مقصود حسنی کے چالیس منظوم افسانے

Page 1

‫مقصود حسنی کے چالیس منظوم افسانے‬ ‫پیش کار‬ ‫پروفیسر یونس حسن‬ ‫ابوزر برقی کتب خانہ‬ ‫اکتوبر ‪٦١٠٢‬‬


‫فہرست‬ ‫شاعر اور غزل ‪٠-‬‬ ‫ٹیکسالی کے شیشہ میں ‪٦-‬‬ ‫کالے سویرے ‪٣-‬‬ ‫کیچڑ کا کنول ‪٤-‬‬ ‫دو لقمے ‪٥-‬‬ ‫آخری خبریں آنے تک ‪٢-‬‬ ‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا ‪٧-‬‬ ‫حیرت تو یہ ہے ‪٨-‬‬ ‫میں نے دیکھا ‪٩-‬‬ ‫کس منہ سے ‪٠١-‬‬ ‫حیات کے برزخ میں ‪٠٠-‬‬ ‫سورج دوزخی ہو گیا تھا ‪٠٦-‬‬ ‫فیکٹری کا دھواں ‪٠٣-‬‬ ‫مطلع رہیں ‪٠٤-‬‬ ‫امید ہی تو زندگی ہے ‪٠٥-‬‬


‫میٹھی گولی ‪٠٢-‬‬ ‫دو بیلوں کی مرضی ہے ‪٠٧-‬‬ ‫ذات کے قیدی ‪٠٨-‬‬ ‫چل' دمحم کے در پر چل ‪٠٩-‬‬ ‫عطائیں ہللا کی کب بخیل ہیں ‪٦١-‬‬ ‫کرپانی فتوی ‪٦٠-‬‬ ‫مقدر ‪٦٦-‬‬ ‫دو بانٹ ‪٦٣-‬‬ ‫دو حرفی بات ‪٦٤-‬‬ ‫سوچ کے گھروندوں میں ‪٦٥-‬‬ ‫کیا یہ کافی نہیں ‪٦٢-‬‬ ‫یادوں کی دودھ ندیا ‪٦٧-‬‬ ‫باؤ بہشتی ‪٦٨-‬‬ ‫کوئی کیا جانے ‪٦٩-‬‬ ‫کل کو آتی دفع کا ذکر ہے ‪٣١-‬‬ ‫کڑکتا نوٹ ‪٣٠-‬‬


‫اسالم سب کا ہے ‪٣٦-‬‬ ‫ڈنگ ٹپانی ‪٣٣-‬‬ ‫ایک اور اندھیر دیکھیے ‪٣٤-‬‬ ‫یہ حرف ‪٣٥-‬‬ ‫عہد کا در وا ہوا ‪٣٢-‬‬ ‫مشینی دیو کے خواب ‪٣٧-‬‬ ‫اک مفتا سوال ‪٣٨-‬‬ ‫ریت بت کی شناسائی مانگ ‪٣٩-‬‬ ‫آنکھوں دیکھے موسم ‪٤١-‬‬

‫شاعر اور غزل‬ ‫چاند کی کرنوں سے غزل کی بھیک مانگی‬ ‫اس نے کاسے میں دو بوندیں نچوڑ دیں‬ ‫کہ غزل آنکھوں کی ٹھنڈک ہو جائے‬


‫سیپ نے مروارید دیئے‬ ‫کہ دل اس کا پرسکون ہو جائے‬ ‫قوس قزح نے سرخی بخشی‬ ‫کہ رخ مثل یاقوت ہو جائے‬ ‫طبلے کی تھاپ نے‬ ‫گھنگھرو کی جھنکار نے‬ ‫مایوس نہیں کیا‬ ‫نسیم سحر سے بھی دست سوال دراز کیا‬ ‫قبروں کے کتبوں سے بھی‬ ‫غزل کی بھیک مانگ کے الیا‬ ‫سورج سے تھوڑی حدت مانگ لی‬ ‫سیماب سے بےقراری لے لی‬ ‫لہر نے بغاوت دے دی‬ ‫گالب کے پاس بھی گیا‬ ‫اس نے کاسے کو بوسہ دیا‬ ‫اور اپنی اک پنکھڑی رکھ دی‬


‫خوش تھا کہ‬ ‫آج محنت رنگ الئے گی‬ ‫وہ مری ہو جائے گی‬ ‫دامن مرا خوشیوں سے بھر جائے گا‬ ‫غزل کے چہرے پر‬ ‫حسین سا عنوان لکھ دے گی‬ ‫خلوص کی طشتری میں رکھ کر‬ ‫جب غزل میں نے پیش کی‬ ‫جسارت پہ مری وہ بپھر گئی‬ ‫ضبط کی پٹڑی سے اتر گئی‬ ‫کاسے میں تھوک دیا‬ ‫بولی‬ ‫بھکاری! اپنا خون جگر نچوڑ کے الؤ‬ ‫غزل سے زندگی کی خوش بو آئے‬ ‫راحتوں کے لیے‬ ‫لہو کی اک بوند کافی ہے‬


‫پھر اس نے‬ ‫چھاتی سے جدا کرکے‬ ‫اپنی بچی مری گود میں رکھ دی‬ ‫ممتا کی باہوں میں غزل تھی‬ ‫ممتا کی نگاہوں میں غزل تھی‬ ‫بچی کے لبوں پر‬ ‫بچی کی انگلیوں میں‬ ‫بچی کی سانسوں میں‬ ‫مگر بچی تو سراپا غزل تھی‬ ‫میں مشاہدے میں ہی تھا کہ‬ ‫اس نے بچی مجھ سے لے لی‬ ‫مری آغوش میں شرمندگی رکھ دی‬ ‫درماندگی رکھ دی‬ ‫اپنی اور مانگے کی چیز میں‬ ‫کتنا فرق ہوتا ہے‬ ‫وہ الئق صد افتخار تھی‬


‫پروقار تھی‬ ‫میں تنکے سے بھی حقیر تھا‬ ‫اس کا سر تنا ہوا تھا‬ ‫مرا سر جھکا ہوا تھا‬ ‫کہ غزل کے چہرے پر‬ ‫بھیک کا پیوند لگا ہوا تھا‬ ‫غزل کا بدن زیر عتاب تھا‬ ‫میں بھی تو ہار گیا تھا‬ ‫مری شاعری کی کائنات پر رعشہ تھا‬ ‫وہ مسکرا رہی تھی‬ ‫غزل سٹپٹا رہی تھی‬ ‫اجتہاد کا در وا ہوا‬ ‫روایت کا دیا بجھ گیا‬ ‫حقیقیت سےپردہ اٹھ گیا‬ ‫شاعر نہیں‘ میں تو بھکاری تھا‬ ‫خورشید ضعیف ہو گیا‬


‫مہتاب زرد پڑ گیا‬ ‫گالب مرجھا گیا‬ ‫طبلے کا پول کھل گیا‬ ‫جھنکار تھم گئی‬ ‫سمندر ندامت پی گئی‬ ‫کاسہ دو لخت ہوا‬ ‫جو جس کا تھا لے گیا‬ ‫ابلیس کرچیاں چننے لگا‬ ‫بھکاری مر گیا‬ ‫قبروں کو اپنا دیا مل گیا‬ ‫پھر شاعر جاگا‬ ‫ذات میں کھو گیا‬ ‫خامشی چھا گئی‬ ‫ذات میں انقالب آ گیا‬ ‫اندر کا الوا ابلنے لگا‬ ‫حد سے گزرنے لگا‬


‫ابلیس کے قہقہوں کا سلسلہ رک گیا‬ ‫اب ذات تھی‬ ‫شاعر تھا‬ ‫آنکھوں میں لہو کی بوندیں‬ ‫ہاتھ میں قلم‬ ‫کاغذ پر جگر تھا‬

‫ٹیکسالی کے شیشہ میں‬

‫معصوم گڑیا سی‬ ‫سراپا جس کا‬ ‫کلیوں گالبوں نے بنا تھا‬ ‫شاید سراپے کا شیش محل‬ ‫چاند کی کرنوں سے تعمیر ہوا تھا‬


‫زیست کے نشیب و فراز سے بے خبر‬ ‫کہکشانی رستوں کی تالش میں‬ ‫مشک و عنبر کی جہاں باس ہو‬ ‫ہوا جس کی مگر اسے راس ہو‬ ‫پریوں کے شہزادے کا میسر ساتھ ہو‬ ‫گھر سے بھاگ نکلی‬ ‫آنکھوں میں اس کے روشی تھی‬ ‫ہر دل سے درد اٹھا‬ ‫مونس و غم گسار بن گیا‬ ‫وہ کیا جانے‬ ‫اس نگر میں بھنورے بھی رہتے ہیں‬ ‫بھیڑیے تاک میں ہیں‬ ‫اک روز پھر اخبار میں خبر چھپی‬ ‫مطلع ہوں‬ ‫اک لڑکی کے اعضاء بکھر گیے تھے‬ ‫گندے گٹر میں پڑے تھے‬


‫ہر ٹکڑا زخموں سے چور تھا‬ ‫اور خون بھی بہہ رہا تھا‬ ‫گندے پانی کی ٹھوکریں سہہ رہا تھا‬ ‫کہہ رہا تھا‬ ‫شاید میرا کوئی بچ رہا ہو‬ ‫یہ بکھرے اعضاء بڑی حفاظت سے‬ ‫کڑی ریاضت سے‬ ‫جوڑ کر‘ سی کر‬ ‫داراالن بھیج دیے ہیں‬ ‫داراالمان سے رابطہ کریں‬ ‫خوبی قسمت دیکھیے‬ ‫ٹیکسالی کے باسی قدر شناس نکلے‬ ‫آج بھی وہ اعضاء‬ ‫ٹیکسالی کے شیشہ میں سجے ہیں‬ ‫کہ ان کا کوئی مستقبل نہیں‬ ‫ماضی کہیں کھو گیا ہے‬


‫حال متعین نہیں ہوا‬ ‫کہ اب ان پر سب کا حق ہے‬

‫کالے سویرے‬

‫مجھے ڈر لگتا ہے‬ ‫علم و فن کے کالے سویروں سے‬ ‫جن کے بطن سے‬ ‫ہوس کے ناگ جنم لیتے ہیں‬ ‫منصف کے من کی آواز کو‬ ‫جو ڈس لیتے ہیں‬ ‫سہاگن کے سہاگ کی پیاسی آتما سے‬ ‫ہوس کی آگ بجھاتے ہیں‬ ‫سچ کے موسموں کے چراغوں کی روشنی‬


‫دھندال دھندال دیتے ہیں‬ ‫حقیقتوں کا ہم زاد‬ ‫گھبرا کر‬ ‫ویران اور اداس لفظوں کا‬ ‫آس سے‬ ‫جو خود فریبی کے جھولے میں پڑی‬ ‫فرار کے رستے سوچ رہی ہے‬ ‫رستہ پوچھتا ہے‬ ‫ان زہریلے ناگوں کی آنکھوں کی مقناطیسیت‬ ‫اپنے حصار میں‬ ‫اسے بھی لے لیتی ہے‬ ‫یہ ناگ‬ ‫انا اور اساس کو بھی ڈستے ہیں‬ ‫یہ خونی منظر دیکھ کر کانپ جاتا ہوں‬ ‫کہ یہ اب ضمیر کو بھی ڈس لیں گے‬ ‫کالے سویروں کی زرد روشنی کے سائے‬


‫جوں جوں دراز ہوتے ہیں‬ ‫زندگی کو اک اور کربال سے گزرنا پڑتا ہے‬ ‫ان ناگوں کی زبانیں‬ ‫چمکتی‘ زہر میں بجھی‬ ‫تیز دھار تلواریں ہیں‬ ‫گھاؤ کرنے میں‬ ‫یہ اپنا جواب نہیں رکھتیں‬ ‫زندگی خوف کے سائے میں‬ ‫کیوں کر پروان چڑھ سکتی ہے‬ ‫جہاں کوئی روٹی دینے واال نہیں‬ ‫پانی کی اک بوند نایاب ہے‬ ‫جہاں خودکشی حرام جینا جرم ہے‬ ‫جہاں نیلے آسمان کی‬ ‫چاند ستاروں سے لبریز چھت‬ ‫اپنی نہیں‬ ‫ہوا کا بھی گزر نہیں ہوتا‬


‫بدلتے موسوں کا تصور‬ ‫شیخ چلی کا خواب ہے‬ ‫بوسیدگی اور غالظت‬ ‫شخص کا مقدر ہے‬ ‫یا پھر‬ ‫زہر بجھی یہ چمکتی تلواریں ہیں‬ ‫یقین مانو‘ یہ ہی کچھ ہے‬ ‫پھر میں‬ ‫یاس کی تاریکیوں کی تمنا کرتا ہوں‬ ‫جانت ہوں کہ یہ ناگ‬ ‫تاریکیوں سے نہیں گھبرائیں گے‬ ‫پھر بھی کاٹیں گے‬ ‫گدھ نوچیں گے‬ ‫کتے ہڈیوں پر ٹوٹیں گے‬ ‫ہر ہڈی پر‬ ‫گھمسان کا رن ہو گا‬


‫اپنا حصہ لگڑ بگڑ بھی مانگیں گے‬ ‫فاسفورس کی بانٹ ًپر بھی‬ ‫تنازعے اٹھیں گے‬ ‫درد پھر بھی ہو گا‬ ‫کرب پھر بھی ہو گا‬ ‫زہر پھر بھی پھیلے گا‬ ‫کانچ بدن پھر بھی نیال ہو گا‬ ‫مایوسی کی سیاہ ذلفوں کے سائے میں‬ ‫بصارت کو بصیرت کو‬ ‫شائد پناہ مل جائے گی‬ ‫میں ناگوں کے پہرے نہ دیکھ سکوں گا‬ ‫لہو رستے پر نظر نہ جائے گی‬ ‫مگر کیا کروں‬ ‫سچ کی حسین تمنا مجھے مرنے نہیں‬ ‫مرنے نہیں دے گی‬ ‫اور میں اس سراب جیون میں‬


‫نہ مروں گا نہ جی سکوں گا‬

‫کیچڑ کا کنول‬

‫میال سا چیتھڑا ‘آلودہ‬ ‫شاید حاجت سے بچا ہوگا‬ ‫‘آدم زادے کا پراہین‬ ‫!عییب نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔؟‬ ‫گالب سے چہرے پر‬ ‫بلور ایسی‘ دیکھتی آنکھیں‬ ‫حیرت خوف غم غصہ اورافسوس‬ ‫جانے کیا کچھ تھا ان میں‬ ‫سماج کی بےحسی پہ‬ ‫ان ٹھہری مگر دیکھتی آنکھوں میں‬


‫دو بوند‘ لہو سی‬ ‫صدیوں کے ظلم کی داستان‬ ‫لیے ہوئے تھیں‬ ‫اتنی حدت اتنی اتنی تپش کہ‬ ‫پتھر بھی پگھل کر پانی ہو‬ ‫ترسی ترسی باہیں‬ ‫میرے بوبی کی باہیں ایسی ہی تھیں کہ‬ ‫جب وہ بچہ تھا‬ ‫تب محبتوں کا حصار تھا‬ ‫اور اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫خفت ندامت کا حصار‬ ‫مرے گرد ہے‬ ‫لمحہ بہ لمحہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫دائرہ تنگ ہو رہا ہے‬ ‫مجھے فنکار سے نسبت ہے‬ ‫فنکار‘ سب کا درد‬


‫سینے کی وسعتوں میں سمو لیتا ہے‬ ‫‘اور میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫ساکت وجامد‬ ‫مٹی کے بت کی طرح‬ ‫خاموش تماشائی تھا‬ ‫اس نے پکارا آواز دی‬ ‫احتجاج بھی کیا‬ ‫کچھ نہ میں کر سکا‬ ‫‘جیسے وہ آدم زادہ نہ ہو‬ ‫ہمالہ سے گرا‬ ‫کوئ پتھر ہو‬ ‫‪:‬اس نے کہا‬ ‫!فنکار۔۔۔۔۔۔۔“‬ ‫مجھے اپنی باہوں میں سما لو‬ ‫"ازل سے پیاسا ہوں‬ ‫گھبرا کر تھوڑا سا‬


‫)پستیوں کی جانب)‬ ‫پیچھے سرکا‬ ‫کوئی مصیبت کوئی وبال‬ ‫تہمت یا بدنامی سر نہ آئے‬ ‫چیخا “فنکار کا سینہ‬ ‫!کب سے تنگ ہوا ہے؟‬ ‫میری باہیں غیر جنس کی باہیں ہیں؟‬ ‫ان کا تم پر کوئی حق نہیں؟؟؟‬ ‫وہ کہتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں سنتا رہا‬ ‫کیا جواب تھا میرے پاس‬ ‫!کاش‬ ‫میرے شعور کی آنکھیں بند ہو جاتیں‬ ‫یوں جیسے ممتا کی سماج کی‬ ‫آنکھیں بند تھیں‬ ‫سوچتا ہوں‘ مجرم کون ہے‬ ‫‘گناہ کس نے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔‬


‫ماں یا سماج نے‬ ‫وہ تو اپنے گھروں میں‬ ‫آسودہ سانسوں کے ساتھ‬ ‫گرم کافی پی رہے ہوں گے‬ ‫یا میں نے جو‬ ‫شب کی بھیانک تنہائ میں‬ ‫ندامت سے‬ ‫سگریٹ کے دھوئیں میں‬ ‫تحلیل ہو رہا ہوں‬ ‫گٹرکے قریب پڑا‘ وہ کنول‬ ‫مجھ سے میرے ضمیر سے‬ ‫انصاف طلب کر رہا ہے‬ ‫کہ تم‘ خدائے عزوجل کی تخلق کا‬ ‫یہ حشر کرتے ہو‬ ‫مجھے حرامی کہتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟‬ ‫بتاؤ‘ حامی کون ہے؟‬


‫ضمیر کس کا مردہ ہے؟‬ ‫مجرم کون ہے؟‬ ‫میں یا تم؟؟؟‬ ‫!میری بستی کے باسیو‬ ‫کہ تمہیں عظیم مخلوق ہونے کا دعوی ہے‬ ‫کیا جواب دوں اسے؟‬ ‫اس کا ننھا سا معصوم چہرا‬ ‫احتجاج سے لبریزآنکھیں‬ ‫پنکھڑی سے ہونٹوں پر‬ ‫تھرکتی بےصدا سسکیاں‬ ‫مجھے پاگل کر دیں گی‬ ‫پاگل‬ ‫ہاں پاگل‬

‫دو لقمے‬


‫تعفن میں اٹی‬ ‫‘اندھیاروں میں لیپٹی وہ بستی‬ ‫جہاں چھیتڑوں میں ملفوف زندہ الشوں کے دل کی دھڑکنیں‬ ‫دیوار پر آویزاں کالک کی ٹک ٹک کی آوازیں تھیں۔‬ ‫‘بھوک کی اہیں‬ ‫بےبسی کی سسکیوں میں مدغم ہو رہی تھیں۔‬ ‫آس کا سایہ آس پاس نہ تھا۔ تھا کچھ تو قاتل خاموشی تھی۔‬ ‫بھوک کا ناگ پھن پھیالئے بیٹھا تھا۔‬ ‫مایوسیوں کی اس بستی سے رحم کا دیوتا شاید خفا تھا یا پھر‬ ‫وہ بھی تہی دست تہی دامن ہو گیا تھا۔‬ ‫اک مسکراہٹ کے طلبگار یہ الشے بے حس نہیں‘ بے بس‬ ‫تھے۔‬ ‫پھر اک الشہ بھوک ناگ جس کے قریب تر تھا۔۔۔۔۔۔ تڑپا اور‬ ‫رینگ کر روشنی کی شہراہ پر آ گیا۔ اس حرکت میں اس نے اپنی‬ ‫ساری توانائی صرف کر دی۔ ہر سو اجالے تھے لیکن وہ بھوک‬ ‫کے سیاہ کفن میں ملبوس تھا۔۔۔۔۔۔۔۔پھر بھی۔۔۔۔۔۔۔ ہاں پھر‘ بھی وہ‬


‫زندہ تھا اور اجالوں کی شہراہ پر پڑا ہانپ رہا تھا۔ سانسیں‬ ‫بےترتیب تھیں۔ خوش پوش راہی شاید اسے دیکھ نہیں رہے‬ ‫تھے۔ جو دیکھ رہے تھے ناک پر رومال رکھ کر گزر رہے تھے۔‬ ‫وہ سب اس کے ہم جنس تھے۔ کتنی آس لے کر وہ یہاں تک آیا‬ ‫تھا۔ ان دیکھتے کرب لمحوں کو کون جان پاتا۔‬ ‫وہ اس بستی کا نہ تھا۔‬ ‫بھوک ناگ بوال‪ :‬کہاں تک بھاگو گے‘ تمہیں میرا لقمہ بننا ہی ہو‬ ‫گا کہ خود میں بھوکا ہوں۔‬ ‫پھر وہ تھوڑا آگے بڑھا۔‬ ‫الشہ چالیا‪ :‬نہیں۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔ رکو۔۔۔۔۔ٹھہرو۔۔۔۔۔۔ روٹی ضرور آئے‬ ‫گی۔‬ ‫سب بےکار۔۔۔۔۔روٹی کوئی نہیں دے گا۔۔۔۔۔۔ یہ پیٹ بھر کر بھی‬ ‫آنکھوں میں بھوک لیے پھرتے ہیں۔ ان میں سے کون دے گا‬ ‫روٹی۔ ان کے ہشاش بشاش چہروں پر نہ جاؤ۔ ان کے من کی‬ ‫بھوک کو دیکھو اور میرے صبر کا امتحان نہ لو۔‬ ‫‪:‬الشہ سٹپٹایا اور چالیا‬ ‫!اجالوں کے باسیو‬ ‫!علم و فن کے دعوےدارو‬ ‫!سیاست میں شرافت کے مدعیو‬


‫!جمہوریت کے علم بردارو‬ ‫!اسلحہ خرید کرنے والو‬ ‫!فالحی اداروں کے نمبردارو‬ ‫‘عالمی وڈیرو‬ ‫‘کہاں ہو تم سب‬ ‫تمہارے وعدے اور دعوے کیا ہوئے؟‬ ‫اپنی بھوک سے دو لقمے میرے لیے بچا لو۔ بھوک ناگ میرے‬ ‫قریب آ گیا ہے۔‬ ‫دیکھو غور کرو‘ میں تمہارا ہم جنس ہوں‬ ‫‘۔ دو لقمے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں فقط دو لقمے‬ ‫میری زندگی کے ضامن ہیں۔‬ ‫ایف سولہ ہائیڈروجن بم مجھے نہیں چاہیے۔‬ ‫میری ضرورت روٹی کے دو لقمے ہیں۔‬ ‫اس دور کی یہ تمہاری بہت بڑی جیت ہو گی جو تاریخ میں‬ ‫تمہیں امر کر دے گی۔‬


‫آخری خبریں آنے تک‬ ‫کون‬ ‫انصاف‬ ‫تمہارا یہاں کیا کام‬ ‫جہاں میری ضرورت ہوتی ہے بن بالئے چال آتا ہوں‬ ‫بن بالئے کی اوقات سمجھتے ہو‬ ‫جی ہاں‬ ‫اوقات عمل سے بنتی ہے‬ ‫تمہاری ماننے والے بھوکے مرے‬ ‫بھوک نے انہیں ہمیشہ سرخرو کیا ہے‬ ‫لوگ ہمیں سالم کرتے ہیں‬ ‫تمہیں نہیں‘ تمہاری شر کو سالم کہتے ہیں‬ ‫تاریخ میں دھنوان امر رہا ہے‬ ‫تاریخ پیٹ کے بندوں کا روزنامچہ ہے‬ ‫پیٹ ہی تو سب کچھ ہے‬


‫تب ہی تو باال سطع پر رہتے ہو‬ ‫تہہ کے متعلق تم کیا جانو‬ ‫بڑے ڈھیٹ ہو‬ ‫بننا پڑتا ہے‬ ‫تمہیں تمہاری اوقات میں النا پڑے گا‬ ‫کیا کر لو گے؟؟؟‬ ‫تمہاری ہڈی پسلی ایک کر دوں گا‬ ‫یہ سب تو پہلے بھی میرے ساتھ ہو چکا ہے‬ ‫کوئی نئی ترکیب سوچو‬ ‫تمہیں جال کر راکھ کر دوں گا‬ ‫عبرت کے لیے‬ ‫تمہاری راکھ گلیوں میں بکھیر دوں گا‬ ‫یہ تو اور بھی اچھا ہو گا‬ ‫وہ کیسے؟‬ ‫میری راکھ کا ہر ذرا انقالب بن ابھرے گا‬ ‫اہ مائی گاڈ‘ تو پھر میں کیا کروں؟‬


‫مجھے اپنے سینے سے لگا لو‬ ‫یہ مجھ سے نہیں ہو گا‬ ‫تو طے یہ ہوا‬ ‫تمہاری اور میری جنگ کا کوئی انت نہیں‬ ‫دیکھتا ہوں کہاں تک اذیت برداشت کرتے ہو‬ ‫چلو میں بھی دیکھتا ہوں‬ ‫اذیت میں کس حد تک جاتے ہو‬ ‫اس کے بعد‬ ‫گھمسان کی جنگ چھڑ گئی‬ ‫اور آخری خبریں آنے تک‬ ‫جنگ جاری تھی‬

‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا‬


‫عہد شہاب میں بےحجاب بےکسی بھی عجب قیامت تھی۔ صبح‬ ‫اٹھتے مشقت اٹھاتےعوضوانے کو ہاتھ بڑھاتے بے نقط سنتے۔‬ ‫سانسیں اکھڑ جاتیں مہر بہ لب جیتے کہ سانسیں باقی تھیں۔ جینا‬ ‫تو تھا ہی لہو تو پینا تھا ہی۔‬ ‫ادھر ایونوں میں آزادی کی صدائیں گونج رہی تھیں ادھر گلیوں‬ ‫میں خوف کا پہرا تھا کہ شاہ بہرا تھا۔ شاہ والے گلیوں میں‬ ‫بےچنت کرپانیں لیے پھرتے تھے۔ نقاہت ہاتھ باندھے شکم میں‬ ‫بھوک آنکھوں میں پیاس لیے کھڑی تھی ہاں مگر شاہ کی دیا کا‬ ‫بول باال تھا۔‬ ‫پنڈت کے ہونٹوں پر شانتی بغل میں درانتی مالں بھی من میں‬ ‫تفریق کا بارود بھرے امن امن امن کیے جا رہا تھا۔‬ ‫اب جب کہ پیری پہ شنی کا پہرا ہے بھوک کا گھاؤ گہرا ہے۔‬ ‫جیب میں دمڑی نہیں امبڑی نہیں کہ وید حکیموں کے دام‬ ‫چکائے بڑے شفاخانے کے در پر الئے مایوسی کی کالک مٹائے‬ ‫آہیں سنے تشفی کی لوری سنائے۔ ہونٹوں پہ گالب سجائے دل‬ ‫میں کرب اٹھائے اب کون ہے جو مرے مرنے سے مر جائے۔‬


‫بیٹے کو اپنی پتنی سے فرصت نہیں بیٹی کی ساس کپتی ہے‬ ‫بھائی کے گھر تیل نہ بتی ہے مری بہن کی کون سنتا ہے سیٹھ‬ ‫کے برتن دھو سیٹھنی کے کوسنے سن کر پیٹ بھرتی ہے۔‬ ‫بیگم روتی ہے نہ ہنسی ہے سوچتی ہے کفن دفن کے لیے‬ ‫پیسے کہاں سے آئیں گے کہیں اس کے بھائیوں کی چمڑے نہ‬ ‫ادھڑ جائے وہ تو بہنوئی کی کھاتے تھے جب بھی آتے تھے‬ ‫کچھ ناکچھ لے جاتے تھے۔‬ ‫جیتا ہوں تو مصیبت مرتا ہوں تو مصیبت۔ میں وہ ہی ہوں‬ ‫جواندھیروں میں رہ کر ایونوں کے دیپ جالتا رہا دوا دور رہی‬ ‫مری گرہ میں تو اس اجڑے گلستان کا کرایہ نہیں۔‬ ‫گھر میں روشنی نہیں ناسہی شاید کوئی فرشتہ مری لحد میں‬ ‫بوند بھر روشنی لے کر آ جائے عمر بھر خود کو نہ دیکھ سکا‬ ‫سوچ سکا واں سکوں ہو گا خود کو دیکھ سکوں گا سوچ سکوں‬ ‫گا خود کو دیکھنے سوچنے کی حسرت بر آئے گی۔‬


‫خود کو دیکھ کر سوچ کر ارضی خدائی سے مکتی قلبی خدا کی‬ ‫بےکراں عظمتوں کا اسرار کھل جائے گا وہ میرا تھا میرا ہے‬ ‫مجھے مل جائے گا۔ سردست کفن و دفن کے سامان کی فکر ہے۔‬ ‫کفن ملے ناملے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ عمر بھر اس نے‬ ‫مری پردہ پوشی کی ہے اب بھی کرئے گا۔‬ ‫ایونوں میں بستے سفیدی میں لپٹے شیطانوں کا نگر مرا نہیں‬ ‫مرا نہیں گورنگر مرا ہو گا مرا خدا کچھ لیتا نہیں دیتا ہے۔ لینا‬ ‫مری عادت دینا اس کی فطرت روٹی کی فکر کیسی کرائے کی‬ ‫چنتا میں کیوں کروں مری جان میں آ رہا ہوں تو مختصر سہی‬ ‫مرے لیے مری حسرتوں کے لیے سات زمینوں سے بڑھ کر‬ ‫وسعت رکھتی ہے میں بھول میں رہا کہ یہاں کچھ بھی مرا نہ تھا‬ ‫زیست کے کچھ لمحوں کی دیری تھی تو ہی تو مری تھی‬ ‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا‬ ‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا‬ ‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا۔‬


‫حیرت تو یہ ہے‬

‫موسم گل ابھی محو کالم تھا کہ‬ ‫مہتاب بادلوں میں جا چھپا‬ ‫اندھیرا چھا گیا‬ ‫پریت پرندہ‬ ‫ہوس کے جنگلوں میں کھو گیا‬ ‫اس کی بینائی کا دیا بجھ گیا‬ ‫کوئی ذات سے‘ کوئی حاالت سے الجھ گیا‬ ‫کیا اپنا ہے‘ کیا بیگانہ‘ یاد میں نہ رہا‬ ‫بادل چھٹنے کو تھے کہ‬ ‫افق لہو اگلنے لگا‬ ‫دو بم ادھر دو ادھر گرے‬ ‫پھر تو‬ ‫ہر سو دھواں ہی دھواں تھا‬


‫چہرے جب دھول میں اٹے تو‬ ‫ظلم کا اندھیر مچ گیا‬ ‫پھر اک درویش مینار آگہی پر چڑھا‬ ‫کہنے لگا سنو سنو‬ ‫دامن سب سمو لیتا ہے‬ ‫اپنے دامن سے چہرے صاف کرو‬ ‫شاید کہ تم میں سے کوئی‬ ‫ابھی یتیم نہ ہوا ہو‬ ‫یتیمی کا ذوق لٹیا ڈبو دیتا ہے‬ ‫من کے موسم دبوچ لیتا ہے‬ ‫کون سنتا پھٹی پرانی آواز کو‬ ‫حیرت تو یہ ہے‬ ‫موسم گل کا سب کو انتظار ہے‬ ‫گرد سے اپنا دامن بھی بچاتا ہے‬ ‫اوروں سے کہے جاتا ہے‬ ‫چہرہ اپنا صاف کرو‘ چہرہ اپنا صاف کرو‬


‫میں نے دیکھا‬

‫پانیوں پر‬ ‫میں اشک لکھنے چال تھا‬ ‫دیدہءخوں دیکھ کر‬ ‫ہر بوند‬ ‫ہوا کے سفر بر نکل گئی‬ ‫منصف کے پاس گیا‬ ‫شاہ کی مجبوریوں میں‬ ‫وہ جکڑا ہوا تھا‬ ‫سوچا‬ ‫پانیوں کی بےمروتی کا‬ ‫فتوی ہی لے لیتا ہوں‬


‫مالں شاہ کے دستر خوان پر‬ ‫مدہوش پڑا ہوا تھا‬ ‫دیکھا‘ شیخ کا در کھال ہوا ہے‬ ‫سوچا‬ ‫شاید یہاں داد رسی کا‬ ‫کوئی سامان ہو جائے گا‬ ‫وہ بچارہ تو‬ ‫پریوں کے غول میں گھرا ہوا تھا‬ ‫کیا کرتا کدھر کو جاتا‬ ‫دل دروازہ کھال‬ ‫خدا جو میرے قریب تھا‬ ‫بوال‬ ‫کتنے عجیب ہو تم بھی‬ ‫کیا میں کافی نہیں‬ ‫جو ہوس کے اسیروں کے پاس جاتے ہو‬ ‫میرے پاس آؤ‬


‫ادھر ادھر نہ جاؤ‬ ‫میری آغوش میں‬ ‫تمہارے اشکوں کو پناہ ملے گی‬ ‫ہر بوند‬ ‫رشک لعل فردوس بریں ہو گی‬ ‫اک قظرہ مری آنکھ سے ٹپکا‬ ‫میں نے دیکھا‬ ‫شاہ اور شاہ والوں کی گردن میں‬ ‫بے نصیبی کی زنجیر پڑی ہوئی تھی‬

‫کس منہ سے‬

‫چلم بھرتے ہات‘ اٹھ نہیں سکتے‬ ‫ہونٹوں پر فقیہ عصر نے‬


‫چپ رکھ دی ہے‬ ‫کتنا عظیم تھا وہ شخص‬ ‫گلیوں میں‬ ‫رسولوں کے لفظ بانٹتا رہا‬ ‫ان بولتے لفظوں کو‘ ہم سن نہ سکے‬ ‫آنکھوں سے‘ چن نہ سکے‬ ‫ہمارے کانوں میں‘ جبر کی پوریں رہیں‬ ‫آنکھوں میں خوف نے پتھر رکھ دیے‬ ‫ہم جانتے ہیں‘ وہ سچا تھا‬ ‫قول کا پکا تھا‬ ‫مرنا تو ہے‘ ہمیں یاد نہ رہا‬ ‫ہم جانتے ہیں اس نے جو کیا‬ ‫ہمارے لیے کیا‬ ‫جیا تو ہمارے لیے جیا‬ ‫کتنا عجیب تھا‬ ‫زندہ الشوں کا دم بھرتا رہا‬


‫مصلوب ہوا ہم دیکھتے رہے‬ ‫نیزے چڑھا ہم دیکھتے رہے‬ ‫مرا جال راکھ اڑی ہم دیکھتے رہے‬ ‫اس کے کہے پر دو گام تو چال ہوتا‬ ‫کس منہ سے اب‬ ‫اس کی راہ دیکھتے ہیں‬ ‫ہم خاموش تماشائی‬ ‫مظلومیت کا فقط ڈھونگ رچاتے ہیں‬ ‫بے جان جیون کے دامن میں‬ ‫غیرت کہاں جو رن میں اترے‬ ‫یا پھر‬ ‫پس لب اس کی مدح ہی کر سکے‬ ‫چلو دنیا چاری ہی سہی‬ ‫آؤ‬ ‫اندرون لب دعا کریں‬ ‫ان مول سی مدح کہیں‬


‫حیات کے برزخ میں‬ ‫تالش معنویت کے سب لمحے‬ ‫صدیاں ڈکار گئیں‬ ‫چیتھڑوں میں ملبوس معنویت کا سفر‬ ‫اس کنارے کو چھو نہ سکا‬ ‫تاسف کے دو آنسو‬ ‫کاسہءمحرومی کا مقدر نہ بن سکے‬ ‫کیا ہو پاتا کہ شب کشف‬ ‫دو رانوں کی مشقت میں کٹ گئی‬ ‫صبح دھیان‬ ‫نان نارسا کی نذر ہوئی‬ ‫شاعر کا کہا‬ ‫بےحواسی کا ہم نوا ہوا‬ ‫دفتر رفتہ شاہ کے گیت گاتا رہا‬


‫وسیبی حکائتیں بےوقار ہوئیں‬ ‫قرطاس فکر پہ نہ چڑھ سکیں‬ ‫گویا روایت کا جنازہ اٹھ گیا‬ ‫ضمیر بھی چاندی میں تل گیا‬ ‫مجذوب کے خواب میں گرہ پڑی‬ ‫مکیش کے نغموں سے طبلہ پھسل گیا‬ ‫درویش کے حواس بیدار نقطے‬ ‫ترقی کا ڈرم نگل گیا‬ ‫نہ مشرق رہا نہ مغرب اپنا بنا‬ ‫آخر کب تک یتیم جیون‬ ‫حیات کے برزخ میں‬ ‫شناخت کے لیے بھٹکتا رہے‬

‫سورج دوزخی ہو گیا تھا‬


‫گدھ‬ ‫خلیج کے بیماروں کی سانسیں گن رہے ہیں‬ ‫الشوں کو کفن دفن‬ ‫غسل کی ضرورت نہیں ہو گی‬ ‫اگست ‪ ٠٩٤٥‬کو ‪٠٢‬‬ ‫سورج دوزخی ہو گیا تھا‬ ‫گنگا سے اٹھتے بخارات‬ ‫دعا کا اٹھتے ہات‬ ‫گالب کی مہک‬ ‫مٹی سے رشتے‬ ‫کب پوتر رہے ہیں‬ ‫درگاوتی کی عصمت مرنے کے بعد‬ ‫اپنوں کے ہات لٹ گئی تھی‬ ‫‘ہم تو‬ ‫حنوط شدہ ممیاں ہیں‬


‫رگوں میں لہو نہیں‬ ‫کیمیکل دوڑتا ہے کہ‬ ‫آکسیجن جلتی نہیں‬ ‫جلنے میں معاون ہے‬ ‫ڈوبتی سانسوں کو‬ ‫مسیحا کی ضرورت نہیں‬ ‫گوشت گدھ کھائیں گے‬ ‫‘ہڈیاں‬ ‫فاسفورس کی کانیں ہیں‬ ‫یہودی البی کے گلے کھلے ہیں‬ ‫بٹنوں کی سخت ضرورت ہے‬

‫فیکٹری کا دھواں‬


‫اس نے کہا‬ ‫یہ سب کس کے لیے لکھتے ہو‬ ‫میں نے کہا‬ ‫تمہارے لیے‬ ‫بوال‬ ‫مگر مجھے تم سے گھن آتی ہے‬ ‫میلے میلے لفظوں میلے میلے جذبوں سے‬ ‫روشنیوں کی بات کرو‬ ‫حسن کی کہو‬ ‫حسین آنکھوں سے‬ ‫ٹپکتی شاب کی بات کرو‬ ‫کانچ سے بدنوں سے‬ ‫ٹپکتے رومان کی بات کرو‬ ‫بہاروں میں مچلتے شباب کی بات کرو‬ ‫روٹی ملے گی‘ شہرت ملے گی‬ ‫بھوک اور افالس‬


‫کیا رکھا ہے چیٹھڑوں کی دنیا میں‬ ‫سوچتا ہوں‬ ‫شہرت لے لوں‬ ‫روٹی لے لوں‬ ‫کئی روز کی بھوک ہے‬ ‫لباس بھی الجھا الجھا ہے‬ ‫سسکتے بلکتے جذبوں کو‬ ‫بےلباسی کی دنیا میں رہنے دوں‬ ‫پھر سوچ کے افق سے‬ ‫اک شہاب ثاقب ٹوٹا‬ ‫زہریلی سوچ کا چہرا‬ ‫فیکٹری کی چمنی سے‬ ‫اٹھتے دھویں میں مدغم ہو گیا‬

‫مطلع رہیں‬


‫مسز ریحانہ کوثر‬ ‫بال دکھ تحریر کیا جاتا ہے‬ ‫آپ کی خدمات کی اب یہاں‬ ‫ضرورت نہیں رہی‬ ‫آپ کی بریزئر کا سائز بڑھ گیا ہے‬ ‫آنکھوں کے گرد حلقے بھی ہیں‬ ‫بالوں میں چاندی آ گئی ہے‬ ‫رخسار پچک گئے ہیں‬ ‫روزن نشاط کی فراخی سے‬ ‫پرفومنس گھٹ گئی ہے‬ ‫سابقہ کارگزاری کے پیش نظر‬ ‫کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے‬ ‫آپ کی بیٹی ظل ہما کو‬ ‫آپ کی سیٹ پر‬ ‫آپ کے ہی پے سکیل پر‬


‫مع مروجہ االؤنسز‬ ‫اکتیس مئی کلوزنگ ٹائم تک‬ ‫تعینات کیا جا سکتا ہے‬ ‫آپ کو ہدایت کی جاتی ہے‬ ‫تاریخ مقررہ کے اندر‬ ‫زیر دستخطی کو مطلع کریں‬ ‫اپنے واجبات کی وصولی کے لیے‬ ‫زیر دستخطی کے‬ ‫حاضر ہونے کی ضرورت نہیں‬ ‫یہ خدمت اب‬ ‫آفس سپرٹنڈنٹ انجام دیتا ہے‬ ‫فائلوں کی سیاہی سپیدی کا‬ ‫وہ ہی تو مالک ہے‬ ‫مطلع رہیں‬ ‫ضروری نوت‬ ‫آپ اپنی کنگی اور نیل پالش‬


‫ہمارے میز پر کل کی امید میں‬ ‫بھول گئی ہیں‬ ‫یہ چیزیں‬ ‫جن کی آپ کو اشد ضرورت ہو گی‬ ‫مس ظل ہما کو‬ ‫آفس ٹائم کے بعد بھیج کر‬ ‫منگوا سکتی ہیں‬ ‫کہ ان کی اب یاں ضرورت نہیں رہی‬ ‫مطلع رہیں‬

‫امید ہی تو زندگی ہے‬

‫زکرا بولے جا رہی تھی‬ ‫مسلسل بولے جا رہی تھی‬ ‫شاید آتی صدیوں کے غم مٹا رہی تھی‬


‫خوب گرجی خوب برسی‬ ‫اس کے گرجنے میں دھواں‬ ‫برسنے میں مسال دھار تھی‬ ‫رانی توپ کے گرجنے سے‬ ‫حمل گر جاتے تھے‬ ‫برسنے سے‬ ‫بستیاں زمین بوس ہوتی تھیں‬ ‫اس کے برسنے سے‬ ‫سکون کے شہر آگ پکڑتے تھے‬ ‫گرجنے سے حواس‬ ‫بدحواس ہوتے تھے‬ ‫کس سے گلہ کرتا‬ ‫جھورا مردود مر چکا تھا‬ ‫تھیال مردود آج بھی‬ ‫رشوت ڈکارتا ہے‬ ‫وہ چپ تھا‬


‫مسلسل چپ تھا‬ ‫منہ میں زبان رکھتا تھا‬ ‫پھر بھی چپ تھا‬ ‫چپ میں شاید اسے سکھ تھا‬ ‫جو بھی سہی‬ ‫یہ سوال نوشتہءدیوار بنا تھا‬ ‫وہ چپ تھا تو کیوں چپ تھا‬ ‫ہر زبان پر یہ ہی سوال تھا‬ ‫وہ بزدل تھا‬ ‫یا صبر میں باکمال تھا‬ ‫کچھ اسے زن مرید کہتے تھے‬ ‫کسی کے خیال میں‬ ‫مرد کی انا کا وہ کھال زوال تھا‬ ‫وہ تو خیر زیر عتاب تھا ہی‬ ‫اس کے پچھلے بھی‬ ‫کوسنوں کے دفتر چڑھ رہے تھے‬


‫اس سے کوئی کیوں پوچھتا‬ ‫ہر دوسرے‬ ‫امریش پوری سے ڈائیالگ‬ ‫سننے کو ملتے تھے‬ ‫نمرود وقت بھی‬ ‫کانوں پر پہرے نہیں رکھ سکتا‬ ‫پہلے ریڈیو ہی تو تھا‬ ‫ٹی وی تو کل کی دین ہے‬ ‫کان سنتے تھے‬ ‫تصور امیج بناتا تھا‬ ‫آخر چپ تھا تو کیوں چپ تھا‬ ‫اک روز میں نے پوچھ ہی لیا‬ ‫میرا کہا‬ ‫اس کے قہقہوں میں اڑنے لگا‬ ‫میں نے سوچا‬ ‫کہنا کچھ تھا‬


‫شاید کہہ کچھ اور گیا ہوں‬ ‫بھول میں‬ ‫کسی سردار کا لطیفہ کہہ گیا ہوں‬ ‫بھلکڑ ہوں‬ ‫یہ قول زریں مری زوجہ کا ہے‬ ‫زوجہ کے کہے کو غلط کہوں‬ ‫کہوں تو کس بل پر‬ ‫اگلے سے ناسہی اس جہان سے جاؤں گا‬ ‫مہر بہ لب رہا کہ‬ ‫دیواروں کو بھی کان ہوتے ہیں‬ ‫مجھے کیا پڑی غیروں کی اپنے سر لوں‬ ‫میں نے بھی چپ میں عافیت جانی‬ ‫ہم کیؤں پرائی آگ میں کودیں‬ ‫مرے لیے خالہ کی لگائی ہی کافی ہے‬ ‫خود چل بسی‬ ‫میں بھی چل بسوں سامان کر گئی ہے‬


‫پھر وہ دفعتا چپ ہو گیا‬ ‫مری طرف‬ ‫بےبس بے کس نظروں سے دیکھنے لگا‬ ‫چند لمحے خامشی رہی‬ ‫جاہل جانتے ہو‬ ‫بولنے میں کتنے اعضا خرچ ہوتے ہیں‬ ‫حیرت ہوئی‘ بھال یہ کیا جواب ہوا‬ ‫غصہ میں بولنے سے‬ ‫چودہ اعضا کشٹ اٹھاتے ہیں‬ ‫مرا کیا ہے‬ ‫ادھر سے سنتا ہوں ادھر سے نکال دیتا ہوں‬ ‫چہرے کے بدلتے رنگوں کا اپنا ہی سواد ہوتا ہے‬ ‫ہاں سٹپٹانے میں‬ ‫کھونے کے آثار ہوتے ہیں‬ ‫گھورنے بسورنے میں‬ ‫کہکشانی اطوار ہوتے ہیں‬


‫شخص پڑھو کہ حیات کے‬ ‫تم پر پوشیدہ اطوار کھلیں‬ ‫ہاں غصہ میں‬ ‫دماغ کی کوئی نس پھٹ سکتی ہے‬ ‫خیر یہ وقت خیر نہیں آئے گا‬ ‫دماغ ہوتا تو صبر کا جہاں آباد کرتی‬ ‫دل کا دورہ بھی بعید از قیاس نہیں‬ ‫اس امید پر ہی تو جی رہا ہوں‬ ‫کبھی تو غصہ کے افق سے‬ ‫خوشی کا چاند مسکرائے گا‬ ‫پھر مستی میں آ کر گنگنائے گا‬ ‫آ گئی بہار گلوں کا رنگ اور بھی نکھر گیا‬ ‫پیاسی آتمائیں آ رہی ہیں روپ بدل بدل کے‬ ‫میں پڑھا لکھا سہی‬ ‫اپنی اوقات میں ہوں تو مزدور‬ ‫زوجہ گزیدہ ہوں‬


‫بھاشا فلسفے کی میں کیا جانوں‬ ‫بوال‪ :‬جاؤ امید پر زندہ رہو‬ ‫امید پر میں زندہ ہوں‬ ‫امید ہی تو زندگی ہے‬

‫میٹھی گولی‬

‫ہم کچھ دوست‬ ‫ہوٹل میں چائے پیتے ہیں‬ ‫اور اکثر پیتے ہیں‬ ‫سچی پوچھو تو‬ ‫چائے پر ہی تو جیتے ہیں‬ ‫زندگی میں ورنہ‬ ‫چائے کے سوا رکھا کیا ہے‬


‫بھوک کا پرنا پیاس کا پٹکا‬ ‫ہماری زیست کا یہ ہی اثاثہ ہے‬ ‫جسے دیکھو رکھے ہے ہزار گز کا نٹکا‬ ‫امیر وقت‬ ‫بات گریبوں کی کرتا ہے‬ ‫کھیسہ مگر اپنا بھرتا ہے‬ ‫ہر بولتا‬ ‫سر بازار نیالم ہوتا ہے‬ ‫سر اس کے‬ ‫کوئی ناکوئی الزام ہوتا ہے‬ ‫بےکیے خوب بدنام ہوتا ہے‬ ‫امیر وقت کو کون پوچھے‬ ‫کہا اس کا بےلگام ہوتا ہے‬ ‫کوئی ایشور کا اسے اوتار کہے‬ ‫اس کی کرتوتوں سے بےخبر‬ ‫مقدس روحوں کا اسے ساالر سمجھیں‬


‫یہ ہی نہیں‬ ‫نوع انسانی کا وقار سمجھیں‬ ‫سب چمچے اسے کان رزق کہتے ہیں‬ ‫مورکھ بھی اسی کے گن گاتا ہے‬ ‫حیرت تو یہ ہے‬ ‫جس خوبی کا وہ تاعمر قاتل رہا‬ ‫اسی خوبی کو‬ ‫مورکھ اس کی گرہ میں رکھتا رہا‬ ‫اسے جینا ہے‬ ‫یہ ہی اس کا طور رہا‬ ‫یہ کوئی نئی بات نہیں‬ ‫ہر دور اہل ثروت کا دور رہا‬ ‫کوئی بھوک مرتا ہے مرے‬ ‫انہیں اس سے کیا‬ ‫ان کی بال سے‬ ‫گریب کے بچے بےلباس ہیں‬


‫وہ کیا کریں انہیں کیا‬ ‫ان کا اس سے کوئی کام نہیں‬ ‫مالک تو ہے نا‬ ‫گریب کا سنور جاتا ہے دعا سے‬ ‫خیر چھوڑیے ان باتوں کو‬ ‫کوئی نئی بات ہو تو بات کریں‬ ‫جو وقت گزر گیا سو گزر گیا‬ ‫ان بےگھر بےبستر راتوں کو‬ ‫یاد کیوں کریں‬ ‫ہاں بس اتنا دکھ ہے‬ ‫گریب کی روکھی سوکھی پر‬ ‫پنجہ رکھ کر‬ ‫تاج محل کبھی نور محل تعمیر ہوا‬ ‫شاہ پھر بھی دیالو ہے کرپالو ہے‬ ‫پھر بھی لوگ ان سے آسیں باندھیں‬ ‫ان کی آنکھوں میں ٹک تالشیں‬


‫امید کی قاشیں کب یک جا ہوتی ہیں‬ ‫پتی پتی گالب بُنے‬ ‫قدموں میں اس کے بکھری پتیاں‬ ‫حسن کے ماتھے پر ناقدری کا ٹکا‬ ‫قدموں میں بکھری‬ ‫پتیوں کو کون چنے‬ ‫جو چننے بیٹھے گا‬ ‫پولے کھائے گا۔‬ ‫خیر چھوڑیں‬ ‫میں کیا ظلم و ستم کی رام کہانی لے بیٹھا ہوں‬ ‫چائے کی مست پیالی میں‬ ‫ہمارا امریکی طور نہیں رہا‬ ‫کبھی میں کبھی وہ‬ ‫ادائیگی کر دیتے ہیں‬ ‫ہم ایک کشتی کے مسافر ہیں‬ ‫پھر تو میں کیسی‬


‫اک روز کیا ہوا‬ ‫بچہ جو چائے ال کر دیتا تھا‬ ‫ہاتھ سے اس کے برتن گرے اور ٹوٹ گئے‬ ‫پھر کیا تھا‬ ‫مالک نے وہ مارا‬ ‫اشک فرشتوں کے بھی گرے ہوں گے‬ ‫وہ دن اس کے‬ ‫الف انار بے بکری تے تختی پڑھنے کے تھے‬ ‫بھوک اسے وہاں الئی تھی‬ ‫ہللا جانے کتنی مجبور اس کی مائی تھی‬ ‫سچی بات تو یہ ہے‬ ‫مری چائے حرام ہوئی‬ ‫میں بےبس کنگال کیا کر سکتا تھا‬ ‫بس دو بےبس اشک بہا سکتا تھا‬ ‫میرا یہ ہی کل سرمایا تھا‬ ‫زیست میں یہ ہی کچھ کمایا تھا‬


‫جب برتن لینے وہ آیا‬ ‫میں نے اسے گلے لگایا‬ ‫رویا پیار کیا منہ ماتھا چوما‬ ‫چپ چاپ وہاں سے اٹھ آیا‬ ‫جہاں نمرود کی شریعت چلتی ہو‬ ‫وہاں پھر کیا آنا کیا جانا‬ ‫بعد مدت مرا اس کا ملنا ہوا‬ ‫ہماری آنکھیں ملیں‬ ‫ہم اک دوجے کو پہچان گئے‬ ‫وہ چھوٹا تھا میں نیچے بیٹھ گیا‬ ‫گلے لگایا خوب پیار کیا دعا دی‬ ‫مری گرہ کی یہ ہی اوقات تھی‬ ‫وہ ہاں وہ بچہ‬ ‫نوشیرواں سے کہیں بڑھ کر دیالو نکال‬ ‫میٹھی گولی اس کے منہ میں تھی‬ ‫اس نے اپنا وہ لقمہ‬


‫مرے منہ میں ڈاال‬ ‫خوش ہو کر مرے منہ کو دیکھا‬ ‫مرے منہ میں وہ تھا‬ ‫جو جنت سوگ میں بھی نہ ہو گا‬ ‫مرے چہرے پر‬ ‫خوشی کے لڈو پھوٹ رہے تھے‬ ‫اس کے پاس ایک اور میٹھی گولی تھی‬ ‫جو اس نے مرے ہاتھ پر رکھ دی‬ ‫اکبر ہو کہ کوئی اور شاہ‬ ‫کیا کسی کو دیں گے‬ ‫مہان تھا دیا کا پردھان تھا‬ ‫وہ معصوم بچہ‬ ‫شاہوں کی شاہی ایک طرف‬ ‫الفت پریم سے لبریز‬ ‫میٹھی گولی ایک طرف‬ ‫تول میں کہیں بھاری ہے‬


‫گو اک عرصہ ہوا‬ ‫اس میٹھی گولی کا مزا‬ ‫مری رگ وپے میں‬ ‫آج بھی رقصاں ہے‬ ‫پریم و الفت کے آب زم زم میں بھیگی‬ ‫ہات پر اس بچے کی رکھی میٹھی گولی‬ ‫آتی نسلوں کے لیے میں نے رکھ دی ہے‬ ‫کہ حجت رہے‬ ‫محبتوں کا کوئی مول نہیں‬ ‫یہ جیتی ہیں مرتی نہیں‬ ‫لوگوں کو یہ‬ ‫خیر کی شکتی بردان میں دیتی ہیں‬

‫دو بیلوں کی مرضی ہے‬


‫تمثالی وعالمتی افسانہ‬ ‫بندر کے بچوں کے‬ ‫آتے کل کی بھوک کے غم میں‬ ‫وہ اور یہ‬ ‫آدم کے زخموں سے چور‬ ‫بھوک سے نڈھال‬ ‫قول کے سچے‘ پکے‬ ‫بچوں پر‬ ‫بھونکتے ٹونکتے‬ ‫زخمی سؤر بھوکے کتے‬ ‫ٹوٹ پڑے ہیں‬ ‫ظلم کے ہر حامی کے منہ میں‬ ‫خون کی ٹیکسال سے نکلے ڈالر‬ ‫ہاتھ میں وعدوں کے پرزے ہیں‬


‫ظلم کی نندا کرنے والے‬ ‫توپوں کی زد میں ہیں‬ ‫جبر کے ٹوکے میں‬ ‫اپنی سانسیں گنتے ہیں‬ ‫ہونٹوں سے باہر آتی جیبا‬ ‫خنجر کی کھا جا ہے‬ ‫گھورتی آنکھیں‬ ‫اگنی کا رن ہے‬ ‫سچ تو یہ ہے‬ ‫کمزور باشندے‬ ‫پشو جناور کا اترن اور‬ ‫ماس خور درندوں کا جیون ہیں‬ ‫لومڑ اور گیڈر بھی‬ ‫گھاس پھوس سے نفرت کرتے ہیں‬ ‫اک کا جیون‬ ‫دوجے کی مرتیو پر اٹھتا ہے‬


‫دیا اور کرپا کے سب جذبے‬ ‫شوگر کو نائٹروکولین ہیں‬ ‫اب دو بیلوں کی مرضی ہے‬ ‫اک ساتھ چلیں‬ ‫بے خوفی کا جیون جئیں‬ ‫یا پھر‬ ‫دو راہوں کے راہی ٹھہریں‬ ‫کتوں سؤروں کا فضلہ بن کر‬ ‫بے نامی کی نالی میں بہہ جائیں‬

‫ذات کے قیدی‬

‫قصور تو خیر دونوں کا تھا‬ ‫اس نے گالیاں بکیں‬


‫اس نے خنجر چالیا‬ ‫سزا دونوں کو ملی‬ ‫وہ جان سے گیا‬ ‫یہ جہان سے گیا‬ ‫اس کے بچے یتیم ہوئے‬ ‫اس کے بچے گلیاں رولے‬ ‫اس کی ماں بینائی سے گئی‬ ‫اس کی ماں کے آنسو تھمتے نہیں‬ ‫اس کا باپ کچری چڑھا‬ ‫اس کا باپ بستر لگا‬ ‫دونوں کنبے کاسہء گدائی لیے‬ ‫گھر گھر کی دہلیز چڑھے‬ ‫بے کسی کی تصویر بنے‬ ‫بے توقیر ہوئے‬ ‫ضبط کا فقدان‬ ‫بربادی کی انتہا بنا‬


‫سماج کے سکون پر پتھر لگا‬ ‫قصور تو خیر دونوں کا تھا‬ ‫جیو اور جینے دو کے اصول پر‬ ‫جی سکتے تھے‬ ‫اپنے لیے جینا کیا جینا‬ ‫دھرتی کا ہر ذرہ‬ ‫تزئین کی آشا رکھتا ہے‬ ‫ذات کے قیدی‬ ‫مردوں سے بدتر‬ ‫سسی فس کا جینا جیتے ہیں‬

‫چل' دمحم کے در پر چل‬ ‫اک پل‬ ‫آکاش اور دھرتی کو‬


‫اک دھاگے میں بن کر‬ ‫رنگ دھنک اچھالے‬ ‫دوجا پل‬ ‫جو بھیک تھا پہلے کل کی‬ ‫کاسے سے اترا‬ ‫ماتھے کی ریکھا ٹھہرا‬ ‫کرپا اور دان کا پل‬ ‫پھن چکر مارا‬ ‫گرتا ہے منہ کے بل‬ ‫سلوٹ سے پاک سہی‬ ‫پھر بھی‬ ‫حنطل سے کڑوا‬ ‫اترن کا پھل‬ ‫الفت میں کچھ دے کر‬ ‫پانے کی اچھا‬ ‫حاتم سے ہے چھل‬


‫غیرت سے عاری‬ ‫حلق میں ٹپکا‬ ‫وہ قطرہ‬ ‫سقراط کا زہر‬ ‫نہ گنگا جل‬ ‫مہر محبت سے بھرپور‬ ‫نیم کا پانی‬ ‫نہ کڑا نہ کھارا‬ ‫وہ تو ہے‬ ‫آب زم زم‬ ‫اس میں رام کا بل‬ ‫ہر فرزانہ‬ ‫عہد سے مکتی چاہے‬ ‫ہر دیوانہ عہد کا بندی‬ ‫مر مٹنے کی باتیں‬ ‫ٹالتے رہنا‬


‫کل تا کل‬ ‫جب بھی‬ ‫پل کی بگڑی کل‬ ‫در نانک کے‬ ‫بیٹھا بےکل‬ ‫وید حکیم‬ ‫مالں پنڈٹ‬ ‫پیر فقیر‬ ‫جب تھک ہاریں‬ ‫جس ہتھ میں وقت کی نبضیں‬ ‫چل‬ ‫دمحم کے در پر چل‬

‫عطائیں ہللا کی کب بخیل ہیں‬


‫مدحیہ کہانی‬ ‫حضور کے قدموں کی برکت دیکھیے‬ ‫آنکھیں جو قدم بوس رہیں‬ ‫کمال ہوئیں‬ ‫رشک ہالل ہوئیں‬ ‫تہی بر مالل ہوئیں‬ ‫اس سے بڑھ کر یہ‬ ‫بالل ہوئیں‬ ‫ان آنکھوں نے موت کو حیات بخشی‬ ‫زمینی خداؤں کو بندگی بخشی‬ ‫ہر لمحہ ان سے اخوت ٹپکی‬ ‫شریعت ٹپکی‬ ‫طریقت ٹپکی‬ ‫حقیقت ٹپکی‬ ‫میں نے سنا تھا‬


‫شاہ حسین کے دربار کے عقب میں‬ ‫حضور کے قدموں کے نشان‬ ‫اہل ظرف نے محفوظ کر رکھے ہیں‬ ‫گناہ گار سیاہ کار سہی‬ ‫شوق لیکن مجھے وہاں لے گیا‬ ‫ڈرتے ڈرتے حضرت کے دربار میں داخل ہوا‬ ‫بساط بھر ادب سے سالم کیا‬ ‫درود پڑھا دعا کی اور دربار سے باہر آ گیا‬ ‫وجود میں ہمت باندھی‬ ‫ہر بری کرنی کی معافی مانگی‬ ‫تب کہیں جا کے دربار کے عقب میں گیا‬ ‫حضور کے قدموں کے نشان‬ ‫بڑے احترام بڑی ّعقیدت سے محفوظ تھے‬ ‫تازہ پھولوں سے سجے تھے‬ ‫لوگ بھی وہاں کھڑے تھے‬ ‫ہر آنکھ میں محبت تھی ّعقیدت تھی‬


‫دل بےشک طواف الفت میں تھے‬ ‫ہاں کچھ لب بھی متحرک تھے‬ ‫انگلیاں شیشہءپا کو چھو رہی تھیں‬ ‫سوچا آگے بڑھوں‬ ‫شیشہءنقش پا کو چوم لوں‬ ‫پھر سوچا مرے لب اس قابل کہاں‬ ‫انگلیوں سے ہی شیشہء پا چھو لیتا ہوں‬ ‫انگلیوں میں مگر اتنا دم کہاں‬ ‫خواہش ابھری قدموں کو چھوتی‬ ‫پھول کی اک پتی ہی مل جاتی‬ ‫دونوں جہاں گویا مل جائیں گے‬ ‫گناہ گا ہو کہ نیکوکار‬ ‫عطائیں ہللا کی کب بخیل ہیں‬ ‫ایسا اگر ہوتا‬ ‫تو مجھ سے بھوکے مر جاتے‬ ‫تالہ اس شیشے کے بکسے کا‬


‫کھوال خدمت گار نے‬ ‫حضور کے قدموں کو چھوتی‬ ‫اک پتی مرے ہات پر رکھ دی‬ ‫حیرت ہوئی‘ میں اور یہ فضل بےبہا‬ ‫دنیا و عقبی کی عطا‬ ‫سجدہ شکر کا مجھے کب ڈھنگ رہا ہے‬ ‫خدا جانتا تھا کہ اس کا بندہ ممنون ہے‬ ‫میں نے وہ پتی بصد شکر‬ ‫سدا خالی رہتے پرس میں ڈال لی‬ ‫مرے حضور کے قدموں کی برکت دیکھیے‬ ‫مری میں مر گئی‬ ‫مرا پرس بھی خالی نہیں رہتا‬ ‫راز یہ کھل گیا ہے‬ ‫قدموں میں ہی حضور کے‬ ‫دونوں جہاں ہیں‬ ‫جاؤں گا اگر حضور سے‬


‫کسی جہاں کا نہ رہوں گا‬ ‫جو حضور کے قدم لیتا رہے گا‬ ‫اویس بنے گا‬ ‫منصورٹھہرے گا‬ ‫سرمد لقب پائے گا‬

‫کرپانی فتوی‬

‫فیقا ہمارے محلے کا درزی ہے‬ ‫ہے تو سکا ان پڑھ‬ ‫سوچ میں مگر فالطو لگتا ہے‬ ‫دور کی کوڑی ڈھونڈ کے التا ہے‬ ‫سوچ ہی الگ تر نہیں‬ ‫کپڑے بھی بال کے سیتا ہے‬


‫الجھا الجھا سڑا بجھا بھی رہتا ہے‬ ‫ہللا جانے گھر والی سے‬ ‫نبھا اس کا کیسے ہوتا ہے‬ ‫بےشک وہ اس کی عجیب باتوں سے‬ ‫گھبرا جاتی ہو گی‬ ‫پلے جو ُپڑ گیا‘ رو دھو کر نبھاتی ہو گی‬ ‫کم ہی لوگ اس کی باتوں پر غور کرتے ہیں‬ ‫ہاں جو کرتے ہیں اس کے ہو جاتے ہیں‬ ‫بڑا زیرک ہے دانا ہے‬ ‫بات کرتے بندہ کوبندہ دیکھ لیتا ہے‬ ‫باتوں کی کھٹی کب کھاتا ہے‬ ‫ڈٹ محنت کرتا ہے‬ ‫خوب کماتا ہے‬ ‫اس روز سب چھوڑ چھاڑ کر‬ ‫چپ چاپ بستر پر لیٹا ہوا تھا‬ ‫خال میں بٹربٹر دیکھے جاتا تھا‬


‫پہلے سوچا بیمار ہے‬ ‫بیماروں کے طور کب ایسے ہوتے ہیں‬ ‫سوچا چلو حال چال پوچھ لیتے ہیں‬ ‫بیمار ہوا تو کوئی خدمت پوچھ لیتے ہیں‬ ‫میں اس کی دکان میں داخل ہو گیا‬ ‫سالم دعا کرکے بیٹھ گیا‬ ‫پوچھا کیا حال ہے‬ ‫کیوں بےکار میں لیٹے ہوئے ہو‬ ‫اٹھو شیر بنو‬ ‫کوئی دو چار تروپے بھرو‬ ‫آخر بات کیا ہے‬ ‫جو تم نے یہ حالت بنا رکھی ہے‬ ‫آ جی بات کیا ہونی ہے‬ ‫کل سے مسلسل سوچے جا رہا ہوں‬ ‫یہ کہہ کر وہ فالطو کی اوالد چپ ہو گیا‬ ‫کچھ دیر انتظار کیا کہ اب بولتا ہے‬


‫جب خامشی نہ ٹوٹی تو میں نے کہا‬ ‫منہ سے کچھ پھوٹو گے تو پتا چلے گا‬ ‫نبی نہیں ہوں جو مجھ پر وحی اتر آئے گی‬ ‫اس نے مری طرف دیکھا‬ ‫اور اداس لفظوں میں یوں گویا ہوا‬ ‫کاال ہو کہ چٹا‬ ‫شرقی ہو کہ غربی‬ ‫پنجابی ہو کہ عربی‬ ‫شعیہ ہو کہ وہابی‬ ‫چاہے اس سا ہو تول میں‬ ‫کھوٹا رہا ہو یا کھرا بول میں‬ ‫اس سے اسے کوئی غرض نہیں‬ ‫مسلماں کشی میں کہیں رائی بھر جھول نہیں‬ ‫ہر مسلمان کو ایک آنکھ سے دیکھتا ہے‬ ‫مطلب بری کے بعد‬ ‫اپنا چمچہ بھی توڑ دیتا ہے‬


‫اس کے قریبی گولی کی زد میں آ جاتے ہیں‬ ‫جو لینا ہوتا ہے لے لیتا ہے‬ ‫اس کے ہر دینے میں بھی لینا ہوتا ہے‬ ‫شلوار ٹخنوں سے اوپر ہو کہ نیچے‬ ‫ہاتھ چھوڑے یا باندھے‬ ‫داڑھی بڑی ہو کہ چھوٹی‬ ‫توند پتلی ہو کہ موٹی‬ ‫اسے اس سے کیا‬ ‫بس مسلمان ہو اتنا کافی ہے‬ ‫اس کے مجرم ہونے میں‬ ‫اس سے بڑا کوئی ثبوت نہیں‬ ‫یہ معاملہ مسلمانوں کا ہے‬ ‫اس کا نہیں‬ ‫وہ صرف اتنا جانتا ہے‬ ‫یہ مسلمان ہے‬ ‫اس کی گردن زنی ہونی چاہیے‬


‫مسلمانوں کا عقیدہ و نظریہ اس سے الگ تر ہے‬ ‫ان وہابی سنی شعیوں نے‬ ‫اپنے اپنے مولوی پالے ہیں‬ ‫بال کی توندیں وہ رکھتے ہیں‬ ‫شورےفا بڑے ہوٹلوں میں‬ ‫سائلوں کی گرہ سے کھاتے ہیں‬ ‫مولوی بھی باہر کی کھاتے ہیں‬ ‫دونوں اوروں کے پلے کی‬ ‫باہر سے گھر بھجواتے ہیں‬ ‫حلوہ ہو کہ ہو آوارہ مرغا‬ ‫توند اٹھائے بھاگے جاتے ہیں‬ ‫ہاں مگر کھیسہ میں کفر کا فتوی رکھتے ہیں‬ ‫مسلمانوں کے ہاں‬ ‫مسلمان کم پائے جاتے ہیں‬ ‫وہابی سنی شعیہ کی بہتات ہے‬ ‫کئی اور ایسوں کی برسات ہے‬


‫فقط چند لقموں کے لیے‬ ‫تفریق کے ایٹم بم‬ ‫کبھی ادھر کبھی ادھر گراتے ہیں‬ ‫تفریق کا بم‬ ‫ایٹم بم سے کہیں مہلک ہے‬ ‫آخر وہ دن کب آئیں گے‬ ‫وہابی رہیں گے نہ شعیہ سنی‬ ‫سب مسلمان ہوں گے‬ ‫اگر تفریق مٹ گئی‬ ‫تو اس کے ہر بم سے بچ جائیں گے‬ ‫ایکتا پیٹ کے بندوں کو‬ ‫کب خوش آتی ہے‬ ‫لڑانے مروانے کا شوق‬ ‫صدیوں سے چال آتا ہے‬ ‫وہ ان پڑھ درزی مسلسل بولتا رہا‬ ‫شاید پچھلے جنم میں‬


‫مدینہ کی گلیوں میں گھوما پھرا تھا‬ ‫اک ان پڑھ درزی کے سامنے‬ ‫مری بولتی بند تھی‬ ‫بات تو وہ ٹھیک کہہ رہا تھا‬ ‫لیٹا ہوا تھا‬ ‫کب پیٹ سے سوچ رہا تھا‬ ‫پیٹ سے نکلتی سوچ مسمانوں کو کھا گئی ہے‬ ‫مگر کیا کریں‬ ‫جو بولے گا مولوی کا کرپانی فتوی‬ ‫اسے کھا جائے گا‬ ‫اک درزی اور یہ سوچ‬ ‫یہاں کوئی باپ کے لیے نہیں سوچتا‬ ‫پوری امت کے لیے وہ سوچے جا رہا تھا‬ ‫سچ تو یہ ہے‬ ‫اس کا انداز فکر مجھے بھا گیا‬ ‫اس کا ہر لفظ قلب و نظر پر چھا گیا‬


‫جواب میں کیا کہتآ‬ ‫بجھے دل اور بھیگی آنکھوں سے‬ ‫میں واں سے اٹھ گیا‬ ‫مرے بس میں یہ ہی کچھ تھا‬ ‫میں بھال اور کیا کر سکتا تھا‬

‫مقدر‬ ‫ہیلو ہیلو‬ ‫کون‬ ‫شانتی‬ ‫کیا چاہتی ہو‬ ‫دوستی‬ ‫کر لو‬ ‫تمہاری کرخت نگاہوں سے ڈر لگتا یے‬


‫ہا۔۔۔ہا۔۔۔۔۔ہا۔۔۔۔۔ہا‬ ‫پگلی! نادان!‬ ‫گالب کانٹوں سے نبھا کرتا ہے‬ ‫تم بھی کر لو‬ ‫سسکیوں میں شانتی کی آواز ڈوب گئی‬ ‫بزدل‘ جاہل‘ دقیانوسی‬ ‫بارود تو امن کی ضمانت ہے‬ ‫زمانہ روایت کی لحد میں‬ ‫اتار دے گا تم کو‬ ‫اور تم‬ ‫سسک بھی نہ سکو گی‬ ‫جدید سکول میں چار دن گزار دیکھو‬ ‫ہیلو‘ سن رہی ہو نا‬ ‫ہاں سن رہی ہوں‬ ‫مگر یہ مجھ سے نہ ہو گا‬ ‫‘تو پھر جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬


‫تنہائی کے زنداں میں مقید رہو‬ ‫یہ ہی تمہارا مقدر ہے‬

‫دو بانٹ‬

‫جھورے کے سسر تھے کمال کے‬ ‫تامرگ سگے رہے مال کے‬ ‫کدھر سے آتا ہے چھوڑیے‬ ‫انگلی اٹھائے جو‬ ‫بال تکلف سر اس کا پھوڑیے‬ ‫تول کے بھی ان کے دو بانٹ تھے‬ ‫ایک سے لیتے تھے ایک سے دیتے تھے‬ ‫یہاں ایک پیر صاحب رہتے تھے‬ ‫نام ان کا کچھ اور ہے‬


‫پیار سے میں انہیں بابا دو بانٹ کہتا تھا‬ ‫برائیلر فروش کے ہاتھ کا گوشت‬ ‫خود پر حرام جانتے تھے‬ ‫روڑی کھا کر پال مرغا ہو کہ مرغی‬ ‫بڑے شوق سے کھاتے تھے‬ ‫جو ان کا شوق یاد رکھتے‬ ‫بافیض بس وہ ہی ہوتے تھے‬ ‫کمال کے طبع شفیق تھے‬ ‫بوڑھی ہو کہ کم صورت‬ ‫بیٹا کہہ کر بالتے‬ ‫سر پر پیار دے کر دعا دیتے‬ ‫کام کی چیز اگر ساتھ الئی ہو‬ ‫اندر بھجوا دیتے‬ ‫دولت کو جیب میں رکھنے کا‬ ‫انہیں کوئی شوق نہ تھا‬ ‫گھٹنے کے نیچے دبا کر رکھتے تھے‬


‫بڑے دیالو اور کرپالو تھے‬ ‫ہر عام چیز سے‬ ‫خلیفوں کی دنیا بساتے‬ ‫لنگر میں سے بےمایہ ادھر پڑا رہتا‬ ‫ہر ستھرا مگر اندر چال جاتا‬ ‫گویا اندر بھی راضی باہر بھی راضی‬ ‫بے داغ کپڑے ہوں اور پیٹ میں دال روٹی‬ ‫بات کچھ جچتی نہیں‬ ‫ہاں پیٹ میں ہو اگر دیسی مرغا‬ ‫تو ہی بات بنتی ہے‬ ‫گویا من بھی راضی تن بھی راضی‬ ‫جھورے کے سسر سے مماثل بات کی بات ہی کچھ اور تھی‬ ‫باصورت عورتیں انہیں خوش آتی تھیں‬ ‫اوپر سے‬ ‫چھوئی موئی سی ہوتیں تو‬ ‫پیچے لڑ جاتے تھے‬


‫یہ ہی اک بات تھی‬ ‫جس پر اندر اعتراض رہتا تھا‬ ‫وہ کیا جانے‬ ‫اک تو وہ پرانی تھی‬ ‫پیپا بھی تھی‬ ‫اوپر سے عادات میں بال ایانی تھی‬ ‫دیسی مرغا جب ڈکارا ہو‬ ‫ہر سو کنول چہروں کا نظارہ ہو‬ ‫تن من میں مستی آ ہی جاتی ہے‬ ‫مستی حواس کیا‬ ‫ایمان بھی کھا جاتی ہے‬ ‫جھورے کا سسر یاد میں اپنی‬ ‫دو بانٹ چھوڑ گیا‬ ‫اس کی بیٹی‬ ‫یہ دونوں لے کر خاوند کے گھر گئی‬ ‫پھر یہ ہی متاع جہیز لے کر‬


‫جھورے کے ساتھ نکل گئی‬ ‫طالق و نکاح کی اسے کیا ضرورت تھی‬ ‫دو بانٹ کا یہ ہی تو کمال ہے‬ ‫اصول و ضوابط سے آزادی دال دیتا ہے‬ ‫تاعمر مستی کی گزاری‬ ‫جھورا مر گیا قوالں بھی مر گئی‬ ‫شیخ تو حضور کے قدموں پر ہوتا ہے‬ ‫حیرت تو یہ ہے‬ ‫اس پیر کے ہاتھ‬ ‫قوالں کے جہیز کی یہ متاع پلید‬ ‫کیسے آئی‬ ‫یہ بات پکی ہے‬ ‫مائی جہیز میں نہیں الئی تھی‬ ‫سنا ہے کھاتی خوب تھی‬ ‫لیکن نیک اور پردہ میں رہتی تھی‬ ‫ممکن ہے‬


‫جھورے کے ہمسایا میں کبھی رہے ہوں‬ ‫وہاں سے چرا الئے ہوں‬ ‫یقین نہیں آتا‬ ‫پر کیا کریں‬ ‫چوروں کو مور پڑتے آئے ہیں‬

‫دو حرفی بات‬ ‫عادت نہ ماننے کی اچھی نہیں ہوتی‬ ‫جیتے جی مقدر اس کا بنتی ہے نیستی‬ ‫اس کے پیرو سدا زیر عتاب رہتے ہیں‬ ‫آگے بڑھتے قدم پیچھے کو آتے ہیں‬ ‫اپنی پہ اڑنا گھاٹے کا سودا ہے‬ ‫یہ بےجڑا پودا ہے‬ ‫ریت کی دیوار کیسے کھڑی کرو گے‬


‫بال ہنر گر دریا میں چھالنگ لگاؤ گے‬ ‫غوطے کھاؤ گے ڈوبو گے مرو گے‬ ‫شیطان اپنی پہ اڑا ہوا ہے‬ ‫صبح و شام لعنتیں ہی نہیں‬ ‫ہر لمحہ پتھر روڑے کھاتا ہے‬ ‫بس سچے دل سے توبہ ہی کرنی ہے‬ ‫ایسا لمبا چوڑا اس کا حساب کتاب نہیں‬ ‫پر کیا کریں‬ ‫شخص انا کی غالمی کیے جاتا ہے‬ ‫پھر بھی کہے جاتا ہے‬ ‫میں آزاد ہوں میں آزاد ہوں‬ ‫کہتا ہے یہ غیر کی داری نہیں‬ ‫میں کہتا ہوں انا کس کی پیرو ہے‬ ‫ہللا کے بنائے شخص کی یہ چیز نہیں‬ ‫برسوں سے‬ ‫میں اسے یہ ہی کہے جا رہا تھا‬


‫مری وہ کب مانتا تھا‬ ‫مرا کہا حرف آخر ہے‬ ‫یہ ہی اس کی ہٹ تھی‬ ‫مرا کہا کوئی الف لیلی نہ تھا‬ ‫دو حرفی بات تھی‬ ‫میں کہتا تھا‬ ‫کرنا اور ہونا میں فرق ہے‬ ‫وہ کہتا تھا‬ ‫ہونا کچھ نہیں کرنا ہی سب کچھ ہے‬ ‫ہونی کرنے سے ٹل جاتی ہے‬ ‫ہر بگڑی اس سے سنور جاتی ہے‬ ‫کئی بار بیمار پڑا‬ ‫میں کہتا رہا اب سناؤ‬ ‫کرنے اور ہونے میں بڑا فرق ہے‬ ‫جوابا کہتا بدپرہیزی کے سبب بیمار پڑا ہوں‬ ‫مری گرہ میں مال ہے‬


‫ہتھیار دوا دارو کا مرے ہاتھ ہے‬ ‫چنگا بھال ہو جاؤں گا‬ ‫عشق کی گرفت میں آیا‬ ‫اٹھنا بیٹھنا سونا جاگنا گنوایا‬ ‫روپیا پیسا بھی اس راہ میں لٹایا‬ ‫گرہ کی بھی کوئی حد ہوتی ہے‬ ‫کنگال ہوا تو معشوقہ وہ گئی‬ ‫بھوک ننگ کے نکاح میں کیوں آتی‬ ‫میں نے کہا کرنے کی‬ ‫اس سے بڑھ کر ناکامی اور کیا ہو گی‬ ‫ہونی کا تو اس میں عمل دخل ہی نہیں‬ ‫بھوکا ننگا ہو کر بھی‬ ‫اپنے کہے پر ڈٹا رہا‬ ‫کہنے لگا دولت ہاتھ کی میل ہے‬ ‫عورت پاؤں کی جوتی‬ ‫مری کرنی میں ہی کہیں چوک ہوئی ہے‬


‫ورنہ اس سالی کی ایسی کی تیسی‬ ‫محنت کروں گا اور کما لوں گا‬ ‫پھر اس سی بیسیوں‬ ‫مرے چرنوں میں ہوں گی‬ ‫اک روز‬ ‫میں نے سنا آخری سانسوں پر ہے‬ ‫میں اسے ملنے گیا‬ ‫حواس بگڑے ہوئے تھے‬ ‫چہرے کا رنگ بھی زرد پڑ گیا تھا‬ ‫میں نے کہا سناؤ بھیا کیسے ہو‬ ‫کیا سناؤں سانسیں گن رہا ہوں‬ ‫اب تو ہونی کو مانتے ہو‬ ‫یار اس میں ہونی کہاں سے آ گئی‬ ‫میں اپنی غلط کرنی کی بھگت رہا ہوں‬ ‫میں نے سوچا اب کچھ کہنا درست نہیں‬ ‫اس کے دل پر تو‬


‫ختم ہللا کی مہر لگی ہوئی تھی‬ ‫اسی شام ہونی کی گرفت میں آیا‬ ‫چل بسا‬ ‫جاتے ہوئے بھی نٹکا اس نے اوپر رکھا‬ ‫ہونی کیسے ٹل سکتی تھی‬ ‫کرنی کے ساتھ اگر ہونی کو بھی مانتا‬ ‫اس میں آخر اس کا کیا بگڑ جاتا‬ ‫مجنوں ہو کہ رانجھا‬ ‫کرنی کی کب کھٹی کھا سکے ہیں‬ ‫نکاح کرتے نہیں نکاح تو ہوتے آئے ہیں‬ ‫جوڑے آسمان پر بنتے ہیں‬ ‫زور زبردستی کے کام بگڑ جاتے ہیں‬

‫سوچ کے گھروندوں میں‬


‫علم و فن کے‬ ‫کالے سویروں سے‬ ‫مجھے ڈر لگتا ہے‬ ‫ان کے بطن سے‬ ‫ہوس کے ناگ جنم لیتے ہیں‬ ‫سچ کی آواز کو‬ ‫جو ڈس لیتے ہیں‬ ‫سہاگنوں کی پیاسی آتما سے‬ ‫ہوس کی آگ بجھاتے ہیں‬ ‫صالحیتوں کے چراغوں کی روشنی کو‬ ‫دھندال دیتے ہیں‬ ‫بجھا دیتے ہیں‬ ‫حق کے ایوانوں میں‬ ‫اندھیر مچا دیتے ہیں‬ ‫حقیقتوں کا ہم زاد‬ ‫اداس لفظوں کے جنگلوں کا‬


‫آس سے‬ ‫ٹھکانہ پوچھتا ہے‬ ‫انا اور آس کو‬ ‫جب یہ ڈستے ہیں‬ ‫آدمیت کی آرتھی اٹھتی ہے‬ ‫کم کوسی' بےہمتی بےاعتنائی کے شراپ کے سائے‬ ‫ابلیس کے قدم لیتے ہیں‬ ‫شخص کبھی جیتا کبھی مرتا ہے‬ ‫کھانے کو عذاب ٹکڑے‬ ‫پینے کو تیزاب بوندیں ملتی ہیں‬ ‫خود کشی حرام سہی‬ ‫مگر جینا بھی تو جرم ٹھہرا ہے‬ ‫ستاروں سے لبریز چھت کا‬ ‫دور تک اتا پتا نہیں‬ ‫ہوا ادھر سے گزرتے ڈرتی ہے‬ ‫بدلتے موسموں کا تصور‬


‫شیخ چلی کا خواب ٹھہرا ہے‬ ‫یہاں اگر کچھ ہے‬ ‫تو‪'...........‬‬ ‫منہ میں زہر بجھی تلواریں ہیں‬ ‫پیٹ سوچ کا گھر‬ ‫ہات بھیک کا کٹورا ہوئے ہیں‬ ‫بچوں کے کانچ بدن‬ ‫بھوک سے‬ ‫کبھی نیلے کبھی پیلے پڑتے ہیں‬ ‫اے صبح بصیرت!‬ ‫تو ہی لوٹ آ‬ ‫کہ ناگوں کے پہرے‬ ‫کرب زخموں سے‬ ‫رستا برف لہو‬ ‫تو نہ دیکھ سکوں گا‬ ‫سچ کے اجالوں کی حسین تمنا‬


‫مجھے مرنے نہ دے گی‬ ‫اور میں‬ ‫اس بےوضو تمنا کے سہارے‬ ‫کچھ تو سوچ سکوں گا‬ ‫سوچ کے گھروندوں میں‬ ‫زیست کے سارے موسم بستے ہیں‬ ‫قاضی جرار حسنی‬

‫‪1974‬‬ ‫کیا یہ کافی نہیں‬

‫ہللا بخشے نابخشے ہللا کی مرضی‬ ‫یہاں اک حاجی صاصب ہوا کرتے تھے‬


‫پنج وقتے تھے‬ ‫ہاں صدقہ زکوت خیرت میں‬ ‫کافی بخل کرتے تھے‬ ‫حسیں بیبیوں کا دل کب توڑتے تھے‬ ‫دوریاں کم کرکے‬ ‫ان سے رشتے جوڑتے تھے‬ ‫ان کا کہنا تھا سچ بولو پورا تولو‬ ‫لوگوں کے لیے یہ ہی نصحیت تھی‬ ‫یہ الگ بات ہے‬ ‫ان کے کہے پر یقین کرنا‬ ‫سو کا گھاٹا تھا‬ ‫کہا کب کرتے تھے‬ ‫کبھی اس سے الٹا بھی چل جاتے تھے‬ ‫اک عاشق اپنی معشوقہ سے کہتا رہا‬ ‫ستارے تمہارے لیے توڑ الؤں گا‬ ‫بپھرے دریا کی لہروں سے لڑ جاؤں گا‬


‫اک روز فون پر اس کی معشوقہ نے کہا‬ ‫آج باغ میں ملو‘ مجھے تم سے اک کام ہے‬ ‫جواب میں اس نے کہا‬ ‫کیوں نہیں‘ آؤں گا اگر بارش نہ پڑی‬ ‫ہمارے یہاں اک لیڈر ہوا کرتے تھے‬ ‫تھے بال کے خوش خیال‬ ‫لباس میں اپنی مثال آپ تھے‬ ‫کار سے باہر جب قدم رنجہ فرماتے‬ ‫لوگ ان کی عیار معصومیت پر مر مر جاتے‬ ‫پھول تو پھول جئے جئے کار نثار کرتے‬ ‫کہا کرتے تھے‬ ‫شہر کو پیرس بنا دوں گا‬ ‫شہر‘ شہر نہ بن سکا پیرس کہاں بنتا‬ ‫یہ جانتے کہ بےزر ہوں‬ ‫زبانی کالمی‬ ‫میں بھی گھر میں بیسیوں چیزیں التا ہوں‬


‫بیگم کا اچھا مؤڈ اگر کبھی رہا ہو‬ ‫نور محل کبھی تاج محل‬ ‫لمحوں میں وائٹ ہاؤس سے کہیں بڑھ کر‬ ‫عمارت تعمیر کیے دیتا ہوں‬ ‫یہ الگ بات ہے‬ ‫آتے دنوں میں کچھ نہ ہو پانے پر‬ ‫عزت بچانے کی خاطر‬ ‫ٹھوک کر بیزتی کراتا ہوں‬ ‫کھسیانی ہنسی بھی ہنستا ہوں‬ ‫چلو کچھ لمحے اچھے کچھ برے گزرتے ہیں‬ ‫جیون کوئی ٹھہرا پانی نہیں‬ ‫ناہی یہ بےبل پگ ڈنڈی ہے‬ ‫صالیحین کہتے آئے ہیں‬ ‫جو کہو وہ کرو‬ ‫ہم اہل شکم ضدین کے قائل ہیں‬ ‫کہنا اور کرنا زیست کے دو الگ رستے ہیں‬


‫کہے بن بن نہیں آتی‬ ‫کرتے ہیں تو شکم پر الت لگتی ہے‬ ‫نہ کرنے میں ہی تو شکم کی سالمتی ہے‬ ‫جو شکم کا دشمن بنے گا‬ ‫نیزے چڑھے گا‬ ‫زہر کا پیالہ اس کا مقدر ٹھہرے گا‬ ‫آگ میں ڈاال جائے گا‬ ‫زبان سے کہتے رہو‬ ‫ہم جو کہتے ہیں وہ کرتے ہیں‬ ‫ہم بھی یہ جانتے ہیں سننے واال بھی‬ ‫اس حقیقت سے بے خبر نہیں‬ ‫ہم ہللا اور اس کے رسول کا‬ ‫دل و جان سے احترام کرتے ہیں‬ ‫شیو ہو کہ وشنو‬ ‫موسی ہو کہ عیسی‬ ‫زرتشت ہو کہ مہآتما بدھ‬


‫رام اور کرشن بڑے لوگ تھے‬ ‫بھال ہم ان سے کیسے ہو سکتے ہیں‬ ‫ان کی ہر کرنی کو سالم و پرنام‬ ‫بےشک وہ عزت کی جا ہیں‬ ‫ان کی کہنی اور کرنی ایک تھی‬ ‫وہ ایک کے قائل تھے‬ ‫مصیبت میں رہے ہر لمحہ صعوبت میں رہے‬ ‫اپنی کہنی پر استوار کرنی کا پرنالہ نہ وہ بدل سکے‬ ‫وہ بڑے تھے بھوکے رہ سکتے تھے‬ ‫ہماری ضرورتیں حاجتیں ان سے جدا‬ ‫وہ کہنی پر چل کر بڑے تھے‬ ‫کہہ کر نہ کرنے سے ہی مال آتا ہے‬ ‫اچھا کھاتے ہیں بڑے گھر میں رہتے ہیں‬ ‫لوگ سالم بالتے ہیں‬ ‫یہ ہی نہیں ہم سے ڈرتے ہیں‬ ‫دنیا میں رہتے ہیں‬


‫دنیا کی اور بڑائی کیا ہوتی ہے‬ ‫ان سے کون ڈرتا تھا‬ ‫ان کی کون سنتا تھا‬ ‫ان کے جو قدم لیتا رہا‬ ‫وہ ہی معتوب ہوا‬ ‫کیا یہ کم ہے کہ ہم خود سے گزر کر‬ ‫انہیں مانتے ہیں‬ ‫قبر میں کیا ہو گا حشر میں کیا ہو گا‬ ‫یہ آتے وقتوں کی بات ہے‬ ‫قبروں میں ان پر کیا ہو رہا ہے‬ ‫کب کوئی دیکھ رہا ہے‬ ‫مجرم تب ٹھہریں گے‬ ‫جب کہنی پر کرنی استوار نہ مانیں گے‬ ‫یہ تو اصول حیات ہے‬ ‫اس کا کون کافر منکر ہے‬ ‫کیا یہ کافی نہیں‬


‫اس پر ہمارا ایمان و یقین ہے‬

‫یادوں کی دودھ ندیا‬

‫وہ نم صبح کی تمثال تھی‬ ‫خود اپنی مثال تھی‬ ‫پہلی بار جو میں نے اسے دیکھا‬ ‫مری آنکھوں میں زندگی اتر گئی‬ ‫دل کی ویران بستی میں‬ ‫زندگی کے ڈنکے بجنے لگے‬ ‫خوشی کے ترانے مچلنے لگے‬ ‫ہواؤں کا لہجہ بھی بدل گیا‬ ‫زیست کا گرم موسم‬ ‫رخ اپنا بدل گیا‬ ‫اس کے رخساروں کا عکس‬


‫شفق کے پیلے رنگ بدلنے لگا‬ ‫شفق کیا‘ افق بھی‬ ‫اس کی مسکان کے رنگ لینے لگا‬ ‫میں نے پیار سے جو چھوا اس کے رخسار کو‬ ‫اک کرنٹ سا لگا اور میں پیچھے ہٹ گیا‬ ‫وہ سراپا زندگی تھی‬ ‫میں صدیوں کا بےجان جسد تھا‬ ‫ال سے اثبات میں آیا نہ تھا‬ ‫نہ مجھ پر اپنی حقیقت کھلی تھی‬ ‫کیا تھا میں کون تھا‬ ‫اس کی مسرور آنکھوں میں‬ ‫مرے ہونے کی دلیل تھی‬ ‫مرے من آنگن میں اس نے‬ ‫قدم کیا رکھا‬ ‫فرشتے بھی سوچ کا بت بن گئے‬ ‫میں اور یہ خوبی قسمت‬


‫سورج شاید مغرب سے نکل آیا تھا‬ ‫دست قدرت سے یہ کب بعید ہے‬ ‫ان ہونی‘ ہونی میں بدل جاتی ہے‬ ‫اس کے مری من بستی میں‬ ‫قدم دھرنے کی دیر تھی‬ ‫خوشیاں ادھر بھی‬ ‫ادھر بھی برسنے لگیں‬ ‫میں اگلے روز جب کام پر آیا‬ ‫ابھی بیٹھا بھی نہ تھا‬ ‫دفتری نے‬ ‫اک سرکاری کاغذ مجھے تھمایا‬ ‫خوش نظروں سے مجھے دیکھنے لگا‬ ‫اس کی آنکھوں میں بخشیش کی تمنا تھی‬ ‫جوں ہی لفظ اس کاغذ کے‬ ‫مری نظروں سے گزرے‬ ‫بات ہی ایسی تھی کہ‬


‫مرا ہاتھ جیب کی جانب بڑھ گیا‬ ‫جو ہاتھ لگا‘ میں نے اسے نذر کیا‬ ‫خوشی سے وہ مسکرا اور چل دیا‬ ‫اس کاغذ نے مجھے بتایا‬ ‫ترقی نے مرے قدم لیے ہیں‬ ‫پھر مٹھائی آئی‬ ‫چائے بھی چلی‬ ‫کچھ دوست بولے‬ ‫حضرت اس سے تو نہ بات بنے گی‬ ‫آج تو نان مچھلی اڑے گی‬ ‫مرے دل سے‬ ‫کل کی خوشیوں کا خمار کب اترا تھا‬ ‫نان مچھلی کیا‬ ‫جان بھی مانگتے تو حاضر تھی‬ ‫خوشی کے خمار کی اپنی ہی بات تھی‬ ‫خوشیوں کے اوتار نے‬


‫مجھے وہ کچھ دیا‬ ‫جو مرے پاس کبھی نہ رہا تھا‬ ‫کرائے کا مکاں ملکیت میں بدل گیا‬ ‫میں بھی اپنا نہ رہا سب کا ہو گیا‬ ‫جو آتا خالی ہاتھ نہ جاتا‬ ‫کوئی مٹھی بھر‬ ‫کوئی جھولی بھر کے لے جاتا‬ ‫میں کون سا اپنے پلے سے دیتا رہا‬ ‫مرا کیا تھا‬ ‫جو مرے پاس تھا مالک کا دیا تھا‬ ‫جوانی سے بڑھاپے تک‬ ‫وہ پرخوش بو کنول‬ ‫مرے من آنگن کی زینت بنا رہا‬ ‫عجب ریت ہے اس زندگی کی‬ ‫جو آتا ہے چال جاتا ہے‬ ‫میں بوڑھا ہو گیا ہوں‬


‫بس اب جانے کو ہوں‬ ‫بیٹیاں کب تادیر باپ کے گھر رہتی ہیں‬ ‫بس آج کل میں وہ بھی جانے کو ہے‬ ‫تب اکیال تھا اب اکیال نہیں رہوں گا‬ ‫اس کی پیار بھری مستیوں کی یاد‬ ‫مرا من آنگن سونا نہ ہونے دے گی‬ ‫جب تلک جیوں گا‬ ‫وہ مجھے بہالتی رہیں گی‬ ‫دکھ درد بیماری میں‬ ‫مجھے سہالتی رہیں گی‬ ‫تنہائی کے بھوت بھگاتی رہیں گی‬ ‫مری اس بےگیاہ زندگی کو‬ ‫یادوں کی دودھ ندیا سے‬ ‫سیراب کرتی رہیں گی‬ ‫تامرگ اسے بنجر نہ ہونے دے گی‬ ‫خیر سے اپنے سسرال جائے‬


‫دودھ نہائے پوت کھیالئے‬ ‫دکھ درد کا دور تک نام و نشاں نہ ہو‬ ‫اس کی زیست کے ہر موڑ پر‬ ‫خوشیوں کے پھول‬ ‫اس کا استقبال کرتے رہیں‬ ‫جس جیون کے ہر موڑ پر‬ ‫یادوں کے بالگنت دریچے کھلتے ہوں‬ ‫سمجھو وہ جیون سفل رہا‬ ‫کچھ ہوا یا کیا تو ہی یادیں‬ ‫من آنگن میں ٹھکانہ کرتی ہیں‬ ‫میں نے کیا کرنا تھا‬ ‫مرے ہللا نے‬ ‫مجھے کبھی تنہا نہ رہنے دیا‬ ‫مری بچی مری جان‬ ‫کبھی کسی کے سامنے‬ ‫دست سوال دراز نہ کرنا‬


‫جب بھی مانگنا اپنے ہللا سے مانگنا‬ ‫اپنے خاوند سے مخلص رہنا‬ ‫جب باہر جائے خیر کی دعا کرنا‬ ‫جب گھر آئے دن بھر کی تھکن بھول کر‬ ‫تہ دل سے مسکرانا‬ ‫سو بسم ہللا کہنا‬ ‫دل میکے میں نہ رکھنا‬ ‫اپنے گھر میں مست رہنا‬ ‫کبھی کسی بات پر فخر تکبر نہ کرنا‬ ‫سب دیا ہللا کا دیا ہے‬ ‫جان رکھو سب اسی کا ہے‬ ‫ہاں کبھی کبھار‬ ‫اس بڈھے کو یاد کر لیا کرنا‬ ‫مر گیا تو بقدر بساط مغفرت کی دعا کرنا‬ ‫یہ ہی تحفہ ان مول ہو گا‬ ‫مری طرح‬


‫اپنے باپ کو یاد کرکے نہ روتے رہنا‬ ‫میں بےچارہ اس قابل کہاں‬ ‫ہاں وہ اس قابل ضرور ہے کہ‬ ‫اسے یادوں میں بسایا جائے‬ ‫ہر پل ہللا اسے قبر میں پرسکوں رکھے‬ ‫وہ وہاں کبھی تنہا نہ رہے‬ ‫ہللا کی عطائیں اس کے ساتھ رہیں‬ ‫اس کی عنائتیں قبر میں اس پر سایہ کیے رہیں‬ ‫جا مری ارحا خیر سے جانے کے لیے جا‬ ‫جا‘ جا کر وہاں خوشیوں کا جہان آباد کر‬ ‫خوشیوں کی جینی جی‬ ‫شاد رہ‬ ‫مجھ کو خود کو بھول کر‬ ‫سب کو شاد کر‬ ‫مری بچی مری جان جا‬ ‫جا خیر سے جا‬


‫ہللا تم پر مہربان رہے‬

‫باؤ بہشتی‬ ‫باپ ہو کہ ماں‬ ‫معتبر ہیں محترم ہیں‬ ‫زندگی کی مشقت تو ہے ہی‬ ‫بچوں کے پالن پوسن کی بھی‬ ‫محبت سے پیار سے خلوص سے‬ ‫ماں مشقت اٹھاتی ہے‬ ‫زبان پر شکوے کا کلمہ‬ ‫کب التی ہے‬ ‫باپ بھی دنیا میں بےبدل رشتہ ہے‬ ‫منہ کا لقمہ جیب میں رکھ التا ہے‬ ‫منا کھائے گا گڑیا کے کام آئے گا‬


‫دونمبری کمائی اکیال وہ کب کھا جاتا ہے‬ ‫پیٹ بھر سہی‘ حصہ کے لقمے‬ ‫پیٹ میں لے جاتا ہے‬ ‫عمرا چور اپنے بچوں پر جان دیتا تھا‬ ‫خراش بھی آتی تو تڑپ تڑپ جاتا تھا‬ ‫کس کے لیے‬ ‫آدھی رات کو گھر سے قدم باہر رکھتا تھا‬ ‫وہ ڈاکو نہیں تھا‬ ‫ہاں چوری میں نام خوب کمایا تھا‬ ‫پر اتنی بات ہے‬ ‫عالقے کا ہر گھر عزیز رکھتا تھا‬ ‫اس ذیل میں‬ ‫کوئی اس پر انگلی اٹھا نہیں سکتا‬ ‫جانا تو ہے اس سے کب مفر ہے‬ ‫اک روز وہ بھی حرف آخر ہوا‬ ‫جنازے میں خاص و عام شامل تھے‬


‫چڑھی قسمت دیکھیے‬ ‫سات صفوں کا جنازہ ہوا‬ ‫ہر کوئی‬ ‫عالقے میں اس کی شرافت کے گن گا رہا تھا‬ ‫کئی دن بھورا بےرونق نہ ہوا‬ ‫اک آ رہا ہے تو اک جا رہا ہے‬ ‫اس کا بڑا لڑکا بھورا نشین رہا‬ ‫اپنے انداز سے باپ کے گن گاتا تھا‬ ‫کہتا تھا‬ ‫باؤ بہشی کوئی کچا چور نہ تھا‬ ‫بس اک ادھ بار پکڑا گیا‬ ‫پلس ٹل لگاتی رہی مگر وہ نہ مانا تھا‬ ‫قسم لے لو‬ ‫جو کبھی چوری کے جرم میں جیل گیا‬ ‫اس کی کوئی چوری پلس ریکارڈ میں نہیں‬ ‫یہ کھلی بکواس ہے کہ وہ چور تھا‬


‫اس کے پکے پیڈے ہونے پر‬ ‫سب عش عش کر اٹھے‬ ‫یہ بھی اس نے بتایا‬ ‫جب عمرا اس کی ماں کو بھگا کر الیا‬ ‫وہ اس کے پیٹ میں تھا‬ ‫نانا اس کا عالقے کا بڑا کھنی خاں تھا‬ ‫زور اس نے ایڑی چوٹی کا لگایا‬ ‫مگر کہاں‬ ‫باؤ بہشی نے اس کی ایک بھی نہ چلنے دی‬ ‫بازو دے دیتا تو کیا الج رہتی‬ ‫تھک ہار کر نانا ہی اس کا چپ ہو گیا‬ ‫اس کے پاس اس کے سوا کوئی رستہ بھی نہ تھا‬ ‫آفرین آفرین فلک بوس نعرہ بلند ہوا‬ ‫عمو کماگر نے یہ لقمہ دیا‬ ‫صدیوں بعد ایسے پوت جنم لیتے ہیں‬ ‫انو کہنے لگا‬


‫ہمیں اس کی جی داری پر ناز ہے‬ ‫شیر تھا دلیر تھا‬ ‫یہ سب کیوں تھا‬ ‫عمرے کا بڑا پوت‬ ‫باپ کے اصولوں کو بھول گیا تھا‬ ‫آغاز اس کا عالقے سے ہوتا تھا‬ ‫جب کبھی خالی ہاتھ رہتا تو ہی رخ باہر کا کرتا‬ ‫محنت کی کمائی ہر کسی کو عزیز ہوتی ہے‬ ‫ٹی سی ہی وہ راہ تھی کہ‬ ‫وہ اس کے گھر سے ٹال رہے‬ ‫اس حوالہ سے اس کے باؤ بہشتی کی‬ ‫ہر دل میں یاد تازہ بہ تازہ تھی‬ ‫اگلے وقتوں کے طور ہی کچھ اور تھے‬ ‫اپنے عالقے کی عزت ہر آنکھ میں تھی‬ ‫آج خرابی گھر سے شروع ہوتی ہے‬ ‫خیر اب چوری کی رسم بد کب رہ گئی ہے‬


‫یہ رسم اگلے وقتوں کی تھی‬ ‫نمرود عصر بڑی کرسی پر بیٹھ کر‬ ‫ڈاکے ڈلواتا ہے‬ ‫سامان لٹ جائے خیر ہے‬ ‫اور آ جائے گا‬ ‫فرعؤن بچوں کو مرواتا تھا‬ ‫یہ بچوں بوڑھوں ضعیفوں گریبوں مسکینوں کو بھی‬ ‫کھا پی جاتا ہے‬ ‫ہاں اتنا ضرور ہے‬ ‫عمرے کے قدموں پر ہے‬ ‫مگر اس کے حرامی بچے‬ ‫عمرے کے بچے کے پیرو ہیں‬ ‫لوگ آج بھی عمرے کو یاد کرتے ہیں‬ ‫منہ پر نہیں پر آگے پیچھے‬ ‫اس کے بیٹے کو برا بھال کہتے ہیں‬


‫کوئی کیا جانے‬ ‫اس کے اچھا اور سچا ہونے میں‬ ‫مجھ کو کیا‘ کسی کو شک نہیں‬ ‫برے وقت میں‬ ‫اوروں کی طرح منہ پھیر نہیں لیتا‬ ‫دامے درمے سخنے ساتھ رہتا ہے‬ ‫سچے کو سچا جھوٹے کو جھوٹا‬ ‫منہ پر کہتا ہے‬ ‫جینے کے لیے یہ طور اچھا نہیں‬ ‫اس کی اس گندگی عادت نے‬ ‫مفت میں‬ ‫اس کے کئی دشمن بنا رکھے ہیں‬ ‫اصل اندھیر یہ‬ ‫جن کے حق میں کہہ جاتا ہے‬ ‫وہ ہی اس سے منہ پھیر لیتے ہیں‬


‫بہت کم‬ ‫اسے پرے پنچایت میں بالیا جاتا ہے‬ ‫بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہو جاتی‬ ‫اٹھنے بیٹھنے کے‬ ‫مغرب نے ہمیں طور طریقے سکھائے ہیں‬ ‫بقول مغرب کے‬ ‫ابھی ہم چودہ سو سال پیچھے ہیں‬ ‫دس محرم کو‬ ‫اک ماتمی جلوس گزر رہا تھا‬ ‫اک انگریز جو ادھر سے گزر رہا تھا‬ ‫اس نے ساتھ چلتے چمچے سے پوچھا‬ ‫یہاں کیا معاملہ ہے کیا ہو رہا ہے‬ ‫چمچے نے بتایا‬ ‫حسین کی شہادت کا جلوس گزر رہا ہے‬ ‫وہ حیران ہوا اور کہا‬ ‫انہیں اب پتا چال ہے‬


‫چمچمے نے‬ ‫وضاحت نہ کی اور ہاں میں ہاں مالئی‬ ‫وہ صاحب تھا‬ ‫یس سری کا ہی تو عوضانہ دیتا تھا‬ ‫میاں حق قناعت لیے پھرتا تھا‬ ‫تب ہی تو بھوکا مرتا تھا‬ ‫سب چھوڑو‬ ‫ایک عادت اس کی عصری آدب سے قطعی ہٹ کر تھی‬ ‫کار قضا کبھی کسی تقریب میں بال لیا جاتا‬ ‫دیسی کپڑوں میں چال جاتا‬ ‫چٹے دیس کے اہل جاہ کی‬ ‫برائیاں گننے بیٹھ جاتا‬ ‫یہ بھی نہ دیکھتا کہ کوئی ناک منہ چڑھتا ہے‬ ‫لوگ کھانا کھانے کھڑے ہوتے‬ ‫زمین پر وہ رومال بچھا کر بیٹھ جاتا‬ ‫کانٹوں چمچوں کے ہوتے‬


‫ہاتھ سے کھاتا‬ ‫کھا کر اچھی طرح انگلیاں چاٹتا‬ ‫ٹشو پیپر کو چھوڑ کر ہاتھ دھوتا‬ ‫سچی بات ہے یہ اطوار دیکھ کر‬ ‫سب کو بڑی کراہت ہوتی‬ ‫ہمارے ہاں اک اور سچ پتر رہتے ہیں‬ ‫معاملہ ان سے پوچھنے چلے گیے‬ ‫بقول اس کے میاں حق کا کہنا ہے‬ ‫کھڑے ہو کر کھانے سے‬ ‫شخص کا زمین سے رشتہ نہیں رہتا‬ ‫معدہ متاثرہوتا ہے‬ ‫دل دماغ اعصاب پر برا اثر پڑتا ہے‬ ‫بیٹھ کر کھانے سے‬ ‫جسم کا زمین سے رشتہ رہتا ہے‬ ‫زمین میں سو طرح کی دھاتیں ہیں‬ ‫جو جسم پر اپنے اثر چھوڑتی ہیں‬


‫چوکڑی مار کر بیٹھنے سے‬ ‫سکون کی کیفیت رہتی ہے‬ ‫ہر انگلی کو دل ہر لمحہ‬ ‫تازہ خون سپالئی کرتا ہے‬ ‫ہر شخص کے خون کا گروپ الگ ہوتا ہے‬ ‫ہاتھ مالنے‬ ‫گلے ملنے سے‬ ‫سو طرح کے جراثیموں سے‬ ‫مکتی ملتی ہے‬ ‫ہاں زنا کی بات اور ہے‬ ‫زانی تم نے دیکھے ہوں گے‬ ‫ذرا غور کرنا‬ ‫یک زنی اور صد زنی کے اطوار میں‬ ‫فرق کیا ہے‬ ‫حاللی حرامی کی پیدائش کو الگ رکھیے‬ ‫زانی کا بدن زانی کے بول زانی کی شخصیت‬


‫فطری توزان میں نہیں رہتی‬ ‫ہمارے اس سچ پتر پر‬ ‫میاں حق کی باتوں کا بڑا اثر ہوا‬ ‫ساری رام لیلی اس نے آ کر ہمیں سنائی‬ ‫سارے ان باتوں پر خوب ہنسے اور ٹھٹھا بنایا‬ ‫وہ رائی بھر بھی نہ ہنسا نہ مسکرایا‬ ‫ہم نے اسے بڑا ڈھیٹ کیا‬ ‫ٹس سے مس نہ ہوا‬ ‫سب یک زبان ہو کر بولے‬ ‫لو اک اور عالقے کے گلے گالواں پڑا‬ ‫میاں حق چل بسا‬ ‫رنگو نے آ کر اچانک یہ خبر سنائی‬ ‫محفل پر سکوت چھا گیا‬ ‫سچ پتر ڈھاڑیں مار کر رونے لگا‬ ‫قانون قدرت ہے‬ ‫سچ باقی رہے گا اسے باقی رہنا ہے‬


‫کوئی کیا جانے‬ ‫میاں حق عالقے کا گہنا تھا‬ ‫اب سچ پتر گہنا ہے‬

‫کل کو آتی دفع کا ذکر ہے‬

‫پچھلی دفعہ کی اہمیت سے مجھ کو انکار نہیں‬ ‫شخص کا وہ اترن ہے‬ ‫یہ اترن ہی شخص کی وضاحت ہے‬ ‫اس پر ناز کیسا غرور کیسا‬ ‫میں کیسا ہوں یہ ہی اصل حقیقیت ہے‬ ‫خدارا مورکھ کے پاس نہ جائیے‬ ‫سچ کم جھوٹ زیادہ بولتا ہے‬ ‫جو ہوتا نہیں کہتا ہے جو ہوتا ہے کہتا نہیں‬ ‫شاہ کا چمچہ ہی نہیں‬


‫وہ فصلی بٹیرا بھی ہے‬ ‫چوری خور کب حق سچ کی کہتے ہیں‬ ‫شخص کا کاتب نہیں‬ ‫شاہ اور شاہ والوں کی وہ منشی گیری کرتا ہے‬ ‫شخص کے اس اترن کی کتھا‬ ‫شاعروں کے ہاں تالشیے‬ ‫سچ وہاں مل جائے گا‬ ‫عالمتوں استعاروں میں ہی سہی‬ ‫سب کچھ وہ کہہ گیے ہیں‬ ‫اورنگی عہد کا سچ کہیں اور کب ملتا ہے‬ ‫رحمان بابا کہتا ہے‬ ‫مجنوں کا کوئی کیا حال پوچھے‬ ‫ہر گھر صحرا کا نقشا ہے‬ ‫یہ شاعر ہی تھا جو اشارے میں‬ ‫بہت کچھ کہہ گیا‬ ‫مورکھ کو سچ کہنے کی توفیق کہاں‬


‫ہاں داستانی ادب ہو کہ مقامی حکائتیں‬ ‫حق ان بھی بھی کہیں ناکہیں لکا چھپا ہوتا ہے‬ ‫خیر جو بھی معاملہ رہا ہو‬ ‫پچھلی دفعہ کا یہ ذکر ہی نہیں‬ ‫یہ کل کو آتی دفع کا ذکر ہے‬ ‫شرق کا اک سیانا‬ ‫ستاروں کے علم سے آگاہ تھا‬ ‫زمین کا وڈیرا لٹیرا‬ ‫دھونس سے اسے اپنے پاس لے گیا‬ ‫پہلے آنکھیں دکھائیں‬ ‫نہ مانا تو تشدد کیا‬ ‫بڑا ڈھیٹ نکال تو بھوک کی چادر اڑھا دی‬ ‫آخر کب تب تک‬ ‫زبان اس نے کھول ہی دی‬ ‫موت سے ڈرا موت صلہ ٹھہری‬ ‫بھالئی کے بدلے شاباش کم ہی ملتی ہے‬


‫خیر اس نے تو مجبوری میں آ کر اپنا سینہ کھوال‬ ‫پولے پیریں بتا دیتا تو بھی اس کا یہ ہی حشر ہوتا‬ ‫زمین کے ہر چپے پراس کی حکومت تھی‬ ‫سورج چاند ستارے سارے کے سارے‬ ‫تصرف میں اس کے آ چکے تھے‬ ‫اس حقیقت کے باوجود‬ ‫کوئی ناکوئی زمین کا سانس لیتا مردہ‬ ‫کچھ ناکچھ کہیں ناکہیں گڑبڑ کر ہی دیتا‬ ‫سرکوبی کے جتن میں‬ ‫گرہ خود سے ہتھیایا سکہ نکل جاتا‬ ‫ہر جاتا سکہ اس کو ادھ مویا کر دیتا‬ ‫کل کو آتی دفع کے ذکر میں‬ ‫اس بات کا باور کرانا ضروری ہے‬ ‫وہ شرقی جان سے گیا‬ ‫کسی شریک کا ہونا وڈیرے کو کیسے گوارہ ہوتا‬ ‫ستاروں کا علم آنے کی دیر تھی کہ حوصلہ اس کا‬


‫ہمالہ کی بلندی کو بھی پار کر گیا‬ ‫ہر چلتا پھرتا بدیسی‬ ‫اس کو کیڑا مکوڑا لگنے لگا‬ ‫اس کے کسی دیسی کو‬ ‫اس کے کسی عمل پر کیوں اعتراض ہوتا‬ ‫پیٹ بھرے سوتا پیٹ بھرے اٹھتا‬ ‫جو بولتا اس کے منہ میں زیرہ رکھ دیتا‬ ‫بدیسی کسکتا بھی تو اس کا ستارہ بدل دیتا‬ ‫مشتری سے جب وہ زحل میں آتا‬ ‫وہ جی جان سے جاتا یہ مسکراتا قہقہے لگاتا‬ ‫اسے کوئی پوچھنے واال نہ رہا‬ ‫ہر سو خوف و ہراس کا پہرا ہوا‬ ‫ہر بدیسی کے زحل میں آنے سے‬ ‫قتل و غارت کی دنیا شاد و شاداب تھی‬ ‫اک بے سہارا وچارے سے لڑکے کا‬ ‫بھوک کے سبب میٹر گھوم گیا‬


‫زحل میں آئے اس کے ستارے کی‬ ‫یہ بددیسی چال تھی‬ ‫کسی میاں میٹھو نے اسے خبر کر دی‬ ‫اس نے فورا سے پہلے اس کا ستارہ بدل دیا‬ ‫جلدی میں اس سے چوک ہو گئی‬ ‫درمیاں زحل کے جانے کی بجائے‬ ‫ستارہ مشتری میں جا بسا‬ ‫پھر کیا تھا‬ ‫دیکھتے ہی دیکھتے کچھ کا کچھ ہو گیا‬ ‫اس کے اقتدار کا گراف نیچے گرنے لگا‬ ‫وہ بوکھال گیا‬ ‫بوکھالہٹ میں ہر صحیح بھی غلط ہونے لگا‬ ‫پھر کیا تھا‬ ‫آتے کل کی دفع میں وڈیرے کا اپنا ستارہ‬ ‫کہیں گم ہو گیا‬ ‫سب سے پہلی دفعہ میں بھی ایسا ہی ہوا تھا‬


‫ابلیس کی گڈی چڑھی ہوئی تھی‬ ‫فرشتہ ہو کہ جن اس کے قدم لیتا تھا‬ ‫تکبر زہریال الوا اگلنے لگا‬ ‫اس کے سب کے خالق نے‬ ‫پہال آدم تخلیق کیا‬ ‫اسے ہی نہیں‬ ‫سب کو سجدہ کا حکم دیا‬ ‫اس کا قیاس تھا کہ آدم زحل ًمیں وجود پایا ہے‬ ‫اس کی یہ ہی بھول تھی‬ ‫غصہ و قہر میں لمحوں کی گنتی بھول گیا‬ ‫آدم تو مشتری کی بہترین ساعت کی تخلیق تھا‬ ‫ہللا کی حکمت اگر کھل جائے تو وہ ہللا تو نہ ہوا‬ ‫ہللا کے آنے کے ان حد رستے ہیں‬ ‫قہر کے رستے سے آئے یا عطا کے رستے سے‬ ‫کون جان سکا ہے‬ ‫آتے کل کی دفع میں‬


‫شکست آخر ابلیس کے پیرو کا مقدر ٹھہری‬ ‫ویدی کا ویدان تو اپنی ذات میں اٹل ہے‬ ‫دیو ہو کہ جن شخص ہو کہ ملک‬ ‫اس کے سامنے بےبس ہے‬ ‫اس کی ہونی میں کب کسی کا کوئی دخل ہے‬ ‫دجال آئے کہ اس کا پیو آئے‬ ‫اس کی خدائی نہیں چل سکتی‬ ‫حسین کے پیرو اس کی راہ میں آتے رہیں گے‬ ‫وہ آگ میں پڑنے سے زہر پینے سے‬ ‫سر کٹوانے سے کب ڈرتے ہیں‬ ‫دجال عصر سن لو!‬ ‫تمہیں میں یہ کہے دیتا ہوں‬ ‫تمہارا ستارہ زحل میں آنے کو ہے‬ ‫یہ ہی ہوتا آیا ہے یہ ہی ہوتا رہے گا‬ ‫کہاں ہیں یونانی کہاں ہیں رومی‬ ‫بس ان کی کہانیاں باقی ہیں‬


‫ہاں وہ سب تکبر کی آگ کا ایندھن بنے‬ ‫جل بھن گئے راکھ تک باقی نہ رہی‬ ‫سکندر ہو کہ قاسم محمود ہو کہ چرچل‬ ‫بابر بھی عیش کوشی کے سامان کرتا رہا‬ ‫کچھ کھا پی گئے‬ ‫کچھ جمع آوری میں مشغول رہے‬ ‫کسی نے تاج محل تعمیر کیا‬ ‫عورت کے تھلے کی خوشنودی کی خاطر‬ ‫کئی نور محل تعمیر ہوئے‬ ‫کوئی اپنے ساتھ کب کچھ لے گیا‬ ‫نام ہللا کا باقی ہے نام ہللا کا باقی رہے گا‬ ‫گزری دفعہ کی یہ ہی کتھا تھی‬ ‫آتی دفع کی بھی یہ ہی کتھا ہوگی‬

‫کڑکتا نوٹ‬


‫اس بات کو‬ ‫آج کوئی نصف صدی ہوئی‬ ‫آج بھی نوششہءصدر ہے‬ ‫سکول کی اسمبلی میں کھڑے تھے‬ ‫بڑے ماسٹر صاحب نے‬ ‫باآواز بلند کہآ‬ ‫کسی کے پاس روپے کا کڑکتا نوٹ ہے‬ ‫خاموشی چھا گئی‬ ‫روپیے کا نوٹ اوپر سے کڑکتا‬ ‫گریبوں کا فیس معافی سکول تھا‬ ‫کسی سیٹھ کی تجوری نہ تھی‬ ‫سو کا نوٹ بھی پوچھتے‬ ‫اس کے غلے میں مقید ملتا‬ ‫آخر چپ ٹوٹی‬ ‫سکول کے مالی کی جیب سے نکل آیا‬ ‫سب کو حیرت ہوئی‬


‫مالی کی جیب میں روپیے کا کڑکتا نوٹ‬ ‫میال رام کا سر فخر سے تن گیا‬ ‫فخر اسے کیوں نہ ہوتا‬ ‫اتنوں میں فقط ایک وہ ہی تھا‬ ‫جس کی جیب سے‬ ‫روپیے کا کڑکتا نوٹ نکال تھا‬ ‫خیر چھوڑیں بات ذرا آگے بڑھاتے ہیں‬ ‫بڑے ماسٹر صاحب نے‬ ‫روپیے کا وہ نوٹ سب کو دکھایا‬ ‫پتا نہیں کتنے مونہوں میں پانی آ گیا‬ ‫انہوں نے پوچھا یہ نوٹ کتنے کا ہے‬ ‫سب نے یک زبان ہو کر کہا ایک کا ہے‬ ‫نوٹ انہوں نے دوہرا چوہرا کر دیا‬ ‫پوچھا اب یہ نوٹ کتنے کا ہے‬ ‫سب نے کہا ایک کا‬ ‫ہاں البتہ میلہ رام کے تیور بگڑ گئے‬


‫بعد اس کے‬ ‫نوٹ انہوں نے ہاتھوں میں مسل دیا‬ ‫پھر پوچھا یہ نوٹ کتنے کا‬ ‫جواب وہ ہی تھا کہ ایک کا‬ ‫نوٹ کی حالت دیکھ کر‬ ‫میلہ رام کا چہرا زرد پڑ گیا‬ ‫نوٹ انہوں نے اپنے پاؤں سے مسل دیا‬ ‫پوچھا اس نوٹ کی قدر کیا ہے‬ ‫سب نے کہا ایک روپیہ‬ ‫اب کہ میلہ رام کی طبیت خراب ہو گئی‬ ‫بڑے ماسٹر صاحب کی وہ نگاہ میں تھا‬ ‫انہوں نے فورا سے پہلے کڑکتا نوٹ‬ ‫جیب سے نکاال اور میال رام کو تھما دیا‬ ‫رگڑا مسال نوٹ اپنی جیب رکھ لیا‬ ‫کہ وہ اب بھی ایک کا تھا‬ ‫چیز دونوں کی ایک سی آنی تھی‬


‫نیا ہو کہ پرانا اس سے کیا فرق پڑتا ہے‬ ‫نوٹ دونوں ایک کے تھے‬ ‫بڑے ماسٹر صاحب بولے‬ ‫اس نوٹ پر کوئی بھی قیامت گزرے‬ ‫اس کی قیمت میں فرق نہ آئے گا‬ ‫ہاں اتنا ضرور ہے یہ ترا مرا نہیں‬ ‫یہ جس کا بھی ہو ایک کا ہے‬ ‫خرچ کرو گے تو ایک کا نہیں رہے گا‬ ‫آگہی جتنی بھی خرچ ہو‬ ‫اس کی قدر کم نہیں ہوتی‬ ‫میں نے سب کو دانش کی بات بتائی‬ ‫قدر مگر اس کی کم نہیں ہوئی‬ ‫تم جتنا بھی اسے خرچ کرو گے‬ ‫یہ جتنی ہے اتنی ہی رہے گی‬ ‫اسے زنگ نہیں آتا یہ پرانی نہیں ہوتی‬ ‫کس نے کہا مت دیکھو‬


‫کیا کہا یہ ہی دیکھو‬ ‫صوفی یا بھگت کے منہ سے نکلے‬ ‫گالی‘ گالی ہو گی‬ ‫بدمعاش لفنگے کے منہ نکلے‬ ‫دعا‘ دعا ہو گی‬ ‫پلے سے مری یہ بات باندھ لو‬ ‫علم کی جناب میں‬ ‫فرشتے بھی سجدہ ریز ہوئے‬ ‫اچھا‘ اچھا ہی رہتا ہے‬ ‫کالک سو غازوں کے پیچھے‬ ‫کالک ہی رہتی ہے‬ ‫سقراط ہو کہ منصور‬ ‫وقت کی دھول میں کب چھپ سکے ہیں‬ ‫انہیں مسال گیا کچال گیا‬ ‫قدر ان کی مگر کوئی کم نہ کر سکا‬ ‫وقت انہیں سالم کرتا آیا ہے‬


‫سالم کرتا رہے گا‬

‫اسالم سب کا ہے‬ ‫سچی کہانی‬

‫بابا شکر ہللا بھلے آدمی تھے‬ ‫صوم و صلوتہ کے ہی پابند نہ تھے‬ ‫قول کے کھرے‬ ‫ہاتھ کے بھی کھلے تھے‬ ‫اچھا کہتے اچھا کہنے کو کہتے‬ ‫اچھا کرتے اچھا کرنے کو کہتے‬ ‫لوگوں کا ان کے پاس آنا جانا تھا‬ ‫بساط بھر ان کی خدمت کرتے‬ ‫لینے کے خالف تھے‬


‫اگر کوئی کچھ لے آتا‬ ‫واپس اسے لے جانا پڑتا‬ ‫جعلی پیروں کی ٹھگی پر افسردہ رہتے‬ ‫کہتے‬ ‫انہیں تو لوگوں کو حضور کی راہ پر چالنا ہے‬ ‫حضور دیتے تھے‬ ‫ان کا لینا کہیں ثابت نہیں‬ ‫لوگ انہیں پیر سمجھتے تھے‬ ‫یہ الگ بات ہے‬ ‫انہوں نے خود کو کبھی پیر مانا نہیں‬ ‫کوئی پیر کہتا تو برا مناتے‬ ‫پنشن پر گزرا کرتے‬ ‫اماں جی گھر میں‬ ‫بال فیس بچوں کو پڑھاتیں‬ ‫عرصہ سے‬ ‫ان کے ہاں یہ ہی طور چال آتا تھا‬


‫مجھ ناچیز کو بھی‬ ‫ان کے پاس بیٹھنے کا شرف رہتا‬ ‫ایک بار‬ ‫اک مولوی صاحب ان کے پاس آئے‬ ‫سالم دعا بال کے بیٹھ گئے‬ ‫توند بس مناسب ہی تھی‬ ‫ہاں شلوار ٹخنوں سے اوپر تھی‬ ‫مونچھوں کا کہیں نام و نشان نہ تھا‬ ‫داڑھی سرسیدی تھی‬ ‫بولے حضرت اک سوال پوچھنا ہے‬ ‫بابا بولے ہللا علیم و خبیر ہے‬ ‫معلوم ہوا تو ہی جواب دے سکوں گا‬ ‫ہاں غور تو ہو سکتا ہے‬ ‫مولوی صاحب بولے‪ :‬کیا حضور کو ّعلم غائب تھا‬ ‫مولوی کے لہجے میں‬ ‫مولوی کی آنکھوں میں شرارت تھی‬


‫بابا صاحب پہلے تو مسکرائے‬ ‫پھر رنجیدہ ہو گئے‬ ‫بابا صاحب نے کہا‪ :‬افسوس مولوی صاحب‬ ‫افسوس صد افسوس‬ ‫کرنے کے کام کرتے نہیں ہو‬ ‫یہ ہللا اور اس رسول کا معاملہ ہے‬ ‫اس پر زور آزماتے ہو‬ ‫ہے تو بھی‘ نہیں ہے تو بھی‬ ‫یہ ہمارا معاملہ نہیں ہے‬ ‫ہمیں تو بس اس سے کام ہے‬ ‫آپ کے کہے میں وحی کا اہتمام ہے‬ ‫آپ کا کہا گویا ہللا کا کہا ہے‬ ‫مولوی صاحب کیسے ہیں آپ‬ ‫کان دیکھتے نہیں‬ ‫کتے کے پیچھے دوڑے بھاگے جاتے ہو‬ ‫کبھی خود سے بھی سوچ لیا کرو‬


‫دعوی تمہارا ہو گا کہ پڑھا لکھا ہوں‬ ‫علم قریب سے بھی گزرا ہوتا‬ ‫یہ سوال نہ کرتے‬ ‫کیا حضور کو ّعلم غائب تھا‬ ‫تمہارا کہا ہی تضاد کا شکار ہے‬ ‫کہتے ہو حضور‬ ‫صیغہ تھا کا استعمال کرتے ہو‬ ‫لفظ حضور حاضر کے لیے ہے‬ ‫مانتے ہو آپ حاضر ہیں‬ ‫تھا کہہ کر نفی کرتے ہو‬ ‫یہ کیا بات ہوئی‬ ‫وہ حاضر ہیں پر کیا کریں‬ ‫ہماری آنکھں‬ ‫انہیں دیکھنے کے قابل نہیں ہیں‬ ‫دیکھنے والے دیکھتے ہیں‬ ‫یوں بھی لے سکتے ہو‬


‫تاقیامت قرآن باقی ہے‬ ‫آپ حاضر ہیں‬ ‫خیر یہ تضاد تمہارے پوچھنے میں ہے‬ ‫تضاد کی دنیا سے نکلو کہ امت متحد ہو‬ ‫مذاہب غیب پر ایمان رکھنے پر استوار ہیں‬ ‫ہللا تم نے دیکھا‘ نہیں‬ ‫جنت دوزخ جن فرشتے تم دیکھے‘ نہیں‬ ‫حاضر کو دیکھا‘ نہیں‬ ‫قرآن اترتے دیکھا‘ نہیں‬ ‫ان سب پر ہر کلمہ گو کا ایمان ہے‬ ‫تب ہی تو مسلمان ہے‬ ‫حضور پر قرآن اترا‬ ‫بے شک النے والے کو حضور نے دیکھا‬ ‫وہ فرشتہ تھا انسان نہیں تھا‬ ‫بھیجنے والے سے متعلق آگہی ہو گی‬ ‫جو کسی نے نہیں دیکھا‬


‫حضور نے دیکھا جانا‬ ‫علم غیب کا ہونا اور کس کو کہتے ہیں‬ ‫میں سے گزر کر تو میں آنے واال‬ ‫کب کسی پر کھل سکتا ہے‬ ‫یہ معاملہ حضور کا ہے‬ ‫وہ جانیں یا ان کا خدا جانے‬ ‫ہمیں اس سے مطلب نہیں‬ ‫اگر ہم مسمان ہیں تو سیدھا چلیں‬ ‫ہللا کی مخوق کے کام آئیں‬ ‫الیعنی چکروں میں پڑو گے‬ ‫تو مرو گے‬ ‫خود ڈوبو گے یہ معاملہ تمہارا ہے‬ ‫اوروں کو ڈبو دو گے‬ ‫یہ معاملہ اسالم کا ہے‬ ‫اسالم اس کی اجازت نہیں دیتا‬ ‫اسالم تمہارا ہی نہیں‬


‫اسالم سب کا ہے‬

‫ڈنگ ٹپانی‬ ‫ہللا بخشے تایا نواب لڑکوں کو‬ ‫چوکوں میں کھڑا ہونے سے منع کرتے تھے‬ ‫رشتہ میں وہ کسی کے کچھ نہ تھے‬ ‫بوڑھے تھے حیادار تھے‬ ‫سب انہیں تایا کہتے تھے‬ ‫اچھا دور تھا اچھے لوگ تھے‬ ‫ہر کس کی عزت اپنی عزت جانتے تھے‬ ‫سب کی بھنیں اپنی بھنیں تھیں‬ ‫آہ! وہ مر گئے‬ ‫اچھی روائتیں بھی مر گئیں‬ ‫آنکھوں میں شرم تھی حیا تھی‬


‫آج کوئی کوئی پرانا بات کرے تو کہتے ہیں‪:‬‬ ‫چھوڑو جی دقیانوسی ہے‬ ‫بیبیاں بادوپٹہ یا بابرقعہ گھر سے نکلتی تھیں‬ ‫آج برقعہ تو دور رہا دوپٹہ بھی غائب ہو گیا ہے‬ ‫شریف سے اور باحیا سے رہو تو‬ ‫کڑیاں مذاق اڑاتی ہیں‬ ‫چھیڑو تو پلے پڑ جاتی ہیں‬ ‫نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن‬ ‫اسی کو تو کہتے ہیں‬ ‫بیدا اور شیدا محلہ کے چوک میں کھڑے تھے‬ ‫الیعنی گپیں ہانک رہے تھے‬ ‫تانک جھانک دیدار بازی کا عمل جاری تھا‬ ‫کوئی ناک چڑھا کر کوئی مسکرا کر گزر جاتی‬ ‫ہاجاں تیلن کا بھی ادھر سے گزر ہوا‬ ‫منہ متھے لگتی تھی شیدا نہ رہ سکا‬ ‫اس نے پرامید پراسلوب فوجی سلیوٹ کیا‬


‫وہ کھل کھالئی‬ ‫ہنسی اس کی پورے منہ کی تھی‬ ‫وہ گزر گئی بات آئی گئی ہو گئی‬ ‫وہ پھر سے گپوں میں جھٹ گئے‬ ‫اسی شام ہاجاں تیلن بیدے کے گھر آئی‬ ‫بیدے کی ماں سے کہنے لگی‬ ‫بیدے نے محلہ کے چوک میں‬ ‫مجھے چھڑا ہے‬ ‫مرا ویر ادھر نہ تھا‬ ‫ورنہ‬ ‫پیر پر ڈکرے کر دیتا‬ ‫بیدے کی ماں شکایت سن کر ہکی بکی رہ گئی‬ ‫اس نے غصے سے بیدے کو آواز دی‬ ‫آیآ ماں جی کہہ کر‬ ‫کچھ ہی دیر بعد چھت سے نیچے اتر آیا‬ ‫وہ گڈی اڑا رہا تھا‬


‫اتنی دیر میں ہاجاں تیلن جا چکی تھی‬ ‫بیدے کی ماں نے بنا کچھ سنے‬ ‫بیدے کی لہہ پہہ کر دی‬ ‫بیدے نے تو اسے چھیڑا ہی نہ تھا‬ ‫یہ گالواں مفت میں اس کے گلے آ پڑا تھا‬ ‫بیدے کی ماں بےچاری کیا جانے‬ ‫روال چھیڑنے کا تھا ہی نہیں‬ ‫وہ شیدے کی پسند تھی‬ ‫شیدا مگر ہاجاں کی دل آنکھ میں نہ تھا‬ ‫ہاں وہ بیدے کی دیونی تھی‬ ‫بیدے کو کیا مری پڑی جو اس نے نہ چھیڑا‬ ‫پر کیا کریں‬ ‫چھماں بیدے کے دل کی رانی تھی‬ ‫سوہنی تو تھی ہی‬ ‫ہاجاں سے بڑھ کر سیانی تھی‬ ‫یہ بات تو‬


‫فرشتوں کے لکھے پر‬ ‫ناحق پکڑے جانے والی کی سی تھی‬ ‫کیسی بات ہے یہ‬ ‫شادی کرنے کے ارادے دور تک نہ تھے‬ ‫ہاں مگر دو طرفہ محض ڈنگ ٹپانی تھی‬

‫ایک اور اندھیر دیکھیے‬

‫ہر چپہ پہ سجدہ ریز ہوا‬ ‫پھر بھی میں کی گرفت میں رہا‬ ‫کرنی اپنی ہی کرنی تھی‬ ‫سجدوں کا محض ڈھونگ رچا تھا‬ ‫آخر کب تک‬ ‫آزمائش میں آ ہی گیا‬ ‫میں سر چڑھ کر بولی تو‬


‫ڈھول کا بھید کھل گیا‬ ‫پھر کیا تھا‬ ‫مالک نے حضوری دوری میں بدل دی‬ ‫معافی کی طرف کیوں آتا‬ ‫دیکھتے ہی دیکھتے نٹکا اس کا آسمان لگا تھا‬ ‫خالق اسے جانتا تھا‬ ‫وہ تو خود سے بےبہرہ تھا‬ ‫رنگ روپ شکل بدل بدل کے ملتا رہتا ہے‬ ‫کچھ ہی لمحے ہوئے ہوں گے‬ ‫مجھے مال تھا‬ ‫بےشک بڑا خوش لباس تھا‬ ‫مرے سامنے سو کا اس نے دنبہ خریدا‬ ‫میں دیکھ رہا ہوں اس سے وہ بےخبر تھا‬ ‫میں نے پوچھا دنبہ کتنے کا دو گے‬ ‫ریٹ دنبے کا اس نے ایک سو چالیس بتایا‬ ‫میں نے کہا کچھ تو کم کرو‬


‫بڑی مشکل سے ایک سو تیس تک آیا‬ ‫اصرار کیا تو کہنے لگا‬ ‫قرآن کی قسم کھا کر کہتا ہؤں‬ ‫ایک سو پچیس مری خرید ہے‬ ‫پانچ منافع لوں گا‬ ‫میں نے بصد افسوس اس کی طرف دیکھا‬ ‫دنبہ خرید لیا کہ قرآن پر مرا یقین تھا‬ ‫یہ قریبا دو بجے کی بات ہے‬ ‫باریش تھا مسجد سے نکل رہا تھا‬ ‫جلدیوں میں تھا‬ ‫لگتا تھا کہیں کام ڈالے گا‬ ‫سیدھا گودام میں آیا‬ ‫پیسی مرچوں کے دو بورے واں پڑے تھے‬ ‫پیسی اینٹوں کا ایک بورا‬ ‫اس کی راہ دیکھ رہا تھا‬ ‫اپنے ہنر میں صاحب کمال تھا‬


‫منٹوں سکنٹوں میں یہ پرایا‬ ‫مرچوں کا ہم سفر ہوا‬ ‫اب کہ تین بورے مرچوں کے ٹھہرے‬ ‫رنگ روپ حسب نسب کا جھگڑا ہی ختم ہو گیا‬ ‫مسجد میں اس کے طور ہی کچھ اور تھے‬ ‫باہر آ کر یکسر بدل گیا‬ ‫حاجی کے روپ میں بھی مال‬ ‫بڑا خوش اخالق شیریں زبان تھا‬ ‫مری بیوی کو شروع سے بیٹی کہتا تھا‬ ‫سر پر ہاتھ پھرتا نگاہ نیچی رکھتا‬ ‫یہ تو بہت بعد میں معلوم ہوا‬ ‫مرے گھر کی ساری رونق‬ ‫اسی کا لطف و احسان تھا‬ ‫مجھ سا ناکارہ وگرنہ کب اس الئق تھا‬ ‫کاش سائنس اتنی ترقی نہ کرتی‬ ‫اور میں بےخبر ہی رہتا‬


‫عاشاں شکل و صورت میں کتنی معصوم لگتی تھی‬ ‫باطن میں شیطان ہی کا اترن تھی‬ ‫برسوں سے مرا پرموشن کیس اڑا پھسا تھا‬ ‫بڑا بابو کبھی یہ کبھی وہ کاغذ مانگ رہا تھا‬ ‫مرے ساتھ کیا ہو رہا ہے‬ ‫اکثر سوچتا‬ ‫مرے ساتھ کے ترقی انجوائے کر رہے تھے‬ ‫میں ابھی تک قسمت کو کوس رہا تھا‬ ‫ایک صاحب نے بالتکلف کہا‬ ‫پاگل اصل کاغذ دیتے نہیں‬ ‫کبھی بابو کو کبھی قسمت کو کوستے ہو‬ ‫کس کاغذ کی آپ بات کرتے ہیں‬ ‫میں نے پوچھ ہی لیا‬ ‫بڑا نوٹ جس پر بانی کی تصویر چھپی ہو‬ ‫فائل میں لگاؤ پھر بےچنت ہو جاؤ‬ ‫کام ہو جائے گا‬


‫سوچ میں پڑ گیا‬ ‫یہ بگال بھگت کتنے روپ دھارتا ہے‬ ‫لو دور کیا جانا ہے‬ ‫ہماری گلی کے موڑ پر ہی وہ رہتا ہے‬ ‫کچہری میں منصف کے روبرو‬ ‫کالم پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہے‬ ‫جو کہوں گا سچ کہوں گا‬ ‫سچ کے سوا کچھ نہ کہوں گا‬ ‫ان دیکھے سچ کی کھاتا ہے‬ ‫کیا کروں‬ ‫اس کے کس روپ پر یقین کروں‬ ‫مرا ہم جنس بن کر دغا کرتا ہے‬ ‫ایک اور اندھیر دیکھیے‬ ‫انگلی مری اوروں کی جانب تو اٹھ رہی ہے‬ ‫جیسے ہل پر نہایا ہوا ہوں‬ ‫کرتوت یہ ہے کہ‬


‫زوج کے حضور جب جاتا ہوں‬ ‫میں اس سا وہ مجھ سا ہو جاتا ہے‬ ‫سچ مر جاتا ہے‬ ‫یا پھر سات سمندر پار کر جاتا ہے‬

‫یہ حرف‬ ‫کل طلوع سے پہلے‬ ‫کان جزو جسد شرق تھے‬ ‫ودوا کا نالہ سنتے نہ تھے‬ ‫ہاتھ آہنی ضرور تھے‬ ‫ریکھاؤں میں مگر‬ ‫مغرب کے مانجے کا گوبر بھرا تھا‬ ‫خورشید اہل شرق کا سہی‬ ‫شرق کی صبح شام‬


‫شرق کی نہیں‬ ‫منہ اپنا زبان اپنی‬ ‫بیان اپنا نہیں‬ ‫چٹے مندر کے دروازے پر‬ ‫یک ٹانگ کھڑا‬ ‫صبح شام‬ ‫ہر آتے دم کے ساتھ‬ ‫شری جھاڑی مہاراج کی جئے ہو‬ ‫شری جھاڑی مہاراج کی جئے ہو‬ ‫بکے جاتا ہے‬ ‫فاختہ کے گلو میں‬ ‫نامہء منتی باندھ دیا‬ ‫کبوتر جھاڑی مہاراج کی قید میں ہے‬ ‫بازگزشت کٹی آواز‬ ‫تاریخ کا حرف کب بنتی ہے‬ ‫بےدر گھرانے‬


‫کہرے کی زد میں رہتے ہیں‬ ‫‘جو ہیں‬ ‫نفرتوں کے بارود میں بھی‬ ‫جشن آزادی مناتے ہیں‬ ‫جو نہیں ہیں‬ ‫جھاڑی مہاراج کی خصیہ سہالئی کا‬ ‫شغل باکمال رکھتے ہیں‬ ‫یہ حرف‬ ‫مورکھ کی کوئی لکھت نہیں ہیں‬ ‫پھر بھی کل کو‬ ‫شہید وفا ہوں گے‬ ‫شاہد جفا ہوں گے‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫منتی‘ منت سے‬ ‫مورکھ سے مراد مورخ‬


‫عہد کا در وا ہوا‬ ‫عہد کا در وا ہوا‬ ‫دور افق میں‬ ‫کم زور کی مقدر ریکھا‬ ‫لہو بن کر پھیل گئی تھی‬ ‫آس کا سورج ڈوب گیا تھا‬ ‫یاس کا سورج‬ ‫سوا نیزے پر آ چکا تھا‬ ‫شانتی کے شبد کھا چکا تھا‬ ‫پھر بھی‬ ‫ماتھے پر چٹا گھر کا ٹکا سجائے‬ ‫شانتی کی ڈگڈگی بجائے جا رہا تھا‬ ‫لومڑ گیڈر جشن سیری منا رہے تھے‬ ‫لگڑبگڑ اپنا حصہ کھا رہے تھے‬


‫گریب ہڈیوں کا گودا‬ ‫رینگتوں کے کام آ رہا تھا‬ ‫بٹنوں کی دوکان سج گئی تھی‬ ‫گوریوں کی چڈی ہو کہ پستانوں کے کھوپے‬ ‫ان ہی سے تو بندھے ہوئے تھے‬ ‫آگہی کا در وا ہوا تو‬ ‫گریب گلیوں میں‬ ‫بھوک کی دھند پھیل گئی‬ ‫محل جگمگا اٹھے‬ ‫ہواؤں میں‬ ‫کومل ہونٹوں پر‬ ‫شراب کی بو مچل گئی‬ ‫شاہ اور اہل شاہ‬ ‫پریوں کی کمر میں ہاتھ سجائے‬ ‫تھرک رہے تھے‬ ‫جھوم رہے تھے‬


‫اپریل ‪٠١- ٠٩٧٨‬‬

‫مشینی دیو کے خواب‬

‫وہ‬ ‫اس کا باپ‬ ‫دادا پردادا بھی‬ ‫اسی پیشہ سے وابستہ تھے‬ ‫شکار کی ٹانگوں پر‬ ‫نام کے ساجی‬ ‫دم پر چمچے‬ ‫گردن پر کڑچھے‬ ‫لگڑبگڑ کے تیور لے کر‬ ‫پل پڑتے تھے‬ ‫اب کہ نخچیر‬


‫کئی چیتوں بگھیاّڑوں کے‬ ‫دم خم دیکھ چکا تھا‬ ‫تب ہی تو‬ ‫گرفت میں آ کر بھی‬ ‫گردن کے جھٹکے جاری تھے‬ ‫کرتب ان کا شیوا‬ ‫جھٹکے اس کا حق‬ ‫جگ کے دانے سوچ رہے تھے‬ ‫بھوکے پیاسے صید کا ماس‬ ‫صیاد کے پیٹ کی آنتیں‬ ‫جسم کا پانی‬ ‫کھا پی کر‬ ‫مشینی دیو کے خواب‬ ‫چکنا چور نہ کر دے‬

‫اک مفتا سوال‬


‫ہزاروں الکھوں کی حیثیت اپنی جگہ‬ ‫دس روپیے کی حیثیت اپنی جگہ‬ ‫رسک میں ایک روپیے کا ضیاع‬ ‫بھری تجوری کا زوال ہے‬ ‫جیت گیے تو چڑھی قسمت‬ ‫ہار گیے تو!‬ ‫تجوری کا یہ سوال ہے‬ ‫جیتنے واال سکون کی نیند لوٹے گا‬ ‫ہار عمر بھر کا مالل ہے‬ ‫کچھ دے کر پایا تو کیا پایا‬ ‫اس جہاں میں کہاں ملتا ایسا دالل ہے‬ ‫سوچ کے دائرہ وسعت لیتے گئے کہ‬ ‫پھر کان میں گونجی یہ آواز‬ ‫میاں صاحب دس روپیے کا سوال ہے‬ ‫پھر ہوش آیا‬


‫یہاں تو فقط لینا ہے دینے کا کب ذکر ہے‬ ‫میاں صاحب کی باچھیں کھل گیئں‬ ‫خوش ہو کر بولے‬ ‫پوچھ لو‘ ہو سکتا ہے بتا ہی دوں‬ ‫یہ بعید از قیاس نہیں‬ ‫فقیر کا سوچ حیرت کی نذر ہوا‬ ‫کچھ بھی نہ سمجھ سکا‬ ‫یہ تو خود اک مفتا سوال تھا‬ ‫بڑبڑاتا ہوا واں سے چل دیا‬ ‫میاں صاحب دکھ کے سمندر میں غرق ہوئے‬ ‫کم بخت دس کا چونا لگا گیا‬





Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.