کچھ نظمیں اور چوالیس منظومے مقصود حسنی ابوزر برقی کتب خانہ نومبر ٢٠١٦
فہرست میں مٹھی کیوں کھولوں ١- مت پوچھو ٢- شبنم نبضوں میں ٣- جینے کو تو سب جیتے ہیں ٤- آنکھ دریچوں سے ٥- بنیاد پرست ٦- پہرے ٧- اس سے کہہ دو ٨- باقی ہے ابھی ٩- جیون سپنا ١٠- چاند اب دریا میں نہیں اترے گا ١١- سفید پرندہ ١٢- ذات کے قیدی ١٣- جب تم مجھ کو سوچو گے ١٤- سب سے کہہ دو ١٥-
بالوں میں بکھری چاندی ١٦- شاہ کی الٹھی ١٧- اک پل ١٨- پلکوں پر شام ١٩- اب جب بھی ٢٠- پاگل پن ٢١- آسمان سے ٢٢- یہ کس کی سازش ہے ٢٣- برسر عدالت ٢٤- کاجل ابھی پھیال نہیں ٢٥- میں مقدر کا سکندر ہوں ٢٦- آنکھوں دیکھے موسم ٢٧- دروازہ کھولو ٢٨- تم مرے کوئی نہیں ہو ٢٩- صدیاں بیت گئی ہیں ٣٠- ایندھن ٣١-
عاری ٣٢- سننے میں آیا ہے ٣٣- کس منہ سے ٣٤- حیرت تو یہ ہے ٣٥- ہر گھر سے ٣٦- بارود کے موسم ٣٧- جاگتے رہنا ٣٨- حرص کی رم جم میں ٣٩- بن مانگے ٤٠- یقینی سی بات ہے ٤١- اپیل ٤٢- اس سے پہلے ٤٣- واپسی ٤٤- وقت کیسا انقالب الیا ہے ٤٥- سوال یہ ہے ٤٦- سچ کے آنگن میں ٤٧-
میں نے دیکھا ٤٨- نوحہ ٤٩- صبح ہی سے ٥٠- جب تک ٥١- حیات کے برزخ میں ٥٢- چل' محمد کے در پر چل ٥٣- رات ذرا ڈھل جانے دو ٥٤- آس ستارے ٥٥- شہد سمندر ٥٦- سورج ڈوب رہا ہے ٥٧- اس روز بھی ٥٨- گنگا الٹا بہنے لگی ہے ٥٩- لہو کا تقدس ٦٠- کانچ دریچوں میں ٦١- خدشے جب سچ ہو جاتے ہیں ٦٢- رام بھلی کرے گا ٦٣-
بے انت سمندر ٦٤- حرص کی رم جم ٦٥- آج بھی ٦٦- میں مٹھی کیوں کھولوں میں مٹھی کیوں کھولوں بند مٹھی میں کیا ہے کوئی کیا جانے مٹھی کھولوں تو تم مرے کب رہ پاؤ گے ہر سیٹھ کی سیٹھی اس کی گھتلی کے دم سے ہے میں مٹھی کیوں کھولوں تری یاد کی خوشبو
مری ہے مری ہے اس یاد کے باطن میں ترے ہونٹوں پر کھلتی کلیاں تری آنکھوں کی مسکانیں بھیگی سانسوں کی مہکیں جھوٹے بہالوے کچھ بے موسم وعدے ساتھ نبھانے کی قسمیں دکھ کے نوحے شراب سپنوں کی قوس و قزاح مری ہے مری ہے میں مٹھی کیوں کھو
مت پوچھو بن ترے کیسے جیتا ہوں مت پوچھو اڈیکوں کے ظالم موسم میں سانسوں کا آنا جانا کیسے ہوتا ہے مت پوچھو ساون رت میں آنکھوں کی برکھا کیسے ہوتی ہے مت پوچھو چاہت کی مدوا پر
خود غرضی کا لیبل جب بھی لگتا ہے راتوں کی نیندیں ڈر جاتی ہیں آشکوں کے تارے سارے کے سارے گنتی میں کم پڑ جاتے ہیں آس کی کومل کرنیں یاس کی اگنی میں جب جلتی ہیں تب روح کی ارتھی اٹھتی ہے یادوں کی نم آنکھوں کی بیپتا مت پوچھو چھوڑ کر جانے کے موسم پر بچھڑے موسم کا اک پل بھاری ہوتا ہے پھر کہتا ہوں کالے موسم تم کو کھا جائیں گے تری ہستی کی کوئی کرچی
میں کیسے دیکھ سکوں گا چہرے گھائل مرے دل کے کتنے ٹکڑے کرتے ہیں مت پوچھو شبنم نبضوں میں عشق پلکوں پر پروانے اترے دیوانے تھے جو پر جالنے اترے لمس کی حدت نے خوشبو کی شدت نے آئین کے سینے پر پتھر رکھا گالب آنکھیں پتھر ہر رہگزر خوف کا گھر سوچ دریچے برف ہوئے
بہری دیواروں پر گونگے خواب اگے اندھے چراغ جلے شبنم نبضونمیں موت کا شعلہ تھا شہر میں کہرام مچا پروانے تو دیوانے تھے پر جالنے اترے
جینے کو تو سب جیتے ہیں جینے کو تو سب جیتے ہیں ہر سایہ زخمی جنگل کے پنچھی چپ کے قیدی بربط کے نغمے ڈر کے شعلے پیتے ہیں کرنے کے جذبے روٹی کے بندی دریا کا پانی
بھیگی بلی حر بربک کے سنکھ میں رہتے ہیں جو خشکی کی کن من کو بارش سمجھے منہ کھولے سب آبی بھاگے دوڑے کچھ کٹ مرے کچھ تھک گرے جو چلتے گئے خوابوں کی بستی بستے ہیں جینے کو تو سب جیتے ہیں
آنکھ دریچوں سے مجھ کو من مندر میں سجا لو کہ ترے آنکھ دریچوں سے قوس و قزاح کے رنگوں میں ڈھل کر گنگا جل میں دھل کر بہاروں کے موسم جھانکھیں خورشید شبد جیون دھرتی کو بینائی بخشیں تری آغوش میں پلتی مسکانیں مری تری مرتی کو
امرتا کے بردان میں ٹانکیں مجھ کو من مندر میں سجا لو کہ کام دیوا ہر بار کب خوش بختی کا منگل سوتر گالب گلو میں رکھتا ہے کالی راتوں میں ہونٹوں کی حدت بھرتا ہے مجھ کو من مندر میں سجا لو کہ ترے آنکھ دریچوں سے بہاروں کے موسم جھانکھیں
بنیاد پرست چاندنی سردی کا دیو کھا گیا بےنور آنکھوں کے سپنے کون دیکھتا ہے شو کیس کا حسن حنا بندی کے کب الئق ہوتا ہے بیوہ سے کہہ دو چوڑیاں توڑ دے ہم کنوارپن کے گاہک ہیں
سچائی کی زبان پر آگ رکھ دو بنیاد پرست ہے گریب کی لڑکی ڈولی چڑھے کیونکر گربت کے کینسر میں مبتال ہے
پہرے کوئی غالم پیدا نہیں ہوتا معاش طاقت توازن سماج کی رت کے ساتھ بدلتے ہیں بھوک بڑھتی ہے تو دودھ خشک ہو جاتا ہے خواہش احتجاج ضرورت زنجیر لیے کھڑے ہوتے ہیں بھوک کے ہوکے * سوچ کے دائرے
پھیل جاتے ہیں وسائل سکڑ جاتے ہیں بغاوت پر کھولے تو سوچ پر پہرے لگ جاتے ہیں کوئی غالم پیدا نہیں ہوتا معاش طاقت توازن سماج کی رت کے ساتھ بدلتے ہیں --------------------------* تقاضوں کے رنگ میں
اس سے کہہ دو اس سے کہہ دو دو چار ستم اور ڈھائے یتیمی کا دکھ سہتے بچوں کے نالے ٹوٹے گجروں کی گریہ زاری جلتے دوپٹوں کے آنسو عرش کے ابھی اس پر ہیں اس سے کہہ دو
زنداں کی دیواروں کا مسالہ بدلے بےگنہی کی حرمت میں امیر شہر کی لکھتوں کا نوحہ کہتی ہیں اس سے کہہ دو ان کی پلکوں کے قطرے صدیوں بے توقیر رہے پھر بھی ہونٹوں پر جبر کی بھا میں جلتے سہمے سہمے سے بول مسیحا بن سکتے ہیں اس سے کہہ دو کڑا پہرا اب ہٹا دے زنجیریں کسی طاق میں رکھ دے بھاگ نکلنے کی سوچوں سے قیدی ڈرتے ہیں
آزاد فضاؤں بےقید ہواؤں پر سماج کی ریت رواجوں وڈیروں کے کرخت مزاجوں کے پہروں پرپہرے ہیں آئین کے پنے تنکوں سے کمتر رعیت کے حق میں کب کچھ کہتے ہیں سب دفتر طاقت کی خوشنودی میں آنکھوں پر پٹی باندھے کانوں میں انگلی ٹھونسے اپنی خیر مناتے ہیں جورو کےموتر کی بو نے سکندر سے مردوں سے
ظلم کی پرجا کے خواب چھین لیے ہیں دن کے مکھڑے پر راتوں کی کالک لکھ دی ہے اس سے کہہ دو دو چار ستم اور ڈھائے باقی ہے ابھی محبت کیا ہے؟ دماغ کا بخار؟ کوئی میٹھا جذبہ قلبی رشتہ کسی کے اپنا ہونے کا احساس شہوت کا بڑھتا ہوا سیالب زندگی کا بدلتا رویہ یا انداز بےشمار سوال جن کا جواب
ابھی تک باقی ہے
جیون سپنا آنکھ سمندر میں تھا جیون سپنا کہ کل تک تھا وہ اپنا جب سے اس گھر میں چاندی اتری ہے میرے من کی ہر رت پت جھڑ ٹھری ہے بارش صحرا کو چھو لے تو وہ سونا اگلے
مری آنکھ کے قطرے نے جنت خوابوں کو یم لوک میں بدال ہے کیسے چھو لوں تری مسکانوں میں طنز کی پیڑا پیڑا تو سہہ لوں پیڑا میں ہو جو اپناپن آس دریچوں میں تری نفرت کا باشک ناگ جو بیٹھا ہے ہونٹوں پر مہر صبر کی جیبا پر حنطل بولوں کی سڑکن یاد کے موسم میں خوشبو کی پریاں
یاد کی شاموں کا جب بھنگڑا ڈالیں گی آنکھ ہر جائے گی آس مر جائے گی آنکھ سمندر میں تھا جیون سپنا
چاند اب دریا میں نہیں اترے گا جذبے لہو جیتے ہیں معاش کے زنداں میں مچھروں کی بہتات ہے سہاگنوں کے کنگن بک گئے ہیں پرندوں نے اڑنا چھوڑ دیا کہ فضا میں تابکاری ہے پجاری سیاست کے قیدی ہیں تلواریں زہر بجھی ہیں
محافظ سونے کی میخیں گنتا ہے چھوٹی مچھلیاں فاقہ سے ہیں کہ بڑی مچھلیوں کی دمیں بھی شکاری آنکھ رکھتی ہیں دریا کی سانسیں اکھڑ گئی ہیں صبح ہو کہ شام جنگی بیڑے گشت کرتے ہیں چاند دھویں کی آغوش میں ہے اب وہ دریا میں نہیں اترے گا تنہائی بنی آدم کی ہمرکاب ہے کہ اس کا ہمزاد بھی تپتی دھوپ میں کب کا کھو گیا ہے
سفید پرندہ ممتا جب سے صحرا میں کھوئی ہے کشکول میں بوئی ہے خون میں سوئی ہے سفید پرندہ خون میں ڈوبا خنجر دیوارں پر چاند کی شیشہ کرنوں سے شبنم قطرے پی کر سورج جسموں کی شہال آنکھوں میں
اساس کے موسم سی کر ہونٹوں کے کھنڈر پر سچ کی موت کا قصہ حسین کے جیون کی گیتا وفا اشکوں سے لکھ کر برس ہوئے مکت ہوا
ذات کے قیدی قصور تو خیر دونوں کا تھا اس نے گالیاں بکیں اس نے خنجر چالیا سزا دونوں کو ملی وہ جان سے گیا یہ جہان سے گیا اس کے بچے یتیم ہوئے اس کے بچے گلیاں رولے اس کی ماں بینائی سے گئی
اس کی ماں کے آنسو تھمتے نہیں اس کا باپ کچری چڑھا اس کا باپ بستر لگا دونوں کنبے کاسہء گدائی لیے گھر گھر کی دہلیز چڑھے بے کسی کی تصویر بنے بے توقیر ہوئے ضبط کا فقدان بربادی کی انتہا بنا سماج کے سکون پر پتھر لگا قصور تو خیر دونوں کا تھا جیو اور جینے دو کے اصول پر جی سکتے تھے اپنے لیے جینا کیا جینا دھرتی کا ہر ذرہ تزئین کی آشا ر کھتا ہے
ذات کے قیدی مردوں سے بدتر سسی فس کا جینا جیتے ہیں
جب تم مجھ کو سوچو گے تری زلفوں کی شب صبح بہاروں کے پر کاٹے تری آنکھوں کے مست پیالوں کا اک قطرہ آس کی مرتیو کا سر کاٹے جانے ان جانے کی اک انگڑائی نفرت کے ایوانوں میں ان کے ناہونے ترے ہونے کا قرطاس الفت پر
امروں پر اپنی امرتا لکھ دے اب جب سے میں تجھ کو سوچے ہوں مری بصارت کے در وا ہوئے ہیں اپنی سوچ کا اک ذرہ گر کوہ پر رکھ دوں دیوانہ ہو مجنوں کی راہ پکڑے مری سوچ کی حدت سے صحراؤں کا صحرا اپنی پگ بدلے تری مسکانوں کی بارش شور زمینوں کو برہما کے بردان سے بڑھ کر میں تجھ کو سوچے ہوں کہ سوچنا جیون ہے کھوجنا جیون ہے
جب تم مجھ کو سوچو گے تم پر کن کا راز وا ہو گا وہ ہی ہر جا ہو گا تم کہتے پھرو گے One into many But many are not one Nothing more but one When we divide one Face unjust and hardship I and you are not two but one One is fact Fact is one
سب سے کہہ دو
گذشتہ کے گالب و کنول مفتول ایمان کی الش پر سجا کر لبوں پرزیست کا نوحہ پریت کا گریہ بسا کر وعدہ کی شام اپنی عظمت میں فرشتوں کے سب سجدے
آج ہی مصلوب کر دو سب سے کہہ دو ہم گونگے ہیں بہرے ہیں کم کوسی کا مرض طاری ہے اگلوں کا کیا اپنے نام لھواتے ہیں مورخ ہتھ بدھا خادم ہے کل ہم پر ناز کرے گا کہ ہم رفتہ پر نازاں ہیں
بالوں میں بکھری چاندی بالوں میں بکھری چاندی روح کی کب قاتل ہے مرتی ہو کہ جیون آس ہو کہ یاس اک کوکھ کی سنتانیں ہیں اک محور کے قیدی بالوں میں بکھری چاندی روح کی کب قاتل ہے جب دل دریا میں
ڈول عشق کا ڈالو گے ارتعاش تو ہو گا من مندر کا ہر جذبہ ہیر کا داس تو ہو گا بالوں میں بکھری چاندی روح کی کب قاتل ہے ہر رت کے پھل پھول نیارے چاندنی راتوں میں دور امرجہ کے کھلیانوں میں سیرابی دیتے ہیں لب گنگا کے پیاس بھجاتے ہیں بالوں میں بکھری چاندی روح کی کب قاتل ہے من مستی آنکھوں کا کاجل دھڑکن دل کی
زلفوں کی ظلمت کب قیدی ہیں بالوں میں بکھری چاندی روح کی کب قاتل ہے آتش گاہیں برکھا رتوں میں جلتی تھیں جلتی ہیں جلتی ہوں گی بالوں میں بکھری چاندی روح کی کب قاتل ہے
شاہ کی الٹھی انارکلی کے دیواروں میں چننے کا موسم جب بھی آتا ہے آس کے موسم مر جاتے ہیں ہر جاتے ہیں چاند سورج آکاش اور دھرتی زیست کے سب رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں
کل کی مانگ سجانے کو عشق پھر بھی زندہ رہتا ہے ہر دکھ سہتا ہے یہ کھیل شاہ‘ زادوں کا ہے شاہ زاہزادے کب مرتے ہیں شاہ کی الٹھی انار کلی کے سر پر منڈالتی رہتی ہے کمزور عضو کے سر پر سب موسم بھاری رہتے ہیں
اک پل اک پل آکاش اور دھرتی کو اک دوجے میں بن کر رنگ دھنک اچھالے دوجا پل جو بھیک تھا پہلے کل کی کاسے سے اترا اتراتا اٹھالتا ماتھے کی ریکھا ٹھہرا
کرپا اور دان کا پل پھن چکر مارا سلوٹ سے پاک سہی پھر بھی حنطل سے کڑوا اترن کا پل الفت میں کچھ دے کر پانے کی اچھا حاتم سے چھل ہر فرزانہ عہد سے مکتی چاہے ہر دیوانہ عہد کا قیدی مر مٹنے کی باتیں ٹالتے رہنا کل تا کل
جب بھی پل کی بگڑی کل در نانک کے بیٹھا بےکل
پلکوں پر شام پلکوں پر گزری شام یاد کا نشتر ہر صبح راہ کا پتھر سورج بینائی کا منبع آنکھیں کھو بیٹھا ہر آشا زخمی زخمی ہر نغمہ عزائیلی اسرافیلی خون میں بھیگا آنچل
گنگا کا ہر رستہ چپ کا قیدی دریا کنارے منہ دیکھے ہیں بے آب ندی میں گالب کی کاشیں پانی پانی ہونٹ سانپوں کے گھر پلکوں کی شام ہر شام پر بھاری ہے ڈرتا ہے اس سے حشر کا منظر
اب جب بھی کوئی کنول چہرا اب جب بھی دیکھتا ہوں خوف کا موتیا آنکھوں میں اتر آتا ہے کلیوں کا جوبن چرا کر غرض کا جن پریوں کی اداؤں میں من آنگن میں قدم رکھتا ہے
خواہشوں کی انگور بیلیں سوکھ جاتی ہیں خوش فہمی کے سورج کی تاریک کرنیں ست کے سارے شبد کھا جاتی ہیں اگلے داؤ کے یقین پر جیون کے سب ارمان مر جاتے ہیں مر جاتے ہیں آس کے ٹوٹے ٹھوٹھے میں آشا کے کچھ بول رکھنے کو غرض کی برکی نہ بن جاءے وشنو چھپنے کو برہما لوک کا رستہ بھول جاتا ہے گالب کے ہونٹوں پر بے سدھ ہونے کی اچھا
تھرکنے لگتی ہے کوئی کنول چہرا اب جب بھی دیکھتا ہوں خوف کا موتیا آنکھوں میں اتر آتا ہے پاگل پن آنچ دریچوں میں دیکھوں تو خواہش کے سب موسم جلتے ہیں نا دیکھوں تو احساس سے عاری اورابلیس کا پیرو ٹھہروں جانے کے موسم میں آنے کی سوچیں تو گنگا الٹی بہتی ہے
دن کو چاند اور تاروں کا سپنا پاگل پن ہی تو ہے من کے پاگل پن کو وید حکیم کیا جانیں جو جانے عشق کی دنیا کا کب باسی ہے
آسمان سے
آسمان سے جب بھی من وسلوی اترتا ہے زمین زرد پڑ جاتی ہے کہ بے محنت کا ثمرہ حرکت کے در بند کر دیتا ہے سجدہ سے منحرف مخلوق حساس دلوں کی دھڑکنیں
چھین لیتی ہے آسمان سے جب بھی من وسلوی اترتا ہے انسان کے سوا بلندیاں اتراتی ہیں
یہ کس کی سازش ہے جاگو کب کا لہو‘ لہو ہوا ہے جانو دانستہ ہوا ہے کہ سہو ہوا ہے کس کی یہ سازش ہے بلبل کے روبرو قتل رنگ و بو ہوا ہے قاتل کی آستین دیکھ لو ہواوں سے گواہی لے لو
یہاں ہی جھگڑا من و تو ہوا ہے وہ جینا کیا جینا ہے جو جینا ڈر کر جینا ہے مے گرتی ہے کہ تار سبو ہوا ہے جاگو کب کا لہو‘ لہو ہوا ہے
برسر عدالت شبنم گھاس کا مکوڑا پں گیا بادل پرندوں نے پروں میں چھپا لیے آنسو مگر پلکوں پر تھے ہی کب امن اس روز شہر میں کرفیو تھا روشنی
بارود نگل گیا امید دماغ کا خلل نہیں تو اور کیا ہے قاتل برسر عدالت انصاف کا طالب تھا کہ چڑیوں کی چونچیں مقتول کا پیٹ روٹی خور ہو گیا تھا اسے گیس کی شکایت رہتی تھی ایسے میں قتل ناگزیر ہو گیا تھا مقتول کی شاہ خرچی کا عوضانہ بیوہ اور اس کے بچوں کی برسر عام نیالمی سے دلوایا جائے کہ انصاف کا بول باال ہو
کاجل ابھی پھیال نہیں تیری آنکھ کا کاجل ابھی پھیال نہیں تیرے بولوں کی کلیاں جوان ہیں طالئی چوڑے کی کھنک کب کل سے جدا ہے تیری دنیا میں کوئی اور تھا میں کیسے مان لوں تو وہی ہے جس نے میرے سوچ کے دروازے پر
دستک دی تھی سوچنا یہ ہے کس کردہ جرم کی سزا سقراط کا زہر ہے میرے سوچ پر خوف کا پہرا ہے روبرو راون کا چہرا ہے مجھ کو سوچنے کیوں نہیں دیتے ذات کے ذروں کو کھوجنے کیوں نہیں دیتے بند کواڑوں کے پیچھے سوچنے کی آرزو بیٹھی ہے جوجینے نہیں دیتی مرنے نہیں دیتی
میں مقدر کا سکندر ہوں میں مقدر کا سکندر ہوں ٹیکسوں کی شان کا سایہ مری رکھشا کرتا ہے تانگے کی سیٹ پر لیٹے کسی کھڈے کے اک ہچکولے سے شفاخانے کے در پر ہمدردی کے بولوں میں لیپٹی دوا ملتی ہے کا بےسر سپنا لے کر آتا ہوں اس طفل تسلی پر
برسوں سے میرا جیون ہے میں مقدر کا سکندر ہوں مرگ کے سارے خرچے بیوہ کے دوپٹے کی حرمت یتیموں کے منہ کے لقمے بک کر پورے ہوتے ہیں قلم اور بستے کئی یگ ہوئے الیعنی ٹھہرے ہیں پرچی خوروں کے جھوٹھے برتن ان کے ہاتھ کی ریکھا ہیں پرچی والوں کی میرے مرنے سے راتیں سہانی ہوتی ہیں میں تو اس بہو رانی سا ہوں سارا گھر اس کاہے
جب چاہے کوئی دعوی باندھے کوئی روک نہیں کوئی ٹوک نہیں بس اک پابندی ہے چیزوں کو چھونے سے پرہیز کرے نند کی کرتوں کو بند آنکھوں سے دیکھے گھورتی آنکھوں سے آزاد رہے گی شاد رہے گی میں مقدر کا سکندر ہوں ٹیکسوں کی شان کا سایہ مری رکھشا کرتا ہے
آنکھوں دیکھے موسم آشا کی جوت جگا کر اب کہتے ہو عشق کی راہ میں کانٹے ہیں دھوپ کا پہرا ہے کانٹوں پر ننگے پاؤں بن مطب کے چلنا لیلی کے دور کی باتیں ہیں اک سے اک بڑھ کر مجنوں ہاتھ میں نوٹ لیے
چلتا پھرتا تم دیکھو گے کنگلے عاشق کے آنسو مطلب کی آنکھیں کیوں دیکھیں میں تو پھولوں کے موسم کی لیلی ہوں پاگل ہو تم اخالص اور الفت کی باتیں ووٹ کی باتیں ہیں سیاست اور الفت میں جو انتر ہے اس کو جانو آنکھیں کھولو وقت پہچانو سوچے ہوں موسم مجھ سے بگڑے بگڑے رہتے ہیں یہ ممکن ہے سب موسم تم کو مل جائیں سچل دل کی کلیاں
اپنے دامن میں سورگ کے سکھ رکھتی ہیں آنکھوں دیکھے موسم کبھی جیتے ہیں کبھی مرتے ہیں دروازہ کھولو تم چپ ہو کہ مجھ میں تم بولتے ہو میرے دل کے بربط پر تری انگلی ہے تم چپ ہو کہ یہ دل تیرا مسکن ہے گھر کے باسی اپنی مرضی کے مالک ہوتے ہیں تم چپ ہو کہ
شعور کی ہر کھڑکی میں تیرا چہرا ہے کھڑکی بند کرتے ہیں تو دم گھٹتا ہے کھڑکی کھولے رکھنا گھر کی باتوں کو باہر النا ہے باہر کے موسم راون بستی کے منظر ہیں تم چپ ہو کہ اندر کے سب موسم تیرے ہیں دروازہ کھولو تیرے ہونٹوں کی مستی من کے کورے پنوں پر آنکھ سے چن کر رکھ دوں تم چپ ہو کہ چپ میں سکھ ہے
چپ کے کھیسے میں کلیاں ہی کلیاں ہیں تم چپ ہو کہ تحسین کے کلمے برہما کے بردان سے اٹھتےہیں تم چپ ہو کہ
تم مرے کوئی نہیں ہو تم مرے کوئی نہیں ہو میں نے تم کو کبھی سوچا ہی نہیں کھوجا ہی نہیں تم نےمیرے دل دروازے پر دستک دی ہے اب میں تم کو سوچوں گا تیری آنکھوں کے مست پیمانے سے کچھ بچا کر آب زم زم میں مال کر امرتا کے ایوانوں میں
خود کو پھر تم کو کھوجوں گا اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں اپنی آنکھوں سے دیکھنا میں تم کو تم میں مل جاؤں گا یہ کوئی تقدیر کا کھیل نہیں تم لکیر بناتے ہو لکیر مٹاتے ہو تم مرے کوئی نہیں ہو میں نے تم کو کبھی سوچا ہی نہیں اب میں تم کو سوچوں گا کہ تم نے میرے دل پر دستک دی ہے
صدیاں بیت گئی ہیں جب سے میں نے تم کو سوچا ہے میں میں‘ میں کب رہا ہے گنگا جل کا ہر قطرہ گیتا کے بولوں گرنتھ کے شبدوں فرید کے شلوکوں پھول کے گالوں کو چھوتی شبنم ساگر کے اندر سیپ کی بند مٹھی میں موتی
رتجگوں کی سوچوں دعا کو اٹھتے ہاتھوں ساون رتوں کی ہڑ برساتی آنکھوں آگ میں ڈوبی سانسوں کا حاصل تم ہو رمز مجھ پر کھل گئی ہے میرے سوچ کی ساری شکتی کا دم خم تم ہو جب سے میں نے تم کو سوچا ہے میں میں‘ میں کب ہے میں کو سفر کیے صدیاں بیت گئی ہیں
ایندھن دیکھتا اندھا سنتا بہرا سکنے کی منزل سے دور کھڑا ظلم دیکھتا ہے آہیں سنتا ہے بولتا نہیں کہتا نہیں جہنم ضرور جائے گا
عاری جبرائیل ادراک شاہین پرواز لے گیا سیماب بےقراری گالب خوشبو لے گیا مہتاب چاندنی خورشید حدت لے گیا جو جس کو پسند آیا لے گیا تیرے پاس کیا رہا
دو ہات‘ خالی دو آنکھیں‘ بے نور راتوں کے خواب بے رونق‘ بےزار دن کے اجالے خاموش‘ اداس ہمالہ‘ مٹی کا ڈھیر حرکت سے عاری تو‘ مٹی کا ڈھیر حرکت سے عاری
سننے میں آیا ہے سننے میں آیا ہے ہم آگے بڑھ گئے ہیں ترقی کر گئے ہیں سرج اب شرق سے اٹھتا ہے واشنگٹن کے مندر کا بت کس محمود نے توڑا ہے سکندر کے گھوڑوں کا منہ کس بیاس نے موڑا ہے اس کی گردن کا سریا
کس ٹیپو نے توڑا ہے سو کا بیلنس اب سو ہی چڑھتا ہے پونڈ سٹرلنگ اور ڈالر روپیے کے دو ملتے ہیں سننے میں آیا ہے ہم آگے بڑھ گئے ہیں ترقی کر گئے ہیں 'بیوہ کو ٹک ملتا ہے وہ پیٹ بھر کھاتی ہے گریب کی بیٹیا بن دہیج ?اب ڈولی چڑھتی ہے جو جیون دان کرے دارو کی وہ شیشی ?اب مفت میں ملتی ہے
سننے میں آیا ہے ہم آگے بڑھ گئے ہیں ترقی کر گئے ہیں موسی اور عیسی گرجے اور ہیکل سے ?مکت ہوے ہیں بدھ رام بہا کہ نانک کے پیرو ہوں یا پھر چیراٹ شریف کے باسی ?اپنا جیون جیتے ہیں سننے میں آیا ہے ہم آگے بڑھ گئے ہیں ترقی کر گئے ہیں گوئٹے اور بالی ٹیگور تے جامی
سیوفنگ اور شیلی ?سب کے ٹھہرے ہیں مالں پنڈت اور گرجے کا وارث انسانوں کو انسانوں کے ?کام آنے کی کہتا ہے سننے میں آیا ہے ہم آگے بڑھ گئے ہیں ترقی کر گئے ہیں شیر اور بکری 'اک گھاٹ پر پانی پیتے ہیں ?اک کچھ میں رہتے ہیں سیٹھوں کی بستی میں مل بانٹ کر ?کھانے کی چرچا ہے رشوت کا کھیل ?ناکام ہوا ہے
منصف ?ایمان قرآن کی کہتتا ہے سننے میں آیا ہے ہم آگے بڑھ گئے ہیں ترقی کر گئے ہیں من تن کا وارث تن من کا بھیدی جب بھی ٹھہرے گا جیون کا ہر سکھ قدموں کی ٹھوکر امبر کے اس پار انسان کا گھر ہو گا 'پرتھوی کیا هللا کی ہر تخلیق کا ماما نہیں موچی درزی نائی بھی
وارث ہوگا 'شخص شخص کا بھائی ہوگا
کس منہ سے چلم بھرتے ہات‘ اٹھ نہیں سکتے ہونٹوں پر فقیہ عصر نے چپ رکھ دی ہے کتنا عظیم تھا وہ شخص گلیوں میں رسولوں کے لفظ بانٹتا رہا ان بولتے لفظوں کو‘ ہم سن نہ سکے آنکھوں سے‘ چن نہ سکے ہمارے کانوں میں‘ جبر کی پوریں رہیں
آنکھوں میں خوف نے پتھر رکھ دیے ہم جانتے ہیں‘ وہ سچا تھا قول کا پکا تھا مرنا تو ہے‘ ہمیں یاد نہ رہا ہم جانتے ہیں اس نے جو کیا ہمارے لیے کیا جیا تو ہمارے لیے جیا کتنا عجیب تھا زندہ الشوں کا دم بھرتا رہا مصلوب ہوا ہم دیکھتے رہے نیزے چڑھا ہم دیکھتے رہے مرا جال راکھ اڑی ہم دیکھتے رہے اس کے کہے پر دو گام تو چال ہوتا کس منہ سے اب اس کی راہ دیکھتے ہیں ہم خاموش تماشائی
مظلومیت کا فقط ڈھونگ رچاتے ہیں بے جان جیون کے دامن میں غیرت کہاں جو رن میں اترے یا پھر پس لب اس کی مدح ہی کر سکے چلو دنیا چاری ہی سہی آؤ اندرون لب دعا کریں ان مول سی مدح کہیں
حیرت تو یہ ہے موسم گل ابھی محو کالم تھا کہ مہتاب بادلوں میں جا چھپا اندھیرا چھا گیا پریت پرندہ ہوس کے جنگلوں میں کھو گیا اس کی بینائی کا دیا بجھ گیا کوئی ذات سے‘ کوئی حاالت سے الجھ گیا کیا اپنا ہے‘ کیا بیگانہ‘ یاد میں نہ رہا بادل چھٹنے کو تھے کہ
افق لہو اگلنے لگا دو بم ادھر دو ادھر گرے پھر تو ہر سو دھواں ہی دھواں تھا چہرے جب دھول میں اٹے تو ظلم کا اندھیر مچ گیا پھر اک درویش مینار آگہی پر چڑھا کہنے لگا سنو سنو دامن سب سمو لیتا ہے اپنے دامن سے چہرے صاف کرو شاید کہ تم میں سے کوئی ابھی یتیم نہ ہوا ہو یتیمی کا ذوق لٹیا ڈبو دیتا ہے من کے موسم دبوچ لیتا ہے کون سنتا پھٹی پرانی آواز کو حیرت تو یہ ہے
موسم گل کا سب کو انتظار ہے گرد سے اپنا دامن بھی بچاتا ہے اوروں سے کہے جاتا ہے چہرہ اپنا صاف کرو‘ چہرہ اپنا صاف کرو ہر گھر سے دن کے اجالوں میں خداہائے کفر ساز و کفر نواز پیتے ہیں سچ کا لہو کہ وہ اجالوں کی بستی میں زندہ رہیں شرق سے اب تمہیں کوئی شب بیدار کرنا ہو گی کہ سچ اسے دکھنے ہی نہ پائے تمہیں بھی تو
اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں یا پھر آتی نسلوں کے لیے ہی سہی دن کے اجالوں میں روح حیدر رکھنا ہوگی سسی فس کا جیون جیون نہیں سقراط کی مرتیو مرتیو نہیں جینا ہے تو حسین کا جیون جیو کہ جب ارتھی اٹھے خون کے آنسووں میں راکھ اڑے خون کے آنسووں میں شاعر کا قلم
روشنی بکھیرے گا زندگی‘ آکاش کی محتاج نہ رہے گی ہر گھر سے چاند ہر گھر سے سورج طلوع ہو گا غروب کی ہر پگ پر کہیں سقراط کہیں منصور تو کہیں سرمد کھڑا ہو گا
بارود کے موسم کرائے کے قاتل کیا بھکشا دیں گے؟ کرن ہماری کھا جا ہے ہم موسی کے کب پیرو ہیں جو آسمان سے من و سلوی اترے گا اپنی دونی کا گیندا ہیرے کی جڑت کے گہنوں سے گربت کی چٹیا پر
سوا سج دھج رکھتا ہے میری کا طعنا معنا اکھین کے سارے رنگوں پر کہرا بن کے چھا جاتا ہے کوڑ کی برکی کا وش دیسی نغموں میں ڈرم کا بے ہنگم غوغا طبلے کی ہر تھاپ کھا پی جاتا ہے کرائے کے قاتل کیا بھکشا دیں گے؟ ان کی آنکھوں میں تو بارود کے موسم پلتے ہیں http://www.urdutehzeb.com/showthread.php/3429-%D8%A8%D8%A7%D8%B1%D9%88%D8%AF-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D 9%88%D8%B3%D9%85
جاگتے رہنا جاگتے رہنا چور‘ ترے سہاگ کی چوڑیاں چرا نہ لے جاگتے رہنا چندا کی کوئی مست کرن آنکھوں کی مستی ہونٹوں کی سرخی چرا نہ لے جاگتے رہنا ہوا کا کوئی جھونکا حیا وتقدس کے رشتے
چور چور نہ کر دے جاگتے رہنا شب کے پچھلے پہر کی رعنائیوں میں خدا تجھ کو بھی شریک کر لے جاگتے رہنا گالب چندا کی رگوں سے ساری شبنم نچوڑ نہ لے جاگتے رہنا رقیب تجھے‘ تری مجبتوں سے محروم نہ کر دے جاگتے رہنا‘ مرے دوست‘ جاگتے رہنا جاگنا ہی زندگی‘ جاگتے ہی آزاد ہیں
حرص کی رم جم حرص کی رم جم میں مالں پنڈت گرجے کا فادر گر کا امین لمبڑ کے ڈیرے پر بیٹھے آنکھوں میں پتھر رکھ کر پکون کے گیت گائیں لوکن کے گھر بھوک کا بھنگڑا گلیوں میں موت کا خنجر کھیتوں میں خوف کی کاشت
جیون تذبذب کی صلیب پر لٹکا تخلیق کی ابجد تقدیر کی ریکھا کیسے ٹھہرے گا؟
بن مانگے نیچے ہاتھ کی جنت دل والوں کو کب خوش آتی ہے تم نے کیوں سوچ لیا میں کوتاہ کوس سہی وہ تو تو کی بستی بستا ہے چترکار کوئی غیر نہیں
کوئی دور نہیں وہ جانت ہیں کہ کیا ان کا ہے بن مانگے ان کو مل جائے گا
یقینی سی بات ہے یقینی سی بات ہے تمہیں کیوں یقین نہیں آتا کربال کی بازگشت پہاڑوں میں کھو گئی ہے سہاگنوں نے سیاہ لباس پہن لیا ہے ان کے مردوں کے لہو میں
یزید کی عطاؤں کا قرض اتر چکا ہے ہاں مگر جب پہاڑوں کو زبان مل جائے گی یقینی سی بات ہے بازگشت کے ہم زبان مجبور زندگی کو آزادی کو لب سڑک دیکھ سکیں گے ماہ نامہ سوشل ورکر الہور'اپریل 1992
اپیل نفرت کی توپوں کے دہانوں پر دودھ پیتے بچوں کو نہ رکھو ان کی آنکھوں کی معصومیت معصومیت کی آغوش میں پلتے خواب خواب صبح کی تعبیر ہوتا ہے خواب مر گیے تو آتا کل مر جائے گا اور یہ بھی کہ ممتا قتل ہو جائے گی 'خوب جان لو نفرت کے تو
پہاڑ بھی متحمل نہیں ہوتے کل کیوں کر ہو گا میں تم سے پھر کہتا ہوں نفرت کی توپوں کے دہانوں پر دودھ پیتے بچوں کو نہ رکھو ماہ نامہ سوشل ورکر الہور' جنوری-فروری 1992
اس سے پہلے اس سے پہلے کہ عمر کا تارا ٹوٹے مرے جیون کا ہر جلتا بجھتا پل مجھ کو واپس کر دو
جو دن خوشییوں میں گزرا تقدیر نہیں عشق کی تپسیا کا اترن تھا مرے بولوں کی تڑپت مرے گیتوں کی پیڑا مرزے کی کوئی ہیک نہیں مرے اشکوں کا شرینتر تھا اپنوں کے طعنے مینے سن سن کر غیروں کے بھی کان پکے میں اس کو لوکن کی کیوں کالی ریتا سمجھوں یہ تو سچ کا پریوجن تھا اس سے پہلے کہ عمر کا تارا ٹوٹے مرے جیون کا
ہر جلتا بجھتا پل مجھ کو واپس کر دو ہر ان ہونی کا پرورتن کھولو اس سے پہلے کہ عمر کا تارا ٹوٹے مرے جیون کا ہر جلتا بجھتا پل مجھ کو واپس کر دو
واپسی بشارت کا جب در وا ہوا میں نے سوچا پہلے ابنی قسمت کا حال پڑھوں واں کچھ بھی نہ تھا جو مرا ہوتا لہو پسینہ جو مرا تھا مرے رقیبوں ان کے بچوں ان کے کتوں اور سوروں کو حدت بخش رہا تھا میں نے پھر سوچا
جنگلوں میں جا بسوں درندوں کا وتیرا اپنا لوں انسان تھا جنگلوں میں کیسے جا بستا درندگی‘ درندوں کی فطرت محنت بنی ادم کا شیوا دو فطراتیں جنگل کا سینہ سما پائے گا؟ کچھ نہیں کو چوم کر میں نے بشارت کا دروازہ بند کر دیا
وقت کیسا انقالب الیا ہے وقت کیسا عذاب الیا ہے تم کب الئق محبت ہو ائینے میں اپنی شکل تو دیکھو قاصد یہی جواب الیا ہے گویا خط میں عتاب الیا ہے جو سر کے بل چلے تھے ناکام ٹھہرے پت جھڑ گالب الیا ہے ذلیخا کا عشق سچا سہی وہ برہنہ پا کب چلی تھی پہیہ عمودی چال چال ہے
زندہ قبر میں اتر گیا ہے انکھ دیکھتی نہیں کان سنتے نہیں وقت کیسا انقالب الیا ہے بارش قرض دار بادلوں کی بادل بینائی کو ترسیں زخمی زخمی ہر سہاگن کی کالئی بیوہ سولہ سنگار سے ہے وقت کیسا انقالب الیا ہے وقت کیسا عذاب الیا ہے
سوال یہ ہے یہ سچ ہے محبت روح کو سکوں دل کو قرار دیتی ہے سوال یہ نہیں محبت کا احترام کرنا ہے زیست کے کالر پر سجا کر رکھنا ہے سوال یہ ہے کہ ہم احترام کیسے دیں اسے ہم تو بھوکے ہیں
پیاسے ہیں جیون پر خوف کے بادل ہیں ہمیں تو جیون کے ہووت کی چنتا ہے ہماری پسلیوں کے نیچے باما کا غالم چھپا بیٹھا ہے 'جس کی اپنی کوئی مرضی نہیں سوال یہ ہے کہ ہم محبت کا احترام کیسے کریں
سچ کے آنگن میں
جب بھوک کا استر حرص کی بستی میں جا بستا ہے اوپر کی نیچے‘ نیچے کی اوپر آ جاتی ہے چھاج کی تو بات بڑی چھلنی پنچ بن جاتی ہے بکری ہنس چال چلنے لگتی ہے کوے کے سر پر سر گرو کی پگڑی سج جاتی ہے دہقان بو کر گندم فصل جو کی کاٹتے ہیں
صبح کا اترن لے کر کالی راتیں سچ کے آنگن میں جا بستی ہیں مارچ ١٩٧٤ ‘١٩
میں نے دیکھا
پانیوں پر میں اشک لکھنے چال تھا دیدہءخوں دیکھ کر ہر بوند ہوا کے سفر بر نکل گئی منصف کے پاس گیا شاہ کی مجبوریوں میں وہ جکڑا ہوا تھا سوچا پانیوں کی بےمروتی کا
فتوی ہی لے لیتا ہوں مالں شاہ کے دستر خوان پر مدہوش پڑا ہوا تھا دیکھا‘ شیخ کا در کھال ہوا ہے سوچا شاید یہاں داد رسی کا کوئی سامان ہو جائے گا وہ بچارہ تو پریوں کے غول میں گھرا ہوا تھا کیا کرتا کدھر کو جاتا دل دروازہ کھال خدا جو میرے قریب تھا بوال کتنے عجیب ہو تم بھی کیا میں کافی نہیں جو ہوس کے اسیروں کے پاس جاتے ہو
میرے پاس آؤ ادھر ادھر نہ جاؤ میری آغوش میں تمہارے اشکوں کو پناہ ملے گی ہر بوند رشک لعل فردوس بریں ہو گی اک قظرہ مری آنکھ سے ٹپکا میں نے دیکھا شاہ اور شاہ والوں کی گردن میں بے نصیبی کی زنجیر پڑی ہوئی تھی مکرم بندہ جناب حسنی صاحب :سالم مسنون آزاد شاعری عام طور پر میرے سر پر سے گزر جاتی ہے۔ جب تک میں اس کے تانے بانے سلجھاتا ہوں پچھلے پڑھے ہوئے مصرعے ذہن کی تہوں میں کہیں گم ہو جاتے ہیں اور میں پھر نظم پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش میں گرفتار ہو جاتا ہوں۔ آپ کی اس نظم کے مطالعہ میں ایسا صرف ایک بار ہوا اور میں جلد ہی منزل مقصود تک پہنچ گیا۔ یہ شاید اس لئے ہوا کہ آپ
کی نظم پر دلسوزی اور خلوص دل کی مہر لگی ہوئی ہے جیسے آپ اپنی آپ بیتی بیان کر رہے ہوں۔ نظم پڑھ کر متاثر ہوا۔ نظم کا پیغام عام سہی لیکن اہم ضرور ہے۔ ہم اہل دنیا بے تحاشہ اہل اقتدار کی جانب بھاگتے ہیں اور اس تگ و دو میں بھول جاتے ہیں کہ دینے واال تو کوئی اور ہی ہے۔ هللا رحم کرے۔ ایسے ہی لکھتے رہئے۔ هللا آپ کو ہمت اور طاقت عطا فرمائے۔ صالحیت اور توفیق سے تو اپ بھر پور ہیں ہی۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔ سرور عالم را http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=9132.0
نوحہ وہ قیدی نہ تھا خیر وشر سے بے خبر معصوم فرشتوں کی طرح جھوٹے برتنوں کے گرد انگلیاں محو رقص تھیں اس کی ہر برتن کی زبان پہ اس کی مرحوم ماں کا نوحہ باپ کی بےحسی اور جنسی تسکین کا بین تھا آنکھوں کی زبان پہ
اک سوال تھا ‘اس کو زندگی کہتے ہیں یہی زندگی ہے؟؟؟ صبح ہی سے
وہ آگ عزازئیل کی جو سرشت میں تھی اس آگ کو نمرود نے ہوا دی اس آگ کا ایندھن قارون نے پھر خرید کیا اس آگ کو فرعون پی گیا اس آگ کو حر نے اگل دیا یزید مگر نگل گیا اس آگ کو میر جعفر نے سجدہ کیا
میر قاسم نے مشعل ہوس روشن کی اس آگ کے شعلے پھر بلند ہیں مخلوق ارضی ڈر سے سہم گئی ہے ابر باراں کی راہ دیکھ رہی ہے کوئی بادل کا ٹکڑا نہیں صبح ہی سے تو آسمان نکھر گیا ہے 1980
جب تک
وہ قتل ہو گیا پھر قتل ہوا ایک بار پھر قتل ہوا اس کے بعد بھی قتل ہوا وہ مسلسل قتل ہوتا رہا جب تک سیٹھوں کی بھوک‘ نہیں مٹ جاتی جب تک خواہشوں کا‘ جنازہ نہیں اٹھ جا وہ قتل ہوتا رہے گا وہ قتل ہوتا رہے گا
حیات کے برزخ میں تالش معنویت کے سب لمحے صدیاں ڈکار گئیں چیتھڑوں میں ملبوس معنویت کا سفر اس کنارے کو چھو نہ سکا تاسف کے دو آنسو کاسہءمحرومی کا مقدر نہ بن سکے کیا ہو پاتا کہ شب کشف دو رانوں کی مشقت میں کٹ گئی صبح دھیان نان نارسا کی نذر ہوئی شاعر کا کہا
بےحواسی کا ہم نوا ہوا دفتر رفتہ شاہ کے گیت گاتا رہا وسیبی حکائتیں بےوقار ہوئیں قرطاس فکر پہ نہ چڑھ سکیں گویا روایت کا جنازہ اٹھ گیا ضمیر بھی چاندی میں تل گیا مجذوب کے خواب میں گرہ پڑی مکیش کے نغموں سے طبلہ پھسل گیا درویش کے حواس بیدار نقطے ترقی کا ڈرم نگل گیا نہ مشرق رہا نہ مغرب اپنا بنا آخر کب تک یتیم جیون حیات کے برزخ میں شناخت کے لیے بھٹکتا رہے
چل' محمد کے در پر چل اک پل آکاش اور دھرتی کو اک دھاگے میں بن کر رنگ دھنک اچھالے دوجا پل جو بھیک تھا پہلے کل کی کاسے سے اترا ماتھے کی ریکھا ٹھہرا کرپا اور دان کا پل پھن چکر مارا گرتا ہے منہ کے بل
سلوٹ سے پاک سہی پھر بھی حنطل سے کڑوا اترن کا پھل الفت میں کچھ دے کر پانے کی اچھا حاتم سے ہے چھل غیرت سے عاری حلق میں ٹپکا وہ قطرہ سقراط کا زہر نہ گنگا جل مہر محبت سے بھرپور نیم کا پانی نہ کڑا نہ کھارا وہ تو ہے
آب زم زم اس میں رام کا بل ہر فرزانہ عہد سے مکتی چاہے ہر دیوانہ عہد کا بندی مر مٹنے کی باتیں ٹالتے رہنا کل تا کل جب بھی پل کی بگڑی کل در نانک کے بیٹھا بےکل وید حکیم مالں پنڈٹ پیر فقیر جب تھک ہاریں
جس ہتھ میں وقت کی نبضیں چل محمد کے در پر چل
شہد سمندر
ترے شبدوں میں شہد سمندر ترے ہونٹوں میں تخلیق کی ابجد تری آنکھوں میں کئ عرش سجے ترے پیروں میں جیون ریکھا تری سانسوں میں آج اور کل
تری کھوج کا پل صدیوں پر بھاری ترے ملن کے عشرے جاپیں پل دو پل ترے سوچ کے آنگن میں کن کے بھید چھپے تو چھو لے تو مٹی سونا اگلے پتھر پارس ٹھہرے تری ایڑ کے اندر احساس کے سات سمندر ترا دامن فرشتوں کا مسکن تو وہ برگد چرا کر سایہ جس کا آکاش اترائے
میں اپنے بخت پر نازاں ہوں تو مری ماں کہالئے ترے سینے میں مری پیاس کےدیپ جلیں ماں کے دل کی دھک دھک خلد کے گیت سنائے
سورج ڈوب رہا ہے میں جو بھی ہوں چاند اور سورج کی کرنوں پر میرا بھی تو حق ہے دھرتی کا ہر موسم خدا کا ہر گھر میرا بھی تو ہے قرآن ہو کہ گیتا
رامائن کا ہر قصا گرنتھ کا ہر نقطا میرا بھی تو ہے تقسیم کا در جب بھی کھلتا ہے الٹ کے دفتر کا منشی بارود کا مالک پرچی کا مانگت عطا کے بوہے بند کر دیتا ہے رام اور عیسی کے بول ناچوں کی پھرتی بے لباسی میں رل کر بے گھر بےدر ہوئے ہیں دفتری مالں کےمنہ میں کھیر کا چمچہ ہے
پنڈت اور فادر ہاں ناں کے پل پر بیٹھے توتے کو فاختتہ کہتے ہیں دادگر کے در پر سائل پانی بلوتا ہے مدرسے کا ماشٹر کمتر سے بھی کمتر کالج کا منشی جیون دان ہوا کو ترسے قلم کا دھنی غالموں کے سم پیتے برچھوں کی زد میں ہے سب اچھا کا تلک سر ماتھے پر رکھنے والے گورا ہاؤس کے چمچے کڑچھے طاقت کی بیلی میں
کربل کربل کرتے یہ کیڑے ہانیمن اور اجمل کا منہ چڑاتے ہیں مسائل کی روڑی پر بیٹھا میں گونگا بہرا بے بس زخمی نانک سے بدھ لچھمن سے ویر تالشوں مدنی کریم کی راہ دیکھوں علی علی پکاروں کہ سورج ڈوب رہا ہے
اس روز بھی
اس روز بھی اک قتل ہوا افق میں لہو اتر گیا ہات میں خنجر لے کر وہ شہر بھر پھرتا رہا ہر دیکھتا اسے دیکھتا رہا سسکیاں گواہ کیوں بنیں لہو بھی تو
بول رہا تھا
گنگا الٹا بہنے لگی ہے من کی دیواروں پر یہ خون کے چھینٹے کیسے ہیں مردہ جسموں کی بو سانسوں میں کس نے بھر دی ہے برف سے جذبوں پر ہاتھ کی پوروں کے نقش کہاں سے اترے ہیں روح کی زلفیں کیوں بکھری بکھری ہیں
تمہارے جانے کے بعد حیات کے سب منظر کیوں ٹھہر گیے ہیں تم سا نہ آنے کے خدشے بل کھاتے سانپوں کے مسکن بن جاتے ہیں فرزانہ ہوں کہ دیوانہ میں کب جانت ہوں ہاں تمہارے جانے سے پہلے یہ سب کچھ نہ تھا تمہارے جانے کے بعد گنگا الٹا بہنے لگی ہے
لہو کا تقدس کلیاں اور گالب و کنول بھی پیر مغرب کی ٹھوکر میں ہیں میرے دور کا ٹیپو غیرت کے لہو کا تقدس بھوک کے آئنہ میں دیکھتا ہے
کانچ دریچوں میں جیون کے کانچ دریچوں میں دیکھوں تو ارمانوں کے موسم جھلسیں نادیکھوں تو کاال پتھر ٹھہروں
خدشے جب سچ ہو جاتے ہیں
خدشے جب سچ ہو جاتے ہیں مجروع جذبے مرتی اور جیون کے برزخ میں حشر برپا ہونے کی کامنا کرتے ہیں سورگ نہیں ناسہی نرک ٹھکانا رہتا ہے
طلوع میں آغاز سفر کا نشہ غروب میں ہراس نہیں خدشے جب سچ ہو جاتے ہیں اشکوں سے عاری آنکھیں مجرم ٹھریں اشکوں سے تر جگ پر بھاری خاموشی کانٹوں سے بدتر خدشے جب سچ ہو جاتے ہیں آس مر جاتی ہے اوجھل راہیں دکھنے لگتی ہیں
خدشے جب سچ ہو جاتے ہیں ہاتھ تلوار کے دستے پر جم جاتا ہے خدشے جب سچ ہو جاتے ہیں آتی نسلیں اپنے پرکھوں کی تصویروں پر کبھی ہنستی ہیں کبھی روتی ہیں
رام بھلی کرے گا ہاتھ کے بدلے ہاتھ سر کے بدلے سر تھپڑ کے بدلے تھپڑ پتھر کے بدلے پتھر میر جعفر نے مگر لوٹ لیا ہے کس سے فریاد کریں جس ہاتھ میں گالب وسنبل اس کی بغل میں خنجر
کمزور کی جیون ریکھا کا منشی ٹھہرا ہے قاتل چور اچکا قانون بناتا ہے لوبھی قانون کا رکھواال بےبس زخمی زخمی منصف ہوا ہے اور یہ مقولہ باقی ہے چڑھ جا بیٹا سولی رام بھلی کرے گا
بے انت سمندر آنکھ میں پانی آب کوثر شبنم گل کے ماتھے کا جھومر جل ‘جل کر دھرتی کو جیون بخشے گنگا جل ہو کہ زم زم کے مست پیالے دھو ڈالیں کالک کے دھبے جل اک قطرہ ہے
جیون بے انت سمندر
رات ذرا ڈھل جانے دو رات ذرا ڈھل جانے دو جب دو پاٹ ندی کے مل جائیں گے در وصل کے کھل جائیں گے نیند کے جھونکے آغوش میں اپنی بستی کو لے لیں گے آکاش سے دھند اترے گی ظلمت اپنی زلفوں میں جاگتے رہنا کے آوازوں کو
کس لے گی تب ہوس سکوں کی گھر سے باہر نکلے گی رات ذرا ڈھل جانے دو تم حصہ اپنا بٹوا لینا راتوں کے مالک لوگ بھروسہ کے ہیں دن کو تو اجلے چہرے دھندال جاتے ہیں رات ذرا ڈھل جانے دو
اردو کی پہلی سنکوئین آس ستارے من کی چھپا کر من میں دھڑکت پھڑکت پر خوف کے پہرے آس ستارے سارے کے سارے یاس افق میں شنانت ہوئے
حرص کی رم جم حرص کی رم جم میں مالں پنڈت گرجے کا فادر گر کا امین لمبڑ کے ڈیرے پر بیٹھے آنکھوں میں پتھر رکھ کر پکون کے گیت گائیں لوکن کے گھر بھوک کا بھنگڑا گلیوں میں موت کا خنجر کھیتوں میں خوف کی کاشت جیون
تذبذب کی صلیب پر لٹکا تخلیق کی ابجد تقدیر کی ریکھا کیسے ٹھہرے گا؟
آج بھی بہت سے گم ہوئے بہت سے مر گیے کچھ پس ستم کیے کچھ عدم معنویت کی صلیب چڑھے ہاں‘ شاہ نواز تاریخ کی لوح پر زندہ رہے وہ ہی وقتوں کے ہیرو ٹھہرے جن پر مالں کی مہر ثبت ہوئی
انہیں کون جھٹالئے سچ کا آئینہ دکھائے ‘جھوٹ معنویت کے ساتھ زندہ رہا سکھ کا سانس لیتا رہا احساس بنا عزت کی دلیل ہوا معبدءتوقیر میں پڑا یہ صدیوں کا ورثہ طاق میں رکھ کر ‘کوئی کیوں اس لفظ کو تالشے جو معاشی روایت نہیں سماجی حکایت نہیں بےسر وادی معاش ہو کہ شاہ کے صنم کدے
شہوت کی عشرت گاہوں گنجان آباد صحراؤں میں اس کا کیا کام سچ کے شبدوں کی خاطر فاقہ کی کربال سے گزر کر حق کے ہمالہ کی چوٹی کوئی کیوں منزل بنائے سپیدی لہو ‘کب کبھی کسی سرمد کی ہم سفر رہی ہے حمادی کے فتوے نے راکھ گنگا کے حوالے نہ کی شاہ نواز حرف اور نقطے مظلوموں کی شریعت ہے ‘آج بھی لوح فہم و احساس کے ایوان پر
ان کی سچائی کا علم لہراتا ہے 11-7-1978
منظومے منظوم افسانے فہرست شاعر اور غزل ١- ٹیکسالی کے شیشہ میں ٢- کالے سویرے ٣- کیچڑ کا کنول ٤- دو لقمے ٥- آخری خبریں آنے تک ٦- یہ ہی فیصلہ ہوا تھا ٧- حیرت تو یہ ہے ٨- میں نے دیکھا ٩- کس منہ سے ١٠- حیات کے برزخ میں ١١- سورج دوزخی ہو گیا تھا ١٢- فیکٹری کا دھواں ١٣-
مطلع رہیں ١٤- امید ہی تو زندگی ہے ١٥- میٹھی گولی ١٦- دو بیلوں کی مرضی ہے ١٧- ذات کے قیدی ١٨- چل' محمد کے در پر چل ١٩- عطائیں هللا کی کب بخیل ہیں ٢٠- کرپانی فتوی ٢١- مقدر ٢٢- دو بانٹ ٢٣- دو حرفی بات ٢٤- سوچ کے گھروندوں میں ٢٥- کیا یہ کافی نہیں ٢٦- یادوں کی دودھ ندیا ٢٧- باؤ بہشتی ٢٨- کوئی کیا جانے ٢٩-
کل کو آتی دفع کا ذکر ہے ٣٠- کڑکتا نوٹ ٣١- اسالم سب کا ہے ٣٢- ڈنگ ٹپانی ٣٣- ایک اور اندھیر دیکھیے ٣٤- یہ حرف ٣٥- عہد کا در وا ہوا ٣٦- مشینی دیو کے خواب ٣٧- اک مفتا سوال ٣٨- ریت بت کی شناسائی مانگ ٣٩- آنکھوں دیکھے موسم ٤٠- سوال کا جواب ٤١- یہ ہی دنیا ہے ٤٢- مالک کی مرضی ہے ٤٣- سیاست ٤٤- شاعر اور غزل
چاند کی کرنوں سے غزل کی بھیک مانگی اس نے کاسے میں دو بوندیں نچوڑ دیں کہ غزل آنکھوں کی ٹھنڈک ہو جائے سیپ نے مروارید دیئے کہ دل اس کا پرسکون ہو جائے قوس قزح نے سرخی بخشی کہ رخ مثل یاقوت ہو جائے طبلے کی تھاپ نے گھنگھرو کی جھنکار نے مایوس نہیں کیا نسیم سحر سے بھی دست سوال دراز کیا قبروں کے کتبوں سے بھی غزل کی بھیک مانگ کے الیا سورج سے تھوڑی حدت مانگ لی سیماب سے بےقراری لے لی
لہر نے بغاوت دے دی گالب کے پاس بھی گیا اس نے کاسے کو بوسہ دیا اور اپنی اک پنکھڑی رکھ دی خوش تھا کہ آج محنت رنگ الئے گی وہ مری ہو جائے گی دامن مرا خوشیوں سے بھر جائے گا غزل کے چہرے پر حسین سا عنوان لکھ دے گی خلوص کی طشتری میں رکھ کر جب غزل میں نے پیش کی جسارت پہ مری وہ بپھر گئی ضبط کی پٹڑی سے اتر گئی کاسے میں تھوک دیا بولی
بھکاری! اپنا خون جگر نچوڑ کے الؤ غزل سے زندگی کی خوش بو آئے راحتوں کے لیے لہو کی اک بوند کافی ہے پھر اس نے چھاتی سے جدا کرکے اپنی بچی مری گود میں رکھ دی ممتا کی باہوں میں غزل تھی ممتا کی نگاہوں میں غزل تھی بچی کے لبوں پر بچی کی انگلیوں میں بچی کی سانسوں میں مگر بچی تو سراپا غزل تھی میں مشاہدے میں ہی تھا کہ اس نے بچی مجھ سے لے لی مری آغوش میں شرمندگی رکھ دی
درماندگی رکھ دی اپنی اور مانگے کی چیز میں کتنا فرق ہوتا ہے وہ الئق صد افتخار تھی پروقار تھی میں تنکے سے بھی حقیر تھا اس کا سر تنا ہوا تھا مرا سر جھکا ہوا تھا کہ غزل کے چہرے پر بھیک کا پیوند لگا ہوا تھا غزل کا بدن زیر عتاب تھا میں بھی تو ہار گیا تھا مری شاعری کی کائنات پر رعشہ تھا وہ مسکرا رہی تھی غزل سٹپٹا رہی تھی اجتہاد کا در وا ہوا
روایت کا دیا بجھ گیا حقیقیت سےپردہ اٹھ گیا شاعر نہیں‘ میں تو بھکاری تھا خورشید ضعیف ہو گیا مہتاب زرد پڑ گیا گالب مرجھا گیا طبلے کا پول کھل گیا جھنکار تھم گئی سمندر ندامت پی گئی کاسہ دو لخت ہوا جو جس کا تھا لے گیا ابلیس کرچیاں چننے لگا بھکاری مر گیا قبروں کو اپنا دیا مل گیا پھر شاعر جاگا ذات میں کھو گیا
خامشی چھا گئی ذات میں انقالب آ گیا اندر کا الوا ابلنے لگا حد سے گزرنے لگا ابلیس کے قہقہوں کا سلسلہ رک گیا اب ذات تھی شاعر تھا آنکھوں میں لہو کی بوندیں ہاتھ میں قلم کاغذ پر جگر تھا
ٹیکسالی کے شیشہ میں
معصوم گڑیا سی سراپا جس کا کلیوں گالبوں نے بنا تھا شاید سراپے کا شیش محل چاند کی کرنوں سے تعمیر ہوا تھا زیست کے نشیب و فراز سے بے خبر کہکشانی رستوں کی تالش میں مشک و عنبر کی جہاں باس ہو ہوا جس کی مگر اسے راس ہو پریوں کے شہزادے کا میسر ساتھ ہو گھر سے بھاگ نکلی آنکھوں میں اس کے روشی تھی ہر دل سے درد اٹھا مونس و غم گسار بن گیا
وہ کیا جانے اس نگر میں بھنورے بھی رہتے ہیں بھیڑیے تاک میں ہیں اک روز پھر اخبار میں خبر چھپی مطلع ہوں اک لڑکی کے اعضاء بکھر گیے تھے گندے گٹر میں پڑے تھے ہر ٹکڑا زخموں سے چور تھا اور خون بھی بہہ رہا تھا گندے پانی کی ٹھوکریں سہہ رہا تھا کہہ رہا تھا شاید میرا کوئی بچ رہا ہو یہ بکھرے اعضاء بڑی حفاظت سے کڑی ریاضت سے جوڑ کر‘ سی کر داراالن بھیج دیے ہیں
داراالمان سے رابطہ کریں خوبی قسمت دیکھیے ٹیکسالی کے باسی قدر شناس نکلے آج بھی وہ اعضاء ٹیکسالی کے شیشہ میں سجے ہیں کہ ان کا کوئی مستقبل نہیں ماضی کہیں کھو گیا ہے حال متعین نہیں ہوا کہ اب ان پر سب کا حق ہے
کالے سویرے
مجھے ڈر لگتا ہے علم و فن کے کالے سویروں سے جن کے بطن سے ہوس کے ناگ جنم لیتے ہیں منصف کے من کی آواز کو جو ڈس لیتے ہیں سہاگن کے سہاگ کی پیاسی آتما سے ہوس کی آگ بجھاتے ہیں سچ کے موسموں کے چراغوں کی روشنی دھندال دھندال دیتے ہیں حقیقتوں کا ہم زاد گھبرا کر ویران اور اداس لفظوں کا آس سے
جو خود فریبی کے جھولے میں پڑی فرار کے رستے سوچ رہی ہے رستہ پوچھتا ہے ان زہریلے ناگوں کی آنکھوں کی مقناطیسیت اپنے حصار میں اسے بھی لے لیتی ہے یہ ناگ انا اور اساس کو بھی ڈستے ہیں یہ خونی منظر دیکھ کر کانپ جاتا ہوں کہ یہ اب ضمیر کو بھی ڈس لیں گے کالے سویروں کی زرد روشنی کے سائے جوں جوں دراز ہوتے ہیں زندگی کو اک اور کربال سے گزرنا پڑتا ہے ان ناگوں کی زبانیں زہر میں بجھی ‘چمکتی تیز دھار تلواریں ہیں
گھاؤ کرنے میں یہ اپنا جواب نہیں رکھتیں زندگی خوف کے سائے میں کیوں کر پروان چڑھ سکتی ہے جہاں کوئی روٹی دینے واال نہیں پانی کی اک بوند نایاب ہے جہاں خودکشی حرام جینا جرم ہے جہاں نیلے آسمان کی چاند ستاروں سے لبریز چھت اپنی نہیں ہوا کا بھی گزر نہیں ہوتا بدلتے موسوں کا تصور شیخ چلی کا خواب ہے بوسیدگی اور غالظت شخص کا مقدر ہے یا پھر
زہر بجھی یہ چمکتی تلواریں ہیں یہ ہی کچھ ہے ‘یقین مانو پھر میں یاس کی تاریکیوں کی تمنا کرتا ہوں جانت ہوں کہ یہ ناگ تاریکیوں سے نہیں گھبرائیں گے پھر بھی کاٹیں گے گدھ نوچیں گے کتے ہڈیوں پر ٹوٹیں گے ہر ہڈی پر گھمسان کا رن ہو گا اپنا حصہ لگڑ بگڑ بھی مانگیں گے فاسفورس کی بانٹ ًپر بھی تنازعے اٹھیں گے درد پھر بھی ہو گا کرب پھر بھی ہو گا
زہر پھر بھی پھیلے گا کانچ بدن پھر بھی نیال ہو گا مایوسی کی سیاہ ذلفوں کے سائے میں بصارت کو بصیرت کو شائد پناہ مل جائے گی میں ناگوں کے پہرے نہ دیکھ سکوں گا لہو رستے پر نظر نہ جائے گی مگر کیا کروں سچ کی حسین تمنا مجھے مرنے نہیں مرنے نہیں دے گی اور میں اس سراب جیون میں نہ مروں گا نہ جی سکوں گا
کیچڑ کا کنول
میال سا چیتھڑا ‘آلودہ شاید حاجت سے بچا ہوگا ‘آدم زادے کا پراہین !عییب نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔؟ گالب سے چہرے پر دیکھتی آنکھیں ‘بلور ایسی حیرت خوف غم غصہ اورافسوس جانے کیا کچھ تھا ان میں سماج کی بےحسی پہ ان ٹھہری مگر دیکھتی آنکھوں میں دو بوند‘ لہو سی صدیوں کے ظلم کی داستان لیے ہوئے تھیں اتنی حدت اتنی اتنی تپش کہ
پتھر بھی پگھل کر پانی ہو ترسی ترسی باہیں میرے بوبی کی باہیں ایسی ہی تھیں کہ جب وہ بچہ تھا تب محبتوں کا حصار تھا اور اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خفت ندامت کا حصار مرے گرد ہے لمحہ بہ لمحہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دائرہ تنگ ہو رہا ہے مجھے فنکار سے نسبت ہے فنکار‘ سب کا درد سینے کی وسعتوں میں سمو لیتا ہے ‘اور میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساکت وجامد مٹی کے بت کی طرح
خاموش تماشائی تھا اس نے پکارا آواز دی احتجاج بھی کیا کچھ نہ میں کر سکا ‘جیسے وہ آدم زادہ نہ ہو ہمالہ سے گرا کوئ پتھر ہو :اس نے کہا !فنکار۔۔۔۔۔۔۔“ مجھے اپنی باہوں میں سما لو "ازل سے پیاسا ہوں گھبرا کر تھوڑا سا )پستیوں کی جانب) پیچھے سرکا کوئی مصیبت کوئی وبال تہمت یا بدنامی سر نہ آئے
چیخا “فنکار کا سینہ !کب سے تنگ ہوا ہے؟ میری باہیں غیر جنس کی باہیں ہیں؟ ان کا تم پر کوئی حق نہیں؟؟؟ وہ کہتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں سنتا رہا کیا جواب تھا میرے پاس !کاش میرے شعور کی آنکھیں بند ہو جاتیں یوں جیسے ممتا کی سماج کی آنکھیں بند تھیں سوچتا ہوں‘ مجرم کون ہے ‘گناہ کس نے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ ماں یا سماج نے وہ تو اپنے گھروں میں آسودہ سانسوں کے ساتھ گرم کافی پی رہے ہوں گے
یا میں نے جو شب کی بھیانک تنہائ میں ندامت سے سگریٹ کے دھوئیں میں تحلیل ہو رہا ہوں گٹرکے قریب پڑا‘ وہ کنول مجھ سے میرے ضمیر سے انصاف طلب کر رہا ہے کہ تم‘ خدائے عزوجل کی تخلق کا یہ حشر کرتے ہو مجھے حرامی کہتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ بتاؤ‘ حامی کون ہے؟ ضمیر کس کا مردہ ہے؟ مجرم کون ہے؟ میں یا تم؟؟؟ !میری بستی کے باسیو
کہ تمہیں عظیم مخلوق ہونے کا دعوی ہے کیا جواب دوں اسے؟ اس کا ننھا سا معصوم چہرا احتجاج سے لبریزآنکھیں پنکھڑی سے ہونٹوں پر تھرکتی بےصدا سسکیاں مجھے پاگل کر دیں گی پاگل ہاں پاگل
دو لقمے
تعفن میں اٹی ‘اندھیاروں میں لیپٹی وہ بستی جہاں چھیتڑوں میں ملفوف زندہ الشوں کے دل کی دھڑکنیں دیوار پر آویزاں کالک کی ٹک ٹک کی آوازیں تھیں۔ ‘بھوک کی اہیں بےبسی کی سسکیوں میں مدغم ہو رہی تھیں۔ آس کا سایہ آس پاس نہ تھا۔ تھا کچھ تو قاتل خاموشی تھی۔ بھوک کا ناگ پھن پھیالئے بیٹھا تھا۔ مایوسیوں کی اس بستی سے رحم کا دیوتا شاید خفا تھا یا پھر وہ بھی تہی دست تہی دامن ہو گیا تھا۔ اک مسکراہٹ کے طلبگار یہ الشے بے حس نہیں‘ بے بس تھے۔ پھر اک الشہ بھوک ناگ جس کے قریب تر تھا۔۔۔۔۔۔ تڑپا اور رینگ کر روشنی کی شہراہ پر آ گیا۔ اس حرکت میں اس نے اپنی ساری توانائی صرف کر دی۔ ہر سو اجالے تھے لیکن وہ بھوک کے سیاہ کفن میں ملبوس تھا۔۔۔۔۔۔۔۔پھر بھی۔۔۔۔۔۔۔ ہاں پھر‘ بھی وہ
زندہ تھا اور اجالوں کی شہراہ پر پڑا ہانپ رہا تھا۔ سانسیں بےترتیب تھیں۔ خوش پوش راہی شاید اسے دیکھ نہیں رہے تھے۔ جو دیکھ رہے تھے ناک پر رومال رکھ کر گزر رہے تھے۔ وہ سب اس کے ہم جنس تھے۔ کتنی آس لے کر وہ یہاں تک آیا تھا۔ ان دیکھتے کرب لمحوں کو کون جان پاتا۔ وہ اس بستی کا نہ تھا۔ بھوک ناگ بوال :کہاں تک بھاگو گے‘ تمہیں میرا لقمہ بننا ہی ہو گا کہ خود میں بھوکا ہوں۔ پھر وہ تھوڑا آگے بڑھا۔ الشہ چالیا :نہیں۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔ رکو۔۔۔۔۔ٹھہرو۔۔۔۔۔۔ روٹی ضرور آئے گی۔ سب بےکار۔۔۔۔۔روٹی کوئی نہیں دے گا۔۔۔۔۔۔ یہ پیٹ بھر کر بھی آنکھوں میں بھوک لیے پھرتے ہیں۔ ان میں سے کون دے گا روٹی۔ ان کے ہشاش بشاش چہروں پر نہ جاؤ۔ ان کے من کی بھوک کو دیکھو اور میرے صبر کا امتحان نہ لو۔ :الشہ سٹپٹایا اور چالیا !اجالوں کے باسیو !علم و فن کے دعوےدارو !سیاست میں شرافت کے مدعیو
!جمہوریت کے علم بردارو !اسلحہ خرید کرنے والو !فالحی اداروں کے نمبردارو ‘عالمی وڈیرو ‘کہاں ہو تم سب تمہارے وعدے اور دعوے کیا ہوئے؟ اپنی بھوک سے دو لقمے میرے لیے بچا لو۔ بھوک ناگ میرے قریب آ گیا ہے۔ دیکھو غور کرو‘ میں تمہارا ہم جنس ہوں ‘۔ دو لقمے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں فقط دو لقمے میری زندگی کے ضامن ہیں۔ ایف سولہ ہائیڈروجن بم مجھے نہیں چاہیے۔ میری ضرورت روٹی کے دو لقمے ہیں۔ اس دور کی یہ تمہاری بہت بڑی جیت ہو گی جو تاریخ میں تمہیں امر کر دے گی۔ آخری خبریں آنے تک
کون انصاف تمہارا یہاں کیا کام جہاں میری ضرورت ہوتی ہے بن بالئے چال آتا ہوں بن بالئے کی اوقات سمجھتے ہو جی ہاں اوقات عمل سے بنتی ہے تمہاری ماننے والے بھوکے مرے بھوک نے انہیں ہمیشہ سرخرو کیا ہے لوگ ہمیں سالم کرتے ہیں تمہیں نہیں‘ تمہاری شر کو سالم کہتے ہیں تاریخ میں دھنوان امر رہا ہے تاریخ پیٹ کے بندوں کا روزنامچہ ہے پیٹ ہی تو سب کچھ ہے تب ہی تو باال سطع پر رہتے ہو تہہ کے متعلق تم کیا جانو
بڑے ڈھیٹ ہو بننا پڑتا ہے تمہیں تمہاری اوقات میں النا پڑے گا کیا کر لو گے؟؟؟ تمہاری ہڈی پسلی ایک کر دوں گا یہ سب تو پہلے بھی میرے ساتھ ہو چکا ہے کوئی نئی ترکیب سوچو تمہیں جال کر راکھ کر دوں گا عبرت کے لیے تمہاری راکھ گلیوں میں بکھیر دوں گا یہ تو اور بھی اچھا ہو گا وہ کیسے؟ میری راکھ کا ہر ذرا انقالب بن ابھرے گا اہ مائی گاڈ‘ تو پھر میں کیا کروں؟ مجھے اپنے سینے سے لگا لو یہ مجھ سے نہیں ہو گا
تو طے یہ ہوا تمہاری اور میری جنگ کا کوئی انت نہیں دیکھتا ہوں کہاں تک اذیت برداشت کرتے ہو چلو میں بھی دیکھتا ہوں اذیت میں کس حد تک جاتے ہو اس کے بعد گھمسان کی جنگ چھڑ گئی اور آخری خبریں آنے تک جنگ جاری تھی
یہ ہی فیصلہ ہوا تھا
عہد شہاب میں بےحجاب بےکسی بھی عجب قیامت تھی۔ صبح اٹھتے مشقت اٹھاتےعوضوانے کو ہاتھ بڑھاتے بے نقط سنتے۔ سانسیں اکھڑ جاتیں مہر بہ لب جیتے کہ سانسیں باقی تھیں۔ جینا تو تھا ہی لہو تو پینا تھا ہی۔ ادھر ایونوں میں آزادی کی صدائیں گونج رہی تھیں ادھر گلیوں میں خوف کا پہرا تھا کہ شاہ بہرا تھا۔ شاہ والے گلیوں میں بےچنت کرپانیں لیے پھرتے تھے۔ نقاہت ہاتھ باندھے شکم میں بھوک آنکھوں میں پیاس لیے کھڑی تھی ہاں مگر شاہ کی دیا کا بول باال تھا۔ پنڈت کے ہونٹوں پر شانتی بغل میں درانتی مالں بھی من میں تفریق کا بارود بھرے امن امن امن کیے جا رہا تھا۔ اب جب کہ پیری پہ شنی کا پہرا ہے بھوک کا گھاؤ گہرا ہے۔ جیب میں دمڑی نہیں امبڑی نہیں کہ وید حکیموں کے دام چکائے بڑے شفاخانے کے در پر الئے مایوسی کی کالک مٹائے آہیں سنے تشفی کی لوری سنائے۔ ہونٹوں پہ گالب سجائے دل
میں کرب اٹھائے اب کون ہے جو مرے مرنے سے مر جائے۔ بیٹے کو اپنی پتنی سے فرصت نہیں بیٹی کی ساس کپتی ہے بھائی کے گھر تیل نہ بتی ہے مری بہن کی کون سنتا ہے سیٹھ کے برتن دھو سیٹھنی کے کوسنے سن کر پیٹ بھرتی ہے۔ بیگم روتی ہے نہ ہنسی ہے سوچتی ہے کفن دفن کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے کہیں اس کے بھائیوں کی چمڑے نہ ادھڑ جائے وہ تو بہنوئی کی کھاتے تھے جب بھی آتے تھے کچھ ناکچھ لے جاتے تھے۔ جیتا ہوں تو مصیبت مرتا ہوں تو مصیبت۔ میں وہ ہی ہوں جواندھیروں میں رہ کر ایونوں کے دیپ جالتا رہا دوا دور رہی مری گرہ میں تو اس اجڑے گلستان کا کرایہ نہیں۔ گھر میں روشنی نہیں ناسہی شاید کوئی فرشتہ مری لحد میں بوند بھر روشنی لے کر آ جائے عمر بھر خود کو نہ دیکھ سکا سوچ سکا واں سکوں ہو گا خود کو دیکھ سکوں گا سوچ سکوں گا خود کو دیکھنے سوچنے کی حسرت بر آئے گی۔
خود کو دیکھ کر سوچ کر ارضی خدائی سے مکتی قلبی خدا کی بےکراں عظمتوں کا اسرار کھل جائے گا وہ میرا تھا میرا ہے مجھے مل جائے گا۔ سردست کفن و دفن کے سامان کی فکر ہے۔ کفن ملے ناملے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ عمر بھر اس نے مری پردہ پوشی کی ہے اب بھی کرئے گا۔ ایونوں میں بستے سفیدی میں لپٹے شیطانوں کا نگر مرا نہیں مرا نہیں گورنگر مرا ہو گا مرا خدا کچھ لیتا نہیں دیتا ہے۔ لینا مری عادت دینا اس کی فطرت روٹی کی فکر کیسی کرائے کی چنتا میں کیوں کروں مری جان میں آ رہا ہوں تو مختصر سہی مرے لیے مری حسرتوں کے لیے سات زمینوں سے بڑھ کر وسعت رکھتی ہے میں بھول میں رہا کہ یہاں کچھ بھی مرا نہ تھا زیست کے کچھ لمحوں کی دیری تھی تو ہی تو مری تھی یہ ہی فیصلہ ہوا تھا۔ یہ ہی فیصلہ ہوا تھا۔ یہ ہی فیصلہ ہوا تھا۔ حیرت تو یہ ہے
موسم گل ابھی محو کالم تھا کہ مہتاب بادلوں میں جا چھپا اندھیرا چھا گیا پریت پرندہ ہوس کے جنگلوں میں کھو گیا اس کی بینائی کا دیا بجھ گیا کوئی ذات سے‘ کوئی حاالت سے الجھ گیا یاد میں نہ رہا ‘کیا اپنا ہے‘ کیا بیگانہ بادل چھٹنے کو تھے کہ افق لہو اگلنے لگا دو بم ادھر دو ادھر گرے پھر تو ہر سو دھواں ہی دھواں تھا چہرے جب دھول میں اٹے تو ظلم کا اندھیر مچ گیا
پھر اک درویش مینار آگہی پر چڑھا کہنے لگا سنو سنو دامن سب سمو لیتا ہے اپنے دامن سے چہرے صاف کرو شاید کہ تم میں سے کوئی ابھی یتیم نہ ہوا ہو یتیمی کا ذوق لٹیا ڈبو دیتا ہے من کے موسم دبوچ لیتا ہے کون سنتا پھٹی پرانی آواز کو حیرت تو یہ ہے موسم گل کا سب کو انتظار ہے گرد سے اپنا دامن بھی بچاتا ہے اوروں سے کہے جاتا ہے چہرہ اپنا صاف کرو‘ چہرہ اپنا صاف کرو میں نے دیکھا
پانیوں پر میں اشک لکھنے چال تھا دیدہءخوں دیکھ کر ہر بوند ہوا کے سفر بر نکل گئی منصف کے پاس گیا شاہ کی مجبوریوں میں وہ جکڑا ہوا تھا سوچا پانیوں کی بےمروتی کا فتوی ہی لے لیتا ہوں مالں شاہ کے دستر خوان پر مدہوش پڑا ہوا تھا دیکھا‘ شیخ کا در کھال ہوا ہے سوچا
شاید یہاں داد رسی کا کوئی سامان ہو جائے گا وہ بچارہ تو پریوں کے غول میں گھرا ہوا تھا کیا کرتا کدھر کو جاتا دل دروازہ کھال خدا جو میرے قریب تھا بوال کتنے عجیب ہو تم بھی کیا میں کافی نہیں جو ہوس کے اسیروں کے پاس جاتے ہو میرے پاس آؤ ادھر ادھر نہ جاؤ میری آغوش میں تمہارے اشکوں کو پناہ ملے گی ہر بوند
رشک لعل فردوس بریں ہو گی اک قظرہ مری آنکھ سے ٹپکا میں نے دیکھا شاہ اور شاہ والوں کی گردن میں بے نصیبی کی زنجیر پڑی ہوئی تھی
کس منہ سے
چلم بھرتے ہات‘ اٹھ نہیں سکتے ہونٹوں پر فقیہ عصر نے چپ رکھ دی ہے کتنا عظیم تھا وہ شخص گلیوں میں رسولوں کے لفظ بانٹتا رہا ان بولتے لفظوں کو‘ ہم سن نہ سکے آنکھوں سے‘ چن نہ سکے ہمارے کانوں میں‘ جبر کی پوریں رہیں آنکھوں میں خوف نے پتھر رکھ دیے ہم جانتے ہیں‘ وہ سچا تھا قول کا پکا تھا مرنا تو ہے‘ ہمیں یاد نہ رہا ہم جانتے ہیں اس نے جو کیا ہمارے لیے کیا
جیا تو ہمارے لیے جیا کتنا عجیب تھا زندہ الشوں کا دم بھرتا رہا مصلوب ہوا ہم دیکھتے رہے نیزے چڑھا ہم دیکھتے رہے مرا جال راکھ اڑی ہم دیکھتے رہے اس کے کہے پر دو گام تو چال ہوتا کس منہ سے اب اس کی راہ دیکھتے ہیں ہم خاموش تماشائی مظلومیت کا فقط ڈھونگ رچاتے ہیں بے جان جیون کے دامن میں غیرت کہاں جو رن میں اترے یا پھر پس لب اس کی مدح ہی کر سکے چلو دنیا چاری ہی سہی
آؤ اندرون لب دعا کریں ان مول سی مدح کہیں
حیات کے برزخ میں
تالش معنویت کے سب لمحے صدیاں ڈکار گئیں چیتھڑوں میں ملبوس معنویت کا سفر اس کنارے کو چھو نہ سکا تاسف کے دو آنسو کاسہءمحرومی کا مقدر نہ بن سکے کیا ہو پاتا کہ شب کشف دو رانوں کی مشقت میں کٹ گئی صبح دھیان نان نارسا کی نذر ہوئی شاعر کا کہا بےحواسی کا ہم نوا ہوا دفتر رفتہ شاہ کے گیت گاتا رہا وسیبی حکائتیں بےوقار ہوئیں قرطاس فکر پہ نہ چڑھ سکیں گویا روایت کا جنازہ اٹھ گیا
ضمیر بھی چاندی میں تل گیا مجذوب کے خواب میں گرہ پڑی مکیش کے نغموں سے طبلہ پھسل گیا درویش کے حواس بیدار نقطے ترقی کا ڈرم نگل گیا نہ مشرق رہا نہ مغرب اپنا بنا آخر کب تک یتیم جیون حیات کے برزخ میں شناخت کے لیے بھٹکتا رہے
سورج دوزخی ہو گیا تھا
گدھ خلیج کے بیماروں کی سانسیں گن رہے ہیں الشوں کو کفن دفن غسل کی ضرورت نہیں ہو گی ١٦اگست ١٩٤٥کو سورج دوزخی ہو گیا تھا گنگا سے اٹھتے بخارات دعا کا اٹھتے ہات گالب کی مہک مٹی سے رشتے کب پوتر رہے ہیں درگاوتی کی عصمت مرنے کے بعد اپنوں کے ہات لٹ گئی تھی ‘ہم تو حنوط شدہ ممیاں ہیں
رگوں میں لہو نہیں کیمیکل دوڑتا ہے کہ آکسیجن جلتی نہیں جلنے میں معاون ہے ڈوبتی سانسوں کو مسیحا کی ضرورت نہیں گوشت گدھ کھائیں گے ‘ہڈیاں فاسفورس کی کانیں ہیں یہودی البی کے گلے کھلے ہیں بٹنوں کی سخت ضرورت ہے
فیکٹری کا دھواں
اس نے کہا یہ سب کس کے لیے لکھتے ہو میں نے کہا تمہارے لیے بوال مگر مجھے تم سے گھن آتی ہے میلے میلے لفظوں میلے میلے جذبوں سے روشنیوں کی بات کرو حسن کی کہو حسین آنکھوں سے ٹپکتی شاب کی بات کرو کانچ سے بدنوں سے ٹپکتے رومان کی بات کرو بہاروں میں مچلتے شباب کی بات کرو شہرت ملے گی ‘روٹی ملے گی
بھوک اور افالس کیا رکھا ہے چیٹھڑوں کی دنیا میں سوچتا ہوں شہرت لے لوں روٹی لے لوں کئی روز کی بھوک ہے لباس بھی الجھا الجھا ہے سسکتے بلکتے جذبوں کو بےلباسی کی دنیا میں رہنے دوں پھر سوچ کے افق سے اک شہاب ثاقب ٹوٹا زہریلی سوچ کا چہرا فیکٹری کی چمنی سے اٹھتے دھویں میں مدغم ہو گیا مطلع رہیں
مسز ریحانہ کوثر بال دکھ تحریر کیا جاتا ہے آپ کی خدمات کی اب یہاں ضرورت نہیں رہی آپ کی بریزئر کا سائز بڑھ گیا ہے آنکھوں کے گرد حلقے بھی ہیں بالوں میں چاندی آ گئی ہے رخسار پچک گئے ہیں روزن نشاط کی فراخی سے پرفومنس گھٹ گئی ہے سابقہ کارگزاری کے پیش نظر کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے آپ کی بیٹی ظل ہما کو آپ کی سیٹ پر آپ کے ہی پے سکیل پر مع مروجہ االؤنسز
اکتیس مئی کلوزنگ ٹائم تک تعینات کیا جا سکتا ہے آپ کو ہدایت کی جاتی ہے تاریخ مقررہ کے اندر زیر دستخطی کو مطلع کریں اپنے واجبات کی وصولی کے لیے زیر دستخطی کے حاضر ہونے کی ضرورت نہیں یہ خدمت اب آفس سپرٹنڈنٹ انجام دیتا ہے فائلوں کی سیاہی سپیدی کا وہ ہی تو مالک ہے مطلع رہیں ضروری نوت آپ اپنی کنگی اور نیل پالش ہمارے میز پر کل کی امید میں
بھول گئی ہیں یہ چیزیں جن کی آپ کو اشد ضرورت ہو گی مس ظل ہما کو آفس ٹائم کے بعد بھیج کر منگوا سکتی ہیں کہ ان کی اب یاں ضرورت نہیں رہی مطلع رہیں
امید ہی تو زندگی ہے
زکرا بولے جا رہی تھی بولے جا رہی تھی مسلسل بولے جا رہی تھی شاید آتی صدیوں کے غم مٹا رہی تھی خوب گرجی خوب برسی اس کے گرجنے میں دھواں برسنے میں مسال دھار تھی رانی توپ کے گرجنے سے حمل گر جاتے تھے برسنے سے بستیاں زمین بوس ہوتی تھیں اس کے برسنے سے سکون کے شہر آگ پکڑتے تھے گرجنے سے حواس بدحواس ہوتے تھے کس سے گلہ کرتا
جھورا مردود مر چکا تھا تھیال مردود آج بھی رشوت ڈکارتا ہے وہ چپ تھا مسلسل چپ تھا منہ میں زبان رکھتا تھا پھر بھی چپ تھا چپ میں شاید اسے سکھ تھا جو بھی سہی یہ سوال نوشتہءدیوار بنا تھا وہ چپ تھا تو کیوں چپ تھا ہر زبان پر یہ ہی سوال تھا وہ بزدل تھا یا صبر میں باکمال تھا کچھ اسے زن مرید کہتے تھے کسی کے خیال میں
مرد کی انا کا وہ کھال زوال تھا وہ تو خیر زیر عتاب تھا ہی اس کے پچھلے بھی کوسنوں کے دفتر چڑھ رہے تھے اس سے کوئی کیوں پوچھتا ہر دوسرے امریش پوری سے ڈائیالگ سننے کو ملتے تھے نمرود وقت بھی کانوں پر پہرے نہیں رکھ سکتا پہلے ریڈیو ہی تو تھا ٹی وی تو کل کی دین ہے کان سنتے تھے تصور امیج بناتا تھا آخر چپ تھا تو کیوں چپ تھا اک روز میں نے پوچھ ہی لیا
میرا کہا اس کے قہقہوں میں اڑنے لگا میں نے سوچا کہنا کچھ تھا شاید کہہ کچھ اور گیا ہوں بھول میں کسی سردار کا لطیفہ کہہ گیا ہوں بھلکڑ ہوں یہ قول زریں مری زوجہ کا ہے زوجہ کے کہے کو غلط کہوں کہوں تو کس بل پر اگلے سے ناسہی اس جہان سے جاؤں گا مہر بہ لب رہا کہ دیواروں کو بھی کان ہوتے ہیں مجھے کیا پڑی غیروں کی اپنے سر لوں میں نے بھی چپ میں عافیت جانی
ہم کیؤں پرائی آگ میں کودیں مرے لیے خالہ کی لگائی ہی کافی ہے خود چل بسی میں بھی چل بسوں سامان کر گئی ہے پھر وہ دفعتا چپ ہو گیا مری طرف بےبس بے کس نظروں سے دیکھنے لگا چند لمحے خامشی رہی جاہل جانتے ہو بولنے میں کتنے اعضا خرچ ہوتے ہیں یہ کیا جواب ہوا بھال ‘حیرت ہوئی غصہ میں بولنے سے چودہ اعضا کشٹ اٹھاتے ہیں مرا کیا ہے ادھر سے سنتا ہوں ادھر سے نکال دیتا ہوں چہرے کے بدلتے رنگوں کا اپنا ہی سواد ہوتا ہے
ہاں سٹپٹانے میں کھونے کے آثار ہوتے ہیں گھورنے بسورنے میں کہکشانی اطوار ہوتے ہیں شخص پڑھو کہ حیات کے تم پر پوشیدہ اطوار کھلیں ہاں غصہ میں دماغ کی کوئی نس پھٹ سکتی ہے خیر یہ وقت خیر نہیں آئے گا دماغ ہوتا تو صبر کا جہاں آباد کرتی دل کا دورہ بھی بعید از قیاس نہیں اس امید پر ہی تو جی رہا ہوں کبھی تو غصہ کے افق سے خوشی کا چاند مسکرائے گا پھر مستی میں آ کر گنگنائے گا آ گئی بہار گلوں کا رنگ اور بھی نکھر گیا
پیاسی آتمائیں آ رہی ہیں روپ بدل بدل کے میں پڑھا لکھا سہی اپنی اوقات میں ہوں تو مزدور زوجہ گزیدہ ہوں بھاشا فلسفے کی میں کیا جانوں بوال :جاؤ امید پر زندہ رہو امید پر میں زندہ ہوں امید ہی تو زندگی ہے
میٹھی گولی
ہم کچھ دوست ہوٹل میں چائے پیتے ہیں اور اکثر پیتے ہیں سچی پوچھو تو چائے پر ہی تو جیتے ہیں زندگی میں ورنہ چائے کے سوا رکھا کیا ہے بھوک کا پرنا پیاس کا پٹکا ہماری زیست کا یہ ہی اثاثہ ہے جسے دیکھو رکھے ہے ہزار گز کا نٹکا امیر وقت بات گریبوں کی کرتا ہے کھیسہ مگر اپنا بھرتا ہے ہر بولتا سر بازار نیالم ہوتا ہے
سر اس کے کوئی ناکوئی الزام ہوتا ہے بےکیے خوب بدنام ہوتا ہے امیر وقت کو کون پوچھے کہا اس کا بےلگام ہوتا ہے کوئی ایشور کا اسے اوتار کہے اس کی کرتوتوں سے بےخبر مقدس روحوں کا اسے ساالر سمجھیں یہ ہی نہیں نوع انسانی کا وقار سمجھیں سب چمچے اسے کان رزق کہتے ہیں مورکھ بھی اسی کے گن گاتا ہے حیرت تو یہ ہے جس خوبی کا وہ تاعمر قاتل رہا اسی خوبی کو مورکھ اس کی گرہ میں رکھتا رہا
اسے جینا ہے یہ ہی اس کا طور رہا یہ کوئی نئی بات نہیں ہر دور اہل ثروت کا دور رہا کوئی بھوک مرتا ہے مرے انہیں اس سے کیا ان کی بال سے گریب کے بچے بےلباس ہیں وہ کیا کریں انہیں کیا ان کا اس سے کوئی کام نہیں مالک تو ہے نا گریب کا سنور جاتا ہے دعا سے خیر چھوڑیے ان باتوں کو کوئی نئی بات ہو تو بات کریں جو وقت گزر گیا سو گزر گیا ان بےگھر بےبستر راتوں کو
یاد کیوں کریں ہاں بس اتنا دکھ ہے گریب کی روکھی سوکھی پر پنجہ رکھ کر تاج محل کبھی نور محل تعمیر ہوا شاہ پھر بھی دیالو ہے کرپالو ہے پھر بھی لوگ ان سے آسیں باندھیں ان کی آنکھوں میں ٹک تالشیں امید کی قاشیں کب یک جا ہوتی ہیں پتی پتی گالب بُنے قدموں میں اس کے بکھری پتیاں حسن کے ماتھے پر ناقدری کا ٹکا قدموں میں بکھری پتیوں کو کون چنے جو چننے بیٹھے گا پولے کھائے گا۔
خیر چھوڑیں میں کیا ظلم و ستم کی رام کہانی لے بیٹھا ہوں چائے کی مست پیالی میں ہمارا امریکی طور نہیں رہا کبھی میں کبھی وہ ادائیگی کر دیتے ہیں ہم ایک کشتی کے مسافر ہیں پھر تو میں کیسی اک روز کیا ہوا بچہ جو چائے ال کر دیتا تھا ہاتھ سے اس کے برتن گرے اور ٹوٹ گئے پھر کیا تھا مالک نے وہ مارا اشک فرشتوں کے بھی گرے ہوں گے وہ دن اس کے الف انار بے بکری تے تختی پڑھنے کے تھے
بھوک اسے وہاں الئی تھی هللا جانے کتنی مجبور اس کی مائی تھی سچی بات تو یہ ہے مری چائے حرام ہوئی میں بےبس کنگال کیا کر سکتا تھا بس دو بےبس اشک بہا سکتا تھا میرا یہ ہی کل سرمایا تھا زیست میں یہ ہی کچھ کمایا تھا جب برتن لینے وہ آیا میں نے اسے گلے لگایا رویا پیار کیا منہ ماتھا چوما چپ چاپ وہاں سے اٹھ آیا جہاں نمرود کی شریعت چلتی ہو وہاں پھر کیا آنا کیا جانا بعد مدت مرا اس کا ملنا ہوا ہماری آنکھیں ملیں
ہم اک دوجے کو پہچان گئے وہ چھوٹا تھا میں نیچے بیٹھ گیا گلے لگایا خوب پیار کیا دعا دی مری گرہ کی یہ ہی اوقات تھی وہ ہاں وہ بچہ نوشیرواں سے کہیں بڑھ کر دیالو نکال میٹھی گولی اس کے منہ میں تھی اس نے اپنا وہ لقمہ مرے منہ میں ڈاال خوش ہو کر مرے منہ کو دیکھا مرے منہ میں وہ تھا جو جنت سوگ میں بھی نہ ہو گا مرے چہرے پر خوشی کے لڈو پھوٹ رہے تھے اس کے پاس ایک اور میٹھی گولی تھی جو اس نے مرے ہاتھ پر رکھ دی
اکبر ہو کہ کوئی اور شاہ کیا کسی کو دیں گے مہان تھا دیا کا پردھان تھا وہ معصوم بچہ شاہوں کی شاہی ایک طرف الفت پریم سے لبریز میٹھی گولی ایک طرف تول میں کہیں بھاری ہے گو اک عرصہ ہوا اس میٹھی گولی کا مزا مری رگ وپے میں آج بھی رقصاں ہے پریم و الفت کے آب زم زم میں بھیگی ہات پر اس بچے کی رکھی میٹھی گولی آتی نسلوں کے لیے میں نے رکھ دی ہے کہ حجت رہے
محبتوں کا کوئی مول نہیں یہ جیتی ہیں مرتی نہیں لوگوں کو یہ خیر کی شکتی بردان میں دیتی ہیں
دو بیلوں کی مرضی ہے
تمثالی وعالمتی م نظومہ بندر کے بچوں کے آتے کل کی بھوک کے غم میں وہ اور یہ آدم کے زخموں سے چور بھوک سے نڈھال قول کے سچے‘ پکے بچوں پر بھونکتے ٹونکتے زخمی سؤر بھوکے کتے ٹوٹ پڑے ہیں ظلم کے ہر حامی کے منہ میں خون کی ٹیکسال سے نکلے ڈالر
ہاتھ میں وعدوں کے پرزے ہیں ظلم کی نندا کرنے والے توپوں کی زد میں ہیں جبر کے ٹوکے میں اپنی سانسیں گنتے ہیں ہونٹوں سے باہر آتی جیبا خنجر کی کھا جا ہے گھورتی آنکھیں اگنی کا رن ہے سچ تو یہ ہے کمزور باشندے پشو جناور کا اترن اور ماس خور درندوں کا جیون ہیں لومڑ اور گیڈر بھی گھاس پھوس سے نفرت کرتے ہیں اک کا جیون
دوجے کی مرتیو پر اٹھتا ہے دیا اور کرپا کے سب جذبے شوگر کو نائٹروکولین ہیں اب دو بیلوں کی مرضی ہے اک ساتھ چلیں بے خوفی کا جیون جئیں یا پھر دو راہوں کے راہی ٹھہریں کتوں سؤروں کا فضلہ بن کر بے نامی کی نالی میں بہہ جائیں
ذات کے قیدی
قصور تو خیر دونوں کا تھا اس نے گالیاں بکیں اس نے خنجر چالیا سزا دونوں کو ملی وہ جان سے گیا یہ جہان سے گیا اس کے بچے یتیم ہوئے اس کے بچے گلیاں رولے اس کی ماں بینائی سے گئی اس کی ماں کے آنسو تھمتے نہیں اس کا باپ کچری چڑھا اس کا باپ بستر لگا دونوں کنبے کاسہء گدائی لیے گھر گھر کی دہلیز چڑھے بے کسی کی تصویر بنے
بے توقیر ہوئے ضبط کا فقدان بربادی کی انتہا بنا سماج کے سکون پر پتھر لگا قصور تو خیر دونوں کا تھا جیو اور جینے دو کے اصول پر جی سکتے تھے اپنے لیے جینا کیا جینا دھرتی کا ہر ذرہ تزئین کی آشا رکھتا ہے ذات کے قیدی مردوں سے بدتر سسی فس کا جینا جیتے ہیں چل' محمد کے در پر چل
اک پل آکاش اور دھرتی کو اک دھاگے میں بن کر رنگ دھنک اچھالے دوجا پل جو بھیک تھا پہلے کل کی کاسے سے اترا ماتھے کی ریکھا ٹھہرا کرپا اور دان کا پل پھن چکر مارا گرتا ہے منہ کے بل سلوٹ سے پاک سہی پھر بھی حنطل سے کڑوا اترن کا پھل الفت میں کچھ دے کر
پانے کی اچھا حاتم سے ہے چھل غیرت سے عاری حلق میں ٹپکا وہ قطرہ سقراط کا زہر نہ گنگا جل مہر محبت سے بھرپور نیم کا پانی نہ کڑا نہ کھارا وہ تو ہے آب زم زم اس میں رام کا بل ہر فرزانہ عہد سے مکتی چاہے ہر دیوانہ عہد کا بندی
مر مٹنے کی باتیں ٹالتے رہنا کل تا کل جب بھی پل کی بگڑی کل در نانک کے بیٹھا بےکل وید حکیم مالں پنڈٹ پیر فقیر جب تھک ہاریں جس ہتھ میں وقت کی نبضیں چل' محمد کے در پر چل عطائیں هللا کی کب بخیل ہیں
مدحیہ کہانی حضور کے قدموں کی برکت دیکھیے آنکھیں جو قدم بوس رہیں کمال ہوئیں رشک ہالل ہوئیں تہی بر مالل ہوئیں اس سے بڑھ کر یہ بالل ہوئیں ان آنکھوں نے موت کو حیات بخشی زمینی خداؤں کو بندگی بخشی ہر لمحہ ان سے اخوت ٹپکی شریعت ٹپکی طریقت ٹپکی حقیقت ٹپکی میں نے سنا تھا
شاہ حسین کے دربار کے عقب میں حضور کے قدموں کے نشان اہل ظرف نے محفوظ کر رکھے ہیں گناہ گار سیاہ کار سہی شوق لیکن مجھے وہاں لے گیا ڈرتے ڈرتے حضرت کے دربار میں داخل ہوا بساط بھر ادب سے سالم کیا درود پڑھا دعا کی اور دربار سے باہر آ گیا وجود میں ہمت باندھی ہر بری کرنی کی معافی مانگی تب کہیں جا کے دربار کے عقب میں گیا حضور کے قدموں کے نشان بڑے احترام بڑی ّعقیدت سے محفوظ تھے تازہ پھولوں سے سجے تھے لوگ بھی وہاں کھڑے تھے ہر آنکھ میں محبت تھی ّعقیدت تھی
دل بےشک طواف الفت میں تھے ہاں کچھ لب بھی متحرک تھے انگلیاں شیشہءپا کو چھو رہی تھیں سوچا آگے بڑھوں شیشہءنقش پا کو چوم لوں پھر سوچا مرے لب اس قابل کہاں انگلیوں سے ہی شیشہء پا چھو لیتا ہوں انگلیوں میں مگر اتنا دم کہاں خواہش ابھری قدموں کو چھوتی پھول کی اک پتی ہی مل جاتی دونوں جہاں گویا مل جائیں گے گناہ گا ہو کہ نیکوکار عطائیں هللا کی کب بخیل ہیں ایسا اگر ہوتا تو مجھ سے بھوکے مر جاتے تالہ اس شیشے کے بکسے کا
کھوال خدمت گار نے حضور کے قدموں کو چھوتی اک پتی مرے ہات پر رکھ دی میں اور یہ فضل بےبہا ‘حیرت ہوئی دنیا و عقبی کی عطا سجدہ شکر کا مجھے کب ڈھنگ رہا ہے خدا جانتا تھا کہ اس کا بندہ ممنون ہے میں نے وہ پتی بصد شکر سدا خالی رہتے پرس میں ڈال لی مرے حضور کے قدموں کی برکت دیکھیے مری میں مر گئی مرا پرس بھی خالی نہیں رہتا راز یہ کھل گیا ہے قدموں میں ہی حضور کے دونوں جہاں ہیں جاؤں گا اگر حضور سے
کسی جہاں کا نہ رہوں گا جو حضور کے قدم لیتا رہے گا اویس بنے گا منصورٹھہرے گا سرمد لقب پائے گا
کرپانی فتوی
فیقا ہمارے محلے کا درزی ہے ہے تو سکا ان پڑھ سوچ میں مگر فالطو لگتا ہے دور کی کوڑی ڈھونڈ کے التا ہے سوچ ہی الگ تر نہیں کپڑے بھی بال کے سیتا ہے الجھا الجھا سڑا بجھا بھی رہتا ہے هللا جانے گھر والی سے نبھا اس کا کیسے ہوتا ہے بےشک وہ اس کی عجیب باتوں سے گھبرا جاتی ہو گی پلے جو ُپڑ گیا‘ رو دھو کر نبھاتی ہو گی کم ہی لوگ اس کی باتوں پر غور کرتے ہیں ہاں جو کرتے ہیں اس کے ہو جاتے ہیں بڑا زیرک ہے دانا ہے
بات کرتے بندہ کوبندہ دیکھ لیتا ہے باتوں کی کھٹی کب کھاتا ہے ڈٹ محنت کرتا ہے خوب کماتا ہے اس روز سب چھوڑ چھاڑ کر چپ چاپ بستر پر لیٹا ہوا تھا خال میں بٹربٹر دیکھے جاتا تھا پہلے سوچا بیمار ہے بیماروں کے طور کب ایسے ہوتے ہیں سوچا چلو حال چال پوچھ لیتے ہیں بیمار ہوا تو کوئی خدمت پوچھ لیتے ہیں میں اس کی دکان میں داخل ہو گیا سالم دعا کرکے بیٹھ گیا پوچھا کیا حال ہے کیوں بےکار میں لیٹے ہوئے ہو اٹھو شیر بنو
کوئی دو چار تروپے بھرو آخر بات کیا ہے جو تم نے یہ حالت بنا رکھی ہے آ جی بات کیا ہونی ہے کل سے مسلسل سوچے جا رہا ہوں یہ کہہ کر وہ فالطو کی اوالد چپ ہو گیا کچھ دیر انتظار کیا کہ اب بولتا ہے جب خامشی نہ ٹوٹی تو میں نے کہا منہ سے کچھ پھوٹو گے تو پتا چلے گا نبی نہیں ہوں جو مجھ پر وحی اتر آئے گی اس نے مری طرف دیکھا اور اداس لفظوں میں یوں گویا ہوا کاال ہو کہ چٹا شرقی ہو کہ غربی پنجابی ہو کہ عربی شعیہ ہو کہ وہابی
چاہے اس سا ہو تول میں کھوٹا رہا ہو یا کھرا بول میں اس سے اسے کوئی غرض نہیں مسلماں کشی میں کہیں رائی بھر جھول نہیں ہر مسلمان کو ایک آنکھ سے دیکھتا ہے مطلب بری کے بعد اپنا چمچہ بھی توڑ دیتا ہے اس کے قریبی گولی کی زد میں آ جاتے ہیں جو لینا ہوتا ہے لے لیتا ہے اس کے ہر دینے میں بھی لینا ہوتا ہے شلوار ٹخنوں سے اوپر ہو کہ نیچے ہاتھ چھوڑے یا باندھے داڑھی بڑی ہو کہ چھوٹی توند پتلی ہو کہ موٹی اسے اس سے کیا بس مسلمان ہو اتنا کافی ہے
اس کے مجرم ہونے میں اس سے بڑا کوئی ثبوت نہیں یہ معاملہ مسلمانوں کا ہے اس کا نہیں وہ صرف اتنا جانتا ہے یہ مسلمان ہے اس کی گردن زنی ہونی چاہیے مسلمانوں کا عقیدہ و نظریہ اس سے الگ تر ہے ان وہابی سنی شعیوں نے اپنے اپنے مولوی پالے ہیں بال کی توندیں وہ رکھتے ہیں شورےفا بڑے ہوٹلوں میں سائلوں کی گرہ سے کھاتے ہیں مولوی بھی باہر کی کھاتے ہیں دونوں اوروں کے پلے کی باہر سے گھر بھجواتے ہیں
حلوہ ہو کہ ہو آوارہ مرغا توند اٹھائے بھاگے جاتے ہیں ہاں مگر کھیسہ میں کفر کا فتوی رکھتے ہیں مسلمانوں کے ہاں مسلمان کم پائے جاتے ہیں وہابی سنی شعیہ کی بہتات ہے کئی اور ایسوں کی برسات ہے فقط چند لقموں کے لیے تفریق کے ایٹم بم کبھی ادھر کبھی ادھر گراتے ہیں تفریق کا بم ایٹم بم سے کہیں مہلک ہے آخر وہ دن کب آئیں گے وہابی رہیں گے نہ شعیہ سنی سب مسلمان ہوں گے اگر تفریق مٹ گئی
تو اس کے ہر بم سے بچ جائیں گے ایکتا پیٹ کے بندوں کو کب خوش آتی ہے لڑانے مروانے کا شوق صدیوں سے چال آتا ہے وہ ان پڑھ درزی مسلسل بولتا رہا شاید پچھلے جنم میں مدینہ کی گلیوں میں گھوما پھرا تھا اک ان پڑھ درزی کے سامنے مری بولتی بند تھی بات تو وہ ٹھیک کہہ رہا تھا لیٹا ہوا تھا کب پیٹ سے سوچ رہا تھا پیٹ سے نکلتی سوچ مسمانوں کو کھا گئی ہے مگر کیا کریں جو بولے گا مولوی کا کرپانی فتوی
اسے کھا جائے گا اک درزی اور یہ سوچ یہاں کوئی باپ کے لیے نہیں سوچتا پوری امت کے لیے وہ سوچے جا رہا تھا سچ تو یہ ہے اس کا انداز فکر مجھے بھا گیا اس کا ہر لفظ قلب و نظر پر چھا گیا جواب میں کیا کہتآ بجھے دل اور بھیگی آنکھوں سے میں واں سے اٹھ گیا مرے بس میں یہ ہی کچھ تھا میں بھال اور کیا کر سکتا تھا
مقدر
ہیلو ہیلو کون شانتی کیا چاہتی ہو دوستی کر لو تمہاری کرخت نگاہوں سے ڈر لگتا یے ہا۔۔۔ہا۔۔۔۔۔ہا۔۔۔۔۔ہا پگلی! نادان! گالب کانٹوں سے نبھا کرتا ہے تم بھی کر لو سسکیوں میں شانتی کی آواز ڈوب گئی بزدل‘ جاہل‘ دقیانوسی بارود تو امن کی ضمانت ہے زمانہ روایت کی لحد میں اتار دے گا تم کو
اور تم سسک بھی نہ سکو گی جدید سکول میں چار دن گزار دیکھو ہیلو‘ سن رہی ہو نا ہاں سن رہی ہوں مگر یہ مجھ سے نہ ہو گا ‘تو پھر جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تنہائی کے زنداں میں مقید رہو یہ ہی تمہارا مقدر ہے
دو بانٹ
جھورے کے سسر تھے کمال کے تامرگ سگے رہے مال کے کدھر سے آتا ہے چھوڑیے انگلی اٹھائے جو بال تکلف سر اس کا پھوڑیے تول کے بھی ان کے دو بانٹ تھے ایک سے لیتے تھے ایک سے دیتے تھے یہاں ایک پیر صاحب رہتے تھے نام ان کا کچھ اور ہے پیار سے میں انہیں بابا دو بانٹ کہتا تھا برائیلر فروش کے ہاتھ کا گوشت خود پر حرام جانتے تھے روڑی کھا کر پال مرغا ہو کہ مرغی بڑے شوق سے کھاتے تھے جو ان کا شوق یاد رکھتے
بافیض بس وہ ہی ہوتے تھے کمال کے طبع شفیق تھے بوڑھی ہو کہ کم صورت بیٹا کہہ کر بالتے سر پر پیار دے کر دعا دیتے کام کی چیز اگر ساتھ الئی ہو اندر بھجوا دیتے دولت کو جیب میں رکھنے کا انہیں کوئی شوق نہ تھا گھٹنے کے نیچے دبا کر رکھتے تھے بڑے دیالو اور کرپالو تھے ہر عام چیز سے خلیفوں کی دنیا بساتے لنگر میں سے بےمایہ ادھر پڑا رہتا ہر ستھرا مگر اندر چال جاتا گویا اندر بھی راضی باہر بھی راضی
بے داغ کپڑے ہوں اور پیٹ میں دال روٹی بات کچھ جچتی نہیں ہاں پیٹ میں ہو اگر دیسی مرغا تو ہی بات بنتی ہے گویا من بھی راضی تن بھی راضی جھورے کے سسر سے مماثل بات کی بات ہی کچھ اور تھی باصورت عورتیں انہیں خوش آتی تھیں اوپر سے چھوئی موئی سی ہوتیں تو پیچے لڑ جاتے تھے یہ ہی اک بات تھی جس پر اندر اعتراض رہتا تھا وہ کیا جانے اک تو وہ پرانی تھی پیپا بھی تھی اوپر سے عادات میں بال ایانی تھی
دیسی مرغا جب ڈکارا ہو ہر سو کنول چہروں کا نظارہ ہو تن من میں مستی آ ہی جاتی ہے مستی حواس کیا ایمان بھی کھا جاتی ہے جھورے کا سسر یاد میں اپنی دو بانٹ چھوڑ گیا اس کی بیٹی یہ دونوں لے کر خاوند کے گھر گئی پھر یہ ہی متاع جہیز لے کر جھورے کے ساتھ نکل گئی طالق و نکاح کی اسے کیا ضرورت تھی دو بانٹ کا یہ ہی تو کمال ہے اصول و ضوابط سے آزادی دال دیتا ہے تاعمر مستی کی گزاری جھورا مر گیا قوالں بھی مر گئی
شیخ تو حضور کے قدموں پر ہوتا ہے حیرت تو یہ ہے اس پیر کے ہاتھ قوالں کے جہیز کی یہ متاع پلید کیسے آئی یہ بات پکی ہے مائی جہیز میں نہیں الئی تھی سنا ہے کھاتی خوب تھی لیکن نیک اور پردہ میں رہتی تھی ممکن ہے جھورے کے ہمسایا میں کبھی رہے ہوں وہاں سے چرا الئے ہوں یقین نہیں آتا پر کیا کریں چوروں کو مور پڑتے آئے ہیں
دو حرفی بات
عادت نہ ماننے کی اچھی نہیں ہوتی جیتے جی مقدر اس کا بنتی ہے نیستی اس کے پیرو سدا زیر عتاب رہتے ہیں آگے بڑھتے قدم پیچھے کو آتے ہیں اپنی پہ اڑنا گھاٹے کا سودا ہے یہ بےجڑا پودا ہے ریت کی دیوار کیسے کھڑی کرو گے بال ہنر گر دریا میں چھالنگ لگاؤ گے غوطے کھاؤ گے ڈوبو گے مرو گے شیطان اپنی پہ اڑا ہوا ہے صبح و شام لعنتیں ہی نہیں ہر لمحہ پتھر روڑے کھاتا ہے بس سچے دل سے توبہ ہی کرنی ہے ایسا لمبا چوڑا اس کا حساب کتاب نہیں پر کیا کریں شخص انا کی غالمی کیے جاتا ہے
پھر بھی کہے جاتا ہے میں آزاد ہوں میں آزاد ہوں کہتا ہے یہ غیر کی داری نہیں میں کہتا ہوں انا کس کی پیرو ہے هللا کے بنائے شخص کی یہ چیز نہیں برسوں سے میں اسے یہ ہی کہے جا رہا تھا مری وہ کب مانتا تھا مرا کہا حرف آخر ہے یہ ہی اس کی ہٹ تھی مرا کہا کوئی الف لیلی نہ تھا دو حرفی بات تھی میں کہتا تھا کرنا اور ہونا میں فرق ہے وہ کہتا تھا ہونا کچھ نہیں کرنا ہی سب کچھ ہے
ہونی کرنے سے ٹل جاتی ہے ہر بگڑی اس سے سنور جاتی ہے کئی بار بیمار پڑا میں کہتا رہا اب سناؤ کرنے اور ہونے میں بڑا فرق ہے جوابا کہتا بدپرہیزی کے سبب بیمار پڑا ہوں مری گرہ میں مال ہے ہتھیار دوا دارو کا مرے ہاتھ ہے چنگا بھال ہو جاؤں گا عشق کی گرفت میں آیا اٹھنا بیٹھنا سونا جاگنا گنوایا روپیا پیسا بھی اس راہ میں لٹایا گرہ کی بھی کوئی حد ہوتی ہے کنگال ہوا تو معشوقہ وہ گئی بھوک ننگ کے نکاح میں کیوں آتی میں نے کہا کرنے کی
اس سے بڑھ کر ناکامی اور کیا ہو گی ہونی کا تو اس میں عمل دخل ہی نہیں بھوکا ننگا ہو کر بھی اپنے کہے پر ڈٹا رہا کہنے لگا دولت ہاتھ کی میل ہے عورت پاؤں کی جوتی مری کرنی میں ہی کہیں چوک ہوئی ہے ورنہ اس سالی کی ایسی کی تیسی محنت کروں گا اور کما لوں گا پھر اس سی بیسیوں مرے چرنوں میں ہوں گی اک روز میں نے سنا آخری سانسوں پر ہے میں اسے ملنے گیا حواس بگڑے ہوئے تھے چہرے کا رنگ بھی زرد پڑ گیا تھا
میں نے کہا سناؤ بھیا کیسے ہو کیا سناؤں سانسیں گن رہا ہوں اب تو ہونی کو مانتے ہو یار اس میں ہونی کہاں سے آ گئی میں اپنی غلط کرنی کی بھگت رہا ہوں میں نے سوچا اب کچھ کہنا درست نہیں اس کے دل پر تو ختم هللا کی مہر لگی ہوئی تھی اسی شام ہونی کی گرفت میں آیا چل بسا جاتے ہوئے بھی نٹکا اس نے اوپر رکھا ہونی کیسے ٹل سکتی تھی کرنی کے ساتھ اگر ہونی کو بھی مانتا اس میں آخر اس کا کیا بگڑ جاتا مجنوں ہو کہ رانجھا کرنی کی کب کھٹی کھا سکے ہیں
نکاح کرتے نہیں نکاح تو ہوتے آئے ہیں جوڑے آسمان پر بنتے ہیں زور زبردستی کے کام بگڑ جاتے ہیں
سوچ کے گھروندوں میں
علم و فن کے کالے سویروں سے مجھے ڈر لگتا ہے ان کے بطن سے ہوس کے ناگ جنم لیتے ہیں سچ کی آواز کو جو ڈس لیتے ہیں سہاگنوں کی پیاسی آتما سے ہوس کی آگ بجھاتے ہیں صالحیتوں کے چراغوں کی روشنی کو دھندال دیتے ہیں بجھا دیتے ہیں حق کے ایوانوں میں اندھیر مچا دیتے ہیں حقیقتوں کا ہم زاد
اداس لفظوں کے جنگلوں کا آس سے ٹھکانہ پوچھتا ہے انا اور آس کو جب یہ ڈستے ہیں آدمیت کی آرتھی اٹھتی ہے کم کوسی' بےہمتی بےاعتنائی کے شراپ کے سائے ابلیس کے قدم لیتے ہیں شخص کبھی جیتا کبھی مرتا ہے کھانے کو عذاب ٹکڑے پینے کو تیزاب بوندیں ملتی ہیں خود کشی حرام سہی مگر جینا بھی تو جرم ٹھہرا ہے ستاروں سے لبریز چھت کا دور تک اتا پتا نہیں ہوا ادھر سے گزرتے ڈرتی ہے
بدلتے موسموں کا تصور شیخ چلی کا خواب ٹھہرا ہے یہاں اگر کچھ ہے تو'........... منہ میں زہر بجھی تلواریں ہیں پیٹ سوچ کا گھر ہات بھیک کا کٹورا ہوئے ہیں بچوں کے کانچ بدن بھوک سے کبھی نیلے کبھی پیلے پڑتے ہیں اے صبح بصیرت! تو ہی لوٹ آ کہ ناگوں کے پہرے کرب زخموں سے رستا برف لہو تو نہ دیکھ سکوں گا
سچ کے اجالوں کی حسین تمنا مجھے مرنے نہ دے گی اور میں اس بےوضو تمنا کے سہارے کچھ تو سوچ سکوں گا سوچ کے گھروندوں میں زیست کے سارے موسم بستے ہیں قاضی جرار حسنی
1974
کیا یہ کافی نہیں
هللا بخشے نابخشے هللا کی مرضی یہاں اک حاجی صاصب ہوا کرتے تھے پنج وقتے تھے ہاں صدقہ زکوت خیرت میں کافی بخل کرتے تھے حسیں بیبیوں کا دل کب توڑتے تھے دوریاں کم کرکے ان سے رشتے جوڑتے تھے ان کا کہنا تھا سچ بولو پورا تولو لوگوں کے لیے یہ ہی نصحیت تھی یہ الگ بات ہے ان کے کہے پر یقین کرنا سو کا گھاٹا تھا کہا کب کرتے تھے کبھی اس سے الٹا بھی چل جاتے تھے
اک عاشق اپنی معشوقہ سے کہتا رہا ستارے تمہارے لیے توڑ الؤں گا بپھرے دریا کی لہروں سے لڑ جاؤں گا اک روز فون پر اس کی معشوقہ نے کہا آج باغ میں ملو‘ مجھے تم سے اک کام ہے جواب میں اس نے کہا کیوں نہیں‘ آؤں گا اگر بارش نہ پڑی ہمارے یہاں اک لیڈر ہوا کرتے تھے تھے بال کے خوش خیال لباس میں اپنی مثال آپ تھے کار سے باہر جب قدم رنجہ فرماتے لوگ ان کی عیار معصومیت پر مر مر جاتے پھول تو پھول جئے جئے کار نثار کرتے کہا کرتے تھے شہر کو پیرس بنا دوں گا شہر‘ شہر نہ بن سکا پیرس کہاں بنتا
یہ جانتے کہ بےزر ہوں زبانی کالمی میں بھی گھر میں بیسیوں چیزیں التا ہوں بیگم کا اچھا مؤڈ اگر کبھی رہا ہو نور محل کبھی تاج محل لمحوں میں وائٹ ہاؤس سے کہیں بڑھ کر عمارت تعمیر کیے دیتا ہوں یہ الگ بات ہے آتے دنوں میں کچھ نہ ہو پانے پر عزت بچانے کی خاطر ٹھوک کر بیزتی کراتا ہوں کھسیانی ہنسی بھی ہنستا ہوں چلو کچھ لمحے اچھے کچھ برے گزرتے ہیں جیون کوئی ٹھہرا پانی نہیں ناہی یہ بےبل پگ ڈنڈی ہے صالیحین کہتے آئے ہیں
جو کہو وہ کرو ہم اہل شکم ضدین کے قائل ہیں کہنا اور کرنا زیست کے دو الگ رستے ہیں کہے بن بن نہیں آتی کرتے ہیں تو شکم پر الت لگتی ہے نہ کرنے میں ہی تو شکم کی سالمتی ہے جو شکم کا دشمن بنے گا نیزے چڑھے گا زہر کا پیالہ اس کا مقدر ٹھہرے گا آگ میں ڈاال جائے گا زبان سے کہتے رہو ہم جو کہتے ہیں وہ کرتے ہیں ہم بھی یہ جانتے ہیں سننے واال بھی اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہم هللا اور اس کے رسول کا دل و جان سے احترام کرتے ہیں
شیو ہو کہ وشنو موسی ہو کہ عیسی زرتشت ہو کہ مہآتما بدھ رام اور کرشن بڑے لوگ تھے بھال ہم ان سے کیسے ہو سکتے ہیں ان کی ہر کرنی کو سالم و پرنام بےشک وہ عزت کی جا ہیں ان کی کہنی اور کرنی ایک تھی وہ ایک کے قائل تھے مصیبت میں رہے ہر لمحہ صعوبت میں رہے اپنی کہنی پر استوار کرنی کا پرنالہ نہ وہ بدل سکے وہ بڑے تھے بھوکے رہ سکتے تھے ہماری ضرورتیں حاجتیں ان سے جدا وہ کہنی پر چل کر بڑے تھے کہہ کر نہ کرنے سے ہی مال آتا ہے اچھا کھاتے ہیں بڑے گھر میں رہتے ہیں
لوگ سالم بالتے ہیں یہ ہی نہیں ہم سے ڈرتے ہیں دنیا میں رہتے ہیں دنیا کی اور بڑائی کیا ہوتی ہے ان سے کون ڈرتا تھا ان کی کون سنتا تھا ان کے جو قدم لیتا رہا وہ ہی معتوب ہوا کیا یہ کم ہے کہ ہم خود سے گزر کر انہیں مانتے ہیں قبر میں کیا ہو گا حشر میں کیا ہو گا یہ آتے وقتوں کی بات ہے قبروں میں ان پر کیا ہو رہا ہے کب کوئی دیکھ رہا ہے مجرم تب ٹھہریں گے جب کہنی پر کرنی استوار نہ مانیں گے
یہ تو اصول حیات ہے اس کا کون کافر منکر ہے کیا یہ کافی نہیں اس پر ہمارا ایمان و یقین ہے
یادوں کی دودھ ندیا
وہ نم صبح کی تمثال تھی خود اپنی مثال تھی پہلی بار جو میں نے اسے دیکھا مری آنکھوں میں زندگی اتر گئی دل کی ویران بستی میں زندگی کے ڈنکے بجنے لگے خوشی کے ترانے مچلنے لگے ہواؤں کا لہجہ بھی بدل گیا زیست کا گرم موسم رخ اپنا بدل گیا اس کے رخساروں کا عکس شفق کے پیلے رنگ بدلنے لگا شفق کیا‘ افق بھی اس کی مسکان کے رنگ لینے لگا میں نے پیار سے جو چھوا اس کے رخسار کو اک کرنٹ سا لگا اور میں پیچھے ہٹ گیا
وہ سراپا زندگی تھی میں صدیوں کا بےجان جسد تھا ال سے اثبات میں آیا نہ تھا نہ مجھ پر اپنی حقیقت کھلی تھی کیا تھا میں کون تھا اس کی مسرور آنکھوں میں مرے ہونے کی دلیل تھی مرے من آنگن میں اس نے قدم کیا رکھا فرشتے بھی سوچ کا بت بن گئے میں اور یہ خوبی قسمت سورج شاید مغرب سے نکل آیا تھا دست قدرت سے یہ کب بعید ہے ہونی میں بدل جاتی ہے ‘ان ہونی اس کے مری من بستی میں قدم دھرنے کی دیر تھی
خوشیاں ادھر بھی ادھر بھی برسنے لگیں میں اگلے روز جب کام پر آیا ابھی بیٹھا بھی نہ تھا دفتری نے اک سرکاری کاغذ مجھے تھمایا خوش نظروں سے مجھے دیکھنے لگا اس کی آنکھوں میں بخشیش کی تمنا تھی جوں ہی لفظ اس کاغذ کے مری نظروں سے گزرے بات ہی ایسی تھی کہ مرا ہاتھ جیب کی جانب بڑھ گیا جو ہاتھ لگا‘ میں نے اسے نذر کیا خوشی سے وہ مسکرا اور چل دیا اس کاغذ نے مجھے بتایا ترقی نے مرے قدم لیے ہیں
پھر مٹھائی آئی چائے بھی چلی کچھ دوست بولے حضرت اس سے تو نہ بات بنے گی آج تو نان مچھلی اڑے گی مرے دل سے کل کی خوشیوں کا خمار کب اترا تھا نان مچھلی کیا جان بھی مانگتے تو حاضر تھی خوشی کے خمار کی اپنی ہی بات تھی خوشیوں کے اوتار نے مجھے وہ کچھ دیا جو مرے پاس کبھی نہ رہا تھا کرائے کا مکاں ملکیت میں بدل گیا میں بھی اپنا نہ رہا سب کا ہو گیا جو آتا خالی ہاتھ نہ جاتا
کوئی مٹھی بھر کوئی جھولی بھر کے لے جاتا میں کون سا اپنے پلے سے دیتا رہا مرا کیا تھا جو مرے پاس تھا مالک کا دیا تھا جوانی سے بڑھاپے تک وہ پرخوش بو کنول مرے من آنگن کی زینت بنا رہا عجب ریت ہے اس زندگی کی جو آتا ہے چال جاتا ہے میں بوڑھا ہو گیا ہوں بس اب جانے کو ہوں بیٹیاں کب تادیر باپ کے گھر رہتی ہیں بس آج کل میں وہ بھی جانے کو ہے تب اکیال تھا اب اکیال نہیں رہوں گا اس کی پیار بھری مستیوں کی یاد
مرا من آنگن سونا نہ ہونے دے گی جب تلک جیوں گا وہ مجھے بہالتی رہیں گی دکھ درد بیماری میں مجھے سہالتی رہیں گی تنہائی کے بھوت بھگاتی رہیں گی مری اس بےگیاہ زندگی کو یادوں کی دودھ ندیا سے سیراب کرتی رہیں گی تامرگ اسے بنجر نہ ہونے دے گی خیر سے اپنے سسرال جائے دودھ نہائے پوت کھیالئے دکھ درد کا دور تک نام و نشاں نہ ہو اس کی زیست کے ہر موڑ پر خوشیوں کے پھول اس کا استقبال کرتے رہیں
جس جیون کے ہر موڑ پر یادوں کے بالگنت دریچے کھلتے ہوں سمجھو وہ جیون سفل رہا کچھ ہوا یا کیا تو ہی یادیں من آنگن میں ٹھکانہ کرتی ہیں میں نے کیا کرنا تھا مرے هللا نے مجھے کبھی تنہا نہ رہنے دیا مری بچی مری جان کبھی کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرنا جب بھی مانگنا اپنے هللا سے مانگنا اپنے خاوند سے مخلص رہنا جب باہر جائے خیر کی دعا کرنا جب گھر آئے دن بھر کی تھکن بھول کر تہ دل سے مسکرانا
سو بسم هللا کہنا دل میکے میں نہ رکھنا اپنے گھر میں مست رہنا کبھی کسی بات پر فخر تکبر نہ کرنا سب دیا هللا کا دیا ہے جان رکھو سب اسی کا ہے ہاں کبھی کبھار اس بڈھے کو یاد کر لیا کرنا مر گیا تو بقدر بساط مغفرت کی دعا کرنا یہ ہی تحفہ ان مول ہو گا مری طرح اپنے باپ کو یاد کرکے نہ روتے رہنا میں بےچارہ اس قابل کہاں ہاں وہ اس قابل ضرور ہے کہ اسے یادوں میں بسایا جائے ہر پل هللا اسے قبر میں پرسکوں رکھے
وہ وہاں کبھی تنہا نہ رہے هللا کی عطائیں اس کے ساتھ رہیں اس کی عنائتیں قبر میں اس پر سایہ کیے رہیں جا مری ارحا خیر سے جانے کے لیے جا جا‘ جا کر وہاں خوشیوں کا جہان آباد کر خوشیوں کی جینی جی شاد رہ مجھ کو خود کو بھول کر سب کو شاد کر مری بچی مری جان جا جا خیر سے جا هللا تم پر مہربان رہے
باؤ بہشتی
باپ ہو کہ ماں معتبر ہیں محترم ہیں زندگی کی مشقت تو ہے ہی بچوں کے پالن پوسن کی بھی محبت سے پیار سے خلوص سے ماں مشقت اٹھاتی ہے زبان پر شکوے کا کلمہ کب التی ہے باپ بھی دنیا میں بےبدل رشتہ ہے منہ کا لقمہ جیب میں رکھ التا ہے منا کھائے گا گڑیا کے کام آئے گا دونمبری کمائی اکیال وہ کب کھا جاتا ہے حصہ کے لقمے ‘پیٹ بھر سہی پیٹ میں لے جاتا ہے عمرا چور اپنے بچوں پر جان دیتا تھا خراش بھی آتی تو تڑپ تڑپ جاتا تھا
کس کے لیے آدھی رات کو گھر سے قدم باہر رکھتا تھا وہ ڈاکو نہیں تھا ہاں چوری میں نام خوب کمایا تھا پر اتنی بات ہے عالقے کا ہر گھر عزیز رکھتا تھا اس ذیل میں کوئی اس پر انگلی اٹھا نہیں سکتا جانا تو ہے اس سے کب مفر ہے اک روز وہ بھی حرف آخر ہوا جنازے میں خاص و عام شامل تھے چڑھی قسمت دیکھیے سات صفوں کا جنازہ ہوا ہر کوئی عالقے میں اس کی شرافت کے گن گا رہا تھا کئی دن بھورا بےرونق نہ ہوا
اک آ رہا ہے تو اک جا رہا ہے اس کا بڑا لڑکا بھورا نشین رہا اپنے انداز سے باپ کے گن گاتا تھا کہتا تھا باؤ بہشی کوئی کچا چور نہ تھا بس اک ادھ بار پکڑا گیا پلس ٹل لگاتی رہی مگر وہ نہ مانا تھا قسم لے لو جو کبھی چوری کے جرم میں جیل گیا اس کی کوئی چوری پلس ریکارڈ میں نہیں یہ کھلی بکواس ہے کہ وہ چور تھا اس کے پکے پیڈے ہونے پر سب عش عش کر اٹھے یہ بھی اس نے بتایا جب عمرا اس کی ماں کو بھگا کر الیا وہ اس کے پیٹ میں تھا
نانا اس کا عالقے کا بڑا کھنی خاں تھا زور اس نے ایڑی چوٹی کا لگایا مگر کہاں باؤ بہشی نے اس کی ایک بھی نہ چلنے دی بازو دے دیتا تو کیا الج رہتی تھک ہار کر نانا ہی اس کا چپ ہو گیا اس کے پاس اس کے سوا کوئی رستہ بھی نہ تھا آفرین آفرین فلک بوس نعرہ بلند ہوا عمو کماگر نے یہ لقمہ دیا صدیوں بعد ایسے پوت جنم لیتے ہیں انو کہنے لگا ہمیں اس کی جی داری پر ناز ہے شیر تھا دلیر تھا یہ سب کیوں تھا عمرے کا بڑا پوت باپ کے اصولوں کو بھول گیا تھا
آغاز اس کا عالقے سے ہوتا تھا جب کبھی خالی ہاتھ رہتا تو ہی رخ باہر کا کرتا محنت کی کمائی ہر کسی کو عزیز ہوتی ہے ٹی سی ہی وہ راہ تھی کہ وہ اس کے گھر سے ٹال رہے اس حوالہ سے اس کے باؤ بہشتی کی ہر دل میں یاد تازہ بہ تازہ تھی اگلے وقتوں کے طور ہی کچھ اور تھے اپنے عالقے کی عزت ہر آنکھ میں تھی آج خرابی گھر سے شروع ہوتی ہے خیر اب چوری کی رسم بد کب رہ گئی ہے یہ رسم اگلے وقتوں کی تھی نمرود عصر بڑی کرسی پر بیٹھ کر ڈاکے ڈلواتا ہے سامان لٹ جائے خیر ہے اور آ جائے گا
فرعؤن بچوں کو مرواتا تھا یہ بچوں بوڑھوں ضعیفوں گریبوں مسکینوں کو بھی کھا پی جاتا ہے ہاں اتنا ضرور ہے عمرے کے قدموں پر ہے مگر اس کے حرامی بچے عمرے کے بچے کے پیرو ہیں لوگ آج بھی عمرے کو یاد کرتے ہیں منہ پر نہیں پر آگے پیچھے اس کے بیٹے کو برا بھال کہتے ہیں
کوئی کیا جانے
اس کے اچھا اور سچا ہونے میں مجھ کو کیا‘ کسی کو شک نہیں برے وقت میں اوروں کی طرح منہ پھیر نہیں لیتا دامے درمے سخنے ساتھ رہتا ہے سچے کو سچا جھوٹے کو جھوٹا منہ پر کہتا ہے جینے کے لیے یہ طور اچھا نہیں اس کی اس گندگی عادت نے مفت میں اس کے کئی دشمن بنا رکھے ہیں اصل اندھیر یہ جن کے حق میں کہہ جاتا ہے وہ ہی اس سے منہ پھیر لیتے ہیں بہت کم اسے پرے پنچایت میں بالیا جاتا ہے
بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہو جاتی اٹھنے بیٹھنے کے مغرب نے ہمیں طور طریقے سکھائے ہیں بقول مغرب کے ابھی ہم چودہ سو سال پیچھے ہیں دس محرم کو اک ماتمی جلوس گزر رہا تھا اک انگریز جو ادھر سے گزر رہا تھا اس نے ساتھ چلتے چمچے سے پوچھا یہاں کیا معاملہ ہے کیا ہو رہا ہے چمچے نے بتایا حسین کی شہادت کا جلوس گزر رہا ہے وہ حیران ہوا اور کہا انہیں اب پتا چال ہے چمچمے نے وضاحت نہ کی اور ہاں میں ہاں مالئی
وہ صاحب تھا یس سری کا ہی تو عوضانہ دیتا تھا میاں حق قناعت لیے پھرتا تھا تب ہی تو بھوکا مرتا تھا سب چھوڑو ایک عادت اس کی عصری آدب سے قطعی ہٹ کر تھی کار قضا کبھی کسی تقریب میں بال لیا جاتا دیسی کپڑوں میں چال جاتا چٹے دیس کے اہل جاہ کی برائیاں گننے بیٹھ جاتا یہ بھی نہ دیکھتا کہ کوئی ناک منہ چڑھتا ہے لوگ کھانا کھانے کھڑے ہوتے زمین پر وہ رومال بچھا کر بیٹھ جاتا کانٹوں چمچوں کے ہوتے ہاتھ سے کھاتا کھا کر اچھی طرح انگلیاں چاٹتا
ٹشو پیپر کو چھوڑ کر ہاتھ دھوتا سچی بات ہے یہ اطوار دیکھ کر سب کو بڑی کراہت ہوتی ہمارے ہاں اک اور سچ پتر رہتے ہیں معاملہ ان سے پوچھنے چلے گیے بقول اس کے میاں حق کا کہنا ہے کھڑے ہو کر کھانے سے شخص کا زمین سے رشتہ نہیں رہتا معدہ متاثرہوتا ہے دل دماغ اعصاب پر برا اثر پڑتا ہے بیٹھ کر کھانے سے جسم کا زمین سے رشتہ رہتا ہے زمین میں سو طرح کی دھاتیں ہیں جو جسم پر اپنے اثر چھوڑتی ہیں چوکڑی مار کر بیٹھنے سے سکون کی کیفیت رہتی ہے
ہر انگلی کو دل ہر لمحہ تازہ خون سپالئی کرتا ہے ہر شخص کے خون کا گروپ الگ ہوتا ہے ہاتھ مالنے گلے ملنے سے سو طرح کے جراثیموں سے مکتی ملتی ہے ہاں زنا کی بات اور ہے زانی تم نے دیکھے ہوں گے ذرا غور کرنا یک زنی اور صد زنی کے اطوار میں فرق کیا ہے حاللی حرامی کی پیدائش کو الگ رکھیے زانی کا بدن زانی کے بول زانی کی شخصیت فطری توزان میں نہیں رہتی ہمارے اس سچ پتر پر
میاں حق کی باتوں کا بڑا اثر ہوا ساری رام لیلی اس نے آ کر ہمیں سنائی سارے ان باتوں پر خوب ہنسے اور ٹھٹھا بنایا وہ رائی بھر بھی نہ ہنسا نہ مسکرایا ہم نے اسے بڑا ڈھیٹ کیا ٹس سے مس نہ ہوا سب یک زبان ہو کر بولے لو اک اور عالقے کے گلے گالواں پڑا میاں حق چل بسا رنگو نے آ کر اچانک یہ خبر سنائی محفل پر سکوت چھا گیا سچ پتر ڈھاڑیں مار کر رونے لگا قانون قدرت ہے سچ باقی رہے گا اسے باقی رہنا ہے کوئی کیا جانے میاں حق عالقے کا گہنا تھا
اب سچ پتر گہنا ہے
کل کو آتی دفع کا ذکر ہے
پچھلی دفعہ کی اہمیت سے مجھ کو انکار نہیں شخص کا وہ اترن ہے یہ اترن ہی شخص کی وضاحت ہے اس پر ناز کیسا غرور کیسا میں کیسا ہوں یہ ہی اصل حقیقیت ہے خدارا مورکھ کے پاس نہ جائیے سچ کم جھوٹ زیادہ بولتا ہے جو ہوتا نہیں کہتا ہے جو ہوتا ہے کہتا نہیں شاہ کا چمچہ ہی نہیں وہ فصلی بٹیرا بھی ہے چوری خور کب حق سچ کی کہتے ہیں شخص کا کاتب نہیں شاہ اور شاہ والوں کی وہ منشی گیری کرتا ہے شخص کے اس اترن کی کتھا شاعروں کے ہاں تالشیے
سچ وہاں مل جائے گا عالمتوں استعاروں میں ہی سہی سب کچھ وہ کہہ گیے ہیں اورنگی عہد کا سچ کہیں اور کب ملتا ہے رحمان بابا کہتا ہے مجنوں کا کوئی کیا حال پوچھے ہر گھر صحرا کا نقشا ہے یہ شاعر ہی تھا جو اشارے میں بہت کچھ کہہ گیا مورکھ کو سچ کہنے کی توفیق کہاں ہاں داستانی ادب ہو کہ مقامی حکائتیں حق ان بھی بھی کہیں ناکہیں لکا چھپا ہوتا ہے خیر جو بھی معاملہ رہا ہو پچھلی دفعہ کا یہ ذکر ہی نہیں یہ کل کو آتی دفع کا ذکر ہے شرق کا اک سیانا
ستاروں کے علم سے آگاہ تھا زمین کا وڈیرا لٹیرا دھونس سے اسے اپنے پاس لے گیا پہلے آنکھیں دکھائیں نہ مانا تو تشدد کیا بڑا ڈھیٹ نکال تو بھوک کی چادر اڑھا دی آخر کب تب تک زبان اس نے کھول ہی دی موت سے ڈرا موت صلہ ٹھہری بھالئی کے بدلے شاباش کم ہی ملتی ہے خیر اس نے تو مجبوری میں آ کر اپنا سینہ کھوال پولے پیریں بتا دیتا تو بھی اس کا یہ ہی حشر ہوتا زمین کے ہر چپے پراس کی حکومت تھی سورج چاند ستارے سارے کے سارے تصرف میں اس کے آ چکے تھے اس حقیقت کے باوجود
کوئی ناکوئی زمین کا سانس لیتا مردہ کچھ ناکچھ کہیں ناکہیں گڑبڑ کر ہی دیتا سرکوبی کے جتن میں گرہ خود سے ہتھیایا سکہ نکل جاتا ہر جاتا سکہ اس کو ادھ مویا کر دیتا کل کو آتی دفع کے ذکر میں اس بات کا باور کرانا ضروری ہے وہ شرقی جان سے گیا کسی شریک کا ہونا وڈیرے کو کیسے گوارہ ہوتا ستاروں کا علم آنے کی دیر تھی کہ حوصلہ اس کا ہمالہ کی بلندی کو بھی پار کر گیا ہر چلتا پھرتا بدیسی اس کو کیڑا مکوڑا لگنے لگا اس کے کسی دیسی کو اس کے کسی عمل پر کیوں اعتراض ہوتا پیٹ بھرے سوتا پیٹ بھرے اٹھتا
جو بولتا اس کے منہ میں زیرہ رکھ دیتا بدیسی کسکتا بھی تو اس کا ستارہ بدل دیتا مشتری سے جب وہ زحل میں آتا وہ جی جان سے جاتا یہ مسکراتا قہقہے لگاتا اسے کوئی پوچھنے واال نہ رہا ہر سو خوف و ہراس کا پہرا ہوا ہر بدیسی کے زحل میں آنے سے قتل و غارت کی دنیا شاد و شاداب تھی اک بے سہارا وچارے سے لڑکے کا بھوک کے سبب میٹر گھوم گیا زحل میں آئے اس کے ستارے کی یہ بددیسی چال تھی کسی میاں میٹھو نے اسے خبر کر دی اس نے فورا سے پہلے اس کا ستارہ بدل دیا جلدی میں اس سے چوک ہو گئی درمیاں زحل کے جانے کی بجائے
ستارہ مشتری میں جا بسا پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے کچھ کا کچھ ہو گیا اس کے اقتدار کا گراف نیچے گرنے لگا وہ بوکھال گیا بوکھالہٹ میں ہر صحیح بھی غلط ہونے لگا پھر کیا تھا آتے کل کی دفع میں وڈیرے کا اپنا ستارہ کہیں گم ہو گیا سب سے پہلی دفعہ میں بھی ایسا ہی ہوا تھا ابلیس کی گڈی چڑھی ہوئی تھی فرشتہ ہو کہ جن اس کے قدم لیتا تھا تکبر زہریال الوا اگلنے لگا اس کے سب کے خالق نے پہال آدم تخلیق کیا اسے ہی نہیں
سب کو سجدہ کا حکم دیا اس کا قیاس تھا کہ آدم زحل ًمیں وجود پایا ہے اس کی یہ ہی بھول تھی غصہ و قہر میں لمحوں کی گنتی بھول گیا آدم تو مشتری کی بہترین ساعت کی تخلیق تھا هللا کی حکمت اگر کھل جائے تو وہ هللا تو نہ ہوا هللا کے آنے کے ان حد رستے ہیں قہر کے رستے سے آئے یا عطا کے رستے سے کون جان سکا ہے آتے کل کی دفع میں شکست آخر ابلیس کے پیرو کا مقدر ٹھہری ویدی کا ویدان تو اپنی ذات میں اٹل ہے دیو ہو کہ جن شخص ہو کہ ملک اس کے سامنے بےبس ہے اس کی ہونی میں کب کسی کا کوئی دخل ہے دجال آئے کہ اس کا پیو آئے
اس کی خدائی نہیں چل سکتی حسین کے پیرو اس کی راہ میں آتے رہیں گے وہ آگ میں پڑنے سے زہر پینے سے سر کٹوانے سے کب ڈرتے ہیں دجال عصر سن لو! تمہیں میں یہ کہے دیتا ہوں تمہارا ستارہ زحل میں آنے کو ہے یہ ہی ہوتا آیا ہے یہ ہی ہوتا رہے گا کہاں ہیں یونانی کہاں ہیں رومی بس ان کی کہانیاں باقی ہیں ہاں وہ سب تکبر کی آگ کا ایندھن بنے جل بھن گئے راکھ تک باقی نہ رہی سکندر ہو کہ قاسم محمود ہو کہ چرچل بابر بھی عیش کوشی کے سامان کرتا رہا کچھ کھا پی گئے کچھ جمع آوری میں مشغول رہے
کسی نے تاج محل تعمیر کیا عورت کے تھلے کی خوشنودی کی خاطر کئی نور محل تعمیر ہوئے کوئی اپنے ساتھ کب کچھ لے گیا نام هللا کا باقی ہے نام هللا کا باقی رہے گا گزری دفعہ کی یہ ہی کتھا تھی آتی دفع کی بھی یہ ہی کتھا ہوگی
کڑکتا نوٹ
اس بات کو آج کوئی نصف صدی ہوئی آج بھی نوششہءصدر ہے سکول کی اسمبلی میں کھڑے تھے بڑے ماسٹر صاحب نے باآواز بلند کہآ کسی کے پاس روپے کا کڑکتا نوٹ ہے خاموشی چھا گئی روپیے کا نوٹ اوپر سے کڑکتا گریبوں کا فیس معافی سکول تھا کسی سیٹھ کی تجوری نہ تھی سو کا نوٹ بھی پوچھتے اس کے غلے میں مقید ملتا آخر چپ ٹوٹی سکول کے مالی کی جیب سے نکل آیا سب کو حیرت ہوئی
مالی کی جیب میں روپیے کا کڑکتا نوٹ میال رام کا سر فخر سے تن گیا فخر اسے کیوں نہ ہوتا اتنوں میں فقط ایک وہ ہی تھا جس کی جیب سے روپیے کا کڑکتا نوٹ نکال تھا خیر چھوڑیں بات ذرا آگے بڑھاتے ہیں بڑے ماسٹر صاحب نے روپیے کا وہ نوٹ سب کو دکھایا پتا نہیں کتنے مونہوں میں پانی آ گیا انہوں نے پوچھا یہ نوٹ کتنے کا ہے سب نے یک زبان ہو کر کہا ایک کا ہے نوٹ انہوں نے دوہرا چوہرا کر دیا پوچھا اب یہ نوٹ کتنے کا ہے سب نے کہا ایک کا ہاں البتہ میلہ رام کے تیور بگڑ گئے
بعد اس کے نوٹ انہوں نے ہاتھوں میں مسل دیا پھر پوچھا یہ نوٹ کتنے کا جواب وہ ہی تھا کہ ایک کا نوٹ کی حالت دیکھ کر میلہ رام کا چہرا زرد پڑ گیا نوٹ انہوں نے اپنے پاؤں سے مسل دیا پوچھا اس نوٹ کی قدر کیا ہے سب نے کہا ایک روپیہ اب کہ میلہ رام کی طبیت خراب ہو گئی بڑے ماسٹر صاحب کی وہ نگاہ میں تھا انہوں نے فورا سے پہلے کڑکتا نوٹ جیب سے نکاال اور میال رام کو تھما دیا رگڑا مسال نوٹ اپنی جیب رکھ لیا کہ وہ اب بھی ایک کا تھا چیز دونوں کی ایک سی آنی تھی
نیا ہو کہ پرانا اس سے کیا فرق پڑتا ہے نوٹ دونوں ایک کے تھے بڑے ماسٹر صاحب بولے اس نوٹ پر کوئی بھی قیامت گزرے اس کی قیمت میں فرق نہ آئے گا ہاں اتنا ضرور ہے یہ ترا مرا نہیں یہ جس کا بھی ہو ایک کا ہے خرچ کرو گے تو ایک کا نہیں رہے گا آگہی جتنی بھی خرچ ہو اس کی قدر کم نہیں ہوتی میں نے سب کو دانش کی بات بتائی قدر مگر اس کی کم نہیں ہوئی تم جتنا بھی اسے خرچ کرو گے یہ جتنی ہے اتنی ہی رہے گی اسے زنگ نہیں آتا یہ پرانی نہیں ہوتی کس نے کہا مت دیکھو
کیا کہا یہ ہی دیکھو صوفی یا بھگت کے منہ سے نکلے گالی ہو گی ‘گالی بدمعاش لفنگے کے منہ نکلے دعا‘ دعا ہو گی پلے سے مری یہ بات باندھ لو علم کی جناب میں فرشتے بھی سجدہ ریز ہوئے اچھا‘ اچھا ہی رہتا ہے کالک سو غازوں کے پیچھے کالک ہی رہتی ہے سقراط ہو کہ منصور وقت کی دھول میں کب چھپ سکے ہیں انہیں مسال گیا کچال گیا قدر ان کی مگر کوئی کم نہ کر سکا وقت انہیں سالم کرتا آیا ہے
سالم کرتا رہے گا
اسالم سب کا ہے
سچی کہانی
بابا شکر هللا بھلے آدمی تھے صوم و صلوتہ کے ہی پابند نہ تھے قول کے کھرے ہاتھ کے بھی کھلے تھے اچھا کہتے اچھا کہنے کو کہتے اچھا کرتے اچھا کرنے کو کہتے لوگوں کا ان کے پاس آنا جانا تھا بساط بھر ان کی خدمت کرتے لینے کے خالف تھے اگر کوئی کچھ لے آتا واپس اسے لے جانا پڑتا جعلی پیروں کی ٹھگی پر افسردہ رہتے کہتے انہیں تو لوگوں کو حضور کی راہ پر چالنا ہے
حضور دیتے تھے ان کا لینا کہیں ثابت نہیں لوگ انہیں پیر سمجھتے تھے یہ الگ بات ہے انہوں نے خود کو کبھی پیر مانا نہیں کوئی پیر کہتا تو برا مناتے پنشن پر گزرا کرتے اماں جی گھر میں بال فیس بچوں کو پڑھاتیں عرصہ سے ان کے ہاں یہ ہی طور چال آتا تھا مجھ ناچیز کو بھی ان کے پاس بیٹھنے کا شرف رہتا ایک بار اک مولوی صاحب ان کے پاس آئے سالم دعا بال کے بیٹھ گئے
توند بس مناسب ہی تھی ہاں شلوار ٹخنوں سے اوپر تھی مونچھوں کا کہیں نام و نشان نہ تھا داڑھی سرسیدی تھی بولے حضرت اک سوال پوچھنا ہے بابا بولے هللا علیم و خبیر ہے معلوم ہوا تو ہی جواب دے سکوں گا ہاں غور تو ہو سکتا ہے مولوی صاحب بولے :کیا حضور کو ّعلم غائب تھا مولوی کے لہجے میں مولوی کی آنکھوں میں شرارت تھی بابا صاحب پہلے تو مسکرائے پھر رنجیدہ ہو گئے بابا صاحب نے کہا :افسوس مولوی صاحب افسوس صد افسوس کرنے کے کام کرتے نہیں ہو
یہ هللا اور اس رسول کا معاملہ ہے اس پر زور آزماتے ہو نہیں ہے تو بھی ‘ہے تو بھی یہ ہمارا معاملہ نہیں ہے ہمیں تو بس اس سے کام ہے آپ کے کہے میں وحی کا اہتمام ہے آپ کا کہا گویا هللا کا کہا ہے مولوی صاحب کیسے ہیں آپ کان دیکھتے نہیں کتے کے پیچھے دوڑے بھاگے جاتے ہو کبھی خود سے بھی سوچ لیا کرو دعوی تمہارا ہو گا کہ پڑھا لکھا ہوں علم قریب سے بھی گزرا ہوتا یہ سوال نہ کرتے کیا حضور کو ّعلم غائب تھا تمہارا کہا ہی تضاد کا شکار ہے
کہتے ہو حضور صیغہ تھا کا استعمال کرتے ہو لفظ حضور حاضر کے لیے ہے مانتے ہو آپ حاضر ہیں تھا کہہ کر نفی کرتے ہو یہ کیا بات ہوئی وہ حاضر ہیں پر کیا کریں ہماری آنکھں انہیں دیکھنے کے قابل نہیں ہیں دیکھنے والے دیکھتے ہیں یوں بھی لے سکتے ہو تاقیامت قرآن باقی ہے آپ حاضر ہیں خیر یہ تضاد تمہارے پوچھنے میں ہے تضاد کی دنیا سے نکلو کہ امت متحد ہو مذاہب غیب پر ایمان رکھنے پر استوار ہیں
هللا تم نے دیکھا‘ نہیں جنت دوزخ جن فرشتے تم دیکھے‘ نہیں حاضر کو دیکھا‘ نہیں قرآن اترتے دیکھا‘ نہیں ان سب پر ہر کلمہ گو کا ایمان ہے تب ہی تو مسلمان ہے حضور پر قرآن اترا بے شک النے والے کو حضور نے دیکھا وہ فرشتہ تھا انسان نہیں تھا بھیجنے والے سے متعلق آگہی ہو گی جو کسی نے نہیں دیکھا حضور نے دیکھا جانا علم غیب کا ہونا اور کس کو کہتے ہیں میں سے گزر کر تو میں آنے واال کب کسی پر کھل سکتا ہے یہ معاملہ حضور کا ہے
وہ جانیں یا ان کا خدا جانے ہمیں اس سے مطلب نہیں اگر ہم مسمان ہیں تو سیدھا چلیں هللا کی مخوق کے کام آئیں الیعنی چکروں میں پڑو گے تو مرو گے خود ڈوبو گے یہ معاملہ تمہارا ہے اوروں کو ڈبو دو گے یہ معاملہ اسالم کا ہے اسالم اس کی اجازت نہیں دیتا اسالم تمہارا ہی نہیں اسالم سب کا ہے
ڈنگ ٹپانی
هللا بخشے تایا نواب لڑکوں کو چوکوں میں کھڑا ہونے سے منع کرتے تھے رشتہ میں وہ کسی کے کچھ نہ تھے بوڑھے تھے حیادار تھے سب انہیں تایا کہتے تھے اچھا دور تھا اچھے لوگ تھے ہر کس کی عزت اپنی عزت جانتے تھے سب کی بھنیں اپنی بھنیں تھیں آہ! وہ مر گئے اچھی روائتیں بھی مر گئیں آنکھوں میں شرم تھی حیا تھی آج کوئی کوئی پرانا بات کرے تو کہتے ہیں: چھوڑو جی دقیانوسی ہے بیبیاں بادوپٹہ یا بابرقعہ گھر سے نکلتی تھیں آج برقعہ تو دور رہا دوپٹہ بھی غائب ہو گیا ہے شریف سے اور باحیا سے رہو تو
کڑیاں مذاق اڑاتی ہیں چھیڑو تو پلے پڑ جاتی ہیں نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن اسی کو تو کہتے ہیں بیدا اور شیدا محلہ کے چوک میں کھڑے تھے الیعنی گپیں ہانک رہے تھے تانک جھانک دیدار بازی کا عمل جاری تھا کوئی ناک چڑھا کر کوئی مسکرا کر گزر جاتی ہاجاں تیلن کا بھی ادھر سے گزر ہوا منہ متھے لگتی تھی شیدا نہ رہ سکا اس نے پرامید پراسلوب فوجی سلیوٹ کیا وہ کھل کھالئی ہنسی اس کی پورے منہ کی تھی وہ گزر گئی بات آئی گئی ہو گئی وہ پھر سے گپوں میں جھٹ گئے اسی شام ہاجاں تیلن بیدے کے گھر آئی
بیدے کی ماں سے کہنے لگی بیدے نے محلہ کے چوک میں مجھے چھڑا ہے مرا ویر ادھر نہ تھا ورنہ پیر پر ڈکرے کر دیتا بیدے کی ماں شکایت سن کر ہکی بکی رہ گئی اس نے غصے سے بیدے کو آواز دی آیآ ماں جی کہہ کر کچھ ہی دیر بعد چھت سے نیچے اتر آیا وہ گڈی اڑا رہا تھا اتنی دیر میں ہاجاں تیلن جا چکی تھی بیدے کی ماں نے بنا کچھ سنے بیدے کی لہہ پہہ کر دی بیدے نے تو اسے چھیڑا ہی نہ تھا یہ گالواں مفت میں اس کے گلے آ پڑا تھا
بیدے کی ماں بےچاری کیا جانے روال چھیڑنے کا تھا ہی نہیں وہ شیدے کی پسند تھی شیدا مگر ہاجاں کی دل آنکھ میں نہ تھا ہاں وہ بیدے کی دیونی تھی بیدے کو کیا مری پڑی جو اس نے نہ چھیڑا پر کیا کریں چھماں بیدے کے دل کی رانی تھی سوہنی تو تھی ہی ہاجاں سے بڑھ کر سیانی تھی یہ بات تو فرشتوں کے لکھے پر ناحق پکڑے جانے والی کی سی تھی کیسی بات ہے یہ شادی کرنے کے ارادے دور تک نہ تھے ہاں مگر دو طرفہ محض ڈنگ ٹپانی تھی
ایک اور اندھیر دیکھیے
ہر چپہ پہ سجدہ ریز ہوا پھر بھی میں کی گرفت میں رہا کرنی اپنی ہی کرنی تھی سجدوں کا محض ڈھونگ رچا تھا آخر کب تک آزمائش میں آ ہی گیا میں سر چڑھ کر بولی تو ڈھول کا بھید کھل گیا پھر کیا تھا مالک نے حضوری دوری میں بدل دی معافی کی طرف کیوں آتا دیکھتے ہی دیکھتے نٹکا اس کا آسمان لگا تھا
خالق اسے جانتا تھا وہ تو خود سے بےبہرہ تھا رنگ روپ شکل بدل بدل کے ملتا رہتا ہے کچھ ہی لمحے ہوئے ہوں گے مجھے مال تھا بےشک بڑا خوش لباس تھا مرے سامنے سو کا اس نے دنبہ خریدا میں دیکھ رہا ہوں اس سے وہ بےخبر تھا میں نے پوچھا دنبہ کتنے کا دو گے ریٹ دنبے کا اس نے ایک سو چالیس بتایا میں نے کہا کچھ تو کم کرو بڑی مشکل سے ایک سو تیس تک آیا اصرار کیا تو کہنے لگا قرآن کی قسم کھا کر کہتا ہؤں ایک سو پچیس مری خرید ہے پانچ منافع لوں گا
میں نے بصد افسوس اس کی طرف دیکھا دنبہ خرید لیا کہ قرآن پر مرا یقین تھا یہ قریبا دو بجے کی بات ہے باریش تھا مسجد سے نکل رہا تھا جلدیوں میں تھا لگتا تھا کہیں کام ڈالے گا سیدھا گودام میں آیا پیسی مرچوں کے دو بورے واں پڑے تھے پیسی اینٹوں کا ایک بورا اس کی راہ دیکھ رہا تھا اپنے ہنر میں صاحب کمال تھا منٹوں سکنٹوں میں یہ پرایا مرچوں کا ہم سفر ہوا اب کہ تین بورے مرچوں کے ٹھہرے رنگ روپ حسب نسب کا جھگڑا ہی ختم ہو گیا مسجد میں اس کے طور ہی کچھ اور تھے
باہر آ کر یکسر بدل گیا حاجی کے روپ میں بھی مال بڑا خوش اخالق شیریں زبان تھا مری بیوی کو شروع سے بیٹی کہتا تھا سر پر ہاتھ پھرتا نگاہ نیچی رکھتا یہ تو بہت بعد میں معلوم ہوا مرے گھر کی ساری رونق اسی کا لطف و احسان تھا مجھ سا ناکارہ وگرنہ کب اس الئق تھا کاش سائنس اتنی ترقی نہ کرتی اور میں بےخبر ہی رہتا عاشاں شکل و صورت میں کتنی معصوم لگتی تھی باطن میں شیطان ہی کا اترن تھی برسوں سے مرا پرموشن کیس اڑا پھسا تھا بڑا بابو کبھی یہ کبھی وہ کاغذ مانگ رہا تھا مرے ساتھ کیا ہو رہا ہے
اکثر سوچتا مرے ساتھ کے ترقی انجوائے کر رہے تھے میں ابھی تک قسمت کو کوس رہا تھا ایک صاحب نے بالتکلف کہا پاگل اصل کاغذ دیتے نہیں کبھی بابو کو کبھی قسمت کو کوستے ہو کس کاغذ کی آپ بات کرتے ہیں میں نے پوچھ ہی لیا بڑا نوٹ جس پر بانی کی تصویر چھپی ہو فائل میں لگاؤ پھر بےچنت ہو جاؤ کام ہو جائے گا سوچ میں پڑ گیا یہ بگال بھگت کتنے روپ دھارتا ہے لو دور کیا جانا ہے ہماری گلی کے موڑ پر ہی وہ رہتا ہے کچہری میں منصف کے روبرو
کالم پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہے جو کہوں گا سچ کہوں گا سچ کے سوا کچھ نہ کہوں گا ان دیکھے سچ کی کھاتا ہے کیا کروں اس کے کس روپ پر یقین کروں مرا ہم جنس بن کر دغا کرتا ہے ایک اور اندھیر دیکھیے انگلی مری اوروں کی جانب تو اٹھ رہی ہے جیسے ہل پر نہایا ہوا ہوں کرتوت یہ ہے کہ زوج کے حضور جب جاتا ہوں میں اس سا وہ مجھ سا ہو جاتا ہے سچ مر جاتا ہے یا پھر سات سمندر پار کر جاتا ہے
یہ حرف
کل طلوع سے پہلے کان جزو جسد شرق تھے ودوا کا نالہ سنتے نہ تھے ہاتھ آہنی ضرور تھے ریکھاؤں میں مگر مغرب کے مانجے کا گوبر بھرا تھا خورشید اہل شرق کا سہی شرق کی صبح شام شرق کی نہیں منہ اپنا زبان اپنی بیان اپنا نہیں چٹے مندر کے دروازے پر یک ٹانگ کھڑا صبح شام ہر آتے دم کے ساتھ شری جھاڑی مہاراج کی جئے ہو
شری جھاڑی مہاراج کی جئے ہو بکے جاتا ہے فاختہ کے گلو میں نامہء منتی باندھ دیا کبوتر جھاڑی مہاراج کی قید میں ہے بازگزشت کٹی آواز تاریخ کا حرف کب بنتی ہے بےدر گھرانے کہرے کی زد میں رہتے ہیں ‘جو ہیں نفرتوں کے بارود میں بھی جشن آزادی مناتے ہیں جو نہیں ہیں جھاڑی مہاراج کی خصیہ سہالئی کا شغل باکمال رکھتے ہیں یہ حرف
مورکھ کی کوئی لکھت نہیں ہیں پھر بھی کل کو شہید وفا ہوں گے شاہد جفا ہوں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منت سے ‘منتی مورکھ سے مراد مورخ
عہد کا در وا ہوا
عہد کا در وا ہوا دور افق میں کم زور کی مقدر ریکھا لہو بن کر پھیل گئی تھی آس کا سورج ڈوب گیا تھا یاس کا سورج سوا نیزے پر آ چکا تھا شانتی کے شبد کھا چکا تھا پھر بھی ماتھے پر چٹا گھر کا ٹکا سجائے شانتی کی ڈگڈگی بجائے جا رہا تھا لومڑ گیڈر جشن سیری منا رہے تھے لگڑبگڑ اپنا حصہ کھا رہے تھے گریب ہڈیوں کا گودا رینگتوں کے کام آ رہا تھا بٹنوں کی دوکان سج گئی تھی
گوریوں کی چڈی ہو کہ پستانوں کے کھوپے ان ہی سے تو بندھے ہوئے تھے آگہی کا در وا ہوا تو گریب گلیوں میں بھوک کی دھند پھیل گئی محل جگمگا اٹھے ہواؤں میں کومل ہونٹوں پر شراب کی بو مچل گئی شاہ اور اہل شاہ پریوں کی کمر میں ہاتھ سجائے تھرک رہے تھے جھوم رہے تھے
اپریل ١٠- ١٩٧٨
مشینی دیو کے خواب
وہ اس کا باپ دادا پردادا بھی اسی پیشہ سے وابستہ تھے شکار کی ٹانگوں پر نام کے ساجی دم پر چمچے گردن پر کڑچھے لگڑبگڑ کے تیور لے کر پل پڑتے تھے اب کہ نخچیر کئی چیتوں بگھیاّڑوں کے دم خم دیکھ چکا تھا تب ہی تو گرفت میں آ کر بھی گردن کے جھٹکے جاری تھے
کرتب ان کا شیوا جھٹکے اس کا حق جگ کے دانے سوچ رہے تھے بھوکے پیاسے صید کا ماس صیاد کے پیٹ کی آنتیں جسم کا پانی کھا پی کر مشینی دیو کے خواب چکنا چور نہ کر دے
اک مفتا سوال
ہزاروں الکھوں کی حیثیت اپنی جگہ دس روپیے کی حیثیت اپنی جگہ رسک میں ایک روپیے کا ضیاع بھری تجوری کا زوال ہے جیت گیے تو چڑھی قسمت ہار گیے تو! تجوری کا یہ سوال ہے جیتنے واال سکون کی نیند لوٹے گا ہار عمر بھر کا مالل ہے کچھ دے کر پایا تو کیا پایا اس جہاں میں کہاں ملتا ایسا دالل ہے سوچ کے دائرہ وسعت لیتے گئے کہ پھر کان میں گونجی یہ آواز میاں صاحب دس روپیے کا سوال ہے پھر ہوش آیا یہاں تو فقط لینا ہے دینے کا کب ذکر ہے
میاں صاحب کی باچھیں کھل گیئں خوش ہو کر بولے پوچھ لو‘ ہو سکتا ہے بتا ہی دوں یہ بعید از قیاس نہیں فقیر کا سوچ حیرت کی نذر ہوا کچھ بھی نہ سمجھ سکا یہ تو خود اک مفتا سوال تھا بڑبڑاتا ہوا واں سے چل دیا میاں صاحب دکھ کے سمندر میں غرق ہوئے کم بخت دس کا چونا لگا گیا
سوال کا جواب
بےشک یہ ان ہونی تھی حیرت ہے کہ ہو گئی کمیوں کی بہو بیٹیاں لمبٹروں کے گلپ کرتی ہیں حاجت بھی بر التی اترن میں جیتی اترن میں مرتی ہیں کس سے کہیں کیا کہیں سر تاج ان کے ڈیرے کی چلم بھرتے ہیں اک مراسی اور لمبڑ کا کیا جوڑ پھر بھی سالم دعا لڑ گئی تعلق کی گڈی چڑھ گئی زمین پر لوگ آسمان پر فرشتے دیکھتے رہ گئے اٹھنا اکٹھا بیٹھنا اکٹھا کھانا اکٹھا پینا اکٹھا
آنا اکٹھا جانا اکٹھا صالح اکٹھی مشورہ اکٹھا اک روز مراسی کے ذہن میں آیا اتنی محبت اتنا پیار ہے کیوں نہ یہ نسلوں تک چلے آتے وقتوں میں چھوٹے بڑے کا فرق مٹ جائے موقع پاتے ہی مراسی نے لمبڑ سے کہا چودھری زندگی کیا خوب گزر رہی ہے محبت شاید ہی ایسی رہی ہو گی کیوں نہ ہم اس کو دوام بحشیں چودھری مسکرایا اور کہا کہو پھر ایسا کیا کریں لوہا گرم دیکھ کر مراسی نے چوٹ لگائی بہن تمہاری جوان ہے اب اس کی شادی ہو جانی چاہیے
چودھری خوش ہوا کہ یار ہے شاید کسی چودھری کا پیغام الیا ہے میں خوب صورت خوب سیرت ہوں بڑی بات یہ کہ تمہارا چھوٹا ویر ہوں اسے سکھی رکھوں گا جب تک زندہ ہوں پیر تمہارے دھو کر پیوں گا چودھری ہکا بکا رہ گیا پھر ہتھے سے اکھڑ گیا ذات کا مراسی اور یہ جرآت گردن سے پکڑا اور خوب وجایا نیچے گرا مراسی پاؤں پر کھڑا ہوا یار مار تو تم نے خواب لیا مرے سوال کا جواب اپنی جگہ رہا چودھری نے چار گولے بالئے اور کہا اس حرامی کی طبعیت صاف کرو
ذات کی کوڑ کرلی چھتیروں سے جپھے سالم دعا کیا ہوئی کہ اوقات ہی بھول گیا خوب پٹا بےہوش ہو گیا جب ہوش میں آیا تو بوال چودھری یار پیار میں اتنی مار کوئی بات نہیں‘ چلتا ہے دوستی میں تمہیں اتنا تو حق ہے کسی کی بھڑاس مجھ پر نکالو ہاں تو مرے سوال کا جواب تم نے دیا نہیں سب نے پوچھا چودھری یہ شوھدا ڈوم کیا کہتا ہے کیا جواب دیتا ہاتھوں کی دی گھانٹیں دانتوں سے کھول رہا تھا تنا سر جھکا کر گھر کو چل دیا چودھری کب کسی کے ہوئے ہیں
یہ اسالم کہتا ہے ‘سب انسان ایک سے ہیں اسالم ابھی حلق سے اترا نہیں حلق سے جب اترے گا سیاہ حبشی غالم‘ صاحب جاہ کا آقا ہو گا بامی متکبر کٹیرے میں کھڑا ہو گا
یہ ہی دنیا ہے
کاروبار کے لیے فجے سے خیرے نے قرض لیا کاروبار تو ہو نہ سکا ہاں سب کچھ معشوقہ کی بلی چڑھ گیا کنگال پھانگ ہوا تو کسی اور کی ڈولی وہ چڑھ گئی یہ کوئی نئی بات نہ تھی ایسا ہوتا آیا ہے قرض کی واپسی کے وعدے کا دن تو آنا ہی تھا آ گیا اور آ کر گزر گیا پھر کئی دن آئے اور گزر گئے وعدوں کی بھرمار ہوئی وعدوں کی بھی اک حد ہوتی ہے انتظار کی گھڑیاں مشکل سہی گزر جاتی ہیں فجا کب تک انتظار کرتا کچے وعدوں پر اعتبار کرتا
فجا خیرے کے تائے کو درمیان میں الیا خیرا اپنی بدحالی کا رونا لے کر بیٹھ گیا اس نے کچھ قرضہ معاف کروا دیا باقی کے لیے وعدہ لے لیا وعدے کا وہ دن بھی آیا اور گزر گیا رقم آئی نہ خیرا آیا نیا وعدہ ہی آ جاتا کہ فجے کو تسلی ہوتی خیرے کو قرضہ یاد ہے ٹال مٹول کا پھر سے سلسلہ شروع ہوا ناچار فجا اک اور معزز کو اس کے دروازے پر لے آیا خیرے نے پہلے سے بڑھ کر اپنی غربت کا ڈرامہ رچایا اس نے بھی رقم میں کچھ چھوٹ دلوا دی جواب میں وعدہ لے لیا وہ صاحب بھی خیرے کو تاکید کرتے
رخصت ہوئے امید بندھی اب کہ وصولی ہو گی ‘مگر کہاں پھر سے آج کل پر بات پڑنے لگی فجا اس ٹال مٹول سے اکتا گیا جو نہیں چاہتا تھا کرنا پڑ گیا خیرے کو اس نے لمبڑ کے ڈیرے پر بال لیا وہاں آ کر وہ لمبڑ کے پاؤں لگ گیا یوں گڑگڑایا جیسے عرصہ سے فاقہ میں ہو لمبڑ کو بھی ترس آ گیا کچھ رعایت اس نے بھی کروا دی لمبڑ نے تاکیدا کہا وعدہ پر رقم دے دینا ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا حضور قسطوں پر سہی رقم واپس ہو رہی ہے بات غلط نہ تھی
ایک تہائی رقم دم توڑ چکی تھی اس کی اس بات پر سب ہنس پڑے اس پر وہ کہنے لگا ہاسے کیوں نہ آئیں رقمیں جو تر رہی ہیں بات اس کی سن کر سب کھل کھال پڑے اپنے اپنے گھر کو چل دیے فجے کا منہ لٹک گیا صبر شکر کے سوا اب کوئی چارہ نہ تھا نیکاں خاوند کے بستر پر بےچنت سوتی ہے خیرا بھی کوئی تھا‘ اسے یاد نہیں خیرا نیکاں کی بےوفائی پر دن رات روتا ہے فجے کو دی رقم کی جدائی کھا گئی ہے یہ ہی دنیا ہے کہیں ہریالی تو کہیں ویرانی ہے مالک کی مرضی ہے
شاید ہی کوئی عیدے کے دست بد سے بچا ہو گا ہر گھر میں اس کی کہانی تھی ہر ڈیرے کا موضع کالم تھا کئی بار جیل گیا وہاں سے اور نکھر کے آیا باپ اس کا شریف اور مشقتی تھا ماں بھی اچھی تھی پنج وقتن تھی چودھری کا بھی ناک میں دم تھا کچھ دوست کھوکھے پر بیٹھے اسی کا ذکر بد کر رہے تھے اچانک انو اک خبر الیا عیدا هللا کو پیارا ہو گیا خبر ہی ایسی تھی کہ سب حیران ہو گئے پھر سب نے کلمہءشکر ادا کیا چنگا بھال تو تھا
ایک دم سے کیا ہوا کہ حق ہو گیا او یار تم غلط سمجھے ہو انو نے زور کا قہقہ لگایا مرا نہیں زندہ ہے پتا نہیں اسے کیا ہوا مکے مدینے ٹر گیا واہ واہ کی صدائیں فلک بوس ہوئیں مالک کی مرضی ہے مٹی کو سونا سونے کو مٹی کر دے کارج کی بات میں دم تھا سب نے اس کی ہاں میں ہاں مالئی سینے میں کہیں خیر کی کرن باقی ہو تو ہی بگڑی سنورتی ہے ورنہ پنج وقتے پٹری سے اتر جاتے ہیں دینے کی بات بھی غلط نہ تھی جو بھی سہی
چائے کی پیالی میں آج خوشیوں کا اک جہاں آباد تھا ہر دل کھال گالب تھا خدا نے جانے کس کی سن لی ٹل گیا عالقے میں اترا جو عذاب تھا
سیاست
کسی چودھری کے سامنے کوئی چوں کرے کب کسی میں اتنا دم رہا ہے کون منصور بنے کون حسین کے قدموں پر چلے پکی پکائی کے سب گاہک ہیں جیدا چودھری کے خالف سرعام بک رہا تھا یہ خبر اٹم بم سے کچھ کم نہ تھی
چودھری بھی سکتے میں آ گیا چپ رہا منہ سے کچھ نہ بوال بچارے دینو کی مفت میں لترول ہو گئی اس نے تو محض خبر سنائی تھی محفل کو پھر چپ لگ گئی یہ اس کا قصور نہیں جوانی کی بھول مرے آگے آئی ہے بڑا خون ہی بولتا ہے ورنہ کوئی کمی اس قابل کہاں ہوتا ہے چودھری نے یہ کر محفل کی چپ کا روزہ توڑا پھر کیا تھا چودھری کا کہا اس ًموڑ سے اس موڑ تک گیا جیدے نے جب یہ بات سنی غصے سے آگ بگوال ہو گیا
سیدھا گھر آیا ماں کا سر تن سے جدا کیا خود رسی سے لٹک مرا چودھری کو کچھ بھی نہ کرنا پڑا سیاست سے رستہ صاف ہو گیا
کچھ نظمیں اور چوالیس منظومے مقصود حسنی ابوزر برقی کتب خانہ نومبر ٢٠١٦