رفی سندی وی کی کچھ اور نظمیں
پیش ک ر مقصود حسنی ابوزر برقی کت خ ن جنوری ٧
نظمیں بڑا چکر لگ ئیں ج ؤ ا روتے رہو جیسے کوزہ نہیں ج نت کیک ک ایک ٹکڑا ح ِّد بی ب نی میں اسی آگ میں پو پھٹی ج َ اس رات بڑی خ موشی تھی ٹی ے سے قبرست ن تک ت بھی ج ن ں کیسے ہو انتب ہ م تھوں پ سینگ ہونے ک خدش نیند کی ج ن قد اسے پک رو
کہ نی عالمت بنے گی میں نے دروازہ نہیں کھوال تھ ی م ت کی ش سوئ تندور واال
بڑا چکر لگ ئیں کسی دن آ پرانی کھ ئیوں کو پ ر کر کے دلدلوں میں پ ؤں رکھیں نرس وں کو ک ٹ ڈالیں پیش منظر کے لیے رست بن ئیں آ کسی دن دھند میں جکڑی ہوئی ک نٹوں بھری ی ب ڑ جس میں وقت کی بج ی رواں ہے جو زمیں وآسم ں کو ک ٹتی ہے بیچ سے اس کو ہٹ ئیں آ کسی دن
جھولتے پل سے اتر کر نقش تقوی میں ُپر پیچ کہس روں کے اندر جھ گ اڑاتی شور کرتی َبل پ َبل کھ تی ندی میں غوط زن ہوں تیرتے ج ئیں کسی دن آ ! بڑا چکر لگ ئیں
ج ؤ ا روتے رہو ت نہیں ج نتے اس دھند ک قص کی ہے دھند جس میں کئی زنجیریں ہیں ایک زنجیر کسی پھول ،کسی شبد کسی ط ئر کی ایک زنجیر کسی رنگ ،کسی بر کسی پ نی کی زلف ورخس ر ل و چش کی ،پیش نی کی ت نہیں ج نتے اس دھند ک زنجیروں سے رشت کی ہے !ی فسوں ک ر تم ش کی ہے ت نے بس دھند کے اس پ ر سے
تیروں کے نش نے ب ندھے اور ادھر میں نے تمھ رے لیے جھنک ر میں دل رکھ دی کڑیوں میں زم نے ب ندھے ج ؤ ا روتے رہو وقت کے محبس میں خود اپنے ہی گ ے سے لگ کر ت مرے سین صد رنگ کے ح دار نہیں ا تمھ رے مرے م بین کسی دید ک ! ن دید ک اسرار نہیں
جیسے کوزہ نہیں ج نت جیسے کوزے پ جھک کر کبھی روشنی کی مرصع صراحی نے دو گھونٹ امرت انڈیال نہیں جیسے کوزہ نہیں ج نت اک جھری نوک سوزن سی پت ی لکیر اس کے پیندے پ ہے کیسے مح وظ رکھے گ پ نی جو اندھے کنووں سے ہوا کھ نستی ٹونٹیوں بے نمو گھ ٹیو ں سے چٹ نوں کی ب ریک درزوں تڑختی زمیں کی دراڑوں سے قطرہ ب قطرہ
اکٹھ ہوا جیسے کوزہ نہیں ج نت ُآ زر منبع نور سے اک تس سل کے ع لَ میں بوندوں کی صورت ٹپکت ہے تر کرت رہت ہے پی سوں کے ل پر بجھ ت نہیں ایک د تشنگی ایک میق ت ہوتی ہے کو زے کی بھرنے کے رسنے کے م بین اک را ت ہوتی ہے
کیک ک ایک ٹکڑا کہن تر زین بدلی گئی پھر نئی ن ل بندی ہوئی اورفرس ہنہن ی سوار ا سواری پر مجبور تھ میں اکیال عزا دار کتنے یگوں سے اٹھ ئے ہوئے جس ک ت زی خود ہی اپنے جن دن پ مسرور تھ کپکپ تی چھری کیک کو وسط تک چیر کر رک گئی دل لرزنے لگ ض ف کی م ری پھونکوں نے
ایک ایک کر کے بھڑکتی لووں کو بجھ ی عزیزوں نے بچوں نے ت لی بج ئی مب رک مب رک ہوئی کیک ک ایک ٹکڑا مرے منھ میں ٹھو نس گی ن ل کی شکل ک
ح ِّد بی ب نی میں
میرے اس و تموج پ نظر ڈال مری لہر کے پیرائے کو دیکھ لمس کی دھوپ کو دیکھ اور مرے س ئے کو دیکھ دیکھ ا میرے خدوخ ل میں تبدی ی ہے دل کی روندی ہوئی مٹی جو بہت م ند تھی ا عکس تصور ہی سے چمکی ی ہے ا مرے جس ک ہر زاوی تمثی ی ہے آخر اس گہرے اندھیرے کے ف ک بوس پہ ڑوں میں بن کر رست جھ مالتی ہوئی نقشین ش عوں کو کسی وجد میں آئے ہوئے
دری کی طرح بہن تھ چ ند کے گرد جو ہ ل تھ اسے ٹوٹن تھ ابر کو کچھ کہن تھ سر میں سر ہوت تھ آمیز بہ ت ل میں ت ل میرے اس و تموج پ نظر ڈال مری لہر کے پیرائے کو دیکھ لمس کی دھوپ کو دیکھ اور میرے س ئے کو دیکھ دیکھ کس طرح میرے ہ تھ سے پھوٹ ہے بن شی پودا ک س سر سے نکل آئی ہے اودی کونپل اور اگ آئے ہیں سینے سے چن ری پتے جس اک مہک ہوا ب
نظر آت ہے
آخر اک ت را گھنی رات کے دروازے سے در آت ہے آخر اس ح ِّد بی ب نی میں ایک گل پوش نے دھرن تھ قد آ کے یہ ں رہن تھ جھ مالتی ہوئی نقشین ش عوں کو کسی وجد میں آئے ہوئے !دری کی طرح بہن تھ
اسی آگ میں اسی آگ میں مجھے جھونک دو وہی آگ جس نے بالی تھ مجھے ایک دن د ش گی د ش گی مرا انتظ ر کی بہت کئی خشک لکڑیوں ش خچوں ،کے حص ر میں جہ ں برگ و ب ر ک ڈھیر تھ د ش گی مجھے ایک پتے نے ی کہ تھ گھمنڈ سے ادھر آ کے دیکھ ک اس تپیدہ خم ر میں ہمیں ہ ہیں لکڑیوں ش خچوں کے حص ر میں یہ ں اور کون وجود ہے
یہ ں صرف ہ ہیں رکے ہوئے کہیں آدھے اور کہیں پورے پورے ج ے ہوئے د ش گی ہمیں جو مسرت رقص تھی تمہیں کی خبر اگر آگ ت کو عزیز تھی تو ی جس کون سی چیز تھی جسے ت کبھی ن جال سکے !وہ جو راز تھ پس ش گی نہیں پ سکے سو کہ تھ میں نے ی ایک ادھ ج ے برگ سے مجھے دکھ بہت ہے ک آگ نے مرا انتظ ر کی بہت مگر ان دنوں کسی اور طرز کی آگ میں مرا جس ج نے کی آرزو میں اسیر تھ
مگر ان دنوں میں ن جل سک میں ن جون اپنی بدل سک مگر ا وہ آگ ک جس میں ت نے پن ہ لی جہ ں ت ج ے جہ ں ت عجی سی لذتوں سے گ ے م ے اسی آگ میں مجھے جھونک دو
پو پھٹی ج َ
پو پھوٹنے میں ابھی کچھ دیر تھی َ گر بستر چھوڑ کر ج گھر کی چوکھٹ پ ر کی میں نے تو س را شہر سوی تھ ک جیسے اک کوی تھ جس کی ت میں ہست و بود ک ریش سی ہی کے عج اسرار میں لپٹ ہوا تھ اک قدیمی دشت کی مہک ر میں لپٹ ہوا تھ ایسے لگت تھ ک جیسے راستوں، کھیتوں،مک نوں اور درختوں پر فسوں پھونک گی ہو وقت جیسے
اک خم ر َرفت میں ڈوب ہوا ہو شش ج َہت پر رنگ استمرار ک پھیال ہوا ہو ال َمک ں کی کہنگی میں دھند کی لَ بستگی میں َخ
اَپنی خوا گ ہوں میں
دبک کر سو رہی تھی ُُآسم ں پر ضو م ند پڑتی ج رہی تھی چ ند کی َ ایک سن ٹے ک ع لَ تھ چراغوں کی لَویں بجھنے ک تھیں امک ن ب راں تھ گ ی کے َعین اوپر ا َبر کے ٹکڑے فض میں تیرتے تھے ہوا میں کپکپ ت میں َزمست نی َ ب ر ب ر اپنے سی کمبل کے گرتے پ وؤں کو پشت و سین پر جم ت
پر سکوں اَنداز میں خوابیدہ بچوں کے ہیولے اشک ب ر آنکھوں کے َپردوں سے ہٹ ت لَ ہی لَ میں َبڑ َبڑات س حل دری پ پہنچ !ن ؤ میں بیٹھ ابھی کچھ دیر تھی َپو پھوٹنے میں دوسرے س حل پ ج نے کی کشش نے موج کے ری ے نے میری ن ؤ کو آگے بڑھ ی صبح ک ت را اَچ نک جھ مالی ن ؤ،پ نی،ب دب ں،چپو،اندھیرا اور غنودہ جس میرا س عن صر ایک عنصر میں ڈھ ے دل میں کچھ پرانی ی د کے پھول ش خوں پر کھ ے
پھر َپو پھٹی پھر دوپ َہر کی دھوپ پھی ی س پ َہر کے س یے رینگے ش دھل آئی اَندھیرا چھ گی اور سینکڑوں راتوں کے اک لمبے س ر کے ب د !س حل آگی ج اگ ے دن کی َپو پھٹی گھر میں صف م ت بچھی
اس رات بڑی خ موشی تھی
میں اس کو ڈھونڈنے نکال تو اس رات دریچے خ لی تھے اور سڑکوں پر ویرانی تھی آک ش کے نی ے م تھے سے مہت
ک جھومر غ ئ تھ
اس رات بڑی خ موشی تھی میں اس کو ڈھونڈنے نکال تو رستے کے بیچ سمندر تھ اور اس کے پ ر پہ ڑی تھی مرے سر پر بوجھ تھ صدیوں ک اور ہ تھوں میں ک ہ ڑی تھی کچھ دور کن رے جوہڑ کے بس مینڈک ہی ٹراتے تھے
اور پیڑ کے پتوں سے کیڑے اک س عت میں گر ج تے تھے میں اس کو ڈھونڈنے نکال تو اس رات بڑی خ موشی تھی
ٹی ے سے قبرست ن تک
میتوں کے زرد چہروں پر جمی تھی موٹے بھدے چ ند کی مریل نکھٹو روشنی ایک م ت تھ ک جس میں منہمک اشج ر تھے صحن تھے خ موش ،سکتے میں درو دیوار تھے ایک ک لی رات تھی جو شہر میں آب د تھی اپنی اپنی موت ہی ہر ذی ن س کو ی د تھی راست بے ہوش تھ ٹی ے سے قبرست ن تک گورکن نوح کن ں تھے ،زندگی نرغے میں تھی الوؤں کے غول اڑتے تھے دریچوں کی طرف شہر سے ب ہر سمندر گونجنے میں محو تھ
ت بھی ج ن ں کیسے ہو
ت بھی ج ن ں کیسے ہو پل پل ڈرتے رہتے ہو پردہ دار بدن کے اندر آگے پیچھے سوچ سمندر ریت کن رے بیٹھے ہو ت بھی ج ن ں کیسے ہو چ در ڈال کے چہرے پر ش کی اوٹ میں چ تے ہو خوا دلہن کی ڈولی میں اپنے لمس کی جھولی میں خود کو چومتے رہتے ہو ت بھی ج ن ں کیسے ہو خو نہ کر پ نی سے
کپڑے اوڑھ کے دھ نی سے اپنے آپ کو تکتے ہو ت بھی ج ن ں کیسے ہو لیکن رات کو بستر میں تنہ ذات کے مندر میں سن کر بھجن اندھیرے کے دھ ڑیں م ر کے روتے ہو اپنے حسن کے سونے کو بھربھری مٹی کہتے ہو ت بھی ج ن ں کیسے ہو
انتب ہ
میں اپنے وطن سے بغ وت کروں تو مجھے قتل کرن اگر اپنے بھ ئی کے ورثے کو لوٹوں تو ت میری آنکھوں میں ک نٹے چبھون خمیدہ کمر بوڑھے م ں ب پ کو میں سہ را ن دوں تو مجھے قید کرن ،زد و کو کرن اگر میرا ہمس ی بھوک رہے تو مجھے ف ق زدگی سے دوچ ر کرن . اگر میرے بیٹے کو میری وج سے برائی لگے تو سالخوں کے پیچھے مجھے بیڑیوں میں جکڑ کر مشقت کران میں س کچھ سمجھتے ہوئے بھی اگر اپنی بیٹی کی خوشیوں ک ق تل بنوں تو مجھے بد دع ؤں سے محصور کرن
مجھے ٹکٹکی پر چڑھ ن میں چوری کروں تو میرے ہ تھ ت وار سے ک ٹ دین میں عورت کی عصمت دریدہ کروں تو زمیں میں مجھے گ ڑ دین مجھے سنگس ری سے م تو کرن اگر جر ہو ج ئیں ث بت تو مجھ پر بھی نک سزاؤں ک اطال کرن مگر ی د رکھن مری بے گن ہی کی تصدی کر کے اگر ت نے مجھ کو ص یبوں پ کھینچ تو میں آخری س نس تک ت سے لڑت رہوں گ
م تھوں پ سینگ
وہ ط س تھ جو تم بستی پ قہر تھ کوئی زہر تھ جو رگوں میں س کی اتر گی تو بکھر گی وہ جو بوریوں میں ان ج تھ کوئی ڈاکو لوٹ کے لے گی جو دلہن ک قیمتی داج تھ وہ سم ج تھ ک سبھی کے دل میں یتی ہونے ک خوف تھ کوئی ض ف تھ ک جو آنگنوں میں مقی تھ وہ رجی تھ ک تم بستی پ آگ تھ کوئی راگ تھ جو سم عتوں پ عذا تھ وہ عت
تھ ک سبھی کے م تھوں پ سینگ تھے
ہونے ک خدش
ڈرو ک س خ کرو ہ تھوں میں گرد لے کر گال ہ تھوں،بہ ر چہروں کو ڈھونڈتے ہیں ڈرو ک مکت کے راستے پر ج وس ن خواندگ ں کت بوں کو برچھیوں میں پرو رہ ہے تم بچوں کو خندقوں میں چھپ کے مکت کے س م نئی کت بوں میں اقتب س مح فظت کو تالش کرنے میں منہمک ہیں ڈرو ک پکی حوی یوں کو اکھ ڑ دینے ک عز لے کر ہزاروں خ ن بدوش تیشوں سے چوکھٹوں پر توان ضربیں لگ رہے ہیں ڈرو ک ا اونٹ اپنی کروٹ بدل رہ ہے
نیند کی ج ن قد
گنگ س نسیں پتھروں ک ایک ڈھیر بی چے ہ تھوں میں تھ مے ب نجھ موس کی پک ر روشنی دیوار کے اندر گئی واپس ہوئی ہ نشینی،رات ک پچھال پہر نیند کی ج ن قد میں سمندر اوڑھ کر س حل پ ہوں آنکھ کو دیمک لگی ب نس کے ویران جھنڈ گیدڑوں کی ہ ؤ ہو بکریوں کے پیٹ سے میمنے پیدا ہوئے اور مر گئے
ب رش ش سے ک س نہال گی کہکش ں رونے لگی بد دع ئیں منتقل ہونے کی گھنٹی بج گئی سر خمیدہ شہر سیدھ ہو گی ش ہ رگ سے دھڑکنیں رسنے لگیں میں نے اپنے آپ سے وعدہ کی اور سمندر اوڑھ کر پھر سو گی
اسے پک رو
اسے پک رو جو نیند موس میں سوئے چہرے جگ گی تھ وہ جس کی س نسیں طویل راتوں کی ہمس ر تھیں اسے پک رو ک پھر سے آنکھوں کو خوا س نپوں نے ڈس لی ہے بدن کے گنبد میں خواہشوں ک لہو کبوتر پھڑک رہ ہے نگ ہیں اپنے پھٹے دوپٹے کے زرد پ و میں زہر ب ندھے رگوں میں کھوئے ہوئے من ظر کی جستجو میں بھٹک رہی ہیں اسے پک رو جو ذات کشتی ک ب دب ں تھ وجود س حل پ جس کے ہ تھوں کی خوشبوئیں تھیں اسے پک رو ک کشت ج ں پ عذا ب دل برس رہ ہے زب ن تختی پ ذائقوں کے ق نے پھر سے کسی ی کڑوی رتوں ک ق نون لکھ دی ہے سم عتوں میں حروف جنگل جھ س رہ ہے اداس جذبوں کی کوٹھڑی میں اندھیرا بڑھت ہی ج رہ ہے
اسے پک رو ک س نس خیم اکھڑ رہ ہے بدن حر سے ستون چہرہ بچھڑ رہ ہے اسے پک رو جو نیند موس میں سوئے چہرے جگ گی تھ
کہ نی عالمت بنے گی کہ نی عالمت بنے گی ک پچھال زم ن ہم ری جبینوں پ شکنوں کی صورت میں لکھ ہوا ہے بہت ہی پرانی کسی داست ں میں شج عت کے قصے بدوش ہوا اک پری ک منقش سبک نقرئی تخت پر بیٹھ کر سیر کرن ط سمیں کنویں میں اسیری کی راتیں ان روں سے شوخ اور رنگین چڑیوں ک اک س تھ ب ہر نک ن گھنی آگ کے بیچ
فرش مدور پ رقص شب ن وہ چوتھی جہت مشکی گھوڑا بھگ ن کہ نی عالمت بنے گی ک پچھال زم ن مک ن فسوں ارض حیرت سرا ہے سوار جواں پر کوئی ک ر رفت نہیں کھل رہ ہے ن سیمر ک راز خ ت ن کوہ ندا ک فس ن کہ نی عالمت بنے گی ک پچھال زم ن کسی سنت س دھو کی لمبی جٹ ؤں میں الجھ ہوا ہے
میں نے دروازہ نہیں کھوال تھ
میرے دروازے پ س ب ر ہوئی تھی دستک میں نے دروازہ نہیں کھوال تھ ایک بھی ل ظ نہیں بوال تھ پہ ی دستک میں کوئی بھید نہیں تھ لیکن دوسری مرتب دستک میں چھپی تھی حیرت تیسری ب ر کی دستک سے عی ں ہوت تھ کوئی دہشت زدہ م رور کھڑا ہو جیسے اک جن زہ میری چوکھٹ پ پڑا ہو جیسے ایسے آواز میں تھیں درد و ال کی لہریں
جس طرح کوئی پن گ ہ کے ب لکل نزدیک زہر میں ڈوبے ہوئے تیر سے چھ نی ہو کر آخری س نس کو سینے میں سنبھ لے پھر بھی جس ،بے انت اندھیرے کے سمندر میں گرے اور اک بپھری ہوئی موج کف مرگ کے ہمراہ بہے جس طرح کوئی گھرا ہوت ہے آگ کے دشت خطرن ک میں سر سے پ تک میرے دروازے پ س ب ر ہوئی تھی دستک میں نے دروازہ نہیں کھوال تھ ایک بھی ل ظ نہیں بوال تھ
ی م ت کی ش سوئ
ی م ت کی ش سوئ تھک م ندا ،جن زہ گ ہ سے لوٹ ہوا چہرہ لہو،جیسے ک اک ک ئی زدہ ت ال کو ج ت ہوا زین فسردہ نی روشن صحن میں روتی ہوئی مدقو آنکھیں دھول سے لتھڑی ہوئی س نسیں َبرہن پ ؤں کے ت وے میں چبھت درد پہنچ ت کوئی خ ر حزیں پیہ ی م ت کی ش سوئ ش سوئ ی کی کھ نے سج کر الئے ہو ت َطشتری میں
سوگ میں کھ ی نہیں ج ت غذا توہین ہے غ کی قس لے لو جو میں نے تین دن سے گھونٹ بھر پ نی پی ہو اک نوال ح
سے نیچے نہیں اترا
مجھ ایسے سوگ واروں سے تمہیں م ن نہیں آی اٹھ لو ی مزین طشتری مشرو ک کوزہ ہٹ لو میرے آگے سے ابھی کچھ تھوڑا س گیہوں مرے گھر میں پڑا ہے اور چوکی پر رکھی کچی صراحی میں ابھی سوکھ نہیں چشمے ک نتھرا شہد س پ نی ابھی محرا دل کے بیچ روشن ہے چرا زندگ نی
تندور واال سنو ی جہن نہیں ہے دہکتے ہوئے سرخ ش وں کی َلو تیز گہری حرارت تپش آگ کی ان مدور کن روں سے اٹھتی ہوئی بھ پ میں زندگی ہے سنو میں نے خود ہی اسے اَپنے ایندھن سے روشن کی ہے صبح سے ش تک میں نے آٹے کو گوندھ خمیرہ کی گول پیڑے بن ئے رفیدے سے روٹی لگ ئی پکی ج اس پ پھول آئے
تو میں نے پرو کے سی سیخ کی نوک سے اس سے ب ہر نک ال میں روٹی کے پھولوں ک ع ش سدا ک میں اک ن ن ب ئی ہمیش سے میں ایک تندور واال زم نے، ترے س تھ میں پھول چننے چ وں گ ابھی میرا تندور نیچے سے اوپر ت ک َتپ رہ ہے طب قوں میں دو بوری گوندھ ہوا نر آٹ پڑا ہے جسے روٹیوں میں مجھے ڈھ لن ہے اَزل سے مجھے اس جہن سے روٹی م ی ہے مدور کن روں سے اٹھتی ہوئی بھ پ میں زندگی ہے سنو،ی جہن نہیں ہے
رفی سندی وی کی کچھ اور نظمیں
پیش ک ر مقصود حسنی ابوزر برقی کت خ ن جنوری ٧