انگریزی اور اس کے لسانیاتی دائرے
مقصود حسنی ابوزر برقی کتب خانہ جون 6102
مندرجات انگریزی آج اور آتا کل انگریزی دنیا کی بہترین زبان نہیں ہے ہندوی کے انگریزی پر لسانیاتی اثرات اردو کی آوازوں کا نظام اور الرڑ بائرن کی شعری زبان
اردو اور جان کیٹس کی شعری زبان ٹی ایس ایلیٹ اور روایت کی اہمیت
انگریزی آج اور آتا کل اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریزی اس وقت دنیا کی حاکم زبان ہے اور یہ فخر وافتخار انگریزی تک ہی محدود نہیں دنیا کی ہر حاکم زبان اس مرتبے پر فائز رہی ہے۔
چونکہ حاکم زبان کا بول چال کا حلقہ پہلے سے وسیع ہو گیا ہوتا ہے اس لیے اس کا دامن پہلے کی نسبت دراز ہو جاتا ہے۔ اسے ایسے مخصوص لوگ‘ جن کی کہ وہ زبان نہیں ہوتی اپنی حاکم سے وفاداری ظاہر کرنے کے لیے حاکم زبان کی خوبیوں کےبلندوباال محل اسار دیتے ہیں اور اس کے صلے میں حاکم کی خالص دیسی گھی سے بنی جوٹھی چوری میسر آ جاتی ہے۔ جب حاکم زبان رابطے کی زبان ٹھہر جاتی ہے تو اسے جہاں فخر دستیاب ہوتا ہے تو وہاں محکوم کی ضرورت حاالت آالت نطق اور معاون آالت نطق کے مطابق ڈھلنا بھی پڑتا ہے بصورت دیگر رابطے بحال نہیں ہو پاتے۔ یہ حاکم زبان کی مجبوری اور محکوم کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اپنا مزاج تلفظ استعمال اور معنوں میں تبدیلی اور ردوبدل کا شکار ہو۔ ان امور کے حوالہ سے کچھ باتیں بطور خاص وقوع میں آتی ہیں۔ ١۔حاکم زبان بھی متاثر ہوتی ہے۔ ٢۔ لسانی اور اظہاری سلیقے صیغے اور طورواطوار میں تبدیلی آتی ہے۔ ٣۔ مقامی اسلوب اور لب ولہجہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
٤۔ نحوی سیٹ اپ میں تبدیلی آتی ہے۔ الفاظ کے مفاہیم بدل جاتے ہیں۔ ٥۔ نئے مرکبات تشکیل پاتے ہیں۔ ۔ زبان کی نفسیات اور کلچر جو اس کے الفاظ سے مخصوص ہوتا ہے یکسر بدل جاتا ہے اس کے برعکس اگر وہ محکوم کی نہیں بنتی تواپنا سکہ جما نہیں پاتی۔ جس کے نتیجہ میں خون ریزی ختم نہیں ہو پاتی۔ غلط فہمی کی دیواریں بلند سے بلند ہوتی چلی جاتی ہیں۔ آج دنیا میں قتل وغارت کا بازار گرم ہے۔ اس کی کئ وجوہات میں ایک وجہ انگریزی بھی ہے۔ ایک عرصہ گزر جانے کے باوجود انگریزی لوگوں کے دلوں میں مقام نہیں بنا سکی۔ لوگ آج بھی اسےاجنبی سمجھتے ہیں اور اس جبری تعلیم کو ریاستی جبر تصور کرتے ہیں۔ اس زبان کے لوگوں سے نفرت کرتے ہیں۔ عربی اور فارسی کا ایک عرصہ تک طوطی نہیں طوطا بولتا رہا۔ اسے کبھی ریاستی جبر نہیں سمجھا گیا حاالنکہ وہ بھی ریاستی جبر ہی تھا۔
ہر آنے والے کو جانا ہی ہوتا ہے۔ کوئی قائم بالذات نہیں۔ یہ شرف صرف اور صرف هللا کی ذات گرامی کو حاصل ہے۔ اس حوالہ سے ہر آنے والے کا سکہ اور زبان چلتی ہے۔ کوئی بھی سر پھرا اچانک تاریخ کا دھارا بدل سکتا ہے۔ حاکم قوت کسی بھی وقت ملکی حاالت کے حوالہ سے زوال کا شکار ہو سکتی ہے۔ قدرتی آفت یا آفات اسے گرفت میں لے سکتی ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آج کیا‘ آتے وقتوں میں انگریزی کرہ ارض کی زبان ہو گی سخت فہمی میں مبتال ہیں۔انگریزی کے خالف دلوں میں نفرتیں بڑھ رہی ہیں اور ایک روز انگریزی کیا امریکہ بھی ان نفرتوں کے سیالب میں بہہ جائے گا۔ ۔یہاں یہ سوچنا یا کہنا کہ عوام تو محض کیڑے مکوڑے ہیں‘ کیا کر لیں گے۔ بھولنا نہیں چاہیے ایک چونٹی ہاتھی کی موت کا سبب بن سکتی ہے۔ انگریزی کا لسانی نظام انتہائی کمزور ہے۔ خیال کے اظہار
کے حوالہ سے ناقص ہےاور آج کی انسانی پستی میں انگریزی کے کردار کو نظر انداز کرنا بہت بڑی غلطی ہو گی۔ انگریزی کا کھردرا اور اکھرا لہجہ اور اڑیل مزاج و رجحان انسانی ترقی کی راہ میں دیوار چین سے کم نہیں۔ آج انسان ترقی نہیں کر رہا مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔ انگریزی دوسروں کے آالت نطق اور معاون آالت نطق کا ساتھ دینے سے قاصر و عاجز ہے۔ یہ غیر انگریزوں کے حاالت ماحول موسوں شخصی رجحانات معاشی اور معاشرتی .ضرورتوں وغیرہ کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ انگریزی لوگوں کی ترقی کی راہ میں کوہ ہمالیہ سے سے بڑھ کر روکاوٹ ثابت ہو رہی ہے۔ لوگوں کی ساری توانائی اسے سیکھنے میں صرف ہو رہی ہے اس طرح وہ مزید کچھ نہیں کر پا رہے۔ عوامی تاثر یہی ہے کہ یہ مفاد پرست عناصر کی گورا نوازی اور چمچہ گیری کے نتیجہ میں لوگوں کے لیے گل گالواں بنی ہوئی ہے۔
ہندوی(ہندی+اردو) اس وقت دنیا کی واحد زبان ہے جو کرہ ارض کی زبان بننے کے جوہر رکھتی ہے۔ یہ کوئی نئی زبان نہیں ہے۔ یہ ہزاروں سال کاسفر طے کر چکی ہے۔ اس وقت اس کے تین رسم الخط ہیں۔ اردو دیو ناگری رومن پنجابی کے سوا دنیا کی کوئی زبان نہیں جس کے اس وقت تین رسم الخط مستعمل ہوں اور ان میں باقاءدہ لڑیچر موجود ہو۔ یہ تینوں اس کے اپنے نہیں ہیں۔ اس کے ذاتی رسم الخط کو تالشنے کی ضرورت ہے۔ اس کڑوی حقیقت کے باوجود یہ تینوں اجنبی نہیں ہیں اور اس زبان کے ہی سمجھے جاتے ہیں۔ انگریزی سرکاری سرپرستی حاصل ہونے کے باوجود اپناپن حاصل نہیں کر سکی۔ میں بڑے وثوق سے کہتا ہوں کہ انگریزی ٩فیصد سے زیادہ آگے نہیں بڑھ پائی۔ اس کے برعکس ہندوی دنیا کی دوسری بڑی بولی
اور سمجھی جانے والی زبان ہے جبکہ لسانی حوالہ سے .دنیا کی سب سے بڑی اور مظبوط زبان ہے۔ جب انگریزی دنیا کی حاکم زبان نہیں تھی انگریزی اصطالحات رائج تھیں یا سائنس اور ٹیکنالوجی کے متعلق !اصطالحات موجود ہی نہیں تھیں؟ کیا انگریزی اصطالحات اس کی ذاتی ہیں یا مانگے تانگے کی ہیں؟ کیا وہ اپنے اصل تلفظ کے ساتھ مستعمل ہیں؟ اس زبان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس میں تمام علوم سے متعلق کتابیں موجود ہیں۔ اس سے زیادہ کوئ بودہ دلیل ہو ہی نہیں سکتی۔ چینی جاپانی فرانسیسی جرمن یا پھر ہندوی کے پاس کچھ نہیں۔ ہندسنتان میں اشیاء کی مرمت کا کام انگریزی کتابیں پڑھ کر کیا جاتا ہے؟ یا پھر گوروں کو بالیا جاتا ہے؟ کرہ ارض کی زبان بننے کی صالحیت صرف اور صرف
ہندوی میں موجود ہے۔ اس میں لفظ گھڑنے نئے دینے اشکالی تبدیلی نئے استعماالت تالشنے کی صالحیت دوسری زبانوں سے کہیں زیادہ موجود ہے۔ جس زبان کو وساءل اور توجہ دو گے ترقی کرے گی۔ ہندوی کبھی بھی توجہ کا مرکز نہیں بنی۔ اسے اس کے چاہنے والوں نےاپنا خون جگر پالیا ہے۔ ان کے خلوص اور محبت کے سبب یہ ناصرف زندہ ہے بلکہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ انگریزی کے حوالہ سے ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ انگریزی کے باعث تجارت کو وسعت ملی ہے۔ کیا احمقانہ دلیل ہے۔ انگریزی سے پہلے تجارت کا کام نہیں ہوتا تھا؟ تجارت کا تعلق ضرورت سے ہے اورضرورت کو رستہ تالشنا خوب خوب آتا ہے۔ ہندوی سے متعلق لوگوں کی تعداد دنیا کی دوسری بڑی آبادی ہے اس لیے ان سے رابطہ پوری دنیا کی مجبوری ہے۔ رابطہ نہیں کریں گے تو بھوکے مر جائیں۔ موجودہ
مختصر لباس بھی خواب ہو جائے گا۔ پھل صرف پڑھنے سننے کی چیز ہو جائیں گے۔ کم مزدوری میں زیادہ کام کرنے واال مزدور کہاں سے الئیں گے۔ یونیورسٹیوں میں دماغ نچوڑ کر محض ایک گیڈر پروانے پر خوش ہو جانے والے کدھر سے آئیں گے؟ کہا جاتا ہے کہ ہم اپنا اصل انگریزی میں ہی تالش سکتے ہیں۔ دنیا کی ہر زبان کا اپنا لسانی نظام ہے۔ زبانیں اپنے لوگوں کے حوالہ سے آگے بڑھتی ہیں۔ اگر اثر قبول کرتی ہیں تو اثرانداز بھی ہوتی ہیں۔ ہندوی کی اپنی تاریخ ہے۔ ہر ہندسنتانی اپنا اصل اسی میں تالش سکتا ہے۔ بڑے وثوق سے کہا جا سکتا ہے انگریزی کسی زبان کا ماخذ نہیں۔ انگریزی دوسری زبانوں کی طرح محض اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔ اس میں بھی دوسری زبانوں کے سیکڑوں الفاظ موجود ہیں۔بہت سارے سبابقے الحقے درامدہ ہیں۔ اگر یہ نکال لیے جائیں تو اس کے ذخیرہ الفاظ میں آٹھ دس فیصد سے زیادہ کچھ نہ رہے۔
کہا جا رہا ہے کہ ہندوی میں ادب کے سوا ہے کیا۔ زبانیں ادب کے سہارے زندہ ہیں۔ زبانوں سے ادب نکال دیں تو وہ کھوکھلی ہو جائیں گی۔ ادب الفا ظ میسر کرتا ہے۔ زندگی کے تجربے ریکارڑ میں التا ہے۔ قوموں کی حقیقی تاریخ مہیا کرتا ہے۔ سماجی رویوں کی نشاندہی اور ان کی ترکیب و تشکیل کا فریضہ سر انجام دیتا ہے۔ اس کے بغیر انسانی زندگی کی حیثیت مشین سے زیادہ نہیں رہ پاتی۔ اظہار کو سلیقہ عطا کرتا ہے۔ اظہار میں وسعت التا ہے۔ قوموں کا تشخص اسی کے حوالہ سے واضع ہوتا ہے۔ سماج کی بقا میں ادب کلیدی حثیت کا حامل ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اردو جو اپنی اصل میں ہندوی کا ایک خط ہے کے اشاعتے ادارے تحریروں کی حوصلہ افزائ نہیں کرتے۔ اشاعتی ادارے خدمت سے زیادہ مال پانی پر یقین رکھتے ہیں۔ آج انٹرنیٹ کا دور ہے ان اداروں کی حیثیت بارہ فیصد سے زیادہ نہیں رہی۔ انٹرنیٹ پر ہندوی کے تینوں خطوں میں بہت سارا مواد ہے۔ آتے دنوں میں اشاعتی ادارے پی ٹی سی ایل کا سا درجہ حاصل کر لیں کے۔ مزے کی بات یہ کہ انگریزی کی حمایت کرنے والے رومن ہندوی یا اردو رسم الخط کا سہارا لیتے ہیں۔ انگریزی کے متعلق جو دالئل دیے جاتے ہیں ان سے قطعا واضع نہیں ہوتا کہ انگریزی آتے کل کی زبان ہو گی۔ ہاں شدید دباؤ اور کچھاؤ کی حالت میں ہندوی کا دامن وسیع تر ہوتا جائے گا۔
انگریزی دنیا کی بہترین زبان نہیں ہے
ہم جس عہد سے گزر رہے ہیں‘ وہ انگریز اور اس کی زبان انگریزی کا ہے۔ انگریز کے‘ چیلوں چمٹوں اور گماشتوں نے‘ یہ تاثر عام کر رکھا ہے کہ انگریزی زبان کے بغیر‘ تر قی کا دروازہ کھل ہی نہیں سکتا۔ نتیجہ کار بچے کی دنیا میں آنے کی غلطی کے ساتھ ہی‘ انگریزی کی گرفت میں آ جاتے ہیں اور انگریزی کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔۔ اس طرح وہ انگریزی کی تعلیم حاصل کرنے‘ میں زندگی گزار دیتا ہے لیکن دیگر مضامین میں‘ واجبی سا بھی نہیں رہ پاتا۔ تقریبا ١٥٥٤سے‘ برصغیر انگریزی گزیدہ ہے اور یہاں کے باسی‘ جو بڑے زبردست یودھا‘ جفاکش‘ محنتی اور ہنرمند ہیں اپنوں کے بنائے گئے اس قلعلے کو‘ سر نہیں کر سکے۔ اب ایک ہی صورت نظر آتی ہے‘ کہ جوں ہی بچہ پیدا ہو‘ اسے امریکہ کے کسی نرسری ہاؤس میں
بجھوا دیا جائے‘ تا کہ وہ وہاں ناصرف انگریزی سیکھ سکے‘ بلکہ اس کلچر سے بھی‘ آگہی حاصل کر سکے۔ موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے‘ لگتا ہے‘ آتے برسوں میں ١۔ بھوک کے سبب بچوں کو پیدا ہوتے ہی مار دیا جائے گا۔ ٢۔ لوگ بھوک پیاس‘ اندھیرے‘ ریاستی جبر وغیرہ سے تنگ آ کر‘ خودکشی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ ٣۔ گریب اور کمزور کے بچے‘ تعلیم حاصل کرنے کا خواب دیکھنا بند کر دیں گے۔ ٤۔ چوری‘ ڈاکے‘ مار دھاڑ اور ہیرا پھیری سے وابستہ لوگ‘ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر سکیں گے۔ عملی سطع پر‘ دیکھ لیں دس سال پڑھنے اور سارے مضامین میں کامیابی حاصل کرنے کے باوجود‘ انگریزی میں فیل ہو جانے کے سبب‘ طالب علم صفر پر آ جاتا ہے۔
نقل پر گرفت کی صورت میں‘ بچہ ان پڑھ رہ جاتا ہے۔ انگریزی کے پرچے کے دن‘ امتحانی سنٹر جمعہ بازار کا سا سماع پیش کرتے ہیں۔ آگے پیچھے یہ تناسب‘ دس فیصد سے زیادہ نہیں رہ پاتا۔ پانی کے ہزار بوکے نکال لینے سے‘ پانی پاک نہیں ہو جاتا‘ جب تک کھوہ سے کتا نکال باہر نہیں کیا جاتا۔ انگریز چال گیا‘ ہم سمجھ بیٹھے کہ ہم آزاد ہو گیے ہیں‘ جب کہ حقیقت اس کے قطعی برعکس ہے۔ فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ انگریز نہیں رہا‘ اب اس کے گماشتے روپ اور نعرے بدل بدل کر‘ عوام کا جینا حرام کر رہے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو انگریزی پڑھنے میں‘ عمر کا اچھا خاصا وقت برباد کر دیتے ہیں‘ انھیں انگریزی آ جاتی ہے؟! سارا کام تو گائیڈوں کے سہارے چل رہا ہے۔ ایسے میں‘ انگریزی کیسے آئے گی۔ سدا بادشاہی هللا کی‘ برصغر میں بھانت بھانت کے لوگ آئے۔ ان کی زبان کے متعلق بھی‘ اسی قسم کی باتیں کی جاتی تھیں‘ ترقی تو نہیں ہوئی۔ یہاں کا شخص جہاں تھا‘
وہیں کھڑا ہے۔ گولے اور گماشتے عین سے عیش کر رہے ہیں۔ ان کے کردار پر انگلی رکھنے والے‘ پولے کھاتے ہیں۔ پھر بھی اپنی زبان کو لگام نہیں دیتے‘ تو جان سے جاتے ہیں۔ زبان کا انسانی ترقی سے‘ کوئی تعلق واسطہ نہیں‘ ترقی انسانی ذہانت پر انحصار کرتی ہے۔ ذہانت زبان کو‘ ترقی سے ہمکنار کرتی ہے۔ بیجھے میں کچھ ہو گا تو ہی‘ بوال یا لکھا جائے گا۔ انگریزی جسے یہاں کی ماسی بنا رکھا ہے‘ اس کی محض دو ایک بنیادی خامیوں کا تذکرہ کرتا ہوں ١۔ ابتدائی آوازیں اظہار کے حوالہ سے ناکافی ہیں۔ ٢۔ نہایت اہم آوازیں چ اور ش اس میں موجود نہیں ہیں۔ ٣۔ مرکب آوازوں کا نظام کمزور دہرا ناقصں اور پچیدہ ہے۔ اب ضمن نمبر ٣کے حوالہ سے چند مثالیں مالحظہ فرمائیں ش کے لیے‘ دس یا دس سے زیادہ مرکب استعمال ہوتے
ہیں‘ جب کہ دوسری جگہ ان کی آواز کچھ اور ہوتی ہے۔ جیسے ti actionایکشن mentionمنشن essentialاسنشیل admitionاڈمیشن وغیرہ si asiaایشیا malaysiaملیشیا tesionٹنشن pensionپنشن وغیرہ sh shiftشفٹ
sheetشیٹ shirtشرٹ shipشپ وغیرہ ci socialسوشل specialاسپیشل ce croceکروشے ch Fitcheنٹشے فٹشے یہ جرمن لفظ ہیں لیکن انگریزی میں مستعمل ہیں۔ ssi missionمشن permissionپرمشن
اڈمشنadmission ssu ایشوissue اشورassure پریشرpressure su شوگرsuger شؤرsure انشورنسinsurance sch schizophrenia شیزفرنا tu چchay/chu) picture (pikchar) پیکچر nature (naichar) نیچر mixture (mixchar) مکسچر
actual (akchal) ایکچل punctual (punkchual) پنکچل habitual (habichual) ہبچل torture (torcher) ٹورچر attitude (aitichud) ایٹیچود culture (kachar) کلچر vertual (virchual) ورچول fortunate (forchunate) فورچونیٹ future (fuchar) فیوچرہر ہر جگہ اس مرکب آواز کی یہ صورت برقرار نہیں رہتی۔ ch کو چ کے لیے استعمال میں التے ہیں۔ مثال chest چسٹcheat چیٹchit چٹ ch
کو خ کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ munichمیونخ یہ جرمن لفظ ہے لیکن انگریزی میں مستعمل ہے۔ اس مرکب سے ش کی آواز کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ مثال cliche nietzoche, Fitche, charade chکو ک کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ جیسے کیمیکل chemical سکولschool کیمسٹ chemist باور رہنا چاہیے‘ کہ اسی طرح مفرد آوزوں کے لیے‘ مرکب لیٹرز سے کام چالیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہ یہ مرکبات‘ کسی ایک آواز کے لیے مخصوص نہیں ہیں‘ مختلف جگہوں پر‘ مختلف آوازیں دیتے ہیں۔ اس سے‘ پچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ یہی نہیں اظہاری عمل میں بھی‘ روکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ مفاہیم اور تلفظ میں ابہام کی صورتیں بڑھتی ہیں۔ غرض کہ انگریزی کا ساؤنڈ سسٹم بنیادی طور پر
انتہائی ناقص ہے۔ ایسی زبان‘ جس کا ساؤنڈ سسٹم ناکارہ یا خرابیوں کا شکار ہو‘ اسے دنیا کی بہترین زبان قرار دینا اور ترقی کا ذریعہ قرار دینا‘ دماغی خلل اور حد سے بڑی ٹی سی کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
ہندوی کے انگریزی پر لسانیاتی اثرات
مختلف عالقوں کے لوگوں کی زبان' میں حیرت انگیز لسانیاتی مماثلتوں کا پایا جانا' اتفاقیہ نہیں ہو سکتا۔ اس کے پس منظر میں' کسی سطع پر کوئی ناکوئی واقعہ' معاملہ' حادثہ' بات یا کچھ ناکچھ ضرور وقوع میں آیا ہوتا ہے' چاہے اس کی حیثیت معمولی ہی کیوں نہ رہی ہو' اس کا اثر ضرور مرتب ہوا ہوتا ہے۔
ایک دیسی یا بدیسی شخص' بازار میں کچھ خریدنے' کسی سے ملنے یا کسی اور کام سے آتا ہے۔ وہ اپنے اس ٹھہراؤ کے مختصر دورانیے میں' کوئی اصطالح' کوئی ضرب المثل' کوئی محاورہ یا کوئی لفظ چھوڑ جاتا ہے۔ اس کا بوال' ایک شخص استعمال میں التا ہے' پھر دوسرا' ان کی دیکھا دیکھی میں وہ مہارت میں آ جاتا ہے۔ اب یہ الزم نہیں کہ وہ اصل تلفظ' اصل معنوں یا پھر اصل استعمال کے مطابق' استعمال میں آ جائے۔ وہ اپنی اصل سے کہیں دور' بل کہ بہت دور جا سکتا ہے۔ معنوی اعتبار سے اصل سے برعکس استعمال میں آ سکتا ہے۔ کئی معنی اور استعمال سامنے آ سکتے ہیں اور پھر اس کے غیر ہونے کا گمان تک نہیں گزرتا۔ یونانیوں کا سیاسی' علمی' ادبی اور ثقافتی حوالہ سے' دنیا بھر میں ٹہکا تھا۔ آتے وقتوں کی عظیم سیاسی' عسکری اور مکار قوت' برطانیہ ان کی دسترس سے باہر نہ تھی۔ اسی طرح برصغیر بھی یونانیوں کے زیر اثر رہا۔ یونان کا لٹیرا اعظم' برصغیر پر بھی حملہ ہوا۔ یہاں پٹ گیا۔ زخمی ہوا اور یہاں سے دم دبا کر بھاگ گیا۔ ایک یونانی قبیلہ
یہاں رک گیا۔ کیالش میں ان کا پڑاؤ ٹھہرا۔ یہ یونانی کئی والئیتوں پر حکومت کرتے رہے۔ اس یونانی عسکری قبیلے کی نسل' آج بھی' یہاں بہت ساری اپنی یونانی روایات کے ساتھ موجود ہے۔ رومن برٹن :بریطانیہ' بریٹن' برطانیہ۔ آئی لینڈ کا عالقہ تھا' جو کہ رومن ایمپائر کی حکومت میں تھا۔ برصغیر رومن شہنشاہت سے باہر نہ تھا۔ برصغیر میں ان کے ہونے کے بہت سے اثار انٹرنیٹ پر تالشے جا سکتے ہیں۔ انگریزی کا رسم الخط آج بھی رومن ہے۔ اس رسم الخط میں لکھی اردو کو رومن اردو کا نام دیا جاتا ہے۔ برطانیہ والے 0581سے بہت پہلے' برصغیر میں وارد ہو گیے تھے' تاہم 0581سے 0491تک برصغیر ان کا رہا۔ محسن آزادی ہٹلر کی عنایت اور مہربانی سے' برطانیہ کے ہاتھ' پاؤں اور کمر کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں اور سونے کی چڑیا' اس کی دسترس میں نہ رہی۔ اس کے بعد امریکہ کی گڈی چڑھی اور آج تک چڑھی ہوئی ہے۔ گویا دونوں یونیوں کے زیر تسلط تھے' اس کے بعد رومیوں کے رہے۔
اس کے بعد برصغیر پر برطانیہ کا کھرا کھوٹا سکا چال اور اب حضرت امریکہ بہادر کی خداوندی کا دور دورہ ہے۔ اسم کی ترکیب کے لیے' انگریزی یں الحقہ موجود نہیں۔ یہ خالص برصغیر سے متعلق ہے۔ مثال دیوارکا' پریمیکا' انومیکا' کامولیکا وغیرہ گویا امریکا' برصغیر کا لفظ ہے۔ مثال امبڑیکا .اگر کسی شخص کا نام ہے' تو اس کا برصغیر سے کوئی ناکوئی رشتہ' ضرور رہا ہو گا۔ امریکہ میں بھی انگریزی زبان استعمال میں آتی ہے۔ صاف ظاہر ہے' ان عالقوں کے لوگ یہاں آئے۔ ان عالقوں سے' جس حوالہ سے بھی سہی' یہاں سے لوگ گیے۔ مزے کی بات یہ کہ آج بھی الکھوں کی تعداد میں مغرب کے مختلف عالقوں میں برصغیر کے لوگ' عارضی اور مستقل اقامت رکھتے ہیں۔ یہ کہنا کہ برصغیر والے ہی متاثر ہوئے' سراسر زیادتی کے مترادف ہو گا۔ حاکم ہو کہ محکوم' ایک والیت میں اقامت رکھنے کے سبب' ایک دوسرے سے متاثر ہوتے ہیں۔ ہندوی' جوآل ہند کی زبان ہے' نے دنیا کی تمام زبانوں کو' لسانی' فکری اور اسلوبی
حوالہ سے متاثر کیا .اسی طرح یہ بھی اپنی بےپناہ لچک پذیری کے باعث' ان سے متاثر ہوئی۔ مختلف زبانوں کے الفاظ' اس کے ذخیرہءاستعمال میں داخل ہیں۔ متاثر کرنے کی' کئی صورتیں اور سطحیں ہوسکتی ہیں۔ 1 کلچر زیادہ تر خواتین کے زیر اثر رہا ہے۔ زیورات' لباس' بناؤ سنگار کے اطوار' ناز و نخرہ وغیرہ کے چلن' ایک دوسرے کے اختیار کرتی ہیں۔ نشت و برخواست کے اصول اختیار کرتی ہیں۔ گفت گو میں' ایک دوسرے کی طرز اختیار کرتی ہیں۔ گھر میں سامان کی درآمد اور اس کے رکھنے اور سجانے کے طور' اپناتی ہیں۔ کچن اور اس سے متعلقہ امور میں' نقالی کرتی ہیں۔ اشیائے اور اطوار پکوان اپناتی ہیں۔ فقط یہ امور ہی انجام نہیں پاتے' بل کہ ان کے حوالہ سے اسما' صفات' سابقے' الحقے' اسلوب بھی اس گھر میں
منتقل ہوتے ہیں۔ 2 کم زوروں کی ہنرمندی اور ہنرمندوں پر ڈاکے پڑتے ہیں ان کے وسائل قدرت پر قبضہ جمایا جاتا ہے ان کے علمی و ادبی ورثے کو غارت کرنے کے ساتھ اس کی بڑی بےدردی سے لوٹ مار کی جاتی ہے۔ ان تینوں امور کے حوالہ سے ان کی زبان میں بہت کچھ بدیسی داخل ہو جاتا ہے۔ 3 اس کے عالوہ معاشرتوں کے انسالک سے بہت سے معاشرتی اطوار انسانی رویے رسم و رواج مذہبی اور نظریاتی اصول سیاسی' معاشی اور ارضیاتی طور طریقے اور خصوصی و عمومی چلن
ایک دوسرے کے ہاں منتقل ہوتے ہیں اور صدیوں کا سفر کرتے ہیں۔ آتے وقتوں میں کچھ کے کچھ ہو جاتے ہیں' لیکن باقی رہتے ہیں۔ بعض کی' ہزاروں سال بعد بھی' بازگشت باقی رہتی ہے۔ یہ امور زبان سے باال باال نہیں ہوتے۔ ان سب کا زبان سے اٹوٹ رشتہ استوار ہوتا ہے۔ اشیائے خوردنی اور اشیائے استعمال مثال کپڑے' برتن وغیرہ اشیائے حرب اور حربی ضوابط طرز تعمیر وغیرہ قبریں بنانے کے انداز کا تبادلہ ہوتا ہے' ان کے حوالہ سے زبان کو بہت کچھ میسر آتا ہے۔ میں نے یہاں' محض گنتی کے دو چار اموردرج کیے ہیں' ورنہ ایسی بیسیوں چیزیں ہیں' جو وقوع میں آتی ہیں اور ان کا زبانوں پر اثر مرتب ہوتا ہے۔ اس ذیل میں' قرتہ العین حیدر کی تحریروں کا مطالعہ مفید رہے گا۔ انگریزی بھی' برصغیر کی زبان ہندوی سے' متاثر ہوتی آئی ہے جس کے لیے' ان کی شاعری کا مطالعہ کیا
جا سکتا ہے۔ بعض اردو اور انگریزی کی ضمیروں میں' صوتی مماثلت موجود ہے۔ مثال Of fortune’s favoured sons, not me. نظم: Wish شاعر: Matthew Arnold To die: and the quick leaf tore me me کے لیے اردو میں مجھے مستعمل ہے۔ پوٹھوہار میں ضمیر می آج بھی بول چال میں ہے۔ ........ My feeble faith still clings to Thee, نظم: My God! O Let Me Call Thee Mine! شاعر: Anne Bronte my
انگریزی میں عام استعمال کی ضمیر اردو میں اس ضمیر کے میرا مستعمل ہے۔ ........ when all
you can keep your head about you : Ifنظم
: Rudyard Kiplingشاعر اردو میں تو عام بول چال میں موجود ہے۔ ........ بہت سے الفاظ آوازوں کے تبادل یا کسی اور صورت میں انگریزی میں مستعمل ہیں۔ مثال اردو میں دن انگریزی میں ڈان moreمور mاور الف کی آواز میم یعنی mمیں بدلی ہے۔ کو حشوی قرار دیا جا سکتا ہے۔
Once more before my dying eyes Wish: Matthew Arnold ودوا اپنی اص میں ود اور وا کا مرکب ہے۔ بےوا مستعمل صورت بیوہ۔ بے نہی کا سابقہ ہے بہت سے لفظ اس طور سے لکھے جاتے ہیں۔ مثال بیچارہ بجائے بےچارہ بیدل بجائے بےدل بیہوش بجائے بےہوش بیکار بجائے بےکار بیوہ بےوا بمعنی جس کا ور نہ رہا ہو ر کی آواز گر گئی ہے .ودوا بےوا کے لیے بوال جاتا ہے۔ انگریزی میں وڈو۔ وڈ او widow
وڈ آؤٹ اس کے' یعنی ور' او ۔ ور ............... کئی ایک لفظ انگریزی کی صوتیات کے پیش نظر' معمولی سی تبدیلی کے ساتھ' انگریزی میں داخل ہو گئے ہیں۔ no انگریزی میں نفی کے لیے استعمال ہوتا ہے اردو میں نہ جب کہ انگریزی میں نو نو' باطور نہی کا سابقہ نوسر نوٹنکی نو .سر .باز باطور سابقہ نا ناکافی نازیبا ناچیز نہ باطور سابقہ نہ جاؤ' نہ چھیڑو' نہ کرو' نہ مارو ان بولتے لفظوں کو‘ ہم سن نہ سکے آنکھوں سے‘ چن نہ سکے کس منہ سے :مقصود حسنی
نہ کڑا نہ کھارا مقصود حسنی:چل' دمحم کے در پر چل I have no wit, no words, no tears; A Better Resurrection: Christina Rossetti No motion has she now, no force; A Slumber Did My Spirit Seal: William Wordsworth Thou hast no reason why ! Thou canst have none ; Human Life: Samuel Taylor Coleridge ............ رشتوں کے حوالہ سے بھی انگریزی میں کچھ الفاظ داخل ہوئے ہیں۔ مثال پنجابی میں بھرا
فارسی میں برادر اردو میں بھی برادر مستعمل ہے انگریزی میں brother اصل لفظ برا۔ بھرا ہی ہے جب کہ در باطور الحقہ داخل ہوا ہے۔ ایک پہلے ہے تب ہی دوسرا برا یا بھرا ہے۔ دونوں کا برابر کا رشتہ ہے۔ انگریزی میں واؤ الف کا تبادل ہے۔ یہ رویہ طور میواتی اور راجھستانی میں موجود ہے۔ برا سے برو بامعنی بھائی۔ در کا الحقہ father, mother میں بھی موجود ہے در' باطور سابقہ اور الحقہ اردو میں بھی رواج رکھتا ہے. مثال درگزر' درحقیقت' درکنار چادر چا در
His brother doctor of the soul, Wish: Matthew Arnold فارسی میں' ماں کے لیے مادر مستعمل ہے۔ اردو میں مادر پدر آزاد عام بول چال میں ہے۔ اصل لفظ ما ہی ہے۔ ں حشوی ہے .یہ ہی صورت فارسی کے ساتھ ہے۔ انگریزی میں mother بولتے ہیں۔ اس میں اصل لفظ مو ہی ہے' فارسی کی طرح در الحاقی یعنی خارجی ہے۔ ہر برتن کی زبان پہ اس کی مرحوم ماں کا نوحہ باپ کی بےحسی اور جنسی تسکین کا بین تھا نوحہ :مقصود حسنی ............
مرکبات حسن شعر میں داخل ہیں۔ یہ شخصی اور مجموعی رویوں کے عکاس اور شاعر کی اختراعی فکر کےغماز ہوتے ہیں۔ یہ ہی نہیں' زبان کی وسعت بیانی کی بھی گواہی دیتے ہیں۔ اردو اس ذیل میں کمال کی شکتی رکھتی ہے۔ انگریزی میں بھی مرکبات ملتے ہیں۔ اس ذیل میں اردو کے پائے کے مرکبات کی حامل ناسہی' لیکن اس کا دامن اس کمال زبان سے تہی نہیں۔ اردو اور انگریزی سے چند مثالیں مالحظہ فرمائیں۔ موسم گل ابھی محو کالم تھا کہ .......... پریت پرندہ .......... اس کی بینائی کا دیا بجھ گیا ......... پھر اک درویش مینار آگہی پر چڑھا ......
یتیمی کا ذوق لٹیا ڈبو دیتا ہے من کے موسم دبوچ لیتا ہے مقصود حسنی:حیرت تو یہ ہے
greedy heirs, ceremonious air, hideous show, poor sinner, undiscovered mystery, death’s winnowing wings, dying eyes, dew of morn, generous sun, silent moves, ruddy eyes, tears of gold, clouds of gloom, golden wings, trembling soul, make dreams, worth of distance, Shadows of the world, golden Galaxy, happy hours, sun in flight,
Wish: Matthew Arnold From bands of greedy heirs be free;
The ceremonious air of gloom – All which makes death a hideous show! پوشیدہ نمائش Of the poor sinner bound for death, مفلس گناہ گار بےچارہ گناہ گار That undiscovered mystery Which one who feels death’s winnowing wings Once more before my dying eyes ڈوبتی آنکھیں Bathed in the sacred dew of morn تاسف کی بوندیں But lit for all its generous sun, Where lambs have nibbled, silent moves They look in every thoughtless nest, فکر سے عاری گھروندا
Seeking to drive their thirst away, ہانکتی پیاس And there the lion’s ruddy eyes مغرور نگاہیں Shall flow with tears of gold, Night: William Blake Sometimes there are clouds of gloom Still buoyant are her Life: Charlotte Bronte My trembling soul would fain be Thine لرزتی روح My God! O Let Me Call Thee Mine! Anne Bronte If you can dream – and not make dreams your master; خواب بننا
With sixty seconds’ worth of distance run If: Rudyard Kipling Shadows of the world appear. Hung in the golden Galaxy. The Lady Of Shalott: Alfred Tennyson Now stand you on the top of happy hours, مسرور لمحے But wherefore do not you a mightier way Shakespeare And then, O what a glorious sight Address To A Haggis: Robert Burns Wild men who caught and sang the sun in flight,
مرکبات تحریر کے اختصاری معاملے میں' حد درجہ معاون ہوتے ہیں' بعینہ تشبیہات ناصرف اسم کو نمایاں کرتی ہیں' بل کہ اسم کی کائنات میں مماثلتیں بھی تالشتی ہیں۔ یہ ہی نہیں' اختصاری عمل میں بھی' اپنے حصہ کا کردار ادا کرتی ہیں۔ میر کا یہ معروف ترین شعر مالحظہ ہو۔ نازکی اس کے لب کی کیا کہیے پنکھڑی اک گالب سی ہے اس سے ناصرف لبوں کی نازکی سامنے آئی ہے' بل کہ چند لفظوں میں کئی صفحات پر محیط کام سمیٹ دیا گیا ہے۔ تشبیہات کے معاملہ میں' انگریزی اردو کے قریب تر ہے۔ ماضی بعید اورانگریز کے برصغیری عہد میں' اس زبان نے انگریزی کو متاثر کیا ہو گا۔ اردو اور انگریزی سے چند مثالیں مالحظہ فرمائیں۔ سلوٹ سے پاک سہی پھر بھی
حنطل سے کڑوا اترن کا پھل مقصود حسنی:چل' دمحم کے در پر چل ساون رت میں آنکھوں کی برکھا کیسے ہوتی ہے مقصود حسنی:مت پوچھو
My life is like a faded leaf My life is like a frozen thing, My life is like a broken bowl, Can make you live yourself in eyes of men. But wherefore do not you a mightier way Shakespeare ........
A Better Resurrection: Christina Rossetti Blind eyes could blaze like meteors and be gay, ........ Do Not Go Gentle Into That Good Night Dylan Thomas The moon like a flower Night: William Blake ........ And Joy shall overtake us as a flood, On Time: Milton ........ Blind eyes could blaze like meteors and be gay, Do Not Go Gentle Into That Good Night
Dylan Thomas ........ Made snow of all the blossoms; at my feet Like silver moons the pale narcissi lay Holy Week At Genoa: Oscar Wilde ........ Shall shine like the gold Night: William Blake ........ Hops like a frog before me. Brooding Grief: D.H.Lawrence حسن واختصار' موازنہ' تاریخ اور علوم سے راوبط کی ذیل میں تلمیح کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اردو شاعری میں اس کا عام' برمحل اور بالتکلف استعمال ملتا ہے۔ مثال
سنا ہے یوسف کی قیمت سوت کی اک انٹی لگی تھی عصر حاضر کا مرد آزاد دھویں کے عوض ضمیر اپنا بیچ دیتا ہے نظم :سنا ہے' مقصود حسنی وہ آگ عزازئیل کی جو سرشت میں تھی اس آگ کو نمرود نے ہوا دی اس آگ کا ایندھن قارون نے پھر خرید کیا
اس آگ کو فرعون پی گیا اس آگ کو حر نے اگل دیا یزید مگر نگل گیا مقصود حسنی:صبح ہی سے انگریزی میں باکثرت ناسہی' اس سے کام ضرور لیا گیا ہے۔ مثال To feel the universe my home; Wish: Matthew Arnold In heaven’s high bower, The angels, most heedful, Night: William Blake
And flamed upon the brazen greaves Of bold Sir Lancelot.
The Lady Of Shalott: Alfred Tennyson Shall I compare thee to a summer’s day? So are you to my thoughts That God Forbid That time of year Against My Love: Shakespeare Cast in the fire the perish’d thing; Melt and remould it, till it be A royal cup for Him, my King: O Jesus, drink of me A Better Resurrection: Christina Rossetti
‘Jesus the son of Mary has been slain, Holy Week At Genoa: Oscar Wilde
I long for scenes where man hath never trod A place where woman never smiled or wept there to abide with my creator God, خالق I am: John Clare If even a soul like Milton’s can know death ; Human Life: Samuel Taylor Coleridge
Biting my truant pen, beating myself for
spite: "Fool," said my Muse to me, "look in thy "heart, and write. Loving in truth: Phlip Sidney ضدین پر کائنات استوار ہے۔ یہ شناخت کا کلیدی وسیلہ ہیں۔ اردو شاعری میں' صنعت تضاد کا استعمال ملتا ہے۔ خوبی کی بات یہ کہ ضدین ایک دوسرے سے متعلق ہوتی ہیں۔ مثال وہ قیدی نہ تھا خیر وشر سے بے خبر معصوم فرشتوں کی طرح نظم :نوحہ' مقصود حسنی
ایندھن دیکھتا اندھا سنتا بہرا سکنے کی منزل سے دور کھڑا ظلم دیکھتا ہے آہیں سنتا ہے بولتا نہیں کہتا نہیں جہنم ضرور جائے گا نظم :نوحہ' مقصود حسنی اس صنعت کا' انگریزی شاعری میں بھی ملتا ہے اور استعمال کا طریقہ اردو سے قطعی مختلف نہیں۔ چند مثالیں مالحظہ فرمائیں
And up and down the people go, The Lady Of Shalott: Alfred Tennyson
The friends who come, and gape, and ;go Wish: Matthew Arnold
And by his health, sickness Night: William Blake
A place where woman never smiled or wept I am: John Clare ہم صوت الفظ کا استعمال' غنا اور آہنگ کی حصولی میں' بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اردو غزل میں شگفتگی' شائستگی اور وارفتگی اسی کی مرہون منت ہے۔ نظم کے شعرا نے بھی اس صنعت کو بال تکلف استعمال میں رکھا ہے۔ مثال
عہد شہاب میں بےحجاب بےکسی بھی عجب قیامت تھی۔ صبح اٹھتے مشقت اٹھاتےعوضوانے کو ہاتھ بڑھاتے بے نقط سنتے۔ سانسیں اکھڑ جاتیں مہر بہ لب جیتے کہ سانسیں باقی تھیں۔ جینا تو تھا ہی لہو تو پینا تھا ہی۔ یہ ہی فیصلہ ہوا تھا :مقصود حسنی مضمون ایک طرف' یہ ہم صوت الفاظ ہی' اس پہرے کو نثر کا سرمایا رہنے نہیں دیتے۔ انگریزی شاعری میں بھی' یہ صنعت دیکھنے کو ملتی ہے۔ مثال
!Must need read clearer, sure, than he Bring none of these; but let me be, Nor bring, to see me cease to live, !To work or wait elsewhere or here Wish: Matthew Arnold
Still strong to bear us well. Manfully, fearlessly, The day of trial bear, For gloriously, victoriously, !Can courage quell despair Life: Charlotte Bronte صنعت تکرار لفظی' جہاں آہنگ کے لیے ناگزیر ہے' وہاں بات میں زور اور وضاحت کا سبب بنتی بھی ہے۔ اردو میں اس صنعت کا استعمال عام ملتا ہے۔ مثال وہ قتل ہو گیا پھر قتل ہوا ایک بار پھر قتل ہوا اس کے بعد بھی قتل ہوا وہ مسلسل قتل ہوتا رہا
جب تک سیٹھوں کی بھوک‘ نہیں مٹ جاتی جب تک خواہشوں کا‘ جنازہ نہیں اٹھ جا وہ قتل ہوتا رہے گا وہ قتل ہوتا رہے گا مقصود حسنی:جب تک اب انگریزی شاعری سے چند مثالیں مالحظہ فرمائیں۔ If you can wait and not be tired by waiting, Or, being lied about, don’t deal in lies, Or, being hated, don’t give way to hating, And yet don’t look too good, nor talk too wise; .................. If you can dream – and not make dreams
your master; If: Rudyard Kipling If you can bear to hear the truth you’ve spoken Life: Charlotte Bronte
Four grey walls, and four grey towers, ......... The knights come riding two and two: ........ The helmet and the helmet-feather Burned like one burning flame together, The Lady Of Shalott: Alfred Tennyson
Then, horn for horn, they stretch an
strive: Address To A Haggis: Robert Burns
A little while, a little while, The weary task is put away, And I can sing and I can smile, Alike, while I have holiday. A Little While: Emily Bronte نوٹ انگریزی میں غزل نہیں اسی لیے مثالیں نظم سے لی گئی ہیں۔
اردو کی آوازوں کا نظام اور الرڑ بائرن کی شعری زبان
ہندوی‘ المعروف اردو ہندی استعمال ۔۔۔۔ بولی سمجھی لکھی پڑھی ۔۔۔۔ میں آنے والی‘ دنیا کی دوسری بڑی اور پرانی زبان ہے‘ جب کہ اپنے لسانیاتی نظام کے حوالہ سے‘ دنیا کی سب سے بڑی زبان ہے۔ لچک پذیری اور الفاظ گھڑنے میں اپنا جواب نہیں رکھتی۔ انگریز عہد کے سوا‘ اس کی کبھی سرپرستی نہیں ہوئی۔ انگریز نے بھی‘ فارسی کا پتا کاٹنے کے لیے‘ اس کی سرپرستی کی۔ اس اکیلی ہی کی نہیں‘ دیگر مقامی زبانوں کی بھی حوصلہ افزائی کی۔ وقت گزرنے کے بعد‘ کیلے کے چھلکے کی طرح پرے دے مارا۔ اس زبان کی یہ بھی خاصیت ہے‘ کہ پورے برصغیر میں استعمال ہوتی ہے۔ یہ برصغیر کے سماج سے پھوٹی اور سماج ہی میں پلی بڑھی۔ یہ حد درجہ کی ملن سار ہے۔ پنجابی کے عالوہ‘ تین رسم الخط کی حامل زبان ہے۔ ماسی مصیبتے‘ اس وقت
دنیا کی چودھرین بنی ہوئی ہے کہ اسے سیکھے اور جانے بغیر‘ ترقی کرنا ممکن ہی نہیں۔ اکثر سوچتا ہوں کہ بالجبر ہونے والے کام‘ کب منزل کو پہنچے ہیں۔ ہمارا بچہ انگریز پڑھتا ہوا‘ کر کرا کر بی اے پاس کر لیتا ہے۔ بڑی ہی چھالنگ لگائے گا‘ تو کسی منشی گاہ میں کلرک بادشاہ بن جائے گا۔ میں نے آج تک یہاں کے کسی انگریزی پڑھے کو‘ اباما کی سیٹ پر براجمان نہیں دیکھا‘ ہاں البتہ اباما کے کسی گماشتے کا چمچہ بن گیا ہو‘ تو یہ الگ بات ہے۔ ماسی مصیبتے سے گہرا رشتہ استوار کیے بغیر‘ ترقی ممکن نہیں۔ بےشک اس سے بڑھ کر‘ کوئی احمقانہ اور گمراہ کن بات ہو ہی نہیں سکتی۔ میں نے اپنے اس لسانی مطالعہ کے لیے زبان وفکر کے مستند شاعر الرڈ بائرن کو لیا ہے۔ مثالیں اسی کے کالم سے پیش کی گئی ہیں۔ اس مطالعہ کے دوران‘ کسی نوعیت کی لسانی عصیبت میرے
پیش نظر نہیں۔ وہ ہی لکھا ہے‘ جو میری سمجھ میں آیا ہے۔ باور رہے‘ اردو میری زبان یا بولی نہیں رہی۔ میں اول تا آخر پنجابی ہوں‘ اس لیے کسی لسانی عصبیت کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ اردو زبان کے استعمال کا نظام پانچ قسم کی آوازوں پر :استوار ہے الپ پران ہلکی آوازیں اس میں الف سے ے تک آوازیں شامل ہیں۔ انگریزی میں کچھ آوازیں شامل نہیں ہیں۔ ان کے لیے مرکب آوازیں استعمال میں الئی جاتی ہیں۔ یہ مرکب آوازیں پچیدگی کا سبب بنتی ہیں۔ جیسے شین کے لیے دس یا اس سے زائد مرکب آوازیں استعمال میں آتی ہیں۔ بعض آوازیں ایک سے زائد آوازیں پیدا کرتی ہیں۔ مثال سی کاف کی آواز بھی دیتی ہے۔ ایس سے زیڈ یعنی ز ذ ض ظ کی آواز بھی حاصل کی جاتی ہے۔
دوہری آواز Morn came and went--and came, and brought no day came کم میں‘ سی کاف کی آواز دے رہا ہے Nor age can chill, nor rival steal, can کین میں‘ سی کاف کی آواز دے رہا ہے As once I wept, if I could weep, once وانس میں‘ سی سین کی آواز دے رہا ہے could کڈ میں‘ سی کاف کی آواز دے رہا ہے The palaces of crowned kings--the huts, palaces پلیسز میں‘ سین کی آواز دے رہا ہے۔
crowned کراؤڈ میں‘ کاف کی آواز دے رہا ہے۔ ............... ایس سے سین کی آواز حاصل کی جاتی ہے۔ مثال Forests were set on fire--but hour by hour Forests اورset میں ایس سین کی آواز دے رہا ہے۔ Wore an unearthly aspect, as by fits aspect میں ایس سین کی آواز دے رہا ہے۔ The habitations of all things which dwell, habitations things میں ایس ذ ز ض ظ کی آواز دے رہا ہے Happy were those who dwelt within the
eye those میں ایس ذ ز ض ظ کی آواز دے رہا ہے To chase the glowing hours with flying feet. chase میں ایس ذ ز ض ظ کی آواز دے رہا ہے They fell and faded--and the crackling trunks crackling trunks میں کے ک کی آواز کے لیے استعمال ہوا ہے And a quick desolate cry, licking the hand licking میں کے ک کی آواز کے لیے استعمال ہوا ہے ..............
بعض آوازوں کے لیے ایک مفرد آواز سے کام چالیا جاتا ہے۔ مثال ذ ز ض ظ کے لیے زیڈ کی آواز استعمال کی جاتی ہے جو غیر اردو دان کے لیے پچیدگی کا موجب بنتی ہے۔ مثال zulm کو ذلم‘ زلم‘ ضلم zaef کو ذعیف زعیف ظعیف zillat کو ضلت ظلت زلت rozeel کو
روذیل روضیل روظیل بھی لکھا جا سکتا ہے تاہم سمجھنے تک معاملہ صاف رہتا ہے۔ ہاں لکھتے وقت‘ پچیدگی کا رستہ کھلتا ہے۔ اس مسلے کا تعلق آوازوں کے تبادلی نظام سے نہیں۔ یہ ایک کمی اور کم زوری کی طرف اشارہ ہے۔ رومن میں لکھتے وقت‘ اردو پشتو پنجابی عربی فارسی وغیرہ والے‘ زیڈ سے کام چال لیں گے‘ لیکن لکھتے وقت پچیدگی تو پیدا ہو گی۔ .............. چ بڑی اہم آواز ہے‘ یہ آواز انگریزی کے حروف ابجد میں نہیں ہے‘ تاہم اس کے لیے انگریزی میں مرکب سی ایچ استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال ch And form so soft, and charms so rare, And they did live by watchfires--and the thrones,
To watch it withering, leaf by leaf, شروع درمیان یا آخر میں‘ آواز چ دیتا ہے۔ میونخ میں یہ مرکب خ کی آواز دیتا ہے۔ .............. انگریزی میں آواز د موجود نہیں اس کے لیے مرکب ٹی ایچ استعمال میں آتا ہے۔ مثال There is an eye which could not brook The night that follow'd such a morn ;Than see it pluck'd to-day And men forgot their passions in the dread The flashes fell upon them; some lay down اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انگریزی والے د کی آواز نکال سکتے ہیں تاہم د کے لیے یہ مرکب مستقل اور مستعمل نہیں۔ مخصوص لفظوں تک محدود ہے۔ ..............
انگریزی میں آواز شین موجود نہیں۔ اس کے لیے مرکب ایس ایچ استعمال میں آتا ہے۔ مثال The flashes fell upon them; some lay down The feeble ashes, and their feeble breath Ships sailorless lay rotting on the sea, Blushed at the praise of their own loveliness. IS time the heart should be unmoved, .............. اس کے عالوہ کئی مرکب‘ شین کی آواز کے لیے مستعمل ہیں‘ جو انگریزوں کے عالوہ انگریزی سے جبری متعلق لوگوں کے لیے‘ پچیدگی کے دروازے کھولتے ہیں۔ مثال And men forgot their passions in the dread
Of this their desolation; and all hearts یہ معاملہ شین ش تک ہی محدود نہیں‘ سین کے ساتھ بھی‘ یہ ہی صورت حال درپیش ہے۔ مثال Immediate and inglorious; and the pang But with a piteous and perpetual moan, .............. مرکب آواز جی ایچ اردو والے رومن میں غین کی آواز کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ئی اور ف کی آواز سے اس کا کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ یہ مرکب آواز انگریزی میں مستعمل ہے۔ مفرد آواز ف کے لئے اس مرکب کا استعمال مالحظہ ہو۔ It is enough for me to prove کئی الفظ میں‘ اس کی آواز دب بھی جاتی ہے۔ مثال HERE be none of Beauty's daughters ..............
انگریزی میں ف کے لیے آواز ایف حروف ابجد میں موجود ہے۔ اردو میں کسی مفرد آواز کے لیے مرکب آواز کا استعمال رواج نہیں رکھتا۔ اس ذیل میں اس کا نظام الگ سے ہے۔ انگریزی میں اس کے لیے جی ایچ مرکب استعمال میں آتا ہے۔ اوپر اس کا مع مثال ذکر موجود ہے۔ .............. :دوہری آواز آ درحیقیقت‘ اردو کی مفرد اور ہلکی آوازوں میں شامل نہیں۔ انگریزی میں اکثر سنگل اے سے کام چالیا جاتا ہے۔ اہل زبان کے لیے دشواری نہیں بنتی‘ ہاں البتہ غیر انگریزی طبقے کے لیے تلفظ میں مشکل پیدا ہوتی ہے۔ مثال Wore an unearthly aspect, as by fits .............. عالمتی آوازیں
ان میں زیر زبر شد جزم‘ پیش وغیرہ شامل ہیں۔ اہل زبان کے لیے اس کی مکتوبی صورت الزم نہیں۔ انگریزی میں واول وغیرہ جب کہ شد کے لیے ڈبل ساؤنڈ یعنی ایک ہی حرف لکھا جاتا ہے۔ شد اہم اور نمایاں ترین عالمتی آواز ہے۔ اس میں ایک لفظ ایک بار لکھ کر دو بار پڑھنے میں آتا ہے اور اپنی شناخت برقرار رکھتا ہے۔ اہل زبان بالعالمت اسے اس کے تلفظ کے مطابق پڑھ لیتے ہیں۔ مثال ذرہ‘ جنت‘ قوت‘ مجسم‘ اول‘ تصوف انگریزی میں‘ عالمتی آوازیں موجود نہیں ہیں اس لیے‘ حرف کو دو مرتبہ رقم کر دیا جاتا ہے۔ دونوں آوازیں‘ اپنا وجود برقرار رکھتی ہیں۔ مثال ;Like common earth can rot com mon The sun that cheers, the storm that lowers, che ers
Uphold thy drooping head; dro oping Hissing, but stingless--they were slain for food. His sing Immediate and inglorious; and the pang Im mediate And evil dread so ill dissembled, dis sembled, .............. غنا کے لیے‘ ایک ہی آواز‘ دو مرتبہ باسلیقہ استعمال کرنے کا رجحان ملتا ہے۔ مثال تسلسل‘ مسلسل‘ تذبذب Than thus remember thee! remember
A moment on that grave to look. moment Swung blind and blackening in the moonless air; blackening The habitations of all things which dwell, habitations The brows of men by the despairing light despairing .............. اردو میں ایک ہی لفظ میں؛ ایک ہی آواز‘ تین مرتبہ ‘استعمال کرنے کا چلن موجود ہے۔ دو بار مسلسل اور ایک عالمتی آواز شد کی مدد سے حاصل کی جاتی ہے۔ مثال مکرر‘ مقرر‘ مخفف‘ تشدد
انگریزی میں یہ طور نہیں ملتا۔ ہاں البتہ‘ ایک لفظ میں ایک آواز کا تین بار استعمال نظر آتا ہے۔ مثال And the eyes of the sleepers waxed deadly and chill, اصل لفظ sle ہے مستعمل sleep ہے er کی بڑھوتی حالت کی وضاحت کے لیے ہوئی ہے۔ And when they smiled because he deemed it near, میں زمانے کی وضاحت کے لیے استعمال ہوا
..............ہے۔ انگریزی میں ایک آواز کو؛ ایک ہی لفظ میں‘ ایک جا‘ استعمال کا چلن موجود ہے‘ لیکن ان کی الگ سے شناخت‘ موجود نہیں‘ ہاں البتہ آواز میں زور‘ آہنگ اور غنا میں ہر چند اضافہ ضرور ہو جاتا ہے۔ مثال The flower in ripen'd bloom unmatch'd As stars that shoot along the sky And men forgot their passions in the dread The feeble ashes, and their feeble breath .............. بھاری آوازیں یعنی مہاپران یہ خاص برصغیر کی آوازیں ہیں۔ سنسکریت سے حاصل کی گئی ہیں۔ یہ تعداد میں بہت زیادہ ہیں‘ لیکن اردو میں چند ایک مستعمل ہیں۔ یہ آوازیں انگریزی میں نہیں ہیں۔ جہاں کہیں ان کا استعمال ہوا ہے‘ مرکب آواز کی صورت
میں ہوا ہے۔ اس کی جڑ ھ ہے۔ ابتدا میں باقاعدہ آواز کی جڑت ہو جاتی ہے۔ اردو کی بھاری آواز ت ھ تھ انگریزی میں عام استعمال کی ہے اور غالبا ادھر ہی سے گئی ہے۔ نمونہ کے چند الفاظ مالحظہ ہوں ,Though Earth receiv'd them in her bed The loveliest things that still remain, Through dark and dread Eternity Rayless, and pathless, and the icy earth All earth was but one thought--and that was death bh jh dh rh gh kh ph مرکبات رومن اردو لکھنے والوں کی ضرورت ہیں۔ .............. غیر مشمولہ آواز
ں حروف ابجد میں شامل نہیں‘ لیکن اس کا جمع بنانے کے عالوہ بھی‘ بڑی کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ انگریزی میں یہ آواز موجود نہیں ہے۔ انگریزی میں‘ ڈبل او این کا استعمال ملتا ہے لیکن آواز کو گوالئی اور دائرہ نہیں میسر آتا۔ دوسرا این کی آواز ڈبل او میں مدغم نہیں ہوتی۔ .............. مرکب آوازیں اردو میں بہت سی مرکب آوازیں مستعمل ہیں۔ انگریزی کا دامن مرکب آوازوں سے تہی نہیں لیکن اردو اس معاملہ میں بہت فراخ ہے۔ مرکب آوازوں میں‘ سابقے الحقے وغیرہ شامل ہیں‘ جو حالت اور صیغے کی تبدیلی کے لیے لفظ کا حصہ بنا دیے جاتے ہیں۔ اس ذیل میں چند ایک مثالیں مالحظہ ہوں۔ کر پیکر‘ دنکر‘ منافکر‘ ہیکر
The worm, the canker, and the grief گر جادوگر‘ کاریگر Till hunger clung them, or the dropping dead ار ارضی‘ ارکان‘ ارشی عرشی With silence and tears. Like the swell of Summer's ocean. کن کارکن‘ کان کن Were burnt for beacons; cities were consum'd, ری کراری‘ گراری‘ ہتھاری
Of cloudless climes and starry skies; Where glory decks the hero's bier, Than thus remember thee! Returns again to me, ٹی پھینٹی‘ بالٹی‘ کانٹی ہٹی‘ ٹٹی بتی‘ پتی درانتی Through dark and dread Eternity ور زیور طاقت ور وردان There flowers or weeds at will may grow,
بی باادب‘ باوقار‘ باجماعت بیمار بےکار‘ بےزار‘ بےوقوف یائے مصدری اضافے سے خراب ی خرابی‘ شراب ی شرابی‘ کباب ی کبابی So I behold them not: ان ان تھک‘ ان گنت‘ انجان عنقریب Wore an unearthly aspect, as by fits IS time the heart should be unmoved, Though by no hand untimely snatch'd, گھٹن باطن
سوتن And shivering scrap'd with their cold skeleton hands ئی سالئی کڑھائی Shine brightest as they fall from high. My tears might well be shed, ایسی؛ بہت سی مرکب آوازیں موجود ہیں‘ یہاں باطور نمونہ چند آوازیں درج کی گئی ہیں‘ تا کہ دونوں زبانوں کی لسانی قربت اور اردو کے آوازوں کے نظام کا‘ محدود سہی‘ کسی حد تک تھوڑا بہت اندازہ ہو سکے۔
اردو اور جان کیٹس کی شعری زبان
Born: October 31, 1795, Moorgate, City of London, United Kingdom Died: February 23, 1821, Rome, Italy انسان ایک دوسرے کے قریب آئے یا نہ آئے یا مفاد پرست عناصر‘ ان میں دوریاں پیدا کیے رکھیں‘ اس کے باوجود اس کی نفسیات‘ سماجیات اور معاشیات میں قربت رہتی ہے۔ نظریاتی اور امرجاتی حوالہ سے‘ کوسوں دور رہ کر بھی‘ ان تینوں کے زیر اثر‘ ایک دوسرے کے قریب رہتا ہے۔ مزدور سیٹھ کی مجبوری ہے اور سیٹھ مزدور کی کم زوری ہے۔ دوکان دار گاہک کے ساتھ اور گاہک دوکان دار کے ساتھ منسلک ہیں۔ دکھ سکھ میں‘ تنہائی کاٹنے کو دوڑتی ہے۔ اس وقت دشمن کی سانجھ بھی‘ مداوے کا کام کرتی ہے۔ جب انسان ایک دوسرے سے نفسیات‘ سماجیات اور
معاشیات کے حوالہ سے‘ قربت رکھتے ہیں‘ تو زبانیں کس طرح ایک دوسرے سے دور رہ سکتی ہیں۔ کسی نہ کسی سطع پر‘ ان میں لسانیاتی قربت موجود ہوتی ہے۔ اس ناچیز تحریر میں‘ انگریزی کے رومانوی شاعرجان کیٹس کی زبان کا‘ اردو کے تناظر میں‘ لسانیاتی مطالعہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ هللا کرے‘ میری یہ حقیر کوشش احباب کے کام کی نکلے۔ مرکب آواز ری‘ اردو میں مستعمل ہے۔ آخر میں رے آنے والی آواز کے بعد‘ یائے مصدری بڑھا کر‘ لفظ کی مختلف صورتیں اور حالتیں بنا لی جاتی ہیں۔ مثال صفتی :بھاری‘ ساری‘ کاری‘ عاری فعلی :جاری‘ اتاری‘ ماری اسمی :آری‘ ہاری‘ کیاری‘ الری باور رہنا چاہیے اردو میں اس کا باطور مرکب آواز استعمال نہیں ہوا۔
باطور سابقہ استعمال ملتا ہے۔ مثال ریحان :اس کی دو صورتیں ہیں ری حان‘ ریح ان ریح ان :انس ان‘ شیط ان ری حان میں باطور صفتی سابقہ ہے۔ انگریزی میں بھی باطور صفتی سابقہ استعمال میں آتا ہے۔ :جان کیٹس کے ہاں اس کا استعمال مالحظہ ہو
Never have relish in the faery power تر :اردو میں صفت کی دوسری حالت بیان کرنے کے لیے باطور الحقہ استعمال میں آتا ہے۔ مثال تر :خوب تر‘ قریب تر‘ عظیم تر
بدتر انگریزی میں‘ ت کی آواز موجود نہیں اس کی متبادل آواز ٹ ہے‘ اس لیے تر کی بجائے ٹر استعمال میں آتا ہے۔ ٹر اردو ہی کی طرح‘ اسی طور سے‘ صفت کی دوسری حالت واضح کرنے کے لیے‘ باطور الحقہ استعمال میں آتا ہے۔ :جان کیٹس کے ہاں اس کا استعمال مالحظہ ہو
Are sweeter; therefore, ye soft pipes, ;play on ان نہی کا سابقہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سنسکرت سے آیا ہے۔ جو بھی سہی‘ اردو میں عام استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ان :ان پڑھ‘ ان تھک‘ ان جان‘ ان حد‘ ان گنت وغیرہ انگریزی میں بھی یہ سابقہ نہی کی تفہیم کے لیے عام استعمال میں آتا ہے۔ جان کیٹس کے ہاں اس سابقے کا
استعمال مالحظہ ہو۔ ان-un Thou still unravish'd bride of quietness, Heard melodies are sweet, but those unheard And, happy melodist, unwearied, That I might drink, and leave the world unseen, Of unreflecting love;--then on the shore Heard melodies are sweet, but those unheard انگریزی لفظ ہائی ہا کے ساتھ ئی الحقے کی بڑھوتی سے ترکیب پایا۔ مرکب آواز جی ایچ سے ای کی آواز پیدا کی گئی ہے۔ یہ انگریزی کا اپنا اسلوب تکلم نہیں۔ بہرطور ہا کے لیے باال مترادف ہے جب کہ ئی کا الحقہ اردو میں بھی موجود ہے۔ مثال
ہائی :باالئی مزید کھائی الئی پائی گائی سالئی جان کیٹس کے ہاں ہائی کا استعمال مالحظہ ہو That leaves a heart high-sorrowful and cloy'd,
الحقہ کر فاعل کی ترکیب کے لیے استمال آتا ہے۔ مثال کر :دنکر‘ پربھاکر‘ بھیانکر‘ عطاکر‘ جادوکر‘ محاکاتکر یہ الحقہ اسی مقصد کے لیے انگریزی میں بھی مستعمل ہے۔ جان کیٹس کے ہاں اس الحقے کا استعمال مالحظہ ہو۔
Bold Lover, never, never canst thou kiss, And sometimes like a gleaner thou dost keep
اس الحقے کی ترکیب و استعمال کا چلن اردو سے قطعی مختلف نہیں۔ انسانی موڈ و مزاج سے میل کھاتے طور‘ انداز اور رویے کے اظہار کے لیے‘ سے کی بڑھوتی کرتے ہیں۔ جیسے الفت سے شفقت سے‘ غضب سے‘ قہر سے‘ محبت سے اس کے لیے الحقہ یہ بھی بڑھاتے ہیں۔ مثال شوقیہ‘ مذاقیہ‘ ذوقیہ اس کے لیے‘ سابقہ بہ بھی استعمال میں آتا ہے۔ جیسے بہ مشکل بہ قدر بہ حیثیت انگریزی میں لی الحقہ پیوست کرتے ہیں۔ اردو لفظ گھڑنے میں اپنا جواب نہیں رکھتی۔ جیسے لفظ ٹربالت سننے میں آیا ہے۔ لی الحقہ بڑھانے سے یہ لفظ کچھ یوں ترکیب پائیں گے۔ الفتلی ‘ شفقتلی ‘ غضبلی ‘ قہرلی ‘ محبتلی اردو سابقہ لی سے تہی نہیں۔
جھولی‘ کھولی‘ سولی‘ شرلی بریلی‘ حویلی معروف نحو :اکیلی اصل نحو :ایکلی :جان کیٹس کے ہاں الحقہ لی کا استعمال مالحظہ ہو
A flowery tale more sweetly than our rhyme: اردو میں ور عام استعمال کا الحقہ ہے۔ مثال طاقت ور‘ دیدہ ور -باور انگریزی میں بھی یہ الحقہ مستعمل ہے ۔ مثال میں جان کیٹس کی یہ الئین مالحظہ ہو۔
Never have relish in the faery power
لفظ کے ساتھ سابقہ اور الحقہ ایک ساتھ استعمال کا اردو میں چلن موجود ہے۔ مثال ہمنوائی :ہم نوا ئی بےوفائی :بے وفا ئی روسیاہی :رو سیاہ ی‘ رو سیا ہی المتناہی :ال متناہ ی‘ ال متنا ہی یہ طور انگریزی میں موجود ہے۔ جان کیٹس کے ہاں یہ :چلن مالحظہ فرمائیں No -yet still steadfast, still unchangeable, un change able, اردو میں تشبیہ‘ حسن شعر میں نمایاں حیثیت کی حامل ہے۔ کسی شے‘ جگہ‘ شخص اور معاملے کو اجاگر اور نمایاں کرنے میں‘ بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے۔ انگریزی شاعری میں اس کا اسی غرض اور طور سے استعمال ملتا
likeہے۔ حرف تشبیہ میں کا سا‘ جیسا‘ کی طرح کے لیے استعمال میں آتا ہے۔ جان کیٹس نے بھی اس حسن شعر سے‘ باکثرت کام لیا ہے۔ اس ذیل میں چند مثالیں مالحظہ فرمائیں۔
Forlorn! the very word is like a bell Like Nature's patient sleepless Eremite, Hold like rich garners the full ripen'd ;grain مرکبات کی تشکیل زبان کی بہت بڑی خدمت ہے۔ اردو شعرا کے ہاں کئی طرح کے مرکبات ترکیب پائے ہیں۔ انگریزی شاعری میں یہ چلن عام ملتا ہے۔ جان کیٹس کی شاعری سے چند مثالیں مالحظہ ہوں۔
Not to the sensual ear, but, more endear'd,
Fair youth, beneath the trees, thou canst not leave To what green altar, O mysterious priest, Or mountain-built with peaceful citadel, Is emptied of this folk, this pious morn? O Attic shape! Fair attitude! with brede Of marble men and maidens overwrought, With forest branches and the trodden weed; Thou, silent form, dost tease us out of thought And haply the Queen-Moon is on her throne, Where beauty cannot keep her lustrous eyes A flowery tale more sweetly than our
rhyme And when I feel, fair creature of an hour, دو ہم مرتبہ لفظوں کو مال کر لفظ بنانے کا اردو میں عام رجحان ملتا ہے۔ مثال بزدل‘ عینک انگریزی اس رجحان سے الگ تر نہیں۔ اس میں یہ رجحان عمومی سطع پر ملتا ہے۔ جان کیٹس کے ہاں اس کی مثالیں مالحظہ ہوں۔
And, little town, thy streets for evermore When I behold, upon the night's starr'd face, پہلے ہی Already with thee! tender is the night,
;And leaden-eyed despairs The grass, the thicket, and the fruit-tree ;wild
اہل زبان کا کوئی ناکوئی تکیہءکالم ہوتا ہے جو مہارت میں آ کر روزمرہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اردو میں بھی یہ صورت حال موجود ہے۔ شخصی اور اجتماعی تکیہءکالم کی صورتیں موجود ہیں۔ مثال گھنٹے سے کہہ رہی ہوں‘ دو منٹ ٹھہر جاؤ۔ یار دو منٹ رکو۔ منٹ مار بجلی جانے کو ہے۔ یہاں ہی تھا دو منٹ پہلے اٹھ کر گیا ہے آہا مزا آ گیا۔
انگریزی میں یہ دونوں موجود ہیں۔ اس ذیل میں جان کیٹس کی یہ الئنیں مالحظہ ہوں۔
One minute past, and Lethe-wards had sunk: Ah, happy, happy boughs! that cannot shed صنعت لف و نشر اور متعلق الفاظ کا استعمال‘ اردو شاعری میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے جہاں صوتی حسن میں اضافہ ہوتا ہے‘ وہاں فکر کو بھی جال ملتی ہے۔ یہ صنعت انگریزی شاعری میں بھی پڑھنے کو ملتی ہے۔ جان کیٹس کی یہ الئنیں مالحظہ فرمائیں۔
In ancient days by emperor and clown What little town by river or sea shore,
تکرار لفظی‘ جہاں آہنگ اور موسیقیت کا سبب بنتی ہے‘ وہاں فکری بالیدگی کا بھی موجب بنتی ہے۔ اردو میں‘ اس صنعت کا عام استعمال ملتا ہے۔ انگریزی میں بھی یہ صنعت نظر انداز نہیں ہوئی۔ جان کیٹس کی یہ سطور مالحظہ ہوں۔
Still, still to hear her tender-taken breath, "Beauty is truth, truth beauty,--that is all ;For ever piping songs for ever new Of deities or mortals, or of both, Away! away! for I will fly to thee, اردو میں صنعت تضاد حسن شعر کا درجہ رکھتی ہے۔ تقابلی صورت واضح کرنے کے ساتھ ساتھ‘ ان کی معنویت بھی نمایاں کرتی ہے۔ انگریزی میں بھی اس صنعت کا استعمال ملتا ہے۔ جان کیٹس کے ہاں‘ اس کا استعمال بڑا
ہی بےتکلفانہ ہے۔ یہ الئنیں پڑھیے اور لطف لیجیے۔
What men or gods are these? What ?maidens loth A flowery tale more sweetly than our rhyme: ہم صوت لفظوں کا اردو شاعری میں استعمال کمال فن سمجھا جاتا ہے۔ یہ چلن انگریزی میں بھی موجود ہے۔ جان کیٹس کی یہ الئنیں مالحظہ ہوں۔
Bold Lover, never, never canst thou kiss,
A burning forehead, and a parching tongue.
بعض انگریزی اصطالحیں‘ اردو میں اردو کے مزاج کے مطابق مستعمل ہیں۔ مثال سلکی اب یہ ہی جان کیٹس کے ہاں مالحظہ فرمائیں And all her silken flanks with garlands ?drest سلکی کوئی نیا طور نہیں ایسے کئی لفظ اردو میں رائج ہیں۔ مثال نلکی‘ ہلکی پھلکی اردو شعرا اپنے اشعار میں‘ قریب قریب معنوں کے الفاظ استعمال کرکے‘ کالم میں فصاحت و بالغت پیدا کرتے ہیں۔ انگریزی شاعری کے دامن میں‘ اردو کا یہ طور موجود ہے۔ اس ذیل میں جان کیٹس کی یہ الئین مالحظہ ہو۔
Through the sad heart of Ruth, when, sick for home, دونوں زبانوں میں جمع بنانے کے لیے قریب قریب کے
الحقے موجود ہیں۔ مثال یں :حوریں‘ کاریں ین :مورخین‘ مفکرین‘ قارین جان کیٹس کے ہاں اس طور کی جمع مالحظہ ہو
Sylvan historian, who canst thus express بےشمار انگریزی الفاظ اردو میں مستعمل ہو گیے ہیں۔ مثال
slow, time, god, pipe, ditties, song, Lover, kiss, happy, love, green, age, pains,need, high pen, hand, chance, high
حسنی صاحب یہ تو اپ نے بڑی محنت کا کام کیا ہے۔ ایسی مماثلت ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالی ہے کہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا یہ محض اتفاقات ہی ہو سکتے ہیں۔ شاید مزید تحقیق لسانیات کے کچھ نئے انکشافات کا باعث ہو سو اسے جاری رکھنے میں اور دوستوں سے شئیر کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ ہا ایسا تجویز کرتا ہوں کہ ہر مماثلت کی مثالیں اگر زیادہ شامل کر دی جائیں اور ساتھ ہی وضاحت بھی کر دی جائے تو اچھا ہو گا کیونکہ کچھ مقامات پر بات سمجھنے میں دقت ہوئی والسالم ڈاکٹر سہیل ملک
ٹی ایس ایلیٹ اور روایت کی اہمیت
ٹی ایس ایلیٹ کے نزدیک‘ روایت اپنی اصل میں‘ اظہار کا تسلسل ہے‘ جو ادوار کے انقالبات سے‘ متاثر ہوتی ہے‘ لیکن دم نہیں توڑتی‘ بلکہ اپنی اوریجن سے پیوستہ رہتی ہے۔ وہ محض ماضی کے تجربات کو‘ روایت کا نام نہیں دیتا‘ اور اسے درست بھی خیال نہیں کرتا۔ گویا ماضی‘ حال اور مستقبل روایت ادبی کے مفہوم میں شامل ہیں۔ روایات ہر قوم اور ہر ملک کی زندگی کے‘ ہر شعبے میں وقت کے ساتھ ساتھ جلوہ گر ہوتی رہتی ہیں۔ تہذیب اور کلچر‘ ان ہی کے مجموعے کا نام ہے۔ یہ سب کسی قوم کے جغرافیائی حاالت‘ افتاد طبح‘ فکری رجحانات اور اس پر پڑے ہوئے‘ مختلف قسم کے‘ ذہنی و وجدانی اثرات کے نتیجہ میں تشکیل پاتی ہیں۔ وراثت کی زمین میں‘ ان کے پودے جڑ پکڑتے ہیں‘ اور ماحول ان کی آبیاری کرتا رہتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ‘ یہ ہی پودے تناور درختوں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے‘ کہ ہر قوم کی بڑائی اور برتری‘ روایات پر انحصار کرتی ہے۔ اس کی ذہنی‘ فکری اور تہذیبی سربلندی
کو‘ اسی پیمانے سے ناپا جا سکتا ہے۔ وہ تہذیب اور کلچر کا نچوڑ ہوتے ہیں۔ ادب‘ انسانی زندگی کا اہم ترین شعبہ ہے‘ اور وہ کسی قوم کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ زمانے کے ساتھ ساتھ اس کا خمیر اٹھتا رہتا ہے۔ ایلیٹ کے نزدیک‘ ہر ملک اور قوم کا‘ ادب ایک خاص قسم کی‘ آب وہوا اور مخصوص طرح کے ماحول میں‘ آنکھ کھولتا اور پرورش پاتا ہے۔ اس لیے جو روایات‘ ادب میں تشکیل پاتی ہیں‘ ان سب کا ان روایات سے‘ ہم آہنگ ہونا فطری سی بات ہے۔ کوئی ادب‘ زندہ روایات کے بغیر‘ زندہ نہیں رہ سکتا۔ بڑے سے بڑا ترقی پسند‘ اس بات کا معترف ہے کہ ہر زمانے کی تہذیب کو‘ گزشتہ دور کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ماضی کا رنگ‘ چاہے کتنا ہلکا ہو‘ حال اور مستقبل میں ضرور ملے گا۔ سماجی زندگی اور تہذیب و تمدن‘ ماضی سے استفادہ کرنے پر مجبور ہیں‘ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں‘ کہ ماضی کو اپنا آئیڈیل سمجھ لیا جائے۔ اگر سمجھ لیا جائے گا‘ تو یہ روایت پسندی نہیں روایت پرستی ہو گی۔
ایلیٹ کا موقف ہے‘ کہ جدت‘ تکرار سے بہتر ہے۔ یہ ورثہ میں نہیں ملتی‘ بلکہ تسلسل میں چلی آتی ہے۔ روایت کی ذیل میں‘ اس نے چند خطرات سے‘ آگاہ کیا ہے۔ بعض اوقات ہم زندگی بخش اور غیرصحت مند روایات میں‘ تمیز نہ کرتے ہوئے‘ کسی غیر صحت مند روایت سے چپکے رہتے ہیں۔ اس سے غلط اور صحیح گڈمڈ ہو جاتے ہیں۔ اس کے نزدیک‘ روایت پرستی‘ سطحی تقلید اور اندھی نقالی‘ مضر اور خطرناک ہیں۔ تجربہ بھی‘ روایت کے بطن سے جنم لیتا ہے۔ نئے پن میں‘ پرانا پن یا نئے پن کے ساتھ پرانا پن بھی ضروری ہے۔ روایت‘ ادب کی نشوونما اور ترقی میں‘ اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ ادب بدلتے حاالت کی رفتار کے ساتھ‘ ارتقا اور ترقی کے راستے پر گامزن رہتا ہے۔ روایات اسے رستہ دکھاتی ہیں۔ ادب کو تجربات کی نئی دنیا سے روشناس کرانا بھی‘ روایات کے پیش نظر ہوتا ہے۔ وہ اس کے لیے‘ زمین تیار کرتی رہتی ہیں‘ اور جانچنے کا معیار بھی دریافت کرتی ہیں۔ روایت کے بغیر تنقیدی معیارات‘ تشکیل نہیں پاتے۔
ایلیٹ کے نزدیک‘ روایات‘ ادب اور عوام کے درمیان‘ رابطے کا ذریعہ بھی ہیں۔ ان ہی کے سبب‘ عوام ادب کو اپنا قومی سرمایہ سمجھتے ہیں۔ بعض لوگ‘ روایت کے مفہوم کو محدود کر لیتے ہیں۔ وہ غلط تحریکوں کے محرک ہوتے ہیں‘ اور خود کو‘ جدت پسند قرار دیتے ہیں۔ وہ سارے ادب سے‘ ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں‘ کہ تجربات نہ کیے جائیں۔ تجربہ‘ ادب کی جان اور تاریخ ہوتا ہے۔ روایات اور تجربات‘ ایک دوسرے کے متضاد نہیں ہیں۔ تجربات کے لیے‘ کسی زمین کا ہونا ضروری ہے۔ یہ زمین روایت فراہم کرتی ہے۔ ادب اور فن میں‘ جہاں دوسری روایت کی طرح پڑتی ہے‘ وہاں تجربے کا بھی پتا چلتا ہے۔ ایک بڑا شاعر‘ روایت پرست بھی ہوتا ہے‘ اور تجرباتی بھی۔ اس کے بزرگوں نے‘ جو دریافتیں کی ہوتی ہیں‘ وہ انہیں نظرانداز نہیں کر سکتا‘ بصورت دیگر‘ اس کی آواز‘ محض صدائے بازگشت ہو کر رہ جائے گی‘ اور وہ اپنے بزرگوں کے پائے تک‘ نہیں پہنچ پائے گا۔
تاریخی روایات کے حصول کے لیے‘ ایلیٹ نے‘ شاعر کے تاریخی شعور کو‘ اہم قرار دیا ہے۔ جو پچیس سال کی عمر کے بعد بھی‘ شاعر رہنا چاہتا ہے‘ اس کے لیے تاریخی شعور ناگزیر ہے۔ یہ تاریخی شعور‘ ادب کی الزمانی کا شعور بھی ہے‘ اور اس کے زمانی ہونے کا ثبوت بھی۔ زمانی اور الزمانی ہونے کا شعور‘ شاعر کو روایت کا شاعر بناتا ہے‘ اور اسی سے‘ اس کے زمانی مقام کا‘ تعین ہوتا ہے۔ ایلیٹ کے نزدیک‘ الفانیت کو سمجھنے کے لیے‘ روایت کا شعور‘ شرط الزم ہے۔ تاہم وہ روایت کے شعرا کے کالم کو‘ نقالی نہیں سمجھتا۔ یہ شعور شعرا کو‘ مجبور کرتا ہے‘ کہ وہ لکھتے وقت اپنے عہد ہی کو‘ پیش نظر نہ رکھیں‘ بلکہ گزشتہ سے آج تک کے ادب کو‘ اور اپنے ملک کے سارے ادب کو‘ اپنا ہم عصر تصور کریں۔ ایلیٹ ادب اور زندگی‘ دونوں میں معیارات کے نفوذ اور غیر شخصی و غیرذاتی‘ میالنات و رجحانات کا قائل ہے۔ اسی لیے وہ‘ احساس رفتہ اور احساس روایت کو ضروری سمجھتا ہے۔اس کی نظر میں‘ تمام ادبی فن پارے ایک
سلسلہ میں‘ تنظیم و ترتیب پاتے ہیں۔ اس کے خیال میں‘ روایت کے یہ معنی نہیں ہیں‘ کہ ادب کو محض چند تعصبات سے پاک رکھا جائے۔ تعصبات روایت کے تشکیلی عمل کے دوران‘ وجود پکڑتے ہیں۔ ایلیٹ کے روایت سے متعلق خیاالت کا‘ لب لباب کچھ یوں :ٹھہرے گا روایت لکیر کےفقیر ہونے کا نام نہیں۔ ١- روایت کے حصول کے لیے‘ محنت و کاوش سے‘ کام ٢- لینا پڑتا ہے۔ تاریخی شعور کا مطلب یہ ہے‘ کہ شاعر کو احساس ٣- ہو‘ کہ ماضی صرف ماضی ہی نہیں‘ بلکہ اس کے اعلی اور آفاقی عناصر‘ ایک زندہ شے کی طرح‘ نشوونما پاتے ہوئے‘ حال میں پہنچ گیے ہوتے ہیں۔ شاعری کی ادبی حیثیت کا اندازہ‘ کسی شاعر کی‘ دیگر ٤- شعرا کے کالم ہی سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس کی مجرد طور پر‘ قدروقیمت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا‘ کیوں کہ وہ پورے ادبی نظام کا‘ حصہ ہوتا ہے۔
ہر نیا فن پارہ‘ اپنے نئے پن سے تمام فن پاروں کی ٥- قدروقیمت کو متاثر کرتا ہے۔ اس کی روشنی میں گزشتہ کے فن پاروں کا‘ پھر سے جائزہ لینا پڑتا ہے۔ ایمان دارانہ تنقید‘ شاعر پر نہیں‘ شاعری پر ہونی ٦- چاہیے۔ یہ اس لیے ضروری ہے‘ کہ کسی ایک نظم کا تعلق‘ دوسری نظموں سے ہوتا ہے۔ نظم صرف ایک مفہوم ہی نہیں‘ اپنا زندہ وجود رکھتی ٥- ہے۔ اس کے مختلف حصوں سے‘ جو ترکیب بنتی ہے‘ وہ واضح حاالت کی فہرست سے مختلف ہوتی ہے۔ وہ احساس یا جذبہ یا عرفان جو نظم سے حاصل ہوتا ہے‘ وہ شاعر کے ذہن میں ہوتا ہے۔ اس مضمون کی تیاری میں خصوصا درج ذیل کتب شکریے :کے ساتھ پیش نظر رہیں مغرب کے تنقیدی اصول پروفیسر سجاد باقر رضوی مطبع عالیہ ١٩٦٦ ارسطو سے ایلیٹ تک ڈاکٹر جمیل جالبی فاؤنڈیشن ١٩٥٥
نیشنل
انگریزی اور اس کے لسانیاتی دائرے
مقصود حسنی ابوزر برقی کتب خانہ
جون 6102