مقصود حسنی کی کچھ نمائندہ نظمیں پیش کار پروفیسر نیامت علی مرتضائی ابوزر برقی کتب خانہ نومبر ٢٠١٦
فہرست میں مٹھی کیوں کھولوں ١- مت پوچھو ٢- شبنم نبضوں میں ٣- جینے کو تو سب جیتے ہیں ٤- آنکھ دریچوں سے ٥- بنیاد پرست ٦- پہرے ٧- اس سے کہہ دو ٨- باقی ہے ابھی ٩- جیون سپنا ١٠- چاند اب دریا میں نہیں اترے گا ١١- سفید پرندہ ١٢- ذات کے قیدی ١٣- جب تم مجھ کو سوچو گے ١٤- سب سے کہہ دو ١٥-
بالوں میں بکھری چاندی ١٦- شاہ کی الٹھی ١٧- اک پل ١٨- پلکوں پر شام ١٩- اب جب بھی ٢٠- پاگل پن ٢١- آسمان سے ٢٢- یہ کس کی سازش ہے ٢٣- برسر عدالت ٢٤- کاجل ابھی پھیال نہیں ٢٥- میں مقدر کا سکندر ہوں ٢٦- آنکھوں دیکھے موسم ٢٧- دروازہ کھولو ٢٨- تم مرے کوئی نہیں ہو ٢٩- صدیاں بیت گئی ہیں ٣٠- ایندھن ٣١-
عاری ٣٢- سننے میں آیا ہے ٣٣- کس منہ سے ٣٤- حیرت تو یہ ہے ٣٥- ہر گھر سے ٣٦- بارود کے موسم ٣٧- جاگتے رہنا ٣٨- حرص کی رم جم میں ٣٩- بن مانگے ٤٠- یقینی سی بات ہے ٤١- اپیل ٤٢- اس سے پہلے ٤٣- واپسی ٤٤- وقت کیسا انقالب الیا ہے ٤٥- سوال یہ ہے ٤٦- سچ کے آنگن میں ٤٧-
میں نے دیکھا ٤٨- نوحہ ٤٩- صبح ہی سے ٥٠- جب تک ٥١- ...........................
میں مٹھی کیوں کھولوں میں مٹھی کیوں کھولوں بند مٹھی میں کیا ہے کوئی کیا جانے مٹھی کھولوں تو تم مرے کب رہ پاؤ گے ہر سیٹھ کی سیٹھی اس کی گھتلی کے دم سے ہے
میں مٹھی کیوں کھولوں تری یاد کی خوشبو مری ہے مری ہے اس یاد کے باطن میں ترے ہونٹوں پر کھلتی کلیاں تری آنکھوں کی مسکانیں بھیگی سانسوں کی مہکیں جھوٹے بہالوے کچھ بے موسم وعدے ساتھ نبھانے کی قسمیں دکھ کے نوحے شراب سپنوں کی قوس و قزاح مری ہے مری ہے میں مٹھی کیوں کھولوں
مت پوچھو بن ترے کیسے جیتا ہوں مت پوچھو اڈیکوں کے ظالم موسم میں سانسوں کا آنا جانا کیسے ہوتا ہے مت پوچھو ساون رت میں آنکھوں کی برکھا کیسے ہوتی ہے مت پوچھو چاہت کی مدوا پر خود غرضی کا لیبل جب بھی لگتا ہے راتوں کی نیندیں ڈر جاتی ہیں آشکوں کے تارے سارے کے سارے گنتی میں کم پڑ جاتے ہیں
آس کی کومل کرنیں یاس کی اگنی میں جب جلتی ہیں تب روح کی ارتھی اٹھتی ہے یادوں کی نم آنکھوں کی بیپتا مت پوچھو چھوڑ کر جانے کے موسم پر بچھڑے موسم کا اک پل بھاری ہوتا ہے پھر کہتا ہوں کالے موسم تم کو کھا جائیں گے تری ہستی کی کوئی کرچی میں کیسے دیکھ سکوں گا چہرے گھائل مرے دل کے کتنے ٹکڑے کرتے ہیں مت پوچھو
شبنم نبضوں میں عشق پلکوں پر پروانے اترے دیوانے تھے جو پر جالنے اترے لمس کی حدت نے خوشبو کی شدت نے آئین کے سینے پر پتھر رکھا گالب آنکھیں پتھر ہر رہگزر خوف کا گھر سوچ دریچے برف ہوئے بہری دیواروں پر گونگے خواب اگے اندھے چراغ جلے شبنم نبضونمیں
موت کا شعلہ تھا شہر میں کہرام مچا پروانے تو دیوانے تھے پر جالنے اترے
جینے کو تو سب جیتے ہیں جینے کو تو سب جیتے ہیں ہر سایہ زخمی جنگل کے پنچھی چپ کے قیدی بربط کے نغمے ڈر کے شعلے پیتے ہیں کرنے کے جذبے روٹی کے بندی
دریا کا پانی بھیگی بلی حر بربک کے سنکھ میں رہتے ہیں جو خشکی کی کن من کو بارش سمجھے منہ کھولے سب آبی بھاگے دوڑے کچھ کٹ مرے کچھ تھک گرے جو چلتے گئے خوابوں کی بستی بستے ہیں جینے کو تو سب جیتے ہیں
آنکھ دریچوں سے
مجھ کو من مندر میں سجا لو کہ ترے آنکھ دریچوں سے قوس و قزاح کے رنگوں میں ڈھل کر گنگا جل میں دھل کر بہاروں کے موسم جھانکھیں خورشید شبد جیون دھرتی کو بینائی بخشیں تری آغوش میں پلتی مسکانیں مری تری مرتی کو امرتا کے بردان میں ٹانکیں مجھ کو من مندر میں سجا لو کہ کام دیوا ہر بار کب خوش بختی کا منگل سوتر گالب گلو میں رکھتا ہے
کالی راتوں میں ہونٹوں کی حدت بھرتا ہے مجھ کو من مندر میں سجا لو کہ ترے آنکھ دریچوں سے بہاروں کے موسم جھانکھیں
بنیاد پرست چاندنی سردی کا دیو کھا گیا بےنور آنکھوں کے سپنے کون دیکھتا ہے شو کیس کا حسن حنا بندی کے کب الئق ہوتا ہے بیوہ سے کہہ دو
چوڑیاں توڑ دے ہم کنوارپن کے گاہک ہیں سچائی کی زبان پر آگ رکھ دو بنیاد پرست ہے گریب کی لڑکی ڈولی چڑھے کیونکر گربت کے کینسر میں مبتال ہے پہرے کوئی غالم پیدا نہیں ہوتا معاش طاقت توازن سماج کی رت کے ساتھ بدلتے ہیں بھوک بڑھتی ہے تو دودھ خشک ہو جاتا ہے
خواہش احتجاج ضرورت زنجیر لیے کھڑے ہوتے ہیں بھوک کے ہوکے * سوچ کے دائرے پھیل جاتے ہیں وسائل سکڑ جاتے ہیں بغاوت پر کھولے تو سوچ پر پہرے لگ جاتے ہیں کوئی غالم پیدا نہیں ہوتا معاش طاقت توازن سماج کی رت کے ساتھ بدلتے ہیں --------------------------* تقاضوں کے رنگ میں
اس سے کہہ دو
اس سے کہہ دو دو چار ستم اور ڈھائے یتیمی کا دکھ سہتے بچوں کے نالے ٹوٹے گجروں کی گریہ زاری جلتے دوپٹوں کے آنسو عرش کے ابھی اس پر ہیں اس سے کہہ دو زنداں کی دیواروں کا مسالہ بدلے بےگنہی کی حرمت میں امیر شہر کی لکھتوں کا نوحہ کہتی ہیں اس سے کہہ دو ان کی پلکوں کے قطرے
صدیوں بے توقیر رہے پھر بھی ہونٹوں پر جبر کی بھا میں جلتے سہمے سہمے سے بول مسیحا بن سکتے ہیں اس سے کہہ دو کڑا پہرا اب ہٹا دے زنجیریں کسی طاق میں رکھ دے بھاگ نکلنے کی سوچوں سے قیدی ڈرتے ہیں آزاد فضاؤں بےقید ہواؤں پر سماج کی ریت رواجوں وڈیروں کے کرخت مزاجوں کے پہروں پرپہرے ہیں آئین کے پنے
تنکوں سے کمتر رعیت کے حق میں کب کچھ کہتے ہیں سب دفتر طاقت کی خوشنودی میں آنکھوں پر پٹی باندھے کانوں میں انگلی ٹھونسے اپنی خیر مناتے ہیں جورو کےموتر کی بو نے سکندر سے مردوں سے ظلم کی پرجا کے خواب چھین لیے ہیں دن کے مکھڑے پر راتوں کی کالک لکھ دی ہے اس سے کہہ دو دو چار ستم اور ڈھائے
باقی ہے ابھی محبت کیا ہے؟ دماغ کا بخار؟ کوئی میٹھا جذبہ قلبی رشتہ کسی کے اپنا ہونے کا احساس شہوت کا بڑھتا ہوا سیالب زندگی کا بدلتا رویہ یا انداز بےشمار سوال جن کا جواب ابھی تک باقی ہے
جیون سپنا
آنکھ سمندر میں تھا جیون سپنا کہ کل تک تھا وہ اپنا جب سے اس گھر میں چاندی اتری ہے میرے من کی ہر رت پت جھڑ ٹھری ہے بارش صحرا کو چھو لے تو وہ سونا اگلے مری آنکھ کے قطرے نے جنت خوابوں کو یم لوک میں بدال ہے کیسے چھو لوں تری مسکانوں میں طنز کی پیڑا پیڑا تو سہہ لوں
پیڑا میں ہو جو اپناپن آس دریچوں میں تری نفرت کا باشک ناگ جو بیٹھا ہے ہونٹوں پر مہر صبر کی جیبا پر حنطل بولوں کی سڑکن یاد کے موسم میں خوشبو کی پریاں یاد کی شاموں کا جب بھنگڑا ڈالیں گی آنکھ ہر جائے گی آس مر جائے گی آنکھ سمندر میں تھا جیون سپنا
چاند اب دریا میں نہیں اترے گا جذبے لہو جیتے ہیں معاش کے زنداں میں مچھروں کی بہتات ہے سہاگنوں کے کنگن بک گئے ہیں پرندوں نے اڑنا چھوڑ دیا کہ فضا میں تابکاری ہے پجاری سیاست کے قیدی ہیں تلواریں زہر بجھی ہیں محافظ سونے کی میخیں گنتا ہے چھوٹی مچھلیاں فاقہ سے ہیں کہ بڑی مچھلیوں کی دمیں بھی شکاری آنکھ رکھتی ہیں
دریا کی سانسیں اکھڑ گئی ہیں صبح ہو کہ شام جنگی بیڑے گشت کرتے ہیں چاند دھویں کی آغوش میں ہے اب وہ دریا میں نہیں اترے گا تنہائی بنی آدم کی ہمرکاب ہے کہ اس کا ہمزاد بھی تپتی دھوپ میں کب کا کھو گیا ہے
سفید پرندہ ممتا جب سے
صحرا میں کھوئی ہے کشکول میں بوئی ہے خون میں سوئی ہے سفید پرندہ خون میں ڈوبا خنجر دیوارں پر چاند کی شیشہ کرنوں سے شبنم قطرے پی کر سورج جسموں کی شہال آنکھوں میں اساس کے موسم سی کر ہونٹوں کے کھنڈر پر سچ کی موت کا قصہ حسین کے جیون کی گیتا وفا اشکوں سے لکھ کر برس ہوئے مکت ہوا
ذات کے قیدی قصور تو خیر دونوں کا تھا اس نے گالیاں بکیں اس نے خنجر چالیا سزا دونوں کو ملی وہ جان سے گیا یہ جہان سے گیا اس کے بچے یتیم ہوئے اس کے بچے گلیاں رولے اس کی ماں بینائی سے گئی اس کی ماں کے آنسو تھمتے نہیں اس کا باپ کچری چڑھا اس کا باپ بستر لگا دونوں کنبے کاسہء گدائی لیے گھر گھر کی دہلیز چڑھے
بے کسی کی تصویر بنے بے توقیر ہوئے ضبط کا فقدان بربادی کی انتہا بنا سماج کے سکون پر پتھر لگا قصور تو خیر دونوں کا تھا جیو اور جینے دو کے اصول پر جی سکتے تھے اپنے لیے جینا کیا جینا دھرتی کا ہر ذرہ تزئین کی آشا ر کھتا ہے ذات کے قیدی مردوں سے بدتر سسی فس کا جینا جیتے ہیں
جب تم مجھ کو سوچو گے تری زلفوں کی شب صبح بہاروں کے پر کاٹے تری آنکھوں کے مست پیالوں کا اک قطرہ آس کی مرتیو کا سر کاٹے جانے ان جانے کی اک انگڑائی نفرت کے ایوانوں میں ان کے ناہونے ترے ہونے کا قرطاس الفت پر امروں پر اپنی امرتا لکھ دے اب جب سے میں تجھ کو سوچے ہوں مری بصارت کے در وا ہوئے ہیں اپنی سوچ کا اک ذرہ
گر کوہ پر رکھ دوں دیوانہ ہو مجنوں کی راہ پکڑے مری سوچ کی حدت سے صحراؤں کا صحرا اپنی پگ بدلے تری مسکانوں کی بارش شور زمینوں کو برہما کے بردان سے بڑھ کر میں تجھ کو سوچے ہوں کہ سوچنا جیون ہے کھوجنا جیون ہے جب تم مجھ کو سوچو گے تم پر کن کا راز وا ہو گا وہ ہی ہر جا ہو گا تم کہتے پھرو گے One into many
But many are not one Nothing more but one When we divide one Face unjust and hardship I and you are not two but one One is fact Fact is one
سب سے کہہ دو
گذشتہ کے گالب و کنول مفتول ایمان کی الش پر سجا کر لبوں پرزیست کا نوحہ
پریت کا گریہ بسا کر وعدہ کی شام اپنی عظمت میں فرشتوں کے سب سجدے آج ہی مصلوب کر دو سب سے کہہ دو ہم گونگے ہیں بہرے ہیں کم کوسی کا مرض طاری ہے اگلوں کا کیا اپنے نام لھواتے ہیں مورخ ہتھ بدھا خادم ہے کل ہم پر ناز کرے گا کہ ہم رفتہ پر نازاں ہیں
بالوں میں بکھری چاندی
بالوں میں بکھری چاندی روح کی کب قاتل ہے مرتی ہو کہ جیون آس ہو کہ یاس اک کوکھ کی سنتانیں ہیں اک محور کے قیدی بالوں میں بکھری چاندی روح کی کب قاتل ہے جب دل دریا میں ڈول عشق کا ڈالو گے ارتعاش تو ہو گا من مندر کا ہر جذبہ ہیر کا داس تو ہو گا بالوں میں بکھری چاندی روح کی کب قاتل ہے
ہر رت کے پھل پھول نیارے چاندنی راتوں میں دور امرجہ کے کھلیانوں میں سیرابی دیتے ہیں لب گنگا کے پیاس بھجاتے ہیں بالوں میں بکھری چاندی روح کی کب قاتل ہے من مستی آنکھوں کا کاجل دھڑکن دل کی زلفوں کی ظلمت کب قیدی ہیں بالوں میں بکھری چاندی روح کی کب قاتل ہے آتش گاہیں برکھا رتوں میں جلتی تھیں جلتی ہیں
جلتی ہوں گی بالوں میں بکھری چاندی روح کی کب قاتل ہے
شاہ کی الٹھی انارکلی کے دیواروں میں چننے کا موسم جب بھی آتا ہے آس کے موسم مر جاتے ہیں ہر جاتے ہیں چاند سورج آکاش اور دھرتی زیست کے سب رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں
کل کی مانگ سجانے کو عشق پھر بھی زندہ رہتا ہے ہر دکھ سہتا ہے یہ کھیل شاہ‘ زادوں کا ہے شاہ زاہزادے کب مرتے ہیں شاہ کی الٹھی انار کلی کے سر پر منڈالتی رہتی ہے کمزور عضو کے سر پر سب موسم بھاری رہتے ہیں
اک پل اک پل
آکاش اور دھرتی کو اک دوجے میں بن کر رنگ دھنک اچھالے دوجا پل جو بھیک تھا پہلے کل کی کاسے سے اترا اتراتا اٹھالتا ماتھے کی ریکھا ٹھہرا کرپا اور دان کا پل پھن چکر مارا سلوٹ سے پاک سہی پھر بھی حنطل سے کڑوا اترن کا پل الفت میں کچھ دے کر پانے کی اچھا
حاتم سے چھل ہر فرزانہ عہد سے مکتی چاہے ہر دیوانہ عہد کا قیدی مر مٹنے کی باتیں ٹالتے رہنا کل تا کل جب بھی پل کی بگڑی کل در نانک کے بیٹھا بےکل
پلکوں پر شام پلکوں پر گزری شام
یاد کا نشتر ہر صبح راہ کا پتھر سورج بینائی کا منبع آنکھیں کھو بیٹھا ہر آشا زخمی زخمی ہر نغمہ عزائیلی اسرافیلی خون میں بھیگا آنچل گنگا کا ہر رستہ چپ کا قیدی دریا کنارے منہ دیکھے ہیں بے آب ندی میں گالب کی کاشیں پانی پانی ہونٹ سانپوں کے گھر
پلکوں کی شام ہر شام پر بھاری ہے ڈرتا ہے اس سے حشر کا منظر
اب جب بھی کوئی کنول چہرا اب جب بھی دیکھتا ہوں خوف کا موتیا آنکھوں میں اتر آتا ہے کلیوں کا جوبن چرا کر غرض کا جن پریوں کی اداؤں میں من آنگن میں
قدم رکھتا ہے خواہشوں کی انگور بیلیں سوکھ جاتی ہیں خوش فہمی کے سورج کی تاریک کرنیں ست کے سارے شبد کھا جاتی ہیں اگلے داؤ کے یقین پر جیون کے سب ارمان مر جاتے ہیں مر جاتے ہیں آس کے ٹوٹے ٹھوٹھے میں آشا کے کچھ بول رکھنے کو غرض کی برکی نہ بن جاءے وشنو چھپنے کو برہما لوک کا رستہ بھول جاتا ہے گالب کے ہونٹوں پر
بے سدھ ہونے کی اچھا تھرکنے لگتی ہے کوئی کنول چہرا اب جب بھی دیکھتا ہوں خوف کا موتیا آنکھوں میں اتر آتا ہے
پاگل پن آنچ دریچوں میں دیکھوں تو خواہش کے سب موسم جلتے ہیں نا دیکھوں تو احساس سے عاری اورابلیس کا پیرو ٹھہروں
جانے کے موسم میں آنے کی سوچیں تو گنگا الٹی بہتی ہے دن کو چاند اور تاروں کا سپنا پاگل پن ہی تو ہے من کے پاگل پن کو وید حکیم کیا جانیں جو جانے عشق کی دنیا کا کب باسی ہے
آسمان سے
آسمان سے
جب بھی من وسلوی اترتا ہے زمین زرد پڑ جاتی ہے کہ بے محنت کا ثمرہ حرکت کے در بند کر دیتا ہے سجدہ سے منحرف مخلوق حساس دلوں کی دھڑکنیں چھین لیتی ہے آسمان سے جب بھی من وسلوی اترتا ہے انسان کے سوا بلندیاں اتراتی ہیں
یہ کس کی سازش ہے
جاگو کب کا لہو‘ لہو ہوا ہے جانو دانستہ ہوا ہے کہ سہو ہوا ہے کس کی یہ سازش ہے بلبل کے روبرو قتل رنگ و بو ہوا ہے قاتل کی آستین دیکھ لو ہواوں سے گواہی لے لو یہاں ہی جھگڑا من و تو ہوا ہے وہ جینا کیا جینا ہے جو جینا ڈر کر جینا ہے مے گرتی ہے کہ تار سبو ہوا ہے
جاگو کب کا لہو‘ لہو ہوا ہے
برسر عدالت شبنم گھاس کا مکوڑا پں گیا بادل پرندوں نے پروں میں چھپا لیے آنسو مگر پلکوں پر تھے ہی کب امن اس روز شہر میں کرفیو تھا روشنی بارود نگل گیا
امید دماغ کا خلل نہیں تو اور کیا ہے قاتل برسر عدالت انصاف کا طالب تھا کہ چڑیوں کی چونچیں مقتول کا پیٹ روٹی خور ہو گیا تھا اسے گیس کی شکایت رہتی تھی ایسے میں قتل ناگزیر ہو گیا تھا مقتول کی شاہ خرچی کا عوضانہ بیوہ اور اس کے بچوں کی برسر عام نیالمی سے دلوایا جائے کہ انصاف کا بول باال ہو
کاجل ابھی پھیال نہیں تیری آنکھ کا کاجل ابھی پھیال نہیں تیرے بولوں کی کلیاں جوان ہیں طالئی چوڑے کی کھنک کب کل سے جدا ہے تیری دنیا میں کوئی اور تھا میں کیسے مان لوں تو وہی ہے جس نے میرے سوچ کے دروازے پر دستک دی تھی سوچنا یہ ہے کس کردہ جرم کی سزا سقراط کا زہر ہے
میرے سوچ پر خوف کا پہرا ہے روبرو راون کا چہرا ہے مجھ کو سوچنے کیوں نہیں دیتے ذات کے ذروں کو کھوجنے کیوں نہیں دیتے بند کواڑوں کے پیچھے سوچنے کی آرزو بیٹھی ہے جوجینے نہیں دیتی مرنے نہیں دیتی
میں مقدر کا سکندر ہوں میں مقدر کا سکندر ہوں ٹیکسوں کی شان کا سایہ مری رکھشا کرتا ہے
تانگے کی سیٹ پر لیٹے کسی کھڈے کے اک ہچکولے سے شفاخانے کے در پر ہمدردی کے بولوں میں لیپٹی دوا ملتی ہے کا بےسر سپنا لے کر آتا ہوں اس طفل تسلی پر برسوں سے میرا جیون ہے میں مقدر کا سکندر ہوں مرگ کے سارے خرچے بیوہ کے دوپٹے کی حرمت یتیموں کے منہ کے لقمے بک کر پورے ہوتے ہیں قلم اور بستے کئی یگ ہوئے الیعنی ٹھہرے ہیں پرچی خوروں کے جھوٹھے برتن ان کے ہاتھ کی ریکھا ہیں
پرچی والوں کی میرے مرنے سے راتیں سہانی ہوتی ہیں میں تو اس بہو رانی سا ہوں سارا گھر اس کاہے جب چاہے کوئی دعوی باندھے کوئی روک نہیں کوئی ٹوک نہیں بس اک پابندی ہے چیزوں کو چھونے سے پرہیز کرے نند کی کرتوں کو بند آنکھوں سے دیکھے گھورتی آنکھوں سے آزاد رہے گی شاد رہے گی میں مقدر کا سکندر ہوں ٹیکسوں کی شان کا سایہ
مری رکھشا کرتا ہے
آنکھوں دیکھے موسم آشا کی جوت جگا کر اب کہتے ہو عشق کی راہ میں کانٹے ہیں دھوپ کا پہرا ہے کانٹوں پر ننگے پاؤں بن مطب کے چلنا لیلی کے دور کی باتیں ہیں اک سے اک بڑھ کر مجنوں ہاتھ میں نوٹ لیے چلتا پھرتا تم دیکھو گے کنگلے عاشق کے آنسو
مطلب کی آنکھیں کیوں دیکھیں میں تو پھولوں کے موسم کی لیلی ہوں پاگل ہو تم اخالص اور الفت کی باتیں ووٹ کی باتیں ہیں سیاست اور الفت میں جو انتر ہے اس کو جانو آنکھیں کھولو وقت پہچانو سوچے ہوں موسم مجھ سے بگڑے بگڑے رہتے ہیں یہ ممکن ہے سب موسم تم کو مل جائیں سچل دل کی کلیاں اپنے دامن میں سورگ کے سکھ رکھتی ہیں
آنکھوں دیکھے موسم کبھی جیتے ہیں کبھی مرتے ہیں
دروازہ کھولو تم چپ ہو کہ مجھ میں تم بولتے ہو میرے دل کے بربط پر تری انگلی ہے تم چپ ہو کہ یہ دل تیرا مسکن ہے گھر کے باسی اپنی مرضی کے مالک ہوتے ہیں تم چپ ہو کہ شعور کی ہر کھڑکی میں
تیرا چہرا ہے کھڑکی بند کرتے ہیں تو دم گھٹتا ہے کھڑکی کھولے رکھنا گھر کی باتوں کو باہر النا ہے باہر کے موسم راون بستی کے منظر ہیں تم چپ ہو کہ اندر کے سب موسم تیرے ہیں دروازہ کھولو تیرے ہونٹوں کی مستی من کے کورے پنوں پر آنکھ سے چن کر رکھ دوں تم چپ ہو کہ چپ میں سکھ ہے چپ کے کھیسے میں
کلیاں ہی کلیاں ہیں تم چپ ہو کہ تحسین کے کلمے برہما کے بردان سے اٹھتےہیں ------تم چپ ہو کہ
تم مرے کوئی نہیں ہو تم مرے کوئی نہیں ہو میں نے تم کو کبھی سوچا ہی نہیں کھوجا ہی نہیں تم نےمیرے دل دروازے پر دستک دی ہے اب میں تم کو سوچوں گا تیری آنکھوں کے مست پیمانے سے کچھ بچا کر
آب زم زم میں مال کر امرتا کے ایوانوں میں خود کو پھر تم کو کھوجوں گا اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں اپنی آنکھوں سے دیکھنا میں تم کو تم میں مل جاؤں گا یہ کوئی تقدیر کا کھیل نہیں تم لکیر بناتے ہو لکیر مٹاتے ہو تم مرے کوئی نہیں ہو میں نے تم کو کبھی سوچا ہی نہیں اب میں تم کو سوچوں گا کہ تم نے میرے دل پر دستک دی ہے
صدیاں بیت گئی ہیں
جب سے میں نے تم کو سوچا ہے میں میں‘ میں کب رہا ہے گنگا جل کا ہر قطرہ گیتا کے بولوں گرنتھ کے شبدوں فرید کے شلوکوں پھول کے گالوں کو چھوتی شبنم ساگر کے اندر سیپ کی بند مٹھی میں موتی رتجگوں کی سوچوں دعا کو اٹھتے ہاتھوں ساون رتوں کی ہڑ برساتی آنکھوں آگ میں ڈوبی سانسوں کا حاصل تم ہو رمز مجھ پر کھل گئی ہے میرے سوچ کی
ساری شکتی کا دم خم تم ہو جب سے میں نے تم کو سوچا ہے میں میں‘ میں کب ہے میں کو سفر کیے صدیاں بیت گئی ہیں
ایندھن دیکھتا اندھا سنتا بہرا سکنے کی منزل سے دور کھڑا ظلم دیکھتا ہے آہیں سنتا ہے بولتا نہیں کہتا نہیں جہنم ضرور جائے گا
عاری جبرائیل ادراک شاہین پرواز لے گیا سیماب بےقراری گالب خوشبو لے گیا مہتاب چاندنی خورشید حدت لے گیا جو جس کو پسند آیا لے گیا تیرے پاس کیا رہا دو ہات‘ خالی دو آنکھیں‘ بے نور راتوں کے خواب بے رونق‘ بےزار
دن کے اجالے خاموش‘ اداس ہمالہ‘ مٹی کا ڈھیر حرکت سے عاری تو‘ مٹی کا ڈھیر حرکت سے عاری
سننے میں آیا ہے سننے میں آیا ہے ہم آگے بڑھ گئے ہیں ترقی کر گئے ہیں سرج اب شرق سے اٹھتا ہے واشنگٹن کے مندر کا بت کس محمود نے توڑا ہے
سکندر کے گھوڑوں کا منہ کس بیاس نے موڑا ہے اس کی گردن کا سریا کس ٹیپو نے توڑا ہے سو کا بیلنس اب سو ہی چڑھتا ہے پونڈ سٹرلنگ اور ڈالر روپیے کے دو ملتے ہیں سننے میں آیا ہے ہم آگے بڑھ گئے ہیں ترقی کر گئے ہیں 'بیوہ کو ٹک ملتا ہے وہ پیٹ بھر کھاتی ہے گریب کی بیٹیا بن دہیج ?اب ڈولی چڑھتی ہے
جو جیون دان کرے دارو کی وہ شیشی ?اب مفت میں ملتی ہے سننے میں آیا ہے ہم آگے بڑھ گئے ہیں ترقی کر گئے ہیں موسی اور عیسی گرجے اور ہیکل سے ?مکت ہوے ہیں بدھ رام بہا کہ نانک کے پیرو ہوں یا پھر چیراٹ شریف کے باسی ?اپنا جیون جیتے ہیں سننے میں آیا ہے ہم آگے بڑھ گئے ہیں
ترقی کر گئے ہیں گوئٹے اور بالی ٹیگور تے جامی سیوفنگ اور شیلی ?سب کے ٹھہرے ہیں مالں پنڈت اور گرجے کا وارث انسانوں کو انسانوں کے ?کام آنے کی کہتا ہے سننے میں آیا ہے ہم آگے بڑھ گئے ہیں ترقی کر گئے ہیں شیر اور بکری 'اک گھاٹ پر پانی پیتے ہیں ?اک کچھ میں رہتے ہیں سیٹھوں کی بستی میں مل بانٹ کر
?کھانے کی چرچا ہے رشوت کا کھیل ?ناکام ہوا ہے منصف ?ایمان قرآن کی کہتتا ہے سننے میں آیا ہے ہم آگے بڑھ گئے ہیں ترقی کر گئے ہیں من تن کا وارث تن من کا بھیدی جب بھی ٹھہرے گا جیون کا ہر سکھ قدموں کی ٹھوکر امبر کے اس پار انسان کا گھر ہو گا 'پرتھوی کیا
هللا کی ہر تخلیق کا ماما نہیں موچی درزی نائی بھی وارث ہوگا 'شخص شخص کا بھائی ہوگا
کس منہ سے چلم بھرتے ہات‘ اٹھ نہیں سکتے ہونٹوں پر فقیہ عصر نے چپ رکھ دی ہے کتنا عظیم تھا وہ شخص گلیوں میں رسولوں کے لفظ بانٹتا رہا
ان بولتے لفظوں کو‘ ہم سن نہ سکے آنکھوں سے‘ چن نہ سکے ہمارے کانوں میں‘ جبر کی پوریں رہیں آنکھوں میں خوف نے پتھر رکھ دیے ہم جانتے ہیں‘ وہ سچا تھا قول کا پکا تھا مرنا تو ہے‘ ہمیں یاد نہ رہا ہم جانتے ہیں اس نے جو کیا ہمارے لیے کیا جیا تو ہمارے لیے جیا کتنا عجیب تھا زندہ الشوں کا دم بھرتا رہا مصلوب ہوا ہم دیکھتے رہے نیزے چڑھا ہم دیکھتے رہے مرا جال راکھ اڑی ہم دیکھتے رہے اس کے کہے پر دو گام تو چال ہوتا
کس منہ سے اب اس کی راہ دیکھتے ہیں ہم خاموش تماشائی مظلومیت کا فقط ڈھونگ رچاتے ہیں بے جان جیون کے دامن میں غیرت کہاں جو رن میں اترے یا پھر پس لب اس کی مدح ہی کر سکے چلو دنیا چاری ہی سہی آؤ اندرون لب دعا کریں ان مول سی مدح کہیں
حیرت تو یہ ہے
موسم گل ابھی محو کالم تھا کہ مہتاب بادلوں میں جا چھپا اندھیرا چھا گیا پریت پرندہ ہوس کے جنگلوں میں کھو گیا اس کی بینائی کا دیا بجھ گیا کوئی ذات سے‘ کوئی حاالت سے الجھ گیا کیا اپنا ہے‘ کیا بیگانہ‘ یاد میں نہ رہا بادل چھٹنے کو تھے کہ افق لہو اگلنے لگا دو بم ادھر دو ادھر گرے پھر تو ہر سو دھواں ہی دھواں تھا چہرے جب دھول میں اٹے تو ظلم کا اندھیر مچ گیا پھر اک درویش مینار آگہی پر چڑھا
کہنے لگا سنو سنو دامن سب سمو لیتا ہے اپنے دامن سے چہرے صاف کرو شاید کہ تم میں سے کوئی ابھی یتیم نہ ہوا ہو یتیمی کا ذوق لٹیا ڈبو دیتا ہے من کے موسم دبوچ لیتا ہے کون سنتا پھٹی پرانی آواز کو حیرت تو یہ ہے موسم گل کا سب کو انتظار ہے گرد سے اپنا دامن بھی بچاتا ہے اوروں سے کہے جاتا ہے چہرہ اپنا صاف کرو‘ چہرہ اپنا صاف کرو
ہر گھر سے
دن کے اجالوں میں خداہائے کفر ساز و کفر نواز پیتے ہیں سچ کا لہو کہ وہ اجالوں کی بستی میں زندہ رہیں شرق سے اب تمہیں کوئی شب بیدار کرنا ہو گی کہ سچ اسے دکھنے ہی نہ پائے تمہیں بھی تو اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں یا پھر آتی نسلوں کے لیے ہی سہی دن کے اجالوں میں روح حیدر رکھنا ہوگی سسی فس کا جیون
جیون نہیں سقراط کی مرتیو مرتیو نہیں جینا ہے تو حسین کا جیون جیو کہ جب ارتھی اٹھے خون کے آنسووں میں راکھ اڑے خون کے آنسووں میں شاعر کا قلم روشنی بکھیرے گا زندگی‘ آکاش کی محتاج نہ رہے گی ہر گھر سے چاند ہر گھر سے سورج طلوع ہو گا غروب کی ہر پگ پر کہیں سقراط کہیں منصور
تو کہیں سرمد کھڑا ہو گا
بارود کے موسم کرائے کے قاتل کیا بھکشا دیں گے؟ کرن ہماری کھا جا ہے ہم موسی کے کب پیرو ہیں جو آسمان سے من و سلوی اترے گا اپنی دونی کا گیندا ہیرے کی جڑت کے گہنوں سے گربت کی چٹیا پر سوا سج دھج رکھتا ہے
میری کا طعنا معنا اکھین کے سارے رنگوں پر کہرا بن کے چھا جاتا ہے کوڑ کی برکی کا وش دیسی نغموں میں ڈرم کا بے ہنگم غوغا طبلے کی ہر تھاپ کھا پی جاتا ہے کرائے کے قاتل کیا بھکشا دیں گے؟ ان کی آنکھوں میں تو بارود کے موسم پلتے ہیں http://www.urdutehzeb.com/showthread.php/3429-%D8%A8%D8%A7%D8%B1%D9%88%D8%AF-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D 9%88%D8%B3%D9%85
جاگتے رہنا
جاگتے رہنا چور‘ ترے سہاگ کی چوڑیاں چرا نہ لے جاگتے رہنا چندا کی کوئی مست کرن آنکھوں کی مستی ہونٹوں کی سرخی چرا نہ لے جاگتے رہنا ہوا کا کوئی جھونکا حیا وتقدس کے رشتے چور چور نہ کر دے جاگتے رہنا شب کے پچھلے پہر کی رعنائیوں میں خدا تجھ کو بھی شریک کر لے
جاگتے رہنا گالب چندا کی رگوں سے ساری شبنم نچوڑ نہ لے جاگتے رہنا رقیب تجھے‘ تری مجبتوں سے محروم نہ کر دے جاگتے رہنا‘ مرے دوست‘ جاگتے رہنا جاگنا ہی زندگی‘ جاگتے ہی آزاد ہیں
حرص کی رم جم حرص کی رم جم میں مالں پنڈت گرجے کا فادر گر کا امین
لمبڑ کے ڈیرے پر بیٹھے آنکھوں میں پتھر رکھ کر پکون کے گیت گائیں لوکن کے گھر بھوک کا بھنگڑا گلیوں میں موت کا خنجر کھیتوں میں خوف کی کاشت جیون تذبذب کی صلیب پر لٹکا تخلیق کی ابجد تقدیر کی ریکھا کیسے ٹھہرے گا؟
بن مانگے
نیچے ہاتھ کی جنت دل والوں کو کب خوش آتی ہے تم نے کیوں سوچ لیا میں کوتاہ کوس سہی وہ تو تو کی بستی بستا ہے چترکار کوئی غیر نہیں کوئی دور نہیں وہ جانت ہیں کہ کیا ان کا ہے بن مانگے ان کو مل جائے گا
یقینی سی بات ہے
یقینی سی بات ہے تمہیں کیوں یقین نہیں آتا کربال کی بازگشت پہاڑوں میں کھو گئی ہے سہاگنوں نے سیاہ لباس پہن لیا ہے ان کے مردوں کے لہو میں یزید کی عطاؤں کا قرض اتر چکا ہے ہاں مگر جب پہاڑوں کو زبان مل جائے گی یقینی سی بات ہے بازگشت کے ہم زبان مجبور زندگی کو آزادی کو لب سڑک دیکھ سکیں گے
ماہ نامہ سوشل ورکر الہور' مارح۔اپریل 1992
اپیل نفرت کی توپوں کے دہانوں پر دودھ پیتے بچوں کو نہ رکھو ان کی آنکھوں کی معصومیت معصومیت کی آغوش میں پلتے خواب خواب صبح کی تعبیر ہوتا ہے خواب مر گیے تو آتا کل مر جائے گا اور یہ بھی کہ ممتا قتل ہو جائے گی 'خوب جان لو
نفرت کے تو پہاڑ بھی متحمل نہیں ہوتے کل کیوں کر ہو گا میں تم سے پھر کہتا ہوں نفرت کی توپوں کے دہانوں پر دودھ پیتے بچوں کو نہ رکھو ماہ نامہ سوشل ورکر الہور' جنوری-فروری 1992
اس سے پہلے اس سے پہلے کہ عمر کا تارا ٹوٹے مرے جیون کا ہر جلتا بجھتا پل
مجھ کو واپس کر دو جو دن خوشییوں میں گزرا تقدیر نہیں عشق کی تپسیا کا اترن تھا مرے بولوں کی تڑپت مرے گیتوں کی پیڑا مرزے کی کوئی ہیک نہیں مرے اشکوں کا شرینتر تھا کے طعنے مینے اپنوں سن سن کر غیروں کے بھی کان پکے میں اس کو لوکن کی کیوں کالی ریتا سمجھوں یہ تو سچ کا پریوجن تھا اس سے پہلے کہ عمر کا تارا ٹوٹے
مرے جیون کا ہر جلتا بجھتا پل مجھ کو واپس کر دو ہر ان ہونی کا پرورتن کھولو اس سے پہلے کہ عمر کا تارا ٹوٹے مرے جیون کا ہر جلتا بجھتا پل مجھ کو واپس کر دو
واپسی بشارت کا جب در وا ہوا میں نے سوچا پہلے ابنی قسمت کا حال پڑھوں
واں کچھ بھی نہ تھا جو مرا ہوتا لہو پسینہ جو مرا تھا مرے رقیبوں ان کے بچوں ان کے کتوں اور سوروں کو حدت بخش رہا تھا میں نے پھر سوچا جنگلوں میں جا بسوں درندوں کا وتیرا اپنا لوں انسان تھا جنگلوں میں کیسے جا بستا درندگی‘ درندوں کی فطرت محنت بنی ادم کا شیوا دو فطراتیں جنگل کا سینہ سما پائے گا؟
کچھ نہیں کو چوم کر میں نے بشارت کا دروازہ بند کر دیا
وقت کیسا انقالب الیا ہے وقت کیسا عذاب الیا ہے تم کب الئق محبت ہو ائینے میں اپنی شکل تو دیکھو قاصد یہی جواب الیا ہے گویا خط میں عتاب الیا ہے جو سر کے بل چلے تھے ناکام ٹھہرے پت جھڑ گالب الیا ہے ذلیخا کا عشق سچا سہی
وہ برہنہ پا کب چلی تھی پہیہ عمودی چال چال ہے زندہ قبر میں اتر گیا ہے انکھ دیکھتی نہیں کان سنتے نہیں وقت کیسا انقالب الیا ہے بارش قرض دار بادلوں کی بادل بینائی کو ترسیں زخمی زخمی ہر سہاگن کی کالئی بیوہ سولہ سنگار سے ہے وقت کیسا انقالب الیا ہے وقت کیسا عذاب الیا ہے
سوال یہ ہے
یہ سچ ہے محبت روح کو سکوں دل کو قرار دیتی ہے سوال یہ نہیں محبت کا احترام کرنا ہے زیست کے کالر پر سجا کر رکھنا ہے سوال یہ ہے کہ ہم احترام کیسے دیں اسے ہم تو بھوکے ہیں پیاسے ہیں جیون پر خوف کے بادل ہیں ہمیں تو جیون کے ہووت کی چنتا ہے
ہماری پسلیوں کے نیچے باما کا غالم چھپا بیٹھا ہے 'جس کی اپنی کوئی مرضی نہیں سوال یہ ہے کہ ہم محبت کا احترام کیسے کریں سچ کے آنگن میں
جب بھوک کا استر حرص کی بستی میں جا بستا ہے اوپر کی نیچے‘ نیچے کی اوپر آ جاتی ہے چھاج کی تو بات بڑی چھلنی پنچ بن جاتی ہے
بکری ہنس چال چلنے لگتی ہے کوے کے سر پر سر گرو کی پگڑی سج جاتی ہے دہقان بو کر گندم فصل جو کی کاٹتے ہیں صبح کا اترن لے کر کالی راتیں سچ کے آنگن میں جا بستی ہیں مارچ ١٩٧٤ ‘١٩
میں نے دیکھا
پانیوں پر میں اشک لکھنے چال تھا
دیدہءخوں دیکھ کر ہر بوند ہوا کے سفر بر نکل گئی منصف کے پاس گیا شاہ کی مجبوریوں میں وہ جکڑا ہوا تھا سوچا پانیوں کی بےمروتی کا فتوی ہی لے لیتا ہوں مالں شاہ کے دستر خوان پر مدہوش پڑا ہوا تھا دیکھا‘ شیخ کا در کھال ہوا ہے سوچا شاید یہاں داد رسی کا کوئی سامان ہو جائے گا وہ بچارہ تو
پریوں کے غول میں گھرا ہوا تھا کیا کرتا کدھر کو جاتا دل دروازہ کھال خدا جو میرے قریب تھا بوال کتنے عجیب ہو تم بھی کیا میں کافی نہیں جو ہوس کے اسیروں کے پاس جاتے ہو میرے پاس آؤ ادھر ادھر نہ جاؤ میری آغوش میں تمہارے اشکوں کو پناہ ملے گی ہر بوند رشک لعل فردوس بریں ہو گی اک قظرہ مری آنکھ سے ٹپکا میں نے دیکھا
شاہ اور شاہ والوں کی گردن میں بے نصیبی کی زنجیر پڑی ہوئی تھی مکرم بندہ جناب حسنی صاحب :سالم مسنون آزاد شاعری عام طور پر میرے سر پر سے گزر جاتی ہے۔ جب تک میں اس کے تانے بانے سلجھاتا ہوں پچھلے پڑھے ہوئے مصرعے ذہن کی تہوں میں کہیں گم ہو جاتے ہیں اور میں پھر نظم پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش میں گرفتار ہو جاتا ہوں۔ آپ کی اس نظم کے مطالعہ میں ایسا صرف ایک بار ہوا اور میں جلد ہی منزل مقصود تک پہنچ گیا۔ یہ شاید اس لئے ہوا کہ آپ کی نظم پر دلسوزی اور خلوص دل کی مہر لگی ہوئی ہے جیسے آپ اپنی آپ بیتی بیان کر رہے ہوں۔ نظم پڑھ کر متاثر ہوا۔ نظم کا پیغام عام سہی لیکن اہم ضرور ہے۔ ہم اہل دنیا بے تحاشہ اہل اقتدار کی جانب بھاگتے ہیں اور اس تگ و دو میں بھول جاتے ہیں کہ دینے واال تو کوئی اور ہی ہے۔ هللا رحم کرے۔ ایسے ہی لکھتے رہئے۔ هللا آپ کو ہمت اور طاقت عطا فرمائے۔ صالحیت اور توفیق سے تو اپ بھر پور ہیں ہی۔ باقی راوی سب چین بولتا ہ ے۔ سرور عالم را http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9132.0
نوحہ وہ قیدی نہ تھا خیر وشر سے بے خبر معصوم فرشتوں کی طرح جھوٹے برتنوں کے گرد انگلیاں محو رقص تھیں اس کی ہر برتن کی زبان پہ اس کی مرحوم ماں کا نوحہ باپ کی بےحسی اور جنسی تسکین کا بین تھا آنکھوں کی زبان پہ اک سوال تھا
‘اس کو زندگی کہتے ہیں یہی زندگی ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟
صبح ہی سے
وہ آگ عزازئیل کی جو سرشت میں تھی اس آگ کو نمرود نے ہوا دی اس آگ کا ایندھن قارون نے پھر خرید کیا اس آگ کو فرعون پی گیا اس آگ کو حر نے اگل دیا یزید مگر نگل گیا اس آگ کو
میر جعفر نے سجدہ کیا میر قاسم نے مشعل ہوس روشن کی اس آگ کے شعلے پھر بلند ہیں مخلوق ارضی ڈر سے سہم گئی ہے ابر باراں کی راہ دیکھ رہی ہے کوئی بادل کا ٹکڑا نہیں صبح ہی سے تو آسمان نکھر گیا ہے 1980
جب تک
وہ قتل ہو گیا پھر قتل ہوا ایک بار پھر قتل ہوا اس کے بعد بھی قتل ہوا وہ مسلسل قتل ہوتا رہا جب تک سیٹھوں کی بھوک‘ نہیں مٹ جاتی جب تک خواہشوں کا‘ جنازہ نہیں اٹھ جا وہ قتل ہوتا رہے گا وہ قتل ہوتا رہے گا
مقصود حسنی کی کچھ نمائندہ نظمیں
پیش کار پروفیسر نیامت علی مرتضائی ابوزر برقی کتب خانہ نومبر ٢٠١٦