جذبے کی سزا نو منی افسانے
ممصود حسنی ابوزر برلی کتب خانہ نومبر ٢٠١٦
فہرست میں کریک ہوں ١- ان ہونی‘ ان ہونی نہیں ہوتی ٢- جذبے کی سزا ٣- ہللا بھلی کرے ٤- آخری کوشش ٥- تیسری دفع کا ذکر ہے ٦- انگلی ٧- آخری تبدیلی کوئی نہیں ٨- کھڑ پینچ دی جئے ہو ٩-
میں کریک ہوں ببو ہمارے محلے کا اکلوتا دکان دار ہے۔ برا نہیں تو اچھا بھی نہیں۔ بےایمان نہیں تو اسے ایمان دار بھی نہیں کہا جا سکتا۔
میری اس سے کوئی گہری سالم دعا نہیں‘ بس راہ چلتے ہیلو ہائے ہو جاتی ہے۔ اس نے دکان بدلی تو میں نے پوچھا :دکان کیوں بدلی ہے۔ کہنے لگا :ایک تو تنگ تھی سودا پورا نہیں آتا تھا دوسرا ٹپکنے لگی تھی۔ میں نے کہا چلو تم نے ٹھیک کیا۔ یہ کہہ کر کام پر روانہ ہو گیا۔ رستہ وہ ہی تھا واپسی پر سالم دعا کے بعد میں نے دکان بدلنے کی وجہ دریافت کی۔ اس نے بال تردد و ترمیم وہ ہی وجہ بتائی۔ اگلے دن جمعہ تھا‘ چھٹی ہونے کے سبب میں نے سارا دن گھر پر ہی گزرا۔ ہفتے کو کام پر جاتے ہوئے اس کے پاس رکا۔ دعا سالم اور حال احوال پوچھنے کے بعد دکان بدلنے کی وجہ پوچھی۔ اس نے میری طرف بڑے غور سے دیکھا اور وہ ہی وجہ بتائی۔ وہ مجھے بھلکڑ سمجھ رہا تھا۔ اس کے ساتھ زیادہ تعلمات ہی نہ تھے اور بات کیا کرتا۔ یہ ہی ایک بات تھی جو اس سے آتا جاتا کرتا۔ واپسی پر حسب معمول رکا۔ سالم بالیا حال احوال پوچھا اور دکان بدلنے کی وجہ پوچھی۔ وہ اونچی اونچی بولنے لگا اور مجھ سے لڑ پڑا۔ لگتا تھا کہ ہاتھا پائی پر اتر آئے گا۔ میں بھی ذہنی طور پر بھاگنے کے لیے تیار تھا۔ مجھے معلوم تھا دوڑ میں وہ میرا
ممابلہ نہیں کر سکے گا۔ وہ تو خیر ہوئی لوگ جمع ہو گئے اور لڑنے کی وجہ پوچھی۔ وہ چوں کہ زور زور سے بول رہا تھا اس لیے میں نے بڑے تحمل سے وجہ بتا دی۔ ساتھ میں یہ بھی کہا میرا ببو سے کوئی خاص تعلك واسطہ نہیں اس لیے سالم دعا کی برلراری کے لیے پوچھ لیتا ہوں۔ یہ غصہ کر گیا ہے۔ اس میں غصہ کرنے والی ایسی کون سی بات ہے۔ سب ہنسنے لگے اور مجھے کہا باؤ جی آپ جائیں۔ اسی طرح کچھ ببو کو ٹھنڈا کرنے لگے۔ ایک بندے نے ببو کی طرف دیکھ کر سر پر انگلی رکھی۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ میں کریک ہوں۔ میں جعلی سنجیدگی سے ہولے لدمدں سے اپنے گھر کی جانب بڑھ گیا۔
ان ہونی‘ ان ہونی نہیں ہوتی تھیال مردود ہیرا پھیری اور دو نمبری میں بےمثل اور بےمثال رہا جب کہ تھیال شکی زندگی کے ہر معاملے کو شک و شبہ کی نظروں سے دیکھنے میں ضرب المثل چال آتا تھا۔ اس کا کہنا کہ کچھ بھی خالص نہیں رہا۔ جعلی بھی اصلی کے موافك دکھتا ہے‘ کو سو فی ناسہی کسی ناکسی فی صد تو درست ماننا ہی پڑے
گا۔ تھیال مردود بات اس انداز سے کرتا کہ اس کا کہا اصلی سے بھی دو چار لدم آگے نکل جاتا۔ جسے ہاتھ لگے ہوئے ہوتے وہ بھی دھوکہ کھا جاتا۔ بات کہے تک ہی محدود نہ تھی‘ اس کا کیا بھی عین اصلی کی چغلی کھا رہا ہوتا۔ اسی ولت نہیں‘ بہت بعد میں کھلتا کہ وہ تو سراسر فراڈ تھا لیکن اس ولت جھانسے میں آنے والے کا کھیسہ خالی ہو چکا ہوتا۔ لٹے کی باریابی کے لیے وہ مزید بل برابر اور بار بار لٹتا چال جاتا۔ ہم سب تھیلے شکی کے کہے کو بکواس کا نام دیتے رہے‘ بل کہ اس کا مذاق اڑاتے رہے۔ اس کا کہنا تھا کہ پیرو نے اس کے باپ اور بہن کو تعویز ڈال ڈال کر مارا۔ میری ماں نے پیرو سے نکاح تو کر لیا لیکن اپنے خاوند اور بیٹی کا لتل اسے مرتے دم تک معاف نہ کیا۔ اس کا یہ کہا میں نے بمشکل ہنسی پر لابو پا کر سنا۔ وہاں تو اس کی ہاں میں مالئی لیکن گھر آ کر خوب ہنسا اور انجوائے کیا۔ ایسی بات پیٹ میں کب رہتی ہے۔ دوستوں کو بھی لطف اندوز کیا۔ دشمنی کا یہ انداز‘ یمین مانیں بالکل انوکھا اور الگ سے لگا۔ نکاح بھی خاوند اور بیٹی کے لاتل سے کیا اور معاف بھی نہ کیا۔ عجیب اور سمجھ سے باال لوجک تھی۔ دوسرا اگر تعویزوں سے لوگ مرنے لگتے تو آج دنیا میں ایک
بھی زندہ نہ پھرتا۔ یہ بات عجیب بھی ہے اور فوق الفطرت بھی۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ کوئی آپ سے کہے کہ کل میں نے مگرمچھ کو جاگتے میں اڑتے دیکھا۔ ایسی بات کہنے واال پاگل ہی ہو سکتا ہے یا وہ آپ سے شغال لگا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے‘ بےولوف بنا رہا ہو۔ بکری صدیوں سے ہاتھی چٹ کرتے آئی ہے لیکن مگرمچھ اڑتے نہیں دیکھا گیا۔ عالمتا مگرمچھ ہی اڑتے آئے ہیں۔ مزے کی بات دیکھیے اس کی عملی صورت دیکھنے میں آ گئی۔ اس کا مطلب یہ ٹھہرے گا‘ ان ہونی‘ ان ہونی نہیں رہی۔ گویا مگرمچھ کا اڑنا‘ غلط نہیں رہا۔ کہنے والے نے مگرمچھ کو ضرور اڑتے دیکھا ہو گا۔ یعنی مگرمچھ کی اڑان امکان میں داخل ہے۔ سدی پڑھا لکھا احمك اور یبل ہے۔ لکھائی پڑھائی کی بات کرو‘ فٹافٹ وہ کچھ بتال دے گا جو کسی کے خواب وخیال میں نہیں ہو گا۔ زبانی کالمی سماجیات میں بھی بڑا کمال کا ہے۔ عملی طور پر منفی صفر سے بھی گیا گزرا ہے۔ ہللا نے اسے دو بیٹے عطا فرمائے۔ بڑا لڑکا کچھ سال اور چھوٹا لڑکا کچھ دن کا تھا کہ بیوی انتمال کر گئی۔ بآمر مجبوری اسے شادی کرنا پڑی‘ جس عورت سے شادی کی زبان طراز تو تھی ہی‘ بانجھ بھی تھی۔
تھیال مردود جو اس کا بہنوئی تھا نے سدی یبل کی بہن کو ہاتھوں میں کیا اور اس کا سب کچھ چٹ کر جانے کے طمع میں سدی کی شادی انتہائی گھٹیا اور چول عورت سے کروا دی۔ لوٹنے کے ساتھ ساتھ اپنی ہوس کی آگ بھی بجھانے لگا۔ تھوڑی ہی مدت کے بعد اس عورت کی تھیلے مردود سے ان بن ہو گئی اور وہ سدی یبل کو لے کر وہاں سے نکل آئی۔ ہللا نے سدی یبل کو ایک بیٹے سے نوازا۔ سدی یبل کی خوشی کی انتہا نہ رہی ہاں البتہ اس عورت نے سدی کا سانس لینا بھی حرام کر دیا۔ پہلے ہی چھوٹا مر گیا تھا اب وہ اس بیٹے کی خاطر اس جہنم زادی کے ساتھ نبھا کر رہا تھا۔ وہ تھیلے شکی کی ماں کے گزارے کا مذاق اڑایا کرتا تھا لیکن اب اس کی سمجھ میں آیا تھیلے شکی کا کہا غلط نہیں تھا۔ بعض حاالت کے تحت ناخوش گواری اور ناپسند کو بھی سینے سے لگانا پڑتا ہے۔ گویا مگرمچھ کا ہوا میں پرواز کرنا غلط نہیں۔ جذبے کی سزا اس میں بگڑنے والی ایسی کوئی بات ہی نہ تھی۔ بنے میاں کا بیٹا اپنے چھوٹے بھائی کو مار رہا تھا۔ میں نے اسے دو تین
بار منع کیا لیکن وہ مارنے سے باز نہ آیا تو میں نے اس کی کھتی میں ایک رکھ دی۔ وہ روتا ہوا گھر چال گیا۔ بنے میاں بڑے غصہ سے باہر آئے۔ کچھ پوچھے بغیر ناصرف مجھ پر برس پڑے بل کہ زناٹے کی دو تین دھر بھی دیں۔ میں ان کے اس رویے پر سخت حیران ہوا۔ یوں لگا جیسے انہوں نے مجھ سے کوئی پرانا بدال چکایا ہو۔ میں بھی جوابا ان کی ٹھیک ٹھاک خاطر تواضح کر سکتا تھا لیکن کیجو کا منہ مار گیا۔ میں نے بامشکل درگزر سے کام لیا۔ اس نے ہاتھ چال لیے اور میں چپ رہا‘ وہ سمجھا کہ ڈر گیا ہوں اسی لیے زبان بھی دیر تک چالتا رہا۔ اردگرد کے لوگوں نے ٹھنڈا کیا کہ جسے بک رہے ہو وہ تو چپ ہے۔ میں بچوں کے معاملہ میں کبھی نہیں پڑا۔ شاید یہاں بھی نہ پڑتا جذبہءپدری نے مجھے بدحواس کر دیا اور میرا ہاتھ اٹھ گیا۔ کیجو کا چھوٹا لڑکا میرے اچھے ولتوں کی یاد تھا۔ خیر اب بھی جب پہاگاں گھر پر نہ ہوتی تو کیجو مزے کرا جاتی۔ اس کا سنور جاتا اور میرا بھی ذائمہ تبدل ہو جاتا۔ بنے میاں کو محض شک تھا مگر شک یمین میں نہ بدال تھا۔
اس روز اگر میں بھی جوابا کچھ کرتا تو لمبا چوڑا کھڑاک ہو جاتا۔ کیجو دنیاداری میں کمال کی مہارت رکھتی تھی۔ اگرچہ سب جعلی کرتی لیکن اس کا یہ فرضی بھی اول درجے کا اصلی ہوتا۔ پہاگاں گھر پر تھی اور وہ کیجو کی بھی نانی تھی۔ بول بوالرے کا ایسا میدان لگتا کہ شیطان بھی توبہ توبہ کر جاتا۔ ماضی اور حال کے وہ وہ لصے دہرائے جاتے جو کسی کے خواب و خیال میں نہیں رہے۔ بکوبکی سے میری بڑی جان جاتی ہے۔ جذبے کی سزا بڑی ازیت خیز ہوتی ہے۔ مجھے بہت معمولی سزا ملی تھی‘ میری چپ نے متولع رن کا رستہ بند کر دیا تھا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میری چپ نے کیجو سے تعلك خراب ہونے کا دروازہ بھی بند کر دیا تھا۔
ہللا بھلی کرے وہ اچھا خاصا بیٹھا باتیں کر رہا تھا‘ لہمے لگا رہا تھا۔ پتا نہیں اچانک کیا ہو گیا‘ او خو کہتا ہوا اٹھ بیٹھا اور بڑی تیزی سے گھر کی طرف بڑھ گیا۔ پیچھے سے ککو نے آواز دی‘ اوے کیا
ہوا جو بال بتالئے بھاگ اٹھے ہو۔ ایمرجنسی۔۔۔آ کر بتاتا ہوں۔ وہ تو چال گیا لیکن ایک موضوع چھیڑ گیا۔ اکی کا خیال تھا کہ اس کی بیوی کا آج کیس ہونا تھا۔ ہللا خیر کرے اور ہللا جو بھی دے نیک اور زندگی واال دے۔ دوکڑ نے لہمہ لگایا او نئیں یار وہ کوئی دائی ہے جو کیس اس نے کرنا ہے۔ آج اس کی کمیٹی نکلنی تھی‘ ادھر ہی گیا ہو گا۔ بگڑ نے اپنی چھوڑی۔ ہاں ہاں یہ ہی بات ہے۔ نکے نے گرہ لگائی چھوڑو یار اس کا کیا ہے کہو کچھ کرتا کچھ ہے۔ گھر سے کچھ لینے آیا ہو گا‘ ادھر بیٹھ کر گپیں ہانکنے لگا۔ اب دو گھنٹے بعد یاد آیا ہو گا‘ تب ہی تو دوڑکی لگا کر گیا ہے۔ بیگم شری سے چھتر کھا رہا ہوگا۔ اس کی اس بات پر سب ہنس پڑے کالیے کی بات میں دم تھا لیکن مہاجے نے اپنی ہی کہہ دی۔ کسی مار پر گیا ہے ورنہ اس طرح سے نہ بھگ نکلتا۔ تم کیا جانو‘ جانو بڑا سیانا ہے۔ اسے ملنے گیا ہوگا۔ شبے نے ایک اور ہی شگوفہ چھوڑا۔
اسے کیسے نیکو نے حیرت سے پوچھا تمہیں نہیں پتا نہیں تو ادھر کان کرو‘ بیبو بیبو کون واہ گاؤں میں خاک رہتے ہو جگو کی بیٹی ہائیں‘ میں یہ کیا سن رہا ہوں جی ہاں بڑا چھپا رستم نکال پس دیوار کی کے سیکڑوں معنی نکالے جاتے ہیں ،لیافوں اندازوں کا انبار لگ جاتا ہے۔ سب لریب لریب کی کہتے چلے جاتے ہیں۔ کھوج یا اسرار کھلنے کے ولت کا کوئی انتظار نہیں کرتا۔ منچلے اپنی اپنی تشریح و وضاحت میں مصروف تھے کہ جانو آ ہی گیا اور سر سٹ کر بیٹھ گیا۔ سب اس کے منہ کی طرف دیکھنے لگے۔ یار کچھ بکو گے یا یوں ہی منہ لمکائے بیٹھے رہو گے۔ بگی نے پوچھا
کام نہیں ہوا۔ جانو نے تمریبا روتے ہوئے کہا بڑا دکھ ہوا جانو یار لیکن کون سا کام۔ بگی نے افسوسیہ انداز اختیار کرتے ہو۔ یار تم لوگ جانتے ہو معدے کا مریض ہوں۔ آج تین دن ہوئے پوٹی نہیں آئی۔ لگا تھا پوٹی آئی ہے۔ لیٹرین میں بیٹھ بیٹھ کر تھک گیا۔ صرف ہوا سری ہے۔ ہار کر اٹھ آیا ہوں۔ سب اس کا جواب سن کر ہنسنے لگے۔ واہ جی واہ‘ کھودا پہاڑ نکال چوہا جگو نے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ او جگو یار تم جاہل ہو نا۔ جانو نے جوابا کہا ہاں جی میں جاہل ہوں تم تو دلی سے ایم آ پاس کرکے آ گئے ہو نا۔ پاگل لبض تمام بیماروں کی ماں ہے۔ میرے اندر جو لیامت بپا ہے وہ میں ہی جانتا ہوں۔ جانو نے روتے ہوئے کہا ماحول ناخوشگوار ہو گیا۔ چند لمحوں کے لیے سب کو چپ سی لگ گئی۔ جگو ہی نے سوگواری سی توڑتے ہوئے کیا۔ یار کیوں پریشان ہوتے ہو‘ ہللا بھلی کرے۔
آخری کوشش درندے کے لدموں کی آہٹ اور بھی لریب ہو گئی تھی۔ اس نے سوچا اگر اس کے دوڑنے کی رفتار یہی رہی تو جلد ہی درندے کے پنجوں میں ہو گا۔ اس نے دوڑنے کی رفتار اور تیز کر دی۔ پھر اس نے سوچا کیا وہ اور اس جیسے کمزور طالتور کے آگے دوڑنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں؟ جب اور جہاں کمزور کی رفتار کم پڑ جاتی ہے طالتور دبوچ لیتا ہے۔ اس کے بعد زندگی کا ہر لمحہ طالتور کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ چند لمحوں کے ذہنی سکون کے بعد طالتور چیر پھاڑ کر اپنی مرضی کے حصے کھا پی کر جان بناتا ہے۔ لمحہ بھر کے لیے بھی وہ یہ سوچنے کی ذحمت گوارا نہیں کرتا کہ کمزور کے دودھ پیتے بچوں کا کیا ہو گا۔ اس کے جانے کے بعد اس سے کم طالتور بمیہ پر بڑی بے دردی سے ٹوٹ پڑتے ہیں اور وہ بوٹی بوٹی نوچ لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہڈیوں پر بھی رحم کھایا نہیں جاتا۔ کھایا بھی کیوں جائے ہڈیاں فاسفورس کی کانیں ہیں۔ بٹنوں کے لیے ان کی ضرورت رہتی ہے۔ اس کے بھاگنے کی رفتار میں مزید اضافہ ہو چکا تھا۔ سوچ خوف اور بچ نکلنے کی خواہش نے اس کے جسم میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کا احساس تک نہ ہونے دیا۔ وہ ہر حالت میں
دشمن کی گرفت سے باہر نکل جانا جاہتا تھا لیکن دشمن بھی اسے بخش دینے کے موڈ میں نہ تھا کیونکہ اس کی رفتار میں بھی ہر اضافہ ہو گیا تھا۔ موت کا گھیرا تنگ ہو گیا تھا۔ اس کے سامنے کھال میدان دائیں دریا بائیں گہری کھائی اور پیچھے خونخوار درندہ تھا۔ رستے کے انتخاب کے حوالہ سے یہ بڑی سخت گھڑی تھی۔ پھر وہ بائیں مڑ گیا۔ اس نے جسم کی ساری طالت جمع کرکے کھائی تک پہنچنے کی کوشش کی۔ درندہ فمط ایک لدم کے فاصلے پر رہ گیا تھا۔ اس سے پہلے درندے کا پنجہ اس کی گردن پر پڑتا اس نے کھائی میں چھالنگ لگا دی۔ درندے کے اپنے لدم اس کی گرفت میں نہ رہے۔ کوشش کے باوجود رک نہ سکا اور وہ بھی گہری کھائی کی نذر ہو گیا۔ کمزور کے جسم کی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں اور دم اکھڑ رہا تھا۔ اس نے سراٹھا کر دیکھا کچھ ہی دور درندہ پڑا کراہ رہا تھا۔ اس کی ٹانگیں ٹوٹ گئی تھیں۔ بھوک درد کے زنداں میں ممید ہو گئی تھی۔ کمزور کے چہرے پر آخری مسکراہٹ صبح کازب کے ستارے کی طرح ابھری۔ اس کی آخری کوشش رنگ ال چکی تھی۔ اسے اپنی موت کا رائی بھر دکھ نہ تھا۔ اس نے خود یہ رستہ منتخب کیا تھا۔ اب یہ درندہ کبھی کسی کمزور کا وحشیانہ
تعالب نہ کر سکے گا اور اس کی ٹانگوں سے ہمیشہ اف اف اف کے بزدل نعرے بلند ہوتے رہیں گے۔
مکرم بندہ جناب حسنی صاحب :تسلیمات فی زمانہ نثر نگاری کا فن زنگ آلود ہو چالہے۔ کوئی رسالہ بھی اٹھا کر دیکھئے توسوائے چند اوسط درجہ کے افسانوں اور چند منظومات (غزل اور آزاد نظمیں) کے عالوہ کچھ اور نظر نہیں آتا۔ ماضی میں رسالوں میں ادبی ،علمی اور تحمیمی مضامین کثرت سے ہوا کرتے تھے۔ تنمید و تبصرہ فن کی حیثیت سے سیکھے اور سکھائے جاتے تھے اورافسانہ نگاری بھی اونچے معیار کی حامل تھی۔ اب ادب پر ایک عمومی زوال تو طاری ہے ہی نثر نگاری خصوصا اضمحالل کا شکار ہے۔ غزل کہنا لوگ آسان سمجھتے ہیں (حاالنکہ ایسا نہیں ہے)۔ غزل میں ولت کم لگتا ہے اور نظم میں اور نثر میں زیادہ ۔ نثر مطالعہ اور تحمیك بھی چاہتی ہے جس سے ہماری نئی نسل بیگانہ ہو کر رہ گئی ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ کوئی زبان بھی صرف ایک صنف سخن کے بل بوتے پر پھل پھول نہیں سکتی لیکن اردو والے اس معمولی سی حمیمت سے یا تو والف ہی نہیں ہیں یا دانستہ اس سے صرف نظر کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ کی اردو محفلیں بھی اسی مرض کا شکار ہیں اور وہاں بھی سوائے معمولی غزلوں کے (جن میں سے بیشتر تک بندی ہوتی ہیں) کچھ اور نظر نہیں آتا۔
آپ کی نثرنویسی میں مختلف کوششیں اس حوالے سےنہایت خوش آئند ہیں۔ آپ مطالعہ کرتے ہیں ،سوچتے ہیں اور انشائیے لکھتےہیں۔ اس جدوجہد کو لائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ میں اپنی مثال کسی خودستائی کی شہ پر نہیں دیتا بلکہ دوستوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ شوق،محنت اور لگن ہو تو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ میں نے انجینیرنگ پر نصابی کتابیں لکھی ہیں۔ ان کے عالوہ غزل ،نظم ،افسانے ،ادبی مضامین ،تحمیمی مضامین، ادبی تنمید وغیرہ سب ہی لکھا ہے۔ یمینا سب کچھ اعلی معیار کا نہیں ہے لیکن بیشتر اچھے معیار کا ہے اور ہندو پاک کے معتبر اور مولر رسالوں میں شائع ہوتا ہے۔ میں آپ کی انشائیہ نگاری کا مداح ہوں اور درخواست کرتا ہوں کہ برابر لکھتے رہہئے۔ زیر نظر انشائیہ اچھا ہے لیکن یہ مزید بہتر ہو سکتا تھا سو اپ ولت کے ساتھ خود ہی کر لیں گے۔ خاکسار کی داد حاضر ہے ۔ بالی راوی سب چین بولتا ہے۔ سرور عالم راز
ُمحترم جناب ڈاکٹر ممصود حسنی صاحب! سالم اس تحریر پر ہم کُچھ نہ لکھیں گے۔ فمط یہی کہ اسے پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور تحریر کے اختتام کے لریب سانسیں ُرک جاتی ہیں۔ اور پھر منہ ک ُھال کا ک ُھال رہ جاتا ہے۔ اس کے اندر جو کرب ہے اور جو کُچھ یہ انگلیاں لکھنے کو دوڑ رہی ہیں ،اُسے بصد مشکل روکتے ہوئے ،ایک بار پھر سے بھرپور داد ۔۔۔ دُعا گو وی بی جی http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7975.0
تیسری دفع کا ذکر ہے پہلی دفعہ کا ذکر اس لیے اتنا اہم نہیں کہ یہ دو ٹوک تھا اور اس کے ساتھ کوئی والعہ ،معاملہ یا مسلہ وابستہ نہیں۔ میں بیمار پڑا۔ طبعیت ضرورت سے زیادہ بوجھل تھی۔ طبعیت خراب ہو تو ہائے وائے کی آوازیں ناچاہتے ہوئے بھی بےساختہ بل کہ از
خود منہ سے نکل جاتی ہیں۔ اگر توجہ اور خدمت کی تمنا ہو تو آدمی اس ذیل میں منہ کا سپیکر لدرے بلند کر دیتا ہے۔ یمین مانیے میں سچ مچ میں بیمار تھا اس لیے خصوصی توجہ کا طالب بھی تھی۔ خیال تھا کہ میرے پورے گھر والی پریشان ہو کر توجہ دے گی۔ میرا یہ خیال خاک کا شکار ہو گیا جب اس نے کہا نیچے چلے جاؤ کہٰ یں میرے متھے لگتے ہو۔ میں کپڑے جھاڑتا ہوا نیچے آ گیا۔ ایک بیمار تھا اوپر اس بے رخی کا صدمہ بھی ہوا۔ چوں کہ پہلی دفعہ کا ذکر دو لمحوں کا تھا اس لیے اسے دفع کو ماریے۔ دوسری دفعہ چوں کہ بے ہوشی کی حالت ناسہی نیم بےہوشی کی کیفیت ضرور تھی۔ ہسپتال سے چوتڑوں اور بازوں پر کئی ایک ٹیکے لگوا کر گھر الیا گیا۔ چوتڑوں کے ٹیکے اس لیے محسوس نہ ہوئے کہ پیاری سی نرس نے دلی ہم دردی سے لگائے تھے‘ ہاں البتہ بازو ضرور دکھے کہ وارڈ بوائے نے پوری بےدردی سے لگائے تھے۔ چھوٹی گھروالی کا ہسپتال جا کر پوچھنا تو بہت دور کی بات ہے اسے گھر میں آ جانے کے بعد آدھی زبان سے پوچھنے تک کی توفیك نہ ہوئی۔ میں نیم مردہ سی حالت میں لیٹا ہوا تھا۔ اچانک اسے کوئی خیال آیا‘ پھر کیا تھا کہ بالتکان دو گھنٹے
انتالیس منٹ بولتی رہی۔ لب لباب یہ تھا کہ میں نے بیمار ہونے کا محض ڈونگ رچایا ہے۔ بیمار اس کا ابا ہوا تھا اور عالج معالجے کے باوجود لبر میں جا بسیرا کیا۔ اگر میں بیمار ہوا ہوتا تو الش گھر پر آتی۔ اس کی بات میں چوں کہ دم تھا اس لیے دوسری دفع کو بیچ میں النے کی ایسی کوئی خاص وجہ نظر نہیں آتی۔ ہاں البتہ تیسری دفع اوج کمال کو چھوتی نظر آتی ہے اس لیے اس کا ذکر خصوص میں داخل کرنا اصؤلی سی بات نظر آتی ہے۔ ہوا یہ کہ میں بیمار پڑا تو میری ہائے اوے ہائے اوے کے نعروں سے بےزار ہو گئی۔ ٰمیں بھی تو بالولفہ اور بالتکان یہ آوازے کسے جا رہا تھا۔ ان آوازوں سے اس کا سر بوجھل ہو گیا۔ کچھ بولی تو نہ‘ البتہ سر پر کپڑا باندھ کر باہر صحن میں بیٹھ گئی اور میری آخری سانس کا انتظار کرنے لگی۔ آخری سانس بڑی ڈھیٹ تھی‘ کم بخت نہ آئی۔ میں نے اس کی آوازاری محسوس کر لی اور پوری طالت سمیٹ کر بیٹھک میں آ کر صوفے پر لیٹ گیا۔ پتا نہیں رات کتنی دیر تک صوفے پر لیٹا رہا‘ جب لدرے بہتری ہوئی تو جا کر چارپائی پر لیٹ گیا۔ میرے پاؤں کی آہٹ سے جاگ گئی لیکن سونے کا ناٹک جاری رکھا۔ میں نے بھی ڈسٹرب کرنا مناسب نہ سمجھا اور چپکا رہا۔
ہللا کے احسان سے رات گزر گئی۔ ٹھیک سے ٹھیک نہ ہوا‘ ہاں البتہ پہلے سے لدرے بہتر ضرور تھا۔ میں نے اس کی جانب یوں ہی بالوجہ دیکھ لیا۔ چہرے پر بیمار ہونے کی کیفیت طاری کر لی۔ میں نے فورا سے پہلے نگاہ نیچی کر لی۔ آدھ گھنٹے بعد چارپائی لگ گئی۔ پوچھا کیا ہوا۔ سخت بیمار ہوں۔ میں پوچھنا چاہتا تھا ابے والی بیمار ہو یا میرے والی بیماری ہے۔ چپ رہا‘ جانتا تھا آج اور آتا کل بےمزگی میں گزرے گا۔ اس کا کہنا تھا کہ میری شوگر چھے سو ستر پر پہنچ گئی ہے۔ بی پی بھی ہائی ہو گیا ہے۔ صبح سے مسلسل اور متواتر الٹیاں کر رہی ہوں۔ سر پھٹ رہا ہے۔ ایک دو بیماریاں اور بھی گنوائیں۔ میں نے کہا ہللا آسانی پیدا کرے گا۔ کہنے لگی سب ہللا پر چھوڑے رکھنا‘ خود سے کچھ نہ کرنا۔ چاہا کہ کہوں سر دبا دیتا ہوں پھر فورا خیال آیا بچو شام تک اسی کام میں رہو گے۔ مجبور لدموں چلتا ہوا بازار گیا نان چنے اور ساتھ میں حفظ ما ماتمدم سالئس اور انڈے بھی لے آیا۔ بےچاری نے اوکھے سوکھے ہو کر دونوں نان چنے اور ایک انڈا ڈکار لیا۔ اصوال بہتری آ جانی چاہیے تھی‘ لدرے آ بھی گئی۔ ہللا کا شکر ادا کیا زبان کی کوترا کتری سے بچ گیا ہوں۔ شام تک حاالت درست رہے۔ شام کو فائرنگ شروع ہو گئی۔ وجہ یہ تھی کہ نان چنے اور انڈے سالئس تو لے آئے لیکن منہ میں بڑ بڑ کر رہے تھے‘ حاالں کہ ایسا نہیں تھا۔ تاہم دیر تک چل سو چل ہی رہی اور میں بھول گیا کہ بیمار ہوں۔
انگلی
مہاجا بڑے سکون اور آرام سے دکان پر بیٹھا‘ دودھ اوبال رہا تھا‘ ساتھ میں ُپڑوسی دکان دار سے باتیں کیے جا رہا تھا اور دودھ میں کڑچھا بھی مارے جا رہا تھا۔ اس کا پالتو بال اس کی نشت کے نیچے‘ پرسکون بیٹھا ہوا تھا۔ ولت بال کسی پریشانی کے گزر رہا تھا۔ کوئی نہیں جانتا کہ اگلے لمحے کیسے ہوں گے۔ سب جانتے ہیں‘ شیطان انسانی سکون کا دشمن ہے۔ انسان کی پرسکون زندگی‘ اسے ہمیشہ سے کھٹکتی آئی ہے۔ اس نے ایک انگلی‘ جس پر ایک یا دو بوند ہی دودھ چڑھا ہو گا‘ سامنے دیوار پر لگا دی۔ دودھ پر مکھیاں عاشك ہوتی ہیں‘ جھٹ سے مکھیاں دیوار پر لگے دودھ پر آ گئیں۔ جہاں مکھیاں ہوں‘ وہاں چھپکلی کا آنا غیرفطری نہیں۔ جھٹ سے ایک چھوڑ‘ کئی چھپکلیاں آ گئیں۔ بال چھپکلیوں کو برداشت نہیں کرتا وہ چھپکلیوں پر جھپٹا‘ اتفاق دیکھیے اسی لمحے‘ ایک نواب صاحب اپنے ٹومی سمیت ادھر سے گزرے۔ ٹومی بلے کو
کیسے برداشت کرتا۔ وہ بلے پر بڑی تیزی سے جھپٹا۔ بال دودھ میں گر گیا۔ ردعمل ہونا فطری سی بات تھی۔ مہاجے نے پوری طالت سے ٹومی کے سر پر کڑچھا مارا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ نواب صاحب ٹومی کی بےحرمتی اور اس پر ہونے واال یہ تشدد کیسے دیکھ سکتے تھے۔ انہوں نے چھے کی چھے مہاجے کے سینے میں اتار دیں۔ مہاجا اتنی بڑی فیملی کا واحد کفیل تھا چل بسا۔ پوری فیملی الغر و اپاہج ہو گئی۔ وہ کیا کر سکتے تھے بس لسمت کو ہی کوس سکتے تھے۔ نواب صاحب کا کیا بگڑنا تھا۔ یہ لوگوں کا کب سنوارتے ہیں لوگ ان کا گلپ کرنے اور ظلم سہنے کے لیے جنم لیتے ہیں۔ ان کا گلپ ہی التداری طور رہا ہے اور شائد رہے گا۔ ان پر یا ان کے کیے پر انگلی اٹھانے والے زہر پیتے رہیں گے سولی چڑھتے رہیں گے۔ التدار کا یہ ہی اصولی فیصلہ رہا ہے۔ حال کیا مستمبل لریب میں بھی ان سے مکتی ملتی نظر نہیں آتی۔ لصوروار کون تھا صاف ظاہر ہے مہاجا۔۔ نواب کبھی غلطی پر
نہیں یا شیطان کوسنوں کی زد میں رہے گا۔ کوئی خود کو سدھارنے لی جسارت نہیں کرے گا۔ جی ہاں‘ یہ ہی سچ اور یہ ہی حمیمت ہے۔
آخری تبدیلی کوئی نہیں :نوٹ ہم چھوٹے چھوٹے چھوٹے ہوا کرتے تھے مخدومی و مرشدی بابا جی سید غالم حضور حسنی اس طرح کی کہانیاں سنایا کرتے تھے۔ وہ کہانیاں آج بھی لوح دل پر نمش ہیں۔ دن کبھی ایک سے نہیں رہتے۔ ہر لمحہ تبدیلی سے گزرتا ہے اور کل من عیھا فان کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ بھلے ولتوں کی بات ہے۔ دو دوست ہوا کرتے تھے۔ ایک سوداگر جب کہ دوسرا کوئی کام نہیں کرتا تھا۔ ایک دن سوداگر دوست نے کہا فارغ رہنے سے ولت نہیں گزرتا۔ ضرورتیں تو منہ پھاڑے رہتی ہیں۔ آؤ تمہیں اوبےنگر کی فوج میں بھرتی کرا دیتا ہوں۔ اس کی ریاست اوبے نگر میں ولفیت تھی لہذا جلد ہی
اس کا دوست فوج میں بھرتی ہو گیا۔ دونوں کو خوشی ہوئی۔ بات بھی خوشی والی تھی کہ روٹی کا سلسلہ چل نکال۔ دو چار سال کے بعد اس کا ادھر سے گزر ہوا۔ اس نے سوچا کیوں نہ دوست ہی سے مل لوں۔ چھاؤنی گیا۔ اس نے پوچھا سپاہی تیغا رام کدھر ہوتا ہے۔ پتا چال اچھی کارگزاری کی وجہ سے وہ حوالدار ہو گیا ہے۔ اسے خوشی ہوئی کہ اس کا دوست ترلی کر گیا ہے۔ دونوں کی ماللات ہوئی۔ سوداگر دوست نے :اپنی خوشی کا اظہار کیا تو جوابا تیغا رام نے کہا یار دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔ اسے دوست کے جواب پر حیرانی ہوئی۔ کچھ نہ کہا‘ چپ رہا۔ ولت اپنی مرضی‘ مزاج اور روٹین کی ڈگر پر چلتا رہا۔ شخص اوروں سے بےنیاز اپنے اپنے طور سے روٹی ٹکر تالشنے میں مصروف تھا۔ سوداگر بھی سوداگری میں مصروف تھا۔ اس کا روٹین میں اوبےنگر جانا ہوا۔ اس نے اپنے دوست حوالدار تیغا رام کا چھاؤنی میں جا کر پوچھا۔ وہاں سے پتا چال تیغا رام صوبےدار ہوگیا ہے۔ اس خبر نے اسے خوشی سے نہال کر دیا۔ ماللات پر اس نے مبارک باد دی۔ تیغا رام نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
یار دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔ تیغا رام موج اور ٹھاٹھ کی گزار رہا تھا۔ حیرانی تو ہونا ہی تھی لیکن وہ چپ رہا۔ جواب میں کیا کہتا۔ سالوں میں تبدیلی تو آئی تھی۔ تیغا رام غلط نہیں کہہ رہا تھا۔ کچھ سالوں کے بعد سوداگر کا اوبے نگر سے گزر ہوا۔ وہ اپنے دوست تیغا رام سے ملنے چال گیا۔ وہاں سے معلوم پڑا کہ وہ بادشاہ کا منظور نظر ہو گیا ہے اور وزیر ممرر کر دیا گیا ہے۔ اس نے سوچا وزیر ہو گیا تو کیا ہوا میرا تو دوست ہے۔ بامشکل ماللات ہوئی۔ سوداگر نے اپنی خوشی کا اظہار کیا تو جوابا تیغا رام نے وہ ہی پرانا ڈائیالگ دوہرا۔ اس کا کہنا غلط نہ تھا‘ لہذا اس نے ہاں میں ہاں مالئی اور تھوڑا ولت گزار کر رخصت ہو گیا۔ جب لسمت کا ستارہ زحل سے نکل کر مشتری میں آ جائے انسان کچھ سے کچھ ہو جاتا۔ اوبےنگر کے بادشاہ کی موت کے بعد بادشاہی تیغا رام کے ہاتھ میں آئی۔ اصل بات یہ تھی کہ تیغا رام کی عادات میں تبدیلی نہ آئی۔ وہ اپنے سوداگر دوست سے اسی طرح پیش آیا۔ پہلے کی طرح کھل ڈھل کر گپ شپ لگائی۔ اس کا کہنا وہ ہی رہا کہ
دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔ سوداگر حیران تھا کہ تیغا رام ترلی کی آخری سیڑھی کراس کر گیا اب بھی اسی بات پر ہے۔ اس سے آگے تو زندگی میں کچھ بھی نہیں۔ وہ اسے ڈائیالگ سمجھ کر چپ رہا۔ اگلی بار جب سوداگر اوبے نگر آیا تو اسے معلوم پڑا کہ بادشاہ تیغا رام انتمال کر گیا ہے۔ شہر کے باہر کھلے میدان میں چاردیواری کے اندر اس کی یادگار بنائی گئی تھی۔ مختلف طرح کے پودے لگائے گئے تھے۔ اسے خوب صورت بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی تھی۔ لوح یادگار پر تحریر کیا گیا تھا عادل بادشاہ مہاراج تیغا رام دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے سوداگر حیران تھا اب آخری تبدیلی بھال کیا آئے گی۔ موت کے بعد بھال کیا تبدیلی آ سکتی ہے۔ سوداگر کا اوبے نگر میں وہ آخری پھیرا تھا۔ وہ تیغا رام کی آخری یاگار کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ماضی کا ہر لمحہ شعور کے دریچوں سے جھانک رہا تھا۔ اس کی آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں۔ اس نے سوچا تیغا رام درست کہتا تھا کہ دن وہ نہیں رہے دن یہ
بھی نہیں رہیں گے۔ وہ سوچ رہا تھا اب بھال اور کیا تبدیلی آئے گی۔ جب وہاں پہنچا تو دیکھا وہاں دریا بہہ رہا تھا۔ اس کے منہ ‘سے بےاختیار نکل گیا دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔
کھڑ پینچ دی جئے ہو۔
ہیلو مسٹر! یو ار سویٹ اینڈ لولی ہوم غور منٹ کمپلینٹ اس دیٹ یو پھڑکائیٹڈ ہر برسرعام السٹ ڈے۔ وائی۔ نو حجور شی از جھوٹ مارنگ۔ آئی اونلی ون ویری سلو مکا ماریڈ او مائی گاڈ‘ یو بےغیرت مین۔ وائی یو مکا ماریڈ ہر ان دی بازار۔ یو نو پیپل ور ویکھنگ اینڈ الفنگ ایٹ یو آئی ایم ناٹ بےغیرت حجور شی از بےغیرت بی کاز شی مارڈ می سو مےنی لیترز ویری ٹھوک ٹھوک کر پیوپل ور الفنگ ایٹ
ہر ری ایکشن اٹ از یو ار کیس وچ مے بی ڈسکسڈ لیٹر اون۔ فسٹ ٹل اس وائی یو مکا مارڈ حجور اٹ از آ شیم فل سٹوری اینڈ کن ناٹ ناریٹ ان دی پنچایت ڈونٹ وری یو گلٹی کمی کمین حجور آئی ناٹ کمی کمین۔ مائی کاسٹ از انصاری او یس یو مین جوالیا ،آئی نو یو ار جوالیا۔ جوالیا کاسٹ از ان فیکٹ کمی کمین۔ وائل یو ار ہوم گورمنٹ از لریشی گویا شی از ناٹ کمی کمین یس حجور شی از مراسی۔ ڈونٹ بارک‘ ان فیکٹ دس ورڈ از مراثی۔ از آئی ایم رائٹ او یو سویٹ اینٍڈ جنٹل لیڈی حجور یو ار ابسلوٹلی رائٹ او مین ناؤ سم تھنگ ہریلی پہونکو حجور شی ہیز ناٹ ذرا بھورا شرم وٹ ہپنڈ ٹل اس حجور شی واز ممانائزنگ ان دی بازار
او مائی گارڈ واٹس آمیزنگ سیچویشن ول بی گوئنگ دیئر او جنٹل اینڈ سویٹ لیڈی شو اس یو ار فن شی سٹارٹیڈ ہر فن ود آؤٹ اینی ہیزیٹیشن۔ ایوری ون انجوائڈ اٹ اے الٹ او مسٹر جوالہے طالق ہر ایٹ دی سپاٹ اینڈ یو دفع دفان فروم ہیئر۔ شی ہیز اے ونڈرفل کوالٹی۔ ان فیوچر شی ول سٹے ہیئر۔ وین مسٹر جوالیا ڈو نٹھنگ ون مین گٹ اپ اینڈ رکھڈ پنج ست لتر ایٹ ہیز بوٹم۔ ہی گیو طالق دایٹ سویٹ ممانئیزر اینڈ دوڑ لگائیڈ۔ اٹ واز اے نائس فیصلہ۔ پیوپل واز ریزنگ سلوگن کھڑ پینچ دی جئے ہو۔ ناؤ آ ڈئیز شی از سرونگ ایٹ کھڑ پینچز ڈیرہ اینڈ ارننگ اچھی خاصی اماؤنٹ ود نائس فیم۔ شی ہیزناٹ کمپلینٹ فروم اینی سائڈ۔ پیوپل ار سیٹسفائیڈ اینڈ ہیپی فروم دیئر چودھری ساب۔
جذبے کی سزا نو منی افسانے
ممصود حسنی ابوزر برلی کتب خانہ نومبر ٢٠١٦