمل ہے۔ مثال‬ ‫اے لڑکے‬ ‫فارسی میں بھی اے بالنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‬


‫مثال‬ ‫اے شاہد قدسی‬ ‫اے شاہد قدسی کہ کشد بن ِد نقابت‬ ‫پنجابی میں بالنے کے لیے وے مستعمل ہے۔ مثال‬ ‫وے نور جماال‬ ‫فارسی میں بھی وے بالنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‬ ‫جیسے‬ ‫وے مرغ بہشتی‬ ‫وے مرغ بہشتی کہ دہد دانہ و ابت‬ ‫یہ صیغہءمخاطب‘ شاید پنجابی ہی سے‘ فارسی میں منتقل‬ ‫ہوا ہے۔‬ ‫کجا‬ ‫کجا فارسی لفظ ہے‘ لیکن پنجابی میں فارسی معنوں اور‬ ‫پنجابی طور کے ساتھ عمومی استعمال کا لفظ ہے۔ مثال‬


‫‪:‬فارسی‬ ‫چراغ مردہ کـجا شمـع آفـتاب کـجا‬ ‫صـالح کار کـجا و مـن خراب کـجا‬ ‫‪:‬پنجابی‬ ‫گوشت روٹی کجا دال روٹی کجا‬ ‫کجا پہکھ ننگ کجا تخت سکندری‬ ‫کجا پہکھ ننگ کجا بادشاہی‬ ‫اردو میں لفظ کہاں استعمال میں آتا ہے‬ ‫حافظ کے ہاں مستعمل سابقے الحقے اور ان سے ترکیب‬ ‫پانے والے الفاظ‘ اردو میں عام استعمال کے ہیں۔ مثال‬ ‫سابقے‬ ‫بد‬ ‫ھمـه کارم ز خود کامی به بدنامی کشید آخر‬


‫نا‬ ‫ہر چہ ہست از قامت ناساز بی اندام ماست‬ ‫ز عشـق ناتـمام ما جمال یار مستغنی اسـت‬ ‫بے‬ ‫تنہا جہاں بگیرد و بےمنت سپاہی‬ ‫الحقے‬ ‫یہ لفظ اردو میں عام استعمال کے ہیں‪ :‬مے آلود‘ ظاہر‬ ‫پرست‘ میخانہ‘ خانقاہ‘ عذر خواہ‘ تکیہ گاہ‘ سبک بار‘‬ ‫سـعادت مـند‬ ‫مزید اردو کے الحقوں سے بننے والے الفاظ‪ :‬گردآلود بت‬ ‫پرست‘ کتب خانہ‘ خانقاہ‘ خیر خیر‘ عید گاہ‘ گراں بار‘‬ ‫عقیدت مند‬ ‫آلود‘ بار‘ پرست‘ خانہ‘ خواہ‘ قاہ‘ گاہ‘ مـند‬


‫حافظ بخود نپوشد ایں خرقہ ء مے آلود‬ ‫زاہد ظاہر پرست از حال ما آگاہ نیست‬ ‫منم کہ گوشہ ء میخانہ خانقاہ من ست‬ ‫نوائے من بسحر آہ عذر خواہ من ست‬ ‫فراز مسند خورشید تکیہ گاہ من ست‬ ‫کـجا دانـند حال ما سبک باران ساحـلھا‬ ‫جوانان سـعادت مـند پـند پیر دانا را‬ ‫حافظ کے ہاں استعمال ہونے والی تلمیحات‘ اردو والوں‬ ‫کے لیے غیرمانوس نہیں ہیں۔ مثال‬ ‫برق عصیاں بر ادم صفی زد‬ ‫جائیکہ‬ ‫ِ‬ ‫بر اہرمن نتابد انوار اسم اعظم‬ ‫ز پادشاہ و گدا فارغم بحمدہللا‬ ‫گفت برخیز کہ اں خسرو شیریں امد‬


‫در حشمت سلیمان ہر کس کہ شک نماید‬ ‫گفتم خوش اں ہوائے کز باغ خلد خیزد‬ ‫اال یا ایھا الـساقی ادر کاسا و ناولـھا‬ ‫حضوری گر ھمیخواھی از او غایب مشو حافظ‬ ‫مـتی ما تلق من تھوی دع الدنیا و اھملـھا‬ ‫حافظ کے ہاں ضدین کا استعمال‘ اردو والوں سے مختلف‬ ‫نہیں۔ دو ایک مثالیں مالحظہ فرمائیں۔‬ ‫ساقیا مے بدہ و غم مخور از دشمن و دوست‬ ‫ز پادشاہ و گدا فارغم بحمدہللا‬ ‫سـماع وعـظ کـجا نغمـه رباب کجا‬ ‫چراغ مردہ کـجا شمـع آفـتاب کـجا‬ ‫متعلق الفاظ کا استعمال بھی اردو والوں سے مختلف نہیں۔‬


‫در طریقت ہر چہ پیش سالک آید خیر اوست‬ ‫کایں ہمہ زخم نہاں ہست و مجال آہ نیست‬ ‫حافظ کے ہاں‘ شاعری کے مختلف انداز اختیار کے گیے‬ ‫ہیں۔ ان میں سواال جوابا یا مکالماتی انداز بھی اختیار کیا‬ ‫گیا ہے۔ یہ انداز اردو والوں کے لیے الگ سے نہیں ہے۔‬ ‫حافظ کی ایک پوری غزل اس انداز میں ملتی ہے۔‬ ‫مطلع کے دونوں مصرعوں میں‘ پہلے سوال پھر جواب‬ ‫گفتم غم تو دارم گفتا غمت سر آید‬ ‫گفتم کہ ماہ من شو‪ ،‬گفتا اگر برآید‬ ‫باقی غزل میں ایک مصرعے میں سوال دوسرے مصرعے‬ ‫میں جواب‬ ‫گفتم ز مہرواں رسم وفا بیاموز‬ ‫گفتا ز ماہ رعیاں ایں کار کمتر اید‬


‫ہم مرتبہ لفظوں کا بھی بالتکلف کر جاتے ہیں۔ مثال‬ ‫جرم ستارہ نیست‬ ‫جاناں گنا ِہ طالع و ِ‬ ‫مصرعے کے مصرعے اردو والوں کے لیے‘ مانوس سے‬ ‫ہیں۔ تفہیم میں دقت پیش نہیں آتی۔ مثال‬ ‫سـماع وعـظ کـجا نغمـه رباب کجا‬ ‫چراغ مردہ کـجا شمـع آفـتاب کـجا‬ ‫رس عاشق مسکیں امد‬ ‫نالہ فریاد ِ‬ ‫انوار پادشاہی‬ ‫اے در ُرخ تو پیدا‬ ‫ِ‬ ‫صد چشمہ اب حیواں از قطرہ سیاہی‬ ‫ت ہیچ اِستخارہ نیست‬ ‫کار خیر حاج ِ‬ ‫در ِ‬ ‫آخری مصرعے میں‘ لفظ نیست اردو میں مستعمل نہیں‬ ‫لیکن لفظ نیستی بامعنی کاہلی سستی استعمال میں ہے۔‬


‫نیست کو نہیں میں بدل دیں۔‬ ‫ت ہیچ اِستخارہ نہیں‬ ‫کار خیر حاج ِ‬ ‫در ِ‬ ‫اردو اور فارسی کی حیرت انگیز ماثلتوں کو دیکھ کر‘ اس‬ ‫تذبذب میں پڑ جاتا ہوں‘ کہ اردو فارسی سے یا فارسی اردو‬ ‫سے متاثر ہے۔ یہ الگ سے کام ہے‘ کہ دونوں کا ماضی‬ ‫کیا تھا۔ اس حقیقت کا کھوج لگانے کے لیے‘ سنجیدہ اور‬ ‫غیرجانب دار سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔‬

‫گورنمنٹ اسالمیہ کالج قصور اور فارسی زبان و ادب‬

‫اہل فارس کا‘ برصغیر سے صدیوں کا نہیں‘ ہزاروں سال‬ ‫کا تعلق ہے۔ سماجی معاسی اور سیاسی تعلق کے عالوہ‘‬ ‫ان کی رشتہ داریاں بھی رہی ہیں۔ یہاں تک کہ برصغیر کے‬ ‫یودھا‘ ایرانی فوج میں شامل رہے ہیں‘ جس سے باہمی‬


‫اعتماد کا پہلو‘ واضح طور پر سامنے آتا ہے۔ علمی ادبی‬ ‫سانجھوں کو بھی کسی سطع پر نظر انداز نہیں کیا جا‬ ‫سکتا۔ انگریزی تعلیم سے پہلے‘ درس گاہوں میں فارسی کا‬ ‫چرچا تھا۔ پڑھائ کا آغاز ہی سعدی شیرازی کی‘ گلستان‬ ‫اور بوستان سے ہوتا تھا۔ ناصرف فاری کتب کا مقامی‬ ‫زبانوں میں ترجمہ ہوا‘ بلکہ یہاں کے مقامی اہل علم‬ ‫حضرات نے‘ قابل قدر کتب فاری زبان میں تصنیف کیں۔‬ ‫بعض کتب کو بے حد پذیرائ حاصل ہوئ اور انھیں سند کا‬ ‫درجہ حاصل رہا۔ ان کتب کے مقامی زبانوں میں تراجم‬ ‫ہوئے۔ کچھ تراجم‘ آج بھی کئ دینی مدارس کے کورس‬ ‫میں داخل ہیں۔ اس حوالہ سے عملی تعلق واسطے کی براہ‬ ‫راست صورت سامنے آتی ہے۔‬ ‫یہ پہلو‘ فارس سے تعلق کا واضح ثبوت ہے۔ بات یہاں تک‬ ‫ہی محدود نہیں فارسی کی آوازیں اور الفاظ‘ کسی ناکسی‬ ‫صورت میں‘ آج بھی مقامی زبانوں میں داخل ہیں۔ اس امر‬ ‫کا قدرے تفصیلی جائزہ‘ میں اپنے مضمون ‘فارسی کے‬ ‫پاکستانی زبانوں پر اثرات‘ میں پیش کر چکا ہوں۔‬


‫گورنمنٹ اسالمیہ کالج قصور‘ پاکستان‘ کا بھی فارسی‬ ‫سے گہرا رشتہ رہا ہے۔ یہاں فارسی ناصرف تدریسی‬ ‫مضمون رہا ہے بلکہ اس کالج سے متعلق اہل قلم نے بھی‬ ‫بساط بھر اپنا کردار ادا کیا ہے۔ جس کی تفصیل درج کر رہا‬ ‫ہوں۔ ہو سکتا ہے‘ کسی ناکسی سطع پر‘ اہل تحقیق اور‬ ‫اہل ذوق کے کام کی نکلے۔ میں یہاں تالش کے بعد میسر‬ ‫آنے والی معلومات درج کر رہا ہوں ہو سکتا ہے‘ کوئ کام‬ ‫میری کوشش کے داءرہ میں نہ آ سکا ہو۔ اسے میری‬ ‫کوشش کی کم کوسی نہ سمجھا جاءے بلکہ وقت کی دھول‬ ‫نے بہت سے نقوش کو غاءب کر دیا ہے۔ کسی دوسرے‬ ‫محقق کی سنجیدہ کوشش سے ممکن ہے‘ وہ کام بھی‬ ‫منظر عام پر آسکے گا۔‬ ‫پروفیسر غالم ربانی عزیز کالج کے پہلے پرنسپل تھے۔ وہ‬ ‫عربی‘ فارسی‘ اردو اور انگریزی زبانوں پر دسترس‬ ‫رکھتے تھے۔ انھوں نے دیوان غنیمت کنجاہی‘ مثنوی‬ ‫غنیمت کنجاہی‘ دیوان واقف بٹالوی‘ دیوان دلشاد پسروری‘‬ ‫کلیات آفرین جلد اول اور قصاءد آفرین کی تصیح وترتیب‬ ‫کا کام انجام دیا۔ آخری کتاب کے عالوہ تمام کتب شائع‬


‫ہوئیں۔ مزید براں انھوں نے‘ غنیمت کنجاہی سے متعلق‘‬ ‫کالج میگزین کے لیے تین مضامین دیے۔‬ ‫غنیمت کی شاعری‬

‫‪١٩٦٠‬‬

‫غنیمت کی شاعری کا ایک پہلو‬ ‫‪٦٢-١٩٦١‬‬ ‫غنیمت شکایت روزگار‬ ‫‪٦٣-١٩٦٢‬‬ ‫احمد یار خاں مجبور اردو پنجابی اور فارسی کے شاعر‬ ‫تھے۔ انھوں نے عمر خیام کی رباعیات کا چھے مصرعی‘‬ ‫پنجابی ترجمہ بھی کیا۔ تین رباعیات کا اردو میں ترجمہ کیا‬ ‫جو ایم فل کے مقالہ ‘بابا مجبور شخصیت فن اور شاعری‘‬ ‫مملوکہ عالمہ اقبال اوپن یونیورسٹی‘ اسالم آباد میں موجود‬ ‫ہے۔‬ ‫مقصود حسنی کالج ہذا میں اردو کے استاد رہے ہیں۔‬ ‫‪ ١٩٩٦‬میں ان کی ‘کتاب شعریات خیام‘ شائع ہوئ۔ اس‬


‫کتاب میں‬ ‫عمر خیام۔۔۔۔۔ سوانح و شخصیت اور اس کا عہد‬ ‫رباعیات خیام کا تنقیدی و تشریحی مطالعہ‬ ‫رباعیات خیام کے شعری محاسن‬ ‫عمر خیام کے نظریات و اعتقادات‬ ‫عمر خیام کا فلسفہ وجود‬ ‫عمر خیام سے متعلق مواد کے عالوہ چوراسی رباعیات‬ ‫خیام کا سہ مصرعی ترجمہ بھی پیش کیا گیا۔‬ ‫کتاب میں ڈاکٹر عبدالقوی ضیا‘ ڈاکٹر آغا سہیل‘ ڈاکٹر‬ ‫خواجہ حمید یزدانی‘ ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی‘ ڈاکٹر اسلم‬ ‫ثاقب‘ ڈاکٹر اختر علی‘ ڈاکٹر وفا راشدی‘ ڈاکٹر صابر آفاقی‘‬ ‫ڈاکٹر منیرالدین احمد‘ پروفیسر کلیم ضیا‘ پروفیسر رب نواز‬ ‫ماءل‘ پرفیسر اکرام ہوشیارپوری‘ پروفیسر امجد علی‬ ‫شاکر‘ پروفیسر حسین سحر‘ بروفیسر عطاالرحمن‘ ڈاکٹر‬ ‫رشید امجد‘ ڈاکٹر محمد امیں‘ علی دیپک قزلباش‘ سید نذیر‬


‫حسین فاضل شرقیات کی آرا شامل ہیں۔‬ ‫مقصود حسنی نے قرتہ العین طاہرہ کی فارسی غزلوں کا‬ ‫اردو اور پنجابی میں ترجمہ کیا۔ مزید براں میاں محمد‬ ‫بخش کی پنجابی مثنوی ‘قصہ سفر العشق‘ کے فارسی‬ ‫حواشی کو جمع کیا۔‬ ‫کالج میگزین االدب میں پروفیسر منشا سلیمی کے دو‬ ‫مضمون بعنوان‬ ‫امیر خسرو کی غزل گوئ‬ ‫‪١٩٥٩‬‬ ‫بادہءحافظ‬ ‫‪١٩٦٠‬‬ ‫شائع ہوئے۔‬ ‫دو مضمون پروفیسر اکرام ہوشیاری کے‘ درج ذیل عنوانات‬ ‫کے تحت شائع ہوئے۔‬ ‫شیخ سدی شیرازی‬


‫‪٧١- ١٩٧٠‬‬ ‫شیخ سدی شیرازی‬ ‫‪٨٧-١٩٨٦‬‬ ‫ان مضامین کے عالوہ سات مختلف موضوعات پر االدب‬ ‫میں مضامین اشاعت پذیر ہوئے‬ ‫پاکستان و فارسی زبان فیاض احمد‬ ‫‪١٩٥٨‬‬

‫‪١-‬‬

‫امیر خسرو کی تصانیف کی تاریخی حیثیت قمرالحق‬ ‫‪١٩٥٨‬‬

‫‪٢-‬‬

‫پروفیسر وحیدہ شیخ‬ ‫پروین اعتصامی‬ ‫‪١٦٦٦‬‬

‫‪٣-‬‬

‫حافظ شیرازی‬

‫ارشد شیخ‬ ‫‪١٩٦٦‬‬

‫‪٤-‬‬

‫موالنا روم اور ان کی تعلیات شمشیر خاں‬ ‫‪٦٨-١٩٦٧‬‬

‫‪٥-‬‬

‫فارسی میں مرزا غالب کا مقام محمد عباس انجان‬

‫‪٦-‬‬


‫‪٧٢ -١٩٧١‬‬ ‫پنجاب میں حافظ شیرازی کا مقلد! قصوری ڈاکٹر ‪٧-‬‬ ‫‪٩٨-١٩٩٧‬‬ ‫عارف نوشاہی‬ ‫ڈاکٹر عارف نوشاہی اسالمیہ کالج قصور کے سٹاف میں‬ ‫سے نہیں تھے۔ االدب کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے‘ کہ اس‬ ‫کے میگزین االدب میں‘ مختلف موضوعات پر‘ مشاہیر کی‬ ‫تحریریں شائع ہوتی رہی ہیں۔ فقط ایک ادارے میں فارسی‬ ‫زبان ادب پر معقول کاوش ہا فکر اشاعت پذیر ہوئیں۔‬ ‫برصغیر میں صد ہا ادارے ہیں‘ وہاں فارسی کے حوالہ‬ ‫سے مواد شائع ہوا ہو گا۔ اس کا‘ اس ادارے کی مثال سے‬ ‫باخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ تاہم باور رہنا چاہیے‘ کہ‬ ‫یہ مضافاتی تعلیمی ادارے‘ مراکز کے اداروں سے‘ کسی‬ ‫طرح پیچھے نہیں رہے۔‬

‫کالم‪ :‬حضرت بو علی قلندر‬ ‫مترجم‪ :‬مقصود حسنی‬


‫اے شرف چاہے ہے اگر وصل حبیب‬ ‫نالہ کرتا رہ روز و شب جوں عندلیب‬ ‫مریض عشق اور بےزار از جان ہوں‬ ‫مرے نبض پر دست کیوں رکھے طبیب‬ ‫رسم و راہ نہ جانے کہ ہر کوئی‬ ‫دیار عاشقی میں ہے مانند غریب‬ ‫شربت دیدار خوش آتا ہے دل داروں کو‬ ‫نصیب میں ہے یا ہوں میں بےنصیب‬ ‫اس سے دور ہائے ہائے میں دور ہوں‬ ‫مگر رگ جان سے بھی وہ مرے قریب‬


‫سر پر تنی ہے تیغ محتسب‬ ‫دل میں پوشیدہ اسرار عجیب‬ ‫بو علی شاعر ہوا ساحر ہوا‬ ‫کرے ہے انگیزی خیاالت غریب‬

‫'''''''''''''''''''''‬ ‫اگر رند ہوں اگر میں بت پرست ہوں‬ ‫قبول کر خدایا جو جیسا بھی ہوں‬ ‫ننگ و عار نہیں بت پرستی سے‬ ‫کہ یار بت ہے میں بت پرست ہوں‬


‫پیچ و تاب عشق میں گرفتار ہوں‬ ‫دل اندر زلف پیچان کا بسیرا ہے‬

‫'''''''''''''''''''''‬

‫کالم‪ :‬حضرت شہباز قلندر‬ ‫ہدیہ کار اردو‪ :‬مقصود حسنی‬ ‫شاہ دو عالم محمد عربی ہیں‬ ‫مقصود آدم محمد عربی ہیں‬


‫صد شکر خدا کہ پشت و پناہ خلق‬ ‫شاہنشاہے مکرم محمد عربی ہیں‬ ‫اپنے جرم و حال پریشاں پر کیسا غم‬ ‫جب کہ پیشوائے عالم محمد عربی ہیں‬ ‫کیسا غم' مرے سر پر ان کا سایہ ہے‬ ‫غم خوار حال زارم محمد عربی ہیں‬ ‫مدد کریں کہ میں نابود آتش عشق ہوں‬ ‫مطلوب و جان جانم‪ ،‬محمد عربی ہیں‬ ‫ختم رسل چراغ رہ دین و نور حق‬ ‫کہ رحمت دو عالم محمد عربی ہیں‬


‫وہ سرور خالئق و رہمنائے دیں‬ ‫صدر و بدر عالم محمد عربی ہیں‬ ‫آپ کعبہ معارف آپ قبلہ یقین‬ ‫شاہ دین پناہم محمد عربی ہیں‬ ‫کر پیروی ان کی کہ ہو تری نجات‬ ‫شاہنشاہے معظم محمد عربی ہیں‬ ‫کالم‪ :‬حضرت سخی شہباز قلندر‬ ‫اردو ہدیہ کار‪ :‬مقصود حسنی‬ ‫بے محمد در حق بار نہیں‬ ‫بے روا از کبریا دیدار نہیں‬


‫اے محقق ذات حق با صفات‬ ‫بے تجلی ہیچ کہ اظہار نہیں‬ ‫ہر دو عالم جز تمثل نہیں نہیں‬ ‫مطلع جز صاحب اسرار نہیں‬ ‫سوا جمال دوست جو دیکھے حرام‬ ‫نزد بینا کار غیر اس کار نہیں‬ ‫غرق ہوتا ہے جمال دوست‘ دوست‬ ‫عاشق سرمست سے ہوتی گفتار نہیں‬ ‫اسے زندہ نہ کہو اس جہاں میں‬ ‫ہر کہ دربار جاناں جسے بار نہیں‬


‫دو عالم کا علم اس نقطے میں ہے‬ ‫عارفوں کا کار با ضر وار نہیں‬ ‫رو اپنا تو راجا اپنی طرف کر کہ‬ ‫عارفوں کے پاس سوا دل بیدار نہیں‬ ‫لقائے یار سے مسرور ہوتا ہے یار‬ ‫ایسا نہیں ہے تو‘ وہ یار‘ یار نہیں‬

‫کالم‪ :‬حافظ شیرازی‬ ‫اردو ترجمہ‪ :‬مقصود حسنی‬ ‫بحر عشق کا کوئی کنارہ نہیں ہوتا‬


‫سوا جان دینے کے چارہ نہیں ہوتا‬ ‫کوچہء عشق میں گزرا جو پل‘ اچھا ہے‬ ‫ت و اِستخارہ نہیں ہوتا‬ ‫کار خیر میں حاج ِ‬ ‫ِ‬ ‫بنا کر عقل کو مفتی نہ ڈرا ہم کو شراب ال‬ ‫کوئے عشق میں عقل کا کارہ نہیں ہوتا‬ ‫اپنی آنکھوں سے پوچھ کون کرے ہے قتل‬ ‫جرم ستارہ نہیں ہوتا‬ ‫جان من گنا ِہ طالع و ِ‬ ‫دھلی نظروں سے اس رخ ہاللی کو دیکھ‬ ‫ہر آنکھ سے ماہ پارہ کا نظارہ نہیں ہوتا‬ ‫غنیمت جان طور رندی کو کہ یہ نِشاں‬


‫را ِہ گنج ہے ہمہ کس آشکارہ نہیں ہوتا‬ ‫ِگریہء حافظ ترے حضور رائیگاں ٹھہرا‬ ‫سنگ خارہ نہیں ہوتا‬ ‫یار‘ اتنا تو سخت دل‬ ‫ِ‬


Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.