مقصود حسنی کے منظوم افسانے

Page 1

‫مقصود حسنی کے منظوم افسانے‬

‫پیش کار‬ ‫پروفیسر نیامت علی مرتضائی‬ ‫ابؤزر برقی کتب خانہ‬ ‫اگست ‪٦١٠٢‬‬


‫فہرست‬ ‫چل' دمحم کے در پر چل‬ ‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا‬ ‫کیچڑ کا کنول‬ ‫آخری خبریں آنے تک‬ ‫دو لقمے‬ ‫حیات کے برزخ میں‬ ‫حیرت تو یہ ہے‬ ‫سننے میں آیا ہے‬ ‫کس منہ سے‬ ‫میں نے دیکھا‬ ‫سوچ کے گھروندوں میں‬ ‫شہد سمندر‬


‫سورج ڈوب رہا ہے‬ ‫رام بھلی کرے گا‬ ‫بارود کے موسم‬ ‫رات ذرا ڈھل جانے دو‬ ‫آزاد کر دو‬ ‫آج بھی‬ ‫دھرتی کا اندر‬ ‫دو بیلوں کی مرضی ہے‬ ‫آؤ کوئی رشتہ استوارر کریں‬ ‫مسکان کے بطن سے‬ ‫واپسی‬ ‫مجھے اک خواب لکھنا ہے‬ ‫ممتا‬ ‫شاعر اور غزل‬ ‫وہ لفظ‬


‫آنکھوں دیکھے موسم‬

‫چل' دمحم کے در پر چل‬

‫اک پل‬ ‫آکاش اور دھرتی کو‬ ‫اک دھاگے میں بن کر‬


‫رنگ دھنک اچھالے‬ ‫دوجا پل‬ ‫جو بھیک تھا پہلے کل کی‬ ‫کاسے سے اترا‬ ‫ماتھے کی ریکھا ٹھہرا‬ ‫کرپا اور دان کا پل‬ ‫پھن چکر مارا‬ ‫گرتا ہے منہ کے بل‬ ‫سلوٹ سے پاک سہی‬ ‫پھر بھی‬ ‫حنطل سے کڑوا‬ ‫اترن کا پھل‬ ‫الفت میں کچھ دے کر‬ ‫پانے کی اچھا‬ ‫حاتم سے ہے چھل‬


‫غیرت سے عاری‬ ‫حلق میں ٹپکا‬ ‫وہ قطرہ‬ ‫سقراط کا زہر‬ ‫نہ گنگا جل‬ ‫مہر محبت سے بھرپور‬ ‫نیم کا پانی‬ ‫نہ کڑا نہ کھارا‬ ‫وہ تو ہے‬ ‫آب زم زم‬ ‫اس میں رام کا بل‬ ‫ہر فرزانہ‬ ‫عہد سے مکتی چاہے‬ ‫ہر دیوانہ عہد کا بندی‬ ‫مر مٹنے کی باتیں‬


‫ٹالتے رہنا‬ ‫کل تا کل‬ ‫جب بھی‬ ‫پل کی بگڑی کل‬ ‫در نانک کے‬ ‫بیٹھا بےکل‬ ‫وید حکیم‬ ‫مالں پنڈٹ‬ ‫پیر فقیر‬ ‫جب تھک ہاریں‬ ‫جس ہتھ میں وقت کی نبضیں‬ ‫چل‬ ‫دمحم کے در پر چل‬


‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا‬

‫عہد شہاب میں بےحجاب بےکسی بھی عجب قیامت تھی۔‬ ‫صبح اٹھتے مشقت اٹھاتےعوضوانے کو ہاتھ بڑھاتے بے‬ ‫نقط سنتے۔ سانسیں اکھڑ جاتیں مہر بہ لب جیتے کہ‬ ‫سانسیں باقی تھیں۔ جینا تو تھا ہی لہو تو پینا تھا ہی۔‬ ‫ادھر ایونوں میں آزادی کی صدائیں گونج رہی تھیں ادھر‬ ‫گلیوں میں خوف کا پہرا تھا کہ شاہ بہرا تھا۔ شاہ والے‬ ‫گلیوں میں بےچنت کرپانیں لیے پھرتے تھے۔ نقاہت ہاتھ‬ ‫باندھے شکم میں بھوک آنکھوں میں پیاس لیے کھڑی تھی‬ ‫ہاں مگر شاہ کی دیا کا بول باال تھا۔‬ ‫پنڈت کے ہونٹوں پر شانتی بغل میں درانتی مالں بھی من‬ ‫میں تفریق کا بارود بھرے امن امن امن کیے جا رہا تھا۔‬


‫اب جب کہ پیری پہ شنی کا پہرا ہے بھوک کا گھاؤ گہرا‬ ‫ہے۔ جیب میں دمڑی نہیں امبڑی نہیں کہ وید حکیموں کے‬ ‫دام چکائے بڑے شفاخانے کے در پر الئے مایوسی کی‬ ‫کالک مٹائے آہیں سنے تشفی کی لوری سنائے۔ ہونٹوں پہ‬ ‫گالب سجائے دل میں کرب اٹھائے اب کون ہے جو مرے‬ ‫مرنے سے مر جائے۔‬ ‫بیٹے کو اپنی پتنی سے فرصت نہیں بیٹی کی ساس کپتی‬ ‫ہے بھائی کے گھر تیل نہ بتی ہے مری بہن کی کون سنتا‬ ‫ہے سیٹھ کے برتن دھو سیٹھنی کے کوسنے سن کر پیٹ‬ ‫بھرتی ہے۔‬ ‫بیگم روتی ہے نہ ہنسی ہے سوچتی ہے کفن دفن کے لیے‬ ‫پیسے کہاں سے آئیں گے کہیں اس کے بھائیوں کی چمڑے‬ ‫نہ ادھڑ جائے وہ تو بہنوئی کی کھاتے تھے جب بھی آتے‬ ‫تھے کچھ ناکچھ لے جاتے تھے۔‬ ‫جیتا ہوں تو مصیبت مرتا ہوں تو مصیبت۔ میں وہ ہی ہوں‬


‫جواندھیروں میں رہ کر ایونوں کے دیپ جالتا رہا دوا دور‬ ‫رہی مری گرہ میں تو اس اجڑے گلستان کا کرایہ نہیں۔‬ ‫گھر میں روشنی نہیں ناسہی شاید کوئی فرشتہ مری لحد‬ ‫میں بوند بھر روشنی لے کر آ جائے عمر بھر خود کو نہ‬ ‫دیکھ سکا سوچ سکا واں سکوں ہو گا خود کو دیکھ‬ ‫سکوں گا سوچ سکوں گا خود کو دیکھنے سوچنے کی‬ ‫حسرت بر آئے گی۔‬ ‫خود کو دیکھ کر سوچ کر ارضی خدائی سے مکتی قلبی‬ ‫خدا کی بےکراں عظمتوں کا اسرار کھل جائے گا وہ میرا‬ ‫تھا میرا ہے مجھے مل جائے گا۔ سردست کفن و دفن کے‬ ‫سامان کی فکر ہے۔‬ ‫کفن ملے ناملے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ عمر بھر اس‬ ‫نے مری پردہ پوشی کی ہے اب بھی کرئے گا۔‬ ‫ایونوں میں بستے سفیدی میں لپٹے شیطانوں کا نگر مرا‬


‫نہیں مرا نہیں گورنگر مرا ہو گا مرا خدا کچھ لیتا نہیں دیتا‬ ‫ہے۔ لینا مری عادت دینا اس کی فطرت روٹی کی فکر کیسی‬ ‫کرائے کی چنتا میں کیوں کروں مری جان میں آ رہا ہوں تو‬ ‫مختصر سہی مرے لیے مری حسرتوں کے لیے سات‬ ‫زمینوں سے بڑھ کر وسعت رکھتی ہے میں بھول میں رہا‬ ‫کہ یہاں کچھ بھی مرا نہ تھا زیست کے کچھ لمحوں کی‬ ‫دیری تھی تو ہی تو مری تھی‬ ‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا‬ ‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا‬ ‫یہ ہی فیصلہ ہوا تھا۔‬

‫کیچڑ کا کنول‬

‫آلودہ‘ میال سا چیتھڑا‬ ‫شاید حاجت سے بچا ہوگا‬


‫‘آدم زادے کا پراہین‬ ‫عییب نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔؟‬ ‫گالب سے چہرے پر‬ ‫بلور ایسی‘ دیکھتی آنکھیں‬ ‫حیرت خوف غم غصہ اورافسوس‬ ‫جانے کیا کچھ تھا ان میں‬ ‫سماج کی بےحسی پہ‬ ‫ان ٹھہری مگر دیکھتی آنکھوں میں‬ ‫دو بوند‘ لہو سی‬ ‫صدیوں کے ظلم کی داستان‬ ‫لیے ہوئے تھیں‬ ‫اتنی حدت اتنی اتنی تپش کہ‬ ‫پتھر بھی پگھل کر پانی ہو‬ ‫ترسی ترسی باہیں‬ ‫میرے بوبی کی باہیں ایسی ہی تھیں کہ‬


‫جب وہ بچہ تھا‬ ‫تب محبتوں کا حصار تھا‬ ‫اور اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫خفت ندامت کا حصار‬ ‫مرے گرد ہے‬ ‫لمحہ بہ لمحہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫دائرہ تنگ ہو رہا ہے‬ ‫مجھے فنکار سے نسبت ہے‬ ‫فنکار‘ سب کا درد‬ ‫سینے کی وسعتوں میں سمو لیتا ہے‬ ‫‘اور میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫ساکت وجامد‬ ‫مٹی کے بت کی طرح‬ ‫خاموش تماشائی تھا‬ ‫اس نے پکارا آواز دی‬


‫احتجاج بھی کیا‬ ‫کچھ نہ میں کر سکا‬ ‫‘جیسے وہ آدم زادہ نہ ہو‬ ‫ہمالہ سے گرا‬ ‫کوئی پتھر ہو‬ ‫‪:‬اس نے کہا‬ ‫!فنکار۔۔۔۔۔۔۔“‬ ‫مجھے اپنی باہوں میں سما لو‬ ‫“ازل سے پیاسا ہوں‬ ‫گھبرا کر تھوڑا سا‬ ‫)پستیوں کی جانب)‬ ‫پیچھے سرکا‬ ‫کوئی مصیبت کوئی وبال‬ ‫تہمت یا بدنامی سر نہ آئے‬ ‫چیخا “فنکار کا سینہ‬


‫!کب سے تنگ ہوا ہے؟‬ ‫میری باہیں غیر جنس کی باہیں ہیں؟‬ ‫ان کا تم پر کوئی حق نہیں؟؟؟‬ ‫وہ کہتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں سنتا رہا‬ ‫کیا جواب تھا میرے پاس‬ ‫!کاش‬ ‫میرے شعور کی آنکھیں بند ہو جاتیں‬ ‫یوں جیسے ممتا کی سماج کی‬ ‫آنکھیں بند تھیں‬ ‫سوچتا ہوں‘ مجرم کون ہے‬ ‫‘گناہ کس نے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫ماں یا سماج نے‬ ‫وہ تو اپنے گھروں میں‬ ‫آسودہ سانسوں کے ساتھ‬ ‫گرم کافی پی رہے ہوں گے‬


‫یا میں نے جو‬ ‫شب کی بھیانک تنہائی میں‬ ‫ندامت سے‬ ‫سگریٹ کے دھوئیں میں‬ ‫تحلیل ہو رہا ہوں‬ ‫گٹرکے قریب پڑا‘ وہ کنول‬ ‫مجھ سے میرے ضمیر سے‬ ‫انصاف طلب کر رہا ہے‬ ‫کہ تم‘ خدائے عزوجل کی تخلق کا‬ ‫یہ حشر کرتے ہو‬ ‫مجھے حرامی کہتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟‬ ‫بتاؤ‘ حامی کون ہے؟‬ ‫ضمیر کس کا مردہ ہے؟‬ ‫مجرم کون ہے؟‬ ‫میں یا تم؟؟؟‬


‫میری بستی کے باسیو‬ ‫کہ تمہیں عظیم مخلوق ہونے کا دعوی ہے‬ ‫کیا جواب دوں اسے؟‬ ‫اس کا ننھا سا معصوم چہرا‬ ‫احتجاج سے لبریزآنکھیں‬ ‫پنکھڑی سے ہونٹوں پر‬ ‫تھرکتی بےصدا سسکیاں‬ ‫مجھے پاگل کر دیں گی‬ ‫پاگل‬ ‫ہاں پاگل‬ ‫اوٹ سے‘ ‪٠٩٩١‬‬

‫آخری خبریں آنے تک‬


‫کون‬ ‫انصاف‬ ‫تمہارا یہاں کیا کام‬ ‫جہاں میری ضرورت ہوتی ہے بن بالئے چال آتا ہوں‬ ‫بن بالئے کی اوقات سمجھتے ہو‬ ‫جی ہاں‬ ‫اوقات عمل سے بنتی ہے‬ ‫تمہاری ماننے والے بھوکے مرے‬ ‫بھوک نے انہیں ہمیشہ سرخرو کیا ہے‬ ‫لوگ ہمیں سالم کرتے ہیں‬ ‫تمہیں نہیں‘ تمہاری شر کو سالم کہتے ہیں‬ ‫تاریخ میں دھنوان امر رہا ہے‬ ‫تاریخ پیٹ کے بندوں کا روزنامچہ ہے‬


‫پیٹ ہی تو سب کچھ ہے‬ ‫تب ہی تو باال سطع پر رہتے ہو‬ ‫تہہ کے متعلق تم کیا جانو‬ ‫بڑے ڈھیٹ ہو‬ ‫بننا پڑتا ہے‬ ‫تمہیں تمہاری اوقات میں النا پڑے گا‬ ‫کیا کر لو گے؟؟؟‬ ‫تمہاری ہڈی پسلی ایک کر دوں گا‬ ‫یہ سب تو پہلے بھی میرے ساتھ ہو چکا ہے‬ ‫کوئی نئی ترکیب سوچو‬ ‫تمہیں جال کر راکھ کر دوں گا‬ ‫عبرت کے لیے‬ ‫تمہاری راکھ گلیوں میں بکھیر دوں گا‬ ‫یہ تو اور بھی اچھا ہو گا‬ ‫وہ کیسے؟‬


‫میری راکھ کا ہر ذرا انقالب بن کر ابھرے گا‬ ‫اہ مائی گاڈ‘ تو پھر میں کیا کروں؟‬ ‫مجھے اپنے سینے سے لگا لو‬ ‫یہ مجھ سے نہیں ہو گا‬ ‫تو طے یہ ہوا‬ ‫تمہاری اور میری جنگ کا کوئی انت نہیں‬ ‫دیکھتا ہوں کہاں تک اذیت برداشت کرتے ہو‬ ‫چلو میں بھی دیکھتا ہوں‬ ‫اذیت میں کس حد تک جاتے ہو‬ ‫اس کے بعد‬ ‫گھمسان کی جنگ چھڑ گئی‬ ‫اور آخری خبریں آنے تک‬ ‫جنگ جاری تھی‬


‫دو لقمے‬ ‫تعفن میں اٹی‬ ‫‘اندھیاروں میں لیپٹی وہ بستی‬ ‫جہاں چھیتڑوں میں ملفوف زندہ الشوں کے دل کی‬ ‫دھڑکنیں‬ ‫دیوار پر آویزاں کالک کی ٹک ٹک کی آوازیں تھیں۔‬ ‫‘بھوک کی اہیں‬ ‫بےبسی کی سسکیوں میں مدغم ہو رہی تھیں۔‬ ‫آس کا سایہ آس پاس نہ تھا۔ تھا کچھ تو قاتل خاموشی تھی۔‬ ‫بھوک کا ناگ پھن پھیالئے بیٹھا تھا۔‬ ‫مایوسیوں کی اس بستی سے رحم کا دیوتا شاید خفا تھا یا‬ ‫پھر وہ بھی تہی دست تہی دامن ہو گیا تھا۔‬ ‫اک مسکراہٹ کے طلبگار یہ الشے بے حس نہیں‘ بے بس‬ ‫تھے۔‬ ‫پھر اک الشہ بھوک ناگ جس کے قریب تر تھا۔۔۔۔۔۔ تڑپا اور‬


‫رینگ کر روشنی کی شہراہ پر آ گیا۔ اس حرکت میں اس‬ ‫نے اپنی ساری توانائی صرف کر دی۔ ہر سو اجالے تھے‬ ‫لیکن وہ بھوک کے سیاہ کفن میں ملبوس تھا۔۔۔۔۔۔۔۔پھر‬ ‫بھی۔۔۔۔۔۔۔ ہاں پھر‘ بھی وہ زندہ تھا اور اجالوں کی شہراہ‬ ‫پر پڑا ہانپ رہا تھا۔ سانسیں بےترتیب تھیں۔ خوش پوش‬ ‫راہی شاید اسے دیکھ نہیں رہے تھے۔ جو دیکھ رہے تھے‬ ‫ناک پر رومال رکھ کر گزر رہے تھے۔ وہ سب اس کے ہم‬ ‫جنس تھے۔ کتنی آس لے کر وہ یہاں تک آیا تھا۔ ان‬ ‫دیکھتے کرب لمحوں کو کون جان پاتا۔‬ ‫وہ اس بستی کا نہ تھا۔‬ ‫بھوک ناگ بوال‪ :‬کہاں تک بھاگو گے‘ تمہیں میرا لقمہ بننا‬ ‫ہی ہو گا کہ خود میں بھوکا ہوں۔‬ ‫پھر وہ تھوڑا آگے بڑھا۔‬ ‫الشہ چالیا‪ :‬نہیں۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔ رکو۔۔۔۔۔ٹھہرو۔۔۔۔۔۔ روٹی ضرور‬ ‫آئے گی۔‬ ‫سب بےکار۔۔۔۔۔روٹی کوئی نہیں دے گا۔۔۔۔۔۔ یہ پیٹ بھر کر‬ ‫بھی آنکھوں میں بھوک لیے پھرتے ہیں۔ ان میں سے کون‬ ‫دے گا روٹی۔ ان کے ہشاش بشاش چہروں پر نہ جاؤ۔ ان‬


‫کے من کی بھوک کو دیکھو اور میرے صبر کا امتحان نہ‬ ‫لو۔‬ ‫‪:‬الشہ سٹپٹایا اور چالیا‬ ‫!اجالوں کے باسیو‬ ‫!علم و فن کے دعوےدارو‬ ‫!سیاست میں شرافت کے مدعیو‬ ‫!جمہوریت کے علم بردارو‬ ‫!اسلحہ خرید کرنے والو‬ ‫!فالحی اداروں کے نمبردارو‬ ‫‘عالمی وڈیرو‬ ‫‘کہاں ہو تم سب‬ ‫تمہارے وعدے اور دعوے کیا ہوئے؟‬ ‫اپنی بھوک سے دو لقمے میرے لیے بچا لو۔‬ ‫بھوک ناگ میرے قریب آ گیا ہے۔‬ ‫دیکھو غور کرو‘ میں تمہارا ہم جنس ہوں‬ ‫‘۔ دو لقمے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں فقط دو لقمے‬


‫میری زندگی کے ضامن ہیں۔‬ ‫ایف سولہ ہائیڈروجن بم مجھے نہیں چاہیے۔‬ ‫میری ضرورت روٹی کے دو لقمے ہیں۔‬ ‫اس دور کی یہ تمہاری بہت بڑی جیت ہو گی‬ ‫جو تاریخ میں تمہیں امر کر دے گی۔‬

‫حیات کے برزخ میں‬ ‫تالش معنویت کے سب لمحے‬ ‫صدیاں ڈکار گئیں‬ ‫چیتھڑوں میں ملبوس معنویت کا سفر‬ ‫اس کنارے کو چھو نہ سکا‬ ‫تاسف کے دو آنسو‬ ‫کاسہءمحرومی کا مقدر نہ بن سکے‬


‫کیا ہو پاتا کہ شب کشف‬ ‫دو رانوں کی مشقت میں کٹ گئی‬ ‫صبح دھیان‬ ‫نان نارسا کی نذر ہوئی‬ ‫شاعر کا کہا‬ ‫بےحواسی کا ہم نوا ہوا‬ ‫دفتر رفتہ شاہ کے گیت گاتا رہا‬ ‫وسیبی حکائتیں بےوقار ہوئیں‬ ‫قرطاس فکر پہ نہ چڑھ سکیں‬ ‫گویا روایت کا جنازہ اٹھ گیا‬ ‫ضمیر بھی چاندی میں تل گیا‬ ‫مجذوب کے خواب میں گرہ پڑی‬ ‫مکیش کے نغموں سے طبلہ پھسل گیا‬ ‫درویش کے حواس بیدار نقطے‬ ‫ترقی کا ڈرم نگل گیا‬


‫نہ مشرق رہا نہ مغرب اپنا بنا‬ ‫آخر کب تک یتیم جیون‬ ‫حیات کے برزخ میں‬ ‫شناخت کے لیے بھٹکتا رہے‬

‫حیرت تو یہ ہے‬

‫موسم گل ابھی محو کالم تھا کہ‬ ‫مہتاب بادلوں میں جا چھپا‬ ‫اندھیرا چھا گیا‬ ‫پریت پرندہ‬ ‫ہوس کے جنگلوں میں کھو گیا‬ ‫اس کی بینائی کا دیا بجھ گیا‬


‫کوئی ذات سے‘ کوئی حاالت سے الجھ گیا‬ ‫کیا اپنا ہے‘ کیا بیگانہ‘ یاد میں نہ رہا‬ ‫بادل چھٹنے کو تھے کہ‬ ‫افق لہو اگلنے لگا‬ ‫دو بم ادھر دو ادھر گرے‬ ‫پھر تو‬ ‫ہر سو دھواں ہی دھواں تھا‬ ‫چہرے جب دھول میں اٹے تو‬ ‫ظلم کا اندھیر مچ گیا‬ ‫پھر اک درویش مینار آگہی پر چڑھا‬ ‫کہنے لگا سنو سنو‬ ‫دامن سب سمو لیتا ہے‬ ‫اپنے دامن سے چہرے صاف کرو‬ ‫شاید کہ تم میں سے کوئی‬ ‫ابھی یتیم نہ ہوا ہو‬


‫یتیمی کا ذوق لٹیا ڈبو دیتا ہے‬ ‫من کے موسم دبوچ لیتا ہے‬ ‫کون سنتا پھٹی پرانی آواز کو‬ ‫حیرت تو یہ ہے‬ ‫موسم گل کا سب کو انتظار ہے‬ ‫گرد سے اپنا دامن بھی بچاتا ہے‬ ‫اوروں سے کہے جاتا ہے‬ ‫چہرہ اپنا صاف کرو‘ چہرہ اپنا صاف کرو‬

‫سننے میں آیا ہے‬ ‫سننے میں آیا ہے‬ ‫ہم آگے بڑھ گئے ہیں‬ ‫ترقی کر گئے ہیں‬


‫سرج اب شرق سے اٹھتا ہے‬ ‫واشنگٹن کے مندر کا بت‬ ‫کس محمود نے توڑا ہے‬ ‫سکندر کے گھوڑوں کا منہ‬ ‫کس بیاس نے موڑا ہے‬ ‫اس کی گردن کا سریا‬ ‫کس ٹیپو نے توڑا ہے‬ ‫سو کا بیلنس‬ ‫اب سو ہی چڑھتا ہے‬ ‫پونڈ سٹرلنگ اور ڈالر‬ ‫روپیے کے دو ملتے ہیں‬ ‫سننے میں آیا ہے‬ ‫ہم آگے بڑھ گئے ہیں‬ ‫ترقی کر گئے ہیں‬ ‫'بیوہ کو ٹک ملتا ہے‬


‫وہ پیٹ بھر کھاتی ہے‬ ‫گریب کی بیٹیا‬ ‫بن دہیج‬ ‫?اب ڈولی چڑھتی ہے‬ ‫جو جیون دان کرے‬ ‫دارو کی وہ شیشی‬ ‫?اب مفت میں ملتی ہے‬ ‫سننے میں آیا ہے‬ ‫ہم آگے بڑھ گئے ہیں‬ ‫ترقی کر گئے ہیں‬ ‫موسی اور عیسی‬ ‫گرجے اور ہیکل سے‬ ‫?مکت ہوے ہیں‬ ‫بدھ رام بہا‬ ‫کہ نانک کے پیرو ہوں‬


‫یا پھر‬ ‫چیراٹ شریف کے باسی‬ ‫?اپنا جیون جیتے ہیں‬ ‫سننے میں آیا ہے‬ ‫ہم آگے بڑھ گئے ہیں‬ ‫ترقی کر گئے ہیں‬ ‫گوئٹے اور بالی‬ ‫ٹیگور تے جامی‬ ‫سیوفنگ اور شیلی‬ ‫?سب کے ٹھہرے ہیں‬ ‫مالں پنڈت اور گرجے کا وارث‬ ‫انسانوں کو انسانوں کے‬ ‫?کام آنے کی کہتا ہے‬ ‫سننے میں آیا ہے‬ ‫ہم آگے بڑھ گئے ہیں‬


‫ترقی کر گئے ہیں‬ ‫شیر اور بکری‬ ‫'اک گھاٹ پر پانی پیتے ہیں‬ ‫?اک کچھ میں رہتے ہیں‬ ‫سیٹھوں کی بستی میں‬ ‫مل بانٹ کر‬ ‫?کھانے کی چرچا ہے‬ ‫رشوت کا کھیل‬ ‫?ناکام ہوا ہے‬ ‫منصف‬ ‫?ایمان قرآن کی کہتتا ہے‬ ‫سننے میں آیا ہے‬ ‫ہم آگے بڑھ گئے ہیں‬ ‫ترقی کر گئے ہیں‬ ‫من تن کا وارث‬


‫تن من کا بھیدی‬ ‫جب بھی ٹھہرے گا‬ ‫جیون کا ہر سکھ‬ ‫قدموں کی ٹھوکر‬ ‫امبر کے اس پار‬ ‫انسان کا گھر ہو گا‬ ‫'پرتھوی کیا‬ ‫هللا کی ہر تخلیق کا‬ ‫ماما نہیں‬ ‫موچی درزی نائی بھی‬ ‫وارث ہوگا‬ ‫'شخص‬ ‫شخص کا بھائی ہوگا‬


‫کس منہ سے‬ ‫چلم بھرتے ہات‘ اٹھ نہیں سکتے‬ ‫ہونٹوں پر فقیہ عصر نے‬ ‫چپ رکھ دی ہے‬ ‫کتنا عظیم تھا وہ شخص‬ ‫گلیوں میں‬ ‫رسولوں کے لفظ بانٹتا رہا‬ ‫ان بولتے لفظوں کو‘ ہم سن نہ سکے‬ ‫آنکھوں سے‘ چن نہ سکے‬ ‫ہمارے کانوں میں‘ جبر کی پوریں رہیں‬ ‫آنکھوں میں خوف نے پتھر رکھ دیے‬ ‫ہم جانتے ہیں‘ وہ سچا تھا‬ ‫قول کا پکا تھا‬ ‫مرنا تو ہے‘ ہمیں یاد نہ رہا‬


‫ہم جانتے ہیں اس نے جو کیا‬ ‫ہمارے لیے کیا‬ ‫جیا تو ہمارے لیے جیا‬ ‫کتنا عجیب تھا‬ ‫زندہ الشوں کا دم بھرتا رہا‬ ‫مصلوب ہوا ہم دیکھتے رہے‬ ‫نیزے چڑھا ہم دیکھتے رہے‬ ‫مرا جال راکھ اڑی ہم دیکھتے رہے‬ ‫اس کے کہے پر دو گام تو چال ہوتا‬ ‫کس منہ سے اب‬ ‫اس کی راہ دیکھتے ہیں‬ ‫ہم خاموش تماشائی‬ ‫مظلومیت کا فقط ڈھونگ رچاتے ہیں‬ ‫بے جان جیون کے دامن میں‬ ‫غیرت کہاں جو رن میں اترے‬


‫یا پھر‬ ‫پس لب اس کی مدح ہی کر سکے‬ ‫چلو دنیا چاری ہی سہی‬ ‫آؤ‬ ‫اندرون لب دعا کریں‬ ‫ان مول سی مدح کہیں‬

‫میں نے دیکھا‬

‫پانیوں پر‬ ‫میں اشک لکھنے چال تھا‬ ‫دیدہءخوں دیکھ کر‬ ‫ہر بوند‬ ‫ہوا کے سفر پر نکل گئی‬


‫منصف کے پاس گیا‬ ‫شاہ کی مجبوریوں میں‬ ‫وہ جکڑا ہوا تھا‬ ‫سوچا‬ ‫پانیوں کی بےمروتی کا‬ ‫فتوی ہی لے لیتا ہوں‬ ‫مالں شاہ کے دستر خوان پر‬ ‫مدہوش پڑا ہوا تھا‬ ‫دیکھا‘ شیخ کا در کھال ہوا ہے‬ ‫سوچا‬ ‫شاید یہاں داد رسی کا‬ ‫کوئی سامان ہو جائے گا‬ ‫وہ بچارہ تو‬ ‫پریوں کے غول میں گھرا ہوا تھا‬ ‫کیا کرتا کدھر کو جاتا‬ ‫دل دروازہ کھال‬ ‫خدا جو میرے قریب تھا‬


‫بوال‬ ‫کتنے عجیب ہو تم بھی‬ ‫کیا میں کافی نہیں‬ ‫جو ہوس کے اسیروں کے پاس جاتے ہو‬ ‫میرے پاس آؤ‬ ‫ادھر ادھر نہ جاؤ‬ ‫میری آغوش میں‬ ‫تمہارے اشکوں کو پناہ ملے گی‬ ‫ہر بوند‬ ‫رشک لعل فردوس بریں ہو گی‬ ‫اک قطرہ مری آنکھ سے ٹپکا‬ ‫میں نے دیکھا‬ ‫شاہ اور شاہ والوں کی گردن میں‬ ‫بے نصیبی کی زنجیر پڑی ہوئی تھی‬

‫سوچ کے گھروندوں میں‬


‫علم و فن کے‬ ‫کالے سویروں سے‬ ‫مجھے ڈر لگتا ہے‬ ‫ان کے بطن سے‬ ‫ہوس کے ناگ جنم لیتے ہیں‬ ‫سچ کی آواز کو‬ ‫جو ڈس لیتے ہیں‬ ‫سہاگنوں کی پیاسی آتما سے‬ ‫ہوس کی آگ بجھاتے ہیں‬ ‫صالحیتوں کے چراغوں کی روشنی کو‬ ‫دھندال دیتے ہیں‬ ‫بجھا دیتے ہیں‬ ‫حق کے ایوانوں میں‬


‫اندھیر مچا دیتے ہیں‬ ‫حقیقتوں کا ہم زاد‬ ‫اداس لفظوں کے جنگلوں کا‬ ‫آس سے‬ ‫ٹھکانہ پوچھتا ہے‬ ‫انا اور آس کو‬ ‫جب یہ ڈستے ہیں‬ ‫آدمیت کی آرتھی اٹھتی ہے‬ ‫کم کوسی' بےہمتی بےاعتنائی کے شراپ کے سائے‬ ‫ابلیس کے قدم لیتے ہیں‬ ‫شخص کبھی جیتا کبھی مرتا ہے‬ ‫کھانے کو عذاب ٹکڑے‬ ‫پینے کو تیزاب بوندیں ملتی ہیں‬ ‫خود کشی حرام سہی‬ ‫مگر جینا بھی تو جرم ٹھہرا ہے‬


‫ستاروں سے لبریز چھت کا‬ ‫دور تک اتا پتا نہیں‬ ‫ہوا ادھر سے گزرتے ڈرتی ہے‬ ‫بدلتے موسموں کا تصور‬ ‫شیخ چلی کا خواب ٹھہرا ہے‬ ‫یہاں اگر کچھ ہے‬ ‫تو‪'...........‬‬ ‫منہ میں زہر بجھی تلواریں ہیں‬ ‫پیٹ سوچ کا گھر‬ ‫ہات بھیک کا کٹورا ہوئے ہیں‬ ‫بچوں کے کانچ بدن‬ ‫بھوک سے‬ ‫کبھی نیلے کبھی پیلے پڑتے ہیں‬ ‫اے صبح بصیرت!‬ ‫تو ہی لوٹ آ‬


‫کہ ناگوں کے پہرے‬ ‫کرب زخموں سے‬ ‫رستا برف لہو‬ ‫تو نہ دیکھ سکوں گا‬ ‫سچ کے اجالوں کی حسین تمنا‬ ‫مجھے مرنے نہ دے گی‬ ‫اور میں‬ ‫اس بےوضو تمنا کے سہارے‬ ‫کچھ تو سوچ سکوں گا‬ ‫سوچ کے گھروندوں میں‬ ‫زیست کے سارے موسم بستے ہیں‬ ‫قاضی جرار حسنی‬

‫‪1974‬‬


‫شہد سمندر‬ ‫ترے شبدوں میں‬ ‫شہد سمندر‬ ‫ترے ہونٹوں میں‬ ‫تخلیق کی ابجد‬ ‫تری آنکھوں میں‬ ‫کئ عرش سجے‬ ‫ترے پیروں میں‬ ‫جیون ریکھا‬ ‫تری سانسوں میں‬ ‫آج اور کل‬ ‫تری کھوج کا پل‬


‫صدیوں پر بھاری‬ ‫ترے ملن کے عشرے‬ ‫جاپیں پل دو پل‬ ‫ترے سوچ کے آنگن میں‬ ‫کن کے بھید چھپے‬ ‫تو چھو لے تو‬ ‫مٹی سونا اگلے‬ ‫پتھر پارس ٹھہرے‬ ‫تری ایڑ کے اندر‬ ‫احساس کے سات سمندر‬ ‫ترا دامن‬ ‫فرشتوں کا مسکن‬ ‫تو وہ برگد‬ ‫چرا کر سایہ جس کا‬ ‫آکاش اترائے‬


‫میں اپنے بخت پر نازاں ہوں‬ ‫تو مری ماں کہالئے‬ ‫ترے سینے میں‬ ‫مری پیاس کےدیپ جلیں‬ ‫ماں کے دل کی دھک دھک‬ ‫خلد کے گیت سنائے‬

‫سورج ڈوب رہا ہے‬ ‫میں جو بھی ہوں‬ ‫چاند اور سورج کی کرنوں پر‬ ‫میرا بھی تو حق ہے‬ ‫دھرتی کا ہر موسم‬ ‫خدا کا ہر گھر‬


‫میرا بھی تو ہے‬ ‫قرآن ہو کہ گیتا‬ ‫رامائن کا ہر قصا‬ ‫گرنتھ کا ہر نقطا‬ ‫میرا بھی تو ہے‬ ‫تقسیم کا در‬ ‫جب بھی کھلتا ہے‬ ‫الٹ کے دفتر کا منشی‬ ‫بارود کا مالک‬ ‫پرچی کا مانگت‬ ‫عطا کے بوہے‬ ‫بند کر دیتا ہے‬ ‫رام اور عیسی کے بول‬ ‫ناچوں کی پھرتی‬ ‫بے لباسی میں رل کر‬


‫بے گھر بےدر ہوئے ہیں‬ ‫دفتری مالں کےمنہ میں‬ ‫کھیر کا چمچہ ہے‬ ‫پنڈت اور فادر‬ ‫ہاں ناں کے پل پر بیٹھے‬ ‫توتے کو فاختتہ کہتے ہیں‬ ‫دادگر کے در پر سائل‬ ‫پانی بلوتا ہے‬ ‫مدرسے کا ماشٹر‬ ‫کمتر سے بھی کمتر‬ ‫کالج کا منشی‬ ‫جیون دان ہوا کو ترسے‬ ‫قلم کا دھنی‬ ‫غالموں کے سم پیتے‬ ‫برچھوں کی زد میں ہے‬


‫سب اچھا کا تلک‬ ‫سر ماتھے پر رکھنے والے‬ ‫گورا ہاؤس کے چمچے کڑچھے‬ ‫طاقت کی بیلی میں‬ ‫کربل کربل کرتے یہ کیڑے‬ ‫ہانیمن اور اجمل کا منہ چڑاتے ہیں‬ ‫مسائل کی روڑی پر بیٹھا‬ ‫میں گونگا بہرا بے بس زخمی‬ ‫نانک سے بدھ‬ ‫لچھمن سے ویر تالشوں‬ ‫مدنی کریم کی راہ دیکھوں‬ ‫علی علی پکاروں کہ‬ ‫سورج ڈوب رہا ہے‬


‫رام بھلی کرے گا‬

‫ہاتھ کے بدلے ہاتھ‬ ‫سر کے بدلے سر‬ ‫تھپڑ کے بدلے تھپڑ‬ ‫پتھر کے بدلے پتھر‬ ‫میر جعفر نے‬ ‫مگر لوٹ لیا ہے‬ ‫کس سے فریاد کریں‬ ‫جس ہاتھ میں‬ ‫گالب وسنبل‬ ‫اس کی بغل میں خنجر‬ ‫کمزور کی جیون ریکھا کا‬ ‫منشی ٹھہرا ہے‬


‫قاتل چور اچکا‬ ‫قانون بناتا ہے‬ ‫لوبھی قانون کا رکھواال‬ ‫بےبس زخمی زخمی‬ ‫منصف ہوا ہے‬ ‫اور یہ‬ ‫مقولہ باقی ہے‬ ‫چڑھ جا بیٹا سولی‬ ‫رام بھلی کرے گا‬

‫بارود کے موسم‬


‫کرائے کے قاتل‬ ‫کیا بھکشا دیں گے؟‬ ‫کرن ہماری کھا جا ہے‬ ‫ہم موسی کے کب پیرو ہیں‬ ‫جو آسمان سے من و سلوی اترے گا‬ ‫اپنی دونی کا گیندا‬ ‫ہیرے کی جڑت کے گہنوں سے‬ ‫گربت کی چٹیا پر‬ ‫سوا سج دھج رکھتا ہے‬ ‫میری کا طعنا معنا‬ ‫اکھین کے سارے رنگوں پر‬ ‫کہرا بن کے چھا جاتا ہے‬ ‫کوڑ کی برکی کا وش‬ ‫دیسی نغموں میں‬


‫ڈرم کا بے ہنگم غوغا‬ ‫طبلے کی ہر تھاپ‬ ‫کھا پی جاتا ہے‬ ‫کرائے کے قاتل‬ ‫کیا بھکشا دیں گے؟‬ ‫ان کی آنکھوں میں تو‬ ‫بارود کے موسم پلتے ہیں‬

‫رات ذرا ڈھل جانے دو‬ ‫رات ذرا ڈھل جانے دو‬ ‫جب دو پاٹ ندی کے‬ ‫مل جائیں گے‬ ‫در وصل کے کھل جائیں گے‬


‫نیند کے جھونکے‬ ‫آغوش میں اپنی‬ ‫بستی کو لے لیں گے‬ ‫آکاش سے دھند اترے گی‬ ‫ظلمت اپنی زلفوں میں‬ ‫جاگتے رہنا کے آوازوں کو‬ ‫کس لے گی‬ ‫تب ہوس سکوں کی‬ ‫گھر سے باہر نکلے گی‬ ‫رات ذرا ڈھل جانے دو‬ ‫تم حصہ اپنا بٹوا لینا‬ ‫راتوں کے مالک‬ ‫لوگ بھروسہ کے ہیں‬ ‫دن کو تو‬ ‫اجلے چہرے‬


‫دھندال جاتے ہیں‬ ‫رات ذرا ڈھل جانے دو‬

‫آزاد کر دو‬

‫غرب سے امن سلیقہ اترا‬ ‫اجاال مرے آنگن کا‬ ‫بے وقار ہوا‬ ‫بےکار ہوا‬ ‫گرداب میں کھڑا‬ ‫استعارہ بول رہا تھا‬ ‫پتھر کو رقص دو‬ ‫سب موسم دبوچ لو‬


‫جب خوشبو کی ردا‬ ‫اوڑھ کر‬ ‫زیست کا صحیفہ اترا‬ ‫اک کفن بردار‬ ‫بڑا ہی ذی وقار‬ ‫تلوار کی دھار پر‬ ‫کہے جا رہا تھا‬ ‫آنکھ کے سارے جگنو‬ ‫آزاد کر دو‬ ‫آزاد کر دو‬

‫آج بھی‬ ‫بہت سے گم ہوئے‬


‫بہت سے مر گیے‬ ‫کچھ پس ستم کیے‬ ‫کچھ عدم معنویت کی صلیب چڑھے‬ ‫ہاں‘ شاہ نواز‬ ‫تاریخ کی لوح پر زندہ رہے‬ ‫وہ ہی وقتوں کے ہیرو ٹھہرے‬ ‫جن پر مالں کی مہر ثبت ہوئی‬ ‫انہیں کون جھٹالئے‬ ‫سچ کا آئینہ دکھائے‬ ‫‘جھوٹ‬ ‫معنویت کے ساتھ زندہ رہا‬ ‫سکھ کا سانس لیتا رہا‬ ‫احساس بنا‬ ‫عزت کی دلیل ہوا‬ ‫معبدءتوقیر میں پڑا‬


‫یہ صدیوں کا ورثہ‬ ‫طاق میں رکھ کر‬ ‫‘کوئی کیوں‬ ‫اس لفظ کو تالشے‬ ‫جو معاشی روایت نہیں‬ ‫سماجی حکایت نہیں‬ ‫بےسر وادی معاش ہو کہ‬ ‫شاہ کے صنم کدے‬ ‫شہوت کی عشرت گاہوں‬ ‫گنجان آباد صحراؤں میں‬ ‫اس کا کیا کام‬ ‫سچ کے شبدوں کی خاطر‬ ‫فاقہ کی کربال سے گزر کر‬ ‫حق کے ہمالہ کی چوٹی‬ ‫کوئی کیوں منزل بنائے‬


‫سپیدی لہو‬ ‫‘کب کبھی‬ ‫کسی سرمد کی ہم سفر رہی ہے‬ ‫حمادی کے فتوے نے‬ ‫راکھ گنگا کے حوالے نہ کی‬ ‫شاہ نواز حرف اور نقطے‬ ‫مظلوموں کی شریعت ہے‬ ‫‘آج بھی‬ ‫لوح فہم و احساس کے ایوان پر‬ ‫ان کی سچائی کا علم لہراتا ہے‬ ‫‪11-7-1978‬‬

‫دھرتی کا اندر‬


‫اک بچہ‬ ‫مرے دل دریچوں میں‬ ‫چپ سادھے بیٹھا ہے‬ ‫شبنم کی بوندیں‬ ‫جو اس کے رخساروں پر‬ ‫میں نے دیکھی ہیں‬ ‫بھوک دیس کا نوحہ ہیں‬ ‫بھیک کو پھیلے‬ ‫اس کے ننھے ہاتھوں کی‬ ‫الجھی لکیریں‬ ‫میری آنکھوں میں‬ ‫سوال بنتی رہتی ہیں‬ ‫ان الجھی ریکھاؤں کو‬ ‫برہما لوک سے‬ ‫کب کوئی سلجھانے اترے گا‬


‫سکھ کا سارا ناواں‬ ‫دھرتی کا اندر‬ ‫اپنی مٹھی میں رکھ کر‬ ‫سیتا کا بلی دان‬ ‫راون تپسیا کا بردان سمجھے‬ ‫سیاست کی دوکان چمکائے بیٹھا ہے‬

‫دو بیلوں کی مرضی ہے‬

‫بندر کے بچوں کے‬ ‫آتے کل کی بھوک کے غم میں‬ ‫وہ اور یہ‬ ‫آدم کے زخموں سے چور‬


‫بھوک سے نڈھال‬ ‫قول کے سچے پکے‬ ‫بچوں پر‬ ‫بھونکتے ٹونکتے‬ ‫زخمی سوئر بھوکے کتے‬ ‫ٹوٹ پڑے ہیں‬ ‫ظلم کے ہر حامی کے منہ میں‬ ‫خون کی ٹکسال سے نکلے ڈالر‬ ‫ہاتھ میں وعدوں کے پرزے ہیں‬ ‫ظلم کی نندا کرنے والے‬ ‫توپوں کی زد میں ہیں‬ ‫جبر کے ٹوکے میں‬ ‫اپنی سانسیں گنتے ہیں‬ ‫ہونٹوں سے باہر آتی جیبا‬ ‫خنجر کی کھا جا ہے‬


‫گھورتی آنکھیں‬ ‫اگنی کا رن ہے‬ ‫سچ تو یہ ہے‬ ‫کمزور باشندے‬ ‫پشو جناور کا اترن اور‬ ‫ماس خور درندوں کا جیون ہیں‬ ‫لومڑ اور گیڈر بھی‬ ‫گھاس پھوس سے نفرت کرتے ہیں‬ ‫اک کا جیون‬ ‫دوجے کی مرتیو پر اٹھتا ہے‬ ‫دیا اور کرپا کے سب جذبے‬ ‫شوگر کو نائٹروکولین ہیں‬ ‫اب دو بیلوں کی مرضی ہے‬ ‫اک ساتھ چلیں‬ ‫بے خوفی کا جیون جئیں‬


‫یا پھر‬ ‫دو راہوں کے راہی ٹھہریں‬ ‫کتوں سوئروں کا فضلہ بن کر‬ ‫بے نامی کی نالی میں بہہ جائیں‬

‫آؤ کوئی رشتہ استوار کریں‬ ‫میں تری آنکھوں میں رہتا ہوں‬ ‫تم مری دھڑکنوں میں بستے ہو‬ ‫مرے سپنوں میں ترا بسیرا ہے‬ ‫تری سوچوں میں مرا ڈیرا ہے‬ ‫بچھڑیں تو ملنے کا بہانہ تالشیں‬ ‫لمس سے کوسوں دور رہے‬


‫اک دوجے کی سانسوں میں‬ ‫رچ بس سے گئے ہیں‬ ‫جادو ٹونے کو‬ ‫میں نے کب کبھی مانا ہے‬ ‫ترے جادو گر ہونے پر‬ ‫مجھ کو یقین ہونے لگا ہے‬ ‫تری آنکھوں میں‬ ‫آشاؤں کی کہکشائیں ہیں‬ ‫ترے ہونٹوں سے‬ ‫افسرائیں گیت چرائیں‬ ‫مری نظمیں‬ ‫ترے قہقہوں سے شکتی مانگیں‬ ‫مرے تری ذات سے‬ ‫ترے مری ذات سے‬ ‫الکھوں ان جانے‬


‫بےنام رشتوں کا رشتہ ہے‬ ‫ہم اپنے سہی‬ ‫مگر ہم اک دوجے کے کیا ہیں؟‬ ‫آؤ کوئی رشتہ استوارر کریں‬ ‫کہ تکمیل ذات تکمیل ہستی ہے‬

‫مسکان کے بطن سے‬

‫وہ صاحب جمال‬ ‫دفعتا جالل میں آیا‬ ‫پھر تھوڑا مسکرایا‬ ‫اس ان حد‬ ‫مسکان کے بطن سے‬


‫تو ترکیب پایا‬ ‫رتبہء المکان مال‬ ‫پھر تو سلسلہ چل نکال‬ ‫تیری پلکوں کی حقیر جنبش سے‬ ‫قطار فرشتوں کی لگ گئی‬ ‫تیری انگلی کے ارتعاش سے‬ ‫مہتاب دو لخت ہوا‬ ‫جنت بنی سورگ بنا‬ ‫ویدی کا یہی ویدن تھا‬ ‫کہ سب دیو تخلیق ہوں‬ ‫تیری زلف کی بےخیالی نے‬ ‫آسمانوں کو وجود دیا‬ ‫ستارے بے نشان سے‬ ‫تیرے ہونے کا نشان ہوئے‬ ‫گردشوں کے امکان بنے‬


‫تیرے ہونٹ کچھ کہنے کو کھلے‬ ‫خالق دو جہاں نے‬ ‫تیرے ہونٹوں کو‬ ‫آئین فطرت کہا‬ ‫وہ قطرے سے دریا ہوا‬ ‫جس جبین کا تو مقدر ہوا‬ ‫جو تجھ سے گیا‬ ‫جہاں سے گیا خدا سے گیا‬

‫واپسی‬

‫بشارت کا جب در وا ہوا‬


‫میں نے سوچا‬ ‫پہلے ابنی قسمت کا حال پڑھوں‬ ‫واں کچھ بھی نہ تھا‬ ‫جو مرا ہوتا‬ ‫لہو پسینہ‬ ‫جو مرا تھا‬ ‫مرے رقیبوں ان کے بچوں‬ ‫ان کے کتوں اور سؤروں کو‬ ‫حدت بخش رہا تھا‬ ‫میں نے پھر سوچا‬ ‫جنگلوں میں جا بسوں‬ ‫درندوں کا وتیرا اپنا لوں‬ ‫انسان تھا‬ ‫جنگلوں میں کیسے جا بستا‬ ‫درندگی درندوں کی فطرت‬


‫محنت بنی آدم کا شیوا‬ ‫دو فطراتیں‬ ‫جنگل کا سینہ سما پائے گا؟‬ ‫کچھ نہیں کو چوم کر‬ ‫میں نے‬ ‫بشارت کا دروازہ بند کر دیا‬

‫مجھے اک خواب لکھنا ہے‬ ‫مجھے اک خواب لکھنا ہے‬ ‫آنکھوں میں مہتاب لکھنا ہے‬ ‫لکھ تو دوں‬ ‫آنکھیں ہی کیا‬ ‫کندھوں سے جدا سر‬


‫بل کے ہاں‬ ‫گروی پڑا ہے‬ ‫مرے پرکھوں کی یہ کمائی‬ ‫اس کے ہاتھ کیسے آئی‬ ‫مرے ہاھوں کا تراشا صنم‬ ‫اپنی عیاشیوں کے عوض‬ ‫کچھ ٹکوں میں‬ ‫کہیں اس کو نہ دے آیا ہو‬ ‫پوچھنا تو ہو گا‬ ‫میرا سر بریدہ جسم‬ ‫محتسب کے پاس جائے کیسے‬ ‫فرض کا قرض نبھائے کیسے‬ ‫عہد آج کا‬ ‫دولت عزیز رکھتا ہے‬ ‫اپنی آنکھوں کے عوض‬


‫دے سکتا ہوں میں‬ ‫گھر کے دالل خضر کی چاپ‬ ‫جو مری ضرورت نہیں‬ ‫مجھے اک خواب لکھنا ہے‬ ‫آنکھوں میں مہتاب لکھنا ہے‬








‫مقصود حسنی کی منظوم افسانے‬

‫پیش کار‬ ‫پروفیسر نیامت علی مرتضائی‬ ‫ابؤزر برقی کتب خانہ‬ ‫اگست ‪٦١٠٢‬‬


Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.