جذبے کی سزا

Page 1


‫جذبے کی سزا‬ ‫نو منی افسانے‬

‫ممصود حسنی‬ ‫ابوزر برلی کتب خانہ‬ ‫نومبر ‪٢٠١٦‬‬


‫فہرست‬ ‫میں کریک ہوں ‪١-‬‬ ‫ان ہونی‘ ان ہونی نہیں ہوتی ‪٢-‬‬ ‫جذبے کی سزا ‪٣-‬‬ ‫ہللا بھلی کرے ‪٤-‬‬ ‫آخری کوشش ‪٥-‬‬ ‫تیسری دفع کا ذکر ہے ‪٦-‬‬ ‫انگلی ‪٧-‬‬ ‫آخری تبدیلی کوئی نہیں ‪٨-‬‬ ‫کھڑ پینچ دی جئے ہو ‪٩-‬‬

‫میں کریک ہوں‬ ‫ببو ہمارے محلے کا اکلوتا دکان دار ہے۔ برا نہیں تو اچھا بھی‬ ‫نہیں۔ بےایمان نہیں تو اسے ایمان دار بھی نہیں کہا جا سکتا۔‬


‫میری اس سے کوئی گہری سالم دعا نہیں‘ بس راہ چلتے ہیلو‬ ‫ہائے ہو جاتی ہے۔‬ ‫اس نے دکان بدلی تو میں نے پوچھا‪ :‬دکان کیوں بدلی ہے۔ کہنے‬ ‫لگا‪ :‬ایک تو تنگ تھی سودا پورا نہیں آتا تھا دوسرا ٹپکنے لگی‬ ‫تھی۔‬ ‫میں نے کہا چلو تم نے ٹھیک کیا۔ یہ کہہ کر کام پر روانہ ہو گیا۔‬ ‫رستہ وہ ہی تھا واپسی پر سالم دعا کے بعد میں نے دکان بدلنے‬ ‫کی وجہ دریافت کی۔ اس نے بال تردد و ترمیم وہ ہی وجہ بتائی۔‬ ‫اگلے دن جمعہ تھا‘ چھٹی ہونے کے سبب میں نے سارا دن گھر‬ ‫پر ہی گزرا۔‬ ‫ہفتے کو کام پر جاتے ہوئے اس کے پاس رکا۔ دعا سالم اور حال‬ ‫احوال پوچھنے کے بعد دکان بدلنے کی وجہ پوچھی۔ اس نے‬ ‫میری طرف بڑے غور سے دیکھا اور وہ ہی وجہ بتائی۔ وہ‬ ‫مجھے بھلکڑ سمجھ رہا تھا۔‬ ‫اس کے ساتھ زیادہ تعلمات ہی نہ تھے اور بات کیا کرتا۔ یہ ہی‬ ‫ایک بات تھی جو اس سے آتا جاتا کرتا۔ واپسی پر حسب معمول‬ ‫رکا۔ سالم بالیا حال احوال پوچھا اور دکان بدلنے کی وجہ‬ ‫پوچھی۔ وہ اونچی اونچی بولنے لگا اور مجھ سے لڑ پڑا۔‬ ‫لگتا تھا کہ ہاتھا پائی پر اتر آئے گا۔ میں بھی ذہنی طور پر‬ ‫بھاگنے کے لیے تیار تھا۔ مجھے معلوم تھا دوڑ میں وہ میرا‬


‫ممابلہ نہیں کر سکے گا۔ وہ تو خیر ہوئی لوگ جمع ہو گئے اور‬ ‫لڑنے کی وجہ پوچھی۔ وہ چوں کہ زور زور سے بول رہا تھا‬ ‫اس لیے میں نے بڑے تحمل سے وجہ بتا دی۔ ساتھ میں یہ بھی‬ ‫کہا میرا ببو سے کوئی خاص تعلك واسطہ نہیں اس لیے سالم‬ ‫دعا کی برلراری کے لیے پوچھ لیتا ہوں۔ یہ غصہ کر گیا ہے۔‬ ‫اس میں غصہ کرنے والی ایسی کون سی بات ہے۔‬ ‫سب ہنسنے لگے اور مجھے کہا باؤ جی آپ جائیں۔ اسی طرح‬ ‫کچھ ببو کو ٹھنڈا کرنے لگے۔ ایک بندے نے ببو کی طرف دیکھ‬ ‫کر سر پر انگلی رکھی۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ میں کریک ہوں۔‬ ‫میں جعلی سنجیدگی سے ہولے لدمدں سے اپنے گھر کی جانب‬ ‫بڑھ گیا۔‬

‫ان ہونی‘ ان ہونی نہیں ہوتی‬ ‫تھیال مردود ہیرا پھیری اور دو نمبری میں بےمثل اور بےمثال‬ ‫رہا جب کہ تھیال شکی زندگی کے ہر معاملے کو شک و شبہ کی‬ ‫نظروں سے دیکھنے میں ضرب المثل چال آتا تھا۔ اس کا کہنا کہ‬ ‫کچھ بھی خالص نہیں رہا۔ جعلی بھی اصلی کے موافك دکھتا ہے‘‬ ‫کو سو فی ناسہی کسی ناکسی فی صد تو درست ماننا ہی پڑے‬


‫گا۔‬ ‫تھیال مردود بات اس انداز سے کرتا کہ اس کا کہا اصلی سے‬ ‫بھی دو چار لدم آگے نکل جاتا۔ جسے ہاتھ لگے ہوئے ہوتے وہ‬ ‫بھی دھوکہ کھا جاتا۔ بات کہے تک ہی محدود نہ تھی‘ اس کا کیا‬ ‫بھی عین اصلی کی چغلی کھا رہا ہوتا۔ اسی ولت نہیں‘ بہت بعد‬ ‫میں کھلتا کہ وہ تو سراسر فراڈ تھا لیکن اس ولت جھانسے میں‬ ‫آنے والے کا کھیسہ خالی ہو چکا ہوتا۔ لٹے کی باریابی کے لیے‬ ‫وہ مزید بل برابر اور بار بار لٹتا چال جاتا۔‬ ‫ہم سب تھیلے شکی کے کہے کو بکواس کا نام دیتے رہے‘ بل‬ ‫کہ اس کا مذاق اڑاتے رہے۔ اس کا کہنا تھا کہ پیرو نے اس کے‬ ‫باپ اور بہن کو تعویز ڈال ڈال کر مارا۔ میری ماں نے پیرو سے‬ ‫نکاح تو کر لیا لیکن اپنے خاوند اور بیٹی کا لتل اسے مرتے دم‬ ‫تک معاف نہ کیا۔ اس کا یہ کہا میں نے بمشکل ہنسی پر لابو پا‬ ‫کر سنا۔ وہاں تو اس کی ہاں میں مالئی لیکن گھر آ کر خوب ہنسا‬ ‫اور انجوائے کیا۔ ایسی بات پیٹ میں کب رہتی ہے۔ دوستوں کو‬ ‫بھی لطف اندوز کیا۔ دشمنی کا یہ انداز‘ یمین مانیں بالکل انوکھا‬ ‫اور الگ سے لگا۔ نکاح بھی خاوند اور بیٹی کے لاتل سے کیا‬ ‫اور معاف بھی نہ کیا۔ عجیب اور سمجھ سے باال لوجک تھی۔‬ ‫دوسرا اگر تعویزوں سے لوگ مرنے لگتے تو آج دنیا میں ایک‬


‫بھی زندہ نہ پھرتا۔‬ ‫یہ بات عجیب بھی ہے اور فوق الفطرت بھی۔ یہ تو ایسی ہی بات‬ ‫ہے کہ کوئی آپ سے کہے کہ کل میں نے مگرمچھ کو جاگتے‬ ‫میں اڑتے دیکھا۔ ایسی بات کہنے واال پاگل ہی ہو سکتا ہے یا وہ‬ ‫آپ سے شغال لگا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے‘ بےولوف بنا رہا ہو۔‬ ‫بکری صدیوں سے ہاتھی چٹ کرتے آئی ہے لیکن مگرمچھ‬ ‫اڑتے نہیں دیکھا گیا۔ عالمتا مگرمچھ ہی اڑتے آئے ہیں۔ مزے‬ ‫کی بات دیکھیے اس کی عملی صورت دیکھنے میں آ گئی۔ اس‬ ‫کا مطلب یہ ٹھہرے گا‘ ان ہونی‘ ان ہونی نہیں رہی۔ گویا‬ ‫مگرمچھ کا اڑنا‘ غلط نہیں رہا۔ کہنے والے نے مگرمچھ کو‬ ‫ضرور اڑتے دیکھا ہو گا۔ یعنی مگرمچھ کی اڑان امکان میں‬ ‫داخل ہے۔‬ ‫سدی پڑھا لکھا احمك اور یبل ہے۔ لکھائی پڑھائی کی بات کرو‘‬ ‫فٹافٹ وہ کچھ بتال دے گا جو کسی کے خواب وخیال میں نہیں ہو‬ ‫گا۔ زبانی کالمی سماجیات میں بھی بڑا کمال کا ہے۔ عملی طور‬ ‫پر منفی صفر سے بھی گیا گزرا ہے۔ ہللا نے اسے دو بیٹے عطا‬ ‫فرمائے۔ بڑا لڑکا کچھ سال اور چھوٹا لڑکا کچھ دن کا تھا کہ‬ ‫بیوی انتمال کر گئی۔ بآمر مجبوری اسے شادی کرنا پڑی‘ جس‬ ‫عورت سے شادی کی زبان طراز تو تھی ہی‘ بانجھ بھی تھی۔‬


‫تھیال مردود جو اس کا بہنوئی تھا نے سدی یبل کی بہن کو‬ ‫ہاتھوں میں کیا اور اس کا سب کچھ چٹ کر جانے کے طمع میں‬ ‫سدی کی شادی انتہائی گھٹیا اور چول عورت سے کروا دی۔‬ ‫لوٹنے کے ساتھ ساتھ اپنی ہوس کی آگ بھی بجھانے لگا۔‬ ‫تھوڑی ہی مدت کے بعد اس عورت کی تھیلے مردود سے ان بن‬ ‫ہو گئی اور وہ سدی یبل کو لے کر وہاں سے نکل آئی۔‬ ‫ہللا نے سدی یبل کو ایک بیٹے سے نوازا۔ سدی یبل کی خوشی‬ ‫کی انتہا نہ رہی ہاں البتہ اس عورت نے سدی کا سانس لینا بھی‬ ‫حرام کر دیا۔ پہلے ہی چھوٹا مر گیا تھا اب وہ اس بیٹے کی‬ ‫خاطر اس جہنم زادی کے ساتھ نبھا کر رہا تھا۔ وہ تھیلے شکی‬ ‫کی ماں کے گزارے کا مذاق اڑایا کرتا تھا لیکن اب اس کی‬ ‫سمجھ میں آیا تھیلے شکی کا کہا غلط نہیں تھا۔ بعض حاالت کے‬ ‫تحت ناخوش گواری اور ناپسند کو بھی سینے سے لگانا پڑتا‬ ‫ہے۔ گویا مگرمچھ کا ہوا میں پرواز کرنا غلط نہیں۔‬ ‫جذبے کی سزا‬ ‫اس میں بگڑنے والی ایسی کوئی بات ہی نہ تھی۔ بنے میاں کا‬ ‫بیٹا اپنے چھوٹے بھائی کو مار رہا تھا۔ میں نے اسے دو تین‬


‫بار منع کیا لیکن وہ مارنے سے باز نہ آیا تو میں نے اس کی‬ ‫کھتی میں ایک رکھ دی۔ وہ روتا ہوا گھر چال گیا۔ بنے میاں بڑے‬ ‫غصہ سے باہر آئے۔ کچھ پوچھے بغیر ناصرف مجھ پر برس‬ ‫پڑے بل کہ زناٹے کی دو تین دھر بھی دیں۔ میں ان کے اس‬ ‫رویے پر سخت حیران ہوا۔ یوں لگا جیسے انہوں نے مجھ سے‬ ‫کوئی پرانا بدال چکایا ہو۔ میں بھی جوابا ان کی ٹھیک ٹھاک‬ ‫خاطر تواضح کر سکتا تھا لیکن کیجو کا منہ مار گیا۔ میں نے‬ ‫بامشکل درگزر سے کام لیا۔‬ ‫اس نے ہاتھ چال لیے اور میں چپ رہا‘ وہ سمجھا کہ ڈر گیا‬ ‫ہوں اسی لیے زبان بھی دیر تک چالتا رہا۔ اردگرد کے لوگوں‬ ‫نے ٹھنڈا کیا کہ جسے بک رہے ہو وہ تو چپ ہے۔ میں بچوں‬ ‫کے معاملہ میں کبھی نہیں پڑا۔ شاید یہاں بھی نہ پڑتا‬ ‫جذبہءپدری نے مجھے بدحواس کر دیا اور میرا ہاتھ اٹھ گیا۔‬ ‫کیجو کا چھوٹا لڑکا میرے اچھے ولتوں کی یاد تھا۔ خیر اب بھی‬ ‫جب پہاگاں گھر پر نہ ہوتی تو کیجو مزے کرا جاتی۔ اس کا سنور‬ ‫جاتا اور میرا بھی ذائمہ تبدل ہو جاتا۔ بنے میاں کو محض شک‬ ‫تھا مگر شک یمین میں نہ بدال تھا۔‬


‫اس روز اگر میں بھی جوابا کچھ کرتا تو لمبا چوڑا کھڑاک ہو‬ ‫جاتا۔ کیجو دنیاداری میں کمال کی مہارت رکھتی تھی۔ اگرچہ سب‬ ‫جعلی کرتی لیکن اس کا یہ فرضی بھی اول درجے کا اصلی ہوتا۔‬ ‫پہاگاں گھر پر تھی اور وہ کیجو کی بھی نانی تھی۔ بول بوالرے‬ ‫کا ایسا میدان لگتا کہ شیطان بھی توبہ توبہ کر جاتا۔ ماضی اور‬ ‫حال کے وہ وہ لصے دہرائے جاتے جو کسی کے خواب و خیال‬ ‫میں نہیں رہے۔ بکوبکی سے میری بڑی جان جاتی ہے۔‬ ‫جذبے کی سزا بڑی ازیت خیز ہوتی ہے۔ مجھے بہت معمولی‬ ‫سزا ملی تھی‘ میری چپ نے متولع رن کا رستہ بند کر دیا تھا۔‬ ‫سچی بات تو یہ ہے کہ میری چپ نے کیجو سے تعلك خراب‬ ‫ہونے کا دروازہ بھی بند کر دیا تھا۔‬

‫ہللا بھلی کرے‬ ‫وہ اچھا خاصا بیٹھا باتیں کر رہا تھا‘ لہمے لگا رہا تھا۔ پتا نہیں‬ ‫اچانک کیا ہو گیا‘ او خو کہتا ہوا اٹھ بیٹھا اور بڑی تیزی سے‬ ‫گھر کی طرف بڑھ گیا۔ پیچھے سے ککو نے آواز دی‘ اوے کیا‬


‫ہوا جو بال بتالئے بھاگ اٹھے ہو۔ ایمرجنسی۔۔۔آ کر بتاتا ہوں۔‬ ‫وہ تو چال گیا لیکن ایک موضوع چھیڑ گیا۔‬ ‫اکی کا خیال تھا کہ اس کی بیوی کا آج کیس ہونا تھا۔ ہللا خیر‬ ‫کرے اور ہللا جو بھی دے نیک اور زندگی واال دے۔‬ ‫دوکڑ نے لہمہ لگایا او نئیں یار وہ کوئی دائی ہے جو کیس اس‬ ‫نے کرنا ہے۔‬ ‫آج اس کی کمیٹی نکلنی تھی‘ ادھر ہی گیا ہو گا۔ بگڑ نے اپنی‬ ‫چھوڑی۔‬ ‫ہاں ہاں یہ ہی بات ہے۔ نکے نے گرہ لگائی‬ ‫چھوڑو یار اس کا کیا ہے کہو کچھ کرتا کچھ ہے۔ گھر سے کچھ‬ ‫لینے آیا ہو گا‘ ادھر بیٹھ کر گپیں ہانکنے لگا۔ اب دو گھنٹے بعد‬ ‫یاد آیا ہو گا‘ تب ہی تو دوڑکی لگا کر گیا ہے۔ بیگم شری سے‬ ‫چھتر کھا رہا ہوگا۔‬ ‫اس کی اس بات پر سب ہنس پڑے‬ ‫کالیے کی بات میں دم تھا لیکن مہاجے نے اپنی ہی کہہ دی۔‬ ‫کسی مار پر گیا ہے ورنہ اس طرح سے نہ بھگ نکلتا۔ تم کیا‬ ‫جانو‘ جانو بڑا سیانا ہے۔‬ ‫اسے ملنے گیا ہوگا۔ شبے نے ایک اور ہی شگوفہ چھوڑا۔‬


‫اسے کیسے نیکو نے حیرت سے پوچھا‬ ‫تمہیں نہیں پتا‬ ‫نہیں تو‬ ‫ادھر کان کرو‘ بیبو‬ ‫بیبو کون‬ ‫واہ گاؤں میں خاک رہتے ہو جگو کی بیٹی‬ ‫ہائیں‘ میں یہ کیا سن رہا ہوں‬ ‫جی ہاں‬ ‫بڑا چھپا رستم نکال‬ ‫پس دیوار کی کے سیکڑوں معنی نکالے جاتے ہیں‪ ،‬لیافوں‬ ‫اندازوں کا انبار لگ جاتا ہے۔ سب لریب لریب کی کہتے چلے‬ ‫جاتے ہیں۔ کھوج یا اسرار کھلنے کے ولت کا کوئی انتظار نہیں‬ ‫کرتا۔‬ ‫منچلے اپنی اپنی تشریح و وضاحت میں مصروف تھے کہ جانو آ‬ ‫ہی گیا اور سر سٹ کر بیٹھ گیا۔ سب اس کے منہ کی طرف‬ ‫دیکھنے لگے۔‬ ‫یار کچھ بکو گے یا یوں ہی منہ لمکائے بیٹھے رہو گے۔ بگی‬ ‫نے پوچھا‬


‫کام نہیں ہوا۔ جانو نے تمریبا روتے ہوئے کہا‬ ‫بڑا دکھ ہوا جانو یار لیکن کون سا کام۔ بگی نے افسوسیہ انداز‬ ‫اختیار کرتے ہو۔‬ ‫یار تم لوگ جانتے ہو معدے کا مریض ہوں۔ آج تین دن ہوئے‬ ‫پوٹی نہیں آئی۔ لگا تھا پوٹی آئی ہے۔ لیٹرین میں بیٹھ بیٹھ کر‬ ‫تھک گیا۔ صرف ہوا سری ہے۔ ہار کر اٹھ آیا ہوں۔‬ ‫سب اس کا جواب سن کر ہنسنے لگے۔ واہ جی واہ‘ کھودا پہاڑ‬ ‫نکال چوہا جگو نے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔‬ ‫او جگو یار تم جاہل ہو نا۔ جانو نے جوابا کہا‬ ‫ہاں جی میں جاہل ہوں تم تو دلی سے ایم آ پاس کرکے آ گئے ہو‬ ‫نا۔‬ ‫پاگل لبض تمام بیماروں کی ماں ہے۔ میرے اندر جو لیامت بپا‬ ‫ہے وہ میں ہی جانتا ہوں۔ جانو نے روتے ہوئے کہا‬ ‫ماحول ناخوشگوار ہو گیا۔ چند لمحوں کے لیے سب کو چپ سی‬ ‫لگ گئی۔ جگو ہی نے سوگواری سی توڑتے ہوئے کیا۔ یار کیوں‬ ‫پریشان ہوتے ہو‘ ہللا بھلی کرے۔‬


‫آخری کوشش‬ ‫درندے کے لدموں کی آہٹ اور بھی لریب ہو گئی تھی۔ اس نے‬ ‫سوچا اگر اس کے دوڑنے کی رفتار یہی رہی تو جلد ہی درندے‬ ‫کے پنجوں میں ہو گا۔ اس نے دوڑنے کی رفتار اور تیز کر دی۔‬ ‫پھر اس نے سوچا کیا وہ اور اس جیسے کمزور طالتور کے‬ ‫آگے دوڑنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں؟ جب اور جہاں کمزور کی‬ ‫رفتار کم پڑ جاتی ہے طالتور دبوچ لیتا ہے۔ اس کے بعد زندگی‬ ‫کا ہر لمحہ طالتور کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ چند لمحوں کے‬ ‫ذہنی سکون کے بعد طالتور چیر پھاڑ کر اپنی مرضی کے حصے‬ ‫کھا پی کر جان بناتا ہے۔ لمحہ بھر کے لیے بھی وہ یہ سوچنے‬ ‫کی ذحمت گوارا نہیں کرتا کہ کمزور کے دودھ پیتے بچوں کا کیا‬ ‫ہو گا۔ اس کے جانے کے بعد اس سے کم طالتور بمیہ پر بڑی‬ ‫بے دردی سے ٹوٹ پڑتے ہیں اور وہ بوٹی بوٹی نوچ لیتے ہیں۔‬ ‫یہاں تک کہ ہڈیوں پر بھی رحم کھایا نہیں جاتا۔ کھایا بھی کیوں‬ ‫جائے ہڈیاں فاسفورس کی کانیں ہیں۔ بٹنوں کے لیے ان کی‬ ‫ضرورت رہتی ہے۔‬ ‫اس کے بھاگنے کی رفتار میں مزید اضافہ ہو چکا تھا۔ سوچ‬ ‫خوف اور بچ نکلنے کی خواہش نے اس کے جسم میں ہونے‬ ‫والی ٹوٹ پھوٹ کا احساس تک نہ ہونے دیا۔ وہ ہر حالت میں‬


‫دشمن کی گرفت سے باہر نکل جانا جاہتا تھا لیکن دشمن بھی‬ ‫اسے بخش دینے کے موڈ میں نہ تھا کیونکہ اس کی رفتار میں‬ ‫بھی ہر اضافہ ہو گیا تھا۔‬ ‫موت کا گھیرا تنگ ہو گیا تھا۔ اس کے سامنے کھال میدان دائیں‬ ‫دریا بائیں گہری کھائی اور پیچھے خونخوار درندہ تھا۔ رستے‬ ‫کے انتخاب کے حوالہ سے یہ بڑی سخت گھڑی تھی۔ پھر وہ‬ ‫بائیں مڑ گیا۔ اس نے جسم کی ساری طالت جمع کرکے کھائی‬ ‫تک پہنچنے کی کوشش کی۔ درندہ فمط ایک لدم کے فاصلے پر‬ ‫رہ گیا تھا۔ اس سے پہلے درندے کا پنجہ اس کی گردن پر پڑتا‬ ‫اس نے کھائی میں چھالنگ لگا دی۔ درندے کے اپنے لدم اس‬ ‫کی گرفت میں نہ رہے۔ کوشش کے باوجود رک نہ سکا اور وہ‬ ‫بھی گہری کھائی کی نذر ہو گیا۔‬ ‫کمزور کے جسم کی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں اور دم اکھڑ رہا تھا۔‬ ‫اس نے سراٹھا کر دیکھا کچھ ہی دور درندہ پڑا کراہ رہا تھا۔ اس‬ ‫کی ٹانگیں ٹوٹ گئی تھیں۔ بھوک درد کے زنداں میں ممید ہو گئی‬ ‫تھی۔ کمزور کے چہرے پر آخری مسکراہٹ صبح کازب کے‬ ‫ستارے کی طرح ابھری۔ اس کی آخری کوشش رنگ ال چکی‬ ‫تھی۔ اسے اپنی موت کا رائی بھر دکھ نہ تھا۔ اس نے خود یہ‬ ‫رستہ منتخب کیا تھا۔ اب یہ درندہ کبھی کسی کمزور کا وحشیانہ‬


‫تعالب نہ کر سکے گا اور اس کی ٹانگوں سے ہمیشہ اف اف اف‬ ‫کے بزدل نعرے بلند ہوتے رہیں گے۔‬

‫مکرم بندہ جناب حسنی صاحب‪ :‬تسلیمات‬ ‫فی زمانہ نثر نگاری کا فن زنگ آلود ہو چالہے۔ کوئی رسالہ بھی‬ ‫اٹھا کر دیکھئے توسوائے چند اوسط درجہ کے افسانوں اور چند‬ ‫منظومات (غزل اور آزاد نظمیں) کے عالوہ کچھ اور نظر نہیں‬ ‫آتا۔ ماضی میں رسالوں میں ادبی‪ ،‬علمی اور تحمیمی مضامین‬ ‫کثرت سے ہوا کرتے تھے۔ تنمید و تبصرہ فن کی حیثیت سے‬ ‫سیکھے اور سکھائے جاتے تھے اورافسانہ نگاری بھی اونچے‬ ‫معیار کی حامل تھی۔ اب ادب پر ایک عمومی زوال تو طاری ہے‬ ‫ہی نثر نگاری خصوصا اضمحالل کا شکار ہے۔ غزل کہنا لوگ‬ ‫آسان سمجھتے ہیں (حاالنکہ ایسا نہیں ہے)۔ غزل میں ولت کم‬ ‫لگتا ہے اور نظم میں اور نثر میں زیادہ ۔ نثر مطالعہ اور تحمیك‬ ‫بھی چاہتی ہے جس سے ہماری نئی نسل بیگانہ ہو کر رہ گئی‬ ‫ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ کوئی زبان بھی صرف ایک صنف سخن کے‬ ‫بل بوتے پر پھل پھول نہیں سکتی لیکن اردو والے اس معمولی‬ ‫سی حمیمت سے یا تو والف ہی نہیں ہیں یا دانستہ اس سے‬ ‫صرف نظر کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ کی اردو محفلیں بھی اسی‬ ‫مرض کا شکار ہیں اور وہاں بھی سوائے معمولی غزلوں کے‬ ‫(جن میں سے بیشتر تک بندی ہوتی ہیں) کچھ اور نظر نہیں آتا۔‬


‫آپ کی نثرنویسی میں مختلف کوششیں اس حوالے سےنہایت‬ ‫خوش آئند ہیں۔ آپ مطالعہ کرتے ہیں ‪،‬سوچتے ہیں اور انشائیے‬ ‫لکھتےہیں۔ اس جدوجہد کو لائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ میں‬ ‫اپنی مثال کسی خودستائی کی شہ پر نہیں دیتا بلکہ دوستوں کو‬ ‫یہ بتانا چاہتا ہوں کہ شوق‪،‬محنت اور لگن ہو تو بہت کچھ ہو‬ ‫سکتا ہے۔ میں نے انجینیرنگ پر نصابی کتابیں لکھی ہیں۔ ان‬ ‫کے عالوہ غزل‪ ،‬نظم‪ ،‬افسانے‪ ،‬ادبی مضامین‪ ،‬تحمیمی مضامین‪،‬‬ ‫ادبی تنمید وغیرہ سب ہی لکھا ہے۔ یمینا سب کچھ اعلی معیار کا‬ ‫نہیں ہے لیکن بیشتر اچھے معیار کا ہے اور ہندو پاک کے‬ ‫معتبر اور مولر رسالوں میں شائع ہوتا ہے۔ میں آپ کی انشائیہ‬ ‫نگاری کا مداح ہوں اور درخواست کرتا ہوں کہ برابر لکھتے‬ ‫رہہئے۔‬ ‫زیر نظر انشائیہ اچھا ہے لیکن یہ مزید بہتر ہو سکتا تھا سو اپ‬ ‫ولت کے ساتھ خود ہی کر لیں گے۔ خاکسار کی داد حاضر ہے ۔‬ ‫بالی راوی سب چین بولتا ہے۔‬ ‫سرور عالم راز‬


‫ُمحترم جناب ڈاکٹر ممصود حسنی صاحب! سالم‬ ‫اس تحریر پر ہم کُچھ نہ لکھیں گے۔ فمط یہی کہ اسے پڑھ کر‬ ‫رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور تحریر کے اختتام کے لریب‬ ‫سانسیں ُرک جاتی ہیں۔ اور پھر منہ ک ُھال کا ک ُھال رہ جاتا ہے۔‬ ‫اس کے اندر جو کرب ہے اور جو کُچھ یہ انگلیاں لکھنے کو‬ ‫دوڑ رہی ہیں‪ ،‬اُسے بصد مشکل روکتے ہوئے‪ ،‬ایک بار پھر‬ ‫سے بھرپور داد ۔۔۔‬ ‫دُعا گو‬ ‫وی بی جی‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=7975.0‬‬

‫تیسری دفع کا ذکر ہے‬ ‫پہلی دفعہ کا ذکر اس لیے اتنا اہم نہیں کہ یہ دو ٹوک تھا اور اس‬ ‫کے ساتھ کوئی والعہ‪ ،‬معاملہ یا مسلہ وابستہ نہیں۔ میں بیمار‬ ‫پڑا۔ طبعیت ضرورت سے زیادہ بوجھل تھی۔ طبعیت خراب ہو تو‬ ‫ہائے وائے کی آوازیں ناچاہتے ہوئے بھی بےساختہ بل کہ از‬


‫خود منہ سے نکل جاتی ہیں۔ اگر توجہ اور خدمت کی تمنا ہو تو‬ ‫آدمی اس ذیل میں منہ کا سپیکر لدرے بلند کر دیتا ہے۔ یمین‬ ‫مانیے میں سچ مچ میں بیمار تھا اس لیے خصوصی توجہ کا‬ ‫طالب بھی تھی۔ خیال تھا کہ میرے پورے گھر والی پریشان ہو‬ ‫کر توجہ دے گی۔ میرا یہ خیال خاک کا شکار ہو گیا جب اس نے‬ ‫کہا نیچے چلے جاؤ کہٰ یں میرے متھے لگتے ہو۔ میں کپڑے‬ ‫جھاڑتا ہوا نیچے آ گیا۔ ایک بیمار تھا اوپر اس بے رخی کا‬ ‫صدمہ بھی ہوا۔ چوں کہ پہلی دفعہ کا ذکر دو لمحوں کا تھا اس‬ ‫لیے اسے دفع کو ماریے۔‬ ‫دوسری دفعہ چوں کہ بے ہوشی کی حالت ناسہی نیم بےہوشی‬ ‫کی کیفیت ضرور تھی۔ ہسپتال سے چوتڑوں اور بازوں پر کئی‬ ‫ایک ٹیکے لگوا کر گھر الیا گیا۔ چوتڑوں کے ٹیکے اس لیے‬ ‫محسوس نہ ہوئے کہ پیاری سی نرس نے دلی ہم دردی سے‬ ‫لگائے تھے‘ ہاں البتہ بازو ضرور دکھے کہ وارڈ بوائے نے‬ ‫پوری بےدردی سے لگائے تھے۔‬ ‫چھوٹی گھروالی کا ہسپتال جا کر پوچھنا تو بہت دور کی بات‬ ‫ہے اسے گھر میں آ جانے کے بعد آدھی زبان سے پوچھنے تک‬ ‫کی توفیك نہ ہوئی۔ میں نیم مردہ سی حالت میں لیٹا ہوا تھا۔‬ ‫اچانک اسے کوئی خیال آیا‘ پھر کیا تھا کہ بالتکان دو گھنٹے‬


‫انتالیس منٹ بولتی رہی۔ لب لباب یہ تھا کہ میں نے بیمار ہونے‬ ‫کا محض ڈونگ رچایا ہے۔ بیمار اس کا ابا ہوا تھا اور عالج‬ ‫معالجے کے باوجود لبر میں جا بسیرا کیا۔ اگر میں بیمار ہوا ہوتا‬ ‫تو الش گھر پر آتی۔ اس کی بات میں چوں کہ دم تھا اس لیے‬ ‫دوسری دفع کو بیچ میں النے کی ایسی کوئی خاص وجہ نظر‬ ‫نہیں آتی۔‬ ‫ہاں البتہ تیسری دفع اوج کمال کو چھوتی نظر آتی ہے اس لیے‬ ‫اس کا ذکر خصوص میں داخل کرنا اصؤلی سی بات نظر آتی ہے۔‬ ‫ہوا یہ کہ میں بیمار پڑا تو میری ہائے اوے ہائے اوے کے‬ ‫نعروں سے بےزار ہو گئی۔ ٰمیں بھی تو بالولفہ اور بالتکان یہ‬ ‫آوازے کسے جا رہا تھا۔ ان آوازوں سے اس کا سر بوجھل ہو‬ ‫گیا۔ کچھ بولی تو نہ‘ البتہ سر پر کپڑا باندھ کر باہر صحن میں‬ ‫بیٹھ گئی اور میری آخری سانس کا انتظار کرنے لگی۔ آخری‬ ‫سانس بڑی ڈھیٹ تھی‘ کم بخت نہ آئی۔ میں نے اس کی آوازاری‬ ‫محسوس کر لی اور پوری طالت سمیٹ کر بیٹھک میں آ کر‬ ‫صوفے پر لیٹ گیا۔ پتا نہیں رات کتنی دیر تک صوفے پر لیٹا رہا‘‬ ‫جب لدرے بہتری ہوئی تو جا کر چارپائی پر لیٹ گیا۔ میرے پاؤں‬ ‫کی آہٹ سے جاگ گئی لیکن سونے کا ناٹک جاری رکھا۔ میں‬ ‫نے بھی ڈسٹرب کرنا مناسب نہ سمجھا اور چپکا رہا۔‬


‫ہللا کے احسان سے رات گزر گئی۔ ٹھیک سے ٹھیک نہ ہوا‘‬ ‫ہاں البتہ پہلے سے لدرے بہتر ضرور تھا۔ میں نے اس کی‬ ‫جانب یوں ہی بالوجہ دیکھ لیا۔ چہرے پر بیمار ہونے کی کیفیت‬ ‫طاری کر لی۔ میں نے فورا سے پہلے نگاہ نیچی کر لی۔ آدھ‬ ‫گھنٹے بعد چارپائی لگ گئی۔ پوچھا کیا ہوا۔ سخت بیمار ہوں۔ میں‬ ‫پوچھنا چاہتا تھا ابے والی بیمار ہو یا میرے والی بیماری ہے۔‬ ‫چپ رہا‘ جانتا تھا آج اور آتا کل بےمزگی میں گزرے گا۔ اس کا‬ ‫کہنا تھا کہ میری شوگر چھے سو ستر پر پہنچ گئی ہے۔ بی پی‬ ‫بھی ہائی ہو گیا ہے۔ صبح سے مسلسل اور متواتر الٹیاں کر رہی‬ ‫ہوں۔ سر پھٹ رہا ہے۔ ایک دو بیماریاں اور بھی گنوائیں۔ میں‬ ‫نے کہا ہللا آسانی پیدا کرے گا۔ کہنے لگی سب ہللا پر چھوڑے‬ ‫رکھنا‘ خود سے کچھ نہ کرنا۔ چاہا کہ کہوں سر دبا دیتا ہوں پھر‬ ‫فورا خیال آیا بچو شام تک اسی کام میں رہو گے۔ مجبور لدموں‬ ‫چلتا ہوا بازار گیا نان چنے اور ساتھ میں حفظ ما ماتمدم سالئس‬ ‫اور انڈے بھی لے آیا۔ بےچاری نے اوکھے سوکھے ہو کر‬ ‫دونوں نان چنے اور ایک انڈا ڈکار لیا۔ اصوال بہتری آ جانی‬ ‫چاہیے تھی‘ لدرے آ بھی گئی۔ ہللا کا شکر ادا کیا زبان کی کوترا‬ ‫کتری سے بچ گیا ہوں۔ شام تک حاالت درست رہے۔ شام کو‬ ‫فائرنگ شروع ہو گئی۔ وجہ یہ تھی کہ نان چنے اور انڈے‬ ‫سالئس تو لے آئے لیکن منہ میں بڑ بڑ کر رہے تھے‘ حاالں کہ‬ ‫ایسا نہیں تھا۔ تاہم دیر تک چل سو چل ہی رہی اور میں بھول گیا‬ ‫کہ بیمار ہوں۔‬


‫انگلی‬

‫مہاجا بڑے سکون اور آرام سے دکان پر بیٹھا‘ دودھ اوبال رہا‬ ‫تھا‘ ساتھ میں ُپڑوسی دکان دار سے باتیں کیے جا رہا تھا اور‬ ‫دودھ میں کڑچھا بھی مارے جا رہا تھا۔ اس کا پالتو بال اس کی‬ ‫نشت کے نیچے‘ پرسکون بیٹھا ہوا تھا۔ ولت بال کسی پریشانی‬ ‫کے گزر رہا تھا۔ کوئی نہیں جانتا کہ اگلے لمحے کیسے ہوں‬ ‫گے۔‬ ‫سب جانتے ہیں‘ شیطان انسانی سکون کا دشمن ہے۔ انسان کی‬ ‫پرسکون زندگی‘ اسے ہمیشہ سے کھٹکتی آئی ہے۔ اس نے ایک‬ ‫انگلی‘ جس پر ایک یا دو بوند ہی دودھ چڑھا ہو گا‘ سامنے‬ ‫دیوار پر لگا دی۔ دودھ پر مکھیاں عاشك ہوتی ہیں‘ جھٹ سے‬ ‫مکھیاں دیوار پر لگے دودھ پر آ گئیں۔ جہاں مکھیاں ہوں‘ وہاں‬ ‫چھپکلی کا آنا غیرفطری نہیں۔ جھٹ سے ایک چھوڑ‘ کئی‬ ‫چھپکلیاں آ گئیں۔ بال چھپکلیوں کو برداشت نہیں کرتا وہ‬ ‫چھپکلیوں پر جھپٹا‘ اتفاق دیکھیے اسی لمحے‘ ایک نواب‬ ‫صاحب اپنے ٹومی سمیت ادھر سے گزرے۔ ٹومی بلے کو‬


‫کیسے برداشت کرتا۔ وہ بلے پر بڑی تیزی سے جھپٹا۔ بال دودھ‬ ‫میں گر گیا۔‬ ‫ردعمل ہونا فطری سی بات تھی۔ مہاجے نے پوری طالت سے‬ ‫ٹومی کے سر پر کڑچھا مارا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ نواب‬ ‫صاحب ٹومی کی بےحرمتی اور اس پر ہونے واال یہ تشدد‬ ‫کیسے دیکھ سکتے تھے۔ انہوں نے چھے کی چھے مہاجے کے‬ ‫سینے میں اتار دیں۔‬ ‫مہاجا اتنی بڑی فیملی کا واحد کفیل تھا چل بسا۔ پوری فیملی‬ ‫الغر و اپاہج ہو گئی۔ وہ کیا کر سکتے تھے بس لسمت کو ہی‬ ‫کوس سکتے تھے۔ نواب صاحب کا کیا بگڑنا تھا۔ یہ لوگوں کا‬ ‫کب سنوارتے ہیں لوگ ان کا گلپ کرنے اور ظلم سہنے کے لیے‬ ‫جنم لیتے ہیں۔ ان کا گلپ ہی التداری طور رہا ہے اور شائد رہے‬ ‫گا۔‬ ‫ان پر یا ان کے کیے پر انگلی اٹھانے والے زہر پیتے رہیں گے‬ ‫سولی چڑھتے رہیں گے۔ التدار کا یہ ہی اصولی فیصلہ رہا ہے۔‬ ‫حال کیا مستمبل لریب میں بھی ان سے مکتی ملتی نظر نہیں آتی۔‬ ‫لصوروار کون تھا صاف ظاہر ہے مہاجا۔۔ نواب کبھی غلطی پر‬


‫نہیں یا شیطان کوسنوں کی زد میں رہے گا۔ کوئی خود کو‬ ‫سدھارنے لی جسارت نہیں کرے گا۔ جی ہاں‘ یہ ہی سچ اور یہ‬ ‫ہی حمیمت ہے۔‬

‫آخری تبدیلی کوئی نہیں‬ ‫‪:‬نوٹ‬ ‫ہم چھوٹے چھوٹے چھوٹے ہوا کرتے تھے مخدومی و مرشدی‬ ‫بابا جی سید غالم حضور حسنی اس طرح کی کہانیاں سنایا کرتے‬ ‫تھے۔ وہ کہانیاں آج بھی لوح دل پر نمش ہیں۔ دن کبھی ایک‬ ‫سے نہیں رہتے۔ ہر لمحہ تبدیلی سے گزرتا ہے اور کل من عیھا‬ ‫فان کی طرف بڑھ جاتا ہے۔‬ ‫بھلے ولتوں کی بات ہے۔ دو دوست ہوا کرتے تھے۔ ایک‬ ‫سوداگر جب کہ دوسرا کوئی کام نہیں کرتا تھا۔ ایک دن سوداگر‬ ‫دوست نے کہا فارغ رہنے سے ولت نہیں گزرتا۔ ضرورتیں تو‬ ‫منہ پھاڑے رہتی ہیں۔ آؤ تمہیں اوبےنگر کی فوج میں بھرتی کرا‬ ‫دیتا ہوں۔ اس کی ریاست اوبے نگر میں ولفیت تھی لہذا جلد ہی‬


‫اس کا دوست فوج میں بھرتی ہو گیا۔ دونوں کو خوشی ہوئی۔‬ ‫بات بھی خوشی والی تھی کہ روٹی کا سلسلہ چل نکال۔‬ ‫دو چار سال کے بعد اس کا ادھر سے گزر ہوا۔ اس نے سوچا‬ ‫کیوں نہ دوست ہی سے مل لوں۔ چھاؤنی گیا۔ اس نے پوچھا‬ ‫سپاہی تیغا رام کدھر ہوتا ہے۔ پتا چال اچھی کارگزاری کی وجہ‬ ‫سے وہ حوالدار ہو گیا ہے۔ اسے خوشی ہوئی کہ اس کا دوست‬ ‫ترلی کر گیا ہے۔ دونوں کی ماللات ہوئی۔ سوداگر دوست نے‬ ‫‪:‬اپنی خوشی کا اظہار کیا تو جوابا تیغا رام نے کہا‬ ‫یار دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔‬ ‫اسے دوست کے جواب پر حیرانی ہوئی۔ کچھ نہ کہا‘ چپ رہا۔‬ ‫ولت اپنی مرضی‘ مزاج اور روٹین کی ڈگر پر چلتا رہا۔ شخص‬ ‫اوروں سے بےنیاز اپنے اپنے طور سے روٹی ٹکر تالشنے میں‬ ‫مصروف تھا۔ سوداگر بھی سوداگری میں مصروف تھا۔ اس کا‬ ‫روٹین میں اوبےنگر جانا ہوا۔ اس نے اپنے دوست حوالدار تیغا‬ ‫رام کا چھاؤنی میں جا کر پوچھا۔ وہاں سے پتا چال تیغا رام‬ ‫صوبےدار ہوگیا ہے۔ اس خبر نے اسے خوشی سے نہال کر دیا۔‬ ‫ماللات پر اس نے مبارک باد دی۔ تیغا رام نے بڑی سنجیدگی‬ ‫سے کہا۔‬


‫یار دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔‬ ‫تیغا رام موج اور ٹھاٹھ کی گزار رہا تھا۔ حیرانی تو ہونا ہی تھی‬ ‫لیکن وہ چپ رہا۔ جواب میں کیا کہتا۔ سالوں میں تبدیلی تو آئی‬ ‫تھی۔ تیغا رام غلط نہیں کہہ رہا تھا۔‬ ‫کچھ سالوں کے بعد سوداگر کا اوبے نگر سے گزر ہوا۔ وہ اپنے‬ ‫دوست تیغا رام سے ملنے چال گیا۔ وہاں سے معلوم پڑا کہ وہ‬ ‫بادشاہ کا منظور نظر ہو گیا ہے اور وزیر ممرر کر دیا گیا ہے۔‬ ‫اس نے سوچا وزیر ہو گیا تو کیا ہوا میرا تو دوست ہے۔ بامشکل‬ ‫ماللات ہوئی۔ سوداگر نے اپنی خوشی کا اظہار کیا تو جوابا تیغا‬ ‫رام نے وہ ہی پرانا ڈائیالگ دوہرا۔ اس کا کہنا غلط نہ تھا‘ لہذا‬ ‫اس نے ہاں میں ہاں مالئی اور تھوڑا ولت گزار کر رخصت ہو‬ ‫گیا۔‬ ‫جب لسمت کا ستارہ زحل سے نکل کر مشتری میں آ جائے‬ ‫انسان کچھ سے کچھ ہو جاتا۔ اوبےنگر کے بادشاہ کی موت کے‬ ‫بعد بادشاہی تیغا رام کے ہاتھ میں آئی۔ اصل بات یہ تھی کہ تیغا‬ ‫رام کی عادات میں تبدیلی نہ آئی۔ وہ اپنے سوداگر دوست سے‬ ‫اسی طرح پیش آیا۔ پہلے کی طرح کھل ڈھل کر گپ شپ لگائی۔‬ ‫اس کا کہنا وہ ہی رہا کہ‬


‫دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔‬ ‫سوداگر حیران تھا کہ تیغا رام ترلی کی آخری سیڑھی کراس کر‬ ‫گیا اب بھی اسی بات پر ہے۔ اس سے آگے تو زندگی میں کچھ‬ ‫بھی نہیں۔ وہ اسے ڈائیالگ سمجھ کر چپ رہا۔‬ ‫اگلی بار جب سوداگر اوبے نگر آیا تو اسے معلوم پڑا کہ بادشاہ‬ ‫تیغا رام انتمال کر گیا ہے۔ شہر کے باہر کھلے میدان میں‬ ‫چاردیواری کے اندر اس کی یادگار بنائی گئی تھی۔ مختلف طرح‬ ‫کے پودے لگائے گئے تھے۔ اسے خوب صورت بنانے میں‬ ‫کوئی کسر نہ چھوڑی گئی تھی۔ لوح یادگار پر تحریر کیا گیا تھا‬ ‫عادل بادشاہ مہاراج تیغا رام‬ ‫دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے‬ ‫سوداگر حیران تھا اب آخری تبدیلی بھال کیا آئے گی۔ موت کے‬ ‫بعد بھال کیا تبدیلی آ سکتی ہے۔‬ ‫سوداگر کا اوبے نگر میں وہ آخری پھیرا تھا۔ وہ تیغا رام کی‬ ‫آخری یاگار کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ماضی کا ہر لمحہ شعور کے‬ ‫دریچوں سے جھانک رہا تھا۔ اس کی آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں۔‬ ‫اس نے سوچا تیغا رام درست کہتا تھا کہ دن وہ نہیں رہے دن یہ‬


‫بھی نہیں رہیں گے۔ وہ سوچ رہا تھا اب بھال اور کیا تبدیلی آئے‬ ‫گی۔ جب وہاں پہنچا تو دیکھا وہاں دریا بہہ رہا تھا۔ اس کے منہ‬ ‫‘سے بےاختیار نکل گیا‬ ‫دن وہ نہیں رہے دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔‬

‫کھڑ پینچ دی جئے ہو۔‬

‫ہیلو مسٹر!‬ ‫یو ار سویٹ اینڈ لولی ہوم غور منٹ کمپلینٹ اس دیٹ یو‬ ‫پھڑکائیٹڈ ہر برسرعام السٹ ڈے۔‬ ‫وائی۔‬ ‫نو حجور شی از جھوٹ مارنگ۔ آئی اونلی ون ویری سلو مکا‬ ‫ماریڈ‬ ‫او مائی گاڈ‘ یو بےغیرت مین۔ وائی یو مکا ماریڈ ہر ان دی‬ ‫بازار۔ یو نو پیپل ور ویکھنگ اینڈ الفنگ ایٹ یو‬ ‫آئی ایم ناٹ بےغیرت حجور شی از بےغیرت بی کاز شی مارڈ‬ ‫می سو مےنی لیترز ویری ٹھوک ٹھوک کر پیوپل ور الفنگ ایٹ‬


‫ہر ری ایکشن‬ ‫اٹ از یو ار کیس وچ مے بی ڈسکسڈ لیٹر اون۔ فسٹ ٹل اس‬ ‫وائی یو مکا مارڈ‬ ‫حجور اٹ از آ شیم فل سٹوری اینڈ کن ناٹ ناریٹ ان دی پنچایت‬ ‫ڈونٹ وری یو گلٹی کمی کمین‬ ‫حجور آئی ناٹ کمی کمین۔ مائی کاسٹ از انصاری‬ ‫او یس یو مین جوالیا‪ ،‬آئی نو یو ار جوالیا۔ جوالیا کاسٹ از ان‬ ‫فیکٹ کمی کمین۔ وائل یو ار ہوم گورمنٹ از لریشی گویا شی از‬ ‫ناٹ کمی کمین‬ ‫یس حجور شی از مراسی۔‬ ‫ڈونٹ بارک‘ ان فیکٹ دس ورڈ از مراثی۔‬ ‫از آئی ایم رائٹ او یو سویٹ اینٍڈ جنٹل لیڈی‬ ‫حجور یو ار ابسلوٹلی رائٹ‬ ‫او مین ناؤ سم تھنگ ہریلی پہونکو‬ ‫حجور شی ہیز ناٹ ذرا بھورا شرم‬ ‫وٹ ہپنڈ ٹل اس‬ ‫حجور شی واز ممانائزنگ ان دی بازار‬


‫او مائی گارڈ واٹس آمیزنگ سیچویشن ول بی گوئنگ دیئر‬ ‫او جنٹل اینڈ سویٹ لیڈی شو اس یو ار فن‬ ‫شی سٹارٹیڈ ہر فن ود آؤٹ اینی ہیزیٹیشن۔ ایوری ون انجوائڈ اٹ‬ ‫اے الٹ‬ ‫او مسٹر جوالہے طالق ہر ایٹ دی سپاٹ اینڈ یو دفع دفان فروم‬ ‫ہیئر۔ شی ہیز اے ونڈرفل کوالٹی۔ ان فیوچر شی ول سٹے ہیئر۔‬ ‫وین مسٹر جوالیا ڈو نٹھنگ ون مین گٹ اپ اینڈ رکھڈ پنج ست‬ ‫لتر ایٹ ہیز بوٹم۔ ہی گیو طالق دایٹ سویٹ ممانئیزر اینڈ دوڑ‬ ‫لگائیڈ۔‬ ‫اٹ واز اے نائس فیصلہ۔ پیوپل واز ریزنگ سلوگن‬ ‫کھڑ پینچ دی جئے ہو۔‬ ‫ناؤ آ ڈئیز شی از سرونگ ایٹ کھڑ پینچز ڈیرہ اینڈ ارننگ اچھی‬ ‫خاصی اماؤنٹ ود نائس فیم۔ شی ہیزناٹ کمپلینٹ فروم اینی سائڈ۔‬ ‫پیوپل ار سیٹسفائیڈ اینڈ ہیپی فروم دیئر چودھری ساب۔‬


‫جذبے کی سزا‬ ‫نو منی افسانے‬

‫ممصود حسنی‬ ‫ابوزر برلی کتب خانہ‬ ‫نومبر ‪٢٠١٦‬‬


Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.