مط ل ہءاقب ل مقصود حسنی
فری ابوزر برقی کت خ نہ اگست 1
فہرست اقب ل کی یورپ روانگی سے پہ ے کے احوال ڈاکٹر اقب ل اور مغربی م کرین اقب ل ک ف س ہءخودی مط ل ہءاقب ل کے چند م خذ ف س ہ خودی‘ اس کے حدود اور ڈاکٹر اقب ل االد آور اقب ل فہمی کچھ اور مض مین
2
اقب ل کی یورپ روانگی سے پہ ے کے احوال اقب ل نسال کشمیری براہمن تھے۔ ان کی گوتھ سپرو تھی۔ پندرھویں صدی عیسوی میں‘ ان کے آب ؤ اجداد ب ب لولی‘ مشرف بہ سال ہوئے۔ ب ب لولی‘ ح جی ب ب نصیرالدین کے مرید تھے۔ ح جی ب ب نصیرالدین‘ شیخ نورالدین ولی کے ادارت مندوں میں سے تھے۔ انہوں نے کئی پ پی دہ حج کیے۔ ان ک مزار چیراٹ شریف‘ کشمیر میں ہے۔ الہ آب د ہ ئی کورٹ کے وکیل سر تیج بہ در سپرو گھرانہ سے ت رکھتے تھے۔ اقب ل کے دادا‘ شیخ محمد رفی ‘ عرف شیخ رفیق نے‘ سی ل کوٹ کے مح ہ کھٹیک ں کے ایک مک ن میں سکونت اختی ر کی‘ ب د ازاں یہ مک ن خرید لی ۔ شیخ رفی تج رت سے منس ک تھے۔ یہ مک ن اس دور میں یک منزلہ تھ ۔ اسی مک ن میں اقب ل کے والد شیخ نور محمد پیدا ہوئے۔ میں شیخ نور محمد نے اس مک ن سے م حقہ مک ن خرید لی ۔ یہ رہ ئش‘ ب د ازاں اقب ل منزل کہالئی۔ اقب ل 3
کی والدہ ک ن ام بی بی تھ ۔ وہ ایک دین دار خ تون تھیں۔ ان کے والد صوفی منش تھے اور اکثر درویشوں کی مح ل میں اٹھتے بیٹھتے تھے۔ ان کی دوسری اوالدوں میں شیخ عط محمد‘ ف طمہ بی بی اور ط لع بی تھیں۔ اقب ل کی پیدائش کے وقت‘ شیخ عط محمد اٹھ رہ برس کے تھے اور ان کی ش دی ہو چکی تھی۔ اقب ل کی پیدائش کے مت مخت ف روای ت س منے آتی ہیں ت ہ نومبر پر س ات کرتے ہیں۔ ج وید اقب ل کے میں پیدا ہوئے۔ مط ب وہ صبح کی ازان کے وقت کے وقت‘ سی ل کوٹ کے دو سکوت سی ل کوٹ س الروں کو‘ پھ نسی اور بیشتر جنگ جو جوانوں کو‘ گولی سے اڑا دی گی ۔ اس ح دثے نے‘ سی ل کوٹ کے ذہنوں پر من ی اثرات مرت کیے۔ وہ انگریز راج اور انگریزی اطوار سے ن رت کرتے تھے۔ اقب ل کے والد‘ اگرچہ کسی تحریک میں حصہ نہ لیتے تھے لیکن اس ح دثے نے ان پر گہرے اثرات مرت کیے۔ یہی وجہ ہے‘ کہ انہوں نے اقب ل کو چ ر برس کی عمر میں‘ مولوی غال حسین کے حوالے‘ دینی ت ی کے لیے کر دی ۔ وہ وہ ں س ل کے لگ بھگ ت ی ح صل کرتے رہے۔ 4
ایک دف ہ مولوی میر حسن‘ مولوی غال حسین کے ہ ں گیے‘ جہ ں انہوں نے اقب ل کو دیکھ ۔ انہوں نے شیخ نور محمد سے کہہ کر‘ اقب ل کو اپنی تحویل میں لے لی ۔ اقب ل‘ ان کے ہ ں عربی ف رسی اور اردو ادبی ت ک مط ل ہ کرنے لگے۔ اسی دوران‘ مولوی میرحسن نے اقب ل کو اسک چ مشن اسکول‘ سی ل کوٹ میں داخل کرا دی ۔ میں‘ اقب ل نے اسک چ مشن اسکول سے میٹرک درجہ اول میں پ س کی ۔ ادھر میٹرک ک امتح ن پ س کی ادھر ان کے سر پر ش دی ک سہرا سج گی ۔ ان کی بیوی کری بی بی‘ گجرات کے ایک م زز اور شریف کشمیری گھرانے سے ت رکھتی تھیں۔ خ ندانی شرافت ان کی رگ وپے میں موجود تھی۔ اسک چ مشن اسکول‘ ک لج ک درجہ اختی ر کر گی تھ ۔ یہ ں سے‘ درجہ دوئ میں ایف اے ک امتح ن پ س کی ۔ س ل اول کے دوران ہی‘ دا دہ وی سے کال میں اصالح لینے لگے۔ یہ ت یمی ادارہ مشرقی و مغربی اقدار ک نم ئندہ تھ ۔ میں‘ الہور تشریف لے آئے۔ گورنمٹ ک لج ستمبر الہور سے‘ ف س ہ اور عربی مض مین میں بی اے کی ۔ عربی 5
کے مط ل ہ کے لیے اورئنیٹل ک لج آتے۔ وہ ں عالمہ محمد حسین آزاد‘ عالمہ فیض الحسن سہ رن پوری اور مولوی محمد دین ایسے ف ضل اس تذہ سے کس ع ک موقع دستی ہوا‘ ت ہ پروفیسر آرن ڈ کے بہت قری تھے۔ گورنمنٹ ک لج میں پروفیسر ڈب یو میل‘ پروفیسر اوشر اور پروفیسر آرنڈ سے ف س ہ کی ت ی ح حل کی۔ گورنمنٹ ک لج سے بی اے درجہ دوئ میں پ س کی ۔ ای اے ف س ہ‘ درجہ میں ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کے لیے سو میں کی ۔ ان فٹ قرار پ ئے۔ میں‘ اورنٹیل ک لج میں‘ بطور ریڈر مالز ہو گیے۔ میں گورنمنٹ ک لج الہور میں اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے۔ اسالمیہ ک لج الہور میں‘ سر عبدالق در کی سیٹ پر‘ بطور اسسٹنٹ پروفیسر آف انگ ش بھی ک کی ۔ قی الہور کے دوران‘ ان کی چ ر کت بیں منظر ع پر آئیں۔ تک‘ الہور کی درس گ ہوں میں فرائض سے انج دیتے رہے۔ اقب ل م نے والی م ہوار تنخواہ سے مطمن نہ تھے۔ اس سے اندازہ ہو ج ت ہے کہ وہ بیرسٹر بن کر محکمہ ت ی کو خیرب د کہہ دین چ ہتے تھے‘ لیکن وہ بیرسڑی نہ کر سکے۔ خصوصی اج زت کے ب وجود 6
ک می بی ح صل نہ ہو سکی۔ اس سے‘ ب خوبی یہ ں کے م ی ر ت ی ک اندازہ لگ ی ج سکت ہے۔ مغر کی بڑی دک ن سے‘ انہیں یہی س م ن دستی ہو گی ۔ اقب ل ک لج سے م نے والی سٹڈی لیو لے کر‘ انگ ست ن روانہ ہو گیے۔ رخصت کے دوران ہی‘ ان کی تنخواہ میں تیس روپے اض فہ گی ۔ یورپ سے واپسی پر‘ اپنی دیرینہ خواہش اور بہتر آمدن کے لیے مالزمت سے اسطی ے دے کر‘ بیرسٹری کی طرف آگیے۔ عالمہ اقب ل سیم بی طبی ت اور مزاج کے م لک تھے۔ ان ک ع می ادبی اور بہتر آمدن کی حصولی ک خوا شرمندہء ت بیر نہیں ہو سکت تھ ۔ الہور آ کر انہوں نے ن صرف ت ی ح صل کی‘ بل کہ مالزمت بھی اختی ر کی۔ بیرسٹر بن کر م شی صورت ح ل کو کروٹ دینے کی کوشش کی‘ لیکن اس حوالہ سے‘ بری طرح ن ک ہوئے۔ ط ل ع می کے زم نہ ہی سے‘ انہوں نے اد کی مخت ف حوالوں سے تسکین ک ک کی ۔ ‘سبھی دوست‘ ان کے کمرے میں آ ج تے۔ فرش پر‘ حقہ سمیت‘ مح ل جمتی۔ یہ برہنہ سر‘ تہمد ب ندھے‘ کمبل اوڑھے حقہ پیتے رہتے۔ ش ر و ش عری مب حث اور خو خو خوش طب ی ک 7
س م ن ہوت ۔ اقب ل سے قبل ہی‘ ایک انجن مش عرہ ق ئ تھی۔ اس انجمن میں رکھی تھی۔ کی بنی د حکی شج ح الدین نے‘ اس کی نشتیں‘ حکی امین الدین کے ہ ں ہوا کرتی تھیں۔ حکی شج ح الدین کی موت کے ب د یہ نشتیں‘ نوا غال محبو سبح نی‘ والئی کشمیر کی سرپرستی میں ہونے کی ایک ش کو‘ انجمن کے مش عرہ میں اپن لگیں۔ کال پڑھ ۔ اس مج س میں عالمہ ارشد گورگ نی اور میر ن ظ حسین ن ظ بھی موجود تھے۔ ج وہ اس ش ر تک :پہنچے موتی سمجھ کے ش ن کریمی نے چن لیے قطرے جو تھے میرے عر ان ل کے عالمہ ارشد گورگ نی بے اختی ر ہو کر داد دینے لگے اور انہیں محبت بھری نظروں سے دیکھ ۔ الہور میں ق ئ شدہ انجمن ‘کشمیری مس م ن ن‘ میں بھی اپن کال سن ی اور داد پ ئی۔ مش عروں میں رنگ آ گی اور س م ین کی ت داد میں‘ ہر چند اض فہ ہوا۔ ان مش عروں کی 8
تنظی کے لیے‘ ایک ادبی انجمن بھی ق ئ کی گئی۔ اس کے صدر مدن گوپ ل اور سیکرٹری خ ن احمد حسین خ ں تھے۔ خ ن احمد حسین خ ں‘ ان مج لس کے روح رواں ہوا کرتے تھے۔ نظ ‘ہم لہ‘ بھی‘ اس انجمن کے کسی اجالس میں پڑھ کر سن ئی گئی۔ اقب ل اپن کال تحت ال ظ سن تے تھے۔ ان آواز میں بال ک ج دو تھ ۔ دوستوں کے اصرار پر‘ انہوں نے کھی کبھ ر اپن کال ترن سے پڑھن شروع کر دی ۔ ادبی انجمن کے حوالہ سے‘ اقب ل الہور کی فض ؤں میں‘ نمودار ہوئے۔ اقب ل اس انجن کے سیکرٹری بھی رہے۔ یہ انجمن آگے چل کر‘ آل انڈی مس ک ن رنس کے ن سے م روف ہوئی۔ قی الہور کے دوران‘ ان کے ت ق ت خ صے وسیع ہو گیے۔ ان کے احب میں‘ انگریز‘ ہندو اور مس م نوں ش مل تھے۔ انگریز احب میں‘ پروفیسر ارن ڈ خصوصی اہمیت کے ح مل ہیں۔ پروفیسر موصوف نے ان کے فکری رویوں کو مت ثر کی ۔ میں‘ انہوں انجمن حم یت االسال کے س النہ ج سہ نے ‘ن لءیتی ‘ پڑھی۔ اس ج سے کی صدارت ڈیپٹی نذیر احمد کر رہے تھے۔ اس انجمن کے اور ج سوں میں بھی‘ 9
اقب ل نے شرکت فرم ئی اور اپنے کال سے س م ین کو محظوظ کی ۔ اس انجمن کے ج سوں میں‘ کال پڑھنے کے دوران‘ عالمہ الط ف حسین ح لی سے دس روپے‘ خواجہ حسن نظ می سے عم مہ اور خواجہ عبدالصمد ککڑو سے چ ندی ک تمغہ‘ جو وہ کشمیر سے بنوا کر الئے تھے‘ وصول کی ۔ انہیں عالمہ الط ف حسین ح لی کی نظ سن نے ک اعزاز بھی ح صل ہوا۔ یہ س ‘ بالشبہ‘ اقب ل کی فکر کی ب ند پروازی‘ جدت طرازی‘ نی اس و تک ‘ نئی زب ن اور انگریز احب سے قربت ک نتیجہ تھ ۔ ان کے کہے میں عصری کر کی تصویر کشی اور دلکش انداز میں پیش کش کو کسی بھی سطع پر نظر انداز نہیں کی ج ن چ ہیے۔ قی الہور کے دوران‘ انہوں نے ہم لہ‘ ن لءیتی ‘ ایک یتی ک خط ‘ ن لءفرا ‘ -خیر مقد ‘ دین و دنی ‘ فری د امت‘ تصویر درد ش ر پ رے ق بند کیے۔ یہ س فکری و لس نی اعتب ر سے‘ اپنی مث ل ہیں۔ انہیں اد ع لیہ کی بس ط پر رکھ ج سکت ہے۔ منشی محمد دین فو ‘ جو ایک ش عر سے زی دہ‘ اخب ر نویس تھے‘ نے اقب ل میں ترقی پسندی کے جوہر دیکھ 10
کر‘ ان کے ن کو اچھ لن شروع کی ۔ ان کے کال کو اپنے اخب رات میں نم ی ں جگہ دی۔ ان دونوں حضرات کو‘ جن جن ک س تھی کہ ج ئے‘ تو مب لغہ نہ ہو گ ۔ دوسرا‘ وہ دونوں ایک ہی دھرتی کے سپوت تھے۔ دونوں دا دہ وی کے ش گرد تھے۔ وہ پیسہ اخب ر‘ پنجہءفوالد‘ کشمیری میگزین اور اخب ر کشمیری نک لتے تھے۔ جو پروفیسر آرن ڈ ک قصیدہ ہے۔ اس قصیدے کو قص ئد - سے الگ رکھ گی ہے‘ ح الں کہ اردو قصیدے میں اسے بڑا ہی خو صورت اض فہ قرار دی ج سکت ہے۔ مواد اور اس و تک کی جدت‘ اس قصیدے کو الگ سے‘ عزت اور توقیر دینے ک مستح ٹھہراتی ہے۔ غ لب ان کی زندگی کے س ر میں‘ یہ سنگ میل ک درجہ رکھت ہے۔
11
اس مضمون کی تی ری کے لیے ان کت سے است دہ کی :گی ہے زندہ رود از شیخ اکرا - اقب ل مرتبہ وحید عشرت - مط لہء اقب ل از ڈاکٹر گوہر نوش ہی - اقب ل ک مل از عبدالسال ندوی - نقوش اقب ل نمبر شم رہ
-
۔ نیرنگ خی ل شم رہ ستمبر اکتوبر 9-1-1980
12
ڈاکٹر اقب ل اور مغربی م کرین اقب ل نے اسک چ مشن اسکول‘ سی ل کوٹ سے‘ مشرقی و مغربی طرز پر ایف اے کی ۔ مزید ت ی کے لیے الہور آئے۔ یہ ں بیک وقت تین ت یمی و فکری دھ رے بہتے تھے۔ ا سر سید کے حوالہ سے‘ مغربی اطوار و نظری ت - م ت رف کرانے کی کوشش کی ج رہی تھی۔ گورنمنٹ ک لج‘ الہور میں‘ پروفیسر آرن ڈ کے حوالہ سے‘ ط ب مغر سے ب لواسطہ م ت رف ہو رہے تھے۔ ع و شرقیہ سے مت مخت ف اسکول مشرقی فکر - ع کرنے میں مصروف تھے۔ ایک طبقہ مخ وط نظری ت پھیال رہ تھ ۔ - اقب ل کے پروفیسر آرن ڈ سے‘ خصوصی ت خ طر ک اندازہ‘ اس امر سے لگ ی ج سکت ہے کہ ج وہ میں‘ انگ ست ن واپس گیے‘ تو اقب ل نے ان کے رخصت ہونے پر نظ ۔۔۔۔ن لہءفرا ۔۔۔۔۔ ق بند کی۔ اس نظ کے مندرج ت سے‘ اقب ل کی آرن ڈ سے ق بی وابستگی ک اندازہ 13
لگ ی ج سکت ہے۔ اقب ل نے اس نظ میں موصوف کو ک ی ‘ خورشید آشن ‘ ابر رحمت‘ موج ن س ب د نش ط وغیرہ ایسے الق ب ت سے م قو کی ۔ ان دنوں گورنمنٹ ک لج‘ الہور ب نجھ نہ تھ اور ن ہی کبھی رہ ہے۔ اسے ہر دور میں‘ س دت س ید اور تبس ک شمیری سے بےبدل ع ل ف ضل‘ میسر رہے ہیں۔ آرن ڈ ہی سے کیوں یہ رشتہءال ت استوار ہوا۔ اس سوالیے ک جوا نظ کے اندر موجود ہے۔ کھول دے گ دشت وحشت عقدہء تقدیر کو توڑ کر پہنچوں گ میں پنج
کی زنجیر کو
اقب ل زبردست نب ض تھے۔ مغر کو بھی نم ئندوں کی ضرورت تھی۔ اپنی دھرتی زنجیر نہیں ہوتی۔ اپنی دھرتی کو زنجیر کہنے واال اپنی دھرتی سے کتن مخ ص ہو سکت ہے اس ک اندازہ لگ ن کوئی پچیدہ عمل نہیں۔ اقب ل نے گورنمنٹ ک لج‘ الہور میں تدریسی فرائض بھی انج دئیے۔ جس سے‘ ن صرف سوچ کو فراخی میسر آئی‘ ب کہ نظری ت کو بھی ایک سمت‘ دستی ہوئی۔ الہور میں رہتے ہوئے‘ انھوں نے مخت ف مش عروں میں شرکت کی۔ 14
مخت ف نظری ت کے ش را سے مل بیٹھنے ک موقع بھی تک ہ تھ لگ ۔ اس سے ان ک ش ری ش ور پختہ ہوا۔ انھوں نے مشر کی اقدار سے وق یت ح صل کی۔ ستمبر
کو‘
ع ز انگ ست ن ہوئے۔ ابتدا ہی میں‘ ان کی مالت میگ ٹیگ رٹ سے ہوئی جو ہیگل ک پیرو تھ ۔ اس کے عالوہ آکس ررڈ یونیورسٹی میں پروفیسر براؤن اور پروفیسر وارڈ س رلے سے خصوصی طور پر ع می و فکری است دے ک موقع مال۔ پروفیسر س رلے کے حوالہ سے ل ظ کی حقیقی قدر اور حرمت سے آگ ہی ح صل کی۔ انگ ست ن میں رہتے ہوئے‘ ڈاکٹر نک سن کی ایم پر ف رسی ادبی ت ک مط ل ہ کی ۔ ح فظ شیرازی کے نظریہءوحدت الوجود کے تن ظر ی ک نٹ کے۔۔۔۔وجود کی تالش۔۔۔۔ اور فشٹے کے نظریہ ان ی نی ایگو کے تن ظر میں ح فظ شیرازی ک مط ل ہ کی ۔ پھر وہ ف س ہءخودی کے موجد قرار پ ءے۔ ک یس اخالقی اقدار ک سرچشمہ رہ ہے۔ اپنی اہمیت کھو بیٹھ تھ ۔ سی ست اور مذہ ‘ دو الگ الگ ش بے قرار پ 15
گیے تھے۔ مذہ ‘ ک یس کی چ ر دیواری کے اندر‘ محض دع ؤں ک مجموعہ ہو کر رہ گی تھ ۔ سی ست کے ع مبرداروں نے‘ اپنے الگ سے سی سی اصول وضع کر لیے تھے۔ اس طرح انھیں‘ سم جی اور م شرتی رویوں پر گرفت ح صل ہو گئی تھی۔ ک رل م رکس نے‘ سسکتی حی ت‘ م شرتی جبر‘ سی سی حی ہ س زیوں اور م شی قتل ع کے ردعمل میں‘ اپن نظریہء م یشت پیش کی ۔ انقال فرانس اور امریکہ کی جنگ آزادی بھی‘ اسی عد مس وات اور م شی ن ہمواریوں ک نتیجہ تھی۔ فرد کی حیثیت‘ مشین کے کسی کل پرزے سے زی دہ نہ رہی تھی۔ نطشے نے‘ انس ن کے وجود کو‘ استحق دینے کے لیے‘ فو البشر ی نی سپرمین ک نظریہ دی ۔ ک رل م رکس اور لینن نے مذہ کو افیون قرار دی ۔ نطشے‘ جمہوریت اور اشتراکیت کو بھی‘ عوا اور اقوا کو غال بن نے کی س زش قرار دیت ہے۔ وہ خدا کے وجود ک منکر ہے۔ وہ مغربی است م ر اور مسیحی ف س ہءاخال پر چوٹ کرت ہے۔ اس لیے‘ کسی غیر مسیحی کو‘ اس ک خوش آن فطری سی ب ت ہے۔ سپرمین کے حوالہ سے‘ جو ب تیں س منے آتی ہیں‘ ان میں سے اکثر اقب ل کے۔۔۔۔۔ مرد 16
ک مل۔۔۔۔۔ میں بھی م تی ہیں‘ ت ہ اسے اس ک بےلگ ہون کھٹکت ہے۔ اقب ل نے جس مرد ک مل ک نظریہ دی ‘ جہ ں وہ ذات پرست‘ ذات پسند اور دوسروں کے لیے کچھ نہیں‘ وہ ں اس ک خصوصی وصف یہ بھی ہے‘ کہ وہ ک ئن تی ہے۔ ک فر کی یہ پہچ ن کہ آف
میں گ ہے
مومن کی یہ پہچ ن کہ گ اس میں ہیں آف اقب ل ک مرد ک مل بہت سے حوالوں سے نطشے کے سپرمین سے الگ ہے۔ ہو ح قہءی راں تو ہے ابریش کی طرح نر رز ح و ب طل ہو تو فوالد ہے مومن اقب ل نے مرد ک مل میں چ ر ص ت کی نش ن دہی کی ہے۔ قہ ری و جب ری و قددسی و جبروت یہ چ ر عن صر ہوں تو بنت ہے مس م ن یہ ں مرد ک مل کے لیے مس م ن ہونے کی شرط ع ئد کر دی ہے۔ اقب ل کے محقیقن نے‘ مرد ک مل کے لیے اس ش ر کو 17
بھی حوالہ بن ی ہے۔ گوی س م ن ہونے کی صورت میں ہی‘ مرد ک مل کے اعزاز سے سرفراز ہو سکت ہے۔ اس ش ر کے حوالہ سے اس ک مخ ط انس ن نہیں ب کہ اسالمی برادری سے مت شخص ہی ک مل ہو سکت ہے۔ دوسری طرف ان عن ص سے محرو مس م ن ہی نہیں۔ اقب ل اس پیم نے ہر مس م ن ف تح بیٹھے گ ۔ مس م ن دل تسخیر کرت ہے۔ پتھر اینٹ برس نے والوں کے لیے دع کے لیے ہ تھ اٹھ ت ہے۔ دشمن کی بھی مدد کرت ہے۔ ب نٹ میں کسی قس کی تخصیص روا نہیں رکھت ۔ مہرب ن اور سراپ عط واال ہوت ہے۔ قہ ر اور جب ر کو دیسی م نوں میں است م ل کی گی ہے۔ نطشے کے مت اقب ل ک کہن ہے۔ تیرے سینے میں نہیں شمع یقین اس لیے ت ریک یہ ک ش نہ ہے کس طرح پ ءے سرا آشن تو کہ اپنے آپ سے بیگ نہ ہے جو بھی سہی‘ اقب ل کے ف س ہءخودی میں نطشے کے 18
کہے کی ب زگشت موجود ہے۔ مرد ک مل میں سپرمین کی پرچھ ئیں موجود ہے۔ ک رل م رکس‘ درحقیقت مغر کے مظو ‘ م س اور پس م ندہ لوگوں ک نم ئندہ ہے۔ اس نے م دہ پرستی کے م حول و ح الت میں رہ کر‘ اپن نظرہءم یشت پیش کی ہے۔ اس کے نظریے کے پس منظر میں‘ ک یس ک استحص لی رویہ‘ جمہوریت کے خوش نم لب س میں جمہوریت ک من ی طرزعمل‘ مس وات کے پردے میں توہین آدمیت جیسے قبیع ف ل تھے۔ م وکیت اور سرم یہ دارانہ جمہوریت کے خالف اس نے ن رہ ب ند کی ۔ اقب ل کو اس ک درس مس وات اور اس ک محنت کشوں سے ہمدردی ک رویہ‘ پسند آی ۔ اقب ل نے اس کے اس رویے کو پسند کی ہے لیکن اسے اس کی م دہ پرستی اور م دہ پسندی خوش نہیں آتی۔ جو بھی سہی‘ م رکس کی مغربی تہذی پر ضر ‘ اقب ل کو اچھی لگی۔ اقب ل نے مسیولینی سے بھی مالق ت کی۔ وہ اس کی شخصیت سے مت ثر ہوئے۔ اس کی شخصیت میں ت ثیر تھی۔ اس عہد کے مش ہیر ع ل اس کی دل آویز شخصیت کے مداح تھے۔ اقب ل کو اس ک نظ و ضبط پسند آی ۔ اس ذیل میں اقب ل ک یہ ش ر مالحظہ ہو۔ 19
فیض یہ کس کی نظر ک ہے‘ کرامت کس کی ہے وہ کہ ہے جس کی نگہ مثل ش ع آفت جرمن ش عر گوئٹے کے فکری رویے سے بھی اقب ل نے اثرات قبول کیے۔ اس کے دیوان کے جوا میں ۔۔۔۔ پی مشر ۔۔۔۔۔ وجود میں آئی۔ ڈاکٹر اقب ل‘ ہیگل کے نظری ت کو روح سے خ لی قرار دیت ہے۔ اقب ل کے خی ل میں اگر ہیگل کے نظری ت میں اسالمی روح ک رفرم ہوتی تو وہ بالشبہ انس نی سرفرازی کے لیے مث ل ہوتے۔ اقب ل برگس ں کے نظریہء زم ن سے بھی اثر لیتے ہیں۔ برگس ں کے نزدیک‘ زندگی تغیر اور تخ ی ہے۔ زندگی کے جن پہ وؤں میں تق ید اور ثب ت نظر آت ہے وہ ں زندگی موج بےت نہیں۔ اقب ل کے نزیک بھی زندگی متحرک اور تغیر پذیر ہے۔ اور ہر لمحہ تخ یقی مراحل سے گزرتی ہے۔ ان کے نزدیک چ تے رہن زندگی‘ ج کہ ٹھہرن موت ہے۔ برگس ں نے زم ن و مکآن میں وجود کی حیثیت محض جب ی قرار دی ہے۔ اقب ل کے خی ل میں‘ زم ن عمل تخی سے پیدا ہوت ہے‘ ایک غیر متواتر حرکت‘ تغیر پر مبنی 20
ہے۔ س س ہءروز وش نقش گر ح دث ت س س ہءروز وش اصل حی ت و مم ت ایک دوسری جگہ کہتے ہیں فری نظر ہے سکون و ثب ت تڑپت ہے ہر زرہء ک ئن ت ٹھہرت نہیں ک روان وجود کہ ہر لحظہ ہے ت زہ ش ن وجود اقب ل کسی ایک منزل پر ٹھہر ج نے کے ق ئل نہیں ہیں۔ وہ متحرک زندگی کو زندگی م نتے ہیں۔ جوں جوں خودی ارتق کی من زل طے کرے گی زم نہ تخ ی ہوت چال ج ئے گ ۔ کہتے ہیں۔ ست روں سے آگے جہ ں اور بھی ہیں ابھی عش کے امتح ں اور بھی ہیں اسی روز و ش میں الجھ کر نہ رہ ج کہ تیرے زم ن و مک ں اور بھی ہیں 21
قن عت نہ کر ع ل رنگ و بو پر چمن اور بھی آشی ں اور بھی ہیں اقب ل ش رائے مغر کی ش ریت سے بھی مت ثر تھے۔ ورڈزورتھ کی فطرت نگ ری‘ انھیں پسند تھی۔ اقب ل نے اس ک رنگ اپنی نظموں میں اختی ر کی ۔ نظ ۔۔۔۔ ایک ش ۔۔۔۔۔ سے بطور نمونہ دو ش ر مالحظہ ہوں۔ خ موش ہے چ ندنی قمر کی ش خیں ہیں خموش ہر شجر کی وادی کے نوا فروش خ موش کہس ر کے سبزپوش خ موش شی ے اور کیٹس کی رنگین مزاجی اور ٹی ایس کولرج ک زندگی سے گ ہ شکوہ بھی‘ اسے اچھ لگت ہے۔ اقب ل کے ہ ں حسن‘ عش اور محبت جہ ں نئے نئے رنگ لیے ہوئے ہیں‘ تو وہ ں روایت ک دامن بھی نہیں چھوڑتے۔ شی ے اجزائے ع ل کی ب ہمی وابستگی کو محبت سے ت بیر کرت ہے اور محبت کے بغیر ک ئن ت ک وجود ن ممکن خی ل کرت ہے۔ 22
شیشہء دہر میں م ند ہے ن
ہے عش
روح خورشید ہے خون رگ مہت
ہے عش
اقب ل کی حسن سے لطف اندوزی ک ذو مالحظہ ہو۔ ہوئی ہے رنگ تغیر سے ج سے نمود اس کی وہی حسین ہے حقیقت زوال ہے جس کی اقب ل شیکسپیئر کے ل و لہجہ سے بھی مت ثر ہے اور اسے ان ال ظ میں خراج عقیدت پیش کرت ہے۔ تجھ کو ج دیدہءدیدار ط ت
نے ڈھونڈا
خورشید میں خورشید کو پنہ ں دیکھ
چش ع ل سے تو ہستی رہی مستور تری اور ع ل کو تری آنکھ نے عری ں دیکھ ح ظ اسرار ک فطرت کو ہے سودا ایس رازداں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایس اقب ل نے برصغیر میں رہتے ہوئے‘ مغر کو سنی سن ئی سے جوالئی کے حوالہ سے‘ ج ن پہچ ن ۔ ستمبر تک‘ وہ مغر میں قی پذیر رہے۔ اس عرصہ میں‘ 23
انھوں نے مخت ف م کرین سے مالق ت کی‘ انھیں پڑھ ۔ مغر کے سم جی ح قوں اور اداروں سے ت رکھ ۔ لوگوں کو اور ان کے رہن سہن کو‘ اپنی آنکھوں سے دیکھ ۔ مغر کے م شی نظ ک مش ہدہ کی ۔ مغر کی سی ست ک تنقیدی زاویوں سے مط ل ہ کی ۔ مغر کے ت یمی نظ ک مش ہدہ کی ۔ گوی س اپنی آنکھوں سے دیکھ ۔ ان تم امور سے‘ جو من ی ی مثبت اثرات لیے‘ ان کے اثرات ان کی ش عری میں نظر آتے ہیں۔ اس مضمون کی تی ری میں درج ذیل کت سے م ونت ح صل کی گئی۔ نیرنگ خی ل‘ الہور‘ اقب ل نمبر‘ شم رہ ستمبر‘ اکتوبر‘ - مق اقب ل‘ اش دکن
حسین‘ ادارہ اش عت اردو‘ حیدرآب د -
مق الت اقب ل‘ مرتبہ انٹر ک لجیٹ مس برادرزہڈ‘ قومی - کت خ نہ‘ الہور‘ اقب ل ک مل‘ عبداال ندوی‘ مطبع م رف‘ اعظ گڑھ‘ - 24
اقب لی ت ک تنقیدی ج ئزہ‘ احمد می ں ق ضی جون گڑھی‘ - اقب ل اک دمی‘ الہور‘ اقب ل ک تنقیدی مط ل ہ‘ اے جی نی زی‘ عشرت پب شنگ - ہ ؤس‘ الہور‘ تصورات اقب ل ج ‘ -مولوی صالح الدین احمد‘ مقبول - پب ی کیشنز‘ الہور‘ مط ل ہءاقب ل کے چند نئے رخ‘ ڈاکٹر سید محمد عبدهللا‘ - بز اقب ل‘ الہور‘ اقب ل اور ثق فت‘ ڈاکٹر مظ ر حسن‘ اقب ل اک دمی‘ الہور‘ - ڈاکٹر محمد اقب ل‘ ک ی ت اقب ل -اردو‘ المس پب یشرز‘ - کراچی ‘
25
اقب ل ک ف س ہءخودی اقب ل نے زندگی‘ ک ئن ت‘ مظ ہر‘ مرئی‘ غیر مرئی‘ ازل‘ ابد غرض ہر شے اور ذی روح کو‘ خودی کی عینک سے دیکھ ہے۔ جہ ں خودی ک عنصر غ ل دیکھتے ہیں اسے پرتحسین نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک وجود کی آزادی اور بق خودی کی مرہون منت ہے۔ جہ ں کہیں اس میں کجی‘ ک زوری اور غیرمتوازن عن صر دیکھتے ہیں‘ خودی کو الزا دیتے ہیں۔ وہ تم ارتق ئی مراحل کے بنی دی تحرک میں‘ خودی کی ک رفرم ئی ک عمل دخل قرار دیتے ہیں۔ اقب ل کے ف س ہءخودی کے پس منظر میں س ت امور ک رفرم نظر آتے ہیں۔ ۔ شخص کی بےقدری‘ بےچ رگی اور بےبسی ۔ شخص کی فکری اور عم ی غالمی ۔ ط قت ور طبقوں کی جیریت اور استحص لی حی ے اور حربے ۔ جبریت اور استحص ل کے خالف بےبسی‘ چپ‘ من ی ی ک زور‘ بےج ن اور بےنتیجہ ردعمل 26
۔ ف س ہءوحدت الوجود ۔ نٹشے ک فو البشر ۔ ژاں پ ل س رتر ک ف س ہءتکمیل وجود مغر کی بڑھتی ہوئی صن تی ترقی کے ب عث‘ ک زور طبقوں ک وجود د توڑ رہ تھ ۔ ان کی فکری‘ م شی اور سم جی حیثیت‘ زوال ک شک ر تھی۔ ج تک فرد کی ذات کو استحق میسر نہ آت ‘ استحص ل کی جم ہ صورتیں اور کی یتیں خت نہیں ہو سکتی تھیں۔ فرد میں ج تک اپنے ہونے ک احس س‘ وجود ح صل نہ کرت اور اس ہونے کو ارتق ئی راہ نہ م تی‘ ک زور طبقے متحرک زندگی کی طرف لوٹ نہیں سکتے تھے۔ انس ن غظی تخ ی ہونے کے تصور سے‘ دور ہی رہت ۔۔ توازن کی راہ بند رہتی۔ اج م ہرین ن سی ت‘ شخصیت ک جو م ہو بی ن کرتے ہیں‘ خودی کے متوازی نظر آت ہے۔ خودی درحقیقت‘ ذات کی است دادی صالحیتوں کے واضح کرنے ک ن ہے۔ گوی خودی سے آگہی‘ اپنی ذات سے آگہی ک ن ہے۔ اس کی نشوونم کرن ‘ اپنی شخصیت کی نشوونم کرنے کے مترادف ہے۔ ہم رے ہ ں‘ صوفی کرا خودی کو 27
تکبر اور تمکنت کے م نوں میں لیتے آئے ہیں۔ تکبر‘ خودی کی ‘ ذات کو اس کی حدود سے نک ل ب ہر کرت ہے۔ اس کی مجوذہ است داد ک ر کی‘ غ رت گری ک ب عث بنت ہے۔ خودی کی س دہ ت ریف یہی ہو سکتی ہے‘ ایک ک و کو م و ہون چ ہیے کہ میں ایک ک و ہوں اور ایک ک و سے کی کچھ‘ اور کتن ہو سکت ہے۔ اگر وہ خود کو ک سمجھے گ ‘ تو اس کی خودی ک زوال ہوگ ۔ المح لہ اس سے اس کی است داد ک ر مت ثر ہو گی اور مح صل کو نقص ن پہنچے گ ۔ ورتھ میں کمی آ ج ئے گی۔ حیثیت سے کمتر ہون ی ٹھہرن خودی ک نقص ن ہے۔ تج ویز فرعونیت کو جن دے گ ۔ شخص کی بےحرمتی اور اشی ک غ ط است م ل دیکھ کر اقب ل کچھ زی دہ ہی جذب تی ہو گیے۔ ذرا یہ ش ر مالحظہ ہو خودی کو کر ب ند اتن کہ ہر تقدیر سے پہ ے خدا بندے سے خود پوچھے بت تری رض کی ہے یہ ش ر تج وز کے عن صر لیے ہوئے ہے فرعونیت کے دروازے کھولت ہے اور شرک کی راہیں ہموار کرت ہے۔ ہم رے ہ ں صوفی کرا نے خودی کو تکبر م نوں میں لی 28
ہے۔ اقب ل نے اس عمومی م ہو کی ن ی کرتے ہوئے اسرار خودی کے دیب چہ میں کہ ہے۔ یہ ل ظ بم نی غرور است م ل نہیں کی گی ۔ جیس کہ ع طور پر یہ اردو میں مست مل ہے۔ اس ک م ہو محض احس س ن س ی ت ین ذات ہے۔ یہ وحدت وجدانی ی ش ور ک روشن نقطہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ پراسرار شے جو فطرت انس نی کی شیرازہ بند ہے۔ مولوی صالح الدین احمد خودی کی وض حت کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ہم را م ی ر ہم ری اپنی نگ ہ میں اتن اونچ ہون چ ہیے کہ خود اپنی نظروں سے گر ج نے ک خوف ہمیں ذلیل حرکت پر آم دہ ہونے سے بروقت روک سکے۔ 29
سید وحیدالدین فقیر ک اس ذیل میں کہن ہے۔ ان ایک ن ق بل تغیر ی ن ق بل تقسی جوہر ہے اور یہی روح ہے۔ ہم را ش وری تجربہ ایک وحدت ہے اقب ل کے نزدیک خودی ج مد اور ٹھہری ہوئی چیز نہیں ہے۔ یہ ارتق پزیر ہے اور اس کی ح ظت اور است دادی قوت المحدود ہے۔ اس کی دسترس میں موجود اور غیر موجود اشی اور غیر اشی ہیں۔ سید وحیدالدین فقیر کہتے ہیں۔ ش وری تجربے کے سوا خودی تک رس ئی کسی دوسرے واسطے نہیں ہو سکتی۔ انس ن ک ئن ت ک جز ہوتے ہوئے بھی‘ ک ئن ت کی خودی کو اپنے اندر جذ کرنے کی صالحیت رکھت ہے اور اس کی خودی میں زمین و آسم ن و کرسی و عرش خودی کی زد میں س ری خدائی خودی کی من زل تسخیر زم ن و مک ن پر ہی خت نہیں ہو 30
ج تیں ب کہ جہد عمل اسے سوا a fine excess کی منزل تک لے ج تی ہے۔ قن عت نہ کر ع ل رنگ و بو پر چمن اور بھی آشی ں اور بھی ہیں تو ش ہین ہے پرواز ہے ک تیرا تیرے س منے آسم ن اور بھی ہیں اسی روز وش میں الجھ کر نہ رہ ج کہ تیرے زم ن و مک ں اور بھی ہیں ی نی جو پیش نظر اور زیر تصرف ہے وہی س کچھ نہیں۔ ک ئن ت میں اور بہت کچھ ہے جسے تالشن اور تصرف میں الن مقصود ہے۔ گوی شخص کو ہمہ وقت کھوج و تالش میں رہن ہے اور کھوج و تالش ک س ر ج رک ج ئے گ خودی اس سے مت ثر ہو گی۔ خودی ک مت ثر ہون زوال کی دلیل ہے۔ خودی‘ ی نی میں ہوں‘ شخصیت میں فقر ک جوہر پیدا کرتی 31
ہے تو ہی شخص اس کی ضر ک ری ث بت ہوتی ہے۔ اس سے تسخیر وحکومت ک عنصر پیدا ہوت ہے۔ چڑھتی ہے ج فقر کی س ن پر تیغ خودی ایک سپ ہی کی ضر کرتی ہے ک رسپ ہ گوی اس سے اس ک وجود استحق ح صل کرت ہے۔ یہ ن صرف اس کے ہونے کی دلیل ہوگی ب کہ دوسرے اس کے وجود کو تس ی کریں گے اور سر بہ خ کریں گے۔ شکست خوردگی‘ ان کی خودی کی کمزوری پر داللت کرے گی۔ دست سوال دراز کرن اقب ل کے نزدیک خودی ک قتل ہے۔۔۔ پ نی پ نی کر گئی مجھ کو ق ندر کی یہ ب ت تو جھک ج غیر کے آگے تو تن تیرا رہ نہ من اقب ل کے نزیک ہر قو کی خودی ہوتی ہے۔ اگر اس قو کی خودی کو ض ف آئے گ تو وہ قو کمزور پڑ ج ئے گی۔ عالمہ ابن خ دون ک نظریہءعصبت اس کے قری تر ہے۔ ب ض جگہوں پر خودی اس سے عب رت نظر آتی ہےم دہ اپنی خودی کی بن پر فن ہو ج ت ہے۔ ج وہ انس نی 32
خودی کی زد میں آت ہے پ ش پ ش ہو ج ت ہے۔ م دہ خودی کے ابتدائی درجوں ک عکس ہے۔ ج روح اورم دہ میل ی عمل اور ردعمل ایک خ ص درجے پر پہنچ ج ت ہے تو ایک ب ند ش ور پیدا ہو ج ت ہے۔ ب ند ش ور ہی وہ قوت ہے جو ک ئن ت میں توازن پیدا کرت ہے۔ اسی کے د سے تصرف کے در وا ہوتے ہیں۔ اقب ل ک تصور ک چر ایک شخض کی خودی سے پوری قو پورے خطہ کی مج سی اور اجتم عی خودی سے منس ک ہے۔ اسی طرح اقب ل‘ جم ہ فنون لطی ہ میں بھی خودی کی ک رفرم ئی ضروری خی ل کرت ہے۔ فنون لطی ہ میں خودی جتنے عروج پر ہو گی ک چر بھی اتنے عروج پر ہو گ ۔ آرٹ کی جن شک وں میں ض ف ک شک ر ہوگی زندگی کی قوت عمل بھی اسی تن س سے ریورس کے عمل میں داخل ہوگی۔ اقب ل ع و فن ک مقصد آگہی قرار نہیں دیت ب کہ یہ انہیں ح ظ خودی کے لیے من جم ہ اسب اور آالت کے سب اور ایک آلہ سمجھت ہے۔ اقب ل نے فرد‘ ک ئن ت‘ حی ت‘ سم ج‘ م شرت‘ سی ست‘ م یشت‘ غرض ہر چیز کو خودی کے پیم نے پر رکھ ہے۔ 33
فرد کی ض یف خودی پورے م شرتی ڈھ نچے کو نقص ن پہنچ تی ہے۔ اسی طرح فرد کے خصوصی اور عمومی روے افراد کی خودی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر اکثریت م ی ری افراد کی ہو گی تو ن صرف سم ج ب قی رہے گ ب کہ غیرم ی ری افراد بھی اس میں جذ ہو کر وجود برقرار رکھیں گے ت ہ ان کی ان رادی خودی ب قی نہ رہے گی۔ اقب ل کی زب ن میں مالحظہ ہو ہر فرد ہے م ت کے مقدر ک ست رہ خودی درحقیقت زم ن و مک ن میں تبدی ی التی ہے۔ خودی کے حوالہ سے ہون استحق ح صل کرت ہے پہ ے سے موجود میں تغیر التی ہے۔ تسخیر و تصرف کے دروازے کھولتی ہے۔ ترمی وتنسیخ ک عمل ج ری رہت ہے۔ موجود کی است دادی قوت بڑھتی ہے۔ الموجود پر دسترس ح صل ہو کر اسے تجسی میسر آتی ہے۔ 34
اقب ل ک کہن ہے یہ ک ئن ت ابھی ن تم ہے ش ید کہ آ رہی ہے دم د صدائے کن فیکون اقب ل ک ف س ہءخودی‘ درحقیت شخص کی پوزیش مضبوط کرت ہے۔ اسے ن صرف میں ہوں‘ ک احس س دالت ہے ب کہ اس کو مضبوطی سے سرفراز کرکے جھپٹنے اور پ ٹنے کے گر سیکھ ت ہے۔ اکتوبر
-
35
مط ل ہءاقب ل کے چند م خذ
است د غ ل اور ڈاکٹر اقب ل‘ اردو کے دو ایسے ش عر ہیں‘ جن پر بڑا ک ہوا ہے۔ غ لبی ت اور اقب لی ت دو الگ سے‘ ش بے بن گئے ہیں۔ گوی انھیں مضمون ک درجہ ح صل ہوگی ہے۔ ان پر اتن زی دہ ک ہو ج نے کے ب وجود‘ مزید ک کے دروازے ابھی تک کھ ے ہوئے ہیں۔ ان پر ہونے والے ک کی نوعیت و حیثیت ک ابھی تک ج ئزہ کرن ‘ ب قی ہے۔ جم ہ م خذ کی ج مع اور اپنی نوعیت کی جمع بندی ک ک بھی ابھی ب قی ہے۔ اس ذیل میں کسی م خذ کو م مولی سمجھ کر‘ نظرانداز کرن زی دتی کے مترادف ہوگ ۔ میں یہ ں چند ایک مص در کی نش ن دہی کر رہ ہوں۔ یہ فہرست بھی‘ بیس س ل سے زی دہ پرانی ہے۔ ہو سکت ہے‘ اقب ل پر ک کرنے والوں کے لیے‘ یہ مص در کسی ن کسی سطع پر ک کے نک یں۔ ا۔ اقب ل‘ ڈاکٹر ب نگ درا شیخ غال ع ی اینڈ سنز‘ الہور 36
۔ اقب ل‘ ڈاکٹر ب ل جبریل شیخ غال ع ی اینڈ سنز‘ الہور ۔اقب ل‘ ڈاکٹر ضر ک ی شیخ غال ع ی اینڈ سنز‘ الہور ۔اقب ل‘ ڈاکٹر ارمغ ن حج ز احسن برادر‘ ان ر ک ی‘ الہور ۔اقب ل‘ ڈاکٹر ب قی ت اقب ل آئنہءاد ‘ ان ر ک ی‘ الہور ۔ابوال یث صدیقی‘ ڈاکٹر آج ک اردو اد ‘ قصر کت ‘ کراچی ۔احمد می ں اختر‘ ق ضی اقب لی ت ک تنقیدی ج ئزہ اقب ل اک دمی پ کست ن الہور ۔ انور سدید‘ ڈاکٹر اقب ل کے کالسیکی نقوش اقب ل اک دمی‘ پ کست ن‘ الہور ۔ اس و احمد انص ری‘ پروفیسر اقب ل کی تیرہ نظمیں مج س ترقی اد ‘ الہور ۔این میری شمل مترج ڈاکٹر محمد ری ض‘ شہپر اقب ل‘ گ و پب یشرز‘ الہور 37
۔اس انص ری اقب ل عہد آفرین ک روان اد ‘ م ت ن صدر ۔اکبر ع ی سید‘ ایڈووکیٹ اقب ل اس کی ش عری اور پیغ ‘ اقب ل اک دمی‘ پ کست ن‘ الہور ۔افتخ ر حسین ش ہ‘ سید اقب ل اور پیروی شب ی‘ سنگ میل پب یشرز‘ الہور‘ ۔اکبر حسین‘ ڈاکٹر‘ مط ل ہءت میح ت واش رات اقب ل اقب ل اک دمی‘ پ کست ن‘ الہور ۔ایس اے رحمن‘ جسٹس‘ اقب ل اور سوش ز ادارہ ثق فت اسالمیہ‘ الہور ۔احمد ندی ق سمی ‘ یونس ج وید ادارت‘ صحی ہءاقب ل مج س ترقی اد ‘ الہور ۔ ت ثیر‘ ڈاکٹر اقب ل ک فکر و فن یونیورسل بکس‘ اردو ب زار الہور ۔ج بر ع ی سید اقب ل ک فنی ارتق بز اقب ل‘ ک الہور
روڑ‘
۔جگن ن تھ آزاد اقب ل اور اس ک عہد االد ‘ ان ر ک ی‘ 38
الہور حمید احمد خ ں‘ پروفیسر اقب ل شخصیت اور ش عری بز اقب ل‘ ک روڑ‘ الہور ۔حمید رض صدیقی‘ اجمل صدیقی اقب ل جدوجہد آزادی؛ ک روان اد ‘ م ت ن صدر ۔ خ لد س ید بٹ‘ ڈاکٹر اقب ل ک نظریہءثق فت ادارہء ثق فت‘ پ کست ن ۔ رئیس احمد ج ری اقب ل اور عش رسول شیخ غال ع ی اینڈ سنز‘ الہور ۔ رئیس احمد ج ری اقب ل اپنے آءینے میں کت کشمیری ب زار‘ الہور
منزل‘
۔ رشید احمد‘ ف رو احمد مرتبین پ کست نی اد ‘ فیڈرل گورنمنٹ سرسید ک لج‘ رآولپنڈی‘ ۔ رشید احمد صدیقی‘ پروفیسر اقب ل شخصیت اور ش عری‘ اقب ل اک دمی‘ الہور س ی اختر‘ ڈاکٹر اقب لی ت کے نقوش اقب ل اک دمی‘ پ کست 39
ن ۔ س ی اختر‘ ڈاکٹر اقب ل شن سی کے زاویے بز اقب ل‘ الہور ۔ س ی اختر‘ ڈاکٹر اقب ل اور ہم رے فکری رویے سنگ میل پب یشرز‘ الہور ۔ س ی اختر‘ ڈاکٹر اقب ل ش ع صد رنگ سنگ میل پب یشرز‘ الہور ۔ س ی اختر‘ ڈاکٹر اقب ل ممدوح ع ل بز اقب ل‘ الہور ۔ س ید احمد رفی اقب ل ک نظریہءاقب ل ادارہ ثق فت اسالمیہ‘ الہور ۔ سج د ب قر رضوی‘ سید تہذی و اخال مکتبہ اد جدید ۔ شورش ک شمیری‘ آغ اقب ل پی مبر انقال فیروز سنز ۔ ش ہد حسین رزاقی مق الت حکی ادارہ ثق فت اسالمیہ‘ الہور 40
۔ شمی م ک‘ ڈاکٹر اقب ل کی قومی ش عری مقبول اکیڈمی‘ الہور ۔ ص لح‘ ابو محمد قرآن اور اقب ل سنگ میل پب شرز‘ ھ الہور ۔ صالح الدین احمد‘ موالن تصورات اقب ل ادبی دنی ‘ الہور ۔ عزیز احمد اقب ل اور پ کست نی اد مکتبہ ع لیہ‘ الہور ۔ عزیز احمد اقب ل اور نئی تشکیل گ و پب شرز‘ الہور ۔ عب دت بری وی‘ ڈاکٹر اقب ل احوال و افک ر مکتبہ ع لیہ الہور ۔ عب دت بری وی‘ ڈاکٹر جدید ش عری انجمن ترقی اردو پ کست ن ۔ عب دت بری وی‘ ڈاکٹر غزل اور مط ل ہءغزل انجمن ترقی اردو پ کست ن ۔ عبدهللا‘ سید‘ ڈاکٹر اش رات تنقید مکتبہ خی ب ن‘ الہور‘ 41
۔ عبدهللا‘ سید‘ ڈاکٹر مط ل ہء اقب ل کے چند نئے رخ بز اقب ل‘ الہور‘ ۔ عبدهللا‘ سید‘ ڈاکٹر مس ئل اقب ل مغربی پ کست ن اردو اکیڈمی‘ الہور ۔ ع بد ع ی ع بد‘ سید‘ ش ر اقب ل بز اقب ل الہور‘ ۔ عبدالوحد‘ سید نقش اقب ل آئینہ‘ الہور ۔ عبد الحکی ‘ خ ی ہ‘ ڈاکٹر فکر اقب ل بز اقب ل الہور ۔ عبدالرحمن ط ر اش رات اقب ل کت ب زار‘ الہور
منزل‘ کشمیری
عبدالرحمن ط ر جوہر اقب ل شیخ غال ع ی اینڈ سنز‘ الہور ۔ عبدالمجید م لک ذکر اقب ل بز اقب ل‘ الہور عبدهللا قریشی آئینہءاقب ل آئینہءاد ‘ الہور 42
۔ عبدالرشید ف ضل‘ کوک ش دانی اقب ل اسرارورموز اقب ل اک دمی پ کست ن ۔ عبدالحمید اقب ل بحیثیت م کر پ کست ن منظور ع کت خ نہ‘ پش ور ۔ عبدالصمد خ ں‘ میر خوشح ل و اقب ل منظور ع کت خ نہ‘ پش ور ۔ عبدالح ‘ مولوی مرت اقب ل دان ئے راز انجمن ترقی اردو پ کست ن ۔ غال مصط ے خ ں‘ ڈاکٹر اقب ل اور قرآن اقب ل اک دمی‘ الہور ۔ غال عمر‘ ڈاکٹر اقب ل ک ک مل انس ن مکتبہ ع لیہ‘ الہور ۔ غال احمد پرویز اقب ل اور قرآن ادارہ ط وع اسال ‘ کراچی ۔ فتح محمد م ک اقب ل فکر و عمل بز اقب ل‘ الہور ۔ محمد فرم ن‘ پروفیسر اقب ل اور تصوف بز اقب ل‘ الہور 43
۔ محمد حنیف ش ہد م کر پ کست ن سنگ میل پب یشرز‘ الہور ۔ مظ ر حسن م ک‘ ڈاکٹر اقب ل اور ثق فت اقب ل اک دمی‘ الہور ۔ محمد منور‘ پروفیسر برہ ن اقب ل اقب ل اک دمی پ کست ن ۔ محمد منور‘ پروفیسر میزان اقب ل اقب ل اقب ل اک دمی پ کست ن ۔ محمد ح مد افک ر اقب ل اقب ل اقب ل اک دمی پ کست ن ۔ محمد یوسف حسرت ک ید اقب ل اقب ل اک دمی پ کست ن ۔م ین الرحمن‘ ڈاکٹر مرت اقب لی ت ک مط ل ہ اقب ل اقب ل اک دمی پ کست ن ۔ منہ ج الدین‘ ڈاکٹر اقب ل و تصورات اقب ل ک روان اد م ت ن صدر ۔ محمد احمد صدیقی اقب ل ت یمی نظری ت آل پ کست ن 44
ایجوکیشنل ک ن رنس کراچی ۔ مہر‘ غال رسول‘ مرت سرود رفتہ شیخ غال ع ی اینڈ سنز‘ الہور ۔ محبو ع ی زیدی‘ سید اقب ل ح اہل بیت شیخ غال ع ی اینڈ سنز‘ الہور ۔ محمد ظریف‘ ق ضی اقب ل قرآن کی روشنی میں کت منزل‘ الہور ۔ میزا ادی مط ل ہءاقب ل کے چند پہ و بز اقب ل‘ الہور ۔ محمد ع ی‘ شیخ نظریہ و افک ر اقب ل نیشنل ف ؤنذیشن ۔ محمد ری ض‘ ڈاکٹر اف دات اقب ل ت ج بک ڈپو‘ الہور ۔ محمد ش ہ‘ سید مرت اقب ل پر ایک نظر اقب ل اکیڈمی‘ الہور ۔ م ک حسن اختر‘ ڈاکٹر اقب ل‘ ایک تحقیقی مط ل ہ یونیورسل بکس‘ الہور ۔ محمد رفیع الدین حکمت اقب ل ع می کت خ نہ‘ الہور 45
۔ محمد رفیع الدین ہ شمی‘ سید اقب ل کی طویل نظمیں گ و پب یشرز‘ الہور ۔ مقصود حسنی کال اقب ل روزن مہ وف ‘ الہور
نومبر
۔ مقصودحسنی مس م ن اقب ل کی نظر میں روزن مہ وف ‘ الہور م رچ ۔ مقصودحسنی اقب ل اور تحریک آزادی روزن مہ وف ‘ الہور -اپریل ۔ مقصود حسنی اقب ل کے کال میں دعوت آزادی روزن مہ وف ‘ الہور -اکتوبر ۔ مقصود حسنی اقب ل اور تسخیر ک ئن ت کی فالس ی روزن مہ وف ‘ الہور -فروری ۔ مقصود حسنی اقب ل ک نظریہءقومیت روزن مہ وف ‘ الہور -جوالئی ۔ مقصود حسنی اقب ل اور ربط م ت کی اصطالح روزن مہ مشر ‘ الہور -جنوری ۔ مقصود حسنی اقب ل کے سی سی م شی اور اخالقی 46
نظری ت‘ م ہن مہ تحریریں‘ الہور‘ اپریل ۔ مقصود حسنی اقب ل لندن میں اردو نیٹ ج پ ن‘ انجمن ۔ نصیر احمد ن صر‘ ڈاکٹر اقب ل اور جم لی ت اقب ل اک دمی پ کست ن ۔ نذیر احمد اقب ل کے صن ئع بدائع آئینہءاد ‘ الہور ۔ نذیر نی زی‘ سید دان ئے راز اقب ل اک دمی پ کست ن ۔ وحید قریشی‘ ڈاکٹر اقب ل اقب ل اک دمی پ کست ن ۔ وحید قریشی‘ ڈاکٹر مرت منتخ مق الت‘ اقب ل ریوریو اقب ل اک دمی پ کست ن ۔ وزیر آغ ‘ ڈاکٹر تصورات عش وخرد اقب ل اک دمی پ کست ن ۔ وزیر آغ ‘ ڈاکٹر اردو ش عری ک مزا مکتبہ ع لیہ‘ الہور ۔ وزیر آغ ‘ ڈاکٹر روح تنقید اد عشرت پب یشنگ ہ ؤس‘ الہور 47
۔ وزیر آغ ‘ ڈاکٹر مط ل ہءاقب ل بز اقب ل‘ الہور ۔ وق ر عظی ‘ سید‘ پروفیسر اقب ل ش عر اور ف س ی تصنی ت ۔ واجد رضوی دان ئے راز مقبول اکیڈمی‘ الہور 102. The work of Mohammad Iqbal Edited by: Abdur Rauf , People's publishing house, Lahore, 1983 103. A message from the east By: M. Hadi Hussain, Iqbal Ac. Pak. Lahore, 1977 104. Iqbal-- a critical study By: Mesba-ul-Haq, Farhan Publishers, Lahore, 1976 105. About Iqbal and his thought, By; M.M. Sharif, Inst. of Islamic Culture, lahore, 1976 106. Iqbal the great poet of Islam By: Shah Abdul Qadir, Sung-e-meal publications, Lahore, 1987 107. Iqbal and Quranic Wisdom by: Mohammad Munawar, Islamic Books Foundation 1981 48
108. Some Aspects of Iqbal's thought, By Aasif Iqbal, Islamic Books Service, Lahore 109. Poetry of Iqbal, By: Sir Zulifqar Ali, Aziz Publishers, Lahore, 1972 110. Iqbal the Universal Poet, By: Dr. A. D. Taseer, Munoib Publishers, Lahore, !977 رس ئل افش ں‘ مج ہ گورنمنٹ دی ل سنگھ ک لج‘ الہور‘ اقب ل نمبر جنوری افک ر م ‘ م ہ ن مہ‘ الہور اقب ل نمبر نومبر اورا ‘ سہ م ہی اقب ل نمبر م ہ نو‘ م ہ ن مہ‘ الہور‘ نومبر مواخذہ‘م ہ ن مہ الہور‘ اقب ل نمبر نومبر نیرنگ خی ل م ہ ن مہ ستمبر اکتوبر 49
اخب رات ستمبر
روزن مہ آفت الہور ‘ ،نومبر
‘
روزن مہ امروز الہور
فروری
روزن مہ جنگ الہور
نومبر
روزن مہ جہ ں نم الہور ‘ روزن مہ مشر الہور
‘ ‘ ‘ ‘
‘
‘
‘
نومبر
نومبر
نومبر
روزن مہ نوائے وقت الہور
نومبر
روزن مہ مشر الہور
نومبر
روزن مہ وف الہور نومبر ‘ دسمبر
ستمبر‘ ‘
غیر مطبوعہ مض مین‘ مقصود حسنی
‘
‘
‘
50
۔ اقب ل کی نظ میں اور تو کے حواشی ۔ اقب ل ک نظریہءم ش و م شرت ۔ اقب ل اور غزالی کی فکر ک تق ب ی مط ل ہ ۔ مط ل ہءش ر اقب ل کے حوالہ سے چند م روض ت ۔ اقب ل اور مغربی م کرین ۔ اقب ل کی یورپ روانگی سے پہ ے کے احوال ۔اقب ل ک ف سفءعش ۔ اقب ل ک ف س ہءخودی ۔نظ ط وع اسال ایک ج ئزہ
51
ف س ہ خودی‘ اس کے حدود اور ڈاکٹر اقب ل خودی‘ است دادی قوت ک ن ہے‘ جو کسی چیز ی ذی روح وغیرہ سے مخصوص کر دی گئی ہوتی ہے۔ ت ہ یہ اض فہ پذیر ہے۔ اسی طرح اس میں کمی بھی آتی رہتی ہے۔ اس میں اض فہ ی کمی کی بھی‘ حدود مخصوص ہوتی ہیں۔ کمی‘ اض فے کی راہ لے سکتی ہےاور اض فہ زوال ک رستہ اختی ر کر سکت ہے۔ اض فے اور کمی کی صورت میں‘ اس کی است داد ک ر میں فر آ ج ت ہے۔ یہ است داد ک ر ہی فرد واحد‘ قوموں یہ ں تک‘ کہ پوری انس نی زندگی برادری کی موجودہ صورت ح ل کو تبدیل کر سکتی ہے۔ ک ئن ت کی کوئی شے‘ ایک دوسرے سے غیرمت نہیں۔ ایک ک کی ‘ دوسرے اور دوسرے سے دوسروں کو مت ثر کرت ہے۔ ی اس میں دوسروں کو مت ثر کرنے کی صالحیت موجود ہوتی ہے۔ اس میں اض فے کی بہت سی صورتیں موجود ہوتی ہیں ی ہو سکتی ہیں۔ کسی ح جت‘ ضرورت‘ م د ی غرض کے تحت‘ دو ی - 52
دو سے زائد افراد ایک پ یٹ ف ر بن سکتے ہیں۔ یہ اجتم ع وقتی ی دیرپ بھی ہو سکت ہے۔ ک ز‘ کسی بھی نوعیت ک ہو‘ اس کے زیر اثر لوگوں ک - ب ہمی انسالک ممکن ہوت ہے۔ اس کے لیے افراد اکٹھے کر لیے ج تے ہیں ی ہو ج تے ہیں۔ ردعم ی صورتیں بھی شخص کو‘ شخص کے قری لے - آتی ہیں۔ ۔ ہنر متحرک زندگی ک بڑا اہ عنصر ہے۔ ا۔ایک ہنر سے مت ہیں ی آ سکتے ہیں۔
شخص ایک دوسرے کے قری رہتے
۔ مق ب ہ ب زی راہ پ تی ہے۔ ج۔ سیکھنے والے میدان میں اترتے ہیں۔ د۔اس ہنر کے ضرورت مند ان سے رابطہ میں رہتے ہیں۔ مذہ اور نظریہ‘ بڑے مضبوط عن صر ہیں۔ یہ اشح ص - کے اتح د ک ذری ہ بننے میں ک یدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ۔ رنگ‘ نسل عالقہ اور زب ن‘ انس نی زندگی میں بڑی اہمیت کے ح مل ہیں۔ جہ ں ان کے حوالہ سے عصبیت جن 53
لیتی ہے‘ وہ ں ب ہمی ت
اور رابطہ بھی جگہ پ ت ہے۔
۔ سی سی‘ فالحی اور سم جی گروپ تشکیل پ تے رہتے ہیں۔ یہ شخص کو‘ بہت سے حوالوں سے‘ دوسرے اشخ س سے پیوست کرتے ہیں۔ قبی ہ اور قو ‘ شخص کو شخص سے نتھی رکھتے - ہیں۔ ۔ مزاجوں میں م تی مم ث تیں شخصی قربت ک سب بنتی ہیں۔ ۔ ہ مزاج اور ہ خی ل ہونے کی وجہ سے‘ چ ہے ان کی صورت وقتی اورلمح تی ہی کیوں نہ ہو‘ شخص ک شخص سے‘ ارتب ط پیدا کرتی ہیں۔ ۔ دو غیر جنس بھی ہ رک
چل سکتےہیں۔
۔ ہ عمری بھی اس ذیل میں بڑا م تبرذری ہ ہے۔ سم جی رس و رواج او ہ شغ ی اس ضمن میں بڑا - اہ ذری ہ ہے۔ درج ب ال سطور میں چند ایک ک ذکر کی گی ہے ورنہ اس کی بہت سی صورتیں موجود ہیں۔ یہ ں تک کہ ب ہمی 54
اختالف ت کو بھی نظر انداذ نہیں کی ج سکت ۔ ان تم صورتوں میں آگہی‘ اعتم د‘ حوص ہ‘ کچھ کرنے ک جذبہ‘ ہنر‘ تجربہ‘ ع دات‘ اطوار اور کسی دوسرے کی شخصیت میں پوشیدہ خ ص جوہر اور کم ل‘ جو وہ است م ل میں نہیں ال رہ ہوت ‘ ہ تھ لگتے ہیں۔ ان عن صر سے شخصی خودی کو توان ئی میسر آتی ہے اور شخص ک وجود استحق پکڑت ہے۔ اس میں‘ میں ہوں‘ کو تقویت میسر آتی ہے۔ ب لکل اسی طرح‘ خودی زوال ک شک ر بھی ہوتی ہے۔ اس کی بہت سی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ان میں تنہ ئی س سے مہ ک ہے۔ وہ خود الگ تھ گ ہو ج ت ہے۔ سوس ئٹی اس کو الگ تھ گ کر دیتی ہے۔ کوئی بھی صورت ہو سکتی ہے۔ خودی زوال ک شک ر ہو ی ترقی کی من زل طے کر رہی ہو‘ ص ر پر نہیں آتی۔ یہ بھی کہ وہ المحدود نہیں ہوتی۔ فرش‘ عرش‘ کرسی غرض س کچھ اس زد ی دسترس میں آ ج ئے‘ تو بھی اسے المحدود نہیں کہ ج سکت ‘ کیونکہ پوری ک ئن ت حددوں میں ہے۔ ج اسے المحدود ہونے ک گم ن گزرت ہے‘ ن بود ہو ج تی ہے۔ نمرود فرعون اور 55
سکندر کو یہی گم ن گزرا‘ تو ہی ہالکت سے دوچ ر ہوئے‘ کیوں کہ ک ئن ت المحدود نہیں۔ دوسرا فن ک عنصر‘ ہر کسی سے منس ک ہے۔ المحدود صرف اور صرف هللا کی ذات گرامی ہے‘ جس ک فن کے س تھ ت نہیں۔ فن اس کی تخ ی کردہ ہے۔ خودی کے المحدود ہونے کے لیے دو رستے ہیں۔ میں ہوں کو المحدود کے ت بع کر دے۔ اس ذیل میں بالل اور عمر بن عبدال زیز کو بطور مث ل لی ج سکت ہے۔ وہ عم ی طور پر اپن مستحک وجود رکھتے تھے میں ہوں کو خت کرکے‘ المحدود میں مدغ کر دے۔ منصور اور سرمد‘ اس کی بہترین مث لیں ہیں۔ یہ دونوں‘ عم ی طور پر‘ موجود کی ح جت سے ب التر تھے۔ س ری ک ئن ت کی خودی مجتمع ہو ج ئے‘ تو بھی وہ المحدود نہیں ہو پ تی۔ انس ن هللا کی اشرف اور احسن مخ و ہے۔ ک ئن ت میں موجود ہر شے اور ذی روح کی خودی‘ اس کے برابر نہیں اور یہ ان کی گرفت سے ب ہر ہے۔ اس کی سوچ کے ح قے‘ ک ئن ت کے حوالہ سے المحدود ہیں۔ یہ کی کر ڈالے ی کروٹ لے‘ کوئی نہیں ج ن پ ت ۔ یہ س کچھ ہو کر بھی‘ مخصوص حدوں میں ہے۔ 56
منصور اور سرمد سے لوگوں کو اس میں نہ رکھیے۔ اسی طرح‘ اس محتر خ تون کو بھی الگ رکھیے‘ جسے خ وند اور اپنی اوالد کی شہ دت کی فکر نہیں۔ اس کی خودی‘ نبوت سے منس ک تھی۔ نبوت هللا سے منس ک تھی۔ اگر اس کی خودی ک ئن ت کے دائرہ میں ہوتی‘ تو اسے خ وند‘ بچوں کے س تھ س تھ نبی کی بھی چنت ہوتی۔ اس سطع کی تخصیص کی صورت نہ ہوتی۔ یہ بھی کہ جب ی اور ممت کے حوالہ سے‘ وہ س سے پہ ے اپنے بچوں ک پوچھتی۔ اس کے ب د خ وند اور اس ذیل میں تس ی پ کر نبی ک پوچھتی۔ بیٹوں کی شہ دت ک سن کر‘ اپنے آپے میں نہ رہتی۔ آج اگر بیٹوں کی عید پر قرب نی ک حک ی سنت موجود ہوتی‘ تو سچ یہی ہے‘ میرے سمیت‘ کوئی مس م ن ہی نہ ہوت ۔ زب نی کالمی کہہ دین اور ب ت ہے‘ اس کہے پر عمل کرن اس سے قط ی الگ ب ت ہے۔ اس حوالہ غور کی ج ئے تو‘ خودی ک ایک دائرہ اور ح قہ مخصوص و محدود ہو ج ت ہے۔ اقب ل ک یہ ش ر‘ بڑا واضح ہے اور اس میں کوئی عالمت اور است رہ موجود نہیں۔ خودی کو کر ب ند اتن کہ ہر تقدیر سے پہ ے 57
خدا بندے سے خود پوچھے‘ بت تیری رض کی ہے خودی کو کر ب ند اتن کہ ہر تقدیر سے پہ ے خدا بندے سے خود پوچھے بت تیری رض کی ہے اس ش ر کی ت ہی کی ذلیل میں یہ عن صر پیش نظر رکھیں۔ خدا خ ل اور بندہ مخ و ہے۔ - ۔ دونوں ہ مرتبہ اور ہ جنس نہیں ہیں۔ دونوں کی آگہی کی سطع ایک نہیں۔ - ۔ بندے ک ع عط ئی ہے۔ خدا ک ع ذاتی ہے۔ خدا ق ئ بذات ہے۔ بندہ ق ئ بذات نہیں۔ - خدا ہر حوالہ سے بےنی ز ہے۔ - 58
بندے ک ذاتی کچھ نہیں‘ جو ہے خدا ک دی ہوا ہے۔ خدا - کے پ س جو کچھ ہے‘ بالشرک غیرے اس ک اپن ہے۔ خدا کو اس کی حدوں کے حوالہ سے کوئی نئیں ج نت - اور ن ہی ج ننے کی بس ط رکھت ہے۔ اس کے برعکس‘ خدا بندے کو‘ اس سے کہیں زی دہ ج نت ہے۔۔ کسی ک ر ک ‘ کتن عوض نہ کتن بنت ہے‘ وہ کرنے والے - سے‘ کہیں بہتر اور زی دہ ج نت ہے۔ وہ دینے کے حوالہ سے‘ محت ج اور زیردست نہیں۔ - وہ فضل واال ہے اور توقع سے زائد دے سکت ہے۔ - توقع سے زائد دی بالشبہ فضل هللا ہے۔ وہ عط کے م م ہ میں‘ بخیل نہیں‘ غنی ہے۔ - انس ن کی مرضی‘ خدا کی مرضی کے م تحت ہے۔ خدا - کی مرضی‘ انس ن کی مرضی کے م تحت نہیں۔ ڈاکٹر اقب ل ک یہ ش ر‘ شرک سے لبریز ہے اور میں ہوں‘ کو اج گر کرتے کرتے‘ فرعونیت کی طرف لے ج ت ہے۔ فرعون بھی یہی گم ن رکھت تھ ‘ اپنی اس کج فہمی کی وجہ سے‘ ہالکت سے دوچ ر ہوا۔ ایک ع آدمی کی ‘ نبی 59
رسول بھی‘ اس طرح کی سوچ‘ نہیں سوچ سکت ۔ وہ اپنی مرضی ت بع رکھنے اور ازن پر سربہ خ کرنے‘ کی صورت میں ہی‘ نبی ہے۔ بندہ بھی‘ ت بندہ ہے‘ ج وہ خدا کی مرضی کو ہی‘ حرف آخر‘ دل و دل و ج ن سے ج نت ہے۔ ڈاکٹر اقب ل ک ایک اور ش ر ہے۔ عبث ہے شکوہءتقدیر یزداں تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے خودی کی سرب ندی کے حوالہ سے‘ یہ ش ر پہ ے ش ر سے قربت رکھ ہے۔ میں ن ہیں سبھ توں‘ کے حوالہ سے‘ یہ درست ہے۔ ڈاکٹر اقب ل اس نظریہ کے ق ئل نیہں ہیں اس لیے‘ اس پر‘ میں ہوں ک اطال ہوت ہے۔ خودی کے ت بع ہونے کی صورت میں‘ یزداں کی مرضی ک ت بع ہے۔ کیس ‘ کس طرح اور کتن طے کرنے ک ح ‘ یزداں کے پ س ہی رہت ہے۔ یہ ش ر اس م ہو کی طرف لے ج ت ہے کہ یزداں تقدیر ک م م ہ اپنی نہیں‘ اس کی مرضی اور ایم پر طے کرے۔ ڈاکٹر اقب ل یہ ش ر بھی مالحظہ فرم ئیں‘ کھال آمریت ک پرچ ر ہے۔ 60
نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ اسم ن کے لیے جہ ں ہے تیرے لیے تو نہیں جہ ں کے لیے ہر چیز‘ دوسری سے‘ فطری طور پر‘ وابستہ اور - انحص ر کرتی ہے۔ یہ تو یزداں کو مک ف و مق د کرن ہے۔ - اس سے‘ خود غرضی ک پہ و س منے آت ہے۔ - خدمت میں‘ عظمت پوشیدہ ہے۔ - لو س ‘ دو کچھ نہ‘ میں خودداری کی موت ہے اور یہ - مومن ک طور اور وتیرہ ہو ہی نہیں سکت ۔ آپ کری سے بڑھ کر کون ہو سکت ہے۔ آپ کری س کے لیے تھے۔
-
دے کر ہی ح صل ہوت ہے۔ - دینے میں جو لطف پوشیدہ ہے‘ وہ لینے میں نہیں۔ - ا جہ ں ہے تیرے لیے - تو نہیں جہ ں کے لیے 61
جہ ں خدمت گزار ہو -اس سے خدمت لین تیرا ح ہے۔ خدمت تیرے فرائض میں نہیں‘ سے زی دہ غیر م قول کوئی ب ت نہیں ہو گی۔ اقب ل کے ف س ہءخودی میں‘ س رتر اور نٹشے کے‘ قد لیت نظر آت ہے۔ یہ بھی کہ وہ تذبذ ک شک ر ہیں۔ کوئی ب ت‘ اس وقت تک ب اثر نہیں ہوتی‘ ج تک کہنے واال ع مل نہ ہو۔ اس ذیل کی زندگی ک دی نت دارانہ مط ل ہ ضروری ٹھہرت ہے۔ ع م کرا ‘ تحریر تقریر میں‘ ڈاکٹر اقب ل ک حوا لہ دینے سے پہ ے‘ ان کے کہے پر غور فرا لی کریں۔ یہ انداز درست نہیں‘ چونکہ یہ ب ت ڈاکٹر اقب ل کی کہی ہوئی ہے‘ اس لیے غ ط نہیں ہو سکتی ی اس میں خ می ہو ہی نہیں سکتی۔
62
االد آور اقب ل فہمی ایک شخص کی بہتر ک رگزاری‘ ایک کنبہ ی قبی ہ کی ‘ پورے عالقہ کی شہرت ک سب بنتی ہے۔ مت قہ عہد تک موقوف نہیں‘ آتی نس یں بھی اس پر فخر محسوس کرتی ہیں۔ لوگ کسی ن کسی حوالہ سے‘ اس سے اپنے ت ک جواز تالشتے ہیں۔ ت نہ نک نے کی صورت میں؛ ہ عالقہ‘ ہ زب ن ی ہ وطن ہونے ک س بقہ کسی سطع پر نظر انداز نہیں کرتے۔ اس میں سرفرازی ہی نہیں‘ شن خت بھی میسر آتی ہے اور یہ کوئ ایسی م مولی ب ت بھی نہیں۔ اقب ل شر و غر میں ب ند اور جدا فکری حوالہ سے شہرا رکھت ہے۔ اس کی فکر و زب ں پر ہزاروں ص ح ت تحریر ہو چکے ہیں۔ ج م ت میں اقب لی ت سے مت ش بہ ج ت ق ء ہو چکے ہیں۔ محقیقن اقب ل پر تحقیقی ک کرکے ڈگری ں ح صل کر رہے ہیں۔ انجمن اسالمیہ قصور کے ایک اجالس میں اقب ل تشریف ال چکے ہیں اور یہ انجمن کے لیے بڑے اعزاز کی ب ت تھی۔ اسالمیہ ک لج قصور اور اسالمیہ ہ ئ اسکول قصور‘ انجمن 63
سے مت رہے ہیں‘ المح لہ یہ ب ت‘ ہر دو اداروں کےلیے بھی‘ اعزاز کی ب ت ہے۔ اسالمیہ ک لج قصور کو یہ بھی فخر ح صل ہے‘ کہ اس نے اپنے پرچے االد کے ذری ے‘ اقب ل سےمت مض مین ش ءع کیے ہیں۔ یہ اطراف میں بڑے اعزاز اور فخر کی ب ت ہے۔ ک لج کے موجودہ سربراہ پروفیسر راؤ اختر ع ی‘ اقب الت میں خصوصی توجہ رکھتے ہیں۔ وہ اس ذیل میں مخت ف نوعیت کےکے پروگرا کراتے رہتے ہیں۔ شم رہ لیے‘ ان کی ہدایت پر‘ راق نے ایک تحریر پیش کی ہے۔ االد میں اقب ل پر مواد تو چھپ ہی ہے‘ ڈاکٹر سید محمد عبدهللا‘ ڈآکٹر نصیر احمد ن صر‘ ڈاکتر عبدالسال خورشید‘ ڈاکٹر تبس ک شمیری‘ داکٹر غال شبیر ران ‘ ارش د احمد حق نی‘ عشرت رحم نی‘ شریف کنج ہی ایسے ل ظ شن س لوگوں کی اقب ل کے حوالہ سے ک وش ہ ‘ کی اش عت ک بھی االد کو اعزاز ح صل ہے۔ ان کے انمول ل ظ‘ یقین حوالہ ک درجہ رکھتے ہیں۔ اگ ے ص ح ت میں‘ االد میں اقب ل پر ش ءع ہونے والی تحریروں کی ت صیل پیش کی گئ ہے۔ عالمہ سر محمد اقب ل -فی ض احمد - 64
اقب ل ک ف س ہء خودی -شوکت ع ی - ست روں سے آگے -م راج الدین احمد - اقب ل ک مرد ک مل -ای مبشر احمد - اقب ل اور فطرت -محبت ع ی - فکر اقب ل اور عورت -ش کر انج -
-
اقب ل اور مس ہءخودی -شیخ محمود احمد - عالمہ اقب ل کے حضور ح ضری کے چند مواقع -ڈاکٹر سید عبدهللا - اقب ل ک ف س ہ عقل و عش -خورشید خواجہ - اقب ل اور مس ہءجبروقدر -سمیہ اشرف گورا - اقب ل ک ف سفءخودی -ح مد نواز - اقب ل اور م شی ت -محمد ش یع - اقب ل ک تصور ش ہین -رضیہ ران -
-
اقب ل اور نظریہء م وکیت و اشتراکیت -محمد ح مد نواز - 65
اقب ل اور فنون لطی ہ -محمد اکرا ہوشی رپوری - -
اقب ل دور ح ضر ک عظی م کر -رض هللا ط ل
اقب ل کے صوفی نہ تصورات -محمد اکرا ہوشی رپوری - عالمہ اقب ل اور محمد ع ی جوہر -ڈاکٹر سید محمد عبدهللا - فرد اور م ت اقب ل کی نظر میں -ڈاکٹر نصیر احمد ن صر - زم نہ ب تو نہ س ز و تو بہ زم نہ ستیز -ش ی الرحمن ہ شمی - مس قومیت اور نظریہءپ کست ن -ڈااکٹر عبدالسال خورشید - -
اقب ل اور قومی ثق فت -ڈاکٹر تبس ک شمیری - اقب ل اور قومی تہذی ک تح ظ -ارش د احمد حق نی - اقب ل اور تصور آزادی -عشرت رحم نی -
66
اقب ل ک ف س ہءت ی -عبدالغ ر نظمی - اقب ل اور پنج
-شریف کنج ہی -
-
اقب ل کی فکری تشکیل اور موالن رو -اختر ع ی میرٹھی -
اقب ل ک نظرءسی ست -محمد جہ نگیر - اقب ل ک تصور اقتص دی ت -حنیف اس -
-
اقب ل اور عقل وعش ع الدین غ زی -
-
عالمہ اقب ل ایک اسالمی ش عر -محمد یسین -
-
اقب ل ت میر نو ک ع مبردار -صغری انص ری -
-
اقب ل کے م شی و ق نونی تصورات -اسم ء جبین - اقب ل ایک نظر میں -ط ہرہ اکرا -
-
اقب ل اور نظریہء خودی -ن ی محمود - حکی االمت ک مشن -محمود احمد -
-
اقب ل م صرین کی نظر میں -اکرا ہوشی رپوری - 67
عالمہ اقب ل اور کردار س زی -عبدالزا انص ری - -
اقب ل اور ف ہءخودی -شوکت ع ی -
فکر اقب ل میں یقین کی اہمیت -ڈاکٹر غال شبر ران - -
اقب ل اور االد -ڈاکٹر عط لرحمن میو - اقب ل اور آج ک نوجوان -راشد مقصود اقب ل قومی ش عر -جنیدالرحمن -
-
68
کچھ اور مض مین مقصود حسنی کال اقب ل روزن مہ وف ‘ الہور نومبر مقصودحسنی مس م ن اقب ل کی نظر میں روزن مہ وف ‘الہور م رچ مقصودحسنی اقب ل اور تحریک آزادی روزن مہ وف ‘ الہور اپریلوف ‘ الہور
-اکتوبر
مقصود حسنی اقب ل اور تسخیر ک ئن ت کی فالس ی روزن مہ وف ‘ الہور فروری69
مقصود حسنی اقب ل ک نظریہءقومیت روزن مہ وف ‘ الہور جوالئیمقصود حسنی اقب ل اور ربط م ت کی اصطالح روزن مہ مشر ‘ الہور جنوری۔ مقصود حسنی اقب ل کے سی سی م شی اور اخالقی نظری ت‘ م ہن مہ تحریریں‘ الہور‘ اپریل اقب ل لندن میں http://www.bazm.urduanjuman.com/index.p hp?topic=8322.0
70
مکر بندہ حسنی ص ح :سال مسنون آپ ک مضمون نہ یت شو سے پڑھ ۔ آپ نے عالمہ اقب ل کی زندگی کے ایک ایسے پہ و کو واضح کی ہے جس کے مت بہت ک لوگوں کو ع تھ ۔ مجھ کو یہ تو م و تھ کہ وہ لندن گئے تھے لیکن وہ ں ان کی سرگرمیوں ک ت صیل سے ع نہیں تھ ۔ اسی طرح اور دوست بھی ہوں گے جو اس مق لہ سے مست ید ہوئے ہوں گے۔ آپ کی مہرب نی ک دلی شکریہ۔ یہ اور اسی طرح کے س س ے ج ری رکھین۔ هللا کرے زور ق اور زی دہ۔ سرور ع ل راز
71
72
73