مقصود حسنی کے منظوم افسانے
پیش کار پروفیسر نیامت علی مرتضائی ابؤزر برقی کتب خانہ اگست ٦١٠٢
فہرست چل' دمحم کے در پر چل یہ ہی فیصلہ ہوا تھا کیچڑ کا کنول آخری خبریں آنے تک دو لقمے حیات کے برزخ میں حیرت تو یہ ہے سننے میں آیا ہے کس منہ سے میں نے دیکھا سوچ کے گھروندوں میں شہد سمندر
سورج ڈوب رہا ہے رام بھلی کرے گا بارود کے موسم رات ذرا ڈھل جانے دو آزاد کر دو آج بھی دھرتی کا اندر دو بیلوں کی مرضی ہے آؤ کوئی رشتہ استوارر کریں مسکان کے بطن سے واپسی مجھے اک خواب لکھنا ہے ممتا شاعر اور غزل وہ لفظ
آنکھوں دیکھے موسم
چل' دمحم کے در پر چل
اک پل آکاش اور دھرتی کو اک دھاگے میں بن کر
رنگ دھنک اچھالے دوجا پل جو بھیک تھا پہلے کل کی کاسے سے اترا ماتھے کی ریکھا ٹھہرا کرپا اور دان کا پل پھن چکر مارا گرتا ہے منہ کے بل سلوٹ سے پاک سہی پھر بھی حنطل سے کڑوا اترن کا پھل الفت میں کچھ دے کر پانے کی اچھا حاتم سے ہے چھل
غیرت سے عاری حلق میں ٹپکا وہ قطرہ سقراط کا زہر نہ گنگا جل مہر محبت سے بھرپور نیم کا پانی نہ کڑا نہ کھارا وہ تو ہے آب زم زم اس میں رام کا بل ہر فرزانہ عہد سے مکتی چاہے ہر دیوانہ عہد کا بندی مر مٹنے کی باتیں
ٹالتے رہنا کل تا کل جب بھی پل کی بگڑی کل در نانک کے بیٹھا بےکل وید حکیم مالں پنڈٹ پیر فقیر جب تھک ہاریں جس ہتھ میں وقت کی نبضیں چل دمحم کے در پر چل
یہ ہی فیصلہ ہوا تھا
عہد شہاب میں بےحجاب بےکسی بھی عجب قیامت تھی۔ صبح اٹھتے مشقت اٹھاتےعوضوانے کو ہاتھ بڑھاتے بے نقط سنتے۔ سانسیں اکھڑ جاتیں مہر بہ لب جیتے کہ سانسیں باقی تھیں۔ جینا تو تھا ہی لہو تو پینا تھا ہی۔ ادھر ایونوں میں آزادی کی صدائیں گونج رہی تھیں ادھر گلیوں میں خوف کا پہرا تھا کہ شاہ بہرا تھا۔ شاہ والے گلیوں میں بےچنت کرپانیں لیے پھرتے تھے۔ نقاہت ہاتھ باندھے شکم میں بھوک آنکھوں میں پیاس لیے کھڑی تھی ہاں مگر شاہ کی دیا کا بول باال تھا۔ پنڈت کے ہونٹوں پر شانتی بغل میں درانتی مالں بھی من میں تفریق کا بارود بھرے امن امن امن کیے جا رہا تھا۔
اب جب کہ پیری پہ شنی کا پہرا ہے بھوک کا گھاؤ گہرا ہے۔ جیب میں دمڑی نہیں امبڑی نہیں کہ وید حکیموں کے دام چکائے بڑے شفاخانے کے در پر الئے مایوسی کی کالک مٹائے آہیں سنے تشفی کی لوری سنائے۔ ہونٹوں پہ گالب سجائے دل میں کرب اٹھائے اب کون ہے جو مرے مرنے سے مر جائے۔ بیٹے کو اپنی پتنی سے فرصت نہیں بیٹی کی ساس کپتی ہے بھائی کے گھر تیل نہ بتی ہے مری بہن کی کون سنتا ہے سیٹھ کے برتن دھو سیٹھنی کے کوسنے سن کر پیٹ بھرتی ہے۔ بیگم روتی ہے نہ ہنسی ہے سوچتی ہے کفن دفن کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے کہیں اس کے بھائیوں کی چمڑے نہ ادھڑ جائے وہ تو بہنوئی کی کھاتے تھے جب بھی آتے تھے کچھ ناکچھ لے جاتے تھے۔ جیتا ہوں تو مصیبت مرتا ہوں تو مصیبت۔ میں وہ ہی ہوں
جواندھیروں میں رہ کر ایونوں کے دیپ جالتا رہا دوا دور رہی مری گرہ میں تو اس اجڑے گلستان کا کرایہ نہیں۔ گھر میں روشنی نہیں ناسہی شاید کوئی فرشتہ مری لحد میں بوند بھر روشنی لے کر آ جائے عمر بھر خود کو نہ دیکھ سکا سوچ سکا واں سکوں ہو گا خود کو دیکھ سکوں گا سوچ سکوں گا خود کو دیکھنے سوچنے کی حسرت بر آئے گی۔ خود کو دیکھ کر سوچ کر ارضی خدائی سے مکتی قلبی خدا کی بےکراں عظمتوں کا اسرار کھل جائے گا وہ میرا تھا میرا ہے مجھے مل جائے گا۔ سردست کفن و دفن کے سامان کی فکر ہے۔ کفن ملے ناملے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ عمر بھر اس نے مری پردہ پوشی کی ہے اب بھی کرئے گا۔ ایونوں میں بستے سفیدی میں لپٹے شیطانوں کا نگر مرا
نہیں مرا نہیں گورنگر مرا ہو گا مرا خدا کچھ لیتا نہیں دیتا ہے۔ لینا مری عادت دینا اس کی فطرت روٹی کی فکر کیسی کرائے کی چنتا میں کیوں کروں مری جان میں آ رہا ہوں تو مختصر سہی مرے لیے مری حسرتوں کے لیے سات زمینوں سے بڑھ کر وسعت رکھتی ہے میں بھول میں رہا کہ یہاں کچھ بھی مرا نہ تھا زیست کے کچھ لمحوں کی دیری تھی تو ہی تو مری تھی یہ ہی فیصلہ ہوا تھا یہ ہی فیصلہ ہوا تھا یہ ہی فیصلہ ہوا تھا۔
کیچڑ کا کنول
آلودہ‘ میال سا چیتھڑا شاید حاجت سے بچا ہوگا
‘آدم زادے کا پراہین عییب نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔؟ گالب سے چہرے پر بلور ایسی‘ دیکھتی آنکھیں حیرت خوف غم غصہ اورافسوس جانے کیا کچھ تھا ان میں سماج کی بےحسی پہ ان ٹھہری مگر دیکھتی آنکھوں میں دو بوند‘ لہو سی صدیوں کے ظلم کی داستان لیے ہوئے تھیں اتنی حدت اتنی اتنی تپش کہ پتھر بھی پگھل کر پانی ہو ترسی ترسی باہیں میرے بوبی کی باہیں ایسی ہی تھیں کہ
جب وہ بچہ تھا تب محبتوں کا حصار تھا اور اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خفت ندامت کا حصار مرے گرد ہے لمحہ بہ لمحہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دائرہ تنگ ہو رہا ہے مجھے فنکار سے نسبت ہے فنکار‘ سب کا درد سینے کی وسعتوں میں سمو لیتا ہے ‘اور میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساکت وجامد مٹی کے بت کی طرح خاموش تماشائی تھا اس نے پکارا آواز دی
احتجاج بھی کیا کچھ نہ میں کر سکا ‘جیسے وہ آدم زادہ نہ ہو ہمالہ سے گرا کوئی پتھر ہو :اس نے کہا !فنکار۔۔۔۔۔۔۔“ مجھے اپنی باہوں میں سما لو “ازل سے پیاسا ہوں گھبرا کر تھوڑا سا )پستیوں کی جانب) پیچھے سرکا کوئی مصیبت کوئی وبال تہمت یا بدنامی سر نہ آئے چیخا “فنکار کا سینہ
!کب سے تنگ ہوا ہے؟ میری باہیں غیر جنس کی باہیں ہیں؟ ان کا تم پر کوئی حق نہیں؟؟؟ وہ کہتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں سنتا رہا کیا جواب تھا میرے پاس !کاش میرے شعور کی آنکھیں بند ہو جاتیں یوں جیسے ممتا کی سماج کی آنکھیں بند تھیں سوچتا ہوں‘ مجرم کون ہے ‘گناہ کس نے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ ماں یا سماج نے وہ تو اپنے گھروں میں آسودہ سانسوں کے ساتھ گرم کافی پی رہے ہوں گے
یا میں نے جو شب کی بھیانک تنہائی میں ندامت سے سگریٹ کے دھوئیں میں تحلیل ہو رہا ہوں گٹرکے قریب پڑا‘ وہ کنول مجھ سے میرے ضمیر سے انصاف طلب کر رہا ہے کہ تم‘ خدائے عزوجل کی تخلق کا یہ حشر کرتے ہو مجھے حرامی کہتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ بتاؤ‘ حامی کون ہے؟ ضمیر کس کا مردہ ہے؟ مجرم کون ہے؟ میں یا تم؟؟؟
میری بستی کے باسیو کہ تمہیں عظیم مخلوق ہونے کا دعوی ہے کیا جواب دوں اسے؟ اس کا ننھا سا معصوم چہرا احتجاج سے لبریزآنکھیں پنکھڑی سے ہونٹوں پر تھرکتی بےصدا سسکیاں مجھے پاگل کر دیں گی پاگل ہاں پاگل اوٹ سے‘ ٠٩٩١
آخری خبریں آنے تک
کون انصاف تمہارا یہاں کیا کام جہاں میری ضرورت ہوتی ہے بن بالئے چال آتا ہوں بن بالئے کی اوقات سمجھتے ہو جی ہاں اوقات عمل سے بنتی ہے تمہاری ماننے والے بھوکے مرے بھوک نے انہیں ہمیشہ سرخرو کیا ہے لوگ ہمیں سالم کرتے ہیں تمہیں نہیں‘ تمہاری شر کو سالم کہتے ہیں تاریخ میں دھنوان امر رہا ہے تاریخ پیٹ کے بندوں کا روزنامچہ ہے
پیٹ ہی تو سب کچھ ہے تب ہی تو باال سطع پر رہتے ہو تہہ کے متعلق تم کیا جانو بڑے ڈھیٹ ہو بننا پڑتا ہے تمہیں تمہاری اوقات میں النا پڑے گا کیا کر لو گے؟؟؟ تمہاری ہڈی پسلی ایک کر دوں گا یہ سب تو پہلے بھی میرے ساتھ ہو چکا ہے کوئی نئی ترکیب سوچو تمہیں جال کر راکھ کر دوں گا عبرت کے لیے تمہاری راکھ گلیوں میں بکھیر دوں گا یہ تو اور بھی اچھا ہو گا وہ کیسے؟
میری راکھ کا ہر ذرا انقالب بن کر ابھرے گا اہ مائی گاڈ‘ تو پھر میں کیا کروں؟ مجھے اپنے سینے سے لگا لو یہ مجھ سے نہیں ہو گا تو طے یہ ہوا تمہاری اور میری جنگ کا کوئی انت نہیں دیکھتا ہوں کہاں تک اذیت برداشت کرتے ہو چلو میں بھی دیکھتا ہوں اذیت میں کس حد تک جاتے ہو اس کے بعد گھمسان کی جنگ چھڑ گئی اور آخری خبریں آنے تک جنگ جاری تھی
دو لقمے تعفن میں اٹی ‘اندھیاروں میں لیپٹی وہ بستی جہاں چھیتڑوں میں ملفوف زندہ الشوں کے دل کی دھڑکنیں دیوار پر آویزاں کالک کی ٹک ٹک کی آوازیں تھیں۔ ‘بھوک کی اہیں بےبسی کی سسکیوں میں مدغم ہو رہی تھیں۔ آس کا سایہ آس پاس نہ تھا۔ تھا کچھ تو قاتل خاموشی تھی۔ بھوک کا ناگ پھن پھیالئے بیٹھا تھا۔ مایوسیوں کی اس بستی سے رحم کا دیوتا شاید خفا تھا یا پھر وہ بھی تہی دست تہی دامن ہو گیا تھا۔ اک مسکراہٹ کے طلبگار یہ الشے بے حس نہیں‘ بے بس تھے۔ پھر اک الشہ بھوک ناگ جس کے قریب تر تھا۔۔۔۔۔۔ تڑپا اور
رینگ کر روشنی کی شہراہ پر آ گیا۔ اس حرکت میں اس نے اپنی ساری توانائی صرف کر دی۔ ہر سو اجالے تھے لیکن وہ بھوک کے سیاہ کفن میں ملبوس تھا۔۔۔۔۔۔۔۔پھر بھی۔۔۔۔۔۔۔ ہاں پھر‘ بھی وہ زندہ تھا اور اجالوں کی شہراہ پر پڑا ہانپ رہا تھا۔ سانسیں بےترتیب تھیں۔ خوش پوش راہی شاید اسے دیکھ نہیں رہے تھے۔ جو دیکھ رہے تھے ناک پر رومال رکھ کر گزر رہے تھے۔ وہ سب اس کے ہم جنس تھے۔ کتنی آس لے کر وہ یہاں تک آیا تھا۔ ان دیکھتے کرب لمحوں کو کون جان پاتا۔ وہ اس بستی کا نہ تھا۔ بھوک ناگ بوال :کہاں تک بھاگو گے‘ تمہیں میرا لقمہ بننا ہی ہو گا کہ خود میں بھوکا ہوں۔ پھر وہ تھوڑا آگے بڑھا۔ الشہ چالیا :نہیں۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔ رکو۔۔۔۔۔ٹھہرو۔۔۔۔۔۔ روٹی ضرور آئے گی۔ سب بےکار۔۔۔۔۔روٹی کوئی نہیں دے گا۔۔۔۔۔۔ یہ پیٹ بھر کر بھی آنکھوں میں بھوک لیے پھرتے ہیں۔ ان میں سے کون دے گا روٹی۔ ان کے ہشاش بشاش چہروں پر نہ جاؤ۔ ان
کے من کی بھوک کو دیکھو اور میرے صبر کا امتحان نہ لو۔ :الشہ سٹپٹایا اور چالیا !اجالوں کے باسیو !علم و فن کے دعوےدارو !سیاست میں شرافت کے مدعیو !جمہوریت کے علم بردارو !اسلحہ خرید کرنے والو !فالحی اداروں کے نمبردارو ‘عالمی وڈیرو ‘کہاں ہو تم سب تمہارے وعدے اور دعوے کیا ہوئے؟ اپنی بھوک سے دو لقمے میرے لیے بچا لو۔ بھوک ناگ میرے قریب آ گیا ہے۔ دیکھو غور کرو‘ میں تمہارا ہم جنس ہوں ‘۔ دو لقمے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں فقط دو لقمے
میری زندگی کے ضامن ہیں۔ ایف سولہ ہائیڈروجن بم مجھے نہیں چاہیے۔ میری ضرورت روٹی کے دو لقمے ہیں۔ اس دور کی یہ تمہاری بہت بڑی جیت ہو گی جو تاریخ میں تمہیں امر کر دے گی۔
حیات کے برزخ میں تالش معنویت کے سب لمحے صدیاں ڈکار گئیں چیتھڑوں میں ملبوس معنویت کا سفر اس کنارے کو چھو نہ سکا تاسف کے دو آنسو کاسہءمحرومی کا مقدر نہ بن سکے
کیا ہو پاتا کہ شب کشف دو رانوں کی مشقت میں کٹ گئی صبح دھیان نان نارسا کی نذر ہوئی شاعر کا کہا بےحواسی کا ہم نوا ہوا دفتر رفتہ شاہ کے گیت گاتا رہا وسیبی حکائتیں بےوقار ہوئیں قرطاس فکر پہ نہ چڑھ سکیں گویا روایت کا جنازہ اٹھ گیا ضمیر بھی چاندی میں تل گیا مجذوب کے خواب میں گرہ پڑی مکیش کے نغموں سے طبلہ پھسل گیا درویش کے حواس بیدار نقطے ترقی کا ڈرم نگل گیا
نہ مشرق رہا نہ مغرب اپنا بنا آخر کب تک یتیم جیون حیات کے برزخ میں شناخت کے لیے بھٹکتا رہے
حیرت تو یہ ہے
موسم گل ابھی محو کالم تھا کہ مہتاب بادلوں میں جا چھپا اندھیرا چھا گیا پریت پرندہ ہوس کے جنگلوں میں کھو گیا اس کی بینائی کا دیا بجھ گیا
کوئی ذات سے‘ کوئی حاالت سے الجھ گیا کیا اپنا ہے‘ کیا بیگانہ‘ یاد میں نہ رہا بادل چھٹنے کو تھے کہ افق لہو اگلنے لگا دو بم ادھر دو ادھر گرے پھر تو ہر سو دھواں ہی دھواں تھا چہرے جب دھول میں اٹے تو ظلم کا اندھیر مچ گیا پھر اک درویش مینار آگہی پر چڑھا کہنے لگا سنو سنو دامن سب سمو لیتا ہے اپنے دامن سے چہرے صاف کرو شاید کہ تم میں سے کوئی ابھی یتیم نہ ہوا ہو
یتیمی کا ذوق لٹیا ڈبو دیتا ہے من کے موسم دبوچ لیتا ہے کون سنتا پھٹی پرانی آواز کو حیرت تو یہ ہے موسم گل کا سب کو انتظار ہے گرد سے اپنا دامن بھی بچاتا ہے اوروں سے کہے جاتا ہے چہرہ اپنا صاف کرو‘ چہرہ اپنا صاف کرو
سننے میں آیا ہے سننے میں آیا ہے ہم آگے بڑھ گئے ہیں ترقی کر گئے ہیں
سرج اب شرق سے اٹھتا ہے واشنگٹن کے مندر کا بت کس محمود نے توڑا ہے سکندر کے گھوڑوں کا منہ کس بیاس نے موڑا ہے اس کی گردن کا سریا کس ٹیپو نے توڑا ہے سو کا بیلنس اب سو ہی چڑھتا ہے پونڈ سٹرلنگ اور ڈالر روپیے کے دو ملتے ہیں سننے میں آیا ہے ہم آگے بڑھ گئے ہیں ترقی کر گئے ہیں 'بیوہ کو ٹک ملتا ہے
وہ پیٹ بھر کھاتی ہے گریب کی بیٹیا بن دہیج ?اب ڈولی چڑھتی ہے جو جیون دان کرے دارو کی وہ شیشی ?اب مفت میں ملتی ہے سننے میں آیا ہے ہم آگے بڑھ گئے ہیں ترقی کر گئے ہیں موسی اور عیسی گرجے اور ہیکل سے ?مکت ہوے ہیں بدھ رام بہا کہ نانک کے پیرو ہوں
یا پھر چیراٹ شریف کے باسی ?اپنا جیون جیتے ہیں سننے میں آیا ہے ہم آگے بڑھ گئے ہیں ترقی کر گئے ہیں گوئٹے اور بالی ٹیگور تے جامی سیوفنگ اور شیلی ?سب کے ٹھہرے ہیں مالں پنڈت اور گرجے کا وارث انسانوں کو انسانوں کے ?کام آنے کی کہتا ہے سننے میں آیا ہے ہم آگے بڑھ گئے ہیں
ترقی کر گئے ہیں شیر اور بکری 'اک گھاٹ پر پانی پیتے ہیں ?اک کچھ میں رہتے ہیں سیٹھوں کی بستی میں مل بانٹ کر ?کھانے کی چرچا ہے رشوت کا کھیل ?ناکام ہوا ہے منصف ?ایمان قرآن کی کہتتا ہے سننے میں آیا ہے ہم آگے بڑھ گئے ہیں ترقی کر گئے ہیں من تن کا وارث
تن من کا بھیدی جب بھی ٹھہرے گا جیون کا ہر سکھ قدموں کی ٹھوکر امبر کے اس پار انسان کا گھر ہو گا 'پرتھوی کیا هللا کی ہر تخلیق کا ماما نہیں موچی درزی نائی بھی وارث ہوگا 'شخص شخص کا بھائی ہوگا
کس منہ سے چلم بھرتے ہات‘ اٹھ نہیں سکتے ہونٹوں پر فقیہ عصر نے چپ رکھ دی ہے کتنا عظیم تھا وہ شخص گلیوں میں رسولوں کے لفظ بانٹتا رہا ان بولتے لفظوں کو‘ ہم سن نہ سکے آنکھوں سے‘ چن نہ سکے ہمارے کانوں میں‘ جبر کی پوریں رہیں آنکھوں میں خوف نے پتھر رکھ دیے ہم جانتے ہیں‘ وہ سچا تھا قول کا پکا تھا مرنا تو ہے‘ ہمیں یاد نہ رہا
ہم جانتے ہیں اس نے جو کیا ہمارے لیے کیا جیا تو ہمارے لیے جیا کتنا عجیب تھا زندہ الشوں کا دم بھرتا رہا مصلوب ہوا ہم دیکھتے رہے نیزے چڑھا ہم دیکھتے رہے مرا جال راکھ اڑی ہم دیکھتے رہے اس کے کہے پر دو گام تو چال ہوتا کس منہ سے اب اس کی راہ دیکھتے ہیں ہم خاموش تماشائی مظلومیت کا فقط ڈھونگ رچاتے ہیں بے جان جیون کے دامن میں غیرت کہاں جو رن میں اترے
یا پھر پس لب اس کی مدح ہی کر سکے چلو دنیا چاری ہی سہی آؤ اندرون لب دعا کریں ان مول سی مدح کہیں
میں نے دیکھا
پانیوں پر میں اشک لکھنے چال تھا دیدہءخوں دیکھ کر ہر بوند ہوا کے سفر پر نکل گئی
منصف کے پاس گیا شاہ کی مجبوریوں میں وہ جکڑا ہوا تھا سوچا پانیوں کی بےمروتی کا فتوی ہی لے لیتا ہوں مالں شاہ کے دستر خوان پر مدہوش پڑا ہوا تھا دیکھا‘ شیخ کا در کھال ہوا ہے سوچا شاید یہاں داد رسی کا کوئی سامان ہو جائے گا وہ بچارہ تو پریوں کے غول میں گھرا ہوا تھا کیا کرتا کدھر کو جاتا دل دروازہ کھال خدا جو میرے قریب تھا
بوال کتنے عجیب ہو تم بھی کیا میں کافی نہیں جو ہوس کے اسیروں کے پاس جاتے ہو میرے پاس آؤ ادھر ادھر نہ جاؤ میری آغوش میں تمہارے اشکوں کو پناہ ملے گی ہر بوند رشک لعل فردوس بریں ہو گی اک قطرہ مری آنکھ سے ٹپکا میں نے دیکھا شاہ اور شاہ والوں کی گردن میں بے نصیبی کی زنجیر پڑی ہوئی تھی
سوچ کے گھروندوں میں
علم و فن کے کالے سویروں سے مجھے ڈر لگتا ہے ان کے بطن سے ہوس کے ناگ جنم لیتے ہیں سچ کی آواز کو جو ڈس لیتے ہیں سہاگنوں کی پیاسی آتما سے ہوس کی آگ بجھاتے ہیں صالحیتوں کے چراغوں کی روشنی کو دھندال دیتے ہیں بجھا دیتے ہیں حق کے ایوانوں میں
اندھیر مچا دیتے ہیں حقیقتوں کا ہم زاد اداس لفظوں کے جنگلوں کا آس سے ٹھکانہ پوچھتا ہے انا اور آس کو جب یہ ڈستے ہیں آدمیت کی آرتھی اٹھتی ہے کم کوسی' بےہمتی بےاعتنائی کے شراپ کے سائے ابلیس کے قدم لیتے ہیں شخص کبھی جیتا کبھی مرتا ہے کھانے کو عذاب ٹکڑے پینے کو تیزاب بوندیں ملتی ہیں خود کشی حرام سہی مگر جینا بھی تو جرم ٹھہرا ہے
ستاروں سے لبریز چھت کا دور تک اتا پتا نہیں ہوا ادھر سے گزرتے ڈرتی ہے بدلتے موسموں کا تصور شیخ چلی کا خواب ٹھہرا ہے یہاں اگر کچھ ہے تو'........... منہ میں زہر بجھی تلواریں ہیں پیٹ سوچ کا گھر ہات بھیک کا کٹورا ہوئے ہیں بچوں کے کانچ بدن بھوک سے کبھی نیلے کبھی پیلے پڑتے ہیں اے صبح بصیرت! تو ہی لوٹ آ
کہ ناگوں کے پہرے کرب زخموں سے رستا برف لہو تو نہ دیکھ سکوں گا سچ کے اجالوں کی حسین تمنا مجھے مرنے نہ دے گی اور میں اس بےوضو تمنا کے سہارے کچھ تو سوچ سکوں گا سوچ کے گھروندوں میں زیست کے سارے موسم بستے ہیں قاضی جرار حسنی
1974
شہد سمندر ترے شبدوں میں شہد سمندر ترے ہونٹوں میں تخلیق کی ابجد تری آنکھوں میں کئ عرش سجے ترے پیروں میں جیون ریکھا تری سانسوں میں آج اور کل تری کھوج کا پل
صدیوں پر بھاری ترے ملن کے عشرے جاپیں پل دو پل ترے سوچ کے آنگن میں کن کے بھید چھپے تو چھو لے تو مٹی سونا اگلے پتھر پارس ٹھہرے تری ایڑ کے اندر احساس کے سات سمندر ترا دامن فرشتوں کا مسکن تو وہ برگد چرا کر سایہ جس کا آکاش اترائے
میں اپنے بخت پر نازاں ہوں تو مری ماں کہالئے ترے سینے میں مری پیاس کےدیپ جلیں ماں کے دل کی دھک دھک خلد کے گیت سنائے
سورج ڈوب رہا ہے میں جو بھی ہوں چاند اور سورج کی کرنوں پر میرا بھی تو حق ہے دھرتی کا ہر موسم خدا کا ہر گھر
میرا بھی تو ہے قرآن ہو کہ گیتا رامائن کا ہر قصا گرنتھ کا ہر نقطا میرا بھی تو ہے تقسیم کا در جب بھی کھلتا ہے الٹ کے دفتر کا منشی بارود کا مالک پرچی کا مانگت عطا کے بوہے بند کر دیتا ہے رام اور عیسی کے بول ناچوں کی پھرتی بے لباسی میں رل کر
بے گھر بےدر ہوئے ہیں دفتری مالں کےمنہ میں کھیر کا چمچہ ہے پنڈت اور فادر ہاں ناں کے پل پر بیٹھے توتے کو فاختتہ کہتے ہیں دادگر کے در پر سائل پانی بلوتا ہے مدرسے کا ماشٹر کمتر سے بھی کمتر کالج کا منشی جیون دان ہوا کو ترسے قلم کا دھنی غالموں کے سم پیتے برچھوں کی زد میں ہے
سب اچھا کا تلک سر ماتھے پر رکھنے والے گورا ہاؤس کے چمچے کڑچھے طاقت کی بیلی میں کربل کربل کرتے یہ کیڑے ہانیمن اور اجمل کا منہ چڑاتے ہیں مسائل کی روڑی پر بیٹھا میں گونگا بہرا بے بس زخمی نانک سے بدھ لچھمن سے ویر تالشوں مدنی کریم کی راہ دیکھوں علی علی پکاروں کہ سورج ڈوب رہا ہے
رام بھلی کرے گا
ہاتھ کے بدلے ہاتھ سر کے بدلے سر تھپڑ کے بدلے تھپڑ پتھر کے بدلے پتھر میر جعفر نے مگر لوٹ لیا ہے کس سے فریاد کریں جس ہاتھ میں گالب وسنبل اس کی بغل میں خنجر کمزور کی جیون ریکھا کا منشی ٹھہرا ہے
قاتل چور اچکا قانون بناتا ہے لوبھی قانون کا رکھواال بےبس زخمی زخمی منصف ہوا ہے اور یہ مقولہ باقی ہے چڑھ جا بیٹا سولی رام بھلی کرے گا
بارود کے موسم
کرائے کے قاتل کیا بھکشا دیں گے؟ کرن ہماری کھا جا ہے ہم موسی کے کب پیرو ہیں جو آسمان سے من و سلوی اترے گا اپنی دونی کا گیندا ہیرے کی جڑت کے گہنوں سے گربت کی چٹیا پر سوا سج دھج رکھتا ہے میری کا طعنا معنا اکھین کے سارے رنگوں پر کہرا بن کے چھا جاتا ہے کوڑ کی برکی کا وش دیسی نغموں میں
ڈرم کا بے ہنگم غوغا طبلے کی ہر تھاپ کھا پی جاتا ہے کرائے کے قاتل کیا بھکشا دیں گے؟ ان کی آنکھوں میں تو بارود کے موسم پلتے ہیں
رات ذرا ڈھل جانے دو رات ذرا ڈھل جانے دو جب دو پاٹ ندی کے مل جائیں گے در وصل کے کھل جائیں گے
نیند کے جھونکے آغوش میں اپنی بستی کو لے لیں گے آکاش سے دھند اترے گی ظلمت اپنی زلفوں میں جاگتے رہنا کے آوازوں کو کس لے گی تب ہوس سکوں کی گھر سے باہر نکلے گی رات ذرا ڈھل جانے دو تم حصہ اپنا بٹوا لینا راتوں کے مالک لوگ بھروسہ کے ہیں دن کو تو اجلے چہرے
دھندال جاتے ہیں رات ذرا ڈھل جانے دو
آزاد کر دو
غرب سے امن سلیقہ اترا اجاال مرے آنگن کا بے وقار ہوا بےکار ہوا گرداب میں کھڑا استعارہ بول رہا تھا پتھر کو رقص دو سب موسم دبوچ لو
جب خوشبو کی ردا اوڑھ کر زیست کا صحیفہ اترا اک کفن بردار بڑا ہی ذی وقار تلوار کی دھار پر کہے جا رہا تھا آنکھ کے سارے جگنو آزاد کر دو آزاد کر دو
آج بھی بہت سے گم ہوئے
بہت سے مر گیے کچھ پس ستم کیے کچھ عدم معنویت کی صلیب چڑھے ہاں‘ شاہ نواز تاریخ کی لوح پر زندہ رہے وہ ہی وقتوں کے ہیرو ٹھہرے جن پر مالں کی مہر ثبت ہوئی انہیں کون جھٹالئے سچ کا آئینہ دکھائے ‘جھوٹ معنویت کے ساتھ زندہ رہا سکھ کا سانس لیتا رہا احساس بنا عزت کی دلیل ہوا معبدءتوقیر میں پڑا
یہ صدیوں کا ورثہ طاق میں رکھ کر ‘کوئی کیوں اس لفظ کو تالشے جو معاشی روایت نہیں سماجی حکایت نہیں بےسر وادی معاش ہو کہ شاہ کے صنم کدے شہوت کی عشرت گاہوں گنجان آباد صحراؤں میں اس کا کیا کام سچ کے شبدوں کی خاطر فاقہ کی کربال سے گزر کر حق کے ہمالہ کی چوٹی کوئی کیوں منزل بنائے
سپیدی لہو ‘کب کبھی کسی سرمد کی ہم سفر رہی ہے حمادی کے فتوے نے راکھ گنگا کے حوالے نہ کی شاہ نواز حرف اور نقطے مظلوموں کی شریعت ہے ‘آج بھی لوح فہم و احساس کے ایوان پر ان کی سچائی کا علم لہراتا ہے 11-7-1978
دھرتی کا اندر
اک بچہ مرے دل دریچوں میں چپ سادھے بیٹھا ہے شبنم کی بوندیں جو اس کے رخساروں پر میں نے دیکھی ہیں بھوک دیس کا نوحہ ہیں بھیک کو پھیلے اس کے ننھے ہاتھوں کی الجھی لکیریں میری آنکھوں میں سوال بنتی رہتی ہیں ان الجھی ریکھاؤں کو برہما لوک سے کب کوئی سلجھانے اترے گا
سکھ کا سارا ناواں دھرتی کا اندر اپنی مٹھی میں رکھ کر سیتا کا بلی دان راون تپسیا کا بردان سمجھے سیاست کی دوکان چمکائے بیٹھا ہے
دو بیلوں کی مرضی ہے
بندر کے بچوں کے آتے کل کی بھوک کے غم میں وہ اور یہ آدم کے زخموں سے چور
بھوک سے نڈھال قول کے سچے پکے بچوں پر بھونکتے ٹونکتے زخمی سوئر بھوکے کتے ٹوٹ پڑے ہیں ظلم کے ہر حامی کے منہ میں خون کی ٹکسال سے نکلے ڈالر ہاتھ میں وعدوں کے پرزے ہیں ظلم کی نندا کرنے والے توپوں کی زد میں ہیں جبر کے ٹوکے میں اپنی سانسیں گنتے ہیں ہونٹوں سے باہر آتی جیبا خنجر کی کھا جا ہے
گھورتی آنکھیں اگنی کا رن ہے سچ تو یہ ہے کمزور باشندے پشو جناور کا اترن اور ماس خور درندوں کا جیون ہیں لومڑ اور گیڈر بھی گھاس پھوس سے نفرت کرتے ہیں اک کا جیون دوجے کی مرتیو پر اٹھتا ہے دیا اور کرپا کے سب جذبے شوگر کو نائٹروکولین ہیں اب دو بیلوں کی مرضی ہے اک ساتھ چلیں بے خوفی کا جیون جئیں
یا پھر دو راہوں کے راہی ٹھہریں کتوں سوئروں کا فضلہ بن کر بے نامی کی نالی میں بہہ جائیں
آؤ کوئی رشتہ استوار کریں میں تری آنکھوں میں رہتا ہوں تم مری دھڑکنوں میں بستے ہو مرے سپنوں میں ترا بسیرا ہے تری سوچوں میں مرا ڈیرا ہے بچھڑیں تو ملنے کا بہانہ تالشیں لمس سے کوسوں دور رہے
اک دوجے کی سانسوں میں رچ بس سے گئے ہیں جادو ٹونے کو میں نے کب کبھی مانا ہے ترے جادو گر ہونے پر مجھ کو یقین ہونے لگا ہے تری آنکھوں میں آشاؤں کی کہکشائیں ہیں ترے ہونٹوں سے افسرائیں گیت چرائیں مری نظمیں ترے قہقہوں سے شکتی مانگیں مرے تری ذات سے ترے مری ذات سے الکھوں ان جانے
بےنام رشتوں کا رشتہ ہے ہم اپنے سہی مگر ہم اک دوجے کے کیا ہیں؟ آؤ کوئی رشتہ استوارر کریں کہ تکمیل ذات تکمیل ہستی ہے
مسکان کے بطن سے
وہ صاحب جمال دفعتا جالل میں آیا پھر تھوڑا مسکرایا اس ان حد مسکان کے بطن سے
تو ترکیب پایا رتبہء المکان مال پھر تو سلسلہ چل نکال تیری پلکوں کی حقیر جنبش سے قطار فرشتوں کی لگ گئی تیری انگلی کے ارتعاش سے مہتاب دو لخت ہوا جنت بنی سورگ بنا ویدی کا یہی ویدن تھا کہ سب دیو تخلیق ہوں تیری زلف کی بےخیالی نے آسمانوں کو وجود دیا ستارے بے نشان سے تیرے ہونے کا نشان ہوئے گردشوں کے امکان بنے
تیرے ہونٹ کچھ کہنے کو کھلے خالق دو جہاں نے تیرے ہونٹوں کو آئین فطرت کہا وہ قطرے سے دریا ہوا جس جبین کا تو مقدر ہوا جو تجھ سے گیا جہاں سے گیا خدا سے گیا
واپسی
بشارت کا جب در وا ہوا
میں نے سوچا پہلے ابنی قسمت کا حال پڑھوں واں کچھ بھی نہ تھا جو مرا ہوتا لہو پسینہ جو مرا تھا مرے رقیبوں ان کے بچوں ان کے کتوں اور سؤروں کو حدت بخش رہا تھا میں نے پھر سوچا جنگلوں میں جا بسوں درندوں کا وتیرا اپنا لوں انسان تھا جنگلوں میں کیسے جا بستا درندگی درندوں کی فطرت
محنت بنی آدم کا شیوا دو فطراتیں جنگل کا سینہ سما پائے گا؟ کچھ نہیں کو چوم کر میں نے بشارت کا دروازہ بند کر دیا
مجھے اک خواب لکھنا ہے مجھے اک خواب لکھنا ہے آنکھوں میں مہتاب لکھنا ہے لکھ تو دوں آنکھیں ہی کیا کندھوں سے جدا سر
بل کے ہاں گروی پڑا ہے مرے پرکھوں کی یہ کمائی اس کے ہاتھ کیسے آئی مرے ہاھوں کا تراشا صنم اپنی عیاشیوں کے عوض کچھ ٹکوں میں کہیں اس کو نہ دے آیا ہو پوچھنا تو ہو گا میرا سر بریدہ جسم محتسب کے پاس جائے کیسے فرض کا قرض نبھائے کیسے عہد آج کا دولت عزیز رکھتا ہے اپنی آنکھوں کے عوض
دے سکتا ہوں میں گھر کے دالل خضر کی چاپ جو مری ضرورت نہیں مجھے اک خواب لکھنا ہے آنکھوں میں مہتاب لکھنا ہے
مقصود حسنی کی منظوم افسانے
پیش کار پروفیسر نیامت علی مرتضائی ابؤزر برقی کتب خانہ اگست ٦١٠٢