مقصود حسنی کی ادبی خدمات ایک مختصر جائزہ مرتبہ: پروفیسر نیامت علی مرتضائی
مقصود حسنی
بوزر برقی کتب خانہ فروری ٢٠١٧
فہرست بلھے شاہ کا مور۔۔۔۔۔۔۔ ایک ادبی تعارف ١- میرے استاد میرے دوست میرے بزرگ ٢- حسنی اور برصغیر کا مضافاتی اور مغربی ادب ٣- مقصود حسنی کے تنقیدی جائزے۔۔۔۔۔ ایک تدوینی مطالعہ ٤- ایک اجمالی جائزہ ‘مقصود حسنی کی مزاح نگاری ٥- مقصود حسنی کی شاعری۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک جائزہ ٦- اردو انجمن اور مقصود حسنی کی افسانہ نگاری ٧- حضرت بلھے شاہ قصوری کی اردو شاعری ٨- ڈاکٹر مقصود حسنی بطور ماہر لسانیات ٩- مقصود حسنی اور اردو زبان ١٠- مقصود حسنی اور اقبال فہمی ١١- مقصود حسنی اور سائنسی ادب ١٢- ڈاکٹر مقصود حسنی بطور ایک اسالمی مفکر اور اسکالر ١٣- ڈاکٹر مقصود حسنی بطور مترجم ١٤- فرہنگ غالب ایک نادر مخطوطہ ١٥-
بلھے شاہ کا مور۔۔۔۔۔۔۔ تعلیمی و ادبی کوائف مرتبہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محبوب عالم پروفیسر مقصود حسنی اردو ادب کا وہ دمکتا آفتاب ہے جس کی ضیا پاشیاں حدود میں نہیں آ سکتیں۔ ان کی ادبی کرنوں کی تحسین نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ ہر صنف ادب کا یہ سیاح اپنے سفر نامے کی ہر چھوٹی بڑی کہانی لکھتا چال آ رہا ہے۔ یہ ان کی بالجواز مداح سرائی نہیں بلکہ روز روشن کی طرح عیاں حقیقت بیان کرنے کی ادنی سی کوشش ہے۔ ادب کا شاید ہی کوئی گوشہ ہو گا جہاں انھوں نے طبع آزمائی نہ کی ہو گی۔ انہوں نے تو کینسر اور ڈینگی جیسے امراض پر بھی تحقیقی کام کیا ہے۔ اس سلسلے میں اردو نیٹ جاپان اور سکربڈ ڈاٹ کام پر ان کا مواد موجود ہے۔ وہ ایسے آل راؤنڈر کی حیثیت اختیار کر گیے ہیں جو کسی بھی صنف کے ماتھے کا جھومر ہو سکتے ہیں۔ ان کی زندگی کے سالوں کو دنوں میں تبدیل کر دیا جائے تو کوئی دن بال ادبی خدمت نہیں نکلے گا۔ گویا وہ ہمہ وقت اور ہمہ جہت ادبی شخصیت ہیں۔ پروفیسر مقصود حسنی کی ادبی خدمات پر ملکی و غیر ملکی مداحوں نے انہیں متعدد ادبی خطابات سے نوازا ہے۔ اس تحریر کا عنوان بھی بین االاقومی شہرت کے مالک پروفیسر ڈاکٹر تبسم کاشمیری کے عطا کیے گیے خطاب سے لیا گیا ہے۔ پیش نظر
سطور میں ان کا مختصر مختصر ادبی تعارف پیش کیا گیا ہے۔ احباب کو میری ادنی سی کوشش ضرور پسند آئے گی۔ بنیادی کوائف نام :مقصود صفدر علی معروف :مقصود حسنی ولدیت :سید غالم حضور گھر کا پتا: شیر ربانی کالونی قصور‘ پاکستان :ای پوسٹ maqsood5@mail2world.com تعلیم ایم اے :ارو‘ سیاسیات‘ معاشیات‘ تاریخ ایم فل‘ اردو ڈاکٹریٹ‘ لسانیات پوسٹ ڈاکٹریٹ‘ لسانیات تجربہ تدریس اردو ادب ٣٠سال
تخلیق ادب ٤٥ :سال تحقیق ادب ٣٤ :سال انتظامی:
٠٥سال
خدمات برانچ سپرنٹنڈنٹ ایم آئی ٹی برانچ‘ زون اے‘ پنجاب ممبر بورڑ آف سٹیڈی پنجاب یونیورسٹی الہور پنجاب یونیورسٹی ‘تجزیہ نگار خاکہ پی ایچ ڈی وائس پرنسپل ریٹائرڈ :ایسوسی ایٹ پروفیسراردو زبان و ادب ادارہ فراغت مالزمت :گورنمنٹ اسالمیہ کالج‘ قصور ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ‘ حکومت پنجاب‘ پاکستان ادبی خدمات مطبوعہ کتب سپنے اگلے پہر کے ہائیکو ١- اوٹ سے
نظمیں ٢-
سورج کو روک لو
نظمیں ٣-
کاجل ابھی پھیال نہیں نظمیں ٤- بیگمی تجربہ آنچل جلتا رہے گا
مزاح ٥- افسانے ٦-
زرد کاجل
افسانے ٧-
وہ اکیلی تھی
افسانے ٨-
جس ہاتھ میں الٹھی افسانے ٩- شعریات شرق و غرب تحقیق تنقید ١٠- تحریکات اردو
تحقیق ١١-
اصول اورجائزے اصول تحقیق ١٢- اردو شعر فکری و لسانی جائزے تحقیق ١٣- شعریات خیام
تحقیق تنقید ترجمہ ١٤-
ستارے بنتی آنکھیں ترک نظموں کے تراجم ١٥- لسانیات غالب
تحقیق ١٦-
لفظیات غالب کا لسانی وساختیاتی جائزہ تحقیق ١٧- عہد غالب
تحقیق ١٨-
خوشبو کے امین خطوط ١٩- منیر کے افسانے تنقدی جائزہ تنید ٢٠- جرمن شاعری کے فکری جائزے تنید ٢١- اردو میں نئی نظم
تنید ٢٢-
تخلیقیو تنقیدی زاویے
تنید ٢٣-
سیکڑوں مضامین مختلف ادبی رسائل و جرائد میں شائع ہوئے۔ سیکڑوں مضامین اور کئی کتب انٹرنیٹ پر موجود ہیں‘ جنھیں کسی بھی ریسرج انجن کے حوالہ سے مالحظہ کیا جا سکتا ہے۔ ایوارڈز ستارہ صد سالہ جشن والدت قائد اعظم‘ حکومت پاکتان بیدل حیدری ایوارڑ‘ کاروان ادب ملتان مسٹر اردو‘ فورم پاکستان بابائے گوشہءمصنفین‘ فرینڈز کارنر میدان جن میں کام دستیاب ہوتا ہے اردو ادب لسانیات تحقیق تنقید افسانہ مزاح شاعری سماجیات
غالبیات اقبالیات ترجمہ تاریخ تعلیم صحافت میڈیکل سائنسز معاشیات تخلیق و تخلیق پر ہونے والے تحقیقی کام کی تفصیل انگریزی شاعری پر ایم فل سطع کا ‘پرفیسر نیامت علی تحقیقی کام کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر ارشد شاہد‘ پنجابی شاعری پر‘ ایم فل سطع کا تحقیقی کام کر چکے ہیں اسلم طاہر‘ ‘مقصود حسنی -شخصیت اور ادبی خدمات‘ کے عنوان سے‘ ایم فل سطع کا تحقیق مقالہ تحریر کرکے‘ ملتان سے ڈگری حاصل کر ‘بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی چکے ہیں۔
پروفیسر محمد لطیف‘ ‘مقصود حسنی کی غالب شناسی- تحقیقی و تنقیدی و مطالعہ‘ موضوع پر ایم فل سطع کا اسالم آباد سےتحقیقی کام کر ‘عالمہ اقبال اوپن یونیورسٹی رہے ہیں۔ رانا جنید‘ ایف سی کالج سے‘ ان کے افسانوں پر‘ بی اے آنرز سطع کا‘ تحقیقی کام کرنے میں مصروف ہیں۔ ڈاکٹر ریاض شاہد نے‘ اپنے پی ایچ ڈی سطع کے تحقیقی مقالے میں‘ کتاب ‘ اردو شعر -فکری و لسانی زاویے‘ کو بطور بنیادی ماخذ استعمال کیا۔ پر ہونے والے ایم فل سطع کے کام ‘عالمہ بیدل حیدری میں‘ بنیادی حوالہ سے تذکرہ کیا گیا ہے۔ محبوب عام‘ زیب النسا اور زبیدہ بیگم کے ایم فل سطع کے مقالہ جات میں‘ غالب حصہ موجود ہے۔ پی ایچ ڈی اور ایم فل سطح کی اسائنمنٹس بھی ہوتی رہی ہیں۔ مختلف سطع کی ڈگری کے تحقیقی کام میں‘ تحقیق کاروں کے کام میں تعاون کر چکے ہیں‘ جس کا اظہار‘ وہ اپنے تحیقیقی مقالوں میں کر چکے ہیں۔ دستیاب تفصیل کچھ یوں ہے۔ سید اختر عباس مقالہ ایم ایڈ میں تعاون کیا
ڈاکٹر ارشد شاہد مقالہ پی ایچ ڈی میں تعاون کیا پروفیسر شرافت علی مقالہ ایم فل میں تعاون کیا پروفیسر طلعت رشید مقالہ ایم فل میں تعاون کیا ڈاکٹر عطاءالرحمن مقالہ ایم فل میں تعاون کیا پروفیسر یونس حسن مقالہ ایم فل میں تعاون کیا ١٩٩٣میں‘ ‘مقصود حسنی کی ‘ڈاکٹر صادق جنجوعہ نے شاعری کا تنقیدی جائزہ‘ کے عنوان سے‘ کتاب تحریر کی۔ ڈاکٹر ریاض انجم نے‘ ‘مسٹر اردو -اسرا زیست اور ادبی خدمات‘ کے عنوان سے مقالہ تحریر کیا‘ جو روزنامہ معاشرت‘ الہور میں‘ پچاس قسطوں میں شائع ہوا۔ عالمی رنگ ادب نے‘ پورے مجموعے سپنے اگلے پہر کے‘ کو ٢٠١٣میں شائع کیا۔ ٣٠سے زیادہ تحقیقی مقالے ‘پروفیسر یونس حسن نے تحریر کئے‘ جو مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ پروفیسر محمد رفیق ساگر نے‘ تیس کے قریب مضامین
تحریر کئے‘ جو ابھی غیر مطبوعہ ہیں۔ پی ایچ ڈی اور ایم فل سطح کی اسائنمنٹس بھی ہوتی رہی ہیں۔ درج ذیل اہل قلم نے مضامین لکھے یا اپنی آراء دیں۔ ڈاکٹر ابو سعید نور الدین‘ ڈاکٹر اختر شمار‘ ڈاکٹر اسلم ثاقب‘ ڈاکٹر انور سدید ڈاکٹر انعام الحق جاوید‘ ڈاکٹر ‘ڈاکٹر اسعد گیالنی ڈاکٹر اختر سندھو‘ ‘انعام الحق کوثر‘ ڈاکٹر اختر علی میرٹھی پروفیسر امجد علی شاکر‘ پروفیسر ‘پروفیسر اکرام ہوشیارپوری اقبال سحر ‘اطہر ناسک‘ پروفیسر انور جمال‘ اکبر حمیدی یاد‘ اعظم ‘اکبر کاظمی ‘ادیب سہیل‘ انیس شاہ جیالنی ‘انبالوی بہرام طارق‘ ڈا ‘اسماعیل اعجاز‘ اشرف پال‘ ڈاکٹر بیدل حیدری ‘ثناءالحق حقی ‘تنویر بخاری ‘تاج پیامی ‘کٹر تبسم کاشمیری جمشید مسرور‘پروفیسر حسین سحر‘ حسن ‘ڈاکٹر جمیل جالبی ڈاکٹر خواجہ حمید ‘پروفیسر حفیظ صدیقی ‘عسکری کاظمی ڈاکٹر ذوالفقار دانش‘ ڈاکٹر ‘ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی ‘یزدانی ذوالفقار علی رانا‘ پروفیسر رب نواز مائل‘ رانا سلطان محمود‘ ڈاکٹر سعادت سعید‘ سرور عالم راز‘ میاں سعید بدر‘ سید اختر ڈاکٹر صادق جنجوعہ‘ ‘ڈاکٹر صابر آفاقی ‘شاہد حنائی ‘علی ڈاکٹر عبدالقوی ضیا‘ ڈاکٹر ‘ڈاکٹر ظہور احمد چوہدری عطاالرحمن‘ ڈاکٹر عبدالعزیز سحر‘ عباس تابش‘ عبدالقوی علی دیپک قزلباس‘ علی اکبر ‘پروفیسر عقیل حیدری ‘دسنوی فہیم ‘ڈاکٹر غالم شبیر رانا‘ ڈاکٹر فرمان فتح پوری ‘گیالنی پروفیسر کلیم ضیا‘ ‘قیصر تمکین‘ ڈاکٹر قاسم دہلوی ‘اعظمی
ڈاکٹر مظفرعباس‘ ڈاکٹر ‘کوکب مظہر خاں‘ ڈاکٹر گوہر نوشاہی ڈاکٹر سید معین الرحمن‘ ڈاکثر ‘محمد امین‘ ڈاکٹر مبارک علی منیر الدین احمد‘ ڈاکٹر محمد ریاض انجم‘ پروفیسر محمد رضا محمود ‘مسرور احمد زائی ‘مشفق خواجہ‘ مشیر کاظمی ‘مدنی ڈاکٹر نجیب ‘مسعود اعجاز بخاری ‘مہر کاچیلوی ‘احمد مودی ناصر ‘ڈاکٹر نوریہ بلیک‘ نیر زیدی ‘جمال‘ ڈاکٹر نثار قریشی ‘ڈاکٹر وقار احمد رضوی ‘ندیم شعیب‘ ڈاکٹر وفا راشدی ‘زیدی پروفیسر یونس حسن‘ ‘والیت حسین حیدری ‘وصی مظہر ندوی وغیرہ وغیرہ سے کالم دستیاب ہوتا ہے۔ شاعری پر بہت سے لوگوں نے اظہار خیال کیا۔ جند ایک کے نام درج ہیں۔ ١٩٦٥ ڈااکٹر آغا سہیل آفتاب احمد ڈاکٹر ابو سعید نور الدین احمد ریاض نسیم ڈاکٹر اسلم ثاقب اسلم طاہر ڈاکٹر احمد رفیع ندیم احمد ندیم قاسمی ڈاکٹر اختر شمار ڈاکٹر اسعد گیالنی
اسماعیل اعجاز اشرف پال اطہر ناسک اکبر کاظمی پروفیسر اکرام ہوشیار پوری ایاز قیصر ڈاکٹر بیدل حیدری پروفیسر تاج پیامی تنویر عباسی جمشید مسرور ڈاکٹر ریاض انجم سرور عالم راز خواجہ غضنفر ندیم ڈاکٹر فرمان فتح پوری ڈاکٹر صابر آفاقی ڈاکٹر صادق جنجوعہ صفدر حسین برق ضیغم رضوی
طفیل ابن گل ڈاکٹر ظہور احمد چودھری عباس تابش ڈاکٹر عبدهللا قاضی علی اکبر گیالنی پروفیسر علی حسن چوہان ڈاکٹر عطالرحمن فیصل فارانی ڈاکٹر گوہر نوشاہی ڈاکٹر مبارک احمد محبوب عالم مشیر کاظمی ڈاکٹر محمد امین پرفیسر محمد رضا مدنی مہر افروز کاٹھیاواڑی مہر کاچیلوی ڈاکٹر منیرالدین احمد پروفیسر نیامت علی
ندیم شعیب ڈاکٹر وزیر آغا ڈاکٹر وفا راشدی ڈاکٹر وقار احمد رضوی وی بی جی یوسف عالمگیرین پروفیسر یونس حسن اردو شاعری سے تراجم کرنے والے محترم حضرات انگریزی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلدیو مرزا پنجابی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پروفیسر امجد علی شاکر‘ نصرهللا صابر گرمکھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر اسلم ثاقب پشتو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علی دیپک قزلباش سندھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مہر کاچیلوی شاعری ڈازائین کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آمنہ رانی رباعیات خیام کے سہ مصرعی ترجمے کو بڑی پذیرائی حاصل ہوئی نامور اہل قلم نے اپنی رائے کا اظہار کیا- مثال
ڈاکٹر عبدالقوی ضیا کینیڈا ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی ڈاکٹر ابوسعید نورالدین‘ ڈھاکہ‘ بنگلہ دیش ڈاکٹراسلم ثاقب‘ مالیر کوٹلہ‘ بھارت ڈاکٹر اختر علی ڈاکٹر وفا راشدی ڈاکٹر صابر آفاقی ڈاکٹر منیرالدین احمد‘ جرمنی انڈیا ‘پروفیسر کلیم ضیا‘ بمبئی پرفیسر رب نواز مائل پروفیسراکرام ہوشیار پوری پروفیسرامجد علی شاکر پروفیسر حسین سحر ڈاکٹر عطاالرحمن ڈاکٹر رشید امجد ڈاکٹر محمد امین علی دیپک قزلباش سید نذیر حسین فاضل حرفی خطابات آل عمران بہت زبردست آدمی
ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری اہل نظر ڈاکٹر اختر شمار ممتاز لکھاری اسماعیل اعجاز علم و ادب کا بہتا دریا ڈاکٹر انور سدید اردو کے مایہءناز ادیب انیس شاہ جیالنی کمال بزرگ ڈاکٹر ایلن جان ہائی لی موٹی وئیٹڈ ایم ارشد خالد بڑے کام کا آدمی پرفیسر اکرام ہوشیارپوری بیدار مغز ادیب وشاعر میاں بدر انجم بڑا لکھاری ثقلین احمد عطر فروش
ڈاکٹر تبسم کاشمیری گودڑی کا لعل‘ بلھے کا مور جی کے تاج نرم دل انسان ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی تحقیق پسند 'ہمہ جہت ادیب ڈاکٹر ذوالفقار دانش ہمہ جہت شخصیت رانا سلطان محمود عظیم قومی سرمایہ پروفیسر رمضانہ برکت چلتا پھرتا انسکلوپیڈیا ریسا کیسٹل مین وڈ ویزڈم رینجنا ڈس سویث پرسن سرور عالم راز بڑے نثر نگار ،عظیم نقاد ،اچھے شاعر ،باکمال انشائیہ نویس بہت بڑے انسان
ڈاکٹر سعادت سعید استاداالساتذہ اردو کی ترویج و ترقی میں ڈاکٹر سید عبدهللا کے بعد کا شخص شاہ سوار علی ناصر گامو سوچیار سوی عباس گریٹ مین ڈاکٹر صفدر حسین برق شعر کی دنیا میں ایک شخص پیغمبر نکال ڈاکٹر صابر آفاقی معروف محققوں میں‘ سرفہرست ضیغم رضوی روایت شکن ڈاکٹر عبداالقوی ضیا علیگ شخصیت میں مقصدیت اور معروضیت
ڈاکٹر عطاالرحن نامور محقق پروفیسر علی حسن چوہان اپنی ذات میں ایک انجمن ڈاکٹر غالم شبر رانا عظیم داشور‘ ہمالہ کی سر بہ فلک چوٹی ڈاکٹر کرنل غالم فرید بھٹی باصالحیت ساتھی غالم مصطفے بسمل بلند پایہ حقائق نگار کالمنگ میلوڈی فراخ طبیعت اور مزاج‘ فراخ دل کرشنا دیو ہمیشہ الگ سے سوچنے واال ڈاکٹر گوہر نوشاہی باشعور تخلیق کار ڈاکٹر محمد امین خالق ذہن‘ فعال شخصیت‘ جدت پسند پروفیسر محمد رضا مدنی بگ گن
مشیر شمی شگفتہ قلم ڈاکٹر مظفر عباس ہمہ جہت شخصیت‘ ہمہ جہت تخلیق کار مثل سر سید معراج جامی سید فعال اور متحرک شخصیت ڈاکٹر معین الرحمن‘ سید معنی یاب اور محنتی متن شناس ڈاکٹر مقصود الہی شیخ بڑے مالپڑے نابغہءروزگارشخصیت پروفیسر منور غنی درویش صفت ناصر زیدی قابل ذکر شخصیت‘ ہمہ جہت اہل قلم ڈاکٹر نجیب جمال آزمودہ کار محقق و نقاد ' نایاب شخص
ڈاکٹر نوریہ بلیک شفیق اور مہربان انسان پروفیسر نیامت علی لوجک اور ریسرچ سے روایت شکنی کرنے واال واہیو سورنو ویری گڈ لیڈر ڈاکٹر وقار احمد رضوی ادیب شہیر ڈاکٹر وفا راشدی محنتی حرف کار‘ دائروں سے باہر کا شخص پروفیسر یاسمین تبسم عدیم المثال شخصیت
میرے استاد میرے دوست میرے بزرگ مقصود حسنی مجھ سے پوچھا گیا‘ کہ آپ نے زندگی میں‘ کن کن اساتذہ سے علمی استفادہ کیا ہے۔ وقت‘ حاالت‘ حاجات اور حضرت بےغم صاحب سے بڑھ کر‘ آدمی کس سے سیکھ سکتا ہے۔ اس سے تشفی نہ ہوئی۔ شاید ہر چہار کی ‘سوال کرنے والے کی استادی کو‘ وہ ناقص سمجھتے ہوں گے۔ حضرت بےغم صاحب تو میری زندگی میں ١٩٧٢میں آئیں‘ اور پھر مسلسل اور متواتر آتی ہی چلی گیئں۔ ان کے مزید آنے کے امکان کو رد نہ کیا جائے۔ ان سے پہلے بھی تو لکھتا پڑھتا تھا۔ اپنی رائے کا اظہار کرتا تھا۔ اس لیے المحالہ ١٩٧٢سے پہلے بھی تو میری زندگی میں استاد آئے ہوں گے۔ والد صاحب مرحوم جو میرے پیر ‘یہ کوئی ١٩٥٨کی بات ہو گی و مرشد بھی تھے‘ سکول چلے آئے اور ماسٹر صاحب سے میری تعلیمی حالت پوچھی۔ دراز قامت کے ماسٹر صاحب نے‘ بالمروت جواب میں ارشاد فرمایا :خلیفہ ہے۔ کہنے کو تو وہ یہ کہہ گیے‘ لیکن میری حالت مت پوچھیے۔ قبلہ گاہ تو چپ چاپ چلے گیے۔ جواب میں کیا کہتے۔ میرا خیال تھا‘ کہ آج خیر نہیں۔ خوب مرمت کریں گے۔ شام کو‘ جب وہ گھر
تشریف الئے‘ میرا خون خشک ہو گیا۔ معاملے کا نتیجہ میرے اندازے سے قطعی برعکس نکال۔ مجھے پاس بٹھایا‘ پیار کیا۔ جیب سے ٹانگر نکال کر‘ کھانے کو دیے۔ صبح کی بات‘ مجھے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اس دن کے بعد‘ میرے ساتھ ‘نہ جتائی خصوصی شفقت فرمانے لگے۔ مجھے اپنے ساتھ ساتھ رکھتے۔ بیٹھک میں کوئی آ جاتا‘ تو پاس بٹھا لیتے۔ باتیں کرتے‘ گلستان یا ‘سے کہاوتیں سناتے۔ میں ان کے ساتھ سونے لگا۔ پڑھنے کتابیں لے کر آنے کو‘ کبھی نہ کہا۔ بڑوں کی محفل میں بیٹھنا‘ مجھے اچھا لگتا۔ پہلے سنتا تھا۔ پھر میرے قبلہ گاہ نے‘ سوال کرنے کی عادت ڈالی۔ جہاں الجھتا‘ سوال کرتا۔ میں اپنے قبلہ گاہ کے ساتھ رہتے ہوئے‘ بڑوں کی صحبت سے لطف اندوز ہوتا۔ بڑے مجھ سے سوال بھی کرتے‘ میں ان کے سوال کا اعتماد سے جواب دیتا۔ جواب غلط ہوتا یا صحیح‘ کچھ یاد نہیں۔ انہوں نے منع کیا تھا‘ کہ کسی بھی آنے والے سے‘ اس کے اصرار کے باوجود‘ کچھ لینا نہیں۔ ہاں مجھ سے مانگنے میں‘ تکلف نہ کرنا۔ مزے کی بات‘ وہ میری ہر ضرورت کو بھانپ لیتے‘ اور مجھے مانگنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ گھر کے حاالت بہتر نہ تھے‘ میٹرک کا امتحان دینے کے فورا بعد‘ انہوں نے مجھے الئل پور موجودہ فیصل آباد میں‘ اپنے ایک دوست کے توسط سے‘ اقبال ٹرانسپورٹ میں مالزمت دلوا دی۔ وہاں محمد حسن بخاری بھی مالزم تھے۔ موصوف‘ ساٹھ سال کی عمر سے زیادہ تھے۔ بڑے شفیق اور مہربان تھے۔ مجھے لکھنے‘ پڑھنے اور دریافت کرنے کی عادت تھی۔ وہ میری حوصلہ افزائی فرماتے۔ انہوں نے میری تحریروں پر لکھا
جو آج بھی میرے پاس موجود ہے۔ کتابت شدہ مسودہ بھی ‘بھی کہیں ناکہیں پڑا ہو گا۔ پرچم نام کا ایک مقامی رسالہ شائع ہوتا تھا۔ میں اس رسالے کا نمائندہ بن گیا۔ بعد ازاں‘ اقبال ٹرانسپورٹ سے مالزمت چھوز کر‘ چناب ٹرانسپورٹ میں آ گیا۔ یہاں بھی میرا پاال ساٹھ سال کی عمر سے زائد شخص کے ساتھ پڑا۔ ان کے ساتھ کچھ زیادہ وقت نہ رہا‘ تاہم جتنا عرصہ رہا‘ سہراب صاحب سے بہت کچھ سیکھا۔ سہراب صاحب بڑے سخت اور اصول پرست آدمی تھے۔ غلطی پر درگزر کرنے کی بجائے‘ ڈانٹ پالتے۔ اس وقت تو برا لگتا تھا‘ بعد میں معلوم ہوا کہ ان کی ڈانٹ بڑے کام کی چیز تھی۔ میٹرک کے رزلٹ کی اطالع‘ میرے قبلہ گاہ نے دی۔ میڑک میں اور ‘کامیابی حاصل کر لینا‘ میرے لیے بڑی معنویت کی بات تھی یقین ہو گیا‘ کہ اب میں خلیفہ نہیں رہا۔ قبلہ گاہ نے‘ مجھے بزگوں کی محفل میں بیٹھنے کی عادت ڈال دی تھی۔ مجھے اپنی عمر کے لڑکوں کے ساتھ مل کر بیٹھنا‘ خوش نہیں آتا تھا۔ شاید میں نویں جماعت میں تھا‘ میرے قبلہ گاہ نے یہ بات میرے دل و کہ اگر زندگی میں کچھ کرنا ہے‘ تو ‘دماغ میں باندھ دی تھی کسی لڑکی سے عشق نہیں کرنا۔ اگر عشق کرنا ہے‘ تو هللا سے کرو‘ هللا باقی رہنے واال ہے‘ تم بھی باقی رہو گے۔ میں ناچیز هللا سے عشق کے کب قابل تھا‘ ہاں کسی خاتون کے عشق کے منہ نہ لگا۔ ہو سکتا ہے‘ میں کسی خاتون کی پسند کے قابل نہ تھا۔ کسی خاتون کو پسند کرنے کے لیے‘ میرے پاس وقت ہی نہ تھا۔ ہاں خواتین سے نفرت بھی نہ تھی۔ حضرت والدہ ماجدہ سے عشق کرتا تھا۔ چھوٹی بہن نصرت شگفتہ‘ میری پسندیدہ سہیلی
تھی۔ ہم دونوں آپس میں خوب موج مستی کرتے‘ تاہم ہمارے باہمی شور شرابے اور کھیل کود سے‘ گھر کے دوسرے لوگ ڈسٹرب نہ ہوتے تھے۔ ہم اپنے منہ کا لقمہ‘ ایک دوسرے کو کھال کر‘ خوشی محسوس کرتے۔ میرے قبلہ گاہ کے‘ فوج میں کوئی صاحب واقف تھے۔ میں اے ایم سی میں‘ باطور نرسنگ اسسٹنٹ بھرتی ہو گیا۔ ٹرینگ کے بعد‘ سی ایم ایچ کھاریاں آ گیا۔ وہاں سے‘ کچھ عرصہ بعد‘ سی ایم ایچ حیدرآباد تبادلہ ہو گیا۔ سی ایم ایچ حیدرآباد میں‘ شگفتہ الہوتی باطور پینٹر مالزم تھے۔ ان کے پاس‘ شہر کے شاعر ادیب آتے رہتے تھے۔ بزرگ وضع دار اور خوش گو تھے یہ ہی وجہ ہے‘ کہ سب ان کی عزت کرتے تھے۔آنے والے انہیں استاد مانتے تھے۔ میں ان کے ہاں تقریبا روزانہ جاتا۔ جب جاتا‘ کوئی ناکوئی آیا ہوتا اور اپنا کالم سنا رہا ہوتا۔ اس طرح میں بھی آنے والے کے کالم سے لطفف اندواز ہوتا۔ مجھے ان کے اصالح کے اطوار سے بھی آگاہی ہوتی۔ دو تین بار مجھے اکیلے میں ملنے کا اتفاق ہوا۔ بڑی شفقت سے‘ کالم کی اصالح کی اور اصالح شدہ کالم دو تین بار مجھ سے سنا۔ کسی اگلی نشت میں‘ جب پانچ سات لوگ آئے ہوتے مجھ سے کالم سنانے کی فرمائش کرتے۔ میں وہ ہی اصالح شدہ کالم‘ سنا دیتا۔ دل کھول کر داد دیتے۔ اس طرح محفل میں سنانے کی عادت پڑ گئی۔ رائی بھر جھجھک حیدرآباد کے معروف صحافی افسانہ ‘محسوس نہ ہوتی۔ یہاں ہی جو برسوں چلی۔ ‘نگار احمد ریاض نسیم سے مالقات ہوئی حیدرآباد سے میرا تبادلہ‘ سی ایم اییچ بہاول پور ہو گیا۔ یہاں
مجھے ایک جاروب کش سے مالقات کا موقع مال‘ اور میں نے ان سے زندگی کا حقیقی چلن سیکھا۔ ان سے ملنے کے لیے‘ مجھے تھوڑا اوپر سے آنا پڑتا تھا تاہم‘ میں ان سے ملے بغیر‘ ڈیوٹی پر نہ جاتا تھا۔ ہماری مالقات فقط ایک لمحے کی ہوتی۔ میں چلتے چلتے ان سے پوچھتا :کیا حال ہے سائیں بادشاہ جواب میں‘ وہ جھاڑو زمین پر رکھ دیتے‘ اور ہاتھ جوڑ کر میں نئیں هللا بادشاہ ‘فرماتے :نئیں باباجی یہ سن کر میں آگے بڑھ جاتا۔ اس کلمے سے مجھے قلبی سکون میسر آتا۔ ١٩٧٢ میں‘ میری شادی زیب النسا سے کر دی گئی۔ وہ مر گئی ہے‘ اور میں نے مرنا ہے‘ سچی بات تو یہ ہے کہ مرحومہ بڑی صابر‘ لیکن عادت کے ‘قناعت پسند اور شفیق عورت تھی۔ ان پڑھ تھی حوالہ سے‘ پڑھے لکھوں سے‘ کہیں بڑھ کر تھی۔ عمر زیادہ ہونے کے باعث‘ ابتدا میں میرا رویہ بہتر نہ رہا لیکن وہ سب بڑے حوصلے سے‘ برداشت کر جاتی۔ ایک دن میں نے سوچا‘ اس میں اس بےچاری کا کیا قصور ہے۔ میں نے خود کو یکسر ہمیں چاند سا بیٹا‘ سید کنور ‘بدل دیا۔ هللا نے عنایت فرمائی عباس عطا کیا۔ پھر تو سب کچھ ہی بدل گیا۔ اس کے بعد‘ زیب النسا مجھے دنیا کی سب سے پیاری عورت محسوس ہونے لگی۔ میں یہ تسلیم کرنے میں قطعی شرمندگی محسوس نہیں کرتا‘ عجز انکسار اور برداشت کا مادہ‘ زیب النسا سے مال۔ هللا اسے‘ قبر میں کروٹ کروٹ سکون عطا فرمائے۔
شاید ہی کوئی دن ہو گا‘ جس دن میں نے کچھ پڑھا یا لکھا نہ ہو یہ شغل خیر جاری رکھتا۔ دوستوں ‘گا۔ بیماری کی حالت میں بھی تو بھی کوئی ناکوئی معاملہ گفتگو میں رہتا۔ ‘سے مالقات رہتی رسائل میں چھپنے کے باعث‘ بہت سے اہل قلم سے میرا رابطہ اعظم ‘ہو گیا۔ احمد ریاض نسیم سے میرا قلمی رابطہ تو تھا ہی یاد جو ١٩٥٩سے لکھ رہے تھے‘ خط و کتابت رہی۔ اس دور ‘میں بڑا مانا ہوا نام تھا۔ ملک شاہ سوار ناصر‘ ایم اے علی کوکب مظہر خاں وغیرہ خط و کتابت میں آ گیے۔ میرے قبلہ گاہ کا اصرار تھا‘ کہ میں مزید پڑھوں۔ ان کی ہدایت اور نصیحت پر‘ میں نے پڑھنا شروع کیا۔ کالج کا پروفیسر ہونا‘ ١٩٨٥کو ‘ان کا خواب تھا‘ اور یہ خواب ان کی زندگی ہی میں شرمندہءتعبیر ہوا۔ انہوں نے ١٩٨٨میں پردہ فرمایا‘ اور خلد نشین ہوئے۔ گورنمنٹ کالج نارنگ منڈی ہوئی۔ وہاں ‘میری پہلی تقرری پروفیسر مشتاق راحت‘ ڈاکٹر قیس اسلم‘ ‘پروفیسر امانت علی پروفیسر انور خاں اور پروفیسر رفیق مغل جیسے‘ لوگوں سے ہیلو ہائے ہوئی۔ ١٩٨٧ میں‘ گورنمنٹ اسالمیہ کالج قصور میں آ گیا۔ پروفیسر ارشاد صحافتی دورے پر رہتے تھے۔ مجھے بی اے کی ‘احمد حقانی تاریخ کا پریڈ دے دیا گیا۔
ڈاکٹر صادق جنجوعہ کا تبادلہ الہور ہو گیا‘ تو ایک عرصہ تک مجھے سال اول سے سال چہارم تک پنجابی پڑھانے کا موقع مال۔ گویا پنجابی اور تاریخ کے طلبا سے‘ میں نے بہت کچھ سیکھا۔ پروفیسر عالمہ عبدالغفور ظفر‘ ‘پروفیسر اکرام ہوشیارپوری پروفیسر ڈاکٹر عطاارحمن اور پروفیسر ڈاکٹر ظہور احمد میرے دوستوں میں تھے۔ بعد ازاں پروفیسر امجد علی ‘چودھری شاکر تشریف لے آئے تو ان سے بھی پیار اور دوستی کا رشتہ استوار ہوا۔ مختلف رسائل میں چھپنے کے سبب‘ اہل قلم سے رابطہ بڑھتا ڈاکٹر محمد امین ‘چال گیا۔ ان میں ڈاکٹر بیدل حیدری ڈاکٹر نجیب جمال‘ ڈاکٹر ‘ڈاکٹر اختر شمار ڈاکٹر وفا راشدی ‘ پروفیسر حفیظ ‘ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی ‘وقار احمد رضوی ‘تاج پیامی ‘ڈاکٹر تبسم کاشمیری ‘ڈاکٹر گوہر نوشاہی ‘صدیقی پروفیسر کلیم ضیا‘ ڈاکٹر مظفر عباس‘ ڈاکٹر منیر الدین احمد‘ ‘ڈاکٹر عبدالقوی ضیا‘ ڈاکٹر آغا سہیل‘ ڈاکٹر سید اسعد گیالنی ‘موالنا نعیم صدیقی ‘ڈاکٹر قاسم دہلوی ‘ڈاکٹر فرمان فتح پوری موالنا وصی مظہر ندوی وغیرہم سے قلمی رابطہ رہا۔ ڈاکٹر سعادت سعید‘ ڈاکٹر انیس ناگی اور مبارک احمد‘ کی سرگرمیاں میری توجہ کا مرکز رہیں۔
الہور فٹ پاتھ پر سے کتابیں خریدنے جاتا تو ڈاکثر سہیل احمد خاں اور ڈاکٹر سید معین الرحمن سے ضرور ملتا۔ ڈاکٹر تحسین فراقی سے خط و کتابت اور مالقات بھی رہی۔ ڈاکٹر نور العالم‘ مستقل نمائندہ یو این او صوفی ہیں۔ ان سے میرا محبت اور خلوص کا رشتہ رہا۔ ان کی محبت کا ثمرہ ہے‘ جو میں نے تصوف کے حوالہ سے‘ مضامین لکھے‘ جو www.scribd.com
پر موجود ہیں۔ ایمان داری کی بات یہ ہی ہے‘ کہ جہاں حاالت اور وقت نے سکھایا‘ وہاں میں نے ان لوگوں سے بھی بہت کچھ سیکھا۔ یہ سب میرے لیے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ میں نے جو بھی ناچیز سا کام کیا ہے‘ سب ان کی محبتوں اور عطاوں کا پھل ہے۔ مجھے بہت کچھ ‘سچ پوچھیے‘ تو انار کلی فٹ پاتھ نے بھی سکھایا ہے۔
مقصود حسنی اور برصغیر کا مضافاتی اور مغربی ادب محبوب عالم ۔۔۔۔۔۔۔ قصور پروفیسر مقصود حسنی اردو کے جدید وقدیم شعری و نثری ادب کے مطالعہ تک محدود نہیں ہیں۔ انہوں نے برصغیر سے باہر بھی دیکھا ہے۔ ان کے ہاں اس ذیل کے مختلف ذائقے نظر آتے ہیں۔ وہ ان تمام عوامل کا بھی جائزہ لیتے ہیں جو اس کے بنیادی فکر اور زبان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس مطالعے کی پانچ صورتیں دیکھنے کو ملتی ہیں انفرادی ١- مجموعی ٢- تقابلی ٣- رجحانی ٣- تشریحی اور وضاحتی ٥- اردو ادب سے متعلق ان کی خدمات نمایاں اور مختلف گوشوں پر پھیلی ہوئی ہیں جنھیں اردوادب کے نامورمحقق سند پذیرائی عطا کر چکے ہیں۔ برصغیر سے باہر کے ادب کے مطلعہ کی دو صورتیں ہیں ایشیائی شعر وادب مغربی شعر وادب ڈیوڈ کوگلٹی نوف نمائندہ روسی شاعر ہے۔ اس کی شاعری کے مطلعہ کا باباجی مقصود حسنی کے ہاں حاصل مطلعہ کچھ یہ ہے ڈیوڈ شر کے مقابل خیر کی حمایت کا قائل ہے۔ اس کے نزدیک
خیر کی حمایت ہی حقیقی زندگی ہے۔ خیر کی حمایت کرنے والے بظاہر لمبی عمر نہیں پاتے۔ دار ورسن ان کا مقدر ہوتا ہے لیکن خیر کی حمایت میں گزرے لحمے ہی تو ابدیت سے ہم کنار ہوتے ہیں۔ شعریات شرق وغرب ص٢٢٧ روس میں ترقی پسندی کے نام سے اٹھنے والی تحریک کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا۔ اس ذیل میں ایک بھرپور مقالہ۔۔۔۔۔۔ترقی پسند تحریک۔۔۔۔۔۔ ان کی کتاب تحریکات اردو ادب میں شامل ہے۔ فینگ سیو فینگ چینی زبان کا خوش فکر شاعر ہے۔ باباجی مقصود حسنی نے ناصرف اس کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ پیش کیا ہے بلکہ اس کی کچھ نظموں کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ فینگ سیو فینگ کی شاعری کے متعلق ان کا کہنا ہے فینگ سیو فینگ کی شاعری کرب ناک لمحوں کی عکاس ہے۔ اس کے کالم میں جہاں لہو لہو سسکیاں ہیں تو وہاں امید کے بےشمار دیپ بھی جلتے نظرآتے ہیں۔ روزنامہ نوائے وقت الہور -٧اپریل ١٩٨٨ بطور نمونہ ایک نظم کا ترجمہ مالحظہ ہو شاعر :فینگ سیو فینگ مترجم :مقصود حسنی میں بد قسمتی پہ اک نظم لکھنے کو تھا
مری آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے کاغذ بھر گیا اور میں نے قلم نیچے رکھ دیا کیا اشکوں سے تر کاغذ لوگوں کو دکھا سکتا تھا؟ وہ سمجھ پاتے یہی تو بد قسمتی ہے زائی زی لیو چینی مصور تھا۔ باباجی مقصود حسنی کواس کی مصوری نے متاثر کیا۔ انہوں نے اس کےتصویری ورک کو قدر کی نظر سے دیکھا اوراسے خراج تحسین پیش کیا۔ ان کا اس کی مصوری سے متعلق مضمون رزنامہ مشرق الہور میں شائع ہوا۔ چین سے باباجی کی فکری قربت کااندازہ ان کے مضمون۔۔۔۔۔چین دوستی عالقہ میں مثبت کردار ادا کر سکتی ہے۔۔۔۔۔ سے لگایا جا سکتا ہے۔ یہ مضمون روزنامہ مشرق الہور ٩اپریل ١٩٨٨کی اشاعت میں شامل ہے۔ صادق ہدایت فارسی کا ناول نگار تھا۔ اس کے ناول۔۔۔۔ بوف کور۔۔۔۔۔ کا مطالعہ پیش کیا۔ ان کا یہ مضمون ماہنامہ تفاخر الہور کے مارچ ١٩٩١کے شمارے مینشائع ہوا۔ فارسی کے پاکستانی زبانوں پر اثرات۔۔۔۔ تین اقساط میں اردو نیٹ جاپان پر شائع ہوا۔
عمر خیام فارسی کے شعری ادب میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ باباجی نے اس پر بھرپور قسم کا کام کیا ہے۔ یہ کام چھے حصوں پر مشتمل ہے عمر خیام سوانح و شخصیت اوراس کا عہد ١- رباعیات خیام کا تنقیدی و تشریحی مطالعہ ٢- رباعیات خیام کے شعری محاسن ٣- عمر خیام کے نظریات واعتقادات ٤- عمر خیام کا فلسفہءوجود ٥- سہ مصرعی اردو ترجمہ رباعیات خیام ٦- ان کے اس ترجمے کو بڑی پذیرائی حاصل ہوئی نامور اہل قلم نے اپنی رائے کا اظہار کیا -مثال ڈاکٹر عبدالقوی ضیا کینیڈا ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی ڈاکٹر حسرت کاسگنجوی ڈاکٹر ابوسعید نورالدین‘ ڈھاکہ‘ بنگلہ دیش ڈاکٹراسلم ثاقب‘ مالیر کوٹلہ‘ بھارت ڈاکٹر اختر علی ڈاکٹر وفا راشدی ڈاکٹر صابر آفاقی ڈاکٹر منیرالدین احمد‘ جرمنی انڈیا ‘پروفیسر کلیم ضیا‘ بمبئی پرفیسر رب نواز مائل پروفیسراکرام ہوشیار پوری پروفیسرامجد علی شاکر
پروفیسر حسین سحر پروفیسر عطاالرحمن ڈاکٹر رشید امجد ڈاکٹر محمد امین علی دیپک قزلباش سید نذیر حسین فاضل بطور نمونہ ایک رباعی کا ترجمہ مالحظہ ہو کیا خوب زندگی ہو گی ‘وہ زندگی مری مٹی سے تعمیر ہو کر جام‘ جب مےکدے سے طلوع ہو گا بوعلی قلندر کا اسی دھرتی سے تعلق تھا۔ باباجی نے ان کی مثنوی کا عہد سالطین کے حوالہ سے مطالعہ کیا۔ ان کایہ مقالہ پیام آشنا میں شائع ہوا جو بعد ازاں بابا جی کی کتاب ۔۔۔۔۔شعریات شرق وغرب۔۔۔۔۔۔کا حصہ بنا۔ اقبال اور عالمہ رازی کی فکر۔ کا تقابلی مطالعہ۔۔۔۔۔۔یہ مقالہ بابا جی کی محنت وکاوش کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ یہ مقالہ اردو انجمن اور کئی دوسرے فورمز پر موجود ہے۔ ان کا ایک مقالہ۔۔۔۔۔عربی کے پاکستانی زبانوں پر اثرات۔۔۔بڑا شاندار مقالہ ہے اور یہ www.scribd.com
پر موجود ہے۔
انہوں نے جاپانی آوازوں کے نظام پر تفصیلی مقالہ تحریر کیا۔ اس مقالے کا کچھ حصہ اردو میں بھی منتقل کیا۔ اصل مقالہ www.scribd.com
پر موجود ہے۔ اس کا اردو ترجمہ تین قسطوں میں اردو نیٹ جاپان پر شائع ہوا۔ اس مقالے کی نگرانی وغیرہ پروفیسر ڈاکٹر ماسا آکی اوکا نے کی۔ اس مقالے کا اصل کمال یہ ہے کہ جاپانی آوازوں کے ساتھ برصغیر کی آوازوں کے اشتراک کو بھی واضح کیا گیا ہے۔ ہر جاپانی آواز کے ساتھ اردو کی آوازوں کا موازناتی اوراشتراکی مطالعہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے۔ مطلعہ کی پیاس انہیں دور مغرب میں بھی لے گئی۔ باباجی نے اپنے مطالعہ میں آنے والے اہل قلم کی فکر کو اپنی آراء کے ساتھ اردو دان طبقے کے سامنے بھی پیش کیا۔ اس حوالہ سے باباجی کو کسی ایک کرے تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نےمغرب کا مطالعہ ارسطو سے شروع کیا۔۔۔۔ شاعری پر ایک عام اور بالموازنہ نظر۔۔۔۔۔ مقالہ ان کی کتاب اصول اور جائزے میں شامل ہے۔ مغرب کے مطالعہ کے حوالہ سے ان کے درج ذیل مضامین قابل ذکر ہیں ایلیٹ اور ادب میں روایت کی اہمیت۔۔۔۔۔۔مسودہ شیلے کا نظریہءشعر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مشمولہ شعریات شرق وغرب جان کیٹس کا شعور شعر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق وغرب شارل بودلیئر کا شعری شعور۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق وغرب شارل بودلیئر اور اردو کی نئی نظم۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق
وغرب ژاں پال سارتر اور اردو کی نئی نظم۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق وغرب کروچے اور اردو کی نئی نظم۔۔۔۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق وغرب ورڈزورتھ اور اردو کی نئی نظم۔۔۔۔۔۔مشمولہ شعریات شرق و غرب مغربی اہل سخن پر بات کرتے ہوئے اردو شعرا کے حوالے بھی درج کرتے ہیں۔ اکثر موازناتی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ امر بھی غالب رہتا ہے کہ اردو شعر و ادب مغرب کے شعر ادب سے زیادہ جان دار اور زندگی کے دکھ سکھ کو واضح کرنے میں کامیاب ہے۔ باباجی مقصود حسنی مغربی شعر و ادب کا جائزہ لیتے ہوئے صرف شخصی محاکمے تک محدود نہیں رہتے۔ وہ مجموعی مطالعہ بھی پیش کرتے ہیں۔ اس ذیل میں ان کے یہ مقالے قابل توجہ ہیں مغرب میں تنقید شعر------مشمولہ شعریات شرق و غرب ١- ناوریجین شاعری کے فکری و سماجی زاویے------مشمولہ ٢- شعریات شرق و غرب شاعری اور مغرب کے معروف ناقدین۔۔۔۔۔۔۔۔مسودہ ٣- اقبال اور مغربی مفکرین ---------مسودہ ٤- اکبر اور مغربی تہذیب۔۔۔۔۔روزنامہ وفاق الہور ٢٦-٢٥جوالئی ١٩٩١ اکبر اقبال اور مغربی زاویے۔۔۔۔۔ہفت روزہ فروغ حیدرآباد ١٦ جوائی ١٩٩١
شیلے اور زاہدہ صدیقی کی نظمیں۔۔۔۔ ماہنامہ تحریریں الہور دسمبر ١٩٩٣ انگریزی اور اردو کا محاورتی اشتراک ۔۔۔۔۔سہ ماہی لوح ادب حیدرآباد اپریل تا جون ٢٠٠٤ جرمن شاعری کے فکری زاویے ٥- باباجی کی یہ کتاب ١٩٩٣میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب سات حصوں پر مشتمل ہے۔ اس کی تفصیل کچھہ یہ ہے ا -جرمن شاعری اور فلسفہء جنگ ب -جرمن شاعری اور تصور انسان ج -جرمن شاعری کا نظریہء محبت د۔ جرمن شاعری کا نظریہءزندگی ھ -جرمن شاعری اور فلسفہءفنا و۔ جرمن شاعری اور امن کی خواہش ظ -جرمن شاعری اور انسانی اقدار جرمن قوم کے حوالہ سے ان کا ایک مضمون بعنوان جرمن ایک خودشناس قوم‘ کے نام سے روزنامہ مشرق الہور کی اشاعت ٥ مئی ١٩٨٨میں شائع ہوا۔ اس سے اندازہ ہوتا کہ وہ جرمن قوم کو فکری اعتبار سے کس قدر اپنے قریب محسوس کرتے تھے۔ اس کے عالوہ بابا جی مقصود حسنی نے مغربی ادب میں اٹھنے والی معروف تحریکوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا۔ اس حوالہ سے ان کی کتاب تحریکات اردو ادب میں حسب ذیل مقالے موجود ہیں۔ یہ کتاب ١٩٩٧میں شائع ہوئی۔ شعور کی رو اور اردو فیکشن
فطرت نگاری اور اردو فیکشن عالمتی تحریک اور اردو شاعری امیجزم اور اردو شاعری ڈاڈا ازم اور اردو شاعری سریلزم اور اردو شاعری نئی دنیا اور رومانی تحریک وجودیت ایک فلسفہ ایک تحریک ساختیات کے حوالہ سے باباجی نے بہت کام کیا ہے۔ دو مقالے ان کے پی ایچ ڈی کے مقالہ میں موجود ہیں جب کہ ایک مقالہ ان کی کتاب۔۔۔۔۔زبان غالب کا لسانی و ساختیاتی مطالعہ۔۔۔۔۔۔ میں موجود ہے۔ مقالہ پی ایچ ڈی اور کتاب۔۔۔۔۔زبان غالب کا لسانی و ساختیاتی مطالعہ۔۔۔۔۔۔ میں نشانیات غالب کا ساختیاتی مطالعہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ حضرت بلھے شاہ قصوری کا اردو کالم علیحدہ کرتے ہوئےانہوں نے حضرت بلھے شاہ قصوری کی زبان کا لسانی مطالعہ پیش کیا ہے۔ ان کے اس مطالعے کو ڈاکٹر محمد امین نے کسی شاعر کا باقاعدہ پہال ساختیاتی مطالعہ قرار دیا ہے۔ اردو شعر -فکری و لسانی رویے ١٩٩٧ص ١١٥ باباجی مقصود حسنی کی کتاب اردو میں نئی نظم مغربی شاعری کے تناظر میں قلم بند ہوئی۔ اس میں ایک طرح سے مغربی نظم اور اردو نظم کا تقابلی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ ان کی یہ کتاب مئی ١٩٩٣میں شائع ہوئی۔
منیرالدین احمد ایک اردو افسانہ نگار ہیں۔ ان کے افسانوں کی زبان اردو ہے لیکن مواد یہاں کی معاشرت سے متعلق نہیں ہے۔ کردار ماحول مکالمے نقطہءنظر وغیرہ قطعی الگ تر ہیں۔ اس ضمن میں باباجی نے منیر کا حوالہ بھی کوڈ کیا ہے جو کتاب کے پیش لفظ میں موجود ہے۔ منیر کا کہنا ہے :اردو میں لکھے جانے والے یہ جرمن افسانے ہیں جو جرمن روایت کے تحت لکھے گئے ہیں۔ گویا سب کچھ جرمن ہے۔ منیرالدین احمد کے افسانوں سے متعلق باباجی کی کتاب۔۔۔۔منیرالدین احمد کے افسانے -تنقیدی جائزہ ١٩٩٥میں شائع ہوئی۔ ابتدا میں منیرالدین احمد کے دس نمائندہ افسانوں کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ اس کے بعد تین عنوان قائم کئےگئے ہیں منیر کے چند افسانوی کردار منیر کے افسانوں میں ثقافتی عکاسی منیر اپنے افسانوں میں منیرالدین احمد کےافسانوں کا مطالعہ گویا جرمن افسانوں کا مطالعہ ہے۔ باباجی کی ان کاوش ہا کے متعلق معروف اسکالر ڈاکٹر سعادت سعید کا کہنا ہے :مقصود حسنی نے معاصر مغرب کے نظریاتی تنقیدی جوہروں سے گہری شناسائی رکھنے کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔ اس پس منظر میں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ادب شناسی کے حوالے سے مشرق و مغرب کی تفریق کو کار عبث جانتے ہیں۔ نئی مغربی تنقید کے پس پشت جو عوامل کار فرما ہیں ان کا بھی انھیں بخوبی اندازہ ہے۔ یوں انہوں نے پوسٹ کلونیل یا
مابعد نوآبادیاتی تنقید کے میکانکی رویوں سے نسبت رکھنے سے زیادہ اپنے مشرقی علم بیان کی سحر انگیریوں پر توجہ دی ہے۔ اس تناظر میں مقصود حسنی کی تاثراتی اور اظہاری تنقید کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ جس میں ان کے شعری و ‘ ٧ادبی ذوق کے عکسی مظاہرے موجود ہیں۔ اردو نیٹ جاپان جنوری ٢٠١٤ ان کے اس نوعیت کے مطلعے سےمتعلق بہت سے اہل قلم نے قلم اٹھایا۔ چند ایک اندراج کر رہا ہوں آشا پربھات ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری ڈاکٹر ابوسعید نورالدین ادیب سہیل پروفیسرامجد علی شاکر ڈاکٹر بیدل حیدری پروفیسر رب نواز مائل پروفیسر حفیظ صدیقی ڈاکٹر سعادت سعید شاہد حنائی ڈاکٹر صابرآفاقی ڈاکٹر صادق جنجوعہ علی دیپک قزلباش دہلی ‘ڈاکٹر قاسم دہلوی پروفیسر نیامت علی ڈاکٹر مظفر عباس
ڈاکٹر منیرالدین احمد‘ جرمن ندیم شعیب ڈاکٹر وفا راشدی ڈاکٹر وقار احمد رضوی پروفیسر یونس حسن درج باال تفصیالت سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ باباجی مقصود حسنی اپنی تحقیقی اور تنقیدی بصیرت کے سبب ہمہ وقت مختلف ادبی کروں کے نمائندہ حرف کار ہیں۔ ہر کرے میں ان کی ایک شناخت وجود پذیر ہوتی ہے۔ اسی تناظر میں انہیں ادب کی دنیا کا لیجنڈ قرار دینا‘ کسی بھی حوالہ سے غلط نہ ہو گا۔ آتے کل کو ان کی ادبی شناخت کے لیے مروجہ اور مستعمل پیمانوں سے انحراف کرنا پڑے گا۔
مقصود حسنی کے تنقیدی جائزے۔۔۔۔۔ ایک تدوینی مطالعہ محبوب عالم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قصور تخلیق‘ تنقید اور تحقیق انسانی فطرت کا حصہ ہیں۔ کچھ لوگ ان سے زیادہ قربت اختیار کرتے ہیں اور اپنی کاوششوں کو کاغذ پر منتقل کر دیتے ہیں یا انہیں عملی جامہ پہنا دیتے ہیں۔ ان کے برعکس کچھ لوگ ان صالحیتوں کا بہت ہی کم استعمال کرتے ہیں تاہم ان سے کچھ نہ کچھ نادانستہ طور پر ہوتا رہتا ہے۔ جس طرح سائنسی ایجادات زندگی میں آسودگی یا عدم تحفظ کا سبب بنتی ہیں‘ بالکل اسی طرح ادبی تخلیقات بھی انسانی زندگی پر اپنے اثرات چھوڑتی ہیں۔ انسانی رویوں‘ رجحانات اور ترجیحات میں تبدیلی التی ہیں۔ تخلیق ادب کے لیے جہاں ایک فکر انگیز احساس اور شعور کی ضرورت ہوتی ہے وہاں اس ادب کی جانچ اور پرکھ کے لیے اس سے قریب تر تنقیدی شعور بھی ہونا چاہیے۔ ادبی سرمائے کی صحیح تفہیم کے لیے تنقیدی شعور کا معقول ہونا ضروری ہے۔ تنقید اپنی اصل میں مطالعہ کا سلیقہ سکھاتی ہے۔ پروفیسر مقصود حسنی نے اپنی تمام عمر ادب کی خدمت کرتے گزاری ہے۔ انہوں نےتقریبا ہر صنف ادب پر عقابی نظر رکھی ہے۔ تنقید بھی ان کا میدان عشق رہا ہے۔ شرق و غرب کے اہل قلم کی کاوشوں کو جانچا اور پرکھا ہے۔ ان کی نہ صرف ادبی حیثیت و اہمیت کا تعین کیا ہے بلکہ اس کے ممکنہ سماجی اثرات کا بھی اندازہ پیش کیا ہے۔ یہ بھی کہ وہ کس سماجی
رویے یا رجحان کا نتیجہ ہیں‘ کا بھی ذکر کیا ہے۔ ادبی کاوشوں پر ان کا اظہار خیال کسی سطح پر نظر انداز نہ کیا جا سکے گا۔ باباجی مقصود حسنی کسی ادبی گروپ یا گروہ سے منسلک نہیں رہے۔ وہ کسی انسالک کے قائل بھی نہیں ہیں۔ انہوں نے جس تخلیق پر بھی اظہار خیال کیا ہے اپنا بندہ ہے‘ سے ہٹ کر کیا ہے۔ انہوں نے وہی لکھا ہے جو نظرآیا ہے یا جو انہوں نے محسوس کیا ہے۔ وہ ان تخلیقات کے سماجی معاشی اور نظریاتی حوالوں کو بھی دوران مطالعہ نظر میں رکھتے ہیں۔ وہ ان عوامل تک اپروچ کی کوشش کرتے ہیں جو وجہءتخلیق بنے ہوتے ہیں۔ تاریخ سے بھی باباجی شغف رکھتے ہیں‘ اس لیے وہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ زیر مطالعہ کاوش ادبی تاریخ کے کس مقام و مرتبے پر کھڑی ہے۔ مطالعہ کے دوران تقابلی صورت کو بھی فنی اور لسانی ‘زیر بحث التے ہیں۔ ادبی تخلیق کے فکری متوازن احاطہ باباجی کے تنقیدی رویوں کا امتیازی پہلو ہے اور انہیں دوسرے نقادوں سے ممتاز کرتا ہے۔ باباجی مقصود حسنی کی نظر فن پارے کے تخلیقی تحرک پر مرتکز رہتی ہے۔ وہ اس کھوج میں رہتے ہیں کہ کون کون سے عوامل تھے‘ جو اس کاوش کی تخلیق کا سبب بنے۔ وہ اس امر کو بھی نظر انداز نہیں کرتے کہ اس تخلیق کے اضافے سے ادب کا چہرا کیسا دکھائی دے گا۔ لسانیات چونکہ ان کی پسند کا میدان ہے‘ اس لیے وہ اس تخلیق کو لسانی حوالہ سے ضرور پرکھتے ہیں اور اس کی لسانی خوبیوں وغیرہ پر گفتگو کرتے
ہیں۔ ان کے نزدیک کوئی جملہ چاہے کسی جاہل کے منہ ہی سے کیوں نہ نکال ہو‘ لسانی حوالہ سے بےکار نہیں۔ اس میں کچھ نہ کچھ نیا ضرور ہوتا ہے۔ کوئی اصطالح میسرآ سکتی ہے جو پہلے استعمال میں نہیں آئی ہوتی۔ اس کا مقامی اور نیا تلفظ سامنے آ سکتا ہے۔ یہی وہ وجہ ہے کہ وہ اس تخلیق کے لسانی پہلو پر بھی نظر ڈالتے ہیں۔ ادب کی تنقیدی روایت میں جہاں انہوں نے انفرادی طور پر ادیبوں کی تخلیقات کو موضوع بنایا ہے وہاں تحقیقی اور تنقیدی کتب پر بھی احسن انداز میں گفتگو کی ہے۔ نفاست اور رکھ رکھاؤ کو ان کے مضامین کا طرہءامتیاز قرار دینا غلط نہ ہو گا۔ میں نے بصد کوشش ان کے پچاس سے زائد مطبوعہ و غیر مطبوعہ مضامین کو تالش کیا ہے۔ ممکن ہے ادبی تحیقیق کرنے والوں کے لیے کام کے ثابت ہوں۔ ان مضامین پر تحقیقی کام کرنے کی ضرورت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکےگا۔ ماہنامہ تفاخر الہور مارچ ١- بوف کور۔۔۔ایک جائزہ ١٩٩١ اکبر اقبال اور مغربی زاویے ہفت روزہ فروغ حیدرآباد ٢- ١٦ جوالئی ١٩٩١ اکبر اور تہذیب مغرب۔۔۔۔۔۔روزنامہ وفاق الہور ٢٥جوالئی ٣- ١٩٩١ نذیر احمد کے کرداروں کا تاریخی شعور ماہنامہ صریر ٤- کراچی مئی ١٩٩٢ کرشن چندر کی کردار نگاری ماہنامہ تحریریں الہور ٥-
جون۔جوالئی ١٩٩٢ اسلوب‘ تنقیدی جائزہ سہ ماہی صحیفہ الہور جوالئی تا ٦- ستمبر ١٩٩٢ پطرس بخاری کے قہقہوں کی سرگزشت ماہنامہ تجدید نو ٧- الہور اپریل ١٩٩٣ شیلے اور زاہدہ صدیقی کی نظمیں ماہنامہ تحریریں الہور ٨- دسمبر ١٩٩٣ شوکت الہ آبادی کی نعتیہ شاعری ماہنامہ االانسان کراچی ٩- دسمبر ١٩٩٣ میرے بزرگ میرے ہم عصر‘ ایک جائزہ ماہنامہ اردو ادب ١٠- اسالم آباد اپریل۔جون ١٩٩٦ یا عبدالبہا‘ تشریحی مطالعہ ماہنامہ نفحات الہور جوالئی ١١- ١٩٩٦ ڈاکٹر محمد امین کی ہائیکو نگاری ماہنامہ ادب لطیف ١٢- الہور اکتوبر ١٩٩٦ بیدل حیدری اردو غزل کی توانا آواز مشمولہ شعریات ١٣- شرق و غرب ١٩٩٦ کثرت نظارہ۔۔۔ایک منفرد سفرنامہ پندرہ روزہ ہزارہ ٹائمز ١٤- ایبٹ آباد یکم جوالئی ١٩٩٧ داستان وفا۔۔۔۔ایک مطالعہ ماہنامہ اردو ادب اسالم آباد ١٥- نومبر۔ دسمبر ١٩٩٧ شاہی کی کی شاعری کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ ١٦- مشمولہ کتاب اردو شعر۔۔۔فکری و لسانی رویے ١٩٩٧ ڈاکٹر بیدل حیدری کی اردو غزل مشمولہ کتاب اردو ١٧- شعر۔۔۔فکری و لسانی رویے ١٩٩٧
پروفیسر مائل کی اردو نظم مشمولہ کتاب اردو شعر۔۔۔فکری ١٨- و لسانی رویے ١٩٩٧ عالمہ مشرقی اور تسخیر کائنات کی فالسفی ہفت روزہ ١٩- االصالح الہور ٥تا ١٨مئی ١٩٩٨ ڈاکٹر منیر احمد کے افسانے اور مغربی طرز حیات ماہنامہ ٢٠- ادب لطیف الہور جنوری ١٩٩٩ ڈاکٹر منیر احمد کا ایک متحر کردار ماہنامہ الہور دسمبر ٢١- ١٩٩٩ حفیظ صدیقی کے دس نعتعہ اشعار ماہنامہ تحریریں الہور ٢٢- جوالئی ١٩٩٩ رئیس امروہوی کی قطعہ نگاری ماہنامہ نوائے پٹھان ٢٣- الہور جون ٢٠٠٢ ڈاکٹر وفا راشدی شخصیت اور ادبی خدمات ماہنامہ نوائے ٢٤- پٹھان الہور جون ٢٠٠٢ ڈاکٹر معین الرحمن۔۔۔ ایک ہمہ جہت شخصیت۔۔ مشمولہ نذر ٢٥- معین مرتب محمد سعید ٢٠٠٣ قبلہ سید صاحب کے چند اردو نواز جملے نوائے پٹھان ٢٦- الہور جوالئی ٢٠٠٤ مہر کاچیلوی کے افسانے۔۔۔۔۔تنقدی مطالعہ سہ ماہی لوح ٢٧- ادب حیدرآباد اپریل تا ستمبر ٢٠٠٤ اردو شاعری کا ایک خوش فکر شاعر ماہنامہ رشحات ٢٨- الہور جوالئی ٢٠٠٥ عابد انصاری احساس کا شاعر ماہنامہ رشحات الہور ٢٩- مارچ ٢٠٠٦ پروفیسر مائل کی غزل کی فکر اور زبان ماہنامہ رشحات ٣٠-
الہور اگست ٢٠٠٦ دل ہے عشقی تاج کا ایک نقش منفرد کتابی سلسلہ پہچان ٣١- نمبر٢٤ جدید اردو شاعری کے چند محاکاتکر ہماری ویب ڈاٹ کام ٣٢- اردو میں منظوم سیرت نگاری اردو نیٹ جاپان ٣٣- اختر شمار کی اختر شماری کتابت شدہ مسودہ ٣٤- سرسید اور ڈیپٹی نذیر احمد کی ناول نگاری کتابت شدہ ٣٥- مسودہ سرسید اردو۔ معروضی حاالت کے نظریے اساس کتابت ٣٦- شدہ مسودہ اردو داستان۔۔ تحقیقی و تنقیدی مطالعہ کتابت شدہ مسودہ ٣٧- تاریخ اردو۔۔۔ایک جائزہ کتابت شدہ مسودہ ٣٨- اکبر الہ آبادی تحقیقی وتنقدی مطالعہ کتابت شدہ مسودہ ٣٩- سروراور فسانہءعجائب ایک جائزہ کتابت شدہ مسودہ ٤٠- کرشن چندرایک تعارف کتابت شدہ مسودہ ٤١- صادق ہدایت کاایک کردار۔ کتابت شدہ مسودہ ٤٢- اختر شمار کی شاعری کے فکری زاویے کتابت شدہ ٤٣- مسودہ دیوان غاب کے متن مسلہ کتابت شدہ مسودہ ٤٤- سرسید تحریک اور اکبر کی ناگزیریت کتابت شدہ مسودہ ٤٥- ڈاکٹر سعادت سعید کے ناوریجین شاعری سے اردو تراجم ٤٦- کتابت شدہ مسودہ سوامی رام تیرتھ کی شاعری کا لسانی مطاعہ مسودہ ٤٧- اور شمع جلتی رہے گی روزنامہ مشرق الہور ١٨ستمبر ٤٨- ١٩٨٨
دو علما کی موت پر لکھا گیا ایک تاثراتی مضمون جو ٤٩- اسلوبی اعتبار سے بڑا جاندار ہے۔ ٥٠پیاسا ساگر۔۔۔ گلوکار مکیش کی موت پر لکھا گیا مضون ہفت روزہ اجاال الہور میں شائع ہوا کرشن چندر‘ منفرد ادیب۔۔۔ کرشن چندر کی موت پر لکھا ٥١- گیا۔ ہفت روزہ ممتاز الہور ١٨مئی ١٩٧٧ ڈاکٹر گوہر نوشاہی االدب گوگڈن جوبلی نمبر ١٩٩٧ادبی ٥٢- مجلہ گورنمنٹ اسالمیہ کالج قصور عالمہ طالب جوہری کی مرثیہ نگاری ٥٣- پروفیسر محمد رضا‘ شعبہءاردو گورنمنٹ اسالمیہ کالج سول الئنز الہورکے ریکارڈ میں ٥٤میجک ان ریسرچ اور میری چند معروضات اردوانجمن ڈاٹ کام قصہ ایک قلمی بیاض کی خریداری کا ٥٥- پروفیسر سوامی رام تیرتھ کی غالب طرازی ٥٦- جدید اردو شاعری کے چند محاکاتکر ٥٧- اختر حسین جعفری کی زبان کا لسانی جائزہ ٥٨- اختر شمار کی شاعری۔۔۔۔۔۔۔ایک لسانیاتی جائزہ ٥٩- تمثال میں لسانیاتی تبسم کی تالش ٦٠- شکیب جاللی کے کالم کی ہجویہ تشریح ٦١- سعادت سعید۔۔۔۔۔اردو شعر کی زبان کا جادوکر ٦٢- سرور عالم راز‘ ایک منفرد اصالح کار ٦٣- شکیب جاللی کی زبان اور انسانی نفسیات ٦٤- محمد امین کی شاعری ۔۔۔۔۔۔۔ عصری حیات کی ہم سفر ٦٥- ردی چڑھی رفتہ کی ایک منہ بولتی شہادت ٦٦-
شاعری اور مغرب کے چند ناقدین ٦٧- ٹی ایس ایلیٹ اور روایت کی اہمیت ٦٨- یاران اردو انجمن :تسلیمات موجودہ دور کے رسالوں اور کتابوں کا جائزہ لیا جائے یا انٹرنیٹ پر اردو کے حوالے سے ہونے والے کام پر ایک نظر ڈالی جائے تو فورا یہ معلوم ہو جائے گا کہ اردو شعر وادب کی ابتدا اور انتہا صرف غزل ہے۔ جدھر دیکھئے ادھر شاعر اور تک بند غزل کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہیں اور ہر ایک خود کو میرتقی میر اور مرزا غالب سے کم نہیں سمجھتا۔ اگر آپ اس بیان کو مبالغہ آمیز سمجھتے ہیں تو فیس بک پر جا کر کسی کی غزل پر تنقید کر کے دیکھ لیجئے! فورا ہی بقول شخصے آٹے دال کا بھائو معلوم ہو جائے گا۔ نثر نگاری اور خصوصا تنقید تو جیسے اردو ادب کے افق سے غائب ہی ہو گئی ہے۔ اہل فکرونظر جانتے ہیں کہ ہر زبان کی ترقی اور پیش رفت کے لئے تنقید و تحقیق کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر یہ دو باتیں نہیں ہوں گی تو زبان وادب جمود اور اضمحالل کا شکار ہوکر رہ جائیں گے اور اس کا انجام ظاہر ہے کہ کیا ہوگا۔ نئی نسل خاص طور سے اس حقیقت سے نا بلد ہے اور یہ بہت تشویش کی بات ہے۔ ڈاکٹر حسنی صاحب ان ہستیوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنی ساری ادبی زندگی تخلیق ،تنقید اور تحقیق کی سنگالخ زمین کی آبیاری میں صرف کی ہے۔ زیر نظر مضمون میں دی گئی فہرست مضامین حسنی صاحب کی بالغ نظری اور علوئے فکر کی
عکاسی کرتی ہے۔ کیسے کیسے جانفزا ،معلومات افزا اور دقیق و عمیق موضوعات پر آپ نے قلم اٹھایا ہے اور داد تحقیق دی ہے۔ کم لوگ ایسے ہیں جنہوں نے ایسے مضامین پر سوچا ہے، لکھنا تو بہت بڑی بات ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ مضامین جستہ جستہ اردو انجمن میں لگا دئے جاتے۔ کچھ احباب تو یقینا ان سے استفادہ کریں گے۔ میری گزارش حسنی صاحب سے یہی ہے کہ اس جانب توجہ کریں اور ممکن ہو تو یہ کام کروادیں۔ هللا ان کو ہمت اور طاقت عطا فرمائے کہ وہ زبان و ادب کی ایسی ہی خدمت کرتے رہیں۔ سرور عالم راز
مقصود حسنی کی مزاح نگاری‘ ایک اجمالی جائزہ محبوب عالم۔۔۔۔۔۔۔۔قصور پروفیسر مقصود حسنی ادبی دنیا میں ایک منفرد نام و مقام رکھتے ہیں۔ وہ یک فنے نہیں ہیں بلکہ مختلف اصناف ادب میں کمال رکھنا ان کا طرہءامتیاز ہے۔ طنز و مزاح بھی ان کی دسترس سے باہر نہیں رہا۔ اکثر مزاح نگار تحریر کے عنوان سے ہی عیاں ہو جاتا ہے کہ اس تحریر میں مزاح کا مواد کس نوعیت کا رہا ہو گا۔ باباجی مقصود حسنی کے ہاں یہ چیز شاز ہی ملتی ہے۔ عنوان سے قطعی اندازہ نہیں ہو پاتا کہ تحریر میں کس موضوع کو زیر بحث الیا گیا ہو گا۔ ان کے ہاں مزاح بھی سنجیدہ اطوار لیے ہوئے ہے۔ گویا قاری حیرانی میں حظ اٹھاتا ہے۔ وہ ورطہءحیرت میں مبتال ہو جاتا ہے کہ مصنف نے طنز کا شائبہ بھی ہونے نہیں دیا‘ پھر گدگدا بھی دیا ہے۔ سنجیدگی سے بات کرتے کرتے لطیفہ کرنے کا فن انہیں خوب آتا ہے۔ روزمرہ یا پھر شائستہ سا ایس ایم ایس کا استعمال بخوبی جانتے ہیں۔ بات سے بات نکالنے کے فن پر انہیں بالشبہ ملکہ حاصل ہے۔ کسی عوامی محاورے یا مرکب سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ محاورے یا مرکب‘ کسی نہ کسی سماجی رویے کے عکاس ہوتے ہیں۔ لفظ‘ پروفیسر مقصود حسنی کے ہاتھوں میں دیدہ زیب کھلونوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ لفظوں کو مختلف تناظر میں استعمال
کرکے نئے مفاہیم دریافت کرتے ہیں۔ لفظوں کے استعمال کی یہ صورت غالب کے بعد کسی کے ہاں پڑھنے کو ملتی ہے۔ وہ غالب کے معنوی شاگرد بھی ہیں۔ ان کے مزاح میں زندگی متحرک نظرآتی ہے۔ وہ اپنے اردگرد کو بڑے غور سے دیکھنے کے عادی ہیں۔ وہ متحرک زندگی کو اپنے فکری ردعمل کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ان کے اسلوب سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ کب اور کس وقت طنز کا کوئی تیر چھوڑ دیں گے۔ معاشرتی خرابیاں ان کا موضوع گفتگو رہتی ہیں۔ وہ اپنے مزاج کے ہاتھوں مجبور نظر آتے ہیں۔ دفتر شاہی بھی ان کے طنز سے باہر نہیں رہی۔ پروفیسر مقصود حسنی کسی بھی موضوع پر قلم کو جنبش دیتے وقت حاالت و واقعات کا ایسا نقشہ کھنچتے ہیں کہ معاملے کے جملہ پہلو آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتے ہیں۔ ان کی کسی تحریر کو پڑھتے وقت قاری کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ پڑھ رہا ہے یا دیکھ رہا ہے۔ باباجی مقصود حسنی زندگی کے خانگی حاالت و واقعات کو بھی نظر انداز نہیں کرتے۔ وہ دہلیز کے اندر کے موضوعات پر گفتگو کرکے شخص کی خانگی حیثیت اور کارگزاری پر بھی بہت کچھ کہہ جاتے ہیں۔ اس انداز سے کہہ جاتے ہیں کہ قاری کو ہر ممکن لطف میسر آتا ہے۔ خانگی حاالت و واقعات بیان کرتے وقت وہ صیغہ متکلم استعمال کرتے ہیں حاالنکہ ایسے مزاح کا ان کی ذات سے دور دور تک تعلق نہیں ہوتا۔ بعض تحریریں فرضی ناموں کے ساتھ بیان کرکے اپنے فن کو کمال درجہ تک لے جاتے ہیں۔
باباجی مقصود حسنی کی مزاح نگاری کو روایتی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ انھوں نے روایت سےبغاوت کرکے نیا طرز اظہار دریافت کیا ہے۔ مزاح اور سنجیدگی دو الگ سے طرز اظہار ہیں۔ سنجیدگی سے مزاح کا اظہار متضاد عمل ہے لیکن یہ ان کے ہاں ملتا ہے۔ اس لیے یہ بات دعوعے کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ وہ سنجیدگی میں مزاح لکھتے وقت نئی زبان بھی متعارف کرواتے ہیں۔ اس مختصر سے جائزے سے یہ بات اخذ کی جا سکتی ہے کہ باباجی مقصود حسنی کی مزاح نگاری اردو ادب میں انفرادیت کی حامل ہے جو اب تک اردو کے کسی دوسرے مزاح نگار کے حصہ میں نہیں آ سکی کیونکہ روایت کی پاسداری کرنے والے انفرادیت کے دعوی دار نہیں ہو سکتے۔ ان کی مزاح نگاری کے چند نمونے مالحظہ ہوں ایک پکی پیڈی بات ہے کہ چوہا بلی سے‘ بلی کتے سے‘ کتا بھڑیے سے‘ بھیڑیا چیتے سے‘ چیتا شیر سے‘ شیر ہاتھی سے‘ ہاتھی مرد سے‘ مرد عورت سےاورعورت چوہے سے ڈرتی ہے۔ ڈر کی ابتدا اور انتہا چوہا ہی ہے۔ میرے پاس اپنے موقف کی دلیل میں میرا ذاتی تجربہ شامل ہے۔ میں چھت پر بیھٹا تاڑا تاڑی کر رہا تھا۔ نیچے پہلے دھواندھار شور ہوا پھر مجھے پکارا گیا۔ میں پوری پھرتی سے نیچے بھاگ کر آیا۔ ماجرا پوچھا۔ بتایا گیا کہ صندوق میں چوہا گھس گیا ہے۔ بڑا تاؤ آیا لیکن کل کلیان سے ڈرتا‘ پی گیا۔ بس اتنا کہہ کر واپس چال گیا کہ تم نے مجھے بلی
یا کڑکی سمجھ کر طلب کیا ہے۔ تاہم میں نے دانستہ چوہا صندوق کے اندر ہی رہنے دیا۔ غیرت اور خشک آنتوں کا پرابلم ہم بڑے مذہبی لوگ ہیں کسی سکھ کی سیاسی شریعت تسلیم نہیں کر سکتے۔ راجا رنجیت سنگھ اول تا آخر مقامی غیر مسلم تھا اس لیے اس کا کہا کس طرح درست ہو سکتا ہے۔ راجا رنجیت سنگھ اگر گورا ہوتا تو اس کی سیاسی شریعت کا مقام بڑا بلند ہوتا۔ گورا دیس سے آئی ہر چیز ہمیں خوش آتی ہے۔ علم عقل اور حبیبی اداروں کا قیام استاد کی باتوں کا برا نہ مانئیے گا۔ میں بھی اوروں کی طرح ہنس کر ٹال دیتا ہوں۔ اور کیا کروں مجھے محسن کش اور پاکستان دشمن کہالنے کا کوئی شوق نہیں۔ بھال یہ بھی کوئی کرنے کی باتیں ہیں کہ کتے کے منہ سے نکلی سانپ کے منہ میں آ گئی۔ سانپ سے خالصی ہونے کے ساتھ ہی چھپکلی کے منہ میں چلی گئی۔ ہم زندہ قوم ہیں دو میاں بیوی کسی بات پر بحث پڑے۔ میاں نےغصے میں آ کر اپنی زوجہ ماجدہ کو ماں بہن کہہ دیا۔ مسلہ مولوی صاحب کی کورٹ میں آگیا۔ انہوں نے بکرے کی دیگ اور دو سو نان ڈال دیے۔ نئی شادی پر اٹھنے والے خرچے سے یہ کہیں کم تھا۔ میاں نے مولوی صاحب کے ڈالے گیے اصولی خرچے میں عافیت سمجھی۔ رات کو میاں بیوی چولہے کے قریب بیٹھے ہوئے تھے۔ بیوی نے اپنی فراست جتاتے ہوئے کہا
"اگر تم ماں بہن نہ کہتے تو یہ خرچہ نہ پڑتا۔" بات میں سچائی اپنے پورے وجود کے ساتھ موجود تھی۔ میاں نےدوبارہ بھڑک کر کہا "توں پیو نوں کیوں چھیڑیا سی" مولوی صاحب کا فتوی اور ایچ ای سی پاکستان کچھ ہی پہلے‘ اندر سے آواز سنائی دی‘ حضرت بےغم صاحب حیدر امام سے کہہ رہی تھیں‘ بیٹا اپنے ابو سے پیسے لے کر بابے فجے سے غلہ لے آؤ۔ عید قریب آ رہی ہے‘ کچھ تو جمع ہوں گے‘ عید پر کپڑے خرید الئیں گے۔ بڑا سادا اور عام فیہم جملہ ہے‘ لیکن اس کے مفاہیم سے میں ہی آگاہ ہوں۔ یہ عید پر کپڑے النے کے حوالہ سے بڑا بلیغ اور طرح دار طنز ہے۔ طنز اور مزاح میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ طنز لڑائی کے دروازے کھولتا ہے جب کہ مزاح کے بطن سے قہقہے جنم لیتے ہیں۔ جب دونوں کا آمیزہ پیش کیا جائے تو زہریلی مسکراہٹ نمودار ہوتی ہے اور ایسی جعلی مسکراہٹ سے صبر بھال‘ دوسرا بات گرہ میں بندھ جاتی ہے۔ الٹھی والے کی بھینس ان کی ایک مزاح پر مشتمل کتاب بیگمی تجربہ ١٩٩٣میں شائع ہوئی جو اس سے پہلے نقد و نقد کے نام سے منظر عام پر جلوہ گر ہوئی۔ اس کتاب کو اہل ذوق نے پسند کیا۔ چند آراء مالحظہ ہوں آج ہمارا معاشرہ جس فتنہ و فساد اور پرآشوب دور سے گزر رہا ہے جس کو بدقسمتی سے تہذیب و ترقی سے تعبیر کیا جاتا ہے اس کی شدت کو کم کرنے کے لیے سنجیدہ رویہ اختیار کرنے
سے زیادہ لطیف طنز و مزاح کے نشتر چبھونا موثر ثابت ہو سکتا ہے۔ مصنف موصوف نے اس حقیقت کو بخوبی سمجھ لیا ہے اور معاشرے کے ان زخموں سے فاسد مادہ کو طنزومزاح کے نشروں سے نکالنے کی کوشش کی ہے۔ ثناءالحق صدیقی ماہنامہ االنسان کراچی مئی ١٩٩٤صفحہ نمبر ٣٢ مقصود صاحب بڑے ذہین معاملہ شناس مدبر اور نئی سوچ کے مالک ہیں۔ بڑی بات یہ کہ آپ سچے اور منفرد انداز کے بادشاہ ہیں۔ میں تو کہوں گا کہ میں نے ساٹھ ہزار کتب کا مطالعہ کیا ہے ان میں ایسی معیاری کتب کوئی ایک درجن ہوں گی۔ اس کتاب نے مجھے بڑا متاثر کیا ہے۔ میں اسے سندھ کے شاہ جو رسالو کی طرح اپنے سفر میں بھی ساتھ رکھوں گا اور بار بار پڑھوں گا۔ مہر کاچیلوی بیگمی تجربہ پر اظہار خیال‘ ہفت روزہ عورت میرپور خاص سندھ ١٨نومبر ١٩٩٣ ان کی زبان میں لطافت ہے‘ ظرافت ہے‘ سحر آفرینی ہے۔ انھوں نے جس ہنرمندی سے باتوں سے باتیں نکالی ہیں‘ وہ ان ہی کا حصہ ہے۔ انھوں نے مزاحیہ طرز سے پژمردہ دلوں میں زندگی اور زندہ دلی کی روح پھونک دی ہے۔ خشک ہونٹوں پر پھول نچھاور کیے ہیں۔ ڈاکٹر وفا راشدی سہ ماہی انشاء حیدرآباد جنوری تا ستمبر ٢٠٠٥بیگمی تجربہ پر اظہار خیال
بیگمی تجربہ میں کل ٣١مضمون شامل تھے جن کی تفصیل درج خدمت ہے بچوں کی بددعائیں نہ لیں 1 عقل بڑی یا بھینس 2 بیمار ہونا منع ہے 3 حاتم میرے آنگن میں 4 کاغذی قصے اور طاقت کا سرچشمہ 5 شادی+معاشقہ:جمہوری عمل 6 مجبور شرک 7 ترقی‘ ہجرین اور عصری تقاضے 8 دمدار ستارہ اور عالمتی اظہار 9 ویڈیو ادارے اور قومی فریضہ 10 چھلکے بکریاں اور میمیں 11 پہال ہال اور برداشت کی خو 12 بیگمی تجربہ اور پت جھڑ 13 انسانی ترقی میں جوں کا کردار 14 اصالح نفس اور برامدے کی موت 15 سنہری اصول اور دھندے کی اہمیت 16 بش شریعت اور سکی نمبرداری 17 نیل کنٹھ‘ شیر اور محکمہ ماہی پروری 18 بہتی گنگا اور نقد و نقد 19 مالوٹ اور کھپ کھپاؤ 20 سپاہ گری سے گداگری تک 21 یار لوگ اور منہگائی میمو 22
سچ آکھیاں بھانبڑ مچدا اے 23 ہدایت نامہ خاوند 24 ہدایت نامہ بیوی 25 ادھورا کون 26 محنت کے نقصانات 27 محاورے کا سفر 28 کتےاور عصری تقاضے 29 جواز 30 ظلم 31 مزاح سے متعلق ان کے بہت سے مضمون انٹرنیٹ کی مختلف ویب سائٹس پر پڑھنے کو مل جاتے ہیں۔ ان کے ان مضامین کو سراہا گیا ہے۔ اس ذیل میں صرف اردو انجمن سے متعلق چند اہل قلم کی آراء مالحظہ ہوں آپ کا یہ نہایت دلچسپ انشائیہ پڑھا اور بہت محظوظ و مستفید ہوا۔ جب اس کے اصول کا خود پر اطالق کیا تو اتنے نام اور خطاب نظر آئے کہ اگر ان کا اعالن کر دوں تو دنیا اور عاقبت دونوں میں خوار ہوں۔ سو خاموشی سے سر جھکا کر یہ خط لکھنے بیٹھ گیا ۔ انشا ئیہ بہت مزیدار ہے شاید اس لئے کہ حقیقت پر مبنی ہے۔ اس آئنیہ میں سب اپنی صورت دیکھ سکتے ہیں۔ اکتوبر 10:43:43 ,2013 ,20شام مشتری ہوشیار باش سرور عالم راز آپ کے انشائیے پر لطف ہوتے ہیں۔ خصوصا اس لئے بھی کہ آپ ان میں اپنی طرف کی یا پنجابی کی معروف عوامی اصطالحات
(میں تو انہیں یہی سمجھتا ہوں۔ ہو سکتا ہوں کہ غلطی پر ہوں) استعمال کرتے ہیں جن کا مطلب سر کھجانے کے بعد آدھا پونا سمجھ میں آ ہی جاتی ہے جیسے ادھ گھر والی یا کھرک۔ یا ایم بی بی ایس۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ کھرک جیسا با مزہ مرض ابھی تک جدید سائنس نے ایجاد نہیں کیا ہے۔ وهللا بعض اوقات تو جی چاہتا ہے کہ یہ مشغلہ جاری رہے اور تا قیامت جاری رہے۔ اس سے یہ فائدہ بھی ہے کہ صور کی آواز کو پس پشت ڈال کر ہم :کھرک اندازی :میں مشغول رہیں گے۔ هللا هللا خیر سال۔ میری ناچیز بدعا اگست 09:00:12 ,2013 ,14صبح سرور عالم راز مجھے علم نہیں ہے کہ محترمہ زھرا کون ہیں ،قرین قیاس یہی ہے کہ انکا تعلق بزم سے ہوسکتا ہے۔ مالقات کی روداد میں گھریلو ماحول کی عکاسی بہت عمدگی سے کی گی ہے ،اور یہ وہ کہانی ہے جو گھر گھر کی ہے۔ اہل خانہ پر گھبراہٹ کا عالم اور اندیشہ ہاے دور دراز ،گھر کے سربراہ کی واقعی جان پر بن آتی ہے۔ ایک لطیف تحریر جس سے لطف اندوز ہونے کا حق ہر قاری کو ہے خلش آپ کا انشائیہ حسب معمول نہایت دلچسپ اور شگفتہ تھا۔ پڑھ کر لطف آ گیا۔ اس زندگی کی بھاگ دوڑ اور گھما گھمی میں چند لمحات ہنسنے کے مل جائیں تو هللا کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ ہاں یہ پڑھ کرانتہائی حیرت ہوئی کہ زہرا صاحبہ برقعہ میں آئین! یا میرا
چشمہ ہی خراب ہو گیا ہے؟ ایک نہایت پر لطف اور دل پذیر تحریر کے لئے داد قبول کیجئے۔ قصہ زہرا بٹیا سے مالقات کا نومبر 03:25:04 ,2013 ,03صبح سرور عالم راز جیسے جیسے آپ کی تحریر پڑھتا گیا ہنسی کا ضبط کرنا ناگزیر ہوتا چال گیا اور آخر میں میری حالت پاکستان میں کسی زمانے میں جی ٹی روڈ پر چلنے والی اس کھچاڑا جی ٹی ایس ) گورننمٹ ٹرانسپورٹ سروس( کی طرح ہوگئی جو رک جانے کے بعد بھی ہلتی رہتی تھی ،بڑی دیر تک لطف اندوز ہونے کے بعد سوچا اپنی اندرونی کیفیت کا اظہار کر ہی دیا جائے وہ کہتے ہیں ناں کہ جس سے پیار ہوجائے تو اس کا اظہار کر دو کہ مبادا دیر نہ ہو جائے تو جناب ڈاکٹر صاحب میری جانب سے ڈھیروں داد آپ کے قلم کے کمال کی نذر کہ جس سے چہروں پر مسکراہٹیں بکھر جائیں الٹھی والے کی بھینس جوالئی 09:45:29 ,2013 ,12شام اسماعیل اعجاز اردو نیٹ جاپان‘ اردو انجمن‘ ہماری ویب‘ فرینڈز کارنر‘ پیغام ڈاٹ کام‘ فورم پاکستان اور فری ڈم یونی ورسٹی سے‘ میں نے ٦٩مضامین تالش کیے ہیں۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے بھگوان ساز کمی کمین کیوں ہو جاتاہے 1 غیرت اور خشک آنتوں کا پرابلم 2 عوامی نمائیندے مسائل' اور بیورو کریسی 3
علم عقل اور حبیبی اداروں کا قیام 4 امریکہ کی پاگلوں سے جنگ چھڑنے والی ہے 5 لوڈ شیڈنگ کی برکات 6 ہم زندہ قوم ہیں 7 طہارتی عمل اور مرغی نواز وڈیرہ 8 روال رپا توازن کا ضامن ہے 9 آدم خور چوہے اور بڈھا مکاؤ مہم 10 پی ایچ ڈی راگ جنگہ کی دہلیز پر 11 سیاست دان اپنی عینک کا نمبر بدلیں 12 قانون ضابطے اور نورا گیم 13 خودی بیچ کر امیری میں نام پیدا کر 14 خدا بچاؤ مہم اور طالق کا آپشن 15 غیرت اور خشک آنتوں کا پرابلم 16 جرم کو قانونی حیثیت دینا ناانصافی نہیں 17 ہمارے لودھی صاحب اور امریکہ کی دو دوسیریاں 18 لوٹے کی سماجی اور ریاستی ضرورت 19 اس عذاب کا ذکر قرآن میں موجود نہیں 20 بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ 21 عوام شاہ کے ڈراموں کی زد میں رہے ہیں 22 دنیا کا امن اور سکون بھنگ مت کرو 23 رشوت کو طالق ہو سکتی ہے 24 عوام بھوک اور گڑ کی پیسی 25 رمضان میں رحمتوں پر نظر رہنی چاہیے 26 جمہوریت سے عوام کو خطرہ ہے 27 سیری تک جشن آزادی مبارک ہو 28
دو قومی نظریہ اور اسالمی ونڈو 29 گھر بیٹھے حج کے ایک رکن کا ثواب کمائیں 30 مولوی صاحب کا فتوی اور ایچ ای سی پاکستان 31 الٹھی والے کی بھینس 32 دمہ گذیدہ دفتر شاہی اور بیمار بابا 33 انشورنس والے اور میں اور تو کا فلسفہ 34 غیرملکی بداطواری دفتری اخالقیات اور برفی کی چاٹ 35 حقیقت اور چوہے کی عصری اہمیت زندگی 36 تعلیم میر منشی ہاؤس اور میری ناچیز قاصری 37 محاورہ پیٹ سے ہونا کے حقیقی معنی 38 آزاد معاشرے اہل علم اور صعوبت کی جندریاں 39 دیگی ذائقہ اور مہر افروز کی نکتہ آفرینی 40 ایجوکیشن‘ کوالیفیکیشن اور عسکری ضابطے 41 وہ دن ضرور آئے گا 42 صیغہ ہم اور غالب نوازی 43 پروف ریڈنگ‘ ادارے اور ناصر زیدی 44 ناصر زیدی اور شعر غالب کا جدید شعری لباس 45 قصہ زہرا بٹیا سے مالقات کا 46 مشتری ہوشیآر باش 47 مدن اور آلو ٹماٹر کا جال 48 احباب اور ادارے آگاہ رہیں 49 کھائی پکائی اور معیار کا تعین 50 بابا بولتا ہے 51 بابا چھیڑتا ہے 52 الوارثا بابا اور تھا 53
فتوی درکار ہے 54 ڈینگی‘ ڈینگی کی زد میں 55 حضرت ڈینگی شریف اور نفاذ اسالم 56 یہ بالئیں صدقہ کو کھا جاتی ہیں 57 اب دیکھنا یہ ہے 58 سورج مغرب سے نکلتا ہے 59 یک پہیہ گاڑی منزل پر پہنچ پائے گی 60 حجامت بےسر کو سر میں التی ہے 61 انھی پئے گئی اے 62 امیری میں بھی شاہی طعام پیدا کر 63 وہ دن کب آئے گا 64 آزادی تک‘ جشن آزادی مبارک 65 رشتے خواب اور گندگی کی روڑیاں 66 پنجریانی اور گناہ گار آنکھوں کے خواب 67 میری ناچیز بدعا 68 طاقت اور ٹیڑھے مگر خوبصورت ہاتھ 69 انسان کی تالش 70 معاشی ڈنگر اور کاغذ کے الوارث پرزے 71 صبح ضرور ہو گی 72 قیامت ابھی تک ٹلی ہوئی ہے 73 وہ دن گیے جب بن دیے بھال ہوتا تھا 74 عین ممکن ہے 75 کھائی بھلی کہ مائی 76 دفتر شاہی میں کالے گورے کی تقسیم کا مسلہ 77 درج باال مختصر تفصیالت سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے
کہ باباجی مقصود حسنی اس صنف ادب میں بھی کامیاب و کامران رہے ہیں۔ آخر میں پروفیسر یونس حسن کی رائے درج کر رہا ہوں جس سے باباجی کے اس ادبی کام کی نوعیت و حیثیت کا اندازہ ہو جاتا ہے مقصود حسنی نے مزاح کے میدان میں تقلید کو گوارہ نہیں کیا‘ اپنے لیے ایک علیحدہ اور جداگانہ رستہ نکاال ہے۔ ان کی یہی انفرادیت ان کے پورے مزاح پر محیط نظر آتی ہے۔ ان کا مزاح وقتی یا لمحاتی نہیں اور نہ ہی گراوٹ کا شکار ہوتا ہے بلکہ اپنی جدت طرازی کی بنا پر ایک علیحدہ شناخت اور پہچان رکھتا ہے۔ ان کے مزاح کی جڑیں ہماری سماجی زندگی کے اندر پیوست نظر آتی ہے۔ پروفیسر یونس حسن سہ ماہی انشاء حیدرآباد جنوری تا ستمبر ٢٠٠٥بیگمی تجربہ پر اظہار خیال یاران اردو انجمن :تسلیمات مکرمی ڈاکٹر حسنی صاحب کی علمی اور ادبی حیثیت پر لکھا ہوا یہ مضمون نہ صرف دلچسپ اور معلومات افزا ہے بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ ہماری انجمن کو کیسے کیسے لوگوں نے اپنی موجودگی اور نگارشات سے عزت بخشی ہے۔ هللا سے دعا ہے کہ حسنی صاحب کا سایہ انجمن پر ہمیشہ قائم رہے تاکہ ہم سب ان سے مستفید و مستفیض ہوتے رہیں۔ اب ایسے لوگ بہت کم رہ گئے ہیں جن سے ادبی استفادہ کیا جا سکے۔ خاص طور پر انٹرنیٹ پر یہ کمی خطرناک حد تک محسوس ہوتی ہے۔ اردو
انجمن ڈاکٹر حسنی صاحب کی بے حد ممنون ہے اور ان کے حق میں دعائے خیر اور درازی عمر کی طالب ہے۔ سرور عالم راز =http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic 9165.0
مقصود حسنی کی شاعری۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک جائزہ محبوب عالم --۔۔ قصور پروفیسر مقصود حسنی ملکی اور بین االاقوامی سطح پر اپنی الگ سے شناخت رکھتے ہیں۔ تخلیقی میدان میں ان کی شخصیت کثیرالجہتی ہے۔ یہ ہی صورت تحقیق و تنقید کے میدان کی ہے۔ نثر ہی نہیں‘ شاعری کے میدان میں بھی نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے طالب علمی کے ابتدائی دنوں میں ہی شعر کہنا شروع کر دیے۔ ان کی ١٩٦٥کی شاعری دستیاب ہوئی ہے۔ اس وقت وہ جماعت ہشتم کے طالب علم تھے۔ بطور نمونہ ابتدائی :دور کے چند شعر مالحظہ کریں پھوٹا ناسور بن کرزخم جگر سزا ملی مجھے گناہ کئے بغیر ٢٥مئی ١٩٦٥ آس کے دیپ جالنے نکلو جاگ کر اب جگانے نکلو ٢٩اپریل ١٩٦٦ زخم کھا کر جو زخم کھانے کی رکھے ہوش انداز اس کے تڑپنے پھڑکنے کا ذرا دیکھ ٣فروری ١٩٦٧
ہر صدف کی قسمت میں گوہر کہاں ہزار پرند میں‘ اک شہباز ہوتا ہے ٢٧جون ١٩٦٨ عریاں پڑی ہے الش حیا بے گور وکفن لوگ لیتے ہیں گل‘ گلستاں رہے نہ رہے ٢٥اکتوبر ١٩٦٩ موالں کو ہو گی جنت سے محبت زاہد بار ہا گزریں گے دشت پرخار سے ہم ٥مارچ ١٩٧٠ ١٩٧٠:میں لکھی گئی یہ نظم بھی بطور نمونہ مالحظہ ہو مجھے اب میں اپنی تالش میں تھا گالب سے انگارے نکلے خوشبو سے شرارے اٹھے ‘میرا چہرا کوئی لے گیا چوڑیاں مجھے دے گیا چوڑیوں کی کھنک میں مجھے اب بےچہرہ جیون
جینا ہے ایک تازہ نظم مالحظہ ہو میں نے دیکھا پانیوں پر میں اشک لکھنے چال تھا دیدہءخوں دیکھ کر ہر بوند ہوا کے سفر بر نکل گئی منصف کے پاس گیا شاہ کی مجبوریوں میں وہ جکڑا ہوا تھا سوچا پانیوں کی بےمروتی کا فتوی ہی لے لیتا ہوں مالں شاہ کے دستر خوان پر مدہوش پڑا ہوا تھا دیکھا‘ شیخ کا در کھال ہوا ہے سوچا شاید یہاں داد رسی کا کوئی سامان ہو جائے گا وہ بچارہ تو پریوں کے غول میں گھرا ہوا تھا
کیا کرتا کدھر کو جاتا دل دروازہ کھال خدا جو میرے قریب تھا بوال کتنے عجیب ہو تم بھی کیا میں کافی نہیں جو ہوس کے اسیروں کے پاس جاتے ہو میرے پاس آؤ ادھر ادھر نہ جاؤ میری آغوش میں تمہارے اشکوں کو پناہ ملے گی ہر بوند رشک لعل فردوس بریں ہو گی اک قظرہ مری آنکھ سے ٹپکا میں نے دیکھا شاہ اور شاہ والوں کی گردن میں بے نصیبی کی زنجیر پڑی ہوئی تھی اس نمونہء کالم سے ان کے فکری اور تخلیقی سفر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان کے ہاں مجازی عشق و محبت شجر منوعہ سے لگتے ہیں۔ پروفیسر مقصود حسنی کے والد سید غالم حضور پنجابی صوفی شاعر تھے۔ ان کے دادا سید علی احمد پنجابی اردو اور فارسی کے شاعر تھے۔ یہ سلسلہ اس سے پیچھے تک جاتا ہے۔ پروفیسر موصوف کے پاس اپنے دادا کا کالم مخطوطوں کی شکل میں موجود ہے۔ گویا یہ شوق انہیں
وراثت میں مال ہے۔ وہ اردو کے عالوہ انگریزی پنجابی اور پوٹھوہاری میں بھی کہتے رہے ہیں۔ ان کے کالم میں ردعملی کی سی صورت ہر سطح پر غالب رہتی ہے۔ چلتے چلتے ناصحانہ اور صوفیانہ ٹچ ضرور دے جاتے ہیں۔ ان کے کالم میں سیکڑوں مغربی مشرقی اسالمی اور ہندی تلمیحات پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ہر تلمیح کا بڑا برمحل استعمال ہوا ہے۔ یہ تلمیحات بین االاقومی تناطر میں استعمال ہوئی ہیں۔ پروفیسر علی حسن چوہان ان کی مغربی تلمیحات پر بھرپور تحقیقی مقالہ بھی تحریر کر چکے ہیں۔ ١٩٩٣میں ڈاکٹر صادق جنجوعہ نے بہ عنوان۔۔۔۔۔۔ مقصود حسنی کی شاعری‘ تنقیدی مطالعہ۔۔۔۔۔۔ شائع کی۔ مقصود حسنی کی شاعری پر مشتمل تین کتب منصہءشہود پر آ چکی ہیں۔ سپنے اگلے پہر کے نثری ہائیکو اوٹ سے نثری نظمیں یہ مجموعہ دو بار شائع ہوا۔ سورج کو روک لو نثری غزلیں کاجل ابھی پھیال نہیں اشاعت کے مراحل میں ہے۔ اس کے عالوہ بھی ان کا کالم رسائل میں شائع ہوتا رہا ہے۔ ان کا بہت سارا کالم انٹرنیٹ کی مختلف ویب سائیٹس پر پڑھنے کو ملتا ہے۔ آمنہ رانی ان کی نظموں کو ڈازائین کر رہی ہیں۔ جو ان کی شاعری کی پذیرائی میں خوب صورت اضافہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ مقصود حسنی کی شاعری کے مختلف زبانوں میں تراجم بھی ہوئے۔ پروفیسر امجد علی شاکر نے۔۔۔۔۔۔ اوٹ سے۔۔۔۔۔۔۔ کی نظموں کو
پنجابی روپ دیا۔ بلدیو مرزا نے ان کے ہائیکو کا انگریزی میں ترجمہ کیا‘ جو سکائی الرک میں شائع ہوا۔ نصرهللا صابر مرحوم نے ان کے ہائیکو کا پنجابی میں ترجمہ کیا۔ مہر کاچیلوی مرحوم نے ان کے ہائیکو کا سندھی میں ترجمہ کیا۔ ڈاکٹر اسلم ثاقب مالیر کوٹلہ‘ بھارت نے ان کے ہائیکو کا گرمکھی میں ترجمہ کیا۔ عالمی رنگ ادب کراچی نے پورا مجموعہ ۔۔۔۔۔۔۔ سپنے اگلے پہر کے۔۔۔۔۔۔۔ کو شاعر علی شاعر کے مضمون کے ساتھ شائع کیا۔ پروفیسر نیامت علی نے ان کی انگریزی شاعری پر ایم فل سطح کا مقالہ تحریر کیا۔ اردو ادب کے جن ناقدین نے ان کی شاعری کو خراج تحسین پیش کیا‘ اس کی میسر تفصیل کچھ یوں ہے ڈااکٹر آغا سہیل آفتاب احمد مشق ایم فل اردو ڈاکٹر ابو سعید نور الدین احمد ریاض نسیم ڈاکٹر اسلم ثاقب اسلم طاہر ڈاکٹر احمد رفیع ندیم احمد ندیم قاسمی ڈاکٹر اختر شمار ڈاکٹر اسعد گیالنی
اسماعیل اعجاز اشرف پال اطہر ناسک اکبر کاظمی پروفیسر اکرام ہوشیار پوری ایاز قیصر ڈاکٹر بیدل حیدری پروفیسر تاج پیامی تنویر عباسی جمشید مسرور ڈاکٹر ہومیو ریاض انجم خواجہ غضنفر ندیم ڈاکٹر فرمان فتح پوری ڈاکٹر صابر آفاقی ڈاکٹر صادق جنجوعہ صفدر حسین برق ضیغم رضوی طفیل ابن گل ڈاکٹر ظہور احمد چودھری عباس تابش ڈاکٹر عبدهللا قاضی علی اکبر گیالنی پروفیسر علی حسن چوہان ڈاکٹر عطاالرحمن فیصل فارانی
کفیل احمد ڈاکٹر گوہر نوشاہی ڈاکٹر مبارک احمد محبوب عالم مشیر کاظمی ڈاکٹر محمد امین پرفیسر محمد رضا مدنی مہر افروز کاٹھیاواڑی مہر کاچیلوی ڈاکٹر منیرالدین احمد پروفیسر نیامت علی ندیم شعیب ڈاکٹر وزیر آغا ڈاکٹر وفا راشدی ڈاکٹر وقار احمد رضوی وی بی جی یوسف عالمگیرین پروفیسر یونس حسن ان ناقدین نے متوازن انداز میں حسنی کی شاعری پر اظہار خیال کیا ہے۔ ان حضرات گرامی کےعالوہ محمد اسلم طاہر نے مقصود حسنی کی شخضیت ادبی خدمات کے عنوان سے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے ایم فل کا مقلہ تحریر کیا جس میں ان کی شاعری کے متعلق باب موجود ہے۔ راقم کے ایم فل کے مقالہ۔۔۔۔۔۔ قصور کی علمی و ادبی روایت۔۔۔۔۔۔ میں حسنی کی شاعری پر
رائے موجود ہے۔ ۔ :ان کی شاعری پر چند اہل قلم کی آراء مالحظہ ہوں آپ کا یہ کالم پڑھن کے نال ہی دماغ کے بوہے پہ جینویں کسی نے آکر دستک دینڑ کے بجائے ُکسھن ماریا ،وجا جا کے ٹھا کرکے بڑا ای سواد آیا ،کیا ای بات ہے ہماری طرف سے ایس سوہنی تے من موہنی تحریر سے فیض یاب فرمانڑ کے واسطے چوہلیاں پرھ پرھ داد پیش ہےگی تواڈا چاہنے واال 1 اسماعیل اعجاز :ڈاکٹر بیدل حیدری کا کہنا ہے مقصود حسنی کی نثری غزلیں موضوع کے اعتبار سے کتنی اچھوتی ہیں‘ لہجے کی کاٹ اور طنز کی گہرائی کا کیا معیار ہے‘ قاری کیا محسوس کرتا ہے‘ استعارے اور عالمتیں کتنے خوب صورت انداز میں آئی ہیں۔ مستقبل میں اتنی فرصت کسے ہو گی کہ فرسودہ طویل غزلوں اور نظموں کو پڑھے۔ اگلی صدی تو مقصود حسنی جیسے مختصر اور پراثر شعر گو کی صدی ہے۔ ........................ :ڈاکٹر عطاءالرحمن بھی اسی مجموعے پر یوں رقم طراز ہیں ان کی سبھی نظمیں خوب صورت ہیں جن کے بھنور میں کھو کر انسان اپنے اردگرد کے ماحول سے بےخبر ہو جاتا ہے لیکن قتل‘ ہم کب آزاد ہیں‘ آسمان نکھر گیا ہے‘ میں نے دیکھا۔۔۔۔ خوب ترین نظمیں ہیں جن میں انسانی درندگی‘فرعونیت‘ ظلم و جبر‘
استبدادیت‘ بےبسی و بچارگی‘ آہیں اور سسکیاں غرض اک آتش فشاں پنہاں ہے جو اگر پھٹتا ہے تو اس کا الوا راہ میں مزاحم ہر شے کو جال کر خاکستر کر ڈالتا ہے۔ ............................. آزاد شاعری عام طور پر میرے سر پر سے گزر جاتی ہے۔ جب تک میں اس کے تانے بانے سلجھاتا ہوں پچھلے پڑھے ہوئے مصرعے ذہن کی تہوں میں کہیں گم ہو جاتے ہیں اور میں پھر نظم پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش میں گرفتار ہو جاتا ہوں۔ آپ کی اس نظم کے مطالعہ میں ایسا صرف ایک بار ہوا اور میں جلد ہی منزل مقصود تک پہنچ گیا۔ یہ شاید اس لئے ہوا کہ آپ کی نظم پر دلسوزی اور خلوص دل کی مہر لگی ہوئی ہے جیسے آپ اپنی آپ بیتی بیان کر رہے ہوں۔ نظم پڑھ کر متاثر ہوا۔ نظم کا پیغام عام سہی لیکن اہم ضرور ہے۔ ہم اہل دنیا بے تحاشہ اہل اقتدار کی جانب بھاگتے ہیں اور اس تگ و دو میں بھول جاتے ہیں کہ دینے واال تو کوئی اور ہی ہے۔ هللا رحم کرے۔ ایسے ہی لکھتے رہئے۔ هللا آپ کو ہمت اور طاقت عطا فرمائے۔ صالحیت اور توفیق سے تو اپ بھر پور ہیں ہی۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔ 2 سرور عالم راز ڈاکٹر فرمان فتح پوری۔۔۔۔اوٹ سے۔۔۔۔ پراپنی رائے کچھ یوں دیتے :ہیں یوں تو اس مجموعے کی ساری نظمیں خوب نہیں‘ خوب تر ہیں لیکن ۔۔۔۔ وہ لفظ کہاں اور کدھر ہے‘ سورج دوزخی ہو گیا تھا‘ فیکٹری کا دھواں‘ ہم کب آزاد ہیں‘ کی بات ہی کچھ اور ہے۔ کاش
یہ نظمیں باشعور قارئین تک پہنچیں اور ان میں دہکتے ہوئے خواب شرمندہءتعبیر ہوں۔ ............................. واہ ...ڈاکٹر صاحب ! آپ نے ہمارے معاشرے کے اس نوحے کو بہت عمدگی سے بیان کیا ہے باپ کی بے حسی اور جنسی تسکین کا بین بہت کم الفاظ میں آپ نے اشارہ دیا ہے کہ قصور صرف معاشرے یا ارباب اختیار کا نہیں ہے بلکہ اس جرم میں وہ لوگ بھی برابر کے شریک ہیں جو اپنے وسائل کو دیکھے بنأ ہی اپنی نفسانی خواہشات کا گھوڑا سرپٹ سرپٹ دوڑائے چلے جاتے ہیں اور ساتھ میں اپنی (مذہبی) جاہلیت کی وجہ سے بچوں کی ایک قطار کھڑی کر دیتے ہیں3 - فیصل فارانی ................................. واہ واہ بہت خوب چبھتی ہوئی نظم ہے۔ آپ نے چہرہ کو گرد سے صاف کرنے کو کہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارا چہرہ اتنا مسخ ہو چکا ہے کہ اس کو صاف کرنے کی نہیں بلکہ ایک بڑے اپریشن کی ضرورت ہے کہ جس سے وہ چہرہ نکھرے جو کہ ہمارا اصلی اور بے مثالی چہرہ سامنے ائے۔ 4 کفیل احمد ...................................... اپ کی نظموں پر اج پہلی بار نظر پڑی۔ ہم نے انھیں بُہت ہی فکر انگیز اور ولولہ انگیز پایا۔ یہ نظم ہمیں بُہت پسند ائی ہے۔ اگرچہ ہم اپ کے علم کے ُمقابلے میں شائید اسے اُن معنوں تک سمجھ
نہ پائے ہوں۔ جہاں تک ہم سمجھے ہیں اپ اس میں انسان سے ُمخاطب ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ انسان صرف قُدرت کی عطا کی ہوئی چیزوں سے ُکچھ حاصل کرتا ہے۔ اگر اس سے سب ُکچھ چھین لیا جائے تو انسان کے اپنے پاس ُکچھ بھی نہیں ،فقط مٹی کا ڈھیر ہے۔ انسان کو قُدرت کی تراشی چیزیں بُہت ُکچھ دیتی ہیں، لیکن انسان ان مخلوقات کو ُکچھ نہیں دے سکتا۔ البتہ جبرائیل والی بات ہم سمجھ نہیں سکے ہیں اور اپنی کم علمی پر نادم ہیں۔ اگر ہم سمجھنے میں ُکلی یا جُزوی طور پر غلط ہوں تو مہربانی فرما کر اس ناچیز کی بات پر خفا نہ ہوئیے گا۔ ہمارا علم و ادراک فقط اتنا ہی ہے ،جس پر ہم مجبور ہیں اور شرمسار بھی۔ 5 وی بی جی درج باال آرء کے تناظر میں برمال کہا جا سکتا ہے کہ پروفیسر مقصود حسنی کی شاعری ناصرف اپنا الگ سے مقام رکھتی ہے بلکہ اپنے عہد کے سماجی‘ معاشی اور سیاسی حاالت کی منہ بولتی گواہی کا درجہ رکھتی ہے۔ صوفی مزاج ہونے کے سبب ایک مثالی معاشرت کی ہر موڑ پر خواہش نمایاں نظر آتی ہے۔ .................................................. 1. http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7988.0 2http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9132.03-.http:// www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8504.0 4- .http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9121.0 5. http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8506.0
اردو انجمن اور مقصود حسنی کی افسانہ نگاری محبوب عالم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قصور دور جدید کی مفید ترین ایجاد کمپیوٹر جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی میں اپنے کماالت دکھا رہا ہے وہاں انٹرنیٹ کی دنیا میں شعر وادب کے فروغ میں بھی اپنے حصہ کا کردار ادا کر رہا ہے۔ اب ادب کتابوں رسالوں یا پھر اخبارات کے ادبی ایڈیشنوں تک محدود نہیں رہا۔ چلتے پھرتے‘ سفر کرتے یا دفتر میں بیٹھے ادبی حظ اٹھایا جا سکتا ہے۔ دنیا کی دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو بھی انٹرنیٹ پر رواں دواں ہے۔ اردو کی بہت سی ویب سائٹس اس وقت یہ فریضہ انجام دے رہی ہیں۔ ان ویب سائٹس پر سنجیدہ اور غیر سنجیدہ لوگوں کے ساتھ ساتھ شاعر اور ادیب بھی آ رہے ہیں۔ جہاں ادب تخلیق ہو رہا ہے وہاں عمومی اور غیرعمومی آراء بھی پڑھنے کو مل رہی ہیں۔ ان غیرعمومی آراء کو کسی طرح صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ ادب قارئین کے لیے ہوتا ہے۔ قارئین مختلف نوعیت کے ہو سکتے ہیں۔ وہ معامالت کو اپنے حوالے سے دیکھتے ہیں اور ان کے حوالہ ہی سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ کسی بھی رائے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ رائے تو رائے ہوتی ہے اور اپنے سیٹ اپ کی عکاس ہوتی ہے۔ ان عمومی آراء کے ساتھ ساتھ اہل نقد کی آراء بھی پڑھنے کو مل رہی ہیں۔ ان فورمز بورڈز کی خدمات اپنی جگہ پر لیکن اردو انجمن بڑی
سنجیدگی اور ادبی دیانت کے ساتھ اردو کی خدمت انجام دے رہی ہے۔ یہاں سنجیدہ اور پختہ کار تخلیق کار اور نقاد حضرات سے مالقات کا موقع میسر آتا ہے۔ یہ انجمن محدود دائروں میں مقید نہیں۔ یہ پچیس سے زائد گوشوں پر مشتمل ہے۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے ُگلہائے عقیدت حمد ،نعت اور دُعا ناظمین :محمد خاور ,سالم باشوار اصالح سُخن نئے شعراء کے کالم کی اصالح اور رہنمائی ناظم :سرور عالم راز انداز غزل اساتذہ اور مشاہیر کی غزلیات ناظمین :سرور عالم راز ,زرقا مفتی موج غزل آپ کی غزلیات جو بحر میں ہوں ناظمین :ضیاء بلوچ ,سہیل ملک ,خورشید الحسن نیر قافیہ الفاظ رنگ غزل
نئے شعراء کی غزلیات ناظمین :محمد خاور ,حشمت عثمانی انداز سُخن اساتذہ اور مشاہیر کی منظومات ناظمین :عاکف غنی ,صدف موج سُخن اراکین انجمن کی پابند منظومات ناظمین :زاہدہ رئیس راجی ,سہیل ملک طرز سُخن جدید شاعری اور زبان و بیان کے نئے تجربات رنگ سُخن اراکین انجمن کی آزاد اور نثری منظومات ناظمین :صدف ,سُمن شاہ ذیلی بورڈ لُطف بیان افسانے ،خاکے اور انشائیے ناظمین :شاہکار ,صالح اچ ّھا
انداز بیان نامور نثر نگاروں کی تحاریر ناظمین :زاہدہ رئیس راجی ,سرور عالم راز ذیلی بورڈ موج بیان آپ کی تحاریر ناظمین :زاہدہ رئیس راجی ,زرقا مفتی مزاحیہ مضامین اور خاکے ناظمین :شاہکار ,صالح اچ ّھا ذیلی بورڈ مزاحیہ منظومات ناظمین :ضیاء بلوچ ,صالح اچ ّھا لطائف و ظرائف ناظمین :عاکف غنی ,حشمت عثمانی خبر نامہ ادبی خبرنامہ اور تقریبات کا احوال نیا بورڈ
تفہیم سُخن آسان عروض آسان عروض اور شاعری کی بنیادی باتیں ناظم :سرور عالم راز ذیلی بورڈ طرحی مشاعرہ ماہانہ طرحی مشاعرہ ﴿انجمن کا ایک سلسلہ﴾ ناظمین :زاہدہ رئیس راجی ,زرقا مفتی بیت بازی اُردو شاعری کو فروغ دینے کے لئے ایک دلچسپ سلسلہ , balvinderناظمین :عامر عباس صوتی مشاعرہ آپ کی اپنی آواز میں مشاعرہ ﴿سہ ماہی سلسلہ﴾ ناظمین :زاہدہ رئیس راجی ,ضیاء بلوچ بزبان شاعر آپکا کالم آپکی آواز میں آپ کی پسند اقوال زریں ،دلچسپ باتیں ،تصاویر اور ویڈیوز
ناظمین :زاہدہ رئیس راجی ,سرور عالم راز گوشہء خاص اُردو انجمن سے متعلق اعالنات احباب کے سواالت جان پہچان خوش آمدید اور تعارف ناظمین :سرور عالم راز ,زرقا مفتی خزانہ ناظم :زرقا مفتی تجرباتی بورڈ غور فرمائیں‘ ان گوشوں میں اردو کی تمام اصناف زیر مطالعہ آ جاتی ہیں۔ ہر گوشے میں اچھا خاصا مواد دستیاب ہے۔ اس مواد کو شخصی حوالہ سے مرتب کر دیا جائے تو کئی تحقیقی مقالے بھارتی اور پاکستنی جامعات اس ‘ہو سکتے ہیں۔ اگر مغربی جانب توجہ دیں تو قدیم لوگوں کے ساتھ عصر رواں کے متعلق لوگوں کی ادبی خدمات کو بھی تصرف میں الیا جا سکتا ہے۔ یہاں میں انجمن کے صرف ایک رکن کے افسانوں کے متعلق تفصیالت درج کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ میری اس کوشش سے اندازہ ہو جائے گا کہ انجمن اپنے ادبی جثے میں کتنی مضبوط اور فراخ ہے۔
باباجی مقصود حسنی کی انجمن پر مختلف نوعیت کی تحریریں ملتی ہیں۔ ان میں افسانے بھی شامل ہیں۔ ریکارڈ کے مطابق موصوف ١٩٦٩سے افسانے لکھ رہے ہیں۔ رسائل میں چھپنے کے عالوہ ان کے افسانوں کے تین مجموعے -١کاجل ابھی پھیال نہیں -٢وہ اکیلی تھی -٣جس ہاتہ میں الٹھی شائع ہو چکے ہیں۔ تیسرا مجموعہ ١٩٩٣میں شائع ہوا تھا۔ اب تک وہ دو سو سے زائد افسانے قلم بند کر چکے ہیں۔ اختصار ان کے افسانوں کی بنیادی خصوصیت ہے۔ ان کے افسانوں میں تصوف‘ اخالقیات‘ روحانیت اور سماجی پہلو غالب رہتے ہیں۔ میں نے یہاں صرف انجمن کی اعلی کارگزاری کے ثبوت کے لیے مواد صرف انجمن کے گوشوں سے حاصل کیا ہے ورنہ ان کے افسانے انٹر نیٹ کی مختلف ویب سائٹس پر بھی پڑے ہیں۔ نیچے پیش کیا گیا جملہ مواد میں نے صرف اور صرف اردو انجمن سے حاصل کیا ہے۔ روحانی اور تصوف کے ‘مقصود حسنی کے افسانوں میں اخالقی عناصر کے چند نمونے مالحظہ ہوں ہاں‘ جب رات کو‘ چارپائی پر لیٹا‘ تو حق حق حق کے نعروں کہ ‘نے‘ مجھے دیر تک سونے نہ دیا۔ میں نے بڑی کوشش کی دھیان ادھر ادھر کرکے‘ ان نعروں سے‘ خالصی پا لوں‘ مگر حق حق ‘کہاں جی۔ میری ایما کے برعکس‘ میرے منہ سے بھی حق کے آوازے نکلنے کو ہی تھے‘ کہ میں نے‘ سورت اخالص شاید خدا سے‘ عشق کا‘ میرا یہ پہال قدم ‘پڑھنا شروع کر دی تھا۔ یہ پہال موقع تھا‘ جو اثرآفرینی کے لیے‘ دم والے پانی اور
تعویزوں کا مرہون منت نہ ہوا۔ اس کے لیے‘ مجھے ایک اکنی بھی نہ دینا پڑی۔ پٹھی بابا حمادی اسی لیے زندہ ہے‘ کہ اس نے‘ منصور کے قتل کا فتوی مفتی اور قاضی ہو گزرے ہیں‘ ‘دیا تھا‘ ورنہ سیکڑوں مولوی انہیں کون جانتا ہے۔ وہ دکھنے والے منصور کو پہچانتا تھا‘ اگر وہ اناالحق کا نعرہ لگانے والے‘ قیدی منصور کو جانتا ہوتا‘ تو اس کے قتل کا کبھی فتوی نہ دیتا۔ وہ مدعی کا‘ اس کے دعوے کی سطح کا‘ امتحان کرتا‘ تو ہی دودھ کا دودھ‘ پانی کا پانی ہو یاتا۔ ارتعاش پیدا ہوا تھا‘ لیکن میں رقص نہ کر ‘میرے اندر بھی سکا‘ میں اپنے آپے میں تھا۔ میں ابھی اسلم ہی تھا‘ ریحانہ نہیں ہوا تھا ۔اگر ریحانہ ہو گیا ہوتا‘ تو دنیا کی پرواہ کیے بغیر‘ ملنگ بابے کے ساتھ رقص کر رہا ہوتا۔ میں ابھی اسلم ہی تھا بابو صابر کا طرز عمل‘ اسے کچکوکے لگاتا رہا۔ وہ بے آب ماہی کی طرح‘ دیر تک چارپائی پر کروٹیں بدلتا رہا۔ پھر اس نے طے کیا‘ کہ وہ ہر معاملے کے بابو کو کھانا ضرور کھالئے۔ حرام تو پہلے کماتے ہیں۔ وہ حرا م کا کھانا کھال کر‘ انہیں ڈبل حرامی بنانے کا چارہ کرے گا۔ اس سوچ نے‘ شاید اس کی انا کو تسکین کہ وہ تھوڑی ہی دیر بعد‘ گہری ‘بخش دی تھی۔ یہ ہی وجہ تھی نیند میں چال گیا۔ انا کی تسکین
یہ ہی وتیرا رہا ہے۔ جہاں میں بسیرا رکھتا ‘جنگل کا شروع سے تھا‘ وہاں رہتے توانسان تھے‘ لیکن ان کے اطوار اور قانون‘ جنگل کے قانون سے‘ کسی طرح کم نہ تھے۔ اس جبر کی فضا‘ کہ بچانے واال‘ ‘اور ماحول میں‘ ایک بات ضرور موجود تھی چوتھی مرغی کو‘ بچا ہی لیتا ہے۔ اس کی نسل‘ آتے وقتوں میں‘ اس کے ہونے‘ اور بچانے والے محاکاتکر‘ کی گواہی دیتی رہتی ہے۔ چوتھی مرغی آہ۔۔۔۔۔ کتنی بدنصیب تھی وہ صبح‘ ویر جی کو‘ موت کے حوالے کر دیا۔ وقت کا سرمد‘ چال تو گیا‘ لیکن محبتوں کی یادیں چھوڑ گیا۔ ملک زوراور کے کوئی نہ منہ آ سکا۔ ملک پھر سے دوسرے عالقوں کے وسائل پر تسلط وتصرف کی سوچ میں پڑ گیا۔ اسے یاد تک نہ رہا کہ اس نے کتنا بڑا ظلم ڈھا دیا ہے۔ تنازعہ کے دروازے پر برہما سے بردان حاصل کیے ‘وہ یہ بھی جانتا تھا‘ کہ یہ تپسوی یہاں سے نہیں ٹلے گا‘ کیوں کہ جو دھار کر آتے ہیں‘ کٹ ‘بغیر جاتے ہیں‘ قدم پیچھے نہیں رکھتے۔ یہ اصول بھی ہے‘ اور یہ ہی چال آتا ہے۔‘ویدی کا ویدان بھی کامنا نمرود کو‘ اپنی جاہ وحشمت پر ناز تھا۔ وہ سمجھتا تھا‘ کہ زندگی اسی کے دم قدم سے‘ رواں دواں ہے۔ اگر وہ نہ رہا‘ تو چار سو
بربادی پھیل جائے گی۔ اسے یہ بھی گمان تھا‘ کہ وہ ہر اونچ نیچ کر سکتا ہے۔ اس کے رستے میں آنے ‘پر قادر ہے۔ وہ کچھ بھی واال‘ ذلت ناکی سے دوچار ہو گا۔ وہ بالشبہ‘ شیطان کی بدترین لعنت تھا۔ کمال کہیں کا جس پیٹ میں‘ رزق حرام چال گیا‘ وہ حالل دا کس طرح رہا۔ حرام لقموں سے بننے واال خون‘ سر سے پاؤں تک‘ گردش کرتا ہے۔ جس جسم میں؛ حرام خون دوڑ رہا ہوتا ہے‘ اس پیٹ والے کے‘ جسم کے جملہ کل‘ کس طرح درست اور فطری اصولوں پر‘ استوار ہو سکتے ہیں۔ حرام کھانے والے‘ شرعی واجبات کے کوشش کرتے ہیں۔ ‘ذریعے‘ خود کو حالل دا ثابت کرنے کی شیدا حرام دا آج بڑھاپے نے شاید ہوش غارت کر دئے ہیں‘ تب ہی تو سوچتی ہوں‘ کہ دینو کی پسینہ آمیز کمائی میں‘ بےحد سواد تھا۔ اس وقت مجھے کوئی بیماری الحق نہ تھی۔ یہاں حاللے کے دو ماہ پعد ہی معدہ کی بیماری الحق ہوگئی۔ اس کے بعد شوگر نے آ گھیرا۔ کمردرد تو معمول کا معاملہ ہے۔ بی پی کی کسر رہ گئی وہ بھی گلے کا ہار بن گئی ہے۔ مولوی صاحب کسی کی ‘تھی جیب تو نہیں کاٹتے‘ اس کے باوجود ان کا الیا ہوا رزق‘ ذائقہ میں‘ دینو کے الئے سا نہیں۔ حاللہ آج میں بڑا اور صاحب حیثیت آدمی ہوں‘ مگر کب تک‘ بس
سانسوں کے آنے جانے تک۔ اس کے بعد‘ کسی کے خواب وخیال میں بھی نہیں رہوں گا۔ مزے کی بات یہ کہ‘ لوگ میرے سامنے اور پشت پیچھے‘ مجھے بڑا آدمی کہتے ہیں اور سمجھتے بھی یہ کیسا بڑاپن ہے‘ جو سانسوں سے مشروط ‘ہیں۔ سوچتا ہوں مرا نہیں۔ وقت کا فیصلہ ‘ہے۔ بڑا تو سقراط تھا‘ جو مر کر بھی بھی کتنا عجیب ہے‘ کہ شاہ حسین سے بھوکے ننگے‘ آج بھی زندہ اورالکھوں دلوں میں‘ اپنی عزت اور محبت رکھتے ہیں۔ جو وقت کے بہت ‘قارون کے سوا‘ مجھ سے الکھوں لکھ پتی بڑے آدمی تھے‘ آج کسی کو یاد تک نہیں ہیں۔ یہ بڑاپن کیسا ہے‘ جو کیڑوں مکوڑوں سے مختلف نہیں۔ بڑا آدمی عوفی نے موت کا رستہ چن کر‘ ٹیپو کی حکمت عملی پر‘ درستی کی مہر ثبت کر دی تھی۔ یہ کوئی ایسی معمولی بات نہ تھی۔ لیکن کوئی تجزیہ نگار اسے ناکام ‘عوفی فاتح جرنیل ناسہی جرنیل بھی نہیں قرار دے گا۔ کاشف اور پنکی جیت کر بھی ہار چکے تھے۔ عوفی نے انھیں عبرت ناک شکست دی تھی۔ یہ ہی ‘حقیقت اور یہ ہی وقت کا انصاف ہوگا۔ ہر کیے کا‘ کوئی ناکوئی پرینام تو ہوتا ہی ہے۔ کاشف‘ باپ ہو کر‘ ماموں کا رشتہ استوار کرنے پر مجبور ہو گا اور پنکی کا آنچل پچھتاوے کی آگ میں جلتا رہے گا۔۔۔۔۔۔۔ ہاں جلتا رہے گا۔ آنچل جلتا رہے گا مسجد سے هللا اکبر کی صدا گونجی۔ میں کانپ کانپ گیا۔ اس سے پہلے بھی یہ آواز کئی بار سن چکا تھا لیکن اج تو اس آواز نے
گھائل کر دیا۔ هللا مجھے واپس لوٹنے کے لئے کہہ رہا تھا۔ میں تیزی سے مسجد کی جانب بڑھ گیا۔ جانے کتنی دیر سجدہ میں رہا لیکن جب سر اٹھایا سارا غبار چھٹ چکا تھا۔ بیوہ طوائف فقیر بابا کو میں بھی پاگل سمجھتا تھا۔ میں نے اس کے کہے کے مفاہیم دریافت کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ ہوٹل پر کام کرتے بچے کو دیکھ کر احساس ہوا ہے کہ فقیر بابا غلط نہیں کہتا۔ وہ پاگل نہیں‘ اس نے تو دنیا کی گل پا لی ہے۔ اسی لیے ہر پوچھنے والے کو دنیا کا حقیقی چہرا دیکھاتا ہے کہ انسان تنہا ہو گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔تنہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں یکسر تنہا۔ فقیر بابا یہ سب اس نے جاگتی آنکھوں سے دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیسے بھول پاتا۔ کربناک لحموں کی بازگشت تازیست یادوں کے نہاں گوشوں میں اپنا تمثالی وجود برقرار رکھتی ہے۔ یادوں کا تمثالی وجود نیند کے جھونکوں کا انتظار نہیں کرتا۔ موقعہ بہ موقعہ اپنے اٹوٹ وجود اور قلبی رشتے کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ اسے اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ کسی پر کیا گزرے گی۔ بازگشت کا رشتہ اگر مٹی ہو جائے تو گزرا کل اپنی معنویت کھو دے اور صیغہ تھا الیعنی ہو کر رہ جائے۔ بازگشت اسے اپنی موت کا رائی بھر دکھ نہ تھا۔ اس نے خود یہ رستہ منتخب کیا تھا۔ اب یہ درندہ کبھی کسی کمزور کا وحشیانہ تعاقب
نہ کر سکے گا اور اس کی ٹانگوں سے ہمیشہ اف اف اف کے بزدل نعرے بلند ہوتے رہیں گے۔ آخری کوشش سقراط اور حسین نے‘ اس مروجہ طور کو‘ جان دے کر‘ غلط قرار دیا۔ ہم سقراط اور حسین کے راستے کو‘ درست مانتے ہیں اوراس رستے کا‘ زبانی کالمی احترام بھی کرتے ہیں۔ عملی طور پر‘ ہمارا پرنالہ وہیں پر ہے۔ معالجہ ‘مجھے اپنی موت کا رائی بھر دکھ نہیں۔ ایک دن‘ مرنا تو ہے ہی دو دن آگے کیا‘ دو دن پیچھے کیا۔ مجھے تین باتوں کا رنج ہے‘ کہ میں حمیدے کو بچا نہ سکا۔ وہ ابھی زندہ تھا اور آخری سانسوں پر نہ تھا۔ افسوس‘ وہ قانونی تقاضوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ قانون اس کا قاتل نہیں‘ قانونی تقاضوں کے علم بردار‘ اس کے قاتل ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے واال نہیں۔ دوسرا جیرے کا جھاکا کھلنے پر‘ تاسف ہے‘ اب تو وہ اور انھی مچائے گا۔ اس ذیل میں تیسری بات یہ ہے‘ کہ پتا نہیں‘ منافقت کا دیو‘ کب بوتل میں بند ہو کر‘ دریا برد ہو گا۔ ابھی وہ زندہ تھا سچائی کا حسن‘ بار بار نمودار ہونے کے لیے‘ ہوتا ہے۔ اسے نمودار ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ہاں اس کی جڑوں کا پھیلنا اور مضبوط ہونا ضروری ہوتا ہے۔ یہ سب هللا کے اختیار میں ہے۔ زمین کے اندر‘ ہم دخل اندازی نہیں کر سکتے۔ سچائی
کی زمین‘ حد درجہ ذرخیز ہوتی ہے۔ اس کی ازل سے موجود جڑیں‘ کسی ناکسی پودے کو سطح زمین پر التی رہیں گی۔ سچائی کی زمین سب سے زیادہ خرابی سر اٹھاتی ہے۔ روپے کی ‘رمضان میں ہی چیز کے‘ پانچ روپے وصولے جاتے ہیں۔ اس نے سوچا‘ شیطان کے قید ہو جانے کے بعد‘ اس کے انڈے بچے‘ شیطان سے بڑھ کر‘ اندھیر مچاتے ہیں۔ اسے اپنے منصوبے کے‘ ناکام ہو جانے کا اعتراف کرنا پڑا۔ وہ اپنی ذات سے‘ شرمندہ تھا۔ اس منصوبے کی کام یابی کے لیے‘ برائی کا الروا‘ پہلے تلف ہونا چاہیے۔ الروا ختم ہو جائے‘ تو ہی آتا کل محفوظ ہو سکتا ہے۔ الروا اور انڈے بچے گامو سوچیار کے ان لفظوں نے‘ میری نیند اور سکون چھین لیا ہے۔ میں کئی بار‘ اپنے ضمیر کو مطمن کرنے کی کوشش کر چکا ہوں۔ کم بخت‘ مطمن ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ گامو سوچیار جیسے لوگوں کو‘ مصلوب کیا جاتا رہا ہے‘ اس کے باوجود‘ ہر عہد میں‘ ان کی جگہ لے ہی لیتا ہے۔ گامو ‘کوئی ناکوئی یہ بات غور طلب ہے‘ تاہم یہ ‘ یا نہیں‘سوچیار کا کہا‘ درست ہے طے ہے‘ کہ اس گھر میں ہنستے مسکراتے دو منافق رہتے ہیںدو منافق ہر زبان پر‘ اس کی اچھائی اور شریف النفسی کے‘ کلمے تھے۔ وہاں سے‘ معلوم ہوا‘ اس کی بیوہ‘ کسی وقت رشیدہ خانم تھی۔ حاالت اور وقت نے‘ اسے شیداں کپتی بنا دیا تھا اور رشتہ‘
حضرت سید حیدر امام صاحب نے کروایا تھا۔ سید صاحب بھی تشریف الئے تھے۔ وہ گوشہ نشین بزرگ تھے۔ پورا عالقہ‘ ان کی عزت کرتا تھا۔ وہ کچھ ہی دیر‘ وہاں رکے۔ چہرے پر جالل تھا‘ ہاں‘ ساتھ چھوٹ جانے پر‘ ان کی آنکھوں سے‘ خاموش آنسو رواں تھے ان پڑھ یہاں کے شرفا بڑے نیک اور حاجی ثناءهللا ‘سروے کے مطابق ہیں لیکن عملی اعتبار سے‘ حرام خور ہیں۔ مانیں نہ مانیں‘ آپ کی مرضی۔ حقیقت یہ ہی ہے‘ کہ ہم کسی ناکسی سطح پر‘ حرام خور ہیں۔۔۔۔۔ حرام خور۔۔۔۔۔۔۔اسی وجہ سے ہم پوری دنیا میں ذلیل وخوار ہیں۔ پاخانہ خور مخلوق هللا جانے‘ شخص کے ذاتی حقوق کو‘ کیوں گول کر دیا جاتا ہے۔ ذاتی حقوق‘ پہلی ترجیع پر ہوتے ہیں۔ جو شخص‘ اپنے حقوق ادا کرے گا‘ وہی هللا اور اس کی پوری کائنات کی مخلوق کے‘ حقوق ادا کر سکے گا۔۔ جو شخص‘ اپنی ذات سے انصاف نہیں یا کہہ ‘کرتا‘ اللچ اور خوف کے زیر اثر‘ ضمیر کی نہیں کہتا سکتا‘ رزق حالل‘ اپنے وجود کو مہیا نہیں کرتا‘ دوسروں کو کیسے کر سکے گا۔ هللا کا بےنیاز اور ہر حاجت سے باال ہونا‘ اسی میں ہے‘ کہ شخص‘ اس کی ‘مسلم ہے۔ اس کی خوشی مخلوق کے حقوق پوری دیانت داری سے ادا کرے۔ حقوق کا معاملہ ذات سے‘ هللا کی طرف پھرتا ہے۔ دائیں ہاتھ کا کھیل
موسی خود کو جانتے تھے۔ انہیں‘ اس امر سے خوب آگہی کہ انہیں هللا کی تائید حاصل ہے۔ اگر انہیں یہ اگہی ‘حاصل تھی تو وہ دریا میں‘ اتنے لوگوں کو‘ ساتھ لے کر‘ ‘حاصل نہ ہوتی سفر جاری نہ رکھتے۔ فرعون کو‘ اپنی خدائی کا پورا پورا یقین یا یقین دلوا دیا گیا تھا‘ تب ہی تو‘ اس نے دریا میں فوجیں ‘تھا ڈال دیں۔ اس سے‘ وہ ناصرف فوج سے‘ ہاتھ دھو بیٹھا بلکہ عزت بھرم اور پہلے سی شان و شوکت سے بھی گیا۔ یہ عبرت‘ آتی نسلوں کے لیے‘ حجت بنی رہی۔ ذاتی گمان اور چیلوں چمٹوں اندھی اور بے لگام طاقت ‘کی الیعنی اور مطلبی جی حضوری نے‘ کچھ باقی نہ رہنے دیا۔ پنگا کسی انسانی ماں کی اوالد‘ کسی دوسری ماں کی اوالد پر‘ ظلم کی اس حد تک جا ہی نہیں سکتی۔ بندوق کی نوک‘ سر جھکانے پر مجبور کر سکتی ہے‘ لیکن اس سے‘ دل فتح نہیں ہو سکتے۔ قبضہ و تصرف کی ہوس‘ تصادم کے دروازے کھولتی ہے۔ ماں کی محنت‘ مشقت اور پیار سے‘ پروان چڑھنے والے بچوں کو لہو میں نہالتی ہے۔ تلوار کی فتح کو‘ فتح کا نام دینا‘ کھلی جہالت ہے۔ ہاں ماں کے سے‘ پیار سے‘ دل جیتو‘ تاکہ کمزور طبقے‘ سکھ کا سانس لے سکیں اور انسانیت‘ سسکنے بلکنے سے‘ مکتی حاصل کر سکے۔ وہ کون تھے سوچوں کے گہرے سائے تلے‘ آہستہ آہستہ چلتا ہوا‘ اپنے گھر
کے دروازے تک‘ پہنچ گیا۔ دروازے سے دروازے تک کا یہ ‘سفر‘ اسے صدیوں کا سفر محسوس ہوا۔ قدسیہ کا گرجنا برسنا یقینا غلط نہ ہو گا۔ اس نے سوچا‘ میں بھی کیسا شخص ہوں‘ صدیاں الیعنیت میں گزار کر‘ گھر خالی ہاتھ لوٹ آیا ہوں۔ مجھے یہ یاد نہ رہا‘ کہ بچوں کے لیے‘ چکی سے آٹا ‘غیر تو یاد رہے لینے نکال تھا۔ پھر وہ سر جھکائے‘ گھر میں داخل ہو گیا۔ دروازے سے دروازے تک ناں ناں‘ ناں یہ سب بکواس‘ اور هللا کے رازق ہونے سے‘ انکار کے مترادف ہے۔ ہر پیدا ہونے واال‘ اپنا رزق لے کر پیدا ہوتا ہے۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا‘ کہ اس کا رزق‘ اس کے ساتھ نہ آئے۔ اس یا اس کا رزق کھا کر‘ مر جانے والوں ‘کا رزق ارم بنانے والوں یہاں شخص ہزاروں سال ‘کو‘ فراہم کیا جاتا ہے۔ ماسٹر صاحب سے‘ بھوکا پیاسا ہے۔ ایسے حاالت میں‘ کوے کی پیاس کون دیکھتا ہے۔ اسے پیاسا ہی رہنا ہے۔ هللا نے‘ اس کے حصہ میں پیاس نہیں رکھی۔ معاشی ڈسپلن کو‘ تباہ کرنے کے باعث‘ کوے کی پیاس نہیں بجھ رہی۔ اسے پیاسا ہی رہنا ہے میرا مارا جانا‘ ایسی کوئی بڑی بات نہیں۔ پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں‘ ایسا ہوتا آیا ہے‘ ہوتا رہے گا۔ یہ معمول کا مسلہ پہلے سے چلی آتی ہے۔ محسن کشوں سے‘ ‘ہے۔ محسن کشی قدرت سب کچھ چھین لیتی ہے‘ اور زمین و آسمان پر‘ ذلت و ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ حضرت ابراہیم‘ نمرود کے ‘رسوائی ‘خیر خواہ تھے‘ اس نے صلہ میں اذیت دی۔ حضرت موسی
فرعون کے ہم درد تھے‘ لیکن وہ محسن کش نکال۔ سقراط‘ خیر ‘کی چلتی پھرتی عالمت تھا‘ اسے زہر پالیا گیا۔ حضرت عیسی کوئی معمولی شخص نہ تھے۔ وہ‘ جن کا وہ بھال کر رہے تھے‘ وہ ہی انہیں صلیب تک لے آیا۔ حضرت محمد کو‘ اچھا کرنے کے جرم میں‘ پتھر مارے گیے۔ ہر طرح کی ازیت دی گئی۔ حضرت حسین‘ خیر کے رستے پر تھے‘ جن کی بھالئی کر رہے تھے‘ اور انہیں جہنم کی آگ سےبچانے کے لیے‘ کوشش کر رہے تھے وہ ہی پرلے درجے کے بدکردار نکلے۔ منصور خیر کا پرچارک تھا‘ کتنی اذیت ناکی سے‘ اسے قتل کیا گیا۔ سرمد میں‘ ہند سچائی کا سورچ تھا‘ اس کے ساتھ کیا گیا‘ ہند کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ پہال قدم بابا جی کی باتوں کو‘ سب نے سنا اور پسند کیا۔ ادریس صاحب قربانی کے گوشت پر‘ اٹکی ہوئی تھی۔ اتنی دیر میں‘ ‘کی سوئی پانچ لوگوں کا کھانا‘ اندر سے آ گیا۔ چار لوگوں کے لیے چٹنی جب کہ ایک کے لیے‘ گوشت سے بھری پلیٹ آئی۔ ‘ملی لسی جو اماں جی ‘سب نے‘ باطور تبرک چٹنی ملی لسی سے روٹی کھائی اور کھانے کو پرذائقہ ‘کے ہاتھوں کی پکی ہوئی تھی قرار دیا۔ ادریس صاحب کا‘ موڈ اب بھی خراب تھا۔ انہیں پکائی کے‘ ناقص ہونے کا‘ گلہ تھا۔ وہ کیا جانیں‘ گھر میں تو گوشت پکا ہی نہ تھا۔ گوشت کی پلیٹ اور روٹیاں‘ چوہدھری صاحب نے‘ بجھوائی تھیں۔ وہ ہی سفید آٹے کی روٹیاں‘ ادریس صاحب کے پیٹ میں گئی تھیں۔ ادریس شرلی
رحمو‘ نیکی کے رستے سے‘ رائی بھر ادھر ادھر نہ ہوا۔ میں مجھ سے غلطیاں تو ہوتی رہتی تھیں۔ ‘انسان تھا‘ نادانستہ سہی هللا نے‘ دو سال مجھے معافی مانگنے کا‘ موقع دیا۔ آخری تین ماہ‘ لوگوں نے‘ میرے لیے دعائیں کیں۔ ان کی دعاؤں نے‘ مجھے هللا کی رحمت سے‘ مایوس ہونے سے بچایا۔ میں ہر یقینا ‘لمحہ‘ هللا کی عطا و رحمت کا امید وار رہا۔ آخری پندرہ دن یہ ہی میری پوری ‘بڑے درد ناک اور کرب ناک تھے۔ جانتے ہو زندگی کا حاصل تھے۔ میری حالت پر‘ لوگوں کو ترس آنے لگا۔ لوگوں نے‘ خلوص نیتی سے میرے گناہوں کی بخشش کے لیے‘ دعا کی۔ هللا انہیں اجر دے۔ میری موت اور راحت مرزا کی موت کا موازنہ کرو‘ لوگ تو لوگ‘ اسے خود‘ اپنے گناہوں کی توبہ کا موقع نہ مل سکا۔ دنیا میں‘ راحت مرزا سے زیادہ بدنصیب‘ اور کون ہو گا۔ ذرا غور تو کرو۔ موازنہ وہ اسے وقت ضائع کرنے کے مترادف سمجھتا تھا۔ اس کا زیادہ تر‘ بیبیاں پاک دامناں اور حضرت شاہ حسین الہوری کے باتیں ‘درباروں پر‘ آنا چانا تھا۔ وہ دیر تک‘ وہاں بیٹھا اکیال ہی کرتا رہتا۔ اسے واپسی کوئی جواب ملتا یا نہ ملتا‘ کوئی نہیں جانتا۔ اگر کوئی پوچھتا‘ تو جواب میں ہنس دینا۔ اس کے اس ہنسنے میں‘ اثبات اور نہی کا‘ دور تک نام ونشان تک نہ ہوتا۔ سرگوشی کتنی عجیب بات ہے‘ ان میں سے کسی کو اپنی اخالقی و روحانی
بیماریوں کا علم تک نہیں۔ عاللتی استعارے حضرت پیر صاحب کی باتوں میں حقیقت رقصاں تھی۔ وہ بےچارے دعا ہی کر سکتے تھے۔ وہ علی رضا کے لیے کیا کر سکتے تھے۔ ان کی باتیں‘ ان کے عالقہ کے چوہدری صاحب کو‘ گولی کی طرح لگتی تھیں۔ حاالں کہ وہ کسی کا نقصان نہیں کرتے تھے۔ وہ تو‘ اپنے منہ کا لقمہ‘ حاجت مندوں کو دے دیتے تھے۔ دوسری بار آپ حسب معمول نہایت ذمہ داری اور دلسوزی سے ہمارے معاشرہ کے حاالت پر لکھ رہے ہیں۔ حقیقت ہمیشہ تلخ ہوتی ہے لیکن اس سے مفر بھی نہیں ہے۔ میں بھی اسی معاشرہ کا فرد ہوں جس کا ماتم آپ کرتے رہتے ہیں۔ اب تو ایسا نظر آنے لگا ہے کہ ہمارا هللا بھی محافظ نہیں ہے کیونکہ ہم خود اپنی ذمہ داریوں سے ہاتھ کھینچ چکے آراء دہندگان اردو انجمن جناب اسماعیل اعجاز جناب اظہر جناب تنویرپھول جناب خلش جناب ساجد پرویز آنس
جناب سرور عالم راز جناب ضیا بلوچ جناب مشیر شمسی جناب وی بی جی افسانے جن پر رائے دستیاب ہوئی ہے۔ اس میں کوتاہی یا غلطی ممکن ہے۔ جس کے لیے پیشگی معذرت چاہوں گا۔ ادریس شرلی آخری کوشش چار چہرے سرگوشی موازنہ پہال قدم اسے پیاسا ہی رہنا ہے یہ کوئی نئی بات نہ تھی دروازے سے دروازے تک وہ کون تھے پنگا دائیں ہاتھ کا کھیل هللا جانے پاخانہ خور مخلوق ان پڑھ الروا اور انڈے بچے سچائی کی زمین
ابھی وہ زندہ تھا حاللہ بازگشت فقیر بابا بیوہ طواءف بڑا آدمی کریمو دو نمبری معالجہ میں ابھی اسلم ہی تھا پٹھی بابا جواب کا سکتہ ماسٹر جی بڑے ابا گناہ گار گناہ گار انا کی تسکین انگریزی فیل چوتھی مرغی تنازعہ کے دروازے پر کامنا ابا جی کا ہم زاد دو دھاری تلوار شیدا حرام دا عاللتی استعارے بیوہ طوائف
آراء ادریس شرلی جون 2014 ,23 بُہت عمدہ جناب۔ ایسی تحریروں کی معاشرے کو بہت شدت سے ضرورت ہے۔ لوگوں کو ہر پہلو سے ائینہ دکھاتے رہنا ہی اپ کی تحریروں کا مقصد ہے اور وہ اپ بہترین طریقے سے کر رہے ہیں۔ ادریس صاحب میں وہ وہ خصلتیں پائی جاتی ہیں جو اکثر عورتوں میں پائی جاتی ہیں ،لیکن ُکچھ مردوں میں بھی یہ خصلتیں پائی جاتی ہی ہیں۔ ہمارا ذاتی خیال ُکچھ اس بارے میں یہ ہے کہ ہمیں نیکی اور بدی کے فرق کو بہتر طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کئی ایسی نام نہاد نیکیاں معاشرے میں عام ہیں جس سے بُہت نقصان ہو رہا ہے۔ جس کی مثال ہم ُکچھ یوں دیں گے کہ کئی غیر قانونی سرکاری مراعات یہ کہہ کہ جائز قرار دے دی جاتی ہیں :چھوڑیں جی ،یہ غریب ادمی ہے ،اس کا بھال ہو جائے گا :۔۔۔ سرکاری مال ،مال مفت اور دل بے رحم۔ دوسری مثال ان عمر رسیدہ لوگوں کی بھی ہے جنہیں ہم اپنے بچوں سے چاچا اور انکل کہلواتے ہیں۔ بچوں کو یہ احساس ضرور ہونا چاہیئے کہ عمر کے ساتھ الزما ً زندگی کا وسیع تجربہ منسلک ہوتا ہے ،لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہر بات میں وہ درست ہوں۔ بقول ہمارے دیرینہ دوست شیخ سعدی
مرحوم کے: ،بزرگی بہ عقل ہست ،نہ بہ سال:۔ اندھی تقلید چاہے مذہب کی ہی کیوں نہ ہو ،ہم ذاتی طور پر اس کے حق میں نہیں ہیں۔ سو ہمارے خیال میں کہانی کے مرکزی کردار جیسے لوگوں کو ان کے منہ پر اپنے دل کی بات مناسب انداز میں بتا دینی چاہیئے اور ہر کسی کی عزت اتنی ہی کرنی چاہیئے جتنے اس کے اعمال کا حق ہو۔ ہمارے ہاں تو اپ جانتے ہی ہیں کہ کسی کی تعظیم اور اس کا مقام ،اج بھی لوگ ،یا تو اس کی دولت کے حساب سے کرتے ہیں یا پھر عمر کے حساب سے۔ ہماری نظرمیں یہ پیمانہ درست نہیں۔ بڑی گاڑی سے اترے والے شخص کی خدمت بھاگ بھاگ کر کی جاتی ہے ،چاہے وہ خود نہ بھی چاہے ،جبکہ اس ناچیز جیسا کوئی شخص سنیارے کی دکان میں جانا چاہے تو محافظ دروازے پر ہی روک کر پوچھ گچھ ُ شروع کر دیتا ہے۔ دوسری طرف اگر کوئی بزرگ ،بقول اپ ہی کے ،اپنا لُچ بیچ میں تلنے کی کوشش کرے (ویسے یہ محاورہ بھی کیا ہی خوب کسی نے بنایا ہے ،ہمیں بُہت پسند ہے) تو اس پر خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔ سو ہمارے خیال میں جب تک تعظیم کا معیار درست نہیں ہوتا، معاشرتی نا انصافیاں بڑھتی ہی چلی جائیں گی۔ لوگوں کو ہر پہلو سے ائنہ اپ خوب دکھاتے رہتے ہیں تاکہ لوگ اپنے گریبان میں جھانک کر اپنے اندر موجود برائی کو جان پائیں۔ اور اگر وہ جان گئے تو اس میں سب کا بھال ہو گا۔ ایک بات ہم سے کہنا رہ گئی تھی۔ اپ کی تحریروں میں محاوراتی
زبان کا عنصر نمایاں ہے۔ اسے پڑھ کر ہمارے علم میں بہت اضافہ ہوتا ہے اور یقینا ً اس کے اثر سے ہم بھی اپنی بات کو بہتر ،پُر اثر اور با معنی بنا سکا کریں گے۔ جس پر ُ شکر گزار ہیں۔ ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ۔ وی بی جی 1 آخری کوشش جوالئی 2013 ,15 فی زمانہ نثر نگاری کا فن زنگ آلود ہو چالہے۔ کوئی رسالہ بھی ! اٹھا کر دیکھئے توسوائے چند اوسط درجہ کے افسانوں اور چند منظومات (غزل اور آزاد نظمیں) کے عالوہ کچھ اور نظر نہیں آتا۔ ماضی میں رسالوں میں ادبی ،علمی اور تحقیقی مضامین کثرت سے ہوا کرتے تھے۔ تنقید و تبصرہ فن کی حیثیت سے سیکھے اور سکھائے جاتے تھے اورافسانہ نگاری بھی اونچے معیار کی حامل تھی۔ اب ادب پر ایک عمومی زوال تو طاری ہے ہی نثر نگاری خصوصا اضمحالل کا شکار ہے۔ غزل کہنا لوگ آسان سمجھتے ہیں (حاالنکہ ایسا نہیں ہے)۔ غزل میں وقت کم لگتا ہے اور نظم میں اور نثر میں زیادہ ۔ نثر مطالعہ اور تحقیق بھی چاہتی ہے جس سے ہماری نئی نسل بیگانہ ہو کر رہ گئی ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ کوئی زبان بھی صرف ایک صنف سخن کے بل بوتے پر پھل پھول نہیں سکتی لیکن اردو والے اس معمولی سی حقیقت
سے یا تو واقف ہی نہیں ہیں یا دانستہ اس سے صرف نظر کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ کی اردو محفلیں بھی اسی مرض کا شکار ہیں اور وہاں بھی سوائے معمولی غزلوں کے (جن میں سے بیشتر تک بندی ہوتی ہیں) کچھ اور نظر نہیں آتا۔ آپ کی نثرنویسی میں مختلف کوششیں اس حوالے سےنہایت خوش آئند ہیں۔ آپ مطالعہ کرتے ہیں ،سوچتے ہیں اور انشائیے لکھتےہیں۔ اس جدو جہد کو قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ میں اپی مثال کسی خودستائی کی شہ پر نہیں دیتا بلکہ دوستوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ شوق،محنت اور لگن ہو تو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ میں نے انجینیرنگ پر نصابی کتابیں لکھی ہیں۔ ان کے عالوہ غزل ،نظم، افسانے ،ادبی مضامین ،تحقیقی مضامین ،ادبی تنقید وغیرہ سب ہی لکھا ہے۔ یقینا سب کچھ اعلی معیار کا نہیں ہے لیکن بیشتر اچھے معیار کا ہے اور ہندو پاک کے معتبر اور موقر رسالوں میں شائع ہوتا ہے۔ میں آپ کی انشائیہ نگاری کا مداح ہوں اور درخواست کرتا ہوں کہ برابر لکھتے رہہئے۔زیر نظر انشائیہ اچھا ہے لیکن یہ مزید بہتر ہو سکتا تھا سو اپ وقت کے ساتھ خود ہی کر لیں گے۔ خاکسار کی داد حاضر ہے ۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔ سرور عالم راز سالم اس تحریر پر ہم ُکچھ نہ لکھیں گے۔ فقط یہی کہ اسے پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور تحریر کے اختتام کے قریب سانسیں ُرک جاتی ہیں۔ اور پھر منہ کھُال کا کھُال رہ جاتا ہے۔ اس کے اندر جو کرب ہے اور جو ُکچھ یہ انگلیاں لکھنے کو دوڑ رہی
ہیں ،اُسے بصد مشکل روکتے ہوئے ،ایک بار پھر سے بھرپور داد ۔۔۔دُعا گو وی بی جی 2 چار چہرے نومبر 2013 ,26
Pehla chehra yaqeenan sab se mumtaaz hai. Hairangi ki baat yeh hai keh iss taraf koi jaata he nahi. Danish ka barqaraar rehna aur usske liye apne aap ko qurban karna buhot baRi baat hai aur yehi baat pehle chehre ko dosrooN se mumtaz karti hai. Fikr angaiz khayyal aur umah tahreer. خلش آپ کا مختصر انشائیہ دیکھا تو مجھ کو ١٩۴٨کے آس پاس والد مرحوم کا لکھا ہوا ایک مضمون :عورت کی فطرت :یاد آ گیا جس کالب لباب یہ تھا کہ یہ معمہ اب تک حل ہوا ہے اور نہ آئندہ اس کے حل ہونے کی کوئی امید ہے۔ آپ کاانشائیہ دیکھا کہ آخری چند سطروں میں آپ نے خیال ظاہر کیے ہے کہ ان چار چہروں
کے مطالعہ سے یہ گتھی سلجھ سکتی ہے۔ میں صرف جذباتی طور پر ہی نہیں بلکہ فکری سطح پربھی والد مرحوم سے زیادہ متفق ہوں۔ آپ جب اس معمہ کو سمجھ لیں تو اپنے ارادت مندوں کو ضرور حل سے آگاہ کیجئے گا! باقی رہ گیا راوی تو وہ چین بولتا ہے۔ سرور عالم راز میرا بھی یہی خیال ہے کہ محترم راز چاند پوری نے درست فرمایا تھا ویسے یہ بھی پیش نظر رہے کہ ایک حدیث کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ عورت پسلیکی ہڈی سے پیدا ہوئی ہے ،اسے بالکل سیدھا کرنے کی کوشش نہ کرو ورنہ توڑ بیٹھو گےاس کی کجی کے ساتھ اس سے فائدہ اٹھاتے رہو والسالم تنویرپھول 3 سرگوشی جوالئی 2014 ,06 آپ کاانشائیہ "سرگوشی" آپ کے مخصوص طرز فکر وبیان کا اعلی نمونہ ہے۔ ایک ایک جملہ میں ایک داستان پوشیدہ ہے۔ بین السطور کیا کیا نہیں کہہ دیا گیا ہے۔ پنجابی سے میں نا واقف ہوں پھر بھی سیاق و سباق سے کچھ سمجھ ہی گیا۔ اگر آپ پنجابی اشعار ،کہاوتوں اور فقروں کا ترجمہ بھی لکھ دیا کریں تو ہماری مشکل آسان ہو جائے گی۔ اس سے قبل بھی آپ کے کئی انشائیے
نظر آئے لیکن اپنی بد تقدیری کے ہاتھوں ان سے مستفید نہ ہو سکا۔ اب واپس جا کر ان کو پڑھنے کا ارادہ ہے۔ رمضان چل رہے ہیں۔ اس مبارک ماہ میں ایسے مضامین اور بھی دل پذیر ہو جاتے ہیں۔ جزاک هللا خیرا۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔ سرور عالم راز 4 موازنہ جون 2014 ,27 جناب عزت افزائی کا بُہت ُ شکریہ۔ ہمارے لیئے اعزاز کی بات ہے کہ اپ کے قلم نے ہمیں اس الئق سمجھا ہے۔ لیکن ایک گزارش کرنا چاہیں گے کہ صاحب! یہ تعریفیں ہم سے برداشت نہیں ہوتیں۔ سمجھ لیجے کہ تعریفیں وی بی جی کی موت ہیں۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اپ نے کس قدر خلوص اور محبت سے ہمارے بارے میں اپنے خیاالت کا اظہار فرمایا ہے۔ اور یقینا ً اپ نے حق گوئی کا مظاہرہ کیا ہو گا۔ جیسا محسوس ہؤا ویسا بیان کیا ہو گا۔ ہم ُ شکر گزار ہیں کہ اس الئق سمجھا اپ نے۔اپ نے بُہت ہی خوبصورت انداز میں جواب عنایت فرمایا ہے۔ اپ قلم کار ہیں سو اپ بات کہنے کا فن جانتے ہیں۔ لیکن اس گہرائی سے مشاہدہ کرنا ظاہر ہے کہ گہری سوچ اور سلجھا ہؤا ذہن چاہتا ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ جواب بھی ہمیں بہت پسند ایا ہے۔ دراصل کئی ایسے سوال ہوتے ہیں ،جن کے ذہن میں اتے ہی ،لوگ انہیں جھٹالنا ُ شروع کر دیتے ہیں کہ یہ تو
سوچنا بھی گناہ ہے۔ اور اس طرح گویا یہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے جو انسان دے سکے۔ اور نتیجہ یہ کہ اپنے اپ کو دھوکہ دیتے رہتے ہیں اور ایمان کی کمزوری کا شکار رہتے ہیں۔ ہمارے خیال میں تمام سواالت کے جواب موجود ہوتے ہیں۔ هللا پاک اور اس دنیا کا وجود ہمیں غیر منطقی نہیں نظر اتا۔ اگر ہم سوچنے پر ہی پابندی لگا دیں ،تو جواب کہاں سے ائیں گے۔ ایمان پُختہ ہونا چاہیئے ،راز کھُلتے چلے جاتے ہیں۔تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد۔۔۔ بُہت ہی عمدہ تحریر ہے۔ ظاہر ہے کہ کئی سوالوں کے جواب دیتی ہے۔ سُلجھا ہؤا انداز تحریر ہے۔ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ ۔ وی بی جی 5 پہال قدم جون 2014 ,22 بُہت عمدہ جناب۔ بُہت ہی اعلی تحریر ہے۔ بھرپور داد۔ اپ کو بات کہنے کا فن اتا ہے ،اور ظاہر ہے کہ یہی ایک قلم کار کے فن کا مظہر ہے۔یہ تحریر جس راستے پر چلنے کا سبق دے رہی ہے جناب ،وہ بُہت ہی مشکل راستہ ہے۔ اس قدر مشکل کے تصور کرنا بھی محال۔ کاش کہ ہم لوگ اس مقام تک پہنچ سکیں۔مشکالت صرف یہی نہیں جو تحریر سے عیاں ہیں ،بلکہ ُکچھ برعکس بھی ہیں۔ اپ نے تاریخ میں سے ُکچھ مثالیں قلمبند کی ہیں ،لیکن سچ پوچھیں تو ہم ایسی ہزاروں مثالیں پیش کر
سکتے ہیں ،جہاں بُرا کرنے والے کو اس کے کیئے کے برابر سزا نہیں ملی۔ کئی ایسی مثالیں بھی ہیں جن میں سرے سے سزا ملی ہی نہیں ،بلکہ ظلم کرنے والے اخری سانس تک عیاشی اور ظلم کرتے رہے۔ کئی مثالیں تو ہمارے سامنے ہی موجود ہیں جہاں شرفا مہینوں چارپائی پر کھانس کھانس کر اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے ہیں ،جبکہ ظالم لوگوں کے لیئے قدرت نے قدرے اسان طریقہ موت بھی ایجاد کر رکھا ہے جیسے دل کا دورہ پڑنے سے اچانک دُنیا سے اُٹھ گیا۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر دُنیا میں انصاف ہو رہا ہوتا اور ہر ظالم کو حق کے مطابق سزا مل رہی ہوتی ،تو ،نہ تو یہاں ظلم عام ہوتا ،اور نہ ہی جنت اور دوزخ کے وجود کی کوئی ضرورت تھی۔جب یہ سب انسان دیکھتا ہے ،کہ دنیا میں انصاف نہیں ہے۔ اچھا کرتا اور بُرا نتیجہ لیتا ہے تو ظاہر ہے کہ قدم ڈگمگا جاتے ہیں۔ هللا پر اعتماد بھی کہنے کو تو بُہت ہوتا ہے ،لیکن دل میں کمزور پڑ جاتا ہے۔ ایسی صورت میں اس راستہ پر چلنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔باقی جناب اپ کی تحریر اس قدر خوبصورتی سے کئی پہلو سمجھا رہی ہے کہ مذید ُکچھ کہنے کو رہ ہی نہیں جاتا۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ امید ہے کہ پڑھنے والے جس قدر ہو سکا ،اثر لیتے ہوئے ،سچائی کے راستہ پر ڈٹے رہیں گے۔ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ وی بی جی ہم معذرت خواہ ہیں کہ ہماری باتوں نے اپ کو کل سے عجیب سی کشمکش اور بے چینی میں مبتال کر رکھا ہے۔ ہم نے کوشش
کی کہ جلد سے جلد حاضر ہو سکیں سو حاضر ہو گئے ہیں۔پہلے تو ہم یہ بتاتے چلیں کہ جو اپ 40 - 50سال سے کر رہے ہیں وہ بُہت بڑا کام ہے۔ ہم نے بھی ایسی ہی تحریریں پڑھی ہیں اور ہمیں یاد تک نہیں کہ وہ کون لکھتے تھے۔ اور بھی کئی لوگ ہیں جو اس علمی خزانے سے استفاضہ حاصل کرتے ہیں۔ اپ کی تحریروں نے کئی لوگوں کو اگہی بخشی ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ اُنہیں اپ کا نام بھی یاد نہ رہے ،اور تحریروں کو سرسری پڑھ کر چلے جائیں۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ یہی وہ تحریریں ہیں جو اُن کے الشعور میں پیوست ہو جاتی ہیں۔ اور پھر اہستہ اہستہ شعور کا حصہ بنتی چلی جاتی ہیں۔اپ جانتے ہی ہیں کہ ہم قلم کار نہیں ہیں سو ُکچھ بھی لکھتے ہیں تو وہ بکھرا بکھرا اور کئی بار بے ربط سا ہو جاتا ہے۔ ُکچھ ایسا ہی یہاں بھی ہؤا۔اصل میں بات پیر صاحب کی تھی ،سو ہم اسے پیری میں ہی لے گئے۔ جو طرز عمل پیر صاحب کا اس تحریر میں تھا وہ ہمارے خیال سے صرف پیروں کے ہی بس کی سی بات ہے۔ سو ہم نے اس میں پیش انے والی مشکالت کو ذرا سا بیان کر دیا اپنی محدود عقل کے حساب سے۔ مشکالت تو اس بھی کہیں ذیادہ بڑھ کر ہیں۔ اس سے ایک درجہ اوپر کی مشکل بھی موجود ہے جسے الفاظ بھی دئیے جا سکتے ہیں ،لیکن اس کے بعد کی مشکالت کو تو الفاظ بھی دینا ممکن نظر نہیں اتا ہمیں۔ ہم اس میں ذیادہ نہیں جاتے، وگرنہ شاید ہم اپنی بے تُکی باتوں سے اپ کو مذید الجھا ہی نہ دیں۔هللا پاک ہم سب کو طاقت دے کہ ہر مشکل برداشت کریں لیکن نیکی کے راستے سے قدم نہ بہکیں۔ وی بی جی
اسے پیاسا ہی رہنا ہے جون 2014 ,20 آپ کی تحریر میں بہت درد ہوتا ہے اور ہر بات آپ کے دل سے نکلی ہوئی لگتی ہے۔ نئی نسل ہماراہی عکس ہے۔ ہم نے ان کے لئے جو روایات چھوڑی ہیں وہ ان سے الگ کیونکر ہو سکتے ہیں۔ لوگوں سے جب ذکر ہوتا ہے تو ہمارے یہاں بندھا ٹکا جملہ ہوتا ہے کہ "دعا کیجئے" اور ظاہر ہے کہ صرف دعا سے کیا ہوتا ہے۔ اونٹ تو بھاگ چکا ہے۔ اب ہم الکھ دعا مانگیں وہ لوٹ کر نہیں آنے کا۔ هللا هللا خیر سال۔ سرور عالم راز بُہت ہی شاندار تحریر ہے۔ ایک تو جس طرح یہ کہانی کوے کے پیاسے ہونے کی تشریح کرتی ہے بُہت ہی خوب ہے اور پھر اختتام تو سبھان هللا ۔۔ ہماری طرف سے بھرپور داد۔ محترم سرور عالم راز سرور صاحب کی باتوں سے بھی استفادہ کیا۔ اپ کی باتیں بجا ہیں۔ حاکم ہمیشہ محکوم کی وجہ سے حاکم رہا ہے اور رہے گا۔ ہمیں اس سے کیا کہ ہماری تاریخ میں کیا ُکچھ بھرا پڑا ہے۔ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ہارون الرشید اور مامون الرشید کے دور میں فرقہ معتضلہ کی کیا حیثیت تھی۔ خاندان برامکہ کے ساتھ کیا ہؤا۔ کس کی الش بازار میں کتنے دن لٹکی رہی۔ اور حضرت امام احمد بن حنبل کے ساتھ کیا کیا گیا۔ ہمیں صرف ان کے دور حکومت کی تعریف کرنی ہے
کیونکہ وہ مسلمان خلفا تھے۔ ہمیں مغلیہ دور کی بھی تعریف کرنی ہے ہم کیوں جانیں یا مانیں کہ نور جہاں شیر افگن کی بیوی تھی یا نہیں۔ اسے کس نے کیوں قتل کروایا۔ ہمیں ان کی تعریف ہی کرنی ہے۔ اپ کئی بار کہہ چُکے ہیں کہ مورخین نے بُہت ظلم کیا ہے۔ بالکل دُرست کہتے ہیں جناب کوا پیاسا رہے گا۔ دُرست۔ لیکن کوے کو پانی کی تالش جاری رکھنی چاہیئے اور ہم اس کے لیے کوشاں رہیں گے۔ قدرت کا کھیل ہی ایسا ہے۔ کوے کو پیاس دی ہے اور امتحان یہی ہے کہ اسے پانی پال کر دکھاؤ تو تم کامیاب۔ یہی جہت ہے یہی جہاد۔ہماری نظر میں یہ اپ کی زور دار تحریروں میں سے ایک ہے۔ شاندار ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور داد۔ وی بی جی عمدہ پُر فکر تحریر سے ہمیں جھنجھوڑنے کا بے حد شکریہ مگر صاحب ہم سبھی اپنا اپنا کردار نبھاتے اپنی اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہیں ہم میں سے ہر شخص دوسرے کے ئے امتحان ہے اور اسی امتحان پر پورا اترنے کا نام ڈسپلن ہے اور یہ ڈسپلن حق ادا کرنے کا نام ہے حق مانگنے کا نہیں ،مگر آج الٹی گنگا بہ رہی ہے ہر شخص اپنا حق مانگ رہا ہے مگر دوسروں کا حق ادا نہیں کر رہا یہیتو ڈسپلن کی خالف ورزی ہےایسی پُر فکر تحریروں کے آئینے میں ہمیں ہمارا چہرہ دکھانے کا شکریہ قبول فرمائیےکبھی نہ کبھی شرم ہمیں ضرور آئے گیوالسالم 6اسماعیل اعجاز
یہ کوئی نئی بات نہ تھی جون 2014 ,18 کیا ہی بات ہے جناب ۔ بُہت خوب۔ بُہت باریک معاملے پر قلم اٹھایا ہے اور کیا ہی خوب اٹھایا ہے۔ یہ انداز بھی بُہت پسند ایا جس طرح اپنے معاملے کو ایک مقالمہ کی شکل دی اور بات واضح سے واضح طور تر ہوتی چلی گئی۔ ہمیں سو فی صد اتفاق ہے اپ کی اس بات سے۔ معاملے کو تھوڑا وسیع کر کے دیکھیں تو بات وہیں جنون و خرد کی لڑائی پر اتی ہے۔ ہمارا ذاتی خیال ہے کہ جنوں اورد کی طرح ہے اور عموما ً کسی چیز کا حقیقی اور حتمی احساس ہوتا ہے۔ خرد کو دالئل چاہیئں۔ وہی فرق جو وکالت اور نفسیات کا اپ کی تحریر میں جھلکتا محسوس ہوتا ہے۔نفسیات چونکہ اس چیز کا مطالعہ کرتی ہے :جو ہے ،:اس لیئے حقیقت کے قریب تر ہے۔ جبکہ وکالت کا زیادہ تر زور اس پر ہے کہ :کیا ہونا چاہیئے :حاالنکہ ہمارے نذدیک :کیا ہونا چاہیئے :کا اس وقت تک تعین ہی نہیں کیا جاسکتا جب تک یہ مکمل طور پر جان نہ لیا جائے :جو ہے :۔اپ نے بجا فرمایا کہ ہمارا معاشرہ ،اکہرے نہیں بلکہ دوہرے معیار کا شکار ہے بلکہ ہم تو کہیں گے کہ کئی ہرے معیاروں کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بقول شخصے :ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کی بیوی وہ ُکچھ نہ کرے جو وہ چاہتا ہے کہ پڑوسی کی بیوی کرے :اس کی وجہ ہمیں جو محسوس ہوتی ہے وہ بھی اپ نے بیان فرما ہی دی ہے ،کہ ہم لوگوں نے اسالم کو اپنی ہندوستانی تہذیب کے ساتھ ہم اہنگ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسالم میں غیرت کا ایسا تصور ہمیں کہیں نہیں ملتا ،وہاں کافی باتیں ُکچھ مختلف انداز میں ہیں۔لیکن خیر یہ
واقعی کوئی نئی بات نہیں ہے ،لیکن اپ نے اسے اپنے قلم کے زور سے نیا بنا دیا ہے۔ مقالمہ بُہت اچھا لکھا ہے اپ نے۔ ہمیں تو پڑھ کر بُہت مزا ایا جناب۔ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ ۔۔۔ وی بی جی 7 دروازے سے دروازے تک جون 2014 ,14 بُہت ہی دلسوز تحریر ہے جناب۔ کیا خوب قلم چالئی۔ یقین جانیے تحریر پڑھ کر اپ کے قلم کی تعریف کرنے کی بجائے ،رونے کا دل چاہتا ہے۔تحریر کا پہال حصہ جس موضوع پر قاری کا دل نرم کرتا ہے ،اُس پر ُکچھ کہتے بھی شرم محسوس ہوتی ہے لیکن اس دلسوز حقیقت کو جان لینے کے بعد تحریر کا دوسرا حصہ صحیح طور سے سمجھ بھی اتا ہے اور دل پر اثر کرتا ہے۔ مسلمان معاشرہ اتنی بیماریوں کا شکار ہو چُکا ہے کہ بندہ کیا کہے اور کیا نہ کہے۔ لوگ اس قدر بے حس ہو چُکے ہیں کہ ہر معاملہ کو حکومت کی زمہ داری قرار دے کر ،پہلو تہی کر جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ کبھی کبھی ہمیں لگتا ہے کہ لوگ چاہتے ہیں وہ گھروں میں سکون سے بیٹھے رہا کریں اور حکومت سب کو گھر گھر ہر مہینے پیسوں کی بوری دے جایا کرے۔ انہیں سمجھ نہیں اتا کہ اناج نہیں اُگائیں گے تو نہیں کھائیں گے۔ ریڑھی پر لوگوں کو دھوکے سے گندے ٹماٹر بیچنے واال خود حکومت سے رنجیدہ ہے کہ وہ دھوکے باز ہے۔ لوگ نہیں سمجھتے کہ وہ
ایجادات ،تعلیم ،زراعت وغیرہ میں محنت کر کہ دنیا کو ُکچھ دیں گے نہیں تو دنیا انہیں موبائل اور کمپوٹر مفت فراہم نہیں کرے گی۔ مذہبی ُمعامالت میں انتہا پسندی یہی ہے کہ ایک فرقہ قبر کو سجدے تک کرنے پر راضی ہے تو دوسرا قبروں کو التیں مارتا پھرتا ہے۔ برداشت ختم ہو چکی ہے۔ ایک انگریز بوڑھی سی خاتون ایک دن ٹی وی پر کسی پروگرام میں بہت پیار اور حیرت بھرے لہجے میں فرما رہی تھیں کہ اخر مسلمانوں کو کیوں کمیونٹی بن کر رہنا نہیں ا رہا ہے۔ وہ نہیں سیکھ رہے اور نقصان بھی وہ اپنا ہی کرتے جا رہے ہیں۔ اُس کے نذدیک یہ بُہت معمولی سی بات تھی کہ اتنی سی بات نہیں سمجھ ا رہی۔خیر ہمیں تو اب اپنے اپ سے ڈر لگنے لگ گیا ہے کہ اگر ہم اپنے قلم پر قابو نہ پا سکے تو ہمارا حال وہی ہو گا جو ساحر اور جالب کا ہؤا تھا۔ لیکن خیر ،ابھی ہمیں اپنے اندر موجود ،اس بے حسی پر بھروسہ ہے ،جو اس معاشرہ نے ہمیں تحفہ میں دی ہے۔تحریر پر ہم اپ کو ایک بار پھر بھرپور داد دیتے ہیں۔ وی بی جی 8 وہ کون تھے جون 2014 ,11 سالم عاجزانہ آپ کی تحریر پڑھی دل میں برسوں سوۓ ہوۓ جذبہ رحم دلی جگا گئی ہماری طرف سے اتنی اچھی تحریر لکھنے پر بھرپور داد قبول کیجئے جناب ڈاکٹر صاحب ہمارا علم اتنا وسیع نہیں کہ
ہم اس بات کی گہرائی تک پہنچ سکیں لفظ "حضرت"جس کے کافی لفظی معنی ہیں لیکن اکثر یہ لفظ تعظیما استعمال کیا جاتا ہے لیکن زیادہ تر یہ لفظ کسی پیغمبر یا هللا کے ولی کے نام کے ساتھ آیا ".......حضرت مہاتما بدھ کی تعلیمات" ہمیں مہاتما بدھ کے بارے میں زیادہ علم نہیں لیکن میں نے یہ لفظ ان کے نام کے ساتھ پہلے کبھی نہیں پڑھا ہم چونکہ مہاتما بدھ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ممکن ہے کہ پہلے بھی ان کے نام کے ساتھ یہ لفظ استعمال ہوا ہو لیکن پھر بھی آپ سے گزارش ہے کہ تسلی بخش جواب دیں جس سے ہمارے علم میں اضافہ ہوغلطی گستاخ معاف دعا ہے کہ هللا آپ کو اور زور قلم عطا کرے مجھے اپنی دعاؤں می یاد رکھیں وی بی جی پنگا جون 2014 ,07 آداب و تسلیمات کے بعد بہت دلکش پیرائے میں لکھی ہوئی تحریر ہے ،داد آپ کا حق ہے وصول پائیے اظہر آپ کو علم ہی ہے کہ میں آپ کے مضامین کا پرانا مداح ہوں۔ روز اول سے ہی میں اس خیال کا ہوں کہ آپ کو اپنے مضامین
کتابی صورت میں شائع کوادینا چاہئیں۔ خدا خدا کرکے آپ باآلخر اس پر راضی ہو گئے ہیں سو بصد عجز و محبت عرض ہے کہ نصف "رائلٹی" کا میں مستحق ہوں! یہاں لکھے دے رہا ہوں تاکہ "سند رہےاور بوقت ضرورت کام آوے"۔آپ کا انشائیہ "پنگا" آپ کے مخصوص انداز فکر و بیان کی عکاسی کرتا ہے۔ اس میں حسب معمول زندگی اور دنیا کے چہرے سے نقاب اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہر چند کہ بہت سی باتیں ظاہر سی ہیں لیکن "گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را" والی بات بھی تو اہم ہے۔ بہت خوب لکھا ہے آپ نے۔ هللا آپ کو سالمت رکھے۔ لکھتے رہئے اور یہ بتائیں کہ کتاب کب تک آ رہی ہے۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔ سرور عالم راز بُہت خوب تحریر ہے۔ ہمیشہ کی طرح داد حاضر۔ معذرت بھی چاہتے ہیں کہ فوری حاضری نہیں دے پاتے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ اپ کی تحریر کو لفظ لفظ پڑھنا ہوتا ہے ،اور اسے انہماک سے پڑھتے وقت یکسوئی ضروری ہوتی ہے۔ جبکہ کاروبار زندگی اس کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ جیسے ہی فرصت پاتے ہیں تو حاضر ہو جاتے ہیں۔جان کر بُہت خوشی ہوئی کہ طباعت کا کام جاری ہے ،اور جلد اپ کی کتابیں شائع ہونے والی ہیں۔اپ کی تحریر بُہت جاندار ہے ،البتہ جناب پنگے کے بغیر تو دُنیا میں کوئی تبدیلی نہیں ا سکی۔ چاہے تبدیلی اچھی ہو یا بُری ،اس کے بغیر ممکن نظر نہیں اتی۔ اگرچہ ہمارا یہ بیان بھی پنگا لینے کے مترادف ہے ،لیکن چونکہ ہم پنگا لینے کے خوب حق میں ہیں،
سو یہ اعالمیہ جاری کرنا جائز سمجھتے ہیں۔تقدیر کسی کے پنگا لینے یا نہ لینے کو دیکھتی ہی نہیں۔ ٹائگر کی ہی مثال لیجے، تحریر کہیں نہیں کہتی کہ اس کو خارش لگنے کا سبب بھی کوئی پنگا ہی تھا جو ٹائگر سے سرزد ہؤا۔ وہ بغیر پنگا لیئے ہی خارش کی نظر ہو گیا۔ دوسری طرف پنگا لینے واال ناگ خود تو اپنے پنگے کی سزا بھُگت گیا ،لیکن ساتھ میں ٹائگر کو بھی لے گیا۔ ہٹلر نے جو پنگا لیا سو لیا ،لیکن اُن الکھوں لوگوں نے کیا پنگا لیا تھا کہ بیچارے ،ایٹم بم کی نذر ہو گئے۔ ایسے ہی سکندر کو تو جہلم کے مچھروں نے سزا دی ،لیکن اس ہاتھی بیچارے کا کیا قصور تھا جس کی سونڈ کاٹ گیا۔ نہ ہی راجہ پورس کی فوجوں نے کوئی پنگا لیا تھا کہ لتاڑی گئیں۔سو صاحب جس نے پنگا لیا ،اُس نے دوسروں کو بھی بڑا نقصان پہنچایا۔ دوسری طرف خود پنگا نہ لو تو کسی دوسرے کے پنگے کا شکار ہو جانا پڑتا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی صاحب اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں کہ ایک بار اُنہیں ُکچھ دوستوں کے ساتھ خچروں پر دشوار گزار پہاڑی راستوں پر سفر کرنا پڑا۔ ایک صاحب تھے، کہ جب بھی خچر کسی دشوار اور خطرناک جگہ سے پہار پر چڑھتا تو وہ صاحب ،خچر سے نیچے اُتر جاتے اور خود چڑھتے۔ کسی نے کہا کہ صاحب ،یہ خچر ماہر ہیں یہاں پہاڑوں پر چڑھنے کے۔ اپ کا پاؤں پھسال تو اپ بے موت گہری کھائی میں مارے جائیں گے۔ اُن صاحب نے جواب دیا کہ حضرت جانتا ہوں ،لیکن میں اپنی غلطی کی موت مرنا چاہتا ہوں ،نہ کہ اس خچر کی غلطی کی سزا میں مروں۔تو صاحب اس سے پہلے کہ کوئی اور پنگا لے کر ہماری زندگی میں خلل ڈالے ،ہم خود پنگا لے لینا مناست سمجھتے ہیں۔مزاح برطرف۔ اس بات سے انکار
نہیں کہ قدرت سے پنگا لینے والے کا انجام بُہت بُرا ہے۔ احتیاط الزم ہے۔ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ ۔۔ وی بی جی کیا ہی دلچسپ پنگا ہے کیا دلچسپ انداز بیاں ہے آپ کا کیسے کیسے پنگے منظر عام پر آپ الئے ایک منظر ابھی آنکھوں میں ہوتا ہے کہ دوسرا منظر آ جاتا ہے قائم ہو جاتا ہے اور سبھی میں دلچسپ پنگا بقول وی بی جی کہ ہر چیز میں پنگا الزم ہےپنگا نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہےیہ مانا کہ پنگے سے جیون حسیں ہےمجھ سے آ پ کی تحریر پڑھ کر خاموش نہ رہا گیا پنگا لینے چال آیا صاحب آپ کے اس پنگے نے مجھے ایک ساتھی اسلم پنگا یاد دال دیے اسلم پنگا ہمارے بہت اچھے ساتھی تھے ہم ان دنوں 91 , 1990میں کراچی ایئر پورٹ کی تعمیر میں مصروف تھے جہاں ہماری ایک بڑی ٹیم تین حصوں پر مشتمل تھی جن میں ایپرن ،بلڈنگ اور روڈ اینڈ انفرا اسٹیکچر ورکس وغیرہ شامل تھے ہمارے پاس ایپرن واال حصہ تھا جس میں اسلم پنگا ہمارے ساتھ ہوا کرتے تھے ہم لوگ ایک فرنچ تعمیراتی کمپنی ـ’’ سوجیا پاکستان ‘‘ میں کام کر رہے تھے اسلم پنگا آج آپ کے اس پنگا مضمون کو پڑھ کر یاد آئے ان کا کام ہر ایک سے پنگا لینا ہوتا تھا بغیر پنگے کے ان کی زندگی ادھوری تھی کھانا گھر سے الیا کرتے تھے ایک دن انہوں نے انڈے اور بینگن کو مال کر ایسا پنگا لیا کہ پہچاننا مشکل ہو گیا کہ اس خمیرہ گاؤزبان میں انڈہ کونسا ہے اور بینگن کونسا ہے هللا تعالی کی تخلیق کردہ دو الگ الگ ذائقوں میں الگ الگ مزاج کی حامل
اجناس کو یکجا کر کے ایسا کشتہ تیار کیا تھا کہ جس کے کھانے کے کئی گھنٹے بعد تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ کیا کھایا بس یہ لگا کہ کسی حکیم صاحب نے اپنی زندگی کے آزمودہ نسخوں سے حاصل شدہ معجون کہہ لیں کشتہ کہہ لیں تیار کیا ہے کہ جسے کھایا تو جاسکتا ہے مگر اس میں شامل اجزا کاتجزیہ نہیں کیا جاسکتا جس کے کھانے کے بعد بہت سے رکے ہوئے معامالت نہ صرف حل ہو جاتے ہیں بلکہ ان سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارہ مل جاتا ہےتو صاحب کبھی یہ پنگا بھی لیجئے بینگن اور انڈے کچھ اسطرح پکائیے کہ بینگن بینگن نہ رہے اور انڈہ انڈہ نہ رہے بینگنڈہ بن جائےہلکی سی کالی مرچ اور نمک کے ساتھ تناول فرمائیے مزہ نہ آنے پر انڈہ الگ اور بینگن الگ پکائیے اور الگ الگ کھائیےاس دلکش تحریر سے مستفید فرمانے کے شکریہ قبول فرمائیے اسماعیل اعجاز 9 دائیں ہاتھ کا کھیل جون 2014 ,01 تحریر ہم کئی بار پڑھ چُکے ہیں ،لیکن یکسوئی نصیب نہ ہو سکی۔ ہر بار دھیان ادھر ادھر کرنا پڑا اور ہم ُکچھ کہنے کے الئق نہ ہو سکے۔بُہت خوب تحریر ہے جناب۔ کیا ہی بات ہے۔ بھر پور داد قبول کیجے۔ دین ایسی چیز ہے کہ اس کو حوالہ بنا کر جو چاہے کیا جا سکتا ہے۔ اس سے اشتعال پھیالنا بھی بُہت اسان سا کام ہو گیا ہے۔ چند لوگ اشتعال سچ ُمچ میں محسوس کرتے ہیں، باقی کی کثیر تعداد صرف مشتعل نظر ا کر ثواب حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ایسے ہی جس پہلو کی طرف اپ نے اشارہ فرمایا ہے ،وہاں
بھی زوجہ کے صرف حقوق ہوتے ہیں اور خاوند کے صرف فرائض۔ ہمیں تو یہ بھی سمجھ نہیں اتی کہ صرف ماں کو اس قدر درجہ دے دیا جاتا ہے کہ جیسے باپ کی کوئی حیثیت ہی نہ ہو۔ حاالنکہ عموما ً باپ ،صرف اور صرف اپنے بچوں کے لیئے ،اپنی بیوی کی کئی غلط باتیں بھی برداشت کرتا رہتا ہے۔ اور عموما ً کوئی اور چیز طالق سے مانع نہیں ہوتی۔ لیکن بچے چونکہ اپنی ماں کے پاس زیادہ وقت ُگزارتے ہیں ،تو ظاہر ہے ہمیشہ چندا ماموں ہی ہوتے ہیں ،کبھی چندا چاچو نہیں ہوتے۔اپ نے لکھا ہےحقوق کا معاملہ ذات سے‘ هللا کی طرف پھرتا ہے۔یہ بات سمجھنا ،بُہت مشکل کام ہے۔ اور شائید اس کے لیئے کئی تحریریں لکھنی پڑیں۔ لوگوں کی سمجھ کو اس مقام تک النا ،اہل قلم کی ذمہ دارہ ہے اور ہمیں خوشی ہے کہ اپ کوشاں ہیں۔ اگر ایسی تربیتی تحریریں لوگوں کو پڑھنے کو ملیں یا ٹی وی ڈرامہ وغیرہ میں ملتی رہیں ،تو لوگوں کی سمجھ بڑھ سکتی ہے۔ ہمیں تو محترم اشفاق احمد کے بعد کوئی ایسا ڈرامہ نگار نہیں نظر ایا ،جو ان باتوں کو اس گہرائی میں نہ صرف محسوس کرے، بلکہ لوگوں کو بھی سمجھائے۔ اج کل کے دور کی فضول اور کردار ُکشی سے بھرپور کہانیوں کے ساتھ ٹکرانے کی اشد ضرورت ہے اور اپ یہ کام کر رہے ہیں۔ ہزار دُعائیں جناب اپ کے لیئے۔تحریر پر بُہت بُہت داد جناب۔ ہزار داد وی بی جی 10 هللا جانے جون 2014 ,09
جناب کیا ہی بات ہے۔ بُہت عمدہ تحریر ہے۔ داد داد داد ۔۔ اپ کی تحریروں کا خاصہ ہے کہ بات کو ایسے زاویوں سے گھُما کر التے ہیں کہ وہم و گمان میں نہیں ہوتا کہ یہ تان کہاں جا کر ختم ہو گی۔ اور اختتام بھی شاندار ہوتا ہے۔ یہاں بھی اپ نے جس طرح زرینہ کو تشبیہہ دی ہے ،بُہت ہی خوب ہے۔ عوام کی سمجھ بھی ُکچھ بڑھانے کی ضرورت ہے ،تاکہ وہ ایسی تحریروں کا دُرست ُرخ سمجھ سکیں اور نتائج اخذ کر سکیں۔دراصل ایسی کمائی جس میں مزدوری سے زیادہ مل جائے یا بغیر مزدوری کے مل جائے ہمارے اپنے خیال کے مطابق سود ہے۔ انسان کی ارام پسندی یہی چاہتی ہے کہ کم سے کم محنت سے زیادہ سے زیادہ کمائی ہو اور کامیابی کی صورت میں انسان مذید ارام پسند ہوتا چال جاتا ہے۔ یہی حال اس قرض پر پلے والی عوام کا ہو گیا ہے۔ قرض حکومتی خزانے میں جاتا ہے ،اور حکومتی خزانے کا کوئی مالک نہیں ہوتا جس کی وجہ سے اس کی حفاظت کی کوشش بھی نہیں کی جا سکتی وگرنہ یہی سُننا پڑتا ہے کہ :تمہارے باپ کا ہے کیا :۔۔ یہ کسی کے باپ کا نہیں ہوتا اور ویسا ہی اس کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے۔ اللچ ایسی ہی چیز ہے کہ اگر پیٹ بھرا بھی ہو تو بقول غالبگو ہاتھ کو جنبش نہیں ،انکھوں میں تو دم ہےرہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے اگےسو مذید سے مذید کی اللچ کبھی جان نہیں چھوڑتی۔ اپ کی تحریریں ،اُمید کی کرن ہیں۔ جتنے لوگ پڑھیں گے اپنے کردار میں ضرور جھانک کر دیکھیں گے۔ انہیں کردار کی خرابیوں کو عوام تک پُہنچانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔ہماری طرف سے ایک
بار پھر بھرپور داد جناب ۔ وی بی جی 11 پاخانہ خور مخلوق مئی 2014 ,30 بُہت اعلی تحریر ہے جناب ،کیا ہی بات ہے۔ نازک مسئلے کو چھیڑ دیا اپ نے۔ البتہ اپنا حق رائے دہی ازاد جان کر اور اپ کی پُرخلوص طبعیت کو دیکھتے ہوئے درخواست کریں گے کہ اس کا عنوان ُکچھ تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہمیں۔ ہمارا خیال ہے کہ عنوان ایسا ہونا چاہیئے کہ پڑھنے والے کی طبعیت کو مائل کرے۔دوسری طرف ،اس تحریر کے الجواب ہونے میں کوئی کالم نہیں۔ عوام کو ایسے مضامین پڑھنے کی اشد ضرورت ہے ،شائید کسی کا ضمیر جاگے۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی صاحب ایک جگہ فرماتے ہیں کہ اے ُخدا ،تُو نے میرے ہاتھ باندھ کر ُمجھے دریا میں پھینک دیا ہے اور حُکم دیا ہے کہ کپڑے گیلے نہ ہوں۔ تو جناب حمام ہے یہ تو۔ہمیں یاد پڑتا ہے ،کہ بچپن میں ہم :زمانہ قبل از اسالم میں کفار کی جہالت :پر نوٹ لکھا کرتے تھے ،اور جناب کیا کیا بُرائی نہ اُن کے سر لگاتے تھے ،اور خوب نمبر سمیٹا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ یہ بھی لکھ دیتے تھے کہ :قبل از اسالمُ ،کفار کا یہ عالم تھا کہ ناک میں اُنگلی تک ڈالتے تھے :۔ لیکن صاحب! اب سوچتے ہیں ،کہ اسالم سے کیا سیکھا ہے مسلمانوں نے تو حیرت ہوتی ہے۔ ابھی تک دو ایسی چیزیں دریافت ہو پائی ہیں جو اسالم سے سیکھی ہیں ہم
نے اور سب اس پر ُمتفق بھی ہیں۔ ایک تو یہ کہ کسی بت کی پوجا نہیں کرتے ،اور دوسری یہ کہ خنزیر نہیں کھاتے۔ اخر الزکر اگرچہ مشکوک ہے کہ یہاں تو محاورتا ً نہیں بلکہ حقیقتا ً انسان انسان کو کھا جاتا ہے۔ کیا اسالم نے اتنا ہی سکھایا ہمیں؟ ہم نے غور کیا تو معلوم ہؤا کہ انسان کو امن میں رہنے کے طریقے سمجھانے والے مذاہب کی وجہ سے دُنیا میں سب سے زیادہ قتل و غارت ہوئی ہے۔ مذہب کی بُنیاد پر جتنا نقصان انسان نے کیا ہے ،کسی اور چیز کی وجہ سے نہیں کیا۔ توبہ ہے صاحب۔خیر یہ تو تھے ہمارے کچھ بکھرے ہوئے خیاالت۔ اپ کی تحریر ہماری نظر میں بُہت اعلی اور عمدہ ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ وی بی جی زیر نظر مضمون پر وی بی جی کے خیاالت سے میں کلی طور پر متفق ہوں۔ عنوان کو بدلنے کی سخت ضرورت ہے۔ قاری عنوان دیکھ کر اگر ٹھٹکے تو اچھا نہیں ہے۔ مضمون ہمارے معاشرے کی تصویر کی عکاسی کرتا ہے۔ آپ یقین کیجئے کہ اپنے آس پاس مسلمانوں کا حال دیکھ کر طبیعت پر مستقل انقباض رہتا ہے۔ بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ اب ا س قوم کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ یہ دنیا میں خوار ہے اور خوار ہی رہے گی کیونکہ یہ اپنی اساس سے دور ہو چکی ہے۔ دنیا میں ڈیڑھ سو "اسالمی" ممالک ہیں۔ افسوس کہ ان میں ایک بھی ایسا نہیں ہے جہاں ہم اور آپ اپنی اوالد کو پڑھنے لکھنے یا رہنے کے لئے بھیج سکیں۔ انا ہلل و ان الیہ راجعون۔ میں امریکہ میں رہتا
ہوں اور اس کا قائل ہوں کہ ہمارے مقابلہ میں دوسرے مذاہب کے لوگوں کا اخالق اور کردار بدرجہا بہتر اور "اسالمی" ہے۔ اور اس صورت حال کا عالج بھی کوئی نظر نہیں آتا۔لکھتے رہئے۔ میں کوشش کروں گا کہ یہاں آمدورفت بڑھا دوں۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔ سرور عالم راز اس ناچیز کو بہتر انسان سمجھا اپ نے ،اپ کی ذرہ نوازی ! ہے۔ ہم بیچارے اوارہ قسم کے ادمی ہیں ،کبھی کسی پہاڑ پر بیٹھے شہر کی ٹمٹماتی روشنیوں سے گوٹ بنا کر کسی پیراہن میں ٹانکنے میں مصروف تو کبھی رات رات بھر کسی فُٹ پاتھ پر بیٹھ کر کسی ُکتیا کے بچے ُگم ہو جانے کے دُکھ میں شریک۔ سو ہمارا انتظار نہ ہی کیا کیجے۔ اپ کے یاد کرنے پر محترم سرور عالم راز سرور صاحب بنفس نفیس تشریف ال چُکے ہیں۔ وی بی جی12 ان پڑھ مئی 2014 ,27 ہمارے منہ کی بات چھین لی اپ نے۔ بُہت ہی اچھی تحریر ہے۔ بالکل دُرست ہے کہ جو اچھی صفت یا ضمیر رکھتا ہے ،وہ اس سے انحراف کر ہی نہیں سکتا۔ اور ہمارا خیال ہے کہ یہ بچپن
میں والدین یا ماحول سے انسان سیکھتا ہے۔ اگر اُس کی تعلیم اُس کے دل میں بُرائی کی نفرت ڈال دے تو زندگی بھر اُس سے بُرا کام سرزد نہیں ہوتا۔ ہمارے نذدیک اس میں اُن چھوٹی چھوٹی کہانیوں یا حکایات کی بھی بُہت اہمیت ہے ،جو دادیاں بچوں کو سُناتی ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ ہماری دادی ہمیں ایسی کئی حکایات سُناتی تھیں ،اور کئی اس قدر جذباتی ہوتی تھیں کہ رونا ا جاتا تھا۔ اُن کہانیوں میں بُرا کبھی ہیرو نہیں ہو سکتا تھا۔ ہمیشہ اچھائی کی جیت ہوتی تھی۔ عالوہ ازیں ،ایسے حساس اور سوچنے پر مجبور کر دینے والے موضوعات ہوتے تھے کہ ننھی سی عمر میں ہی سوچنے اور باتوں کو سمجھنے کی طرف رجحان رہا۔ جذباتی ہونے کے نقصانات سے اگہی ہوئی ،اور ہر معاملے کو انصاف کے ترازو میں تولنا ا گیا۔ سچ پوچھیں تو ہم نے ُکچھ بار بھرپور کوشش کی کہ رشوت لے لیں ،لیکن ا ُس ذات پاک کی قسم ،ہم :اسامی :سے انکھ نہ مال سکے۔ اپنے اپ سے ایسی گھن اتی تھی ،کہ ایک لفظ بھی نہ کہہ سکے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمیں یہ احساس نہ تھا کہ هللا ناراض ہو گا ،ہمیں مسئلہ یہ پیش تھا کہ غیرت اور انا اجازت نہ دیتی تھی۔ ہم اپنی کہانی لے کر بیٹھ گئے۔کہنا یہی چاہتے تھے ،کہ تبھی ہماری خواہش رہی ہے کہ ایسی چیزوں کو تعلیم کا حصہ ہونا چاہیئے جو کردار سازی کریں۔ ہمارے بچوں کو رٹے لگانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تمام علوم اس کے محتاج ہیں۔ جس میں کردار نہیں اُس کی کوئی سائنسدانی کسی کام کی نہیں۔ اور بقول اپ کی اس تحریر کے ہی ،حکومتیں ُکچھ نہیں کر سکتیں ،سب ُکچھ کرنے والی عوام ہی ہے۔ حکومت کو کوسنے واال سبزی فروش خود نگاہ بچا کر گندے ٹماٹر بیچتا ہے۔ لوگ گندم نہیں اُگائیں
گے ،تو اٹا مہنگا ہوگا ،حکومت روٹی پکا کہ نہ کبھی کسی کو دے سکی ہے ،نہ کبھی دے سکے گی۔اس تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد قبول کیجے۔۔۔ ہمیں بُہت پسند ائی ہے اپ کی تحریر۔ وی بی جی 13 الروا اور انڈے بچے مئی 2014 ,21 پڑھ تو ہم فورا ً ہی لیتے ہیں ،لیکن سمجھنے اور پھر ُکچھ کہنے کے الئق ہونے میں وقت لگ جاتا ہے۔ اور سچ پوچھیے تو اس تحریر کے آخر میں جس طرح اس کا اختتام ہوتا ہے ،کافی سوچ بچار کرنی پڑتی ہے ،کہ الروے اور انڈے بچے سے ُمراد کیا ہے۔ بُرائی کے خالف تو کہانی کا ہیرہ نکال ہی تھا ،اور انہیں الرووں کا خاتمہ چاہتا تھا ،پھر آخر یہ کیا کہانی ہوئی۔کہانی لکھنے میں تو ویسے آپ کا جواب نہیں۔ اس میں تو پیچیدہ صورتیں بھی نظر آئیں ،جہاں لکھنے واال راستہ بھٹک کر کسی اور سمت نکل سکتا تھا ،لیکن بُہت خوبصورتی سے آپ نے اسے اپنے مقصد کے محور میں رکھا ہے۔ ہم جہاں تک سمجھ سکے ہیں وہ یہی ہے کہ بُرائی انسان خود ہی ہے ،اور اسی کا خاتمہ بُرائی کو ختم کر سکتا ہے۔ شیطان کی غیر موجودگی کی مثال بھی خوب دی آپ نے کہ اس کی غیر موجودگی میں کس حد تک بُرائی بڑھ جاتی ہے۔ایسی تحریروں کی جگہ ہم تو سمجھتے ہیں ،کہ نصابی کتابوں میں ہونی چاہیئے ،جہاں کردار سازی کی
بہت ضرورت ہے۔ اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ جتنا نُقصان پہنچا رہے ہیں ،ہم نہیں سمجھتے کہ ان پڑھ اتنا نُقصان پُہنچا بھی سکتے ہیں۔ پڑھ لکھ کر صرف تعلیمی اسناد حاصل ہوتی ہیں ،اور اس کے بعد بھی ایسی حرکتیں کرتے ہیں ،کہ شرم نام کی چیز پاس نہیں پھٹکتی۔ہماری دُعا ہے کہ آپ کی کوششیں رنگ الئیں۔ ہماری طرف سے ایک بار پھر بھرپور داد قبول کیجے۔ وی بی جی 14 سچائی کی زمین مئی 2014 ,17 جنب بہت عمدہ تحریر ہے۔ اپ نے کہانی کو نیا ُرخ دیا ہے اور کیا ہی خوب دیا ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ قُدرت کا نظام اپنے اپ کو خود ہی برقرار رکھتا ہے ،لیکن یہ بات بھی بجا ہے کہ انسان اس میں بُہت بگاڑ پیدا کرنے کے درپے ہے۔ اگرچہ اس بات کا یہاں تذکرہ ُکچھ ضرری نہیں لیکن ہمارا طریقہ ُکچھ ایسے ہے کہ قُدرتی نظام میں کم سے کم دخل اندازی کرتے ہیں۔ لوگ بھاگ کر بلی کے منہ سے چڑیا کا بچہ چھین لیتے ہیں ،جبکہ ہم صرف خاموشی اور خالی الذہن ہو کر دیکھتے رہتے ہیں۔ اگرچہ اس سے ہمارے اندر بُہت حد تک سفاکی پیدا کر دی ہے ،لیکن ہم نے قدرتی نظام کو اس قدر سفاک پایا ہے ،کہ بیان سے باہر ہے۔ جس نظام میں ایک کی موت دوسرے کی زندگی ہو ،اُس کا عالج ہمارے پاس تو ہو نہیں سکتا۔ کئی بار خود کو سمجھاتے ہیں،
لیکن اکثر اپنی باتوں میں اتے نہیں ہیں ہم۔ دخل اندازی صرف اُس وقت روا جانتے ہیں ،جب کسی کی موت کسی کی زندگی نہ ہو۔تحریر جان دار ہے ،سچائی اور اچھائی کا ساتھ دینے کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ ہماری طرف سے ایک بار پھر داد قبول کیجے۔ وی بی جی 15 ابھی وہ زندہ تھا مئی 2014 ,16 واہ واہ واہ جناب ،کیا ہی بات ہے۔ ہمیں تو ایسا لگا کہ ہمارے منہ کی بات ہی چھین لی ہو اپ نے۔ بے شک اپ کو بات بیان کرنے کا فن اتا ہے۔ جن الفاظ میں اپ نے ان تلخ حقیقتوں کو بیان کیا ہے وہ الئق صد تحسین ہیں۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ یہ وہ حقیقتیں ہیں جو تمام لوگ جانتے اور سمجھتے ہیں ،لیکن انہیں زبان پر التے ہوئے شرماتے ہیں۔ حاالنکہ وہ حمام والی ضربالمثل خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں۔اپ نے کسی ٹوپی سالر کا ذکر بھی کیا ہے ،اور خوب کیا ہے۔ اب اپ کا کس طرف اشارہ ہے یہ کوئی سمجھے نہ سمجھے لیکن حقیقت اپنی جگہ ٹھوس حقیقت ہی ہوتی ہے۔تحریر زبردست ہے اور طنز جس انداز میں کیا گیا ہے ،ہمیں یقین ہے کہ کئی لوگوں کا ضمیر جگا سکتی ہے۔ اس تحریر پر ہم ذیادہ اس لیئے بھی نہیں لکھ سکتے کہ اپ نے اس میں ہمارے کہنے والی ہر بات ہم سے کہیں بہتر انداز میں کہہ دی ہے۔ہماری طرف سے بھرپور داد وی بی جی16
حاللہ مارچ 2014 ,11 ڈاکٹر صاحب آپ کی تحریریں بفس نفیس بولتی ہیں اپنے پاس سے گزرنے والوں کو مخاطب کر کے کہتی ہیں کہ آؤ ہمیں پڑھو ہم سے کچھ سیکھو کچھ اخذ کرو ،یہ دل کو چھو لینے والی تحریر جو حقیقت سے قریب ترین معاشرے سے جڑے کرداروں کو بے نقاب کرتی ہوئی بہت سے سوال بہت سے باتیں ذہن میں پیدا کرتی ہوئی اپنے پڑھنے والے کو مجبور کر رہی ہے ۔ میرے ذہن میں بھی کچھ باتیں آئیں جنکا اظہار خیال ضروری سمجھتا ہونحالل و حرام کی پابندی و شرائط کب کہاں اور کس لئے کی بنیاد پر ان کا نفاذ حکمیہ طور پر خالق کائینات کا مرتّب کردہ ہےنکاح فرض ہے ،نکاح واجب ہے ،نکاح سنّت ہے ،نکاح مستحب ہے یہ وہ شکلیں ہیں جنہیں ہم جانتے ہیں مگر نکاح حرام ہے جی نکاح حرام ہے محرم کے ساتھ مگر نکاح نامحرم کہ جس سے نکاح حالل ہے حرام بھی ہے وہ اس صورت میں کہ جب کوئی ایسا شخص جو نکاح تو کرلے مگر حقوق ذوجیت ادا کرنے کی صالحیت سے محروم ہو نامرد ہو تو ایسے شخص کا نکاح کہ جس کی منکوحہ اپنی جنسی ضرورت اور خواہش کو کسی اور ذرائع سے پورا کرے وہ بھی حرام ہےطالق دینا حالل ہے مرد کے لئے مگر تمام حالل کاموں میں یہ وہ حالل کام ہے جسے هللا باری تعالی نے ناپسند فرمایا ہے ،عورت کو طالق دینے کا حق حاصل نہیں ہے ہاں خلع لے سکتی ہے ،اگر عورت کو طالق کا اختیار دے دیا جاتا تو دن بھر میں بیسیوں بار طالق
دے دیتی اپنے مرد کو ،مگر مرد اس معاملے میں صابر ہے اور بہت ہمت و برداشت واال ہوتا ہےشرعی طریقہ یہ ھے کہ عورت تین طالقوں کے بعد اگر دوبارہ پہلے شوھر سے نکاح کرنا چاھتی ھے تو وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے بغیر اس نیت کے کہ وہ پہلے کے لیے حالل ھونا چاھتی ھے ،پھر وہ شوھر اسے اپنی مرضی سے طالق دے،مگر اس نیت سے نہیں کہ وہ پہلے کے لیے حالل ھو جائے ،یا پھر وہ مرجائے،اس طرح عورت پہلے شوھر سے نکاح کرسکتی ھے!!! لیکن جو حاللہ کا طریقہ ھمارے معاشرےمیں رائج ھو چکاھے،جوکسی بھی صاحب علم سے مخفی نہیں ھے{اس قسم کے لوگوں پر نبی صلی هللا علیہ وسلم نے لعنت کی ھے،یعنی حاللہ کرنے واال اور جس کےلیے کیاجائے ،آپ نےاسے کرائے کا سانڈ قرار دیا ھے}یہ ھےاندھی تقلید جس میں یہود ونصاری مبتالء تھےیعنی بغیر شرعی دلیل کےآنکھیں بند کرکےکسی چیز پر عمل کرنا۔سنن ابوداودكتاب النكاحنکاح کے احکام و مسائلباب في التحلیلباب: نکاح حاللہ کا بیان۔حدیث نمبر 2076 :حدثنا أحمد بن یونس ،حدثنا زھیر ،حدثني إسماعیل ،عن عامر ،عن الحارث ،عن علي ،رضى هللا عن -قال إسماعیل وأراہ قد رفع إلى النبي صلى هللا علی وسلم -أن النبي صلى هللا علی وسلم قال "لعن هللا المحلل والمحلل ل ".سیدنا علی رضی هللا عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی هللا علیہ وسلم نے فرمایا ”حاللہ کرنے واال اور جس کے لیے کیا گیا ہے (دونوں) ملعون ہیں۔"قال الشیخ األلباني :صحیح اسماعیل اعجاز
بازگشت دسمبر 2013 ,23 بہت عمدہ ۔ بہت لطف آیا ،سالمت رہیں آپ شکریہ ضیا بلوچ فقیر بابا دسمبر 2013 ,24 آپ کا انشائیہ بہت دلچسپ ہے۔ آپ نے جس تنہائی کی کیفیت کا ذکر کیا ہے اس سے آج ساری دنیا آشنا ہے۔ انسان اب انسان کونہیں پہچانتا ہےجب تک کہ اس کی کوئی غرض کسی اور سے نہ اٹکی ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پچھلے زمانے میں سب لوگ بے غرض ہوا کرتے تھے اور اپنی طبیعت سے سب فرشتہ تھے۔ ایسا تو کبھی ہوا ہی نہیں ہے۔ اورنہ کبھی ہو گا۔ ہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ اب خلوص ،انسانیت اور بھائی چارہ پہلے سے کم ہو گیا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہ ہیں جن سے کم وبیش ہم سب واقف ہیں سو تفصیل ضروری نہیں ہے۔ یادش بخیر میرے بچپن میں آس پاس کے گھروں میں ،عزیزوں دوستوں میں ،گھر کی مائوں ،بہوئوں اور بڑی بوڑھیوں میں ملنا جلنا ،آنا جانا ،بے مقصد آ کر بیٹھ جانا اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونا اتنا عام تھا کہ آج کی تنہائی کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے۔ یہ عالم تھا کہ محلہ کا ہر بزرگ (اور غیر بزرگ!) اپنے آپ کو دوسروں کی اوالد کا ولی اور :ٹھیکہ دار :سمجھتا تھا۔ ایک واقعہ سناتا ہوں جو اس کیفہت کو خوب بیان کرتا ہے۔ایک دن سڑک پر
سگریٹ کا ادھا سلگتا ہوا دکھائی دیا۔ بچہ تو تھا ہی ،سوچاکہ اس میں کیا مزا ہوتا ہے جو لوگ منھ سے لگائے پھرتے ہیں۔ چنانچہ اٹھا کر ڈرتے ڈرتے ایک کش لیا اور کھانسی کے دھسکے سے کھوں کھوں کرتا ہوا اسے پھینک دیا۔ لیکن محلہ کے ایک بزرگ نے دیکھ لیا تھا۔ انہوں نے پاس آکر ایک ڈانٹ پالئی اور ایک ہلکا سا ہاتھ بھی رسید کیا اور پھر ہاتھ پکڑ کر ابا جان کی خدمت میں لے گئے کہ آپ کا بچہ سڑک پر سگرٹ پی رہا تھا۔ ابا جان مارتے نہیں تھے لیکن صاحب! ان کی چشم نمائی مار سے زیادہ تھی۔ انھوں نے الگ ڈانٹ نما آنکھ دکھائی اور بزرگ کا شکریہ ادا کیا۔ سچ مانئے کہ وہ دن اور آج کا دن میں نے پھر سگرٹ چکھی ہی نہیں۔ یہ وہ سماجی ماحول تھا جو بچوں کو بہت سی اچھی باتیں سکھا دیا کرتا تھا۔ اب موجود نہیں ہے اور ہماری تنہائی میں اضافہ کا باعث ہے۔دوسری طرح کی تنہائی وہ ہے جس کا آج کل میں شکارہوں۔ امریکہ میں رہتا ہوں جہاں دوستوں کا کال ہے۔ سنا ہے کہ وطن عزیز میں بھی اب یہی معمول ہے۔ پھر طرفہ تماشہ یہ کہ ایسے چھوٹے قصبے میں رہتا ہوں جہاں بال مبالغہ ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جس سے میں بات کر سکوں ،یعنی اپنے ذوق کی بات۔ بیکار باتیں کرنے کو یا سیاست اور مذہبی گفتگو کے لئے تو شاید کوئی مل جائے لیکن یہ میرا مسلک نہیں سو تن تنہا دن گزارتا ہوں۔ گویا زندگی قید تنہائی ہو کر رہ گئی ہے۔آپ کی تحریر سے مستفید ہوا۔ هللا آپ کو خوش رکھے۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔ سرور عالم راز aap kaa mazmoon :Faqeer Baba: paRh kar bohat khushee huwee. aap ke mazaameen maiN shauq
se paRhtaa hooN kyoN keh in meN aap kee zindagee ke tajribaat hote haiN aur in se bohat kuchh seekhaa jaa saktaa hai. Faqeer Baba bhee aisee hee daastaan hai. aap kaa qalam bohat shiguftah hai aur aaj kal aisee tehreer kam dekhne meN aatee hai. aap se darKhwaast hai keh isee tarah ham logoN ko nawaazte rahiYe. Mushir Shamsi آپ کا یہ پُر مغز انشائیہ نظر نواز ہوا استفادہ کرتے ہوئے کچھ ذہن میں آیا سوچا پاگل کو مزید چھیڑا جائے میرا مطلب سمجھا جائے پا گل کے ایک معانی ہوتے ہیں جسے آپ نے فرمایا گل پانا یعنی بات کو سمجھ جانا بالکل اسی طرح چوں کہ گل پنجابی کا لفظ ہے اسے اسی معانی میں لیتے ہوئے گل پائیے کہ گل پانا گلے میں ڈالنے کی اصطالح میں بھی لیا جاسکتا ہے اوراگر اردو کو شاعرانہ انداز میں الیا جائے تو گل پا گئے یعنی پاؤں گل گئے ان پاؤں گل گئے کو مزید بہتر بنانے کے لئے اسے اسطرح لیجئے کہ پائے گل گئے مگر پائے بھی دو طرح کے ہوتے ہیں بھینس کے بکری کے گائے کے بھیڑ کے ہمارے ہاں الہور میں پھجے کے مگر ساتھ سری بھی لگائیے پھجے کے سری پائے اور دوسری قسم کرسی کے میز کے چار پائی کے بھی ہوتے ہیں یہ دونوں اپنی اپنی شکل میں گل جاتے ہیں پہلی قسم کے پائے گل جانے سے کرسی پر جم کر بیٹھ کر کھائے جاتے ہیں مگر
دوسری صورت میں کرسی دھڑام سے گر جاتی ہے کرسی کے پائے گل جانے کی وجہ سے اب اس گل پانے میں مزہ بھی ہے اور تکلیف بھی ہے یہ تو دراومدار کیفیت اور حاالت کا ہے کہ آپ کن حاالت اور کس کیفیت سے گزر رہے ہیں یہی سوچ کر میں چال آیا کہ پاگل کو پاگل کر دوں اسماعیل اعجاز جناب عالی محبت ہے آپ کے کہ مجھ پاگل کی گل آپ پا گئے اسی گل کو مزید پاگل کرنے کے لئے سوچا ہندی میں کچھ دان کردوں مگر اس بات کا ضرور دھیان رکھوں کے پاگل سے گل زبر کے ساتھ نکال کر گل پر پیش لگا کر گلدان کر دوں تو پھر پا کو کہاں لے جاؤں اس کے لئے دان سے کچھ دان لے کر پا سے پائے اور پائے میں دان مال کر پائیدان کردوں ،مگر پاگل کو میں اس بات کا پائے بند کردوں کہ پاگل پاگل ہوتا ہے اسی لئے پا کے لئے پاجامہ بنایا گیا مگر ہمارے شاعر بھائی کچھ اور ہی سوچتے ہیں بقول ان کےسنا ہے کہ انکی کمر ہی نہیں ہےنجانے پجمیا کہاں باندھتے ہیں اسماعیل اعجاز کرم نوازی ہے سرکار کہ آپ نے مجھے فنکار کہا حاالں کہ میں ایک گمنام قلمکار ہوں ،ویسے ہمارے ہاں فنکار بھی دو طرح کے ہوتے ہیں ایک فن کار اور دوسرے فن کار آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ دونوں تو ایک ہی ہیں یہی تو مسئلہ ہے کہ فن کار اور فن کار دونوں الگ الگ ہیں ایک فن کار ہوتے ہیں اور دوسرے فن کار ہوتے اس بات کا اندازہ خوب لگایا جا سکتا ہے
جو ان کی کالہ سے جڑا ہوتا ہے فرق سمجھنے کا ہے کسی ماہر فن کو آپ فن کار کہہ سکتے ہیں جس کا کام بولتا ہے جس کا ہنر بولتا ہے مگر ایسے بھی لوگ مجھ جیسے ہیں جو کچھ نہیں جانتے مگر باتیں خوب بناتے ہیں انہیں بھی فن کار کہا جاتا ہےکبھی کبھی لہجہ وہی رہتا ہے مگر معانی بدل جاتے ہیں جیسے کہ ایک صاحب فرمانے لگےماں کسم ایسا بھینکر اجگر دیکھا ایسی بری طرح فن کار ریا تھا کی میرے تو دماگ کے طوطے اڑ گئے ،آج کل طوطے پکڑ ریا ہوں ۔۔۔۔۔۔ اسماعیل اعجاز بیوہ طواءف فروری 2014 ,08 اپ کا یہ چھوٹا سا افسانہ پڑھا۔ بُہت اچھا لگا۔ اپ کی تحریریں ماشاهللا بُہت جاندار ہوتی ہیں۔ اور اپ کے احساسات کی وسعت کو سموئے ہوتی ہیں۔ زندگی کو اس قدر قریب سے دیکھنے اور محسوس کرنے کا فن اپ کی تحریروں سے واضح ہے۔هللا پاک اپ کو ہمیشہ خوش و ُخرم رکھے۔ وی بی جی 17
بڑا آدمی مارچ 2014 ,08 یہ تحریر واقعی میں بُہت کرب رکھتی ہے۔ اور پھر اپ کے
لکھنے کے انداز نے اسے بیش قیمت بنا دیا ہے۔ قاری کو ایسے جہان کی سیر کروا کر نتیجہ کی طرف التی ہے اثر روح تک اُتر جاتا ہے۔ پھر جس قدر اپ نے حاالت و واقعات لکھے ہیں اپ کے تجزیئے کی طاقت اور احساس کی وسعت اس سے ظاہر ہے کہ جیسے معلوم نہیں کتنا ہی قریب سے اپ نے یہ سب دیکھا ہے۔ہمیں وقت کی کمی رہتی ہے ،لیکن اپ کے مضامین اور افسانے پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور بُہت پسند اتا ہے ہمیں اپ کا لکھا۔ وی بی جی18 کریمو دو نمبری مئی 2014 ,12 معذرت چاہتے ہیں کہ دیر سے حاضری ہوئی۔ بُہت خوبصورت تحریر ہے ،اور اپ کی اُن بہترین تحریروں میں سے ایک ہے جن میں اپ کی اس صالحیت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ اپ ڈرامہ بھی بُہت خوب لکھ سکتے ہیں۔ کہانی لکھنا جتنا اسان دکھائی دیتا ہے اُتنا اسان ہوتا نہیں۔ اپ کی خصوصیات ہیں کہ اپ کا قلم کسی دائرے میں مقید نہیں ہے۔یہ صدیوں سے روایت چلی اتی ہے کہ بُرا کا انجام بُرا ہوتا ہے ،کئی تحریرں لکھی گئی ہیں ،جن سے یہ تعلیم دی جاتی ہے۔ لیکن ذاتی طور پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا ہوتا نہیں ہے۔ ہم اوائل میں بچوں کو یہ سبق سکھانے کی کوشش کرتے ہیں ،لیکن بڑے ہوتے ہی وہ تجربات سے سیکھ ہی جاتے ہیں کہ نیکی کا انجام اچھا تو ہوتا ہے لیکن صرف اُس
کے حق میں جس کے ساتھ نیکی کی جاتی ہے۔ ہم مثالیں ڈھونڈتے ہیں ایسے لوگوں کی جن کا انجام بُرا ہؤا ہو ،اور اُن لوگوں کو بھول جاتے ہیں ،جو نیکی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں، یا وہ جو بُرائی کر کہ تا حیات کامیاب ہی رہتے ہیں۔ ہم خود بھی یہی کرتے ہیں ،کسی بات کو قُدرت کی طرف سے ازمائیش کے زمرے میں ڈال دیتے ہیں ،کسی نیک کے ساتھ بُرا ہو تو اُسے اُس کی کسی نامعلوم بُرائی کا نتیجہ قرار دے لیتے ہیں ،اگر کوئی بُرا دُنیا میں کامیاب رہے تو اس کی سزا اخرت پر موقوف کر دیتے ہیں۔ کیا کیجے ،هللا کے ُمعاملے میں بھی جھوٹ کے بغیر چارہ نہیں۔اگر ہماری کسی بات سے دل ازاری ہوئی ہو تو معذرت چاہتے ہیں۔ لیکن جو حال سو حاضر ہے۔تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ وی بی جی 19 معالجہ مئی 2014 ,13 ہمیشہ کی طرح بُہت خوبصورت تحریر ہے۔ ایک عام سی کہانی سے اپ نے فکر امیز نتائج اخذ کیئے ہیں ،بلکہ سوچ کو اس ڈگر تک پُہنچا دیا ہے کہ انسان خود سوچ سکے ان باتوں پر۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔جیسے کہ ریت ٹھہری ہے کہ ہم اپنی سی رائے دیتے رہتے ہیں۔ خیاالت ہمارے بیکار سہی لیکن اپ کو اندازہ ہو جاتا ہو گا کہ ُکچھ لوگ ایسا بھی سوچتے
ہیں۔ تو اسی حوالے سے ہم اس تحریر کے اخری پیرائے کی طرف اتے ہیں۔ اقتباس بایو کیمک اصول کے مطابق‘ منفی کی درستی کے لیے‘ منفی رستہ ہی اختیار کرنا پڑے گا۔ منفی کا‘ اس کے سوا‘ کوئی اور معالجہ میری سمجھ میں نہیں آ رہا۔ ہمارا تجزیہ اس بارے یہ کہتا ہے کہ منفی کا عالج منفی سے ممکن ضرور ہے لیکن بُہت ہی کٹھن ہے۔ منفی اور منفی اپس میں مل کر بھی مثبت نہیں بن سکتے ،اور جیسا کہ ریاضی کا اصول ہے انہیں اپس میں :ضربیں :کھانی پڑتی ہیں اور نتیجہ تب ہی مثبت نکلتا ہے۔ منفی کو شکست صرف مثبت ہی سے ہوتی ہے ،لیکن اس کی شرط اول مثبت کا مکمل مثبت ہونا ہے۔ وگرنہ شکست الزم ہے۔ ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ یہ کونسے مرزا صاحب تھے ،لیکن اُن سے کسی نے کہا تھا کہ صاحب! اپ کے بارے میں فالں صاحب نے بُہت سخت باتیں لکھی ہیں اپ کیوں خاموش ہیں ،اپ بھی لکھیئے ُکچھ ،تو اُنہوں نے فرمایا تھا کہ :بھائی! اگر گدھا تُمہیں الت مارے تو تم کیا کرو گے:ہم نے اس پر کافی غور کیا۔ الت کا جواب الت سے دینا دُرست نہیں ہو گا کیونکہ الت مارنا گدھے کی خصلت ہے ،انسان التوں کے ُمقابلہ میں اُس سے جیت نہیں سکتا۔ ایسے ہی منفی کا مقابلہ کرنے کے لیئے منفی ہو جانا بُہت مشکل ہے۔ ہٹلر کی اپ نے مثال دی ہے۔ اگر اُس کو الکھوں لوگوں کے مرنے پر رحم نہ ا جاتا تو دُنیا کا نقشہ ُکچھ اور ہوتا۔ اخر اُس کے اندر کی اچھائی کہیں سے اُبھر ہی ائی ،اور شکست کھانا پڑی۔ ایک مثبت کا منفی کے ُمقبالے میں ُمکمل منفی ہو جانا بُہت مشکل ہے۔ اس کی ایک اور مثال ہمارے دیرینہ
دوست مرحوم شیخ سعدی کی ایک حکایت ہے کہایک بار ایک شخص کو پاؤں میں ُکتے نے کاٹ لیا۔ بیچارہ رات بھر تکلیف میں چیختا رہا۔ اُس کی معصوم اور ننھی سی بیٹی نے اُس سے کہا کہ بابا اگر ُکتے نے اپ کو کاٹا تھا تو اپ بھی اُسے کاٹ لیتے۔وہ اس تکلیف میں بھی ہنس پڑا اور کہا کہ بیٹی۔ میں یہ تو برداشت کر لوں گا کہ میرے سر میں تلوار گھس جائے لیکن یہ ُمجھ سے نہ ہوتا کہ ُکتے کے غلیظ پاؤں میں میرے دانت گھستے۔سو صاحب مثبت کے لیئے یہ بُہت ُمشکل یا تقریبا ً ناممکن ہوتا ہے کہ وہ منفی کا مقابلہ منفی ہو کر کر سکے۔ ہاں، اسے شکل بدلنی پڑتی ہے اور اُس بدلی شکل کو منفی نہیں کہا جاتا ،بلکہ مثبت کہا جاتا ہے۔ اگر شکل نہ بدلے تو منفی اور منفی ایک صورت ہو جاتے ہیں۔قسمت بڑی مزاحیہ ہوتی ہے صاحب! کہانی کے ہیرو کے دادا نے بھی اپنی سی کوشش کی تھی۔ کیا جانئیے ،کہ اس کی کوشش کامیاب ہو کر بھی ناکام ہو جائے اور حال ویسا ہی ہو جیسا کہ اس کے دادا جان کا ہؤا۔ پھر بھی ہم ان کو یہی مشورہ دیں گے کہ چاہے منفی ہی کیوں نہ ہونا پڑے، انہیں اپنی بات منوانی چاہیئے۔ کل کو اس کی سزا بھُگتتے ہوئے یہ احساس تو نہ ہوگا کہ کسی اور کے کیے کی سزا بھُگتنی پڑی۔ ایک اور مشورہ بھی ہے کہ ایک بار منفی ہونے کے بعد کامیابی اسی میں ہے کہ ہمیشہ منفی رہا جائے کیونکہ قدرت ،مثبت کی طرف لوٹنے والے کو کبھی معاف نہیں کرتی۔ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ۔ وی بی جی 20
میں ابھی اسلم ہی تھا مئی 2014 ,09 واہ واہ واہ واہ ۔۔ جناب کیا ہی بات ہے۔ واہکہاں کہاں نظر ہے جناب اپ کی ،یہ حالج اور حمادی کے فتوے کو کہاں لے ائے اپ۔ اپ بات کہاں سے ُ شروع کرتے ہیں اور کیسے اپنا مقصد بیان کر جاتے ہیں اس کے تو ہم قائل ہیں ہی۔ لیکن یہ جو لکھا ہے نا اپ نے کہ:۔ ارتعاش پیدا ہوا تھا‘ لیکن میں رقص نہ کر ‘میرے اندر بھی: سکا‘ میں اپنے آپے میں تھا۔ میں ابھی اسلم ہی تھا‘ ریحانہ نہیں ہوا تھا ۔اگر ریحانہ ہو گیا ہوتا‘ تو دنیا کی پرواہ کیے بغیر‘ ملنگ بابے کے ساتھ رقص کر رہا ہوتا۔ :کمال ہے جناب۔ ڈھیروں داد قبول کیجے۔سچ ہے ،اگر منصور بھی ریحانہ نہ ہو گیا ہوتا تو حمادی کا بھی کہیں نام و نشان نہ ہوتا۔ یہ بھی دُرست ہے کہ منصور بھی اسی ملنگ بابے کی طرح اپے میں نہ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ منصور کو اخری وقت پر پتہ چل گیا تھا کہ وہ بھی :اسلم ہی تھا ،ریحانہ نہیں ہؤا تھا اور نہ ہو سکتا تھا :اور یہ خود کو ریحانہ سمجھنے سے اوپر کا درجہ تھا۔۔ہماری طرف سے اس خوبصورت تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد جناب۔ وی بی جی اپ کا علمی مراسلہ پڑھا اور خوشی ہوئی ُکچھ تاریخی پس منظر
جان کر اس کے لیئے ُ شکریہ قبول کیجے۔اپ جس قدر علم رکھتے ہیں اور اپ کا جس قدر مطالعہ ہے اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے۔ ہم اس بارے میں جو خیال رکھتے ہیں وہ تھوڑا سا بیان کر دیتے ہیں ،کہ اپ کا وقت بھی نہ ذائع ہو اور خیال بھی اپ تک پہنچ جائے۔اس پر غور کریں تو ُمعاملہ :وحدت الوجود :اور :وحدت الشہود :کے نظریات کی طرف چال جاتا ہے۔ ہمیں وحدت الوجود کے قائل صوفیا کرام کی اس قدر بڑی تعداد ملتی ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ اپ جانتے ہی ہونگے لیکن بات کے تواتر کے لیئے تھوڑا سا بیان کر دیتے ہیں کہ :وحدت الوجود :کا نظریہ یعنی "ایک ہو جانا" یعنی هللا تعالی کی ہستی میں گم ہو جانا۔ ۔اور :وحدت الشہود :سے مراد :ایک دیکھنا ہے: یعنی چاروں طرف :تو ہی تو :ہے واال معاملہ ہو جاتا ہے ۔ سالک ہر چیز میں جلوہ باری تعالی دیکھتا ہے۔حضرت امام غزالی اور اُس کے بعد کے کئی صوفیا نے جو سالک کے لیئے منازل بیان کی ہیں یا :طریقت :بیان کی ہے اُس میں انسان خود کو ہر نفسانی خواہش سے پاک کر کہ جب اس راہ چلتا ہے تو وہ ذکر کے دوران ایک بُہت بڑا منبع نور دیکھتا ہے ،اور خود کو اہستہ اہستہ اس میں جذب ہوتا محسوس کرتا ہے۔ اخر کار وہ خود کو ُمکمل طور پر اس کا حصہ محسوس کرتا ہے۔ تمام صوفیا اس پر متفق ہیں کہ انسان خود کو ذات باری تعالی میں ضم ہوتا محسوس کرتا ہے اور خود کو خدا محسوس کرتا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی سے پہلے تک یہی نظریہ :وحدت الوجود :تھا اور اس مقام کو اخری اور سب سے اونچا ُمقام سمجھا جاتا تھا۔ اس نظریئے نے کئی مسلے پیدا کیئے کہ کئی لوگ راہ بھٹکے اور خود کو خدا سمجھنے لگ گئے۔ پھر مجدد الف ثانی نے :نظریہ
وحدت الشہود :پیش کیا کہ صاحب اس سے اونچا ُمقام بھی موجود ہے۔ اس میں انسان خود کو ذات باری تعالی سے الگ ہوتا محسوس کرتا ہے اور اخر اسے ہر طرف خدا نظر اتا ہے ،اور وہ خود کو خدا محسوس نہیں کرتا۔ حضرت مجدد الف ثانی فرماتے ہیں کہ کئی صوفیا اس درجے پر نہیں گئے اور انہیں تامرگ معلوم تک نہ ہؤا کہ وہ غلطی کر رہے ہیں۔ صرف منصور کے بارے وہ لکھتے ہیں کہ اخری ایام میں اسے علم ہو گیا تھا۔ان باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے جو اخذ کر رکھا ہے وہ یہ ہے کہ منصور چونکہ :وحدت الوجود :کا معتقد تھا اور :وحدت الشہود :کا نظریہ بُہت بعد میں ایا ،سو اس کا خود کو خدا سمجھنا یا کہہ دینا عین ممکن نظر اتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ عالم وجد میں کہی گئی بات سے اُس کا کیا ُمراد تھا ،وہ سب کو سمجھا پاتا یا نہیں۔ اُس کا علم الہامی تھا اور اس کے لیئے دالئل نہیں ہؤا کرتے۔یہ ہمارا خیال ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے اتفاق ضروری نہیں۔ اُمید ہے اسی طرح اپ ہمیں بھی تاریخ کی ُکچھ نہ ُکچھ تعلیم دیتے رہیں گے۔ وی بی جی پٹھی بابا مئی 2014 ,06 بُہت عمدہ جناب۔ اچھی تحریر ہے۔ ہمارے خیال کے ُمطابق ،یہ تو ایک عام سا ُمعاشرتی رویہ ہے کہ ہر :عاشق پُتر :کو ماں ،بہن یاد کروائی جاتی ہے ،لیکن اپ نے اسی بات کو قدرے ُمختلف
رنگ دیا ہے۔ جہاں :بابا حق ، :نا صرف دالئل کے ساتھ ،دھیدو، سکندر اور محمود کی بات کرتا ہے ،بلکہ ُکچھ غلط العام پیمانوں کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے جن کے ذریعے دُنیا اچھا بُرا پہچانتی ہے۔ اپ کی بیش تر باتوں سے ہمیں اتفاق ہے۔ رانجھے کا قصہ (ہر وارث شاہ) پڑھیں تو حضرت رانجھا صاحب کا ،باغ میں ہیر اور اُس کی سہیلیوں کے ساتھ سلوک کا ،جو ذکر ملتا ہے ،وہ اپ کی بات کی تصدیق ہے۔ سکندر اعظم کے بارے بھی ہمیں اپ سے اتفاق ہے ،اور یہ بات دُرست ہے کہ راجہ پورس کی اپنے ہی ہاتھیوں کے باعث شکست صرف اس لیئے صراحی جاتی ہے کہ ،ایک ہندو راجہ تھا ،یہ کوئی نہیں کہتا کہ اُس کی فوج نے اُس کے بعد مذید اگے جانے سے انکار کیوں کیا۔ محمود کے بارے ہم ذیادہ نہیں جانتے اس لیئے ُکچھ کہہ نہیں سکتے، لیکن جب اتنا ُکچھ اپ نے دُرست کہا ہے تو یقینا ً اس کی تاریخ پر بھی اپ کی نظر ہو گی۔ دُنیاوی عشق کے بارے ہمارا خیال ہے کہ ،بقول بابائے نفسیات ،فرائڈ کے ہر انسانی خواہش ،جنسی ہوس اور بھوک وغیرہ سب ایک ہی اشتہا کا نام ہے۔ جب تک دُنیا میں بھوک ہے ،اور جب تک شیر ،ہرن کو کھاتا رہے گا ،اس کو ختم نہیں کر سکتے۔ جب تک خواہشیں ہیں ،تکمیل کی کوشش انسان کرتا رہے گا اور یہی ترقی کا دوسرا نام بھی ہے۔ اب رہ یہی جاتا ہے ،کہ خواہشیں اگرچہ تمام ہی بُری ہیں ،لیکن ان کو اچھی اور بری اقسام میں تقسیم کیا جائے۔ بُری خواہشوں کو کم سے کم کیا جائے ،یا کم از کم ان کی تکمیل کرنے کی کاوش سے انسان کو روکا جائے۔ یہی اپ نے کیا ہے ،اور خوب کیا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ دُنیاوی ُمحبت ،عشق وغیرہ اپ کے کہنے کے ُمطابق ہی اصل میں جنسی ہوس ہی ہے ،یہی فرائڈ بھی کہتا ہے،
لیکن ہمارا خیال ہے کہ انسان نے یہ دیکھتے ہوئے کہ ،اس گھوڑے کو روکا نہیں جا سکتا ،اسے ُمحبت اور عشق جیسے پاکیزہ نام دے کر ،اس کی باگ موڑنے کی کوشش کی ہے۔ اور بُہت حد تک کامیاب بھی ہؤا ہے۔ یہ وہ طریقہ ہے جو مرد کو عورت اور عورت کو مرد پسند کرنے کی اجازت بھی دیتا ہے، اور غالظت سے دور بھی رکھتا ہے۔ ہمارے نذدیک وہ تمام کہانیاں جو عشق و ُمحبت کی پاکیزگی بیان کرتی ہیں اور انسان کو اس بات پر امادہ کر دیتی ہیں کہ وہ انہیں خوبصورت جذبے کا نام دے کر ،برائی سے دور رہے ،وہ اس قدر غلط نہیں ہیں۔ سوائے اس ایک بات کے ،کہ وہ عشق اور محبت کی ناکامی کی صورت میں ،انسان کو الغر اور بےکار بن جانے کی ترغیب دیتی ہیں۔ اس کو روکنا بُہت ضروری ہے۔اب اس پر باقی ُکچھ ہم کہہ نہیں سکتے ،کیونکہ ہم خود اُن لوگوں میں سے ہیں جو بقول شخصے یہ چاہتے ہیں کہ ہماری بیوی وہ ُکچھ نہ کرے جو وہ چاہتے ہیں کہ پڑوسی کی بیوی کرے۔ تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد۔ رواں رکھیں۔ انہیں پڑھ کر ہمیں بُہت فائدہ ہوتا ہے۔ ُکچھ دیر سوچنے کا موقع ملتا ہے اور اپنے اپ کو پرکھنے کا بھی۔ وی بی جی جی دُرست فرمایا اپ نے۔ ُ ظلم تو واقعی ہے۔ ہم لوگ اج بھی خلیفہ ہارون الرشید کی تعریفیں کتابوں میں پڑھتے ہیں ،بلکہ تمام ُمسلمان بادشاہوں ،جیسے ُمغلیہ خاندان وغیرہ کی تعریف کرتے ہیں۔ کبھی نہیں کہتے کہ ،خاندان برامکہ کا کیا حال ہؤا
تھا ،کبھی نہیں لکھتے کہ فرقہ معتذلہ کیا تھا ،کبھی نہیں پڑھتے کہ ،امام احمد بن حنبل کے ساتھ کیا سلوک ہؤا۔ تب بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ لیکن افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ اب بھی ہم ایسا ہی کر رہے ہیں۔ بقول فرازیہاں قلم کی نوک پر ہے نوک خنجر کیاپ کی دُعاؤں کا ُ شکریہ۔ ہم ُگم ہو جائیں تو :انا ہلل :پڑھ لیا کیجے۔ سُنا ہے کوئی چیز ُگم ہو جائے تو یہی پڑھنا چاہیئے۔ اگر دُنیا میں نہ ہوئے تو مغفرت کے کام ائے گی۔ وی بی جی 21 جواب کا سکتہ اپریل 2014 ,04 اپ کی ُکچھ تحریریں ایسی ہوتی ہیں ،کہ اُنہیں پڑھ کر انسان کو لگتا ہے کہ ابھی اور اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ پڑھ کر انسان جو ُکچھ محسوس کرتا ہے اُسے الفاظ نہیں دے پاتا۔ کئی افسانے اپ کے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ کہتے ُکچھ نظر اتے ہیں لیکن کہہ ُکچھ اور رہے ہوتے ہیں۔ :نقاد :تو بُہت اونچا مرتبہ ہے ،ہم تو صرف ایک عام ادمی کی سی عقل کے حامل ہیں اور صرف یہ سوچ کر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ جو ہم نے محسوس کیا وہ اپ تک پُہنچ جائے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ جو ُکچھ اپ اپنی تحریر میں کہہ رہے ہوتے ہیں ،ہم جُزوی یا پھر ہو سکتا ہے کہ ُکلی طور پر بھی نہ سمجھ پائے ہوں۔ ہمارے بیان سے اپ کو اتنا تو علم ہو
ہی جائے گا کہ ایک عام شخص نے پڑھ کر کیا محسوس کیا۔یہ تحریر بھی سوال چھوڑ جاتی ہے ،افسانے کا ہیرو چونکہ خود ایک اسامیاں پھنسانے واال شخص ہے اس لیئے اُس کے اپنی بیوی کے بارے جو بھی خیاالت ہیں وہ مشکوک ہیں اور بھروسے کے الئق نہیں۔ دوسری طرف بیویوں کے عام رویوں کی طرف اشارہ ہے کہ اپنے بچے اُسے اپنے بچے ہی ہوتے ہیں جبکہ شوہر کسی اور کا بچہ ہوتا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ رقیہ کو معلوم ہو کہ اس کا شوہر باہر کے کھانے پسند کرتا ہے سو اُس نے پہلے دن ہی اُس کو خوش کر دیا ہو)۔ یہ بھی اخض نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنے بچوں کو حرام نہیں کھالنا چاہتی تھی کیونکہ گھر کا کھانا بھی تو اُسی کمائی کا ہو گا۔ویسے بیوی کے ُمعاملے میں زیادہ سوچنا نہیں چاہیئے کیونکہ اُس کے کئی کام عقل سے باہر ہی ہوتے ہیناور عورتوں کا منطقی طرز علم مردوں سے یکسر ُمختلف ہوتا ہے۔اس ُمعمے کو ُمعاشرتی طرز عمل سے دریافت کرنے اور پھر الفاظ دینے پر داد قبول کیجے وی بی جی 22 ماسٹر جی مئی 2014 ,02 بُہت اچھی تحریر جناب۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ اپ بات کرنے کا فن جانتے ہیں۔ خوبی یہ ہے کہ ُمعاشرے کے ایک تلخ رویئے کو اپ نے ایک چھوٹی سی کہانی میں سمو
دیا ہے۔ اور پھر پُر اثر بھی ہے۔ پڑھ کر ہمیں ُکچھ ُکچھ محسوس ہؤا کہ ماسٹر جی شکل ہم سے کچھ ملتی جُلتی سی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کو تلقین کرنا ماسٹر جی کا اصلی روپ ،یا اصلی چہرہ تھا۔ اور اُس پر کتنے ہی نقاب ڈال لیئے جائیں وہ اس سے بچ نہیں سکتے تھے۔ مذہب واال نقطہ بھی ١٠٠فی صد دُرست ہے ،کہ اس میں ویسے ہی عقل کو ایک طرف رکھ دیا جانا ہوتا ہے سو ان معاملوں میں سمجھ کی ضرورت تو ہوتی نہیں۔ مولوی صاحب کے ساتھ بھی یہی ہؤا کہ ایک دن اصلی چہرہ سامنے ا ہی گیا۔ ہماری طرف سے بھروپر داد قبول کیجے۔ وی بی جی سچ پوچھیں تو ہم ُ شروع میں یہاں ائے تھے تو اپ کے لکھے کی طرف انا دُشوار سا لگتا تھا کہ لمبی تحریروں کو کون پڑھے اور وہ بھی توجہ مانگتی ہیں۔ پھر ایک ادھ بار پڑھا تو دل کو بُہت بھایا۔ پھر ان پر لکھنے کی ہمت نہ پڑتی تھی کہ صاحب ہماری داد کس الئق ہے اس قدر تفکر امیز تحریروں کے سامنے، لیکن پھر ہم سے رہا نہیں گیا۔ اپ نے 1993کے بعد کوئی کتاب شائع نہیں کروائی ،وجوہات بھی ہونگی۔ لیکن ہماری درخواست یہی رہے گی کہ جہاں تک ہو سکے ،ہمیں ان سے مستفیض ہونے کا شرف دیتے رہیئے گا۔ داد و تحسین ،اپ جانتے ہی ہیں، کہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ :ہم تو پکھی واس ہوویں :سو جانے یہاں کب تک ہیں ،لیکن یہ سلسلہ جاری رہے تو اچھا ہے۔ کوئی نہ کوئی ان سے استفاضہ حاصل کرتا رہے گا۔ اپ جانتے ہی ہیں کہ انٹرنیٹ پر اگر کوئی چیز ٢٠٠لوگ پڑھتے ہیں تو ١٠٠لوگ
پسند بھی کرتے ہیں ،لیکن اپنی پسند کا اظہار فقط کوئی ایک ادھ سنے نہ شخص ہی کرتا ہے۔ بہار اتی ہے کویل کوکتی ہے ،کوئی ُ سُنے۔ ایسے ہی اپ کے یہ خوبصورت احساسات ہیں ،جو پڑھنے والوں کے زہنوں کو پختگی دیتے ہیں۔ مردہ ضمیر کو زندہ کرتے ہیں۔ اپ کو قدرت نے یہ صالحیت دی ہے کہ اپ کی تحریر صرف ایک قول کی طرح اچھا یا بُرا بتا نہیں دیتی ،بلکہ ضمیر کو جگاتی ہے۔ صرف اچھائی کی تغیب اور بُرائی چھوڑنے کی تلقین نہیں کرتی ،بلکہ اچھائی کرواتی ہے اور بُرائی کی طرف بڑھتا ہاتھ روکتی ہے۔ بقول ہمارے ہیکھولے نہ کھولے در کوئی ،ہے ُمجھ کو اس سے کیامیں چیختا رہوں گا تیرے در کے سامنےهللا پاک کا ہمیشہ کرم رہے اپ پر۔ وی بی جی بڑے ابا اپریل 2014 ,28 بُہت ہی خوبصورت تحریر ہے۔ جہاں اپ نے انسان کے بٹتے چلے جانے کی بات کی ہے وہاں یہ تحریر ایک دوسرے کے ساتھ ُمحبتوں کے ساتھ جینے کا بھی سبق دیتی ہے۔ تحریر میں موجود کرب کا احساس اسے اور زیادہ جاندار کر رہا ہے۔ واقعی صفر کا ہندسہ بُہت طاقت رکھتا ہے ،اور اپ نے اسے اپنے انداز میں بُہت خوبصورتی سے ُمعاملے کے ساتھ جوڑا ہے۔ صفر کے ساتھ صرف ایک کا اضافہ اسے بُہت طاقتور کر دیتا ہے اور خود
بھی بُہت طاقتور ہو جاتا ہے بشرطیکہ کہ :صحیح سمت :میں اضافہ ہو۔ غلط سمت میں اگر ایک کا اضافہ ہو تو ایک ،ایک ہی رہتا ہے لیکن صفر اپنا وجود بھی کھو دیتا ہے۔ ایک کو چاہیئے کہ کوشش کرے کہ کئی صفروں کے ساتھ لگ جائے اور اسی طرح اپنی اور دوسروں کی قیمت میں اضافہ کرے۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ بُہت ہی عمدہ تحریر ہے۔ہم نے انسان کے بٹنے کے عمل کو ایک اور نقطہ نظر سے بھی دیکھا ہے۔ شیکسپئر کے ُمطابق :ال دا ورلڈ از سٹیج :۔ اُنہوں نے انسان کی زندگی کے ادوار کو کردار دیئے ہیں ،جبکہ ہمارا خیال ہے کہ انسان ایک ہی وقت میں کئی کردار بھی نبھاتا ہے۔ باپ بھی ہے بیٹا بھی۔ دفتر میں ایک چہرہ تو رشتہ داروں کے سامنے کوئی اور چہرہ۔ کہیں اداب بھری محفل میں ایک مؤدب شخص تو دوستوں کے سامنے ایک گالم گلوچ والے انسان کا چہرہ۔ کہیں چاالک اور مکار تو مولوی صاحب کے سامنے عجز و انکسار۔ کہیں خوشی نہ ہوتے بھی ہنسنا پڑتا ہے تو کہیں کسی کو موت پر زبردستی رونے کی کوشش کرتا ہے۔ کردار نبھاتا ہے۔ اور انہیں کرداروں میں بٹتا بٹتا ،اپنا اصلی چہرہ بھول جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک کردار یہ :وی بی :ہے جس میں ہمیں اپنا چہرہ نظر اتا ہے اور ہم اس کے ساتھ وقت ُگزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم نے اپ کی تحریر پڑھ کر زیادہ وقت نہیں لیا ،سو جذباتی سی چند باتیں جو ذہن میں اُبھریں بیان کر گئے ہیں ،جس پر معذرت بھی چاہتے ہیں۔ ائندہ کوشش کریں گے کہ اپ کی تحریر کے ساتھ زیادہ وقت ُگزاریں تاکہ جذبات ُکچھ ٹھنڈے ہو جائیں اور ہم ُکچھ عقل کو لگتی کہہ سکیں۔اپ کی یہ تحریر بھی بُہت خوب ہے ،اور ہمیں یقین ہے کہ پڑھنے والے اس سے ضرور اثر لیں گے۔
کیونکہ یہ جذبات اور احساسات سے لبریز ہے۔ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ۔۔ وی بی جی 23 گناہ گار اپریل 2014 ,26 ماشاهللا جناب یہ تحریر بھی بُہت خوب ہے۔ کمال یہ ہے کہ اپ اس قدر وسعت رکھتے ہیں کہ اپ کا لکھا جب پڑھا بالکل ُمختلف سا ہی ہوتا ہے اور یہ انفرادیت اپ کے قلم کی پہچان ہے۔ ہر بار ایک نئی اور علیحدہ دُنیا کی ہی سیر کرواتے ہیں۔ اس کے لیئے ُ شکر گزار بھی ہیں ہم اور اپنے ساتھ بھرپور داد بھی الئے ہیں جو پیش خدمت ہے۔رزق سے ُمتعلق چونکہ بات ہو رہی تھی سو ہم نے بُہت غور سے پڑھا اپ کے خیاالت کو۔ لیکن ایک فقرہ ہے جس کی تشریح ہم ٹھیک سے نہیں کر پا رہے ہیں۔ وجہ شائید اس فقرے میں موجود یہ الفاظ ہیں :تو وہ اس شخص کے اندر رزق فراہم کرنے کی قدرت رکھتا ہے :۔ فقرہ درج ذیل ہے۔ انہوں نے‘ اس سے آگے فرمایا‘ کہ اگر انسان سے زمینی : استحصال پسند قوتیں‘ رزق چھین لیں‘ تو وہ اس شخص کے اندر‘ رزق فراہم کرنے کی قدرت رکھتا ہے‘ اور کوئی نہیں‘ جو مزاحم آ سکےُ :ممکن ہے کتابت کی چھوٹی سی کوئی غلطی ہو لیکن چونکہ ہم خود کم فہم قسم کے شخص ہیں تو ذیادہ تر
امکان اسی بات کا ہے کہ ہم اپ کے مفہوم تک نہ پُہنچ پا رہے ہیں۔موالنا ازاد صاحب بُہت مثبت سوچ رکھنے والے شخص تھے ،سُنتے ہیں کہ ایک بار کسی نے اُن سے کہا کہ فالں بادشاہ کے دور میں عورتیں کپڑے نہیں پہنتی تھیں بلکہ اپنے جسم پر کپڑوں کی سی تصویر (پینٹنگ) بنوا لیا کرتی تھیں۔ موالنا صاحب کا مثبت جواب دیکھیئے کہ فرمایا کہ اس بات سے اُس زمانے کے مصوروں کی فنی صالحیتوں کا پتہ چلتا ہے کہ کس قدر مہارت رکھتے تھے۔تو صاحب رزق اور ُخدا سے مطعلق بھی ہمارا ایسا ہی مثبت اور سادہ وطیرہ ہے۔ اگر رزق مل جائے تو هللا نے دیا ،نہ مال تو حکومت یا ُمسلمانوں کی دین سے دوری ذمہ دار۔ اگر انعامی بانڈ نکل ایا تو هللا کا ُ شکر ،نہ مال تو اسی میں بھالئی تھی ،اپ ہی کی مثال سے دونوں پستانوں کا دودھ ‘ ذائقہ اور تاثیر میں‘ ایک سا نہیں ہوتا تو واہ کیا ہی خوب قُدرت کا کمال ہے اگر ایک سا ہے تو بھی واہ کیا ہی خوب قُدرت کا کمال ہے کہ دو الگ الگ پستانوں سے ایک سا دودھ ۔ دُنیا کو دیکھ کر اندازہ لگاتے رہتے ہیں کہ فالں کام اچھا ہؤا یا بُرا۔ اگر اچھا ہؤا ہے تو واہ هللا تیرا کمال ،اگر بُرا ہؤا تو شیطان مردود۔ هللا کا خوف ہے کہ کہیں ُکچھ غلط منہ سے نکال تو نُقصان نہ اُٹھانا پڑے اس لیئے ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے ،کہ سوچتے پھریں کہ دُنیا میں جو جتنا کاال ہے اُتنا بدحال اور جو جتنا گورا ہے اُتنا خوشحال کیوں ہے۔ یا یہ کہ اُن کے حاالت کا ذمہ دار ا ُن کا رنگ ہے یا اُن کی رنگت اُن کی خوشحالی کی نسبت ٹھہری ہے۔اپ کے خیاالت اس ُمعاملے میں بُہت اچھے ہیں اور مثبت ہیں ،یہ اچھی بات ہے۔ افسانہ بھی بُہت خوبصورت ہے۔ هللا پاک اپ کے قلم کو مذید وسعت دے۔ایک چھوٹی سی شکایت بھی ہے
کہ اپ داد وصول کرنے کی بجائے داد دینے لگ گئے ہینہمیں احتیاط کرنی پڑے گی۔ وی بی جی گناہ گار اپریل 2014 ,26 جناب داد کی بات نہیں کر رہے ،وہ تو اپ کی تحریریں ہم سے ہمارا گریبان پکڑ کر لے لیتی ہیں ،ایسے ہی جیسے ہم ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو اپنی تنخواہ کی پائی پائی تک مشین سے وصول کرتے ہیں۔ ہم اپنے خیاالت کی اظہار کی بات کر رہے تھے کہ ہم ذرا ادھر اُدھر کی ہانکنا کم کر دیں ،وگرنہ ہمیں یقین ہے کہ اپ جس طرح کی نظر رکھتے ہیں ہم پر بھی اپ کی تجزیہ کی تیز نگاہ ہو گی ،اور ممکن ہے کہ کسی دن ایک عجیب کردار کی صورت میں اپ کی کسی تحریر کا حصہ بن جائیں گے۔ اپ کا ُ شکریہ کہ ہمیں ان تحریروں سے فیضیاب ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔طالب دُعا ماشاهللا جناب۔ بُہت ہی خوب۔ ایک تو ہمارے علم میں اضافہ ہؤا کہ :رزق اندر :کے کیا معنی ہیں دوسرا اپ کے اس فقرے کے معنی جان کر بُہت اچھا لگا۔ واقعی وہ رزق دیتا ہے تو کہاں نہیں دیتا۔ توجہ اور رہنمائی کا شکریہ۔۔ وی بی جی 24
انا کی تسکین اپریل 2014 ,18 بُہت اچھی تحریر ہے ،داد قبول کیجے۔ (ہم :تحریر :اس لیئے کہتے ہیں کہ کم علمی کے سبب ،ہم :انشائیہ: ،:افسانہ :وغیرہم میں تفریق کرنے سے قاصر ہیں)اپ نے فرمایا تھا کہ ہم خصوصی برتاؤ رکھتے ہیں تو جناب ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہم تو جیسا پڑھتے ہیں ویسا بیان کرتے ہیں۔ یہ اپ کی تحریریں ہیں جو ہمیں یہاں التی ہیں۔ اگرچہ اپ جانتے ہی ہیں کہ مصروفیات اج کے دور میں بُہت زیادہ ہو چُکی ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ایک :ابا جی :کماتے تھے اور سارا :ٹبر :کھاتا تھا ،اور ایک یہ وقت ہے کہ :سارا :ٹبر :کماتا ہے اور ایک :ابا جی :کو نہیں کھال سکتا۔ سو ہماری حاضری کم رہتی ہے ،وجہ یہ بھی ہے کہ اپ کی تحریر کو سرسری نظر سے دیکھنا ،ہم سے ُممکن نہیں۔ یہ خود ہی توجہ چھین لیتی ہے۔ اپ کے ُ شکر ُگزار ہیں ہم کہ احباب اگر کم توجہ بھی دیں تو اپ ان تحریروں کو یہاں پیش کرتے رہتے ہیں ،اور کم از کم ہم اس سے استفاضہ کرتے رہتے ہیں۔یہ تحریر بُہت تلخ محسوس ہوئی ،اور ایسا ہی ہونا چاہیئے تھا۔ اس قدر الفاظ میں نفرت بھری ہے کہ جیسے صاحب قلم کو خود بھی چوٹ پڑی ہو۔ ایک جُملہ ہے اپ کا ،اس پر داد بھی قبول کیجے۔ اقتباس بڑی اور شہرت یافتہ دکان سے‘ کھالنے پالنے کی صورت میں‘ فائل کی بلند پروازی پر‘ شاہین بھی شرمندہ ہو جاتا ہے۔ ہم لوگوں نے :حرام :پر تحقیق کی اور اس کی بھی کئی اقسام
ُمرتب کیں۔ اقسام بھی دو قسم کے نقطہ نظر سے کی گئی ہیں۔ پہال نُقطہ نظر۔ایک تو :اپنے لیئے حرام ،دوسرے کے لیئے حالل: اور دوسرا :اپنے لیئے حالل ،دوسرے کے لیئے حرام :جیسا کہ اپ کی تحریر نے بھی وضاحت کی ہے۔دوسرا نقطہ نظراگرچہ یہ اقسام بُہت ہیں لیکن ہم چیدہ چیدہ کا ذکر کئیے دیتے ہیں۔ پہلی قسم :اسے کبھی ُمسلمان اپنے لیئے حالل نہیں سمجھتے۔ : جیسے سور اور ُکتے کا گوشت۔ دوسری قسم :اسے حسب طبیعیت استعمال کیا جا سکتا ہے۔ : جیسے شراب ،جؤا۔ تیسری قسم :ایسی چیزیں جنہیں کہنا تو حرام ہوتا ہے لیکن ان : کے استعمال پر کوئی پابندی نہیں ،بلکہ ترغیب دی جاتی ہے۔ جیسے سُود ،کسی دوسرے ُمسلمان بھائی کا مال و زن۔ ُکچھ ُمفتی حضرات کے بھی ہم احسانمند ہیں کہ اُنہوں نے اس کو کئی اور نام دے کر نہ صرف عوام کو سہولت مہیا کی بلکہ خود بھی الکھوں روپے ماہانہ لے کر دین کی خدمت کر رہے ہیں۔ (ویسے ہم خود بھی ایسے ہی کسی ضمیر فروش ُمفتی کی تالش میں ہیں جو ہمیں روزہ میں سگریٹ پینے کی اجازت کا فتوی دے دے)۔اپ کی تحریریں ایسی ہوتی ہیں کہ ہم اپنا رونے بیٹھ جاتے ہیں۔ اس پر معذرت بھی چاہتے ہیں۔ یہ تحریر پڑھ کر ہمارا نہیں خیال کہ کوئی پڑھے گا اور اثر نہ لے گا۔ ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ وی بی جی
جناب یہ تو اپ نے حد سے بڑھ کر عزت دے دی ہماری عامیانہ سی رائے کو۔ عامیانہ اس لیئے کہا کہ ایک عام سے ادمی کی رائے ہے ،ہم نہ مفکر ہیں اور نہ دبیر۔ اور نہ ہی کوئی عالم فاضل ہیں کہ :علوم فضول :حاصل کر رکھے ہوں اور نہ ہمارا نام :علما فضال :میں اتا ہے :وی بی جی :۔ سو صاحب ،اگر ہم سے کوئی کام کی بات سرزد ہو جائے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ یہ کس نے کی۔ ایک اور ُگزارش کرنا چاہیں گے کہ ہم اپنا نام یہاں نہیں الئے ہیں۔ ہمارے ہمذاد ہیں ،ایک کردار :وی بی جی: وہ یہاں ائے ہیں اور اُن کا یہی نام ہے۔ اگر وقت اجازت دیتا ہو تو ہماری یہ نظمیہ غزل ایک نظر پڑھ لیجے گا۔.اُمید ہے خفا نہ ہونگے۔اپ نے اس ناالئق کو اس الئق سمجھا ہے جس پر سراپا سپاس ہیں اور ایک بار پھر ُ شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ہمیں :چوتھی: ُمرغی بھی ذبح کرنی ہے سو وہاں چلتے ہیں۔ وی بی جی 25 انگریزی فیل اپریل 2014 ,18 معذرت خواہ ہیں کہ دیر سے حاضر ہوئے۔ یہ موضوع اگرچہ اس قدر انوکھا نہیں ہے ،لیکن اپ کے قلم نے اسے اپنی طرز سے بیان کیا ہے اور بُہت ہی خوب کیا ہے۔ ہکے پھلکے انداز میں اپ نے کہانی بیان کی ہے جو پڑھنے والے کو کسی ذہنی دباؤ میں نہیں ڈالتی۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ وہ قارئین جو گہرے فلسفوں سے کتراتے ہیں یا سمجھ نہیں پاتے وہ بھی اس سے محظوظ ہو پاتے ہیں اور ُکچھ نہ ُکچھ بات کا اثر ضرور لے کر جاتے ہیں۔
ہماری طرف سے بھپور داد قبول کیجے۔ویسے ہمارا خیال اس سے ُمتعلق تو یہ ہے کہ ایک تو جو شاگرد رٹہ نہیں لگا سکتے اُن کو اساتذہ سے شاباش بھی شاز و نادر ہی ملتی ہے ،وگرنہ نہیں ملتی۔ ہمارا اپنا المیہ یہی رہا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس میں صرف انگریزی ہی کارفرما نہیں ہے ،بلکہ کئی ایسی چیزیں ہمارے نصاب کا حصہ ہیں جس کی کوئی تُک نہیں ملتی۔ یقین جانئیے اج تک ہمیں الجبرا ،جسے جبرا ً پڑھایا جاتا ہے ،کو استعمال کرنے کا کوئی موقع زندگی نے نہیں دیا۔ ہم ایکسوں میں سے وائیاں تفریق کیئے بغیر زندگی ُگزار رہے ہیں۔ نہ مرہٹوں کی لڑائیوں کی تاریخوں کی کہیں ضرورت پڑی ہے۔ اور تو اور قائداعظم کے چودہ نُقاط جسے ہم چوتھی جماعت سے لے کر مسلسل چودھویں جماعت تک یاد کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں ،نہ تو اج تک کبھی یاد ہوئے ہیں اور نہ کبھی اس کی ضرورت پڑی ہے۔یہاں کسی کام کو کرنے کے لیئے اُس کام لیئے موزوں ترین شخص بھی تالش کرنے کا کوئی اصول دُرست نہیں ہے۔ ہم جہاں کام کر رہے ہیں وہاں بھی صرف اس لیئے کہ ہمیں :ڈائریکٹ ،ان ڈائریکٹ: ،:ایکٹو ،پیسو: ،:دُعائے قنوت ،:اور اپنے وزیر اطالعات کا نام یاد تھا۔ ہم اس سے بھی اچھا ُ عہدہ پا سکتے تھے لیکن چونکہ ہمیں نہ صرف :امریکہ کے صدر کینڈی :کے قاتل کا نام یاد نہیں تھا بلکہ یہ تک معلوم نہ تھا کہ :بُلبُل :کی اوسط ُ عمر کتنی ہوتی ہے ،اس لیئے ہم اُس عہدے کے الئق نہ تھے۔ اس لیئے ہم سمجھتے ہیں کہ نہ صرف یہ شعور دینا ضروری ہے کہ تعلیم کا مقصد کیا ہے اور اس میں کردار سازی کی کیا اہمیت ہے۔ بلکہ یہ بھی کہ کسی کام کو کرنے کے لیئے موزوں ترین شخص کا انتخاب کیسے کرنا چاہیئے۔ اگر
ہمارے بس میں ہو تو ،حافظ ،سعدی اور ُ عرفی جیسے لوگوں کا کالم ،بلکہ قصہ چہار درویش کو نصاب کا حصہ بنائیں اور بُہت سی خرافات کو اس میں سے نکال پھینکیں۔ ورنہ ہمارا تو یہی حال ہے بقول سعدی کہ اگر کوئی شخص علم حاصل کرے اور پھر اُسے استعمال نہ کرے تو ایسے ہی ہے جیسے کسی گدھے پر کتابوں کا بوجھ لدا ہو۔ تحریر پر ایک بار پھر داد کے ساتھ۔ وی بی جی 26 چوتھی مرغی ,اپریل 2014 ,26 بُہت ہی خوبصورت تحریر ہے۔ اپ ماشاهللا بُہت ہی گہری نظر رکھتے ہیں۔ اور پھر اپ کے پاس نہ صرف خیاالت کو الفاظ دینے کا ہ ُنر ہے بلکہ وہ طاقت بھی ہے کہ اپ کی تحریر پڑھنے واال نہ صرف قائل ہو جاتا ہے بلکہ ہمیں یقین ہے کہ اثر بھی لیتا ہے۔ ایک ُمعاشرتی مسئلہ کہ اپ نے کہاں ُمرغی سے ُ شروع کیا ہے اور کیسے تمام کہانی کے بعد اسے وہیں سمیٹا ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ اپ کہاں :اسیلُ :مرغی پر چھُری پھروا رہے تھے جناب یہ تو ُمرغے لڑانے والوں کی نظر میں :کفر :سے کم نہیں۔ اپ کی تحریر پڑھ کر ُکچھ باتیں ذہن میں ائی ہیں ایک تو یہ کہ عام خیال ہہی ہے کہ پڑھنے لکھنے کا مطلب ہے رزق میں اضافہ اور یقین دہانی۔ ایک فارموال کہہ لیجے کہ جتنا ذیادہ پڑھا لکھا ہو گا انسان ،اُتنا ہی ذیادہ اُس کا رزق ہونا چاہیئے۔ اور دوسری بات یہ کہ جنگل کا قانون بُرا ہوتا ہے،
انسانوں کے قوانین اچھے ہوتے ہیں اور اُنہیں ہی رائج ہونا چاہیئے۔ رزق کے بارے تو ہمارا خیال ہے کہ اس کا کوئی فارموال نہیں ہے۔ ہم نے تو یہی دیکھا کہ اگر کوئی شخص ہماری طرح اپنی تعلیمی اخراجات کی رسیدیں جنہیں ڈگریاں بھی کہتے ہیں لیئے پھرے ،چاہے کوئی بڑا سائنس دان ہو ،چاہے عالم ہو شاطر ہو ،رزق کا حقدار اس ناطے سے نہیں ٹھہرتا۔ اس کو بانٹنے کا قدرت کا اگر کوئی فارموال ہے تو ہمیں ٹھیک سے سمجھ نہیں ایا اج تک۔ ایک طرف تو دین کہتا ہے کہ رزق صرف هللا کے ہاتھ میں ہے ،دوسری طرف ١٠٠بچے بھوکے مر جاتے ہیں۔ الزام کسے دیں؟ لے دے کر اگر رزق کا کوئی فارموال ہمیں دین سے مال ہے تو یہی ہے کہ صدقہ خیرات دو کہ یہ دوگنا ہو کر واپس ملے گا۔ جس کے پاس ُکچھ نہ ہو وہ کیا کرے یہ کہیں نہیں مال۔ دوسری طرف اگر رزق هللا کے ہاتھ نہ ہو تو پورے ملک کو وہ بیرونی کمپنیاں کھا جائیں ،جو ایک ہی وقت میں نہ صرف کئی قسم کے صابن بنا کر اشتہاروں میں اپس میں لڑ کر دکھاتی ہیں بلکہ انہیں صابنوں کے دو نمبر بھی خود ہی بناتی ہیں کہ کوئی دوسرا فریق کیوں بنا کر کمائے۔ جنگل کے قانون سے ُمتعلق ہمارا خیال ہے کہ یہ انسان کی تعصب سے بھری ہوئی سوچ ہے کہ خود کو جانوروں سے بہتر سمجھتا ہے۔ انسان اشرف المخلوقات ہے لیکن یہاں انسان کی جو :تعریف :ہے وہ ُکچھ اور ہے۔ اپ خود ہی سوچئیے کونسی ایسی بُرائی ہے جو جانوروں نے کی ہوں اور انسانوں نے وہ بُرائی نہ کی ہو۔ اچھائیاں بُرائیں دونوں سوچ لیجے۔ ایک بھی ایسی نہ ملے گی۔ انسان ،انسانوں تک کا گوشت محوارتا ً نہیں بلکہ حقیقتا ً کھا رہا ہے۔ ادھر انسانوں کی وہ بُرائیں دیکھ لیجے جو جانوروں نے کبھی نہ کی ہوں۔ اتنی
لمبی فہرست نکلے گی کہ ُخدا کی پناہ۔ سو ہمارا خیال ہے کہ اگر تعصب کو تھوڑا سا ایک طرف رکھ کر سوچا جائے تو جانور بدرجحا بہتر نظر ائیں گے۔ وہ تو معصوم نظر اتے ہیں ہمیں۔ جنگل کے قوانین میں شکار تبھی ہوتا ہے جب بھوک لگے۔ یہاں اُلٹا ُمعاملہ ہے ،بھوک لگنے سے پہلے انتظام کرنا ہوتا ہے۔ بھیڑیے کی خصلت تھی کہ وہ کمزور پڑ جانے والے بھیڑیئے کو مل کھا جاتے ہیں۔ لیکن یہاں مل بانٹ کر بھی نہیں کھاتے۔ واہ رے انسان۔۔سو صاحب جب تک دُنیا میں کمزور اور طاقتور موجود ہیں ،کمزور کی گردن طاقتور کی دو انگلیوں میں رہے گی۔ یہ اصول ہم نے صرف انسانوں کے گھٹیا ُمعاشرے اور قوانین سے ہی نہیں اخذ کیا بلکہ جانوروں کے سُلجھے ہوئے اور ُمہذب ُمعاشرے اور جنگل کے قوانین سے بھی ثابت ہے۔اپ کی تحریر بُہت خوب ہے۔ اُمید ہے اگر نا انصافی کو دُنیا سے ہم مٹا نہیں سکتے تو کسی حد تک کم کرنے کی جُستجو تو کر سکتے ہیں۔ اور یہی اپ کر رہے ہیں۔ اپ کی یہ تحریر بھی اسی کاوش کا حصہ ہے اور ُمقام رکھتی ہے۔ ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ ۔ ۔ وی بی جی 27 تنازعہ کے دروازے پر اپریل 2014 ,16 واہ جناب یہ پہلو بھی اپ نہیں چھوڑا۔ بُہت اچھی تحریر ہے۔ داد
حاضر ہے۔اب بات یہ ہے کہ جو کہانی اپ نے لکھی ہے وہ تاریخ میں قدم قدم پر دُہرائی گئی ہے۔ سو سچ پوچھیں تو ہم ان کرداروں کی شناخت میں ناکام رہے ہیں۔ اس کی ہمارے خیال سے دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہم اپنی کمزور سیاسی بصیرت کی وجہ سے کئی تاریخی نُقاط سے ناواقف ہیں سو ایسا ہونا الزم ہے۔ دوسری بات یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اپ نے کئی کہانیوں کے کردار اپنی تحریر میں ایک واحد کردار میں سمو دیئے ہوں۔ جس کی وجہ سے اصل تک نہ پُہنچ پا رہے ہوں۔ہم معذرت بھی چاہیں گے کہ اپنی کم علمی کی وجہ سے اپ کی تحریر کو وہ خراج نہیں پیش کر پائے جس کی یقینا ً یہ ُمستحق ہو گی۔ اپ کی تمام ُگزشتہ تحریروں کو نظر میں رکھتے ہوئے ہمیں یقین ہے کہ یہ ہماری نا سمجھی کی وجہ سے ہے۔لیکن جس پہلو سے بھی ہم دیکھ سکے ہیں اور جہاں تک سمجھ سکے ہیں تحریر اچھی ہے اور داد اپ کا حق۔بھرپور داد کے ساتھ وی بی جی 28 کامنا اپریل 2014 ,14 واہ جناب واہ۔ اپ کی نظر کہاں کہاں تک ہے ،یہ تحریر پڑھ کر پتہ چال۔ پھر اپ کہتے ہیں کہ ریشماں جوان نہیں رہی۔ صاحب اس تحریر کے اخر میں اپ نے مرہٹوں کی سرکوبی کی تاریخ رقم
نہیں کی سو ہمارا خیال ہے کہ تحریر نئی بھی ہے اور ریشماں کی جوانی کی سند بھی۔ اور صاحب ہمارے خیال سے ریشماں کبھی بوڑھی نہیں ہوتی ،اُس پر مرنے والی انکھیں بوڑھی ہو جاتی ہیں۔اس تحریر نے ہمیں جیت لیا ہے۔ ایک تو اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اپ کی نظر کہاں کہاں تک ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ موضوع کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ اور اس پر لکھنے کا خیال تک انا ،بُہت بڑی بات ہے۔ دوسرا اپ کے علم کا بھی پتہ چلتا ہے کہ کس گہرائی سے اپ نے مشاہدہ کیا ہے۔ اگر اس موضوع سے ُمتعلق باریک چیزوں کا علم نہ ہو تو ظاہر ہے کہ چند ٹوٹے پھوٹے فقروں کے سوا کوئی اس پر ُکچھ نہیں لکھ سکتا۔ اور اپ نے تو کمال حکایت بیان کی۔ دل عش عش کر اُٹھتا ہے۔اسے پہلے پڑھا تو کئی باتیں ذہن میں ائیں لیکن اسے دوبارہ پڑھا اور پھر ایسا محسوس ہؤا کہ ُکچھ کہنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ اپ نے کوئی کونہ خالی نہ چھوڑا ہے۔ ویدی کا ویدان ہمارے اپنے خیال سے ُمتعلق بھی یہی ہے۔ جب تک دُنیا قائم ہے کوئی نہ کوئی گیانی کہیں نہ کہیں ایک ٹانگ پر کھڑا ہوتا رہے گا۔ اور شائید ذات باری تعالی بھی نہیں چاہتی کہ اذان کے ہوتے ہی سب :مسیت :میں جا پڑیں۔ ُکچھ لوگ سیمنا گھروں میں بھی نظر اتے رہیں گے۔ہماری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ بُہت ہی عمدہ تحریر ہے۔ اپ جیسے صاحبان علم اس دُنیا کا سرمایا ہیں ،جسے بے قدرے لوگ صرف عیاشی پر خرچ کرنا چاہتے ہیں۔هللا پاک اپ کے علم اور صحت میں برکت عطا فرمائیں۔ وی بی جی 29
ابا جی کا ہم زاد اپریل 2014 ,13 اپ کی یہ شاندار تحریر پڑھی۔ بُہت زوراور ہے اور اس میں اپ کا ایک نیا انداز نظر ایا۔ یا ُمنفرد انداز کہہ لیجے۔ یقین جانیئے کہ رشک ایا پڑھ کر اور دل سے داد نکلی۔ اپ نے ایک جگہ کہا کہ ہم ُکچھ زیادہ تعریف کر جاتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ اس تحریر کو ہی دیکھیئے۔ جتنی تعیف کی جائے کم ہے۔ اس موضوع کو اس انداس سے سوچنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ ہم ایسے کئی لوگ جب کسی مسئلہ میں ہوتے ہیں تو ویسا ہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسا کہ اُن کے والد ایسے موقع پر کیا کرتے تھے ،اور اگر ُکچھ لوگوں کو ایسا خیال نہیں ایا تو اُنہیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیئے۔ یہ ہمارا خیال ہے اور ایسا ہی ہم نے اس تحریر سے بھی اخذ کیا ہے۔ اپ کی تحریر اگرچہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے ،اور ہر شخص اپنی سوچ کے حساب سے نتیجہ یا نتائج اخذ کر سکتا ہے ،لیکن ہمیں ایسا ہی محسوس ہؤا۔ ہمارے گھر میں کئی قسموں کے کردار تھے اور ہم اُنہی کو محسوس کرتے رہے۔ بابا ،ماں ،بہنیں ،بھائی وغیرہ ،لیکن دو ایسے کردار تھے جنہیں ہم نے کبھی محسوس نہیں کیا۔ اور وہ تھے ایک میاں اور ایک بیوی۔ یہ کردار پس پردہ رہتے ہیں اور انسان کی شادی ہو جانے تک کبھی محسوس نہیں ہوتے۔ یا پھر ہمیں نہیں محسوس ہؤے۔ اپ نے کہاں سے بات ُ شروع کی اور کہاں ال چھوڑی ،قابل تحیسن ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ اس بات کا ُ شکریہ بھی کہ ہمیں اپ کی تحریر کے
توسط سے پتہ چال ہے کہ ہم بُہت سے کام کیوں کرتے ہیں۔ ایک چھوٹی سی عرض بھی کرنا چاہیں گے کہ یا تو اپ نے :مقالموں: کو زیادہ توجہ نہیں دی یا پھر ہمیں افسانے اور کہانیاں وغیرہ پڑھنے کی عادت نہیں رہی۔ ہمیں مقالموں کو پڑھنے اور سمجھنے میں ُکچھ دقت ہوئی ہے۔ یہ بات بیان کرنا اس لیئے ضروری سمجھا تاکہ اپ کے علم میں ہو کہ ُکچھ لوگ ایسے بھی ہو سکتے ہیں جنہیں اس قسم کی مشکالت بھی پیش ا سکتی ہیں۔ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ ۔ وی بی جی 30 دو دھاری تلوار اپریل 2014 ,09 بُہت جاندار تحریر ہے اور پھر اپ کا انداز بیاں ،منظر کشی بُہت ہی جاندار اور خوبصورت ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسی تحریریں کردار سازی کے لیئے بہت ضروری ہیں۔ نہ صرف یہ کہ اچھے برے کی تمیز سکھاتی ہیں ،بلکہ اچھائی کو پسند کرنے اور بُرائی سے نفرت کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ اپ کے انداز بیاں مشکل پسندی سے دور ہے اس لیئے قاری کے ذہن پر اثر چھوڑتا ہے۔ اپ نے ڈارون کی بات کی ،ہمارا تو خیال ہے کہ اُن کے نظریہ میں ایک معمولی سی تبدلی کر لی جائے تو بالکل دُرست ہے۔ اور وہ تبدیلی یہ ہے کہ نظریہ کی مشہور تصویر میں دکھائے گئے قطار میں موجود تمام کے تمام اراکین اپنا ُرخ موڑ کر پیچھے کی طرف کر لیں۔ انسان کی پریشان حال زندگی کو
دیکھ کر لگتا ہے کہ اصل میں انسان ترقی کرتے کرتے بندر بن گئے ہیں۔ مغربی ُممالک کے تیزی سے ترقی کرتے ہوئے لوگوں میں یہ ترقی صاف دکھائی بھی دیتی ہے۔ اُن کی بڑھتی ہوئی معصومیت دیکھ کر ہمیں وہ جانور ہی لگنے لگ گئے ہیں۔اس وقت جو ڈارون کا نظریہ موجود ہے اس میں ایک سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اگر بندر ترقی کر کہ انسان بنا ہے تو پھر ابھی تک ہماری دُنیا میں اتنے بندر کیوں ہیں اور اُن کی ترقی میں کیا رکاوٹ ہے؟ ہمارا ذاتی خیال یہ ہے کہ جانوروں کے خاندان ہوتے ہیں جیسے ،گھوڑا ،گدھا ،خچر ،زیبرا وغیرہ۔ خرگوش ،چوہا، ُگلہری ،نیوال وغیرہ۔ ایسے ہی انسان کا خاندان بندروں کا ہی ہے، لیکن یہ علیحدہ نسل ہے۔ اور جس چیز نے انہیں اتنی ترقی دی ہے وہ صرف ُزبان ہے۔ جس نے انہیں ایک دوسرے کے تجربات سے بھی سیکھنے کی طاقت دی۔خیر ،اپ کی تحریر کا صرف ایک حصہ ہے ڈارون کا نظریہ ،اصل تو یہی ہے کہ انسان کو انسانوں اور جانوروں میں فرق رکھنا چاہیئے۔اپ کی تحریر بُہت پسند ائی۔ بُہت ُ شکریہ کہ اپ یہاں رقم کر دیتے ہیں اور ہم فیضیاب ہو پاتے ہیں۔ وی بی جی شیدا حرام دا مارچ 2014 ,27 آپ کا انشائیہ پڑھا اور کچھ سوچ کر بیٹھ گیا۔ یہ مسئلہ کوئی آج کا تو نہیں ہے۔ یہ ہمارے معاشرہ کا ازلی المیہ ہے۔ ہم نماز،
روزے ،حج کو اسالم کی ابتدا اور انتہا جانتے ہیں اور اس پیمانہ پر ہر ایک کو پرکھتے ہیں۔ سو تو ٹھیک ہے لیکن جب ایمانداری ،رشوت ،بد عنوانی ،حرام خوری کا مرحلہ آتا ہے تو سوائے "میرے" ہر شخص مجرم ہوتا ہے اور گردن زدنی۔ اپنے گریبان میں کوئی جھانک کر نہیں دیکھتا۔ پچھلے دنوں ہندوستان گیا تو ایک بزرگ (جو کہ عمر بھر کچہری میں صدر قانونگو رہے ہیں اور رشوت پر گزارہ ہی نہیں کیا بلکہ مکان دوکان بنوائے ہوئے ہیں) سے میں ملنے گیا۔ وہ اپنے صاحبزادے کو سمجھا رہے تھے کہ دفتر نہ جایاکرو۔ جب دوسرے نہیں آتے تو تم کیوں جاتے ہو۔ بس پہلی تاریخ کو جا کر تنخواہ لے آیا کرو۔ موصوف کے ہاتھ بھر سفید داڑھی ہے اور پنج وقتہ نماز پر سختی سے عامل ہیں ۔ میں نے جب ادب سے عرض کی کہ آپ اپنی اوالد کو حرام کام کے لئے تاکید کر رہے ہیں تو الٹے مجھ پر بگڑ پڑے کہ دنیا کرتی ہے تو ہم کیوں نہ کریں۔ عرض کیا کہ دنیا زنا کرے گی تو آپ بھی کریں گے اور ۔۔۔۔۔ کھائے گی تو وہ آپ بھی کھائیں گے؟ صاحب وہ ایسے بکھرے کہ هللا دے اور بندہ لے۔ میں نے اپنی عافیت اسی میں جانی کہ اٹھ کر چال جائوں۔اب امریکہ کی سنئے۔ میں یہاں تقریبا پچاس سال سے مقیم ہوں۔ هللا کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہوں کہ اس عرصہ میں نہ تو میں نے کسی کو ایک پیسہ رشوت دی اور نہ ایک پیسہ رشوت لی اور هللا کے فضل سے سرکاری اور غیر سرکاری سارے کام ہوتے چلے گئے اور آج بھی ہورہے ہیں۔ یہ ایک "کافر ملک" کا حال ہے اور وہ ایک "مسلم" مملکت کی کیفیت ہے۔ ببیں تفاوت رہ از کجاست تا بکجا۔ سرور عالم راز
اپ کی یہ تحریر کافی دن پہلے پڑھ لی تھی ،لیکن اپ کی تحریرں ُکچھ ایسی ہوتی ہیں کہ ان کا جھٹ سے جواب دینا نا انصافی معلوم ہوتا ہے۔ اسے تحمل سے پڑھنا ،اس پر سوچتے رہنا اور پھر کہیں جا کر ُکچھ کہا جا سکتا ہے۔ ہم تو پڑھ کر ایسے جذباتی ہوئے تھے کہ اگر اُسی وقت لکھنے بیٹھ جاتے تو جانے اس ُمعاشرے پر کیا کیا لکھ جاتے۔ بُہت جاندار تحریر ہے اور اتنے بڑے معاشرتی مسائل کو اپ کا اس چھوٹی سی تحریر میں بیان کر دینا الئق صد تحسین ہے۔ ہماری نا چیز داد قبول کیجے۔ اس :تحیر سے ُمتعلق لکھنا تو بُہت ُکچھ تھا کہ ہزار نُکتہ باریک تر رموز ایں جا ہست لیکن اب قلم کو سنبھال لیا ہے ہم نے۔ اتنا کہنا چاہیں گے کہ ہمارے ہاں یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ تعلیم سے تہذیب اور کردار سازی ہوتی ہے۔ حاالنکہ ہمارا خیال ہے کہ اب ایسا نہیں رہا۔ ہزاروں سال پہلے سے لے کر شائید تھوڑا عرصہ پہلے یعنی شیخ سعدی مرحوم کے زمانے تک شائید ،کردار سازی تعلیم کی اولین ترجیح ہوتی تھی۔ اب صرف رٹہ رہ گیا ہے۔ اتنی فضولیات تعلیم کا حصہ بن گئی ہے۔ کردار سازی کے لیئے چند گھسی پٹی حکایات پڑھا دی جاتی ہیں جن میں :پیاسا کوا :جب کنکریاں ڈالتا ہے تو ہمارا پہلی جماعت کا 6سالہ بچہ بھی ہنستا ہے کہ کوا ایسا نہیں کر سکتا۔ پڑھ لکھ لینے سے کچھ نہیں ہوتا ،اہم یہ ہے کہ کیا پڑھا ہے۔ ہمارا تو خیال ہے کہ ُمسلمان سؤر بھی صرف اس لیئے نہیں کھاتا کہ کئی صدیوں سے نہیں کھایا اور اب کھا کر متلی ہو گی وگرنہ تو شراب و سود بھی حرام ہیں۔ اور ہمارا یہ خیال بھی ہے کہ اب صرف ادیب ہی یہ کوششیں کر رہے ہیں، اور انہیں بھی بُہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ہم نے اپ کا بُہت وقت لے لیا۔ جس پر معذرت چاہیں گے۔تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد کے ساتھ۔۔ وی بی جی عاللتی استعارے جوالئی 2014 ,23 ُکچھ عرصہ غیر حاضر رہے۔ اپ جانتے ہی ہیں کہ رمضان میں ہم ایسوں کو قید ہی کر لیا جاتا ہے جناب کیا ہی اچھا مضمون ہے۔ ہماری طرف سے بھرپور داد قبول کیجے۔ دُرست فرمایا اپ نے کہ اخالقی اور روحانی بیماریوں کی کسی کو فکر نہیں۔ ہم تو پہلے سے ہی قائل ہیں کہ اپ کی نظر بہت گہرائی میں معاشرتی رویوں پر ٹکی ہے۔ ماشا هللا بُہت وسعت دی ہے اپ کے خیال کو قدرت نے۔ ویسے زیادہ تر یہ خودساختہ بیماریاں خواتین کو الحق ہوتی ہیں ،لیکن کئی مرد حضرات بھی اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہر وقت یہی رونا روتے رہتے ہیں۔ ان سب بیماریوں کی اہم بات یہ ہوتی ہے کہ یہ کسی ڈاکٹر کو سمجھ نہیں اتیں اور ان میں افاقہ نہیں ہوتا۔ گھر میں اتنی اقسام کی دوائیاں ہوتی ہیں کہ توبہ اور ایک وقت میں کھانے کے بعد اتنی گولیاں کھائی جاتی ہیں کہ سالن کی بجائے ،چند نان فقط گولیوں کے ساتھ کھائے جا سکتے ہیں۔ اگر کوئی ان کو یہ کہے کہ خدا نہ خواستہ اب وہ ہشاش
بشاش نظر ا رہے ہیں تو وہ اس شخص کے دشمن ہو جاتے ہیں۔ ایک جیسے چند لوگ مل کر بیٹھ جاتے ہیں تو مرغوں کی طرح بیماریوں کا مقابلہ کراتے ہیں۔ ہر کوئی دوسرے سے بڑھ کر اور حیران کن بیماری بتاتا ہے۔ ایک دوسرے کی بات سُنتے کم ہیں اور دوسرے کی بات کاٹ کر اپنی بیماری بیان کرنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ انہیں دوسروں کی ُکچھ بیماریاں سن کر افسوس بھی ہوتا دکھائی دیتا ہے کہ یہ بیماری انہیں کیوں نہ ہوئی۔ اخر میں بات اپ کے بیان پر ہی ختم ہوتی ہے کہ یہ خود ایک روحانی و اخالقی بیماری ہی ہے۔ تحریر پر ایک بار پھر بھرپور داد وی بی جی 31 دوسری بار آپ کی تحریر ہمیشہ کی طرح دلچسپ ہے۔ آپ کے پیر صاحب نے لوگوں کا جو تجزیہ کیا ہے وہ تو بالکل صحیح ہے لیکن اس صورت حال کا عالج کیا ہے یہ نہ معلوم ہو سکا۔ ایک بات اور عرض کروں کہ پڑھنے کے بعد احساس تشنگی رہ گیا۔ ایک تو آپ کبھی کبھی پنجابی کے کچھ مخصوص الفاظ اور محاورے لکھ جاتے ہیں جن سے ہر شخص واقف نہیں ہے گو سیاق وسباق سے اکثر معنی اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ دوسرے اس انشائیہ کا اختتام کسی نتیجہ پر قاری کو نہیں پہنچا سکا۔ یہ ممکن ہے کہ میرا تاثر بالکل ہی غلط ہو۔ اس صورت میں آپ سے معذرت کا طالب ہوں۔ سرور عالم راز
جناب کیسے ممکن ہے کہ یہ افسانہ پسند نہ ایا ہو۔ ماشا هللا نئے موضوع پر ہے اور ہمارے اپنے خیاالت کی تائید کرتا ہے سو پسند نہ انا تو ممکن نہ تھا۔ البتہ ُکچھ لکھتے ہوئے ذرا سا ہچکچائے تھے کہ محترم سرور عالم راز سرور صاحب نے ایک ادھ ایسی بات کی جس سے ہمیں مکمل اتفاق نہیں۔ سوچا ُکچھ لکھیں گے تو یہ اختالف سامنے ا جائے گا اور ہم اپنی کم عقلی اور کم علمی کے باعث کہیں انہیں خفا نہ کر دیں۔ اب چونکہ ُکچھ کہنا الزم ہو گیا ہے تو عرض کئیے دیتے ہیں۔ ہمارے ناقص علم اور کم تجربہ کاری کی روشنی میں افسانہ ہوتا ہی ایسا ہے کہ تشنگی چھوڑ جاتا ہے۔ افسانے کے مقاصد اور انداز ،مضمون سے قطعی مختلف ہوتے ہیں۔ اس کا مقصد کسی کہانی کو مکمل کرنا بھی نہیں ہوتا۔ مضمون کا کام تو شاید یہی ہوتا ہے کہ وہ پہلے کسی مسئلہ کی طرف توجہ دالئے ،پھر اس کی اصلیت کو پرکھے ،فوائد نقصانات ،اثرات ،اور پھر اخر میں کہیں جا کر ان کے حل کو واضح کرے۔ لیکن افسانہ اپنا کام اس چھوٹی سی تقریبا ً نامکمل کہانی میں کر گیا ہے۔ معاشرے کی کسی ایک تصور سے روشناس کروا گیا ہے۔ وہ تصور مثبت بھی ہو سکتا ہے اور منفی بھی۔ اسی خوبصورت افسانہ کے حوالے سے ،اپ نے پڑھنے والوں کے ذہنوں کو ان کرداروں کو پہچاننا سکھایا ہے جو مذہبی فرقہ واریت میں مبتال ہوتے ہیں۔ دوسروں کے ذہنوں میں نفرت بھرتے ہیں۔ لوگ اگر اس نفرت سے اتفاق نہ بھی کریں تو کھل
کر اظہار سے ہچکچاتے ہیں کہ کہیں ان کو بھی مذہبی طور پر لوگ دھتکار نہ دیں۔ الفاظ کا چناؤ اور کہانی کا بیان یہ ایسے عناصر سے پڑھنے والے کے دل میں نفرت پیدا کر رہا ہے اور درزی کا کردار ان تکالیف کا شکار ہونے والوں کے لیئے دل میں احترام پیدا کر رہا ہے۔ افسانہ اپنا کام کر چُکا ہے اور اس کا حل کوئی واضح ُکلیہ نہیں ہو سکتا۔ بلکہ یہی اس کا حل ہے کہ ایسے مولوی سے نفرت کی جائے اور اسے دھتکار دیا جائے اور ایسے درزی کا خیال رکھا جائے جو اس طرح کے مسئلہ کا شکار ہو۔ اس خوبصورت اختتام پر بھی ہم اپ کو داد پیش کریں گے۔ ہلکی سی تشنگی کا احساس جو قاری کو اس پر مجبور کرتا رہے گا کہ افسانہ ُکچھ عرصہ یا وقت تک ذہن میں گردش کرتا رہے۔ اور پھر اس کا پیغام اہستہ اہستہ خود ہی ال شعور کا حصہ بن جائے گا اور وقت پر شعور میں ا کر معاشرے کو فائدہ دے گا۔ افسانہ کو اس سے غرض نہیں کہ کہانی کے ہیرو نے اسے چیرا یا نہیں۔ لیکن ہمیں یقین کے کہ ایسے کرداروں کو قاری کا ذہن خود بخود چیر کر رکھ دے گا۔ ہماری طرف سے داد قبول کیجے۔ اور محترم سرور عالم راز سرور صاحب سے بھی معذرت چاہیں گے اگر ہم ُکچھ بے سُرے ہو گئے ہوں۔ جو حال سو حاضر وی بی جی32 اردو انجمن پر باباجی مقصود حسنی کے دستیاب افسانے
پٹھی بابا ١- کریمو دو نمبری ٢- میں ابھی اسلم ہی تھا ٣- جواب کا سکتہ ٤- ماسٹر جی ٥- بڑے ابا ٦- گناہ گار ٧- انا کی تسکین ٨- چوتھی مرغی ٩- انگریزی فیل ١٠- تنازعہ کے دروازے پر ١١- کامنا ١٢- ابا جی کا ہم زاد ١٣- کمال کہیں کا ١٤- دو دھاری تلوار ١٥- آوارہ الفاظ ١٦- شیدا حرام دا ١٧- ١٨زینہ ممتا عشق کی صلیب پر ١٩- مائی جنتے زندہ باد ٢٠- حاللہ ٢١- بڑا آدمی ٢٢- من کا بوجھ ٢٣- آنچل جلتا رہے گا ٢٤-
بیوہ طوائف ٢٥- جنگ ٢٦- دو لقمے ٢٧- فقیر بابا ٢٨- بازگشت ٢٩- میری ناچیز بدعا ٣٠- دو منافق ٣١- آخری کوشش ٣٢- معالجہ ٣٣- ابھی وہ زندہ تھا٣٤- سچائی کی زمین ٣٥- الروا اور انڈے بچے ٣٦- ان پڑھ ٣٧- پاخانہ خور مخلوق٣٨- دائیں ہاتھ کا کھیل ٣٩- پنگا ٤٠- هللا جانے ٤١- وہ کون تھے ٤٢- دروازے سے دروازے تک ٤٣- یہ کوئی نئی بات نہ تھی ٤٤- اسے پیاسا ہی رہنا ہے ٤٥- پہال قدم ٤٦- ادریس شرلی ٤٧- اسالم اگلی نشت پر ٤٨- موازنہ ٤٩-
سرگوشی ٥٠- عاللتی استعارے ٥١- دوسری بار ٥٢- آخری کوشش ٥٣- چار چہرے ٥٤- بازگشت ٥٥- بیوہ طوائف ٥٦- کیچڑ کا کنول ٥٧- درج باال تفصیالت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اردو انجمن کتنی امیر اور جاندار ہے۔ یہ مواد صرف ایک شخص سے متعلق ہے۔ اگر شخصی حوالہ سے مواد کی اصناف کے تحت جمع بندی ہو جائے تو مشرق و مغرب کی جامعات کو بہت سا معیاری مواد میسر آ جائے گا اور اس پر تحقیقی نوعیت کا کام کرنا آسان ہو جائے گا۔ اردو انجمن کا کوئی رکن بھی یہ کام کرنے کا بیڑا اٹھا سکتا ہے۔ بالشبہ اہل تحقیق اور اہل نقد پر یہ بہت بڑا احسان ہو گا۔ ----------------------------------------
حوالہ جات 1- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9023.02http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7975.0 3- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8365.0 4- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9069.0 5- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9044.0 6- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9019.0 7- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9000.0 8- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8987.0 9- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8972.0 10- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8952.0 11- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8976.0 12- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8944.0 13- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8934.0 14- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8916.0 15- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8904.0 16- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8895.0 17- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8580.018http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8673.0 19- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8880.0 20- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8885.0 21- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8863.0 22- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8753.0 23- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8844.0 24- http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8840.025http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?PHPSESSID=a6ts0moj4kpihd3adq62aaaf57& topic=8809.0 26http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?PHPSESSID=a6ts0moj4kpihd3adq62aaaf57& topic=8808.0 27http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?PHPSESSID=a6ts0moj4kpihd3adq62aaaf57& topic=8841.0 28-http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?PHPSESSID=a6ts0moj4kpihd3adq62aaaf5 7&topic=8798.0 29-http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?PHPSESSID=a6ts0moj4kpihd3adq62aaaf5 7&topic=8794.0 30http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?PHPSESSID=a6ts0moj4kpihd3adq62aaaf57& topic=8787.0 31http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9097.032-http://www.bazm.urduanjuma n.com/index.php?topic=9162.msg56757#new
حضرت بلھے شاہ قصوری کی اردو شاعری محبوب عالم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قصور قصور جہاں اپنی قدامت اور مخصوص ثقافت کے حوالہ سے اپنی پہچان رکھتا ہے وہاں اپنی الگ سے تاریخی حثیت بھی رکھتا ہے۔ شہزادہ کسو‘ امیر خسرو‘ اخوند سعید‘ راجہ ٹوڈر مل‘ شہزادہ سلیم عرف شیخو وغیرہ کی اس شہر سے نسبت رہی ہے۔ استاد امانت علی اور نور جہاں کو کیوں کر فراموش کیا جا سکے گا۔ کھانے کے شوقین حضرات کے لیے اندرسے‘ قصوری فالودہ خاص دل چسپی کا سامان ہیں۔ لو قصوری جتی کو ‘میتھی تو میں بھول ہی رہا تھا۔ ان تمام چیزوں سے ہٹ کر‘ وراث شاہ اور بلھے شاہ تو ادبی دنیا میں کسی بھی سطح پر فراموش نہیں کیے جا سکتے۔ ان ادبی شخصیتوں سے تحقیقی حوالہ سے وابستہ لوگ بھی کبھی فراموش نہ کیے جا سکیں گے۔ قصور کی ادب روایت کم زور نہیں یہ الگ بات ہے کہ اس جانب کسی کی خصوصی توجہ نہیں گئی۔ ایک سے ایک بڑھ کر علمی اور ادبی شخصیات پڑی ہیں۔ قصور حضرت بلھے شاہ قصوری کی وجہ سے دنیا بھر میں شہرت رکھتا ہے۔ صوفیا اور بھی ہیں لیکن حضرت بلھے شاہ قصوری اپنے صوفیانہ کالم کی وجہ سے معروف ہیں۔ انھوں نے اپنے کالم میں جہاں صوفیانہ معامالت کو پیش کیا ہے وہاں سماجی امور کو بھی نظرانداز نہیں کیا۔ سماجی رویوں کی بھی عکاسی کی ہے۔ عصری سیاسی قوتوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کالم عالمتوں استعاروں کے ذریعے ہی سہی اپنے عہد کی عکاسی کرتا ہے۔ بعض جگہ کھل کر بھی تنقید کرتے
ہیں۔ غالبا یہی وجہ رہی ہو گی کہ ان کے عہد کے مخصوص طبقے ان سے ناالں تھے۔ حضرت شاہ حسین الہوری نے پنجابی شاعری میں کافی کو متعارف کرایا اور اسے عروج دیا۔ ان کی کافیاں راگ پر لکھی گئیں۔ ہر کافی کسی نہ کسی راگ پر ہے۔ حضرت شاہ حسین الہوری نے کافی کو جو مقام بخشا اسے حضرت بلھے شاہ قصوری شہرت کی بلندیوں پر لے گیے۔ ان کی کافیاں راگ کے عالوہ مروجہ میٹر پر ہیں۔ ان میں غنائیت کا عنصر بدرجہ اتم موجود ہے۔ حضرت بلھے شاہ قصوری کی کافیوں کو ملک کے ممتاز گلوکاروں نے گا کر شہرت اور عزت حاصل کی۔ عابدہ پروین‘ حامد علی بیال‘ نصرت فتح علی خاں‘ پٹھانے خاں وغیرہ ان میں شامل ہیں۔ یہاں تک کہ بھارتی گلوکاروں نے بھی ان کی کافیوں کو شوق اور عقیدت سے گایا ہے۔ بعض بول تو عوامی سطح پر محاورے کا درجہ اختیار کر گیے ہیں۔ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر نے بڑی محنت‘ لگن اور دیانت داری سے ان کا کالم اکھٹا کیا اور اسے کلیات کی شکل دے کر زبان و ادب پر بہت بڑا احسان کیا۔ بالشبہ ان کی کوشش عوامی سطح پر مقبولیت کے درجے پر فائز ہوئی۔ اسے آج بھی اساسی ماخذ کا درجہ حاصل ہے۔ باباجی مقصود حسنی کے خصوصی مطالعہ میں حضرت بلھے شاہ قصوری رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے مقالہ۔۔۔۔۔بلھے شاہ کی شاعری کا لسانی مطالعہ۔۔۔۔ میں ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کے مرتب کردہ کلیات کو ہی اساسی ماخذ کے طور پر استعمال کیا ہے۔ باباجی مقصود حسنی نے اس لسانیاتی مطالعے سے یہ بات
واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ پنجابی کالم میں حضرت بلھے شاہ قصوری کے اردو کالم کو بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ ان کے اس مطالعے سے حافظ شیرانی کے نظریے۔۔۔۔ پنجاب میں اردو۔۔۔۔ کو تقویت ملتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ باباجی مقصود حسنی اس نظریے سے قطعی متفق نہیں۔ اردو کے حوالہ سے ان کا اپنا الگ سے نقطہءنظر ہے۔ انھوں نے ۔۔۔۔۔اردو ہے جس کا نام۔۔۔۔۔ میں اپنا نظریہ پیش کر دیا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے حضرت بلھے شاہ قصوری کے کالم میں اردو شاعری کی نشاندہی کی تھی۔ باباجی مقصود حسنی نے اسے عملی شکل دے کر اردو والوں کو خوشخبری کا سندیسہ دیا ہے۔ انھوں نے اپنے اس لسانیاتی مطالعہ میں اس کی پانچ صورتیں بتائی ہیں۔ مکمل اردو کالم ١- پنجابی کالم میں اردو کالم کی آمیزش ٢- ہندی نما اردو کالم ٣- پنجابی کالم میں اردو مصرعے ٤- اردو نما پنجابی کالم ٥-
ا ب
مکمل پنجابی کالم
ڈاکٹر ریاض شاہد نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں باباجی کے مقالے کو بنیادی ماخذ کے طور پر استعمال کیا ہے اور ان کے موقف کو دہرایا ہے۔ باباجی نے اپنے اس تحقیقی کام کو بڑی باریک بینی سے انجام
دیا ہے۔ سارے کالم کو الگ الگ جزئیات میں تقسیم کرکے دیکھنا واقعی بڑے دل گردے اور محنت کا کام ہے۔ ان کی اس محنت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا تاہم اس تحقیقی کاوش کو اس کا جائز مقام حاصل نہیں ہو سکا۔ شاید اس کی وجہ بھی ہے کہ وہ اشتہاربازی نہیں کرتے۔ ایک کام کی تکمیل کے بعد کسی دوسرے کام میں جٹ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد امین کا کہنا ہے یہ پہلی کتاب ہے جس میں کسی شاعر کا باقاعدہ ساختیاتی مطالعہ کیا گیا ہے۔ اردو شعر فکری و لسانی رویے ص١١٥ : انھوں نے اپنے اس مطالعے کو سات حصوں میں تقسیم کیا ہے مذکر اسما کے خاتمے کی آواز ١- اردو میں جمع بنانے کے اصول فعلی صورتیں حاصل مصدر بنانے کے اصول فعلی مادوں کے مختلف اصول یو اور ئیو کا الحقہ چند مخصوص مرکبات ضمائر کا استعمال اسم صفت ٢- حروف ‘حروف عطف‘ حروف اضافت‘ حرف استفہام‘ حرف استثنی
حرف شرط‘ حروف جار‘ حروف تردید آوازوں کا ہیر پھیر ٣- نوں غنہ کا حشوی استعمال نوں غنہ کا حذف قدیم اردو امال تلمیحات لفظوں کے نئے روپ چند اردو مصادر قدیم اردو پر مقامی زبانوں کی چھاپ ٤- تجزیاتی مطالعہ ٥- چند الفاظ ٦- اردو کالم ٧- جو کتاب میں شامل نہیں‘ باباجی کے پاس مسودے کی صورت میں موجود ہے۔ باباجی نے اپنے موقف کی تائید میں اردو جدید و قدیم کالم سے مثالیں پیش کی ہیں ساتھ حضرت بلھے شاہ قصوری کے کالم سے بھی مثالیں دی ہیں۔ اس طرح ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ پنجابی کالم میں اردو کالم بھی شامل ہے۔ انھوں نے اس مطالعے کے لیے بائیس کتب سے استفادہ کیا ہے۔
ڈاکٹر مقصود حسنی بطور ماہر لسانیات پرفیسر یونس حسن ڈاکٹر مقصود حسنی ایک منفرد اور نامور ماہر لسانیات ہیں۔ ان کے درجنوں مقالے رسائل و جرائد اور انٹر نیٹ کی مختلف ویب سائٹس پر پڑھنے کو ملتے ہیں۔ غیر مطبوعہ مقاالت دیکھنے کا مجھے اتفاق ہوا ہے۔ ان مقاالت پر سرسری نظر ڈالنے سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ لسانیات میں غیر معمولی قدرت رکھتے ہیں۔ ان مقاالت میں موضوعات کا تنوع اور رنگا رنگی ملتی ہے۔ راقم اپنے بےالگ مطالعے اور جائزے سے اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ یہ مقاالت لسانیات کے باب میں ایک اہم اضافہ ہیں۔ ان مقاالت میں زبان کے جو موضوعات زیر بحث الئے گئے ہیں ان میں آوازوں کا نظام بڑی خصوصیت کا حامل ہے۔ زبانوں میں آوازیں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ الفاظ کی تشکیل میں آوازیں کلیدی کردار کی حامل ہوتی ہیں۔ اس کے عالوہ انہوں نے لفظیات‘ صوتیات‘ معنویات‘ ہیت‘ ساخت‘ گرائمر اور بناوٹ کو بھی موضوع بنایا ہے۔ انہوں نے لفظوں کی سماجیات اور نفسیات پر بھی قلم اٹھایا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ساختیات اور پس ساختیات پر بھی نمایاں کام کیا ہے۔ انہوں باباجی بلھے شاہ صاحب کا لسانی مطالعہ کیا ہے جسے ڈاکٹر محمد امین نے کسی شاعر کے کالم کا پہال ساختیاتی مطالعہ قرار دیا ہے۔ مرزا غالب کی لفظیات
کےساختیاتی مطالعہ کے ساتھ ساتھ ساختیات پر بھی تین مقالے تحریر کیے ہیں۔ ان کےاس کام سے کئی لسانی اور ساختیاتی جہتیں سامنے آتی ہیں۔ مزید براں ان کے دستیاب مقاالت میں زبانوں کے وجود میں‘ آنے ترقی کرنے یا بعض الفظ کے متروک ہو جانے کے حوالہ سے بھی بہت سا مواد میسر آتا ہے۔ اردو زبان کے وہ عاشق ہیں اس لیے وہ کسی مقام پر اسے نظرانداز نہیں ہوتی۔ اردو پر گفتگو کے دوران اس کی موجودہ صرتحال پر بھی گفتگو کرتے ہیں۔ عربی فارسی اور انگریزی کےاردو پر اثرات کو بھی اپنی تحقیق کا حصہ بنایا ہے۔ تقابلی مطالعے کے دوران اردو سے مثالیں ضرور پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے جاپانی کے لسانی نظام پر بھی گفتگو کی ہے۔ اس کا کچھ حصہ ترجمہ ہو کر اردو نیٹ جاپان پر قسطوں میں شائع ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر مقصود حسنی نے اردو کی ذاتی آوازیں اور بدیسی آوازوں کے دخول پر بھی گفتگو کی ہے۔ مہاجر زبانوں کے الفاظ کا مقامی زبانوں میں دخول اور اشکالی اور ان کی معنوی تبدیلی پر بھی گفتگو کی ہے۔ وہ بھاری آوازوں کو بھی زیر بحث الئے ہیں۔
غالب پر ان کے لسانی کام کو دیکھتے ہوئے عالمہ اقبال اوپن یونیورسٹی نےمحمد لطیف لیکچرار اردو پاکپتن کو ایم فل اردو کا مقالہ بعنوان مقصود حسنی اور غالب شناسی تفویض کیا ہے۔ ان کے کچھ مقاالت کی فہرست درج کر رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ تفصیل لسانیات سے شغف رکھنے والوں کے لیے خصوصی دل چسپی کا موجب بنے گی۔ دستیاب اردو مضامین کی فہرست اردو ہے جس کا نام ١- لفظ ہند کی کہانی ٢- ہندوی تاریخ اور حقائق کے آئینہ میں ٣- ہندوستانی اور اس کے لسانی حدود ٤- اردو میں مستعمل ذاتی آوازیں ٥- اردو کی چار آوازوں سے متعلق گفتگو ٦- اردو اور جاپانی آوازوں کی سانجھ ٧- اردو میں رسم الخط کا مسلہ ٨- انگریزی کے اردو پر لسانی اثرات ٩- سرائیکی اور اردو کی مشترک آوازیں ١٠- اردو اور انگریزی کا محاوراتی اشتراک ١١- اردو سائنسی علوم کا اظہار ١٢- قومی ترقی اپنی زبان میں ہی ممکن ہے ١٣- اردو‘ حدود اور اصالحی کوششیں ١٤- قدیم اردو شاعری کا لسانی مطالعہ ١٥-
بلھے شاہ کی زبان کا لسانی مطالعہ ١٦- شاہی کی شاعری کا لسانی مطالعہ ١٧- خواجہ درد کے محاورے ١٨- سوامی رام تیرتھ کی اردو شاعری کا لسانی مطالعہ ١٩- الفاظ اور ان کا استعمال ٢٠- آوازوں کی ترکیب و تشکیل کے عناصر ٢١- الفاظ کی ترکیب‘ استعمال اور ان کی تفہیم کا مسلہ ٢٢- زبانوں کی مشترک آوازیں ٢٣- پاکستان کی زبانوں کی پانچ مخصوص آوازیں ٢٤- عربی زبان کی بنیادی آوازیں ٢٥- عربی کی عالمتی آوازیں ٢٦- دوسری بدیسی آوازیں اور عربی کا تبادلی نظام ٢٧- پ کی متبادل عربی آوازیں ٢٨- گ کی متبادل عربی آوازیں ٢٩- چ کی متبادل عربی آوازیں ٣٠- مہاجر اور عربی کی متبادل آوازیں ٣١- بھاری آوازیں اور عربی کے لسانی مسائل ٣٢- چند انگریزی اور عربی کے مترادفات ٣٣- پنجابی اور عربی کا لسانی رشتہ ٣٤- چند انگریزی اور عربی مشترک آوازیں ٣٥- انٹرنیٹ پر عربی میں اظہار خیال کا مسلہ ٣٦- عربی کے پاکستانی زبانوں پراثرات ٣٧- عربی اور عہد جدید کے لسانی تقاضے ٣٨- فارسی کے پاکستانی زبانوں پراثرات ٣٩- پشتو کی چار مخصوص آوازیں ٤٠-
آتے کل کو کرہء ارض کی کون سی زبان ہو گی ٤١- انگریزی دنیا کی بہترین زبان نہیں ٤٢- انگریزی اور اس کے حدود ٤٣- انگریزی آج اور آتا کل ٤٤- تبدیلیاں زبانوں کے لیے وٹامنز کا درجہ رکھتی ہیں ٤٥- زبانیں ضرورت اور حاالت کی ایجاد ہیں ٤٦- معاون عناصر کے پیش نظر مزید حروف کی تشکیل ٤٧- برصغیر میں بدیسیوں کی آمد اور ان کے زبانوں پر اثرات ٤٨- کچھ دیسی زبانوں میں آوازوں کا تبادل ٤٩- جاپانی میں مخاطب کرنا ٥٠- جاپانی اور برصغیر کی لسانی ممثالتیں ٥١- اختر حسین جعفری کی زبان کا لسانی جائزہ ٥٢- لسانیات کے متعلق کچھ سوال و جواب ٥٣- انگریزی مضامین کی دستیاب فہرست 1- Urdu has a strong expressing power and a sounds system 2- Word is to silence instrument of expression 3- This is the endless truth 4- The words will not remain the same style 5- Language experts can produce new letters
6- Sound sheen is very commen in the world languages 7- Native speakers are not feel problem 8- Languages are by the man and for the man 9- The language is a strong element of pride for the people 10- Why to learn Urdu under any language of the world 11- Word is nothing without a sentence 12- No language remain in one state 13- Expression is much important one than designates that correct or wrong writing 14- Student must be has left liberations in order to express his ideas 15- Six qualifications are required for a language 17- Sevevn Senses importence in the life of a language 18- Whats bad or wrong with it?! 19- No language remains in one state 20. The common compound souds of language 21- The identitical sounds used in Urdu 22- Some compound sounds in Urdu 23- Compound sounds in Urdu (2)
24- The idiomatic association of urdu and english 25- The exchange of sounds in some vernacular languages 26- The effects of persian on modern sindhi 27- The similar rules of making plurals in indigious and foreign languages 28- The common compounds of indigious and foreign languages 29- The trend of droping or adding sounds 30- The languages are in fact the result of sounds 31- Urdu and Japanese sound’s similirties 32- Other languages have a natural link with Japanese’s sounds 33- Man does not live in his own land 34- A person is related to the whole universe 35- Where ever a person 36- Linguistic set up is provided by poetry 37- How to resolve problems of native and second language 38- A student must be instigated to do something himself 39- Languages never die till its two speakers 40- A language and society don’t delovp in days 41- Poet can not keep himself aloof from the universe 42- The words not remain in the same style
43- Hindustani can be suggested as man's comunicational language 44- Nothing new has been added in the alphabets 45- A language teacher can makea lot for the human society 46- A language teacher would have to be aware 47- Hiden sounds of alphabet are not in the books 48- The children are large importence and sensative resource of the sounds 49- The search of new sounds is not dificult matter 50- The strange thought makes an odinary to special one 51- For the relevation of expression man collects the words from the different caltivations 52- Eevery language sound has has then two prononciations 53- Language and living beings
مقصود حسنی اور اردو زبان قاضی جرار حسنی پروفیسر مقصود حسنی کا اردو سے جنم جنم کا پیار ہے۔ اس کی ‘ترویج و ترقی کے لیے زندگی بھر کوشش کی۔ افسانہ‘ شاعری مزاح‘ لسانیات‘ تنقید‘ تحقیق‘ مشرق و مغرب کے شعر و ادب‘ تراجم وغیرہ پر کام تو کیا ہی ہے‘ لیکن اس کے نفاذ کے لیے بھی کوششیں کی ہیں۔ اس کے لیے‘ اردو سوسائٹی پاکستان قائم درخواستیں گزاریں‘ علما سے فتوے لیے‘ قراردادیں منظور ‘کی پتا ‘کروائیں‘ مقتدرہ حلقوں سے رابطے کیے‘عدالت دیکھی نہیں کیا کچھ کیا۔ ان تمام باتوں سے ہٹ کر‘ اردو کے بارے مضامین تحریر کیے۔ یہ مضامین جہاں اردو کی تاریخ سے متعلق ہیں‘ وہاں اردو کے روشنی ڈالتے ہیں۔ ان مضامین میں اردو ‘ابالغی دائرے پر بھی کے لسانی نظام پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔ ان مضامین میں دیگر زبانوں سے تقابلی صورت بھی ملتی ہے۔ تقابل میں ابالغ‘ آوازوں کا نظام اور اس زبان کی لچک پذری کو باطورخاص‘ زیر بحث الیا گیا ہے۔ ان تینوں کے تحت اردو کو اس قابل بتایا ہے‘ کہ وہ انسانی رابطے کی زبان‘ بننے کی اہلیت رکھتی ہے۔ پروفیسر مقصود حسنی نے‘ اس کے تینوں رسم الخط پر بھی گفتگو کی ہے۔ انہوں نے خواندگی کی صورتوں پر بھی گفتگو کی
ہے۔ دالئل سے ثابت کیا ہے‘ کہ اردو اپنے لسانی نظام اور آوازوں کی کثرت کے حوالہ سے‘ دنیا کی بہتریں زبان ہے۔ اسے استعمال میں آنے کے حوالہ سے‘ چینی کے قریب قریب کی زبان قرار دیا۔ انہوں نے اپنے مضامین میں‘ انگریزی کے لسانی نقائص پر بھی گفتگو کی ہے۔ آوازوں کی کمی اور نقائص کو بھی صرف نظر نہیں کیا۔ ان کی تحریریں اخبارات و رسائل میں چھپنے کے عالوہ‘ انٹرنیٹ پر بھی موجود ہیں۔ دستیاب پچاس تحریروں کی فہرست درج خدمت ہے۔ ہر عنوان تحریر کی نوعیت و حیثیت کو واضح کر رہا ہے۔ اب مضامین کی فہرست مالحظہ ہو۔ اردو کی ترویج کا ترجیحی بنیادوں پر اہتمام الزم ہے روزنامہ ١- امروز الہور ٦ستمبر ١٨٨٧ اردو کو اپنا مقام کیوں نہیں مال روزنامہ مشرق الہور ٢- ١٧ جون ١٩٨٩ ‘انگریز کی اردو نوازی کیوں روزنامہ امروز الہور ٣- ٢٤ جوالئی ٢٥‘ ٢٦‘ ٢٧ ١٩٩٠ اردو کا تاریخی سفر روزنامہ جہاں نما الہور ٢دسمبر ٤- ١٩٩٠ سرسید تحریک نے اردو کو مسلمانوں کی زبان کا درجہ دیا ٥- روزنامہ مشرق الہور ٢٧جنوری ١٩٩١ اردو اور عصری تقاضے روزنامہ جہاں نما الہور ٦- -١٩ اگست ١٩٩١
اردو کی ترقی آج کی ضرورت روزنامہ وفاق الہور ١٨مارچ ٧- ١٩٩٢ روزنامہ مشرق الہور ١اپریل ١٩٩٢ اردو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں کی اپنی زبان روزنامہ وفاق الہور ٨- ١٧مارچ ١٩٩٢ اردو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عالم اسالم کی ضرورت ہے روزنامہ مشرق ٩- الہور ٥فروری ١٩٩٢ اردو کو الزمی زبان اور مضمون کا درجہ دیا جائے ١٠- روزنامہ مشرق الہور ٩فروری ١٩٩٢ اردو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عالم انسانی کی ضرورت کیوں روزنامہ ١١- مشرق الہور ١٩فروری ١٩٩٢ انگریزی زبان۔۔۔۔۔فروغ کیسے ہو روزنامہ پاکستان الہور ١٢- ١مارچ ١٩٩٢ اردو سے نفرت ایک نفسیاتی عارضہ روزنامہ مشرق ١٣- الہور ٩اپریل ١٩٩٢ اردو برصغیر کے مسلمانوں کی زبان روزنامہ جہاں نما ١٤- الہور ١٠اپریل ١٩٩٢ اردو دنیا کی دوسری بڑی زبان ہے روزنامہ وفاق الہور ١٥- ١٩اپریل ١٩٩٢ انگریزی کی مقبولیت میں کمی کیوں روزنامہ مشرق الہور ١٦- ٢٧اپریل ١٩٩٢ اردو پر چند اعتراضات اور ان کا جواب روزنامہ وفاق ١٧- الہور ٢٠مارچ ١٩٩٢ انگریزی قومی ترقی کی راہ پتھر ماہنامہ اخبار اردو اسالم ١٨- آباد نومبر ١٩٩٢
اردو کی مختصر کہانی اہل قلم ملتان ١٩- ١٩٩٦ اردو میں مستعمل ذاتی آوازیں ماہنامہ نوائے پٹھان الہور ٢٠- جون ٢٠٠٦ اردو بالمقابلہ انگریزی روزنامہ وفاق الہور س ن ٢١- زبان اور قومی یک جہتی مسودہ ٢٢- اردو ہے جس کا نام ٢٣- اردو کے متعلق انٹرنیٹ پر ملنے والے مضامین لفظ ہند کی کہانی ٢٤- ہندوی تاریخ اور حقائق کے آئینہ میں ٢٥- ہندوستانی اور اس کے لسانی حدود ٢٦- اردو میں مستعمل ذاتی آوازیں ٢٧- اردو کی چار آوازوں سے متعلق گفتگو ٢٨- اردو اور جاپانی آوازوں کی سانجھ ٢٩- اردو میں رسم الخط کا مسلہ ٣٠- انگریزی کے اردو پر لسانی اثرات ٣١- سرائیکی اور اردو کی مشترک آوازیں ٣٢- اردو اور انگریزی کا محاوراتی اشتراک ٣٣- اردو سائنسی علوم کا اظہار ٣٤- قومی ترقی اپنی زبان میں ہی ممکن ہے ٣٥- حدود اور اصالحی کوششیں ‘اردو ٣٦- قدیم اردو شاعری کا لسانی مطالعہ ٣٧- انگریزی دنیا کی بہترین زبان نہیں ٣٨- انگریزی اور اس کے حدود ٤٩-
٤٠- انگریزی آج اور آتا کل ٤١- آتے کل کو کرہء ارض کی کون سی زبان ہو گی ٤٢- اردو' رسم الخط کے مباحث اور دنیا کی زبانیں 43- Lets learn urdu 44- Urdu has a strong expressing power and a sounds system 45- Why to learn Urdu under any language of the world 46- The identitical sounds used in Urdu 47- Some compound sounds in Urdu 48- Compound sounds in Urdu (2) 49- Urdu and Japanese sound’s similirties 50- Urdu can be suggested world's language
مقصود حسنی اور اقبال فہمی قاضی جرار حسنی اقبال شاعر اور مفکر کی حیثیت سے‘ بین االقوامی شہرت کے حامل شخص ہیں۔ پاکستان میں انہیں مفکر پاکستان کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ معامالت میں‘ بات کو باوزن کرنے کے حوالہ سے‘ ان کے کسی ناکسی شعر کو درمیان میں الیا جاتا ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو گا‘ جسے اتنی پذیرائی حاصل ہوئی گی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان پر بہت سا تحقیقی کام ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ جامعات میں شعبہءاقبالیات قائم ہو چکا ہے‘ تاہم لوگ ذاتی سطح پر بھی مصروف کار ہیں۔ پروفیسر مقصود حسنی بھی اس ذیل میں پیچھے نہیں رہے۔ انہوں نے ناصرف‘ ان کی حیات کے مختلف گوشوں کو قلم بند کیا ہے‘ بلکہ اقبال کی فکر پر بھی قلم اٹھایا ہے۔ اقبال کے مطالعہ کے لیے چند اصول بعنوان۔۔۔۔۔۔۔۔ مطالعہءاقبال کے لیے چند معروضات۔۔۔۔۔۔ بھی وضع کیے ہیں۔ یہاں ان کے کچھ مضامین کی فہرست پیش کی جا رہی ہے ممکن ہے اقبال پر کام کرنے والوں کے کام کی نکلے۔ عالمہ اقبال نے عصبیت کے لیے ربط ملت کی اصطالح ١- استعمال کی ہے روزنامہ مشرق الہور ١٠جنوری ١٩٨٨ اقبال اور تسخیر کائنات کی فالسفی روزنامہ وفاق الہور ٢- ٢١
فروری ١٩٨٩ مسلمان اقبال کی نظر میں روزنامہ وفاق الہور ٨مارچ ٣- ١٩٨٩ اقبال کا نظریہءقومیت روزنامہ وفاق الہور ٢٣مارچ ٤- ١٩٨٩ اقبال اور تحریک آزادی ہفت روزہ جہاں نما الہور ٢٣اپریل ٥- ١٩٨٩ عالمہ اقبال کے کالم میں دعوت آزادی روزنامہ وفاق الہور ٦- ٣٠اکتوبر ١٩٨٩ اکبر اقبال اور مغربی زاویے ہفت روزہ فروغ حیدرآباد ٧- ٢٢ جوالئی ١٩٩١ فلسفہءعجم۔۔۔۔ایک جائزہ مہنامہ سخنور کراچی مارچ ٨- ٢٠٠١ نظم میں اور تو کے حواشی االدب مجلہ اسالمیہ کالج قصور ٩- ٢٠١٤ اقبال کا فلسہءخودی اردو انجمن ڈاٹ کام ١٠- فسلفہءخودی اس کے حدود اور ڈاکٹر اقبال تفریح میلہ ڈاٹ ١١- کام اقبال کے یورپ روانگی سے پہلے کے احوال اردو انجمن ١٢- ڈاٹ کام اقبال لندن میں اردو نیٹ جاپان ١٣- کتابیات اقبال اردو انجمن ڈاٹ کام ١٤- اقبال اور غزالی کی فکر کا تقابلی مطالعہ اردو انجمن ڈاٹ ١٥- کام اقبال کا نظریہءمعاش ومعاشرت اردو انجمن ڈاٹ کام ١٦- اقبال اور مغربی مفکرین مسودہ ١٧-
اقبال کا تصور عشق مسودہ ١٨- اقبال کے ہاں شاہین کا استعارہ مسودہ ١٩- اقبال اور قانون آزادی تفصیالت درج نہیں ہیں ٢٠- مطالعہءاقبال کے حوالہ سے چند معروضات مسودہ ٢١- نظم طلوع اسالم ۔۔۔۔۔ایک جائزہ مسودہ ٢٢- مطالعہءاقبال کے چند ماخذ اردو انجمن ڈاٹ کام ٢٣- االدب آور اقبال فہمی اردو انجمن ڈاٹ کام ٢٤-
مقصود حسنی اور سائینسی ادب قاضی جرار حسنی شعر ادب سے متعلق‘ کسی شخص کا‘ مختلف سائینسز پر قلم اٹھانا‘ ہر کسی کو عجیب محسوس ہو گا‘ اور اس پر‘ حیرت بھی یہ بھی بچ نہیں ‘ہوگی۔ پروفیسر مقصود حسنی کے قلم سے پائے۔ انہوں نے نفسیات سمیت‘ دیگر سائینسز سے متعلق امور پر بھی لکھا ہے۔ آج شمسی توانائی کی پروڈکٹس مارکیٹ میں آ گئی ہیں۔ انہوں نے تو ١٩٨٨میں‘ اس کے تصرف کا مشورہ دیا تھا‘ اور اس موضوع پر سیر حاصل گفت گو بھی کی تھی۔ آج وہ خود بھی اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔ اپنے ہاتھ سے‘ ایک بلب بھی نہ لگانے واال شخص‘ خرابی کی صورت میں‘ خود ہی درستی کے لیے میدان میں اترتا ہے۔ اس وقت تھیوری کا شخص پریکٹیکل ہو جاتا ہے۔ یہ ہی نہیں‘ کینسر ایسے مہلک مرض سے متغلق‘ ان کا لمبا چوزا‘ کئی حصوں پر مشتمل مقالہ‘ سکربڈ ڈاٹ کام پر موجود ہے۔ اس مقالے کے کچھ حصے‘ دو قسطوں میں‘ اردو خط میں‘ اردو نیٹ جاپان پر‘ پڑھنے کو مل جاتے ہیں۔ ان کا ایک مضمون‘ جو ڈینگی سے متعلق ہے‘ اردو نیٹ جاپان پر جلوہ افروز ہے۔
سرور عالم راز صاحب ایسے عالم فاضل شخص نے‘ انہیں ہر فن موال قرار نہیں دیا تھا۔ ان کے ایسے مضامین ‘ایسے ہی ادبی چاشنی موجود ہوتی ہے۔ اس لیے سائینسز سے ‘میں بھی متعلق‘ ان کی تحریروں کو‘ سائینسی ادب کا نام دیا جا سکتا ہے۔ دستیاب چند مضامین کی فہرست درج ہے۔ کوشش کرنے سے‘ ممکن ہے‘ اور مضامین بھی مل جائیں۔ مردہ اجسام کے خلیے اپنی افادیت نہیں کھوتے روزنامہ مشرق الہور ١٨مئی ١٩٨٧ رورنامہ اعصابی تناؤ اور اس کا تدارک امروز ٩مئی ١٩٨٨ رورنامہ احساس کمتری ایک خطرناک عارضہ امروز الہور یکم اگست ١٩٨٨ شمسی تواتانئی کو تصرف میں النے کی تدبیر ہونی چاہیے رورنامہ امروز الہور ١٨ستمبر ١٩٨٨ ہفت روزہ عالم برزخ میں بھی حرکت موجود ہے جہاں نما الہور ٨مارچ ١٩٨٩ روزنامہ انسان تخلیق کائنات کے لیے پیداکیا گیا ہے مشرق الہور ٢اپریل ١٩٨٩ روزنامہ ممکنات حیات اور انسان کی ذمہ داری وفاق الہور ٧اپریل ١٩٨٩ ہفت روزہ عالمہ المشرقی کا نظرہءکائنات االصالح الہور ٥مئی ١٩٨٩ روزنامہ کیا انسان کو زندہ رکھا جا سکتا ہے
١٢٣٤٥٦٧٨٩-
امروز الہور ٦اپریل ١٩٩٠ ١٠کینسر حفاظتی تدبیر اور معالجہ مکمل مقالہ سکربڈ ڈاٹ کام دو قسطوں میں کچھ ترجمہ اردو نیٹ جاپان ١١اردو نیٹ جاپان ڈینگی حفاظتی تدبیر اور معالجہ محترم مقصود حسنی صاحب ،سالم۔ آپ کے مضامین اکثر نظر سے گذرتے رہتے ہیں۔ وقت کی دستیابی کے مطابق ان پر کبھی سرسری تو کبھی دقیق نگاہ ڈالنے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ البتہ ہر مضمون پر اپنی دستخط لگانا یا ان پر تبصرہ وغیرہ لکھنا ممکن نہیں ہوتا سو خاموش مسافر کی طرح گذر جاتا ہوں۔ آج مہلت ملی ہے تو سوچا کہ آپ کا اس مضمون اور اس کے توسل سے باقی تخلیقات پر شکریہ کہتا چلوں۔ سو براہ کرم وصول کیجیے۔ محترمی سرور صاحب نے اگر آپ کو "آل راونڈر" قرار دیا ہے تو یقینا ً اس میں کچھ سچائی بھی ہوگی۔ کچھ ایسا ہی آپ کے مضامین سے بھی جھلکتا ہے ،جس سے میں اور دیگر احباب مستفیض ہوتے رہتے ہیں۔ آپ کے یہاں عنایت کردہ کئی مضامین کے مصنفین آپ کی مدح سرائی کرتے اور آپ کی ہنرمندی کے گیت گاتے نظر آتے ہیں۔ معلوم یہ ہوا کہ آپ کا انجمن سے وابستہ ہونا اور ہمارے درمیان اپنی نگارشات کو پیش کرنا
ہمارے لیے باعث افتخار ہے۔ ہاں ،احباب کی تخلیقات پر آپ کے تبصرہ جات میری نظر سے کم ہی گذرے ہیں۔ امید کرتا ہوں کہ آپ سے نیاز حاصل ہوتا رہے گا اور بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ عامر عباس مکرم بندہ جناب حسنی صاحب :سالم مسنون آپ کی ادبی و علمی خدمات اظہر من الشمس ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اہل اردو نے کبھی بھی آپ جیسی ہستیوں کی کما حقہ قدر نہیں کی۔ البتہ اس عالم فانی سے گزر جانے کے بعد رسالوں کے خاص نمبر ضرور شائع کئے ہیں۔ غالب ہی شاید ایک ایسے شخص ہوئے ہیں جن کی عزت اور قدر ان کی زندگی میں ہی کی جانے لگی تھی۔ هللا آپ کو طویل عمر عطا فرمائے تاکہ یہ چشمہ علم وادب اسی طرح جاری رہے اور ہم جیسے لوگ مستفید ہوتے رہیں۔ زیر نظر مختصر مضمون میں "انسان تخلیق کائنات کے لئے پیدا کیا گیا ہے" دیکھا تو والد مرحوم حضرت راز چاندپوری کا ایک شعر بے اختیار یاد آگیا۔ سوچا کہ آپ کو بھی سنا دوں۔ میں مرحوم کے اس خیاالت سے سو فیصد متفق ہوں اور میرا خیال :ہے کہ ہر صاحب علم ونظر متفق ہو گا۔شعر یہ ہے تصویر جہاں میں رنگ بھرنا
!تخلیق جہاں سے کم نہیں ہے سرور عالم راز
ڈاکٹر مقصود حسنی بطور ایک اسالمی مفکر اور اسکالر مرتبہ :پروفیسر یونس حسن ڈاکٹر مقصود حسنی بالشبہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ مختلف ادبی سائنسی سماجی صحافتی وغیرہ فیلڈز میں اپنے قلم کا جوہر دکھالتے چلے آ رہے ہیں۔ ان کے دوجنوں مقالے مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ بیس سے زائد کتب بھی منظر عام پر آ چکی ہیں۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ ان کا تخلیقی اور تحقیقی سفر نت نئی منزلوں کی جانب رواں دواں رہا ہے۔ ان کے اس سفر میں ہر سطح پر تنوع اور رنگا رنگی کی صورت نطر آتی ہے۔ ڈاکٹر اختر شمار انہیں ادبی جن کہتے ہیں۔ راقم نے حال ہی میں ان کے اسالم سے متعلق کچھ مضامین کا سراغ لگایا ہے۔ یہ مختلف اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں۔ یہ کل کتنے ہوں گے ٹھیک سے کہہ نہیں سکتا تاہم ستر کا میں کھوج لگا سکا۔ ان مضامین کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا اسالم کے بارے مطالعہ سرسری اور عام نوعیت کا نہیں۔ انہوں نے اپنے مضامین میں انسان اور عصر حاضر کے مسائل کو موضوع گفتگو بنایا ہے۔ ان کے موضوعات ان کی گہری تالش اور سنجیدہ غور و فکر کا مظہر ہیں۔ وہ روایت سے ہٹ کر کفتگو کرتے ہیں۔ انہوں نے فلسیفانہ موشالفیوں کو چھوڑ کر نہایت سادہ اور دلنشین انداز میں اپنی بات قاری تک
پہنچائی ہے۔ اسالم کا موڈریٹ اور روشن چہرا دکھایا ہے۔ انہوں نے ہر قسم کے تعصبات تنگ نظری اور رجعت پسندی کی نفی کرتے ہوئے حقیقت اور انسانیت سے محبت کے پہلو کو اجاگر کیا ہے۔ ان کے نزدیک ہر انسان قابل قدر ہے اور اسے معاشی سماجی عزت اور انصاف مہیا ہونا چاہیے۔ اسالم کے گوناں گوں موضوعات اور پہلووں پر لکھے ہوئے مضامین میں رواداری ایثار اور قربانی کا پیغام ملتا ہے۔ ان کے نزدیک انسان کو دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کیے تخلیق کیا گیا ہے۔ اسے ان کی مشکالت مصائب اور المیوں کے تدارک کے لیے اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ ان کے نزدیک اختالف رائے پرداشت کرنے کا مادہ پیدا کرنا چاہیے۔ دلیل سے بات کرنے کی طرح ڈالنا ہی آج کی ضرورت ہے۔ اسالم کے گونا گوں موضوعات پر ڈاکٹر مقصود حسنی کے مضامین اور کالم اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ وہ صرف اردو ادب کی یگانہء روزگار شخصیت نہیں ہیں بلکہ اسالمی امور کے بھی ایک اہم اسکالر ہیں۔ ان کی شخصیت کا یہ شیڈ اور زاویہ شاید ان کے بہت سے پڑھنے والوں پر وا نہ ہوا ہو گا۔ راقم نے بصد کوشش ستر مضامین کا کھوج لگایا ہے۔ ہو سکتا ہے میری یہ کوشش کسی کے کام کی نکلے۔ ان مضامین کے تناظر میں ان کی اسالمی سوچ کی ندرت اوراپج انہیں سمجھنے میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔ ان کا یہ اسلوب روانی دلکشی اور مخصوص رعنائی رکھتا ہے۔ ذیل میں ان کے مضامین کی
فہرست قارئین کی نذر کی جاتی ہے۔ تعبیر شریعت‘ قومی اسمبلی اور مخصوص صالحیتیں ١- روزنامہ مشرق الہور ٢٠دسمبر ١٩٨٦ ٢شریعت عین دین نہیں‘ جزو دین ہے روزنامہ مشرق الہور ٥جنوری ١٩٨٧ اسالم کا نظریہء قومیت اور جی ایم سید کا موقف روزنامہ ٣- مشرق الہور ١٥فروری ١٩٨٧ ٤غیر اسالمی قوتیں اور وفاق اسالم کی ضرورت روزنامہ مشرق الہور ٢٩اپریل ١٩٨٧ روزنامہ ٥- غیر اسالمی قوانین اور وفاق اسالم مشرق الہور ٢٨اپریل ١٩٨٧ روزنامہ ٦- اسالم ایک مکمل ضابطہءحیات وفاق الہور ٧جنوری ١٩٨٨ اسالم مسائل و معامالت کے حل کے لیے اجتہاد کے در وا ٧- کرتا ہے روزنامہ مشرق الہور ٧جنوری ١٩٨٨ روز نامہ ٨- اسالم سیاست اور جمہوریت جنگ الہور ٢٦جنوری ١٩٨٨٨روزنامہ ٩- اسالم میں سپر پاور کا تصور مشرق الہور ٥فروری ١٩٨٨ ہفت روزہ ١٠- پاکستان اور غلبہءاسالم دو اقساط ١٩فروری ‘١٩٨٨االصالح الہور ١٢ مسلمانوں کی نجات اسالم میں ہے ہفت روزہ االصالح ١١- الہور ٢٢فروری ١٩٨٨
انسان کی ذمہ داری خیر و نیکی کی طرف بالنا اور برائی ١٢- سے منع کرنا ہے روزنامہ مشرق الہور ٢٢فروری ١٩٨٨ خداوند عالم‘ انسان دوست حلقے اور انسانی خون ١٣- روزنامہ مشرق الہور ٧مارچ ١٩٨٨ روزنامہ ١٤- اسالمی دنیا اور قران و سننت مشرق الہور ٢٦مارچ ١٩٨٨ ١٥جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی روزنامہ مشرق الہور ٢٩مارچ ١٩٨٨ ربط ملت میں علمائے امت کا کردار ہفت روزہ االصالح ١٦- الہور ١٥اپریل ١٩٨٨ غلبہءاسالم کے لیے متحد اور یک جا ہونے کی ضرورت ١٧- روزنامہ مشرق الہور ٣٠اپریل ١٩٨٨ اسالم کا پارلیمانی نظام رائے پر استوار ہوتا ہے روزنامہ ١٨- مشرق الہور ٧مئی ١٩٨٨ نفاذ اسالم اور عصری جمہوریت کے حیلے روزنامہ ١٩- نوائے وقت الہور ١٤مئی ١٩٨٨ ہفت روزہ ٢٠- اسالم انسان اور تقاضے االصح الہور ٢٧مئی ١٩٨٨ روزنامہ مشرق ٢١- بنگلہ دیش میں اسالم یا سیکولرازم الہور ١جون ١٩٨٨ بنگلہ دیش میں اسالم۔۔۔۔۔اسالمی تاریخ کی درخشاں مثال ٢٢- روزنامہ مشرق الہور ٢٠جون ١٩٨٨ روزنامہ ٢٣- اسالم کا نظریہءقومیت اور اسالمی دنیا امروز الہور ٢٠جون ١٩٨٨
روزنامہ ٢٤- اسالم کا نظریہءقومیت مشرق الہور ١٥جوالئی ١٩٨٨ ہماری نجات اتحاد اور لہو سے مشروط ہے روزنامہ ٢٥- مشرق الہور ٣٠اگست ١٩٨٨ روزنامہ وفاق ٢٦- اسالم اور کفر کا اتحاد ممکن نہیں الہور ٣٠اگست ١٩٨٨ روزنامہ امروز ٢٧- انسان زمین پر خدا کا خلیفہ ہے الہور ٣٠اگست ١٩٨٨ روزنامہ مشرق ٢٨- جمہوریت اشتراکیت اور اسالم الہور ٣٠اگست ١٩٨٨ حضور کا پیغام ہے برائی کو طاقت سے روک دو روزنامہ ٢٩- مشرق الہور ٣١اگست ١٩٨٨ امت مسلمہ رنگ و نسل‘ عالقہ زبان اور نظریات کے ٣٠- حصار میں مقید ہے روزنامہ مشرق الہور ٣١اگست ١٩٨٨ روزنامہ ٣١- آزاد مملکت میں اسالمی نقطہءنظر اور آزادی وفاق الہور ٥ستمبر ١٩٨٨ روز نامہ ٣٢- اسالمی دنیا سے ایک سوال وفاق الہور ٥ستمبر ١٩٨٨ روزنامہ ٣٣- پاکستان میں نفاذاسالم کا عمل وفاق الہور ٢اکتوبر ١٩٨٨ روزنامہ وفاق ٣٤- اسالم میں عورت کا مقام الہور ٢٥اکتوبر ١٩٨٨ انسانی فالح اسالم کےبغیر ممکن نہیں روزنامہ وفاق ٣٥- الہور ٢٨اکتوبر ١٩٨٨
اسالم کی پیروی کا دعوی تو ہے مگر! روزنامہ آفتاب ٣٦- الہور ٢٨اکتوبر ١٩٨٨ پاکستان میں نفاذ اسالم کیوں نہیں ہو سکا روزنامہ ٣٧- ٣١اکتوبر ١٩٨٨ وفاق الہور روزنامہ ٣٨- نفاذ اسالم میں تاخیر کیوں آفتاب الہور ٨نومبر ١٩٨٨ ہفت روزہ ٣٩- اسالمی دنیا کے قلعہ میں داڑاڑیں کیوں جہاں نما الہور ١٠نومبر ١٩٨٨ اعتدال اور توازن کا رستہ عین اسالم ہے روزنامہ مشرق ٤٠- الہور ٢٠نومبر ١٩٨٨ روزنامہ مشرق ٤١- اسالم کا نظام سیاست و حکومت الہور ٢٢نومبر ١٩٨٨ روزنامہ ٤٢- شناخت‘ اسالمائزیشن کا پہال زینہ مشرق الہور ٣٠نومبر ١٩٨٨ روزنامہ ٤٣- اسالم کے داعی طبقے کی شکست کیوں مساوات الہور ٥دسمبر ١٩٨٨ روزنامہ وفاق ٤٤- کیا اسالم ایک قدیم مذہب ہے الہور ١٠جنوری ١٩٨٩ روزنامہ وفاق ٤٥- ملت اسالمیہ کی عظمت رفتہ الہور ٢فروری ١٩٨٩ اسالم اور عصری جمہوریت چار اقساط روزنامہ وفاق ٤٦- الہور ٢٨اگست ‘١٩٨٩مارچ ‘٣فروری اہل اسالم کے لیے لمحہءفکریہ روز نامہ وفاق الہور ٤٧- ٨ مارچ ١٩٨٩
اسالم دوست حلقوں کے لیے لمحہءفکریہ روزنامہ وفاق ٤٨- الہور ١٩مارچ ١٩٨٩ غیر اسالمی دنیا کے خالف جہاد کرنے کی ضرورت ٤٩- روزنامہ وفاق الہور ١٩مارچ ١٩٨٩ روزنامہ وفاق الہور ٥٠- اسالمی دنیا‘ ذلت و خواری کیوں ٢٢مئی ١٩٨٩ ماہنامہ ٥١- امور حرامین میں اسالمی دنیا کا کردار وحدت اسالمی اسالم آباد محرم ١٣١١ھ روزنامہ وفاق ٥٢- حج کی اہمیت عظمت اور فضیلت جوالئی ١٩٨٩ الہور اسالمی مملکت میں سربراہ مملکت کی حیثیت روزنامہ ٥٣- وفاق الہور ٦جوالئی ١٩٨٩ روز نامہ ٥٤- نفاذ اسالم کی کوششیں وفاق الہور ٣اگست ١٩٨٩ روزنامہ ٥٥- اسالم عصر جدید کے تقاضے پورا کرتا ہے مشرق الہور ٤اگست ١٩٨٩ روزنامہ اسالم اور عصری ے جمہوریت چار اقساط وفاق الہور ٢٨اگست ‘١٩٨٩مارچ ‘٣فروری مسلم دنیا کی نادانی جوہرقسم کی ارزانی ہفت روزہ جہاں ٥٦- نما الہور ١٧ستمبر ١٩٨٩ روزنامہ ٥٧- اسالم میں جہاد کی ضرورت و اہمیت وفاق الہور ٣٠ستمبر ١٩٨٩ روزنامہ وفاق ٥٨- ورقہ بن نوفل کا قبول الہور ١٥اکتوبر ١٩٨٩
روزنامہ مشرق ٥٩- اسالم میں جرم و سزا کا تصور الہور ١٥اکتوبر ١٩٨٩ پاکستان اسالمی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کے ٦٠- لیے حاصل کیا گیا تھا روزنامہ مشرق الہور ١٥اکتوبر ١٩٩٠ ہم اسالم کے ماننے والے ہیں پیروکار نہیں اردو نیٹ ٦١- جاپان اردو نیٹ ٦٢- ہم مسلمان کیوں ہیں جاپان اردو نیٹ ٦٣- مذہب اور حقوق العباد کی اہمیت جاپان ورڈز ٦٤- آقا کریم کی آمد ولیج ڈاٹ کام فورم ٦٥- هللا انسان کی غالمی پسند نہیں کرتا پاکستان ڈاٹ کام سکربڈ ٦٦- مسلمان کون ہے ڈاٹ کام اردو نیٹ ٦٧- سکھ ازم یا ایک صوفی سلسلہ جاپان شرک ایک مہلک اور خطرناک بیماری ٦٨- www.dirale.com
اردو ٦٩-
اسالمی سزائیں اور اسالمی و غیراسالمی انسان نیٹ جاپان سکربڈ ٧٠- پہال آدم کون تھا ڈاٹ کام
ڈاکٹر مقصود حسنی بطور مترجم از پروفیسر یونس حسن ڈاکٹر مقصود حسنی ایک نامور محقق‘ نقاد اور ماہر لسانیات ہونے کے ساتھ ایک کامیاب مترجم بھی ہیں۔ انہوں نے جن فن پاروں کا ترجمہ کیا ہے ان پر طبع زاد ہونے کا گمان گزرتا ہے۔ ان کے تراجم سادگی سالست اور رونی کا عمدہ نمونہ ہیں۔ ایک کامیاب مترجم کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اصل کے مفاہیم کو خوب ہضم کرکے ترجمے کا فریضہ انجام دے تا کہ ترجمہ اصل کے قریب تر ہو۔ موصوف کے تراجم کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اصل کی تفہیم پر دسترس حاصل کرنے کے بعد ہی یہ کام کیا ہے۔ ان کے تراجم روایت سے ہٹ کر ہیں۔ یہاں تک کہ متعلقہ فن پارے کی ہیئت سے بھی تجاوز کیا ہے۔ اس کی مثال رباعیات کا سہ مصرعی ترجمہ ہے جسے برصغیر کے نامور علما نے پسند کیا اور حسنی صاحب کو اس کام پر داد بھی دی۔ ان کے تراجم میں ایک ندرت اور چاشنی پائی جاتی ہے۔ ان کے تراجم کو جہاں ایک نئی جہت عطا ہوئی ہے وہاں الفاظ پر ان کی غیر معمولی گرفت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ حسنی صاحب کے تراجم کے مطالعہ سے یہ بھی کھلتا ہے کہ مترجم لفظ کے نئے نئے استعماالت سے آگاہ ہے۔ ڈاکٹر
ابو سعید نورالدین نے ان تراجم پر بات کرتے ہوئے درست :کہا تھا واقعی تعجب ہوتا ہے۔ آپ نے رباعیات کا اردو ترجمہ چہار مصرعی کی بجائے سہ مصرعی میں اتنی کامیابی کے ساتھ کیسے کیا۔ یہ آپ کا کمال ہے۔ ترجمے کے لیے الزمی ہوتا ہے کہ مترجم کی اس میں مکمل دلچسپی ہو ورنہ اس کی ساری محنت اکارت چلی جائے گی۔ حسنی صاحب نے ترجمے کا کام پوری دلچسپی اور بھرپور کمٹ منٹ کے ساتھ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے تراجم اصل کی بھرپور نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کے رباعیات خیام کے تراجم کے حوالہ سے پروفیسر کلیم ضیا :نے کہا تھا سہ مصرعی ترجمے ماشاءهللا بہت عمدہ ہیں۔ ہر مصرعہ رواں ہے۔ ابتددائی دونوں مصرعے پڑھ پڑھ لینے کے بعد مفہوم اس وقت تک واضح اور مکمل نہیں ہو سکتا جب تک کہ مصرع سوئم پڑھ نہ لیا جائے۔ یہی خوبی رباعی میں بھی :ہے کہ چوتھا مصرع قفل کا کام کرتا ہے۔ ان کے تراجم کا یہی کمال نہیں کہ وہ اصل کے مطابق ہیں بلکہ ان میں جازبیت اور حسن آفرینی کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ بڑھتے جائیں طبیعت بوجھل نہیں ہوتی۔ ان کے تراجم میں پایا جانے واال فطری بہاؤ قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ شاید اسی بنیاد پر ڈاکٹر عبدالقوی ضیاء نے کہا :تھا حسنی صاحب ماہر تیراک اور غوطہ خور ہیں ان کے سہ مصرعوں میں اثرآفرینی ہے‘ روانی ہے‘ حسن بیان ہے‘
تازہ کاری اور طرحداری ہے۔ قاری کو مفہوم سمجھنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی بلکہ لطف آتا ہے۔ گویا ان کا مخصوص اسلوب تکلم اور طرز ادا ترجمے کو کہیں بھی خشک اور بےمزہ نہیں ہونے دیتا بلکہ اس کی اسلوبی اور معنوی سطح برقرار رہتی ہے۔ انہوں نے عمر خیام کی چوراسی رباعیات کا اردو ترجمہ کیا۔ یہی نہیں اپنی کتاب۔۔۔۔۔ شعریات خیام۔۔۔۔۔ میں خیام کی سوانح کے ساتھ ساتھ چار ابواب میں ان کا تنقیدی و لسانی جائزہ بھی پیش کیا۔ پچاس ترکی نظموں کا اردو ترجمہ کیا اس ترجمے کو ڈاکٹر نوریہ بلیک قونیہ یونیورسٹی نے پسند کیا۔ یہ ترجمہ ۔۔۔۔۔ستارے بنتی آنکھیں۔۔۔۔۔ کے نام سے کتابی شکل میں پیش کیا گیا۔ انہوں نے فینگ سیو فینگ کے کالم پر تنقیدی گفتگو کی۔ ان کا یہ تنقیدی مضمون۔۔۔۔۔ فینگ سیو فینگ جذبوں کا شاعر۔۔۔۔۔۔ کے عنوان سے روزنامہ نوائے وقت الہور کی اشاعت اپریل 1988 '8میں شائع ہوا۔ اس کی نظموں کے ترجمے بھی پیش کیے۔ اس کے عالوہ معروف انگریزی شاعر ولیم بلیک کی نظموں کا بھی اردو ترجمہ کیا۔ ان کے یہ تراجم تجدید نو میں شائع ہوئے۔ ہنری النگ فیلو کی نظموں کے ترجمے بھی کیے۔ قراتہ العین طاہرہ کی غزلوں کا پنجابی اور انگریزی آزاد ترجمہ کیا۔ سو کے قریب غالب کے اشعار کا پنجابی ترجمہ کیا۔ ان کے یہ تراجم انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔
فرہنگ غالب ایک نادر مخطوطہ از پروفیسر یونس حسن ڈاکٹر مقصود حسنی عصر حاضر کے ایک نامور غالب شناس ہیں۔ غالب کی لسانیات پر ان کی متعدد کتابیں چھپ چکی ہیں۔ جناب لطیف اشعر ان پر اس حوالہ سے ایم فل سطح کا تحقیقی مقالہ بھی رقم کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر مقصود ‘اصطالحی ‘تمدنی ‘حسنی نے لفظیات غالب کے تہذیبی ساختیاتی اور لسانیاتی پہلووں پر نہایت جامع اور وقع کام کیا ہے۔ ان کا کام اپنی نوعیت کا منفرد اور جداگانہ کام ہے۔ ابھی تک غالب کی لسانیات پر تحقیقی کام دیکھنے میں نہیں آیا۔ ان کے کام کی انفرادیت اس حوالے سے بھی ہے کہ آج تک غالب کی تشریحات کے حوالہ سے ہی کام ہوا ہے جبکہ غالب کی لسانیات پر ابھی تک کسی نے کام نہیں کیا۔ لسانیات غالب پر ان کا ایک نادر مخطوطہ۔۔۔۔فرہنگ غالب۔۔۔۔ بھی ہے۔ یہ مخطوطہ فرہنگ سے زیادہ لغات غالب ہے۔ اس مخطوطے کے حوالہ سے لفظات غالب کی تفہیم میں شارح کو کئی نئے گوشے ملتے ہیں اور وہ تفہیم میں زیادہ آسانی محسوس کر سکتا ہے۔ غالب کے ہاں الفظ کا استعمال روایت سے قطعی ہٹ کر ہوا ہے۔ روایتی اور مستعمل مفاہیم میں اشعار غالب کی تفہیم ممکن ہی نہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ لغات بھی عجب ڈھنگ سے ترتیب دی ہے۔ لفظ کو عہد غالب سے پہلے‘ عہد غالب اور عہد غالب کے بعد تک دیکھا ہے۔
ان کے نزدیک غالب شاعر فردا ہے۔ لفظ کے مفاہیم اردو اصناف شعر میں بھی تالش کیے گیے ہیں۔ یہاں تک کہ جدید صنف شعر ہائیکو اور فلمی شاعری کو بھی نظرانداز نہیں کیا گیا۔ امکانی معنی بھی درج کر دیے گیے ہیں۔ اس مخطوطے کے مطالعہ سے ڈاکٹر مقصود حسنی کی لفظوں کے باب میں گہری کھوج اور تالش کا پتا جلتا ہے۔ لگن اور ‘اس تالش کے سفر میں ان کی ریاضت‘ مغز ماری سنجیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ انہوں نے لفظ کی تفہیم کے لیے‘ اردو کی تمام شعری اصناف کو کھنگال ڈاال ہے۔ ایک ایک لفظ کے درجنوں اسناد کے ساتھ معنی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ماضی سے تادم تحریر شعرا کے کالم سے استفادہ کیا گیا ہے۔ گویا لفظ کے مفاہیم کی گرہیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔ اس نادر مخطوطے کا سرسری جائزہ بھی اس جانب توجہ مبذول کراتا ہے کہ غالب کو محض سطعی انداز سے نہ دیکھیں۔ اس کے کالم کی تفہیم سرسری مطالعے سے ہاتھ آنے کی نہیں۔ اسے سمجھنے کے لیے سنجیدہ غوروفکر کرنا پڑتا ہے۔ پروفیسر حسنی کی یہ کاوش فکر و تالش اسی امر کی عملی دلیل ہے۔ انہوں غالب کے قاری کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے لیے اپنی سی جو کوششیں کی ہیں وہ بالشبہ الیق تحسین ہیں۔ ماضی میں غالب پر بڑا کام ہوا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ وہ آج بھی ادبی حلقوں میں تشریح طلب مصرعے کا درجہ رکھتا ہے۔ تشنگی کی کیفیت میں ہرچند اضافہ ہی ہوا ہے۔ اس صورت حال کے تحت بڑے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ غالب مستقبل قریب و بعید میں اپنی ضرورت اور اہمیت
نہیں کھوئے گا یا اس پر ہونے والے کام کو حتمی قرار نہیں دے دیا جائے گا۔ جہاں تفہیم غالب کی ضرورت باقی رہے گی وہاں ڈاکٹر مقصود حسنی کی فرہنگ غالب کو بنیادی ماخذ کا درجہ بھی حاصل رہے گا۔ اسے تفہیم غالب کی ذیل میں نظر انداز کرنے سے ادھورہ پن محسوس کیا جاتا رہے گا۔ اس مخطوطے کی اشاعت کی جانب توجہ دینا غالب فہمی کے لیے ازبس ضروری محسوس ہوتا ہے۔ جب تک یہ مخطوطہ چھپ کر منظر عام پر نہیں آ جاتا غالب شناسی تشنگی کا شکار رہے گی۔ لوگوں تک اس میں موجود گوشوں کا پہنچنا غالب شناسی کا تقاضا ہے کیونکہ جب تک یہ نادر مخطوطہ چھپ کر سامنے نہیں آ جاتا اس کی اہمیت اور ضرورت کا اندازہ نہیں ہو سکے گا۔ یہ بھی کہ غالب کے حوالہ سے پروفیسر حسنی کی لسانی بصیرت کا اندازہ نہیں ہو سکے گا۔ وہ گویا لسانیات غالب پر کام کرنے والوں میں نقش اول کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہ لغت آ سے شروع ہو کر لفظ یگانہ کی معنوی تفہیم تک جاتی ہے۔
مقصود حسنی کی ادبی خدمات ایک مختصر جائزہ مرتبہ: پروفیسر نیامت علی مرتضائی
مقصود حسنی
بوزر برقی کتب خانہ فروری ٢٠١٧