مقصود حسنی کی کچھ نمائندہ نظمیں

Page 1

‫مقصود حسنی کی کچھ نمائندہ نظمیں‬ ‫پیش کار‬ ‫پروفیسر نیامت علی مرتضائی‬ ‫ابوزر برقی کتب خانہ‬ ‫نومبر ‪٢٠١٦‬‬


‫فہرست‬ ‫میں مٹھی کیوں کھولوں ‪١-‬‬ ‫مت پوچھو ‪٢-‬‬ ‫شبنم نبضوں میں ‪٣-‬‬ ‫جینے کو تو سب جیتے ہیں ‪٤-‬‬ ‫آنکھ دریچوں سے ‪٥-‬‬ ‫بنیاد پرست ‪٦-‬‬ ‫پہرے ‪٧-‬‬ ‫اس سے کہہ دو ‪٨-‬‬ ‫باقی ہے ابھی ‪٩-‬‬ ‫جیون سپنا ‪١٠-‬‬ ‫چاند اب دریا میں نہیں اترے گا ‪١١-‬‬ ‫سفید پرندہ ‪١٢-‬‬ ‫ذات کے قیدی ‪١٣-‬‬ ‫جب تم مجھ کو سوچو گے ‪١٤-‬‬ ‫سب سے کہہ دو ‪١٥-‬‬


‫بالوں میں بکھری چاندی ‪١٦-‬‬ ‫شاہ کی الٹھی ‪١٧-‬‬ ‫اک پل ‪١٨-‬‬ ‫پلکوں پر شام ‪١٩-‬‬ ‫اب جب بھی ‪٢٠-‬‬ ‫پاگل پن ‪٢١-‬‬ ‫آسمان سے ‪٢٢-‬‬ ‫یہ کس کی سازش ہے ‪٢٣-‬‬ ‫برسر عدالت ‪٢٤-‬‬ ‫کاجل ابھی پھیال نہیں ‪٢٥-‬‬ ‫میں مقدر کا سکندر ہوں ‪٢٦-‬‬ ‫آنکھوں دیکھے موسم ‪٢٧-‬‬ ‫دروازہ کھولو ‪٢٨-‬‬ ‫تم مرے کوئی نہیں ہو ‪٢٩-‬‬ ‫صدیاں بیت گئی ہیں ‪٣٠-‬‬ ‫ایندھن ‪٣١-‬‬


‫عاری ‪٣٢-‬‬ ‫سننے میں آیا ہے ‪٣٣-‬‬ ‫کس منہ سے ‪٣٤-‬‬ ‫حیرت تو یہ ہے ‪٣٥-‬‬ ‫ہر گھر سے ‪٣٦-‬‬ ‫بارود کے موسم ‪٣٧-‬‬ ‫جاگتے رہنا ‪٣٨-‬‬ ‫حرص کی رم جم میں ‪٣٩-‬‬ ‫بن مانگے ‪٤٠-‬‬ ‫یقینی سی بات ہے ‪٤١-‬‬ ‫اپیل ‪٤٢-‬‬ ‫اس سے پہلے ‪٤٣-‬‬ ‫واپسی ‪٤٤-‬‬ ‫وقت کیسا انقالب الیا ہے ‪٤٥-‬‬ ‫سوال یہ ہے ‪٤٦-‬‬ ‫سچ کے آنگن میں ‪٤٧-‬‬


‫میں نے دیکھا ‪٤٨-‬‬ ‫نوحہ ‪٤٩-‬‬ ‫صبح ہی سے ‪٥٠-‬‬ ‫جب تک ‪٥١-‬‬ ‫‪...........................‬‬

‫میں مٹھی کیوں کھولوں‬ ‫میں مٹھی کیوں کھولوں‬ ‫بند مٹھی میں کیا ہے‬ ‫کوئی کیا جانے‬ ‫مٹھی کھولوں تو‬ ‫تم مرے کب رہ پاؤ گے‬ ‫ہر سیٹھ کی سیٹھی‬ ‫اس کی گھتلی کے دم سے ہے‬


‫میں مٹھی کیوں کھولوں‬ ‫تری یاد کی خوشبو‬ ‫مری ہے مری ہے‬ ‫اس یاد کے باطن میں‬ ‫ترے ہونٹوں پر کھلتی کلیاں‬ ‫تری آنکھوں کی مسکانیں‬ ‫بھیگی سانسوں کی مہکیں‬ ‫جھوٹے بہالوے‬ ‫کچھ بے موسم وعدے‬ ‫ساتھ نبھانے کی قسمیں‬ ‫دکھ کے نوحے‬ ‫شراب سپنوں کی قوس و قزاح‬ ‫مری ہے مری ہے‬ ‫میں مٹھی کیوں کھولوں‬


‫مت پوچھو‬ ‫بن ترے کیسے جیتا ہوں‬ ‫مت پوچھو‬ ‫اڈیکوں کے ظالم موسم میں‬ ‫سانسوں کا آنا جانا کیسے ہوتا ہے‬ ‫مت پوچھو‬ ‫ساون رت میں‬ ‫آنکھوں کی برکھا کیسے ہوتی ہے‬ ‫مت پوچھو‬ ‫چاہت کی مدوا پر‬ ‫خود غرضی کا لیبل جب بھی لگتا ہے‬ ‫راتوں کی نیندیں ڈر جاتی ہیں‬ ‫آشکوں کے تارے‬ ‫سارے کے سارے‬ ‫گنتی میں کم پڑ جاتے ہیں‬


‫آس کی کومل کرنیں‬ ‫یاس کی اگنی میں‬ ‫جب جلتی ہیں‬ ‫تب روح کی ارتھی اٹھتی ہے‬ ‫یادوں کی نم آنکھوں کی بیپتا‬ ‫مت پوچھو‬ ‫چھوڑ کر جانے کے موسم پر‬ ‫بچھڑے موسم کا اک پل بھاری ہوتا ہے‬ ‫پھر کہتا ہوں‬ ‫کالے موسم تم کو کھا جائیں گے‬ ‫تری ہستی کی کوئی کرچی‬ ‫میں کیسے دیکھ سکوں گا‬ ‫چہرے گھائل‬ ‫مرے دل کے کتنے ٹکڑے کرتے ہیں‬ ‫مت پوچھو‬


‫شبنم نبضوں میں‬ ‫عشق پلکوں پر‬ ‫پروانے اترے‬ ‫دیوانے تھے جو پر جالنے اترے‬ ‫لمس کی حدت نے‬ ‫خوشبو کی شدت نے‬ ‫آئین کے سینے پر پتھر رکھا‬ ‫گالب آنکھیں پتھر‬ ‫ہر رہگزر خوف کا گھر‬ ‫سوچ دریچے برف ہوئے‬ ‫بہری دیواروں پر‬ ‫گونگے خواب اگے‬ ‫اندھے چراغ جلے‬ ‫شبنم نبضونمیں‬


‫موت کا شعلہ تھا‬ ‫شہر میں کہرام مچا‬ ‫پروانے تو دیوانے تھے‬ ‫پر جالنے اترے‬

‫جینے کو تو سب جیتے ہیں‬ ‫جینے کو تو سب جیتے ہیں‬ ‫ہر سایہ زخمی‬ ‫جنگل کے پنچھی‬ ‫چپ کے قیدی‬ ‫بربط کے نغمے‬ ‫ڈر کے شعلے پیتے ہیں‬ ‫کرنے کے جذبے‬ ‫روٹی کے بندی‬


‫دریا کا پانی‬ ‫بھیگی بلی‬ ‫حر بربک کے سنکھ میں رہتے ہیں‬ ‫جو خشکی کی کن من کو‬ ‫بارش سمجھے‬ ‫منہ کھولے‬ ‫سب آبی بھاگے‬ ‫دوڑے‬ ‫کچھ کٹ مرے‬ ‫کچھ تھک گرے‬ ‫جو چلتے گئے‬ ‫خوابوں کی بستی بستے ہیں‬ ‫جینے کو تو سب جیتے ہیں‬

‫آنکھ دریچوں سے‬


‫مجھ کو من مندر میں سجا لو‬ ‫کہ ترے آنکھ دریچوں سے‬ ‫قوس و قزاح کے رنگوں میں ڈھل کر‬ ‫گنگا جل میں دھل کر‬ ‫بہاروں کے موسم جھانکھیں‬ ‫خورشید شبد‬ ‫جیون دھرتی کو بینائی بخشیں‬ ‫تری آغوش میں پلتی مسکانیں‬ ‫مری تری مرتی کو‬ ‫امرتا کے بردان میں ٹانکیں‬ ‫مجھ کو من مندر میں سجا لو‬ ‫کہ کام دیوا‬ ‫ہر بار کب‬ ‫خوش بختی کا منگل سوتر‬ ‫گالب گلو میں رکھتا ہے‬


‫کالی راتوں میں‬ ‫ہونٹوں کی حدت بھرتا ہے‬ ‫مجھ کو من مندر میں سجا لو‬ ‫کہ ترے آنکھ دریچوں سے‬ ‫بہاروں کے موسم جھانکھیں‬

‫بنیاد پرست‬ ‫چاندنی‬ ‫سردی کا دیو کھا گیا‬ ‫بےنور آنکھوں کے سپنے‬ ‫کون دیکھتا ہے‬ ‫شو کیس کا حسن‬ ‫حنا بندی کے کب الئق ہوتا ہے‬ ‫بیوہ سے کہہ دو‬


‫چوڑیاں توڑ دے‬ ‫ہم کنوارپن کے گاہک ہیں‬ ‫سچائی کی زبان پر‬ ‫آگ رکھ دو‬ ‫بنیاد پرست ہے‬ ‫گریب کی لڑکی‬ ‫ڈولی چڑھے کیونکر‬ ‫گربت کے کینسر میں مبتال ہے‬ ‫پہرے‬ ‫کوئی غالم پیدا نہیں ہوتا‬ ‫معاش طاقت توازن‬ ‫سماج کی رت کے ساتھ بدلتے ہیں‬ ‫بھوک بڑھتی ہے تو‬ ‫دودھ خشک ہو جاتا ہے‬


‫خواہش احتجاج ضرورت‬ ‫زنجیر لیے کھڑے ہوتے ہیں‬ ‫بھوک کے ہوکے‬ ‫* سوچ کے دائرے‬ ‫پھیل جاتے ہیں‬ ‫وسائل سکڑ جاتے ہیں‬ ‫بغاوت پر کھولے تو‬ ‫سوچ پر پہرے لگ جاتے ہیں‬ ‫کوئی غالم پیدا نہیں ہوتا‬ ‫معاش طاقت توازن‬ ‫سماج کی رت کے ساتھ بدلتے ہیں‬ ‫‪--------------------------‬‬‫* تقاضوں کے رنگ میں‬

‫اس سے کہہ دو‬


‫اس سے کہہ دو‬ ‫دو چار ستم اور ڈھائے‬ ‫یتیمی کا دکھ سہتے‬ ‫بچوں کے نالے‬ ‫ٹوٹے گجروں کی گریہ زاری‬ ‫جلتے دوپٹوں کے آنسو‬ ‫عرش کے ابھی‬ ‫اس پر ہیں‬ ‫اس سے کہہ دو‬ ‫زنداں کی دیواروں کا مسالہ بدلے‬ ‫بےگنہی کی حرمت میں‬ ‫امیر شہر کی لکھتوں کا‬ ‫نوحہ کہتی ہیں‬ ‫اس سے کہہ دو‬ ‫ان کی پلکوں کے قطرے‬


‫صدیوں بے توقیر رہے‬ ‫پھر بھی ہونٹوں پر‬ ‫جبر کی بھا میں جلتے‬ ‫سہمے سہمے سے بول‬ ‫مسیحا بن سکتے ہیں‬ ‫اس سے کہہ دو‬ ‫کڑا پہرا اب ہٹا دے‬ ‫زنجیریں کسی طاق میں رکھ دے‬ ‫بھاگ نکلنے کی سوچوں سے‬ ‫قیدی ڈرتے ہیں‬ ‫آزاد فضاؤں‬ ‫بےقید ہواؤں پر‬ ‫سماج کی ریت رواجوں‬ ‫وڈیروں کے کرخت مزاجوں کے‬ ‫پہروں پرپہرے ہیں‬ ‫آئین کے پنے‬


‫تنکوں سے کمتر‬ ‫رعیت کے حق میں‬ ‫کب کچھ کہتے ہیں‬ ‫سب دفتر‬ ‫طاقت کی خوشنودی میں‬ ‫آنکھوں پر پٹی باندھے‬ ‫کانوں میں انگلی ٹھونسے‬ ‫اپنی خیر مناتے ہیں‬ ‫جورو کےموتر کی بو نے‬ ‫سکندر سے مردوں سے‬ ‫ظلم کی پرجا کے خواب چھین لیے ہیں‬ ‫دن کے مکھڑے پر‬ ‫راتوں کی کالک لکھ دی ہے‬ ‫اس سے کہہ دو‬ ‫دو چار ستم اور ڈھائے‬


‫باقی ہے ابھی‬ ‫محبت کیا ہے؟‬ ‫دماغ کا بخار؟‬ ‫کوئی میٹھا جذبہ‬ ‫قلبی رشتہ‬ ‫کسی کے اپنا ہونے کا احساس‬ ‫شہوت کا بڑھتا ہوا سیالب‬ ‫زندگی کا بدلتا رویہ یا انداز‬ ‫بےشمار سوال‬ ‫جن کا جواب‬ ‫ابھی تک باقی ہے‬

‫جیون سپنا‬


‫آنکھ سمندر میں تھا‬ ‫جیون سپنا‬ ‫کہ کل تک تھا وہ اپنا‬ ‫جب سے اس گھر میں‬ ‫چاندی اتری ہے‬ ‫میرے من کی ہر رت‬ ‫پت جھڑ ٹھری ہے‬ ‫بارش صحرا کو چھو لے تو‬ ‫وہ سونا اگلے‬ ‫مری آنکھ کے قطرے نے‬ ‫جنت خوابوں کو‬ ‫یم لوک میں بدال ہے‬ ‫کیسے چھو لوں‬ ‫تری مسکانوں میں‬ ‫طنز کی پیڑا‬ ‫پیڑا تو سہہ لوں‬


‫پیڑا میں ہو جو اپناپن‬ ‫آس دریچوں میں‬ ‫تری نفرت کا‬ ‫باشک ناگ جو بیٹھا ہے‬ ‫ہونٹوں پر مہر صبر کی‬ ‫جیبا پر‬ ‫حنطل بولوں کی سڑکن‬ ‫یاد کے موسم میں‬ ‫خوشبو کی پریاں‬ ‫یاد کی شاموں کا‬ ‫جب بھنگڑا ڈالیں گی‬ ‫آنکھ ہر جائے گی‬ ‫آس مر جائے گی‬ ‫آنکھ سمندر میں تھا‬ ‫جیون سپنا‬


‫چاند اب دریا میں نہیں اترے گا‬ ‫جذبے لہو جیتے ہیں‬ ‫معاش کے زنداں میں‬ ‫مچھروں کی بہتات ہے‬ ‫سہاگنوں کے کنگن‬ ‫بک گئے ہیں‬ ‫پرندوں نے اڑنا چھوڑ دیا‬ ‫کہ فضا میں تابکاری ہے‬ ‫پجاری سیاست کے قیدی ہیں‬ ‫تلواریں زہر بجھی ہیں‬ ‫محافظ سونے کی میخیں گنتا ہے‬ ‫چھوٹی مچھلیاں فاقہ سے ہیں‬ ‫کہ بڑی مچھلیوں کی دمیں بھی‬ ‫شکاری آنکھ رکھتی ہیں‬


‫دریا کی سانسیں اکھڑ گئی ہیں‬ ‫صبح ہو کہ شام‬ ‫جنگی بیڑے گشت کرتے ہیں‬ ‫چاند دھویں کی آغوش میں ہے‬ ‫اب وہ‬ ‫دریا میں نہیں اترے گا‬ ‫تنہائی بنی آدم کی ہمرکاب ہے‬ ‫کہ اس کا ہمزاد بھی‬ ‫تپتی دھوپ میں‬ ‫کب کا‬ ‫کھو گیا ہے‬

‫سفید پرندہ‬ ‫ممتا جب سے‬


‫صحرا میں کھوئی ہے‬ ‫کشکول میں بوئی ہے‬ ‫خون میں سوئی ہے‬ ‫سفید پرندہ خون میں ڈوبا‬ ‫خنجر دیوارں پر‬ ‫چاند کی شیشہ کرنوں سے‬ ‫شبنم قطرے پی کر‬ ‫سورج جسموں کی شہال آنکھوں میں‬ ‫اساس کے موسم سی کر‬ ‫ہونٹوں کے کھنڈر پر‬ ‫سچ کی موت کا قصہ‬ ‫حسین کے جیون کی گیتا‬ ‫وفا اشکوں سے لکھ کر‬ ‫برس ہوئے مکت ہوا‬


‫ذات کے قیدی‬ ‫قصور تو خیر دونوں کا تھا‬ ‫اس نے گالیاں بکیں‬ ‫اس نے خنجر چالیا‬ ‫سزا دونوں کو ملی‬ ‫وہ جان سے گیا‬ ‫یہ جہان سے گیا‬ ‫اس کے بچے یتیم ہوئے‬ ‫اس کے بچے گلیاں رولے‬ ‫اس کی ماں بینائی سے گئی‬ ‫اس کی ماں کے آنسو تھمتے نہیں‬ ‫اس کا باپ کچری چڑھا‬ ‫اس کا باپ بستر لگا‬ ‫دونوں کنبے کاسہء گدائی لیے‬ ‫گھر گھر کی دہلیز چڑھے‬


‫بے کسی کی تصویر بنے‬ ‫بے توقیر ہوئے‬ ‫ضبط کا فقدان‬ ‫بربادی کی انتہا بنا‬ ‫سماج کے سکون پر پتھر لگا‬ ‫قصور تو خیر دونوں کا تھا‬ ‫جیو اور جینے دو کے اصول پر‬ ‫جی سکتے تھے‬ ‫اپنے لیے جینا کیا جینا‬ ‫دھرتی کا ہر ذرہ‬ ‫تزئین کی آشا ر کھتا ہے‬ ‫ذات کے قیدی‬ ‫مردوں سے بدتر‬ ‫سسی فس کا جینا جیتے ہیں‬


‫جب تم مجھ کو سوچو گے‬ ‫تری زلفوں کی شب‬ ‫صبح بہاروں کے پر کاٹے‬ ‫تری آنکھوں کے‬ ‫مست پیالوں کا اک قطرہ‬ ‫آس کی مرتیو کا سر کاٹے‬ ‫جانے ان جانے کی اک انگڑائی‬ ‫نفرت کے ایوانوں میں‬ ‫ان کے ناہونے ترے ہونے کا‬ ‫قرطاس الفت پر‬ ‫امروں پر اپنی امرتا لکھ دے‬ ‫اب جب سے‬ ‫میں تجھ کو سوچے ہوں‬ ‫مری بصارت کے در وا ہوئے ہیں‬ ‫اپنی سوچ کا اک ذرہ‬


‫گر کوہ پر رکھ دوں‬ ‫دیوانہ ہو‬ ‫مجنوں کی راہ پکڑے‬ ‫مری سوچ کی حدت سے‬ ‫صحراؤں کا صحرا اپنی پگ بدلے‬ ‫تری مسکانوں کی بارش‬ ‫شور زمینوں کو‬ ‫برہما کے بردان سے بڑھ کر‬ ‫میں تجھ کو سوچے ہوں‬ ‫کہ سوچنا جیون ہے‬ ‫کھوجنا جیون ہے‬ ‫جب تم مجھ کو سوچو گے‬ ‫تم پر کن کا راز وا ہو گا‬ ‫وہ ہی ہر جا ہو گا‬ ‫تم کہتے پھرو گے‬ ‫‪One into many‬‬


But many are not one Nothing more but one When we divide one Face unjust and hardship I and you are not two but one One is fact Fact is one

‫سب سے کہہ دو‬

‫گذشتہ کے گالب و کنول‬ ‫مفتول ایمان کی الش پر‬ ‫سجا کر‬ ‫لبوں پرزیست کا نوحہ‬


‫پریت کا گریہ بسا کر‬ ‫وعدہ کی شام‬ ‫اپنی عظمت میں‬ ‫فرشتوں کے سب سجدے‬ ‫آج ہی مصلوب کر دو‬ ‫سب سے کہہ دو‬ ‫ہم گونگے ہیں بہرے ہیں‬ ‫کم کوسی کا مرض طاری ہے‬ ‫اگلوں کا کیا‬ ‫اپنے نام لھواتے ہیں‬ ‫مورخ ہتھ بدھا خادم ہے‬ ‫کل ہم پر ناز کرے گا‬ ‫کہ ہم رفتہ پر نازاں ہیں‬

‫بالوں میں بکھری چاندی‬


‫بالوں میں بکھری چاندی‬ ‫روح کی کب قاتل ہے‬ ‫مرتی ہو کہ جیون‬ ‫آس ہو کہ یاس‬ ‫اک کوکھ کی سنتانیں ہیں‬ ‫اک محور کے قیدی‬ ‫بالوں میں بکھری چاندی‬ ‫روح کی کب قاتل ہے‬ ‫جب دل دریا میں‬ ‫ڈول عشق کا ڈالو گے‬ ‫ارتعاش تو ہو گا‬ ‫من مندر کا ہر جذبہ‬ ‫ہیر کا داس تو ہو گا‬ ‫بالوں میں بکھری چاندی‬ ‫روح کی کب قاتل ہے‬


‫ہر رت کے پھل پھول نیارے‬ ‫چاندنی راتوں میں‬ ‫دور امرجہ کے کھلیانوں میں‬ ‫سیرابی دیتے ہیں‬ ‫لب گنگا کے پیاس بھجاتے ہیں‬ ‫بالوں میں بکھری چاندی‬ ‫روح کی کب قاتل ہے‬ ‫من مستی‬ ‫آنکھوں کا کاجل‬ ‫دھڑکن دل کی‬ ‫زلفوں کی ظلمت‬ ‫کب قیدی ہیں‬ ‫بالوں میں بکھری چاندی‬ ‫روح کی کب قاتل ہے‬ ‫آتش گاہیں برکھا رتوں میں‬ ‫جلتی تھیں جلتی ہیں‬


‫جلتی ہوں گی‬ ‫بالوں میں بکھری چاندی‬ ‫روح کی کب قاتل ہے‬

‫شاہ کی الٹھی‬ ‫انارکلی کے‬ ‫دیواروں میں چننے کا موسم‬ ‫جب بھی آتا ہے‬ ‫آس کے موسم مر جاتے ہیں‬ ‫ہر جاتے ہیں‬ ‫چاند سورج‬ ‫آکاش اور دھرتی‬ ‫زیست کے سب رنگ‬ ‫پھیکے پڑ جاتے ہیں‬


‫کل کی مانگ سجانے کو‬ ‫عشق پھر بھی زندہ رہتا ہے‬ ‫ہر دکھ سہتا ہے‬ ‫یہ کھیل شاہ‘ زادوں کا ہے‬ ‫شاہ زاہزادے کب مرتے ہیں‬ ‫شاہ کی الٹھی‬ ‫انار کلی کے سر پر‬ ‫منڈالتی رہتی ہے‬ ‫کمزور عضو کے سر پر‬ ‫سب موسم‬ ‫بھاری رہتے ہیں‬

‫اک پل‬ ‫اک پل‬


‫آکاش اور دھرتی کو‬ ‫اک دوجے میں بن کر‬ ‫رنگ دھنک اچھالے‬ ‫دوجا پل‬ ‫جو بھیک تھا پہلے کل کی‬ ‫کاسے سے اترا‬ ‫اتراتا اٹھالتا‬ ‫ماتھے کی ریکھا ٹھہرا‬ ‫کرپا اور دان کا پل‬ ‫پھن چکر مارا‬ ‫سلوٹ سے پاک سہی‬ ‫پھر بھی‬ ‫حنطل سے کڑوا‬ ‫اترن کا پل‬ ‫الفت میں کچھ دے کر‬ ‫پانے کی اچھا‬


‫حاتم سے چھل‬ ‫ہر فرزانہ‬ ‫عہد سے مکتی چاہے‬ ‫ہر دیوانہ‬ ‫عہد کا قیدی‬ ‫مر مٹنے کی باتیں‬ ‫ٹالتے رہنا‬ ‫کل تا کل‬ ‫جب بھی‬ ‫پل کی بگڑی کل‬ ‫در نانک کے بیٹھا بےکل‬

‫پلکوں پر شام‬ ‫پلکوں پر گزری شام‬


‫یاد کا نشتر‬ ‫ہر صبح راہ کا پتھر‬ ‫سورج بینائی کا منبع‬ ‫آنکھیں کھو بیٹھا‬ ‫ہر آشا زخمی زخمی‬ ‫ہر نغمہ‬ ‫عزائیلی اسرافیلی‬ ‫خون میں بھیگا آنچل‬ ‫گنگا کا‬ ‫ہر رستہ چپ کا قیدی‬ ‫دریا کنارے منہ دیکھے ہیں‬ ‫بے آب ندی میں‬ ‫گالب کی کاشیں‬ ‫پانی پانی‬ ‫ہونٹ‬ ‫سانپوں کے گھر‬


‫پلکوں کی شام‬ ‫ہر شام پر بھاری ہے‬ ‫ڈرتا ہے اس سے‬ ‫حشر کا منظر‬

‫اب جب بھی‬ ‫کوئی کنول چہرا‬ ‫اب جب بھی دیکھتا ہوں‬ ‫خوف کا موتیا‬ ‫آنکھوں میں اتر آتا ہے‬ ‫کلیوں کا جوبن چرا کر‬ ‫غرض کا جن‬ ‫پریوں کی اداؤں میں‬ ‫من آنگن میں‬


‫قدم رکھتا ہے‬ ‫خواہشوں کی انگور بیلیں‬ ‫سوکھ جاتی ہیں‬ ‫خوش فہمی کے سورج کی‬ ‫تاریک کرنیں‬ ‫ست کے سارے شبد‬ ‫کھا جاتی ہیں‬ ‫اگلے داؤ کے یقین پر‬ ‫جیون کے سب ارمان‬ ‫مر جاتے ہیں مر جاتے ہیں‬ ‫آس کے ٹوٹے ٹھوٹھے میں‬ ‫آشا کے کچھ بول رکھنے کو‬ ‫غرض کی برکی نہ بن جاءے‬ ‫وشنو چھپنے کو‬ ‫برہما لوک کا رستہ بھول جاتا ہے‬ ‫گالب کے ہونٹوں پر‬


‫بے سدھ ہونے کی اچھا‬ ‫تھرکنے لگتی ہے‬ ‫کوئی کنول چہرا‬ ‫اب جب بھی دیکھتا ہوں‬ ‫خوف کا موتیا‬ ‫آنکھوں میں اتر آتا ہے‬

‫پاگل پن‬ ‫آنچ دریچوں میں‬ ‫دیکھوں تو‬ ‫خواہش کے سب موسم جلتے ہیں‬ ‫نا دیکھوں تو‬ ‫احساس سے عاری‬ ‫اورابلیس کا پیرو ٹھہروں‬


‫جانے کے موسم میں‬ ‫آنے کی سوچیں تو‬ ‫گنگا الٹی بہتی ہے‬ ‫دن کو‬ ‫چاند اور تاروں کا سپنا‬ ‫پاگل پن ہی تو ہے‬ ‫من کے پاگل پن کو‬ ‫وید حکیم کیا جانیں‬ ‫جو جانے‬ ‫عشق کی دنیا کا کب باسی ہے‬

‫آسمان سے‬

‫آسمان سے‬


‫جب بھی‬ ‫من وسلوی اترتا ہے‬ ‫زمین زرد پڑ جاتی ہے‬ ‫کہ بے محنت کا ثمرہ‬ ‫حرکت کے در بند کر دیتا ہے‬ ‫سجدہ سے منحرف مخلوق‬ ‫حساس دلوں کی دھڑکنیں‬ ‫چھین لیتی ہے‬ ‫آسمان سے‬ ‫جب بھی‬ ‫من وسلوی اترتا ہے‬ ‫انسان کے سوا‬ ‫بلندیاں اتراتی ہیں‬

‫یہ کس کی سازش ہے‬


‫جاگو‬ ‫کب کا لہو‘ لہو ہوا ہے‬ ‫جانو‬ ‫دانستہ ہوا ہے کہ سہو ہوا ہے‬ ‫کس کی یہ سازش ہے‬ ‫بلبل کے روبرو‬ ‫قتل رنگ و بو ہوا ہے‬ ‫قاتل کی آستین دیکھ لو‬ ‫ہواوں سے گواہی لے لو‬ ‫یہاں ہی جھگڑا‬ ‫من و تو ہوا ہے‬ ‫وہ جینا کیا جینا ہے‬ ‫جو جینا ڈر کر جینا ہے‬ ‫مے گرتی ہے کہ‬ ‫تار سبو ہوا ہے‬


‫جاگو‬ ‫کب کا لہو‘ لہو ہوا ہے‬

‫برسر عدالت‬ ‫شبنم‬ ‫گھاس کا مکوڑا پں گیا‬ ‫بادل‬ ‫پرندوں نے پروں میں چھپا لیے‬ ‫آنسو‬ ‫مگر پلکوں پر تھے ہی کب‬ ‫امن‬ ‫اس روز شہر میں کرفیو تھا‬ ‫روشنی‬ ‫بارود نگل گیا‬


‫امید‬ ‫دماغ کا خلل نہیں تو اور کیا ہے‬ ‫قاتل برسر عدالت‬ ‫انصاف کا طالب تھا‬ ‫کہ چڑیوں کی چونچیں‬ ‫مقتول کا پیٹ‬ ‫روٹی خور ہو گیا تھا‬ ‫اسے گیس کی شکایت رہتی تھی‬ ‫ایسے میں‬ ‫قتل ناگزیر ہو گیا تھا‬ ‫مقتول کی شاہ خرچی کا عوضانہ‬ ‫بیوہ اور اس کے بچوں کی‬ ‫برسر عام‬ ‫نیالمی سے دلوایا جائے‬ ‫کہ انصاف کا بول باال ہو‬


‫کاجل ابھی پھیال نہیں‬ ‫تیری آنکھ کا کاجل ابھی پھیال نہیں‬ ‫تیرے بولوں کی کلیاں جوان ہیں‬ ‫طالئی چوڑے کی کھنک‬ ‫کب کل سے جدا ہے‬ ‫تیری دنیا میں کوئی اور تھا‬ ‫میں کیسے مان لوں‬ ‫تو وہی ہے‬ ‫جس نے میرے سوچ کے‬ ‫دروازے پر‬ ‫دستک دی تھی‬ ‫سوچنا یہ ہے‬ ‫کس کردہ جرم کی سزا‬ ‫سقراط کا زہر ہے‬


‫میرے سوچ پر‬ ‫خوف کا پہرا ہے‬ ‫روبرو راون کا چہرا ہے‬ ‫مجھ کو سوچنے کیوں نہیں دیتے‬ ‫ذات کے ذروں کو‬ ‫کھوجنے کیوں نہیں دیتے‬ ‫بند کواڑوں کے پیچھے‬ ‫سوچنے کی آرزو بیٹھی ہے‬ ‫جوجینے نہیں دیتی مرنے نہیں دیتی‬

‫میں مقدر کا سکندر ہوں‬ ‫میں مقدر کا سکندر ہوں‬ ‫ٹیکسوں کی شان کا سایہ‬ ‫مری رکھشا کرتا ہے‬


‫تانگے کی سیٹ پر لیٹے‬ ‫کسی کھڈے کے اک ہچکولے سے‬ ‫شفاخانے کے در پر‬ ‫ہمدردی کے بولوں میں لیپٹی‬ ‫دوا ملتی ہے کا بےسر سپنا لے کر آتا ہوں‬ ‫اس طفل تسلی پر‬ ‫برسوں سے میرا جیون ہے‬ ‫میں مقدر کا سکندر ہوں‬ ‫مرگ کے سارے خرچے‬ ‫بیوہ کے دوپٹے کی حرمت‬ ‫یتیموں کے منہ کے لقمے‬ ‫بک کر پورے ہوتے ہیں‬ ‫قلم اور بستے کئی یگ ہوئے‬ ‫الیعنی ٹھہرے ہیں‬ ‫پرچی خوروں کے جھوٹھے برتن‬ ‫ان کے ہاتھ کی ریکھا ہیں‬


‫پرچی والوں کی‬ ‫میرے مرنے سے‬ ‫راتیں سہانی ہوتی ہیں‬ ‫میں تو‬ ‫اس بہو رانی سا ہوں‬ ‫سارا گھر اس کاہے‬ ‫جب چاہے کوئی دعوی باندھے‬ ‫کوئی روک نہیں کوئی ٹوک نہیں‬ ‫بس اک پابندی ہے‬ ‫چیزوں کو چھونے سے پرہیز کرے‬ ‫نند کی کرتوں کو‬ ‫بند آنکھوں سے دیکھے‬ ‫گھورتی آنکھوں سے آزاد رہے گی‬ ‫شاد رہے گی‬ ‫میں مقدر کا سکندر ہوں‬ ‫ٹیکسوں کی شان کا سایہ‬


‫مری رکھشا کرتا ہے‬

‫آنکھوں دیکھے موسم‬ ‫آشا کی جوت جگا کر‬ ‫اب کہتے ہو‬ ‫عشق کی راہ میں کانٹے ہیں‬ ‫دھوپ کا پہرا ہے‬ ‫کانٹوں پر ننگے پاؤں‬ ‫بن مطب کے چلنا‬ ‫لیلی کے دور کی باتیں ہیں‬ ‫اک سے اک بڑھ کر مجنوں‬ ‫ہاتھ میں نوٹ لیے‬ ‫چلتا پھرتا تم دیکھو گے‬ ‫کنگلے عاشق کے آنسو‬


‫مطلب کی آنکھیں کیوں دیکھیں‬ ‫میں تو‬ ‫پھولوں کے موسم کی لیلی ہوں‬ ‫پاگل ہو تم‬ ‫اخالص اور الفت کی باتیں‬ ‫ووٹ کی باتیں ہیں‬ ‫سیاست اور الفت میں جو انتر ہے‬ ‫اس کو جانو‬ ‫آنکھیں کھولو وقت پہچانو‬ ‫سوچے ہوں‬ ‫موسم مجھ سے بگڑے بگڑے رہتے ہیں‬ ‫یہ ممکن ہے‬ ‫سب موسم تم کو مل جائیں‬ ‫سچل دل کی کلیاں‬ ‫اپنے دامن میں‬ ‫سورگ کے سکھ رکھتی ہیں‬


‫آنکھوں دیکھے موسم‬ ‫کبھی جیتے ہیں کبھی مرتے ہیں‬

‫دروازہ کھولو‬ ‫تم چپ ہو کہ‬ ‫مجھ میں تم بولتے ہو‬ ‫میرے دل کے بربط پر‬ ‫تری انگلی ہے‬ ‫تم چپ ہو کہ‬ ‫یہ دل تیرا مسکن ہے‬ ‫گھر کے باسی‬ ‫اپنی مرضی کے مالک ہوتے ہیں‬ ‫تم چپ ہو کہ‬ ‫شعور کی ہر کھڑکی میں‬


‫تیرا چہرا ہے‬ ‫کھڑکی بند کرتے ہیں تو‬ ‫دم گھٹتا ہے‬ ‫کھڑکی کھولے رکھنا‬ ‫گھر کی باتوں کو باہر النا ہے‬ ‫باہر کے موسم‬ ‫راون بستی کے منظر ہیں‬ ‫تم چپ ہو کہ‬ ‫اندر کے سب موسم تیرے ہیں‬ ‫دروازہ کھولو‬ ‫تیرے ہونٹوں کی مستی‬ ‫من کے کورے پنوں پر‬ ‫آنکھ سے چن کر رکھ دوں‬ ‫تم چپ ہو کہ‬ ‫چپ میں سکھ ہے‬ ‫چپ کے کھیسے میں‬


‫کلیاں ہی کلیاں ہیں‬ ‫تم چپ ہو کہ‬ ‫تحسین کے کلمے‬ ‫برہما کے بردان سے اٹھتےہیں‬ ‫‪ ------‬تم چپ ہو کہ‬

‫تم مرے کوئی نہیں ہو‬ ‫تم مرے کوئی نہیں ہو‬ ‫میں نے تم کو کبھی سوچا ہی نہیں‬ ‫کھوجا ہی نہیں‬ ‫تم نےمیرے دل دروازے پر دستک دی ہے‬ ‫اب میں تم کو سوچوں گا‬ ‫تیری آنکھوں کے مست پیمانے سے‬ ‫کچھ بچا کر‬


‫آب زم زم میں مال کر‬ ‫امرتا کے ایوانوں میں‬ ‫خود کو پھر تم کو کھوجوں گا‬ ‫اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں‬ ‫اپنی آنکھوں سے دیکھنا‬ ‫میں تم کو تم میں مل جاؤں گا‬ ‫یہ کوئی تقدیر کا کھیل نہیں‬ ‫تم لکیر بناتے ہو لکیر مٹاتے ہو‬ ‫تم مرے کوئی نہیں ہو‬ ‫میں نے تم کو کبھی سوچا ہی نہیں‬ ‫اب میں تم کو سوچوں گا‬ ‫کہ تم نے میرے دل پر دستک دی ہے‬

‫صدیاں بیت گئی ہیں‬


‫جب سے میں نے تم کو سوچا ہے‬ ‫میں میں‘ میں کب رہا ہے‬ ‫گنگا جل کا ہر قطرہ‬ ‫گیتا کے بولوں‬ ‫گرنتھ کے شبدوں‬ ‫فرید کے شلوکوں‬ ‫پھول کے گالوں کو چھوتی شبنم‬ ‫ساگر کے اندر‬ ‫سیپ کی بند مٹھی میں موتی‬ ‫رتجگوں کی سوچوں‬ ‫دعا کو اٹھتے ہاتھوں‬ ‫ساون رتوں کی ہڑ برساتی آنکھوں‬ ‫آگ میں ڈوبی سانسوں کا‬ ‫حاصل تم ہو‬ ‫رمز مجھ پر کھل گئی ہے‬ ‫میرے سوچ کی‬


‫ساری شکتی کا دم خم تم ہو‬ ‫جب سے میں نے تم کو سوچا ہے‬ ‫میں میں‘ میں کب ہے‬ ‫میں کو سفر کیے‬ ‫صدیاں بیت گئی ہیں‬

‫ایندھن‬ ‫دیکھتا اندھا سنتا بہرا‬ ‫سکنے کی منزل سے دور کھڑا‬ ‫ظلم دیکھتا ہے‬ ‫آہیں سنتا ہے‬ ‫بولتا نہیں کہتا نہیں‬ ‫جہنم ضرور جائے گا‬


‫عاری‬ ‫جبرائیل ادراک‬ ‫شاہین پرواز لے گیا‬ ‫سیماب بےقراری‬ ‫گالب خوشبو لے گیا‬ ‫مہتاب چاندنی‬ ‫خورشید حدت لے گیا‬ ‫جو جس کو پسند آیا‬ ‫لے گیا‬ ‫تیرے پاس کیا رہا‬ ‫دو ہات‘ خالی‬ ‫دو آنکھیں‘ بے نور‬ ‫راتوں کے خواب‬ ‫بے رونق‘ بےزار‬


‫دن کے اجالے‬ ‫خاموش‘ اداس‬ ‫ہمالہ‘ مٹی کا ڈھیر‬ ‫حرکت سے عاری‬ ‫تو‘ مٹی کا ڈھیر‬ ‫حرکت سے عاری‬

‫سننے میں آیا ہے‬ ‫سننے میں آیا ہے‬ ‫ہم آگے بڑھ گئے ہیں‬ ‫ترقی کر گئے ہیں‬ ‫سرج اب شرق سے اٹھتا ہے‬ ‫واشنگٹن کے مندر کا بت‬ ‫کس محمود نے توڑا ہے‬


‫سکندر کے گھوڑوں کا منہ‬ ‫کس بیاس نے موڑا ہے‬ ‫اس کی گردن کا سریا‬ ‫کس ٹیپو نے توڑا ہے‬ ‫سو کا بیلنس‬ ‫اب سو ہی چڑھتا ہے‬ ‫پونڈ سٹرلنگ اور ڈالر‬ ‫روپیے کے دو ملتے ہیں‬ ‫سننے میں آیا ہے‬ ‫ہم آگے بڑھ گئے ہیں‬ ‫ترقی کر گئے ہیں‬ ‫'بیوہ کو ٹک ملتا ہے‬ ‫وہ پیٹ بھر کھاتی ہے‬ ‫گریب کی بیٹیا‬ ‫بن دہیج‬ ‫?اب ڈولی چڑھتی ہے‬


‫جو جیون دان کرے‬ ‫دارو کی وہ شیشی‬ ‫?اب مفت میں ملتی ہے‬ ‫سننے میں آیا ہے‬ ‫ہم آگے بڑھ گئے ہیں‬ ‫ترقی کر گئے ہیں‬ ‫موسی اور عیسی‬ ‫گرجے اور ہیکل سے‬ ‫?مکت ہوے ہیں‬ ‫بدھ رام بہا‬ ‫کہ نانک کے پیرو ہوں‬ ‫یا پھر‬ ‫چیراٹ شریف کے باسی‬ ‫?اپنا جیون جیتے ہیں‬ ‫سننے میں آیا ہے‬ ‫ہم آگے بڑھ گئے ہیں‬


‫ترقی کر گئے ہیں‬ ‫گوئٹے اور بالی‬ ‫ٹیگور تے جامی‬ ‫سیوفنگ اور شیلی‬ ‫?سب کے ٹھہرے ہیں‬ ‫مالں پنڈت اور گرجے کا وارث‬ ‫انسانوں کو انسانوں کے‬ ‫?کام آنے کی کہتا ہے‬ ‫سننے میں آیا ہے‬ ‫ہم آگے بڑھ گئے ہیں‬ ‫ترقی کر گئے ہیں‬ ‫شیر اور بکری‬ ‫'اک گھاٹ پر پانی پیتے ہیں‬ ‫?اک کچھ میں رہتے ہیں‬ ‫سیٹھوں کی بستی میں‬ ‫مل بانٹ کر‬


‫?کھانے کی چرچا ہے‬ ‫رشوت کا کھیل‬ ‫?ناکام ہوا ہے‬ ‫منصف‬ ‫?ایمان قرآن کی کہتتا ہے‬ ‫سننے میں آیا ہے‬ ‫ہم آگے بڑھ گئے ہیں‬ ‫ترقی کر گئے ہیں‬ ‫من تن کا وارث‬ ‫تن من کا بھیدی‬ ‫جب بھی ٹھہرے گا‬ ‫جیون کا ہر سکھ‬ ‫قدموں کی ٹھوکر‬ ‫امبر کے اس پار‬ ‫انسان کا گھر ہو گا‬ ‫'پرتھوی کیا‬


‫هللا کی ہر تخلیق کا‬ ‫ماما نہیں‬ ‫موچی درزی نائی بھی‬ ‫وارث ہوگا‬ ‫'شخص‬ ‫شخص کا بھائی ہوگا‬

‫کس منہ سے‬ ‫چلم بھرتے ہات‘ اٹھ نہیں سکتے‬ ‫ہونٹوں پر فقیہ عصر نے‬ ‫چپ رکھ دی ہے‬ ‫کتنا عظیم تھا وہ شخص‬ ‫گلیوں میں‬ ‫رسولوں کے لفظ بانٹتا رہا‬


‫ان بولتے لفظوں کو‘ ہم سن نہ سکے‬ ‫آنکھوں سے‘ چن نہ سکے‬ ‫ہمارے کانوں میں‘ جبر کی پوریں رہیں‬ ‫آنکھوں میں خوف نے پتھر رکھ دیے‬ ‫ہم جانتے ہیں‘ وہ سچا تھا‬ ‫قول کا پکا تھا‬ ‫مرنا تو ہے‘ ہمیں یاد نہ رہا‬ ‫ہم جانتے ہیں اس نے جو کیا‬ ‫ہمارے لیے کیا‬ ‫جیا تو ہمارے لیے جیا‬ ‫کتنا عجیب تھا‬ ‫زندہ الشوں کا دم بھرتا رہا‬ ‫مصلوب ہوا ہم دیکھتے رہے‬ ‫نیزے چڑھا ہم دیکھتے رہے‬ ‫مرا جال راکھ اڑی ہم دیکھتے رہے‬ ‫اس کے کہے پر دو گام تو چال ہوتا‬


‫کس منہ سے اب‬ ‫اس کی راہ دیکھتے ہیں‬ ‫ہم خاموش تماشائی‬ ‫مظلومیت کا فقط ڈھونگ رچاتے ہیں‬ ‫بے جان جیون کے دامن میں‬ ‫غیرت کہاں جو رن میں اترے‬ ‫یا پھر‬ ‫پس لب اس کی مدح ہی کر سکے‬ ‫چلو دنیا چاری ہی سہی‬ ‫آؤ‬ ‫اندرون لب دعا کریں‬ ‫ان مول سی مدح کہیں‬

‫حیرت تو یہ ہے‬


‫موسم گل ابھی محو کالم تھا کہ‬ ‫مہتاب بادلوں میں جا چھپا‬ ‫اندھیرا چھا گیا‬ ‫پریت پرندہ‬ ‫ہوس کے جنگلوں میں کھو گیا‬ ‫اس کی بینائی کا دیا بجھ گیا‬ ‫کوئی ذات سے‘ کوئی حاالت سے الجھ گیا‬ ‫کیا اپنا ہے‘ کیا بیگانہ‘ یاد میں نہ رہا‬ ‫بادل چھٹنے کو تھے کہ‬ ‫افق لہو اگلنے لگا‬ ‫دو بم ادھر دو ادھر گرے‬ ‫پھر تو‬ ‫ہر سو دھواں ہی دھواں تھا‬ ‫چہرے جب دھول میں اٹے تو‬ ‫ظلم کا اندھیر مچ گیا‬ ‫پھر اک درویش مینار آگہی پر چڑھا‬


‫کہنے لگا سنو سنو‬ ‫دامن سب سمو لیتا ہے‬ ‫اپنے دامن سے چہرے صاف کرو‬ ‫شاید کہ تم میں سے کوئی‬ ‫ابھی یتیم نہ ہوا ہو‬ ‫یتیمی کا ذوق لٹیا ڈبو دیتا ہے‬ ‫من کے موسم دبوچ لیتا ہے‬ ‫کون سنتا پھٹی پرانی آواز کو‬ ‫حیرت تو یہ ہے‬ ‫موسم گل کا سب کو انتظار ہے‬ ‫گرد سے اپنا دامن بھی بچاتا ہے‬ ‫اوروں سے کہے جاتا ہے‬ ‫چہرہ اپنا صاف کرو‘ چہرہ اپنا صاف کرو‬

‫ہر گھر سے‬


‫دن کے اجالوں میں‬ ‫خداہائے کفر ساز و کفر نواز‬ ‫پیتے ہیں سچ کا لہو‬ ‫کہ وہ اجالوں کی بستی میں‬ ‫زندہ رہیں‬ ‫شرق سے اب تمہیں‬ ‫کوئی شب بیدار کرنا ہو گی‬ ‫کہ سچ اسے دکھنے ہی نہ پائے‬ ‫تمہیں بھی تو‬ ‫اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں‬ ‫یا پھر‬ ‫آتی نسلوں کے لیے ہی سہی‬ ‫دن کے اجالوں میں‬ ‫روح حیدر رکھنا ہوگی‬ ‫سسی فس کا جیون‬


‫جیون نہیں‬ ‫سقراط کی مرتیو‬ ‫مرتیو نہیں‬ ‫جینا ہے تو‬ ‫حسین کا جیون جیو‬ ‫کہ جب ارتھی اٹھے‬ ‫خون کے آنسووں میں‬ ‫راکھ اڑے‬ ‫خون کے آنسووں میں‬ ‫شاعر کا قلم‬ ‫روشنی بکھیرے گا‬ ‫زندگی‘ آکاش کی محتاج نہ رہے گی‬ ‫ہر گھر سے چاند ہر گھر سے سورج‬ ‫طلوع ہو گا‬ ‫غروب کی ہر پگ پر‬ ‫کہیں سقراط کہیں منصور‬


‫تو کہیں سرمد کھڑا ہو گا‬

‫بارود کے موسم‬ ‫کرائے کے قاتل‬ ‫کیا بھکشا دیں گے؟‬ ‫کرن ہماری کھا جا ہے‬ ‫ہم موسی کے کب پیرو ہیں‬ ‫جو آسمان سے من و سلوی اترے گا‬ ‫اپنی دونی کا گیندا‬ ‫ہیرے کی جڑت کے گہنوں سے‬ ‫گربت کی چٹیا پر‬ ‫سوا سج دھج رکھتا ہے‬


‫میری کا طعنا معنا‬ ‫اکھین کے سارے رنگوں پر‬ ‫کہرا بن کے چھا جاتا ہے‬ ‫کوڑ کی برکی کا وش‬ ‫دیسی نغموں میں‬ ‫ڈرم کا بے ہنگم غوغا‬ ‫طبلے کی ہر تھاپ‬ ‫کھا پی جاتا ہے‬ ‫کرائے کے قاتل‬ ‫کیا بھکشا دیں گے؟‬ ‫ان کی آنکھوں میں تو‬ ‫بارود کے موسم پلتے ہیں‬ ‫‪http://www.urdutehzeb.com/showthread.php/3429-%D8%A8%D8%A7%D8%B1%D9%88%D8%AF-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D‬‬ ‫‪9%88%D8%B3%D9%85‬‬

‫جاگتے رہنا‬


‫جاگتے رہنا‬ ‫چور‘ ترے سہاگ کی چوڑیاں‬ ‫چرا نہ لے‬ ‫جاگتے رہنا‬ ‫چندا کی کوئی مست کرن‬ ‫آنکھوں کی مستی‬ ‫ہونٹوں کی سرخی‬ ‫چرا نہ لے‬ ‫جاگتے رہنا‬ ‫ہوا کا کوئی جھونکا‬ ‫حیا وتقدس کے رشتے‬ ‫چور چور نہ کر دے‬ ‫جاگتے رہنا‬ ‫شب کے پچھلے پہر کی رعنائیوں میں‬ ‫خدا تجھ کو بھی شریک کر لے‬


‫جاگتے رہنا‬ ‫گالب چندا کی رگوں سے‬ ‫ساری شبنم نچوڑ نہ لے‬ ‫جاگتے رہنا‬ ‫رقیب تجھے‘ تری مجبتوں سے‬ ‫محروم نہ کر دے‬ ‫جاگتے رہنا‘ مرے دوست‘ جاگتے رہنا‬ ‫جاگنا ہی زندگی‘ جاگتے ہی آزاد ہیں‬

‫حرص کی رم جم‬ ‫حرص کی رم جم میں‬ ‫مالں پنڈت‬ ‫گرجے کا فادر‬ ‫گر کا امین‬


‫لمبڑ کے ڈیرے پر بیٹھے‬ ‫آنکھوں میں پتھر رکھ کر‬ ‫پکون کے گیت گائیں‬ ‫لوکن کے گھر‬ ‫بھوک کا بھنگڑا‬ ‫گلیوں میں موت کا خنجر‬ ‫کھیتوں میں خوف کی کاشت‬ ‫جیون‬ ‫تذبذب کی صلیب پر لٹکا‬ ‫تخلیق کی ابجد‬ ‫تقدیر کی ریکھا‬ ‫کیسے ٹھہرے گا؟‬

‫بن مانگے‬


‫نیچے ہاتھ کی جنت‬ ‫دل والوں کو کب خوش آتی ہے‬ ‫تم نے کیوں سوچ لیا‬ ‫میں کوتاہ کوس سہی‬ ‫وہ تو‬ ‫تو کی بستی بستا ہے‬ ‫چترکار کوئی غیر نہیں‬ ‫کوئی دور نہیں‬ ‫وہ جانت ہیں کہ‬ ‫کیا ان کا ہے‬ ‫بن مانگے‬ ‫ان کو مل جائے گا‬

‫یقینی سی بات ہے‬


‫یقینی سی بات ہے‬ ‫تمہیں کیوں یقین نہیں آتا‬ ‫کربال کی بازگشت‬ ‫پہاڑوں میں کھو گئی ہے‬ ‫سہاگنوں نے‬ ‫سیاہ لباس پہن لیا ہے‬ ‫ان کے مردوں کے لہو میں‬ ‫یزید کی عطاؤں کا قرض‬ ‫اتر چکا ہے‬ ‫ہاں مگر جب‬ ‫پہاڑوں کو زبان مل جائے گی‬ ‫یقینی سی بات ہے‬ ‫بازگشت کے ہم زبان‬ ‫مجبور زندگی کو‬ ‫آزادی کو‬ ‫لب سڑک دیکھ سکیں گے‬


‫ماہ نامہ سوشل ورکر الہور' مارح۔اپریل ‪1992‬‬

‫اپیل‬ ‫نفرت کی توپوں کے دہانوں پر‬ ‫دودھ پیتے بچوں کو نہ رکھو‬ ‫ان کی آنکھوں کی معصومیت‬ ‫معصومیت کی آغوش میں پلتے خواب‬ ‫خواب صبح کی تعبیر ہوتا ہے‬ ‫خواب مر گیے تو‬ ‫آتا کل مر جائے گا‬ ‫اور یہ بھی کہ‬ ‫ممتا قتل ہو جائے گی‬ ‫'خوب جان لو‬


‫نفرت کے تو‬ ‫پہاڑ بھی متحمل نہیں ہوتے‬ ‫کل کیوں کر ہو گا‬ ‫میں تم سے پھر کہتا ہوں‬ ‫نفرت کی توپوں کے دہانوں پر‬ ‫دودھ پیتے بچوں کو نہ رکھو‬ ‫ماہ نامہ سوشل ورکر الہور' جنوری‪-‬فروری ‪1992‬‬

‫اس سے پہلے‬ ‫اس سے پہلے‬ ‫کہ عمر کا تارا ٹوٹے‬ ‫مرے جیون کا‬ ‫ہر جلتا بجھتا پل‬


‫مجھ کو واپس کر دو‬ ‫جو دن خوشییوں میں گزرا‬ ‫تقدیر نہیں‬ ‫عشق کی تپسیا کا اترن تھا‬ ‫مرے بولوں کی تڑپت‬ ‫مرے گیتوں کی پیڑا‬ ‫مرزے کی کوئی ہیک نہیں‬ ‫مرے اشکوں کا شرینتر تھا‬ ‫کے طعنے مینے اپنوں‬ ‫سن سن کر‬ ‫غیروں کے بھی کان پکے‬ ‫میں اس کو لوکن کی‬ ‫کیوں کالی ریتا سمجھوں‬ ‫یہ تو سچ کا پریوجن تھا‬ ‫اس سے پہلے‬ ‫کہ عمر کا تارا ٹوٹے‬


‫مرے جیون کا‬ ‫ہر جلتا بجھتا پل‬ ‫مجھ کو واپس کر دو‬ ‫ہر ان ہونی کا پرورتن کھولو‬ ‫اس سے پہلے‬ ‫کہ عمر کا تارا ٹوٹے‬ ‫مرے جیون کا‬ ‫ہر جلتا بجھتا پل‬ ‫مجھ کو واپس کر دو‬

‫واپسی‬ ‫بشارت کا جب در وا ہوا‬ ‫میں نے سوچا‬ ‫پہلے ابنی قسمت کا حال پڑھوں‬


‫واں کچھ بھی نہ تھا‬ ‫جو مرا ہوتا‬ ‫لہو پسینہ‬ ‫جو مرا تھا‬ ‫مرے رقیبوں ان کے بچوں‬ ‫ان کے کتوں اور سوروں کو‬ ‫حدت بخش رہا تھا‬ ‫میں نے پھر سوچا‬ ‫جنگلوں میں جا بسوں‬ ‫درندوں کا وتیرا اپنا لوں‬ ‫انسان تھا‬ ‫جنگلوں میں کیسے جا بستا‬ ‫درندگی‘ درندوں کی فطرت‬ ‫محنت بنی ادم کا شیوا‬ ‫دو فطراتیں‬ ‫جنگل کا سینہ سما پائے گا؟‬


‫کچھ نہیں کو چوم کر‬ ‫میں نے‬ ‫بشارت کا دروازہ بند کر دیا‬

‫وقت کیسا انقالب الیا ہے‬ ‫وقت کیسا عذاب الیا ہے‬ ‫تم کب الئق محبت ہو‬ ‫ائینے میں اپنی شکل تو دیکھو‬ ‫قاصد یہی جواب الیا ہے‬ ‫گویا خط میں عتاب الیا ہے‬ ‫جو سر کے بل چلے تھے‬ ‫ناکام ٹھہرے‬ ‫پت جھڑ گالب الیا ہے‬ ‫ذلیخا کا عشق سچا سہی‬


‫وہ برہنہ پا کب چلی تھی‬ ‫پہیہ عمودی چال چال ہے‬ ‫زندہ قبر میں اتر گیا ہے‬ ‫انکھ دیکھتی نہیں‬ ‫کان سنتے نہیں‬ ‫وقت کیسا انقالب الیا ہے‬ ‫بارش قرض دار بادلوں کی‬ ‫بادل بینائی کو ترسیں‬ ‫زخمی زخمی‬ ‫ہر سہاگن کی کالئی‬ ‫بیوہ سولہ سنگار سے ہے‬ ‫وقت کیسا انقالب الیا ہے‬ ‫وقت کیسا عذاب الیا ہے‬

‫سوال یہ ہے‬


‫یہ سچ ہے‬ ‫محبت روح کو سکوں‬ ‫دل کو قرار دیتی ہے‬ ‫سوال یہ نہیں‬ ‫محبت کا احترام کرنا ہے‬ ‫زیست کے کالر پر‬ ‫سجا کر رکھنا ہے‬ ‫سوال یہ ہے‬ ‫کہ ہم‬ ‫احترام کیسے دیں اسے‬ ‫ہم تو بھوکے ہیں‬ ‫پیاسے ہیں‬ ‫جیون پر خوف کے بادل ہیں‬ ‫ہمیں تو‬ ‫جیون کے ہووت کی چنتا ہے‬


‫ہماری پسلیوں کے نیچے‬ ‫باما کا غالم چھپا بیٹھا ہے‬ ‫'جس کی‬ ‫اپنی کوئی مرضی نہیں‬ ‫سوال یہ ہے‬ ‫کہ ہم‬ ‫محبت کا احترام کیسے کریں‬ ‫سچ کے آنگن میں‬

‫جب بھوک کا استر‬ ‫حرص کی بستی میں جا بستا ہے‬ ‫اوپر کی نیچے‘ نیچے کی اوپر آ جاتی ہے‬ ‫چھاج کی تو بات بڑی‬ ‫چھلنی پنچ بن جاتی ہے‬


‫بکری ہنس چال چلنے لگتی ہے‬ ‫کوے کے سر پر‬ ‫سر گرو کی پگڑی سج جاتی ہے‬ ‫دہقان بو کر گندم‬ ‫فصل جو کی کاٹتے ہیں‬ ‫صبح کا اترن لے کر‬ ‫کالی راتیں‬ ‫سچ کے آنگن میں جا بستی ہیں‬ ‫مارچ ‪١٩٧٤ ‘١٩‬‬

‫میں نے دیکھا‬

‫پانیوں پر‬ ‫میں اشک لکھنے چال تھا‬


‫دیدہءخوں دیکھ کر‬ ‫ہر بوند‬ ‫ہوا کے سفر بر نکل گئی‬ ‫منصف کے پاس گیا‬ ‫شاہ کی مجبوریوں میں‬ ‫وہ جکڑا ہوا تھا‬ ‫سوچا‬ ‫پانیوں کی بےمروتی کا‬ ‫فتوی ہی لے لیتا ہوں‬ ‫مالں شاہ کے دستر خوان پر‬ ‫مدہوش پڑا ہوا تھا‬ ‫دیکھا‘ شیخ کا در کھال ہوا ہے‬ ‫سوچا‬ ‫شاید یہاں داد رسی کا‬ ‫کوئی سامان ہو جائے گا‬ ‫وہ بچارہ تو‬


‫پریوں کے غول میں گھرا ہوا تھا‬ ‫کیا کرتا کدھر کو جاتا‬ ‫دل دروازہ کھال‬ ‫خدا جو میرے قریب تھا‬ ‫بوال‬ ‫کتنے عجیب ہو تم بھی‬ ‫کیا میں کافی نہیں‬ ‫جو ہوس کے اسیروں کے پاس جاتے ہو‬ ‫میرے پاس آؤ‬ ‫ادھر ادھر نہ جاؤ‬ ‫میری آغوش میں‬ ‫تمہارے اشکوں کو پناہ ملے گی‬ ‫ہر بوند‬ ‫رشک لعل فردوس بریں ہو گی‬ ‫اک قظرہ مری آنکھ سے ٹپکا‬ ‫میں نے دیکھا‬


‫شاہ اور شاہ والوں کی گردن میں‬ ‫بے نصیبی کی زنجیر پڑی ہوئی تھی‬ ‫مکرم بندہ جناب حسنی صاحب‪ :‬سالم مسنون‬ ‫آزاد شاعری عام طور پر میرے سر پر سے گزر جاتی ہے۔ جب‬ ‫تک میں اس کے تانے بانے سلجھاتا ہوں پچھلے پڑھے ہوئے‬ ‫مصرعے ذہن کی تہوں میں کہیں گم ہو جاتے ہیں اور میں پھر‬ ‫نظم پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش میں گرفتار ہو جاتا ہوں۔‬ ‫آپ کی اس نظم کے مطالعہ میں ایسا صرف ایک بار ہوا اور میں‬ ‫جلد ہی منزل مقصود تک پہنچ گیا۔ یہ شاید اس لئے ہوا کہ آپ‬ ‫کی نظم پر دلسوزی اور خلوص دل کی مہر لگی ہوئی ہے جیسے‬ ‫آپ اپنی آپ بیتی بیان کر رہے ہوں۔ نظم پڑھ کر متاثر ہوا۔ نظم کا‬ ‫پیغام عام سہی لیکن اہم ضرور ہے۔ ہم اہل دنیا بے تحاشہ اہل‬ ‫اقتدار کی جانب بھاگتے ہیں اور اس تگ و دو میں بھول جاتے‬ ‫ہیں کہ دینے واال تو کوئی اور ہی ہے۔ هللا رحم کرے۔ ایسے ہی‬ ‫لکھتے رہئے۔ هللا آپ کو ہمت اور طاقت عطا فرمائے۔ صالحیت‬ ‫اور توفیق سے تو اپ بھر پور ہیں ہی۔ باقی راوی سب چین بولتا‬ ‫ہ ے۔‬ ‫سرور عالم را‬ ‫‪http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9132.0‬‬


‫نوحہ‬ ‫وہ قیدی نہ تھا‬ ‫خیر وشر سے بے خبر‬ ‫معصوم‬ ‫فرشتوں کی طرح‬ ‫جھوٹے برتنوں کے گرد‬ ‫انگلیاں محو رقص تھیں اس کی‬ ‫ہر برتن کی زبان پہ‬ ‫اس کی مرحوم ماں کا نوحہ‬ ‫باپ کی بےحسی اور‬ ‫جنسی تسکین کا بین تھا‬ ‫آنکھوں کی زبان پہ‬ ‫اک سوال تھا‬


‫‘اس کو زندگی کہتے ہیں‬ ‫یہی زندگی ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟‬

‫صبح ہی سے‬

‫وہ آگ‬ ‫عزازئیل کی جو سرشت میں تھی‬ ‫اس آگ کو نمرود نے ہوا دی‬ ‫اس آگ کا ایندھن‬ ‫قارون نے پھر خرید کیا‬ ‫اس آگ کو فرعون پی گیا‬ ‫اس آگ کو حر نے اگل دیا‬ ‫یزید مگر نگل گیا‬ ‫اس آگ کو‬


‫میر جعفر نے سجدہ کیا‬ ‫میر قاسم نے مشعل ہوس روشن کی‬ ‫اس آگ کے شعلے‬ ‫پھر بلند ہیں‬ ‫مخلوق ارضی‬ ‫ڈر سے سہم گئی ہے‬ ‫ابر باراں کی راہ دیکھ رہی ہے‬ ‫کوئی بادل کا ٹکڑا نہیں‬ ‫صبح ہی سے تو‬ ‫آسمان نکھر گیا ہے‬ ‫‪1980‬‬

‫جب تک‬


‫وہ قتل ہو گیا‬ ‫پھر قتل ہوا‬ ‫ایک بار پھر قتل ہوا‬ ‫اس کے بعد بھی قتل ہوا‬ ‫وہ مسلسل قتل ہوتا رہا‬ ‫جب تک سیٹھوں کی بھوک‘ نہیں مٹ جاتی‬ ‫جب تک خواہشوں کا‘ جنازہ نہیں اٹھ جا‬ ‫وہ قتل ہوتا رہے گا‬ ‫وہ قتل ہوتا رہے گا‬

‫مقصود حسنی کی کچھ نمائندہ نظمیں‬


‫پیش کار‬ ‫پروفیسر نیامت علی مرتضائی‬ ‫ابوزر برقی کتب خانہ‬ ‫نومبر ‪٢٠١٦‬‬


Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.