مقصود حسنی

Page 1


‫میرے بیس منسانے‬ ‫مقصود حسنی‬ ‫ابوزر برقی کتب خانہ‬ ‫نومبر ‪٢٠١٦‬‬ ‫منی افسانے‬ ‫فہرست‬ ‫میں کریک ہوں ‪١-‬‬ ‫ان ہونی‘ ان ہونی نہیں ہوتی ‪٢-‬‬ ‫جذبے کی سزا ‪٣-‬‬ ‫ہللا بھلی کرے ‪٤-‬‬ ‫آخری کوشش ‪٥-‬‬ ‫تیسری دفع کا ذکر ہے ‪٦-‬‬


‫انگلی ‪٧-‬‬ ‫آخری تبدیلی کوئی نہیں ‪٨-‬‬ ‫کھڑ پینچ دی جئے ہو ‪٩-‬‬ ‫سراپے کی دنیا ‪١٠-‬‬ ‫میں ہی قاتل ہوں ‪١١-‬‬ ‫خیالی پالؤ ‪١٢-‬‬ ‫تعلیم اور روٹی ‪١٣-‬‬ ‫بوسیدہ الش ‪١٤-‬‬ ‫وبال دیکھیے ‪١٥-‬‬ ‫عصری ضرورت ‪١٦-‬‬ ‫اماں جیناں ‪١٧-‬‬ ‫اس کا نام ہدایتا ہی رہا ‪١٨-‬‬ ‫بھاری پتھر ‪١٩-‬‬ ‫ایسے لوگ کہاں ہیں ‪٢٠-‬‬


‫میں کریک ہوں‬

‫ببو ہمارے محلے کا اکلوتا دکان دار ہے۔ برا نہیں تو اچھا بھی‬ ‫نہیں۔ بےایمان نہیں تو اسے ایمان دار بھی نہیں کہا جا سکتا۔‬ ‫میری اس سے کوئی گہری سالم دعا نہیں‘ بس راہ چلتے ہیلو‬ ‫ہائے ہو جاتی ہے۔‬ ‫اس نے دکان بدلی تو میں نے پوچھا‪ :‬دکان کیوں بدلی ہے۔ کہنے‬ ‫لگا‪ :‬ایک تو تنگ تھی سودا پورا نہیں آتا تھا دوسرا ٹپکنے لگی‬ ‫تھی۔‬ ‫میں نے کہا چلو تم نے ٹھیک کیا۔ یہ کہہ کر کام پر روانہ ہو گیا۔‬ ‫رستہ وہ ہی تھا واپسی پر سالم دعا کے بعد میں نے دکان بدلنے‬ ‫کی وجہ دریافت کی۔ اس نے بال تردد و ترمیم وہ ہی وجہ بتائی۔‬ ‫اگلے دن جمعہ تھا‘ چھٹی ہونے کے سبب میں نے سارا دن گھر‬ ‫پر ہی گزرا۔‬ ‫ہفتے کو کام پر جاتے ہوئے اس کے پاس رکا۔ دعا سالم اور حال‬ ‫احوال پوچھنے کے بعد دکان بدلنے کی وجہ پوچھی۔ اس نے‬ ‫میری طرف بڑے غور سے دیکھا اور وہ ہی وجہ بتائی۔ وہ‬ ‫مجھے بھلکڑ سمجھ رہا تھا۔‬


‫اس کے ساتھ زیادہ تعلقات ہی نہ تھے اور بات کیا کرتا۔ یہ ہی‬ ‫ایک بات تھی جو اس سے آتا جاتا کرتا۔ واپسی پر حسب معمول‬ ‫رکا۔ سالم بالیا حال احوال پوچھا اور دکان بدلنے کی وجہ‬ ‫پوچھی۔ وہ اونچی اونچی بولنے لگا اور مجھ سے لڑ پڑا۔‬ ‫لگتا تھا کہ ہاتھا پائی پر اتر آئے گا۔ میں بھی ذہنی طور پر‬ ‫بھاگنے کے لیے تیار تھا۔ مجھے معلوم تھا دوڑ میں وہ میرا‬ ‫مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ وہ تو خیر ہوئی لوگ جمع ہو گئے اور‬ ‫لڑنے کی وجہ پوچھی۔ وہ چوں کہ زور زور سے بول رہا تھا‬ ‫اس لیے میں نے بڑے تحمل سے وجہ بتا دی۔ ساتھ میں یہ بھی‬ ‫کہا میرا ببو سے کوئی خاص تعلق واسطہ نہیں اس لیے سالم‬ ‫دعا کی برقراری کے لیے پوچھ لیتا ہوں۔ یہ غصہ کر گیا ہے۔‬ ‫اس میں غصہ کرنے والی ایسی کون سی بات ہے۔‬ ‫سب ہنسنے لگے اور مجھے کہا باؤ جی آپ جائیں۔ اسی طرح‬ ‫کچھ ببو کو ٹھنڈا کرنے لگے۔ ایک بندے نے ببو کی طرف دیکھ‬ ‫کر سر پر انگلی رکھی۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ میں کریک ہوں۔‬ ‫میں جعلی سنجیدگی سے ہولے قدمدں سے اپنے گھر کی جانب‬ ‫بڑھ گیا۔‬

‫ان ہونی‘ ان ہونی نہیں ہوتی‬


‫تھیال مردود ہیرا پھیری اور دو نمبری میں بےمثل اور بےمثال‬ ‫رہا جب کہ تھیال شکی زندگی کے ہر معاملے کو شک و شبہ کی‬ ‫نظروں سے دیکھنے میں ضرب المثل چال آتا تھا۔ اس کا کہنا کہ‬ ‫کچھ بھی خالص نہیں رہا۔ جعلی بھی اصلی کے موافق دکھتا ہے‘‬ ‫کو سو فی ناسہی کسی ناکسی فی صد تو درست ماننا ہی پڑے‬ ‫گا۔‬ ‫تھیال مردود بات اس انداز سے کرتا کہ اس کا کہا اصلی سے‬ ‫بھی دو چار قدم آگے نکل جاتا۔ جسے ہاتھ لگے ہوئے ہوتے وہ‬ ‫بھی دھوکہ کھا جاتا۔ بات کہے تک ہی محدود نہ تھی‘ اس کا کیا‬ ‫بھی عین اصلی کی چغلی کھا رہا ہوتا۔ اسی وقت نہیں‘ بہت بعد‬ ‫میں کھلتا کہ وہ تو سراسر فراڈ تھا لیکن اس وقت جھانسے میں‬ ‫آنے والے کا کھیسہ خالی ہو چکا ہوتا۔ لٹے کی باریابی کے لیے‬ ‫وہ مزید بل کہ برابر اور بار بار لٹتا چال جاتا۔‬ ‫ہم سب تھیلے شکی کے کہے کو بکواس کا نام دیتے رہے‘ بل‬ ‫کہ اس کا مذاق اڑاتے رہے۔ اس کا کہنا تھا کہ پیرو نے اس کے‬ ‫باپ اور بہن کو تعویز ڈال ڈال کر مارا۔ میری ماں نے پیرو سے‬


‫نکاح تو کر لیا لیکن اپنے خاوند اور بیٹی کا قتل اسے مرتے دم‬ ‫تک معاف نہ کیا۔ اس کا یہ کہا میں نے بمشکل ہنسی پر قابو پا‬ ‫کر سنا۔ وہاں تو اس کی ہاں میں مالئی لیکن گھر آ کر خوب ہنسا‬ ‫اور انجوائے کیا۔ ایسی بات پیٹ میں کب رہتی ہے۔ دوستوں کو‬ ‫بھی لطف اندوز کیا۔ دشمنی کا یہ انداز‘ یقین مانیں بالکل انوکھا‬ ‫اور الگ سے لگا۔ نکاح بھی خاوند اور بیٹی کے قاتل سے کیا‬ ‫اور معاف بھی نہ کیا۔ عجیب اور سمجھ سے باال لوجک تھی۔‬ ‫دوسرا اگر تعویزوں سے لوگ مرنے لگتے تو آج دنیا میں ایک‬ ‫بھی زندہ نہ پھرتا۔‬ ‫یہ بات عجیب بھی ہے اور فوق الفطرت بھی۔ یہ تو ایسی ہی بات‬ ‫ہے کہ کوئی آپ سے کہے کہ کل میں نے مگرمچھ کو جاگتے‬ ‫میں اڑتے دیکھا۔ ایسی بات کہنے واال پاگل ہی ہو سکتا ہے یا وہ‬ ‫آپ سے شغال لگا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے‘ بےوقوف بنا رہا ہو۔‬ ‫بکری صدیوں سے ہاتھی چٹ کرتے آئی ہے لیکن مگرمچھ‬ ‫اڑتے نہیں دیکھا گیا۔ عالمتا مگرمچھ ہی اڑتے آئے ہیں۔ مزے‬ ‫کی بات دیکھیے اس کی عملی صورت دیکھنے میں آ گئی۔ اس‬ ‫کا مطلب یہ ٹھہرے گا‘ ان ہونی‘ ان ہونی نہیں رہی۔ گویا‬ ‫مگرمچھ کا اڑنا‘ غلط نہیں رہا۔ کہنے والے نے مگرمچھ کو‬ ‫ضرور اڑتے دیکھا ہو گا۔ یعنی مگرمچھ کی اڑان امکان میں‬ ‫داخل ہے۔‬


‫سدی پڑھا لکھا احمق اور یبل ہے۔ لکھائی پڑھائی کی بات کرو‘‬ ‫فٹافٹ وہ کچھ بتال دے گا جو کسی کے خواب وخیال میں نہیں ہو‬ ‫گا۔ زبانی کالمی سماجیات میں بھی بڑا کمال کا ہے۔ عملی طور‬ ‫پر منفی صفر سے بھی گیا گزرا ہے۔ ہللا نے اسے دو بیٹے عطا‬ ‫فرمائے۔ بڑا لڑکا کچھ سال اور چھوٹا لڑکا کچھ دن کا تھا کہ‬ ‫بیوی انتقال کر گئی۔ بآمر مجبوری اسے شادی کرنا پڑی‘ جس‬ ‫عورت سے شادی کی زبان طراز تو تھی ہی‘ بانجھ بھی تھی۔‬ ‫تھیال مردود جو اس کا بہنوئی تھا نے سدی یبل کی بہن کو‬ ‫ہاتھوں میں کیا اور اس کا سب کچھ چٹ کر جانے کے طمع میں‬ ‫سدی کی شادی انتہائی گھٹیا اور چول عورت سے کروا دی۔‬ ‫لوٹنے کے ساتھ ساتھ اپنی ہوس کی آگ بھی بجھانے لگا۔‬ ‫تھوڑی ہی مدت کے بعد اس عورت کی تھیلے مردود سے ان بن‬ ‫ہو گئی اور وہ سدی یبل کو لے کر وہاں سے نکل آئی۔‬ ‫ہللا نے سدی یبل کو ایک بیٹے سے نوازا۔ سدی یبل کی خوشی‬ ‫کی انتہا نہ رہی ہاں البتہ اس عورت نے سدی کا سانس لینا بھی‬ ‫حرام کر دیا۔ پہلے ہی چھوٹا مر گیا تھا اب وہ اس بیٹے کی‬ ‫خاطر اس جہنم زادی کے ساتھ نبھا کر رہا تھا۔ وہ تھیلے شکی‬ ‫کی ماں کے گزارے کا مذاق اڑایا کرتا تھا لیکن اب اس کی‬ ‫سمجھ میں آیا تھیلے شکی کا کہا غلط نہیں تھا۔ بعض حاالت کے‬


‫تحت ناخوش گواری اور ناپسند کو بھی سینے سے لگانا پڑتا‬ ‫ہے۔ گویا مگرمچھ کا ہوا میں پرواز کرنا غلط نہیں۔‬

‫جذبے کی سزا‬

‫اس میں بگڑنے والی ایسی کوئی بات ہی نہ تھی۔ بنے میاں کا‬ ‫بیٹا اپنے چھوٹے بھائی کو مار رہا تھا۔ میں نے اسے دو تین‬ ‫بار منع کیا لیکن وہ مارنے سے باز نہ آیا تو میں نے اس کی‬ ‫کھتی میں ایک رکھ دی۔ وہ روتا ہوا گھر چال گیا۔ بنے میاں بڑے‬ ‫غصہ سے باہر آئے۔ کچھ پوچھے بغیر ناصرف مجھ پر برس‬ ‫پڑے بل کہ زناٹے کی دو تین دھر بھی دیں۔ میں ان کے اس‬ ‫رویے پر سخت حیران ہوا۔ یوں لگا جیسے انہوں نے مجھ سے‬ ‫کوئی پرانا بدال چکایا ہو۔ میں بھی جوابا ان کی ٹھیک ٹھاک‬ ‫خاطر تواضح کر سکتا تھا لیکن کیجو کا منہ مار گیا۔ میں نے‬ ‫بامشکل درگزر سے کام لیا۔‬ ‫اس نے ہاتھ چال لیے اور میں چپ رہا‘ وہ سمجھا کہ ڈر گیا‬


‫ہوں اسی لیے زبان بھی دیر تک چالتا رہا۔ اردگرد کے لوگوں‬ ‫نے ٹھنڈا کیا کہ جسے بک رہے ہو وہ تو چپ ہے۔ میں بچوں‬ ‫کے معاملہ میں کبھی نہیں پڑا۔ شاید یہاں بھی نہ پڑتا‬ ‫جذبہءپدری نے مجھے بدحواس کر دیا اور میرا ہاتھ اٹھ گیا۔‬ ‫کیجو کا چھوٹا لڑکا میرے اچھے وقتوں کی یاد تھا۔ خیر اب بھی‬ ‫جب پہاگاں گھر پر نہ ہوتی تو کیجو مزے کرا جاتی۔ اس کا سنور‬ ‫جاتا اور میرا بھی ذائقہ تبدل ہو جاتا۔ بنے میاں کو محض شک‬ ‫تھا مگر شک یقین میں نہ بدال تھا۔‬ ‫اس روز اگر میں بھی جوابا کچھ کرتا تو لمبا چوڑا کھڑاک ہو‬ ‫جاتا۔ کیجو دنیاداری میں کمال کی مہارت رکھتی تھی۔ اگرچہ سب‬ ‫جعلی کرتی لیکن اس کا یہ فرضی بھی اول درجے کا اصلی ہوتا۔‬ ‫پہاگاں گھر پر تھی اور وہ کیجو کی بھی نانی تھی۔ بول بوالرے‬ ‫کا ایسا میدان لگتا کہ شیطان بھی توبہ توبہ کر جاتا۔ ماضی اور‬ ‫حال کے وہ وہ قصے دہرائے جاتے جو کسی کے خواب و خیال‬ ‫میں نہیں رہے۔ بکوبکی سے میری بڑی جان جاتی ہے۔‬ ‫جذبے کی سزا بڑی ازیت خیز ہوتی ہے۔ مجھے بہت معمولی‬ ‫سزا ملی تھی‘ میری چپ نے متوقع رن کا رستہ بند کر دیا تھا۔‬


‫سچی بات تو یہ ہے کہ میری چپ نے کیجو سے تعلق خراب‬ ‫ہونے کا دروازہ بھی بند کر دیا تھا۔‬

‫ہللا بھلی کرے‬

‫وہ اچھا خاصا بیٹھا باتیں کر رہا تھا‘ قہقے لگا رہا تھا۔ پتا نہیں‬ ‫اچانک کیا ہو گیا‘ او خو کہتا ہوا اٹھ بیٹھا اور بڑی تیزی سے‬ ‫گھر کی طرف بڑھ گیا۔ پیچھے سے ککو نے آواز دی‘ اوے کیا‬ ‫ہوا جو بال بتالئے بھاگ اٹھے ہو۔ ایمرجنسی۔۔۔آ کر بتاتا ہوں۔‬ ‫وہ تو چال گیا لیکن ایک موضوع چھیڑ گیا۔‬ ‫اکی کا خیال تھا کہ اس کی بیوی کا آج کیس ہونا تھا۔ ہللا خیر‬ ‫کرے اور ہللا جو بھی دے نیک اور زندگی واال دے۔‬ ‫دوکڑ نے قہقہ لگایا او نئیں یار وہ کوئی دائی ہے جو کیس اس‬ ‫نے کرنا ہے۔‬ ‫آج اس کی کمیٹی نکلنی تھی‘ ادھر ہی گیا ہو گا۔ بگڑ نے اپنی‬ ‫چھوڑی۔‬


‫ہاں ہاں یہ ہی بات ہے۔ نکے نے گرہ لگائی‬ ‫چھوڑو یار اس کا کیا ہے کہو کچھ کرتا کچھ ہے۔ گھر سے کچھ‬ ‫لینے آیا ہو گا‘ ادھر بیٹھ کر گپیں ہانکنے لگا۔ اب دو گھنٹے بعد‬ ‫یاد آیا ہو گا‘ تب ہی تو دوڑکی لگا کر گیا ہے۔ بیگم شری سے‬ ‫چھتر کھا رہا ہوگا۔‬ ‫اس کی اس بات پر سب ہنس پڑے‬ ‫کالیے کی بات میں دم تھا لیکن مہاجے نے اپنی ہی کہہ دی۔‬ ‫کسی مار پر گیا ہے ورنہ اس طرح سے نہ بھاگ نکلتا۔ تم کیا‬ ‫جانو‘ جانو بڑا سیانا ہے۔‬ ‫اسے ملنے گیا ہوگا۔ شبے نے ایک اور ہی شگوفہ چھوڑا۔‬ ‫اسے کیسے نیکو نے حیرت سے پوچھا‬ ‫تمہیں نہیں پتا‬ ‫نہیں تو‬ ‫ادھر کان کرو‘ بیبو‬ ‫بیبو کون‬ ‫واہ گاؤں میں خاک رہتے ہو جگو کی بیٹی‬ ‫ہائیں‘ میں یہ کیا سن رہا ہوں‬ ‫جی ہاں‬


‫بڑا چھپا رستم نکال‬ ‫پس دیوار کی کے سیکڑوں معنی نکالے جاتے ہیں‪ ،‬قیافوں‬ ‫اندازوں کا انبار لگ جاتا ہے۔ سب قریب قریب کی کہتے چلے‬ ‫جاتے ہیں۔ کھوج یا اسرار کھلنے کے وقت کا کوئی انتظار نہیں‬ ‫کرتا۔‬ ‫منچلے اپنی اپنی تشریح و وضاحت میں مصروف تھے کہ جانو آ‬ ‫ہی گیا اور سر سٹ کر بیٹھ گیا۔ سب اس کے منہ کی طرف‬ ‫دیکھنے لگے۔‬ ‫یار کچھ بکو گے یا یوں ہی منہ لمکائے بیٹھے رہو گے۔ بگی‬ ‫نے پوچھا‬ ‫کام نہیں ہوا۔ جانو نے تقریبا روتے ہوئے کہا‬ ‫بڑا دکھ ہوا جانو یار لیکن کون سا کام۔ بگی نے افسوسیہ انداز‬ ‫اختیار کرتے ہو۔‬ ‫یار تم لوگ جانتے ہو معدے کا مریض ہوں۔ آج تین دن ہوئے‬ ‫پوٹی نہیں آئی۔ لگا تھا پوٹی آئی ہے۔ لیٹرین میں بیٹھ بیٹھ کر‬ ‫تھک گیا۔ صرف ہوا سری ہے۔ ہار کر اٹھ آیا ہوں۔‬ ‫سب اس کا جواب سن کر ہنسنے لگے۔ واہ جی واہ‘ کھودا پہاڑ‬ ‫نکال چوہا جگو نے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔‬ ‫او جگو یار تم جاہل ہو نا۔ جانو نے جوابا کہا‬


‫ہاں جی میں جاہل ہوں تم تو دلی سے ایم آ پاس کرکے آ گئے ہو‬ ‫نا۔‬ ‫پاگل قبض تمام بیماروں کی ماں ہے۔ میرے اندر جو قیامت بپا‬ ‫ہے وہ میں ہی جانتا ہوں۔ جانو نے روتے ہوئے کہا‬ ‫ماحول ناخوشگوار ہو گیا۔ چند لمحوں کے لیے سب کو چپ سی‬ ‫لگ گئی۔ جگو ہی نے سوگواری سی توڑتے ہوئے کیا۔ یار کیوں‬ ‫پریشان ہوتے ہو‘ ہللا بھلی کرے۔‬

‫آخری کوشش‬

‫درندے کے قدموں کی آہٹ اور بھی قریب ہو گئی تھی۔ اس نے‬ ‫سوچا اگر اس کے دوڑنے کی رفتار یہی رہی تو جلد ہی درندے‬ ‫کے پنجوں میں ہو گا۔ اس نے دوڑنے کی رفتار اور تیز کر دی۔‬ ‫پھر اس نے سوچا کیا وہ اور اس جیسے کمزور طاقتور کے‬ ‫آگے دوڑنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں؟ جب اور جہاں کمزور کی‬ ‫رفتار کم پڑ جاتی ہے طاقتور دبوچ لیتا ہے۔ اس کے بعد زندگی‬ ‫کا ہر لمحہ طاقتور کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ چند لمحوں کے‬


‫ذہنی سکون کے بعد طاقتور چیر پھاڑ کر اپنی مرضی کے حصے‬ ‫کھا پی کر جان بناتا ہے۔ لمحہ بھر کے لیے بھی وہ یہ سوچنے‬ ‫کی ذحمت گوارا نہیں کرتا کہ کمزور کے دودھ پیتے بچوں کا کیا‬ ‫ہو گا۔ اس کے جانے کے بعد اس سے کم طاقتور بقیہ پر بڑی‬ ‫بے دردی سے ٹوٹ پڑتے ہیں اور وہ بوٹی بوٹی نوچ لیتے ہیں۔‬ ‫یہاں تک کہ ہڈیوں پر بھی رحم کھایا نہیں جاتا۔ کھایا بھی کیوں‬ ‫جائے ہڈیاں فاسفورس کی کانیں ہیں۔ بٹنوں کے لیے ان کی‬ ‫ضرورت رہتی ہے۔‬ ‫اس کے بھاگنے کی رفتار میں مزید اضافہ ہو چکا تھا۔ سوچ‬ ‫خوف اور بچ نکلنے کی خواہش نے اس کے جسم میں ہونے‬ ‫والی ٹوٹ پھوٹ کا احساس تک نہ ہونے دیا۔ وہ ہر حالت میں‬ ‫دشمن کی گرفت سے باہر نکل جانا جاہتا تھا لیکن دشمن بھی‬ ‫اسے بخش دینے کے موڈ میں نہ تھا کیونکہ اس کی رفتار میں‬ ‫بھی ہر اضافہ ہو گیا تھا۔‬ ‫موت کا گھیرا تنگ ہو گیا تھا۔ اس کے سامنے کھال میدان دائیں‬ ‫دریا بائیں گہری کھائی اور پیچھے خونخوار درندہ تھا۔ رستے‬ ‫کے انتخاب کے حوالہ سے یہ بڑی سخت گھڑی تھی۔ پھر وہ‬ ‫بائیں مڑ گیا۔ اس نے جسم کی ساری طاقت جمع کرکے کھائی‬ ‫تک پہنچنے کی کوشش کی۔ درندہ فقط ایک قدم کے فاصلے پر‬


‫رہ گیا تھا۔ اس سے پہلے درندے کا پنجہ اس کی گردن پر پڑتا‬ ‫اس نے کھائی میں چھالنگ لگا دی۔ درندے کے اپنے قدم اس‬ ‫کی گرفت میں نہ رہے۔ کوشش کے باوجود رک نہ سکا اور وہ‬ ‫بھی گہری کھائی کی نذر ہو گیا۔‬ ‫کمزور کے جسم کی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں اور دم اکھڑ رہا تھا۔‬ ‫اس نے سراٹھا کر دیکھا کچھ ہی دور درندہ پڑا کراہ رہا تھا۔ اس‬ ‫کی ٹانگیں ٹوٹ گئی تھیں۔ بھوک درد کے زنداں میں مقید ہو گئی‬ ‫تھی۔ کمزور کے چہرے پر آخری مسکراہٹ صبح کازب کے‬ ‫ستارے کی طرح ابھری۔ اس کی آخری کوشش رنگ ال چکی‬ ‫تھی۔ اسے اپنی موت کا رائی بھر دکھ نہ تھا۔ اس نے خود یہ‬ ‫رستہ منتخب کیا تھا۔ اب یہ درندہ کبھی کسی کمزور کا وحشیانہ‬ ‫تعاقب نہ کر سکے گا اور اس کی ٹانگوں سے ہمیشہ اف اف اف‬ ‫کے بزدل نعرے بلند ہوتے رہیں گے۔‬ ‫‪..........................‬‬ ‫مکرم بندہ جناب حسنی صاحب‪ :‬تسلیمات‬ ‫فی زمانہ نثر نگاری کا فن زنگ آلود ہو چالہے۔ کوئی رسالہ بھی‬ ‫اٹھا کر دیکھئے توسوائے چند اوسط درجہ کے افسانوں اور چند‬ ‫منظومات (غزل اور آزاد نظمیں) کے عالوہ کچھ اور نظر نہیں‬ ‫آتا۔ ماضی میں رسالوں میں ادبی‪ ،‬علمی اور تحقیقی مضامین‬


‫کثرت سے ہوا کرتے تھے۔ تنقید و تبصرہ فن کی حیثیت سے‬ ‫سیکھے اور سکھائے جاتے تھے اورافسانہ نگاری بھی اونچے‬ ‫معیار کی حامل تھی۔ اب ادب پر ایک عمومی زوال تو طاری ہے‬ ‫ہی نثر نگاری خصوصا اضمحالل کا شکار ہے۔ غزل کہنا لوگ‬ ‫آسان سمجھتے ہیں (حاالنکہ ایسا نہیں ہے)۔ غزل میں وقت کم‬ ‫لگتا ہے اور نظم میں اور نثر میں زیادہ ۔ نثر مطالعہ اور تحقیق‬ ‫بھی چاہتی ہے جس سے ہماری نئی نسل بیگانہ ہو کر رہ گئی‬ ‫ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ کوئی زبان بھی صرف ایک صنف سخن کے‬ ‫بل بوتے پر پھل پھول نہیں سکتی لیکن اردو والے اس معمولی‬ ‫سی حقیقت سے یا تو واقف ہی نہیں ہیں یا دانستہ اس سے‬ ‫صرف نظر کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ کی اردو محفلیں بھی اسی‬ ‫مرض کا شکار ہیں اور وہاں بھی سوائے معمولی غزلوں کے‬ ‫(جن میں سے بیشتر تک بندی ہوتی ہیں) کچھ اور نظر نہیں آتا۔‬ ‫آپ کی نثرنویسی میں مختلف کوششیں اس حوالے سےنہایت‬ ‫خوش آئند ہیں۔ آپ مطالعہ کرتے ہیں ‪،‬سوچتے ہیں اور انشائیے‬ ‫لکھتےہیں۔ اس جدوجہد کو قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ میں‬ ‫اپنی مثال کسی خودستائی کی شہ پر نہیں دیتا بلکہ دوستوں کو‬ ‫یہ بتانا چاہتا ہوں کہ شوق‪،‬محنت اور لگن ہو تو بہت کچھ ہو‬ ‫سکتا ہے۔ میں نے انجینیرنگ پر نصابی کتابیں لکھی ہیں۔ ان‬ ‫کے عالوہ غزل‪ ،‬نظم‪ ،‬افسانے‪ ،‬ادبی مضامین‪ ،‬تحقیقی مضامین‪،‬‬


‫ادبی تنقید وغیرہ سب ہی لکھا ہے۔ یقینا سب کچھ اعلی معیار کا‬ ‫نہیں ہے لیکن بیشتر اچھے معیار کا ہے اور ہندو پاک کے‬ ‫معتبر اور موقر رسالوں میں شائع ہوتا ہے۔ میں آپ کی انشائیہ‬ ‫نگاری کا مداح ہوں اور درخواست کرتا ہوں کہ برابر لکھتے‬ ‫رہہئے۔‬ ‫زیر نظر انشائیہ اچھا ہے لیکن یہ مزید بہتر ہو سکتا تھا سو اپ‬ ‫وقت کے ساتھ خود ہی کر لیں گے۔ خاکسار کی داد حاضر ہے ۔‬ ‫باقی راوی سب چین بولتا ہے۔‬ ‫سرور عالم راز‬

‫ُمحترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم‬ ‫اس تحریر پر ہم کُچھ نہ لکھیں گے۔ فقط یہی کہ اسے پڑھ کر‬ ‫رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور تحریر کے اختتام کے قریب‬ ‫سانسیں ُرک جاتی ہیں۔ اور پھر منہ ک ُھال کا ک ُھال رہ جاتا ہے۔‬ ‫اس کے اندر جو کرب ہے اور جو کُچھ یہ انگلیاں لکھنے کو‬ ‫دوڑ رہی ہیں‪ ،‬اُسے بصد مشکل روکتے ہوئے‪ ،‬ایک بار پھر‬ ‫سے بھرپور داد ۔۔۔‬


‫د ُعا گو‬ ‫وی بی جی‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7975.0‬‬

‫تیسری دفع کا ذکر ہے‬

‫پہلی دفعہ کا ذکر اس لیے اتنا اہم نہیں کہ یہ دو ٹوک تھا اور اس‬ ‫کے ساتھ کوئی واقعہ‪ ،‬معاملہ یا مسلہ وابستہ نہیں۔ میں بیمار‬ ‫پڑا۔ طبعیت ضرورت سے زیادہ بوجھل تھی۔ طبعیت خراب ہو تو‬ ‫ہائے وائے کی آوازیں ناچاہتے ہوئے بھی بےساختہ بل کہ از‬ ‫خود منہ سے نکل جاتی ہیں۔ اگر توجہ اور خدمت کی تمنا ہو تو‬ ‫آدمی اس ذیل میں منہ کا سپیکر قدرے بلند کر دیتا ہے۔ یقین‬ ‫مانیے میں سچ مچ میں بیمار تھا اس لیے خصوصی توجہ کا‬ ‫طالب بھی تھی۔ خیال تھا کہ میرے پورے گھر والی پریشان ہو‬ ‫کر توجہ دے گی۔ میرا یہ خیال خاک کا شکار ہو گیا جب اس نے‬ ‫کہا نیچے چلے جاؤ کہیں میرے متھے لگتے ہو۔ میں کپڑے‬ ‫جھاڑتا ہوا نیچے آ گیا۔ ایک بیمار تھا اوپر اس بے رخی کا‬ ‫صدمہ بھی ہوا۔ چوں کہ پہلی دفعہ کا ذکر دو لمحوں کا تھا اس‬


‫لیے اسے دفع کو ماریے۔‬ ‫دوسری دفعہ چوں کہ بے ہوشی کی حالت ناسہی نیم بےہوشی‬ ‫کی کیفیت ضرور تھی۔ ہسپتال سے چوتڑوں اور بازوں پر کئی‬ ‫ایک ٹیکے لگوا کر گھر الیا گیا۔ چوتڑوں کے ٹیکے اس لیے‬ ‫محسوس نہ ہوئے کہ پیاری سی نرس نے دلی ہم دردی سے‬ ‫لگائے تھے‘ ہاں البتہ بازو ضرور دکھے کہ وارڈ بوائے نے‬ ‫پوری بےدردی سے لگائے تھے۔‬ ‫چھوٹی گھروالی کا ہسپتال جا کر پوچھنا تو بہت دور کی بات‬ ‫ہے اسے گھر میں آ جانے کے بعد آدھی زبان سے پوچھنے تک‬ ‫کی توفیق نہ ہوئی۔ میں نیم مردہ سی حالت میں لیٹا ہوا تھا۔‬ ‫اچانک اسے کوئی خیال آیا‘ پھر کیا تھا کہ بالتکان دو گھنٹے‬ ‫انتالیس منٹ بولتی رہی۔ لب لباب یہ تھا کہ میں نے بیمار ہونے‬ ‫کا محض ڈونگ رچایا ہے۔ بیمار اس کا ابا ہوا تھا اور عالج‬ ‫معالجے کے باوجود قبر میں جا بسیرا کیا۔ اگر میں بیمار ہوا ہوتا‬ ‫تو الش گھر پر آتی۔ اس کی بات میں چوں کہ دم تھا اس لیے‬ ‫دوسری دفع کو بیچ میں النے کی ایسی کوئی خاص وجہ نظر‬ ‫نہیں آتی۔‬


‫ہاں البتہ تیسری دفع اوج کمال کو چھوتی نظر آتی ہے اس لیے‬ ‫اس کا ذکر خصوص میں داخل کرنا اصؤلی سی بات نظر آتی ہے۔‬ ‫ہوا یہ کہ میں بیمار پڑا تو میری ہائے اوے ہائے اوے کے‬ ‫نعروں سے بےزار ہو گئی۔ میں بھی تو بالوقفہ اور بالتکان یہ‬ ‫آوازے کسے جا رہا تھا۔ ان آوازوں سے اس کا سر بوجھل ہو‬ ‫گیا۔ کچھ بولی تو نہ‘ البتہ سر پر کپڑا باندھ کر باہر صحن میں‬ ‫بیٹھ گئی اور میری آخری سانس کا انتظار کرنے لگی۔ آخری‬ ‫سانس بڑی ڈھیٹ تھی‘ کم بخت نہ آئی۔ میں نے اس کی آوازاری‬ ‫محسوس کر لی اور پوری طاقت سمیٹ کر بیٹھک میں آ کر‬ ‫صوفے پر لیٹ گیا۔ پتا نہیں رات کتنی دیر تک صوفے پر لیٹا‬ ‫رہا‘ جب قدرے بہتری ہوئی تو جا کر چارپائی پر لیٹ گیا۔ میرے‬ ‫پاؤں کی آہٹ سے جاگ گئی لیکن سونے کا ناٹک جاری رکھا۔‬ ‫میں نے بھی ڈسٹرب کرنا مناسب نہ سمجھا اور چپکا رہا۔‬ ‫ہللا کے احسان سے رات گزر گئی۔ ٹھیک سے ٹھیک نہ ہوا‘‬ ‫ہاں البتہ پہلے سے قدرے بہتر ضرور تھا۔ میں نے اس کی‬ ‫جانب یوں ہی بالوجہ دیکھ لیا۔ چہرے پر بیمار ہونے کی کیفیت‬ ‫طاری کر لی۔ میں نے فورا سے پہلے نگاہ نیچی کر لی۔ آدھ‬ ‫گھنٹے بعد چارپائی لگ گئی۔ پوچھا کیا ہوا۔ سخت بیمار ہوں۔ میں‬ ‫پوچھنا چاہتا تھا ابے والی بیمار ہو یا میرے والی بیماری ہے۔‬ ‫چپ رہا‘ جانتا تھا آج اور آتا کل بےمزگی میں گزرے گا۔ اس کا‬


‫کہنا تھا کہ میری شوگر چھے سو ستر پر پہنچ گئی ہے۔ بی پی‬ ‫بھی ہائی ہو گیا ہے۔ صبح سے مسلسل اور متواتر الٹیاں کر رہی‬ ‫ہوں۔ سر پھٹ رہا ہے۔ ایک دو بیماریاں اور بھی گنوائیں۔ میں‬ ‫نے کہا ہللا آسانی پیدا کرے گا۔ کہنے لگی سب ہللا پر چھوڑے‬ ‫رکھنا‘ خود سے کچھ نہ کرنا۔ چاہا کہ کہوں سر دبا دیتا ہوں پھر‬ ‫فورا خیال آیا بچو شام تک اسی کام میں رہو گے۔ مجبور قدموں‬ ‫چلتا ہوا بازار گیا نان چنے اور ساتھ میں حفظ ما ماتقدم سالئس‬ ‫اور انڈے بھی لے آیا۔ بےچاری نے اوکھے سوکھے ہو کر‬ ‫دونوں نان چنے اور ایک انڈا ڈکار لیا۔ اصوال بہتری آ جانی‬ ‫چاہیے تھی‘ قدرے آ بھی گئی۔ ہللا کا شکر ادا کیا زبان کی کوترا‬ ‫کتری سے بچ گیا ہوں۔ شام تک حاالت درست رہے۔ شام کو‬ ‫فائرنگ شروع ہو گئی۔ وجہ یہ تھی کہ نان چنے اور انڈے‬ ‫سالئس تو لے آئے لیکن منہ میں بڑ بڑ کر رہے تھے‘ حاالں کہ‬ ‫ایسا نہیں تھا۔ تاہم دیر تک چل سو‬ ‫چل ہی رہی اور میں بھول گیا کہ بیمار ہوں۔‬

‫انگلی‬

‫مہاجا بڑے سکون اور آرام سے دکان پر بیٹھا‘ دودھ اوبال رہا‬


‫تھا‘ ساتھ میں ُپڑوسی دکان دار سے باتیں کیے جا رہا تھا اور‬ ‫دودھ میں کڑچھا بھی مارے جا رہا تھا۔ اس کا پالتو بال اس کی‬ ‫نشت کے نیچے‘ پرسکون بیٹھا ہوا تھا۔ وقت بال کسی پریشانی‬ ‫کے گزر رہا تھا۔ کوئی نہیں جانتا کہ اگلے لمحے کیسے ہوں‬ ‫گے۔‬ ‫سب جانتے ہیں‘ شیطان انسانی سکون کا دشمن ہے۔ انسان کی‬ ‫پرسکون زندگی‘ اسے ہمیشہ سے کھٹکتی آئی ہے۔ اس نے ایک‬ ‫انگلی‘ جس پر ایک یا دو بوند ہی دودھ چڑھا ہو گا‘ سامنے‬ ‫دیوار پر لگا دی۔ دودھ پر مکھیاں عاشق ہوتی ہیں‘ جھٹ سے‬ ‫مکھیاں دیوار پر لگے دودھ پر آ گئیں۔ جہاں مکھیاں ہوں‘ وہاں‬ ‫چھپکلی کا آنا غیرفطری نہیں۔ جھٹ سے ایک چھوڑ‘ کئی‬ ‫چھپکلیاں آ گئیں۔ بال چھپکلیوں کو برداشت نہیں کرتا وہ‬ ‫چھپکلیوں پر جھپٹا‘ اتفاق دیکھیے اسی لمحے‘ ایک نواب‬ ‫صاحب اپنے ٹومی سمیت ادھر سے گزرے۔ ٹومی بلے کو‬ ‫کیسے برداشت کرتا۔ وہ بلے پر بڑی تیزی سے جھپٹا۔ بال دودھ‬ ‫میں گر گیا۔‬ ‫ردعمل ہونا فطری سی بات تھی۔ مہاجے نے پوری طاقت سے‬ ‫ٹومی کے سر پر کڑچھا مارا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ نواب‬ ‫صاحب ٹومی کی بےحرمتی اور اس پر ہونے واال یہ تشدد‬


‫کیسے دیکھ سکتے تھے۔ انہوں نے چھے کی چھے مہاجے کے‬ ‫سینے میں اتار دیں۔‬ ‫مہاجا اتنی بڑی فیملی کا واحد کفیل تھا چل بسا۔ پوری فیملی‬ ‫الغر و اپاہج ہو گئی۔ وہ کیا کر سکتے تھے بس قسمت کو ہی‬ ‫کوس سکتے تھے۔ نواب صاحب کا کیا بگڑنا تھا۔ یہ لوگوں کا‬ ‫کب سنوارتے ہیں لوگ ان کا گلپ کرنے اور ظلم سہنے کے لیے‬ ‫جنم لیتے ہیں۔ ان کا گلپ ہی اقتداری طور رہا ہے اور شائد رہے‬ ‫گا۔‬ ‫ان پر یا ان کے کیے پر انگلی اٹھانے والے زہر پیتے رہیں گے‬ ‫سولی چڑھتے رہیں گے۔ اقتدار کا یہ ہی اصولی فیصلہ رہا ہے۔‬ ‫حال کیا مستقبل قریب میں بھی ان سے مکتی ملتی نظر نہیں آتی۔‬ ‫قصوروار کون تھا صاف ظاہر ہے مہاجا۔۔ نواب کبھی غلطی پر‬ ‫نہیں یا شیطان کوسنوں کی زد میں رہے گا۔ کوئی خود کو‬ ‫سدھارنے کی جسارت نہیں کرے گا۔ جی ہاں‘ یہ ہی سچ اور یہ‬ ‫ہی حقیقت ہے۔‬


‫آخری تبدیلی کوئی نہیں‬

‫‪:‬نوٹ‬ ‫ہم چھوٹے چھوٹے چھوٹے ہوا کرتے تھے مخدومی و مرشدی‬ ‫بابا جی سید غالم حضور حسنی اس طرح کی کہانیاں سنایا کرتے‬ ‫تھے۔ وہ کہانیاں آج بھی لوح دل پر نقش ہیں۔ دن کبھی ایک‬ ‫سے نہیں رہتے۔ ہر لمحہ تبدیلی سے گزرتا ہے اور کل من عیھا‬ ‫فان کی طرف بڑھ جاتا ہے۔‬ ‫بھلے وقتوں کی بات ہے۔ دو دوست ہوا کرتے تھے۔ ایک‬ ‫سوداگر جب کہ دوسرا کوئی کام نہیں کرتا تھا۔ ایک دن سوداگر‬ ‫دوست نے کہا فارغ رہنے سے وقت نہیں گزرتا۔ ضرورتیں تو‬ ‫منہ پھاڑے رہتی ہیں۔ آؤ تمہیں اوبےنگر کی فوج میں بھرتی کرا‬ ‫دیتا ہوں۔ اس کی ریاست اوبے نگر میں وقفیت تھی لہذا جلد ہی‬ ‫اس کا دوست فوج میں بھرتی ہو گیا۔ دونوں کو خوشی ہوئی۔‬ ‫بات بھی خوشی والی تھی کہ روٹی کا سلسلہ چل نکال۔‬ ‫دو چار سال کے بعد اس کا ادھر سے گزر ہوا۔ اس نے سوچا‬


‫کیوں نہ دوست ہی سے مل لوں۔ چھاؤنی گیا۔ اس نے پوچھا‬ ‫سپاہی تیغا رام کدھر ہوتا ہے۔ پتا چال اچھی کارگزاری کی وجہ‬ ‫سے وہ حوالدار ہو گیا ہے۔ اسے خوشی ہوئی کہ اس کا دوست‬ ‫ترقی کر گیا ہے۔ دونوں کی مالقات ہوئی۔ سوداگر دوست نے‬ ‫‪:‬اپنی خوشی کا اظہار کیا تو جوابا تیغا رام نے کہا‬ ‫یار دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔‬ ‫اسے دوست کے جواب پر حیرانی ہوئی۔ کچھ نہ کہا‘ چپ رہا۔‬ ‫وقت اپنی مرضی‘ مزاج اور روٹین کی ڈگر پر چلتا رہا۔ شخص‬ ‫اوروں سے بےنیاز اپنے اپنے طور سے روٹی ٹکر تالشنے میں‬ ‫مصروف تھا۔ سوداگر بھی سوداگری میں مصروف تھا۔ اس کا‬ ‫روٹین میں اوبےنگر جانا ہوا۔ اس نے اپنے دوست حوالدار تیغا‬ ‫رام کا چھاؤنی میں جا کر پوچھا۔ وہاں سے پتا چال تیغا رام‬ ‫صوبےدار ہوگیا ہے۔ اس خبر نے اسے خوشی سے نہال کر دیا۔‬ ‫مالقات پر اس نے مبارک باد دی۔ تیغا رام نے بڑی سنجیدگی‬ ‫سے کہا۔‬ ‫یار دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔‬ ‫تیغا رام موج اور ٹھاٹھ کی گزار رہا تھا۔ حیرانی تو ہونا ہی تھی‬ ‫لیکن وہ چپ رہا۔ جواب میں کیا کہتا۔ سالوں میں تبدیلی تو آئی‬ ‫تھی۔ تیغا رام غلط نہیں کہہ رہا تھا۔‬


‫کچھ سالوں کے بعد سوداگر کا اوبے نگر سے گزر ہوا۔ وہ اپنے‬ ‫دوست تیغا رام سے ملنے چال گیا۔ وہاں سے معلوم پڑا کہ وہ‬ ‫بادشاہ کا منظور نظر ہو گیا ہے اور وزیر مقرر کر دیا گیا ہے۔‬ ‫اس نے سوچا وزیر ہو گیا تو کیا ہوا میرا تو دوست ہے۔ بامشکل‬ ‫مالقات ہوئی۔ سوداگر نے اپنی خوشی کا اظہار کیا تو جوابا تیغا‬ ‫رام نے وہ ہی پرانا ڈائیالگ دوہرا۔ اس کا کہنا غلط نہ تھا‘ لہذا‬ ‫اس نے ہاں میں ہاں مالئی اور تھوڑا وقت گزار کر رخصت ہو‬ ‫گ یا ۔‬ ‫جب قسمت کا ستارہ زحل سے نکل کر مشتری میں آ جائے‬ ‫انسان کچھ سے کچھ ہو جاتا۔ اوبےنگر کے بادشاہ کی موت کے‬ ‫بعد بادشاہی تیغا رام کے ہاتھ میں آئی۔ اصل بات یہ تھی کہ تیغا‬ ‫رام کی عادات میں تبدیلی نہ آئی۔ وہ اپنے سوداگر دوست سے‬ ‫اسی طرح پیش آیا۔ پہلے کی طرح کھل ڈھل کر گپ شپ لگائی۔‬ ‫اس کا کہنا وہ ہی رہا کہ‬ ‫دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔‬ ‫سوداگر حیران تھا کہ تیغا رام ترقی کی آخری سیڑھی کراس کر‬ ‫گیا اب بھی اسی بات پر ہے۔ اس سے آگے تو زندگی میں کچھ‬ ‫بھی نہیں۔ وہ اسے ڈائیالگ سمجھ کر چپ رہا۔‬


‫اگلی بار جب سوداگر اوبے نگر آیا تو اسے معلوم پڑا کہ بادشاہ‬ ‫تیغا رام انتقال کر گیا ہے۔ شہر کے باہر کھلے میدان میں‬ ‫چاردیواری کے اندر اس کی یادگار بنائی گئی تھی۔ مختلف طرح‬ ‫کے پودے لگائے گئے تھے۔ اسے خوب صورت بنانے میں‬ ‫کوئی کسر نہ چھوڑی گئی تھی۔ لوح یادگار پر تحریر کیا گیا تھا‬ ‫عادل بادشاہ مہاراج تیغا رام‬ ‫دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے‬ ‫سوداگر حیران تھا اب آخری تبدیلی بھال کیا آئے گی۔ موت کے‬ ‫بعد بھال کیا تبدیلی آ سکتی ہے۔‬ ‫سوداگر کا اوبے نگر میں وہ آخری پھیرا تھا۔ وہ تیغا رام کی‬ ‫آخری یاگار کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ماضی کا ہر لمحہ شعور کے‬ ‫دریچوں سے جھانک رہا تھا۔ اس کی آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں۔‬ ‫اس نے سوچا تیغا رام درست کہتا تھا کہ دن وہ نہیں رہے دن یہ‬ ‫بھی نہیں رہیں گے۔ وہ سوچ رہا تھا اب بھال اور کیا تبدیلی آئے‬ ‫گی۔ جب وہاں پہنچا تو دیکھا وہاں دریا بہہ رہا تھا۔ اس کے منہ‬ ‫‘سے بےاختیار نکل گیا‬ ‫دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔‬


‫کھڑ پینچ دی جئے ہو۔‬

‫ہیلو مسٹر!‬ ‫یو ار سویٹ اینڈ لولی ہوم غور منٹ کمپلینٹ اس دیٹ یو‬ ‫پھڑکائیٹڈ ہر برسرعام السٹ ڈے۔‬ ‫وائی۔‬ ‫نو حجور شی از جھوٹ مارنگ۔ آئی اونلی ون ویری سلو مکا‬ ‫ماریڈ‬ ‫او مائی گاڈ‘ یو بےغیرت مین۔ وائی یو مکا ماریڈ ہر ان دی‬ ‫بازار۔ یو نو پیپل ور ویکھنگ اینڈ الفنگ ایٹ یو‬ ‫آئی ایم ناٹ بےغیرت حجور شی از بےغیرت بی کاز شی مارڈ‬ ‫می سو مےنی لیترز ویری ٹھوک ٹھوک کر پیوپل ور الفنگ ایٹ‬ ‫ہر ری ایکشن‬ ‫اٹ از یو ار کیس وچ مے بی ڈسکسڈ لیٹر اون۔ فسٹ ٹل اس‬ ‫وائی یو مکا مارڈ‬


‫حجور اٹ از آ شیم فل سٹوری اینڈ کن ناٹ ناریٹ ان دی پنچایت‬ ‫ڈونٹ وری یو گلٹی کمی کمین‬ ‫حجور آئی ناٹ کمی کمین۔ مائی کاسٹ از انصاری‬ ‫او یس یو مین جوالیا‪ ،‬آئی نو یو ار جوالیا۔ جوالیا کاسٹ از ان‬ ‫فیکٹ کمی کمین۔ وائل یو ار ہوم گورمنٹ از قریشی گویا شی از‬ ‫ناٹ کمی کمین‬ ‫یس حجور شی از مراسی۔‬ ‫ڈونٹ بارک‘ ان فیکٹ دس ورڈ از مراثی۔‬ ‫از آئی ایم رائٹ او یو سویٹ اینٍڈ جنٹل لیڈی‬ ‫حجور یو ار ابسلوٹلی رائٹ‬ ‫او مین ناؤ سم تھنگ ہریلی پہونکو‬ ‫حجور شی ہیز ناٹ ذرا بھورا شرم‬ ‫وٹ ہپنڈ ٹل اس‬ ‫حجور شی واز ممانائزنگ ان دی بازار‬ ‫او مائی گارڈ واٹس آمیزنگ سیچویشن ول بی گوئنگ دیئر‬ ‫او جنٹل اینڈ سویٹ لیڈی شو اس یو ار فن‬ ‫شی سٹارٹیڈ ہر فن ود آؤٹ اینی ہیزیٹیشن۔ ایوری ون انجوائڈ اٹ‬


‫اے الٹ‬ ‫او مسٹر جوالہے طالق ہر ایٹ دی سپاٹ اینڈ یو دفع دفان فروم‬ ‫ہیئر۔ شی ہیز اے ونڈرفل کوالٹی۔ ان فیوچر شی ول سٹے ہیئر۔‬ ‫وین مسٹر جوالیا ڈو نٹھنگ ون مین گٹ اپ اینڈ رکھڈ پنج ست‬ ‫لتر ایٹ ہیز بوٹم۔ ہی گیو طالق دایٹ سویٹ ممانئیزر اینڈ دوڑ‬ ‫لگائیڈ۔‬ ‫اٹ واز اے نائس فیصلہ۔ پیوپل واز ریزنگ سلوگن‬ ‫کھڑ پینچ دی جئے ہو۔‬ ‫ناؤ آ ڈئیز شی از سرونگ ایٹ کھڑ پینچز ڈیرہ اینڈ ارننگ اچھی‬ ‫خاصی اماؤنٹ ود نائس فیم۔ شی ہیزناٹ کمپلینٹ فروم اینی سائڈ۔‬ ‫پیوپل ار سیٹسفائیڈ اینڈ ہیپی فروم دیئر چودھری ساب۔‬ ‫سراپے کی دنیا‬

‫اس کے حسن کی تعریف کرنے بیٹھوں تو شاید‘ بہت ساری‬ ‫تشبیہات کے استعمال کے باوجود‘ بات نہ بن پائے گی۔ اسے‬ ‫زمین پر ہللا کا تخلیق کردہ ماسٹر پیس کہنا‘ کسی طرح غلط نہ‬ ‫ہو گا۔ لباس کے اندر بھی شاید یہ ہی صورت رہی ہو گی۔ ہم‬


‫لباس کے باہر پر مر مٹتے ہیں‘ جب لباس کے اندر جھانکتے‬ ‫ہیں تو سخت مایوسی ہوتی ہے۔ اسی طرح جب گوشت پوست اور‬ ‫ہڈیوں کے پیچھے جھانکنے کا موقع ملتا ہے‘ تو سر پر گھڑوں‬ ‫پانی پڑ جاتا ہے۔ جب تک یہ جاننے کا موقع ملتا ہے‘ اس وقت‬ ‫تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ گویا‬ ‫نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن‬ ‫کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ وقت گزرنے کے بعد‘ پھسی کو‬ ‫پھڑکن کیسا‬ ‫ہی باقی رہ جاتا ہے۔‬ ‫اس کے پاس میرا کسی کام کے سلسلے میں جانا ہوا تھا۔ اسے‬ ‫دیکھ کر‘ مجھے اصل مدعا ہی یاد نہ رہا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ میں‬ ‫کچھ دیر بعد‘ اپنے آپے میں آ گیا۔ میں قریب چال گیا‘ سالم بالیا۔‬ ‫اس نے بال اوپر دیکھے‘ سالم کا تقریبا سا جواب دیا۔ میں نے‬ ‫اسے ہی غنیمت سمجھا اور بڑے مالئم اور پریم بھرے لہجے‬ ‫میں عرض کیا‘ میڈم میں ایک سماجی معاملے پر ریسرچ کر رہا‬ ‫ہوں‘ اس ذیل میں چند ایک سواالت کے جواب درکار ہیں۔ اس‬ ‫نے سر اٹھایا اور بڑی بے رخی سے جواب دیا‪ :‬میں بہت‬ ‫مصروف ہوں جو پوچھنا ہے جلدی سے پوچھ لو۔‬ ‫جی میڈم‘ آپ کا نام‬


‫تانیہ‬ ‫آپ مقامی ہیں یا باہر سے تشریف الئی ہیں‬ ‫کوئی ڈھنگ کا اور متعلق سوال پوچھو‬ ‫بہتر میڈم‘ پڑھائی سے وابستہ ہیں‬ ‫ایم فل فارمیسی کر رہی ہوں‬ ‫اس کے چہرے کی اکتاہٹ دیکھ کر میں نے آخری سوال کیا‬ ‫ایم فل فارمیسی کرنے کے بعد کیا جذبہ اور ارادہ رکھتی ہیں۔‬ ‫اس کے بعد کیا کرنا ہے‘ ٹیبل پر بیٹھی ون لیگ روزانہ کا‬ ‫کماؤں گی۔‬ ‫میرا خیال تھا کہ کہے گی‘ انسان کی بےلوث خدمت کروں گی۔‬ ‫خوب صورت لباس اور خوب صورت سراپے میں چھپا پیٹو‬ ‫شیطان‘ میرے سوچ کی دھجیاں بکھر رہا تھا۔ میرے سوچ کا‬ ‫شیش محل کرچی کرچی ہو کر گندگی کی دلدل میں دھنس چکا‬ ‫تھا۔ میں نے سوچا‘ یہ کیسا انسان سا پتال ہے جو من میں اپنی‬ ‫ذات سے ہٹ کر‘ کچھ نہیں رکھتا۔ آگہی کا حصول محض پیٹ‬ ‫کے لیے ہو گیا ہے۔‬ ‫پھر میں نے سوچا‘ اتنا کما کر آخر کیا کر لے گی۔ کوٹھی بنگلہ‬


‫اور بینک بیلنس بنا لے گی۔ اس سے کیا فرق پڑے گا۔ قبر میں‬ ‫تو کچھ نہیں جا سکے گا۔ مر جانے کے بعد‘ پیار کرنے والوں‬ ‫کو بھی جلدیاں ہوں گی۔ الش کے لیے کون بےکار میں وقت‬ ‫ضائع کرتا پھرے۔ اس کوٹھی بنگلے اور بینک بیلنس کی تقسیم‬ ‫پر‘ سگے بہن بھائیوں کے کئی یدھ ہوں گے۔ کورٹ کچری‬ ‫چڑھیں گے۔ کسی کو کبھی اس کی قبر پر بھولے سے بھی‘ چار‬ ‫پھول چڑھانے کی توفیق نہ ہو گی۔ مرنے والے نے ڈگری لے‬ ‫لی‘ پیسے بھی کما لیے‘ لیکن آگہی اس کا مقدر نہ بن سکی۔‬ ‫حسین گوشت پوست کے پیچھے اتنی پوشیدہ غالظت۔ توبہ بھی‬ ‫میری روح میں‘ توبہ کرنے لگی۔ جھوٹ نہیں بولوں گا‘ میں تو‬ ‫اس کے سراپے کی دنیا کا اسیر ہو کر‘ اسے جیون ساتھی‬ ‫بنانے کی سوچ بیٹھا تھا۔ اگر ہللا کی عنایت شامل نہ ہوتی‘ میں‬ ‫تو مارا گیا تھا۔‬

‫میں ہی قاتل ہوں‬

‫کاما کبو‘ تیز قدموں سے کھیتر کی طرف بڑھ رہا تھا۔ آج کھیتر‬ ‫پر کام کافی تھا۔ دوسرا چودھری کے موڈ کا بھی کچھ پتا نہیں‬ ‫چلتا تھا۔ اس کے بگڑنے کے لیے‘ کسی وجہ کا ہونا ضروری نہ‬


‫تھا۔ چودھرین سے اپنے لچھنوں کی وجہ سے‘ چھتر کھاتا رہتا‬ ‫تھا۔ گھر کا غصہ باہر آ کر کاموں پر نکالتا۔ کام کاج کوئی کرتا‬ ‫نہیں تھا‘ گھر سے یوں سج سنور کر نکلتا جیسے جنج چڑھنے‬ ‫جا رہا ہو۔ سارا دن ڈیرہ پر بیٹھا‘ آئے گئے کے ساتھ گپیں ہانکتا‬ ‫یا پنڈ کی سوہنی کڑیوں کے ناز و ادا کے قصے سنتا۔ کوئی‬ ‫ہتھے چڑھ جاتی تو معافی کا دروازہ بند کر دیتا۔ ناکامی کی‬ ‫صورت رہتی‘ تو سارا غصہ کاموں پر نکالتا۔ سب چپ رہتے‘ ہر‬ ‫کسی کو جان اور چمڑی بڑی عزیز ہوتی ہے۔‬ ‫کھیتر پر آتے جاتے اس طرح کی سوچیں اسے گھیرے رکھتیں‪،‬‬ ‫غلطی یا ظلم‘ زیادتی چودھری کرتا ڈال گریب کاموں پر دی‬ ‫جاتی۔ وہ سوچ رہا تھا‘ یہ زندگی بھی کیسی ہے گھر جاؤ‘ کوئی‬ ‫ناکوئی مسلہ راہ روکے کھڑا ہوتا۔ باہر آؤ تو کامے پر وہ کچھ‬ ‫بیت جاتا جو اس کے خواب و خیال میں بھی نہ ہوتا۔‬ ‫جب وہ کھیتر پہنچا‘ وہاں عجب کھیل رچا ہوا تھا۔ چودھری کے‬ ‫ہاتھ میں خون آلودہ چھرا تھا اور سامنے کاما ابی‘ خون میں لت‬ ‫پت پڑا تھا۔ وہ یہ منظر دیکھ کر گھبرا گیا۔ چودھری سخت‬ ‫غصے میں تھا۔ اس نے چھرا کامے کبو کی طرف بڑھاتے ہوئے‬ ‫کہا‪ :‬ذرا اسے پکڑنا‘ کبو نے پکڑ لیا اور خود کامے ابی کے‬ ‫پاس پہنچ گیا اور افسردہ و پریشان ہو کر اس کے پاس بیٹھ گیا۔‬


‫دریں اثنا پولیس پہنچ گئی اور کبو کو پکڑ لیا۔‬ ‫چودھری غصے سے اٹھا اور پان سات کبو کو رکھ دیں۔ مجھے‬ ‫پتا نہ تھا کہ تم اتنے ظالم اور کمینے ہو۔ پولیس والوں نے کہا‬ ‫چودھری تم چھوڑو‘ تھانے جا کر ہم اس کی طبیعت صاف کر‬ ‫دیں گے۔ وہاں موقع پر اور بھی دو تین کامے موجود تھے‘‬ ‫کسی کے منہ سے سچ نہ پھوٹا۔ اس اچانک نازلی آفت نے اس‬ ‫کے ہوش ہی گم کر دیے۔‬ ‫تھانے جا کر اس کی خوب لترول کی گئی۔ وہ کہے جا رہا تھا‘‬ ‫میں نے کچھ نہیں کیا۔ اس کی کب کوئی سن رہا تھا۔‬ ‫ایک شپائی بوال‪ :‬تمہیں ہم نے کچھ نہ کرنے سے روکا تھا۔‬ ‫ایک اور نے نعرہ لگاؤ‪ :‬کچھ کر لیتے نا‬ ‫ایک نے کہا‪ :‬اب یہاں سے جا کر کچھ کر لینا‬ ‫پہلے واال بوال‪ :‬یہاں سے جائے تو ہی کچھ کرئے گا‬ ‫ایک جو ذرا پرے کھڑا تھا کہنے لگا‪ :‬تو پھر یہ قتل کس نے کیا‬ ‫ہے۔ خون سے بھرا چھرا تو تمہارے ہاتھ میں تھا۔‬ ‫حجور قتل کرنا تو دور کی بات‘ میں تو ایسا قیمتی چھرا خرید‬


‫ہی نہیں سکتا۔ چھرا تو چودھری نے مجھے پکڑایا تھا۔‬ ‫الزام تراشی کرتے ہو۔ اس کے بعد التوں مکوں اور تھپڑوں کی‬ ‫برسات ہو گئی۔‬ ‫تھانہ تو تھانہ‘ کورٹ کچہری بھی اس کی سن نہیں رہی تھی۔‬ ‫لگتا تھا‘ کہ کورٹ کچہری بھی چودھری ہی کی تھی۔ ہر کوئی‬ ‫اسے دشنام کر رہا تھا۔ اس کی تو کوئی سن ہی نہیں رہا تھا۔‬ ‫ماجرے کو آنکھوں سے دیکھنے والے‘ اس کے ہی گریب‬ ‫ساتھی تھے۔ وہ بھی دیکھ اور جان کر‘ کبو ہی کو مجرم ٹھہرا‬ ‫رہے تھے۔ اس کے حق میں‘ ایک بھی نہ تھا۔ ہر کوئی اسے‬ ‫قاتل کہے جا رہا تھا۔ اس نے سوچا‘ جب اتنے لوگ کہہ رہے‬ ‫ہیں کہ میں قاتل ہوں تو یقینا میں ہی قاتل ہوں۔ پھر اس نے کہنا‬ ‫شوع کر دیا‪ :‬ہاں ہاں میں ہی قاتل ہوں۔۔۔۔ابی کو میں نے ہی قتل‬ ‫کیا تھا۔‬

‫خیالی پالؤ‬


‫ہللا بخشے پہا خادم بڑے ہنس مکھ اور جی دار قسم کے بندے‬ ‫تھے۔ خوش حالی سے تہی دست ہوتے ہوئے بھی‘ انہیں کبھی‬ ‫کسی نے رنج و مالل کی حالت میں نہ دیکھا۔ منہ میں خوش بول‬ ‫رکھتے تھے۔ کبھی کسی کو معلوم نہ ہو سکا کہ اندر سے کتنے‬ ‫دکھی ہیں۔ ان کی بیگم فیجاں‘ اتنی ہی سڑیل اور بدمزاج تھی۔‬ ‫کردار کی بھی صاف ستھری نہ تھی۔ مزے کی بات یہ کہ گھر‬ ‫سے کبھی کسی نے دونوں کی اونچی آواز تک نہ سنی تھی۔ یہ‬ ‫تو محض خوش فہمی ہو گی کہ ان کے درمیان تلخی نہ ہوتی ہو‬ ‫گی۔‬

‫ایک مرتبہ اپنے بیٹے سے الڈ پیار کر رہے تھے۔ منہ سے بھی‬ ‫بہت کچھ کہے جا رہے تھے۔ کہہ رہے تھے‘ میں اپنے بیٹے‬ ‫کو ڈاکٹر بناؤں گا‘ پھر سونے کے سہرے سجا کر‘ ہاتھی پر بٹھا‬ ‫کر‘ پیچھے گاڑیوں کی قطار ہو گی‘ بہو بیانے جاؤں گا۔ اس کی‬ ‫شادی پر بٹیروں کے گوشت کی دیگیں چڑھیں گی۔‬ ‫ساتھ میں بیسیوں بکرے زبح کر ڈالے۔ میٹھے میں بھی بہت‬ ‫ساری چیزیں دستر خوان پر سجا دیں۔‬ ‫میں کچھ دیر تو ان کی آسمان بوس باتیں سنتا رہا۔ پھر مجھ‬ ‫سے چپ نہ رہا گیا‘ میں نے پوچھ ہی لیا‘ پہا جی یہ آپ کیا کہہ‬


‫رہے ہیں۔ یہ سب کچھ کیسے ہو سکے گا۔ میری طرف انہوں‬ ‫نے ہنس کر دیکھا اور کہا‘ جب خیالی پالؤ پکایا جا رہا ہو تو‬ ‫راشن رسد کی کیوں کمی رکھی جائے۔ یہ کہہ کر ان کی آنکھیں‬ ‫لبریز ہو گیئں‘ ہاں منہ سے کچھ نہ بولے۔‬

‫میں نے سوچا‘ کہہ تو ٹھیک رہے ہیں۔ ہمارے لیڈر صاحبان‬ ‫ووٹ کی حصولی کے لیے بڑے خیالی پالؤ پکاتے ہیں۔ راشن‬ ‫رسد کی اس میں کمی نہیں چھوڑتے۔ ایسے ایسے نقشے‬ ‫کھنچتے ہیں‘ کہ شداد کی ارم بھی کوسوں کے فاصلے پر چلی‬ ‫جاتی ہے۔ امن و سکون کی وہ فضا‘ خیالوں اور خوابوں کو‬ ‫سکھ چین سے نوازتی ہے۔ عملی طور پر بھوک‘ دکھ‘ درد اور‬ ‫مصیبت ان کے کھیسے لگی ہے۔ ہاں البتہ یہ رشک ارم دنیا‘ ان‬ ‫لیڈروں کی دنیا میں ضرور بسی چلی آتی ہے۔ گماشتے انہیں‬ ‫سب اچھا کا سندیسہ سناتے آئے ہیں۔‬ ‫اگر عورت چاہے تو صفر کو بھی‘ سو کے مرتبے پر فائز کر‬ ‫سکتی ہے۔ اگر الٹے پاؤں چلنے لگے تو سو کو صفر بھی نہیں‬ ‫رہنے دیتی۔ دوسرا گریب صرف خواب ہی دیکھ سکتا ہے‘ اس‬ ‫سے آگے اس کی اوقات و بسات ہی نہیں ہوتی۔ فیجاں کو تو اہل‬ ‫اخگر سے‘ موج مستی سے ہی فرصت نہ تھی‘ شوہر اور بچوں‬


‫پر کیا توجہ دیتی۔ وہ ملکی لیڈر صاحبان کے قدموں پر تھی۔‬ ‫ایک روز پتا چال‘ اس نے پہا خادم سے طالق لے لی ہے اور‬ ‫کسی کے ساتھ چلی گئی ہے۔ پہا خادم اکیال ہی زندگی کی گاڑی‬ ‫چالتا رہا۔ ایک روز شراب کے نشہ میں دھت‘ ایک سیٹھ صاحب‬ ‫کی گاڑی کے نیچے آ کر‘ ہللا کو پیارا ہو گیا۔ بچے در بہ در ہو‬ ‫گئے۔ جس بچے کو وہ ڈاکٹر بنانا چاہتا تھا‘ منڈی میں پلے داری‬ ‫کرنے لگا۔ بعد میں الری اڈے ہاکری کرنے لگا۔ اس کی ایک‬ ‫مزدور کی بیٹی سے شادی ہو گئی۔ ہللا نے اسے چاند سا بیٹا‬ ‫عطا کیا۔ بےشک باپ کی طرح بڑا محنتی ہے اور آج کل باپ کے‬ ‫سے خیالی پالؤ پکاتا ہے۔ اس کی بیوی سگھڑ ہے‘ عابی کی‬ ‫وفادار بھی ہے۔ کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ اس کے خیالی پالؤ‬ ‫کسی حد تک سہی‘ منزل پا ہی لیں۔‬

‫تعلیم اور روٹی‬

‫وہ کم پڑھا لکھا کامیاب ہنرمند تھا۔ گزارے سے بڑھ کر کما لیتا‬


‫تھا لیکن اپنی ایک الگ سے فکر رکھتا تھا۔ ہنرمندوں کی‬ ‫بدحالی اسے خون کے آنسو روالتی۔ کیا کر سکتا تھا۔ وہ کیا‘‬ ‫معامالت روٹی ٹکر میں بڑے بڑے کھنی خان مجبور و بےبس‬ ‫ہو گیے تھے۔ دفتر شاہی ہو کہ انتظامیہ‘ اقتداری طبقے کی‬ ‫گماشتہ چلی آتی تھی۔ اسی طرح اقتداری طبقہ اس کے بغیر زیرو‬ ‫میٹر تھا۔‬ ‫وہ دیر تک سوچتا رہا‘ آخر ہنرمند طبقے کی کس طرح مدد‬ ‫کرے۔ پھر اسے ایک خیال سوجھا۔ خوشی سے اس کا چہرا‬ ‫دمک اٹھا اور اس نے تعلیم ایسے مشکل گزار رستے پر چلنے‬ ‫کا فیصلہ کر لیا۔ کتاب‘ کاپی اور قلم کی خریدداری کے لیے اس‬ ‫کے پاس پیسے تھے۔ تعلیمی معامالت میں مشکل پیش آ جانے‬ ‫کی صورت میں ماسٹر نور دین سے رابطہ ممکن تھا۔‬ ‫صبح اٹھتے ہی‘ وہ سب سے پہلے کتابوں کی دکان پر گیا۔ پانچ‬ ‫پاس تھا‘ چٹھی کی کتابیں‘ ایک بڑا رجسٹر اور قلم خرید کیا۔ اس‬ ‫نے یہ غور ہی نہ کیا کہ پڑھے لکھے باشعور طبقے‘ روز اول‬ ‫سے‘ شعور سے عاری بااختیار طبقے کی چھتر چھاؤں میں‬ ‫زندگی کرتے آئے ہیں۔ ہنرمندوں کو‘ مکہ بردار اپنے محل اور‬ ‫خودسر گھروالیوں کے مقبرے بنانے کے لیے استعمال کرتے‬ ‫آئے ہیں۔ دوسرا تعلیم اور روٹی کا کوئی رشتہ ہی نہیں‘ تعلیم تو‬


‫آگہی فراہم کرتی ہے۔ یہ دماغ سے سوچنے کا درس دیتی ہے۔‬ ‫پیٹ سے سوچنے کے لیے جہالت کی ضرورت ہوتی ہے۔ دماغ‬ ‫کی سوچ شخص تعمیر کرتی ہے جب کہ پیٹ کی سوچ میں کو‬ ‫ہوا دیتی ہے اور کم زور سروں کی کھوپڑوں سے محل تعمیر‬ ‫کرتی ہے۔‬ ‫وہ دیر تک کتابوں کے اوراق الٹ پلٹ کرتا رہا۔ رجسٹر پر کچھ‬ ‫لکھنے کی کوشش بھی کرتا رہا۔ اس کی ذہنی کیفیت جنونیوں‬ ‫کی سی تھی۔ چوں کہ سورج روشنی دے رہا تھا‘ اس لیے اسے‬ ‫احساس تک نہ ہوا کہ بجلی کتنی بار گئی ہے۔ رات ہو گئی تھی‘‬ ‫پھر اچانک ایک جھٹکے سے بجلی چلی گئی۔ اس کے منہ سے‬ ‫بےاختیار او تیرے کی نکل گیا۔ دوسرے ہی لمحے اسے خیال‬ ‫آیا‘ کہ وہ میٹرک پاس کرکے واپڈا میں بھرتی ہو کر ہنرمندوں‬ ‫کی مدد کرنا چاہتا تھا۔ حکومت تو خود ہنرمندوں کی مدد کر رہی‬ ‫تھی۔‬ ‫فیکس ٹائم کے عالوہ بھی چار چھے اچانکیہ جھٹکے‘ انرجی‬ ‫سیور ہی نہیں‘ اور بھی بہت ساری چھوٹی بڑی چیزوں کو لے‬ ‫دے جاتے تھے۔ بڑی بڑی کمپنیوں سے لے کر‘ چھوٹے سے‬ ‫چھوٹے ہنر مند کی دال روٹی کا سامان تو ہو رہا تھا۔ یہ ہی تو‬ ‫وہ کرنا چاہتا تھا جو پہلے سے ہی ہو رہا تھا۔ اسے اپنی گھٹیا‬


‫سوچ پر بڑی شرمندگی ہوئی‘ کہ صاحب اختیار طبقے تو پہلے‬ ‫ہی ہنرمندوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اس نے کاپیاں‬ ‫کتابیں الماری میں رکھ دیں اور سر کے نیچے بازو رکھ کر‬ ‫سکون کی نیند سو گیا۔‬

‫بوسیدہ الش‬

‫شباب مرزا ایمرجنسی وارڈ میں پڑا‘ زندگی کی آخری گھڑیاں گن‬ ‫رہا تھا۔ ڈاکٹر اور نرسیں‘ اس کی زندگی بچانے کی کوشش کر‬ ‫رہے تھے۔ اس پر کھل گیا تھا کہ اب کہانی‘ اپنے انجام کو پہنچ‬ ‫چکی ہے۔ دوا دارو دوبارہ سے‘ اسے زندگی کی شاہراہ پر ال‬ ‫کر‘ کھڑا نہیں کرسکتے۔ بچ بھی گیا تو وہ پہلے سی توانائی‘‬ ‫میسر نہ آ سکے گی۔ وہ زندگی بھر کسی کا سہارا نہیں بنا‘ اس‬ ‫کا کوئی کیوں سہارا بنے گا۔ ہر کسی کا قول و فعل‘ محض‬ ‫دکھاوے اور اسے خوش کرکے‘ کچھ حاصل کرنے کے لیے ہو‬ ‫گا۔‬


‫زندگی کا ہر بیتا لمحہ‘ اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گھوم‬ ‫گیا۔ ابھی وہ اتنا بڑا نہیں ہوا تھا کہ اسے لذت کا احساس ہو گیا۔‬ ‫ہوا یوں کہ ان کے گھر اس کی خالہ اور اس کی بیٹی ملنے یا‬ ‫کسی کام سے آئیں۔ خالہ نے اسے گلے لگایا اور اس کی بالئیں‬ ‫لیں۔ اس کی خالہ زاد‘ جو عمر میں کوئی اس سے زیادہ بڑی نہ‬ ‫تھی‘ بھی اسے گلے ملی۔ خالہ کے گلے ملنے میں کوئی مزا نہ‬ ‫تھا لیکن خالہ زاد کے ملنے سے‘ اس کے بدن میں عجب سی‬ ‫لذت دوڑ گئی۔ وہ اسے بار بار ملنا چاہتا تھا۔ اس کے رونگٹے‬ ‫میں ان جانی سی ہلچل مچ گئی۔ کئی بار کھڑا بھی ہوا۔ شاید اس‬ ‫لڑکی کی استفادہ میں بھی یہ ہی کیفیت رہی ہو گی۔‬ ‫اس کی اماں اور خالہ باتوں میں جھٹ گئیں۔ سسرالی خاندانوں‬ ‫کی خامیاں موضوع گفتگو تھیں۔ وہ تو اپنے مجازی خداؤں کو‬ ‫بھی لتاڑے چلی جا رہی تھیں۔ وہ اور اس کی خالہ زاد‘ اپنی‬ ‫ماؤں کے باہمی مذاکرات سے بےنیاز‘ رومان کی دنیا آباد کیے‬ ‫ہوئے تھے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہا‘ جب تک اس کی‬ ‫خالہ نے اپنی بیٹی کو آواز نہ دے دی۔‬ ‫لذت کے اس احساس نے‘ اسے متحرک کر دیا۔ تعلیمی معامالت‬ ‫طے کرنے کے لیے‘ اس نے ہر جائز ناجائز حربہ اختیار کیا۔ یہ‬ ‫ہی طور اس نے اچھے روزگار کے لیے اپنایا۔ اچھی رہائش اور‬


‫اس کے لوازمات کے لیے جائز کو مستقل طور پر‘ زندگی سے‬ ‫خارج ہی کر دیا۔ دنیا کی کون سی ایسی آسائش ہو گی‘ جو اسے‬ ‫میسر نہ آئی۔ کوٹھی‘ کار‘ بنگلہ‘ بینک بیلس‘ نوکر چاکر گویا‬ ‫سب کچھ اس کے کھیسے لگ چکا تھا۔ ایسے حاالت میں‘ بڑے‬ ‫گھر کی بیٹی بھی رونق افروز ہو گئی۔ وہ ہی کیا‘ حسیناؤں کا‬ ‫ایک ہجوم اس کے گرد رہتا۔ اس کا قرب‘ بڑے حسن اور ناز و‬ ‫ادا والیوں کو ہی نصیب ہوتا۔‬ ‫رونگٹا ذرا کم زور بڑتا تو دواؤں کا انبار لگ جاتا۔ اٹھنے‬ ‫بیٹھنے‘ آنے جانے‘ کھانے پینے‘ سونے جاگنے غرض ہر نوع‬ ‫کی لذت اس کے قدم لیتی رہی۔ آخر کب تک‘ معدہ اپ سٹ رہنے‬ ‫لگا۔ رونگٹا بھی ڈھیٹ سا ہو گیا۔ باہر تو باہر‘ اس ذیل میں گھر‬ ‫پر بھی ذلت اٹھانا پڑتی اور وہ وہ باتیں سنتا‘ جن کا وہ کبھی‬ ‫سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ماں کی دیکھا دیکھی‘ بچے بھی اس‬ ‫کی پرواہ چھوڑ گیے۔ اب وہ بااختیار افسر نہیں تھا جو اردگرد‬ ‫چمچے کڑچھے ہوتے۔ باہر نکلتا تو ناانصافی برداشت کرنے‬ ‫والوں کی غصیلی نظریں کھانے کو دوڑتیں گھر آتا تو نادیہ پاگل‬ ‫کتیا کی طرح‘ کاٹنے کو آتی۔ لذت نے آزار کا بھیس اختیار کر لیا‬ ‫تھا۔‬ ‫ایک دو دن نہیں‘ پانچ سے زیادہ عرصہ‘ اس نے ذلت و عذاب‬


‫میں گزارا۔ رونگٹے کی بےوفائی اس حالت تک لے آئی تھی۔‬ ‫ہسپتال بھی اسے شرم کوشرمی الیا گیا تھا دوسرا سارا دن اس‬ ‫عذاب کو کون جھیلتا۔ یہاں سابقہ سرکاری افسر ہونے کی وجہ‬ ‫سے‘ کسی حد تک سہی‘ خدمت میسر آ رہی تھی۔ وہ آنکھیں بند‬ ‫کیے یہ ہی سوچے جا رہا تھا کہ لذت کے لمحے آخر کیوں ختم‬ ‫ہو جاتے ہیں۔ آخر سب کچھ برقرار کیوں نہیں رہتا۔ پھر اس نے‬ ‫سوچا کہ اگر زندگی کی لذت کو استحقام نہیں تو زندگی کی اذیت‬ ‫کو بھی بقا نہیں ہو سکتی‘ یہ بھی ختم ہو جائے گی۔ سوچوں‬ ‫کے گرداب میں پھنسی اذیت آمیز زندگی نے‘ آخری ہچکی لی‬ ‫اور پھر وہاں ایک بوسیدہ الش کے سوا کچھ باقی نہ رہا۔‬

‫وبال دیکھیے‬

‫اللے دینو سے‘ اکثر چائے کے کھوکھے پر مالقات ہوتی رہتی‬ ‫تھی۔ اس کے محنتی اور مشقتی ہونے میں‘ کوئی شک نہیں۔‬ ‫سارا دن ریڑھی پر سبزی بیچتا اور رات کو ریڑھی گھر ڈک کر‘‬ ‫یہاں چار یاری میں آ بیٹھتا۔ ہم سب مل کر گپ شپ کرتے‘ ہنسی‬ ‫مذاق بھی خوب چلتا‘ دن بھر کی باتیں ہوتیں‘ سیاسی موضوعات‬


‫بھی گفتگو میں آ جاتے‘ ذاتی معامالت پر مشاورت ہوتی۔‬ ‫شقے کو بیوی کی بدسلوکی کے سوا‘ کچھ نہ آتا تھا۔ غریب تو‬ ‫سارے ہی تھے‘ لیکن لبھے پر غربت کچھ زیادہ ہی نازل ہو گئی‬ ‫تھی۔ طافی نے چوں کہ داڑھی رکھی ہوئی تھی‘ اس لیے ہم سب‬ ‫اسے مولوی کہہ کر پکارتے‘ مسلمان جرنیلوں کے کچھ تاریخی‬ ‫اور کچھ پاس سے گھڑ گھڑ کر قصے سناتا۔ اگر پڑھا لکھا ہوتا‬ ‫تو دوھائی کا کہانی کار ہوتا۔ اللے دینو کو اپنے بڑوں کی وڈیائی‬ ‫کے سوا کچھ نہ آتا تھا۔ وہ وہ چھوڑتا‘ کہ ہم سب دھنگ رہ‬ ‫جاتے۔ اکبر بادشاہ بھی جاہ و جالل اور مال و منال میں پیچھے‬ ‫رہ جاتا۔‬ ‫صدیقا منہ پھٹ بھی ہماری سالم دعا میں شامل تھا۔ اس کا کام‬ ‫ہی ہر اچھے برے‘ سچ جھوٹ پر تنقید کرنا تھا۔‬ ‫تنقید‘ مولوی اور اللے دینو کو تو آڑے ہاتھوں لیتا تھا۔ اس کی‬ ‫کسی حد تک غلط بھی نہ تھی۔ اس کا کہنا تھا‘ ان جرنیلوں نے‬ ‫اسالم نہیں پھیالیا۔ جرنیل مسلمان ہوں یا غیرمسلم‘ قتل و غارت‬ ‫کا ہی بازار گرم کرتے آئے ہیں‘ ان پر فخر کیسا‘ ہاں داتا صاحب‬ ‫یا ایسے دوسروں نے‘ اپنے عجز و انکسار‘ پیار‘ رواداری‘‬ ‫بھائی چارے‘ انسانی برابری کے درس سے اسالم پھیالیا ہے۔‬


‫اسی طرح اللے دینو سے کہتا‘ او چھوڑو یار‘ جو تم بتاتے ہو‘‬ ‫وہ ہوں گے‘ دیکھنا تو یہ ہے کہ تم کیا ہو‘ بس ماضی پر‬ ‫اتراتے رہو اور خود صفر رہو۔ یار ہمیں بھی کوئی خاص کرنا‬ ‫چاہیے تا کہ آتی نسل کے کام آ سکے۔‬

‫اکثر معاملہ بحث اور پھر تو تکرار کی حدوں کو چھونے لگتا۔‬ ‫میرا موقف تھا‘ اس بیٹھک کو شغل میلے تک رہنا چاہیے۔‬ ‫کوشش کے باوجود‘ تو تکرار ہو ہی جاتی۔ اس روز الال دینو‬ ‫کچھ زیادہ ہی گرم ہو گیا۔ صدیقا بھی تو زبان کو تالہ نہیں لگا‬ ‫رہا تھا۔ صدیقے نے اللے دینو کا گریبان پکڑ لیا۔ اللے دینو نے‬ ‫وٹ کر صدیقے کے سینے میں گھونسہ مارا اور وہ نیچے گر‬ ‫پڑا۔ اللے دینو کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ صدیقہ زمین پر‬ ‫آ رہے گا۔ اب وہ ہی سب سے زیادہ ترلے لینے والوں میں تھا۔‬ ‫افسوس صدیقا اللے دینو کی ایک نہ سہہ سکا اور ہللا کو پیارا‬ ‫ہو گیا۔ پلس آئی اور ہم سب کو پکڑ کر لے گئی۔ ہماری تو کچھ‬ ‫جھڑ جھڑا کر تھانے سے رخصتی ہو گئی ہاں اللے دینو کو‬ ‫پھنٹی کے ساتھ جیل بھی جانا پڑا۔ وبال دیکھیے‘ ہمیں بھی‬ ‫باطور گواہ حاضری پر رکھ لیا گیا۔‬ ‫عصری ضرورت‬


‫میں جدید لبرل مسلمان ہوں اور یہ سب جانتے ہیں‘ بتانے کی‬ ‫ضرورت نہیں۔ ایک شیطان ہی ہے جو نہیں مانتا‘ اس کا کہنا ہے‬ ‫کہ میں اس کا ہم پیشہ و ہم مشرب ہوں۔ پرسوں ہم انٹرنیشنل‬ ‫فائیو سٹار ہوٹل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آتے جاتے جوڑوں کے‬ ‫لباس اور ان کے طور و اطوار کو پرذوق اور پرحسرت نگاہوں‬ ‫سے دیکھ رہے تھے۔ یقین مانیئے ہر آنے والی کا حسن و‬ ‫جمال اور ادائیں‘ کاش کے تند و تیز چھرے سے‘ میری روح کو‬ ‫زخمی کر رہی تھیں۔ بدبخت پاس ہی بیٹھا‘ ان کے حسن و جمال‬ ‫اور اداؤں سے کم‘ میری بےچینی پر زیادہ خوش ہو رہا تھا۔‬

‫بیٹھا بیٹھا اچانک سنجیدہ سا ہو گیا۔ میں نے پوچھا‘ او سالے یہ‬ ‫اچانک تمہارا بوتھا شریف کیوں لمک گیا ہے۔ کہنے لگا یار دنیا‬ ‫بڑی خودی غرض ہے۔‬ ‫کیوں کیا ہو گیا‬ ‫ہونا کیا تھا‘ پرسوں بھابی اور بٹیا ادھر ہی‘ ملکوں کے ایک‬ ‫شوخے کے ساتھ آئے ہوئے تھے۔ کم بخت بھابی کا آنا پسند‬ ‫نہیں کر رہا تھا۔ پہلے اس نے اپنا مطلب نکال لیا۔ بھابی نے کیا‬


‫کہنا تھا‘ بےچاری چپ چاپ بیٹھی ناشتے پانی کا انتظار کر رہی‬ ‫تھی۔ کافی دیر بعد کھانے میں کافی کچھ منگوایا گیا۔ خود بھی‬ ‫کھاتا مرتا رہا۔ پھر واش روم جانے کے بہانے سے اٹھا اور‬ ‫کھسک گیا۔ ان بےچاریوں نے چھوٹے کے ہاتھ پیسے منگائے‬ ‫اور وہاں سے خالص ہوئیں۔‬ ‫مجھے بڑا تاؤ آیا۔ ان کی اس بیٹھک کا تو مجھے علم تھا‘ لیکن‬ ‫ملکوں کے شوخے کی اس کمینی حرکت سے آگاہ نہ تھا۔ سب‬ ‫بےمزا اور کرکرا ہو گیا۔ دل چاہتا تھا کہ اس شوخے کے ڈکرے‬ ‫ڈکرے کر دوں۔ میں نے اسے کہا‘ یار بس اب اٹھو‘ چلتے ہیں۔‬ ‫دنیا کی چال بازی پر مجھے دکھ اور افسوس ہوا۔ معامالت میں‬ ‫آدمی کو اتنا بھی نہیں گرنا چاہیے۔ میں اگر جھوٹ بولتا ہوں‘ تو‬ ‫لوگ میرے کہے کا یقین کرتے ہیں۔ اگر یقین نہ کریں تو مجھے‬ ‫کیا پڑی ہے‘ جوجھوٹ بولوں۔‬

‫معامالت میں‘ میں نے کبھی دونمبری نہیں کی۔ وہ پیسے دیتے‬ ‫ہیں‘ میں گواہی دیتا ہوں۔ ان کا احسان نہ میرا احسان۔ رشوت کی‬ ‫رقم مفت میں تو نہیں لیتا‘ کام کرتا اور کرواتا ہوں۔ کسی‬


‫دوسرے دفتر سے کام کرواتا ہوں تو ٹن پرسنٹ میرا اصولی حق‬ ‫بنتا ہے۔ میں دودھ میں پانی مالتا ہوں تو اس میں غلط کیا ہے‘‬ ‫پیچھے سے کب کھرا آتا ہے۔ میرا پانی مالنا دکھتا ہے تو‬ ‫سپالئی کرنے واال کیوں نظر نہیں آتا۔ دوسرا میں کون سا زور‬ ‫زبردستی فروخت کرتا ہوں‘ نہ خریدیں۔ انہیں حکیم نے کہا ہے‘‬ ‫جو وہ پانی یا کیمیکل مال دودھ خریدتے ہیں۔ خریددار کے سب‬ ‫علم میں ہے تو یہ دو نمبری کس حساب سے ہوئی۔‬ ‫میں لبرل ماڈرن مسلمان ہوں‘ دو نمبری کو غلط اور قابل تعزیر‬ ‫سمجھتا ہوں۔ عہد قدیم کے مسلمانوں کا دائرہ محدود تھا‘ اس‬ ‫لیے اصول بھی اسی دور کے مطابق تھے۔ میرا واسطہ گلوبل‬ ‫ہے۔ امریکہ اور جاپان اب دو قدم کے ملک رہ گئے ہیں‘ لہذا‬ ‫مجھے عصری اصولوں کو فالو کرنا ہوتا ہے۔ حضرت بالل‬ ‫حضور کریم کے قریب تھے‘ لہذا وہ ویسے تھے۔ حضور کریم‬ ‫میرے قریب نہیں ہیں‘ کیا یہ میری برخورداری نہیں کہ میں‬ ‫حضور کریم سے بڑی محبت کرتا ہوں‘ ہاں ان کے کہے پر نہیں‬ ‫چلتا‘ بل کہ آج کی ضرورت کے مطابق زندگی کر رہا ہوں۔‬ ‫لبرل ماڈرن مسلمان ہونے کے ناتے‘ گیو ٹیک کو اپنائے ہوئے‬ ‫ہوں۔ میں نے ہر اس عورت کو اپنی ماں بہن سمجھا ہے جو‬ ‫میرے ساتھ پھنستی نہیں۔ بڑی سالی تکبر میں رہی‘ میں نے‬


‫بھی اسے جوتے کی نوک پر رکھا۔ ہمیشہ باجی باجی کہہ کر‬ ‫مخاطب کیا ہے۔ ہاں چھوٹی لبرل ماڈرن مسلمان تھی‘ اس سے‬ ‫سالم دعا ہو گئی۔ اس کی شادی ہو گئی‘ اب جب کبھی آتی ہے‘‬ ‫تو ہمارا گیو ٹیک ہو جاتا ہے۔ ہاں البتہ ساس مجھ پر مہربان ہے‬ ‫تو میں بھی اس کے معاملہ میں بخیل نہیں۔‬ ‫مجھے ملکوں کے شوخے پر تاؤ آتا ہے‘ بےغیرت دونمبری‬ ‫کرتا ہے۔ کچھ لیا ہے تو کچھ دو بھی۔ ایسے ہی دو نمبر لوگ‬ ‫قابل تعزیر ہوتے ہیں۔ اگر ملک کی باگ ڈور میرے ہاتھ میں آ‬ ‫جائے تو اس طور کے ہر دونمبری کو‘ چوراہے میں الٹا لٹکا‬ ‫دوں تا کہ کسی کو دونمبری کرنے کی جرآت ہی نہ ہو۔ وہ لبرل‬ ‫ماڈرن مسلمان نہیں ہیں‘ مولوی کو‘ ایسے دو نمبریوں پر کفر‬ ‫کا فتوی لگا دینا چاہیئے۔ مولوی عصری ضرورت سے ہٹ کر‘‬ ‫فتوی سازی میں مصروف ہیں۔ انہیں آج کی ضرورت اور حقائق‬ ‫کے مطابق چلنا ہو گا‘ ورنہ انہیں لبرل ماڈرن مسلمان نہیں کہا‬ ‫جا سکتا۔‬

‫اماں جیناں‬


‫اماں جیناں محلہ کیا‘ اردگرد کے محلوں میں بھی پسند نہیں کی‬ ‫جاتی تھی۔ اسے بیوہ ہوئے آٹھ سال ہو گئے تھے۔ اس کا خاوند‬ ‫مشقتی تھا‘ لیکن تھا بھال آدمی۔ صبح کام پر چال جاتا اور رات‬ ‫دیر تک مشقت کرتا۔ اس نے اپنی محنت سے‘ چھوٹا اور کچا‬ ‫پکا ذاتی مکان بھی بنا لیا تھا۔ ضرورت کی ہر شے اس میں ال‬ ‫کر رکھ دی تھی۔ جتنا ایک مشقتی سے ممکن ہوتا ہے کیا۔ اپنی‬ ‫بوالر بیوی کو ہر طرح کا سکھ‘ فراہم کرنے کا جتن کیا۔‬ ‫اماں جیناں نے اپنے خاوند سحاکے کے ہر رشتہ دار‘ یہاں تک‬ ‫کہ اس ماں کی بھی دڑکی لگا دی۔ وہ بڑی برداشت کا مالک تھا۔‬ ‫اس زیادتی کو کوڑا گھونٹ سمجھ کر پی گیا اور حسب معمول‬ ‫محنت مشقت پر جھٹا رہا۔ ماں اور بہن بھائیوں کو وقت نکال کر‬ ‫مل لیتا۔ ہاں البتہ پانچ دس منٹ کے لیے سہی‘ ماں کو ہر روز‬ ‫بھرجائی کے کوسنے سن کر بھی‘ ملنے چال جاتا۔ معلوم پڑ‬ ‫جانے کے بعد جیناں بھی وقت کووقت اور اپنے خاوند کی حالت‬ ‫دیکھے بغیر‘ منہ میں زبان رکھنا بھول جاتی۔‬ ‫اس کی زبان نے بابے سحاکے کے اپنے تو اپنے‘ ملنے والے‬ ‫بھی بہت دور کر دیے تھے۔ ہر کوئی اس سے بات کرتے ڈرتا‘‬ ‫مبادا کوئی گالواں ہی گلے آ پڑے گا۔ الٹی کھوپڑی کی مالک‬ ‫تھی‘ سیدھی بات کو غلط معنوں میں لے لیتی تھی۔ مثال کوئی‬


‫بھولے سے بھی پوچھ بیٹھتا‪ :‬مائی جیناں کیا حال ہے۔ جواب‬ ‫میں اسے یہ ہی سننا پڑتا‘ اندھے ہو نظر نہیں آتا‘ چنگی بھلی‬ ‫ہوں۔ جب ایسی صورت ہو تو کوئی اس کے منہ کیوں لگتا۔‬ ‫منہ متھے لگتی تھی‘ عالقے میں انھی ڈال سکتی تھی۔ ہمیشہ‬ ‫سے بوڑھی نہ تھی۔ مجال ہے کوئی اس کے بارے غلط بھی‬ ‫سوچتا۔ کھگو نے جوانی کے دور میں‘ ٹرائی ماری تھی۔ اس‬ ‫کے ساتھ کیا ہوا جگ جانتا ہے۔ جب بھی وہ نظر آ جاتا‘ شروع‬ ‫ہو جاتی۔ اس نے معافی بھی مانگی لیکن جیناں نے معاف نہ کیا۔‬ ‫اس کا موقف تھا کہ کھگو کو ایسی جرآت ہی کیوں ہوئی۔ اس‬ ‫نے ایسا سوچ بھی کس طرح لیا۔ چوں کہ قریب کی گلی کے‬ ‫تھے‘ وہ گلی دیکھ کر گزرتا۔ اگر جیناں نظر آ جاتی تو بل باش‬ ‫ہو جاتا۔ اس کے برعکس اگر جیناں کی اس پر نظر پڑ جاتی‘ تو‬ ‫رانی توپ کا منہ کھل جاتا۔ جب تک زندہ رہا‘ نزع کی حالت میں‬ ‫ہی رہا۔‬ ‫اماں جیناں کی کوئی اوالد نہ تھی۔ خاوند کے مرنے کے بعد‬ ‫بےسہارا سی ہو گئی۔ پورے محلہ میں کوئی اسے پوچھنے واال‬ ‫نہ تھا۔ جب تک گھر پر جمع پونجی باقی رہی‘ گزارا کرتی رہی۔‬ ‫فاقوں پر آ گئی‘ اس نے کسی پر ظاہر تک نہ کیا۔ سب کچھ ذات‬ ‫اور آنسوؤں میں ضبط کرتی رہی۔ میری گھروالی کو جانے‬ ‫کیسے معلوم ہو گیا۔ اس نے بات میرے سامنے رکھی۔ مجھے‬ ‫عزت عزیز تھی۔ میں اس کی مدد کرنا چاہتا تھا‘ لیکن ڈرتا تھا‬


‫کہ کہیں معاملہ گلے ہی نہ آ پڑے۔‬ ‫ایک دن گلی سے گزر رہا تھا‘ اماں جیناں اپنے گھر کی دہلیز پر‬ ‫اداس اور افسردہ بیٹھی ہوئی نظر آئی۔ میں دور سے‘ جو اسے‬ ‫سنائی دے رہا جعلی بڑبڑاتا ہوا اس کے قریب سے گزرا۔ اس‬ ‫نے مجھے کبھی اس انداز میں نہ دیکھا تھا۔ قریب آیا تو اس‬ ‫‪:‬نے پوچھ ہی لیا‬ ‫پتر کیا ہوا‬ ‫ماں جی ہونا کیا ہے‘ کیسا دور آ گیا ہے‘ پیسے پورے لے کر‬ ‫بھی چیز درست نہیں دیتے۔ میرے بیگ میں کیلے تھے میں نے‬ ‫کیلے انہیں پکڑائے اور خود دوبارہ سے بڑبراتا ہوا آگے بڑھ‬ ‫گیا۔ اس نے بڑی حیرت سے میری طرف دیکھا اور کیلے لے کر‬ ‫اندر چلی گئی۔‬ ‫مجھے شہہ مل گئی اور پھر میں‘ آنے بہانے اماں جیناں کو‬ ‫کچھ ناکچھ دے کر کام پر چال جاتا۔ ایک مرتبہ میں نے کچھ‬ ‫پیسے بھی چیز کے ساتھ رکھ دیے۔ اگلے روز گھر واپس آتے‬ ‫اس نے مجھے روک لیا اور کہا غلطی سے پیسے بھی آ گیے‬ ‫تھے۔ میں نے کہا نہیں ماں جی‘ آپ کے حصہ ہی کے تھے اور‬ ‫میں جلدی سے وہاں سے رخصت ہو گیا‘ کہ کوئی تماشا کھڑا نہ‬ ‫کر دے۔ جب اگلے دن وہاں سے گذرا تو دیکھا‘ اماں کی آنکھوں‬ ‫میں تشکر لبریز آنسو تھے۔ سچی بات ہے میری بھی آنکھیں‬ ‫چھلک پڑیں۔ اس کے بعد میں بالڈرے اس کی خدمت کرنے لگا۔۔‬


‫دن گزر گئے‘ اور آج اماں کو حق ہوئے بھی کئی سال ہو چلے‬ ‫ہیں۔ کوئی نہیں جانتا تھا‘ وڈ ٹک سے پہلے اماں بڑے کھاتے‬ ‫پیتے خاندان کی تھی۔ سحاکا ہی اسے زخمی حالت میں‘ اس کی‬ ‫جان بچا کر لے آیا تھا ورنہ ہللا جانے اس کے ساتھ کیا گزرتی۔‬ ‫اماں نے سحاکے کے ساتھ نکاح کر لیا۔ سحاکا ازدواجی معامالت‬ ‫میں پیدل تھا‘ اماں نے پھر بھی پاک صاف رہ کر زندگی گزار‬ ‫دی۔‬ ‫مائی صوباں کا یہ انکشاف‘ حیرت سے خالی نہ تھا۔ سب خالئی‬ ‫سا معلوم ہو رہا تھا۔ سچ میں‘ ہللا کی اس زمین پر یہ وقوع میں‬ ‫آ چکا تھا۔‬

‫اس کا نام ہدایتا ہی رہا‬

‫تجربہ زندگی کو سنوارتا‘ نکھارتا اور بعض اوقات شخصیت میں‬ ‫انقالب برپا کر دیتا ہے۔ ہداتے اور اس کی رن ماجدہ کا‘ ہر‬ ‫دوسرے تیسرے رن کچھ سا رن لگتا۔ وہ جند جان میں اس سے‬ ‫کہیں بھاری تھی۔ اڑبڑ کرتا‘ تو سیدھا چمٹا چالتی‘ جو اس کے‬


‫کہیں ناکہیں آ لگتا۔ آشاں کا نشانہ بڑے کمال کا تھا۔ اس کے وڈ‬ ‫وڈیروں میں یقینا کوئی بہت بڑا شکاری رہا ہو گا۔ ایک بار تو‬ ‫سیدھا وہاں سے‘ تھوڑا ہی فاصلے پر آ لگا۔ کئی دن ٹانگیں‬ ‫چوڑی کرکے چلتا رہا۔ اگر خدا نخواستہ وہاں لگ جاتا‘ تو آج‬ ‫صحن میں اٹھکیلیاں کرتی منی سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ اس چوٹ‬ ‫نے آشاں پر تو کوئی اثر نہ ڈاال‘ ہاں البتہ اس تجربے نے اس‬ ‫کے معمول میں انقالبی تبدیلی ضرور کر دی۔ اب جب بھی رن‘‬ ‫رن میں اترنے کا موڑ بناتی‘ یہ فورا سے پہلے گھر کی دہلیز‬ ‫کے اس پار ہوتا۔‬ ‫وہ اندر فائرنگ کرتی یہ باہر کھڑا کبھی گولے اور کبھی تھری‬ ‫نٹ تھری کی گولیاں چالتا۔ ہاں البتہ‘ ہر دو تین گولیاں یا گولے‬ ‫چالنے کے بعد‘ اتنا ضرور کہتا‘ ہللا تمہیں ہدایت دے۔ اس کے‬ ‫بعد ہللا تمہیں ہدایت دے اس کا تکیہءکالم ہی بن گیا۔ اس کا اصل‬ ‫نام نور محمد تھا لیکن اس تکیہءکالم کی وجہ سے‘ اس کا نام‬ ‫بھی ہدایتا پڑ گیا۔ پھر ہر دو تین کلمے منہ سے نکالنے کے بعد‘‬ ‫ہللا تمہیں ہدایت دے ضرور کہتا۔ لوگ چوں کہ اس کے اس‬ ‫تکیہءکالم سے آگاہ ہو چکے تھے‘ اس لیے غصہ نہ کرتے۔‬ ‫ایک بار سردار صاحب کے بیٹے کی جنج چڑھنا تھا۔ اچھے‬ ‫کپڑے سلوا لیے‘ اسی طرح اوکھے سوکھے ہو کر نیا جوتا بھی‬


‫خرید لیا۔ اگلے دن جنج چڑھنا تھا‘ رن سرکار سے خوب حجامت‬ ‫کروانے کے بعد‘ شہر حجامت اور شیو بنوانے چال گیا۔ حجام کی‬ ‫دکان پر تھوڑا رش تھا۔ وہ ادھر ہی بیٹھ گیا اور موجود لوگوں‬ ‫کی باتیں سننے لگا اور ساتھ میں ہوں ہاں بھی کرنے لگا۔ خدا‬ ‫خدا کرکے‘ اس کی بھی باری آ ہی گئی۔‬ ‫حجام باتونی تھا۔ حجامت بھی بنائے جا رہا تھا اور ساتھ میں‬ ‫باتیں بھی کیے چلے جا رہا تھا۔ ہدایتا اس کی ہاں میں ہاں مال‬ ‫رہا تھا۔ ساری باتیں وہ ہی کیے جاتا تھا۔ خدا خدا کرکے ایک دو‬ ‫باتیں اسے بھی کرنے کا موقع مل گیا۔ حسب عادت دو تین باتیں‬ ‫کرنے کے بعد‘ ہللا تمیں ہدایت دے کہہ بیٹھا۔ حجام کام چھوڑ کر‘‬ ‫الل الل آنکھیں نکال کر کہنے لگا‘ اوئے پینڈو کیا میں بےہدایتا‬ ‫ہوں اور ہدایت تو سکھائے گا۔ چپ رہتا یا معذرت کر لیتا تو بات‬ ‫نہ بگڑتی۔‬ ‫لفظ پینڈو اسے چبھ سا گیا اور گھر سمجھ کر بکنے لگا۔ پھر کیا‬ ‫تھا‘ وہاں موجود لوگوں نے اسے پکڑ کر خوب وجایا۔ اور تو‬ ‫اور چہرے پر بھی اچھے خاصے آلو ڈال دیے۔ ابھی آدھے ہی‬ ‫بال کٹے تھے کہ بقیہ جان بچا کر واپس آ گیا۔ آشاں زخموں پر‬ ‫مرہم رکھنے یا اس حجام کا گھر پر ہی زبانی کالمی گھر پورا‬ ‫کرنے کی بجائے‘ اس کے چہرے کے آلو دیکھ کر خوب ہنسی۔‬


‫اس واقعے کے بعد وہ جنج چڑھنے سے محروم ہو گیا اور‬ ‫گاؤں بھر کے مردوں‘ عورتوں اور بچوں کے لیے مذاق بن گیا۔‬ ‫ہاں البتہ اس کا تکیہءکالم ضرور بدل گیا۔ ہللا تمہیں ہدایت دے‬ ‫کی بجائے‘ ہللا مجھے ہدایت دے بولنے لگا۔ یہ بات قطعی الگ‬ ‫سے ہے کہ زبان پر مجھے اور دل میں تجھے ہی ہوتا۔ اس نے‬ ‫اپنے لیے کبھی ہدایت کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی‘ جیسے‬ ‫پیدایشی ہدایت یافتہ ہو۔ اس حادثے کے بعد‘ نام بھی تبدیل ہو‬ ‫جانا چاہیے تھا‘ لیکن اس کا نام ہدایتا ہی رہا۔‬

‫بھاری پتھر‬

‫مغرب میں اماں بابوں کا گالواں‘ اوالد گلے میں نہیں ڈالتی۔ وہاں‬ ‫ان پرانے وقتوں کے لوگوں کو‘ بڈھا ہاؤسز میں چھوڑ دیا جاتا‬ ‫ہے‘ جہاں وہ اپنے وقتوں کی کہانیاں‘ ایک دوسرے کو سنا کر‘‬ ‫ہنسی خوشی زندگی گزار لیتے ہیں۔ ہر نئے دور کے تقاضے‬ ‫اپنے ہوتے ہیں۔ نئے دور کے لوگ‘ اپنے ان تقاضوں کے ساتھ‬


‫کھل ڈھل کر زندگی گزارتے ہیں۔ ان کی کرنی میں‘ کوئی میم میخ‬ ‫نکالنے واال نہیں ہوتا۔ ناہی انہیں ایک دوسرے کی کرنی پر کوئی‬ ‫اعتراض ہوتا ہے۔ جہاں جانا ہو دوڑ کر جا سکتے ہیں۔ ان کی‬ ‫موجودگی میں‘ انہیں بھی کندھا پکڑا کر ساتھ لے جانا پڑتا ہے۔‬ ‫واپس آ کر ان کی تقریریں سننا پڑتی ہیں۔‬ ‫دور کیا جانا ہے‘ کل ہی کی بات کو لے لیں۔ بابے مہنگے کو‬ ‫بھی شادی حال میں لے گئے۔ خیال تھا کہ نیا ماحول دیکھ کر‘‬ ‫تازہ دم ہو جائے گا اور آج کل کا پیٹ بھر کر کھا کر‘ خوش ہو‬ ‫گا۔ مگر کہاں جی‘ جتنی دیر وہاں بیٹھا‘ بڑ بڑ کرتا رہا۔ بہو اور‬ ‫بیٹیوں کو گھور گھور کر اور کھا جانے والی نظروں سے‬ ‫دیکھتا رہا۔ گھر آ کر‘ اماں پر برس پڑا کہ کتنا بےحیا دور آ گیا‬ ‫ہے۔ کسی کو اپنی عزت آبرو کا احساس تک نہیں رہا۔ یہ لباس‬ ‫تھا‘ باریک‘ آدھا اور وہ بھی ٹائٹ۔ ٹانگوں کی اگلی پچھلی اور‬ ‫سینے کی لکیریں‘ نمایاں ہو رہی تھیں۔ کسی کے سر پر دوپٹہ‬ ‫نہ تھا۔ یوں نچ ٹپ رہی تھیں‘ جیسے چوتڑوں میں کیڑا گھس گیا‬ ‫ہو۔ بھائی اور خاوند ساتھ تھے‘ کسی کو غیرت نہیں آ رہی تھی۔‬ ‫اب پتا چال کہ ہم مسلمان ہو کر بھی‘ دنیا جہان کے چھتروں کی‬ ‫زد میں کیوں ہیں۔‬ ‫بابے نے اتنے اعلی کھانے میں بھی‘ ہزار طرح کے کیڑے‬


‫نکالے۔ اماں جس نے بابے کو ساری عمر نپ کر رکھا تھا‘ آج‬ ‫اسے قابو نہ کر پا رہی تھی۔ اپنی کہے جا رہی تھی لیکن پورا نہ‬ ‫اتر رہی تھی۔ بابا مکمل طور پر چھایا ہوا تھا اور پٹری سے اتر‬ ‫چکا تھا۔‬ ‫ملک کے سربراہوں کے بھی بابے ہوں گے‘ معلوم نہیں وہ ان‬ ‫پر کس طرح قابو پاتے ہوں گے یا پھر ان کے بابے بھی لکیر‬ ‫پسند ہوں گے۔ سربراہ بابا ہو تو بھی بابا نہیں ہوتا۔ حکیم ڈاکٹر‬ ‫ان کے مطیع ہوتے ہیں۔ دوسرا وہ سب کے ہوتے ہیں اس لیے‬ ‫ان کا لبرل اور لکیر نواز ہونا ضروری ہوتا ہے۔ رہ گئی بات دنیا‬ ‫جہاں کے چھتر کھانے کی‘ وہ تو ہم صدیوں سے کھا رہے ہیں۔‬ ‫اگر کوئی ان موقعوں پر ہماری بیویوں‘ بیٹیوں اور بہنوں کی‬ ‫لکیروں سے‘ نظری یا محض معمولی معمولی ٹچ سے لطف‬ ‫اندوز ہو رہا ہوتا ہے‘ تو ہم بھی کب پیچھے ہوتے ہیں۔ ہماری‬ ‫آنکھیں کھلی اور ہاتھ متحرک ہوتے ہیں۔ اگر ہماری عورتیں ان‬ ‫کے لیے لطف کا سامان ہوتی ہیں‘ تو ان کی عورتیں بھی ہمیں‬ ‫حظ مہیا کر رہی ہوتی ہیں۔‬ ‫بابر سے لبرل بادشاہ نے کہا تھا ‪:‬‬ ‫بابر عیش کوش کہ دنیا دوبارہ نیست‬


‫یہ بابے کیا جانیں۔ خشک جیئے اور ہمیں بھی‘ اسی رہ پر رکھنا‬ ‫چاہتے ہیں۔ حاکم اپنی موج میں ہیں۔ ہمیں بھی جدید طرز کی‬ ‫زندگی گزارنا ہے لیکن ان بابوں کے ہوتے‘ مکمل طور پر یہ‬ ‫ممکن نہیں۔ بااختیار اداروں کا فرض بنتا ہے کہ ان بابوں کا کچھ‬ ‫کریں ورنہ ان کے لیکچر ہمیں جدید زندگی سے درر رکھیں گے۔‬ ‫ہم آزادی حاصل کرکے بھی آزادی سے دور رہیں گے۔ جو بھی‬ ‫سہی‘ یہ طے ہے کہ امرا کے ناسہی‘ ہمارے بابے عصری‬ ‫آزادی کی راہ کا بھاری پتھر ہیں اور ہم سے لبرل‘ ماڈرن‘ آزاد‘‬ ‫ترقی پسند اور مغرب کے پیروں کو غیرت کا لیکچر پال پال کر‬ ‫غیرت پسند بنا دینا چاہتے ہیں۔‬

‫ایسے لوگ کہاں ہیں‬ ‫یہ دنیا سرائے کی مانند ہے‘ کوئی آ رہا ہے تو کوئی جا رہا ہے۔‬ ‫سرائے میں مستقل کوئی اقمت نہیں رکھتا۔ ہاں ہر آنے واال اپنا‬ ‫ایک تاثر ضرور چھوڑ جاتا ہے۔ کوئی اچھا تو کوئی برا۔ اس‬ ‫تاثر کے حوالہ سے ہی‘ اس مسافر کو یاد میں رکھا جاتا ہے۔‬


‫بابا صاحب بھلے آدمی تھے۔ طبعا مہربان‘ شفیق اور اپنے‬ ‫پرائے کے غم گسار تھے۔ کسی کو دکھ میں دیکھتے‘ تو تڑپ‬ ‫تڑپ جاتے۔ جب تک اس کی تکلیف دور کرنے کا پربند نہ کر‬ ‫لیتے‘ سکھ کا سانس نہ لیتے تھے۔ اچھائی اور خیر کے معاملہ‬ ‫میں‘ دھرم اور مسلک ان کے نزدیک‘ کوئی معنویت نہ رکھتا‬ ‫تھا۔ ان کا موقف تھا‘ جس طرح ہللا سب کا نگہبان ہے‘ اسی‬ ‫طرح انسان بھی سب کا نگہبان ہے۔ اس کی پیدا کی ہوئی کوئی‬ ‫بھی مخلوق‘ دکھ میں ہے تو انسان کو‘ اس کا ہر حال میں دکھ‬ ‫دور کرنا چاہیے۔ کوئی برا کرتا ہے تو یہ اس کا کام ہے‘ برائی‬ ‫کے بدلے برائی کرنا‘ تمہارا کام نہیں۔ تم جو بھی کرو‘ اچھا اور‬ ‫اچھے کے لیے کرو۔‬ ‫ان کے پاس‘ ہر دھرم سے متعلق لوگ آتے۔ کوئی خیر و برکت‬ ‫کی دعا کے لیے آتا‘ تو کوئی علم وادب اور مذہب سے متعلق‬ ‫گفتگو یا مشاورت کے لیے آتا۔ سب کے ساتھ یکساں سلوک روا‬ ‫رکھتے۔ تحمل سے اس کی سنتے اور پھر اپنا موقف پیش‬ ‫کرتے۔ جب تک وہ مطمن نہ ہو جاتا‘ رخصت نہ کرتے۔‬ ‫بائیبل مقدس‘ رومائن‘ بھگوت گیتا‘ گرنتھ صاحب کا ورق ورق‬ ‫انہوں نے پڑھ رکھا تھا۔ بدھ مت کے متعلق بھی اچھا خاصا نالج‬ ‫رکھتے تھے۔ پہلے تو متعلقہ کی کتاب اور پھر قرآن مجید کے‬ ‫حوالہ سے بات کرتے۔ یار کمال کے شخص تھے۔ کوئی نذر نیاز‬ ‫لے آتا تو رکھ لیتے‘ جب جانے لگتا تو اس تاکید کے ساتھ‬


‫واپس کر دیتے‘ کہ چیزیں صرف اپنے بیوی بچوں میں تقسیم‬ ‫کرنا۔ اصرار کے باوجود کچھ نہ رکھتے۔ فرماتے بیٹا‘ تم چنتا نہ‬ ‫کرو‘ ہللا مجھ اور میری بھوک پیاس سے خوب خوب واقف ہے۔‬ ‫ایک بار ایک اجنبی آیا۔ کچھ کہے سنے بغیر ہی‘ دروازے پر‬ ‫کھڑے ہو کر‘ بابا صاحب کو برا بھال کہنے لگا۔ جب حد سے‬ ‫گزرنے لگا‘ تو بیٹھے لوگوں میں سے ایک اٹھ کر اس کی‬ ‫ٹھکائی کرنے لگا۔ بابا صاحب نے اسے منع کر دیا۔ بہت کچھ‬ ‫کہہ لینے کے بعد وہ چال گیا۔‬ ‫ایک بوال بیڑا غرق ہو اس خانہ خراب کا‘ کتنی بکواس کر رہا‬ ‫تھا۔ اگر بابا صاحب نہ روکتے‘ تو آج میں اسے اس بدتمیزی کا‬ ‫ایسا مزا چکھاتا کہ نسلوں کو بھی منع کر جاتا۔ بابا صاحب اس‬ ‫کے اس طرز تکلم سے سخت پریشان ہوئے۔ پھر فرمانے لگے‘‬ ‫بیٹا کبھی اور بھی کسی بھی صورت میں‘ گفتگو میں شائستگی‬ ‫کو ہاتھ سے نہ جانے دو۔ یاد رکھو‘ ایک طرف نیکیوں کا انبار‬ ‫لگا ہو تو دوسری طرف ایک بددعا‘ بددعا اس پر بھاری ہے۔ کیا‬ ‫تمہیں حضرت یونس علیہ السالم کی بددعا کا انجام یاد نہیں۔‬ ‫انہیں مچھلی کے پیٹ میں جانا پڑا۔ پھر فرمایا بددعا کی بجائے‬ ‫تم دعا بھی دے سکتے ہو کہ ہللا اسے ہدایت دے۔ بعید نہیں وہ‬ ‫وقت قبولیت کا وقت ہو۔‬ ‫تھوڑی دیر کے بعد وہ شخص دوبارہ سے آ گیا اور دروازے پر‬ ‫کھڑا ہو کر‘ اندر آنے کی اجازت طلب کرنے لگا۔ اب کہ وہ اور‬


‫اس کا انداز بڑا مہذب اور شائستہ تھا۔ سب اس کے اس دوہرے‬ ‫روپ سے حیران رہ گئے۔ بابا صاحب نے اسے اندر آنے کی‬ ‫اجازت دے دی۔ اندر آ کر وہ بابا صاحب کے پاؤں پڑنے لگا تو‬ ‫بابا صاحب نے اسے سختی سے منع کر دیا اور پھر اس کی‬ ‫طرف دیکھ کر مسکرائے۔ وہ مسکراہٹ کیا تھی‘ جنت کی ہوا کا‬ ‫ایک جھونکا تھا‘ جو سب کو نہال کر گیا۔‬ ‫وہ شخص کہنے لگا‪ :‬سرکار میں تو آپ کے ظرف کا امتحان لے‬ ‫رہا تھا۔ جیسا اور جو سنا ویسا ہی پایا۔ آپ سچے ولی ہیں۔‬ ‫نہیں بیٹا‘ یہ تم محبت میں کہہ رہے ہو۔ میں بےچارہ کہاں اور‬ ‫والیت کہاں۔ ہاں یہ ہللا کا احسان اور لطف وکرم ہے‘ جو اس نے‬ ‫توفیق دی اور میں اس امتحان میں کامیاب ہوا۔‬ ‫سوچتا ہوں‘ اب ایسے لوگ کہاں ہیں۔ اگر کوئی ہے‘ تو چال‬ ‫کیوں جاتا ہے۔ کیا کریں‘ یہاں کوئی ٹھہرنے کے لیے نہیں آتا۔‬ ‫اچھا ہو کہ برا‘ گریب ہو کہ امیر‘ شاہ ہو کہ فقیر‘ اسے ایک‬ ‫روز جانا ہی تو ہے۔ اللچ‘ ہوس اور حرص نے انسان کو‘ انسان‬ ‫نہیں رہنے دیا۔ کاش ہمیں یقین ہو جائے‘ کہ ہمیں ہر صورت‬ ‫میں جانا ہی ہے اور کوئی یہاں ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں آیا۔‬ ‫جمع پونجی ساتھ نہ جا سکے گی۔ جاتے وقت ہاتھ خالی ہوں‬ ‫گے اور اپنے قدموں پر نہیں جا سکیں گے۔‬



Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.