1
ااچھ نہیں ہوت منظومہ مقصود حسنی ہ ں میں موت ن ں میں بہن ک گھر اجڑت تھ برسوں ک بن کھیل بگڑت تھ چپ میں ک سکھ تھ چ ر سو بچھ دکھ تھ
2
زندگی کی تھی اک وب ل تھ بھ گ نک نے کو نہ کوئی رستہ بچ تھ پہیہ زندگی ک پٹڑی سے اتر رہ تھ زیست ک پ ؤں بےبصر دلدل میں گر رہ تھ بےچ رگی ک نی دانت نکل رہ تھ بہنوئی کی آنکھوں میں سکوں کی ہری لی تھی آتی ہر گھڑی اس کے لیے کرم والی تھی بہن کی آنکھ سے چپ کے آنسو گرتے م ں کی آنکھوں کے حسیں سپنے بےکسی کے قدموں میں بکھرتے کی کرت کدھر کو ج ت خود کو بچ ت کہ م ں کے آنسوؤں کے صدقے واری ج ت زہر ک پی لہ مرے رو بہ رو تھ تذبذ کی ص ی پہ لٹک کے
3
شنی اپنے ک رے میں س ل ہوا پیت تو یہ خود کشی ہوتی ٹھکرات تو خود پرستی ہوتی پیچھے ہٹوں کہ آگے بڑھوں ہ ں نہ کے پل پر بےکسی کی میت اٹھ ئے کھڑا تھ آگے پیچھے اندھیرا منہ پھ ڑے فیص ے کی راہ دیکھ رہ تھ پھر میں آگے بڑھ اور زہر ک پی لہ اٹھ لی خودکشی حرا سہی کی کرت بہن کی بےکسی م ں کے آنسو بےوق ر کیوں کرت اب یس قہقے لگ رہ تھ نہ پیت ت بھی اسی کی جیت تھی
4
پھر بھی وہ قہقے لگ ت دوزخی بال نے مرے گھر قد رکھ گھر ک ہر ذرہ لرز لرز گی میں بھی موت کے گھ ٹ اتر گی جسے ت دیکھ رہے ہو ہنستی بستی زندگی ک بےک ن الشہ ہے پہ ے دو ٹھک نے لگ آئی تھی الشے کو کیوں ٹھک نے لگ تی الشے ک م س کھ چکی ہے ہڈی ں مگر ب قی ہیں بہن الشے کو دیکھ کر روتی ہے ہڈی ں مگر کی تی گ کریں آنسوؤں کے قدموں میں کی دھریں کوئی اس کو ج کر بت ئے اللسہ سرحدوں کی ک چیز ہے
5
جہ ں ت کھڑی ہو وہ تو فقط اس کی دہ یز ہے کوئی ح دثہ ہی تمہیں خ وند کی اللسہ کے جہن سے ب ہر الئے گ پھر تمہ را ہر آنسو پچھت وے کی اگنی میں ج ے گ ت تک ہڈی ں بھی یہ دوزخ کی رانی کھ چکی ہوگی راکھ ہو گی نہ کوئی رفتہ کی چنگ ری ہو گی تو اللسہ کی آری دکھ ک دری بہہ رہ ہو گ ہر لمحہ تمہیں کہہ رہ ہو گ ح کی بھی کبھی سوچ لی کرو لقموں ک د بھرن اچھ نہیں ہوت اچھ نہیں ہوت ابوزر برقی کت خ نہ ٧