مقصود حسنی کی ادبی خدمات ایک مختصر جائزہ

Page 1

‫مقصود حسنی کی ادبی خدمات‬ ‫ایک مختصر جائزہ‬ ‫مرتبہ‪:‬‬ ‫پروفیسر نیامت علی مرتضائی‬

‫مقصود حسنی‬

‫بوزر برقی کتب خانہ‬ ‫فروری ‪٢٠١٧‬‬


‫فہرست‬ ‫بلھے شاہ کا مور۔۔۔۔۔۔۔ ایک ادبی تعارف ‪١-‬‬ ‫میرے استاد میرے دوست میرے بزرگ ‪٢-‬‬ ‫حسنی اور برصغیر کا مضافاتی اور مغربی ادب ‪٣-‬‬ ‫مقصود حسنی کے تنقیدی جائزے۔۔۔۔۔ ایک تدوینی مطالعہ ‪٤-‬‬ ‫ایک اجمالی جائزہ ‘مقصود حسنی کی مزاح نگاری ‪٥-‬‬ ‫مقصود حسنی کی شاعری۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک جائزہ ‪٦-‬‬ ‫اردو انجمن اور مقصود حسنی کی افسانہ نگاری ‪٧-‬‬ ‫حضرت بلھے شاہ قصوری کی اردو شاعری ‪٨-‬‬ ‫ڈاکٹر مقصود حسنی بطور ماہر لسانیات ‪٩-‬‬ ‫مقصود حسنی اور اردو زبان ‪١٠-‬‬ ‫مقصود حسنی اور اقبال فہمی ‪١١-‬‬ ‫مقصود حسنی اور سائنسی ادب ‪١٢-‬‬ ‫ڈاکٹر مقصود حسنی بطور ایک اسالمی مفکر اور اسکالر ‪١٣-‬‬ ‫ڈاکٹر مقصود حسنی بطور مترجم ‪١٤-‬‬ ‫فرہنگ غالب ایک نادر مخطوطہ ‪١٥-‬‬


‫بلھے شاہ کا مور۔۔۔۔۔۔۔ تعلیمی و ادبی کوائف‬ ‫مرتبہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محبوب عالم‬ ‫پروفیسر مقصود حسنی اردو ادب کا وہ دمکتا آفتاب ہے جس کی‬ ‫ضیا پاشیاں حدود میں نہیں آ سکتیں۔ ان کی ادبی کرنوں کی‬ ‫تحسین نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ ہر صنف ادب کا یہ سیاح اپنے‬ ‫سفر نامے کی ہر چھوٹی بڑی کہانی لکھتا چال آ رہا ہے۔ یہ ان‬ ‫کی بالجواز مداح سرائی نہیں بلکہ روز روشن کی طرح عیاں‬ ‫حقیقت بیان کرنے کی ادنی سی کوشش ہے۔ ادب کا شاید ہی‬ ‫کوئی گوشہ ہو گا جہاں انھوں نے طبع آزمائی نہ کی ہو گی۔‬ ‫انہوں نے تو کینسر اور ڈینگی جیسے امراض پر بھی تحقیقی‬ ‫کام کیا ہے۔ اس سلسلے میں اردو نیٹ جاپان اور سکربڈ ڈاٹ کام‬ ‫پر ان کا مواد موجود ہے۔ وہ ایسے آل راؤنڈر کی حیثیت اختیار‬ ‫کر گیے ہیں جو کسی بھی صنف کے ماتھے کا جھومر ہو‬ ‫سکتے ہیں۔ ان کی زندگی کے سالوں کو دنوں میں تبدیل کر دیا‬ ‫جائے تو کوئی دن بال ادبی خدمت نہیں نکلے گا۔ گویا وہ ہمہ‬ ‫وقت اور ہمہ جہت ادبی شخصیت ہیں۔‬ ‫پروفیسر مقصود حسنی کی ادبی خدمات پر ملکی و غیر ملکی‬ ‫مداحوں نے انہیں متعدد ادبی خطابات سے نوازا ہے۔ اس تحریر‬ ‫کا عنوان بھی بین االاقومی شہرت کے مالک پروفیسر ڈاکٹر تبسم‬ ‫کاشمیری کے عطا کیے گیے خطاب سے لیا گیا ہے۔ پیش نظر‬


‫سطور میں ان کا مختصر مختصر ادبی تعارف پیش کیا گیا ہے۔‬ ‫احباب کو میری ادنی سی کوشش ضرور پسند آئے گی۔‬ ‫بنیادی کوائف‬ ‫نام‪ :‬مقصود صفدر علی‬ ‫معروف‪ :‬مقصود حسنی‬ ‫ولدیت‪ :‬سید غالم حضور‬ ‫گھر کا پتا‪:‬‬ ‫شیر ربانی کالونی‬ ‫قصور‘ پاکستان‬ ‫‪:‬ای پوسٹ‬ ‫‪maqsood5@mail2world.com‬‬ ‫تعلیم‬ ‫ایم اے‪ :‬ارو‘ سیاسیات‘ معاشیات‘ تاریخ‬ ‫ایم فل‘ اردو‬ ‫ڈاکٹریٹ‘ لسانیات‬ ‫پوسٹ ڈاکٹریٹ‘ لسانیات‬ ‫تجربہ‬ ‫تدریس اردو ادب‪ ٣٠‬سال‬


‫تخلیق ادب‪ ٤٥ :‬سال‬ ‫تحقیق ادب‪ ٣٤ :‬سال‬ ‫انتظامی‪:‬‬

‫‪ ٠٥‬سال‬

‫خدمات‬ ‫برانچ سپرنٹنڈنٹ ایم آئی ٹی برانچ‘ زون اے‘ پنجاب‬ ‫ممبر بورڑ آف سٹیڈی پنجاب یونیورسٹی الہور‬ ‫پنجاب یونیورسٹی ‘تجزیہ نگار خاکہ پی ایچ ڈی‬ ‫وائس پرنسپل‬ ‫ریٹائرڈ‪ :‬ایسوسی ایٹ پروفیسراردو زبان و ادب‬ ‫ادارہ فراغت مالزمت‪ :‬گورنمنٹ اسالمیہ کالج‘ قصور‬ ‫ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ‘ حکومت پنجاب‘ پاکستان‬ ‫ادبی خدمات‬ ‫مطبوعہ کتب‬ ‫سپنے اگلے پہر کے ہائیکو ‪١-‬‬ ‫اوٹ سے‬

‫نظمیں ‪٢-‬‬

‫سورج کو روک لو‬

‫نظمیں ‪٣-‬‬

‫کاجل ابھی پھیال نہیں نظمیں ‪٤-‬‬ ‫بیگمی تجربہ‬ ‫آنچل جلتا رہے گا‬

‫مزاح ‪٥-‬‬ ‫افسانے ‪٦-‬‬


‫زرد کاجل‬

‫افسانے ‪٧-‬‬

‫وہ اکیلی تھی‬

‫افسانے ‪٨-‬‬

‫جس ہاتھ میں الٹھی افسانے ‪٩-‬‬ ‫شعریات شرق و غرب تحقیق تنقید ‪١٠-‬‬ ‫تحریکات اردو‬

‫تحقیق ‪١١-‬‬

‫اصول اورجائزے اصول تحقیق ‪١٢-‬‬ ‫اردو شعر فکری و لسانی جائزے تحقیق ‪١٣-‬‬ ‫شعریات خیام‬

‫تحقیق تنقید ترجمہ ‪١٤-‬‬

‫ستارے بنتی آنکھیں ترک نظموں کے تراجم ‪١٥-‬‬ ‫لسانیات غالب‬

‫تحقیق ‪١٦-‬‬

‫لفظیات غالب کا لسانی وساختیاتی جائزہ تحقیق ‪١٧-‬‬ ‫عہد غالب‬

‫تحقیق ‪١٨-‬‬

‫خوشبو کے امین خطوط ‪١٩-‬‬ ‫منیر کے افسانے تنقدی جائزہ تنید ‪٢٠-‬‬ ‫جرمن شاعری کے فکری جائزے تنید ‪٢١-‬‬ ‫اردو میں نئی نظم‬

‫تنید ‪٢٢-‬‬

‫تخلیقیو تنقیدی زاویے‬

‫تنید ‪٢٣-‬‬


‫سیکڑوں مضامین مختلف ادبی رسائل و جرائد میں شائع‬ ‫ہوئے۔‬ ‫سیکڑوں مضامین اور کئی کتب انٹرنیٹ پر موجود ہیں‘‬ ‫جنھیں کسی بھی ریسرج انجن کے حوالہ سے‬ ‫مالحظہ کیا جا سکتا ہے۔‬ ‫ایوارڈز‬ ‫ستارہ صد سالہ جشن والدت قائد اعظم‘ حکومت پاکتان‬ ‫بیدل حیدری ایوارڑ‘ کاروان ادب ملتان‬ ‫مسٹر اردو‘ فورم پاکستان‬ ‫بابائے گوشہءمصنفین‘ فرینڈز کارنر‬ ‫میدان جن میں کام دستیاب ہوتا ہے‬ ‫اردو ادب‬ ‫لسانیات‬ ‫تحقیق‬ ‫تنقید‬ ‫افسانہ‬ ‫مزاح‬ ‫شاعری‬ ‫سماجیات‬


‫غالبیات‬ ‫اقبالیات‬ ‫ترجمہ‬ ‫تاریخ‬ ‫تعلیم‬ ‫صحافت‬ ‫میڈیکل‬ ‫سائنسز‬ ‫معاشیات‬ ‫تخلیق و تخلیق پر ہونے والے تحقیقی کام کی تفصیل‬ ‫انگریزی شاعری پر ایم فل سطع کا ‘پرفیسر نیامت علی‬ ‫تحقیقی کام کر چکے ہیں۔‬ ‫ڈاکٹر ارشد شاہد‘ پنجابی شاعری پر‘ ایم فل سطع کا تحقیقی‬ ‫کام کر چکے ہیں‬ ‫اسلم طاہر‘ ‘مقصود حسنی‪ -‬شخصیت اور ادبی خدمات‘ کے‬ ‫عنوان سے‘ ایم فل سطع کا تحقیق مقالہ تحریر کرکے‘‬ ‫ملتان سے ڈگری حاصل کر ‘بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی‬ ‫چکے ہیں۔‬


‫پروفیسر محمد لطیف‘ ‘مقصود حسنی کی غالب شناسی‪-‬‬ ‫تحقیقی و تنقیدی و مطالعہ‘ موضوع پر ایم فل سطع کا‬ ‫اسالم آباد سےتحقیقی کام کر ‘عالمہ اقبال اوپن یونیورسٹی‬ ‫رہے ہیں۔‬ ‫رانا جنید‘ ایف سی کالج سے‘ ان کے افسانوں پر‘ بی اے‬ ‫آنرز سطع کا‘ تحقیقی کام کرنے میں مصروف ہیں۔‬ ‫ڈاکٹر ریاض شاہد نے‘ اپنے پی ایچ ڈی سطع کے تحقیقی‬ ‫مقالے میں‘ کتاب ‘ اردو شعر‪ -‬فکری و لسانی زاویے‘ کو‬ ‫بطور بنیادی ماخذ استعمال کیا۔‬ ‫پر ہونے والے ایم فل سطع کے کام ‘عالمہ بیدل حیدری‬ ‫میں‘ بنیادی حوالہ سے تذکرہ کیا گیا ہے۔‬ ‫محبوب عام‘ زیب النسا اور زبیدہ بیگم کے ایم فل سطع کے‬ ‫مقالہ جات میں‘ غالب حصہ موجود ہے۔‬ ‫پی ایچ ڈی اور ایم فل سطح کی اسائنمنٹس بھی ہوتی رہی‬ ‫ہیں۔‬ ‫مختلف سطع کی ڈگری کے تحقیقی کام میں‘ تحقیق کاروں‬ ‫کے کام میں تعاون کر چکے ہیں‘ جس کا اظہار‘ وہ اپنے‬ ‫تحیقیقی مقالوں میں کر چکے ہیں۔ دستیاب تفصیل کچھ یوں‬ ‫ہے۔‬ ‫سید اختر عباس‬ ‫مقالہ ایم ایڈ میں تعاون کیا‬


‫ڈاکٹر ارشد شاہد‬ ‫مقالہ پی ایچ ڈی میں تعاون کیا‬ ‫پروفیسر شرافت علی‬ ‫مقالہ ایم فل میں تعاون کیا‬ ‫پروفیسر طلعت رشید‬ ‫مقالہ ایم فل میں تعاون کیا‬ ‫ڈاکٹر عطاءالرحمن‬ ‫مقالہ ایم فل میں تعاون کیا‬ ‫پروفیسر یونس حسن‬ ‫مقالہ ایم فل میں تعاون کیا‬ ‫‪ ١٩٩٣‬میں‘ ‘مقصود حسنی کی ‘ڈاکٹر صادق جنجوعہ نے‬ ‫شاعری کا تنقیدی جائزہ‘ کے عنوان سے‘ کتاب تحریر کی۔‬ ‫ڈاکٹر ریاض انجم نے‘ ‘مسٹر اردو‪ -‬اسرا زیست اور ادبی‬ ‫خدمات‘ کے عنوان سے مقالہ تحریر کیا‘ جو روزنامہ‬ ‫معاشرت‘ الہور میں‘ پچاس قسطوں میں شائع ہوا۔‬ ‫عالمی رنگ ادب نے‘ پورے مجموعے سپنے اگلے پہر‬ ‫کے‘ کو ‪ ٢٠١٣‬میں شائع کیا۔‬ ‫‪ ٣٠‬سے زیادہ تحقیقی مقالے ‘پروفیسر یونس حسن نے‬ ‫تحریر کئے‘ جو مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے‬ ‫ہیں۔‬ ‫پروفیسر محمد رفیق ساگر نے‘ تیس کے قریب مضامین‬


‫تحریر کئے‘ جو ابھی غیر مطبوعہ ہیں۔‬ ‫پی ایچ ڈی اور ایم فل سطح کی اسائنمنٹس بھی ہوتی رہی‬ ‫ہیں۔‬ ‫درج ذیل اہل قلم نے مضامین لکھے یا اپنی آراء دیں۔‬ ‫ڈاکٹر ابو سعید نور الدین‘ ڈاکٹر اختر شمار‘ ڈاکٹر اسلم ثاقب‘‬ ‫ڈاکٹر انور سدید ڈاکٹر انعام الحق جاوید‘ ڈاکٹر ‘ڈاکٹر اسعد گیالنی‬ ‫ڈاکٹر اختر سندھو‘ ‘انعام الحق کوثر‘ ڈاکٹر اختر علی میرٹھی‬ ‫پروفیسر امجد علی شاکر‘ پروفیسر ‘پروفیسر اکرام ہوشیارپوری‬ ‫اقبال سحر ‘اطہر ناسک‘ پروفیسر انور جمال‘ اکبر حمیدی‬ ‫یاد‘ اعظم ‘اکبر کاظمی ‘ادیب سہیل‘ انیس شاہ جیالنی ‘انبالوی‬ ‫بہرام طارق‘ ڈا ‘اسماعیل اعجاز‘ اشرف پال‘ ڈاکٹر بیدل حیدری‬ ‫‘ثناءالحق حقی ‘تنویر بخاری ‘تاج پیامی ‘کٹر تبسم کاشمیری‬ ‫جمشید مسرور‘پروفیسر حسین سحر‘ حسن ‘ڈاکٹر جمیل جالبی‬ ‫ڈاکٹر خواجہ حمید ‘پروفیسر حفیظ صدیقی ‘عسکری کاظمی‬ ‫ڈاکٹر ذوالفقار دانش‘ ڈاکٹر ‘ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی ‘یزدانی‬ ‫ذوالفقار علی رانا‘ پروفیسر رب نواز مائل‘ رانا سلطان محمود‘‬ ‫ڈاکٹر سعادت سعید‘ سرور عالم راز‘ میاں سعید بدر‘ سید اختر‬ ‫ڈاکٹر صادق جنجوعہ‘ ‘ڈاکٹر صابر آفاقی ‘شاہد حنائی ‘علی‬ ‫ڈاکٹر عبدالقوی ضیا‘ ڈاکٹر ‘ڈاکٹر ظہور احمد چوہدری‬ ‫عطاالرحمن‘ ڈاکٹر عبدالعزیز سحر‘ عباس تابش‘ عبدالقوی‬ ‫علی دیپک قزلباس‘ علی اکبر ‘پروفیسر عقیل حیدری ‘دسنوی‬ ‫فہیم ‘ڈاکٹر غالم شبیر رانا‘ ڈاکٹر فرمان فتح پوری ‘گیالنی‬ ‫پروفیسر کلیم ضیا‘ ‘قیصر تمکین‘ ڈاکٹر قاسم دہلوی ‘اعظمی‬


‫ڈاکٹر مظفرعباس‘ ڈاکٹر ‘کوکب مظہر خاں‘ ڈاکٹر گوہر نوشاہی‬ ‫ڈاکٹر سید معین الرحمن‘ ڈاکثر ‘محمد امین‘ ڈاکٹر مبارک علی‬ ‫منیر الدین احمد‘ ڈاکٹر محمد ریاض انجم‘ پروفیسر محمد رضا‬ ‫محمود ‘مسرور احمد زائی ‘مشفق خواجہ‘ مشیر کاظمی ‘مدنی‬ ‫ڈاکٹر نجیب ‘مسعود اعجاز بخاری ‘مہر کاچیلوی ‘احمد مودی‬ ‫ناصر ‘ڈاکٹر نوریہ بلیک‘ نیر زیدی ‘جمال‘ ڈاکٹر نثار قریشی‬ ‫‘ڈاکٹر وقار احمد رضوی ‘ندیم شعیب‘ ڈاکٹر وفا راشدی ‘زیدی‬ ‫پروفیسر یونس حسن‘ ‘والیت حسین حیدری ‘وصی مظہر ندوی‬ ‫وغیرہ وغیرہ‬ ‫سے کالم دستیاب ہوتا ہے۔ شاعری پر بہت سے لوگوں نے‬ ‫اظہار خیال کیا۔ جند ایک کے نام درج ہیں۔ ‪١٩٦٥‬‬ ‫ڈااکٹر آغا سہیل‬ ‫آفتاب احمد‬ ‫ڈاکٹر ابو سعید نور الدین‬ ‫احمد ریاض نسیم‬ ‫ڈاکٹر اسلم ثاقب‬ ‫اسلم طاہر‬ ‫ڈاکٹر احمد رفیع ندیم‬ ‫احمد ندیم قاسمی‬ ‫ڈاکٹر اختر شمار‬ ‫ڈاکٹر اسعد گیالنی‬


‫اسماعیل اعجاز‬ ‫اشرف پال‬ ‫اطہر ناسک‬ ‫اکبر کاظمی‬ ‫پروفیسر اکرام ہوشیار پوری‬ ‫ایاز قیصر‬ ‫ڈاکٹر بیدل حیدری‬ ‫پروفیسر تاج پیامی‬ ‫تنویر عباسی‬ ‫جمشید مسرور‬ ‫ڈاکٹر ریاض انجم‬ ‫سرور عالم راز‬ ‫خواجہ غضنفر ندیم‬ ‫ڈاکٹر فرمان فتح پوری‬ ‫ڈاکٹر صابر آفاقی‬ ‫ڈاکٹر صادق جنجوعہ‬ ‫صفدر حسین برق‬ ‫ضیغم رضوی‬


‫طفیل ابن گل‬ ‫ڈاکٹر ظہور احمد چودھری‬ ‫عباس تابش‬ ‫ڈاکٹر عبدهللا قاضی‬ ‫علی اکبر گیالنی‬ ‫پروفیسر علی حسن چوہان‬ ‫ڈاکٹر عطالرحمن‬ ‫فیصل فارانی‬ ‫ڈاکٹر گوہر نوشاہی‬ ‫ڈاکٹر مبارک احمد‬ ‫محبوب عالم‬ ‫مشیر کاظمی‬ ‫ڈاکٹر محمد امین‬ ‫پرفیسر محمد رضا مدنی‬ ‫مہر افروز کاٹھیاواڑی‬ ‫مہر کاچیلوی‬ ‫ڈاکٹر منیرالدین احمد‬ ‫پروفیسر نیامت علی‬


‫ندیم شعیب‬ ‫ڈاکٹر وزیر آغا‬ ‫ڈاکٹر وفا راشدی‬ ‫ڈاکٹر وقار احمد رضوی‬ ‫وی بی جی‬ ‫یوسف عالمگیرین‬ ‫پروفیسر یونس حسن‬ ‫اردو شاعری سے تراجم کرنے والے محترم حضرات‬ ‫انگریزی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلدیو مرزا‬ ‫پنجابی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پروفیسر امجد علی شاکر‘ نصرهللا صابر‬ ‫گرمکھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر اسلم ثاقب‬ ‫پشتو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علی دیپک قزلباش‬ ‫سندھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مہر کاچیلوی‬ ‫شاعری ڈازائین کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آمنہ رانی‬ ‫رباعیات خیام کے سہ مصرعی ترجمے کو بڑی پذیرائی حاصل‬ ‫ہوئی نامور اہل قلم نے اپنی رائے کا اظہار کیا‪-‬‬ ‫مثال‬


‫ڈاکٹر عبدالقوی ضیا کینیڈا‬ ‫ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی‬ ‫ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی‬ ‫ڈاکٹر ابوسعید نورالدین‘ ڈھاکہ‘ بنگلہ دیش‬ ‫ڈاکٹراسلم ثاقب‘ مالیر کوٹلہ‘ بھارت‬ ‫ڈاکٹر اختر علی‬ ‫ڈاکٹر وفا راشدی‬ ‫ڈاکٹر صابر آفاقی‬ ‫ڈاکٹر منیرالدین احمد‘ جرمنی‬ ‫انڈیا ‘پروفیسر کلیم ضیا‘ بمبئی‬ ‫پرفیسر رب نواز مائل‬ ‫پروفیسراکرام ہوشیار پوری‬ ‫پروفیسرامجد علی شاکر‬ ‫پروفیسر حسین سحر‬ ‫ڈاکٹر عطاالرحمن‬ ‫ڈاکٹر رشید امجد‬ ‫ڈاکٹر محمد امین‬ ‫علی دیپک قزلباش‬ ‫سید نذیر حسین فاضل‬ ‫حرفی خطابات‬ ‫آل عمران‬ ‫بہت زبردست آدمی‬


‫ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری‬ ‫اہل نظر‬ ‫ڈاکٹر اختر شمار‬ ‫ممتاز لکھاری‬ ‫اسماعیل اعجاز‬ ‫علم و ادب کا بہتا دریا‬ ‫ڈاکٹر انور سدید‬ ‫اردو کے مایہءناز ادیب‬ ‫انیس شاہ جیالنی‬ ‫کمال بزرگ‬ ‫ڈاکٹر ایلن جان‬ ‫ہائی لی موٹی وئیٹڈ‬ ‫ایم ارشد خالد‬ ‫بڑے کام کا آدمی‬ ‫پرفیسر اکرام ہوشیارپوری‬ ‫بیدار مغز ادیب وشاعر‬ ‫میاں بدر انجم‬ ‫بڑا لکھاری‬ ‫ثقلین احمد‬ ‫عطر فروش‬


‫ڈاکٹر تبسم کاشمیری‬ ‫گودڑی کا لعل‘ بلھے کا مور‬ ‫جی کے تاج‬ ‫نرم دل انسان‬ ‫ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی‬ ‫تحقیق پسند 'ہمہ جہت ادیب‬ ‫ڈاکٹر ذوالفقار دانش‬ ‫ہمہ جہت شخصیت‬ ‫رانا سلطان محمود‬ ‫عظیم قومی سرمایہ‬ ‫پروفیسر رمضانہ برکت‬ ‫چلتا پھرتا انسکلوپیڈیا‬ ‫ریسا کیسٹل‬ ‫مین وڈ ویزڈم‬ ‫رینجنا ڈس‬ ‫سویث پرسن‬ ‫سرور عالم راز‬ ‫بڑے نثر نگار‪ ،‬عظیم نقاد‪ ،‬اچھے شاعر‪ ،‬باکمال انشائیہ‬ ‫نویس‬ ‫بہت بڑے انسان‬


‫ڈاکٹر سعادت سعید‬ ‫استاداالساتذہ‬ ‫اردو کی ترویج و ترقی میں ڈاکٹر سید عبدهللا کے بعد کا‬ ‫شخص‬ ‫شاہ سوار علی ناصر‬ ‫گامو سوچیار‬ ‫سوی عباس‬ ‫گریٹ مین‬ ‫ڈاکٹر صفدر حسین برق‬ ‫شعر کی دنیا میں‬ ‫ایک شخص‬ ‫پیغمبر نکال‬ ‫ڈاکٹر صابر آفاقی‬ ‫معروف محققوں میں‘ سرفہرست‬ ‫ضیغم رضوی‬ ‫روایت شکن‬ ‫ڈاکٹر عبداالقوی ضیا علیگ‬ ‫شخصیت میں مقصدیت اور معروضیت‬


‫ڈاکٹر عطاالرحن‬ ‫نامور محقق‬ ‫پروفیسر علی حسن چوہان‬ ‫اپنی ذات میں ایک انجمن‬ ‫ڈاکٹر غالم شبر رانا‬ ‫عظیم داشور‘ ہمالہ کی سر بہ فلک چوٹی‬ ‫ڈاکٹر کرنل غالم فرید بھٹی‬ ‫باصالحیت ساتھی‬ ‫غالم مصطفے بسمل‬ ‫بلند پایہ حقائق نگار‬ ‫کالمنگ میلوڈی‬ ‫فراخ طبیعت اور مزاج‘ فراخ دل‬ ‫کرشنا دیو‬ ‫ہمیشہ الگ سے سوچنے واال‬ ‫ڈاکٹر گوہر نوشاہی‬ ‫باشعور تخلیق کار‬ ‫ڈاکٹر محمد امین‬ ‫خالق ذہن‘ فعال شخصیت‘ جدت پسند‬ ‫پروفیسر محمد رضا مدنی‬ ‫بگ گن‬


‫مشیر شمی‬ ‫شگفتہ قلم‬ ‫ڈاکٹر مظفر عباس‬ ‫ہمہ جہت شخصیت‘ ہمہ جہت تخلیق کار‬ ‫مثل سر سید‬ ‫معراج جامی سید‬ ‫فعال اور متحرک شخصیت‬ ‫ڈاکٹر معین الرحمن‘ سید‬ ‫معنی یاب اور محنتی متن شناس‬ ‫ڈاکٹر مقصود الہی شیخ‬ ‫بڑے مالپڑے‬ ‫نابغہءروزگارشخصیت‬ ‫پروفیسر منور غنی‬ ‫درویش صفت‬ ‫ناصر زیدی‬ ‫قابل ذکر شخصیت‘ ہمہ جہت اہل قلم‬ ‫ڈاکٹر نجیب جمال‬ ‫آزمودہ کار محقق و نقاد ' نایاب شخص‬


‫ڈاکٹر نوریہ بلیک‬ ‫شفیق اور مہربان انسان‬ ‫پروفیسر نیامت علی‬ ‫لوجک اور ریسرچ سے روایت شکنی کرنے واال‬ ‫واہیو سورنو‬ ‫ویری گڈ لیڈر‬ ‫ڈاکٹر وقار احمد رضوی‬ ‫ادیب شہیر‬ ‫ڈاکٹر وفا راشدی‬ ‫محنتی حرف کار‘ دائروں سے باہر کا شخص‬ ‫پروفیسر یاسمین تبسم‬ ‫عدیم المثال شخصیت‬


‫میرے استاد میرے دوست میرے بزرگ‬ ‫مقصود حسنی‬ ‫مجھ سے پوچھا گیا‘ کہ آپ نے زندگی میں‘ کن کن اساتذہ سے‬ ‫علمی استفادہ کیا ہے۔‬ ‫وقت‘ حاالت‘ حاجات اور حضرت بےغم صاحب سے بڑھ کر‘‬ ‫آدمی کس سے سیکھ سکتا ہے۔‬ ‫اس سے تشفی نہ ہوئی۔ شاید ہر چہار کی ‘سوال کرنے والے کی‬ ‫استادی کو‘ وہ ناقص سمجھتے ہوں گے۔ حضرت بےغم صاحب‬ ‫تو میری زندگی میں ‪ ١٩٧٢‬میں آئیں‘ اور پھر مسلسل اور‬ ‫متواتر آتی ہی چلی گیئں۔ ان کے مزید آنے کے امکان کو رد نہ‬ ‫کیا جائے۔ ان سے پہلے بھی تو لکھتا پڑھتا تھا۔ اپنی رائے کا‬ ‫اظہار کرتا تھا۔ اس لیے المحالہ ‪ ١٩٧٢‬سے پہلے بھی تو میری‬ ‫زندگی میں استاد آئے ہوں گے۔‬ ‫والد صاحب مرحوم جو میرے پیر ‘یہ کوئی ‪ ١٩٥٨‬کی بات ہو گی‬ ‫و مرشد بھی تھے‘ سکول چلے آئے اور ماسٹر صاحب سے‬ ‫میری تعلیمی حالت پوچھی۔‬ ‫دراز قامت کے ماسٹر صاحب نے‘ بالمروت جواب میں ارشاد‬ ‫فرمایا‪ :‬خلیفہ ہے۔‬ ‫کہنے کو تو وہ یہ کہہ گیے‘ لیکن میری حالت مت پوچھیے۔ قبلہ‬ ‫گاہ تو چپ چاپ چلے گیے۔ جواب میں کیا کہتے۔ میرا خیال تھا‘‬ ‫کہ آج خیر نہیں۔ خوب مرمت کریں گے۔ شام کو‘ جب وہ گھر‬


‫تشریف الئے‘ میرا خون خشک ہو گیا۔ معاملے کا نتیجہ میرے‬ ‫اندازے سے قطعی برعکس نکال۔ مجھے پاس بٹھایا‘ پیار کیا۔‬ ‫جیب سے ٹانگر نکال کر‘ کھانے کو دیے۔ صبح کی بات‘ مجھے‬ ‫جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اس دن کے بعد‘ میرے ساتھ ‘نہ جتائی‬ ‫خصوصی شفقت فرمانے لگے۔ مجھے اپنے ساتھ ساتھ رکھتے۔‬ ‫بیٹھک میں کوئی آ جاتا‘ تو پاس بٹھا لیتے۔ باتیں کرتے‘ گلستان‬ ‫یا ‘سے کہاوتیں سناتے۔ میں ان کے ساتھ سونے لگا۔ پڑھنے‬ ‫کتابیں لے کر آنے کو‘ کبھی نہ کہا۔ بڑوں کی محفل میں بیٹھنا‘‬ ‫مجھے اچھا لگتا۔ پہلے سنتا تھا۔ پھر میرے قبلہ گاہ نے‘ سوال‬ ‫کرنے کی عادت ڈالی۔ جہاں الجھتا‘ سوال کرتا۔ میں اپنے قبلہ گاہ‬ ‫کے ساتھ رہتے ہوئے‘ بڑوں کی صحبت سے لطف اندوز ہوتا۔‬ ‫بڑے مجھ سے سوال بھی کرتے‘ میں ان کے سوال کا اعتماد‬ ‫سے جواب دیتا۔ جواب غلط ہوتا یا صحیح‘ کچھ یاد نہیں۔ انہوں‬ ‫نے منع کیا تھا‘ کہ کسی بھی آنے والے سے‘ اس کے اصرار‬ ‫کے باوجود‘ کچھ لینا نہیں۔ ہاں مجھ سے مانگنے میں‘ تکلف نہ‬ ‫کرنا۔ مزے کی بات‘ وہ میری ہر ضرورت کو بھانپ لیتے‘ اور‬ ‫مجھے مانگنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔‬ ‫گھر کے حاالت بہتر نہ تھے‘ میٹرک کا امتحان دینے کے فورا‬ ‫بعد‘ انہوں نے مجھے الئل پور موجودہ فیصل آباد میں‘ اپنے‬ ‫ایک دوست کے توسط سے‘ اقبال ٹرانسپورٹ میں مالزمت دلوا‬ ‫دی۔ وہاں محمد حسن بخاری بھی مالزم تھے۔ موصوف‘ ساٹھ‬ ‫سال کی عمر سے زیادہ تھے۔ بڑے شفیق اور مہربان تھے۔‬ ‫مجھے لکھنے‘ پڑھنے اور دریافت کرنے کی عادت تھی۔ وہ‬ ‫میری حوصلہ افزائی فرماتے۔ انہوں نے میری تحریروں پر لکھا‬


‫جو آج بھی میرے پاس موجود ہے۔ کتابت شدہ مسودہ بھی ‘بھی‬ ‫کہیں ناکہیں پڑا ہو گا۔ پرچم نام کا ایک مقامی رسالہ شائع ہوتا‬ ‫تھا۔ میں اس رسالے کا نمائندہ بن گیا۔ بعد ازاں‘ اقبال ٹرانسپورٹ‬ ‫سے مالزمت چھوز کر‘ چناب ٹرانسپورٹ میں آ گیا۔ یہاں بھی‬ ‫میرا پاال ساٹھ سال کی عمر سے زائد شخص کے ساتھ پڑا۔ ان‬ ‫کے ساتھ کچھ زیادہ وقت نہ رہا‘ تاہم جتنا عرصہ رہا‘ سہراب‬ ‫صاحب سے بہت کچھ سیکھا۔ سہراب صاحب بڑے سخت اور‬ ‫اصول پرست آدمی تھے۔ غلطی پر درگزر کرنے کی بجائے‘ ڈانٹ‬ ‫پالتے۔ اس وقت تو برا لگتا تھا‘ بعد میں معلوم ہوا کہ ان کی ڈانٹ‬ ‫بڑے کام کی چیز تھی۔‬ ‫میٹرک کے رزلٹ کی اطالع‘ میرے قبلہ گاہ نے دی۔ میڑک میں‬ ‫اور ‘کامیابی حاصل کر لینا‘ میرے لیے بڑی معنویت کی بات تھی‬ ‫یقین ہو گیا‘ کہ اب میں خلیفہ نہیں رہا۔ قبلہ گاہ نے‘ مجھے‬ ‫بزگوں کی محفل میں بیٹھنے کی عادت ڈال دی تھی۔ مجھے اپنی‬ ‫عمر کے لڑکوں کے ساتھ مل کر بیٹھنا‘ خوش نہیں آتا تھا۔ شاید‬ ‫میں نویں جماعت میں تھا‘ میرے قبلہ گاہ نے یہ بات میرے دل و‬ ‫کہ اگر زندگی میں کچھ کرنا ہے‘ تو ‘دماغ میں باندھ دی تھی‬ ‫کسی لڑکی سے عشق نہیں کرنا۔ اگر عشق کرنا ہے‘ تو هللا سے‬ ‫کرو‘ هللا باقی رہنے واال ہے‘ تم بھی باقی رہو گے۔ میں ناچیز هللا‬ ‫سے عشق کے کب قابل تھا‘ ہاں کسی خاتون کے عشق کے منہ‬ ‫نہ لگا۔ ہو سکتا ہے‘ میں کسی خاتون کی پسند کے قابل نہ تھا۔‬ ‫کسی خاتون کو پسند کرنے کے لیے‘ میرے پاس وقت ہی نہ تھا۔‬ ‫ہاں خواتین سے نفرت بھی نہ تھی۔ حضرت والدہ ماجدہ سے‬ ‫عشق کرتا تھا۔ چھوٹی بہن نصرت شگفتہ‘ میری پسندیدہ سہیلی‬


‫تھی۔ ہم دونوں آپس میں خوب موج مستی کرتے‘ تاہم ہمارے‬ ‫باہمی شور شرابے اور کھیل کود سے‘ گھر کے دوسرے لوگ‬ ‫ڈسٹرب نہ ہوتے تھے۔ ہم اپنے منہ کا لقمہ‘ ایک دوسرے کو کھال‬ ‫کر‘ خوشی محسوس کرتے۔‬ ‫میرے قبلہ گاہ کے‘ فوج میں کوئی صاحب واقف تھے۔ میں اے‬ ‫ایم سی میں‘ باطور نرسنگ اسسٹنٹ بھرتی ہو گیا۔ ٹرینگ کے‬ ‫بعد‘ سی ایم ایچ کھاریاں آ گیا۔ وہاں سے‘ کچھ عرصہ بعد‘ سی‬ ‫ایم ایچ حیدرآباد تبادلہ ہو گیا۔ سی ایم ایچ حیدرآباد میں‘ شگفتہ‬ ‫الہوتی باطور پینٹر مالزم تھے۔ ان کے پاس‘ شہر کے شاعر ادیب‬ ‫آتے رہتے تھے۔ بزرگ وضع دار اور خوش گو تھے یہ ہی وجہ‬ ‫ہے‘ کہ سب ان کی عزت کرتے تھے۔آنے والے انہیں استاد‬ ‫مانتے تھے۔ میں ان کے ہاں تقریبا روزانہ جاتا۔ جب جاتا‘ کوئی‬ ‫ناکوئی آیا ہوتا اور اپنا کالم سنا رہا ہوتا۔ اس طرح میں بھی آنے‬ ‫والے کے کالم سے لطفف اندواز ہوتا۔ مجھے ان کے اصالح کے‬ ‫اطوار سے بھی آگاہی ہوتی۔ دو تین بار مجھے اکیلے میں ملنے‬ ‫کا اتفاق ہوا۔ بڑی شفقت سے‘ کالم کی اصالح کی اور اصالح شدہ‬ ‫کالم دو تین بار مجھ سے سنا۔ کسی اگلی نشت میں‘ جب پانچ‬ ‫سات لوگ آئے ہوتے مجھ سے کالم سنانے کی فرمائش کرتے۔‬ ‫میں وہ ہی اصالح شدہ کالم‘ سنا دیتا۔ دل کھول کر داد دیتے۔ اس‬ ‫طرح محفل میں سنانے کی عادت پڑ گئی۔ رائی بھر جھجھک‬ ‫حیدرآباد کے معروف صحافی افسانہ ‘محسوس نہ ہوتی۔ یہاں ہی‬ ‫جو برسوں چلی۔ ‘نگار احمد ریاض نسیم سے مالقات ہوئی‬ ‫حیدرآباد سے میرا تبادلہ‘ سی ایم اییچ بہاول پور ہو گیا۔ یہاں‬


‫مجھے ایک جاروب کش سے مالقات کا موقع مال‘ اور میں نے‬ ‫ان سے زندگی کا حقیقی چلن سیکھا۔ ان سے ملنے کے لیے‘‬ ‫مجھے تھوڑا اوپر سے آنا پڑتا تھا تاہم‘ میں ان سے ملے بغیر‘‬ ‫ڈیوٹی پر نہ جاتا تھا۔ ہماری مالقات فقط ایک لمحے کی ہوتی۔ میں‬ ‫چلتے چلتے ان سے پوچھتا‪ :‬کیا حال ہے سائیں بادشاہ‬ ‫جواب میں‘ وہ جھاڑو زمین پر رکھ دیتے‘ اور ہاتھ جوڑ کر‬ ‫میں نئیں هللا بادشاہ ‘فرماتے‪ :‬نئیں باباجی‬ ‫یہ سن کر میں آگے بڑھ جاتا۔ اس کلمے سے مجھے قلبی سکون‬ ‫میسر آتا۔‬ ‫‪١٩٧٢‬‬ ‫میں‘ میری شادی زیب النسا سے کر دی گئی۔ وہ مر گئی ہے‘ اور‬ ‫میں نے مرنا ہے‘ سچی بات تو یہ ہے کہ مرحومہ بڑی صابر‘‬ ‫لیکن عادت کے ‘قناعت پسند اور شفیق عورت تھی۔ ان پڑھ تھی‬ ‫حوالہ سے‘ پڑھے لکھوں سے‘ کہیں بڑھ کر تھی۔ عمر زیادہ‬ ‫ہونے کے باعث‘ ابتدا میں میرا رویہ بہتر نہ رہا لیکن وہ سب‬ ‫بڑے حوصلے سے‘ برداشت کر جاتی۔ ایک دن میں نے سوچا‘‬ ‫اس میں اس بےچاری کا کیا قصور ہے۔ میں نے خود کو یکسر‬ ‫ہمیں چاند سا بیٹا‘ سید کنور ‘بدل دیا۔ هللا نے عنایت فرمائی‬ ‫عباس عطا کیا۔ پھر تو سب کچھ ہی بدل گیا۔ اس کے بعد‘ زیب‬ ‫النسا مجھے دنیا کی سب سے پیاری عورت محسوس ہونے لگی۔‬ ‫میں یہ تسلیم کرنے میں قطعی شرمندگی محسوس نہیں کرتا‘‬ ‫عجز انکسار اور برداشت کا مادہ‘ زیب النسا سے مال۔ هللا اسے‘‬ ‫قبر میں کروٹ کروٹ سکون عطا فرمائے۔‬


‫شاید ہی کوئی دن ہو گا‘ جس دن میں نے کچھ پڑھا یا لکھا نہ ہو‬ ‫یہ شغل خیر جاری رکھتا۔ دوستوں ‘گا۔ بیماری کی حالت میں بھی‬ ‫تو بھی کوئی ناکوئی معاملہ گفتگو میں رہتا۔ ‘سے مالقات رہتی‬ ‫رسائل میں چھپنے کے باعث‘ بہت سے اہل قلم سے میرا رابطہ‬ ‫اعظم ‘ہو گیا۔ احمد ریاض نسیم سے میرا قلمی رابطہ تو تھا ہی‬ ‫یاد جو ‪ ١٩٥٩‬سے لکھ رہے تھے‘ خط و کتابت رہی۔ اس دور‬ ‫‘میں بڑا مانا ہوا نام تھا۔ ملک شاہ سوار ناصر‘ ایم اے علی‬ ‫کوکب مظہر خاں وغیرہ خط و کتابت میں آ گیے۔‬ ‫میرے قبلہ گاہ کا اصرار تھا‘ کہ میں مزید پڑھوں۔ ان کی ہدایت‬ ‫اور نصیحت پر‘ میں نے پڑھنا شروع کیا۔ کالج کا پروفیسر ہونا‘‬ ‫‪ ١٩٨٥‬کو ‘ان کا خواب تھا‘ اور یہ خواب ان کی زندگی ہی میں‬ ‫شرمندہءتعبیر ہوا۔ انہوں نے ‪ ١٩٨٨‬میں پردہ فرمایا‘ اور خلد‬ ‫نشین ہوئے۔‬ ‫گورنمنٹ کالج نارنگ منڈی ہوئی۔ وہاں ‘میری پہلی تقرری‬ ‫پروفیسر مشتاق راحت‘ ڈاکٹر قیس اسلم‘ ‘پروفیسر امانت علی‬ ‫پروفیسر انور خاں اور پروفیسر رفیق مغل جیسے‘ لوگوں سے‬ ‫ہیلو ہائے ہوئی۔‬ ‫‪١٩٨٧‬‬ ‫میں‘ گورنمنٹ اسالمیہ کالج قصور میں آ گیا۔ پروفیسر ارشاد‬ ‫صحافتی دورے پر رہتے تھے۔ مجھے بی اے کی ‘احمد حقانی‬ ‫تاریخ کا پریڈ دے دیا گیا۔‬


‫ڈاکٹر صادق جنجوعہ کا تبادلہ الہور ہو گیا‘ تو ایک عرصہ تک‬ ‫مجھے سال اول سے سال چہارم تک پنجابی پڑھانے کا موقع مال۔‬ ‫گویا پنجابی اور تاریخ کے طلبا سے‘ میں نے بہت کچھ سیکھا۔‬ ‫پروفیسر عالمہ عبدالغفور ظفر‘ ‘پروفیسر اکرام ہوشیارپوری‬ ‫پروفیسر ڈاکٹر عطاارحمن اور پروفیسر ڈاکٹر ظہور احمد‬ ‫میرے دوستوں میں تھے۔ بعد ازاں پروفیسر امجد علی ‘چودھری‬ ‫شاکر تشریف لے آئے تو ان سے بھی پیار اور دوستی کا رشتہ‬ ‫استوار ہوا۔‬ ‫مختلف رسائل میں چھپنے کے سبب‘ اہل قلم سے رابطہ بڑھتا‬ ‫ڈاکٹر محمد امین ‘چال گیا۔ ان میں ڈاکٹر بیدل حیدری‬ ‫ڈاکٹر نجیب جمال‘ ڈاکٹر ‘ڈاکٹر اختر شمار ڈاکٹر وفا راشدی ‘‬ ‫پروفیسر حفیظ ‘ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی ‘وقار احمد رضوی‬ ‫‘تاج پیامی ‘ڈاکٹر تبسم کاشمیری ‘ڈاکٹر گوہر نوشاہی ‘صدیقی‬ ‫پروفیسر کلیم ضیا‘ ڈاکٹر مظفر عباس‘ ڈاکٹر منیر الدین احمد‘‬ ‫‘ڈاکٹر عبدالقوی ضیا‘ ڈاکٹر آغا سہیل‘ ڈاکٹر سید اسعد گیالنی‬ ‫‘موالنا نعیم صدیقی ‘ڈاکٹر قاسم دہلوی ‘ڈاکٹر فرمان فتح پوری‬ ‫موالنا وصی مظہر ندوی وغیرہم سے قلمی رابطہ رہا۔‬ ‫ڈاکٹر سعادت سعید‘ ڈاکٹر انیس ناگی اور مبارک احمد‘ کی‬ ‫سرگرمیاں میری توجہ کا مرکز رہیں۔‬


‫الہور فٹ پاتھ پر سے کتابیں خریدنے جاتا تو ڈاکثر سہیل احمد‬ ‫خاں اور ڈاکٹر سید معین الرحمن سے ضرور ملتا۔ ڈاکٹر تحسین‬ ‫فراقی سے خط و کتابت اور مالقات بھی رہی۔‬ ‫ڈاکٹر نور العالم‘ مستقل نمائندہ یو این او صوفی ہیں۔ ان سے میرا‬ ‫محبت اور خلوص کا رشتہ رہا۔ ان کی محبت کا ثمرہ ہے‘ جو میں‬ ‫نے تصوف کے حوالہ سے‘ مضامین لکھے‘ جو‬ ‫‪www.scribd.com‬‬

‫پر موجود ہیں۔‬ ‫ایمان داری کی بات یہ ہی ہے‘ کہ جہاں حاالت اور وقت نے‬ ‫سکھایا‘ وہاں میں نے ان لوگوں سے بھی بہت کچھ سیکھا۔ یہ‬ ‫سب میرے لیے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ میں نے جو بھی ناچیز‬ ‫سا کام کیا ہے‘ سب ان کی محبتوں اور عطاوں کا پھل ہے۔‬ ‫مجھے بہت کچھ ‘سچ پوچھیے‘ تو انار کلی فٹ پاتھ نے بھی‬ ‫سکھایا ہے۔‬


‫مقصود حسنی اور برصغیر کا مضافاتی اور مغربی ادب‬ ‫محبوب عالم ۔۔۔۔۔۔۔ قصور‬ ‫پروفیسر مقصود حسنی اردو کے جدید وقدیم شعری و نثری ادب‬ ‫کے مطالعہ تک محدود نہیں ہیں۔ انہوں نے برصغیر سے باہر‬ ‫بھی دیکھا ہے۔ ان کے ہاں اس ذیل کے مختلف ذائقے نظر آتے‬ ‫ہیں۔ وہ ان تمام عوامل کا بھی جائزہ لیتے ہیں جو اس کے‬ ‫بنیادی فکر اور زبان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس مطالعے کی‬ ‫پانچ صورتیں دیکھنے کو ملتی ہیں‬ ‫انفرادی ‪١-‬‬ ‫مجموعی ‪٢-‬‬ ‫تقابلی ‪٣-‬‬ ‫رجحانی ‪٣-‬‬ ‫تشریحی اور وضاحتی ‪٥-‬‬ ‫اردو ادب سے متعلق ان کی خدمات نمایاں اور مختلف گوشوں پر‬ ‫پھیلی ہوئی ہیں جنھیں اردوادب کے نامورمحقق سند پذیرائی‬ ‫عطا کر چکے ہیں۔‬ ‫برصغیر سے باہر کے ادب کے مطلعہ کی دو صورتیں ہیں‬ ‫ایشیائی شعر وادب‬ ‫مغربی شعر وادب‬ ‫ڈیوڈ کوگلٹی نوف نمائندہ روسی شاعر ہے۔ اس کی شاعری کے‬ ‫مطلعہ کا باباجی مقصود حسنی کے ہاں حاصل مطلعہ کچھ یہ ہے‬ ‫ڈیوڈ شر کے مقابل خیر کی حمایت کا قائل ہے۔ اس کے نزدیک‬


‫خیر کی حمایت ہی‬ ‫حقیقی زندگی ہے۔ خیر کی حمایت کرنے والے بظاہر لمبی عمر‬ ‫نہیں پاتے۔ دار ورسن ان کا مقدر ہوتا ہے لیکن خیر کی حمایت‬ ‫میں گزرے لحمے ہی تو ابدیت سے ہم کنار ہوتے ہیں۔‬ ‫شعریات شرق وغرب ص‪٢٢٧‬‬ ‫روس میں ترقی پسندی کے نام سے اٹھنے والی تحریک کو بھی‬ ‫نظر انداز نہیں کیا گیا۔ اس ذیل میں ایک بھرپور مقالہ۔۔۔۔۔۔ترقی‬ ‫پسند تحریک۔۔۔۔۔۔ ان کی کتاب تحریکات اردو ادب میں شامل ہے۔‬ ‫فینگ سیو فینگ چینی زبان کا خوش فکر شاعر ہے۔ باباجی‬ ‫مقصود حسنی نے ناصرف اس کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ‬ ‫پیش کیا ہے بلکہ اس کی کچھ نظموں کا ترجمہ بھی کیا ہے۔‬ ‫فینگ سیو فینگ کی شاعری کے متعلق ان کا کہنا ہے‬ ‫فینگ سیو فینگ کی شاعری کرب ناک لمحوں کی عکاس ہے۔‬ ‫اس کے کالم میں جہاں لہو لہو سسکیاں ہیں تو وہاں امید کے‬ ‫بےشمار دیپ بھی جلتے نظرآتے ہیں۔‬ ‫روزنامہ نوائے وقت الہور ‪ -٧‬اپریل ‪١٩٨٨‬‬ ‫بطور نمونہ ایک نظم کا ترجمہ مالحظہ ہو‬ ‫شاعر‪ :‬فینگ سیو فینگ‬ ‫مترجم‪ :‬مقصود حسنی‬ ‫میں بد قسمتی پہ اک نظم لکھنے کو تھا‬


‫مری آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے‬ ‫کاغذ بھر گیا‬ ‫اور میں نے قلم نیچے رکھ دیا‬ ‫کیا اشکوں سے تر کاغذ‬ ‫لوگوں کو دکھا سکتا تھا؟‬ ‫وہ سمجھ پاتے‬ ‫یہی تو بد قسمتی ہے‬ ‫زائی زی لیو چینی مصور تھا۔ باباجی مقصود حسنی کواس کی‬ ‫مصوری نے متاثر کیا۔ انہوں نے اس کےتصویری ورک کو قدر‬ ‫کی نظر سے دیکھا اوراسے خراج تحسین پیش کیا۔ ان کا اس‬ ‫کی مصوری سے متعلق مضمون رزنامہ مشرق الہور میں شائع‬ ‫ہوا۔‬ ‫چین سے باباجی کی فکری قربت کااندازہ ان کے مضمون۔۔۔۔۔چین‬ ‫دوستی عالقہ میں مثبت کردار ادا کر سکتی ہے۔۔۔۔۔ سے لگایا جا‬ ‫سکتا ہے۔‬ ‫یہ مضمون روزنامہ مشرق الہور ‪ ٩‬اپریل ‪ ١٩٨٨‬کی اشاعت میں‬ ‫شامل ہے۔‬ ‫صادق ہدایت فارسی کا ناول نگار تھا۔ اس کے ناول۔۔۔۔ بوف‬ ‫کور۔۔۔۔۔ کا مطالعہ پیش کیا۔ ان کا یہ مضمون ماہنامہ تفاخر الہور‬ ‫کے مارچ ‪ ١٩٩١‬کے شمارے مینشائع ہوا۔‬ ‫فارسی کے پاکستانی زبانوں پر اثرات۔۔۔۔ تین اقساط میں اردو نیٹ‬ ‫جاپان پر شائع ہوا۔‬


‫عمر خیام فارسی کے شعری ادب میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔‬ ‫باباجی نے اس پر بھرپور قسم کا کام کیا ہے۔ یہ کام چھے‬ ‫حصوں پر مشتمل ہے‬ ‫عمر خیام سوانح و شخصیت اوراس کا عہد ‪١-‬‬ ‫رباعیات خیام کا تنقیدی و تشریحی مطالعہ ‪٢-‬‬ ‫رباعیات خیام کے شعری محاسن ‪٣-‬‬ ‫عمر خیام کے نظریات واعتقادات ‪٤-‬‬ ‫عمر خیام کا فلسفہءوجود ‪٥-‬‬ ‫سہ مصرعی اردو ترجمہ رباعیات خیام ‪٦-‬‬ ‫ان کے اس ترجمے کو بڑی پذیرائی حاصل ہوئی نامور اہل قلم‬ ‫نے اپنی رائے کا اظہار کیا‪ -‬مثال‬ ‫ڈاکٹر عبدالقوی ضیا کینیڈا‬ ‫ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی‬ ‫ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی‬ ‫ڈاکٹر ابوسعید نورالدین‘ ڈھاکہ‘ بنگلہ دیش‬ ‫ڈاکٹراسلم ثاقب‘ مالیر کوٹلہ‘ بھارت‬ ‫ڈاکٹر اختر علی‬ ‫ڈاکٹر وفا راشدی‬ ‫ڈاکٹر صابر آفاقی‬ ‫ڈاکٹر منیرالدین احمد‘ جرمنی‬ ‫انڈیا ‘پروفیسر کلیم ضیا‘ بمبئی‬ ‫پرفیسر رب نواز مائل‬ ‫پروفیسراکرام ہوشیار پوری‬ ‫پروفیسرامجد علی شاکر‬


‫پروفیسر حسین سحر‬ ‫پروفیسر عطاالرحمن‬ ‫ڈاکٹر رشید امجد‬ ‫ڈاکٹر محمد امین‬ ‫علی دیپک قزلباش‬ ‫سید نذیر حسین فاضل‬ ‫بطور نمونہ ایک رباعی کا ترجمہ مالحظہ ہو‬ ‫کیا خوب زندگی ہو گی ‘وہ زندگی‬ ‫مری مٹی سے تعمیر ہو کر‬ ‫جام‘ جب مےکدے سے طلوع ہو گا‬ ‫بوعلی قلندر کا اسی دھرتی سے تعلق تھا۔ باباجی نے ان کی‬ ‫مثنوی کا عہد سالطین کے حوالہ سے مطالعہ کیا۔ ان کایہ مقالہ‬ ‫پیام آشنا میں شائع ہوا جو بعد ازاں بابا جی کی کتاب ۔۔۔۔۔شعریات‬ ‫شرق وغرب۔۔۔۔۔۔کا حصہ بنا۔‬ ‫اقبال اور عالمہ رازی کی فکر۔ کا تقابلی مطالعہ۔۔۔۔۔۔یہ مقالہ بابا‬ ‫جی کی محنت وکاوش کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔‬ ‫یہ مقالہ اردو انجمن اور کئی دوسرے فورمز پر موجود ہے۔‬ ‫ان کا ایک مقالہ۔۔۔۔۔عربی کے پاکستانی زبانوں پر اثرات۔۔۔بڑا‬ ‫شاندار مقالہ ہے اور یہ‬ ‫‪www.scribd.com‬‬

‫پر موجود ہے۔‬


‫انہوں نے جاپانی آوازوں کے نظام پر تفصیلی مقالہ تحریر کیا۔‬ ‫اس مقالے کا کچھ حصہ اردو میں بھی منتقل کیا۔ اصل مقالہ‬ ‫‪www.scribd.com‬‬

‫پر موجود ہے۔ اس کا اردو ترجمہ تین قسطوں میں اردو نیٹ‬ ‫جاپان پر شائع ہوا۔ اس مقالے کی نگرانی وغیرہ پروفیسر ڈاکٹر‬ ‫ماسا آکی اوکا نے کی۔ اس مقالے کا اصل کمال یہ ہے کہ جاپانی‬ ‫آوازوں کے ساتھ برصغیر کی آوازوں کے اشتراک کو بھی‬ ‫واضح کیا گیا ہے۔ ہر جاپانی آواز کے ساتھ اردو کی آوازوں کا‬ ‫موازناتی اوراشتراکی مطالعہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے۔‬ ‫مطلعہ کی پیاس انہیں دور مغرب میں بھی لے گئی۔ باباجی نے‬ ‫اپنے مطالعہ میں آنے والے اہل قلم کی فکر کو اپنی آراء کے‬ ‫ساتھ اردو دان طبقے کے سامنے بھی پیش کیا۔ اس حوالہ سے‬ ‫باباجی کو کسی ایک کرے تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں‬ ‫نےمغرب کا مطالعہ ارسطو سے شروع کیا۔۔۔۔ شاعری پر ایک‬ ‫عام اور بالموازنہ نظر۔۔۔۔۔ مقالہ ان کی کتاب اصول اور جائزے‬ ‫میں شامل ہے۔‬ ‫مغرب کے مطالعہ کے حوالہ سے ان کے درج ذیل مضامین قابل‬ ‫ذکر ہیں‬ ‫ایلیٹ اور ادب میں روایت کی اہمیت۔۔۔۔۔۔مسودہ‬ ‫شیلے کا نظریہءشعر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مشمولہ شعریات شرق وغرب‬ ‫جان کیٹس کا شعور شعر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق وغرب‬ ‫شارل بودلیئر کا شعری شعور۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق وغرب‬ ‫شارل بودلیئر اور اردو کی نئی نظم۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق‬


‫وغرب‬ ‫ژاں پال سارتر اور اردو کی نئی نظم۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق‬ ‫وغرب‬ ‫کروچے اور اردو کی نئی نظم۔۔۔۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق وغرب‬ ‫ورڈزورتھ اور اردو کی نئی نظم۔۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق و‬ ‫غرب‬ ‫مغربی اہل سخن پر بات کرتے ہوئے اردو شعرا کے حوالے بھی‬ ‫درج کرتے ہیں۔ اکثر موازناتی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ امر‬ ‫بھی غالب رہتا ہے کہ اردو شعر و ادب مغرب کے شعر ادب‬ ‫سے زیادہ جان دار اور زندگی کے دکھ سکھ کو واضح کرنے‬ ‫میں کامیاب ہے۔‬ ‫باباجی مقصود حسنی مغربی شعر و ادب کا جائزہ لیتے ہوئے‬ ‫صرف شخصی محاکمے تک محدود نہیں رہتے۔ وہ مجموعی‬ ‫مطالعہ بھی پیش کرتے ہیں۔ اس ذیل میں ان کے یہ مقالے قابل‬ ‫توجہ ہیں‬ ‫مغرب میں تنقید شعر‪------‬مشمولہ شعریات شرق و غرب ‪١-‬‬ ‫ناوریجین شاعری کے فکری و سماجی زاویے‪------‬مشمولہ ‪٢-‬‬ ‫شعریات شرق و غرب‬ ‫شاعری اور مغرب کے معروف ناقدین۔۔۔۔۔۔۔۔مسودہ ‪٣-‬‬ ‫اقبال اور مغربی مفکرین ‪---------‬مسودہ ‪٤-‬‬ ‫اکبر اور مغربی تہذیب۔۔۔۔۔روزنامہ وفاق الہور ‪ ٢٦-٢٥‬جوالئی‬ ‫‪١٩٩١‬‬ ‫اکبر اقبال اور مغربی زاویے۔۔۔۔۔ہفت روزہ فروغ حیدرآباد ‪١٦‬‬ ‫جوائی ‪١٩٩١‬‬


‫شیلے اور زاہدہ صدیقی کی نظمیں۔۔۔۔ ماہنامہ تحریریں الہور‬ ‫دسمبر ‪١٩٩٣‬‬ ‫انگریزی اور اردو کا محاورتی اشتراک ۔۔۔۔۔سہ ماہی لوح ادب‬ ‫حیدرآباد اپریل تا جون ‪٢٠٠٤‬‬ ‫جرمن شاعری کے فکری زاویے ‪٥-‬‬ ‫باباجی کی یہ کتاب ‪ ١٩٩٣‬میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب سات‬ ‫حصوں پر مشتمل ہے۔‬ ‫اس کی تفصیل کچھہ یہ ہے‬ ‫ا‪ -‬جرمن شاعری اور فلسفہء جنگ‬ ‫ب‪ -‬جرمن شاعری اور تصور انسان‬ ‫ج‪ -‬جرمن شاعری کا نظریہء محبت‬ ‫د۔ جرمن شاعری کا نظریہءزندگی‬ ‫ھ‪ -‬جرمن شاعری اور فلسفہءفنا‬ ‫و۔ جرمن شاعری اور امن کی خواہش‬ ‫ظ‪ -‬جرمن شاعری اور انسانی اقدار‬ ‫جرمن قوم کے حوالہ سے ان کا ایک مضمون بعنوان جرمن ایک‬ ‫خودشناس قوم‘ کے نام سے روزنامہ مشرق الہور کی اشاعت ‪٥‬‬ ‫مئی ‪ ١٩٨٨‬میں شائع ہوا۔ اس سے اندازہ ہوتا کہ وہ جرمن قوم‬ ‫کو فکری اعتبار سے کس قدر اپنے قریب محسوس کرتے تھے۔‬ ‫اس کے عالوہ بابا جی مقصود حسنی نے مغربی ادب میں اٹھنے‬ ‫والی معروف تحریکوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا۔ اس حوالہ‬ ‫سے ان کی کتاب تحریکات اردو ادب میں حسب ذیل مقالے‬ ‫موجود ہیں۔ یہ کتاب ‪ ١٩٩٧‬میں شائع ہوئی۔‬ ‫شعور کی رو اور اردو فیکشن‬


‫فطرت نگاری اور اردو فیکشن‬ ‫عالمتی تحریک اور اردو شاعری‬ ‫امیجزم اور اردو شاعری‬ ‫ڈاڈا ازم اور اردو شاعری‬ ‫سریلزم اور اردو شاعری‬ ‫نئی دنیا اور رومانی تحریک‬ ‫وجودیت ایک فلسفہ ایک تحریک‬ ‫ساختیات کے حوالہ سے باباجی نے بہت کام کیا ہے۔ دو مقالے‬ ‫ان کے پی ایچ ڈی کے مقالہ میں موجود ہیں جب کہ ایک مقالہ‬ ‫ان کی کتاب۔۔۔۔۔زبان غالب کا لسانی و ساختیاتی مطالعہ۔۔۔۔۔۔ میں‬ ‫موجود ہے۔ مقالہ پی ایچ ڈی اور‬ ‫کتاب۔۔۔۔۔زبان غالب کا لسانی و ساختیاتی مطالعہ۔۔۔۔۔۔ میں نشانیات‬ ‫غالب کا ساختیاتی مطالعہ بھی پیش کیا گیا ہے۔‬ ‫حضرت بلھے شاہ قصوری کا اردو کالم علیحدہ کرتے‬ ‫ہوئےانہوں نے حضرت بلھے شاہ قصوری کی زبان کا لسانی‬ ‫مطالعہ پیش کیا ہے۔ ان کے اس مطالعے کو ڈاکٹر محمد امین‬ ‫نے کسی شاعر کا باقاعدہ پہال ساختیاتی مطالعہ قرار دیا ہے۔‬ ‫اردو شعر‪ -‬فکری و لسانی رویے ‪ ١٩٩٧‬ص ‪١١٥‬‬ ‫باباجی مقصود حسنی کی کتاب اردو میں نئی نظم مغربی شاعری‬ ‫کے تناظر میں قلم بند ہوئی۔ اس میں ایک طرح سے مغربی نظم‬ ‫اور اردو نظم کا تقابلی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ ان کی یہ کتاب‬ ‫مئی ‪ ١٩٩٣‬میں شائع ہوئی۔‬


‫منیرالدین احمد ایک اردو افسانہ نگار ہیں۔ ان کے افسانوں کی‬ ‫زبان اردو ہے لیکن مواد یہاں کی معاشرت سے متعلق نہیں ہے۔‬ ‫کردار ماحول مکالمے نقطہءنظر وغیرہ قطعی الگ تر ہیں۔ اس‬ ‫ضمن میں باباجی نے منیر کا حوالہ بھی کوڈ کیا ہے جو کتاب‬ ‫کے پیش لفظ میں موجود ہے۔ منیر کا کہنا ہے‪ :‬اردو میں لکھے‬ ‫جانے والے یہ جرمن افسانے ہیں جو جرمن روایت کے تحت‬ ‫لکھے گئے ہیں۔ گویا سب کچھ جرمن ہے۔ منیرالدین احمد کے‬ ‫افسانوں سے متعلق باباجی کی کتاب۔۔۔۔منیرالدین احمد کے‬ ‫افسانے‪ -‬تنقیدی جائزہ ‪١٩٩٥‬میں شائع ہوئی۔ ابتدا میں‬ ‫منیرالدین احمد کے دس نمائندہ افسانوں کا مطالعہ پیش کیا گیا‬ ‫ہے۔ اس کے بعد تین عنوان قائم کئےگئے ہیں‬ ‫منیر کے چند افسانوی کردار‬ ‫منیر کے افسانوں میں ثقافتی عکاسی‬ ‫منیر اپنے افسانوں میں‬ ‫منیرالدین احمد کےافسانوں کا مطالعہ گویا جرمن افسانوں کا‬ ‫مطالعہ ہے۔‬ ‫باباجی کی ان کاوش ہا کے متعلق معروف اسکالر ڈاکٹر سعادت‬ ‫سعید کا کہنا ہے‪ :‬مقصود حسنی نے معاصر مغرب کے نظریاتی‬ ‫تنقیدی جوہروں سے گہری شناسائی رکھنے کا مظاہرہ بھی کیا‬ ‫ہے۔ اس پس منظر میں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ادب شناسی‬ ‫کے حوالے سے مشرق و مغرب کی تفریق کو کار عبث جانتے‬ ‫ہیں۔ نئی مغربی تنقید کے پس پشت جو عوامل کار فرما ہیں ان‬ ‫کا بھی انھیں بخوبی اندازہ ہے۔ یوں انہوں نے پوسٹ کلونیل یا‬


‫مابعد نوآبادیاتی تنقید کے میکانکی رویوں سے نسبت رکھنے‬ ‫سے زیادہ اپنے مشرقی علم بیان کی سحر انگیریوں پر توجہ دی‬ ‫ہے۔ اس تناظر میں مقصود حسنی کی تاثراتی اور اظہاری تنقید‬ ‫کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ جس میں ان کے شعری و‬ ‫‪‘ ٧‬ادبی ذوق کے عکسی مظاہرے موجود ہیں۔ اردو نیٹ جاپان‬ ‫جنوری ‪٢٠١٤‬‬ ‫ان کے اس نوعیت کے مطلعے سےمتعلق بہت سے اہل قلم نے‬ ‫قلم اٹھایا۔ چند ایک اندراج کر رہا ہوں‬ ‫آشا پربھات‬ ‫ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری‬ ‫ڈاکٹر ابوسعید نورالدین‬ ‫ادیب سہیل‬ ‫پروفیسرامجد علی شاکر‬ ‫ڈاکٹر بیدل حیدری‬ ‫پروفیسر رب نواز مائل‬ ‫پروفیسر حفیظ صدیقی‬ ‫ڈاکٹر سعادت سعید‬ ‫شاہد حنائی‬ ‫ڈاکٹر صابرآفاقی‬ ‫ڈاکٹر صادق جنجوعہ‬ ‫علی دیپک قزلباش‬ ‫دہلی ‘ڈاکٹر قاسم دہلوی‬ ‫پروفیسر نیامت علی‬ ‫ڈاکٹر مظفر عباس‬


‫ڈاکٹر منیرالدین احمد‘ جرمن‬ ‫ندیم شعیب‬ ‫ڈاکٹر وفا راشدی‬ ‫ڈاکٹر وقار احمد رضوی‬ ‫پروفیسر یونس حسن‬ ‫درج باال تفصیالت سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ باباجی‬ ‫مقصود حسنی اپنی تحقیقی اور تنقیدی بصیرت کے سبب ہمہ‬ ‫وقت مختلف ادبی کروں کے نمائندہ حرف کار ہیں۔ ہر کرے میں‬ ‫ان کی ایک شناخت وجود پذیر ہوتی ہے۔ اسی تناظر میں انہیں‬ ‫ادب کی دنیا کا لیجنڈ قرار دینا‘ کسی بھی حوالہ سے غلط نہ ہو‬ ‫گا۔ آتے کل کو ان کی ادبی شناخت کے لیے مروجہ اور مستعمل‬ ‫پیمانوں سے انحراف کرنا پڑے گا۔‬


‫مقصود حسنی کے تنقیدی جائزے۔۔۔۔۔ ایک تدوینی مطالعہ‬ ‫محبوب عالم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قصور‬ ‫تخلیق‘ تنقید اور تحقیق انسانی فطرت کا حصہ ہیں۔ کچھ لوگ ان‬ ‫سے زیادہ قربت اختیار کرتے ہیں اور اپنی کاوششوں کو کاغذ‬ ‫پر منتقل کر دیتے ہیں یا انہیں عملی جامہ پہنا دیتے ہیں۔ ان کے‬ ‫برعکس کچھ لوگ ان صالحیتوں کا بہت ہی کم استعمال کرتے‬ ‫ہیں تاہم ان سے کچھ نہ کچھ نادانستہ طور پر ہوتا رہتا ہے۔ جس‬ ‫طرح سائنسی ایجادات زندگی میں آسودگی یا عدم تحفظ کا سبب‬ ‫بنتی ہیں‘ بالکل اسی طرح ادبی تخلیقات بھی انسانی زندگی پر‬ ‫اپنے اثرات چھوڑتی ہیں۔ انسانی رویوں‘ رجحانات اور ترجیحات‬ ‫میں تبدیلی التی ہیں۔ تخلیق ادب کے لیے جہاں ایک فکر انگیز‬ ‫احساس اور شعور کی ضرورت ہوتی ہے وہاں اس ادب کی جانچ‬ ‫اور پرکھ کے لیے اس سے قریب تر تنقیدی شعور بھی ہونا‬ ‫چاہیے۔ ادبی سرمائے کی صحیح تفہیم کے لیے تنقیدی شعور کا‬ ‫معقول ہونا ضروری ہے۔ تنقید اپنی اصل میں مطالعہ کا سلیقہ‬ ‫سکھاتی ہے۔‬ ‫پروفیسر مقصود حسنی نے اپنی تمام عمر ادب کی خدمت کرتے‬ ‫گزاری ہے۔ انہوں نےتقریبا ہر صنف ادب پر عقابی نظر رکھی‬ ‫ہے۔ تنقید بھی ان کا میدان عشق رہا ہے۔ شرق و غرب کے اہل‬ ‫قلم کی کاوشوں کو جانچا اور پرکھا ہے۔ ان کی نہ صرف ادبی‬ ‫حیثیت و اہمیت کا تعین کیا ہے بلکہ اس کے ممکنہ سماجی‬ ‫اثرات کا بھی اندازہ پیش کیا ہے۔ یہ بھی کہ وہ کس سماجی‬


‫رویے یا رجحان کا نتیجہ ہیں‘ کا بھی ذکر کیا ہے۔ ادبی کاوشوں‬ ‫پر ان کا اظہار خیال کسی سطح پر نظر انداز نہ کیا جا سکے گا۔‬ ‫باباجی مقصود حسنی کسی ادبی گروپ یا گروہ سے منسلک نہیں‬ ‫رہے۔ وہ کسی انسالک کے قائل بھی نہیں ہیں۔ انہوں نے جس‬ ‫تخلیق پر بھی اظہار خیال کیا ہے اپنا بندہ ہے‘ سے ہٹ کر کیا‬ ‫ہے۔ انہوں نے وہی لکھا ہے جو نظرآیا ہے یا جو انہوں نے‬ ‫محسوس کیا ہے۔ وہ ان تخلیقات کے سماجی معاشی اور‬ ‫نظریاتی حوالوں کو بھی دوران مطالعہ نظر میں رکھتے ہیں۔ وہ‬ ‫ان عوامل تک اپروچ کی کوشش کرتے ہیں جو وجہءتخلیق بنے‬ ‫ہوتے ہیں۔‬ ‫تاریخ سے بھی باباجی شغف رکھتے ہیں‘ اس لیے وہ یہ بھی‬ ‫دیکھتے ہیں کہ زیر مطالعہ کاوش ادبی تاریخ کے کس مقام و‬ ‫مرتبے پر کھڑی ہے۔ مطالعہ کے دوران تقابلی صورت کو بھی‬ ‫فنی اور لسانی ‘زیر بحث التے ہیں۔ ادبی تخلیق کے فکری‬ ‫متوازن احاطہ باباجی کے تنقیدی رویوں کا امتیازی پہلو ہے اور‬ ‫انہیں دوسرے نقادوں سے ممتاز کرتا ہے۔‬ ‫باباجی مقصود حسنی کی نظر فن پارے کے تخلیقی تحرک پر‬ ‫مرتکز رہتی ہے۔ وہ اس کھوج میں رہتے ہیں کہ کون کون سے‬ ‫عوامل تھے‘ جو اس کاوش کی تخلیق کا سبب بنے۔ وہ اس امر‬ ‫کو بھی نظر انداز نہیں کرتے کہ اس تخلیق کے اضافے سے‬ ‫ادب کا چہرا کیسا دکھائی دے گا۔ لسانیات چونکہ ان کی پسند کا‬ ‫میدان ہے‘ اس لیے وہ اس تخلیق کو لسانی حوالہ سے ضرور‬ ‫پرکھتے ہیں اور اس کی لسانی خوبیوں وغیرہ پر گفتگو کرتے‬


‫ہیں۔ ان کے نزدیک کوئی جملہ چاہے کسی جاہل کے منہ ہی‬ ‫سے کیوں نہ نکال ہو‘ لسانی حوالہ سے بےکار نہیں۔ اس میں‬ ‫کچھ نہ کچھ نیا ضرور ہوتا ہے۔ کوئی اصطالح میسرآ سکتی ہے‬ ‫جو پہلے استعمال میں نہیں آئی ہوتی۔ اس کا مقامی اور نیا تلفظ‬ ‫سامنے آ سکتا ہے۔ یہی وہ وجہ ہے کہ وہ اس تخلیق کے‬ ‫لسانی پہلو پر بھی نظر ڈالتے ہیں۔‬ ‫ادب کی تنقیدی روایت میں جہاں انہوں نے انفرادی طور پر‬ ‫ادیبوں کی تخلیقات کو موضوع بنایا ہے وہاں تحقیقی اور تنقیدی‬ ‫کتب پر بھی احسن انداز میں گفتگو کی ہے۔ نفاست اور رکھ‬ ‫رکھاؤ کو ان کے مضامین کا طرہءامتیاز قرار دینا غلط نہ ہو گا۔‬ ‫میں نے بصد کوشش ان کے پچاس سے زائد مطبوعہ و غیر‬ ‫مطبوعہ مضامین کو تالش کیا ہے۔ ممکن ہے ادبی تحیقیق کرنے‬ ‫والوں کے لیے کام کے ثابت ہوں۔ ان مضامین پر تحقیقی کام‬ ‫کرنے کی ضرورت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکےگا۔‬ ‫ماہنامہ تفاخر الہور مارچ ‪١-‬‬ ‫بوف کور۔۔۔ایک جائزہ‬ ‫‪١٩٩١‬‬ ‫اکبر اقبال اور مغربی زاویے ہفت روزہ فروغ حیدرآباد ‪٢- ١٦‬‬ ‫جوالئی ‪١٩٩١‬‬ ‫اکبر اور تہذیب مغرب۔۔۔۔۔۔روزنامہ وفاق الہور ‪ ٢٥‬جوالئی ‪٣-‬‬ ‫‪١٩٩١‬‬ ‫نذیر احمد کے کرداروں کا تاریخی شعور ماہنامہ صریر ‪٤-‬‬ ‫کراچی مئی ‪١٩٩٢‬‬ ‫کرشن چندر کی کردار نگاری ماہنامہ تحریریں الہور ‪٥-‬‬


‫جون۔جوالئی ‪١٩٩٢‬‬ ‫اسلوب‘ تنقیدی جائزہ سہ ماہی صحیفہ الہور جوالئی تا ‪٦-‬‬ ‫ستمبر ‪١٩٩٢‬‬ ‫پطرس بخاری کے قہقہوں کی سرگزشت ماہنامہ تجدید نو ‪٧-‬‬ ‫الہور اپریل ‪١٩٩٣‬‬ ‫شیلے اور زاہدہ صدیقی کی نظمیں ماہنامہ تحریریں الہور ‪٨-‬‬ ‫دسمبر ‪١٩٩٣‬‬ ‫شوکت الہ آبادی کی نعتیہ شاعری ماہنامہ االانسان کراچی ‪٩-‬‬ ‫دسمبر ‪١٩٩٣‬‬ ‫میرے بزرگ میرے ہم عصر‘ ایک جائزہ ماہنامہ اردو ادب ‪١٠-‬‬ ‫اسالم آباد اپریل۔جون ‪١٩٩٦‬‬ ‫یا عبدالبہا‘ تشریحی مطالعہ ماہنامہ نفحات الہور جوالئی ‪١١-‬‬ ‫‪١٩٩٦‬‬ ‫ڈاکٹر محمد امین کی ہائیکو نگاری ماہنامہ ادب لطیف ‪١٢-‬‬ ‫الہور اکتوبر ‪١٩٩٦‬‬ ‫بیدل حیدری اردو غزل کی توانا آواز مشمولہ شعریات ‪١٣-‬‬ ‫شرق و غرب ‪١٩٩٦‬‬ ‫کثرت نظارہ۔۔۔ایک منفرد سفرنامہ پندرہ روزہ ہزارہ ٹائمز ‪١٤-‬‬ ‫ایبٹ آباد یکم جوالئی ‪١٩٩٧‬‬ ‫داستان وفا۔۔۔۔ایک مطالعہ ماہنامہ اردو ادب اسالم آباد ‪١٥-‬‬ ‫نومبر۔ دسمبر ‪١٩٩٧‬‬ ‫شاہی کی کی شاعری کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ ‪١٦-‬‬ ‫مشمولہ کتاب اردو شعر۔۔۔فکری و لسانی رویے ‪١٩٩٧‬‬ ‫ڈاکٹر بیدل حیدری کی اردو غزل مشمولہ کتاب اردو ‪١٧-‬‬ ‫شعر۔۔۔فکری و لسانی رویے ‪١٩٩٧‬‬


‫پروفیسر مائل کی اردو نظم مشمولہ کتاب اردو شعر۔۔۔فکری ‪١٨-‬‬ ‫و لسانی رویے ‪١٩٩٧‬‬ ‫عالمہ مشرقی اور تسخیر کائنات کی فالسفی ہفت روزہ ‪١٩-‬‬ ‫االصالح الہور ‪ ٥‬تا ‪ ١٨‬مئی ‪١٩٩٨‬‬ ‫ڈاکٹر منیر احمد کے افسانے اور مغربی طرز حیات ماہنامہ ‪٢٠-‬‬ ‫ادب لطیف الہور جنوری ‪١٩٩٩‬‬ ‫ڈاکٹر منیر احمد کا ایک متحر کردار ماہنامہ الہور دسمبر ‪٢١-‬‬ ‫‪١٩٩٩‬‬ ‫حفیظ صدیقی کے دس نعتعہ اشعار ماہنامہ تحریریں الہور ‪٢٢-‬‬ ‫جوالئی ‪١٩٩٩‬‬ ‫رئیس امروہوی کی قطعہ نگاری ماہنامہ نوائے پٹھان ‪٢٣-‬‬ ‫الہور جون ‪٢٠٠٢‬‬ ‫ڈاکٹر وفا راشدی شخصیت اور ادبی خدمات ماہنامہ نوائے ‪٢٤-‬‬ ‫پٹھان الہور جون ‪٢٠٠٢‬‬ ‫ڈاکٹر معین الرحمن۔۔۔ ایک ہمہ جہت شخصیت۔۔ مشمولہ نذر ‪٢٥-‬‬ ‫معین مرتب محمد سعید ‪٢٠٠٣‬‬ ‫قبلہ سید صاحب کے چند اردو نواز جملے نوائے پٹھان ‪٢٦-‬‬ ‫الہور جوالئی ‪٢٠٠٤‬‬ ‫مہر کاچیلوی کے افسانے۔۔۔۔۔تنقدی مطالعہ سہ ماہی لوح ‪٢٧-‬‬ ‫ادب حیدرآباد اپریل تا ستمبر ‪٢٠٠٤‬‬ ‫اردو شاعری کا ایک خوش فکر شاعر ماہنامہ رشحات ‪٢٨-‬‬ ‫الہور جوالئی ‪٢٠٠٥‬‬ ‫عابد انصاری احساس کا شاعر ماہنامہ رشحات الہور ‪٢٩-‬‬ ‫مارچ ‪٢٠٠٦‬‬ ‫پروفیسر مائل کی غزل کی فکر اور زبان ماہنامہ رشحات ‪٣٠-‬‬


‫الہور اگست ‪٢٠٠٦‬‬ ‫دل ہے عشقی تاج کا ایک نقش منفرد کتابی سلسلہ پہچان ‪٣١-‬‬ ‫نمبر‪٢٤‬‬ ‫جدید اردو شاعری کے چند محاکاتکر ہماری ویب ڈاٹ کام ‪٣٢-‬‬ ‫اردو میں منظوم سیرت نگاری اردو نیٹ جاپان ‪٣٣-‬‬ ‫اختر شمار کی اختر شماری کتابت شدہ مسودہ ‪٣٤-‬‬ ‫سرسید اور ڈیپٹی نذیر احمد کی ناول نگاری کتابت شدہ ‪٣٥-‬‬ ‫مسودہ‬ ‫سرسید اردو۔ معروضی حاالت کے نظریے اساس کتابت ‪٣٦-‬‬ ‫شدہ مسودہ‬ ‫اردو داستان۔۔ تحقیقی و تنقیدی مطالعہ کتابت شدہ مسودہ ‪٣٧-‬‬ ‫تاریخ اردو۔۔۔ایک جائزہ کتابت شدہ مسودہ ‪٣٨-‬‬ ‫اکبر الہ آبادی تحقیقی وتنقدی مطالعہ کتابت شدہ مسودہ ‪٣٩-‬‬ ‫سروراور فسانہءعجائب ایک جائزہ کتابت شدہ مسودہ ‪٤٠-‬‬ ‫کرشن چندرایک تعارف کتابت شدہ مسودہ ‪٤١-‬‬ ‫صادق ہدایت کاایک کردار۔ کتابت شدہ مسودہ ‪٤٢-‬‬ ‫اختر شمار کی شاعری کے فکری زاویے کتابت شدہ ‪٤٣-‬‬ ‫مسودہ‬ ‫دیوان غاب کے متن مسلہ کتابت شدہ مسودہ ‪٤٤-‬‬ ‫سرسید تحریک اور اکبر کی ناگزیریت کتابت شدہ مسودہ ‪٤٥-‬‬ ‫ڈاکٹر سعادت سعید کے ناوریجین شاعری سے اردو تراجم ‪٤٦-‬‬ ‫کتابت شدہ مسودہ‬ ‫سوامی رام تیرتھ کی شاعری کا لسانی مطاعہ مسودہ ‪٤٧-‬‬ ‫اور شمع جلتی رہے گی روزنامہ مشرق الہور ‪ ١٨‬ستمبر ‪٤٨-‬‬ ‫‪١٩٨٨‬‬


‫دو علما کی موت پر لکھا گیا ایک تاثراتی مضمون جو ‪٤٩-‬‬ ‫اسلوبی اعتبار سے بڑا جاندار ہے۔‬ ‫‪٥٠‬‬‫پیاسا ساگر۔۔۔ گلوکار مکیش کی موت پر لکھا گیا مضون‬ ‫ہفت روزہ اجاال الہور میں شائع ہوا‬ ‫کرشن چندر‘ منفرد ادیب۔۔۔ کرشن چندر کی موت پر لکھا ‪٥١-‬‬ ‫گیا۔ ہفت روزہ ممتاز الہور ‪ ١٨‬مئی ‪١٩٧٧‬‬ ‫ڈاکٹر گوہر نوشاہی االدب گوگڈن جوبلی نمبر ‪ ١٩٩٧‬ادبی ‪٥٢-‬‬ ‫مجلہ گورنمنٹ اسالمیہ کالج قصور‬ ‫عالمہ طالب جوہری کی مرثیہ نگاری ‪٥٣-‬‬ ‫پروفیسر محمد رضا‘ شعبہءاردو گورنمنٹ اسالمیہ کالج سول‬ ‫الئنز الہورکے ریکارڈ میں‬ ‫‪ ٥٤‬میجک ان ریسرچ اور میری چند معروضات اردوانجمن ڈاٹ‬ ‫کام‬ ‫قصہ ایک قلمی بیاض کی خریداری کا ‪٥٥-‬‬ ‫پروفیسر سوامی رام تیرتھ کی غالب طرازی ‪٥٦-‬‬ ‫جدید اردو شاعری کے چند محاکاتکر ‪٥٧-‬‬ ‫اختر حسین جعفری کی زبان کا لسانی جائزہ ‪٥٨-‬‬ ‫اختر شمار کی شاعری۔۔۔۔۔۔۔ایک لسانیاتی جائزہ ‪٥٩-‬‬ ‫تمثال میں لسانیاتی تبسم کی تالش ‪٦٠-‬‬ ‫شکیب جاللی کے کالم کی ہجویہ تشریح ‪٦١-‬‬ ‫سعادت سعید۔۔۔۔۔اردو شعر کی زبان کا جادوکر ‪٦٢-‬‬ ‫سرور عالم راز‘ ایک منفرد اصالح کار ‪٦٣-‬‬ ‫شکیب جاللی کی زبان اور انسانی نفسیات ‪٦٤-‬‬ ‫محمد امین کی شاعری ۔۔۔۔۔۔۔ عصری حیات کی ہم سفر ‪٦٥-‬‬ ‫ردی چڑھی رفتہ کی ایک منہ بولتی شہادت ‪٦٦-‬‬


‫شاعری اور مغرب کے چند ناقدین ‪٦٧-‬‬ ‫ٹی ایس ایلیٹ اور روایت کی اہمیت ‪٦٨-‬‬ ‫یاران اردو انجمن‪ :‬تسلیمات‬ ‫موجودہ دور کے رسالوں اور کتابوں کا جائزہ لیا جائے یا انٹرنیٹ‬ ‫پر اردو کے حوالے سے ہونے والے کام پر ایک نظر ڈالی جائے‬ ‫تو فورا یہ معلوم ہو جائے گا کہ اردو شعر وادب کی ابتدا اور انتہا‬ ‫صرف غزل ہے۔ جدھر دیکھئے ادھر شاعر اور تک بند غزل کے‬ ‫پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہیں اور ہر ایک خود کو میرتقی میر اور‬ ‫مرزا غالب سے کم نہیں سمجھتا۔ اگر آپ اس بیان کو مبالغہ آمیز‬ ‫سمجھتے ہیں تو فیس بک پر جا کر کسی کی غزل پر تنقید کر‬ ‫کے دیکھ لیجئے! فورا ہی بقول شخصے آٹے دال کا بھائو معلوم‬ ‫ہو جائے گا۔ نثر نگاری اور خصوصا تنقید تو جیسے اردو ادب‬ ‫کے افق سے غائب ہی ہو گئی ہے۔ اہل فکرونظر جانتے ہیں کہ ہر‬ ‫زبان کی ترقی اور پیش رفت کے لئے تنقید و تحقیق کلیدی حیثیت‬ ‫رکھتی ہے۔ اگر یہ دو باتیں نہیں ہوں گی تو زبان وادب جمود اور‬ ‫اضمحالل کا شکار ہوکر رہ جائیں گے اور اس کا انجام ظاہر ہے‬ ‫کہ کیا ہوگا۔ نئی نسل خاص طور سے اس حقیقت سے نا بلد ہے‬ ‫اور یہ بہت تشویش کی بات ہے۔‬ ‫ڈاکٹر حسنی صاحب ان ہستیوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنی‬ ‫ساری ادبی زندگی تخلیق‪ ،‬تنقید اور تحقیق کی سنگالخ زمین کی‬ ‫آبیاری میں صرف کی ہے۔ زیر نظر مضمون میں دی گئی فہرست‬ ‫مضامین حسنی صاحب کی بالغ نظری اور علوئے فکر کی‬


‫عکاسی کرتی ہے۔ کیسے کیسے جانفزا‪ ،‬معلومات افزا اور دقیق‬ ‫و عمیق موضوعات پر آپ نے قلم اٹھایا ہے اور داد تحقیق دی‬ ‫ہے۔ کم لوگ ایسے ہیں جنہوں نے ایسے مضامین پر سوچا ہے‪،‬‬ ‫لکھنا تو بہت بڑی بات ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ مضامین جستہ‬ ‫جستہ اردو انجمن میں لگا دئے جاتے۔ کچھ احباب تو یقینا ان‬ ‫سے استفادہ کریں گے۔ میری گزارش حسنی صاحب سے یہی ہے‬ ‫کہ اس جانب توجہ کریں اور ممکن ہو تو یہ کام کروادیں۔ هللا ان‬ ‫کو ہمت اور طاقت عطا فرمائے کہ وہ زبان و ادب کی ایسی ہی‬ ‫خدمت کرتے رہیں۔‬ ‫سرور عالم راز‬


‫مقصود حسنی کی مزاح نگاری‘ ایک اجمالی جائزہ‬ ‫محبوب عالم۔۔۔۔۔۔۔۔قصور‬ ‫پروفیسر مقصود حسنی ادبی دنیا میں ایک منفرد نام و مقام‬ ‫رکھتے ہیں۔ وہ یک فنے نہیں ہیں بلکہ مختلف اصناف ادب میں‬ ‫کمال رکھنا ان کا طرہءامتیاز ہے۔ طنز و مزاح بھی ان کی‬ ‫دسترس سے باہر نہیں رہا۔ اکثر مزاح نگار تحریر کے عنوان‬ ‫سے ہی عیاں ہو جاتا ہے کہ اس تحریر میں مزاح کا مواد کس‬ ‫نوعیت کا رہا ہو گا۔ باباجی مقصود حسنی کے ہاں یہ چیز شاز ہی‬ ‫ملتی ہے۔ عنوان سے قطعی اندازہ نہیں ہو پاتا کہ تحریر میں کس‬ ‫موضوع کو زیر بحث الیا گیا ہو گا۔‬ ‫ان کے ہاں مزاح بھی سنجیدہ اطوار لیے ہوئے ہے۔ گویا قاری‬ ‫حیرانی میں حظ اٹھاتا ہے۔ وہ ورطہءحیرت میں مبتال ہو جاتا ہے‬ ‫کہ مصنف نے طنز کا شائبہ بھی ہونے نہیں دیا‘ پھر گدگدا بھی‬ ‫دیا ہے۔ سنجیدگی سے بات کرتے کرتے لطیفہ کرنے کا فن انہیں‬ ‫خوب آتا ہے۔ روزمرہ یا پھر شائستہ سا ایس ایم ایس کا استعمال‬ ‫بخوبی جانتے ہیں۔ بات سے بات نکالنے کے فن پر انہیں بالشبہ‬ ‫ملکہ حاصل ہے۔ کسی عوامی محاورے یا مرکب سے خوب فائدہ‬ ‫اٹھاتے ہیں۔ یہ محاورے یا مرکب‘ کسی نہ کسی سماجی رویے‬ ‫کے عکاس ہوتے ہیں۔‬ ‫لفظ‘ پروفیسر مقصود حسنی کے ہاتھوں میں دیدہ زیب کھلونوں‬ ‫کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ لفظوں کو مختلف تناظر میں استعمال‬


‫کرکے نئے مفاہیم دریافت کرتے ہیں۔ لفظوں کے استعمال کی یہ‬ ‫صورت غالب کے بعد کسی کے ہاں پڑھنے کو ملتی ہے۔ وہ غالب‬ ‫کے معنوی شاگرد بھی ہیں۔ ان کے مزاح میں زندگی متحرک‬ ‫نظرآتی ہے۔ وہ اپنے اردگرد کو بڑے غور سے دیکھنے کے‬ ‫عادی ہیں۔ وہ متحرک زندگی کو اپنے فکری ردعمل کے ساتھ‬ ‫پیش کرتے ہیں۔ ان کے اسلوب سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا‬ ‫ہے کہ کب اور کس وقت طنز کا کوئی تیر چھوڑ دیں گے۔‬ ‫معاشرتی خرابیاں ان کا موضوع گفتگو رہتی ہیں۔ وہ اپنے مزاج‬ ‫کے ہاتھوں مجبور نظر آتے ہیں۔ دفتر شاہی بھی ان کے طنز سے‬ ‫باہر نہیں رہی۔ پروفیسر مقصود حسنی کسی بھی موضوع پر قلم‬ ‫کو جنبش دیتے وقت حاالت و واقعات کا ایسا نقشہ کھنچتے ہیں‬ ‫کہ معاملے کے جملہ پہلو آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتے‬ ‫ہیں۔ ان کی کسی تحریر کو پڑھتے وقت قاری کو احساس بھی‬ ‫نہیں ہوتا کہ وہ پڑھ رہا ہے یا دیکھ رہا ہے۔‬ ‫باباجی مقصود حسنی زندگی کے خانگی حاالت و واقعات کو بھی‬ ‫نظر انداز نہیں کرتے۔ وہ دہلیز کے اندر کے موضوعات پر گفتگو‬ ‫کرکے شخص کی خانگی حیثیت اور کارگزاری پر بھی بہت کچھ‬ ‫کہہ جاتے ہیں۔ اس انداز سے کہہ جاتے ہیں کہ قاری کو ہر ممکن‬ ‫لطف میسر آتا ہے۔ خانگی حاالت و واقعات بیان کرتے وقت وہ‬ ‫صیغہ متکلم استعمال کرتے ہیں حاالنکہ ایسے مزاح کا ان کی‬ ‫ذات سے دور دور تک تعلق نہیں ہوتا۔ بعض تحریریں فرضی‬ ‫ناموں کے ساتھ بیان کرکے اپنے فن کو کمال درجہ تک لے‬ ‫جاتے ہیں۔‬


‫باباجی مقصود حسنی کی مزاح نگاری کو روایتی قرار نہیں دیا جا‬ ‫سکتا۔ انھوں نے روایت سےبغاوت کرکے نیا طرز اظہار دریافت‬ ‫کیا ہے۔ مزاح اور سنجیدگی دو الگ سے طرز اظہار ہیں۔‬ ‫سنجیدگی سے مزاح کا اظہار متضاد عمل ہے لیکن یہ ان کے ہاں‬ ‫ملتا ہے۔ اس لیے یہ بات دعوعے کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ‬ ‫وہ سنجیدگی میں مزاح لکھتے وقت نئی زبان بھی متعارف‬ ‫کرواتے ہیں۔‬ ‫اس مختصر سے جائزے سے یہ بات اخذ کی جا سکتی ہے کہ‬ ‫باباجی مقصود حسنی کی مزاح نگاری اردو ادب میں انفرادیت کی‬ ‫حامل ہے جو اب تک اردو کے کسی دوسرے مزاح نگار کے‬ ‫حصہ میں نہیں آ سکی کیونکہ روایت کی پاسداری کرنے والے‬ ‫انفرادیت کے دعوی دار نہیں ہو سکتے۔‬ ‫ان کی مزاح نگاری کے چند نمونے مالحظہ ہوں‬ ‫ایک پکی پیڈی بات ہے کہ چوہا بلی سے‘ بلی کتے سے‘ کتا‬ ‫بھڑیے سے‘ بھیڑیا چیتے سے‘ چیتا شیر سے‘ شیر ہاتھی سے‘‬ ‫ہاتھی مرد سے‘ مرد عورت سےاورعورت چوہے سے ڈرتی ہے۔‬ ‫ڈر کی ابتدا اور انتہا چوہا ہی ہے۔ میرے پاس اپنے موقف کی‬ ‫دلیل میں میرا ذاتی تجربہ شامل ہے۔ میں چھت پر بیھٹا تاڑا تاڑی‬ ‫کر رہا تھا۔ نیچے پہلے دھواندھار شور ہوا پھر مجھے پکارا گیا۔‬ ‫میں پوری پھرتی سے نیچے بھاگ کر آیا۔ ماجرا پوچھا۔ بتایا گیا‬ ‫کہ صندوق میں چوہا گھس گیا ہے۔ بڑا تاؤ آیا لیکن کل کلیان سے‬ ‫ڈرتا‘ پی گیا۔ بس اتنا کہہ کر واپس چال گیا کہ تم نے مجھے بلی‬


‫یا کڑکی سمجھ کر طلب کیا ہے۔ تاہم میں نے دانستہ چوہا‬ ‫صندوق کے اندر ہی رہنے دیا۔‬ ‫غیرت اور خشک آنتوں کا پرابلم‬ ‫ہم بڑے مذہبی لوگ ہیں کسی سکھ کی سیاسی شریعت تسلیم نہیں‬ ‫کر سکتے۔ راجا رنجیت سنگھ اول تا آخر مقامی غیر مسلم تھا‬ ‫اس لیے اس کا کہا کس طرح درست ہو سکتا ہے۔ راجا رنجیت‬ ‫سنگھ اگر گورا ہوتا تو اس کی سیاسی شریعت کا مقام بڑا بلند‬ ‫ہوتا۔ گورا دیس سے آئی ہر چیز ہمیں خوش آتی ہے۔‬ ‫علم عقل اور حبیبی اداروں کا قیام‬ ‫استاد کی باتوں کا برا نہ مانئیے گا۔ میں بھی اوروں کی طرح‬ ‫ہنس کر ٹال دیتا ہوں۔ اور کیا کروں مجھے محسن کش اور‬ ‫پاکستان دشمن کہالنے کا کوئی شوق نہیں۔ بھال یہ بھی کوئی‬ ‫کرنے کی باتیں ہیں کہ کتے کے منہ سے نکلی سانپ کے منہ‬ ‫میں آ گئی۔ سانپ سے خالصی ہونے کے ساتھ ہی چھپکلی کے‬ ‫منہ میں چلی گئی۔‬ ‫ہم زندہ قوم ہیں‬ ‫دو میاں بیوی کسی بات پر بحث پڑے۔ میاں نےغصے میں آ کر‬ ‫اپنی زوجہ ماجدہ کو ماں بہن کہہ دیا۔ مسلہ مولوی صاحب کی‬ ‫کورٹ میں آگیا۔ انہوں نے بکرے کی دیگ اور دو سو نان ڈال‬ ‫دیے۔ نئی شادی پر اٹھنے والے خرچے سے یہ کہیں کم تھا۔ میاں‬ ‫نے مولوی صاحب کے ڈالے گیے اصولی خرچے میں عافیت‬ ‫سمجھی۔ رات کو میاں بیوی چولہے کے قریب بیٹھے ہوئے تھے۔‬ ‫بیوی نے اپنی فراست جتاتے ہوئے کہا‬


‫"اگر تم ماں بہن نہ کہتے تو یہ خرچہ نہ پڑتا۔"‬ ‫بات میں سچائی اپنے پورے وجود کے ساتھ موجود تھی۔ میاں‬ ‫نےدوبارہ بھڑک کر کہا‬ ‫"توں پیو نوں کیوں چھیڑیا سی"‬ ‫مولوی صاحب کا فتوی اور ایچ ای سی پاکستان‬ ‫کچھ ہی پہلے‘ اندر سے آواز سنائی دی‘ حضرت بےغم صاحب‬ ‫حیدر امام سے کہہ رہی تھیں‘ بیٹا اپنے ابو سے پیسے لے کر‬ ‫بابے فجے سے غلہ لے آؤ۔ عید قریب آ رہی ہے‘ کچھ تو جمع‬ ‫ہوں گے‘ عید پر کپڑے خرید الئیں گے۔ بڑا سادا اور عام فیہم‬ ‫جملہ ہے‘ لیکن اس کے مفاہیم سے میں ہی آگاہ ہوں۔ یہ عید پر‬ ‫کپڑے النے کے حوالہ سے بڑا بلیغ اور طرح دار طنز ہے۔ طنز‬ ‫اور مزاح میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ طنز لڑائی کے‬ ‫دروازے کھولتا ہے جب کہ مزاح کے بطن سے قہقہے جنم لیتے‬ ‫ہیں۔ جب دونوں کا آمیزہ پیش کیا جائے تو زہریلی مسکراہٹ‬ ‫نمودار ہوتی ہے اور ایسی جعلی مسکراہٹ سے صبر بھال‘‬ ‫دوسرا بات گرہ میں بندھ جاتی ہے۔‬ ‫الٹھی والے کی بھینس‬ ‫ان کی ایک مزاح پر مشتمل کتاب بیگمی تجربہ ‪ ١٩٩٣‬میں شائع‬ ‫ہوئی جو اس سے پہلے نقد و نقد کے نام سے منظر عام پر جلوہ‬ ‫گر ہوئی۔ اس کتاب کو اہل ذوق نے پسند کیا۔ چند آراء مالحظہ‬ ‫ہوں‬ ‫آج ہمارا معاشرہ جس فتنہ و فساد اور پرآشوب دور سے گزر رہا‬ ‫ہے جس کو بدقسمتی سے تہذیب و ترقی سے تعبیر کیا جاتا ہے‬ ‫اس کی شدت کو کم کرنے کے لیے سنجیدہ رویہ اختیار کرنے‬


‫سے زیادہ لطیف طنز و مزاح کے نشتر چبھونا موثر ثابت ہو‬ ‫سکتا ہے۔ مصنف موصوف نے اس حقیقت کو بخوبی سمجھ لیا‬ ‫ہے اور معاشرے کے ان زخموں سے فاسد مادہ کو طنزومزاح‬ ‫کے نشروں سے نکالنے کی کوشش کی ہے۔‬ ‫ثناءالحق صدیقی‬ ‫ماہنامہ االنسان کراچی مئی ‪ ١٩٩٤‬صفحہ نمبر ‪٣٢‬‬ ‫مقصود صاحب بڑے ذہین معاملہ شناس مدبر اور نئی سوچ کے‬ ‫مالک ہیں۔ بڑی بات یہ کہ آپ سچے اور منفرد انداز کے بادشاہ‬ ‫ہیں۔ میں تو کہوں گا کہ میں نے ساٹھ ہزار کتب کا مطالعہ کیا ہے‬ ‫ان میں ایسی معیاری کتب کوئی ایک درجن ہوں گی۔ اس کتاب نے‬ ‫مجھے بڑا متاثر کیا ہے۔ میں اسے سندھ کے شاہ جو رسالو کی‬ ‫طرح اپنے سفر میں بھی ساتھ رکھوں گا اور بار بار پڑھوں گا۔‬ ‫مہر کاچیلوی‬ ‫بیگمی تجربہ پر اظہار خیال‘ ہفت روزہ عورت میرپور خاص‬ ‫سندھ ‪ ١٨‬نومبر ‪١٩٩٣‬‬ ‫ان کی زبان میں لطافت ہے‘ ظرافت ہے‘ سحر آفرینی ہے۔ انھوں‬ ‫نے جس ہنرمندی سے باتوں سے باتیں نکالی ہیں‘ وہ ان ہی کا‬ ‫حصہ ہے۔ انھوں نے مزاحیہ طرز سے پژمردہ دلوں میں زندگی‬ ‫اور زندہ دلی کی روح پھونک دی ہے۔ خشک ہونٹوں پر پھول‬ ‫نچھاور کیے ہیں۔‬ ‫ڈاکٹر وفا راشدی‬ ‫سہ ماہی انشاء حیدرآباد جنوری تا ستمبر ‪ ٢٠٠٥‬بیگمی تجربہ پر‬ ‫اظہار خیال‬


‫بیگمی تجربہ میں کل ‪ ٣١‬مضمون شامل تھے جن کی تفصیل درج‬ ‫خدمت ہے‬ ‫بچوں کی بددعائیں نہ لیں ‪1‬‬ ‫عقل بڑی یا بھینس ‪2‬‬ ‫بیمار ہونا منع ہے ‪3‬‬ ‫حاتم میرے آنگن میں ‪4‬‬ ‫کاغذی قصے اور طاقت کا سرچشمہ ‪5‬‬ ‫شادی‪+‬معاشقہ‪:‬جمہوری عمل ‪6‬‬ ‫مجبور شرک ‪7‬‬ ‫ترقی‘ ہجرین اور عصری تقاضے ‪8‬‬ ‫دمدار ستارہ اور عالمتی اظہار ‪9‬‬ ‫ویڈیو ادارے اور قومی فریضہ ‪10‬‬ ‫چھلکے بکریاں اور میمیں ‪11‬‬ ‫پہال ہال اور برداشت کی خو ‪12‬‬ ‫بیگمی تجربہ اور پت جھڑ ‪13‬‬ ‫انسانی ترقی میں جوں کا کردار ‪14‬‬ ‫اصالح نفس اور برامدے کی موت ‪15‬‬ ‫سنہری اصول اور دھندے کی اہمیت ‪16‬‬ ‫بش شریعت اور سکی نمبرداری ‪17‬‬ ‫نیل کنٹھ‘ شیر اور محکمہ ماہی پروری ‪18‬‬ ‫بہتی گنگا اور نقد و نقد ‪19‬‬ ‫مالوٹ اور کھپ کھپاؤ ‪20‬‬ ‫سپاہ گری سے گداگری تک ‪21‬‬ ‫یار لوگ اور منہگائی میمو ‪22‬‬


‫سچ آکھیاں بھانبڑ مچدا اے ‪23‬‬ ‫ہدایت نامہ خاوند ‪24‬‬ ‫ہدایت نامہ بیوی ‪25‬‬ ‫ادھورا کون ‪26‬‬ ‫محنت کے نقصانات ‪27‬‬ ‫محاورے کا سفر ‪28‬‬ ‫کتےاور عصری تقاضے ‪29‬‬ ‫جواز ‪30‬‬ ‫ظلم ‪31‬‬ ‫مزاح سے متعلق ان کے بہت سے مضمون انٹرنیٹ کی مختلف‬ ‫ویب سائٹس پر پڑھنے کو مل جاتے ہیں۔ ان کے ان مضامین کو‬ ‫سراہا گیا ہے۔ اس ذیل میں صرف اردو انجمن سے متعلق چند اہل‬ ‫قلم کی آراء مالحظہ ہوں‬ ‫آپ کا یہ نہایت دلچسپ انشائیہ پڑھا اور بہت محظوظ و مستفید‬ ‫ہوا۔ جب اس کے اصول کا خود پر اطالق کیا تو اتنے نام اور‬ ‫خطاب نظر آئے کہ اگر ان کا اعالن کر دوں تو دنیا اور عاقبت‬ ‫دونوں میں خوار ہوں۔ سو خاموشی سے سر جھکا کر یہ خط‬ ‫لکھنے بیٹھ گیا ۔ انشا ئیہ بہت مزیدار ہے شاید اس لئے کہ‬ ‫حقیقت پر مبنی ہے۔ اس آئنیہ میں سب اپنی صورت دیکھ سکتے‬ ‫ہیں۔‬ ‫اکتوبر ‪ 10:43:43 ,2013 ,20‬شام‬ ‫مشتری ہوشیار باش‬ ‫سرور عالم راز‬ ‫آپ کے انشائیے پر لطف ہوتے ہیں۔ خصوصا اس لئے بھی کہ آپ‬ ‫ان میں اپنی طرف کی یا پنجابی کی معروف عوامی اصطالحات‬


‫(میں تو انہیں یہی سمجھتا ہوں۔ ہو سکتا ہوں کہ غلطی پر ہوں)‬ ‫استعمال کرتے ہیں جن کا مطلب سر کھجانے کے بعد آدھا پونا‬ ‫سمجھ میں آ ہی جاتی ہے جیسے ادھ گھر والی یا کھرک۔ یا ایم‬ ‫بی بی ایس۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ کھرک جیسا با مزہ‬ ‫مرض ابھی تک جدید سائنس نے ایجاد نہیں کیا ہے۔ وهللا بعض‬ ‫اوقات تو جی چاہتا ہے کہ یہ مشغلہ جاری رہے اور تا قیامت‬ ‫جاری رہے۔ اس سے یہ فائدہ بھی ہے کہ صور کی آواز کو پس‬ ‫پشت ڈال کر ہم ‪:‬کھرک اندازی‪ :‬میں مشغول رہیں گے۔ هللا هللا خیر‬ ‫سال۔‬ ‫میری ناچیز بدعا‬ ‫اگست ‪ 09:00:12 ,2013 ,14‬صبح‬ ‫سرور عالم راز‬ ‫مجھے علم نہیں ہے کہ محترمہ زھرا کون ہیں‪ ،‬قرین قیاس یہی‬ ‫ہے کہ انکا تعلق بزم سے ہوسکتا ہے۔ مالقات کی روداد میں‬ ‫گھریلو ماحول کی عکاسی بہت عمدگی سے کی گی ہے‪ ،‬اور یہ‬ ‫وہ کہانی ہے جو گھر گھر کی ہے۔ اہل خانہ پر گھبراہٹ کا عالم‬ ‫اور اندیشہ ہاے دور دراز‪ ،‬گھر کے سربراہ کی واقعی جان پر بن‬ ‫آتی ہے۔ ایک لطیف تحریر جس سے لطف اندوز ہونے کا حق ہر‬ ‫قاری کو ہے‬ ‫خلش‬ ‫آپ کا انشائیہ حسب معمول نہایت دلچسپ اور شگفتہ تھا۔ پڑھ کر‬ ‫لطف آ گیا۔ اس زندگی کی بھاگ دوڑ اور گھما گھمی میں چند‬ ‫لمحات ہنسنے کے مل جائیں تو هللا کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ ہاں یہ‬ ‫پڑھ کرانتہائی حیرت ہوئی کہ زہرا صاحبہ برقعہ میں آئین! یا میرا‬


‫چشمہ ہی خراب ہو گیا ہے؟ ایک نہایت پر لطف اور دل پذیر‬ ‫تحریر کے لئے داد قبول کیجئے۔‬ ‫قصہ زہرا بٹیا سے مالقات کا‬ ‫نومبر ‪ 03:25:04 ,2013 ,03‬صبح‬ ‫سرور عالم راز‬ ‫جیسے جیسے آپ کی تحریر پڑھتا گیا ہنسی کا ضبط کرنا ناگزیر‬ ‫ہوتا چال گیا اور آخر میں میری حالت پاکستان میں کسی زمانے‬ ‫میں جی ٹی روڈ پر چلنے والی اس کھچاڑا جی ٹی ایس‬ ‫) گورننمٹ ٹرانسپورٹ سروس(‬ ‫کی طرح ہوگئی جو رک جانے کے بعد بھی ہلتی رہتی تھی ‪ ،‬بڑی‬ ‫دیر تک لطف اندوز ہونے کے بعد سوچا اپنی اندرونی کیفیت کا‬ ‫اظہار کر ہی دیا جائے‬ ‫وہ کہتے ہیں ناں کہ جس سے پیار ہوجائے تو اس کا اظہار کر‬ ‫دو کہ مبادا دیر نہ ہو جائے‬ ‫تو جناب ڈاکٹر صاحب میری جانب سے ڈھیروں داد آپ کے قلم‬ ‫کے کمال کی نذر کہ جس سے چہروں پر مسکراہٹیں بکھر جائیں‬ ‫الٹھی والے کی بھینس‬ ‫جوالئی ‪ 09:45:29 ,2013 ,12‬شام‬ ‫اسماعیل اعجاز‬ ‫اردو نیٹ جاپان‘ اردو انجمن‘ ہماری ویب‘ فرینڈز کارنر‘ پیغام‬ ‫ڈاٹ کام‘ فورم پاکستان اور فری ڈم یونی ورسٹی سے‘ میں نے‬ ‫‪ ٦٩‬مضامین تالش کیے ہیں۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے‬ ‫بھگوان ساز کمی کمین کیوں ہو جاتاہے ‪1‬‬ ‫غیرت اور خشک آنتوں کا پرابلم ‪2‬‬ ‫عوامی نمائیندے مسائل' اور بیورو کریسی ‪3‬‬


‫علم عقل اور حبیبی اداروں کا قیام ‪4‬‬ ‫امریکہ کی پاگلوں سے جنگ چھڑنے والی ہے ‪5‬‬ ‫لوڈ شیڈنگ کی برکات ‪6‬‬ ‫ہم زندہ قوم ہیں ‪7‬‬ ‫طہارتی عمل اور مرغی نواز وڈیرہ ‪8‬‬ ‫روال رپا توازن کا ضامن ہے ‪9‬‬ ‫آدم خور چوہے اور بڈھا مکاؤ مہم ‪10‬‬ ‫پی ایچ ڈی راگ جنگہ کی دہلیز پر ‪11‬‬ ‫سیاست دان اپنی عینک کا نمبر بدلیں ‪12‬‬ ‫قانون ضابطے اور نورا گیم ‪13‬‬ ‫خودی بیچ کر امیری میں نام پیدا کر ‪14‬‬ ‫خدا بچاؤ مہم اور طالق کا آپشن ‪15‬‬ ‫غیرت اور خشک آنتوں کا پرابلم ‪16‬‬ ‫جرم کو قانونی حیثیت دینا ناانصافی نہیں ‪17‬‬ ‫ہمارے لودھی صاحب اور امریکہ کی دو دوسیریاں ‪18‬‬ ‫لوٹے کی سماجی اور ریاستی ضرورت ‪19‬‬ ‫اس عذاب کا ذکر قرآن میں موجود نہیں ‪20‬‬ ‫بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ ‪21‬‬ ‫عوام شاہ کے ڈراموں کی زد میں رہے ہیں ‪22‬‬ ‫دنیا کا امن اور سکون بھنگ مت کرو ‪23‬‬ ‫رشوت کو طالق ہو سکتی ہے ‪24‬‬ ‫عوام بھوک اور گڑ کی پیسی ‪25‬‬ ‫رمضان میں رحمتوں پر نظر رہنی چاہیے ‪26‬‬ ‫جمہوریت سے عوام کو خطرہ ہے ‪27‬‬ ‫سیری تک جشن آزادی مبارک ہو ‪28‬‬


‫دو قومی نظریہ اور اسالمی ونڈو ‪29‬‬ ‫گھر بیٹھے حج کے ایک رکن کا ثواب کمائیں ‪30‬‬ ‫مولوی صاحب کا فتوی اور ایچ ای سی پاکستان ‪31‬‬ ‫الٹھی والے کی بھینس ‪32‬‬ ‫دمہ گذیدہ دفتر شاہی اور بیمار بابا ‪33‬‬ ‫انشورنس والے اور میں اور تو کا فلسفہ ‪34‬‬ ‫غیرملکی بداطواری دفتری اخالقیات اور برفی کی چاٹ ‪35‬‬ ‫حقیقت اور چوہے کی عصری اہمیت زندگی ‪36‬‬ ‫تعلیم میر منشی ہاؤس اور میری ناچیز قاصری ‪37‬‬ ‫محاورہ پیٹ سے ہونا کے حقیقی معنی ‪38‬‬ ‫آزاد معاشرے اہل علم اور صعوبت کی جندریاں ‪39‬‬ ‫دیگی ذائقہ اور مہر افروز کی نکتہ آفرینی ‪40‬‬ ‫ایجوکیشن‘ کوالیفیکیشن اور عسکری ضابطے ‪41‬‬ ‫وہ دن ضرور آئے گا ‪42‬‬ ‫صیغہ ہم اور غالب نوازی ‪43‬‬ ‫پروف ریڈنگ‘ ادارے اور ناصر زیدی ‪44‬‬ ‫ناصر زیدی اور شعر غالب کا جدید شعری لباس ‪45‬‬ ‫قصہ زہرا بٹیا سے مالقات کا ‪46‬‬ ‫مشتری ہوشیآر باش ‪47‬‬ ‫مدن اور آلو ٹماٹر کا جال ‪48‬‬ ‫احباب اور ادارے آگاہ رہیں ‪49‬‬ ‫کھائی پکائی اور معیار کا تعین ‪50‬‬ ‫بابا بولتا ہے ‪51‬‬ ‫بابا چھیڑتا ہے ‪52‬‬ ‫الوارثا بابا اور تھا ‪53‬‬


‫فتوی درکار ہے ‪54‬‬ ‫ڈینگی‘ ڈینگی کی زد میں ‪55‬‬ ‫حضرت ڈینگی شریف اور نفاذ اسالم ‪56‬‬ ‫یہ بالئیں صدقہ کو کھا جاتی ہیں ‪57‬‬ ‫اب دیکھنا یہ ہے ‪58‬‬ ‫سورج مغرب سے نکلتا ہے ‪59‬‬ ‫یک پہیہ گاڑی منزل پر پہنچ پائے گی ‪60‬‬ ‫حجامت بےسر کو سر میں التی ہے ‪61‬‬ ‫انھی پئے گئی اے ‪62‬‬ ‫امیری میں بھی شاہی طعام پیدا کر ‪63‬‬ ‫وہ دن کب آئے گا ‪64‬‬ ‫آزادی تک‘ جشن آزادی مبارک ‪65‬‬ ‫رشتے خواب اور گندگی کی روڑیاں ‪66‬‬ ‫پنجریانی اور گناہ گار آنکھوں کے خواب ‪67‬‬ ‫میری ناچیز بدعا ‪68‬‬ ‫طاقت اور ٹیڑھے مگر خوبصورت ہاتھ ‪69‬‬ ‫انسان کی تالش ‪70‬‬ ‫معاشی ڈنگر اور کاغذ کے الوارث پرزے ‪71‬‬ ‫صبح ضرور ہو گی ‪72‬‬ ‫قیامت ابھی تک ٹلی ہوئی ہے ‪73‬‬ ‫وہ دن گیے جب بن دیے بھال ہوتا تھا ‪74‬‬ ‫عین ممکن ہے ‪75‬‬ ‫کھائی بھلی کہ مائی ‪76‬‬ ‫دفتر شاہی میں کالے گورے کی تقسیم کا مسلہ ‪77‬‬ ‫درج باال مختصر تفصیالت سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے‬


‫کہ باباجی مقصود حسنی اس صنف ادب میں‬ ‫بھی کامیاب و کامران رہے ہیں۔ آخر میں پروفیسر یونس حسن‬ ‫کی رائے درج کر رہا ہوں جس سے باباجی کے اس ادبی کام کی‬ ‫نوعیت و حیثیت کا اندازہ ہو جاتا ہے‬ ‫مقصود حسنی نے مزاح کے میدان میں تقلید کو گوارہ نہیں کیا‘‬ ‫اپنے لیے ایک علیحدہ اور جداگانہ رستہ نکاال ہے۔ ان کی یہی‬ ‫انفرادیت ان کے پورے مزاح پر محیط نظر آتی ہے۔ ان کا مزاح‬ ‫وقتی یا لمحاتی نہیں اور نہ ہی گراوٹ کا شکار ہوتا ہے بلکہ‬ ‫اپنی جدت طرازی کی بنا پر ایک علیحدہ شناخت اور پہچان رکھتا‬ ‫ہے۔ ان کے مزاح کی جڑیں ہماری سماجی زندگی کے اندر‬ ‫پیوست نظر آتی ہے۔‬ ‫پروفیسر یونس حسن‬ ‫سہ ماہی انشاء حیدرآباد جنوری تا ستمبر ‪ ٢٠٠٥‬بیگمی تجربہ پر‬ ‫اظہار خیال‬ ‫یاران اردو انجمن‪ :‬تسلیمات‬ ‫مکرمی ڈاکٹر حسنی صاحب کی علمی اور ادبی حیثیت پر لکھا ہوا‬ ‫یہ مضمون نہ صرف دلچسپ اور معلومات افزا ہے بلکہ یہ بھی‬ ‫بتاتا ہے کہ ہماری انجمن کو کیسے کیسے لوگوں نے اپنی‬ ‫موجودگی اور نگارشات سے عزت بخشی ہے۔ هللا سے دعا ہے‬ ‫کہ حسنی صاحب کا سایہ انجمن پر ہمیشہ قائم رہے تاکہ ہم سب‬ ‫ان سے مستفید و مستفیض ہوتے رہیں۔ اب ایسے لوگ بہت کم‬ ‫رہ گئے ہیں جن سے ادبی استفادہ کیا جا سکے۔ خاص طور پر‬ ‫انٹرنیٹ پر یہ کمی خطرناک حد تک محسوس ہوتی ہے۔ اردو‬


‫انجمن ڈاکٹر حسنی صاحب کی بے حد ممنون ہے اور ان کے حق‬ ‫میں دعائے خیر اور درازی عمر کی طالب ہے۔‬ ‫سرور عالم راز‬ ‫=‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic‬‬ ‫‪9165.0‬‬


‫مقصود حسنی کی شاعری۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک جائزہ‬ ‫محبوب عالم ‪--‬۔۔ قصور‬ ‫پروفیسر مقصود حسنی ملکی اور بین االاقوامی سطح پر اپنی‬ ‫الگ سے شناخت رکھتے ہیں۔ تخلیقی میدان میں ان کی شخصیت‬ ‫کثیرالجہتی ہے۔ یہ ہی صورت تحقیق و تنقید کے میدان کی ہے۔‬ ‫نثر ہی نہیں‘ شاعری کے میدان میں بھی نمایاں حیثیت رکھتے‬ ‫ہیں۔ انہوں نے طالب علمی کے ابتدائی دنوں میں ہی شعر کہنا‬ ‫شروع کر دیے۔ ان کی ‪ ١٩٦٥‬کی شاعری دستیاب ہوئی ہے۔ اس‬ ‫وقت وہ جماعت ہشتم کے طالب علم تھے۔ بطور نمونہ ابتدائی‬ ‫‪:‬دور کے چند شعر مالحظہ کریں‬ ‫پھوٹا ناسور بن کرزخم جگر‬ ‫سزا ملی مجھے گناہ کئے بغیر‬ ‫‪٢٥‬مئی ‪١٩٦٥‬‬ ‫آس کے دیپ جالنے نکلو‬ ‫جاگ کر اب جگانے نکلو‬ ‫‪٢٩‬اپریل ‪١٩٦٦‬‬ ‫زخم کھا کر جو زخم کھانے کی رکھے ہوش‬ ‫انداز اس کے تڑپنے پھڑکنے کا ذرا دیکھ‬ ‫‪٣‬فروری ‪١٩٦٧‬‬


‫ہر صدف کی قسمت میں گوہر کہاں‬ ‫ہزار پرند میں‘ اک شہباز ہوتا ہے‬ ‫‪٢٧‬جون ‪١٩٦٨‬‬ ‫عریاں پڑی ہے الش حیا بے گور وکفن‬ ‫لوگ لیتے ہیں گل‘ گلستاں رہے نہ رہے‬ ‫‪٢٥‬اکتوبر ‪١٩٦٩‬‬ ‫موالں کو ہو گی جنت سے محبت زاہد‬ ‫بار ہا گزریں گے دشت پرخار سے ہم‬ ‫‪٥‬مارچ ‪١٩٧٠‬‬ ‫‪١٩٧٠:‬میں لکھی گئی یہ نظم بھی بطور نمونہ مالحظہ ہو‬ ‫مجھے اب‬ ‫میں اپنی تالش میں تھا‬ ‫گالب سے انگارے نکلے‬ ‫خوشبو سے شرارے اٹھے‬ ‫‘میرا چہرا‬ ‫کوئی لے گیا‬ ‫چوڑیاں مجھے دے گیا‬ ‫چوڑیوں کی کھنک میں‬ ‫مجھے اب‬ ‫بےچہرہ جیون‬


‫جینا ہے‬ ‫ایک تازہ نظم مالحظہ ہو‬ ‫میں نے دیکھا‬ ‫پانیوں پر‬ ‫میں اشک لکھنے چال تھا‬ ‫دیدہءخوں دیکھ کر‬ ‫ہر بوند‬ ‫ہوا کے سفر بر نکل گئی‬ ‫منصف کے پاس گیا‬ ‫شاہ کی مجبوریوں میں‬ ‫وہ جکڑا ہوا تھا‬ ‫سوچا‬ ‫پانیوں کی بےمروتی کا‬ ‫فتوی ہی لے لیتا ہوں‬ ‫مالں شاہ کے دستر خوان پر‬ ‫مدہوش پڑا ہوا تھا‬ ‫دیکھا‘ شیخ کا در کھال ہوا ہے‬ ‫سوچا‬ ‫شاید یہاں داد رسی کا‬ ‫کوئی سامان ہو جائے گا‬ ‫وہ بچارہ تو‬ ‫پریوں کے غول میں گھرا ہوا تھا‬


‫کیا کرتا کدھر کو جاتا‬ ‫دل دروازہ کھال‬ ‫خدا جو میرے قریب تھا‬ ‫بوال‬ ‫کتنے عجیب ہو تم بھی‬ ‫کیا میں کافی نہیں‬ ‫جو ہوس کے اسیروں کے پاس جاتے ہو‬ ‫میرے پاس آؤ‬ ‫ادھر ادھر نہ جاؤ‬ ‫میری آغوش میں‬ ‫تمہارے اشکوں کو پناہ ملے گی‬ ‫ہر بوند‬ ‫رشک لعل فردوس بریں ہو گی‬ ‫اک قظرہ مری آنکھ سے ٹپکا‬ ‫میں نے دیکھا‬ ‫شاہ اور شاہ والوں کی گردن میں‬ ‫بے نصیبی کی زنجیر پڑی ہوئی تھی‬ ‫اس نمونہء کالم سے ان کے فکری اور تخلیقی سفر کا اندازہ‬ ‫لگایا جا سکتا ہے۔ ان کے ہاں مجازی عشق و محبت شجر منوعہ‬ ‫سے لگتے ہیں۔ پروفیسر مقصود حسنی کے والد سید غالم‬ ‫حضور پنجابی صوفی شاعر تھے۔ ان کے دادا سید علی احمد‬ ‫پنجابی اردو اور فارسی کے شاعر تھے۔ یہ سلسلہ اس سے‬ ‫پیچھے تک جاتا ہے۔ پروفیسر موصوف کے پاس اپنے دادا کا‬ ‫کالم مخطوطوں کی شکل میں موجود ہے۔ گویا یہ شوق انہیں‬


‫وراثت میں مال ہے۔ وہ اردو کے عالوہ انگریزی پنجابی اور‬ ‫پوٹھوہاری میں بھی کہتے رہے ہیں۔‬ ‫ان کے کالم میں ردعملی کی سی صورت ہر سطح پر غالب رہتی‬ ‫ہے۔ چلتے چلتے ناصحانہ اور صوفیانہ ٹچ ضرور دے جاتے ہیں۔‬ ‫ان کے کالم میں سیکڑوں مغربی مشرقی اسالمی اور ہندی‬ ‫تلمیحات پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ہر تلمیح کا بڑا برمحل استعمال ہوا‬ ‫ہے۔ یہ تلمیحات بین االاقومی تناطر میں استعمال ہوئی ہیں۔‬ ‫پروفیسر علی حسن چوہان ان کی مغربی تلمیحات پر بھرپور‬ ‫تحقیقی مقالہ بھی تحریر کر چکے ہیں۔‬ ‫‪١٩٩٣‬میں ڈاکٹر صادق جنجوعہ نے بہ عنوان۔۔۔۔۔۔ مقصود حسنی‬ ‫کی شاعری‘ تنقیدی مطالعہ۔۔۔۔۔۔ شائع کی۔ مقصود حسنی کی‬ ‫شاعری پر مشتمل تین کتب منصہءشہود پر آ چکی ہیں۔‬ ‫سپنے اگلے پہر کے نثری ہائیکو‬ ‫اوٹ سے نثری نظمیں یہ مجموعہ دو بار شائع ہوا۔‬ ‫سورج کو روک لو نثری غزلیں‬ ‫کاجل ابھی پھیال نہیں اشاعت کے مراحل میں ہے۔‬ ‫اس کے عالوہ بھی ان کا کالم رسائل میں شائع ہوتا رہا ہے۔ ان کا‬ ‫بہت سارا کالم انٹرنیٹ کی مختلف ویب سائیٹس پر پڑھنے کو ملتا‬ ‫ہے۔ آمنہ رانی ان کی نظموں کو ڈازائین کر رہی ہیں۔ جو ان کی‬ ‫شاعری کی پذیرائی میں خوب صورت اضافہ قرار دیا جا سکتا‬ ‫ہے۔‬ ‫مقصود حسنی کی شاعری کے مختلف زبانوں میں تراجم بھی‬ ‫ہوئے۔‬ ‫پروفیسر امجد علی شاکر نے۔۔۔۔۔۔ اوٹ سے۔۔۔۔۔۔۔ کی نظموں کو‬


‫پنجابی روپ دیا۔‬ ‫بلدیو مرزا نے ان کے ہائیکو کا انگریزی میں ترجمہ کیا‘ جو‬ ‫سکائی الرک میں شائع ہوا۔‬ ‫نصرهللا صابر مرحوم نے ان کے ہائیکو کا پنجابی میں ترجمہ کیا۔‬ ‫مہر کاچیلوی مرحوم نے ان کے ہائیکو کا سندھی میں ترجمہ کیا۔‬ ‫ڈاکٹر اسلم ثاقب مالیر کوٹلہ‘ بھارت نے ان کے ہائیکو کا‬ ‫گرمکھی میں ترجمہ کیا۔‬ ‫عالمی رنگ ادب کراچی نے پورا مجموعہ ۔۔۔۔۔۔۔ سپنے اگلے پہر‬ ‫کے۔۔۔۔۔۔۔ کو شاعر علی شاعر کے مضمون کے ساتھ شائع کیا۔‬ ‫پروفیسر نیامت علی نے ان کی انگریزی شاعری پر ایم فل سطح‬ ‫کا مقالہ تحریر کیا۔‬ ‫اردو ادب کے جن ناقدین نے ان کی شاعری کو خراج تحسین‬ ‫پیش کیا‘ اس کی میسر تفصیل کچھ یوں ہے‬ ‫ڈااکٹر آغا سہیل‬ ‫آفتاب احمد مشق ایم فل اردو‬ ‫ڈاکٹر ابو سعید نور الدین‬ ‫احمد ریاض نسیم‬ ‫ڈاکٹر اسلم ثاقب‬ ‫اسلم طاہر‬ ‫ڈاکٹر احمد رفیع ندیم‬ ‫احمد ندیم قاسمی‬ ‫ڈاکٹر اختر شمار‬ ‫ڈاکٹر اسعد گیالنی‬


‫اسماعیل اعجاز‬ ‫اشرف پال‬ ‫اطہر ناسک‬ ‫اکبر کاظمی‬ ‫پروفیسر اکرام ہوشیار پوری‬ ‫ایاز قیصر‬ ‫ڈاکٹر بیدل حیدری‬ ‫پروفیسر تاج پیامی‬ ‫تنویر عباسی‬ ‫جمشید مسرور‬ ‫ڈاکٹر ہومیو ریاض انجم‬ ‫خواجہ غضنفر ندیم‬ ‫ڈاکٹر فرمان فتح پوری‬ ‫ڈاکٹر صابر آفاقی‬ ‫ڈاکٹر صادق جنجوعہ‬ ‫صفدر حسین برق‬ ‫ضیغم رضوی‬ ‫طفیل ابن گل‬ ‫ڈاکٹر ظہور احمد چودھری‬ ‫عباس تابش‬ ‫ڈاکٹر عبدهللا قاضی‬ ‫علی اکبر گیالنی‬ ‫پروفیسر علی حسن چوہان‬ ‫ڈاکٹر عطاالرحمن‬ ‫فیصل فارانی‬


‫کفیل احمد‬ ‫ڈاکٹر گوہر نوشاہی‬ ‫ڈاکٹر مبارک احمد‬ ‫محبوب عالم‬ ‫مشیر کاظمی‬ ‫ڈاکٹر محمد امین‬ ‫پرفیسر محمد رضا مدنی‬ ‫مہر افروز کاٹھیاواڑی‬ ‫مہر کاچیلوی‬ ‫ڈاکٹر منیرالدین احمد‬ ‫پروفیسر نیامت علی‬ ‫ندیم شعیب‬ ‫ڈاکٹر وزیر آغا‬ ‫ڈاکٹر وفا راشدی‬ ‫ڈاکٹر وقار احمد رضوی‬ ‫وی بی جی‬ ‫یوسف عالمگیرین‬ ‫پروفیسر یونس حسن‬ ‫ان ناقدین نے متوازن انداز میں حسنی کی شاعری پر اظہار خیال‬ ‫کیا ہے۔ ان حضرات گرامی کےعالوہ محمد اسلم طاہر نے مقصود‬ ‫حسنی کی شخضیت ادبی خدمات کے عنوان سے بہاؤالدین زکریا‬ ‫یونیورسٹی ملتان سے ایم فل کا مقلہ تحریر کیا جس میں ان کی‬ ‫شاعری کے متعلق باب موجود ہے۔ راقم کے ایم فل کے مقالہ۔۔۔۔۔۔‬ ‫قصور کی علمی و ادبی روایت۔۔۔۔۔۔ میں حسنی کی شاعری پر‬


‫رائے موجود ہے۔ ۔‬ ‫‪:‬ان کی شاعری پر چند اہل قلم کی آراء مالحظہ ہوں‬ ‫آپ کا یہ کالم پڑھن کے نال ہی دماغ کے بوہے پہ جینویں کسی‬ ‫نے آکر دستک دینڑ کے بجائے ُکسھن ماریا ‪،‬وجا جا کے ٹھا‬ ‫کرکے بڑا ای سواد آیا ‪ ،‬کیا ای بات ہے ہماری طرف سے ایس‬ ‫سوہنی تے من موہنی تحریر سے فیض یاب فرمانڑ کے واسطے‬ ‫چوہلیاں پرھ پرھ داد پیش ہےگی‬ ‫تواڈا چاہنے واال ‪1‬‬ ‫اسماعیل اعجاز‬ ‫‪:‬ڈاکٹر بیدل حیدری کا کہنا ہے‬ ‫مقصود حسنی کی نثری غزلیں موضوع کے اعتبار سے کتنی‬ ‫اچھوتی ہیں‘ لہجے کی کاٹ اور طنز کی گہرائی کا کیا معیار ہے‘‬ ‫قاری کیا محسوس کرتا ہے‘ استعارے اور عالمتیں کتنے خوب‬ ‫صورت انداز میں آئی ہیں۔ مستقبل میں اتنی فرصت کسے ہو گی‬ ‫کہ فرسودہ طویل غزلوں اور نظموں کو پڑھے۔ اگلی صدی تو‬ ‫مقصود حسنی جیسے مختصر اور پراثر شعر گو کی صدی ہے۔‬ ‫‪........................‬‬ ‫‪:‬ڈاکٹر عطاءالرحمن بھی اسی مجموعے پر یوں رقم طراز ہیں‬ ‫ان کی سبھی نظمیں خوب صورت ہیں جن کے بھنور میں کھو کر‬ ‫انسان اپنے اردگرد کے ماحول سے بےخبر ہو جاتا ہے لیکن‬ ‫قتل‘ ہم کب آزاد ہیں‘ آسمان نکھر گیا ہے‘ میں نے دیکھا۔۔۔۔ خوب‬ ‫ترین نظمیں ہیں جن میں انسانی درندگی‘فرعونیت‘ ظلم و جبر‘‬


‫استبدادیت‘ بےبسی و بچارگی‘ آہیں اور سسکیاں غرض اک آتش‬ ‫فشاں پنہاں ہے جو اگر پھٹتا ہے تو اس کا الوا راہ میں مزاحم ہر‬ ‫شے کو جال کر خاکستر کر ڈالتا ہے۔‬ ‫‪.............................‬‬ ‫آزاد شاعری عام طور پر میرے سر پر سے گزر جاتی ہے۔ جب‬ ‫تک میں اس کے تانے بانے سلجھاتا ہوں پچھلے پڑھے ہوئے‬ ‫مصرعے ذہن کی تہوں میں کہیں گم ہو جاتے ہیں اور میں پھر‬ ‫نظم پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش میں گرفتار ہو جاتا ہوں۔ آپ‬ ‫کی اس نظم کے مطالعہ میں ایسا صرف ایک بار ہوا اور میں جلد‬ ‫ہی منزل مقصود تک پہنچ گیا۔ یہ شاید اس لئے ہوا کہ آپ کی‬ ‫نظم پر دلسوزی اور خلوص دل کی مہر لگی ہوئی ہے جیسے آپ‬ ‫اپنی آپ بیتی بیان کر رہے ہوں۔ نظم پڑھ کر متاثر ہوا۔ نظم کا‬ ‫پیغام عام سہی لیکن اہم ضرور ہے۔ ہم اہل دنیا بے تحاشہ اہل‬ ‫اقتدار کی جانب بھاگتے ہیں اور اس تگ و دو میں بھول جاتے‬ ‫ہیں کہ دینے واال تو کوئی اور ہی ہے۔ هللا رحم کرے۔ ایسے ہی‬ ‫لکھتے رہئے۔ هللا آپ کو ہمت اور طاقت عطا فرمائے۔ صالحیت‬ ‫اور توفیق سے تو اپ بھر پور ہیں ہی۔ باقی راوی سب چین بولتا‬ ‫ہے۔ ‪2‬‬ ‫سرور عالم راز‬ ‫ڈاکٹر فرمان فتح پوری۔۔۔۔اوٹ سے۔۔۔۔ پراپنی رائے کچھ یوں دیتے‬ ‫‪:‬ہیں‬ ‫یوں تو اس مجموعے کی ساری نظمیں خوب نہیں‘ خوب تر ہیں‬ ‫لیکن ۔۔۔۔ وہ لفظ کہاں اور کدھر ہے‘ سورج دوزخی ہو گیا تھا‘‬ ‫فیکٹری کا دھواں‘ ہم کب آزاد ہیں‘ کی بات ہی کچھ اور ہے۔ کاش‬


‫یہ نظمیں باشعور قارئین تک پہنچیں اور ان میں دہکتے ہوئے‬ ‫خواب شرمندہءتعبیر ہوں۔‬ ‫‪.............................‬‬ ‫واہ‪ ...‬ڈاکٹر صاحب ! آپ نے ہمارے معاشرے کے اس نوحے کو‬ ‫بہت عمدگی سے بیان کیا ہے‬ ‫باپ کی بے حسی اور‬ ‫جنسی تسکین کا بین‬ ‫بہت کم الفاظ میں آپ نے اشارہ دیا ہے کہ قصور صرف معاشرے‬ ‫یا ارباب اختیار کا نہیں ہے بلکہ اس جرم میں وہ لوگ بھی برابر‬ ‫کے شریک ہیں جو اپنے وسائل کو دیکھے بنأ ہی اپنی نفسانی‬ ‫خواہشات کا گھوڑا سرپٹ سرپٹ دوڑائے چلے جاتے ہیں اور‬ ‫ساتھ میں اپنی (مذہبی) جاہلیت کی وجہ سے بچوں کی ایک قطار‬ ‫کھڑی کر دیتے ہیں‪3 -‬‬ ‫فیصل فارانی‬ ‫‪.................................‬‬ ‫واہ واہ بہت خوب چبھتی ہوئی نظم ہے۔ آپ نے چہرہ کو گرد سے‬ ‫صاف کرنے کو کہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارا چہرہ اتنا‬ ‫مسخ ہو چکا ہے کہ اس کو صاف کرنے کی نہیں بلکہ ایک بڑے‬ ‫اپریشن کی ضرورت ہے کہ جس سے وہ چہرہ نکھرے جو کہ‬ ‫ہمارا اصلی اور بے مثالی چہرہ سامنے ائے۔ ‪4‬‬ ‫کفیل احمد‬ ‫‪......................................‬‬ ‫اپ کی نظموں پر اج پہلی بار نظر پڑی۔ ہم نے انھیں بُہت ہی فکر‬ ‫انگیز اور ولولہ انگیز پایا۔ یہ نظم ہمیں بُہت پسند ائی ہے۔ اگرچہ‬ ‫ہم اپ کے علم کے ُمقابلے میں شائید اسے اُن معنوں تک سمجھ‬


‫نہ پائے ہوں۔ جہاں تک ہم سمجھے ہیں اپ اس میں انسان سے‬ ‫ُمخاطب ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ انسان صرف قُدرت کی عطا کی‬ ‫ہوئی چیزوں سے ُکچھ حاصل کرتا ہے۔ اگر اس سے سب ُکچھ‬ ‫چھین لیا جائے تو انسان کے اپنے پاس ُکچھ بھی نہیں‪ ،‬فقط مٹی‬ ‫کا ڈھیر ہے۔ انسان کو قُدرت کی تراشی چیزیں بُہت ُکچھ دیتی ہیں‪،‬‬ ‫لیکن انسان ان مخلوقات کو ُکچھ نہیں دے سکتا۔ البتہ جبرائیل‬ ‫والی بات ہم سمجھ نہیں سکے ہیں اور اپنی کم علمی پر نادم ہیں۔‬ ‫اگر ہم سمجھنے میں ُکلی یا جُزوی طور پر غلط ہوں تو مہربانی‬ ‫فرما کر اس ناچیز کی بات پر خفا نہ ہوئیے گا۔ ہمارا علم و ادراک‬ ‫فقط اتنا ہی ہے‪ ،‬جس پر ہم مجبور ہیں اور شرمسار بھی۔ ‪5‬‬ ‫وی بی جی‬ ‫درج باال آرء کے تناظر میں برمال کہا جا سکتا ہے کہ پروفیسر‬ ‫مقصود حسنی کی شاعری ناصرف اپنا الگ سے مقام رکھتی ہے‬ ‫بلکہ اپنے عہد کے سماجی‘ معاشی اور سیاسی حاالت کی منہ‬ ‫بولتی گواہی کا درجہ رکھتی ہے۔ صوفی مزاج ہونے کے سبب‬ ‫ایک مثالی معاشرت کی ہر موڑ پر خواہش نمایاں نظر آتی ہے۔‬ ‫‪..................................................‬‬ ‫‪1. http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7988.0‬‬ ‫‪2‬‬‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9132.03-.http://‬‬ ‫‪www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8504.0‬‬ ‫‪4- .http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9121.0‬‬ ‫‪5. http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8506.0‬‬


‫اردو انجمن اور مقصود حسنی کی افسانہ نگاری‬ ‫محبوب عالم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قصور‬ ‫دور جدید کی مفید ترین ایجاد کمپیوٹر جہاں دیگر شعبہ ہائے‬ ‫زندگی میں اپنے کماالت دکھا رہا ہے وہاں انٹرنیٹ کی دنیا میں‬ ‫شعر وادب کے فروغ میں بھی اپنے حصہ کا کردار ادا کر رہا ہے۔‬ ‫اب ادب کتابوں رسالوں یا پھر اخبارات کے ادبی ایڈیشنوں تک‬ ‫محدود نہیں رہا۔ چلتے پھرتے‘ سفر کرتے یا دفتر میں بیٹھے‬ ‫ادبی حظ اٹھایا جا سکتا ہے۔ دنیا کی دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ‬ ‫اردو بھی انٹرنیٹ پر رواں دواں ہے۔ اردو کی بہت سی ویب‬ ‫سائٹس اس وقت یہ فریضہ انجام دے رہی ہیں۔ ان ویب سائٹس پر‬ ‫سنجیدہ اور غیر سنجیدہ لوگوں کے ساتھ ساتھ شاعر اور ادیب‬ ‫بھی آ رہے ہیں۔ جہاں ادب تخلیق ہو رہا ہے وہاں عمومی اور‬ ‫غیرعمومی آراء بھی پڑھنے کو مل رہی ہیں۔ ان غیرعمومی آراء‬ ‫کو کسی طرح صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ ادب قارئین کے لیے‬ ‫ہوتا ہے۔ قارئین مختلف نوعیت کے ہو سکتے ہیں۔ وہ معامالت‬ ‫کو اپنے حوالے سے دیکھتے ہیں اور ان کے حوالہ ہی سے اپنی‬ ‫رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ کسی بھی رائے کو نظرانداز نہیں کیا‬ ‫جا سکتا کیوں کہ رائے تو رائے ہوتی ہے اور اپنے سیٹ اپ کی‬ ‫عکاس ہوتی ہے۔ ان عمومی آراء کے ساتھ ساتھ اہل نقد کی آراء‬ ‫بھی پڑھنے کو مل رہی ہیں۔‬ ‫ان فورمز بورڈز کی خدمات اپنی جگہ پر لیکن اردو انجمن بڑی‬


‫سنجیدگی اور ادبی دیانت کے ساتھ اردو کی خدمت انجام دے رہی‬ ‫ہے۔ یہاں سنجیدہ اور پختہ کار تخلیق کار اور نقاد حضرات سے‬ ‫مالقات کا موقع میسر آتا ہے۔ یہ انجمن محدود دائروں میں مقید‬ ‫نہیں۔ یہ پچیس سے زائد گوشوں پر مشتمل ہے۔ اس کی تفصیل‬ ‫کچھ یوں ہے‬ ‫ُگلہائے عقیدت‬ ‫حمد‪ ،‬نعت اور دُعا‬ ‫ناظمین‪ :‬محمد خاور‪ ,‬سالم باشوار‬ ‫اصالح سُخن‬ ‫نئے شعراء کے کالم کی اصالح اور رہنمائی‬ ‫ناظم‪ :‬سرور عالم راز‬ ‫انداز غزل‬ ‫اساتذہ اور مشاہیر کی غزلیات‬ ‫ناظمین‪ :‬سرور عالم راز‪ ,‬زرقا مفتی‬ ‫موج غزل‬ ‫آپ کی غزلیات جو بحر میں ہوں‬ ‫ناظمین‪ :‬ضیاء بلوچ‪ ,‬سہیل ملک‪ ,‬خورشید الحسن نیر‬ ‫قافیہ الفاظ‬ ‫رنگ غزل‬


‫نئے شعراء کی غزلیات‬ ‫ناظمین‪ :‬محمد خاور‪ ,‬حشمت عثمانی‬ ‫انداز سُخن‬ ‫اساتذہ اور مشاہیر کی منظومات‬ ‫ناظمین‪ :‬عاکف غنی‪ ,‬صدف‬ ‫موج سُخن‬ ‫اراکین انجمن کی پابند منظومات‬ ‫ناظمین‪ :‬زاہدہ رئیس راجی‪ ,‬سہیل ملک‬ ‫طرز سُخن‬ ‫جدید شاعری اور زبان و بیان کے نئے تجربات‬ ‫رنگ سُخن‬ ‫اراکین انجمن کی آزاد اور نثری منظومات‬ ‫ناظمین‪ :‬صدف‪ ,‬سُمن شاہ‬ ‫ذیلی بورڈ‬ ‫لُطف بیان‬ ‫افسانے‪ ،‬خاکے اور انشائیے‬ ‫ناظمین‪ :‬شاہکار‪ ,‬صالح اچ ّھا‬


‫انداز بیان‬ ‫نامور نثر نگاروں کی تحاریر‬ ‫ناظمین‪ :‬زاہدہ رئیس راجی‪ ,‬سرور عالم راز‬ ‫ذیلی بورڈ‬ ‫موج بیان‬ ‫آپ کی تحاریر‬ ‫ناظمین‪ :‬زاہدہ رئیس راجی‪ ,‬زرقا مفتی‬ ‫مزاحیہ مضامین اور خاکے‬ ‫ناظمین‪ :‬شاہکار‪ ,‬صالح اچ ّھا‬ ‫ذیلی بورڈ‬ ‫مزاحیہ منظومات‬ ‫ناظمین‪ :‬ضیاء بلوچ‪ ,‬صالح اچ ّھا‬ ‫لطائف و ظرائف‬ ‫ناظمین‪ :‬عاکف غنی‪ ,‬حشمت عثمانی‬ ‫خبر نامہ‬ ‫ادبی خبرنامہ اور تقریبات کا احوال‬ ‫نیا بورڈ‬


‫تفہیم سُخن‬ ‫آسان عروض‬ ‫آسان عروض اور شاعری کی بنیادی باتیں‬ ‫ناظم‪ :‬سرور عالم راز‬ ‫ذیلی بورڈ‬ ‫طرحی مشاعرہ‬ ‫ماہانہ طرحی مشاعرہ ﴿انجمن کا ایک سلسلہ﴾‬ ‫ناظمین‪ :‬زاہدہ رئیس راجی‪ ,‬زرقا مفتی‬ ‫بیت بازی‬ ‫اُردو شاعری کو فروغ دینے کے لئے ایک دلچسپ سلسلہ‬ ‫‪, balvinder‬ناظمین‪ :‬عامر عباس‬ ‫صوتی مشاعرہ‬ ‫آپ کی اپنی آواز میں مشاعرہ ﴿سہ ماہی سلسلہ﴾‬ ‫ناظمین‪ :‬زاہدہ رئیس راجی‪ ,‬ضیاء بلوچ‬ ‫بزبان شاعر‬ ‫آپکا کالم آپکی آواز میں‬ ‫آپ کی پسند‬ ‫اقوال زریں‪ ،‬دلچسپ باتیں‪ ،‬تصاویر اور ویڈیوز‬


‫ناظمین‪ :‬زاہدہ رئیس راجی‪ ,‬سرور عالم راز‬ ‫گوشہء خاص‬ ‫اُردو انجمن سے متعلق اعالنات احباب کے سواالت‬ ‫جان پہچان‬ ‫خوش آمدید اور تعارف‬ ‫ناظمین‪ :‬سرور عالم راز‪ ,‬زرقا مفتی‬ ‫خزانہ‬ ‫ناظم‪ :‬زرقا مفتی‬ ‫تجرباتی بورڈ‬ ‫غور فرمائیں‘ ان گوشوں میں اردو کی تمام اصناف زیر مطالعہ آ‬ ‫جاتی ہیں۔ ہر گوشے میں اچھا خاصا مواد دستیاب ہے۔ اس مواد‬ ‫کو شخصی حوالہ سے مرتب کر دیا جائے تو کئی تحقیقی مقالے‬ ‫بھارتی اور پاکستنی جامعات اس ‘ہو سکتے ہیں۔ اگر مغربی‬ ‫جانب توجہ دیں تو قدیم لوگوں کے ساتھ عصر رواں کے متعلق‬ ‫لوگوں کی ادبی خدمات کو بھی تصرف میں الیا جا سکتا ہے۔ یہاں‬ ‫میں انجمن کے صرف ایک رکن کے افسانوں کے متعلق تفصیالت‬ ‫درج کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ میری اس کوشش سے اندازہ‬ ‫ہو جائے گا کہ انجمن اپنے ادبی جثے میں کتنی مضبوط اور فراخ‬ ‫ہے۔‬


‫باباجی مقصود حسنی کی انجمن پر مختلف نوعیت کی تحریریں‬ ‫ملتی ہیں۔ ان میں افسانے بھی شامل ہیں۔ ریکارڈ کے مطابق‬ ‫موصوف ‪ ١٩٦٩‬سے افسانے لکھ رہے ہیں۔ رسائل میں چھپنے‬ ‫کے عالوہ ان کے افسانوں کے تین مجموعے ‪ -١‬کاجل ابھی پھیال‬ ‫نہیں ‪ -٢‬وہ اکیلی تھی ‪ -٣‬جس ہاتہ میں الٹھی شائع ہو چکے ہیں۔‬ ‫تیسرا مجموعہ ‪ ١٩٩٣‬میں شائع ہوا تھا۔ اب تک وہ دو سو سے‬ ‫زائد افسانے قلم بند کر چکے ہیں۔ اختصار ان کے افسانوں کی‬ ‫بنیادی خصوصیت ہے۔ ان کے افسانوں میں تصوف‘ اخالقیات‘‬ ‫روحانیت اور سماجی پہلو غالب رہتے ہیں۔ میں نے یہاں صرف‬ ‫انجمن کی اعلی کارگزاری کے ثبوت کے لیے مواد صرف انجمن‬ ‫کے گوشوں سے حاصل کیا ہے ورنہ ان کے افسانے انٹر نیٹ کی‬ ‫مختلف ویب سائٹس پر بھی پڑے ہیں۔ نیچے پیش کیا گیا جملہ‬ ‫مواد میں نے صرف اور صرف اردو انجمن سے حاصل کیا ہے۔‬ ‫روحانی اور تصوف کے ‘مقصود حسنی کے افسانوں میں اخالقی‬ ‫عناصر کے چند نمونے مالحظہ ہوں‬ ‫ہاں‘ جب رات کو‘ چارپائی پر لیٹا‘ تو حق حق حق کے نعروں‬ ‫کہ ‘نے‘ مجھے دیر تک سونے نہ دیا۔ میں نے بڑی کوشش کی‬ ‫دھیان ادھر ادھر کرکے‘ ان نعروں سے‘ خالصی پا لوں‘ مگر‬ ‫حق حق ‘کہاں جی۔ میری ایما کے برعکس‘ میرے منہ سے بھی‬ ‫حق کے آوازے نکلنے کو ہی تھے‘ کہ میں نے‘ سورت اخالص‬ ‫شاید خدا سے‘ عشق کا‘ میرا یہ پہال قدم ‘پڑھنا شروع کر دی‬ ‫تھا۔ یہ پہال موقع تھا‘ جو اثرآفرینی کے لیے‘ دم والے پانی اور‬


‫تعویزوں کا مرہون منت نہ ہوا۔ اس کے لیے‘ مجھے ایک اکنی‬ ‫بھی نہ دینا پڑی۔‬ ‫پٹھی بابا‬ ‫حمادی اسی لیے زندہ ہے‘ کہ اس نے‘ منصور کے قتل کا فتوی‬ ‫مفتی اور قاضی ہو گزرے ہیں‘ ‘دیا تھا‘ ورنہ سیکڑوں مولوی‬ ‫انہیں کون جانتا ہے۔ وہ دکھنے والے منصور کو پہچانتا تھا‘ اگر‬ ‫وہ اناالحق کا نعرہ لگانے والے‘ قیدی منصور کو جانتا ہوتا‘ تو‬ ‫اس کے قتل کا کبھی فتوی نہ دیتا۔ وہ مدعی کا‘ اس کے دعوے‬ ‫کی سطح کا‘ امتحان کرتا‘ تو ہی دودھ کا دودھ‘ پانی کا پانی ہو‬ ‫یاتا۔‬ ‫ارتعاش پیدا ہوا تھا‘ لیکن میں رقص نہ کر ‘میرے اندر بھی‬ ‫سکا‘ میں اپنے آپے میں تھا۔ میں ابھی اسلم ہی تھا‘ ریحانہ نہیں‬ ‫ہوا تھا ۔اگر ریحانہ ہو گیا ہوتا‘ تو دنیا کی پرواہ کیے بغیر‘ ملنگ‬ ‫بابے کے ساتھ رقص کر رہا ہوتا۔‬ ‫میں ابھی اسلم ہی تھا‬ ‫بابو صابر کا طرز عمل‘ اسے کچکوکے لگاتا رہا۔ وہ بے آب ماہی‬ ‫کی طرح‘ دیر تک چارپائی پر کروٹیں بدلتا رہا۔ پھر اس نے طے‬ ‫کیا‘ کہ وہ ہر معاملے کے بابو کو کھانا ضرور کھالئے۔ حرام تو‬ ‫پہلے کماتے ہیں۔ وہ حرا م کا کھانا کھال کر‘ انہیں ڈبل حرامی‬ ‫بنانے کا چارہ کرے گا۔ اس سوچ نے‘ شاید اس کی انا کو تسکین‬ ‫کہ وہ تھوڑی ہی دیر بعد‘ گہری ‘بخش دی تھی۔ یہ ہی وجہ تھی‬ ‫نیند میں چال گیا۔‬ ‫انا کی تسکین‬


‫یہ ہی وتیرا رہا ہے۔ جہاں میں بسیرا رکھتا ‘جنگل کا شروع سے‬ ‫تھا‘ وہاں رہتے توانسان تھے‘ لیکن ان کے اطوار اور قانون‘‬ ‫جنگل کے قانون سے‘ کسی طرح کم نہ تھے۔ اس جبر کی فضا‘‬ ‫کہ بچانے واال‘ ‘اور ماحول میں‘ ایک بات ضرور موجود تھی‬ ‫چوتھی مرغی کو‘ بچا ہی لیتا ہے۔ اس کی نسل‘ آتے وقتوں میں‘‬ ‫اس کے ہونے‘ اور بچانے والے محاکاتکر‘ کی گواہی دیتی رہتی‬ ‫ہے۔‬ ‫چوتھی مرغی‬ ‫آہ۔۔۔۔۔ کتنی بدنصیب تھی وہ صبح‘ ویر جی کو‘ موت کے حوالے‬ ‫کر دیا۔ وقت کا سرمد‘ چال تو گیا‘ لیکن محبتوں کی یادیں چھوڑ‬ ‫گیا۔ ملک زوراور کے کوئی نہ منہ آ سکا۔ ملک پھر سے دوسرے‬ ‫عالقوں کے وسائل پر تسلط وتصرف کی سوچ میں پڑ گیا۔ اسے‬ ‫یاد تک نہ رہا کہ اس نے کتنا بڑا ظلم ڈھا دیا ہے۔‬ ‫تنازعہ کے دروازے پر‬ ‫برہما سے بردان حاصل کیے ‘وہ یہ بھی جانتا تھا‘ کہ یہ تپسوی‬ ‫یہاں سے نہیں ٹلے گا‘ کیوں کہ جو دھار کر آتے ہیں‘ کٹ ‘بغیر‬ ‫جاتے ہیں‘ قدم پیچھے نہیں رکھتے۔ یہ اصول بھی ہے‘ اور‬ ‫یہ ہی چال آتا ہے۔‘ویدی کا ویدان بھی‬ ‫کامنا‬ ‫نمرود کو‘ اپنی جاہ وحشمت پر ناز تھا۔ وہ سمجھتا تھا‘ کہ زندگی‬ ‫اسی کے دم قدم سے‘ رواں دواں ہے۔ اگر وہ نہ رہا‘ تو چار سو‬


‫بربادی پھیل جائے گی۔ اسے یہ بھی گمان تھا‘ کہ وہ ہر اونچ نیچ‬ ‫کر سکتا ہے۔ اس کے رستے میں آنے ‘پر قادر ہے۔ وہ کچھ بھی‬ ‫واال‘ ذلت ناکی سے دوچار ہو گا۔ وہ بالشبہ‘ شیطان کی بدترین‬ ‫لعنت تھا۔‬ ‫کمال کہیں کا‬ ‫جس پیٹ میں‘ رزق حرام چال گیا‘ وہ حالل دا کس طرح رہا۔ حرام‬ ‫لقموں سے بننے واال خون‘ سر سے پاؤں تک‘ گردش کرتا ہے۔‬ ‫جس جسم میں؛ حرام خون دوڑ رہا ہوتا ہے‘ اس پیٹ والے کے‘‬ ‫جسم کے جملہ کل‘ کس طرح درست اور فطری اصولوں پر‘‬ ‫استوار ہو سکتے ہیں۔ حرام کھانے والے‘ شرعی واجبات کے‬ ‫کوشش کرتے ہیں۔ ‘ذریعے‘ خود کو حالل دا ثابت کرنے کی‬ ‫شیدا حرام دا‬ ‫آج بڑھاپے نے شاید ہوش غارت کر دئے ہیں‘ تب ہی تو سوچتی‬ ‫ہوں‘ کہ دینو کی پسینہ آمیز کمائی میں‘ بےحد سواد تھا۔ اس‬ ‫وقت مجھے کوئی بیماری الحق نہ تھی۔ یہاں حاللے کے دو ماہ‬ ‫پعد ہی معدہ کی بیماری الحق ہوگئی۔ اس کے بعد شوگر نے آ‬ ‫گھیرا۔ کمردرد تو معمول کا معاملہ ہے۔ بی پی کی کسر رہ گئی‬ ‫وہ بھی گلے کا ہار بن گئی ہے۔ مولوی صاحب کسی کی ‘تھی‬ ‫جیب تو نہیں کاٹتے‘ اس کے باوجود ان کا الیا ہوا رزق‘ ذائقہ‬ ‫میں‘ دینو کے الئے سا نہیں۔‬ ‫حاللہ‬ ‫آج میں بڑا اور صاحب حیثیت آدمی ہوں‘ مگر کب تک‘ بس‬


‫سانسوں کے آنے جانے تک۔ اس کے بعد‘ کسی کے خواب وخیال‬ ‫میں بھی نہیں رہوں گا۔ مزے کی بات یہ کہ‘ لوگ میرے سامنے‬ ‫اور پشت پیچھے‘ مجھے بڑا آدمی کہتے ہیں اور سمجھتے بھی‬ ‫یہ کیسا بڑاپن ہے‘ جو سانسوں سے مشروط ‘ہیں۔ سوچتا ہوں‬ ‫مرا نہیں۔ وقت کا فیصلہ ‘ہے۔ بڑا تو سقراط تھا‘ جو مر کر بھی‬ ‫بھی کتنا عجیب ہے‘ کہ شاہ حسین سے بھوکے ننگے‘ آج بھی‬ ‫زندہ اورالکھوں دلوں میں‘ اپنی عزت اور محبت رکھتے ہیں۔‬ ‫جو وقت کے بہت ‘قارون کے سوا‘ مجھ سے الکھوں لکھ پتی‬ ‫بڑے آدمی تھے‘ آج کسی کو یاد تک نہیں ہیں۔ یہ بڑاپن کیسا‬ ‫ہے‘ جو کیڑوں مکوڑوں سے مختلف نہیں۔‬ ‫بڑا آدمی‬ ‫عوفی نے موت کا رستہ چن کر‘ ٹیپو کی حکمت عملی پر‘ درستی‬ ‫کی مہر ثبت کر دی تھی۔ یہ کوئی ایسی معمولی بات نہ تھی۔‬ ‫لیکن کوئی تجزیہ نگار اسے ناکام ‘عوفی فاتح جرنیل ناسہی‬ ‫جرنیل بھی نہیں قرار دے گا۔ کاشف اور پنکی جیت کر بھی ہار‬ ‫چکے تھے۔ عوفی نے انھیں عبرت ناک شکست دی تھی۔ یہ ہی‬ ‫‘حقیقت اور یہ ہی وقت کا انصاف ہوگا۔ ہر کیے کا‘ کوئی ناکوئی‬ ‫پرینام تو ہوتا ہی ہے۔ کاشف‘ باپ ہو کر‘ ماموں کا رشتہ استوار‬ ‫کرنے پر مجبور ہو گا اور پنکی کا آنچل پچھتاوے کی آگ میں‬ ‫جلتا رہے گا۔۔۔۔۔۔۔ ہاں جلتا رہے گا۔‬ ‫آنچل جلتا رہے گا‬ ‫مسجد سے هللا اکبر کی صدا گونجی۔ میں کانپ کانپ گیا۔ اس سے‬ ‫پہلے بھی یہ آواز کئی بار سن چکا تھا لیکن اج تو اس آواز نے‬


‫گھائل کر دیا۔ هللا مجھے واپس لوٹنے کے لئے کہہ رہا تھا۔ میں‬ ‫تیزی سے مسجد کی جانب بڑھ گیا۔ جانے کتنی دیر سجدہ میں رہا‬ ‫لیکن جب سر اٹھایا سارا غبار چھٹ چکا تھا۔‬ ‫بیوہ طوائف‬ ‫فقیر بابا کو میں بھی پاگل سمجھتا تھا۔ میں نے اس کے کہے کے‬ ‫مفاہیم دریافت کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ ہوٹل پر‬ ‫کام کرتے بچے کو دیکھ کر احساس ہوا ہے کہ فقیر بابا غلط نہیں‬ ‫کہتا۔ وہ پاگل نہیں‘ اس نے تو دنیا کی گل پا لی ہے۔ اسی لیے ہر‬ ‫پوچھنے والے کو دنیا کا حقیقی چہرا دیکھاتا ہے کہ انسان تنہا‬ ‫ہو گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔تنہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں یکسر تنہا۔‬ ‫فقیر بابا‬ ‫یہ سب اس نے جاگتی آنکھوں سے دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیسے‬ ‫بھول پاتا۔ کربناک لحموں کی بازگشت تازیست یادوں کے نہاں‬ ‫گوشوں میں اپنا تمثالی وجود برقرار رکھتی ہے۔ یادوں کا تمثالی‬ ‫وجود نیند کے جھونکوں کا انتظار نہیں کرتا۔ موقعہ بہ موقعہ‬ ‫اپنے اٹوٹ وجود اور قلبی رشتے کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ اسے‬ ‫اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ کسی پر کیا گزرے گی۔‬ ‫بازگشت کا رشتہ اگر مٹی ہو جائے تو گزرا کل اپنی معنویت کھو‬ ‫دے اور صیغہ تھا الیعنی ہو کر رہ جائے۔‬ ‫بازگشت‬ ‫اسے اپنی موت کا رائی بھر دکھ نہ تھا۔ اس نے خود یہ رستہ‬ ‫منتخب کیا تھا۔ اب یہ درندہ کبھی کسی کمزور کا وحشیانہ تعاقب‬


‫نہ کر سکے گا اور اس کی ٹانگوں سے ہمیشہ اف اف اف کے‬ ‫بزدل نعرے بلند ہوتے رہیں گے۔‬ ‫آخری کوشش‬ ‫سقراط اور حسین نے‘ اس مروجہ طور کو‘ جان دے کر‘ غلط‬ ‫قرار دیا۔ ہم سقراط اور حسین کے راستے کو‘ درست مانتے ہیں‬ ‫اوراس رستے کا‘ زبانی کالمی احترام بھی کرتے ہیں۔ عملی طور‬ ‫پر‘ ہمارا پرنالہ وہیں پر ہے۔‬ ‫معالجہ‬ ‫‘مجھے اپنی موت کا رائی بھر دکھ نہیں۔ ایک دن‘ مرنا تو ہے ہی‬ ‫دو دن آگے کیا‘ دو دن پیچھے کیا۔ مجھے تین باتوں کا رنج ہے‘‬ ‫کہ میں حمیدے کو بچا نہ سکا۔ وہ ابھی زندہ تھا اور آخری‬ ‫سانسوں پر نہ تھا۔ افسوس‘ وہ قانونی تقاضوں کی بھینٹ چڑھ‬ ‫گیا۔ قانون اس کا قاتل نہیں‘ قانونی تقاضوں کے علم بردار‘ اس‬ ‫کے قاتل ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے واال نہیں۔ دوسرا جیرے کا‬ ‫جھاکا کھلنے پر‘ تاسف ہے‘ اب تو وہ اور انھی مچائے گا۔ اس‬ ‫ذیل میں تیسری بات یہ ہے‘ کہ پتا نہیں‘ منافقت کا دیو‘ کب بوتل‬ ‫میں بند ہو کر‘ دریا برد ہو گا۔‬ ‫ابھی وہ زندہ تھا‬ ‫سچائی کا حسن‘ بار بار نمودار ہونے کے لیے‘ ہوتا ہے۔ اسے‬ ‫نمودار ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ہاں اس کی جڑوں کا‬ ‫پھیلنا اور مضبوط ہونا ضروری ہوتا ہے۔ یہ سب هللا کے اختیار‬ ‫میں ہے۔ زمین کے اندر‘ ہم دخل اندازی نہیں کر سکتے۔ سچائی‬


‫کی زمین‘ حد درجہ ذرخیز ہوتی ہے۔ اس کی ازل سے موجود‬ ‫جڑیں‘ کسی ناکسی پودے کو سطح زمین پر التی رہیں گی۔‬ ‫سچائی کی زمین‬ ‫سب سے زیادہ خرابی سر اٹھاتی ہے۔ روپے کی ‘رمضان میں ہی‬ ‫چیز کے‘ پانچ روپے وصولے جاتے ہیں۔ اس نے سوچا‘ شیطان‬ ‫کے قید ہو جانے کے بعد‘ اس کے انڈے بچے‘ شیطان سے بڑھ‬ ‫کر‘ اندھیر مچاتے ہیں۔ اسے اپنے منصوبے کے‘ ناکام ہو جانے‬ ‫کا اعتراف کرنا پڑا۔ وہ اپنی ذات سے‘ شرمندہ تھا۔ اس منصوبے‬ ‫کی کام یابی کے لیے‘ برائی کا الروا‘ پہلے تلف ہونا چاہیے۔‬ ‫الروا ختم ہو جائے‘ تو ہی آتا کل محفوظ ہو سکتا ہے۔‬ ‫الروا اور انڈے بچے‬ ‫گامو سوچیار کے ان لفظوں نے‘ میری نیند اور سکون چھین لیا‬ ‫ہے۔ میں کئی بار‘ اپنے ضمیر کو مطمن کرنے کی کوشش کر‬ ‫چکا ہوں۔ کم بخت‘ مطمن ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ گامو سوچیار‬ ‫جیسے لوگوں کو‘ مصلوب کیا جاتا رہا ہے‘ اس کے باوجود‘‬ ‫ہر عہد میں‘ ان کی جگہ لے ہی لیتا ہے۔ گامو ‘کوئی ناکوئی‬ ‫یہ بات غور طلب ہے‘ تاہم یہ ‘ یا نہیں‘سوچیار کا کہا‘ درست ہے‬ ‫طے ہے‘ کہ اس گھر میں ہنستے مسکراتے دو منافق رہتے ہیں‬‫دو منافق‬ ‫ہر زبان پر‘ اس کی اچھائی اور شریف النفسی کے‘ کلمے تھے۔‬ ‫وہاں سے‘ معلوم ہوا‘ اس کی بیوہ‘ کسی وقت رشیدہ خانم تھی۔‬ ‫حاالت اور وقت نے‘ اسے شیداں کپتی بنا دیا تھا اور رشتہ‘‬


‫حضرت سید حیدر امام صاحب نے کروایا تھا۔ سید صاحب بھی‬ ‫تشریف الئے تھے۔ وہ گوشہ نشین بزرگ تھے۔ پورا عالقہ‘ ان‬ ‫کی عزت کرتا تھا۔ وہ کچھ ہی دیر‘ وہاں رکے۔ چہرے پر جالل‬ ‫تھا‘ ہاں‘ ساتھ چھوٹ جانے پر‘ ان کی آنکھوں سے‘ خاموش‬ ‫آنسو رواں تھے‬ ‫ان پڑھ‬ ‫یہاں کے شرفا بڑے نیک اور حاجی ثناءهللا ‘سروے کے مطابق‬ ‫ہیں لیکن عملی اعتبار سے‘ حرام خور ہیں۔ مانیں نہ مانیں‘ آپ‬ ‫کی مرضی۔ حقیقت یہ ہی ہے‘ کہ ہم کسی ناکسی سطح پر‘ حرام‬ ‫خور ہیں۔۔۔۔۔ حرام خور۔۔۔۔۔۔۔اسی وجہ سے ہم پوری دنیا میں ذلیل‬ ‫وخوار ہیں۔‬ ‫پاخانہ خور مخلوق‬ ‫هللا جانے‘ شخص کے ذاتی حقوق کو‘ کیوں گول کر دیا جاتا ہے۔‬ ‫ذاتی حقوق‘ پہلی ترجیع پر ہوتے ہیں۔ جو شخص‘ اپنے حقوق‬ ‫ادا کرے گا‘ وہی هللا اور اس کی پوری کائنات کی مخلوق کے‘‬ ‫حقوق ادا کر سکے گا۔۔ جو شخص‘ اپنی ذات سے انصاف نہیں‬ ‫یا کہہ ‘کرتا‘ اللچ اور خوف کے زیر اثر‘ ضمیر کی نہیں کہتا‬ ‫سکتا‘ رزق حالل‘ اپنے وجود کو مہیا نہیں کرتا‘ دوسروں کو‬ ‫کیسے کر سکے گا۔ هللا کا بےنیاز اور ہر حاجت سے باال ہونا‘‬ ‫اسی میں ہے‘ کہ شخص‘ اس کی ‘مسلم ہے۔ اس کی خوشی‬ ‫مخلوق کے حقوق پوری دیانت داری سے ادا کرے۔ حقوق کا‬ ‫معاملہ ذات سے‘ هللا کی طرف پھرتا ہے۔‬ ‫دائیں ہاتھ کا کھیل‬


‫موسی خود کو جانتے تھے۔ انہیں‘ اس امر سے خوب آگہی‬ ‫کہ انہیں هللا کی تائید حاصل ہے۔ اگر انہیں یہ اگہی ‘حاصل تھی‬ ‫تو وہ دریا میں‘ اتنے لوگوں کو‘ ساتھ لے کر‘ ‘حاصل نہ ہوتی‬ ‫سفر جاری نہ رکھتے۔ فرعون کو‘ اپنی خدائی کا پورا پورا یقین‬ ‫یا یقین دلوا دیا گیا تھا‘ تب ہی تو‘ اس نے دریا میں فوجیں ‘تھا‬ ‫ڈال دیں۔ اس سے‘ وہ ناصرف فوج سے‘ ہاتھ دھو بیٹھا بلکہ‬ ‫عزت بھرم اور پہلے سی شان و شوکت سے بھی گیا۔ یہ عبرت‘‬ ‫آتی نسلوں کے لیے‘ حجت بنی رہی۔ ذاتی گمان اور چیلوں چمٹوں‬ ‫اندھی اور بے لگام طاقت ‘کی الیعنی اور مطلبی جی حضوری‬ ‫نے‘ کچھ باقی نہ رہنے دیا۔‬ ‫پنگا‬ ‫کسی انسانی ماں کی اوالد‘ کسی دوسری ماں کی اوالد پر‘ ظلم‬ ‫کی اس حد تک جا ہی نہیں سکتی۔ بندوق کی نوک‘ سر جھکانے‬ ‫پر مجبور کر سکتی ہے‘ لیکن اس سے‘ دل فتح نہیں ہو سکتے۔‬ ‫قبضہ و تصرف کی ہوس‘ تصادم کے دروازے کھولتی ہے۔ ماں‬ ‫کی محنت‘ مشقت اور پیار سے‘ پروان چڑھنے والے بچوں کو‬ ‫لہو میں نہالتی ہے۔ تلوار کی فتح کو‘ فتح کا نام دینا‘ کھلی جہالت‬ ‫ہے۔ ہاں ماں کے سے‘ پیار سے‘ دل جیتو‘ تاکہ کمزور طبقے‘‬ ‫سکھ کا سانس لے سکیں اور انسانیت‘ سسکنے بلکنے سے‘‬ ‫مکتی حاصل کر سکے۔‬ ‫وہ کون تھے‬ ‫سوچوں کے گہرے سائے تلے‘ آہستہ آہستہ چلتا ہوا‘ اپنے گھر‬


‫کے دروازے تک‘ پہنچ گیا۔ دروازے سے دروازے تک کا یہ‬ ‫‘سفر‘ اسے صدیوں کا سفر محسوس ہوا۔ قدسیہ کا گرجنا برسنا‬ ‫یقینا غلط نہ ہو گا۔ اس نے سوچا‘ میں بھی کیسا شخص ہوں‘‬ ‫صدیاں الیعنیت میں گزار کر‘ گھر خالی ہاتھ لوٹ آیا ہوں۔ مجھے‬ ‫یہ یاد نہ رہا‘ کہ بچوں کے لیے‘ چکی سے آٹا ‘غیر تو یاد رہے‬ ‫لینے نکال تھا۔ پھر وہ سر جھکائے‘ گھر میں داخل ہو گیا۔‬ ‫دروازے سے دروازے تک‬ ‫ناں ناں‘ ناں یہ سب بکواس‘ اور هللا کے رازق ہونے سے‘ انکار‬ ‫کے مترادف ہے۔ ہر پیدا ہونے واال‘ اپنا رزق لے کر پیدا ہوتا ہے۔‬ ‫ایسا ہو ہی نہیں سکتا‘ کہ اس کا رزق‘ اس کے ساتھ نہ آئے۔ اس‬ ‫یا اس کا رزق کھا کر‘ مر جانے والوں ‘کا رزق ارم بنانے والوں‬ ‫یہاں شخص ہزاروں سال ‘کو‘ فراہم کیا جاتا ہے۔ ماسٹر صاحب‬ ‫سے‘ بھوکا پیاسا ہے۔ ایسے حاالت میں‘ کوے کی پیاس کون‬ ‫دیکھتا ہے۔ اسے پیاسا ہی رہنا ہے۔ هللا نے‘ اس کے حصہ میں‬ ‫پیاس نہیں رکھی۔ معاشی ڈسپلن کو‘ تباہ کرنے کے باعث‘ کوے‬ ‫کی پیاس نہیں بجھ رہی۔‬ ‫اسے پیاسا ہی رہنا ہے‬ ‫میرا مارا جانا‘ ایسی کوئی بڑی بات نہیں۔ پریشان ہونے کی کوئی‬ ‫ضرورت نہیں‘ ایسا ہوتا آیا ہے‘ ہوتا رہے گا۔ یہ معمول کا مسلہ‬ ‫پہلے سے چلی آتی ہے۔ محسن کشوں سے‘ ‘ہے۔ محسن کشی‬ ‫قدرت سب کچھ چھین لیتی ہے‘ اور زمین و آسمان پر‘ ذلت و‬ ‫ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ حضرت ابراہیم‘ نمرود کے ‘رسوائی‬ ‫‘خیر خواہ تھے‘ اس نے صلہ میں اذیت دی۔ حضرت موسی‬


‫فرعون کے ہم درد تھے‘ لیکن وہ محسن کش نکال۔ سقراط‘ خیر‬ ‫‘کی چلتی پھرتی عالمت تھا‘ اسے زہر پالیا گیا۔ حضرت عیسی‬ ‫کوئی معمولی شخص نہ تھے۔ وہ‘ جن کا وہ بھال کر رہے تھے‘‬ ‫وہ ہی انہیں صلیب تک لے آیا۔ حضرت محمد کو‘ اچھا کرنے کے‬ ‫جرم میں‘ پتھر مارے گیے۔ ہر طرح کی ازیت دی گئی۔ حضرت‬ ‫حسین‘ خیر کے رستے پر تھے‘ جن کی بھالئی کر رہے تھے‘‬ ‫اور انہیں جہنم کی آگ سےبچانے کے لیے‘ کوشش کر رہے‬ ‫تھے وہ ہی پرلے درجے کے بدکردار نکلے۔ منصور خیر کا‬ ‫پرچارک تھا‘ کتنی اذیت ناکی سے‘ اسے قتل کیا گیا۔ سرمد میں‘‬ ‫ہند سچائی کا سورچ تھا‘ اس کے ساتھ کیا گیا‘ ہند کا بچہ بچہ‬ ‫جانتا ہے۔‬ ‫پہال قدم‬ ‫بابا جی کی باتوں کو‘ سب نے سنا اور پسند کیا۔ ادریس صاحب‬ ‫قربانی کے گوشت پر‘ اٹکی ہوئی تھی۔ اتنی دیر میں‘ ‘کی سوئی‬ ‫پانچ لوگوں کا کھانا‘ اندر سے آ گیا۔ چار لوگوں کے لیے چٹنی‬ ‫جب کہ ایک کے لیے‘ گوشت سے بھری پلیٹ آئی۔ ‘ملی لسی‬ ‫جو اماں جی ‘سب نے‘ باطور تبرک چٹنی ملی لسی سے روٹی‬ ‫کھائی اور کھانے کو پرذائقہ ‘کے ہاتھوں کی پکی ہوئی تھی‬ ‫قرار دیا۔ ادریس صاحب کا‘ موڈ اب بھی خراب تھا۔ انہیں پکائی‬ ‫کے‘ ناقص ہونے کا‘ گلہ تھا۔ وہ کیا جانیں‘ گھر میں تو گوشت‬ ‫پکا ہی نہ تھا۔ گوشت کی پلیٹ اور روٹیاں‘ چوہدھری صاحب نے‘‬ ‫بجھوائی تھیں۔ وہ ہی سفید آٹے کی روٹیاں‘ ادریس صاحب کے‬ ‫پیٹ میں گئی تھیں۔‬ ‫ادریس شرلی‬


‫رحمو‘ نیکی کے رستے سے‘ رائی بھر ادھر ادھر نہ ہوا۔ میں‬ ‫مجھ سے غلطیاں تو ہوتی رہتی تھیں۔ ‘انسان تھا‘ نادانستہ سہی‬ ‫هللا نے‘ دو سال مجھے معافی مانگنے کا‘ موقع دیا۔ آخری تین‬ ‫ماہ‘ لوگوں نے‘ میرے لیے دعائیں کیں۔ ان کی دعاؤں نے‘‬ ‫مجھے هللا کی رحمت سے‘ مایوس ہونے سے بچایا۔ میں ہر‬ ‫یقینا ‘لمحہ‘ هللا کی عطا و رحمت کا امید وار رہا۔ آخری پندرہ دن‬ ‫یہ ہی میری پوری ‘بڑے درد ناک اور کرب ناک تھے۔ جانتے ہو‬ ‫زندگی کا حاصل تھے۔ میری حالت پر‘ لوگوں کو ترس آنے لگا۔‬ ‫لوگوں نے‘ خلوص نیتی سے میرے گناہوں کی بخشش کے لیے‘‬ ‫دعا کی۔ هللا انہیں اجر دے۔ میری موت اور راحت مرزا کی موت کا‬ ‫موازنہ کرو‘ لوگ تو لوگ‘ اسے خود‘ اپنے گناہوں کی توبہ کا‬ ‫موقع نہ مل سکا۔ دنیا میں‘ راحت مرزا سے زیادہ بدنصیب‘ اور‬ ‫کون ہو گا۔ ذرا غور تو کرو۔‬ ‫موازنہ‬ ‫وہ اسے وقت ضائع کرنے کے مترادف سمجھتا تھا۔ اس کا زیادہ‬ ‫تر‘ بیبیاں پاک دامناں اور حضرت شاہ حسین الہوری کے‬ ‫باتیں ‘درباروں پر‘ آنا چانا تھا۔ وہ دیر تک‘ وہاں بیٹھا اکیال ہی‬ ‫کرتا رہتا۔ اسے واپسی کوئی جواب ملتا یا نہ ملتا‘ کوئی نہیں‬ ‫جانتا۔ اگر کوئی پوچھتا‘ تو جواب میں ہنس دینا۔ اس کے اس‬ ‫ہنسنے میں‘ اثبات اور نہی کا‘ دور تک نام ونشان تک نہ ہوتا۔‬ ‫سرگوشی‬ ‫کتنی عجیب بات ہے‘ ان میں سے کسی کو اپنی اخالقی و روحانی‬


‫بیماریوں کا علم تک نہیں۔‬ ‫عاللتی استعارے‬ ‫حضرت پیر صاحب کی باتوں میں حقیقت رقصاں تھی۔ وہ‬ ‫بےچارے دعا ہی کر سکتے تھے۔ وہ علی رضا کے لیے کیا کر‬ ‫سکتے تھے۔ ان کی باتیں‘ ان کے عالقہ کے چوہدری صاحب کو‘‬ ‫گولی کی طرح لگتی تھیں۔ حاالں کہ وہ کسی کا نقصان نہیں کرتے‬ ‫تھے۔ وہ تو‘ اپنے منہ کا لقمہ‘ حاجت مندوں کو دے دیتے تھے۔‬ ‫دوسری بار‬ ‫آپ حسب معمول نہایت ذمہ داری اور دلسوزی سے ہمارے‬ ‫معاشرہ کے حاالت پر لکھ رہے ہیں۔ حقیقت ہمیشہ تلخ ہوتی ہے‬ ‫لیکن اس سے مفر بھی نہیں ہے۔ میں بھی اسی معاشرہ کا فرد‬ ‫ہوں جس کا ماتم آپ کرتے رہتے ہیں۔ اب تو ایسا نظر آنے لگا‬ ‫ہے کہ ہمارا هللا بھی محافظ نہیں ہے کیونکہ ہم خود اپنی ذمہ‬ ‫داریوں سے ہاتھ کھینچ چکے‬ ‫آراء دہندگان اردو انجمن‬ ‫جناب اسماعیل اعجاز‬ ‫جناب اظہر‬ ‫جناب تنویرپھول‬ ‫جناب خلش‬ ‫جناب ساجد پرویز آنس‬


‫جناب سرور عالم راز‬ ‫جناب ضیا بلوچ‬ ‫جناب مشیر شمسی‬ ‫جناب وی بی جی‬ ‫افسانے جن پر رائے دستیاب ہوئی ہے۔ اس میں کوتاہی یا غلطی‬ ‫ممکن ہے۔ جس کے لیے پیشگی معذرت چاہوں گا۔‬ ‫ادریس شرلی‬ ‫آخری کوشش‬ ‫چار چہرے‬ ‫سرگوشی‬ ‫موازنہ‬ ‫پہال قدم‬ ‫اسے پیاسا ہی رہنا ہے‬ ‫یہ کوئی نئی بات نہ تھی‬ ‫دروازے سے دروازے تک‬ ‫وہ کون تھے‬ ‫پنگا‬ ‫دائیں ہاتھ کا کھیل‬ ‫هللا جانے‬ ‫پاخانہ خور مخلوق‬ ‫ان پڑھ‬ ‫الروا اور انڈے بچے‬ ‫سچائی کی زمین‬


‫ابھی وہ زندہ تھا‬ ‫حاللہ‬ ‫بازگشت‬ ‫فقیر بابا‬ ‫بیوہ طواءف‬ ‫بڑا آدمی‬ ‫کریمو دو نمبری‬ ‫معالجہ‬ ‫میں ابھی اسلم ہی تھا‬ ‫پٹھی بابا‬ ‫جواب کا سکتہ‬ ‫ماسٹر جی‬ ‫بڑے ابا‬ ‫گناہ گار‬ ‫گناہ گار‬ ‫انا کی تسکین‬ ‫انگریزی فیل‬ ‫چوتھی مرغی‬ ‫تنازعہ کے دروازے پر‬ ‫کامنا‬ ‫ابا جی کا ہم زاد‬ ‫دو دھاری تلوار‬ ‫شیدا حرام دا‬ ‫عاللتی استعارے‬ ‫بیوہ طوائف‬


‫آراء‬ ‫ادریس شرلی‬ ‫جون ‪2014 ,23‬‬ ‫بُہت عمدہ جناب۔ ایسی تحریروں کی معاشرے کو بہت شدت سے‬ ‫ضرورت ہے۔ لوگوں کو ہر پہلو سے ائینہ دکھاتے رہنا ہی اپ کی‬ ‫تحریروں کا مقصد ہے اور وہ اپ بہترین طریقے سے کر رہے‬ ‫ہیں۔‬ ‫ادریس صاحب میں وہ وہ خصلتیں پائی جاتی ہیں جو اکثر‬ ‫عورتوں میں پائی جاتی ہیں‪ ،‬لیکن ُکچھ مردوں میں بھی یہ‬ ‫خصلتیں پائی جاتی ہی ہیں۔ ہمارا ذاتی خیال ُکچھ اس بارے میں یہ‬ ‫ہے کہ ہمیں نیکی اور بدی کے فرق کو بہتر طور پر سمجھنے‬ ‫کی ضرورت ہے۔ کئی ایسی نام نہاد نیکیاں معاشرے میں عام ہیں‬ ‫جس سے بُہت نقصان ہو رہا ہے۔ جس کی مثال ہم ُکچھ یوں دیں‬ ‫گے کہ کئی غیر قانونی سرکاری مراعات یہ کہہ کہ جائز قرار دے‬ ‫دی جاتی ہیں ‪:‬چھوڑیں جی‪ ،‬یہ غریب ادمی ہے‪ ،‬اس کا بھال ہو‬ ‫جائے گا‪ :‬۔۔۔ سرکاری مال ‪ ،‬مال مفت اور دل بے رحم۔‬ ‫دوسری مثال ان عمر رسیدہ لوگوں کی بھی ہے جنہیں ہم اپنے‬ ‫بچوں سے چاچا اور انکل کہلواتے ہیں۔ بچوں کو یہ احساس‬ ‫ضرور ہونا چاہیئے کہ عمر کے ساتھ الزما ً زندگی کا وسیع تجربہ‬ ‫منسلک ہوتا ہے‪ ،‬لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہر بات‬ ‫میں وہ درست ہوں۔ بقول ہمارے دیرینہ دوست شیخ سعدی‬


‫مرحوم کے‪: ،‬بزرگی بہ عقل ہست‪ ،‬نہ بہ سال‪:‬۔‬ ‫اندھی تقلید چاہے مذہب کی ہی کیوں نہ ہو‪ ،‬ہم ذاتی طور پر اس‬ ‫کے حق میں نہیں ہیں۔ سو ہمارے خیال میں کہانی کے مرکزی‬ ‫کردار جیسے لوگوں کو ان کے منہ پر اپنے دل کی بات مناسب‬ ‫انداز میں بتا دینی چاہیئے اور ہر کسی کی عزت اتنی ہی کرنی‬ ‫چاہیئے جتنے اس کے اعمال کا حق ہو۔ ہمارے ہاں تو اپ جانتے‬ ‫ہی ہیں کہ کسی کی تعظیم اور اس کا مقام‪ ،‬اج بھی لوگ‪ ،‬یا تو اس‬ ‫کی دولت کے حساب سے کرتے ہیں یا پھر عمر کے حساب سے۔‬ ‫ہماری نظرمیں یہ پیمانہ درست نہیں۔ بڑی گاڑی سے اترے والے‬ ‫شخص کی خدمت بھاگ بھاگ کر کی جاتی ہے‪ ،‬چاہے وہ خود نہ‬ ‫بھی چاہے‪ ،‬جبکہ اس ناچیز جیسا کوئی شخص سنیارے کی دکان‬ ‫میں جانا چاہے تو محافظ دروازے پر ہی روک کر پوچھ گچھ‬ ‫ُ‬ ‫شروع کر دیتا ہے۔ دوسری طرف اگر کوئی بزرگ‪ ،‬بقول اپ ہی‬ ‫کے‪ ،‬اپنا لُچ بیچ میں تلنے کی کوشش کرے (ویسے یہ محاورہ‬ ‫بھی کیا ہی خوب کسی نے بنایا ہے‪ ،‬ہمیں بُہت پسند ہے) تو اس‬ ‫پر خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔‬ ‫سو ہمارے خیال میں جب تک تعظیم کا معیار درست نہیں ہوتا‪،‬‬ ‫معاشرتی نا انصافیاں بڑھتی ہی چلی جائیں گی۔ لوگوں کو ہر پہلو‬ ‫سے ائنہ اپ خوب دکھاتے رہتے ہیں تاکہ لوگ اپنے گریبان میں‬ ‫جھانک کر اپنے اندر موجود برائی کو جان پائیں۔ اور اگر وہ جان‬ ‫گئے تو اس میں سب کا بھال ہو گا۔‬ ‫ایک بات ہم سے کہنا رہ گئی تھی۔ اپ کی تحریروں میں محاوراتی‬


‫زبان کا عنصر نمایاں ہے۔ اسے پڑھ کر ہمارے علم میں بہت‬ ‫اضافہ ہوتا ہے اور یقینا ً اس کے اثر سے ہم بھی اپنی بات کو‬ ‫بہتر‪ ،‬پُر اثر اور با معنی بنا سکا کریں گے۔ جس پر ُ‬ ‫شکر گزار‬ ‫ہیں۔‬ ‫ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ۔‬ ‫وی بی جی ‪1‬‬ ‫آخری کوشش‬ ‫جوالئی ‪2013 ,15‬‬ ‫فی زمانہ نثر نگاری کا فن زنگ آلود ہو چالہے۔ کوئی رسالہ بھی !‬ ‫اٹھا کر دیکھئے توسوائے چند اوسط درجہ کے افسانوں اور چند‬ ‫منظومات (غزل اور آزاد نظمیں) کے عالوہ کچھ اور نظر نہیں آتا۔‬ ‫ماضی میں رسالوں میں ادبی‪ ،‬علمی اور تحقیقی مضامین کثرت‬ ‫سے ہوا کرتے تھے۔ تنقید و تبصرہ فن کی حیثیت سے سیکھے‬ ‫اور سکھائے جاتے تھے اورافسانہ نگاری بھی اونچے معیار کی‬ ‫حامل تھی۔ اب ادب پر ایک عمومی زوال تو طاری ہے ہی نثر‬ ‫نگاری خصوصا اضمحالل کا شکار ہے۔ غزل کہنا لوگ آسان‬ ‫سمجھتے ہیں (حاالنکہ ایسا نہیں ہے)۔ غزل میں وقت کم لگتا ہے‬ ‫اور نظم میں اور نثر میں زیادہ ۔ نثر مطالعہ اور تحقیق بھی چاہتی‬ ‫ہے جس سے ہماری نئی نسل بیگانہ ہو کر رہ گئی ہے۔ یہ ظاہر‬ ‫ہے کہ کوئی زبان بھی صرف ایک صنف سخن کے بل بوتے پر‬ ‫پھل پھول نہیں سکتی لیکن اردو والے اس معمولی سی حقیقت‬


‫سے یا تو واقف ہی نہیں ہیں یا دانستہ اس سے صرف نظر کر‬ ‫رہے ہیں۔ انٹرنیٹ کی اردو محفلیں بھی اسی مرض کا شکار ہیں‬ ‫اور وہاں بھی سوائے معمولی غزلوں کے (جن میں سے بیشتر‬ ‫تک بندی ہوتی ہیں) کچھ اور نظر نہیں آتا۔ آپ کی نثرنویسی میں‬ ‫مختلف کوششیں اس حوالے سےنہایت خوش آئند ہیں۔ آپ مطالعہ‬ ‫کرتے ہیں ‪،‬سوچتے ہیں اور انشائیے لکھتےہیں۔ اس جدو جہد‬ ‫کو قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ میں اپی مثال کسی خودستائی‬ ‫کی شہ پر نہیں دیتا بلکہ دوستوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ‬ ‫شوق‪،‬محنت اور لگن ہو تو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ میں نے‬ ‫انجینیرنگ پر نصابی کتابیں لکھی ہیں۔ ان کے عالوہ غزل‪ ،‬نظم‪،‬‬ ‫افسانے‪ ،‬ادبی مضامین‪ ،‬تحقیقی مضامین‪ ،‬ادبی تنقید وغیرہ سب‬ ‫ہی لکھا ہے۔ یقینا سب کچھ اعلی معیار کا نہیں ہے لیکن بیشتر‬ ‫اچھے معیار کا ہے اور ہندو پاک کے معتبر اور موقر رسالوں‬ ‫میں شائع ہوتا ہے۔ میں آپ کی انشائیہ نگاری کا مداح ہوں اور‬ ‫درخواست کرتا ہوں کہ برابر لکھتے رہہئے۔زیر نظر انشائیہ اچھا‬ ‫ہے لیکن یہ مزید بہتر ہو سکتا تھا سو اپ وقت کے ساتھ خود ہی‬ ‫کر لیں گے۔ خاکسار کی داد حاضر ہے ۔ باقی راوی سب چین بولتا‬ ‫ہے۔‬ ‫سرور عالم راز‬ ‫سالم اس تحریر پر ہم ُکچھ نہ لکھیں گے۔ فقط یہی کہ اسے پڑھ‬ ‫کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور تحریر کے اختتام کے قریب‬ ‫سانسیں ُرک جاتی ہیں۔ اور پھر منہ کھُال کا کھُال رہ جاتا ہے۔ اس‬ ‫کے اندر جو کرب ہے اور جو ُکچھ یہ انگلیاں لکھنے کو دوڑ رہی‬


‫ہیں‪ ،‬اُسے بصد مشکل روکتے ہوئے‪ ،‬ایک بار پھر سے بھرپور‬ ‫داد ۔۔۔دُعا گو‬ ‫وی بی جی ‪2‬‬ ‫چار چہرے‬ ‫نومبر ‪2013 ,26‬‬

‫‪Pehla chehra yaqeenan sab se mumtaaz hai.‬‬ ‫‪Hairangi ki baat yeh hai keh iss taraf koi jaata he‬‬ ‫‪nahi. Danish ka barqaraar rehna aur usske liye‬‬ ‫‪apne aap ko qurban karna buhot baRi baat hai‬‬ ‫‪aur yehi baat pehle chehre ko dosrooN se‬‬ ‫‪mumtaz karti hai.‬‬ ‫‪Fikr angaiz khayyal aur umah tahreer.‬‬ ‫خلش‬ ‫آپ کا مختصر انشائیہ دیکھا تو مجھ کو ‪ ١٩۴٨‬کے آس پاس والد‬ ‫مرحوم کا لکھا ہوا ایک مضمون ‪:‬عورت کی فطرت‪ :‬یاد آ گیا جس‬ ‫کالب لباب یہ تھا کہ یہ معمہ اب تک حل ہوا ہے اور نہ آئندہ اس‬ ‫کے حل ہونے کی کوئی امید ہے۔ آپ کاانشائیہ دیکھا کہ آخری‬ ‫چند سطروں میں آپ نے خیال ظاہر کیے ہے کہ ان چار چہروں‬


‫کے مطالعہ سے یہ گتھی سلجھ سکتی ہے۔ میں صرف جذباتی‬ ‫طور پر ہی نہیں بلکہ فکری سطح پربھی والد مرحوم سے زیادہ‬ ‫متفق ہوں۔ آپ جب اس معمہ کو سمجھ لیں تو اپنے ارادت مندوں‬ ‫کو ضرور حل سے آگاہ کیجئے گا! باقی رہ گیا راوی تو وہ چین‬ ‫بولتا ہے۔‬ ‫سرور عالم راز‬ ‫میرا بھی یہی خیال ہے کہ محترم راز چاند پوری نے درست‬ ‫فرمایا تھا ویسے یہ بھی پیش نظر رہے کہ ایک حدیث کا مفہوم‬ ‫کچھ اس طرح ہے کہ عورت پسلیکی ہڈی سے پیدا ہوئی ہے‬ ‫‪،‬اسے بالکل سیدھا کرنے کی کوشش نہ کرو ورنہ توڑ بیٹھو‬ ‫گےاس کی کجی کے ساتھ اس سے فائدہ اٹھاتے رہو‬ ‫والسالم‬ ‫تنویرپھول ‪3‬‬ ‫سرگوشی‬ ‫جوالئی ‪2014 ,06‬‬ ‫آپ کاانشائیہ "سرگوشی" آپ کے مخصوص طرز فکر وبیان کا‬ ‫اعلی نمونہ ہے۔ ایک ایک جملہ میں ایک داستان پوشیدہ ہے۔ بین‬ ‫السطور کیا کیا نہیں کہہ دیا گیا ہے۔ پنجابی سے میں نا واقف ہوں‬ ‫پھر بھی سیاق و سباق سے کچھ سمجھ ہی گیا۔ اگر آپ پنجابی‬ ‫اشعار‪ ،‬کہاوتوں اور فقروں کا ترجمہ بھی لکھ دیا کریں تو ہماری‬ ‫مشکل آسان ہو جائے گی۔ اس سے قبل بھی آپ کے کئی انشائیے‬


‫نظر آئے لیکن اپنی بد تقدیری کے ہاتھوں ان سے مستفید نہ ہو‬ ‫سکا۔ اب واپس جا کر ان کو پڑھنے کا ارادہ ہے۔ رمضان چل رہے‬ ‫ہیں۔ اس مبارک ماہ میں ایسے مضامین اور بھی دل پذیر ہو‬ ‫جاتے ہیں۔ جزاک هللا خیرا۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔‬ ‫سرور عالم راز ‪4‬‬ ‫موازنہ‬ ‫جون ‪2014 ,27‬‬ ‫جناب عزت افزائی کا بُہت ُ‬ ‫شکریہ۔ ہمارے لیئے اعزاز کی بات ہے‬ ‫کہ اپ کے قلم نے ہمیں اس الئق سمجھا ہے۔ لیکن ایک گزارش‬ ‫کرنا چاہیں گے کہ صاحب! یہ تعریفیں ہم سے برداشت نہیں‬ ‫ہوتیں۔ سمجھ لیجے کہ تعریفیں وی بی جی کی موت ہیں۔ ہمیں‬ ‫اچھی طرح معلوم ہے کہ اپ نے کس قدر خلوص اور محبت سے‬ ‫ہمارے بارے میں اپنے خیاالت کا اظہار فرمایا ہے۔ اور یقینا ً اپ‬ ‫نے حق گوئی کا مظاہرہ کیا ہو گا۔ جیسا محسوس ہؤا ویسا بیان‬ ‫کیا ہو گا۔ ہم ُ‬ ‫شکر گزار ہیں کہ اس الئق سمجھا اپ نے۔اپ نے‬ ‫بُہت ہی خوبصورت انداز میں جواب عنایت فرمایا ہے۔ اپ قلم کار‬ ‫ہیں سو اپ بات کہنے کا فن جانتے ہیں۔ لیکن اس گہرائی سے‬ ‫مشاہدہ کرنا ظاہر ہے کہ گہری سوچ اور سلجھا ہؤا ذہن چاہتا ہے۔‬ ‫ہماری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ جواب بھی ہمیں بہت‬ ‫پسند ایا ہے۔ دراصل کئی ایسے سوال ہوتے ہیں‪ ،‬جن کے ذہن‬ ‫میں اتے ہی‪ ،‬لوگ انہیں جھٹالنا ُ‬ ‫شروع کر دیتے ہیں کہ یہ تو‬


‫سوچنا بھی گناہ ہے۔ اور اس طرح گویا یہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ‬ ‫ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے جو انسان دے سکے۔ اور‬ ‫نتیجہ یہ کہ اپنے اپ کو دھوکہ دیتے رہتے ہیں اور ایمان کی‬ ‫کمزوری کا شکار رہتے ہیں۔ ہمارے خیال میں تمام سواالت کے‬ ‫جواب موجود ہوتے ہیں۔ هللا پاک اور اس دنیا کا وجود ہمیں غیر‬ ‫منطقی نہیں نظر اتا۔ اگر ہم سوچنے پر ہی پابندی لگا دیں‪ ،‬تو‬ ‫جواب کہاں سے ائیں گے۔ ایمان پُختہ ہونا چاہیئے‪ ،‬راز کھُلتے‬ ‫چلے جاتے ہیں۔تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد۔۔۔ بُہت ہی عمدہ‬ ‫تحریر ہے۔ ظاہر ہے کہ کئی سوالوں کے جواب دیتی ہے۔ سُلجھا‬ ‫ہؤا انداز تحریر ہے۔ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ ۔‬ ‫وی بی جی ‪5‬‬ ‫پہال قدم‬ ‫جون ‪2014 ,22‬‬ ‫بُہت عمدہ جناب۔ بُہت ہی اعلی تحریر ہے۔ بھرپور داد۔ اپ کو بات‬ ‫کہنے کا فن اتا ہے‪ ،‬اور ظاہر ہے کہ یہی ایک قلم کار کے فن کا‬ ‫مظہر ہے۔یہ تحریر جس راستے پر چلنے کا سبق دے رہی ہے‬ ‫جناب‪ ،‬وہ بُہت ہی مشکل راستہ ہے۔ اس قدر مشکل کے تصور‬ ‫کرنا بھی محال۔ کاش کہ ہم لوگ اس مقام تک پہنچ‬ ‫سکیں۔مشکالت صرف یہی نہیں جو تحریر سے عیاں ہیں‪ ،‬بلکہ‬ ‫ُکچھ برعکس بھی ہیں۔ اپ نے تاریخ میں سے ُکچھ مثالیں قلمبند‬ ‫کی ہیں‪ ،‬لیکن سچ پوچھیں تو ہم ایسی ہزاروں مثالیں پیش کر‬


‫سکتے ہیں‪ ،‬جہاں بُرا کرنے والے کو اس کے کیئے کے برابر‬ ‫سزا نہیں ملی۔ کئی ایسی مثالیں بھی ہیں جن میں سرے سے سزا‬ ‫ملی ہی نہیں‪ ،‬بلکہ ظلم کرنے والے اخری سانس تک عیاشی اور‬ ‫ظلم کرتے رہے۔ کئی مثالیں تو ہمارے سامنے ہی موجود ہیں‬ ‫جہاں شرفا مہینوں چارپائی پر کھانس کھانس کر اور ایڑیاں رگڑ‬ ‫رگڑ کر مرتے ہیں‪ ،‬جبکہ ظالم لوگوں کے لیئے قدرت نے قدرے‬ ‫اسان طریقہ موت بھی ایجاد کر رکھا ہے جیسے دل کا دورہ پڑنے‬ ‫سے اچانک دُنیا سے اُٹھ گیا۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر دُنیا میں‬ ‫انصاف ہو رہا ہوتا اور ہر ظالم کو حق کے مطابق سزا مل رہی‬ ‫ہوتی‪ ،‬تو‪ ،‬نہ تو یہاں ظلم عام ہوتا‪ ،‬اور نہ ہی جنت اور دوزخ کے‬ ‫وجود کی کوئی ضرورت تھی۔جب یہ سب انسان دیکھتا ہے‪ ،‬کہ‬ ‫دنیا میں انصاف نہیں ہے۔ اچھا کرتا اور بُرا نتیجہ لیتا ہے تو‬ ‫ظاہر ہے کہ قدم ڈگمگا جاتے ہیں۔ هللا پر اعتماد بھی کہنے کو تو‬ ‫بُہت ہوتا ہے‪ ،‬لیکن دل میں کمزور پڑ جاتا ہے۔ ایسی صورت میں‬ ‫اس راستہ پر چلنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔باقی جناب اپ کی‬ ‫تحریر اس قدر خوبصورتی سے کئی پہلو سمجھا رہی ہے کہ مذید‬ ‫ُکچھ کہنے کو رہ ہی نہیں جاتا۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول‬ ‫کیجے۔ امید ہے کہ پڑھنے والے جس قدر ہو سکا‪ ،‬اثر لیتے‬ ‫ہوئے‪ ،‬سچائی کے راستہ پر ڈٹے رہیں گے۔ایک بار پھر بھرپور‬ ‫داد کے ساتھ‬ ‫وی بی جی‬ ‫ہم معذرت خواہ ہیں کہ ہماری باتوں نے اپ کو کل سے عجیب‬ ‫سی کشمکش اور بے چینی میں مبتال کر رکھا ہے۔ ہم نے کوشش‬


‫کی کہ جلد سے جلد حاضر ہو سکیں سو حاضر ہو گئے ہیں۔پہلے‬ ‫تو ہم یہ بتاتے چلیں کہ جو اپ ‪ 40 - 50‬سال سے کر رہے ہیں وہ‬ ‫بُہت بڑا کام ہے۔ ہم نے بھی ایسی ہی تحریریں پڑھی ہیں اور ہمیں‬ ‫یاد تک نہیں کہ وہ کون لکھتے تھے۔ اور بھی کئی لوگ ہیں جو‬ ‫اس علمی خزانے سے استفاضہ حاصل کرتے ہیں۔ اپ کی‬ ‫تحریروں نے کئی لوگوں کو اگہی بخشی ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ‬ ‫اُنہیں اپ کا نام بھی یاد نہ رہے‪ ،‬اور تحریروں کو سرسری پڑھ‬ ‫کر چلے جائیں۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ یہی وہ تحریریں ہیں جو‬ ‫اُن کے الشعور میں پیوست ہو جاتی ہیں۔ اور پھر اہستہ اہستہ‬ ‫شعور کا حصہ بنتی چلی جاتی ہیں۔اپ جانتے ہی ہیں کہ ہم قلم کار‬ ‫نہیں ہیں سو ُکچھ بھی لکھتے ہیں تو وہ بکھرا بکھرا اور کئی‬ ‫بار بے ربط سا ہو جاتا ہے۔ ُکچھ ایسا ہی یہاں بھی ہؤا۔اصل میں‬ ‫بات پیر صاحب کی تھی‪ ،‬سو ہم اسے پیری میں ہی لے گئے۔ جو‬ ‫طرز عمل پیر صاحب کا اس تحریر میں تھا وہ ہمارے خیال سے‬ ‫صرف پیروں کے ہی بس کی سی بات ہے۔ سو ہم نے اس میں‬ ‫پیش انے والی مشکالت کو ذرا سا بیان کر دیا اپنی محدود عقل‬ ‫کے حساب سے۔ مشکالت تو اس بھی کہیں ذیادہ بڑھ کر ہیں۔ اس‬ ‫سے ایک درجہ اوپر کی مشکل بھی موجود ہے جسے الفاظ بھی‬ ‫دئیے جا سکتے ہیں‪ ،‬لیکن اس کے بعد کی مشکالت کو تو الفاظ‬ ‫بھی دینا ممکن نظر نہیں اتا ہمیں۔ ہم اس میں ذیادہ نہیں جاتے‪،‬‬ ‫وگرنہ شاید ہم اپنی بے تُکی باتوں سے اپ کو مذید الجھا ہی نہ‬ ‫دیں۔هللا پاک ہم سب کو طاقت دے کہ ہر مشکل برداشت کریں لیکن‬ ‫نیکی کے راستے سے قدم نہ بہکیں۔‬ ‫وی بی جی‬


‫اسے پیاسا ہی رہنا ہے‬ ‫جون ‪2014 ,20‬‬ ‫آپ کی تحریر میں بہت درد ہوتا ہے اور ہر بات آپ کے دل سے‬ ‫نکلی ہوئی لگتی ہے۔ نئی نسل ہماراہی عکس ہے۔ ہم نے ان کے‬ ‫لئے جو روایات چھوڑی ہیں وہ ان سے الگ کیونکر ہو سکتے‬ ‫ہیں۔ لوگوں سے جب ذکر ہوتا ہے تو ہمارے یہاں بندھا ٹکا جملہ‬ ‫ہوتا ہے کہ "دعا کیجئے" اور ظاہر ہے کہ صرف دعا سے کیا‬ ‫ہوتا ہے۔ اونٹ تو بھاگ چکا ہے۔ اب ہم الکھ دعا مانگیں وہ لوٹ‬ ‫کر نہیں آنے کا۔ هللا هللا خیر سال۔‬ ‫سرور عالم راز‬ ‫بُہت ہی شاندار تحریر ہے۔ ایک تو جس طرح یہ کہانی کوے کے‬ ‫پیاسے ہونے کی تشریح کرتی ہے بُہت ہی خوب ہے اور پھر‬ ‫اختتام تو سبھان هللا ۔۔ ہماری طرف سے بھرپور داد۔‬ ‫محترم سرور عالم راز سرور صاحب کی باتوں سے بھی استفادہ‬ ‫کیا۔ اپ کی باتیں بجا ہیں۔ حاکم ہمیشہ محکوم کی وجہ سے حاکم‬ ‫رہا ہے اور رہے گا۔ ہمیں اس سے کیا کہ ہماری تاریخ میں کیا‬ ‫ُکچھ بھرا پڑا ہے۔ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ہارون‬ ‫الرشید اور مامون الرشید کے دور میں فرقہ معتضلہ کی کیا‬ ‫حیثیت تھی۔ خاندان برامکہ کے ساتھ کیا ہؤا۔ کس کی الش بازار‬ ‫میں کتنے دن لٹکی رہی۔ اور حضرت امام احمد بن حنبل کے ساتھ‬ ‫کیا کیا گیا۔ ہمیں صرف ان کے دور حکومت کی تعریف کرنی ہے‬


‫کیونکہ وہ مسلمان خلفا تھے۔ ہمیں مغلیہ دور کی بھی تعریف‬ ‫کرنی ہے ہم کیوں جانیں یا مانیں کہ نور جہاں شیر افگن کی بیوی‬ ‫تھی یا نہیں۔ اسے کس نے کیوں قتل کروایا۔ ہمیں ان کی تعریف‬ ‫ہی کرنی ہے۔ اپ کئی بار کہہ چُکے ہیں کہ مورخین نے بُہت ظلم‬ ‫کیا ہے۔ بالکل دُرست کہتے ہیں جناب کوا پیاسا رہے گا۔ دُرست۔‬ ‫لیکن کوے کو پانی کی تالش جاری رکھنی چاہیئے اور ہم اس‬ ‫کے لیے کوشاں رہیں گے۔‬ ‫قدرت کا کھیل ہی ایسا ہے۔ کوے کو پیاس دی ہے اور امتحان یہی‬ ‫ہے کہ اسے پانی پال کر دکھاؤ تو تم کامیاب۔ یہی جہت ہے یہی‬ ‫جہاد۔ہماری نظر میں یہ اپ کی زور دار تحریروں میں سے ایک‬ ‫ہے۔ شاندار ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور داد۔‬ ‫وی بی جی‬ ‫عمدہ پُر فکر تحریر سے ہمیں جھنجھوڑنے کا بے حد شکریہ‬ ‫مگر صاحب ہم سبھی اپنا اپنا کردار نبھاتے اپنی اپنی منزل کی‬ ‫جانب رواں دواں ہیں ہم میں سے ہر شخص دوسرے کے ئے‬ ‫امتحان ہے اور اسی امتحان پر پورا اترنے کا نام ڈسپلن ہے اور‬ ‫یہ ڈسپلن حق ادا کرنے کا نام ہے حق مانگنے کا نہیں ‪ ،‬مگر آج‬ ‫الٹی گنگا بہ رہی ہے ہر شخص اپنا حق مانگ رہا ہے مگر‬ ‫دوسروں کا حق ادا نہیں کر رہا یہیتو ڈسپلن کی خالف ورزی‬ ‫ہےایسی پُر فکر تحریروں کے آئینے میں ہمیں ہمارا چہرہ‬ ‫دکھانے کا شکریہ قبول فرمائیےکبھی نہ کبھی شرم ہمیں ضرور‬ ‫آئے گیوالسالم‬ ‫‪6‬اسماعیل اعجاز‬


‫یہ کوئی نئی بات نہ تھی‬ ‫جون ‪2014 ,18‬‬ ‫کیا ہی بات ہے جناب ۔ بُہت خوب۔ بُہت باریک معاملے پر قلم اٹھایا‬ ‫ہے اور کیا ہی خوب اٹھایا ہے۔ یہ انداز بھی بُہت پسند ایا جس‬ ‫طرح اپنے معاملے کو ایک مقالمہ کی شکل دی اور بات واضح‬ ‫سے واضح طور تر ہوتی چلی گئی۔ ہمیں سو فی صد اتفاق ہے اپ‬ ‫کی اس بات سے۔ معاملے کو تھوڑا وسیع کر کے دیکھیں تو بات‬ ‫وہیں جنون و خرد کی لڑائی پر اتی ہے۔ ہمارا ذاتی خیال ہے کہ‬ ‫جنوں اورد کی طرح ہے اور عموما ً کسی چیز کا حقیقی اور حتمی‬ ‫احساس ہوتا ہے۔ خرد کو دالئل چاہیئں۔ وہی فرق جو وکالت اور‬ ‫نفسیات کا اپ کی تحریر میں جھلکتا محسوس ہوتا ہے۔نفسیات‬ ‫چونکہ اس چیز کا مطالعہ کرتی ہے ‪:‬جو ہے‪ ،:‬اس لیئے حقیقت‬ ‫کے قریب تر ہے۔ جبکہ وکالت کا زیادہ تر زور اس پر ہے کہ ‪:‬کیا‬ ‫ہونا چاہیئے‪ :‬حاالنکہ ہمارے نذدیک ‪:‬کیا ہونا چاہیئے‪ :‬کا اس‬ ‫وقت تک تعین ہی نہیں کیا جاسکتا جب تک یہ مکمل طور پر جان‬ ‫نہ لیا جائے ‪:‬جو ہے‪ :‬۔اپ نے بجا فرمایا کہ ہمارا معاشرہ‪ ،‬اکہرے‬ ‫نہیں بلکہ دوہرے معیار کا شکار ہے بلکہ ہم تو کہیں گے کہ کئی‬ ‫ہرے معیاروں کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بقول شخصے ‪:‬ہر‬ ‫شخص چاہتا ہے کہ اس کی بیوی وہ ُکچھ نہ کرے جو وہ چاہتا‬ ‫ہے کہ پڑوسی کی بیوی کرے‪ :‬اس کی وجہ ہمیں جو محسوس‬ ‫ہوتی ہے وہ بھی اپ نے بیان فرما ہی دی ہے‪ ،‬کہ ہم لوگوں نے‬ ‫اسالم کو اپنی ہندوستانی تہذیب کے ساتھ ہم اہنگ کرنے کی‬ ‫کوشش کی ہے۔ اسالم میں غیرت کا ایسا تصور ہمیں کہیں نہیں‬ ‫ملتا‪ ،‬وہاں کافی باتیں ُکچھ مختلف انداز میں ہیں۔لیکن خیر یہ‬


‫واقعی کوئی نئی بات نہیں ہے‪ ،‬لیکن اپ نے اسے اپنے قلم کے‬ ‫زور سے نیا بنا دیا ہے۔ مقالمہ بُہت اچھا لکھا ہے اپ نے۔ ہمیں‬ ‫تو پڑھ کر بُہت مزا ایا جناب۔ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ ۔۔۔‬ ‫وی بی جی ‪7‬‬ ‫دروازے سے دروازے تک‬ ‫جون ‪2014 ,14‬‬ ‫بُہت ہی دلسوز تحریر ہے جناب۔ کیا خوب قلم چالئی۔ یقین جانیے‬ ‫تحریر پڑھ کر اپ کے قلم کی تعریف کرنے کی بجائے‪ ،‬رونے کا‬ ‫دل چاہتا ہے۔تحریر کا پہال حصہ جس موضوع پر قاری کا دل نرم‬ ‫کرتا ہے‪ ،‬اُس پر ُکچھ کہتے بھی شرم محسوس ہوتی ہے لیکن‬ ‫اس دلسوز حقیقت کو جان لینے کے بعد تحریر کا دوسرا حصہ‬ ‫صحیح طور سے سمجھ بھی اتا ہے اور دل پر اثر کرتا ہے۔‬ ‫مسلمان معاشرہ اتنی بیماریوں کا شکار ہو چُکا ہے کہ بندہ کیا‬ ‫کہے اور کیا نہ کہے۔ لوگ اس قدر بے حس ہو چُکے ہیں کہ ہر‬ ‫معاملہ کو حکومت کی زمہ داری قرار دے کر‪ ،‬پہلو تہی کر جاتے‬ ‫ہیں۔ یہاں تک کہ کبھی کبھی ہمیں لگتا ہے کہ لوگ چاہتے ہیں وہ‬ ‫گھروں میں سکون سے بیٹھے رہا کریں اور حکومت سب کو‬ ‫گھر گھر ہر مہینے پیسوں کی بوری دے جایا کرے۔ انہیں سمجھ‬ ‫نہیں اتا کہ اناج نہیں اُگائیں گے تو نہیں کھائیں گے۔ ریڑھی پر‬ ‫لوگوں کو دھوکے سے گندے ٹماٹر بیچنے واال خود حکومت سے‬ ‫رنجیدہ ہے کہ وہ دھوکے باز ہے۔ لوگ نہیں سمجھتے کہ وہ‬


‫ایجادات‪ ،‬تعلیم‪ ،‬زراعت وغیرہ میں محنت کر کہ دنیا کو ُکچھ دیں‬ ‫گے نہیں تو دنیا انہیں موبائل اور کمپوٹر مفت فراہم نہیں کرے‬ ‫گی۔ مذہبی ُمعامالت میں انتہا پسندی یہی ہے کہ ایک فرقہ قبر کو‬ ‫سجدے تک کرنے پر راضی ہے تو دوسرا قبروں کو التیں مارتا‬ ‫پھرتا ہے۔ برداشت ختم ہو چکی ہے۔ ایک انگریز بوڑھی سی‬ ‫خاتون ایک دن ٹی وی پر کسی پروگرام میں بہت پیار اور حیرت‬ ‫بھرے لہجے میں فرما رہی تھیں کہ اخر مسلمانوں کو کیوں‬ ‫کمیونٹی بن کر رہنا نہیں ا رہا ہے۔ وہ نہیں سیکھ رہے اور‬ ‫نقصان بھی وہ اپنا ہی کرتے جا رہے ہیں۔ اُس کے نذدیک یہ بُہت‬ ‫معمولی سی بات تھی کہ اتنی سی بات نہیں سمجھ ا رہی۔خیر ہمیں‬ ‫تو اب اپنے اپ سے ڈر لگنے لگ گیا ہے کہ اگر ہم اپنے قلم پر‬ ‫قابو نہ پا سکے تو ہمارا حال وہی ہو گا جو ساحر اور جالب کا‬ ‫ہؤا تھا۔ لیکن خیر‪ ،‬ابھی ہمیں اپنے اندر موجود‪ ،‬اس بے حسی پر‬ ‫بھروسہ ہے‪ ،‬جو اس معاشرہ نے ہمیں تحفہ میں دی ہے۔تحریر‬ ‫پر ہم اپ کو ایک بار پھر بھرپور داد دیتے ہیں۔‬ ‫وی بی جی ‪8‬‬ ‫وہ کون تھے‬ ‫جون ‪2014 ,11‬‬ ‫سالم عاجزانہ‬ ‫آپ کی تحریر پڑھی دل میں برسوں سوۓ ہوۓ جذبہ رحم دلی‬ ‫جگا گئی ہماری طرف سے اتنی اچھی تحریر لکھنے پر بھرپور‬ ‫داد قبول کیجئے جناب ڈاکٹر صاحب ہمارا علم اتنا وسیع نہیں کہ‬


‫ہم اس بات کی گہرائی تک پہنچ سکیں لفظ "حضرت"جس کے‬ ‫کافی لفظی معنی ہیں لیکن اکثر یہ لفظ تعظیما استعمال کیا جاتا ہے‬ ‫لیکن زیادہ تر یہ لفظ کسی پیغمبر یا هللا کے ولی کے نام کے ساتھ‬ ‫آیا‬ ‫"‪.......‬حضرت مہاتما بدھ کی تعلیمات"‬ ‫ہمیں مہاتما بدھ کے بارے میں زیادہ علم نہیں لیکن میں نے یہ‬ ‫لفظ ان کے نام کے ساتھ پہلے کبھی نہیں پڑھا ہم چونکہ مہاتما‬ ‫بدھ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ممکن ہے کہ پہلے بھی ان‬ ‫کے نام کے ساتھ یہ لفظ استعمال ہوا ہو لیکن پھر بھی آپ سے‬ ‫گزارش ہے کہ تسلی بخش جواب دیں جس سے ہمارے علم میں‬ ‫اضافہ ہوغلطی گستاخ معاف دعا ہے کہ هللا آپ کو اور زور قلم‬ ‫عطا کرے مجھے اپنی دعاؤں می یاد رکھیں‬ ‫وی بی جی‬ ‫پنگا‬ ‫جون ‪2014 ,07‬‬ ‫آداب و تسلیمات کے بعد بہت دلکش پیرائے میں لکھی ہوئی‬ ‫تحریر ہے‪ ،‬داد آپ کا حق ہے وصول پائیے‬ ‫اظہر‬ ‫آپ کو علم ہی ہے کہ میں آپ کے مضامین کا پرانا مداح ہوں۔‬ ‫روز اول سے ہی میں اس خیال کا ہوں کہ آپ کو اپنے مضامین‬


‫کتابی صورت میں شائع کوادینا چاہئیں۔ خدا خدا کرکے آپ باآلخر‬ ‫اس پر راضی ہو گئے ہیں سو بصد عجز و محبت عرض ہے کہ‬ ‫نصف "رائلٹی" کا میں مستحق ہوں! یہاں لکھے دے رہا ہوں‬ ‫تاکہ "سند رہےاور بوقت ضرورت کام آوے"۔آپ کا انشائیہ‬ ‫"پنگا" آپ کے مخصوص انداز فکر و بیان کی عکاسی کرتا ہے۔‬ ‫اس میں حسب معمول زندگی اور دنیا کے چہرے سے نقاب‬ ‫اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہر چند کہ بہت سی باتیں ظاہر‬ ‫سی ہیں لیکن "گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را" والی‬ ‫بات بھی تو اہم ہے۔ بہت خوب لکھا ہے آپ نے۔ هللا آپ کو سالمت‬ ‫رکھے۔ لکھتے رہئے اور یہ بتائیں کہ کتاب کب تک آ رہی ہے۔‬ ‫باقی راوی سب چین بولتا ہے۔‬ ‫سرور عالم راز‬ ‫بُہت خوب تحریر ہے۔ ہمیشہ کی طرح داد حاضر۔ معذرت بھی‬ ‫چاہتے ہیں کہ فوری حاضری نہیں دے پاتے۔ جس کی وجہ یہ ہے‬ ‫کہ اپ کی تحریر کو لفظ لفظ پڑھنا ہوتا ہے‪ ،‬اور اسے انہماک‬ ‫سے پڑھتے وقت یکسوئی ضروری ہوتی ہے۔ جبکہ کاروبار‬ ‫زندگی اس کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ جیسے ہی فرصت پاتے ہیں تو‬ ‫حاضر ہو جاتے ہیں۔جان کر بُہت خوشی ہوئی کہ طباعت کا کام‬ ‫جاری ہے‪ ،‬اور جلد اپ کی کتابیں شائع ہونے والی ہیں۔اپ کی‬ ‫تحریر بُہت جاندار ہے‪ ،‬البتہ جناب پنگے کے بغیر تو دُنیا میں‬ ‫کوئی تبدیلی نہیں ا سکی۔ چاہے تبدیلی اچھی ہو یا بُری‪ ،‬اس کے‬ ‫بغیر ممکن نظر نہیں اتی۔ اگرچہ ہمارا یہ بیان بھی پنگا لینے کے‬ ‫مترادف ہے‪ ،‬لیکن چونکہ ہم پنگا لینے کے خوب حق میں ہیں‪،‬‬


‫سو یہ اعالمیہ جاری کرنا جائز سمجھتے ہیں۔تقدیر کسی کے پنگا‬ ‫لینے یا نہ لینے کو دیکھتی ہی نہیں۔ ٹائگر کی ہی مثال لیجے‪،‬‬ ‫تحریر کہیں نہیں کہتی کہ اس کو خارش لگنے کا سبب بھی کوئی‬ ‫پنگا ہی تھا جو ٹائگر سے سرزد ہؤا۔ وہ بغیر پنگا لیئے ہی‬ ‫خارش کی نظر ہو گیا۔ دوسری طرف پنگا لینے واال ناگ خود تو‬ ‫اپنے پنگے کی سزا بھُگت گیا‪ ،‬لیکن ساتھ میں ٹائگر کو بھی لے‬ ‫گیا۔ ہٹلر نے جو پنگا لیا سو لیا‪ ،‬لیکن اُن الکھوں لوگوں نے کیا‬ ‫پنگا لیا تھا کہ بیچارے‪ ،‬ایٹم بم کی نذر ہو گئے۔ ایسے ہی سکندر‬ ‫کو تو جہلم کے مچھروں نے سزا دی‪ ،‬لیکن اس ہاتھی بیچارے کا‬ ‫کیا قصور تھا جس کی سونڈ کاٹ گیا۔ نہ ہی راجہ پورس کی‬ ‫فوجوں نے کوئی پنگا لیا تھا کہ لتاڑی گئیں۔سو صاحب جس نے‬ ‫پنگا لیا‪ ،‬اُس نے دوسروں کو بھی بڑا نقصان پہنچایا۔ دوسری‬ ‫طرف خود پنگا نہ لو تو کسی دوسرے کے پنگے کا شکار ہو‬ ‫جانا پڑتا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی صاحب اپنی ایک کتاب میں‬ ‫لکھتے ہیں کہ ایک بار اُنہیں ُکچھ دوستوں کے ساتھ خچروں پر‬ ‫دشوار گزار پہاڑی راستوں پر سفر کرنا پڑا۔ ایک صاحب تھے‪،‬‬ ‫کہ جب بھی خچر کسی دشوار اور خطرناک جگہ سے پہار پر‬ ‫چڑھتا تو وہ صاحب‪ ،‬خچر سے نیچے اُتر جاتے اور خود‬ ‫چڑھتے۔ کسی نے کہا کہ صاحب‪ ،‬یہ خچر ماہر ہیں یہاں پہاڑوں‬ ‫پر چڑھنے کے۔ اپ کا پاؤں پھسال تو اپ بے موت گہری کھائی‬ ‫میں مارے جائیں گے۔ اُن صاحب نے جواب دیا کہ حضرت جانتا‬ ‫ہوں‪ ،‬لیکن میں اپنی غلطی کی موت مرنا چاہتا ہوں‪ ،‬نہ کہ اس‬ ‫خچر کی غلطی کی سزا میں مروں۔تو صاحب اس سے پہلے کہ‬ ‫کوئی اور پنگا لے کر ہماری زندگی میں خلل ڈالے‪ ،‬ہم خود پنگا‬ ‫لے لینا مناست سمجھتے ہیں۔مزاح برطرف۔ اس بات سے انکار‬


‫نہیں کہ قدرت سے پنگا لینے والے کا انجام بُہت بُرا ہے۔ احتیاط‬ ‫الزم ہے۔ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ ۔۔‬ ‫وی بی جی‬ ‫کیا ہی دلچسپ پنگا ہے کیا دلچسپ انداز بیاں ہے آپ کا کیسے‬ ‫کیسے پنگے منظر عام پر آپ الئے ایک منظر ابھی آنکھوں میں‬ ‫ہوتا ہے کہ دوسرا منظر آ جاتا ہے قائم ہو جاتا ہے اور سبھی‬ ‫میں دلچسپ پنگا بقول وی بی جی کہ ہر چیز میں پنگا الزم‬ ‫ہےپنگا نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہےیہ مانا کہ پنگے سے‬ ‫جیون حسیں ہےمجھ سے آ پ کی تحریر پڑھ کر خاموش نہ رہا‬ ‫گیا پنگا لینے چال آیا صاحب آپ کے اس پنگے نے مجھے ایک‬ ‫ساتھی اسلم پنگا یاد دال دیے اسلم پنگا ہمارے بہت اچھے ساتھی‬ ‫تھے ہم ان دنوں‪ 91 , 1990‬میں کراچی ایئر پورٹ کی تعمیر میں‬ ‫مصروف تھے جہاں ہماری ایک بڑی ٹیم تین حصوں پر مشتمل‬ ‫تھی جن میں ایپرن ‪ ،‬بلڈنگ اور روڈ اینڈ انفرا اسٹیکچر ورکس‬ ‫وغیرہ شامل تھے ہمارے پاس ایپرن واال حصہ تھا جس میں اسلم‬ ‫پنگا ہمارے ساتھ ہوا کرتے تھے ہم لوگ ایک فرنچ تعمیراتی‬ ‫کمپنی ـ’’ سوجیا پاکستان ‘‘ میں کام کر رہے تھے اسلم پنگا آج‬ ‫آپ کے اس پنگا مضمون کو پڑھ کر یاد آئے ان کا کام ہر ایک‬ ‫سے پنگا لینا ہوتا تھا بغیر پنگے کے ان کی زندگی ادھوری تھی‬ ‫کھانا گھر سے الیا کرتے تھے ایک دن انہوں نے انڈے اور‬ ‫بینگن کو مال کر ایسا پنگا لیا کہ پہچاننا مشکل ہو گیا کہ اس‬ ‫خمیرہ گاؤزبان میں انڈہ کونسا ہے اور بینگن کونسا ہے هللا تعالی‬ ‫کی تخلیق کردہ دو الگ الگ ذائقوں میں الگ الگ مزاج کی حامل‬


‫اجناس کو یکجا کر کے ایسا کشتہ تیار کیا تھا کہ جس کے کھانے‬ ‫کے کئی گھنٹے بعد تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ کیا کھایا بس یہ لگا‬ ‫کہ کسی حکیم صاحب نے اپنی زندگی کے آزمودہ نسخوں سے‬ ‫حاصل شدہ معجون کہہ لیں کشتہ کہہ لیں تیار کیا ہے کہ جسے‬ ‫کھایا تو جاسکتا ہے مگر اس میں شامل اجزا کاتجزیہ نہیں کیا‬ ‫جاسکتا جس کے کھانے کے بعد بہت سے رکے ہوئے معامالت‬ ‫نہ صرف حل ہو جاتے ہیں بلکہ ان سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارہ‬ ‫مل جاتا ہےتو صاحب کبھی یہ پنگا بھی لیجئے بینگن اور انڈے‬ ‫کچھ اسطرح پکائیے کہ بینگن بینگن نہ رہے اور انڈہ انڈہ نہ‬ ‫رہے بینگنڈہ بن جائےہلکی سی کالی مرچ اور نمک کے ساتھ‬ ‫تناول فرمائیے مزہ نہ آنے پر انڈہ الگ اور بینگن الگ پکائیے‬ ‫اور الگ الگ کھائیےاس دلکش تحریر سے مستفید فرمانے کے‬ ‫شکریہ قبول فرمائیے‬ ‫اسماعیل اعجاز ‪9‬‬ ‫دائیں ہاتھ کا کھیل‬ ‫جون ‪2014 ,01‬‬ ‫تحریر ہم کئی بار پڑھ چُکے ہیں‪ ،‬لیکن یکسوئی نصیب نہ ہو‬ ‫سکی۔ ہر بار دھیان ادھر ادھر کرنا پڑا اور ہم ُکچھ کہنے کے الئق‬ ‫نہ ہو سکے۔بُہت خوب تحریر ہے جناب۔ کیا ہی بات ہے۔ بھر پور‬ ‫داد قبول کیجے۔ دین ایسی چیز ہے کہ اس کو حوالہ بنا کر جو‬ ‫چاہے کیا جا سکتا ہے۔ اس سے اشتعال پھیالنا بھی بُہت اسان سا‬ ‫کام ہو گیا ہے۔ چند لوگ اشتعال سچ ُمچ میں محسوس کرتے ہیں‪،‬‬ ‫باقی کی کثیر تعداد صرف مشتعل نظر ا کر ثواب حاصل کرنا چاہتی‬ ‫ہے۔ ایسے ہی جس پہلو کی طرف اپ نے اشارہ فرمایا ہے‪ ،‬وہاں‬


‫بھی زوجہ کے صرف حقوق ہوتے ہیں اور خاوند کے صرف‬ ‫فرائض۔ ہمیں تو یہ بھی سمجھ نہیں اتی کہ صرف ماں کو اس قدر‬ ‫درجہ دے دیا جاتا ہے کہ جیسے باپ کی کوئی حیثیت ہی نہ ہو۔‬ ‫حاالنکہ عموما ً باپ‪ ،‬صرف اور صرف اپنے بچوں کے لیئے‪ ،‬اپنی‬ ‫بیوی کی کئی غلط باتیں بھی برداشت کرتا رہتا ہے۔ اور عموما ً‬ ‫کوئی اور چیز طالق سے مانع نہیں ہوتی۔ لیکن بچے چونکہ اپنی‬ ‫ماں کے پاس زیادہ وقت ُگزارتے ہیں‪ ،‬تو ظاہر ہے ہمیشہ چندا‬ ‫ماموں ہی ہوتے ہیں‪ ،‬کبھی چندا چاچو نہیں ہوتے۔اپ نے لکھا‬ ‫ہےحقوق کا معاملہ ذات سے‘ هللا کی طرف پھرتا ہے۔یہ بات‬ ‫سمجھنا‪ ،‬بُہت مشکل کام ہے۔ اور شائید اس کے لیئے کئی‬ ‫تحریریں لکھنی پڑیں۔ لوگوں کی سمجھ کو اس مقام تک النا‪ ،‬اہل‬ ‫قلم کی ذمہ دارہ ہے اور ہمیں خوشی ہے کہ اپ کوشاں ہیں۔ اگر‬ ‫ایسی تربیتی تحریریں لوگوں کو پڑھنے کو ملیں یا ٹی وی ڈرامہ‬ ‫وغیرہ میں ملتی رہیں‪ ،‬تو لوگوں کی سمجھ بڑھ سکتی ہے۔ ہمیں‬ ‫تو محترم اشفاق احمد کے بعد کوئی ایسا ڈرامہ نگار نہیں نظر‬ ‫ایا‪ ،‬جو ان باتوں کو اس گہرائی میں نہ صرف محسوس کرے‪،‬‬ ‫بلکہ لوگوں کو بھی سمجھائے۔ اج کل کے دور کی فضول اور‬ ‫کردار ُکشی سے بھرپور کہانیوں کے ساتھ ٹکرانے کی اشد‬ ‫ضرورت ہے اور اپ یہ کام کر رہے ہیں۔ ہزار دُعائیں جناب اپ‬ ‫کے لیئے۔تحریر پر بُہت بُہت داد جناب۔ ہزار داد‬ ‫وی بی جی ‪10‬‬ ‫هللا جانے‬ ‫جون ‪2014 ,09‬‬


‫جناب کیا ہی بات ہے۔ بُہت عمدہ تحریر ہے۔ داد داد داد ۔۔ اپ کی‬ ‫تحریروں کا خاصہ ہے کہ بات کو ایسے زاویوں سے گھُما کر‬ ‫التے ہیں کہ وہم و گمان میں نہیں ہوتا کہ یہ تان کہاں جا کر ختم‬ ‫ہو گی۔ اور اختتام بھی شاندار ہوتا ہے۔ یہاں بھی اپ نے جس‬ ‫طرح زرینہ کو تشبیہہ دی ہے‪ ،‬بُہت ہی خوب ہے۔ عوام کی سمجھ‬ ‫بھی ُکچھ بڑھانے کی ضرورت ہے‪ ،‬تاکہ وہ ایسی تحریروں کا‬ ‫دُرست ُرخ سمجھ سکیں اور نتائج اخذ کر سکیں۔دراصل ایسی‬ ‫کمائی جس میں مزدوری سے زیادہ مل جائے یا بغیر مزدوری‬ ‫کے مل جائے ہمارے اپنے خیال کے مطابق سود ہے۔ انسان کی‬ ‫ارام پسندی یہی چاہتی ہے کہ کم سے کم محنت سے زیادہ سے‬ ‫زیادہ کمائی ہو اور کامیابی کی صورت میں انسان مذید ارام پسند‬ ‫ہوتا چال جاتا ہے۔ یہی حال اس قرض پر پلے والی عوام کا ہو گیا‬ ‫ہے۔ قرض حکومتی خزانے میں جاتا ہے‪ ،‬اور حکومتی خزانے کا‬ ‫کوئی مالک نہیں ہوتا جس کی وجہ سے اس کی حفاظت کی‬ ‫کوشش بھی نہیں کی جا سکتی وگرنہ یہی سُننا پڑتا ہے کہ‬ ‫‪:‬تمہارے باپ کا ہے کیا‪ :‬۔۔ یہ کسی کے باپ کا نہیں ہوتا اور ویسا‬ ‫ہی اس کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے۔ اللچ ایسی ہی چیز ہے کہ‬ ‫اگر پیٹ بھرا بھی ہو تو بقول غالبگو ہاتھ کو جنبش نہیں‪ ،‬انکھوں‬ ‫میں تو دم ہےرہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے اگےسو مذید‬ ‫سے مذید کی اللچ کبھی جان نہیں چھوڑتی۔ اپ کی تحریریں‪ ،‬اُمید‬ ‫کی کرن ہیں۔ جتنے لوگ پڑھیں گے اپنے کردار میں ضرور‬ ‫جھانک کر دیکھیں گے۔ انہیں کردار کی خرابیوں کو عوام تک‬ ‫پُہنچانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔ہماری طرف سے ایک‬


‫بار پھر بھرپور داد جناب ۔‬ ‫وی بی جی ‪11‬‬ ‫پاخانہ خور مخلوق‬ ‫مئی ‪2014 ,30‬‬ ‫بُہت اعلی تحریر ہے جناب‪ ،‬کیا ہی بات ہے۔ نازک مسئلے کو‬ ‫چھیڑ دیا اپ نے۔ البتہ اپنا حق رائے دہی ازاد جان کر اور اپ کی‬ ‫پُرخلوص طبعیت کو دیکھتے ہوئے درخواست کریں گے کہ اس‬ ‫کا عنوان ُکچھ تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہمیں۔‬ ‫ہمارا خیال ہے کہ عنوان ایسا ہونا چاہیئے کہ پڑھنے والے کی‬ ‫طبعیت کو مائل کرے۔دوسری طرف‪ ،‬اس تحریر کے الجواب ہونے‬ ‫میں کوئی کالم نہیں۔ عوام کو ایسے مضامین پڑھنے کی اشد‬ ‫ضرورت ہے‪ ،‬شائید کسی کا ضمیر جاگے۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی‬ ‫صاحب ایک جگہ فرماتے ہیں کہ اے ُخدا‪ ،‬تُو نے میرے ہاتھ‬ ‫باندھ کر ُمجھے دریا میں پھینک دیا ہے اور حُکم دیا ہے کہ‬ ‫کپڑے گیلے نہ ہوں۔ تو جناب حمام ہے یہ تو۔ہمیں یاد پڑتا ہے‪ ،‬کہ‬ ‫بچپن میں ہم ‪:‬زمانہ قبل از اسالم میں کفار کی جہالت‪ :‬پر نوٹ‬ ‫لکھا کرتے تھے‪ ،‬اور جناب کیا کیا بُرائی نہ اُن کے سر لگاتے‬ ‫تھے‪ ،‬اور خوب نمبر سمیٹا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ یہ بھی لکھ‬ ‫دیتے تھے کہ ‪:‬قبل از اسالم‪ُ ،‬کفار کا یہ عالم تھا کہ ناک میں‬ ‫اُنگلی تک ڈالتے تھے‪ :‬۔ لیکن صاحب! اب سوچتے ہیں‪ ،‬کہ اسالم‬ ‫سے کیا سیکھا ہے مسلمانوں نے تو حیرت ہوتی ہے۔ ابھی تک‬ ‫دو ایسی چیزیں دریافت ہو پائی ہیں جو اسالم سے سیکھی ہیں ہم‬


‫نے اور سب اس پر ُمتفق بھی ہیں۔ ایک تو یہ کہ کسی بت کی‬ ‫پوجا نہیں کرتے‪ ،‬اور دوسری یہ کہ خنزیر نہیں کھاتے۔ اخر‬ ‫الزکر اگرچہ مشکوک ہے کہ یہاں تو محاورتا ً نہیں بلکہ حقیقتا ً‬ ‫انسان انسان کو کھا جاتا ہے۔ کیا اسالم نے اتنا ہی سکھایا ہمیں؟‬ ‫ہم نے غور کیا تو معلوم ہؤا کہ انسان کو امن میں رہنے کے‬ ‫طریقے سمجھانے والے مذاہب کی وجہ سے دُنیا میں سب سے‬ ‫زیادہ قتل و غارت ہوئی ہے۔ مذہب کی بُنیاد پر جتنا نقصان انسان‬ ‫نے کیا ہے‪ ،‬کسی اور چیز کی وجہ سے نہیں کیا۔ توبہ ہے‬ ‫صاحب۔خیر یہ تو تھے ہمارے کچھ بکھرے ہوئے خیاالت۔ اپ کی‬ ‫تحریر ہماری نظر میں بُہت اعلی اور عمدہ ہے۔ ہماری طرف سے‬ ‫بھرپور داد قبول کیجے۔‬ ‫وی بی جی‬ ‫زیر نظر مضمون پر وی بی جی کے خیاالت سے میں کلی طور پر‬ ‫متفق ہوں۔ عنوان کو بدلنے کی سخت ضرورت ہے۔ قاری عنوان‬ ‫دیکھ کر اگر ٹھٹکے تو اچھا نہیں ہے۔ مضمون ہمارے معاشرے‬ ‫کی تصویر کی عکاسی کرتا ہے۔ آپ یقین کیجئے کہ اپنے آس‬ ‫پاس مسلمانوں کا حال دیکھ کر طبیعت پر مستقل انقباض رہتا ہے۔‬ ‫بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ اب ا س قوم کا کوئی پرسان‬ ‫حال نہیں ہے۔ یہ دنیا میں خوار ہے اور خوار ہی رہے گی کیونکہ‬ ‫یہ اپنی اساس سے دور ہو چکی ہے۔ دنیا میں ڈیڑھ سو‬ ‫"اسالمی" ممالک ہیں۔ افسوس کہ ان میں ایک بھی ایسا نہیں‬ ‫ہے جہاں ہم اور آپ اپنی اوالد کو پڑھنے لکھنے یا رہنے کے‬ ‫لئے بھیج سکیں۔ انا ہلل و ان الیہ راجعون۔ میں امریکہ میں رہتا‬


‫ہوں اور اس کا قائل ہوں کہ ہمارے مقابلہ میں دوسرے مذاہب‬ ‫کے لوگوں کا اخالق اور کردار بدرجہا بہتر اور "اسالمی" ہے۔‬ ‫اور اس صورت حال کا عالج بھی کوئی نظر نہیں آتا۔لکھتے‬ ‫رہئے۔ میں کوشش کروں گا کہ یہاں آمدورفت بڑھا دوں۔ باقی‬ ‫راوی سب چین بولتا ہے۔‬ ‫سرور عالم راز‬ ‫اس ناچیز کو بہتر انسان سمجھا اپ نے‪ ،‬اپ کی ذرہ نوازی !‬ ‫ہے۔ ہم بیچارے اوارہ قسم کے ادمی ہیں‪ ،‬کبھی کسی پہاڑ پر‬ ‫بیٹھے شہر کی ٹمٹماتی روشنیوں سے گوٹ بنا کر کسی پیراہن‬ ‫میں ٹانکنے میں مصروف تو کبھی رات رات بھر کسی فُٹ پاتھ پر‬ ‫بیٹھ کر کسی ُکتیا کے بچے ُگم ہو جانے کے دُکھ میں شریک۔ سو‬ ‫ہمارا انتظار نہ ہی کیا کیجے۔ اپ کے یاد کرنے پر محترم سرور‬ ‫عالم راز سرور صاحب بنفس نفیس تشریف ال چُکے ہیں۔‬ ‫وی بی جی‪12‬‬ ‫ان پڑھ‬ ‫مئی ‪2014 ,27‬‬ ‫ہمارے منہ کی بات چھین لی اپ نے۔ بُہت ہی اچھی تحریر ہے۔‬ ‫بالکل دُرست ہے کہ جو اچھی صفت یا ضمیر رکھتا ہے‪ ،‬وہ اس‬ ‫سے انحراف کر ہی نہیں سکتا۔ اور ہمارا خیال ہے کہ یہ بچپن‬


‫میں والدین یا ماحول سے انسان سیکھتا ہے۔ اگر اُس کی تعلیم‬ ‫اُس کے دل میں بُرائی کی نفرت ڈال دے تو زندگی بھر اُس سے‬ ‫بُرا کام سرزد نہیں ہوتا۔ ہمارے نذدیک اس میں اُن چھوٹی چھوٹی‬ ‫کہانیوں یا حکایات کی بھی بُہت اہمیت ہے‪ ،‬جو دادیاں بچوں کو‬ ‫سُناتی ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ ہماری دادی ہمیں ایسی کئی حکایات‬ ‫سُناتی تھیں‪ ،‬اور کئی اس قدر جذباتی ہوتی تھیں کہ رونا ا جاتا‬ ‫تھا۔ اُن کہانیوں میں بُرا کبھی ہیرو نہیں ہو سکتا تھا۔ ہمیشہ‬ ‫اچھائی کی جیت ہوتی تھی۔ عالوہ ازیں‪ ،‬ایسے حساس اور‬ ‫سوچنے پر مجبور کر دینے والے موضوعات ہوتے تھے کہ‬ ‫ننھی سی عمر میں ہی سوچنے اور باتوں کو سمجھنے کی طرف‬ ‫رجحان رہا۔ جذباتی ہونے کے نقصانات سے اگہی ہوئی‪ ،‬اور ہر‬ ‫معاملے کو انصاف کے ترازو میں تولنا ا گیا۔ سچ پوچھیں تو ہم‬ ‫نے ُکچھ بار بھرپور کوشش کی کہ رشوت لے لیں‪ ،‬لیکن ا ُس ذات‬ ‫پاک کی قسم‪ ،‬ہم ‪:‬اسامی‪ :‬سے انکھ نہ مال سکے۔ اپنے اپ سے‬ ‫ایسی گھن اتی تھی‪ ،‬کہ ایک لفظ بھی نہ کہہ سکے۔ یہ بھی‬ ‫حقیقت ہے کہ ہمیں یہ احساس نہ تھا کہ هللا ناراض ہو گا‪ ،‬ہمیں‬ ‫مسئلہ یہ پیش تھا کہ غیرت اور انا اجازت نہ دیتی تھی۔ ہم اپنی‬ ‫کہانی لے کر بیٹھ گئے۔کہنا یہی چاہتے تھے‪ ،‬کہ تبھی ہماری‬ ‫خواہش رہی ہے کہ ایسی چیزوں کو تعلیم کا حصہ ہونا چاہیئے‬ ‫جو کردار سازی کریں۔ ہمارے بچوں کو رٹے لگانے کی کوئی‬ ‫ضرورت نہیں ہے۔ تمام علوم اس کے محتاج ہیں۔ جس میں کردار‬ ‫نہیں اُس کی کوئی سائنسدانی کسی کام کی نہیں۔ اور بقول اپ کی‬ ‫اس تحریر کے ہی‪ ،‬حکومتیں ُکچھ نہیں کر سکتیں‪ ،‬سب ُکچھ‬ ‫کرنے والی عوام ہی ہے۔ حکومت کو کوسنے واال سبزی فروش‬ ‫خود نگاہ بچا کر گندے ٹماٹر بیچتا ہے۔ لوگ گندم نہیں اُگائیں‬


‫گے‪ ،‬تو اٹا مہنگا ہوگا‪ ،‬حکومت روٹی پکا کہ نہ کبھی کسی کو‬ ‫دے سکی ہے‪ ،‬نہ کبھی دے سکے گی۔اس تحریر پر ایک بار پھر‬ ‫بھرپور داد قبول کیجے۔۔۔ ہمیں بُہت پسند ائی ہے اپ کی تحریر۔‬ ‫وی بی جی ‪13‬‬ ‫الروا اور انڈے بچے‬ ‫مئی ‪2014 ,21‬‬ ‫پڑھ تو ہم فورا ً ہی لیتے ہیں‪ ،‬لیکن سمجھنے اور پھر ُکچھ کہنے‬ ‫کے الئق ہونے میں وقت لگ جاتا ہے۔ اور سچ پوچھیے تو اس‬ ‫تحریر کے آخر میں جس طرح اس کا اختتام ہوتا ہے‪ ،‬کافی سوچ‬ ‫بچار کرنی پڑتی ہے‪ ،‬کہ الروے اور انڈے بچے سے ُمراد کیا‬ ‫ہے۔ بُرائی کے خالف تو کہانی کا ہیرہ نکال ہی تھا‪ ،‬اور انہیں‬ ‫الرووں کا خاتمہ چاہتا تھا‪ ،‬پھر آخر یہ کیا کہانی ہوئی۔کہانی‬ ‫لکھنے میں تو ویسے آپ کا جواب نہیں۔ اس میں تو پیچیدہ‬ ‫صورتیں بھی نظر آئیں‪ ،‬جہاں لکھنے واال راستہ بھٹک کر کسی‬ ‫اور سمت نکل سکتا تھا‪ ،‬لیکن بُہت خوبصورتی سے آپ نے‬ ‫اسے اپنے مقصد کے محور میں رکھا ہے۔ ہم جہاں تک سمجھ‬ ‫سکے ہیں وہ یہی ہے کہ بُرائی انسان خود ہی ہے‪ ،‬اور اسی کا‬ ‫خاتمہ بُرائی کو ختم کر سکتا ہے۔ شیطان کی غیر موجودگی کی‬ ‫مثال بھی خوب دی آپ نے کہ اس کی غیر موجودگی میں کس حد‬ ‫تک بُرائی بڑھ جاتی ہے۔ایسی تحریروں کی جگہ ہم تو سمجھتے‬ ‫ہیں‪ ،‬کہ نصابی کتابوں میں ہونی چاہیئے‪ ،‬جہاں کردار سازی کی‬


‫بہت ضرورت ہے۔ اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ جتنا نُقصان‬ ‫پہنچا رہے ہیں‪ ،‬ہم نہیں سمجھتے کہ ان پڑھ اتنا نُقصان پُہنچا‬ ‫بھی سکتے ہیں۔ پڑھ لکھ کر صرف تعلیمی اسناد حاصل ہوتی‬ ‫ہیں‪ ،‬اور اس کے بعد بھی ایسی حرکتیں کرتے ہیں‪ ،‬کہ شرم نام‬ ‫کی چیز پاس نہیں پھٹکتی۔ہماری دُعا ہے کہ آپ کی کوششیں‬ ‫رنگ الئیں۔ ہماری طرف سے ایک بار پھر بھرپور داد قبول‬ ‫کیجے۔‬ ‫وی بی جی ‪14‬‬ ‫سچائی کی زمین‬ ‫مئی ‪2014 ,17‬‬ ‫جنب بہت عمدہ تحریر ہے۔ اپ نے کہانی کو نیا ُرخ دیا ہے اور کیا‬ ‫ہی خوب دیا ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ قُدرت کا نظام اپنے اپ کو‬ ‫خود ہی برقرار رکھتا ہے‪ ،‬لیکن یہ بات بھی بجا ہے کہ انسان اس‬ ‫میں بُہت بگاڑ پیدا کرنے کے درپے ہے۔ اگرچہ اس بات کا یہاں‬ ‫تذکرہ ُکچھ ضرری نہیں لیکن ہمارا طریقہ ُکچھ ایسے ہے کہ‬ ‫قُدرتی نظام میں کم سے کم دخل اندازی کرتے ہیں۔ لوگ بھاگ کر‬ ‫بلی کے منہ سے چڑیا کا بچہ چھین لیتے ہیں‪ ،‬جبکہ ہم صرف‬ ‫خاموشی اور خالی الذہن ہو کر دیکھتے رہتے ہیں۔ اگرچہ اس‬ ‫سے ہمارے اندر بُہت حد تک سفاکی پیدا کر دی ہے‪ ،‬لیکن ہم نے‬ ‫قدرتی نظام کو اس قدر سفاک پایا ہے‪ ،‬کہ بیان سے باہر ہے۔‬ ‫جس نظام میں ایک کی موت دوسرے کی زندگی ہو‪ ،‬اُس کا عالج‬ ‫ہمارے پاس تو ہو نہیں سکتا۔ کئی بار خود کو سمجھاتے ہیں‪،‬‬


‫لیکن اکثر اپنی باتوں میں اتے نہیں ہیں ہم۔ دخل اندازی صرف‬ ‫اُس وقت روا جانتے ہیں‪ ،‬جب کسی کی موت کسی کی زندگی نہ‬ ‫ہو۔تحریر جان دار ہے‪ ،‬سچائی اور اچھائی کا ساتھ دینے کا جذبہ‬ ‫پیدا کرتی ہے۔ ہماری طرف سے ایک بار پھر داد قبول کیجے۔‬ ‫وی بی جی ‪15‬‬ ‫ابھی وہ زندہ تھا‬ ‫مئی ‪2014 ,16‬‬ ‫واہ واہ واہ جناب‪ ،‬کیا ہی بات ہے۔ ہمیں تو ایسا لگا کہ ہمارے منہ‬ ‫کی بات ہی چھین لی ہو اپ نے۔ بے شک اپ کو بات بیان کرنے‬ ‫کا فن اتا ہے۔ جن الفاظ میں اپ نے ان تلخ حقیقتوں کو بیان کیا‬ ‫ہے وہ الئق صد تحسین ہیں۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول‬ ‫کیجے۔ یہ وہ حقیقتیں ہیں جو تمام لوگ جانتے اور سمجھتے‬ ‫ہیں‪ ،‬لیکن انہیں زبان پر التے ہوئے شرماتے ہیں۔ حاالنکہ وہ‬ ‫حمام والی ضربالمثل خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں۔اپ نے کسی‬ ‫ٹوپی سالر کا ذکر بھی کیا ہے‪ ،‬اور خوب کیا ہے۔ اب اپ کا کس‬ ‫طرف اشارہ ہے یہ کوئی سمجھے نہ سمجھے لیکن حقیقت اپنی‬ ‫جگہ ٹھوس حقیقت ہی ہوتی ہے۔تحریر زبردست ہے اور طنز‬ ‫جس انداز میں کیا گیا ہے‪ ،‬ہمیں یقین ہے کہ کئی لوگوں کا ضمیر‬ ‫جگا سکتی ہے۔ اس تحریر پر ہم ذیادہ اس لیئے بھی نہیں لکھ‬ ‫سکتے کہ اپ نے اس میں ہمارے کہنے والی ہر بات ہم سے‬ ‫کہیں بہتر انداز میں کہہ دی ہے۔ہماری طرف سے بھرپور داد‬ ‫وی بی جی‪16‬‬


‫حاللہ‬ ‫مارچ ‪2014 ,11‬‬ ‫ڈاکٹر صاحب آپ کی تحریریں بفس نفیس بولتی ہیں اپنے پاس‬ ‫سے گزرنے والوں کو مخاطب کر کے کہتی ہیں کہ آؤ ہمیں پڑھو‬ ‫ہم سے کچھ سیکھو کچھ اخذ کرو ‪ ،‬یہ دل کو چھو لینے والی‬ ‫تحریر جو حقیقت سے قریب ترین معاشرے سے جڑے کرداروں‬ ‫کو بے نقاب کرتی ہوئی بہت سے سوال بہت سے باتیں ذہن میں‬ ‫پیدا کرتی ہوئی اپنے پڑھنے والے کو مجبور کر رہی ہے ۔ میرے‬ ‫ذہن میں بھی کچھ باتیں آئیں جنکا اظہار خیال ضروری سمجھتا‬ ‫ہونحالل و حرام کی پابندی و شرائط کب کہاں اور کس لئے کی‬ ‫بنیاد پر ان کا نفاذ حکمیہ طور پر خالق کائینات کا مرتّب کردہ‬ ‫ہےنکاح فرض ہے ‪ ،‬نکاح واجب ہے ‪ ،‬نکاح سنّت ہے ‪ ،‬نکاح‬ ‫مستحب ہے یہ وہ شکلیں ہیں جنہیں ہم جانتے ہیں مگر نکاح‬ ‫حرام ہے جی نکاح حرام ہے محرم کے ساتھ مگر نکاح نامحرم‬ ‫کہ جس سے نکاح حالل ہے حرام بھی ہے وہ اس صورت میں کہ‬ ‫جب کوئی ایسا شخص جو نکاح تو کرلے مگر حقوق ذوجیت ادا‬ ‫کرنے کی صالحیت سے محروم ہو نامرد ہو تو ایسے شخص کا‬ ‫نکاح کہ جس کی منکوحہ اپنی جنسی ضرورت اور خواہش کو‬ ‫کسی اور ذرائع سے پورا کرے وہ بھی حرام ہےطالق دینا حالل‬ ‫ہے مرد کے لئے مگر تمام حالل کاموں میں یہ وہ حالل کام ہے‬ ‫جسے هللا باری تعالی نے ناپسند فرمایا ہے ‪ ،‬عورت کو طالق‬ ‫دینے کا حق حاصل نہیں ہے ہاں خلع لے سکتی ہے ‪ ،‬اگر عورت‬ ‫کو طالق کا اختیار دے دیا جاتا تو دن بھر میں بیسیوں بار طالق‬


‫دے دیتی اپنے مرد کو ‪ ،‬مگر مرد اس معاملے میں صابر ہے اور‬ ‫بہت ہمت و برداشت واال ہوتا ہےشرعی طریقہ یہ ھے کہ عورت‬ ‫تین طالقوں کے بعد اگر دوبارہ پہلے شوھر سے نکاح کرنا‬ ‫چاھتی ھے تو وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے بغیر اس‬ ‫نیت کے کہ وہ پہلے کے لیے حالل ھونا چاھتی ھے‪ ،‬پھر وہ‬ ‫شوھر اسے اپنی مرضی سے طالق دے‪،‬مگر اس نیت سے نہیں‬ ‫کہ وہ پہلے کے لیے حالل ھو جائے‪ ،‬یا پھر وہ مرجائے‪،‬اس‬ ‫طرح عورت پہلے شوھر سے نکاح کرسکتی ھے!!! لیکن جو‬ ‫حاللہ کا طریقہ ھمارے معاشرےمیں رائج ھو چکاھے‪،‬جوکسی‬ ‫بھی صاحب علم سے مخفی نہیں ھے{اس قسم کے لوگوں پر نبی‬ ‫صلی هللا علیہ وسلم نے لعنت کی ھے‪،‬یعنی حاللہ کرنے واال اور‬ ‫جس کےلیے کیاجائے‪ ،‬آپ نےاسے کرائے کا سانڈ قرار دیا‬ ‫ھے}یہ ھےاندھی تقلید جس میں یہود ونصاری مبتالء تھےیعنی‬ ‫بغیر شرعی دلیل کےآنکھیں بند کرکےکسی چیز پر عمل کرنا۔سنن‬ ‫ابوداودكتاب النكاحنکاح کے احکام و مسائلباب في التحلیلباب‪:‬‬ ‫نکاح حاللہ کا بیان۔حدیث نمبر ‪2076 :‬حدثنا أحمد بن یونس‪ ،‬حدثنا‬ ‫زھیر‪ ،‬حدثني إسماعیل‪ ،‬عن عامر‪ ،‬عن الحارث‪ ،‬عن علي‪ ،‬رضى‬ ‫هللا عن ‪ -‬قال إسماعیل وأراہ قد رفع إلى النبي صلى هللا علی‬ ‫وسلم ‪ -‬أن النبي صلى هللا علی وسلم قال "لعن هللا المحلل والمحلل‬ ‫ل "‪.‬سیدنا علی رضی هللا عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی‬ ‫هللا علیہ وسلم نے فرمایا ”حاللہ کرنے واال اور جس کے لیے کیا‬ ‫گیا ہے (دونوں) ملعون ہیں۔"قال الشیخ األلباني‪ :‬صحیح‬ ‫اسماعیل اعجاز‬


‫بازگشت‬ ‫دسمبر ‪2013 ,23‬‬ ‫بہت عمدہ ۔ بہت لطف آیا ‪ ،‬سالمت رہیں آپ شکریہ‬ ‫ضیا بلوچ‬ ‫فقیر بابا‬ ‫دسمبر ‪2013 ,24‬‬ ‫آپ کا انشائیہ بہت دلچسپ ہے۔ آپ نے جس تنہائی کی کیفیت کا‬ ‫ذکر کیا ہے اس سے آج ساری دنیا آشنا ہے۔ انسان اب انسان‬ ‫کونہیں پہچانتا ہےجب تک کہ اس کی کوئی غرض کسی اور سے‬ ‫نہ اٹکی ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پچھلے زمانے میں سب‬ ‫لوگ بے غرض ہوا کرتے تھے اور اپنی طبیعت سے سب فرشتہ‬ ‫تھے۔ ایسا تو کبھی ہوا ہی نہیں ہے۔ اورنہ کبھی ہو گا۔ ہاں یہ‬ ‫ایک حقیقت ہے کہ اب خلوص‪ ،‬انسانیت اور بھائی چارہ پہلے‬ ‫سے کم ہو گیا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہ ہیں جن سے کم وبیش‬ ‫ہم سب واقف ہیں سو تفصیل ضروری نہیں ہے۔ یادش بخیر میرے‬ ‫بچپن میں آس پاس کے گھروں میں‪ ،‬عزیزوں دوستوں میں‪ ،‬گھر‬ ‫کی مائوں ‪،‬بہوئوں اور بڑی بوڑھیوں میں ملنا جلنا‪ ،‬آنا جانا‪ ،‬بے‬ ‫مقصد آ کر بیٹھ جانا اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک‬ ‫ہونا اتنا عام تھا کہ آج کی تنہائی کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے۔ یہ‬ ‫عالم تھا کہ محلہ کا ہر بزرگ (اور غیر بزرگ!) اپنے آپ کو‬ ‫دوسروں کی اوالد کا ولی اور ‪:‬ٹھیکہ دار‪ :‬سمجھتا تھا۔ ایک واقعہ‬ ‫سناتا ہوں جو اس کیفہت کو خوب بیان کرتا ہے۔ایک دن سڑک پر‬


‫سگریٹ کا ادھا سلگتا ہوا دکھائی دیا۔ بچہ تو تھا ہی‪ ،‬سوچاکہ اس‬ ‫میں کیا مزا ہوتا ہے جو لوگ منھ سے لگائے پھرتے ہیں۔ چنانچہ‬ ‫اٹھا کر ڈرتے ڈرتے ایک کش لیا اور کھانسی کے دھسکے سے‬ ‫کھوں کھوں کرتا ہوا اسے پھینک دیا۔ لیکن محلہ کے ایک بزرگ‬ ‫نے دیکھ لیا تھا۔ انہوں نے پاس آکر ایک ڈانٹ پالئی اور ایک‬ ‫ہلکا سا ہاتھ بھی رسید کیا اور پھر ہاتھ پکڑ کر ابا جان کی خدمت‬ ‫میں لے گئے کہ آپ کا بچہ سڑک پر سگرٹ پی رہا تھا۔ ابا جان‬ ‫مارتے نہیں تھے لیکن صاحب! ان کی چشم نمائی مار سے زیادہ‬ ‫تھی۔ انھوں نے الگ ڈانٹ نما آنکھ دکھائی اور بزرگ کا شکریہ‬ ‫ادا کیا۔ سچ مانئے کہ وہ دن اور آج کا دن میں نے پھر سگرٹ‬ ‫چکھی ہی نہیں۔ یہ وہ سماجی ماحول تھا جو بچوں کو بہت سی‬ ‫اچھی باتیں سکھا دیا کرتا تھا۔ اب موجود نہیں ہے اور ہماری‬ ‫تنہائی میں اضافہ کا باعث ہے۔دوسری طرح کی تنہائی وہ ہے‬ ‫جس کا آج کل میں شکارہوں۔ امریکہ میں رہتا ہوں جہاں دوستوں‬ ‫کا کال ہے۔ سنا ہے کہ وطن عزیز میں بھی اب یہی معمول ہے۔‬ ‫پھر طرفہ تماشہ یہ کہ ایسے چھوٹے قصبے میں رہتا ہوں جہاں‬ ‫بال مبالغہ ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جس سے میں بات کر‬ ‫سکوں‪ ،‬یعنی اپنے ذوق کی بات۔ بیکار باتیں کرنے کو یا سیاست‬ ‫اور مذہبی گفتگو کے لئے تو شاید کوئی مل جائے لیکن یہ میرا‬ ‫مسلک نہیں سو تن تنہا دن گزارتا ہوں۔ گویا زندگی قید تنہائی ہو‬ ‫کر رہ گئی ہے۔آپ کی تحریر سے مستفید ہوا۔ هللا آپ کو خوش‬ ‫رکھے۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔‬ ‫سرور عالم راز‬ ‫‪aap kaa mazmoon :Faqeer Baba: paRh kar bohat‬‬ ‫‪khushee huwee. aap ke mazaameen maiN shauq‬‬


‫‪se paRhtaa hooN kyoN keh in meN aap kee‬‬ ‫‪zindagee ke tajribaat hote haiN aur in se bohat‬‬ ‫‪kuchh seekhaa jaa saktaa hai. Faqeer Baba bhee‬‬ ‫‪aisee hee daastaan hai. aap kaa qalam bohat‬‬ ‫‪shiguftah hai aur aaj kal aisee tehreer kam‬‬ ‫‪dekhne meN aatee hai. aap se darKhwaast hai‬‬ ‫‪keh isee tarah ham logoN ko nawaazte rahiYe.‬‬ ‫‪Mushir Shamsi‬‬ ‫آپ کا یہ پُر مغز انشائیہ نظر نواز ہوا استفادہ کرتے ہوئے کچھ‬ ‫ذہن میں آیا سوچا پاگل کو مزید چھیڑا جائے میرا مطلب سمجھا‬ ‫جائے پا گل کے ایک معانی ہوتے ہیں جسے آپ نے فرمایا گل‬ ‫پانا یعنی بات کو سمجھ جانا بالکل اسی طرح چوں کہ گل پنجابی‬ ‫کا لفظ ہے اسے اسی معانی میں لیتے ہوئے گل پائیے کہ گل پانا‬ ‫گلے میں ڈالنے کی اصطالح میں بھی لیا جاسکتا ہے اوراگر اردو‬ ‫کو شاعرانہ انداز میں الیا جائے تو گل پا گئے یعنی پاؤں گل گئے‬ ‫ان پاؤں گل گئے کو مزید بہتر بنانے کے لئے اسے اسطرح‬ ‫لیجئے کہ پائے گل گئے مگر پائے بھی دو طرح کے ہوتے ہیں‬ ‫بھینس کے بکری کے گائے کے بھیڑ کے ہمارے ہاں الہور میں‬ ‫پھجے کے مگر ساتھ سری بھی لگائیے پھجے کے سری پائے‬ ‫اور دوسری قسم کرسی کے میز کے چار پائی کے بھی ہوتے ہیں‬ ‫یہ دونوں اپنی اپنی شکل میں گل جاتے ہیں پہلی قسم کے پائے‬ ‫گل جانے سے کرسی پر جم کر بیٹھ کر کھائے جاتے ہیں مگر‬


‫دوسری صورت میں کرسی دھڑام سے گر جاتی ہے کرسی کے‬ ‫پائے گل جانے کی وجہ سے اب اس گل پانے میں مزہ بھی ہے‬ ‫اور تکلیف بھی ہے یہ تو دراومدار کیفیت اور حاالت کا ہے کہ آپ‬ ‫کن حاالت اور کس کیفیت سے گزر رہے ہیں یہی سوچ کر میں‬ ‫چال آیا کہ پاگل کو پاگل کر دوں‬ ‫اسماعیل اعجاز‬ ‫جناب عالی محبت ہے آپ کے کہ مجھ پاگل کی گل آپ پا گئے اسی‬ ‫گل کو مزید پاگل کرنے کے لئے سوچا ہندی میں کچھ دان کردوں‬ ‫مگر اس بات کا ضرور دھیان رکھوں کے پاگل سے گل زبر کے‬ ‫ساتھ نکال کر گل پر پیش لگا کر گلدان کر دوں تو پھر پا کو کہاں‬ ‫لے جاؤں اس کے لئے دان سے کچھ دان لے کر پا سے پائے‬ ‫اور پائے میں دان مال کر پائیدان کردوں ‪،‬مگر پاگل کو میں اس‬ ‫بات کا پائے بند کردوں کہ پاگل پاگل ہوتا ہے اسی لئے پا کے لئے‬ ‫پاجامہ بنایا گیا مگر ہمارے شاعر بھائی کچھ اور ہی سوچتے ہیں‬ ‫بقول ان کےسنا ہے کہ انکی کمر ہی نہیں ہےنجانے پجمیا کہاں‬ ‫باندھتے ہیں‬ ‫اسماعیل اعجاز‬ ‫کرم نوازی ہے سرکار کہ آپ نے مجھے فنکار کہا حاالں کہ میں‬ ‫ایک گمنام قلمکار ہوں ‪ ،‬ویسے ہمارے ہاں فنکار بھی دو طرح‬ ‫کے ہوتے ہیں ایک فن کار اور دوسرے فن کار آپ سوچ رہے‬ ‫ہوں گے کہ یہ دونوں تو ایک ہی ہیں یہی تو مسئلہ ہے کہ فن کار‬ ‫اور فن کار دونوں الگ الگ ہیں ایک فن کار ہوتے ہیں اور‬ ‫دوسرے فن کار ہوتے اس بات کا اندازہ خوب لگایا جا سکتا ہے‬


‫جو ان کی کالہ سے جڑا ہوتا ہے فرق سمجھنے کا ہے کسی ماہر‬ ‫فن کو آپ فن کار کہہ سکتے ہیں جس کا کام بولتا ہے جس کا ہنر‬ ‫بولتا ہے مگر ایسے بھی لوگ مجھ جیسے ہیں جو کچھ نہیں‬ ‫جانتے مگر باتیں خوب بناتے ہیں انہیں بھی فن کار کہا جاتا‬ ‫ہےکبھی کبھی لہجہ وہی رہتا ہے مگر معانی بدل جاتے ہیں‬ ‫جیسے کہ ایک صاحب فرمانے لگےماں کسم ایسا بھینکر اجگر‬ ‫دیکھا ایسی بری طرح فن کار ریا تھا کی میرے تو دماگ کے‬ ‫طوطے اڑ گئے ‪ ،‬آج کل طوطے پکڑ ریا ہوں ۔۔۔۔۔۔‬ ‫اسماعیل اعجاز‬ ‫بیوہ طواءف‬ ‫فروری ‪2014 ,08‬‬ ‫اپ کا یہ چھوٹا سا افسانہ پڑھا۔ بُہت اچھا لگا۔ اپ کی تحریریں‬ ‫ماشاهللا بُہت جاندار ہوتی ہیں۔ اور اپ کے احساسات کی وسعت کو‬ ‫سموئے ہوتی ہیں۔ زندگی کو اس قدر قریب سے دیکھنے اور‬ ‫محسوس کرنے کا فن اپ کی تحریروں سے واضح ہے۔هللا پاک‬ ‫اپ کو ہمیشہ خوش و ُخرم رکھے۔‬ ‫وی بی جی ‪17‬‬

‫بڑا آدمی‬ ‫مارچ ‪2014 ,08‬‬ ‫یہ تحریر واقعی میں بُہت کرب رکھتی ہے۔ اور پھر اپ کے‬


‫لکھنے کے انداز نے اسے بیش قیمت بنا دیا ہے۔ قاری کو ایسے‬ ‫جہان کی سیر کروا کر نتیجہ کی طرف التی ہے اثر روح تک اُتر‬ ‫جاتا ہے۔ پھر جس قدر اپ نے حاالت و واقعات لکھے ہیں اپ کے‬ ‫تجزیئے کی طاقت اور احساس کی وسعت اس سے ظاہر ہے کہ‬ ‫جیسے معلوم نہیں کتنا ہی قریب سے اپ نے یہ سب دیکھا‬ ‫ہے۔ہمیں وقت کی کمی رہتی ہے‪ ،‬لیکن اپ کے مضامین اور‬ ‫افسانے پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور بُہت پسند اتا ہے ہمیں‬ ‫اپ کا لکھا۔‬ ‫وی بی جی‪18‬‬ ‫کریمو دو نمبری‬ ‫مئی ‪2014 ,12‬‬ ‫معذرت چاہتے ہیں کہ دیر سے حاضری ہوئی۔ بُہت خوبصورت‬ ‫تحریر ہے‪ ،‬اور اپ کی اُن بہترین تحریروں میں سے ایک ہے جن‬ ‫میں اپ کی اس صالحیت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ اپ ڈرامہ بھی‬ ‫بُہت خوب لکھ سکتے ہیں۔ کہانی لکھنا جتنا اسان دکھائی دیتا ہے‬ ‫اُتنا اسان ہوتا نہیں۔ اپ کی خصوصیات ہیں کہ اپ کا قلم کسی‬ ‫دائرے میں مقید نہیں ہے۔یہ صدیوں سے روایت چلی اتی ہے کہ‬ ‫بُرا کا انجام بُرا ہوتا ہے‪ ،‬کئی تحریرں لکھی گئی ہیں‪ ،‬جن سے یہ‬ ‫تعلیم دی جاتی ہے۔ لیکن ذاتی طور پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا‬ ‫ہوتا نہیں ہے۔ ہم اوائل میں بچوں کو یہ سبق سکھانے کی‬ ‫کوشش کرتے ہیں‪ ،‬لیکن بڑے ہوتے ہی وہ تجربات سے سیکھ‬ ‫ہی جاتے ہیں کہ نیکی کا انجام اچھا تو ہوتا ہے لیکن صرف اُس‬


‫کے حق میں جس کے ساتھ نیکی کی جاتی ہے۔ ہم مثالیں‬ ‫ڈھونڈتے ہیں ایسے لوگوں کی جن کا انجام بُرا ہؤا ہو‪ ،‬اور اُن‬ ‫لوگوں کو بھول جاتے ہیں‪ ،‬جو نیکی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں‪،‬‬ ‫یا وہ جو بُرائی کر کہ تا حیات کامیاب ہی رہتے ہیں۔ ہم خود بھی‬ ‫یہی کرتے ہیں‪ ،‬کسی بات کو قُدرت کی طرف سے ازمائیش کے‬ ‫زمرے میں ڈال دیتے ہیں‪ ،‬کسی نیک کے ساتھ بُرا ہو تو اُسے‬ ‫اُس کی کسی نامعلوم بُرائی کا نتیجہ قرار دے لیتے ہیں‪ ،‬اگر کوئی‬ ‫بُرا دُنیا میں کامیاب رہے تو اس کی سزا اخرت پر موقوف کر‬ ‫دیتے ہیں۔ کیا کیجے‪ ،‬هللا کے ُمعاملے میں بھی جھوٹ کے بغیر‬ ‫چارہ نہیں۔اگر ہماری کسی بات سے دل ازاری ہوئی ہو تو معذرت‬ ‫چاہتے ہیں۔ لیکن جو حال سو حاضر ہے۔تحریر پر ایک بار پھر‬ ‫بھرپور داد کے ساتھ‬ ‫وی بی جی ‪19‬‬ ‫معالجہ‬ ‫مئی ‪2014 ,13‬‬ ‫ہمیشہ کی طرح بُہت خوبصورت تحریر ہے۔ ایک عام سی کہانی‬ ‫سے اپ نے فکر امیز نتائج اخذ کیئے ہیں‪ ،‬بلکہ سوچ کو اس ڈگر‬ ‫تک پُہنچا دیا ہے کہ انسان خود سوچ سکے ان باتوں پر۔ ہماری‬ ‫طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔جیسے کہ ریت ٹھہری ہے کہ‬ ‫ہم اپنی سی رائے دیتے رہتے ہیں۔ خیاالت ہمارے بیکار سہی‬ ‫لیکن اپ کو اندازہ ہو جاتا ہو گا کہ ُکچھ لوگ ایسا بھی سوچتے‬


‫ہیں۔ تو اسی حوالے سے ہم اس تحریر کے اخری پیرائے کی‬ ‫طرف اتے ہیں۔‬ ‫اقتباس‬ ‫بایو کیمک اصول کے مطابق‘ منفی کی درستی کے لیے‘ منفی‬ ‫رستہ ہی اختیار کرنا پڑے گا۔ منفی کا‘ اس کے سوا‘ کوئی اور‬ ‫معالجہ میری سمجھ میں نہیں آ رہا۔‬ ‫ہمارا تجزیہ اس بارے یہ کہتا ہے کہ منفی کا عالج منفی سے‬ ‫ممکن ضرور ہے لیکن بُہت ہی کٹھن ہے۔ منفی اور منفی اپس‬ ‫میں مل کر بھی مثبت نہیں بن سکتے‪ ،‬اور جیسا کہ ریاضی کا‬ ‫اصول ہے انہیں اپس میں ‪:‬ضربیں‪ :‬کھانی پڑتی ہیں اور نتیجہ تب‬ ‫ہی مثبت نکلتا ہے۔ منفی کو شکست صرف مثبت ہی سے ہوتی‬ ‫ہے‪ ،‬لیکن اس کی شرط اول مثبت کا مکمل مثبت ہونا ہے۔ وگرنہ‬ ‫شکست الزم ہے۔ ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ یہ کونسے مرزا صاحب‬ ‫تھے‪ ،‬لیکن اُن سے کسی نے کہا تھا کہ صاحب! اپ کے بارے‬ ‫میں فالں صاحب نے بُہت سخت باتیں لکھی ہیں اپ کیوں خاموش‬ ‫ہیں‪ ،‬اپ بھی لکھیئے ُکچھ‪ ،‬تو اُنہوں نے فرمایا تھا کہ ‪:‬بھائی!‬ ‫اگر گدھا تُمہیں الت مارے تو تم کیا کرو گے‪:‬ہم نے اس پر کافی‬ ‫غور کیا۔ الت کا جواب الت سے دینا دُرست نہیں ہو گا کیونکہ الت‬ ‫مارنا گدھے کی خصلت ہے‪ ،‬انسان التوں کے ُمقابلہ میں اُس سے‬ ‫جیت نہیں سکتا۔ ایسے ہی منفی کا مقابلہ کرنے کے لیئے منفی‬ ‫ہو جانا بُہت مشکل ہے۔ ہٹلر کی اپ نے مثال دی ہے۔ اگر اُس کو‬ ‫الکھوں لوگوں کے مرنے پر رحم نہ ا جاتا تو دُنیا کا نقشہ ُکچھ‬ ‫اور ہوتا۔ اخر اُس کے اندر کی اچھائی کہیں سے اُبھر ہی ائی‪ ،‬اور‬ ‫شکست کھانا پڑی۔ ایک مثبت کا منفی کے ُمقبالے میں ُمکمل‬ ‫منفی ہو جانا بُہت مشکل ہے۔ اس کی ایک اور مثال ہمارے دیرینہ‬


‫دوست مرحوم شیخ سعدی کی ایک حکایت ہے کہایک بار ایک‬ ‫شخص کو پاؤں میں ُکتے نے کاٹ لیا۔ بیچارہ رات بھر تکلیف‬ ‫میں چیختا رہا۔ اُس کی معصوم اور ننھی سی بیٹی نے اُس سے‬ ‫کہا کہ بابا اگر ُکتے نے اپ کو کاٹا تھا تو اپ بھی اُسے کاٹ‬ ‫لیتے۔وہ اس تکلیف میں بھی ہنس پڑا اور کہا کہ بیٹی۔ میں یہ تو‬ ‫برداشت کر لوں گا کہ میرے سر میں تلوار گھس جائے لیکن یہ‬ ‫ُمجھ سے نہ ہوتا کہ ُکتے کے غلیظ پاؤں میں میرے دانت‬ ‫گھستے۔سو صاحب مثبت کے لیئے یہ بُہت ُمشکل یا تقریبا ً‬ ‫ناممکن ہوتا ہے کہ وہ منفی کا مقابلہ منفی ہو کر کر سکے۔ ہاں‪،‬‬ ‫اسے شکل بدلنی پڑتی ہے اور اُس بدلی شکل کو منفی نہیں کہا‬ ‫جاتا‪ ،‬بلکہ مثبت کہا جاتا ہے۔ اگر شکل نہ بدلے تو منفی اور منفی‬ ‫ایک صورت ہو جاتے ہیں۔قسمت بڑی مزاحیہ ہوتی ہے صاحب!‬ ‫کہانی کے ہیرو کے دادا نے بھی اپنی سی کوشش کی تھی۔ کیا‬ ‫جانئیے‪ ،‬کہ اس کی کوشش کامیاب ہو کر بھی ناکام ہو جائے اور‬ ‫حال ویسا ہی ہو جیسا کہ اس کے دادا جان کا ہؤا۔ پھر بھی ہم ان‬ ‫کو یہی مشورہ دیں گے کہ چاہے منفی ہی کیوں نہ ہونا پڑے‪،‬‬ ‫انہیں اپنی بات منوانی چاہیئے۔ کل کو اس کی سزا بھُگتتے ہوئے‬ ‫یہ احساس تو نہ ہوگا کہ کسی اور کے کیے کی سزا بھُگتنی پڑی۔‬ ‫ایک اور مشورہ بھی ہے کہ ایک بار منفی ہونے کے بعد کامیابی‬ ‫اسی میں ہے کہ ہمیشہ منفی رہا جائے کیونکہ قدرت‪ ،‬مثبت کی‬ ‫طرف لوٹنے والے کو کبھی معاف نہیں کرتی۔ایک بار پھر بھرپور‬ ‫داد کے ساتھ۔‬ ‫وی بی جی ‪20‬‬


‫میں ابھی اسلم ہی تھا‬ ‫مئی ‪2014 ,09‬‬ ‫واہ واہ واہ واہ ۔۔ جناب کیا ہی بات ہے۔ واہکہاں کہاں نظر ہے‬ ‫جناب اپ کی‪ ،‬یہ حالج اور حمادی کے فتوے کو کہاں لے ائے‬ ‫اپ۔ اپ بات کہاں سے ُ‬ ‫شروع کرتے ہیں اور کیسے اپنا مقصد‬ ‫بیان کر جاتے ہیں اس کے تو ہم قائل ہیں ہی۔ لیکن یہ جو لکھا‬ ‫ہے نا اپ نے کہ‪:‬۔‬ ‫ارتعاش پیدا ہوا تھا‘ لیکن میں رقص نہ کر ‘میرے اندر بھی‪:‬‬ ‫سکا‘ میں اپنے آپے میں تھا۔ میں ابھی اسلم ہی تھا‘ ریحانہ نہیں‬ ‫ہوا تھا ۔اگر ریحانہ ہو گیا ہوتا‘ تو دنیا کی پرواہ کیے بغیر‘ ملنگ‬ ‫بابے کے ساتھ رقص کر رہا ہوتا۔‪ :‬کمال ہے جناب۔ ڈھیروں داد‬ ‫قبول کیجے۔سچ ہے‪ ،‬اگر منصور بھی ریحانہ نہ ہو گیا ہوتا تو‬ ‫حمادی کا بھی کہیں نام و نشان نہ ہوتا۔ یہ بھی دُرست ہے کہ‬ ‫منصور بھی اسی ملنگ بابے کی طرح اپے میں نہ رہا۔ یہی وجہ‬ ‫ہے کہ شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی اپنی کتاب میں‬ ‫لکھتے ہیں کہ منصور کو اخری وقت پر پتہ چل گیا تھا کہ وہ بھی‬ ‫‪:‬اسلم ہی تھا‪ ،‬ریحانہ نہیں ہؤا تھا اور نہ ہو سکتا تھا‪ :‬اور یہ‬ ‫خود کو ریحانہ سمجھنے سے اوپر کا درجہ تھا۔۔ہماری طرف‬ ‫سے اس خوبصورت تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد جناب۔‬ ‫وی بی جی‬ ‫اپ کا علمی مراسلہ پڑھا اور خوشی ہوئی ُکچھ تاریخی پس منظر‬


‫جان کر اس کے لیئے ُ‬ ‫شکریہ قبول کیجے۔اپ جس قدر علم‬ ‫رکھتے ہیں اور اپ کا جس قدر مطالعہ ہے اس میں کوئی شک‬ ‫کی گنجائش نہیں ہے۔ ہم اس بارے میں جو خیال رکھتے ہیں وہ‬ ‫تھوڑا سا بیان کر دیتے ہیں‪ ،‬کہ اپ کا وقت بھی نہ ذائع ہو اور‬ ‫خیال بھی اپ تک پہنچ جائے۔اس پر غور کریں تو ُمعاملہ ‪:‬وحدت‬ ‫الوجود‪ :‬اور ‪:‬وحدت الشہود‪ :‬کے نظریات کی طرف چال جاتا ہے۔‬ ‫ہمیں وحدت الوجود کے قائل صوفیا کرام کی اس قدر بڑی تعداد‬ ‫ملتی ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ اپ جانتے ہی ہونگے لیکن بات‬ ‫کے تواتر کے لیئے تھوڑا سا بیان کر دیتے ہیں کہ ‪:‬وحدت‬ ‫الوجود‪ :‬کا نظریہ یعنی "ایک ہو جانا" یعنی هللا تعالی کی ہستی‬ ‫میں گم ہو جانا۔ ۔اور ‪:‬وحدت الشہود‪ :‬سے مراد ‪:‬ایک دیکھنا ہے‪:‬‬ ‫یعنی چاروں طرف ‪:‬تو ہی تو‪ :‬ہے واال معاملہ ہو جاتا ہے ۔ سالک‬ ‫ہر چیز میں جلوہ باری تعالی دیکھتا ہے۔حضرت امام غزالی اور‬ ‫اُس کے بعد کے کئی صوفیا نے جو سالک کے لیئے منازل بیان‬ ‫کی ہیں یا ‪:‬طریقت‪ :‬بیان کی ہے اُس میں انسان خود کو ہر نفسانی‬ ‫خواہش سے پاک کر کہ جب اس راہ چلتا ہے تو وہ ذکر کے‬ ‫دوران ایک بُہت بڑا منبع نور دیکھتا ہے‪ ،‬اور خود کو اہستہ‬ ‫اہستہ اس میں جذب ہوتا محسوس کرتا ہے۔ اخر کار وہ خود کو‬ ‫ُمکمل طور پر اس کا حصہ محسوس کرتا ہے۔ تمام صوفیا اس پر‬ ‫متفق ہیں کہ انسان خود کو ذات باری تعالی میں ضم ہوتا‬ ‫محسوس کرتا ہے اور خود کو خدا محسوس کرتا ہے۔ حضرت‬ ‫مجدد الف ثانی سے پہلے تک یہی نظریہ ‪:‬وحدت الوجود‪ :‬تھا اور‬ ‫اس مقام کو اخری اور سب سے اونچا ُمقام سمجھا جاتا تھا۔ اس‬ ‫نظریئے نے کئی مسلے پیدا کیئے کہ کئی لوگ راہ بھٹکے اور‬ ‫خود کو خدا سمجھنے لگ گئے۔ پھر مجدد الف ثانی نے ‪:‬نظریہ‬


‫وحدت الشہود‪ :‬پیش کیا کہ صاحب اس سے اونچا ُمقام بھی‬ ‫موجود ہے۔ اس میں انسان خود کو ذات باری تعالی سے الگ ہوتا‬ ‫محسوس کرتا ہے اور اخر اسے ہر طرف خدا نظر اتا ہے‪ ،‬اور وہ‬ ‫خود کو خدا محسوس نہیں کرتا۔ حضرت مجدد الف ثانی فرماتے‬ ‫ہیں کہ کئی صوفیا اس درجے پر نہیں گئے اور انہیں تامرگ‬ ‫معلوم تک نہ ہؤا کہ وہ غلطی کر رہے ہیں۔ صرف منصور کے‬ ‫بارے وہ لکھتے ہیں کہ اخری ایام میں اسے علم ہو گیا تھا۔ان‬ ‫باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے جو اخذ کر رکھا ہے وہ یہ‬ ‫ہے کہ منصور چونکہ ‪:‬وحدت الوجود‪ :‬کا معتقد تھا اور ‪:‬وحدت‬ ‫الشہود‪ :‬کا نظریہ بُہت بعد میں ایا‪ ،‬سو اس کا خود کو خدا سمجھنا‬ ‫یا کہہ دینا عین ممکن نظر اتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ عالم وجد‬ ‫میں کہی گئی بات سے اُس کا کیا ُمراد تھا‪ ،‬وہ سب کو سمجھا پاتا‬ ‫یا نہیں۔ اُس کا علم الہامی تھا اور اس کے لیئے دالئل نہیں ہؤا‬ ‫کرتے۔یہ ہمارا خیال ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے اتفاق ضروری‬ ‫نہیں۔ اُمید ہے اسی طرح اپ ہمیں بھی تاریخ کی ُکچھ نہ ُکچھ تعلیم‬ ‫دیتے رہیں گے۔‬ ‫وی بی جی‬ ‫پٹھی بابا‬ ‫مئی ‪2014 ,06‬‬ ‫بُہت عمدہ جناب۔ اچھی تحریر ہے۔ ہمارے خیال کے ُمطابق‪ ،‬یہ تو‬ ‫ایک عام سا ُمعاشرتی رویہ ہے کہ ہر ‪:‬عاشق پُتر‪ :‬کو ماں‪ ،‬بہن‬ ‫یاد کروائی جاتی ہے‪ ،‬لیکن اپ نے اسی بات کو قدرے ُمختلف‬


‫رنگ دیا ہے۔ جہاں ‪:‬بابا حق‪ ، :‬نا صرف دالئل کے ساتھ‪ ،‬دھیدو‪،‬‬ ‫سکندر اور محمود کی بات کرتا ہے‪ ،‬بلکہ ُکچھ غلط العام پیمانوں‬ ‫کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے جن کے ذریعے دُنیا اچھا بُرا‬ ‫پہچانتی ہے۔ اپ کی بیش تر باتوں سے ہمیں اتفاق ہے۔ رانجھے‬ ‫کا قصہ (ہر وارث شاہ) پڑھیں تو حضرت رانجھا صاحب کا‪ ،‬باغ‬ ‫میں ہیر اور اُس کی سہیلیوں کے ساتھ سلوک کا‪ ،‬جو ذکر ملتا‬ ‫ہے‪ ،‬وہ اپ کی بات کی تصدیق ہے۔ سکندر اعظم کے بارے بھی‬ ‫ہمیں اپ سے اتفاق ہے‪ ،‬اور یہ بات دُرست ہے کہ راجہ پورس‬ ‫کی اپنے ہی ہاتھیوں کے باعث شکست صرف اس لیئے صراحی‬ ‫جاتی ہے کہ‪ ،‬ایک ہندو راجہ تھا‪ ،‬یہ کوئی نہیں کہتا کہ اُس کی‬ ‫فوج نے اُس کے بعد مذید اگے جانے سے انکار کیوں کیا۔ محمود‬ ‫کے بارے ہم ذیادہ نہیں جانتے اس لیئے ُکچھ کہہ نہیں سکتے‪،‬‬ ‫لیکن جب اتنا ُکچھ اپ نے دُرست کہا ہے تو یقینا ً اس کی تاریخ پر‬ ‫بھی اپ کی نظر ہو گی۔ دُنیاوی عشق کے بارے ہمارا خیال ہے‬ ‫کہ‪ ،‬بقول بابائے نفسیات‪ ،‬فرائڈ کے ہر انسانی خواہش‪ ،‬جنسی‬ ‫ہوس اور بھوک وغیرہ سب ایک ہی اشتہا کا نام ہے۔ جب تک دُنیا‬ ‫میں بھوک ہے‪ ،‬اور جب تک شیر‪ ،‬ہرن کو کھاتا رہے گا‪ ،‬اس کو‬ ‫ختم نہیں کر سکتے۔ جب تک خواہشیں ہیں‪ ،‬تکمیل کی کوشش‬ ‫انسان کرتا رہے گا اور یہی ترقی کا دوسرا نام بھی ہے۔ اب رہ‬ ‫یہی جاتا ہے‪ ،‬کہ خواہشیں اگرچہ تمام ہی بُری ہیں‪ ،‬لیکن ان کو‬ ‫اچھی اور بری اقسام میں تقسیم کیا جائے۔ بُری خواہشوں کو کم‬ ‫سے کم کیا جائے‪ ،‬یا کم از کم ان کی تکمیل کرنے کی کاوش سے‬ ‫انسان کو روکا جائے۔ یہی اپ نے کیا ہے‪ ،‬اور خوب کیا ہے۔‬ ‫ہمارا خیال ہے کہ دُنیاوی ُمحبت‪ ،‬عشق وغیرہ اپ کے کہنے کے‬ ‫ُمطابق ہی اصل میں جنسی ہوس ہی ہے‪ ،‬یہی فرائڈ بھی کہتا ہے‪،‬‬


‫لیکن ہمارا خیال ہے کہ انسان نے یہ دیکھتے ہوئے کہ‪ ،‬اس‬ ‫گھوڑے کو روکا نہیں جا سکتا‪ ،‬اسے ُمحبت اور عشق جیسے‬ ‫پاکیزہ نام دے کر‪ ،‬اس کی باگ موڑنے کی کوشش کی ہے۔ اور‬ ‫بُہت حد تک کامیاب بھی ہؤا ہے۔ یہ وہ طریقہ ہے جو مرد کو‬ ‫عورت اور عورت کو مرد پسند کرنے کی اجازت بھی دیتا ہے‪،‬‬ ‫اور غالظت سے دور بھی رکھتا ہے۔ ہمارے نذدیک وہ تمام‬ ‫کہانیاں جو عشق و ُمحبت کی پاکیزگی بیان کرتی ہیں اور انسان‬ ‫کو اس بات پر امادہ کر دیتی ہیں کہ وہ انہیں خوبصورت جذبے کا‬ ‫نام دے کر‪ ،‬برائی سے دور رہے‪ ،‬وہ اس قدر غلط نہیں ہیں۔‬ ‫سوائے اس ایک بات کے‪ ،‬کہ وہ عشق اور محبت کی ناکامی کی‬ ‫صورت میں‪ ،‬انسان کو الغر اور بےکار بن جانے کی ترغیب دیتی‬ ‫ہیں۔ اس کو روکنا بُہت ضروری ہے۔اب اس پر باقی ُکچھ ہم کہہ‬ ‫نہیں سکتے‪ ،‬کیونکہ ہم خود اُن لوگوں میں سے ہیں جو بقول‬ ‫شخصے یہ چاہتے ہیں کہ ہماری بیوی وہ ُکچھ نہ کرے جو وہ‬ ‫چاہتے ہیں کہ پڑوسی کی بیوی کرے۔ تحریر پر ایک بار پھر‬ ‫بھرپور داد۔ رواں رکھیں۔ انہیں پڑھ کر ہمیں بُہت فائدہ ہوتا ہے۔‬ ‫ُکچھ دیر سوچنے کا موقع ملتا ہے اور اپنے اپ کو پرکھنے کا‬ ‫بھی۔‬ ‫وی بی جی‬ ‫جی دُرست فرمایا اپ نے۔ ُ‬ ‫ظلم تو واقعی ہے۔ ہم لوگ اج بھی‬ ‫خلیفہ ہارون الرشید کی تعریفیں کتابوں میں پڑھتے ہیں‪ ،‬بلکہ‬ ‫تمام ُمسلمان بادشاہوں‪ ،‬جیسے ُمغلیہ خاندان وغیرہ کی تعریف‬ ‫کرتے ہیں۔ کبھی نہیں کہتے کہ‪ ،‬خاندان برامکہ کا کیا حال ہؤا‬


‫تھا‪ ،‬کبھی نہیں لکھتے کہ فرقہ معتذلہ کیا تھا‪ ،‬کبھی نہیں پڑھتے‬ ‫کہ‪ ،‬امام احمد بن حنبل کے ساتھ کیا سلوک ہؤا۔ تب بھی ایسا ہی‬ ‫کرتے تھے۔ لیکن افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ اب بھی ہم‬ ‫ایسا ہی کر رہے ہیں۔ بقول فرازیہاں قلم کی نوک پر ہے نوک‬ ‫خنجر کیاپ کی دُعاؤں کا ُ‬ ‫شکریہ۔ ہم ُگم ہو جائیں تو ‪:‬انا ہلل‪ :‬پڑھ‬ ‫لیا کیجے۔ سُنا ہے کوئی چیز ُگم ہو جائے تو یہی پڑھنا چاہیئے۔‬ ‫اگر دُنیا میں نہ ہوئے تو مغفرت کے کام ائے گی۔‬ ‫وی بی جی ‪21‬‬ ‫جواب کا سکتہ‬ ‫اپریل ‪2014 ,04‬‬ ‫اپ کی ُکچھ تحریریں ایسی ہوتی ہیں‪ ،‬کہ اُنہیں پڑھ کر انسان کو‬ ‫لگتا ہے کہ ابھی اور اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ اور کبھی‬ ‫ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ پڑھ کر انسان جو ُکچھ محسوس کرتا‬ ‫ہے اُسے الفاظ نہیں دے پاتا۔ کئی افسانے اپ کے ایسے بھی‬ ‫ہوتے ہیں کہ کہتے ُکچھ نظر اتے ہیں لیکن کہہ ُکچھ اور رہے‬ ‫ہوتے ہیں۔ ‪:‬نقاد‪ :‬تو بُہت اونچا مرتبہ ہے‪ ،‬ہم تو صرف ایک عام‬ ‫ادمی کی سی عقل کے حامل ہیں اور صرف یہ سوچ کر اپنی رائے‬ ‫کا اظہار کرتے ہیں کہ جو ہم نے محسوس کیا وہ اپ تک پُہنچ‬ ‫جائے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ جو ُکچھ اپ اپنی تحریر میں کہہ‬ ‫رہے ہوتے ہیں‪ ،‬ہم جُزوی یا پھر ہو سکتا ہے کہ ُکلی طور پر‬ ‫بھی نہ سمجھ پائے ہوں۔ ہمارے بیان سے اپ کو اتنا تو علم ہو‬


‫ہی جائے گا کہ ایک عام شخص نے پڑھ کر کیا محسوس کیا۔یہ‬ ‫تحریر بھی سوال چھوڑ جاتی ہے‪ ،‬افسانے کا ہیرو چونکہ خود‬ ‫ایک اسامیاں پھنسانے واال شخص ہے اس لیئے اُس کے اپنی‬ ‫بیوی کے بارے جو بھی خیاالت ہیں وہ مشکوک ہیں اور‬ ‫بھروسے کے الئق نہیں۔ دوسری طرف بیویوں کے عام رویوں‬ ‫کی طرف اشارہ ہے کہ اپنے بچے اُسے اپنے بچے ہی ہوتے ہیں‬ ‫جبکہ شوہر کسی اور کا بچہ ہوتا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی‬ ‫محسوس ہوتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ رقیہ کو معلوم ہو کہ اس کا‬ ‫شوہر باہر کے کھانے پسند کرتا ہے سو اُس نے پہلے دن ہی اُس‬ ‫کو خوش کر دیا ہو)۔ یہ بھی اخض نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنے‬ ‫بچوں کو حرام نہیں کھالنا چاہتی تھی کیونکہ گھر کا کھانا بھی تو‬ ‫اُسی کمائی کا ہو گا۔ویسے بیوی کے ُمعاملے میں زیادہ سوچنا‬ ‫نہیں چاہیئے کیونکہ اُس کے کئی کام عقل سے باہر ہی ہوتے‬ ‫ہیناور عورتوں کا منطقی طرز علم مردوں سے یکسر ُمختلف ہوتا‬ ‫ہے۔اس ُمعمے کو ُمعاشرتی طرز عمل سے دریافت کرنے اور پھر‬ ‫الفاظ دینے پر داد قبول کیجے‬ ‫وی بی جی ‪22‬‬ ‫ماسٹر جی‬ ‫مئی ‪2014 ,02‬‬ ‫بُہت اچھی تحریر جناب۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول‬ ‫کیجے۔ اپ بات کرنے کا فن جانتے ہیں۔ خوبی یہ ہے کہ ُمعاشرے‬ ‫کے ایک تلخ رویئے کو اپ نے ایک چھوٹی سی کہانی میں سمو‬


‫دیا ہے۔ اور پھر پُر اثر بھی ہے۔ پڑھ کر ہمیں ُکچھ ُکچھ محسوس‬ ‫ہؤا کہ ماسٹر جی شکل ہم سے کچھ ملتی جُلتی سی ہے۔ لیکن‬ ‫مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کو تلقین کرنا ماسٹر جی کا اصلی روپ‪ ،‬یا‬ ‫اصلی چہرہ تھا۔ اور اُس پر کتنے ہی نقاب ڈال لیئے جائیں وہ اس‬ ‫سے بچ نہیں سکتے تھے۔ مذہب واال نقطہ بھی ‪ ١٠٠‬فی صد‬ ‫دُرست ہے‪ ،‬کہ اس میں ویسے ہی عقل کو ایک طرف رکھ دیا‬ ‫جانا ہوتا ہے سو ان معاملوں میں سمجھ کی ضرورت تو ہوتی‬ ‫نہیں۔ مولوی صاحب کے ساتھ بھی یہی ہؤا کہ ایک دن اصلی‬ ‫چہرہ سامنے ا ہی گیا۔ ہماری طرف سے بھروپر داد قبول کیجے۔‬ ‫وی بی جی‬ ‫سچ پوچھیں تو ہم ُ‬ ‫شروع میں یہاں ائے تھے تو اپ کے لکھے‬ ‫کی طرف انا دُشوار سا لگتا تھا کہ لمبی تحریروں کو کون پڑھے‬ ‫اور وہ بھی توجہ مانگتی ہیں۔ پھر ایک ادھ بار پڑھا تو دل کو‬ ‫بُہت بھایا۔ پھر ان پر لکھنے کی ہمت نہ پڑتی تھی کہ صاحب‬ ‫ہماری داد کس الئق ہے اس قدر تفکر امیز تحریروں کے سامنے‪،‬‬ ‫لیکن پھر ہم سے رہا نہیں گیا۔ اپ نے ‪ 1993‬کے بعد کوئی کتاب‬ ‫شائع نہیں کروائی‪ ،‬وجوہات بھی ہونگی۔ لیکن ہماری درخواست‬ ‫یہی رہے گی کہ جہاں تک ہو سکے‪ ،‬ہمیں ان سے مستفیض‬ ‫ہونے کا شرف دیتے رہیئے گا۔ داد و تحسین‪ ،‬اپ جانتے ہی ہیں‪،‬‬ ‫کہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ ‪:‬ہم تو پکھی واس ہوویں‪ :‬سو جانے‬ ‫یہاں کب تک ہیں‪ ،‬لیکن یہ سلسلہ جاری رہے تو اچھا ہے۔ کوئی‬ ‫نہ کوئی ان سے استفاضہ حاصل کرتا رہے گا۔ اپ جانتے ہی ہیں‬ ‫کہ انٹرنیٹ پر اگر کوئی چیز ‪ ٢٠٠‬لوگ پڑھتے ہیں تو ‪ ١٠٠‬لوگ‬


‫پسند بھی کرتے ہیں‪ ،‬لیکن اپنی پسند کا اظہار فقط کوئی ایک ادھ‬ ‫سنے نہ‬ ‫شخص ہی کرتا ہے۔ بہار اتی ہے کویل کوکتی ہے‪ ،‬کوئی ُ‬ ‫سُنے۔ ایسے ہی اپ کے یہ خوبصورت احساسات ہیں‪ ،‬جو پڑھنے‬ ‫والوں کے زہنوں کو پختگی دیتے ہیں۔ مردہ ضمیر کو زندہ کرتے‬ ‫ہیں۔ اپ کو قدرت نے یہ صالحیت دی ہے کہ اپ کی تحریر صرف‬ ‫ایک قول کی طرح اچھا یا بُرا بتا نہیں دیتی‪ ،‬بلکہ ضمیر کو‬ ‫جگاتی ہے۔ صرف اچھائی کی تغیب اور بُرائی چھوڑنے کی تلقین‬ ‫نہیں کرتی‪ ،‬بلکہ اچھائی کرواتی ہے اور بُرائی کی طرف بڑھتا‬ ‫ہاتھ روکتی ہے۔ بقول ہمارے ہیکھولے نہ کھولے در کوئی‪ ،‬ہے‬ ‫ُمجھ کو اس سے کیامیں چیختا رہوں گا تیرے در کے سامنےهللا‬ ‫پاک کا ہمیشہ کرم رہے اپ پر۔‬ ‫وی بی جی‬ ‫بڑے ابا‬ ‫اپریل ‪2014 ,28‬‬ ‫بُہت ہی خوبصورت تحریر ہے۔ جہاں اپ نے انسان کے بٹتے‬ ‫چلے جانے کی بات کی ہے وہاں یہ تحریر ایک دوسرے کے‬ ‫ساتھ ُمحبتوں کے ساتھ جینے کا بھی سبق دیتی ہے۔ تحریر میں‬ ‫موجود کرب کا احساس اسے اور زیادہ جاندار کر رہا ہے۔ واقعی‬ ‫صفر کا ہندسہ بُہت طاقت رکھتا ہے‪ ،‬اور اپ نے اسے اپنے انداز‬ ‫میں بُہت خوبصورتی سے ُمعاملے کے ساتھ جوڑا ہے۔ صفر کے‬ ‫ساتھ صرف ایک کا اضافہ اسے بُہت طاقتور کر دیتا ہے اور خود‬


‫بھی بُہت طاقتور ہو جاتا ہے بشرطیکہ کہ ‪:‬صحیح سمت‪ :‬میں‬ ‫اضافہ ہو۔ غلط سمت میں اگر ایک کا اضافہ ہو تو ایک‪ ،‬ایک ہی‬ ‫رہتا ہے لیکن صفر اپنا وجود بھی کھو دیتا ہے۔ ایک کو چاہیئے‬ ‫کہ کوشش کرے کہ کئی صفروں کے ساتھ لگ جائے اور اسی‬ ‫طرح اپنی اور دوسروں کی قیمت میں اضافہ کرے۔ ہماری طرف‬ ‫سے بھرپور داد قبول کیجے۔ بُہت ہی عمدہ تحریر ہے۔ہم نے‬ ‫انسان کے بٹنے کے عمل کو ایک اور نقطہ نظر سے بھی دیکھا‬ ‫ہے۔ شیکسپئر کے ُمطابق ‪:‬ال دا ورلڈ از سٹیج‪ :‬۔ اُنہوں نے انسان‬ ‫کی زندگی کے ادوار کو کردار دیئے ہیں‪ ،‬جبکہ ہمارا خیال ہے کہ‬ ‫انسان ایک ہی وقت میں کئی کردار بھی نبھاتا ہے۔ باپ بھی ہے‬ ‫بیٹا بھی۔ دفتر میں ایک چہرہ تو رشتہ داروں کے سامنے کوئی‬ ‫اور چہرہ۔ کہیں اداب بھری محفل میں ایک مؤدب شخص تو‬ ‫دوستوں کے سامنے ایک گالم گلوچ والے انسان کا چہرہ۔ کہیں‬ ‫چاالک اور مکار تو مولوی صاحب کے سامنے عجز و انکسار۔‬ ‫کہیں خوشی نہ ہوتے بھی ہنسنا پڑتا ہے تو کہیں کسی کو موت‬ ‫پر زبردستی رونے کی کوشش کرتا ہے۔ کردار نبھاتا ہے۔ اور‬ ‫انہیں کرداروں میں بٹتا بٹتا‪ ،‬اپنا اصلی چہرہ بھول جاتا ہے۔ ایسا‬ ‫ہی ایک کردار یہ ‪:‬وی بی‪ :‬ہے جس میں ہمیں اپنا چہرہ نظر اتا‬ ‫ہے اور ہم اس کے ساتھ وقت ُگزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم‬ ‫نے اپ کی تحریر پڑھ کر زیادہ وقت نہیں لیا‪ ،‬سو جذباتی سی چند‬ ‫باتیں جو ذہن میں اُبھریں بیان کر گئے ہیں‪ ،‬جس پر معذرت بھی‬ ‫چاہتے ہیں۔ ائندہ کوشش کریں گے کہ اپ کی تحریر کے ساتھ‬ ‫زیادہ وقت ُگزاریں تاکہ جذبات ُکچھ ٹھنڈے ہو جائیں اور ہم ُکچھ‬ ‫عقل کو لگتی کہہ سکیں۔اپ کی یہ تحریر بھی بُہت خوب ہے‪ ،‬اور‬ ‫ہمیں یقین ہے کہ پڑھنے والے اس سے ضرور اثر لیں گے۔‬


‫کیونکہ یہ جذبات اور احساسات سے لبریز ہے۔ایک بار پھر‬ ‫بھرپور داد کے ساتھ۔۔‬ ‫وی بی جی ‪23‬‬ ‫گناہ گار‬ ‫اپریل ‪2014 ,26‬‬ ‫ماشاهللا جناب یہ تحریر بھی بُہت خوب ہے۔ کمال یہ ہے کہ اپ اس‬ ‫قدر وسعت رکھتے ہیں کہ اپ کا لکھا جب پڑھا بالکل ُمختلف سا‬ ‫ہی ہوتا ہے اور یہ انفرادیت اپ کے قلم کی پہچان ہے۔ ہر بار ایک‬ ‫نئی اور علیحدہ دُنیا کی ہی سیر کرواتے ہیں۔ اس کے لیئے ُ‬ ‫شکر‬ ‫گزار بھی ہیں ہم اور اپنے ساتھ بھرپور داد بھی الئے ہیں جو‬ ‫پیش خدمت ہے۔رزق سے ُمتعلق چونکہ بات ہو رہی تھی سو ہم‬ ‫نے بُہت غور سے پڑھا اپ کے خیاالت کو۔ لیکن ایک فقرہ ہے‬ ‫جس کی تشریح ہم ٹھیک سے نہیں کر پا رہے ہیں۔ وجہ شائید‬ ‫اس فقرے میں موجود یہ الفاظ ہیں ‪ :‬تو وہ اس شخص کے اندر‬ ‫رزق فراہم کرنے کی قدرت رکھتا ہے‪ :‬۔ فقرہ درج ذیل ہے۔‬ ‫انہوں نے‘ اس سے آگے فرمایا‘ کہ اگر انسان سے زمینی ‪:‬‬ ‫استحصال پسند قوتیں‘ رزق چھین لیں‘ تو وہ اس شخص کے‬ ‫اندر‘ رزق فراہم کرنے کی قدرت رکھتا ہے‘ اور کوئی نہیں‘ جو‬ ‫مزاحم آ سکے‪ُ :‬ممکن ہے کتابت کی چھوٹی سی کوئی غلطی ہو‬ ‫لیکن چونکہ ہم خود کم فہم قسم کے شخص ہیں تو ذیادہ تر‬


‫امکان اسی بات کا ہے کہ ہم اپ کے مفہوم تک نہ پُہنچ پا رہے‬ ‫ہیں۔موالنا ازاد صاحب بُہت مثبت سوچ رکھنے والے شخص‬ ‫تھے‪ ،‬سُنتے ہیں کہ ایک بار کسی نے اُن سے کہا کہ فالں بادشاہ‬ ‫کے دور میں عورتیں کپڑے نہیں پہنتی تھیں بلکہ اپنے جسم پر‬ ‫کپڑوں کی سی تصویر (پینٹنگ) بنوا لیا کرتی تھیں۔ موالنا صاحب‬ ‫کا مثبت جواب دیکھیئے کہ فرمایا کہ اس بات سے اُس زمانے‬ ‫کے مصوروں کی فنی صالحیتوں کا پتہ چلتا ہے کہ کس قدر‬ ‫مہارت رکھتے تھے۔تو صاحب رزق اور ُخدا سے مطعلق بھی‬ ‫ہمارا ایسا ہی مثبت اور سادہ وطیرہ ہے۔ اگر رزق مل جائے تو‬ ‫هللا نے دیا‪ ،‬نہ مال تو حکومت یا ُمسلمانوں کی دین سے دوری‬ ‫ذمہ دار۔ اگر انعامی بانڈ نکل ایا تو هللا کا ُ‬ ‫شکر‪ ،‬نہ مال تو اسی‬ ‫میں بھالئی تھی‪ ،‬اپ ہی کی مثال سے دونوں پستانوں کا دودھ ‘‬ ‫ذائقہ اور تاثیر میں‘ ایک سا نہیں ہوتا تو واہ کیا ہی خوب قُدرت‬ ‫کا کمال ہے اگر ایک سا ہے تو بھی واہ کیا ہی خوب قُدرت کا‬ ‫کمال ہے کہ دو الگ الگ پستانوں سے ایک سا دودھ ۔ دُنیا کو‬ ‫دیکھ کر اندازہ لگاتے رہتے ہیں کہ فالں کام اچھا ہؤا یا بُرا۔ اگر‬ ‫اچھا ہؤا ہے تو واہ هللا تیرا کمال‪ ،‬اگر بُرا ہؤا تو شیطان مردود۔‬ ‫هللا کا خوف ہے کہ کہیں ُکچھ غلط منہ سے نکال تو نُقصان نہ‬ ‫اُٹھانا پڑے اس لیئے ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے‪ ،‬کہ سوچتے‬ ‫پھریں کہ دُنیا میں جو جتنا کاال ہے اُتنا بدحال اور جو جتنا گورا‬ ‫ہے اُتنا خوشحال کیوں ہے۔ یا یہ کہ اُن کے حاالت کا ذمہ دار ا ُن‬ ‫کا رنگ ہے یا اُن کی رنگت اُن کی خوشحالی کی نسبت ٹھہری‬ ‫ہے۔اپ کے خیاالت اس ُمعاملے میں بُہت اچھے ہیں اور مثبت‬ ‫ہیں‪ ،‬یہ اچھی بات ہے۔ افسانہ بھی بُہت خوبصورت ہے۔ هللا پاک‬ ‫اپ کے قلم کو مذید وسعت دے۔ایک چھوٹی سی شکایت بھی ہے‬


‫کہ اپ داد وصول کرنے کی بجائے داد دینے لگ گئے ہینہمیں‬ ‫احتیاط کرنی پڑے گی۔‬ ‫وی بی جی‬ ‫گناہ گار‬ ‫اپریل ‪2014 ,26‬‬ ‫جناب داد کی بات نہیں کر رہے‪ ،‬وہ تو اپ کی تحریریں ہم سے‬ ‫ہمارا گریبان پکڑ کر لے لیتی ہیں‪ ،‬ایسے ہی جیسے ہم ہر ماہ کی‬ ‫پہلی تاریخ کو اپنی تنخواہ کی پائی پائی تک مشین سے وصول‬ ‫کرتے ہیں۔ ہم اپنے خیاالت کی اظہار کی بات کر رہے تھے کہ ہم‬ ‫ذرا ادھر اُدھر کی ہانکنا کم کر دیں‪ ،‬وگرنہ ہمیں یقین ہے کہ اپ‬ ‫جس طرح کی نظر رکھتے ہیں ہم پر بھی اپ کی تجزیہ کی تیز‬ ‫نگاہ ہو گی‪ ،‬اور ممکن ہے کہ کسی دن ایک عجیب کردار کی‬ ‫صورت میں اپ کی کسی تحریر کا حصہ بن جائیں گے۔ اپ کا‬ ‫ُ‬ ‫شکریہ کہ ہمیں ان تحریروں سے فیضیاب ہونے کا موقع فراہم‬ ‫کرتے ہیں۔طالب دُعا‬ ‫ماشاهللا جناب۔ بُہت ہی خوب۔ ایک تو ہمارے علم میں اضافہ ہؤا‬ ‫کہ ‪:‬رزق اندر‪ :‬کے کیا معنی ہیں دوسرا اپ کے اس فقرے کے‬ ‫معنی جان کر بُہت اچھا لگا۔ واقعی وہ رزق دیتا ہے تو کہاں نہیں‬ ‫دیتا۔‬ ‫توجہ اور رہنمائی کا شکریہ۔۔‬ ‫وی بی جی ‪24‬‬


‫انا کی تسکین‬ ‫اپریل ‪2014 ,18‬‬ ‫بُہت اچھی تحریر ہے‪ ،‬داد قبول کیجے۔ (ہم ‪:‬تحریر‪ :‬اس لیئے‬ ‫کہتے ہیں کہ کم علمی کے سبب‪ ،‬ہم ‪:‬انشائیہ‪: ،:‬افسانہ‪ :‬وغیرہم‬ ‫میں تفریق کرنے سے قاصر ہیں)اپ نے فرمایا تھا کہ ہم‬ ‫خصوصی برتاؤ رکھتے ہیں تو جناب ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہم تو‬ ‫جیسا پڑھتے ہیں ویسا بیان کرتے ہیں۔ یہ اپ کی تحریریں ہیں‬ ‫جو ہمیں یہاں التی ہیں۔ اگرچہ اپ جانتے ہی ہیں کہ مصروفیات‬ ‫اج کے دور میں بُہت زیادہ ہو چُکی ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ایک‬ ‫‪:‬ابا جی‪ :‬کماتے تھے اور سارا ‪:‬ٹبر‪ :‬کھاتا تھا‪ ،‬اور ایک یہ وقت‬ ‫ہے کہ ‪:‬سارا ‪:‬ٹبر‪ :‬کماتا ہے اور ایک ‪:‬ابا جی‪ :‬کو نہیں کھال‬ ‫سکتا۔ سو ہماری حاضری کم رہتی ہے‪ ،‬وجہ یہ بھی ہے کہ اپ‬ ‫کی تحریر کو سرسری نظر سے دیکھنا‪ ،‬ہم سے ُممکن نہیں۔ یہ‬ ‫خود ہی توجہ چھین لیتی ہے۔ اپ کے ُ‬ ‫شکر ُگزار ہیں ہم کہ احباب‬ ‫اگر کم توجہ بھی دیں تو اپ ان تحریروں کو یہاں پیش کرتے‬ ‫رہتے ہیں‪ ،‬اور کم از کم ہم اس سے استفاضہ کرتے رہتے ہیں۔یہ‬ ‫تحریر بُہت تلخ محسوس ہوئی‪ ،‬اور ایسا ہی ہونا چاہیئے تھا۔ اس‬ ‫قدر الفاظ میں نفرت بھری ہے کہ جیسے صاحب قلم کو خود بھی‬ ‫چوٹ پڑی ہو۔ ایک جُملہ ہے اپ کا‪ ،‬اس پر داد بھی قبول کیجے۔‬ ‫اقتباس‬ ‫بڑی اور شہرت یافتہ دکان سے‘ کھالنے پالنے کی صورت میں‘‬ ‫فائل کی بلند پروازی پر‘ شاہین بھی شرمندہ ہو جاتا ہے۔‬ ‫ہم لوگوں نے ‪:‬حرام‪ :‬پر تحقیق کی اور اس کی بھی کئی اقسام‬


‫ُمرتب کیں۔ اقسام بھی دو قسم کے نقطہ نظر سے کی گئی ہیں۔‬ ‫پہال نُقطہ نظر۔ایک تو ‪:‬اپنے لیئے حرام‪ ،‬دوسرے کے لیئے حالل‪:‬‬ ‫اور دوسرا ‪:‬اپنے لیئے حالل‪ ،‬دوسرے کے لیئے حرام‪ :‬جیسا کہ‬ ‫اپ کی تحریر نے بھی وضاحت کی ہے۔دوسرا نقطہ نظراگرچہ یہ‬ ‫اقسام بُہت ہیں لیکن ہم چیدہ چیدہ کا ذکر کئیے دیتے ہیں۔‬ ‫پہلی قسم‪ :‬اسے کبھی ُمسلمان اپنے لیئے حالل نہیں سمجھتے۔ ‪:‬‬ ‫جیسے سور اور ُکتے کا گوشت۔‬ ‫دوسری قسم‪ :‬اسے حسب طبیعیت استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ‪:‬‬ ‫جیسے شراب‪ ،‬جؤا۔‬ ‫تیسری قسم‪ :‬ایسی چیزیں جنہیں کہنا تو حرام ہوتا ہے لیکن ان ‪:‬‬ ‫کے استعمال پر کوئی پابندی نہیں‪ ،‬بلکہ ترغیب دی جاتی ہے۔‬ ‫جیسے سُود‪ ،‬کسی دوسرے ُمسلمان بھائی کا مال و زن۔ ُکچھ‬ ‫ُمفتی حضرات کے بھی ہم احسانمند ہیں کہ اُنہوں نے اس کو کئی‬ ‫اور نام دے کر نہ صرف عوام کو سہولت مہیا کی بلکہ خود بھی‬ ‫الکھوں روپے ماہانہ لے کر دین کی خدمت کر رہے ہیں۔ (ویسے‬ ‫ہم خود بھی ایسے ہی کسی ضمیر فروش ُمفتی کی تالش میں ہیں‬ ‫جو ہمیں روزہ میں سگریٹ پینے کی اجازت کا فتوی دے دے)۔اپ‬ ‫کی تحریریں ایسی ہوتی ہیں کہ ہم اپنا رونے بیٹھ جاتے ہیں۔ اس‬ ‫پر معذرت بھی چاہتے ہیں۔ یہ تحریر پڑھ کر ہمارا نہیں خیال کہ‬ ‫کوئی پڑھے گا اور اثر نہ لے گا۔ ایک بار پھر بھرپور داد کے‬ ‫ساتھ‬ ‫وی بی جی‬


‫جناب یہ تو اپ نے حد سے بڑھ کر عزت دے دی ہماری عامیانہ‬ ‫سی رائے کو۔ عامیانہ اس لیئے کہا کہ ایک عام سے ادمی کی‬ ‫رائے ہے‪ ،‬ہم نہ مفکر ہیں اور نہ دبیر۔ اور نہ ہی کوئی عالم‬ ‫فاضل ہیں کہ ‪:‬علوم فضول‪ :‬حاصل کر رکھے ہوں اور نہ ہمارا نام‬ ‫‪:‬علما فضال‪ :‬میں اتا ہے ‪:‬وی بی جی‪ :‬۔ سو صاحب‪ ،‬اگر ہم سے‬ ‫کوئی کام کی بات سرزد ہو جائے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ‬ ‫یہ کس نے کی۔ ایک اور ُگزارش کرنا چاہیں گے کہ ہم اپنا نام‬ ‫یہاں نہیں الئے ہیں۔ ہمارے ہمذاد ہیں‪ ،‬ایک کردار ‪:‬وی بی جی‪:‬‬ ‫وہ یہاں ائے ہیں اور اُن کا یہی نام ہے۔ اگر وقت اجازت دیتا ہو تو‬ ‫ہماری یہ نظمیہ غزل ایک نظر پڑھ لیجے گا۔‪.‬اُمید ہے خفا نہ‬ ‫ہونگے۔اپ نے اس ناالئق کو اس الئق سمجھا ہے جس پر سراپا‬ ‫سپاس ہیں اور ایک بار پھر ُ‬ ‫شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ہمیں ‪:‬چوتھی‪:‬‬ ‫ُمرغی بھی ذبح کرنی ہے سو وہاں چلتے ہیں۔‬ ‫وی بی جی ‪25‬‬ ‫انگریزی فیل‬ ‫اپریل ‪2014 ,18‬‬ ‫معذرت خواہ ہیں کہ دیر سے حاضر ہوئے۔ یہ موضوع اگرچہ اس‬ ‫قدر انوکھا نہیں ہے‪ ،‬لیکن اپ کے قلم نے اسے اپنی طرز سے‬ ‫بیان کیا ہے اور بُہت ہی خوب کیا ہے۔ ہکے پھلکے انداز میں اپ‬ ‫نے کہانی بیان کی ہے جو پڑھنے والے کو کسی ذہنی دباؤ میں‬ ‫نہیں ڈالتی۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ وہ قارئین جو گہرے فلسفوں‬ ‫سے کتراتے ہیں یا سمجھ نہیں پاتے وہ بھی اس سے محظوظ ہو‬ ‫پاتے ہیں اور ُکچھ نہ ُکچھ بات کا اثر ضرور لے کر جاتے ہیں۔‬


‫ہماری طرف سے بھپور داد قبول کیجے۔ویسے ہمارا خیال اس‬ ‫سے ُمتعلق تو یہ ہے کہ ایک تو جو شاگرد رٹہ نہیں لگا سکتے‬ ‫اُن کو اساتذہ سے شاباش بھی شاز و نادر ہی ملتی ہے‪ ،‬وگرنہ‬ ‫نہیں ملتی۔ ہمارا اپنا المیہ یہی رہا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس میں‬ ‫صرف انگریزی ہی کارفرما نہیں ہے‪ ،‬بلکہ کئی ایسی چیزیں‬ ‫ہمارے نصاب کا حصہ ہیں جس کی کوئی تُک نہیں ملتی۔ یقین‬ ‫جانئیے اج تک ہمیں الجبرا ‪ ،‬جسے جبرا ً پڑھایا جاتا ہے‪ ،‬کو‬ ‫استعمال کرنے کا کوئی موقع زندگی نے نہیں دیا۔ ہم ایکسوں میں‬ ‫سے وائیاں تفریق کیئے بغیر زندگی ُگزار رہے ہیں۔ نہ مرہٹوں‬ ‫کی لڑائیوں کی تاریخوں کی کہیں ضرورت پڑی ہے۔ اور تو اور‬ ‫قائداعظم کے چودہ نُقاط جسے ہم چوتھی جماعت سے لے کر‬ ‫مسلسل چودھویں جماعت تک یاد کرنے کی کوشش کرتے رہے‬ ‫ہیں‪ ،‬نہ تو اج تک کبھی یاد ہوئے ہیں اور نہ کبھی اس کی‬ ‫ضرورت پڑی ہے۔یہاں کسی کام کو کرنے کے لیئے اُس کام لیئے‬ ‫موزوں ترین شخص بھی تالش کرنے کا کوئی اصول دُرست نہیں‬ ‫ہے۔ ہم جہاں کام کر رہے ہیں وہاں بھی صرف اس لیئے کہ ہمیں‬ ‫‪:‬ڈائریکٹ‪ ،‬ان ڈائریکٹ‪: ،:‬ایکٹو‪ ،‬پیسو‪: ،:‬دُعائے قنوت‪ ،:‬اور‬ ‫اپنے وزیر اطالعات کا نام یاد تھا۔ ہم اس سے بھی اچھا ُ‬ ‫عہدہ پا‬ ‫سکتے تھے لیکن چونکہ ہمیں نہ صرف ‪:‬امریکہ کے صدر‬ ‫کینڈی‪ :‬کے قاتل کا نام یاد نہیں تھا بلکہ یہ تک معلوم نہ تھا کہ‬ ‫‪:‬بُلبُل‪ :‬کی اوسط ُ‬ ‫عمر کتنی ہوتی ہے‪ ،‬اس لیئے ہم اُس عہدے کے‬ ‫الئق نہ تھے۔ اس لیئے ہم سمجھتے ہیں کہ نہ صرف یہ شعور‬ ‫دینا ضروری ہے کہ تعلیم کا مقصد کیا ہے اور اس میں کردار‬ ‫سازی کی کیا اہمیت ہے۔ بلکہ یہ بھی کہ کسی کام کو کرنے کے‬ ‫لیئے موزوں ترین شخص کا انتخاب کیسے کرنا چاہیئے۔ اگر‬


‫ہمارے بس میں ہو تو ‪ ،‬حافظ‪ ،‬سعدی اور ُ‬ ‫عرفی جیسے لوگوں کا‬ ‫کالم‪ ،‬بلکہ قصہ چہار درویش کو نصاب کا حصہ بنائیں اور بُہت‬ ‫سی خرافات کو اس میں سے نکال پھینکیں۔ ورنہ ہمارا تو یہی‬ ‫حال ہے بقول سعدی کہ اگر کوئی شخص علم حاصل کرے اور‬ ‫پھر اُسے استعمال نہ کرے تو ایسے ہی ہے جیسے کسی گدھے‬ ‫پر کتابوں کا بوجھ لدا ہو۔ تحریر پر ایک بار پھر داد کے ساتھ۔‬ ‫وی بی جی ‪26‬‬ ‫چوتھی مرغی‬ ‫‪,‬اپریل ‪2014 ,26‬‬ ‫بُہت ہی خوبصورت تحریر ہے۔ اپ ماشاهللا بُہت ہی گہری نظر‬ ‫رکھتے ہیں۔ اور پھر اپ کے پاس نہ صرف خیاالت کو الفاظ دینے‬ ‫کا ہ ُنر ہے بلکہ وہ طاقت بھی ہے کہ اپ کی تحریر پڑھنے واال نہ‬ ‫صرف قائل ہو جاتا ہے بلکہ ہمیں یقین ہے کہ اثر بھی لیتا ہے۔‬ ‫ایک ُمعاشرتی مسئلہ کہ اپ نے کہاں ُمرغی سے ُ‬ ‫شروع کیا ہے‬ ‫اور کیسے تمام کہانی کے بعد اسے وہیں سمیٹا ہے۔ ہماری طرف‬ ‫سے بھرپور داد قبول کیجے۔ اپ کہاں ‪:‬اسیل‪ُ :‬مرغی پر چھُری‬ ‫پھروا رہے تھے جناب یہ تو ُمرغے لڑانے والوں کی نظر میں‬ ‫‪:‬کفر‪ :‬سے کم نہیں۔ اپ کی تحریر پڑھ کر ُکچھ باتیں ذہن میں ائی‬ ‫ہیں ایک تو یہ کہ عام خیال ہہی ہے کہ پڑھنے لکھنے کا مطلب‬ ‫ہے رزق میں اضافہ اور یقین دہانی۔ ایک فارموال کہہ لیجے کہ‬ ‫جتنا ذیادہ پڑھا لکھا ہو گا انسان‪ ،‬اُتنا ہی ذیادہ اُس کا رزق ہونا‬ ‫چاہیئے۔ اور دوسری بات یہ کہ جنگل کا قانون بُرا ہوتا ہے‪،‬‬


‫انسانوں کے قوانین اچھے ہوتے ہیں اور اُنہیں ہی رائج ہونا‬ ‫چاہیئے۔ رزق کے بارے تو ہمارا خیال ہے کہ اس کا کوئی فارموال‬ ‫نہیں ہے۔ ہم نے تو یہی دیکھا کہ اگر کوئی شخص ہماری طرح‬ ‫اپنی تعلیمی اخراجات کی رسیدیں جنہیں ڈگریاں بھی کہتے ہیں‬ ‫لیئے پھرے‪ ،‬چاہے کوئی بڑا سائنس دان ہو‪ ،‬چاہے عالم ہو شاطر‬ ‫ہو‪ ،‬رزق کا حقدار اس ناطے سے نہیں ٹھہرتا۔ اس کو بانٹنے کا‬ ‫قدرت کا اگر کوئی فارموال ہے تو ہمیں ٹھیک سے سمجھ نہیں ایا‬ ‫اج تک۔ ایک طرف تو دین کہتا ہے کہ رزق صرف هللا کے ہاتھ‬ ‫میں ہے‪ ،‬دوسری طرف ‪ ١٠٠‬بچے بھوکے مر جاتے ہیں۔ الزام‬ ‫کسے دیں؟ لے دے کر اگر رزق کا کوئی فارموال ہمیں دین سے‬ ‫مال ہے تو یہی ہے کہ صدقہ خیرات دو کہ یہ دوگنا ہو کر واپس‬ ‫ملے گا۔ جس کے پاس ُکچھ نہ ہو وہ کیا کرے یہ کہیں نہیں مال۔‬ ‫دوسری طرف اگر رزق هللا کے ہاتھ نہ ہو تو پورے ملک کو وہ‬ ‫بیرونی کمپنیاں کھا جائیں‪ ،‬جو ایک ہی وقت میں نہ صرف کئی‬ ‫قسم کے صابن بنا کر اشتہاروں میں اپس میں لڑ کر دکھاتی ہیں‬ ‫بلکہ انہیں صابنوں کے دو نمبر بھی خود ہی بناتی ہیں کہ کوئی‬ ‫دوسرا فریق کیوں بنا کر کمائے۔ جنگل کے قانون سے ُمتعلق‬ ‫ہمارا خیال ہے کہ یہ انسان کی تعصب سے بھری ہوئی سوچ ہے‬ ‫کہ خود کو جانوروں سے بہتر سمجھتا ہے۔ انسان اشرف‬ ‫المخلوقات ہے لیکن یہاں انسان کی جو ‪:‬تعریف‪ :‬ہے وہ ُکچھ اور‬ ‫ہے۔ اپ خود ہی سوچئیے کونسی ایسی بُرائی ہے جو جانوروں‬ ‫نے کی ہوں اور انسانوں نے وہ بُرائی نہ کی ہو۔ اچھائیاں بُرائیں‬ ‫دونوں سوچ لیجے۔ ایک بھی ایسی نہ ملے گی۔ انسان‪ ،‬انسانوں‬ ‫تک کا گوشت محوارتا ً نہیں بلکہ حقیقتا ً کھا رہا ہے۔ ادھر انسانوں‬ ‫کی وہ بُرائیں دیکھ لیجے جو جانوروں نے کبھی نہ کی ہوں۔ اتنی‬


‫لمبی فہرست نکلے گی کہ ُخدا کی پناہ۔ سو ہمارا خیال ہے کہ اگر‬ ‫تعصب کو تھوڑا سا ایک طرف رکھ کر سوچا جائے تو جانور‬ ‫بدرجحا بہتر نظر ائیں گے۔ وہ تو معصوم نظر اتے ہیں ہمیں۔‬ ‫جنگل کے قوانین میں شکار تبھی ہوتا ہے جب بھوک لگے۔ یہاں‬ ‫اُلٹا ُمعاملہ ہے‪ ،‬بھوک لگنے سے پہلے انتظام کرنا ہوتا ہے۔‬ ‫بھیڑیے کی خصلت تھی کہ وہ کمزور پڑ جانے والے بھیڑیئے کو‬ ‫مل کھا جاتے ہیں۔ لیکن یہاں مل بانٹ کر بھی نہیں کھاتے۔ واہ‬ ‫رے انسان۔۔سو صاحب جب تک دُنیا میں کمزور اور طاقتور‬ ‫موجود ہیں‪ ،‬کمزور کی گردن طاقتور کی دو انگلیوں میں رہے‬ ‫گی۔ یہ اصول ہم نے صرف انسانوں کے گھٹیا ُمعاشرے اور‬ ‫قوانین سے ہی نہیں اخذ کیا بلکہ جانوروں کے سُلجھے ہوئے‬ ‫اور ُمہذب ُمعاشرے اور جنگل کے قوانین سے بھی ثابت ہے۔اپ‬ ‫کی تحریر بُہت خوب ہے۔ اُمید ہے اگر نا انصافی کو دُنیا سے ہم‬ ‫مٹا نہیں سکتے تو کسی حد تک کم کرنے کی جُستجو تو کر‬ ‫سکتے ہیں۔ اور یہی اپ کر رہے ہیں۔ اپ کی یہ تحریر بھی اسی‬ ‫کاوش کا حصہ ہے اور ُمقام رکھتی ہے۔ ایک بار پھر بھرپور داد‬ ‫کے ساتھ ۔ ۔‬ ‫وی بی جی ‪27‬‬ ‫تنازعہ کے دروازے پر‬ ‫اپریل ‪2014 ,16‬‬ ‫واہ جناب یہ پہلو بھی اپ نہیں چھوڑا۔ بُہت اچھی تحریر ہے۔ داد‬


‫حاضر ہے۔اب بات یہ ہے کہ جو کہانی اپ نے لکھی ہے وہ تاریخ‬ ‫میں قدم قدم پر دُہرائی گئی ہے۔ سو سچ پوچھیں تو ہم ان‬ ‫کرداروں کی شناخت میں ناکام رہے ہیں۔ اس کی ہمارے خیال‬ ‫سے دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہم اپنی کمزور‬ ‫سیاسی بصیرت کی وجہ سے کئی تاریخی نُقاط سے ناواقف ہیں‬ ‫سو ایسا ہونا الزم ہے۔ دوسری بات یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اپ‬ ‫نے کئی کہانیوں کے کردار اپنی تحریر میں ایک واحد کردار میں‬ ‫سمو دیئے ہوں۔ جس کی وجہ سے اصل تک نہ پُہنچ پا رہے‬ ‫ہوں۔ہم معذرت بھی چاہیں گے کہ اپنی کم علمی کی وجہ سے اپ‬ ‫کی تحریر کو وہ خراج نہیں پیش کر پائے جس کی یقینا ً یہ‬ ‫ُمستحق ہو گی۔ اپ کی تمام ُگزشتہ تحریروں کو نظر میں رکھتے‬ ‫ہوئے ہمیں یقین ہے کہ یہ ہماری نا سمجھی کی وجہ سے‬ ‫ہے۔لیکن جس پہلو سے بھی ہم دیکھ سکے ہیں اور جہاں تک‬ ‫سمجھ سکے ہیں تحریر اچھی ہے اور داد اپ کا حق۔بھرپور داد‬ ‫کے ساتھ‬ ‫وی بی جی ‪28‬‬ ‫کامنا‬ ‫اپریل ‪2014 ,14‬‬ ‫واہ جناب واہ۔ اپ کی نظر کہاں کہاں تک ہے‪ ،‬یہ تحریر پڑھ کر‬ ‫پتہ چال۔ پھر اپ کہتے ہیں کہ ریشماں جوان نہیں رہی۔ صاحب اس‬ ‫تحریر کے اخر میں اپ نے مرہٹوں کی سرکوبی کی تاریخ رقم‬


‫نہیں کی سو ہمارا خیال ہے کہ تحریر نئی بھی ہے اور ریشماں‬ ‫کی جوانی کی سند بھی۔ اور صاحب ہمارے خیال سے ریشماں‬ ‫کبھی بوڑھی نہیں ہوتی‪ ،‬اُس پر مرنے والی انکھیں بوڑھی ہو‬ ‫جاتی ہیں۔اس تحریر نے ہمیں جیت لیا ہے۔ ایک تو اس سے یہ‬ ‫پتہ چلتا ہے کہ اپ کی نظر کہاں کہاں تک ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ‬ ‫موضوع کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ اور اس پر لکھنے کا خیال‬ ‫تک انا‪ ،‬بُہت بڑی بات ہے۔ دوسرا اپ کے علم کا بھی پتہ چلتا ہے‬ ‫کہ کس گہرائی سے اپ نے مشاہدہ کیا ہے۔ اگر اس موضوع سے‬ ‫ُمتعلق باریک چیزوں کا علم نہ ہو تو ظاہر ہے کہ چند ٹوٹے‬ ‫پھوٹے فقروں کے سوا کوئی اس پر ُکچھ نہیں لکھ سکتا۔ اور اپ‬ ‫نے تو کمال حکایت بیان کی۔ دل عش عش کر اُٹھتا ہے۔اسے‬ ‫پہلے پڑھا تو کئی باتیں ذہن میں ائیں لیکن اسے دوبارہ پڑھا اور‬ ‫پھر ایسا محسوس ہؤا کہ ُکچھ کہنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔‬ ‫اپ نے کوئی کونہ خالی نہ چھوڑا ہے۔ ویدی کا ویدان ہمارے‬ ‫اپنے خیال سے ُمتعلق بھی یہی ہے۔ جب تک دُنیا قائم ہے کوئی‬ ‫نہ کوئی گیانی کہیں نہ کہیں ایک ٹانگ پر کھڑا ہوتا رہے گا۔ اور‬ ‫شائید ذات باری تعالی بھی نہیں چاہتی کہ اذان کے ہوتے ہی سب‬ ‫‪:‬مسیت‪ :‬میں جا پڑیں۔ ُکچھ لوگ سیمنا گھروں میں بھی نظر اتے‬ ‫رہیں گے۔ہماری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ بُہت ہی عمدہ‬ ‫تحریر ہے۔ اپ جیسے صاحبان علم اس دُنیا کا سرمایا ہیں‪ ،‬جسے‬ ‫بے قدرے لوگ صرف عیاشی پر خرچ کرنا چاہتے ہیں۔هللا پاک اپ‬ ‫کے علم اور صحت میں برکت عطا فرمائیں۔‬ ‫وی بی جی ‪29‬‬


‫ابا جی کا ہم زاد‬ ‫اپریل ‪2014 ,13‬‬ ‫اپ کی یہ شاندار تحریر پڑھی۔ بُہت زوراور ہے اور اس میں اپ‬ ‫کا ایک نیا انداز نظر ایا۔ یا ُمنفرد انداز کہہ لیجے۔ یقین جانیئے کہ‬ ‫رشک ایا پڑھ کر اور دل سے داد نکلی۔ اپ نے ایک جگہ کہا کہ‬ ‫ہم ُکچھ زیادہ تعریف کر جاتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ اس تحریر‬ ‫کو ہی دیکھیئے۔ جتنی تعیف کی جائے کم ہے۔ اس موضوع کو‬ ‫اس انداس سے سوچنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ ہم ایسے‬ ‫کئی لوگ جب کسی مسئلہ میں ہوتے ہیں تو ویسا ہی کرنے کی‬ ‫کوشش کرتے ہیں جیسا کہ اُن کے والد ایسے موقع پر کیا کرتے‬ ‫تھے‪ ،‬اور اگر ُکچھ لوگوں کو ایسا خیال نہیں ایا تو اُنہیں بھی‬ ‫ایسا ہی کرنا چاہیئے۔ یہ ہمارا خیال ہے اور ایسا ہی ہم نے اس‬ ‫تحریر سے بھی اخذ کیا ہے۔ اپ کی تحریر اگرچہ سوچنے پر‬ ‫مجبور کرتی ہے‪ ،‬اور ہر شخص اپنی سوچ کے حساب سے نتیجہ‬ ‫یا نتائج اخذ کر سکتا ہے‪ ،‬لیکن ہمیں ایسا ہی محسوس ہؤا۔‬ ‫ہمارے گھر میں کئی قسموں کے کردار تھے اور ہم اُنہی کو‬ ‫محسوس کرتے رہے۔ بابا‪ ،‬ماں‪ ،‬بہنیں‪ ،‬بھائی وغیرہ‪ ،‬لیکن دو‬ ‫ایسے کردار تھے جنہیں ہم نے کبھی محسوس نہیں کیا۔ اور وہ‬ ‫تھے ایک میاں اور ایک بیوی۔ یہ کردار پس پردہ رہتے ہیں اور‬ ‫انسان کی شادی ہو جانے تک کبھی محسوس نہیں ہوتے۔ یا پھر‬ ‫ہمیں نہیں محسوس ہؤے۔ اپ نے کہاں سے بات ُ‬ ‫شروع کی اور‬ ‫کہاں ال چھوڑی‪ ،‬قابل تحیسن ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور داد‬ ‫قبول کیجے۔ اس بات کا ُ‬ ‫شکریہ بھی کہ ہمیں اپ کی تحریر کے‬


‫توسط سے پتہ چال ہے کہ ہم بُہت سے کام کیوں کرتے ہیں۔ ایک‬ ‫چھوٹی سی عرض بھی کرنا چاہیں گے کہ یا تو اپ نے ‪:‬مقالموں‪:‬‬ ‫کو زیادہ توجہ نہیں دی یا پھر ہمیں افسانے اور کہانیاں وغیرہ‬ ‫پڑھنے کی عادت نہیں رہی۔ ہمیں مقالموں کو پڑھنے اور‬ ‫سمجھنے میں ُکچھ دقت ہوئی ہے۔ یہ بات بیان کرنا اس لیئے‬ ‫ضروری سمجھا تاکہ اپ کے علم میں ہو کہ ُکچھ لوگ ایسے بھی‬ ‫ہو سکتے ہیں جنہیں اس قسم کی مشکالت بھی پیش ا سکتی‬ ‫ہیں۔ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ ۔‬ ‫وی بی جی ‪30‬‬ ‫دو دھاری تلوار‬ ‫اپریل ‪2014 ,09‬‬ ‫بُہت جاندار تحریر ہے اور پھر اپ کا انداز بیاں‪ ،‬منظر کشی بُہت‬ ‫ہی جاندار اور خوبصورت ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسی تحریریں‬ ‫کردار سازی کے لیئے بہت ضروری ہیں۔ نہ صرف یہ کہ اچھے‬ ‫برے کی تمیز سکھاتی ہیں‪ ،‬بلکہ اچھائی کو پسند کرنے اور‬ ‫بُرائی سے نفرت کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ اپ کے انداز بیاں‬ ‫مشکل پسندی سے دور ہے اس لیئے قاری کے ذہن پر اثر‬ ‫چھوڑتا ہے۔ اپ نے ڈارون کی بات کی‪ ،‬ہمارا تو خیال ہے کہ اُن‬ ‫کے نظریہ میں ایک معمولی سی تبدلی کر لی جائے تو بالکل‬ ‫دُرست ہے۔ اور وہ تبدیلی یہ ہے کہ نظریہ کی مشہور تصویر میں‬ ‫دکھائے گئے قطار میں موجود تمام کے تمام اراکین اپنا ُرخ موڑ‬ ‫کر پیچھے کی طرف کر لیں۔ انسان کی پریشان حال زندگی کو‬


‫دیکھ کر لگتا ہے کہ اصل میں انسان ترقی کرتے کرتے بندر بن‬ ‫گئے ہیں۔ مغربی ُممالک کے تیزی سے ترقی کرتے ہوئے لوگوں‬ ‫میں یہ ترقی صاف دکھائی بھی دیتی ہے۔ اُن کی بڑھتی ہوئی‬ ‫معصومیت دیکھ کر ہمیں وہ جانور ہی لگنے لگ گئے ہیں۔اس‬ ‫وقت جو ڈارون کا نظریہ موجود ہے اس میں ایک سب سے بڑا‬ ‫سوال یہ ہے کہ اگر بندر ترقی کر کہ انسان بنا ہے تو پھر ابھی‬ ‫تک ہماری دُنیا میں اتنے بندر کیوں ہیں اور اُن کی ترقی میں کیا‬ ‫رکاوٹ ہے؟ ہمارا ذاتی خیال یہ ہے کہ جانوروں کے خاندان ہوتے‬ ‫ہیں جیسے‪ ،‬گھوڑا‪ ،‬گدھا‪ ،‬خچر‪ ،‬زیبرا وغیرہ۔ خرگوش‪ ،‬چوہا‪،‬‬ ‫ُگلہری‪ ،‬نیوال وغیرہ۔ ایسے ہی انسان کا خاندان بندروں کا ہی ہے‪،‬‬ ‫لیکن یہ علیحدہ نسل ہے۔ اور جس چیز نے انہیں اتنی ترقی دی‬ ‫ہے وہ صرف ُزبان ہے۔ جس نے انہیں ایک دوسرے کے تجربات‬ ‫سے بھی سیکھنے کی طاقت دی۔خیر‪ ،‬اپ کی تحریر کا صرف‬ ‫ایک حصہ ہے ڈارون کا نظریہ‪ ،‬اصل تو یہی ہے کہ انسان کو‬ ‫انسانوں اور جانوروں میں فرق رکھنا چاہیئے۔اپ کی تحریر بُہت‬ ‫پسند ائی۔ بُہت ُ‬ ‫شکریہ کہ اپ یہاں رقم کر دیتے ہیں اور ہم‬ ‫فیضیاب ہو پاتے ہیں۔‬ ‫وی بی جی‬ ‫شیدا حرام دا‬ ‫مارچ ‪2014 ,27‬‬ ‫آپ کا انشائیہ پڑھا اور کچھ سوچ کر بیٹھ گیا۔ یہ مسئلہ کوئی آج‬ ‫کا تو نہیں ہے۔ یہ ہمارے معاشرہ کا ازلی المیہ ہے۔ ہم نماز‪،‬‬


‫روزے‪ ،‬حج کو اسالم کی ابتدا اور انتہا جانتے ہیں اور اس پیمانہ‬ ‫پر ہر ایک کو پرکھتے ہیں۔ سو تو ٹھیک ہے لیکن جب‬ ‫ایمانداری‪ ،‬رشوت ‪ ،‬بد عنوانی‪ ،‬حرام خوری کا مرحلہ آتا ہے تو‬ ‫سوائے "میرے" ہر شخص مجرم ہوتا ہے اور گردن زدنی۔ اپنے‬ ‫گریبان میں کوئی جھانک کر نہیں دیکھتا۔ پچھلے دنوں ہندوستان‬ ‫گیا تو ایک بزرگ (جو کہ عمر بھر کچہری میں صدر قانونگو‬ ‫رہے ہیں اور رشوت پر گزارہ ہی نہیں کیا بلکہ مکان دوکان‬ ‫بنوائے ہوئے ہیں) سے میں ملنے گیا۔ وہ اپنے صاحبزادے کو‬ ‫سمجھا رہے تھے کہ دفتر نہ جایاکرو۔ جب دوسرے نہیں آتے تو‬ ‫تم کیوں جاتے ہو۔ بس پہلی تاریخ کو جا کر تنخواہ لے آیا کرو۔‬ ‫موصوف کے ہاتھ بھر سفید داڑھی ہے اور پنج وقتہ نماز پر‬ ‫سختی سے عامل ہیں ۔ میں نے جب ادب سے عرض کی کہ آپ‬ ‫اپنی اوالد کو حرام کام کے لئے تاکید کر رہے ہیں تو الٹے مجھ‬ ‫پر بگڑ پڑے کہ دنیا کرتی ہے تو ہم کیوں نہ کریں۔ عرض کیا کہ‬ ‫دنیا زنا کرے گی تو آپ بھی کریں گے اور ۔۔۔۔۔ کھائے گی تو وہ‬ ‫آپ بھی کھائیں گے؟ صاحب وہ ایسے بکھرے کہ هللا دے اور‬ ‫بندہ لے۔ میں نے اپنی عافیت اسی میں جانی کہ اٹھ کر چال‬ ‫جائوں۔اب امریکہ کی سنئے۔ میں یہاں تقریبا پچاس سال سے‬ ‫مقیم ہوں۔ هللا کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہوں کہ اس عرصہ‬ ‫میں نہ تو میں نے کسی کو ایک پیسہ رشوت دی اور نہ ایک‬ ‫پیسہ رشوت لی اور هللا کے فضل سے سرکاری اور غیر سرکاری‬ ‫سارے کام ہوتے چلے گئے اور آج بھی ہورہے ہیں۔ یہ ایک‬ ‫"کافر ملک" کا حال ہے اور وہ ایک "مسلم" مملکت کی کیفیت‬ ‫ہے۔ ببیں تفاوت رہ از کجاست تا بکجا۔‬ ‫سرور عالم راز‬


‫اپ کی یہ تحریر کافی دن پہلے پڑھ لی تھی‪ ،‬لیکن اپ کی تحریرں‬ ‫ُکچھ ایسی ہوتی ہیں کہ ان کا جھٹ سے جواب دینا نا انصافی‬ ‫معلوم ہوتا ہے۔ اسے تحمل سے پڑھنا‪ ،‬اس پر سوچتے رہنا اور‬ ‫پھر کہیں جا کر ُکچھ کہا جا سکتا ہے۔ ہم تو پڑھ کر ایسے جذباتی‬ ‫ہوئے تھے کہ اگر اُسی وقت لکھنے بیٹھ جاتے تو جانے اس‬ ‫ُمعاشرے پر کیا کیا لکھ جاتے۔ بُہت جاندار تحریر ہے اور اتنے‬ ‫بڑے معاشرتی مسائل کو اپ کا اس چھوٹی سی تحریر میں بیان‬ ‫کر دینا الئق صد تحسین ہے۔ ہماری نا چیز داد قبول کیجے۔ اس‬ ‫‪ :‬تحیر سے ُمتعلق لکھنا تو بُہت ُکچھ تھا کہ‬ ‫ہزار نُکتہ باریک تر رموز ایں جا ہست‬ ‫لیکن اب قلم کو سنبھال لیا ہے ہم نے۔ اتنا کہنا چاہیں گے کہ‬ ‫ہمارے ہاں یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ تعلیم سے تہذیب اور کردار‬ ‫سازی ہوتی ہے۔ حاالنکہ ہمارا خیال ہے کہ اب ایسا نہیں رہا۔‬ ‫ہزاروں سال پہلے سے لے کر شائید تھوڑا عرصہ پہلے یعنی‬ ‫شیخ سعدی مرحوم کے زمانے تک شائید‪ ،‬کردار سازی تعلیم کی‬ ‫اولین ترجیح ہوتی تھی۔ اب صرف رٹہ رہ گیا ہے۔ اتنی فضولیات‬ ‫تعلیم کا حصہ بن گئی ہے۔ کردار سازی کے لیئے چند گھسی پٹی‬ ‫حکایات پڑھا دی جاتی ہیں جن میں ‪:‬پیاسا کوا‪ :‬جب کنکریاں ڈالتا‬ ‫ہے تو ہمارا پہلی جماعت کا ‪ 6‬سالہ بچہ بھی ہنستا ہے کہ کوا‬ ‫ایسا نہیں کر سکتا۔ پڑھ لکھ لینے سے کچھ نہیں ہوتا‪ ،‬اہم یہ ہے‬ ‫کہ کیا پڑھا ہے۔ ہمارا تو خیال ہے کہ ُمسلمان سؤر بھی صرف‬ ‫اس لیئے نہیں کھاتا کہ کئی صدیوں سے نہیں کھایا اور اب کھا‬ ‫کر متلی ہو گی وگرنہ تو شراب و سود بھی حرام ہیں۔ اور ہمارا یہ‬ ‫خیال بھی ہے کہ اب صرف ادیب ہی یہ کوششیں کر رہے ہیں‪،‬‬ ‫اور انہیں بھی بُہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔‬


‫ہم نے اپ کا بُہت وقت لے لیا۔ جس پر معذرت چاہیں گے۔تحریر پر‬ ‫ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ۔۔‬ ‫وی بی جی‬ ‫عاللتی استعارے‬ ‫جوالئی ‪2014 ,23‬‬ ‫ُکچھ عرصہ غیر حاضر رہے۔ اپ جانتے ہی ہیں کہ رمضان میں‬ ‫ہم ایسوں کو قید ہی کر لیا جاتا ہے‬ ‫جناب کیا ہی اچھا مضمون ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول‬ ‫کیجے۔ دُرست فرمایا اپ نے کہ اخالقی اور روحانی بیماریوں کی‬ ‫کسی کو فکر نہیں۔ ہم تو پہلے سے ہی قائل ہیں کہ اپ کی نظر‬ ‫بہت گہرائی میں معاشرتی رویوں پر ٹکی ہے۔ ماشا هللا بُہت‬ ‫وسعت دی ہے اپ کے خیال کو قدرت نے۔‬ ‫ویسے زیادہ تر یہ خودساختہ بیماریاں خواتین کو الحق ہوتی‬ ‫ہیں‪ ،‬لیکن کئی مرد حضرات بھی اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہر‬ ‫وقت یہی رونا روتے رہتے ہیں۔ ان سب بیماریوں کی اہم بات یہ‬ ‫ہوتی ہے کہ یہ کسی ڈاکٹر کو سمجھ نہیں اتیں اور ان میں افاقہ‬ ‫نہیں ہوتا۔ گھر میں اتنی اقسام کی دوائیاں ہوتی ہیں کہ توبہ اور‬ ‫ایک وقت میں کھانے کے بعد اتنی گولیاں کھائی جاتی ہیں کہ‬ ‫سالن کی بجائے‪ ،‬چند نان فقط گولیوں کے ساتھ کھائے جا سکتے‬ ‫ہیں۔ اگر کوئی ان کو یہ کہے کہ خدا نہ خواستہ اب وہ ہشاش‬


‫بشاش نظر ا رہے ہیں تو وہ اس شخص کے دشمن ہو جاتے ہیں۔‬ ‫ایک جیسے چند لوگ مل کر بیٹھ جاتے ہیں تو مرغوں کی طرح‬ ‫بیماریوں کا مقابلہ کراتے ہیں۔ ہر کوئی دوسرے سے بڑھ کر اور‬ ‫حیران کن بیماری بتاتا ہے۔ ایک دوسرے کی بات سُنتے کم ہیں‬ ‫اور دوسرے کی بات کاٹ کر اپنی بیماری بیان کرنے کا انتظار‬ ‫کرتے رہتے ہیں۔ انہیں دوسروں کی ُکچھ بیماریاں سن کر افسوس‬ ‫بھی ہوتا دکھائی دیتا ہے کہ یہ بیماری انہیں کیوں نہ ہوئی۔‬ ‫اخر میں بات اپ کے بیان پر ہی ختم ہوتی ہے کہ یہ خود ایک‬ ‫روحانی و اخالقی بیماری ہی ہے۔‬ ‫تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد‬ ‫وی بی جی ‪31‬‬ ‫دوسری بار‬ ‫آپ کی تحریر ہمیشہ کی طرح دلچسپ ہے۔ آپ کے پیر صاحب نے‬ ‫لوگوں کا جو تجزیہ کیا ہے وہ تو بالکل صحیح ہے لیکن اس‬ ‫صورت حال کا عالج کیا ہے یہ نہ معلوم ہو سکا۔ ایک بات اور‬ ‫عرض کروں کہ پڑھنے کے بعد احساس تشنگی رہ گیا۔ ایک تو‬ ‫آپ کبھی کبھی پنجابی کے کچھ مخصوص الفاظ اور محاورے لکھ‬ ‫جاتے ہیں جن سے ہر شخص واقف نہیں ہے گو سیاق وسباق‬ ‫سے اکثر معنی اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ دوسرے اس انشائیہ کا‬ ‫اختتام کسی نتیجہ پر قاری کو نہیں پہنچا سکا۔ یہ ممکن ہے کہ‬ ‫میرا تاثر بالکل ہی غلط ہو۔ اس صورت میں آپ سے معذرت کا‬ ‫طالب ہوں۔‬ ‫سرور عالم راز‬


‫جناب کیسے ممکن ہے کہ یہ افسانہ پسند نہ ایا ہو۔ ماشا هللا نئے‬ ‫موضوع پر ہے اور ہمارے اپنے خیاالت کی تائید کرتا ہے سو‬ ‫پسند نہ انا تو ممکن نہ تھا۔ البتہ ُکچھ لکھتے ہوئے ذرا سا‬ ‫ہچکچائے تھے کہ محترم سرور عالم راز سرور صاحب نے ایک‬ ‫ادھ ایسی بات کی جس سے ہمیں مکمل اتفاق نہیں۔ سوچا ُکچھ‬ ‫لکھیں گے تو یہ اختالف سامنے ا جائے گا اور ہم اپنی کم عقلی‬ ‫اور کم علمی کے باعث کہیں انہیں خفا نہ کر دیں۔ اب چونکہ ُکچھ‬ ‫کہنا الزم ہو گیا ہے تو عرض کئیے دیتے ہیں۔‬ ‫ہمارے ناقص علم اور کم تجربہ کاری کی روشنی میں افسانہ ہوتا‬ ‫ہی ایسا ہے کہ تشنگی چھوڑ جاتا ہے۔ افسانے کے مقاصد اور‬ ‫انداز‪ ،‬مضمون سے قطعی مختلف ہوتے ہیں۔ اس کا مقصد کسی‬ ‫کہانی کو مکمل کرنا بھی نہیں ہوتا۔ مضمون کا کام تو شاید یہی‬ ‫ہوتا ہے کہ وہ پہلے کسی مسئلہ کی طرف توجہ دالئے‪ ،‬پھر اس‬ ‫کی اصلیت کو پرکھے‪ ،‬فوائد نقصانات‪ ،‬اثرات‪ ،‬اور پھر اخر میں‬ ‫کہیں جا کر ان کے حل کو واضح کرے۔ لیکن افسانہ اپنا کام اس‬ ‫چھوٹی سی تقریبا ً نامکمل کہانی میں کر گیا ہے۔ معاشرے کی‬ ‫کسی ایک تصور سے روشناس کروا گیا ہے۔ وہ تصور مثبت بھی‬ ‫ہو سکتا ہے اور منفی بھی۔‬ ‫اسی خوبصورت افسانہ کے حوالے سے‪ ،‬اپ نے پڑھنے والوں‬ ‫کے ذہنوں کو ان کرداروں کو پہچاننا سکھایا ہے جو مذہبی فرقہ‬ ‫واریت میں مبتال ہوتے ہیں۔ دوسروں کے ذہنوں میں نفرت‬ ‫بھرتے ہیں۔ لوگ اگر اس نفرت سے اتفاق نہ بھی کریں تو کھل‬


‫کر اظہار سے ہچکچاتے ہیں کہ کہیں ان کو بھی مذہبی طور پر‬ ‫لوگ دھتکار نہ دیں۔ الفاظ کا چناؤ اور کہانی کا بیان یہ ایسے‬ ‫عناصر سے پڑھنے والے کے دل میں نفرت پیدا کر رہا ہے اور‬ ‫درزی کا کردار ان تکالیف کا شکار ہونے والوں کے لیئے دل میں‬ ‫احترام پیدا کر رہا ہے۔ افسانہ اپنا کام کر چُکا ہے اور اس کا حل‬ ‫کوئی واضح ُکلیہ نہیں ہو سکتا۔ بلکہ یہی اس کا حل ہے کہ ایسے‬ ‫مولوی سے نفرت کی جائے اور اسے دھتکار دیا جائے اور‬ ‫ایسے درزی کا خیال رکھا جائے جو اس طرح کے مسئلہ کا‬ ‫شکار ہو۔‬ ‫اس خوبصورت اختتام پر بھی ہم اپ کو داد پیش کریں گے۔ ہلکی‬ ‫سی تشنگی کا احساس جو قاری کو اس پر مجبور کرتا رہے گا کہ‬ ‫افسانہ ُکچھ عرصہ یا وقت تک ذہن میں گردش کرتا رہے۔ اور پھر‬ ‫اس کا پیغام اہستہ اہستہ خود ہی ال شعور کا حصہ بن جائے گا‬ ‫اور وقت پر شعور میں ا کر معاشرے کو فائدہ دے گا۔ افسانہ کو‬ ‫اس سے غرض نہیں کہ کہانی کے ہیرو نے اسے چیرا یا نہیں۔‬ ‫لیکن ہمیں یقین کے کہ ایسے کرداروں کو قاری کا ذہن خود بخود‬ ‫چیر کر رکھ دے گا۔‬ ‫ہماری طرف سے داد قبول کیجے۔ اور محترم سرور عالم راز‬ ‫سرور صاحب سے بھی معذرت چاہیں گے اگر ہم ُکچھ بے سُرے‬ ‫ہو گئے ہوں۔ جو حال سو حاضر‬ ‫وی بی جی‪32‬‬ ‫اردو انجمن پر باباجی مقصود حسنی کے دستیاب افسانے‬


‫پٹھی بابا ‪١-‬‬ ‫کریمو دو نمبری ‪٢-‬‬ ‫میں ابھی اسلم ہی تھا ‪٣-‬‬ ‫جواب کا سکتہ ‪٤-‬‬ ‫ماسٹر جی ‪٥-‬‬ ‫بڑے ابا ‪٦-‬‬ ‫گناہ گار ‪٧-‬‬ ‫انا کی تسکین ‪٨-‬‬ ‫چوتھی مرغی ‪٩-‬‬ ‫انگریزی فیل ‪١٠-‬‬ ‫تنازعہ کے دروازے پر ‪١١-‬‬ ‫کامنا ‪١٢-‬‬ ‫ابا جی کا ہم زاد ‪١٣-‬‬ ‫کمال کہیں کا ‪١٤-‬‬ ‫دو دھاری تلوار ‪١٥-‬‬ ‫آوارہ الفاظ ‪١٦-‬‬ ‫شیدا حرام دا ‪١٧-‬‬ ‫‪ ١٨‬زینہ‬ ‫ممتا عشق کی صلیب پر ‪١٩-‬‬ ‫مائی جنتے زندہ باد ‪٢٠-‬‬ ‫حاللہ ‪٢١-‬‬ ‫بڑا آدمی ‪٢٢-‬‬ ‫من کا بوجھ ‪٢٣-‬‬ ‫آنچل جلتا رہے گا ‪٢٤-‬‬


‫بیوہ طوائف ‪٢٥-‬‬ ‫جنگ ‪٢٦-‬‬ ‫دو لقمے ‪٢٧-‬‬ ‫فقیر بابا ‪٢٨-‬‬ ‫بازگشت ‪٢٩-‬‬ ‫میری ناچیز بدعا ‪٣٠-‬‬ ‫دو منافق ‪٣١-‬‬ ‫آخری کوشش ‪٣٢-‬‬ ‫معالجہ ‪٣٣-‬‬ ‫ابھی وہ زندہ تھا‪٣٤-‬‬ ‫سچائی کی زمین ‪٣٥-‬‬ ‫الروا اور انڈے بچے ‪٣٦-‬‬ ‫ان پڑھ ‪٣٧-‬‬ ‫پاخانہ خور مخلوق‪٣٨-‬‬ ‫دائیں ہاتھ کا کھیل ‪٣٩-‬‬ ‫پنگا ‪٤٠-‬‬ ‫هللا جانے ‪٤١-‬‬ ‫وہ کون تھے ‪٤٢-‬‬ ‫دروازے سے دروازے تک ‪٤٣-‬‬ ‫یہ کوئی نئی بات نہ تھی ‪٤٤-‬‬ ‫اسے پیاسا ہی رہنا ہے ‪٤٥-‬‬ ‫پہال قدم ‪٤٦-‬‬ ‫ادریس شرلی ‪٤٧-‬‬ ‫اسالم اگلی نشت پر ‪٤٨-‬‬ ‫موازنہ ‪٤٩-‬‬


‫سرگوشی ‪٥٠-‬‬ ‫عاللتی استعارے ‪٥١-‬‬ ‫دوسری بار ‪٥٢-‬‬ ‫آخری کوشش ‪٥٣-‬‬ ‫چار چہرے ‪٥٤-‬‬ ‫بازگشت ‪٥٥-‬‬ ‫بیوہ طوائف ‪٥٦-‬‬ ‫کیچڑ کا کنول ‪٥٧-‬‬ ‫درج باال تفصیالت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اردو انجمن‬ ‫کتنی امیر اور جاندار ہے۔ یہ مواد صرف ایک شخص سے متعلق‬ ‫ہے۔ اگر شخصی حوالہ سے مواد کی اصناف کے تحت جمع بندی‬ ‫ہو جائے تو مشرق و مغرب کی جامعات کو بہت سا معیاری مواد‬ ‫میسر آ جائے گا اور اس پر تحقیقی نوعیت کا کام کرنا آسان ہو‬ ‫جائے گا۔ اردو انجمن کا کوئی رکن بھی یہ کام کرنے کا بیڑا اٹھا‬ ‫سکتا ہے۔ بالشبہ اہل تحقیق اور اہل نقد پر یہ بہت بڑا احسان ہو‬ ‫گا۔‬ ‫‪----------------------------------------‬‬


‫حوالہ جات‬ 1- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9023.02http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7975.0 3- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8365.0 4- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9069.0 5- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9044.0 6- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9019.0 7- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9000.0 8- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8987.0 9- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8972.0 10- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8952.0 11- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8976.0 12- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8944.0 13- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8934.0 14- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8916.0 15- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8904.0 16- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8895.0 17- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8580.018http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8673.0 19- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8880.0 20- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8885.0 21- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8863.0 22- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8753.0 23- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8844.0 24- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8840.025http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?PHPSESSID=a6ts0moj4kpihd3adq62aaaf57& topic=8809.0 26http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?PHPSESSID=a6ts0moj4kpihd3adq62aaaf57& topic=8808.0 27http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?PHPSESSID=a6ts0moj4kpihd3adq62aaaf57& topic=8841.0 28-http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?PHPSESSID=a6ts0moj4kpihd3adq62aaaf5 7&topic=8798.0 29-http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?PHPSESSID=a6ts0moj4kpihd3adq62aaaf5 7&topic=8794.0 30http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?PHPSESSID=a6ts0moj4kpihd3adq62aaaf57& topic=8787.0 31http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9097.032-http://www.bazm.urduanjuma n.com/index.php?topic=9162.msg56757#new


‫حضرت بلھے شاہ قصوری کی اردو شاعری‬ ‫محبوب عالم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قصور‬ ‫قصور جہاں اپنی قدامت اور مخصوص ثقافت کے حوالہ سے اپنی‬ ‫پہچان رکھتا ہے وہاں اپنی الگ سے تاریخی حثیت بھی رکھتا‬ ‫ہے۔ شہزادہ کسو‘ امیر خسرو‘ اخوند سعید‘ راجہ ٹوڈر مل‘‬ ‫شہزادہ سلیم عرف شیخو وغیرہ کی اس شہر سے نسبت رہی ہے۔‬ ‫استاد امانت علی اور نور جہاں کو کیوں کر فراموش کیا جا سکے‬ ‫گا۔ کھانے کے شوقین حضرات کے لیے اندرسے‘ قصوری‬ ‫فالودہ خاص دل چسپی کا سامان ہیں۔ لو قصوری جتی کو ‘میتھی‬ ‫تو میں بھول ہی رہا تھا۔‬ ‫ان تمام چیزوں سے ہٹ کر‘ وراث شاہ اور بلھے شاہ تو ادبی دنیا‬ ‫میں کسی بھی سطح پر فراموش نہیں کیے جا سکتے۔ ان ادبی‬ ‫شخصیتوں سے تحقیقی حوالہ سے وابستہ لوگ بھی کبھی‬ ‫فراموش نہ کیے جا سکیں گے۔ قصور کی ادب روایت کم زور‬ ‫نہیں یہ الگ بات ہے کہ اس جانب کسی کی خصوصی توجہ نہیں‬ ‫گئی۔ ایک سے ایک بڑھ کر علمی اور ادبی شخصیات پڑی ہیں۔‬ ‫قصور حضرت بلھے شاہ قصوری کی وجہ سے دنیا بھر میں‬ ‫شہرت رکھتا ہے۔ صوفیا اور بھی ہیں لیکن حضرت بلھے شاہ‬ ‫قصوری اپنے صوفیانہ کالم کی وجہ سے معروف ہیں۔ انھوں نے‬ ‫اپنے کالم میں جہاں صوفیانہ معامالت کو پیش کیا ہے وہاں‬ ‫سماجی امور کو بھی نظرانداز نہیں کیا۔ سماجی رویوں کی بھی‬ ‫عکاسی کی ہے۔ عصری سیاسی قوتوں کو بھی تنقید کا نشانہ‬ ‫بنایا ہے۔ ان کا کالم عالمتوں استعاروں کے ذریعے ہی سہی اپنے‬ ‫عہد کی عکاسی کرتا ہے۔ بعض جگہ کھل کر بھی تنقید کرتے‬


‫ہیں۔ غالبا یہی وجہ رہی ہو گی کہ ان کے عہد کے مخصوص‬ ‫طبقے ان سے ناالں تھے۔‬ ‫حضرت شاہ حسین الہوری نے پنجابی شاعری میں کافی کو‬ ‫متعارف کرایا اور اسے عروج دیا۔ ان کی کافیاں راگ پر لکھی‬ ‫گئیں۔ ہر کافی کسی نہ کسی راگ پر ہے۔ حضرت شاہ حسین‬ ‫الہوری نے کافی کو جو مقام بخشا اسے حضرت بلھے شاہ‬ ‫قصوری شہرت کی بلندیوں پر لے گیے۔ ان کی کافیاں راگ کے‬ ‫عالوہ مروجہ میٹر پر ہیں۔ ان میں غنائیت کا عنصر بدرجہ اتم‬ ‫موجود ہے۔ حضرت بلھے شاہ قصوری کی کافیوں کو ملک کے‬ ‫ممتاز گلوکاروں نے گا کر شہرت اور عزت حاصل کی۔ عابدہ‬ ‫پروین‘ حامد علی بیال‘ نصرت فتح علی خاں‘ پٹھانے خاں وغیرہ‬ ‫ان میں شامل ہیں۔ یہاں تک کہ بھارتی گلوکاروں نے بھی ان کی‬ ‫کافیوں کو شوق اور عقیدت سے گایا ہے۔ بعض بول تو عوامی‬ ‫سطح پر محاورے کا درجہ اختیار کر گیے ہیں۔‬ ‫ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے بڑی محنت‘ لگن اور دیانت داری سے‬ ‫ان کا کالم اکھٹا کیا اور اسے کلیات کی شکل دے کر زبان و ادب‬ ‫پر بہت بڑا احسان کیا۔ بالشبہ ان کی کوشش عوامی سطح پر‬ ‫مقبولیت کے درجے پر فائز ہوئی۔ اسے آج بھی اساسی ماخذ کا‬ ‫درجہ حاصل ہے۔ باباجی مقصود حسنی کے خصوصی مطالعہ میں‬ ‫حضرت بلھے شاہ قصوری رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے‬ ‫مقالہ۔۔۔۔۔بلھے شاہ کی شاعری کا لسانی مطالعہ۔۔۔۔ میں ڈاکٹر فقیر‬ ‫محمد فقیر کے مرتب کردہ کلیات کو ہی اساسی ماخذ کے طور پر‬ ‫استعمال کیا ہے۔‬ ‫باباجی مقصود حسنی نے اس لسانیاتی مطالعے سے یہ بات‬


‫واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ پنجابی کالم میں حضرت‬ ‫بلھے شاہ قصوری کے اردو کالم کو بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ ان‬ ‫کے اس مطالعے سے حافظ شیرانی کے نظریے۔۔۔۔ پنجاب میں‬ ‫اردو۔۔۔۔ کو تقویت ملتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ باباجی مقصود‬ ‫حسنی اس نظریے سے قطعی متفق نہیں۔ اردو کے حوالہ سے ان‬ ‫کا اپنا الگ سے نقطہءنظر ہے۔ انھوں نے ۔۔۔۔۔اردو ہے جس کا‬ ‫نام۔۔۔۔۔ میں اپنا نظریہ پیش کر دیا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے‬ ‫حضرت بلھے شاہ قصوری کے کالم میں اردو شاعری کی‬ ‫نشاندہی کی تھی۔ باباجی مقصود حسنی نے اسے عملی شکل دے‬ ‫کر اردو والوں کو خوشخبری کا سندیسہ دیا ہے۔‬ ‫انھوں نے اپنے اس لسانیاتی مطالعہ میں اس کی پانچ صورتیں‬ ‫بتائی ہیں۔‬ ‫مکمل اردو کالم ‪١-‬‬ ‫پنجابی کالم میں اردو کالم کی آمیزش ‪٢-‬‬ ‫ہندی نما اردو کالم ‪٣-‬‬ ‫پنجابی کالم میں اردو مصرعے ‪٤-‬‬ ‫اردو نما پنجابی کالم ‪٥-‬‬

‫ا‬ ‫ب‬

‫مکمل پنجابی کالم‬

‫ڈاکٹر ریاض شاہد نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں باباجی کے‬ ‫مقالے کو بنیادی ماخذ کے طور پر استعمال کیا ہے اور ان کے‬ ‫موقف کو دہرایا ہے۔‬ ‫باباجی نے اپنے اس تحقیقی کام کو بڑی باریک بینی سے انجام‬


‫دیا ہے۔ سارے کالم کو الگ الگ جزئیات میں تقسیم کرکے دیکھنا‬ ‫واقعی بڑے دل گردے اور محنت کا کام ہے۔ ان کی اس محنت کو‬ ‫قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا تاہم اس تحقیقی کاوش کو اس کا جائز‬ ‫مقام حاصل نہیں ہو سکا۔ شاید اس کی وجہ بھی ہے کہ وہ‬ ‫اشتہاربازی نہیں کرتے۔ ایک کام کی تکمیل کے بعد کسی دوسرے‬ ‫کام میں جٹ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد امین کا کہنا ہے‬ ‫یہ پہلی کتاب ہے جس میں کسی شاعر کا باقاعدہ ساختیاتی‬ ‫مطالعہ کیا گیا ہے۔‬ ‫اردو شعر فکری و لسانی رویے ص‪١١٥ :‬‬ ‫انھوں نے اپنے اس مطالعے کو سات حصوں میں تقسیم کیا ہے‬ ‫مذکر اسما کے خاتمے کی آواز ‪١-‬‬ ‫اردو میں جمع بنانے کے اصول‬ ‫فعلی صورتیں‬ ‫حاصل مصدر بنانے کے اصول‬ ‫فعلی مادوں کے مختلف اصول‬ ‫یو اور ئیو کا الحقہ چند مخصوص مرکبات‬ ‫ضمائر کا استعمال‬ ‫اسم صفت ‪٢-‬‬ ‫حروف‬ ‫‘حروف عطف‘ حروف اضافت‘ حرف استفہام‘ حرف استثنی‬


‫حرف شرط‘ حروف جار‘ حروف تردید‬ ‫آوازوں کا ہیر پھیر ‪٣-‬‬ ‫نوں غنہ کا حشوی استعمال‬ ‫نوں غنہ کا حذف‬ ‫قدیم اردو امال‬ ‫تلمیحات‬ ‫لفظوں کے نئے روپ‬ ‫چند اردو مصادر‬ ‫قدیم اردو پر مقامی زبانوں کی چھاپ ‪٤-‬‬ ‫تجزیاتی مطالعہ ‪٥-‬‬ ‫چند الفاظ ‪٦-‬‬ ‫اردو کالم ‪٧-‬‬ ‫جو کتاب میں شامل نہیں‘ باباجی کے پاس مسودے کی صورت‬ ‫میں موجود ہے۔‬ ‫باباجی نے اپنے موقف کی تائید میں اردو جدید و قدیم کالم سے‬ ‫مثالیں پیش کی ہیں ساتھ حضرت بلھے شاہ قصوری کے کالم‬ ‫سے بھی مثالیں دی ہیں۔ اس طرح ثابت کرنے کی کوشش کی ہے‬ ‫کہ پنجابی کالم میں اردو کالم بھی شامل ہے۔‬ ‫انھوں نے اس مطالعے کے لیے بائیس کتب سے استفادہ کیا ہے۔‬


‫ڈاکٹر مقصود حسنی بطور ماہر لسانیات‬ ‫پرفیسر یونس حسن‬ ‫ڈاکٹر مقصود حسنی ایک منفرد اور نامور ماہر لسانیات ہیں۔ ان‬ ‫کے درجنوں مقالے رسائل و جرائد اور انٹر نیٹ کی مختلف ویب‬ ‫سائٹس پر پڑھنے کو ملتے ہیں۔ غیر مطبوعہ مقاالت دیکھنے کا‬ ‫مجھے اتفاق ہوا ہے۔ ان مقاالت پر سرسری نظر ڈالنے سے‬ ‫بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ لسانیات میں غیر معمولی قدرت‬ ‫رکھتے ہیں۔ ان مقاالت میں موضوعات کا تنوع اور رنگا رنگی‬ ‫ملتی ہے۔ راقم اپنے بےالگ مطالعے اور جائزے سے اس‬ ‫نتیجے پر پہنچا ہے کہ یہ مقاالت لسانیات کے باب میں ایک اہم‬ ‫اضافہ ہیں۔‬ ‫ان مقاالت میں زبان کے جو موضوعات زیر بحث الئے گئے ہیں‬ ‫ان میں آوازوں کا نظام بڑی خصوصیت کا حامل ہے۔ زبانوں میں‬ ‫آوازیں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ الفاظ کی تشکیل میں‬ ‫آوازیں کلیدی کردار کی حامل ہوتی ہیں۔ اس کے عالوہ انہوں نے‬ ‫لفظیات‘ صوتیات‘ معنویات‘ ہیت‘ ساخت‘ گرائمر اور بناوٹ کو‬ ‫بھی موضوع بنایا ہے۔ انہوں نے لفظوں کی سماجیات اور‬ ‫نفسیات پر بھی قلم اٹھایا ہے۔‬ ‫ڈاکٹر صاحب نے ساختیات اور پس ساختیات پر بھی نمایاں کام‬ ‫کیا ہے۔ انہوں باباجی بلھے شاہ صاحب کا لسانی مطالعہ کیا ہے‬ ‫جسے ڈاکٹر محمد امین نے کسی شاعر کے کالم کا پہال‬ ‫ساختیاتی مطالعہ قرار دیا ہے۔ مرزا غالب کی لفظیات‬


‫کےساختیاتی مطالعہ کے ساتھ ساتھ ساختیات پر بھی تین مقالے‬ ‫تحریر کیے ہیں۔‬ ‫ان کےاس کام سے کئی لسانی اور ساختیاتی جہتیں سامنے آتی‬ ‫ہیں۔‬ ‫مزید براں ان کے دستیاب مقاالت میں زبانوں کے وجود میں‘‬ ‫آنے ترقی کرنے یا بعض الفظ کے متروک ہو جانے کے حوالہ‬ ‫سے بھی بہت سا مواد میسر آتا ہے۔ اردو زبان کے وہ عاشق‬ ‫ہیں اس لیے وہ کسی مقام پر اسے نظرانداز نہیں ہوتی۔ اردو پر‬ ‫گفتگو کے دوران اس کی موجودہ صرتحال پر بھی گفتگو کرتے‬ ‫ہیں۔‬ ‫عربی فارسی اور انگریزی کےاردو پر اثرات کو بھی اپنی تحقیق‬ ‫کا حصہ بنایا ہے۔ تقابلی مطالعے کے دوران اردو سے مثالیں‬ ‫ضرور پیش کرتے ہیں۔‬ ‫انہوں نے جاپانی کے لسانی نظام پر بھی گفتگو کی ہے۔ اس کا‬ ‫کچھ حصہ ترجمہ ہو کر اردو نیٹ جاپان پر قسطوں میں شائع ہو‬ ‫چکا ہے۔‬ ‫ڈاکٹر مقصود حسنی نے اردو کی ذاتی آوازیں اور بدیسی آوازوں‬ ‫کے دخول پر بھی گفتگو کی ہے۔ مہاجر زبانوں کے الفاظ کا‬ ‫مقامی زبانوں میں دخول اور اشکالی اور ان کی معنوی تبدیلی پر‬ ‫بھی گفتگو کی ہے۔ وہ بھاری آوازوں کو بھی زیر بحث الئے‬ ‫ہیں۔‬


‫غالب پر ان کے لسانی کام کو دیکھتے ہوئے عالمہ اقبال اوپن‬ ‫یونیورسٹی نےمحمد لطیف لیکچرار اردو پاکپتن کو ایم فل اردو‬ ‫کا مقالہ بعنوان مقصود حسنی اور غالب شناسی تفویض کیا ہے۔‬ ‫ان کے کچھ مقاالت کی فہرست درج کر رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے‬ ‫کہ یہ تفصیل لسانیات سے شغف رکھنے والوں کے لیے‬ ‫خصوصی دل چسپی کا موجب بنے گی۔‬ ‫دستیاب اردو مضامین کی فہرست‬ ‫اردو ہے جس کا نام ‪١-‬‬ ‫لفظ ہند کی کہانی ‪٢-‬‬ ‫ہندوی تاریخ اور حقائق کے آئینہ میں ‪٣-‬‬ ‫ہندوستانی اور اس کے لسانی حدود ‪٤-‬‬ ‫اردو میں مستعمل ذاتی آوازیں ‪٥-‬‬ ‫اردو کی چار آوازوں سے متعلق گفتگو ‪٦-‬‬ ‫اردو اور جاپانی آوازوں کی سانجھ ‪٧-‬‬ ‫اردو میں رسم الخط کا مسلہ ‪٨-‬‬ ‫انگریزی کے اردو پر لسانی اثرات ‪٩-‬‬ ‫سرائیکی اور اردو کی مشترک آوازیں ‪١٠-‬‬ ‫اردو اور انگریزی کا محاوراتی اشتراک ‪١١-‬‬ ‫اردو سائنسی علوم کا اظہار ‪١٢-‬‬ ‫قومی ترقی اپنی زبان میں ہی ممکن ہے ‪١٣-‬‬ ‫اردو‘ حدود اور اصالحی کوششیں ‪١٤-‬‬ ‫قدیم اردو شاعری کا لسانی مطالعہ ‪١٥-‬‬


‫بلھے شاہ کی زبان کا لسانی مطالعہ ‪١٦-‬‬ ‫شاہی کی شاعری کا لسانی مطالعہ ‪١٧-‬‬ ‫خواجہ درد کے محاورے ‪١٨-‬‬ ‫سوامی رام تیرتھ کی اردو شاعری کا لسانی مطالعہ ‪١٩-‬‬ ‫الفاظ اور ان کا استعمال ‪٢٠-‬‬ ‫آوازوں کی ترکیب و تشکیل کے عناصر ‪٢١-‬‬ ‫الفاظ کی ترکیب‘ استعمال اور ان کی تفہیم کا مسلہ ‪٢٢-‬‬ ‫زبانوں کی مشترک آوازیں ‪٢٣-‬‬ ‫پاکستان کی زبانوں کی پانچ مخصوص آوازیں ‪٢٤-‬‬ ‫عربی زبان کی بنیادی آوازیں ‪٢٥-‬‬ ‫عربی کی عالمتی آوازیں ‪٢٦-‬‬ ‫دوسری بدیسی آوازیں اور عربی کا تبادلی نظام ‪٢٧-‬‬ ‫پ کی متبادل عربی آوازیں ‪٢٨-‬‬ ‫گ کی متبادل عربی آوازیں ‪٢٩-‬‬ ‫چ کی متبادل عربی آوازیں ‪٣٠-‬‬ ‫مہاجر اور عربی کی متبادل آوازیں ‪٣١-‬‬ ‫بھاری آوازیں اور عربی کے لسانی مسائل ‪٣٢-‬‬ ‫چند انگریزی اور عربی کے مترادفات ‪٣٣-‬‬ ‫پنجابی اور عربی کا لسانی رشتہ ‪٣٤-‬‬ ‫چند انگریزی اور عربی مشترک آوازیں ‪٣٥-‬‬ ‫انٹرنیٹ پر عربی میں اظہار خیال کا مسلہ ‪٣٦-‬‬ ‫عربی کے پاکستانی زبانوں پراثرات ‪٣٧-‬‬ ‫عربی اور عہد جدید کے لسانی تقاضے ‪٣٨-‬‬ ‫فارسی کے پاکستانی زبانوں پراثرات ‪٣٩-‬‬ ‫پشتو کی چار مخصوص آوازیں ‪٤٠-‬‬


‫آتے کل کو کرہء ارض کی کون سی زبان ہو گی ‪٤١-‬‬ ‫انگریزی دنیا کی بہترین زبان نہیں ‪٤٢-‬‬ ‫انگریزی اور اس کے حدود ‪٤٣-‬‬ ‫انگریزی آج اور آتا کل ‪٤٤-‬‬ ‫تبدیلیاں زبانوں کے لیے وٹامنز کا درجہ رکھتی ہیں ‪٤٥-‬‬ ‫زبانیں ضرورت اور حاالت کی ایجاد ہیں ‪٤٦-‬‬ ‫معاون عناصر کے پیش نظر مزید حروف کی تشکیل ‪٤٧-‬‬ ‫برصغیر میں بدیسیوں کی آمد اور ان کے زبانوں پر اثرات ‪٤٨-‬‬ ‫کچھ دیسی زبانوں میں آوازوں کا تبادل ‪٤٩-‬‬ ‫جاپانی میں مخاطب کرنا ‪٥٠-‬‬ ‫جاپانی اور برصغیر کی لسانی ممثالتیں ‪٥١-‬‬ ‫اختر حسین جعفری کی زبان کا لسانی جائزہ ‪٥٢-‬‬ ‫لسانیات کے متعلق کچھ سوال و جواب ‪٥٣-‬‬ ‫انگریزی مضامین کی دستیاب فہرست‬ ‫‪1- Urdu has a strong expressing power and a sounds system‬‬ ‫‪2- Word is to silence instrument of expression‬‬ ‫‪3- This is the endless truth‬‬ ‫‪4- The words will not remain the same style‬‬ ‫‪5- Language experts can produce new letters‬‬


6- Sound sheen is very commen in the world languages 7- Native speakers are not feel problem 8- Languages are by the man and for the man 9- The language is a strong element of pride for the people 10- Why to learn Urdu under any language of the world 11- Word is nothing without a sentence 12- No language remain in one state 13- Expression is much important one than designates that correct or wrong writing 14- Student must be has left liberations in order to express his ideas 15- Six qualifications are required for a language 17- Sevevn Senses importence in the life of a language 18- Whats bad or wrong with it?! 19- No language remains in one state 20. The common compound souds of language 21- The identitical sounds used in Urdu 22- Some compound sounds in Urdu 23- Compound sounds in Urdu (2)


24- The idiomatic association of urdu and english 25- The exchange of sounds in some vernacular languages 26- The effects of persian on modern sindhi 27- The similar rules of making plurals in indigious and foreign languages 28- The common compounds of indigious and foreign languages 29- The trend of droping or adding sounds 30- The languages are in fact the result of sounds 31- Urdu and Japanese sound’s similirties 32- Other languages have a natural link with Japanese’s sounds 33- Man does not live in his own land 34- A person is related to the whole universe 35- Where ever a person 36- Linguistic set up is provided by poetry 37- How to resolve problems of native and second language 38- A student must be instigated to do something himself 39- Languages never die till its two speakers 40- A language and society don’t delovp in days 41- Poet can not keep himself aloof from the universe 42- The words not remain in the same style


43- Hindustani can be suggested as man's comunicational language 44- Nothing new has been added in the alphabets 45- A language teacher can makea lot for the human society 46- A language teacher would have to be aware 47- Hiden sounds of alphabet are not in the books 48- The children are large importence and sensative resource of the sounds 49- The search of new sounds is not dificult matter 50- The strange thought makes an odinary to special one 51- For the relevation of expression man collects the words from the different caltivations 52- Eevery language sound has has then two prononciations 53- Language and living beings


‫مقصود حسنی اور اردو زبان‬ ‫قاضی جرار حسنی‬ ‫پروفیسر مقصود حسنی کا اردو سے جنم جنم کا پیار ہے۔ اس کی‬ ‫‘ترویج و ترقی کے لیے زندگی بھر کوشش کی۔ افسانہ‘ شاعری‬ ‫مزاح‘ لسانیات‘ تنقید‘ تحقیق‘ مشرق و مغرب کے شعر و ادب‘‬ ‫تراجم وغیرہ پر کام تو کیا ہی ہے‘ لیکن اس کے نفاذ کے لیے‬ ‫بھی کوششیں کی ہیں۔ اس کے لیے‘ اردو سوسائٹی پاکستان قائم‬ ‫درخواستیں گزاریں‘ علما سے فتوے لیے‘ قراردادیں منظور ‘کی‬ ‫پتا ‘کروائیں‘ مقتدرہ حلقوں سے رابطے کیے‘عدالت دیکھی‬ ‫نہیں کیا کچھ کیا۔‬ ‫ان تمام باتوں سے ہٹ کر‘ اردو کے بارے مضامین تحریر کیے۔‬ ‫یہ مضامین جہاں اردو کی تاریخ سے متعلق ہیں‘ وہاں اردو کے‬ ‫روشنی ڈالتے ہیں۔ ان مضامین میں اردو ‘ابالغی دائرے پر بھی‬ ‫کے لسانی نظام پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔ ان مضامین میں دیگر‬ ‫زبانوں سے تقابلی صورت بھی ملتی ہے۔ تقابل میں ابالغ‘‬ ‫آوازوں کا نظام اور اس زبان کی لچک پذری کو باطورخاص‘ زیر‬ ‫بحث الیا گیا ہے۔ ان تینوں کے تحت اردو کو اس قابل بتایا ہے‘‬ ‫کہ وہ انسانی رابطے کی زبان‘ بننے کی اہلیت رکھتی ہے۔‬ ‫پروفیسر مقصود حسنی نے‘ اس کے تینوں رسم الخط پر بھی‬ ‫گفتگو کی ہے۔ انہوں نے خواندگی کی صورتوں پر بھی گفتگو کی‬


‫ہے۔ دالئل سے ثابت کیا ہے‘ کہ اردو اپنے لسانی نظام اور‬ ‫آوازوں کی کثرت کے حوالہ سے‘ دنیا کی بہتریں زبان ہے۔ اسے‬ ‫استعمال میں آنے کے حوالہ سے‘ چینی کے قریب قریب کی زبان‬ ‫قرار دیا۔‬ ‫انہوں نے اپنے مضامین میں‘ انگریزی کے لسانی نقائص پر بھی‬ ‫گفتگو کی ہے۔ آوازوں کی کمی اور نقائص کو بھی صرف نظر‬ ‫نہیں کیا۔ ان کی تحریریں اخبارات و رسائل میں چھپنے کے‬ ‫عالوہ‘ انٹرنیٹ پر بھی موجود ہیں۔ دستیاب پچاس تحریروں کی‬ ‫فہرست درج خدمت ہے۔ ہر عنوان تحریر کی نوعیت و حیثیت کو‬ ‫واضح کر رہا ہے۔ اب مضامین کی فہرست مالحظہ ہو۔‬ ‫اردو کی ترویج کا ترجیحی بنیادوں پر اہتمام الزم ہے روزنامہ ‪١-‬‬ ‫امروز الہور ‪ ٦‬ستمبر ‪١٨٨٧‬‬ ‫اردو کو اپنا مقام کیوں نہیں مال روزنامہ مشرق الہور ‪٢- ١٧‬‬ ‫جون ‪١٩٨٩‬‬ ‫‘انگریز کی اردو نوازی کیوں روزنامہ امروز الہور ‪٣- ٢٤‬‬ ‫جوالئی ‪٢٥‘ ٢٦‘ ٢٧ ١٩٩٠‬‬ ‫اردو کا تاریخی سفر روزنامہ جہاں نما الہور ‪ ٢‬دسمبر ‪٤-‬‬ ‫‪١٩٩٠‬‬ ‫سرسید تحریک نے اردو کو مسلمانوں کی زبان کا درجہ دیا ‪٥-‬‬ ‫روزنامہ مشرق الہور ‪ ٢٧‬جنوری ‪١٩٩١‬‬ ‫اردو اور عصری تقاضے روزنامہ جہاں نما الہور ‪٦- -١٩‬‬ ‫اگست ‪١٩٩١‬‬


‫اردو کی ترقی آج کی ضرورت روزنامہ وفاق الہور ‪ ١٨‬مارچ ‪٧-‬‬ ‫‪١٩٩٢‬‬ ‫روزنامہ مشرق الہور ‪ ١‬اپریل ‪١٩٩٢‬‬ ‫اردو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں کی اپنی زبان روزنامہ وفاق الہور ‪٨-‬‬ ‫‪ ١٧‬مارچ ‪١٩٩٢‬‬ ‫اردو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عالم اسالم کی ضرورت ہے روزنامہ مشرق ‪٩-‬‬ ‫الہور ‪ ٥‬فروری ‪١٩٩٢‬‬ ‫اردو کو الزمی زبان اور مضمون کا درجہ دیا جائے ‪١٠-‬‬ ‫روزنامہ مشرق الہور ‪ ٩‬فروری ‪١٩٩٢‬‬ ‫اردو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عالم انسانی کی ضرورت کیوں روزنامہ ‪١١-‬‬ ‫مشرق الہور ‪ ١٩‬فروری ‪١٩٩٢‬‬ ‫انگریزی زبان۔۔۔۔۔فروغ کیسے ہو روزنامہ پاکستان الہور ‪١٢-‬‬ ‫‪ ١‬مارچ ‪١٩٩٢‬‬ ‫اردو سے نفرت ایک نفسیاتی عارضہ روزنامہ مشرق ‪١٣-‬‬ ‫الہور ‪ ٩‬اپریل ‪١٩٩٢‬‬ ‫اردو برصغیر کے مسلمانوں کی زبان روزنامہ جہاں نما ‪١٤-‬‬ ‫الہور ‪ ١٠‬اپریل ‪١٩٩٢‬‬ ‫اردو دنیا کی دوسری بڑی زبان ہے روزنامہ وفاق الہور ‪١٥-‬‬ ‫‪ ١٩‬اپریل ‪١٩٩٢‬‬ ‫انگریزی کی مقبولیت میں کمی کیوں روزنامہ مشرق الہور ‪١٦-‬‬ ‫‪ ٢٧‬اپریل ‪١٩٩٢‬‬ ‫اردو پر چند اعتراضات اور ان کا جواب روزنامہ وفاق ‪١٧-‬‬ ‫الہور ‪ ٢٠‬مارچ ‪١٩٩٢‬‬ ‫انگریزی قومی ترقی کی راہ پتھر ماہنامہ اخبار اردو اسالم ‪١٨-‬‬ ‫آباد نومبر ‪١٩٩٢‬‬


‫اردو کی مختصر کہانی اہل قلم ملتان ‪١٩- ١٩٩٦‬‬ ‫اردو میں مستعمل ذاتی آوازیں ماہنامہ نوائے پٹھان الہور ‪٢٠-‬‬ ‫جون ‪٢٠٠٦‬‬ ‫اردو بالمقابلہ انگریزی روزنامہ وفاق الہور س ن ‪٢١-‬‬ ‫زبان اور قومی یک جہتی مسودہ ‪٢٢-‬‬ ‫اردو ہے جس کا نام ‪٢٣-‬‬ ‫اردو کے متعلق انٹرنیٹ پر ملنے والے مضامین‬ ‫لفظ ہند کی کہانی ‪٢٤-‬‬ ‫ہندوی تاریخ اور حقائق کے آئینہ میں ‪٢٥-‬‬ ‫ہندوستانی اور اس کے لسانی حدود ‪٢٦-‬‬ ‫اردو میں مستعمل ذاتی آوازیں ‪٢٧-‬‬ ‫اردو کی چار آوازوں سے متعلق گفتگو ‪٢٨-‬‬ ‫اردو اور جاپانی آوازوں کی سانجھ ‪٢٩-‬‬ ‫اردو میں رسم الخط کا مسلہ ‪٣٠-‬‬ ‫انگریزی کے اردو پر لسانی اثرات ‪٣١-‬‬ ‫سرائیکی اور اردو کی مشترک آوازیں ‪٣٢-‬‬ ‫اردو اور انگریزی کا محاوراتی اشتراک ‪٣٣-‬‬ ‫اردو سائنسی علوم کا اظہار ‪٣٤-‬‬ ‫قومی ترقی اپنی زبان میں ہی ممکن ہے ‪٣٥-‬‬ ‫حدود اور اصالحی کوششیں ‘اردو ‪٣٦-‬‬ ‫قدیم اردو شاعری کا لسانی مطالعہ ‪٣٧-‬‬ ‫انگریزی دنیا کی بہترین زبان نہیں ‪٣٨-‬‬ ‫انگریزی اور اس کے حدود ‪٤٩-‬‬


٤٠- ‫انگریزی آج اور آتا کل‬ ٤١- ‫آتے کل کو کرہء ارض کی کون سی زبان ہو گی‬ ٤٢- ‫اردو' رسم الخط کے مباحث اور دنیا کی زبانیں‬ 43- Lets learn urdu 44- Urdu has a strong expressing power and a sounds system 45- Why to learn Urdu under any language of the world 46- The identitical sounds used in Urdu 47- Some compound sounds in Urdu 48- Compound sounds in Urdu (2) 49- Urdu and Japanese sound’s similirties 50- Urdu can be suggested world's language


‫مقصود حسنی اور اقبال فہمی‬ ‫قاضی جرار حسنی‬ ‫اقبال شاعر اور مفکر کی حیثیت سے‘ بین االقوامی شہرت کے‬ ‫حامل شخص ہیں۔ پاکستان میں انہیں مفکر پاکستان کی حیثیت‬ ‫بھی حاصل ہے۔ معامالت میں‘ بات کو باوزن کرنے کے حوالہ‬ ‫سے‘ ان کے کسی ناکسی شعر کو درمیان میں الیا جاتا ہے۔ شاید‬ ‫ہی کوئی ایسا شخص ہو گا‘ جسے اتنی پذیرائی حاصل ہوئی گی۔‬ ‫یہ بھی حقیقت ہے کہ ان پر بہت سا تحقیقی کام ہوا ہے اور ہو رہا‬ ‫ہے۔ جامعات میں شعبہءاقبالیات قائم ہو چکا ہے‘ تاہم لوگ ذاتی‬ ‫سطح پر بھی مصروف کار ہیں۔‬ ‫پروفیسر مقصود حسنی بھی اس ذیل میں پیچھے نہیں رہے۔‬ ‫انہوں نے ناصرف‘ ان کی حیات کے مختلف گوشوں کو قلم بند‬ ‫کیا ہے‘ بلکہ اقبال کی فکر پر بھی قلم اٹھایا ہے۔ اقبال کے‬ ‫مطالعہ کے لیے چند اصول بعنوان۔۔۔۔۔۔۔۔ مطالعہءاقبال کے لیے‬ ‫چند معروضات۔۔۔۔۔۔ بھی وضع کیے ہیں۔ یہاں ان کے کچھ مضامین‬ ‫کی فہرست پیش کی جا رہی ہے ممکن ہے اقبال پر کام کرنے‬ ‫والوں کے کام کی نکلے۔‬ ‫عالمہ اقبال نے عصبیت کے لیے ربط ملت کی اصطالح ‪١-‬‬ ‫استعمال کی ہے‬ ‫روزنامہ مشرق الہور ‪ ١٠‬جنوری ‪١٩٨٨‬‬ ‫اقبال اور تسخیر کائنات کی فالسفی روزنامہ وفاق الہور ‪٢- ٢١‬‬


‫فروری ‪١٩٨٩‬‬ ‫مسلمان اقبال کی نظر میں روزنامہ وفاق الہور ‪ ٨‬مارچ ‪٣-‬‬ ‫‪١٩٨٩‬‬ ‫اقبال کا نظریہءقومیت روزنامہ وفاق الہور ‪ ٢٣‬مارچ ‪٤-‬‬ ‫‪١٩٨٩‬‬ ‫اقبال اور تحریک آزادی ہفت روزہ جہاں نما الہور ‪ ٢٣‬اپریل ‪٥-‬‬ ‫‪١٩٨٩‬‬ ‫عالمہ اقبال کے کالم میں دعوت آزادی روزنامہ وفاق الہور ‪٦-‬‬ ‫‪ ٣٠‬اکتوبر ‪١٩٨٩‬‬ ‫اکبر اقبال اور مغربی زاویے ہفت روزہ فروغ حیدرآباد ‪٧- ٢٢‬‬ ‫جوالئی ‪١٩٩١‬‬ ‫فلسفہءعجم۔۔۔۔ایک جائزہ مہنامہ سخنور کراچی مارچ ‪٨- ٢٠٠١‬‬ ‫نظم میں اور تو کے حواشی االدب مجلہ اسالمیہ کالج قصور ‪٩-‬‬ ‫‪٢٠١٤‬‬ ‫اقبال کا فلسہءخودی اردو انجمن ڈاٹ کام ‪١٠-‬‬ ‫فسلفہءخودی اس کے حدود اور ڈاکٹر اقبال تفریح میلہ ڈاٹ ‪١١-‬‬ ‫کام‬ ‫اقبال کے یورپ روانگی سے پہلے کے احوال اردو انجمن ‪١٢-‬‬ ‫ڈاٹ کام‬ ‫اقبال لندن میں اردو نیٹ جاپان ‪١٣-‬‬ ‫کتابیات اقبال اردو انجمن ڈاٹ کام ‪١٤-‬‬ ‫اقبال اور غزالی کی فکر کا تقابلی مطالعہ اردو انجمن ڈاٹ ‪١٥-‬‬ ‫کام‬ ‫اقبال کا نظریہءمعاش ومعاشرت اردو انجمن ڈاٹ کام ‪١٦-‬‬ ‫اقبال اور مغربی مفکرین مسودہ ‪١٧-‬‬


‫اقبال کا تصور عشق مسودہ ‪١٨-‬‬ ‫اقبال کے ہاں شاہین کا استعارہ مسودہ ‪١٩-‬‬ ‫اقبال اور قانون آزادی تفصیالت درج نہیں ہیں ‪٢٠-‬‬ ‫مطالعہءاقبال کے حوالہ سے چند معروضات مسودہ ‪٢١-‬‬ ‫نظم طلوع اسالم ۔۔۔۔۔ایک جائزہ مسودہ ‪٢٢-‬‬ ‫مطالعہءاقبال کے چند ماخذ اردو انجمن ڈاٹ کام ‪٢٣-‬‬ ‫االدب آور اقبال فہمی اردو انجمن ڈاٹ کام ‪٢٤-‬‬


‫مقصود حسنی اور سائینسی ادب‬ ‫قاضی جرار حسنی‬ ‫شعر ادب سے متعلق‘ کسی شخص کا‘ مختلف سائینسز پر قلم‬ ‫اٹھانا‘ ہر کسی کو عجیب محسوس ہو گا‘ اور اس پر‘ حیرت بھی‬ ‫یہ بھی بچ نہیں ‘ہوگی۔ پروفیسر مقصود حسنی کے قلم سے‬ ‫پائے۔ انہوں نے نفسیات سمیت‘ دیگر سائینسز سے متعلق امور‬ ‫پر بھی لکھا ہے۔‬ ‫آج شمسی توانائی کی پروڈکٹس مارکیٹ میں آ گئی ہیں۔ انہوں‬ ‫نے تو ‪ ١٩٨٨‬میں‘ اس کے تصرف کا مشورہ دیا تھا‘ اور اس‬ ‫موضوع پر سیر حاصل گفت گو بھی کی تھی۔ آج وہ خود بھی‬ ‫اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔ اپنے ہاتھ سے‘ ایک بلب بھی نہ‬ ‫لگانے واال شخص‘ خرابی کی صورت میں‘ خود ہی درستی کے‬ ‫لیے میدان میں اترتا ہے۔ اس وقت تھیوری کا شخص پریکٹیکل‬ ‫ہو جاتا ہے۔‬ ‫یہ ہی نہیں‘ کینسر ایسے مہلک مرض سے متغلق‘ ان کا لمبا‬ ‫چوزا‘ کئی حصوں پر مشتمل مقالہ‘ سکربڈ ڈاٹ کام پر موجود‬ ‫ہے۔ اس مقالے کے کچھ حصے‘ دو قسطوں میں‘ اردو خط میں‘‬ ‫اردو نیٹ جاپان پر‘ پڑھنے کو مل جاتے ہیں۔ ان کا ایک‬ ‫مضمون‘ جو ڈینگی سے متعلق ہے‘ اردو نیٹ جاپان پر جلوہ‬ ‫افروز ہے۔‬


‫سرور عالم راز صاحب ایسے عالم فاضل شخص نے‘ انہیں‬ ‫ہر فن موال قرار نہیں دیا تھا۔ ان کے ایسے مضامین ‘ایسے ہی‬ ‫ادبی چاشنی موجود ہوتی ہے۔ اس لیے سائینسز سے ‘میں بھی‬ ‫متعلق‘ ان کی تحریروں کو‘ سائینسی ادب کا نام دیا جا سکتا ہے۔‬ ‫دستیاب چند مضامین کی فہرست درج ہے۔ کوشش کرنے سے‘‬ ‫ممکن ہے‘ اور مضامین بھی مل جائیں۔‬ ‫مردہ اجسام کے خلیے اپنی افادیت نہیں کھوتے روزنامہ‬ ‫مشرق الہور ‪ ١٨‬مئی ‪١٩٨٧‬‬ ‫رورنامہ‬ ‫اعصابی تناؤ اور اس کا تدارک‬ ‫امروز ‪ ٩‬مئی ‪١٩٨٨‬‬ ‫رورنامہ‬ ‫احساس کمتری ایک خطرناک عارضہ‬ ‫امروز الہور یکم اگست ‪١٩٨٨‬‬ ‫شمسی تواتانئی کو تصرف میں النے کی تدبیر ہونی چاہیے‬ ‫رورنامہ امروز الہور ‪ ١٨‬ستمبر ‪١٩٨٨‬‬ ‫ہفت روزہ‬ ‫عالم برزخ میں بھی حرکت موجود ہے‬ ‫جہاں نما الہور ‪ ٨‬مارچ ‪١٩٨٩‬‬ ‫روزنامہ‬ ‫انسان تخلیق کائنات کے لیے پیداکیا گیا ہے‬ ‫مشرق الہور ‪ ٢‬اپریل ‪١٩٨٩‬‬ ‫روزنامہ‬ ‫ممکنات حیات اور انسان کی ذمہ داری‬ ‫وفاق الہور ‪ ٧‬اپریل ‪١٩٨٩‬‬ ‫ہفت روزہ‬ ‫عالمہ المشرقی کا نظرہءکائنات‬ ‫االصالح الہور ‪ ٥‬مئی ‪١٩٨٩‬‬ ‫روزنامہ‬ ‫کیا انسان کو زندہ رکھا جا سکتا ہے‬

‫‪١‬‬‫‪٢‬‬‫‪٣‬‬‫‪٤‬‬‫‪٥‬‬‫‪٦‬‬‫‪٧‬‬‫‪٨‬‬‫‪٩-‬‬


‫امروز الہور ‪ ٦‬اپریل ‪١٩٩٠‬‬ ‫‪١٠‬‬‫کینسر حفاظتی تدبیر اور معالجہ‬ ‫مکمل مقالہ سکربڈ ڈاٹ کام دو قسطوں میں کچھ ترجمہ اردو‬ ‫نیٹ جاپان‬ ‫‪١١‬‬‫اردو نیٹ جاپان‬ ‫ڈینگی حفاظتی تدبیر اور معالجہ‬ ‫محترم مقصود حسنی صاحب‪ ،‬سالم۔‬ ‫آپ کے مضامین اکثر نظر سے گذرتے رہتے ہیں۔ وقت کی‬ ‫دستیابی کے مطابق ان پر کبھی سرسری تو کبھی دقیق نگاہ‬ ‫ڈالنے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ البتہ ہر مضمون پر اپنی دستخط لگانا‬ ‫یا ان پر تبصرہ وغیرہ لکھنا ممکن نہیں ہوتا سو خاموش مسافر‬ ‫کی طرح گذر جاتا ہوں۔ آج مہلت ملی ہے تو سوچا کہ آپ کا اس‬ ‫مضمون اور اس کے توسل سے باقی تخلیقات پر شکریہ کہتا‬ ‫چلوں۔ سو براہ کرم وصول کیجیے۔‬ ‫محترمی سرور صاحب نے اگر آپ کو "آل راونڈر" قرار دیا ہے‬ ‫تو یقینا ً اس میں کچھ سچائی بھی ہوگی۔ کچھ ایسا ہی آپ کے‬ ‫مضامین سے بھی جھلکتا ہے‪ ،‬جس سے میں اور دیگر احباب‬ ‫مستفیض ہوتے رہتے ہیں۔ آپ کے یہاں عنایت کردہ کئی مضامین‬ ‫کے مصنفین آپ کی مدح سرائی کرتے اور آپ کی ہنرمندی کے‬ ‫گیت گاتے نظر آتے ہیں۔ معلوم یہ ہوا کہ آپ کا انجمن سے‬ ‫وابستہ ہونا اور ہمارے درمیان اپنی نگارشات کو پیش کرنا‬


‫ہمارے لیے باعث افتخار ہے۔‬ ‫ہاں‪ ،‬احباب کی تخلیقات پر آپ کے تبصرہ جات میری نظر سے کم‬ ‫ہی گذرے ہیں۔ امید کرتا ہوں کہ آپ سے نیاز حاصل ہوتا رہے گا‬ ‫اور بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔‬ ‫عامر عباس‬ ‫مکرم بندہ جناب حسنی صاحب‪ :‬سالم مسنون‬ ‫آپ کی ادبی و علمی خدمات اظہر من الشمس ہیں۔ افسوس اس‬ ‫بات کا ہے کہ اہل اردو نے کبھی بھی آپ جیسی ہستیوں کی کما‬ ‫حقہ قدر نہیں کی۔ البتہ اس عالم فانی سے گزر جانے کے بعد‬ ‫رسالوں کے خاص نمبر ضرور شائع کئے ہیں۔ غالب ہی شاید‬ ‫ایک ایسے شخص ہوئے ہیں جن کی عزت اور قدر ان کی زندگی‬ ‫میں ہی کی جانے لگی تھی۔ هللا آپ کو طویل عمر عطا فرمائے‬ ‫تاکہ یہ چشمہ علم وادب اسی طرح جاری رہے اور ہم جیسے‬ ‫لوگ مستفید ہوتے رہیں۔‬ ‫زیر نظر مختصر مضمون میں "انسان تخلیق کائنات کے لئے پیدا‬ ‫کیا گیا ہے" دیکھا تو والد مرحوم حضرت راز چاندپوری کا ایک‬ ‫شعر بے اختیار یاد آگیا۔ سوچا کہ آپ کو بھی سنا دوں۔ میں‬ ‫مرحوم کے اس خیاالت سے سو فیصد متفق ہوں اور میرا خیال‬ ‫‪ :‬ہے کہ ہر صاحب علم ونظر متفق ہو گا۔شعر یہ ہے‬ ‫تصویر جہاں میں رنگ بھرنا‬


‫!تخلیق جہاں سے کم نہیں ہے‬ ‫سرور عالم راز‬


‫ڈاکٹر مقصود حسنی بطور ایک اسالمی مفکر اور اسکالر‬ ‫مرتبہ‪ :‬پروفیسر یونس حسن‬ ‫ڈاکٹر مقصود حسنی بالشبہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک‬ ‫ہیں۔ وہ مختلف ادبی سائنسی سماجی صحافتی وغیرہ فیلڈز میں‬ ‫اپنے قلم کا جوہر دکھالتے چلے آ رہے ہیں۔ ان کے دوجنوں‬ ‫مقالے مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ بیس سے‬ ‫زائد کتب بھی منظر عام پر آ چکی ہیں۔ یہ اس امر کی دلیل ہے‬ ‫کہ ان کا تخلیقی اور تحقیقی سفر نت نئی منزلوں کی جانب رواں‬ ‫دواں رہا ہے۔ ان کے اس سفر میں ہر سطح پر تنوع اور رنگا‬ ‫رنگی کی صورت نطر آتی ہے۔ ڈاکٹر اختر شمار انہیں ادبی جن‬ ‫کہتے ہیں۔ راقم نے حال ہی میں ان کے اسالم سے متعلق کچھ‬ ‫مضامین کا سراغ لگایا ہے۔ یہ مختلف اخبارات میں شائع ہو‬ ‫چکے ہیں۔ یہ کل کتنے ہوں گے ٹھیک سے کہہ نہیں سکتا تاہم‬ ‫ستر کا میں کھوج لگا سکا۔‬ ‫ان مضامین کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ڈاکٹر‬ ‫صاحب کا اسالم کے بارے مطالعہ سرسری اور عام نوعیت کا‬ ‫نہیں۔ انہوں نے اپنے مضامین میں انسان اور عصر حاضر کے‬ ‫مسائل کو موضوع گفتگو بنایا ہے۔ ان کے موضوعات ان کی‬ ‫گہری تالش اور سنجیدہ غور و فکر کا مظہر ہیں۔ وہ روایت سے‬ ‫ہٹ کر کفتگو کرتے ہیں۔ انہوں نے فلسیفانہ موشالفیوں کو‬ ‫چھوڑ کر نہایت سادہ اور دلنشین انداز میں اپنی بات قاری تک‬


‫پہنچائی ہے۔ اسالم کا موڈریٹ اور روشن چہرا دکھایا ہے۔ انہوں‬ ‫نے ہر قسم کے تعصبات تنگ نظری اور رجعت پسندی کی نفی‬ ‫کرتے ہوئے حقیقت اور انسانیت سے محبت کے پہلو کو اجاگر‬ ‫کیا ہے۔‬ ‫ان کے نزدیک ہر انسان قابل قدر ہے اور اسے معاشی سماجی‬ ‫عزت اور انصاف مہیا ہونا چاہیے۔ اسالم کے گوناں گوں‬ ‫موضوعات اور پہلووں پر لکھے ہوئے مضامین میں رواداری‬ ‫ایثار اور قربانی کا پیغام ملتا ہے۔ ان کے نزدیک انسان کو‬ ‫دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کیے تخلیق کیا گیا ہے۔‬ ‫اسے ان کی مشکالت مصائب اور المیوں کے تدارک کے لیے‬ ‫اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ ان کے نزدیک اختالف رائے پرداشت‬ ‫کرنے کا مادہ پیدا کرنا چاہیے۔ دلیل سے بات کرنے کی طرح‬ ‫ڈالنا ہی آج کی ضرورت ہے۔‬ ‫اسالم کے گونا گوں موضوعات پر ڈاکٹر مقصود حسنی کے‬ ‫مضامین اور کالم اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ وہ صرف اردو‬ ‫ادب کی یگانہء روزگار شخصیت نہیں ہیں بلکہ اسالمی امور‬ ‫کے بھی ایک اہم اسکالر ہیں۔ ان کی شخصیت کا یہ شیڈ اور‬ ‫زاویہ شاید ان کے بہت سے پڑھنے والوں پر وا نہ ہوا ہو گا۔‬ ‫راقم نے بصد کوشش ستر مضامین کا کھوج لگایا ہے۔ ہو سکتا‬ ‫ہے میری یہ کوشش کسی کے کام کی نکلے۔ ان مضامین کے‬ ‫تناظر میں ان کی اسالمی سوچ کی ندرت اوراپج انہیں سمجھنے‬ ‫میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔ ان کا یہ اسلوب روانی دلکشی‬ ‫اور مخصوص رعنائی رکھتا ہے۔ ذیل میں ان کے مضامین کی‬


‫فہرست قارئین کی نذر کی جاتی ہے۔‬ ‫تعبیر شریعت‘ قومی اسمبلی اور مخصوص صالحیتیں ‪١-‬‬ ‫روزنامہ مشرق الہور ‪ ٢٠‬دسمبر ‪١٩٨٦‬‬ ‫‪٢‬‬‫شریعت عین دین نہیں‘ جزو دین ہے‬ ‫روزنامہ مشرق الہور ‪ ٥‬جنوری ‪١٩٨٧‬‬ ‫اسالم کا نظریہء قومیت اور جی ایم سید کا موقف روزنامہ ‪٣-‬‬ ‫مشرق الہور ‪ ١٥‬فروری ‪١٩٨٧‬‬ ‫‪٤‬‬‫غیر اسالمی قوتیں اور وفاق اسالم کی ضرورت‬ ‫روزنامہ مشرق الہور ‪ ٢٩‬اپریل ‪١٩٨٧‬‬ ‫روزنامہ ‪٥-‬‬ ‫غیر اسالمی قوانین اور وفاق اسالم‬ ‫مشرق الہور ‪ ٢٨‬اپریل ‪١٩٨٧‬‬ ‫روزنامہ ‪٦-‬‬ ‫اسالم ایک مکمل ضابطہءحیات‬ ‫وفاق الہور ‪ ٧‬جنوری ‪١٩٨٨‬‬ ‫اسالم مسائل و معامالت کے حل کے لیے اجتہاد کے در وا ‪٧-‬‬ ‫کرتا ہے‬ ‫روزنامہ مشرق الہور ‪ ٧‬جنوری ‪١٩٨٨‬‬ ‫روز نامہ ‪٨-‬‬ ‫اسالم سیاست اور جمہوریت‬ ‫جنگ الہور ‪ ٢٦‬جنوری ‪١٩٨٨٨‬‬‫روزنامہ ‪٩-‬‬ ‫اسالم میں سپر پاور کا تصور‬ ‫مشرق الہور ‪ ٥‬فروری ‪١٩٨٨‬‬ ‫ہفت روزہ ‪١٠-‬‬ ‫پاکستان اور غلبہءاسالم دو اقساط‬ ‫‪ ١٩‬فروری ‪‘١٩٨٨‬االصالح الہور ‪١٢‬‬ ‫مسلمانوں کی نجات اسالم میں ہے ہفت روزہ االصالح ‪١١-‬‬ ‫الہور ‪ ٢٢‬فروری ‪١٩٨٨‬‬


‫انسان کی ذمہ داری خیر و نیکی کی طرف بالنا اور برائی ‪١٢-‬‬ ‫سے منع کرنا ہے‬ ‫روزنامہ مشرق الہور ‪٢٢‬فروری ‪١٩٨٨‬‬ ‫خداوند عالم‘ انسان دوست حلقے اور انسانی خون ‪١٣-‬‬ ‫روزنامہ مشرق الہور ‪ ٧‬مارچ ‪١٩٨٨‬‬ ‫روزنامہ ‪١٤-‬‬ ‫اسالمی دنیا اور قران و سننت‬ ‫مشرق الہور ‪ ٢٦‬مارچ ‪١٩٨٨‬‬ ‫‪١٥‬‬‫جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‬ ‫روزنامہ مشرق الہور ‪ ٢٩‬مارچ ‪١٩٨٨‬‬ ‫ربط ملت میں علمائے امت کا کردار ہفت روزہ االصالح ‪١٦-‬‬ ‫الہور ‪ ١٥‬اپریل ‪١٩٨٨‬‬ ‫غلبہءاسالم کے لیے متحد اور یک جا ہونے کی ضرورت ‪١٧-‬‬ ‫روزنامہ مشرق الہور‪ ٣٠‬اپریل ‪١٩٨٨‬‬ ‫اسالم کا پارلیمانی نظام رائے پر استوار ہوتا ہے روزنامہ ‪١٨-‬‬ ‫مشرق الہور ‪ ٧‬مئی ‪١٩٨٨‬‬ ‫نفاذ اسالم اور عصری جمہوریت کے حیلے روزنامہ ‪١٩-‬‬ ‫نوائے وقت الہور ‪ ١٤‬مئی ‪١٩٨٨‬‬ ‫ہفت روزہ ‪٢٠-‬‬ ‫اسالم انسان اور تقاضے‬ ‫االصح الہور ‪ ٢٧‬مئی ‪١٩٨٨‬‬ ‫روزنامہ مشرق ‪٢١-‬‬ ‫بنگلہ دیش میں اسالم یا سیکولرازم‬ ‫الہور ‪١‬جون ‪١٩٨٨‬‬ ‫بنگلہ دیش میں اسالم۔۔۔۔۔اسالمی تاریخ کی درخشاں مثال ‪٢٢-‬‬ ‫روزنامہ مشرق الہور ‪ ٢٠‬جون ‪١٩٨٨‬‬ ‫روزنامہ ‪٢٣-‬‬ ‫اسالم کا نظریہءقومیت اور اسالمی دنیا‬ ‫امروز الہور ‪ ٢٠‬جون ‪١٩٨٨‬‬


‫روزنامہ ‪٢٤-‬‬ ‫اسالم کا نظریہءقومیت‬ ‫مشرق الہور ‪ ١٥‬جوالئی ‪١٩٨٨‬‬ ‫ہماری نجات اتحاد اور لہو سے مشروط ہے روزنامہ ‪٢٥-‬‬ ‫مشرق الہور ‪ ٣٠‬اگست ‪١٩٨٨‬‬ ‫روزنامہ وفاق ‪٢٦-‬‬ ‫اسالم اور کفر کا اتحاد ممکن نہیں‬ ‫الہور ‪ ٣٠‬اگست ‪١٩٨٨‬‬ ‫روزنامہ امروز ‪٢٧-‬‬ ‫انسان زمین پر خدا کا خلیفہ ہے‬ ‫الہور ‪ ٣٠‬اگست ‪١٩٨٨‬‬ ‫روزنامہ مشرق ‪٢٨-‬‬ ‫جمہوریت اشتراکیت اور اسالم‬ ‫الہور ‪ ٣٠‬اگست ‪١٩٨٨‬‬ ‫حضور کا پیغام ہے برائی کو طاقت سے روک دو روزنامہ ‪٢٩-‬‬ ‫مشرق الہور ‪ ٣١‬اگست ‪١٩٨٨‬‬ ‫امت مسلمہ رنگ و نسل‘ عالقہ زبان اور نظریات کے ‪٣٠-‬‬ ‫حصار میں مقید ہے‬ ‫روزنامہ مشرق الہور ‪ ٣١‬اگست ‪١٩٨٨‬‬ ‫روزنامہ ‪٣١-‬‬ ‫آزاد مملکت میں اسالمی نقطہءنظر اور آزادی‬ ‫وفاق الہور ‪ ٥‬ستمبر ‪١٩٨٨‬‬ ‫روز نامہ ‪٣٢-‬‬ ‫اسالمی دنیا سے ایک سوال‬ ‫وفاق الہور ‪ ٥‬ستمبر ‪١٩٨٨‬‬ ‫روزنامہ ‪٣٣-‬‬ ‫پاکستان میں نفاذاسالم کا عمل‬ ‫وفاق الہور ‪ ٢‬اکتوبر ‪١٩٨٨‬‬ ‫روزنامہ وفاق ‪٣٤-‬‬ ‫اسالم میں عورت کا مقام‬ ‫الہور ‪ ٢٥‬اکتوبر ‪١٩٨٨‬‬ ‫انسانی فالح اسالم کےبغیر ممکن نہیں روزنامہ وفاق ‪٣٥-‬‬ ‫الہور ‪ ٢٨‬اکتوبر ‪١٩٨٨‬‬


‫اسالم کی پیروی کا دعوی تو ہے مگر! روزنامہ آفتاب ‪٣٦-‬‬ ‫الہور ‪ ٢٨‬اکتوبر ‪١٩٨٨‬‬ ‫پاکستان میں نفاذ اسالم کیوں نہیں ہو سکا روزنامہ ‪٣٧-‬‬ ‫‪ ٣١‬اکتوبر ‪١٩٨٨‬‬ ‫وفاق الہور‬ ‫روزنامہ ‪٣٨-‬‬ ‫نفاذ اسالم میں تاخیر کیوں‬ ‫آفتاب الہور ‪ ٨‬نومبر ‪١٩٨٨‬‬ ‫ہفت روزہ ‪٣٩-‬‬ ‫اسالمی دنیا کے قلعہ میں داڑاڑیں کیوں‬ ‫جہاں نما الہور ‪ ١٠‬نومبر ‪١٩٨٨‬‬ ‫اعتدال اور توازن کا رستہ عین اسالم ہے روزنامہ مشرق ‪٤٠-‬‬ ‫الہور ‪ ٢٠‬نومبر ‪١٩٨٨‬‬ ‫روزنامہ مشرق ‪٤١-‬‬ ‫اسالم کا نظام سیاست و حکومت‬ ‫الہور ‪ ٢٢‬نومبر ‪١٩٨٨‬‬ ‫روزنامہ ‪٤٢-‬‬ ‫شناخت‘ اسالمائزیشن کا پہال زینہ‬ ‫مشرق الہور ‪ ٣٠‬نومبر ‪١٩٨٨‬‬ ‫روزنامہ ‪٤٣-‬‬ ‫اسالم کے داعی طبقے کی شکست کیوں‬ ‫مساوات الہور ‪ ٥‬دسمبر ‪١٩٨٨‬‬ ‫روزنامہ وفاق ‪٤٤-‬‬ ‫کیا اسالم ایک قدیم مذہب ہے‬ ‫الہور ‪ ١٠‬جنوری ‪١٩٨٩‬‬ ‫روزنامہ وفاق ‪٤٥-‬‬ ‫ملت اسالمیہ کی عظمت رفتہ‬ ‫الہور ‪ ٢‬فروری ‪١٩٨٩‬‬ ‫اسالم اور عصری جمہوریت چار اقساط روزنامہ وفاق ‪٤٦-‬‬ ‫الہور‬ ‫‪ ٢٨‬اگست ‪‘١٩٨٩‬مارچ ‪‘٣‬فروری‬ ‫اہل اسالم کے لیے لمحہءفکریہ روز نامہ وفاق الہور ‪٤٧- ٨‬‬ ‫مارچ ‪١٩٨٩‬‬


‫اسالم دوست حلقوں کے لیے لمحہءفکریہ روزنامہ وفاق ‪٤٨-‬‬ ‫الہور ‪ ١٩‬مارچ ‪١٩٨٩‬‬ ‫غیر اسالمی دنیا کے خالف جہاد کرنے کی ضرورت ‪٤٩-‬‬ ‫روزنامہ وفاق الہور ‪ ١٩‬مارچ ‪١٩٨٩‬‬ ‫روزنامہ وفاق الہور ‪٥٠-‬‬ ‫اسالمی دنیا‘ ذلت و خواری کیوں‬ ‫‪ ٢٢‬مئی ‪١٩٨٩‬‬ ‫ماہنامہ ‪٥١-‬‬ ‫امور حرامین میں اسالمی دنیا کا کردار‬ ‫وحدت اسالمی اسالم آباد محرم ‪١٣١١‬ھ‬ ‫روزنامہ وفاق ‪٥٢-‬‬ ‫حج کی اہمیت عظمت اور فضیلت‬ ‫جوالئی ‪١٩٨٩‬‬ ‫الہور‬ ‫اسالمی مملکت میں سربراہ مملکت کی حیثیت روزنامہ ‪٥٣-‬‬ ‫وفاق الہور ‪ ٦‬جوالئی ‪١٩٨٩‬‬ ‫روز نامہ ‪٥٤-‬‬ ‫نفاذ اسالم کی کوششیں‬ ‫وفاق الہور ‪ ٣‬اگست ‪١٩٨٩‬‬ ‫روزنامہ ‪٥٥-‬‬ ‫اسالم عصر جدید کے تقاضے پورا کرتا ہے‬ ‫مشرق الہور ‪ ٤‬اگست ‪١٩٨٩‬‬ ‫روزنامہ‬ ‫اسالم اور عصری ے جمہوریت چار اقساط‬ ‫وفاق الہور‬ ‫‪ ٢٨‬اگست ‪‘١٩٨٩‬مارچ ‪‘٣‬فروری‬ ‫مسلم دنیا کی نادانی جوہرقسم کی ارزانی ہفت روزہ جہاں ‪٥٦-‬‬ ‫نما الہور ‪ ١٧‬ستمبر ‪١٩٨٩‬‬ ‫روزنامہ ‪٥٧-‬‬ ‫اسالم میں جہاد کی ضرورت و اہمیت‬ ‫وفاق الہور ‪ ٣٠‬ستمبر ‪١٩٨٩‬‬ ‫روزنامہ وفاق ‪٥٨-‬‬ ‫ورقہ بن نوفل کا قبول‬ ‫الہور ‪ ١٥‬اکتوبر ‪١٩٨٩‬‬


‫روزنامہ مشرق ‪٥٩-‬‬ ‫اسالم میں جرم و سزا کا تصور‬ ‫الہور ‪ ١٥‬اکتوبر ‪١٩٨٩‬‬ ‫پاکستان اسالمی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کے ‪٦٠-‬‬ ‫لیے حاصل کیا گیا تھا‬ ‫روزنامہ مشرق الہور ‪ ١٥‬اکتوبر ‪١٩٩٠‬‬ ‫ہم اسالم کے ماننے والے ہیں پیروکار نہیں اردو نیٹ ‪٦١-‬‬ ‫جاپان‬ ‫اردو نیٹ ‪٦٢-‬‬ ‫ہم مسلمان کیوں ہیں‬ ‫جاپان‬ ‫اردو نیٹ ‪٦٣-‬‬ ‫مذہب اور حقوق العباد کی اہمیت‬ ‫جاپان‬ ‫ورڈز ‪٦٤-‬‬ ‫آقا کریم کی آمد‬ ‫ولیج ڈاٹ کام‬ ‫فورم ‪٦٥-‬‬ ‫هللا انسان کی غالمی پسند نہیں کرتا‬ ‫پاکستان ڈاٹ کام‬ ‫سکربڈ ‪٦٦-‬‬ ‫مسلمان کون ہے‬ ‫ڈاٹ کام‬ ‫اردو نیٹ ‪٦٧-‬‬ ‫سکھ ازم یا ایک صوفی سلسلہ‬ ‫جاپان‬ ‫شرک ایک مہلک اور خطرناک بیماری ‪٦٨-‬‬ ‫‪www.dirale.com‬‬

‫اردو ‪٦٩-‬‬

‫اسالمی سزائیں اور اسالمی و غیراسالمی انسان‬ ‫نیٹ جاپان‬ ‫سکربڈ ‪٧٠-‬‬ ‫پہال آدم کون تھا‬ ‫ڈاٹ کام‬


‫ڈاکٹر مقصود حسنی بطور مترجم‬ ‫از پروفیسر یونس حسن‬ ‫ڈاکٹر مقصود حسنی ایک نامور محقق‘ نقاد اور ماہر‬ ‫لسانیات ہونے کے ساتھ ایک کامیاب مترجم بھی ہیں۔ انہوں‬ ‫نے جن فن پاروں کا ترجمہ کیا ہے ان پر طبع زاد ہونے کا‬ ‫گمان گزرتا ہے۔ ان کے تراجم سادگی سالست اور رونی کا‬ ‫عمدہ نمونہ ہیں۔ ایک کامیاب مترجم کے لیے ضروری ہوتا‬ ‫ہے کہ وہ اصل کے مفاہیم کو خوب ہضم کرکے ترجمے کا‬ ‫فریضہ انجام دے تا کہ ترجمہ اصل کے قریب تر ہو۔‬ ‫موصوف کے تراجم کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے‬ ‫اصل کی تفہیم پر دسترس حاصل کرنے کے بعد ہی یہ کام کیا‬ ‫ہے۔‬ ‫ان کے تراجم روایت سے ہٹ کر ہیں۔ یہاں تک کہ متعلقہ فن‬ ‫پارے کی ہیئت سے بھی تجاوز کیا ہے۔ اس کی مثال‬ ‫رباعیات کا سہ مصرعی ترجمہ ہے جسے برصغیر کے‬ ‫نامور علما نے پسند کیا اور حسنی صاحب کو اس کام پر داد‬ ‫بھی دی۔ ان کے تراجم میں ایک ندرت اور چاشنی پائی جاتی‬ ‫ہے۔ ان کے تراجم کو جہاں ایک نئی جہت عطا ہوئی ہے‬ ‫وہاں الفاظ پر ان کی غیر معمولی گرفت کا بھی اندازہ ہوتا‬ ‫ہے۔‬ ‫حسنی صاحب کے تراجم کے مطالعہ سے یہ بھی کھلتا ہے‬ ‫کہ مترجم لفظ کے نئے نئے استعماالت سے آگاہ ہے۔ ڈاکٹر‬


‫ابو سعید نورالدین نے ان تراجم پر بات کرتے ہوئے درست‬ ‫‪:‬کہا تھا‬ ‫واقعی تعجب ہوتا ہے۔ آپ نے رباعیات کا اردو ترجمہ چہار‬ ‫مصرعی کی بجائے سہ مصرعی میں اتنی کامیابی کے ساتھ‬ ‫کیسے کیا۔ یہ آپ کا کمال ہے۔‬ ‫ترجمے کے لیے الزمی ہوتا ہے کہ مترجم کی اس میں‬ ‫مکمل دلچسپی ہو ورنہ اس کی ساری محنت اکارت چلی‬ ‫جائے گی۔ حسنی صاحب نے ترجمے کا کام پوری دلچسپی‬ ‫اور بھرپور کمٹ منٹ کے ساتھ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان‬ ‫کے تراجم اصل کی بھرپور نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کے‬ ‫رباعیات خیام کے تراجم کے حوالہ سے پروفیسر کلیم ضیا‬ ‫‪:‬نے کہا تھا‬ ‫سہ مصرعی ترجمے ماشاءهللا بہت عمدہ ہیں۔ ہر مصرعہ‬ ‫رواں ہے۔ ابتددائی دونوں مصرعے پڑھ پڑھ لینے کے بعد‬ ‫مفہوم اس وقت تک واضح اور مکمل نہیں ہو سکتا جب تک‬ ‫کہ مصرع سوئم پڑھ نہ لیا جائے۔ یہی خوبی رباعی میں بھی‬ ‫‪:‬ہے کہ چوتھا مصرع قفل کا کام کرتا ہے۔‬ ‫ان کے تراجم کا یہی کمال نہیں کہ وہ اصل کے مطابق ہیں‬ ‫بلکہ ان میں جازبیت اور حسن آفرینی کو بھی شامل کیا گیا‬ ‫ہے۔ بڑھتے جائیں طبیعت بوجھل نہیں ہوتی۔ ان کے تراجم‬ ‫میں پایا جانے واال فطری بہاؤ قاری کو اپنی گرفت میں لے‬ ‫لیتا ہے۔ شاید اسی بنیاد پر ڈاکٹر عبدالقوی ضیاء نے کہا‬ ‫‪:‬تھا‬ ‫حسنی صاحب ماہر تیراک اور غوطہ خور ہیں ان کے سہ‬ ‫مصرعوں میں اثرآفرینی ہے‘ روانی ہے‘ حسن بیان ہے‘‬


‫تازہ کاری اور طرحداری ہے۔ قاری کو مفہوم سمجھنے میں‬ ‫کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی بلکہ لطف آتا ہے۔‬ ‫گویا ان کا مخصوص اسلوب تکلم اور طرز ادا ترجمے کو‬ ‫کہیں بھی خشک اور بےمزہ نہیں ہونے دیتا بلکہ اس کی‬ ‫اسلوبی اور معنوی سطح برقرار رہتی ہے۔‬ ‫انہوں نے عمر خیام کی چوراسی رباعیات کا اردو ترجمہ کیا۔‬ ‫یہی نہیں اپنی کتاب۔۔۔۔۔ شعریات خیام۔۔۔۔۔ میں خیام کی سوانح‬ ‫کے ساتھ ساتھ چار ابواب میں ان کا تنقیدی و لسانی جائزہ‬ ‫بھی پیش کیا۔‬ ‫پچاس ترکی نظموں کا اردو ترجمہ کیا اس ترجمے کو ڈاکٹر‬ ‫نوریہ بلیک قونیہ یونیورسٹی نے پسند کیا۔‬ ‫یہ ترجمہ ۔۔۔۔۔ستارے بنتی آنکھیں۔۔۔۔۔ کے نام سے کتابی‬ ‫شکل میں پیش کیا گیا۔‬ ‫انہوں نے فینگ سیو فینگ کے کالم پر تنقیدی گفتگو کی۔ ان‬ ‫کا یہ تنقیدی مضمون۔۔۔۔۔ فینگ سیو فینگ جذبوں کا‬ ‫شاعر۔۔۔۔۔۔ کے عنوان سے روزنامہ نوائے وقت الہور کی‬ ‫اشاعت اپریل ‪ 1988 '8‬میں شائع ہوا۔ اس کی نظموں کے‬ ‫ترجمے بھی پیش کیے۔‬ ‫اس کے عالوہ معروف انگریزی شاعر ولیم بلیک کی نظموں‬ ‫کا بھی اردو ترجمہ کیا۔ ان کے یہ تراجم تجدید نو میں شائع‬ ‫ہوئے۔ ہنری النگ فیلو کی نظموں کے ترجمے بھی کیے۔‬ ‫قراتہ العین طاہرہ کی غزلوں کا پنجابی اور انگریزی آزاد‬ ‫ترجمہ کیا۔‬ ‫سو کے قریب غالب کے اشعار کا پنجابی ترجمہ کیا۔ ان کے‬ ‫یہ تراجم انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔‬


‫فرہنگ غالب ایک نادر مخطوطہ‬ ‫از پروفیسر یونس حسن‬ ‫ڈاکٹر مقصود حسنی عصر حاضر کے ایک نامور غالب‬ ‫شناس ہیں۔ غالب کی لسانیات پر ان کی متعدد کتابیں چھپ‬ ‫چکی ہیں۔ جناب لطیف اشعر ان پر اس حوالہ سے ایم فل‬ ‫سطح کا تحقیقی مقالہ بھی رقم کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر مقصود‬ ‫‘اصطالحی ‘تمدنی ‘حسنی نے لفظیات غالب کے تہذیبی‬ ‫ساختیاتی اور لسانیاتی پہلووں پر نہایت جامع اور وقع کام‬ ‫کیا ہے۔ ان کا کام اپنی نوعیت کا منفرد اور جداگانہ کام ہے۔‬ ‫ابھی تک غالب کی لسانیات پر تحقیقی کام دیکھنے میں نہیں‬ ‫آیا۔ ان کے کام کی انفرادیت اس حوالے سے بھی ہے کہ آج‬ ‫تک غالب کی تشریحات کے حوالہ سے ہی کام ہوا ہے جبکہ‬ ‫غالب کی لسانیات پر ابھی تک کسی نے کام نہیں کیا۔‬ ‫لسانیات غالب پر ان کا ایک نادر مخطوطہ۔۔۔۔فرہنگ غالب۔۔۔۔‬ ‫بھی ہے۔ یہ مخطوطہ فرہنگ سے زیادہ لغات غالب ہے۔ اس‬ ‫مخطوطے کے حوالہ سے لفظات غالب کی تفہیم میں شارح‬ ‫کو کئی نئے گوشے ملتے ہیں اور وہ تفہیم میں زیادہ آسانی‬ ‫محسوس کر سکتا ہے۔ غالب کے ہاں الفظ کا استعمال روایت‬ ‫سے قطعی ہٹ کر ہوا ہے۔ روایتی اور مستعمل مفاہیم میں‬ ‫اشعار غالب کی تفہیم ممکن ہی نہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ‬ ‫لغات بھی عجب ڈھنگ سے ترتیب دی ہے۔ لفظ کو عہد غالب‬ ‫سے پہلے‘ عہد غالب اور عہد غالب کے بعد تک دیکھا ہے۔‬


‫ان کے نزدیک غالب شاعر فردا ہے۔ لفظ کے مفاہیم اردو‬ ‫اصناف شعر میں بھی تالش کیے گیے ہیں۔ یہاں تک کہ جدید‬ ‫صنف شعر ہائیکو اور فلمی شاعری کو بھی نظرانداز نہیں‬ ‫کیا گیا۔ امکانی معنی بھی درج کر دیے گیے ہیں۔‬ ‫اس مخطوطے کے مطالعہ سے ڈاکٹر مقصود حسنی کی‬ ‫لفظوں کے باب میں گہری کھوج اور تالش کا پتا جلتا ہے۔‬ ‫لگن اور ‘اس تالش کے سفر میں ان کی ریاضت‘ مغز ماری‬ ‫سنجیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ انہوں نے لفظ کی تفہیم کے‬ ‫لیے‘ اردو کی تمام شعری اصناف کو کھنگال ڈاال ہے۔ ایک‬ ‫ایک لفظ کے درجنوں اسناد کے ساتھ معنی پڑھنے کو ملتے‬ ‫ہیں۔ ماضی سے تادم تحریر شعرا کے کالم سے استفادہ کیا‬ ‫گیا ہے۔ گویا لفظ کے مفاہیم کی گرہیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔‬ ‫اس نادر مخطوطے کا سرسری جائزہ بھی اس جانب توجہ‬ ‫مبذول کراتا ہے کہ غالب کو محض سطعی انداز سے نہ‬ ‫دیکھیں۔ اس کے کالم کی تفہیم سرسری مطالعے سے ہاتھ‬ ‫آنے کی نہیں۔ اسے سمجھنے کے لیے سنجیدہ غوروفکر‬ ‫کرنا پڑتا ہے۔ پروفیسر حسنی کی یہ کاوش فکر و تالش‬ ‫اسی امر کی عملی دلیل ہے۔ انہوں غالب کے قاری کے لیے‬ ‫آسانیاں پیدا کرنے کے لیے اپنی سی جو کوششیں کی ہیں‬ ‫وہ بالشبہ الیق تحسین ہیں۔‬ ‫ماضی میں غالب پر بڑا کام ہوا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ وہ‬ ‫آج بھی ادبی حلقوں میں تشریح طلب مصرعے کا درجہ‬ ‫رکھتا ہے۔ تشنگی کی کیفیت میں ہرچند اضافہ ہی ہوا ہے۔‬ ‫اس صورت حال کے تحت بڑے وثوق سے کہا جا سکتا ہے‬ ‫کہ غالب مستقبل قریب و بعید میں اپنی ضرورت اور اہمیت‬


‫نہیں کھوئے گا یا اس پر ہونے والے کام کو حتمی قرار نہیں‬ ‫دے دیا جائے گا۔ جہاں تفہیم غالب کی ضرورت باقی رہے‬ ‫گی وہاں ڈاکٹر مقصود حسنی کی فرہنگ غالب کو بنیادی‬ ‫ماخذ کا درجہ بھی حاصل رہے گا۔ اسے تفہیم غالب کی ذیل‬ ‫میں نظر انداز کرنے سے ادھورہ پن محسوس کیا جاتا رہے‬ ‫گا۔‬ ‫اس مخطوطے کی اشاعت کی جانب توجہ دینا غالب فہمی‬ ‫کے لیے ازبس ضروری محسوس ہوتا ہے۔ جب تک یہ‬ ‫مخطوطہ چھپ کر منظر عام پر نہیں آ جاتا غالب شناسی‬ ‫تشنگی کا شکار رہے گی۔ لوگوں تک اس میں موجود‬ ‫گوشوں کا پہنچنا غالب شناسی کا تقاضا ہے کیونکہ جب تک‬ ‫یہ نادر مخطوطہ چھپ کر سامنے نہیں آ جاتا اس کی اہمیت‬ ‫اور ضرورت کا اندازہ نہیں ہو سکے گا۔ یہ بھی کہ غالب‬ ‫کے حوالہ سے پروفیسر حسنی کی لسانی بصیرت کا اندازہ‬ ‫نہیں ہو سکے گا۔ وہ گویا لسانیات غالب پر کام کرنے والوں‬ ‫میں نقش اول کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہ لغت آ سے شروع ہو‬ ‫کر لفظ یگانہ کی معنوی تفہیم تک جاتی ہے۔‬


‫مقصود حسنی کی ادبی خدمات‬ ‫ایک مختصر جائزہ‬ ‫مرتبہ‪:‬‬ ‫پروفیسر نیامت علی مرتضائی‬

‫مقصود حسنی‬

‫بوزر برقی کتب خانہ‬ ‫فروری ‪٢٠١٧‬‬


Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.