سدی گھتل ایک حمیمت ایک افسانہ
ممصود حسنی ابوزر برلی کتب خانہ ستمبر ٢٠١٦
سدی گھتل اچھوں کے گھر برے اور بروں کے گھر اچھے‘ جنم لیتے آئے ہیں۔ اسی طرح بدترین لوگوں کے گھر بہترین لوگ پرورش پاتے رہے ہیں۔ اس لیے‘ کسی اچھے کے گھر برا یا بدترین جنم لے لیتا ہے‘ تو اس پر اس اچھے کو برا نہیں کہا جا سکتا۔ اس کا اچھا ہونا‘ بہرصورت اپنی جگہ لائم رہتا ہے۔ برے کے گھر اچھا جنم لے لیتا ہے‘ تو وہ برا اچھا نہیں ہو جاتا۔ فرعون‘ بہرصورت فرعون ہی رہتا ہے۔ بابا جی لبلہ سید علی احمد کے‘ اچھا ہونے میں کوئی شک نہیں۔ وہ اپنوں اور پرائیوں کے کام آتے تھے۔ ہر کسی کو‘ نیکی اور رزق حالل کمانے اور کھانے کا‘ درس دیا کرتے تھے۔ ہللا کریم نے انہیں مال اوالد سے بھی خوب نوازا تھا۔ مال غریبوں میں تمسیم کرتے‘ فرحت محسوس کرتے تھے۔
ضرورت مند کے گھر جا کر‘ اس کی حاجت پوری کرتے تھے۔ شکریہ ادا کرنے والے کو منع کرتے اور فرماتے‘ میرا کیا ہے‘ سب ہللا کا ہے اور میں کون سا پلے سے دے رہا ہوں۔ ہللا کے دیے میں سے دے رہا ہوں۔ ہللا نے انہیں چار بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا۔ ان کی دونوں بیباں پردہ کی تھیں۔ وہ خود تبلیغی اور تدریسی کاموں میں مصروف رہتے۔ زمین اور دیگر مالی امور‘ ان کا خادم بااعتماد اکو فمیر انجام دیتا تھا۔ اس کی بیوی ففےکٹن تھی‘ لیکن مائی صاحبہ کی خدمت گزار بھی تھی۔ بابا صاحب کے بچے کم سنی میں ہی تھے کہ بابا صاحب حك ہو گیے۔ جب تک اکو فمیر زندہ رہا‘ معاملہ درست چلتا رہا‘ ہر دو بیبیون کو‘ کسی لسم کی دلت کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ کتنی اور کیا کمائی ہے‘ انہیں اس سے غرض نہ تھی‘ بس روٹی چل رہی ہے‘ یہ ہی کافی تھا۔ اکو فمیر کے مرنے کے بعد‘ یہ گزرے کی زندگی فالوں میں بدل گئی۔ اکو فمیر کا بڑا بیٹا مینا فمیر‘ اپنی ماں کے لدموں پر تھا۔ اس نے گزرہ کا رزق بھی بند کر دیا۔ بیباں پردہ دار تھیں
اور بچے چھوٹے تھے۔ چپ اور صبر کے سوا‘ بھال کیا کر سکتی تھیں۔ چھوٹی بی بی نے مجبورا وطن چھوڑ دیا۔ بڑی بی بی چند دن چلیں اور پھر وہ بھی حك ہو گئیں۔ برے دن ہللا کسی کو نہ دکھائے۔ بابا صاحب کے ایک شاگرد عالم دین تھے‘ کچھ دن انہوں نے بچوں کو سمبھاال دیا۔ پھر وہ بھی نہ رہے۔ مینے فمیر کے سبب‘ پہلے بےگھر پھر یہ تینوں بےوطن ہوئے۔ ولت ٹھہرنے والی چیز نہیں‘ دوسرا یہ شخص پر‘ ایک سا نہیں رہتا۔ زندگی بدلتے موسموں پر استوار ہے۔ تینوں بچے تھے‘ پھر خود بچوں والے ہو گئے۔ تکبر اور مال و دولت کا نشہ‘ مینے فمیر کو لے بیٹھا۔ اس سے لتل ہو گیا۔ جو کچھ تھا‘ عدالت کچری کھا گئی۔ جیل سے چھوٹ تو گیا‘ لیکن دماغی توازن کھو بیٹھا۔ لوہے کے سنگل سے باندھا گیا۔ اس کی بالی عمر اسی حال میں گزری۔ خیال رکھنا تو دور کی بات اسے کوئی گھڑے سے پانی پالنے واال بالی نہ رہا۔ اس نے پردہ دار اور باحیا بیبیوں اور ان کے بچوں کو‘ خجل خوار کیا۔ خود بھی خجل خواری اور ذلت کی موت مرا۔ ہاں البتہ فمیر سے گیالنی سید اور بابا
صاحب لبلہ سید علی احمد کی نسل لرار پا گیا۔ کھیواں کی دوسری اوالد بھی آج گیالنی سید کہالتی ہے۔ مینے فمیر کےدوسرے بھائی کے بیٹے‘ پھندی فمیر نے بابا صاحب کا شجرہ چرایا‘ بابا صاحب کی اصل اوالد کو‘ اس میں سے فارغ کر دیا۔ اپنے ابا کی اوالد اور اپنے بچوں تک کو‘ اس میں شامل کر دیا۔ یہ شجرہ منطوم تھا۔ شاعر ہونا تو بڑی دور کی بات وہ تو معمولی پڑھا لکھا بھی نہ تھا۔ اس جرم میں ناجانے کون ناہنجار شاعر شامل تھا۔ ہللا اسے اس بددیانتی کے حوالہ سے ضرور پوچھے گا۔ مزے کی بات یہ کہ آخر میں ملکیت کے دعوے کے ساتھ‘ کسی دوسرے کو‘ اشاعت کی ممانعت بھی کر دی۔ وہ شاعر یہ بھول گیا کہ آتا کل اسلوبی فرق سے اصل اور الحالی کی پہچان کر لے گا۔ لدرت خدا دیکھیے‘ بابا صاحب کے اپنے ہاتھ کا لکھا شجرہ ان کے سب سے چھوٹے بیٹے کو مل گیا۔ ان کا چھوٹا بیٹا صاحب علم اور خود پنجابی شاعر تھا۔ پھندی مردود‘ اپنی اصل میں رلیاں کی ناجائز اوالد تھا۔ اس
کے سردار کرتار سنگھ سے‘ دیرینہ تعلمات چلے آتے تھے۔ آج پھندی مردود کا مزار ہے اور اس کا بیٹا مزار کا مجاور ہے۔ یہ سالوں پہلے کی بات ہے کہ عمیدت کے مارے لوگ نہیں جانتے کہ یہ کیا‘ اس کے باپ دادا تک سید نہیں‘ پھندی مردو سکھ کی نسل سے ہے اور سکھوں میں سادات ہوتے ہی نہیں ہیں۔ سادات آل رسول سے ہیں۔ اکبرا فمیر اور اس کی اوالد بابا صاحب کے کچھ بھی نہ تھے۔ ان کا طرز عمل ایک طرف رہا۔ بابا صاحب کا پوتا جفرا چکری بھی ان سے کسی طرح کم نہ رہا۔ اس نے بھی جدی پشتی عزت و ولار کا ستیاناس مار کر رکھ دیا۔ اسے عشك کے لیے دور کے عاللے کی ایک ڈومنی ملی۔ پھر وہ ڈومینی پرست اس کے عاللے میں ہی جا بسا۔ اس ڈومنی کے بہین بھائی شاہ ہو گئے۔ اصل مثل تو یہ تھی پہلے ساں نیم جوالہے پھر بنے درزی روڑ کھڑ کے سید ہوئے اگے بےبے دی مرضی
یہاں معاملہ الٹ ہو گیا۔ جفرا چکری کے حوالہ سے ڈوم سید ہو گئے۔ اس سے اگلی بات نالابل فہم ہے۔ بی بی ڈومنی‘ جفرا چکری کی زوجہ ماجدہ جفرے چکری کی چچازاد کا رشتہ اپنے بھائی شفیے کے لیے لے آئی۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ وہ رشتہ کس طرح لے آئی۔ جالی کا باپ یعنی بابا صاحب کا بیٹا‘ ذات کے معاملہ میں بڑا ہی کٹر تھا۔ عشك اس لیے نہیں کہا جا سکتا کہ جفرے چکری کا ان کے ہاں آنا جانا ہی نہ تھا۔ جفرے چکری کا باپ اور اس کا بھائی یعنی جالی کا باپ ان لوگوں کو سحت ناپسند کرتے تھے۔ جالی اس ولت بارہ سال کی تھی جب کہ شفیا تنتالیس سال کا تھا۔ خیر رشتہ ہو گیا‘ اگر ان میں سے کوئی زندہ ہوتا یا ان کی اوالد میں سے بالی ہوتا تو یہ مسلہ ضرور حل کر دیتا۔ آج ان کے پوتوں کے بچے بھی عمر کے آخری موسم میں ہیں۔
بابا صاحب کے سب چھوٹے بیٹے کا سب بڑا بیٹا جھورا مردود عاشموں کا آئی جی نکال۔ اس کے دائرہ استعمال میں کئی ایک سوہنیاں رہتیں۔ اکلوتا تھا‘ الرڈ پیار میں پال۔ مائی باپ نے میٹرک تک پڑھایا۔ اس دور میں یہ بہت بڑی بات تھی۔ پورے عاللے میں صرف ایک اور میٹرک تھا۔ باپ نے ضلعےدار بھرتی کروایا‘ عاللائی چھوکریوں کے لیے نوکری چھوڑ دی۔ ریلوے میں نوکری دلوائی‘ وہاں سے بھی آ گیا۔ فوج میں خود ہی بھرتی ہوا۔ خود ہی یہ پتا نہیں کس طرح چھوڑ کر آ گیا۔ بعدازاں اس کے باپ نے اسے سنٹرل بینک میں مالزمت دلوا دی۔ یہاں ٹک گیا۔ جھورے مردود کے مائی باپ‘ بچوں سمیت گاؤں باہمنی واال میں رہتے تھے اور یہ ان کے مکان میں موج مستی کر رہا تھا۔ مکان چوں کہ شہر میں تھا اس لیے انہوں اپنے چھوٹے بیٹے بوبے کو پڑھائی کے لیے اس کے پاس چھوڑ دیا۔ اسے تو موج مستی سے ہی فرصت نہ تھی اس لیے بھائی پر توجہ کیا دیتا۔ اسے اس نے کاما بنا کر رکھا ہوا تھا۔
دریں اثنا ریلوے اسٹیشن پر رولتی کھلتی ایک آوارہ عورت مل گئی۔ وہ اسے موج مستی کے لیے گھر لے آیا۔ بوبے‘ جس کے بھائی کے ساتھ سونے کھانے پینے کے دن تھے بیٹھک میں تنہا کر دیا گیا۔ صبح کام پر جاتے ہوئے باہر تاال لگا جاتا اور بوبا گلیاں کھچتا۔ جب جھورا مردود گھر آتا تاال کھولتا تو بوبا بھی گھر آ جاتا۔ لوکائی سے سیفٹی کے لیے چارپائی کے نیچے ایک بڑا کھڈا کھودا۔ اس میں صندوق رکھا۔ بی بی رولتو جلدی سے اس میں گھس جاتی۔ پلس چھاپا ُپڑنے کو تھا کہ اتفاق سے یا خبر ہو جانے کے سبب‘ اس کے مائی باپ گاؤں سے شہر آئے۔ ایک چابی ان کے پاس بھی تھی۔ کھسر پھسر کی آوازیں سن کر بی بی رلتو جلدی سے صندوق میں داخل ہو گئی۔ چھومی نے چوں کہ دیکھ لیا تھا‘ اس نے ابا اماں کو خبر کر دی۔ اسے باہر نکال لیا گیا۔ سارا ماجرا دریافت کر لیا گیا۔ سدی اور نچھو اس ولت بہت چھوٹے تھے۔ عزت بچانے کے لیے انھوں نے مشہور کر دیا کہ پرسوں جھورے کی بارات جانی ہے۔ علیا جھورے مردود کا لنگوٹیا تھا جب کہ شفیا جھولی چک۔ صبح ہوتے ہی علیا
لوگوں کو جھورے کی بارات پر جانے کی دعوت دینے کے لیے روانہ ہو گیا جب کہ شفیا گھر کا سامان باندھنے میں مصروف ہو گیا۔ صبح سویرے رولتو بی بی کو دلہن بنایا گیا۔ باندھا ہوا سامان اور رولتو بی بی کو اسٹیشن پر پنچا دیا گیا۔ دن چڑھا تو گھر والے اور محلے کے لوگوں کو ساتھ لے کر دلہن کو اسٹیشن سے الیا گیا۔ پہلے خاوند سے طالق لیے بغیر جھورے مردود نے رولتو بی بی کو بیوی بنا لیا۔ اگلے دن رشتہ دار آ گئے جھورا علیے پر حسب پروگرام برس پڑا کہ بارات تو کل تھی تو نے غلط اطالع کیوں دی۔ جھورے کے باپ نے گاؤں کا مکان وغیرہ چھوڑ دیا اور شہر آ بسے۔ انہیں سخت مایوسی ہوئی۔ وہ تو سوچ رہے تھے بھائی کی نگرانی میں بوبا پڑھ جائے گا۔ اس کے بعد سدی اور نچھو بھی تعلیم حاصل کر لیں گے۔ جھورا خود ہی جانا چاہتا تھا باپ نے دبی زبان میں ہی کہا اور وہ گھر چھوڑ کر چال گیا۔ کئی دن گھر میں سوگ کی سی کیفیت رہی۔ زندگی اپنی روانی میں آ گئی۔ جھورا اب اپنی الگ سے زندگی گزارنے لگا۔ اس نے معافی تالفی کے بارے
میں سوچنا تک گوارا نہ کیا۔ طرفین میں کسی لسم کا رابطہ بالی نہ رہا۔ ایک دن کسی نے خبر دی کہ جھورا علیے کے ہاں آتا جاتا ہے۔ علیا تجاں اگ النی کو گھر لے آیا تھا۔ تجاں خاوند کے گھر سے لڑ کر نکلی تھی علیے کے ہتھے چڑھ گئی۔ کچھ دن خود استعمال کرتا رہا۔ اس کی بیوی جھگڑا کرتی۔ علیے نے اسے چالنا شروع کر دیا۔ اس کا روزگار بن گیا۔ پھر اس نے یک مشت مال حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ جھورے کے ذوق و شوق سے خوب آگاہ تھا۔ جھورا پہلے محض ٹیسٹ بدلتا تھا پھر کچھ رلم ادا کرکے گھر لے گیا۔ بی بی رولتو کو بتایا یہ اس کے لیے نوکرانی الیا ہے۔ طالق اب کہ بھی نہ لی گئی۔ جھورے کا والد اصل معاملہ جاننے کے لیے اس کے پیچھے پہنچ گیا۔ بات کنفرم ہو گئی تو وہ اس کے گھر سے باہر ہی واپس لوٹ آئے۔ رولتو کم کوس تھی۔ تجاں اگ النی نے اس کی خوب خدمت کی تو اسے باطور بیوی تسلیم کر لیا گیا۔ تجاں اگ النی کے بطن سے ایک لڑکا پیدا ہوا۔ ابھی
وہ کم سن ہی تھا کہ وہ کسی کے ساتھ نکل گئی۔ بچہ روڑی کی نذر کر دیا۔ وہ وہاں ہی سسکتا بلکتا جان بحك ہو گیا۔ جھورا مردود تالش میں نکل کھڑا ہوا۔ آخر تالش لی گئی۔ اسے بچے کے دکھ سے زیادہ تجاں کے مل جانے کی خوشی ہوئی۔ اصل میں وہ مرد کی جنسی تسکین کے گر خوب خوب جانتی تھی۔ کسی کے ساتھ نکل جانا اس کے لیے ایسی کوئی بڑی انوکھی اور شرمناک بات نہ تھی۔ کنواری ہوتے بھی یہ کارنامہ انجام دے چکی تھی۔ آدمی مرتا مر مر جاتا ہے لیکن فطرت بن گئی عادتیں اور جوانی کے پڑے شوق مشکل سے ہی جاتے ہیں۔ تجاں اگ النی ہر دوسرے جنسی ٹیست بدلنے والی تھی‘ جھورے کے کم زور پڑنے سے اس کا ڈنگ اور بھی تیز ہو گیا۔ جھورا کچا شنگرف کھا بیٹھا جو اسے موت تک لے گیا۔ زندگی ابھی بالی تھی‘ عالج معالجے سے بہتر ہو گیا۔ اس کے بعد اس نے شنگرف کو ہاتھ تک نہ لگایا‘ ہاں البتہ دوسری داوؤں سے کام نکالنے لگا۔ ان ہی دنوں علیے نے تجاں اگ النی کے بمیہ پیسے مانگنا
شروع کر دیے۔ بار بار کے اصرار کے باوجود جب بمیہ رلم نہ ملی تو اس نے عاللے کے ممبر کاظمی صاحب کے ڈیرے پر پنچائت بال لی۔ کافی لے دے ہوئی‘ آخر نیاں دینا پڑا۔ ہاں البتہ رلم چوگنی ادا کرنا پڑی۔ نچھو کا رشتہ اپنی بہن کے لڑکے تھیلے دو نمبری کے لیے جالی کے ساتھ شفیا کم کوس آ دھمکا۔ ان کے ابا اڑ گیے۔ کنبہ کےتمام لوگ آ گئے۔ سب نے اس کی بڑھ چڑھ کر مخالفت کی۔ ان کے ابا خوش تھے کہ معاملہ حل ہو جائے گا۔ طے یہ پایا کہ بوبا صبح کی نماز کے بعد جو فیصلہ دے گا اس پر عمل کیا جائے گا۔ جالی اس دور کی آٹھ جماعت پڑھی ہو کر بھی اپنے خاوند شفیے کم کوس کی باتوں میں آ گئی۔ سب جانتے ہوئے‘ ڈومنی سوچ سے کام لیا۔ باپ کے خاندان کا برا بھال سوچنے کے زحمت ہی نہ اٹھائی۔ شفیے کے ساتھ رہتے ہوئے خود غرض ہو گئی تھی۔ خیر کسی کو کیلنا تھیلے دو نمبری کے دائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ شفیا بھال کس کھیت کی مولی تھا۔ ابھی اندھیرا ہی تھا کہ جھورا مردود آ دھمکا اور اعالن کر
دیا کہ ہم نے رشتہ دیا۔ وہ یہ کہہ کر کھسک گیا۔ سب پر پریشانی کا لہر ٹوٹ پڑا۔ شفیے اور جالی کی چاندی ہو گئی۔ اصل یہ ہوا کہ تجاں اگ النی نے ہی جھورے کو اعالن کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس طرح شفیا اور جالی خوش ہو جاتے اور یہ کچھ دینے سے بچ جاتے۔ انہیں شائد معلوم نہ تھا کہ مائی صاحبہ نے جہیز تو تیار کر لیا تھا۔ پہلے جفرے کے ناعالبت اندیش عشك کے سبب جالی ڈوموں میں گئی اور اب نچھو جھورے مردود کے عشك کی بھینٹ چڑھ گئی غیر طالق یافتہ اور غیر منکوحہ عورتوں کے بطن سے پانچ بیٹے اور چھے بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ سیکسی لوگوں کی اوالد تھیں‘ سارے بچے اپنے والدین ہر گیے۔ ہاں البتہ تجاں اگ النی کے بچے‘ خوصا بیٹیاں سیکس میں آگ کا پرنالہ نکلیں۔ بڑی لڑکی ستو نے باپ کا سانڈو جو الکھاں پتی تھا پھنسا لیا۔ آغاز میں وہ تجاں کی استفادہ سے حظ لیتا رہا۔ بیٹی کے نکاح کے بّعد تجاں اس کے بھائی سے اٹیچ ہو گئی۔
تجاں اگ النی نے سوت کے بڑے بیٹے کھادی کی منگنی مادری فیملی کی ایک لڑکی سے کر دی۔ لڑکی کوئی خاص نہ تھی‘ جانے کھادی اس کا گرویدہ کیوں ہو گیا۔ کھادی نیا نیا مالزم ہوا تھا‘ کھان پین کا ذریعہ ضرور بن گیا۔ کھادی بشو منہ پاڑ کے عشك میں دیوانہ ہو گیا۔ اس دیوانگی کی وجہ نالابل فہم تھی۔ نہ پڑھی لکھی نہ سوہنی نہ امیر نہ سوچجی اور ناہی کوئی خاص یا عام خوبی اس میں موجود تھی۔ کھادی درباروں کا ہو کر رہ گیا۔ جھورے کو تشویش ہوئی۔ اچانک سدی گھتل کی بیوی ایک بچے کو جنم دے کر ہللا کو پیاری ہو گئی۔ اس کی ان حرکتوں کے باعث جھورے مردود اور اس کے گھر والوں سے نہ بنتی تھی۔ دوسرا بیوی کی موت نے اس کے حواس معطل سے کر دیے تھے۔ اس کے سسر نے اس کو سمبھاال دیا۔ اسے ہر طرح سے تشفی دی۔ وہ یہ ہی کر سکتا تھا۔ پھر اس نے اپنی نواسی اس سے منسوب کر دی۔ کسی حد تک وہ مطمن ہوا کہ چھوٹا پل جائے گا۔ تجاں اگ النی کے ہاتھ مولع آ گیا۔ اس نے خاوند کو بشو
منہ پاڑ کی بڑی بہن رجو پیکہ پال کا رشتہ سدی گھتل کے لیے النے کا مشورہ دیا۔ اس طرح بشو منہ پاڑ کا رشتہ بڑی آسانی سے حاصل ہو جائے گا۔ ایک طرح سے وہ سدی گھتل سے بدال لے رہی تھی۔ وہ کب جلدی ماننے واال تھا۔ اس پر ہر طرح سے دباؤ ڈاال گیا لیکن وہ کسی دباؤ میں نہ آیا۔ انہوں نے بابا صاحب کو ہاتھ میں کرنا شروع کر دیا لیکن انہیں جھورے کی کسی بات کا اعتبار ہی نہ تھا۔ دوسری طرف یہ مشہور کرنا شروع کر دیا کہ سدی گھتل نے اپنی بیوی کو کیجو کے لیے مارا ہے۔ وہ کیجو جس کے ساتھ سدی گھتل کا دور تک تعلك واسطہ ہی نہ تھا۔ سدی گھتل عشك کو بخار اور ولت ضائع کرنے کا چلن سمجھتا تھا۔ ١٢واں پتا چھومی کا تھا۔ پھر اس نے چھومی کو بھی ہاتھ میں کر لیا۔ سدی گھتل کی چھومی میں جان تھی۔ چھومی نے اسے گود کھالیا تھا۔ جب اسکول جاتا اس کے بال سنوارتی‘ گلے لگاتی‘ اس کی عمر کے مطابك چھوٹی چھوٹی شرارتیں بھی کرتی۔ آخر کب تک‘ سدی گھتل کو ہتھیار ڈالنا پڑے۔ دوسری طرف مائی صاحب بھی تجاں اگ
النی کے جھانسے میں آ گئی تھیں۔ سدی گھتل کی اصل غلطی یہ تھی کہ اس نے رشتہ ہو جانے کی خبر کسی کو نہ دی تھی۔ اس کے سسر ہی بتا دیتے۔ انو کے ممدر میں سدی گھتل کے گھر کا رزق ہی نہ تھا ورنہ رشتہ ضرور ہو جاتا۔ اگر پتا چل بھی جاتا تو اس کی کوئی نہ سنتا۔ جس دن بارات جانا تھی سدی گھتل اکیال ہی ریلوے اسٹیشن پر اداس اور افسردہ بیٹھا ہوا تھا۔ اسے اپنی مرحوم بیوی بہت یاد آ رہی تھی۔ بےشک وہ اچھی اور ہم درد عورت تھی۔ اس کے توسط سے ہللا نے سدی گھتل کو ایک ان مول ہیرہ بھی عطا فرمایا۔ صرف چار دن کا معصوم اور بےلصور بچہ‘ اس کی ماں کی روح لبض کرتے بےرحم موت کے ہاتھ نہ کانپے۔ اسے بھائی کی بےحسی اور خودغرضی پر افسوس ہو رہا تھا۔ کیسا بھائی تھا جو اپنے بیٹے کی خوشی کے لیے اپنے بھائی کو لربانی کا بکرا بنا رہا تھا۔ اب کیا کر سکتا تھا۔ رجو میکہ پال اس کے ممدر میں لکھی جا چکی تھی۔ اب تاسف سے کچھ ہونا ممکن نہ تھا۔
چھتیس سالہ رجو پیکہ پال دلہن بن کر آ گئی۔ اس نے لمحہ بھر کو بھی اس معصوم بچے کو گود ًمیں نہ لیا۔ بچہ سدی گھتل کی ستر سالہ ماں کی آغوش میں چال گیا۔ سدی گھتل ان دنوں باہر مالزمت پر جاتا تھا۔ صبح جاتا رات دیر گیے واپس آتا۔ صرف اتوار کی ایک چھٹی ہوتی۔ اس دن گھر کے کام کاج نپٹانے کے ساتھ ساتھ اپنی ماں اور اپنے بچے سے بھی مل کر آتا۔ اسی مشمت میں دن گزرتے گئے۔ بچہ ہللا کو پیارا ہو گیا۔ سدی گھتل پر دوسری لیامت گزر گئی۔ جھورے مردود یا دوسرے لوگوں کو اس سے کیا۔ کھادی کا عشك توڑ چڑھ گیا تھا۔ تجاں ڈانگ لےنی کے مماصد پورے ہو گئے تھے۔ کوئی جیے یا مرے اسے اس سے کیا غرض ہو سکتی تھی۔ کتنی عجیب بات ہے کہ دوسروں کو باتیں کرنے والے اپنے گریبان میں کیوں نہیں جھانکتے۔ دوسروں کا برا کرنے والے یہ نہیں سوچتے‘ حادثاتی طور پر سہی‘ برا ان کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ کاش انسان کو یہ یاد رہے کہ اسے ایک دن موت کی آغوش میں چلے جانا ہے اور اپنے کیے کا حساب بھی دینا ہے۔ لرطاس حیات پر بھی اس کا
کیا کسی ناکسی سطع پر اور کسی ناکسی صورت میں مرلوم رہتا ہے۔ بادشاہ گزر گیے‘ مورکھ انہیں نبی لریب بتاتا رہا لیکن عوامی روایات میں اس کی ہر بری کرنی بھی محفوظ رہتی ہے۔ ولت محو سفر رہا۔ نہ رکا اور نہ کوئی اسے روک سکا۔ اسے تو بہرطور گزرنا ہی ہے۔ یہ اپنی اصل اور ساخت میں ایک سا ہی رہا ہے‘ ہاں البتہ انسانی زندگی کے لباس تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ ابھی ابھی لودھی کا سکہ چل رہا تھا اس کے فرشتوں کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ اگلے لمحے بابر کی جئے جئے کار ہو گی۔ بہادر شاہ تخت پر بیٹھا اپنے جوتوں کے انتظار میں تھا کہ انگریز داخل ہو گیا اور اسے ننگے پاؤں تخت سے نیچے آنا پڑا۔ اکو‘ مینا اور کھیواں بالی نہ رہے جفرے جھورے شفیے یا تجاں اگ النی کو کب بالی رہنا تھا۔ سب چلے گئے۔ ہاں ان کی کرنی اگلی نسلوں کو بھگتنی ہی تھی۔ سدی گھتل‘ رجو پیکہ پال کے ہاتھوں لٹتا اور ذلیل و خوار ہوتا رہا۔ ایک لڑکا اور ایک لڑکی اس کی کل کائنات تھی۔
تھیلے دو نمبری کو سدی گھتل چھبتا تھا۔ وہ اس کی زندگی بھر کی محنت کو اپنے کھیسے کرنے کی سوچ رہا تھا۔ اس نے نچھو کو کہا سدی گھتل کے ہاں صرف ایک لڑکا ہے‘ کیوں نہ اس کی شادی کر دی جائے۔ وہ اس کی باتوں میں آ گئی۔ اس نے اپنے من پسند کی عورت تالش لی۔ وہ عورت شیطان کی بھی نانی تھی۔ دو جگہ سے پہلے طالق ہو چکی تھی۔ ہللا ایسی عورت کسی جہنمی کو بھی نہ دے۔ وہ اپنے پہلے بانکاح اور منہ بولے خاوندوں کے لیے زمین پر حاویے سے بھی کہیں بڑھ کر تھی۔ سدی گھتل باوجود کوشش کے‘ تھیلے دو نمبری سے نہ بچ سکا اور اس نے اس عورت سے نکاح کر ہی لیا۔ اگر نہ کرتا تو بہن بوہے آ بیٹھتی۔ سدی گھتل اپنے بہنوئی سے خوب خوب والف تھا۔ وہ تھیلے دو نمبری کے ہاں ٹھہرائی گئی۔ رجو پہکہ پال اور بیٹی کو نکال باہر کرنے کا پروگرام دونوں نے طے کر لیا۔ سدی گھتل ہر اتوار کو وہاں جاتا خرچہ پانی دے آتا۔ بالی دن تھیلہ دو نمبری موج میلہ کرتا اور نچھو اپنے
بھائی سدی گھتل سے کہیں بڑھ کر گھتل تھی۔ کیا ہو رہا ہے اسے کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ ایک اتوار کو جب سدی گھتل وہاں گیا تو بی بی راہ کار نے بتایا کہ تھیال دو نمبری اس پر آنکھ رکھتا ہے۔ وہ تو دو نمبری میں تھیلے کی بھی پیو تھی۔ وہ سدی گھتل کے مال میں اس کو کیوں ساجی ٹھہراتی۔ سدی گھتل اسے وہاں سے لے آیا۔ بی بی راہ کار جہیز میں گالیوں کی پنڈ الئی۔ اس نے بہت سے لفظی المابات سے سدی گھتل کو سرفراز کیا۔ مثال ہندو‘ گندے خاندان دا‘ کنجراں دا‘ حرامدہ‘ مر ‘کافر‘ سکھ دا اے نہ جانن چھڈا اے‘ کنجر وغیرہ وغیرہ۔ سدی گھتل نے بی بی راہ کار کے آگے ہاتھ جوڑے‘ پاؤں پڑا زمین پر بیٹھ کر اپنے سر پر اس عورت کے جوتے مارے اور کہا اگر میں اچھا نہیں تم ہی اچھی بن جاؤ۔ پوتڑوں کے بگڑے کب سنورتے ہیں۔ ابلیس سنور جاتا تو
آج زمین سکون نہ ہوتا۔ اس کے بطن سے ایک لڑکے نے جنم لیا۔ سدی گھتل اس بچے کے لیے اس عورت کو برداشت کرتا رہا۔ وہ کنجر نہیں بےغیرت تھا۔ کنجر کمائی کھاتے ہیں وہ تو کمائی کھال رہا تھا۔ اس عورت کی نالص چلنی پھرنی کے باوجود اس بچے کا مستمبل بچانے کی کوشش میں تھا۔ اس عورت نے اسے دو بار لتل کرنے کی کوشش بھی کی۔ لتل کرانے کی دھمکیاں بھی دیں۔ سدی گھتل صرف اس بات پر تھا کہ کون سا دنیا میں بیٹھ رہنا ہے‘ اس سے بہرطور برا نہ ہو۔ چلو یہ معصوم بچہ آتے کل کو یہ نہ کہے کہ اس کے باپ نے اپنی تکلیف سے نجات کے لیے اسے بھی نظرانداز کر دیا۔ یہ بالکل الگ بات ہے کہ ایسی بدکردار عورت کے ساتھ زندگی بسر کرنا لیامت سے گزرنے سے کم نہ تھا۔ دو نمبر بندے کو میدان زر میں شکست ہو جائے تو یہ اس کے لئے موت سے کسی طرح کم نہیں ہوتی۔ وہ مناسب ولت کا انتظار کرنے لگا۔ سدی گھتل کی بیٹی جوان ہوئی تو اس نے ایک بار پھر نچھو کو مہرہ بنایا۔ نچھو نے رجو
پیکا پال کو دھیرے دھیرے سہی ہاتھ میں کر ہی لیا۔ یہاں رجو اور سدی کا زبردست یدھ ہوا‘ بڑا لڑا لیکن آخر مات اسی کے حصہ میں ائی۔ بی بی راہ کار کو خطرے کی گھنٹی محسوس ہوئی۔ سدی کے ساتھ اب بی بی راہ کار کا میدن لگ گیا۔ وہ اس امر پر پہلے ہی دکھی تھا کہ ڈوم اب کنفرم سید ہو جائیں گے۔۔ بی بی راہ کار کے سامنے کھڑے ہونا ممکن ہی نہ تھا۔ تھیلے دو نمبری کے سامنے کھڑی ہوتی تو اس کی بہادری کی للعی کھل جاتی۔ سدی گھتل کی اولات ہی کیا تھی۔ اب سدی گھتل کے سامنے دو رستے بالی رہ گیے تھے خودکشی کر لے یا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھاگ جائے۔ چھوٹا جب سامنے آتا تو اسے اس پر بڑا ترس آتا۔ سوچتا کیا کرے۔ آخر اس بےچارے کا کیا لصور ہے۔ اس کی اپنی ماں اس کے بارے میں اتنی سنجیدہ نہ تھی۔ بظاہر اس سے بڑا پیار کرتی تھی لیکن اپنی ضد میں اس کے مستمبل کی راہ میں کانٹے بو رہی تھی۔
وہ سوچ رہا تھا کہ خیر اور شر کا یدھ کیا کبھی ختم نہ ہو گا۔ آخر شر کی کیوں جیت ہوتی ہے۔ آخر کیوں‘ کیا خیر کو اسی طرح تل تل مرتے رہنا ہو گا اور ابلیس کے لہمہوں کی چھاؤں میں زندگی بسر کرتے رہنا ہو گی۔