میرے بیس منسانے مقصود حسنی ابوزر برقی کتب خانہ نومبر ٢٠١٦ منی افسانے فہرست میں کریک ہوں ١- ان ہونی‘ ان ہونی نہیں ہوتی ٢- جذبے کی سزا ٣- ہللا بھلی کرے ٤- آخری کوشش ٥- تیسری دفع کا ذکر ہے ٦-
انگلی ٧- آخری تبدیلی کوئی نہیں ٨- کھڑ پینچ دی جئے ہو ٩- سراپے کی دنیا ١٠- میں ہی قاتل ہوں ١١- خیالی پالؤ ١٢- تعلیم اور روٹی ١٣- بوسیدہ الش ١٤- وبال دیکھیے ١٥- عصری ضرورت ١٦- اماں جیناں ١٧- اس کا نام ہدایتا ہی رہا ١٨- بھاری پتھر ١٩- ایسے لوگ کہاں ہیں ٢٠-
میں کریک ہوں
ببو ہمارے محلے کا اکلوتا دکان دار ہے۔ برا نہیں تو اچھا بھی نہیں۔ بےایمان نہیں تو اسے ایمان دار بھی نہیں کہا جا سکتا۔ میری اس سے کوئی گہری سالم دعا نہیں‘ بس راہ چلتے ہیلو ہائے ہو جاتی ہے۔ اس نے دکان بدلی تو میں نے پوچھا :دکان کیوں بدلی ہے۔ کہنے لگا :ایک تو تنگ تھی سودا پورا نہیں آتا تھا دوسرا ٹپکنے لگی تھی۔ میں نے کہا چلو تم نے ٹھیک کیا۔ یہ کہہ کر کام پر روانہ ہو گیا۔ رستہ وہ ہی تھا واپسی پر سالم دعا کے بعد میں نے دکان بدلنے کی وجہ دریافت کی۔ اس نے بال تردد و ترمیم وہ ہی وجہ بتائی۔ اگلے دن جمعہ تھا‘ چھٹی ہونے کے سبب میں نے سارا دن گھر پر ہی گزرا۔ ہفتے کو کام پر جاتے ہوئے اس کے پاس رکا۔ دعا سالم اور حال احوال پوچھنے کے بعد دکان بدلنے کی وجہ پوچھی۔ اس نے میری طرف بڑے غور سے دیکھا اور وہ ہی وجہ بتائی۔ وہ مجھے بھلکڑ سمجھ رہا تھا۔
اس کے ساتھ زیادہ تعلقات ہی نہ تھے اور بات کیا کرتا۔ یہ ہی ایک بات تھی جو اس سے آتا جاتا کرتا۔ واپسی پر حسب معمول رکا۔ سالم بالیا حال احوال پوچھا اور دکان بدلنے کی وجہ پوچھی۔ وہ اونچی اونچی بولنے لگا اور مجھ سے لڑ پڑا۔ لگتا تھا کہ ہاتھا پائی پر اتر آئے گا۔ میں بھی ذہنی طور پر بھاگنے کے لیے تیار تھا۔ مجھے معلوم تھا دوڑ میں وہ میرا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ وہ تو خیر ہوئی لوگ جمع ہو گئے اور لڑنے کی وجہ پوچھی۔ وہ چوں کہ زور زور سے بول رہا تھا اس لیے میں نے بڑے تحمل سے وجہ بتا دی۔ ساتھ میں یہ بھی کہا میرا ببو سے کوئی خاص تعلق واسطہ نہیں اس لیے سالم دعا کی برقراری کے لیے پوچھ لیتا ہوں۔ یہ غصہ کر گیا ہے۔ اس میں غصہ کرنے والی ایسی کون سی بات ہے۔ سب ہنسنے لگے اور مجھے کہا باؤ جی آپ جائیں۔ اسی طرح کچھ ببو کو ٹھنڈا کرنے لگے۔ ایک بندے نے ببو کی طرف دیکھ کر سر پر انگلی رکھی۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ میں کریک ہوں۔ میں جعلی سنجیدگی سے ہولے قدمدں سے اپنے گھر کی جانب بڑھ گیا۔
ان ہونی‘ ان ہونی نہیں ہوتی
تھیال مردود ہیرا پھیری اور دو نمبری میں بےمثل اور بےمثال رہا جب کہ تھیال شکی زندگی کے ہر معاملے کو شک و شبہ کی نظروں سے دیکھنے میں ضرب المثل چال آتا تھا۔ اس کا کہنا کہ کچھ بھی خالص نہیں رہا۔ جعلی بھی اصلی کے موافق دکھتا ہے‘ کو سو فی ناسہی کسی ناکسی فی صد تو درست ماننا ہی پڑے گا۔ تھیال مردود بات اس انداز سے کرتا کہ اس کا کہا اصلی سے بھی دو چار قدم آگے نکل جاتا۔ جسے ہاتھ لگے ہوئے ہوتے وہ بھی دھوکہ کھا جاتا۔ بات کہے تک ہی محدود نہ تھی‘ اس کا کیا بھی عین اصلی کی چغلی کھا رہا ہوتا۔ اسی وقت نہیں‘ بہت بعد میں کھلتا کہ وہ تو سراسر فراڈ تھا لیکن اس وقت جھانسے میں آنے والے کا کھیسہ خالی ہو چکا ہوتا۔ لٹے کی باریابی کے لیے وہ مزید بل کہ برابر اور بار بار لٹتا چال جاتا۔ ہم سب تھیلے شکی کے کہے کو بکواس کا نام دیتے رہے‘ بل کہ اس کا مذاق اڑاتے رہے۔ اس کا کہنا تھا کہ پیرو نے اس کے باپ اور بہن کو تعویز ڈال ڈال کر مارا۔ میری ماں نے پیرو سے
نکاح تو کر لیا لیکن اپنے خاوند اور بیٹی کا قتل اسے مرتے دم تک معاف نہ کیا۔ اس کا یہ کہا میں نے بمشکل ہنسی پر قابو پا کر سنا۔ وہاں تو اس کی ہاں میں مالئی لیکن گھر آ کر خوب ہنسا اور انجوائے کیا۔ ایسی بات پیٹ میں کب رہتی ہے۔ دوستوں کو بھی لطف اندوز کیا۔ دشمنی کا یہ انداز‘ یقین مانیں بالکل انوکھا اور الگ سے لگا۔ نکاح بھی خاوند اور بیٹی کے قاتل سے کیا اور معاف بھی نہ کیا۔ عجیب اور سمجھ سے باال لوجک تھی۔ دوسرا اگر تعویزوں سے لوگ مرنے لگتے تو آج دنیا میں ایک بھی زندہ نہ پھرتا۔ یہ بات عجیب بھی ہے اور فوق الفطرت بھی۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ کوئی آپ سے کہے کہ کل میں نے مگرمچھ کو جاگتے میں اڑتے دیکھا۔ ایسی بات کہنے واال پاگل ہی ہو سکتا ہے یا وہ آپ سے شغال لگا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے‘ بےوقوف بنا رہا ہو۔ بکری صدیوں سے ہاتھی چٹ کرتے آئی ہے لیکن مگرمچھ اڑتے نہیں دیکھا گیا۔ عالمتا مگرمچھ ہی اڑتے آئے ہیں۔ مزے کی بات دیکھیے اس کی عملی صورت دیکھنے میں آ گئی۔ اس کا مطلب یہ ٹھہرے گا‘ ان ہونی‘ ان ہونی نہیں رہی۔ گویا مگرمچھ کا اڑنا‘ غلط نہیں رہا۔ کہنے والے نے مگرمچھ کو ضرور اڑتے دیکھا ہو گا۔ یعنی مگرمچھ کی اڑان امکان میں داخل ہے۔
سدی پڑھا لکھا احمق اور یبل ہے۔ لکھائی پڑھائی کی بات کرو‘ فٹافٹ وہ کچھ بتال دے گا جو کسی کے خواب وخیال میں نہیں ہو گا۔ زبانی کالمی سماجیات میں بھی بڑا کمال کا ہے۔ عملی طور پر منفی صفر سے بھی گیا گزرا ہے۔ ہللا نے اسے دو بیٹے عطا فرمائے۔ بڑا لڑکا کچھ سال اور چھوٹا لڑکا کچھ دن کا تھا کہ بیوی انتقال کر گئی۔ بآمر مجبوری اسے شادی کرنا پڑی‘ جس عورت سے شادی کی زبان طراز تو تھی ہی‘ بانجھ بھی تھی۔ تھیال مردود جو اس کا بہنوئی تھا نے سدی یبل کی بہن کو ہاتھوں میں کیا اور اس کا سب کچھ چٹ کر جانے کے طمع میں سدی کی شادی انتہائی گھٹیا اور چول عورت سے کروا دی۔ لوٹنے کے ساتھ ساتھ اپنی ہوس کی آگ بھی بجھانے لگا۔ تھوڑی ہی مدت کے بعد اس عورت کی تھیلے مردود سے ان بن ہو گئی اور وہ سدی یبل کو لے کر وہاں سے نکل آئی۔ ہللا نے سدی یبل کو ایک بیٹے سے نوازا۔ سدی یبل کی خوشی کی انتہا نہ رہی ہاں البتہ اس عورت نے سدی کا سانس لینا بھی حرام کر دیا۔ پہلے ہی چھوٹا مر گیا تھا اب وہ اس بیٹے کی خاطر اس جہنم زادی کے ساتھ نبھا کر رہا تھا۔ وہ تھیلے شکی کی ماں کے گزارے کا مذاق اڑایا کرتا تھا لیکن اب اس کی سمجھ میں آیا تھیلے شکی کا کہا غلط نہیں تھا۔ بعض حاالت کے
تحت ناخوش گواری اور ناپسند کو بھی سینے سے لگانا پڑتا ہے۔ گویا مگرمچھ کا ہوا میں پرواز کرنا غلط نہیں۔
جذبے کی سزا
اس میں بگڑنے والی ایسی کوئی بات ہی نہ تھی۔ بنے میاں کا بیٹا اپنے چھوٹے بھائی کو مار رہا تھا۔ میں نے اسے دو تین بار منع کیا لیکن وہ مارنے سے باز نہ آیا تو میں نے اس کی کھتی میں ایک رکھ دی۔ وہ روتا ہوا گھر چال گیا۔ بنے میاں بڑے غصہ سے باہر آئے۔ کچھ پوچھے بغیر ناصرف مجھ پر برس پڑے بل کہ زناٹے کی دو تین دھر بھی دیں۔ میں ان کے اس رویے پر سخت حیران ہوا۔ یوں لگا جیسے انہوں نے مجھ سے کوئی پرانا بدال چکایا ہو۔ میں بھی جوابا ان کی ٹھیک ٹھاک خاطر تواضح کر سکتا تھا لیکن کیجو کا منہ مار گیا۔ میں نے بامشکل درگزر سے کام لیا۔ اس نے ہاتھ چال لیے اور میں چپ رہا‘ وہ سمجھا کہ ڈر گیا
ہوں اسی لیے زبان بھی دیر تک چالتا رہا۔ اردگرد کے لوگوں نے ٹھنڈا کیا کہ جسے بک رہے ہو وہ تو چپ ہے۔ میں بچوں کے معاملہ میں کبھی نہیں پڑا۔ شاید یہاں بھی نہ پڑتا جذبہءپدری نے مجھے بدحواس کر دیا اور میرا ہاتھ اٹھ گیا۔ کیجو کا چھوٹا لڑکا میرے اچھے وقتوں کی یاد تھا۔ خیر اب بھی جب پہاگاں گھر پر نہ ہوتی تو کیجو مزے کرا جاتی۔ اس کا سنور جاتا اور میرا بھی ذائقہ تبدل ہو جاتا۔ بنے میاں کو محض شک تھا مگر شک یقین میں نہ بدال تھا۔ اس روز اگر میں بھی جوابا کچھ کرتا تو لمبا چوڑا کھڑاک ہو جاتا۔ کیجو دنیاداری میں کمال کی مہارت رکھتی تھی۔ اگرچہ سب جعلی کرتی لیکن اس کا یہ فرضی بھی اول درجے کا اصلی ہوتا۔ پہاگاں گھر پر تھی اور وہ کیجو کی بھی نانی تھی۔ بول بوالرے کا ایسا میدان لگتا کہ شیطان بھی توبہ توبہ کر جاتا۔ ماضی اور حال کے وہ وہ قصے دہرائے جاتے جو کسی کے خواب و خیال میں نہیں رہے۔ بکوبکی سے میری بڑی جان جاتی ہے۔ جذبے کی سزا بڑی ازیت خیز ہوتی ہے۔ مجھے بہت معمولی سزا ملی تھی‘ میری چپ نے متوقع رن کا رستہ بند کر دیا تھا۔
سچی بات تو یہ ہے کہ میری چپ نے کیجو سے تعلق خراب ہونے کا دروازہ بھی بند کر دیا تھا۔
ہللا بھلی کرے
وہ اچھا خاصا بیٹھا باتیں کر رہا تھا‘ قہقے لگا رہا تھا۔ پتا نہیں اچانک کیا ہو گیا‘ او خو کہتا ہوا اٹھ بیٹھا اور بڑی تیزی سے گھر کی طرف بڑھ گیا۔ پیچھے سے ککو نے آواز دی‘ اوے کیا ہوا جو بال بتالئے بھاگ اٹھے ہو۔ ایمرجنسی۔۔۔آ کر بتاتا ہوں۔ وہ تو چال گیا لیکن ایک موضوع چھیڑ گیا۔ اکی کا خیال تھا کہ اس کی بیوی کا آج کیس ہونا تھا۔ ہللا خیر کرے اور ہللا جو بھی دے نیک اور زندگی واال دے۔ دوکڑ نے قہقہ لگایا او نئیں یار وہ کوئی دائی ہے جو کیس اس نے کرنا ہے۔ آج اس کی کمیٹی نکلنی تھی‘ ادھر ہی گیا ہو گا۔ بگڑ نے اپنی چھوڑی۔
ہاں ہاں یہ ہی بات ہے۔ نکے نے گرہ لگائی چھوڑو یار اس کا کیا ہے کہو کچھ کرتا کچھ ہے۔ گھر سے کچھ لینے آیا ہو گا‘ ادھر بیٹھ کر گپیں ہانکنے لگا۔ اب دو گھنٹے بعد یاد آیا ہو گا‘ تب ہی تو دوڑکی لگا کر گیا ہے۔ بیگم شری سے چھتر کھا رہا ہوگا۔ اس کی اس بات پر سب ہنس پڑے کالیے کی بات میں دم تھا لیکن مہاجے نے اپنی ہی کہہ دی۔ کسی مار پر گیا ہے ورنہ اس طرح سے نہ بھاگ نکلتا۔ تم کیا جانو‘ جانو بڑا سیانا ہے۔ اسے ملنے گیا ہوگا۔ شبے نے ایک اور ہی شگوفہ چھوڑا۔ اسے کیسے نیکو نے حیرت سے پوچھا تمہیں نہیں پتا نہیں تو ادھر کان کرو‘ بیبو بیبو کون واہ گاؤں میں خاک رہتے ہو جگو کی بیٹی ہائیں‘ میں یہ کیا سن رہا ہوں جی ہاں
بڑا چھپا رستم نکال پس دیوار کی کے سیکڑوں معنی نکالے جاتے ہیں ،قیافوں اندازوں کا انبار لگ جاتا ہے۔ سب قریب قریب کی کہتے چلے جاتے ہیں۔ کھوج یا اسرار کھلنے کے وقت کا کوئی انتظار نہیں کرتا۔ منچلے اپنی اپنی تشریح و وضاحت میں مصروف تھے کہ جانو آ ہی گیا اور سر سٹ کر بیٹھ گیا۔ سب اس کے منہ کی طرف دیکھنے لگے۔ یار کچھ بکو گے یا یوں ہی منہ لمکائے بیٹھے رہو گے۔ بگی نے پوچھا کام نہیں ہوا۔ جانو نے تقریبا روتے ہوئے کہا بڑا دکھ ہوا جانو یار لیکن کون سا کام۔ بگی نے افسوسیہ انداز اختیار کرتے ہو۔ یار تم لوگ جانتے ہو معدے کا مریض ہوں۔ آج تین دن ہوئے پوٹی نہیں آئی۔ لگا تھا پوٹی آئی ہے۔ لیٹرین میں بیٹھ بیٹھ کر تھک گیا۔ صرف ہوا سری ہے۔ ہار کر اٹھ آیا ہوں۔ سب اس کا جواب سن کر ہنسنے لگے۔ واہ جی واہ‘ کھودا پہاڑ نکال چوہا جگو نے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ او جگو یار تم جاہل ہو نا۔ جانو نے جوابا کہا
ہاں جی میں جاہل ہوں تم تو دلی سے ایم آ پاس کرکے آ گئے ہو نا۔ پاگل قبض تمام بیماروں کی ماں ہے۔ میرے اندر جو قیامت بپا ہے وہ میں ہی جانتا ہوں۔ جانو نے روتے ہوئے کہا ماحول ناخوشگوار ہو گیا۔ چند لمحوں کے لیے سب کو چپ سی لگ گئی۔ جگو ہی نے سوگواری سی توڑتے ہوئے کیا۔ یار کیوں پریشان ہوتے ہو‘ ہللا بھلی کرے۔
آخری کوشش
درندے کے قدموں کی آہٹ اور بھی قریب ہو گئی تھی۔ اس نے سوچا اگر اس کے دوڑنے کی رفتار یہی رہی تو جلد ہی درندے کے پنجوں میں ہو گا۔ اس نے دوڑنے کی رفتار اور تیز کر دی۔ پھر اس نے سوچا کیا وہ اور اس جیسے کمزور طاقتور کے آگے دوڑنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں؟ جب اور جہاں کمزور کی رفتار کم پڑ جاتی ہے طاقتور دبوچ لیتا ہے۔ اس کے بعد زندگی کا ہر لمحہ طاقتور کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ چند لمحوں کے
ذہنی سکون کے بعد طاقتور چیر پھاڑ کر اپنی مرضی کے حصے کھا پی کر جان بناتا ہے۔ لمحہ بھر کے لیے بھی وہ یہ سوچنے کی ذحمت گوارا نہیں کرتا کہ کمزور کے دودھ پیتے بچوں کا کیا ہو گا۔ اس کے جانے کے بعد اس سے کم طاقتور بقیہ پر بڑی بے دردی سے ٹوٹ پڑتے ہیں اور وہ بوٹی بوٹی نوچ لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہڈیوں پر بھی رحم کھایا نہیں جاتا۔ کھایا بھی کیوں جائے ہڈیاں فاسفورس کی کانیں ہیں۔ بٹنوں کے لیے ان کی ضرورت رہتی ہے۔ اس کے بھاگنے کی رفتار میں مزید اضافہ ہو چکا تھا۔ سوچ خوف اور بچ نکلنے کی خواہش نے اس کے جسم میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کا احساس تک نہ ہونے دیا۔ وہ ہر حالت میں دشمن کی گرفت سے باہر نکل جانا جاہتا تھا لیکن دشمن بھی اسے بخش دینے کے موڈ میں نہ تھا کیونکہ اس کی رفتار میں بھی ہر اضافہ ہو گیا تھا۔ موت کا گھیرا تنگ ہو گیا تھا۔ اس کے سامنے کھال میدان دائیں دریا بائیں گہری کھائی اور پیچھے خونخوار درندہ تھا۔ رستے کے انتخاب کے حوالہ سے یہ بڑی سخت گھڑی تھی۔ پھر وہ بائیں مڑ گیا۔ اس نے جسم کی ساری طاقت جمع کرکے کھائی تک پہنچنے کی کوشش کی۔ درندہ فقط ایک قدم کے فاصلے پر
رہ گیا تھا۔ اس سے پہلے درندے کا پنجہ اس کی گردن پر پڑتا اس نے کھائی میں چھالنگ لگا دی۔ درندے کے اپنے قدم اس کی گرفت میں نہ رہے۔ کوشش کے باوجود رک نہ سکا اور وہ بھی گہری کھائی کی نذر ہو گیا۔ کمزور کے جسم کی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں اور دم اکھڑ رہا تھا۔ اس نے سراٹھا کر دیکھا کچھ ہی دور درندہ پڑا کراہ رہا تھا۔ اس کی ٹانگیں ٹوٹ گئی تھیں۔ بھوک درد کے زنداں میں مقید ہو گئی تھی۔ کمزور کے چہرے پر آخری مسکراہٹ صبح کازب کے ستارے کی طرح ابھری۔ اس کی آخری کوشش رنگ ال چکی تھی۔ اسے اپنی موت کا رائی بھر دکھ نہ تھا۔ اس نے خود یہ رستہ منتخب کیا تھا۔ اب یہ درندہ کبھی کسی کمزور کا وحشیانہ تعاقب نہ کر سکے گا اور اس کی ٹانگوں سے ہمیشہ اف اف اف کے بزدل نعرے بلند ہوتے رہیں گے۔ .......................... مکرم بندہ جناب حسنی صاحب :تسلیمات فی زمانہ نثر نگاری کا فن زنگ آلود ہو چالہے۔ کوئی رسالہ بھی اٹھا کر دیکھئے توسوائے چند اوسط درجہ کے افسانوں اور چند منظومات (غزل اور آزاد نظمیں) کے عالوہ کچھ اور نظر نہیں آتا۔ ماضی میں رسالوں میں ادبی ،علمی اور تحقیقی مضامین
کثرت سے ہوا کرتے تھے۔ تنقید و تبصرہ فن کی حیثیت سے سیکھے اور سکھائے جاتے تھے اورافسانہ نگاری بھی اونچے معیار کی حامل تھی۔ اب ادب پر ایک عمومی زوال تو طاری ہے ہی نثر نگاری خصوصا اضمحالل کا شکار ہے۔ غزل کہنا لوگ آسان سمجھتے ہیں (حاالنکہ ایسا نہیں ہے)۔ غزل میں وقت کم لگتا ہے اور نظم میں اور نثر میں زیادہ ۔ نثر مطالعہ اور تحقیق بھی چاہتی ہے جس سے ہماری نئی نسل بیگانہ ہو کر رہ گئی ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ کوئی زبان بھی صرف ایک صنف سخن کے بل بوتے پر پھل پھول نہیں سکتی لیکن اردو والے اس معمولی سی حقیقت سے یا تو واقف ہی نہیں ہیں یا دانستہ اس سے صرف نظر کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ کی اردو محفلیں بھی اسی مرض کا شکار ہیں اور وہاں بھی سوائے معمولی غزلوں کے (جن میں سے بیشتر تک بندی ہوتی ہیں) کچھ اور نظر نہیں آتا۔ آپ کی نثرنویسی میں مختلف کوششیں اس حوالے سےنہایت خوش آئند ہیں۔ آپ مطالعہ کرتے ہیں ،سوچتے ہیں اور انشائیے لکھتےہیں۔ اس جدوجہد کو قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ میں اپنی مثال کسی خودستائی کی شہ پر نہیں دیتا بلکہ دوستوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ شوق،محنت اور لگن ہو تو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ میں نے انجینیرنگ پر نصابی کتابیں لکھی ہیں۔ ان کے عالوہ غزل ،نظم ،افسانے ،ادبی مضامین ،تحقیقی مضامین،
ادبی تنقید وغیرہ سب ہی لکھا ہے۔ یقینا سب کچھ اعلی معیار کا نہیں ہے لیکن بیشتر اچھے معیار کا ہے اور ہندو پاک کے معتبر اور موقر رسالوں میں شائع ہوتا ہے۔ میں آپ کی انشائیہ نگاری کا مداح ہوں اور درخواست کرتا ہوں کہ برابر لکھتے رہہئے۔ زیر نظر انشائیہ اچھا ہے لیکن یہ مزید بہتر ہو سکتا تھا سو اپ وقت کے ساتھ خود ہی کر لیں گے۔ خاکسار کی داد حاضر ہے ۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔ سرور عالم راز
ُمحترم جناب ڈاکٹر مقصود حسنی صاحب! سالم اس تحریر پر ہم کُچھ نہ لکھیں گے۔ فقط یہی کہ اسے پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور تحریر کے اختتام کے قریب سانسیں ُرک جاتی ہیں۔ اور پھر منہ ک ُھال کا ک ُھال رہ جاتا ہے۔ اس کے اندر جو کرب ہے اور جو کُچھ یہ انگلیاں لکھنے کو دوڑ رہی ہیں ،اُسے بصد مشکل روکتے ہوئے ،ایک بار پھر سے بھرپور داد ۔۔۔
د ُعا گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7975.0
تیسری دفع کا ذکر ہے
پہلی دفعہ کا ذکر اس لیے اتنا اہم نہیں کہ یہ دو ٹوک تھا اور اس کے ساتھ کوئی واقعہ ،معاملہ یا مسلہ وابستہ نہیں۔ میں بیمار پڑا۔ طبعیت ضرورت سے زیادہ بوجھل تھی۔ طبعیت خراب ہو تو ہائے وائے کی آوازیں ناچاہتے ہوئے بھی بےساختہ بل کہ از خود منہ سے نکل جاتی ہیں۔ اگر توجہ اور خدمت کی تمنا ہو تو آدمی اس ذیل میں منہ کا سپیکر قدرے بلند کر دیتا ہے۔ یقین مانیے میں سچ مچ میں بیمار تھا اس لیے خصوصی توجہ کا طالب بھی تھی۔ خیال تھا کہ میرے پورے گھر والی پریشان ہو کر توجہ دے گی۔ میرا یہ خیال خاک کا شکار ہو گیا جب اس نے کہا نیچے چلے جاؤ کہیں میرے متھے لگتے ہو۔ میں کپڑے جھاڑتا ہوا نیچے آ گیا۔ ایک بیمار تھا اوپر اس بے رخی کا صدمہ بھی ہوا۔ چوں کہ پہلی دفعہ کا ذکر دو لمحوں کا تھا اس
لیے اسے دفع کو ماریے۔ دوسری دفعہ چوں کہ بے ہوشی کی حالت ناسہی نیم بےہوشی کی کیفیت ضرور تھی۔ ہسپتال سے چوتڑوں اور بازوں پر کئی ایک ٹیکے لگوا کر گھر الیا گیا۔ چوتڑوں کے ٹیکے اس لیے محسوس نہ ہوئے کہ پیاری سی نرس نے دلی ہم دردی سے لگائے تھے‘ ہاں البتہ بازو ضرور دکھے کہ وارڈ بوائے نے پوری بےدردی سے لگائے تھے۔ چھوٹی گھروالی کا ہسپتال جا کر پوچھنا تو بہت دور کی بات ہے اسے گھر میں آ جانے کے بعد آدھی زبان سے پوچھنے تک کی توفیق نہ ہوئی۔ میں نیم مردہ سی حالت میں لیٹا ہوا تھا۔ اچانک اسے کوئی خیال آیا‘ پھر کیا تھا کہ بالتکان دو گھنٹے انتالیس منٹ بولتی رہی۔ لب لباب یہ تھا کہ میں نے بیمار ہونے کا محض ڈونگ رچایا ہے۔ بیمار اس کا ابا ہوا تھا اور عالج معالجے کے باوجود قبر میں جا بسیرا کیا۔ اگر میں بیمار ہوا ہوتا تو الش گھر پر آتی۔ اس کی بات میں چوں کہ دم تھا اس لیے دوسری دفع کو بیچ میں النے کی ایسی کوئی خاص وجہ نظر نہیں آتی۔
ہاں البتہ تیسری دفع اوج کمال کو چھوتی نظر آتی ہے اس لیے اس کا ذکر خصوص میں داخل کرنا اصؤلی سی بات نظر آتی ہے۔ ہوا یہ کہ میں بیمار پڑا تو میری ہائے اوے ہائے اوے کے نعروں سے بےزار ہو گئی۔ میں بھی تو بالوقفہ اور بالتکان یہ آوازے کسے جا رہا تھا۔ ان آوازوں سے اس کا سر بوجھل ہو گیا۔ کچھ بولی تو نہ‘ البتہ سر پر کپڑا باندھ کر باہر صحن میں بیٹھ گئی اور میری آخری سانس کا انتظار کرنے لگی۔ آخری سانس بڑی ڈھیٹ تھی‘ کم بخت نہ آئی۔ میں نے اس کی آوازاری محسوس کر لی اور پوری طاقت سمیٹ کر بیٹھک میں آ کر صوفے پر لیٹ گیا۔ پتا نہیں رات کتنی دیر تک صوفے پر لیٹا رہا‘ جب قدرے بہتری ہوئی تو جا کر چارپائی پر لیٹ گیا۔ میرے پاؤں کی آہٹ سے جاگ گئی لیکن سونے کا ناٹک جاری رکھا۔ میں نے بھی ڈسٹرب کرنا مناسب نہ سمجھا اور چپکا رہا۔ ہللا کے احسان سے رات گزر گئی۔ ٹھیک سے ٹھیک نہ ہوا‘ ہاں البتہ پہلے سے قدرے بہتر ضرور تھا۔ میں نے اس کی جانب یوں ہی بالوجہ دیکھ لیا۔ چہرے پر بیمار ہونے کی کیفیت طاری کر لی۔ میں نے فورا سے پہلے نگاہ نیچی کر لی۔ آدھ گھنٹے بعد چارپائی لگ گئی۔ پوچھا کیا ہوا۔ سخت بیمار ہوں۔ میں پوچھنا چاہتا تھا ابے والی بیمار ہو یا میرے والی بیماری ہے۔ چپ رہا‘ جانتا تھا آج اور آتا کل بےمزگی میں گزرے گا۔ اس کا
کہنا تھا کہ میری شوگر چھے سو ستر پر پہنچ گئی ہے۔ بی پی بھی ہائی ہو گیا ہے۔ صبح سے مسلسل اور متواتر الٹیاں کر رہی ہوں۔ سر پھٹ رہا ہے۔ ایک دو بیماریاں اور بھی گنوائیں۔ میں نے کہا ہللا آسانی پیدا کرے گا۔ کہنے لگی سب ہللا پر چھوڑے رکھنا‘ خود سے کچھ نہ کرنا۔ چاہا کہ کہوں سر دبا دیتا ہوں پھر فورا خیال آیا بچو شام تک اسی کام میں رہو گے۔ مجبور قدموں چلتا ہوا بازار گیا نان چنے اور ساتھ میں حفظ ما ماتقدم سالئس اور انڈے بھی لے آیا۔ بےچاری نے اوکھے سوکھے ہو کر دونوں نان چنے اور ایک انڈا ڈکار لیا۔ اصوال بہتری آ جانی چاہیے تھی‘ قدرے آ بھی گئی۔ ہللا کا شکر ادا کیا زبان کی کوترا کتری سے بچ گیا ہوں۔ شام تک حاالت درست رہے۔ شام کو فائرنگ شروع ہو گئی۔ وجہ یہ تھی کہ نان چنے اور انڈے سالئس تو لے آئے لیکن منہ میں بڑ بڑ کر رہے تھے‘ حاالں کہ ایسا نہیں تھا۔ تاہم دیر تک چل سو چل ہی رہی اور میں بھول گیا کہ بیمار ہوں۔
انگلی
مہاجا بڑے سکون اور آرام سے دکان پر بیٹھا‘ دودھ اوبال رہا
تھا‘ ساتھ میں ُپڑوسی دکان دار سے باتیں کیے جا رہا تھا اور دودھ میں کڑچھا بھی مارے جا رہا تھا۔ اس کا پالتو بال اس کی نشت کے نیچے‘ پرسکون بیٹھا ہوا تھا۔ وقت بال کسی پریشانی کے گزر رہا تھا۔ کوئی نہیں جانتا کہ اگلے لمحے کیسے ہوں گے۔ سب جانتے ہیں‘ شیطان انسانی سکون کا دشمن ہے۔ انسان کی پرسکون زندگی‘ اسے ہمیشہ سے کھٹکتی آئی ہے۔ اس نے ایک انگلی‘ جس پر ایک یا دو بوند ہی دودھ چڑھا ہو گا‘ سامنے دیوار پر لگا دی۔ دودھ پر مکھیاں عاشق ہوتی ہیں‘ جھٹ سے مکھیاں دیوار پر لگے دودھ پر آ گئیں۔ جہاں مکھیاں ہوں‘ وہاں چھپکلی کا آنا غیرفطری نہیں۔ جھٹ سے ایک چھوڑ‘ کئی چھپکلیاں آ گئیں۔ بال چھپکلیوں کو برداشت نہیں کرتا وہ چھپکلیوں پر جھپٹا‘ اتفاق دیکھیے اسی لمحے‘ ایک نواب صاحب اپنے ٹومی سمیت ادھر سے گزرے۔ ٹومی بلے کو کیسے برداشت کرتا۔ وہ بلے پر بڑی تیزی سے جھپٹا۔ بال دودھ میں گر گیا۔ ردعمل ہونا فطری سی بات تھی۔ مہاجے نے پوری طاقت سے ٹومی کے سر پر کڑچھا مارا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ نواب صاحب ٹومی کی بےحرمتی اور اس پر ہونے واال یہ تشدد
کیسے دیکھ سکتے تھے۔ انہوں نے چھے کی چھے مہاجے کے سینے میں اتار دیں۔ مہاجا اتنی بڑی فیملی کا واحد کفیل تھا چل بسا۔ پوری فیملی الغر و اپاہج ہو گئی۔ وہ کیا کر سکتے تھے بس قسمت کو ہی کوس سکتے تھے۔ نواب صاحب کا کیا بگڑنا تھا۔ یہ لوگوں کا کب سنوارتے ہیں لوگ ان کا گلپ کرنے اور ظلم سہنے کے لیے جنم لیتے ہیں۔ ان کا گلپ ہی اقتداری طور رہا ہے اور شائد رہے گا۔ ان پر یا ان کے کیے پر انگلی اٹھانے والے زہر پیتے رہیں گے سولی چڑھتے رہیں گے۔ اقتدار کا یہ ہی اصولی فیصلہ رہا ہے۔ حال کیا مستقبل قریب میں بھی ان سے مکتی ملتی نظر نہیں آتی۔ قصوروار کون تھا صاف ظاہر ہے مہاجا۔۔ نواب کبھی غلطی پر نہیں یا شیطان کوسنوں کی زد میں رہے گا۔ کوئی خود کو سدھارنے کی جسارت نہیں کرے گا۔ جی ہاں‘ یہ ہی سچ اور یہ ہی حقیقت ہے۔
آخری تبدیلی کوئی نہیں
:نوٹ ہم چھوٹے چھوٹے چھوٹے ہوا کرتے تھے مخدومی و مرشدی بابا جی سید غالم حضور حسنی اس طرح کی کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ وہ کہانیاں آج بھی لوح دل پر نقش ہیں۔ دن کبھی ایک سے نہیں رہتے۔ ہر لمحہ تبدیلی سے گزرتا ہے اور کل من عیھا فان کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ بھلے وقتوں کی بات ہے۔ دو دوست ہوا کرتے تھے۔ ایک سوداگر جب کہ دوسرا کوئی کام نہیں کرتا تھا۔ ایک دن سوداگر دوست نے کہا فارغ رہنے سے وقت نہیں گزرتا۔ ضرورتیں تو منہ پھاڑے رہتی ہیں۔ آؤ تمہیں اوبےنگر کی فوج میں بھرتی کرا دیتا ہوں۔ اس کی ریاست اوبے نگر میں وقفیت تھی لہذا جلد ہی اس کا دوست فوج میں بھرتی ہو گیا۔ دونوں کو خوشی ہوئی۔ بات بھی خوشی والی تھی کہ روٹی کا سلسلہ چل نکال۔ دو چار سال کے بعد اس کا ادھر سے گزر ہوا۔ اس نے سوچا
کیوں نہ دوست ہی سے مل لوں۔ چھاؤنی گیا۔ اس نے پوچھا سپاہی تیغا رام کدھر ہوتا ہے۔ پتا چال اچھی کارگزاری کی وجہ سے وہ حوالدار ہو گیا ہے۔ اسے خوشی ہوئی کہ اس کا دوست ترقی کر گیا ہے۔ دونوں کی مالقات ہوئی۔ سوداگر دوست نے :اپنی خوشی کا اظہار کیا تو جوابا تیغا رام نے کہا یار دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔ اسے دوست کے جواب پر حیرانی ہوئی۔ کچھ نہ کہا‘ چپ رہا۔ وقت اپنی مرضی‘ مزاج اور روٹین کی ڈگر پر چلتا رہا۔ شخص اوروں سے بےنیاز اپنے اپنے طور سے روٹی ٹکر تالشنے میں مصروف تھا۔ سوداگر بھی سوداگری میں مصروف تھا۔ اس کا روٹین میں اوبےنگر جانا ہوا۔ اس نے اپنے دوست حوالدار تیغا رام کا چھاؤنی میں جا کر پوچھا۔ وہاں سے پتا چال تیغا رام صوبےدار ہوگیا ہے۔ اس خبر نے اسے خوشی سے نہال کر دیا۔ مالقات پر اس نے مبارک باد دی۔ تیغا رام نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔ یار دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔ تیغا رام موج اور ٹھاٹھ کی گزار رہا تھا۔ حیرانی تو ہونا ہی تھی لیکن وہ چپ رہا۔ جواب میں کیا کہتا۔ سالوں میں تبدیلی تو آئی تھی۔ تیغا رام غلط نہیں کہہ رہا تھا۔
کچھ سالوں کے بعد سوداگر کا اوبے نگر سے گزر ہوا۔ وہ اپنے دوست تیغا رام سے ملنے چال گیا۔ وہاں سے معلوم پڑا کہ وہ بادشاہ کا منظور نظر ہو گیا ہے اور وزیر مقرر کر دیا گیا ہے۔ اس نے سوچا وزیر ہو گیا تو کیا ہوا میرا تو دوست ہے۔ بامشکل مالقات ہوئی۔ سوداگر نے اپنی خوشی کا اظہار کیا تو جوابا تیغا رام نے وہ ہی پرانا ڈائیالگ دوہرا۔ اس کا کہنا غلط نہ تھا‘ لہذا اس نے ہاں میں ہاں مالئی اور تھوڑا وقت گزار کر رخصت ہو گ یا ۔ جب قسمت کا ستارہ زحل سے نکل کر مشتری میں آ جائے انسان کچھ سے کچھ ہو جاتا۔ اوبےنگر کے بادشاہ کی موت کے بعد بادشاہی تیغا رام کے ہاتھ میں آئی۔ اصل بات یہ تھی کہ تیغا رام کی عادات میں تبدیلی نہ آئی۔ وہ اپنے سوداگر دوست سے اسی طرح پیش آیا۔ پہلے کی طرح کھل ڈھل کر گپ شپ لگائی۔ اس کا کہنا وہ ہی رہا کہ دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔ سوداگر حیران تھا کہ تیغا رام ترقی کی آخری سیڑھی کراس کر گیا اب بھی اسی بات پر ہے۔ اس سے آگے تو زندگی میں کچھ بھی نہیں۔ وہ اسے ڈائیالگ سمجھ کر چپ رہا۔
اگلی بار جب سوداگر اوبے نگر آیا تو اسے معلوم پڑا کہ بادشاہ تیغا رام انتقال کر گیا ہے۔ شہر کے باہر کھلے میدان میں چاردیواری کے اندر اس کی یادگار بنائی گئی تھی۔ مختلف طرح کے پودے لگائے گئے تھے۔ اسے خوب صورت بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی تھی۔ لوح یادگار پر تحریر کیا گیا تھا عادل بادشاہ مہاراج تیغا رام دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے سوداگر حیران تھا اب آخری تبدیلی بھال کیا آئے گی۔ موت کے بعد بھال کیا تبدیلی آ سکتی ہے۔ سوداگر کا اوبے نگر میں وہ آخری پھیرا تھا۔ وہ تیغا رام کی آخری یاگار کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ماضی کا ہر لمحہ شعور کے دریچوں سے جھانک رہا تھا۔ اس کی آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں۔ اس نے سوچا تیغا رام درست کہتا تھا کہ دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔ وہ سوچ رہا تھا اب بھال اور کیا تبدیلی آئے گی۔ جب وہاں پہنچا تو دیکھا وہاں دریا بہہ رہا تھا۔ اس کے منہ ‘سے بےاختیار نکل گیا دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔
کھڑ پینچ دی جئے ہو۔
ہیلو مسٹر! یو ار سویٹ اینڈ لولی ہوم غور منٹ کمپلینٹ اس دیٹ یو پھڑکائیٹڈ ہر برسرعام السٹ ڈے۔ وائی۔ نو حجور شی از جھوٹ مارنگ۔ آئی اونلی ون ویری سلو مکا ماریڈ او مائی گاڈ‘ یو بےغیرت مین۔ وائی یو مکا ماریڈ ہر ان دی بازار۔ یو نو پیپل ور ویکھنگ اینڈ الفنگ ایٹ یو آئی ایم ناٹ بےغیرت حجور شی از بےغیرت بی کاز شی مارڈ می سو مےنی لیترز ویری ٹھوک ٹھوک کر پیوپل ور الفنگ ایٹ ہر ری ایکشن اٹ از یو ار کیس وچ مے بی ڈسکسڈ لیٹر اون۔ فسٹ ٹل اس وائی یو مکا مارڈ
حجور اٹ از آ شیم فل سٹوری اینڈ کن ناٹ ناریٹ ان دی پنچایت ڈونٹ وری یو گلٹی کمی کمین حجور آئی ناٹ کمی کمین۔ مائی کاسٹ از انصاری او یس یو مین جوالیا ،آئی نو یو ار جوالیا۔ جوالیا کاسٹ از ان فیکٹ کمی کمین۔ وائل یو ار ہوم گورمنٹ از قریشی گویا شی از ناٹ کمی کمین یس حجور شی از مراسی۔ ڈونٹ بارک‘ ان فیکٹ دس ورڈ از مراثی۔ از آئی ایم رائٹ او یو سویٹ اینٍڈ جنٹل لیڈی حجور یو ار ابسلوٹلی رائٹ او مین ناؤ سم تھنگ ہریلی پہونکو حجور شی ہیز ناٹ ذرا بھورا شرم وٹ ہپنڈ ٹل اس حجور شی واز ممانائزنگ ان دی بازار او مائی گارڈ واٹس آمیزنگ سیچویشن ول بی گوئنگ دیئر او جنٹل اینڈ سویٹ لیڈی شو اس یو ار فن شی سٹارٹیڈ ہر فن ود آؤٹ اینی ہیزیٹیشن۔ ایوری ون انجوائڈ اٹ
اے الٹ او مسٹر جوالہے طالق ہر ایٹ دی سپاٹ اینڈ یو دفع دفان فروم ہیئر۔ شی ہیز اے ونڈرفل کوالٹی۔ ان فیوچر شی ول سٹے ہیئر۔ وین مسٹر جوالیا ڈو نٹھنگ ون مین گٹ اپ اینڈ رکھڈ پنج ست لتر ایٹ ہیز بوٹم۔ ہی گیو طالق دایٹ سویٹ ممانئیزر اینڈ دوڑ لگائیڈ۔ اٹ واز اے نائس فیصلہ۔ پیوپل واز ریزنگ سلوگن کھڑ پینچ دی جئے ہو۔ ناؤ آ ڈئیز شی از سرونگ ایٹ کھڑ پینچز ڈیرہ اینڈ ارننگ اچھی خاصی اماؤنٹ ود نائس فیم۔ شی ہیزناٹ کمپلینٹ فروم اینی سائڈ۔ پیوپل ار سیٹسفائیڈ اینڈ ہیپی فروم دیئر چودھری ساب۔ سراپے کی دنیا
اس کے حسن کی تعریف کرنے بیٹھوں تو شاید‘ بہت ساری تشبیہات کے استعمال کے باوجود‘ بات نہ بن پائے گی۔ اسے زمین پر ہللا کا تخلیق کردہ ماسٹر پیس کہنا‘ کسی طرح غلط نہ ہو گا۔ لباس کے اندر بھی شاید یہ ہی صورت رہی ہو گی۔ ہم
لباس کے باہر پر مر مٹتے ہیں‘ جب لباس کے اندر جھانکتے ہیں تو سخت مایوسی ہوتی ہے۔ اسی طرح جب گوشت پوست اور ہڈیوں کے پیچھے جھانکنے کا موقع ملتا ہے‘ تو سر پر گھڑوں پانی پڑ جاتا ہے۔ جب تک یہ جاننے کا موقع ملتا ہے‘ اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ گویا نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ وقت گزرنے کے بعد‘ پھسی کو پھڑکن کیسا ہی باقی رہ جاتا ہے۔ اس کے پاس میرا کسی کام کے سلسلے میں جانا ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر‘ مجھے اصل مدعا ہی یاد نہ رہا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ میں کچھ دیر بعد‘ اپنے آپے میں آ گیا۔ میں قریب چال گیا‘ سالم بالیا۔ اس نے بال اوپر دیکھے‘ سالم کا تقریبا سا جواب دیا۔ میں نے اسے ہی غنیمت سمجھا اور بڑے مالئم اور پریم بھرے لہجے میں عرض کیا‘ میڈم میں ایک سماجی معاملے پر ریسرچ کر رہا ہوں‘ اس ذیل میں چند ایک سواالت کے جواب درکار ہیں۔ اس نے سر اٹھایا اور بڑی بے رخی سے جواب دیا :میں بہت مصروف ہوں جو پوچھنا ہے جلدی سے پوچھ لو۔ جی میڈم‘ آپ کا نام
تانیہ آپ مقامی ہیں یا باہر سے تشریف الئی ہیں کوئی ڈھنگ کا اور متعلق سوال پوچھو بہتر میڈم‘ پڑھائی سے وابستہ ہیں ایم فل فارمیسی کر رہی ہوں اس کے چہرے کی اکتاہٹ دیکھ کر میں نے آخری سوال کیا ایم فل فارمیسی کرنے کے بعد کیا جذبہ اور ارادہ رکھتی ہیں۔ اس کے بعد کیا کرنا ہے‘ ٹیبل پر بیٹھی ون لیگ روزانہ کا کماؤں گی۔ میرا خیال تھا کہ کہے گی‘ انسان کی بےلوث خدمت کروں گی۔ خوب صورت لباس اور خوب صورت سراپے میں چھپا پیٹو شیطان‘ میرے سوچ کی دھجیاں بکھر رہا تھا۔ میرے سوچ کا شیش محل کرچی کرچی ہو کر گندگی کی دلدل میں دھنس چکا تھا۔ میں نے سوچا‘ یہ کیسا انسان سا پتال ہے جو من میں اپنی ذات سے ہٹ کر‘ کچھ نہیں رکھتا۔ آگہی کا حصول محض پیٹ کے لیے ہو گیا ہے۔ پھر میں نے سوچا‘ اتنا کما کر آخر کیا کر لے گی۔ کوٹھی بنگلہ
اور بینک بیلنس بنا لے گی۔ اس سے کیا فرق پڑے گا۔ قبر میں تو کچھ نہیں جا سکے گا۔ مر جانے کے بعد‘ پیار کرنے والوں کو بھی جلدیاں ہوں گی۔ الش کے لیے کون بےکار میں وقت ضائع کرتا پھرے۔ اس کوٹھی بنگلے اور بینک بیلنس کی تقسیم پر‘ سگے بہن بھائیوں کے کئی یدھ ہوں گے۔ کورٹ کچری چڑھیں گے۔ کسی کو کبھی اس کی قبر پر بھولے سے بھی‘ چار پھول چڑھانے کی توفیق نہ ہو گی۔ مرنے والے نے ڈگری لے لی‘ پیسے بھی کما لیے‘ لیکن آگہی اس کا مقدر نہ بن سکی۔ حسین گوشت پوست کے پیچھے اتنی پوشیدہ غالظت۔ توبہ بھی میری روح میں‘ توبہ کرنے لگی۔ جھوٹ نہیں بولوں گا‘ میں تو اس کے سراپے کی دنیا کا اسیر ہو کر‘ اسے جیون ساتھی بنانے کی سوچ بیٹھا تھا۔ اگر ہللا کی عنایت شامل نہ ہوتی‘ میں تو مارا گیا تھا۔
میں ہی قاتل ہوں
کاما کبو‘ تیز قدموں سے کھیتر کی طرف بڑھ رہا تھا۔ آج کھیتر پر کام کافی تھا۔ دوسرا چودھری کے موڈ کا بھی کچھ پتا نہیں چلتا تھا۔ اس کے بگڑنے کے لیے‘ کسی وجہ کا ہونا ضروری نہ
تھا۔ چودھرین سے اپنے لچھنوں کی وجہ سے‘ چھتر کھاتا رہتا تھا۔ گھر کا غصہ باہر آ کر کاموں پر نکالتا۔ کام کاج کوئی کرتا نہیں تھا‘ گھر سے یوں سج سنور کر نکلتا جیسے جنج چڑھنے جا رہا ہو۔ سارا دن ڈیرہ پر بیٹھا‘ آئے گئے کے ساتھ گپیں ہانکتا یا پنڈ کی سوہنی کڑیوں کے ناز و ادا کے قصے سنتا۔ کوئی ہتھے چڑھ جاتی تو معافی کا دروازہ بند کر دیتا۔ ناکامی کی صورت رہتی‘ تو سارا غصہ کاموں پر نکالتا۔ سب چپ رہتے‘ ہر کسی کو جان اور چمڑی بڑی عزیز ہوتی ہے۔ کھیتر پر آتے جاتے اس طرح کی سوچیں اسے گھیرے رکھتیں، غلطی یا ظلم‘ زیادتی چودھری کرتا ڈال گریب کاموں پر دی جاتی۔ وہ سوچ رہا تھا‘ یہ زندگی بھی کیسی ہے گھر جاؤ‘ کوئی ناکوئی مسلہ راہ روکے کھڑا ہوتا۔ باہر آؤ تو کامے پر وہ کچھ بیت جاتا جو اس کے خواب و خیال میں بھی نہ ہوتا۔ جب وہ کھیتر پہنچا‘ وہاں عجب کھیل رچا ہوا تھا۔ چودھری کے ہاتھ میں خون آلودہ چھرا تھا اور سامنے کاما ابی‘ خون میں لت پت پڑا تھا۔ وہ یہ منظر دیکھ کر گھبرا گیا۔ چودھری سخت غصے میں تھا۔ اس نے چھرا کامے کبو کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا :ذرا اسے پکڑنا‘ کبو نے پکڑ لیا اور خود کامے ابی کے پاس پہنچ گیا اور افسردہ و پریشان ہو کر اس کے پاس بیٹھ گیا۔
دریں اثنا پولیس پہنچ گئی اور کبو کو پکڑ لیا۔ چودھری غصے سے اٹھا اور پان سات کبو کو رکھ دیں۔ مجھے پتا نہ تھا کہ تم اتنے ظالم اور کمینے ہو۔ پولیس والوں نے کہا چودھری تم چھوڑو‘ تھانے جا کر ہم اس کی طبیعت صاف کر دیں گے۔ وہاں موقع پر اور بھی دو تین کامے موجود تھے‘ کسی کے منہ سے سچ نہ پھوٹا۔ اس اچانک نازلی آفت نے اس کے ہوش ہی گم کر دیے۔ تھانے جا کر اس کی خوب لترول کی گئی۔ وہ کہے جا رہا تھا‘ میں نے کچھ نہیں کیا۔ اس کی کب کوئی سن رہا تھا۔ ایک شپائی بوال :تمہیں ہم نے کچھ نہ کرنے سے روکا تھا۔ ایک اور نے نعرہ لگاؤ :کچھ کر لیتے نا ایک نے کہا :اب یہاں سے جا کر کچھ کر لینا پہلے واال بوال :یہاں سے جائے تو ہی کچھ کرئے گا ایک جو ذرا پرے کھڑا تھا کہنے لگا :تو پھر یہ قتل کس نے کیا ہے۔ خون سے بھرا چھرا تو تمہارے ہاتھ میں تھا۔ حجور قتل کرنا تو دور کی بات‘ میں تو ایسا قیمتی چھرا خرید
ہی نہیں سکتا۔ چھرا تو چودھری نے مجھے پکڑایا تھا۔ الزام تراشی کرتے ہو۔ اس کے بعد التوں مکوں اور تھپڑوں کی برسات ہو گئی۔ تھانہ تو تھانہ‘ کورٹ کچہری بھی اس کی سن نہیں رہی تھی۔ لگتا تھا‘ کہ کورٹ کچہری بھی چودھری ہی کی تھی۔ ہر کوئی اسے دشنام کر رہا تھا۔ اس کی تو کوئی سن ہی نہیں رہا تھا۔ ماجرے کو آنکھوں سے دیکھنے والے‘ اس کے ہی گریب ساتھی تھے۔ وہ بھی دیکھ اور جان کر‘ کبو ہی کو مجرم ٹھہرا رہے تھے۔ اس کے حق میں‘ ایک بھی نہ تھا۔ ہر کوئی اسے قاتل کہے جا رہا تھا۔ اس نے سوچا‘ جب اتنے لوگ کہہ رہے ہیں کہ میں قاتل ہوں تو یقینا میں ہی قاتل ہوں۔ پھر اس نے کہنا شوع کر دیا :ہاں ہاں میں ہی قاتل ہوں۔۔۔۔ابی کو میں نے ہی قتل کیا تھا۔
خیالی پالؤ
ہللا بخشے پہا خادم بڑے ہنس مکھ اور جی دار قسم کے بندے تھے۔ خوش حالی سے تہی دست ہوتے ہوئے بھی‘ انہیں کبھی کسی نے رنج و مالل کی حالت میں نہ دیکھا۔ منہ میں خوش بول رکھتے تھے۔ کبھی کسی کو معلوم نہ ہو سکا کہ اندر سے کتنے دکھی ہیں۔ ان کی بیگم فیجاں‘ اتنی ہی سڑیل اور بدمزاج تھی۔ کردار کی بھی صاف ستھری نہ تھی۔ مزے کی بات یہ کہ گھر سے کبھی کسی نے دونوں کی اونچی آواز تک نہ سنی تھی۔ یہ تو محض خوش فہمی ہو گی کہ ان کے درمیان تلخی نہ ہوتی ہو گی۔
ایک مرتبہ اپنے بیٹے سے الڈ پیار کر رہے تھے۔ منہ سے بھی بہت کچھ کہے جا رہے تھے۔ کہہ رہے تھے‘ میں اپنے بیٹے کو ڈاکٹر بناؤں گا‘ پھر سونے کے سہرے سجا کر‘ ہاتھی پر بٹھا کر‘ پیچھے گاڑیوں کی قطار ہو گی‘ بہو بیانے جاؤں گا۔ اس کی شادی پر بٹیروں کے گوشت کی دیگیں چڑھیں گی۔ ساتھ میں بیسیوں بکرے زبح کر ڈالے۔ میٹھے میں بھی بہت ساری چیزیں دستر خوان پر سجا دیں۔ میں کچھ دیر تو ان کی آسمان بوس باتیں سنتا رہا۔ پھر مجھ سے چپ نہ رہا گیا‘ میں نے پوچھ ہی لیا‘ پہا جی یہ آپ کیا کہہ
رہے ہیں۔ یہ سب کچھ کیسے ہو سکے گا۔ میری طرف انہوں نے ہنس کر دیکھا اور کہا‘ جب خیالی پالؤ پکایا جا رہا ہو تو راشن رسد کی کیوں کمی رکھی جائے۔ یہ کہہ کر ان کی آنکھیں لبریز ہو گیئں‘ ہاں منہ سے کچھ نہ بولے۔
میں نے سوچا‘ کہہ تو ٹھیک رہے ہیں۔ ہمارے لیڈر صاحبان ووٹ کی حصولی کے لیے بڑے خیالی پالؤ پکاتے ہیں۔ راشن رسد کی اس میں کمی نہیں چھوڑتے۔ ایسے ایسے نقشے کھنچتے ہیں‘ کہ شداد کی ارم بھی کوسوں کے فاصلے پر چلی جاتی ہے۔ امن و سکون کی وہ فضا‘ خیالوں اور خوابوں کو سکھ چین سے نوازتی ہے۔ عملی طور پر بھوک‘ دکھ‘ درد اور مصیبت ان کے کھیسے لگی ہے۔ ہاں البتہ یہ رشک ارم دنیا‘ ان لیڈروں کی دنیا میں ضرور بسی چلی آتی ہے۔ گماشتے انہیں سب اچھا کا سندیسہ سناتے آئے ہیں۔ اگر عورت چاہے تو صفر کو بھی‘ سو کے مرتبے پر فائز کر سکتی ہے۔ اگر الٹے پاؤں چلنے لگے تو سو کو صفر بھی نہیں رہنے دیتی۔ دوسرا گریب صرف خواب ہی دیکھ سکتا ہے‘ اس سے آگے اس کی اوقات و بسات ہی نہیں ہوتی۔ فیجاں کو تو اہل اخگر سے‘ موج مستی سے ہی فرصت نہ تھی‘ شوہر اور بچوں
پر کیا توجہ دیتی۔ وہ ملکی لیڈر صاحبان کے قدموں پر تھی۔ ایک روز پتا چال‘ اس نے پہا خادم سے طالق لے لی ہے اور کسی کے ساتھ چلی گئی ہے۔ پہا خادم اکیال ہی زندگی کی گاڑی چالتا رہا۔ ایک روز شراب کے نشہ میں دھت‘ ایک سیٹھ صاحب کی گاڑی کے نیچے آ کر‘ ہللا کو پیارا ہو گیا۔ بچے در بہ در ہو گئے۔ جس بچے کو وہ ڈاکٹر بنانا چاہتا تھا‘ منڈی میں پلے داری کرنے لگا۔ بعد میں الری اڈے ہاکری کرنے لگا۔ اس کی ایک مزدور کی بیٹی سے شادی ہو گئی۔ ہللا نے اسے چاند سا بیٹا عطا کیا۔ بےشک باپ کی طرح بڑا محنتی ہے اور آج کل باپ کے سے خیالی پالؤ پکاتا ہے۔ اس کی بیوی سگھڑ ہے‘ عابی کی وفادار بھی ہے۔ کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ اس کے خیالی پالؤ کسی حد تک سہی‘ منزل پا ہی لیں۔
تعلیم اور روٹی
وہ کم پڑھا لکھا کامیاب ہنرمند تھا۔ گزارے سے بڑھ کر کما لیتا
تھا لیکن اپنی ایک الگ سے فکر رکھتا تھا۔ ہنرمندوں کی بدحالی اسے خون کے آنسو روالتی۔ کیا کر سکتا تھا۔ وہ کیا‘ معامالت روٹی ٹکر میں بڑے بڑے کھنی خان مجبور و بےبس ہو گیے تھے۔ دفتر شاہی ہو کہ انتظامیہ‘ اقتداری طبقے کی گماشتہ چلی آتی تھی۔ اسی طرح اقتداری طبقہ اس کے بغیر زیرو میٹر تھا۔ وہ دیر تک سوچتا رہا‘ آخر ہنرمند طبقے کی کس طرح مدد کرے۔ پھر اسے ایک خیال سوجھا۔ خوشی سے اس کا چہرا دمک اٹھا اور اس نے تعلیم ایسے مشکل گزار رستے پر چلنے کا فیصلہ کر لیا۔ کتاب‘ کاپی اور قلم کی خریدداری کے لیے اس کے پاس پیسے تھے۔ تعلیمی معامالت میں مشکل پیش آ جانے کی صورت میں ماسٹر نور دین سے رابطہ ممکن تھا۔ صبح اٹھتے ہی‘ وہ سب سے پہلے کتابوں کی دکان پر گیا۔ پانچ پاس تھا‘ چٹھی کی کتابیں‘ ایک بڑا رجسٹر اور قلم خرید کیا۔ اس نے یہ غور ہی نہ کیا کہ پڑھے لکھے باشعور طبقے‘ روز اول سے‘ شعور سے عاری بااختیار طبقے کی چھتر چھاؤں میں زندگی کرتے آئے ہیں۔ ہنرمندوں کو‘ مکہ بردار اپنے محل اور خودسر گھروالیوں کے مقبرے بنانے کے لیے استعمال کرتے آئے ہیں۔ دوسرا تعلیم اور روٹی کا کوئی رشتہ ہی نہیں‘ تعلیم تو
آگہی فراہم کرتی ہے۔ یہ دماغ سے سوچنے کا درس دیتی ہے۔ پیٹ سے سوچنے کے لیے جہالت کی ضرورت ہوتی ہے۔ دماغ کی سوچ شخص تعمیر کرتی ہے جب کہ پیٹ کی سوچ میں کو ہوا دیتی ہے اور کم زور سروں کی کھوپڑوں سے محل تعمیر کرتی ہے۔ وہ دیر تک کتابوں کے اوراق الٹ پلٹ کرتا رہا۔ رجسٹر پر کچھ لکھنے کی کوشش بھی کرتا رہا۔ اس کی ذہنی کیفیت جنونیوں کی سی تھی۔ چوں کہ سورج روشنی دے رہا تھا‘ اس لیے اسے احساس تک نہ ہوا کہ بجلی کتنی بار گئی ہے۔ رات ہو گئی تھی‘ پھر اچانک ایک جھٹکے سے بجلی چلی گئی۔ اس کے منہ سے بےاختیار او تیرے کی نکل گیا۔ دوسرے ہی لمحے اسے خیال آیا‘ کہ وہ میٹرک پاس کرکے واپڈا میں بھرتی ہو کر ہنرمندوں کی مدد کرنا چاہتا تھا۔ حکومت تو خود ہنرمندوں کی مدد کر رہی تھی۔ فیکس ٹائم کے عالوہ بھی چار چھے اچانکیہ جھٹکے‘ انرجی سیور ہی نہیں‘ اور بھی بہت ساری چھوٹی بڑی چیزوں کو لے دے جاتے تھے۔ بڑی بڑی کمپنیوں سے لے کر‘ چھوٹے سے چھوٹے ہنر مند کی دال روٹی کا سامان تو ہو رہا تھا۔ یہ ہی تو وہ کرنا چاہتا تھا جو پہلے سے ہی ہو رہا تھا۔ اسے اپنی گھٹیا
سوچ پر بڑی شرمندگی ہوئی‘ کہ صاحب اختیار طبقے تو پہلے ہی ہنرمندوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اس نے کاپیاں کتابیں الماری میں رکھ دیں اور سر کے نیچے بازو رکھ کر سکون کی نیند سو گیا۔
بوسیدہ الش
شباب مرزا ایمرجنسی وارڈ میں پڑا‘ زندگی کی آخری گھڑیاں گن رہا تھا۔ ڈاکٹر اور نرسیں‘ اس کی زندگی بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس پر کھل گیا تھا کہ اب کہانی‘ اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے۔ دوا دارو دوبارہ سے‘ اسے زندگی کی شاہراہ پر ال کر‘ کھڑا نہیں کرسکتے۔ بچ بھی گیا تو وہ پہلے سی توانائی‘ میسر نہ آ سکے گی۔ وہ زندگی بھر کسی کا سہارا نہیں بنا‘ اس کا کوئی کیوں سہارا بنے گا۔ ہر کسی کا قول و فعل‘ محض دکھاوے اور اسے خوش کرکے‘ کچھ حاصل کرنے کے لیے ہو گا۔
زندگی کا ہر بیتا لمحہ‘ اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گھوم گیا۔ ابھی وہ اتنا بڑا نہیں ہوا تھا کہ اسے لذت کا احساس ہو گیا۔ ہوا یوں کہ ان کے گھر اس کی خالہ اور اس کی بیٹی ملنے یا کسی کام سے آئیں۔ خالہ نے اسے گلے لگایا اور اس کی بالئیں لیں۔ اس کی خالہ زاد‘ جو عمر میں کوئی اس سے زیادہ بڑی نہ تھی‘ بھی اسے گلے ملی۔ خالہ کے گلے ملنے میں کوئی مزا نہ تھا لیکن خالہ زاد کے ملنے سے‘ اس کے بدن میں عجب سی لذت دوڑ گئی۔ وہ اسے بار بار ملنا چاہتا تھا۔ اس کے رونگٹے میں ان جانی سی ہلچل مچ گئی۔ کئی بار کھڑا بھی ہوا۔ شاید اس لڑکی کی استفادہ میں بھی یہ ہی کیفیت رہی ہو گی۔ اس کی اماں اور خالہ باتوں میں جھٹ گئیں۔ سسرالی خاندانوں کی خامیاں موضوع گفتگو تھیں۔ وہ تو اپنے مجازی خداؤں کو بھی لتاڑے چلی جا رہی تھیں۔ وہ اور اس کی خالہ زاد‘ اپنی ماؤں کے باہمی مذاکرات سے بےنیاز‘ رومان کی دنیا آباد کیے ہوئے تھے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہا‘ جب تک اس کی خالہ نے اپنی بیٹی کو آواز نہ دے دی۔ لذت کے اس احساس نے‘ اسے متحرک کر دیا۔ تعلیمی معامالت طے کرنے کے لیے‘ اس نے ہر جائز ناجائز حربہ اختیار کیا۔ یہ ہی طور اس نے اچھے روزگار کے لیے اپنایا۔ اچھی رہائش اور
اس کے لوازمات کے لیے جائز کو مستقل طور پر‘ زندگی سے خارج ہی کر دیا۔ دنیا کی کون سی ایسی آسائش ہو گی‘ جو اسے میسر نہ آئی۔ کوٹھی‘ کار‘ بنگلہ‘ بینک بیلس‘ نوکر چاکر گویا سب کچھ اس کے کھیسے لگ چکا تھا۔ ایسے حاالت میں‘ بڑے گھر کی بیٹی بھی رونق افروز ہو گئی۔ وہ ہی کیا‘ حسیناؤں کا ایک ہجوم اس کے گرد رہتا۔ اس کا قرب‘ بڑے حسن اور ناز و ادا والیوں کو ہی نصیب ہوتا۔ رونگٹا ذرا کم زور بڑتا تو دواؤں کا انبار لگ جاتا۔ اٹھنے بیٹھنے‘ آنے جانے‘ کھانے پینے‘ سونے جاگنے غرض ہر نوع کی لذت اس کے قدم لیتی رہی۔ آخر کب تک‘ معدہ اپ سٹ رہنے لگا۔ رونگٹا بھی ڈھیٹ سا ہو گیا۔ باہر تو باہر‘ اس ذیل میں گھر پر بھی ذلت اٹھانا پڑتی اور وہ وہ باتیں سنتا‘ جن کا وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ماں کی دیکھا دیکھی‘ بچے بھی اس کی پرواہ چھوڑ گیے۔ اب وہ بااختیار افسر نہیں تھا جو اردگرد چمچے کڑچھے ہوتے۔ باہر نکلتا تو ناانصافی برداشت کرنے والوں کی غصیلی نظریں کھانے کو دوڑتیں گھر آتا تو نادیہ پاگل کتیا کی طرح‘ کاٹنے کو آتی۔ لذت نے آزار کا بھیس اختیار کر لیا تھا۔ ایک دو دن نہیں‘ پانچ سے زیادہ عرصہ‘ اس نے ذلت و عذاب
میں گزارا۔ رونگٹے کی بےوفائی اس حالت تک لے آئی تھی۔ ہسپتال بھی اسے شرم کوشرمی الیا گیا تھا دوسرا سارا دن اس عذاب کو کون جھیلتا۔ یہاں سابقہ سرکاری افسر ہونے کی وجہ سے‘ کسی حد تک سہی‘ خدمت میسر آ رہی تھی۔ وہ آنکھیں بند کیے یہ ہی سوچے جا رہا تھا کہ لذت کے لمحے آخر کیوں ختم ہو جاتے ہیں۔ آخر سب کچھ برقرار کیوں نہیں رہتا۔ پھر اس نے سوچا کہ اگر زندگی کی لذت کو استحقام نہیں تو زندگی کی اذیت کو بھی بقا نہیں ہو سکتی‘ یہ بھی ختم ہو جائے گی۔ سوچوں کے گرداب میں پھنسی اذیت آمیز زندگی نے‘ آخری ہچکی لی اور پھر وہاں ایک بوسیدہ الش کے سوا کچھ باقی نہ رہا۔
وبال دیکھیے
اللے دینو سے‘ اکثر چائے کے کھوکھے پر مالقات ہوتی رہتی تھی۔ اس کے محنتی اور مشقتی ہونے میں‘ کوئی شک نہیں۔ سارا دن ریڑھی پر سبزی بیچتا اور رات کو ریڑھی گھر ڈک کر‘ یہاں چار یاری میں آ بیٹھتا۔ ہم سب مل کر گپ شپ کرتے‘ ہنسی مذاق بھی خوب چلتا‘ دن بھر کی باتیں ہوتیں‘ سیاسی موضوعات
بھی گفتگو میں آ جاتے‘ ذاتی معامالت پر مشاورت ہوتی۔ شقے کو بیوی کی بدسلوکی کے سوا‘ کچھ نہ آتا تھا۔ غریب تو سارے ہی تھے‘ لیکن لبھے پر غربت کچھ زیادہ ہی نازل ہو گئی تھی۔ طافی نے چوں کہ داڑھی رکھی ہوئی تھی‘ اس لیے ہم سب اسے مولوی کہہ کر پکارتے‘ مسلمان جرنیلوں کے کچھ تاریخی اور کچھ پاس سے گھڑ گھڑ کر قصے سناتا۔ اگر پڑھا لکھا ہوتا تو دوھائی کا کہانی کار ہوتا۔ اللے دینو کو اپنے بڑوں کی وڈیائی کے سوا کچھ نہ آتا تھا۔ وہ وہ چھوڑتا‘ کہ ہم سب دھنگ رہ جاتے۔ اکبر بادشاہ بھی جاہ و جالل اور مال و منال میں پیچھے رہ جاتا۔ صدیقا منہ پھٹ بھی ہماری سالم دعا میں شامل تھا۔ اس کا کام ہی ہر اچھے برے‘ سچ جھوٹ پر تنقید کرنا تھا۔ تنقید‘ مولوی اور اللے دینو کو تو آڑے ہاتھوں لیتا تھا۔ اس کی کسی حد تک غلط بھی نہ تھی۔ اس کا کہنا تھا‘ ان جرنیلوں نے اسالم نہیں پھیالیا۔ جرنیل مسلمان ہوں یا غیرمسلم‘ قتل و غارت کا ہی بازار گرم کرتے آئے ہیں‘ ان پر فخر کیسا‘ ہاں داتا صاحب یا ایسے دوسروں نے‘ اپنے عجز و انکسار‘ پیار‘ رواداری‘ بھائی چارے‘ انسانی برابری کے درس سے اسالم پھیالیا ہے۔
اسی طرح اللے دینو سے کہتا‘ او چھوڑو یار‘ جو تم بتاتے ہو‘ وہ ہوں گے‘ دیکھنا تو یہ ہے کہ تم کیا ہو‘ بس ماضی پر اتراتے رہو اور خود صفر رہو۔ یار ہمیں بھی کوئی خاص کرنا چاہیے تا کہ آتی نسل کے کام آ سکے۔
اکثر معاملہ بحث اور پھر تو تکرار کی حدوں کو چھونے لگتا۔ میرا موقف تھا‘ اس بیٹھک کو شغل میلے تک رہنا چاہیے۔ کوشش کے باوجود‘ تو تکرار ہو ہی جاتی۔ اس روز الال دینو کچھ زیادہ ہی گرم ہو گیا۔ صدیقا بھی تو زبان کو تالہ نہیں لگا رہا تھا۔ صدیقے نے اللے دینو کا گریبان پکڑ لیا۔ اللے دینو نے وٹ کر صدیقے کے سینے میں گھونسہ مارا اور وہ نیچے گر پڑا۔ اللے دینو کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ صدیقہ زمین پر آ رہے گا۔ اب وہ ہی سب سے زیادہ ترلے لینے والوں میں تھا۔ افسوس صدیقا اللے دینو کی ایک نہ سہہ سکا اور ہللا کو پیارا ہو گیا۔ پلس آئی اور ہم سب کو پکڑ کر لے گئی۔ ہماری تو کچھ جھڑ جھڑا کر تھانے سے رخصتی ہو گئی ہاں اللے دینو کو پھنٹی کے ساتھ جیل بھی جانا پڑا۔ وبال دیکھیے‘ ہمیں بھی باطور گواہ حاضری پر رکھ لیا گیا۔ عصری ضرورت
میں جدید لبرل مسلمان ہوں اور یہ سب جانتے ہیں‘ بتانے کی ضرورت نہیں۔ ایک شیطان ہی ہے جو نہیں مانتا‘ اس کا کہنا ہے کہ میں اس کا ہم پیشہ و ہم مشرب ہوں۔ پرسوں ہم انٹرنیشنل فائیو سٹار ہوٹل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آتے جاتے جوڑوں کے لباس اور ان کے طور و اطوار کو پرذوق اور پرحسرت نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ یقین مانیئے ہر آنے والی کا حسن و جمال اور ادائیں‘ کاش کے تند و تیز چھرے سے‘ میری روح کو زخمی کر رہی تھیں۔ بدبخت پاس ہی بیٹھا‘ ان کے حسن و جمال اور اداؤں سے کم‘ میری بےچینی پر زیادہ خوش ہو رہا تھا۔
بیٹھا بیٹھا اچانک سنجیدہ سا ہو گیا۔ میں نے پوچھا‘ او سالے یہ اچانک تمہارا بوتھا شریف کیوں لمک گیا ہے۔ کہنے لگا یار دنیا بڑی خودی غرض ہے۔ کیوں کیا ہو گیا ہونا کیا تھا‘ پرسوں بھابی اور بٹیا ادھر ہی‘ ملکوں کے ایک شوخے کے ساتھ آئے ہوئے تھے۔ کم بخت بھابی کا آنا پسند نہیں کر رہا تھا۔ پہلے اس نے اپنا مطلب نکال لیا۔ بھابی نے کیا
کہنا تھا‘ بےچاری چپ چاپ بیٹھی ناشتے پانی کا انتظار کر رہی تھی۔ کافی دیر بعد کھانے میں کافی کچھ منگوایا گیا۔ خود بھی کھاتا مرتا رہا۔ پھر واش روم جانے کے بہانے سے اٹھا اور کھسک گیا۔ ان بےچاریوں نے چھوٹے کے ہاتھ پیسے منگائے اور وہاں سے خالص ہوئیں۔ مجھے بڑا تاؤ آیا۔ ان کی اس بیٹھک کا تو مجھے علم تھا‘ لیکن ملکوں کے شوخے کی اس کمینی حرکت سے آگاہ نہ تھا۔ سب بےمزا اور کرکرا ہو گیا۔ دل چاہتا تھا کہ اس شوخے کے ڈکرے ڈکرے کر دوں۔ میں نے اسے کہا‘ یار بس اب اٹھو‘ چلتے ہیں۔ دنیا کی چال بازی پر مجھے دکھ اور افسوس ہوا۔ معامالت میں آدمی کو اتنا بھی نہیں گرنا چاہیے۔ میں اگر جھوٹ بولتا ہوں‘ تو لوگ میرے کہے کا یقین کرتے ہیں۔ اگر یقین نہ کریں تو مجھے کیا پڑی ہے‘ جوجھوٹ بولوں۔
معامالت میں‘ میں نے کبھی دونمبری نہیں کی۔ وہ پیسے دیتے ہیں‘ میں گواہی دیتا ہوں۔ ان کا احسان نہ میرا احسان۔ رشوت کی رقم مفت میں تو نہیں لیتا‘ کام کرتا اور کرواتا ہوں۔ کسی
دوسرے دفتر سے کام کرواتا ہوں تو ٹن پرسنٹ میرا اصولی حق بنتا ہے۔ میں دودھ میں پانی مالتا ہوں تو اس میں غلط کیا ہے‘ پیچھے سے کب کھرا آتا ہے۔ میرا پانی مالنا دکھتا ہے تو سپالئی کرنے واال کیوں نظر نہیں آتا۔ دوسرا میں کون سا زور زبردستی فروخت کرتا ہوں‘ نہ خریدیں۔ انہیں حکیم نے کہا ہے‘ جو وہ پانی یا کیمیکل مال دودھ خریدتے ہیں۔ خریددار کے سب علم میں ہے تو یہ دو نمبری کس حساب سے ہوئی۔ میں لبرل ماڈرن مسلمان ہوں‘ دو نمبری کو غلط اور قابل تعزیر سمجھتا ہوں۔ عہد قدیم کے مسلمانوں کا دائرہ محدود تھا‘ اس لیے اصول بھی اسی دور کے مطابق تھے۔ میرا واسطہ گلوبل ہے۔ امریکہ اور جاپان اب دو قدم کے ملک رہ گئے ہیں‘ لہذا مجھے عصری اصولوں کو فالو کرنا ہوتا ہے۔ حضرت بالل حضور کریم کے قریب تھے‘ لہذا وہ ویسے تھے۔ حضور کریم میرے قریب نہیں ہیں‘ کیا یہ میری برخورداری نہیں کہ میں حضور کریم سے بڑی محبت کرتا ہوں‘ ہاں ان کے کہے پر نہیں چلتا‘ بل کہ آج کی ضرورت کے مطابق زندگی کر رہا ہوں۔ لبرل ماڈرن مسلمان ہونے کے ناتے‘ گیو ٹیک کو اپنائے ہوئے ہوں۔ میں نے ہر اس عورت کو اپنی ماں بہن سمجھا ہے جو میرے ساتھ پھنستی نہیں۔ بڑی سالی تکبر میں رہی‘ میں نے
بھی اسے جوتے کی نوک پر رکھا۔ ہمیشہ باجی باجی کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ ہاں چھوٹی لبرل ماڈرن مسلمان تھی‘ اس سے سالم دعا ہو گئی۔ اس کی شادی ہو گئی‘ اب جب کبھی آتی ہے‘ تو ہمارا گیو ٹیک ہو جاتا ہے۔ ہاں البتہ ساس مجھ پر مہربان ہے تو میں بھی اس کے معاملہ میں بخیل نہیں۔ مجھے ملکوں کے شوخے پر تاؤ آتا ہے‘ بےغیرت دونمبری کرتا ہے۔ کچھ لیا ہے تو کچھ دو بھی۔ ایسے ہی دو نمبر لوگ قابل تعزیر ہوتے ہیں۔ اگر ملک کی باگ ڈور میرے ہاتھ میں آ جائے تو اس طور کے ہر دونمبری کو‘ چوراہے میں الٹا لٹکا دوں تا کہ کسی کو دونمبری کرنے کی جرآت ہی نہ ہو۔ وہ لبرل ماڈرن مسلمان نہیں ہیں‘ مولوی کو‘ ایسے دو نمبریوں پر کفر کا فتوی لگا دینا چاہیئے۔ مولوی عصری ضرورت سے ہٹ کر‘ فتوی سازی میں مصروف ہیں۔ انہیں آج کی ضرورت اور حقائق کے مطابق چلنا ہو گا‘ ورنہ انہیں لبرل ماڈرن مسلمان نہیں کہا جا سکتا۔
اماں جیناں
اماں جیناں محلہ کیا‘ اردگرد کے محلوں میں بھی پسند نہیں کی جاتی تھی۔ اسے بیوہ ہوئے آٹھ سال ہو گئے تھے۔ اس کا خاوند مشقتی تھا‘ لیکن تھا بھال آدمی۔ صبح کام پر چال جاتا اور رات دیر تک مشقت کرتا۔ اس نے اپنی محنت سے‘ چھوٹا اور کچا پکا ذاتی مکان بھی بنا لیا تھا۔ ضرورت کی ہر شے اس میں ال کر رکھ دی تھی۔ جتنا ایک مشقتی سے ممکن ہوتا ہے کیا۔ اپنی بوالر بیوی کو ہر طرح کا سکھ‘ فراہم کرنے کا جتن کیا۔ اماں جیناں نے اپنے خاوند سحاکے کے ہر رشتہ دار‘ یہاں تک کہ اس ماں کی بھی دڑکی لگا دی۔ وہ بڑی برداشت کا مالک تھا۔ اس زیادتی کو کوڑا گھونٹ سمجھ کر پی گیا اور حسب معمول محنت مشقت پر جھٹا رہا۔ ماں اور بہن بھائیوں کو وقت نکال کر مل لیتا۔ ہاں البتہ پانچ دس منٹ کے لیے سہی‘ ماں کو ہر روز بھرجائی کے کوسنے سن کر بھی‘ ملنے چال جاتا۔ معلوم پڑ جانے کے بعد جیناں بھی وقت کووقت اور اپنے خاوند کی حالت دیکھے بغیر‘ منہ میں زبان رکھنا بھول جاتی۔ اس کی زبان نے بابے سحاکے کے اپنے تو اپنے‘ ملنے والے بھی بہت دور کر دیے تھے۔ ہر کوئی اس سے بات کرتے ڈرتا‘ مبادا کوئی گالواں ہی گلے آ پڑے گا۔ الٹی کھوپڑی کی مالک تھی‘ سیدھی بات کو غلط معنوں میں لے لیتی تھی۔ مثال کوئی
بھولے سے بھی پوچھ بیٹھتا :مائی جیناں کیا حال ہے۔ جواب میں اسے یہ ہی سننا پڑتا‘ اندھے ہو نظر نہیں آتا‘ چنگی بھلی ہوں۔ جب ایسی صورت ہو تو کوئی اس کے منہ کیوں لگتا۔ منہ متھے لگتی تھی‘ عالقے میں انھی ڈال سکتی تھی۔ ہمیشہ سے بوڑھی نہ تھی۔ مجال ہے کوئی اس کے بارے غلط بھی سوچتا۔ کھگو نے جوانی کے دور میں‘ ٹرائی ماری تھی۔ اس کے ساتھ کیا ہوا جگ جانتا ہے۔ جب بھی وہ نظر آ جاتا‘ شروع ہو جاتی۔ اس نے معافی بھی مانگی لیکن جیناں نے معاف نہ کیا۔ اس کا موقف تھا کہ کھگو کو ایسی جرآت ہی کیوں ہوئی۔ اس نے ایسا سوچ بھی کس طرح لیا۔ چوں کہ قریب کی گلی کے تھے‘ وہ گلی دیکھ کر گزرتا۔ اگر جیناں نظر آ جاتی تو بل باش ہو جاتا۔ اس کے برعکس اگر جیناں کی اس پر نظر پڑ جاتی‘ تو رانی توپ کا منہ کھل جاتا۔ جب تک زندہ رہا‘ نزع کی حالت میں ہی رہا۔ اماں جیناں کی کوئی اوالد نہ تھی۔ خاوند کے مرنے کے بعد بےسہارا سی ہو گئی۔ پورے محلہ میں کوئی اسے پوچھنے واال نہ تھا۔ جب تک گھر پر جمع پونجی باقی رہی‘ گزارا کرتی رہی۔ فاقوں پر آ گئی‘ اس نے کسی پر ظاہر تک نہ کیا۔ سب کچھ ذات اور آنسوؤں میں ضبط کرتی رہی۔ میری گھروالی کو جانے کیسے معلوم ہو گیا۔ اس نے بات میرے سامنے رکھی۔ مجھے عزت عزیز تھی۔ میں اس کی مدد کرنا چاہتا تھا‘ لیکن ڈرتا تھا
کہ کہیں معاملہ گلے ہی نہ آ پڑے۔ ایک دن گلی سے گزر رہا تھا‘ اماں جیناں اپنے گھر کی دہلیز پر اداس اور افسردہ بیٹھی ہوئی نظر آئی۔ میں دور سے‘ جو اسے سنائی دے رہا جعلی بڑبڑاتا ہوا اس کے قریب سے گزرا۔ اس نے مجھے کبھی اس انداز میں نہ دیکھا تھا۔ قریب آیا تو اس :نے پوچھ ہی لیا پتر کیا ہوا ماں جی ہونا کیا ہے‘ کیسا دور آ گیا ہے‘ پیسے پورے لے کر بھی چیز درست نہیں دیتے۔ میرے بیگ میں کیلے تھے میں نے کیلے انہیں پکڑائے اور خود دوبارہ سے بڑبراتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ اس نے بڑی حیرت سے میری طرف دیکھا اور کیلے لے کر اندر چلی گئی۔ مجھے شہہ مل گئی اور پھر میں‘ آنے بہانے اماں جیناں کو کچھ ناکچھ دے کر کام پر چال جاتا۔ ایک مرتبہ میں نے کچھ پیسے بھی چیز کے ساتھ رکھ دیے۔ اگلے روز گھر واپس آتے اس نے مجھے روک لیا اور کہا غلطی سے پیسے بھی آ گیے تھے۔ میں نے کہا نہیں ماں جی‘ آپ کے حصہ ہی کے تھے اور میں جلدی سے وہاں سے رخصت ہو گیا‘ کہ کوئی تماشا کھڑا نہ کر دے۔ جب اگلے دن وہاں سے گذرا تو دیکھا‘ اماں کی آنکھوں میں تشکر لبریز آنسو تھے۔ سچی بات ہے میری بھی آنکھیں چھلک پڑیں۔ اس کے بعد میں بالڈرے اس کی خدمت کرنے لگا۔۔
دن گزر گئے‘ اور آج اماں کو حق ہوئے بھی کئی سال ہو چلے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا تھا‘ وڈ ٹک سے پہلے اماں بڑے کھاتے پیتے خاندان کی تھی۔ سحاکا ہی اسے زخمی حالت میں‘ اس کی جان بچا کر لے آیا تھا ورنہ ہللا جانے اس کے ساتھ کیا گزرتی۔ اماں نے سحاکے کے ساتھ نکاح کر لیا۔ سحاکا ازدواجی معامالت میں پیدل تھا‘ اماں نے پھر بھی پاک صاف رہ کر زندگی گزار دی۔ مائی صوباں کا یہ انکشاف‘ حیرت سے خالی نہ تھا۔ سب خالئی سا معلوم ہو رہا تھا۔ سچ میں‘ ہللا کی اس زمین پر یہ وقوع میں آ چکا تھا۔
اس کا نام ہدایتا ہی رہا
تجربہ زندگی کو سنوارتا‘ نکھارتا اور بعض اوقات شخصیت میں انقالب برپا کر دیتا ہے۔ ہداتے اور اس کی رن ماجدہ کا‘ ہر دوسرے تیسرے رن کچھ سا رن لگتا۔ وہ جند جان میں اس سے کہیں بھاری تھی۔ اڑبڑ کرتا‘ تو سیدھا چمٹا چالتی‘ جو اس کے
کہیں ناکہیں آ لگتا۔ آشاں کا نشانہ بڑے کمال کا تھا۔ اس کے وڈ وڈیروں میں یقینا کوئی بہت بڑا شکاری رہا ہو گا۔ ایک بار تو سیدھا وہاں سے‘ تھوڑا ہی فاصلے پر آ لگا۔ کئی دن ٹانگیں چوڑی کرکے چلتا رہا۔ اگر خدا نخواستہ وہاں لگ جاتا‘ تو آج صحن میں اٹھکیلیاں کرتی منی سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ اس چوٹ نے آشاں پر تو کوئی اثر نہ ڈاال‘ ہاں البتہ اس تجربے نے اس کے معمول میں انقالبی تبدیلی ضرور کر دی۔ اب جب بھی رن‘ رن میں اترنے کا موڑ بناتی‘ یہ فورا سے پہلے گھر کی دہلیز کے اس پار ہوتا۔ وہ اندر فائرنگ کرتی یہ باہر کھڑا کبھی گولے اور کبھی تھری نٹ تھری کی گولیاں چالتا۔ ہاں البتہ‘ ہر دو تین گولیاں یا گولے چالنے کے بعد‘ اتنا ضرور کہتا‘ ہللا تمہیں ہدایت دے۔ اس کے بعد ہللا تمہیں ہدایت دے اس کا تکیہءکالم ہی بن گیا۔ اس کا اصل نام نور محمد تھا لیکن اس تکیہءکالم کی وجہ سے‘ اس کا نام بھی ہدایتا پڑ گیا۔ پھر ہر دو تین کلمے منہ سے نکالنے کے بعد‘ ہللا تمہیں ہدایت دے ضرور کہتا۔ لوگ چوں کہ اس کے اس تکیہءکالم سے آگاہ ہو چکے تھے‘ اس لیے غصہ نہ کرتے۔ ایک بار سردار صاحب کے بیٹے کی جنج چڑھنا تھا۔ اچھے کپڑے سلوا لیے‘ اسی طرح اوکھے سوکھے ہو کر نیا جوتا بھی
خرید لیا۔ اگلے دن جنج چڑھنا تھا‘ رن سرکار سے خوب حجامت کروانے کے بعد‘ شہر حجامت اور شیو بنوانے چال گیا۔ حجام کی دکان پر تھوڑا رش تھا۔ وہ ادھر ہی بیٹھ گیا اور موجود لوگوں کی باتیں سننے لگا اور ساتھ میں ہوں ہاں بھی کرنے لگا۔ خدا خدا کرکے‘ اس کی بھی باری آ ہی گئی۔ حجام باتونی تھا۔ حجامت بھی بنائے جا رہا تھا اور ساتھ میں باتیں بھی کیے چلے جا رہا تھا۔ ہدایتا اس کی ہاں میں ہاں مال رہا تھا۔ ساری باتیں وہ ہی کیے جاتا تھا۔ خدا خدا کرکے ایک دو باتیں اسے بھی کرنے کا موقع مل گیا۔ حسب عادت دو تین باتیں کرنے کے بعد‘ ہللا تمیں ہدایت دے کہہ بیٹھا۔ حجام کام چھوڑ کر‘ الل الل آنکھیں نکال کر کہنے لگا‘ اوئے پینڈو کیا میں بےہدایتا ہوں اور ہدایت تو سکھائے گا۔ چپ رہتا یا معذرت کر لیتا تو بات نہ بگڑتی۔ لفظ پینڈو اسے چبھ سا گیا اور گھر سمجھ کر بکنے لگا۔ پھر کیا تھا‘ وہاں موجود لوگوں نے اسے پکڑ کر خوب وجایا۔ اور تو اور چہرے پر بھی اچھے خاصے آلو ڈال دیے۔ ابھی آدھے ہی بال کٹے تھے کہ بقیہ جان بچا کر واپس آ گیا۔ آشاں زخموں پر مرہم رکھنے یا اس حجام کا گھر پر ہی زبانی کالمی گھر پورا کرنے کی بجائے‘ اس کے چہرے کے آلو دیکھ کر خوب ہنسی۔
اس واقعے کے بعد وہ جنج چڑھنے سے محروم ہو گیا اور گاؤں بھر کے مردوں‘ عورتوں اور بچوں کے لیے مذاق بن گیا۔ ہاں البتہ اس کا تکیہءکالم ضرور بدل گیا۔ ہللا تمہیں ہدایت دے کی بجائے‘ ہللا مجھے ہدایت دے بولنے لگا۔ یہ بات قطعی الگ سے ہے کہ زبان پر مجھے اور دل میں تجھے ہی ہوتا۔ اس نے اپنے لیے کبھی ہدایت کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی‘ جیسے پیدایشی ہدایت یافتہ ہو۔ اس حادثے کے بعد‘ نام بھی تبدیل ہو جانا چاہیے تھا‘ لیکن اس کا نام ہدایتا ہی رہا۔
بھاری پتھر
مغرب میں اماں بابوں کا گالواں‘ اوالد گلے میں نہیں ڈالتی۔ وہاں ان پرانے وقتوں کے لوگوں کو‘ بڈھا ہاؤسز میں چھوڑ دیا جاتا ہے‘ جہاں وہ اپنے وقتوں کی کہانیاں‘ ایک دوسرے کو سنا کر‘ ہنسی خوشی زندگی گزار لیتے ہیں۔ ہر نئے دور کے تقاضے اپنے ہوتے ہیں۔ نئے دور کے لوگ‘ اپنے ان تقاضوں کے ساتھ
کھل ڈھل کر زندگی گزارتے ہیں۔ ان کی کرنی میں‘ کوئی میم میخ نکالنے واال نہیں ہوتا۔ ناہی انہیں ایک دوسرے کی کرنی پر کوئی اعتراض ہوتا ہے۔ جہاں جانا ہو دوڑ کر جا سکتے ہیں۔ ان کی موجودگی میں‘ انہیں بھی کندھا پکڑا کر ساتھ لے جانا پڑتا ہے۔ واپس آ کر ان کی تقریریں سننا پڑتی ہیں۔ دور کیا جانا ہے‘ کل ہی کی بات کو لے لیں۔ بابے مہنگے کو بھی شادی حال میں لے گئے۔ خیال تھا کہ نیا ماحول دیکھ کر‘ تازہ دم ہو جائے گا اور آج کل کا پیٹ بھر کر کھا کر‘ خوش ہو گا۔ مگر کہاں جی‘ جتنی دیر وہاں بیٹھا‘ بڑ بڑ کرتا رہا۔ بہو اور بیٹیوں کو گھور گھور کر اور کھا جانے والی نظروں سے دیکھتا رہا۔ گھر آ کر‘ اماں پر برس پڑا کہ کتنا بےحیا دور آ گیا ہے۔ کسی کو اپنی عزت آبرو کا احساس تک نہیں رہا۔ یہ لباس تھا‘ باریک‘ آدھا اور وہ بھی ٹائٹ۔ ٹانگوں کی اگلی پچھلی اور سینے کی لکیریں‘ نمایاں ہو رہی تھیں۔ کسی کے سر پر دوپٹہ نہ تھا۔ یوں نچ ٹپ رہی تھیں‘ جیسے چوتڑوں میں کیڑا گھس گیا ہو۔ بھائی اور خاوند ساتھ تھے‘ کسی کو غیرت نہیں آ رہی تھی۔ اب پتا چال کہ ہم مسلمان ہو کر بھی‘ دنیا جہان کے چھتروں کی زد میں کیوں ہیں۔ بابے نے اتنے اعلی کھانے میں بھی‘ ہزار طرح کے کیڑے
نکالے۔ اماں جس نے بابے کو ساری عمر نپ کر رکھا تھا‘ آج اسے قابو نہ کر پا رہی تھی۔ اپنی کہے جا رہی تھی لیکن پورا نہ اتر رہی تھی۔ بابا مکمل طور پر چھایا ہوا تھا اور پٹری سے اتر چکا تھا۔ ملک کے سربراہوں کے بھی بابے ہوں گے‘ معلوم نہیں وہ ان پر کس طرح قابو پاتے ہوں گے یا پھر ان کے بابے بھی لکیر پسند ہوں گے۔ سربراہ بابا ہو تو بھی بابا نہیں ہوتا۔ حکیم ڈاکٹر ان کے مطیع ہوتے ہیں۔ دوسرا وہ سب کے ہوتے ہیں اس لیے ان کا لبرل اور لکیر نواز ہونا ضروری ہوتا ہے۔ رہ گئی بات دنیا جہاں کے چھتر کھانے کی‘ وہ تو ہم صدیوں سے کھا رہے ہیں۔ اگر کوئی ان موقعوں پر ہماری بیویوں‘ بیٹیوں اور بہنوں کی لکیروں سے‘ نظری یا محض معمولی معمولی ٹچ سے لطف اندوز ہو رہا ہوتا ہے‘ تو ہم بھی کب پیچھے ہوتے ہیں۔ ہماری آنکھیں کھلی اور ہاتھ متحرک ہوتے ہیں۔ اگر ہماری عورتیں ان کے لیے لطف کا سامان ہوتی ہیں‘ تو ان کی عورتیں بھی ہمیں حظ مہیا کر رہی ہوتی ہیں۔ بابر سے لبرل بادشاہ نے کہا تھا : بابر عیش کوش کہ دنیا دوبارہ نیست
یہ بابے کیا جانیں۔ خشک جیئے اور ہمیں بھی‘ اسی رہ پر رکھنا چاہتے ہیں۔ حاکم اپنی موج میں ہیں۔ ہمیں بھی جدید طرز کی زندگی گزارنا ہے لیکن ان بابوں کے ہوتے‘ مکمل طور پر یہ ممکن نہیں۔ بااختیار اداروں کا فرض بنتا ہے کہ ان بابوں کا کچھ کریں ورنہ ان کے لیکچر ہمیں جدید زندگی سے درر رکھیں گے۔ ہم آزادی حاصل کرکے بھی آزادی سے دور رہیں گے۔ جو بھی سہی‘ یہ طے ہے کہ امرا کے ناسہی‘ ہمارے بابے عصری آزادی کی راہ کا بھاری پتھر ہیں اور ہم سے لبرل‘ ماڈرن‘ آزاد‘ ترقی پسند اور مغرب کے پیروں کو غیرت کا لیکچر پال پال کر غیرت پسند بنا دینا چاہتے ہیں۔
ایسے لوگ کہاں ہیں یہ دنیا سرائے کی مانند ہے‘ کوئی آ رہا ہے تو کوئی جا رہا ہے۔ سرائے میں مستقل کوئی اقمت نہیں رکھتا۔ ہاں ہر آنے واال اپنا ایک تاثر ضرور چھوڑ جاتا ہے۔ کوئی اچھا تو کوئی برا۔ اس تاثر کے حوالہ سے ہی‘ اس مسافر کو یاد میں رکھا جاتا ہے۔
بابا صاحب بھلے آدمی تھے۔ طبعا مہربان‘ شفیق اور اپنے پرائے کے غم گسار تھے۔ کسی کو دکھ میں دیکھتے‘ تو تڑپ تڑپ جاتے۔ جب تک اس کی تکلیف دور کرنے کا پربند نہ کر لیتے‘ سکھ کا سانس نہ لیتے تھے۔ اچھائی اور خیر کے معاملہ میں‘ دھرم اور مسلک ان کے نزدیک‘ کوئی معنویت نہ رکھتا تھا۔ ان کا موقف تھا‘ جس طرح ہللا سب کا نگہبان ہے‘ اسی طرح انسان بھی سب کا نگہبان ہے۔ اس کی پیدا کی ہوئی کوئی بھی مخلوق‘ دکھ میں ہے تو انسان کو‘ اس کا ہر حال میں دکھ دور کرنا چاہیے۔ کوئی برا کرتا ہے تو یہ اس کا کام ہے‘ برائی کے بدلے برائی کرنا‘ تمہارا کام نہیں۔ تم جو بھی کرو‘ اچھا اور اچھے کے لیے کرو۔ ان کے پاس‘ ہر دھرم سے متعلق لوگ آتے۔ کوئی خیر و برکت کی دعا کے لیے آتا‘ تو کوئی علم وادب اور مذہب سے متعلق گفتگو یا مشاورت کے لیے آتا۔ سب کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھتے۔ تحمل سے اس کی سنتے اور پھر اپنا موقف پیش کرتے۔ جب تک وہ مطمن نہ ہو جاتا‘ رخصت نہ کرتے۔ بائیبل مقدس‘ رومائن‘ بھگوت گیتا‘ گرنتھ صاحب کا ورق ورق انہوں نے پڑھ رکھا تھا۔ بدھ مت کے متعلق بھی اچھا خاصا نالج رکھتے تھے۔ پہلے تو متعلقہ کی کتاب اور پھر قرآن مجید کے حوالہ سے بات کرتے۔ یار کمال کے شخص تھے۔ کوئی نذر نیاز لے آتا تو رکھ لیتے‘ جب جانے لگتا تو اس تاکید کے ساتھ
واپس کر دیتے‘ کہ چیزیں صرف اپنے بیوی بچوں میں تقسیم کرنا۔ اصرار کے باوجود کچھ نہ رکھتے۔ فرماتے بیٹا‘ تم چنتا نہ کرو‘ ہللا مجھ اور میری بھوک پیاس سے خوب خوب واقف ہے۔ ایک بار ایک اجنبی آیا۔ کچھ کہے سنے بغیر ہی‘ دروازے پر کھڑے ہو کر‘ بابا صاحب کو برا بھال کہنے لگا۔ جب حد سے گزرنے لگا‘ تو بیٹھے لوگوں میں سے ایک اٹھ کر اس کی ٹھکائی کرنے لگا۔ بابا صاحب نے اسے منع کر دیا۔ بہت کچھ کہہ لینے کے بعد وہ چال گیا۔ ایک بوال بیڑا غرق ہو اس خانہ خراب کا‘ کتنی بکواس کر رہا تھا۔ اگر بابا صاحب نہ روکتے‘ تو آج میں اسے اس بدتمیزی کا ایسا مزا چکھاتا کہ نسلوں کو بھی منع کر جاتا۔ بابا صاحب اس کے اس طرز تکلم سے سخت پریشان ہوئے۔ پھر فرمانے لگے‘ بیٹا کبھی اور بھی کسی بھی صورت میں‘ گفتگو میں شائستگی کو ہاتھ سے نہ جانے دو۔ یاد رکھو‘ ایک طرف نیکیوں کا انبار لگا ہو تو دوسری طرف ایک بددعا‘ بددعا اس پر بھاری ہے۔ کیا تمہیں حضرت یونس علیہ السالم کی بددعا کا انجام یاد نہیں۔ انہیں مچھلی کے پیٹ میں جانا پڑا۔ پھر فرمایا بددعا کی بجائے تم دعا بھی دے سکتے ہو کہ ہللا اسے ہدایت دے۔ بعید نہیں وہ وقت قبولیت کا وقت ہو۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ شخص دوبارہ سے آ گیا اور دروازے پر کھڑا ہو کر‘ اندر آنے کی اجازت طلب کرنے لگا۔ اب کہ وہ اور
اس کا انداز بڑا مہذب اور شائستہ تھا۔ سب اس کے اس دوہرے روپ سے حیران رہ گئے۔ بابا صاحب نے اسے اندر آنے کی اجازت دے دی۔ اندر آ کر وہ بابا صاحب کے پاؤں پڑنے لگا تو بابا صاحب نے اسے سختی سے منع کر دیا اور پھر اس کی طرف دیکھ کر مسکرائے۔ وہ مسکراہٹ کیا تھی‘ جنت کی ہوا کا ایک جھونکا تھا‘ جو سب کو نہال کر گیا۔ وہ شخص کہنے لگا :سرکار میں تو آپ کے ظرف کا امتحان لے رہا تھا۔ جیسا اور جو سنا ویسا ہی پایا۔ آپ سچے ولی ہیں۔ نہیں بیٹا‘ یہ تم محبت میں کہہ رہے ہو۔ میں بےچارہ کہاں اور والیت کہاں۔ ہاں یہ ہللا کا احسان اور لطف وکرم ہے‘ جو اس نے توفیق دی اور میں اس امتحان میں کامیاب ہوا۔ سوچتا ہوں‘ اب ایسے لوگ کہاں ہیں۔ اگر کوئی ہے‘ تو چال کیوں جاتا ہے۔ کیا کریں‘ یہاں کوئی ٹھہرنے کے لیے نہیں آتا۔ اچھا ہو کہ برا‘ گریب ہو کہ امیر‘ شاہ ہو کہ فقیر‘ اسے ایک روز جانا ہی تو ہے۔ اللچ‘ ہوس اور حرص نے انسان کو‘ انسان نہیں رہنے دیا۔ کاش ہمیں یقین ہو جائے‘ کہ ہمیں ہر صورت میں جانا ہی ہے اور کوئی یہاں ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں آیا۔ جمع پونجی ساتھ نہ جا سکے گی۔ جاتے وقت ہاتھ خالی ہوں گے اور اپنے قدموں پر نہیں جا سکیں گے۔