یمین مانیے
ممصود حسنی ابوزر برلی کتب خانہ جون 2016 مندرجات یہ ہی ٹھیک رہے گا اس سے بڑھ کر کوئی بتائے میں کیا کروں دیکھتے جاؤ‘ سوچتے جاؤ یمین مانیے
یہ ہی ٹھیک رہے گا افسانہ اسے اپنے بےمثل اور یکتائے عالم ہونے کا شک گزرا۔ نر شیر ببر ہونے کے شک سے‘ اس کی رگ وپے سے تکبر کے آتش فشانی شعلے‘ بلند ہونے لگے۔ اس امر کے اعالن کے لیے‘ تکبر کی کامل شکتی کے ساتھ دھاڑا۔ اس منہ سے دھاڑ تو نہ سکا‘ ہاں البتہ اس کے منہ سے‘ صور
اسرافیل سے مماثل غرغراہٹ ضرور نکل گئی کہ مخلوق ارضی ڈر اور خوف سے لرز لرز گئی۔ اس سے‘ اس کی انا کو تسکین ملی اور انا نے اس کی میں کو مزید شکتی دان کی۔ پھر کیا تھا‘ جسم و جان تکبر کی مستی کے کھڈ میں جا گرے۔ ہاں یہ ہوش رہا‘ کہ کہاں دولتی چالنا ہے۔ اس نے دور کے ایک عاللے میں پوری شان سے دولتی چالئی کہ وہ عاللہ مٹ گیا۔ چھوٹے بڑے کم زور اور طالت ور نر مادہ دم توڑ گیے۔ کچھار گھونسلے گھروندے زمین بوس ہو گیے۔ سرشاری میسر نہ آ سکی۔ سرشاری کے لیے دوبارہ سے‘ بال غرارئے‘ ایک اور دولتی جڑ دی۔ ایک اور عاللہ خاک و خون میں نہا گیا۔ بھوک اور سیری‘ حددوں کی چیزیں نہیں ہیں۔ توکل سیری کی من بھاتی کھا جا ہے‘ جب کہ بھوک‘ مزید کی گرفت میں رہتی ہے۔ اس نے لوٹ مار اور لتل وغارت کا بازار گرم کر دیا۔ اس نے ہر تکڑے کے‘ ناصرف ناخن کٹوا دیے بل کہ اپاہج کرکے‘ عزت وشرف سے سرفراز کیا۔ اس کا کھا کر‘ ہڈی اس کے سامنے پھینک دیتا تا کہ وہ مصروف رہے اور اس کی دیا کے‘ گن گاتا رہے۔ ہاں البتہ گاہے
بگاہے بھونکتا‘ ٹونکتا اور غراتا رہتا تا کہ سرکشی جنم ہی نہ لے اور کسی کو‘ میں کا دورہ نہ پڑے۔ ہڈی اور حفظ ماتمدم کے لیے‘ عاللے کے سبھی لگڑبگڑ اس کے سآتھ ہو لیے تھے۔ انہیں پیٹ اور جی بھر ہڈیاں میسر آ رہی تھیں۔ کسی کی خوارک بند کر دیتا۔ کسی کی خوراک کی ترسیل کے رستے‘ بند کر دیتا۔ کسی پر جھپٹ پڑتا۔ خبرگیری کے توتے‘ اسے لمحہ لمحہ کی‘ اطراف کی خبریں پہنچاتے رہتے تھے۔ توتے کبھی کسی کے سگے نہیں رہے۔ وفاداری ان کی فطرت میں داخل نہیں۔ وفاداری ان کی فطرت میں ہوتی تو توتے کیوں کہالتے۔ توتے ہمہ ولت چوری کے متمنی رہتے ہیں۔ وفاداری‘ چوری آمد کے ساتھ مشروط ہوتی ہے۔ آمد لوٹ مار سے وابستہ ہے۔ لتل و غارت سے گدھ بھی البھ اٹھاتے ہیں۔ جنگلی حیات میں‘ حك سچ کی کوئی معنویت نہیں ہوتی۔ گدھوں کی آواز‘ کوئل کی آواز سے بڑھ کر سریلی محسوس ہوتی ہے۔ آتا کل‘ گزرے کل کو‘ ان آوازوں کے حوالہ سے پہچانتا ہے۔
کوئل کی آواز‘ سات پردوں کے پیچھے جا چکی ہوتی ہے۔ ڈھول کے سامنے ہر ساز کی آواز‘ اپنے وجود سے عاری ہو جاتی ہے۔ چار پرانے بیٹھے ہوئے تھے۔ عصری حاالت و معامالت پر گفت گو کر رہے تھے۔ کم زوروں کی حالت زار کا رونا رو رہے تھے۔ سب مایوس اور بےبس ہو چکے تھے۔ ان میں سے ایک بوال :یار اپنے لیڈر سے کیا امید باندھیں‘ وہ تو اپاہج گیڈر ہے۔ شیر کا ٹائیٹل تو اعزازی ہے۔ بولیں گے تو جوتے کھائیں گے۔ دوسرا بوال :جو چل رہا ہے چلنے دیں‘ جنگل میں جنگل کا لانون چلتا ہے۔ تیسرا بوال :کچھ تبدلی آئے گی۔ چوتھے نے کہا :ہاں یار‘ کچھ تو تبدیلی آئے گی۔ پہال :سب ایک جگہ جمع ہو کر دعا تو کر سکتے ہیں۔ اگر اسی پتا چل گیا تو دولتی سے کیسے بچیں گے دوسرا ہاں یہ تو ہے
پہال تو پھر کیا کریں۔ چوتھے :گھروں میں بیٹھ کر دعا کر سکتے ہیں۔ پہال :یہ ٹھیک رہے گا۔ تیسرا :مخبری ہو گئی تو پہال :ہاں بعید از لیاس نہیں دوسرا :کچھ تو کرنا پڑے گا۔ دوسرا :کرنا کیا ہے‘ جو چل رہا ہے‘ چلنے دیں۔ چوتھا :ہاں یہ ہی درست رہے گا۔ پھر سب یک زبان ہو کر بولے :ہاں ہاں یہ ہی ٹھیک رہے گا ،یہ ہی ٹھیک رہے گا اور وہ چاروں اپنے اپنے گھروں کو چل دیے۔
اس سے بڑھ کر
اس کی ہر طور کی مسکراہٹ میں دم تھا۔ ویسے زیادہ تر سات لسم کی پھلجڑیاں‘ اس کے لب و رخسار پر‘ نمایاں ہوتی تھیں۔ غصیلی مسکراہٹ :اس کی اس مسکراہٹ سے‘ سب ہی گھبراتے تھے۔ سامنے کھڑے شخص کی‘ یہ مسکراہٹ جڑ پٹ کر رکھ دیتی۔ مطلب بری میں‘ یہ مسکراہٹ بڑی کارگر ثابت ہوتی۔ خوف ڈر ایک طرف رکھیے‘ اس غضب ناکی میں‘ بال کی چاشنی تھی۔ شاہوں کی بیگمات دریا میں بیڑا غرق ہوتے دیکھ کر‘ سرشاری سی محسوس کرتی تھیں۔ اسی طرح کسی کی اس مسکراہٹ کے حوالہ سے‘ بوکی گرتے دیکھ کر بڑا ہی لطف آتا۔ طنزیہ مسکراہٹ :یہ مسکراہٹ روزن پشت سے پسینے جاری کر دیتی۔ مخاطب آنکھ مالنے کے لابل نہ رہتا۔ پوشیدہ مسکراہٹ :یہ ظاہر تو نہ ہوتی‘ لیکن اس کی آنکھوں میں ابھرتی ضرور تھی۔ اس کے بعد سمجھو‘ اس بندے کا ستیاناس مارا گیا۔ شاباشی مسکراہٹ :شاباش دینے میں بڑی بخیل تھی‘ لیکن اس کی شاباشی مسکراہٹ میں لیامت پوشیدہ ہوتی۔
رومان پرور مسکراہٹ :اس مسکراہٹ کا تعلك دینے سے باال ہوتا‘ لیکن شکوک کے داروازے ضرور کھل جاتے۔ خوشی کی مسکراہٹ :اس مسکراہٹ میں سامنے والے دانت نمایاں ہو جاتے‘ دیکھنے واال مسرور ہو جاتا۔ مطلبی مسکراہٹ :دیکھنے والے کو تذبذب میں ڈال دیتی۔ تجربہ کار ہی سمجھ پاتا‘ کہ گوہر ممصود نہیں مل پائے گا‘ بل کہ دینا اس کے ممدر میں لکھا جا چکا ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ بال جھڑے‘ سالمت گھر لوٹ جائے۔ اس کی ان مول مسکراہٹوں کے ساتھ‘ ان گنت لصے وابستہ تھے۔ کاش آج پنڈت رتن ناتھ سرشار زندہ ہوتے تو ایک اور فسانہءآزاد تخلیك ضرور پا جاتا۔ ایسی بڑی تخلیك‘ مجھ سے لوگوں کے بس کا روگ نہیں۔ شاید اس لسم کی کمیاں ہمیشہ سے محسوس کی جاتی رہی ہیں۔ ایسی چیزیں ہی پرانی یادوں کو تازا کرتی رہتی ہیں۔ یہ خاتون‘ الہور کی ایک یونی ورسٹی سے ایم فل کر رہی تھیں۔ انہیں نگران کھاؤ پیؤ اور جیب ہولی کراؤ ملے۔ آتا
جاتا تو خیر کچھ بھی نہیں تھا۔ خاتون کا معاملہ بھی بالکل یہ ہی تھا۔ استاد تیس فی صد‘ جب کہ شاگرد سو فی صد نمل پر یمین رکھتی تھی۔ خاتون انہیں شیشے میں نہ اتار سکی تھی‘ ہاں البتہ وہ اس کی مسکانوں سے‘ لطف اندوز ضرور ہوتے اور معمولی نوعیت کا ٹھرک بھی جھاڑ لیتے۔ شاید وہ اسی لابل تھے۔ چلو جو بھی سہی‘ اطراف میں باذولی موجود تھی۔ سنا ہے لمبے آدمی کی عمل گٹوں میں اور عورت کی عمل‘ کھتی میں ہوتی ہے۔ وہ لد کی لمبی تھی‘ لیکن اس کے گٹوں میں عمل نہ تھی۔ کتھی میں رومال کی سی کسی چیز کی گرہ رکھتی تھی‘ لہذا وہاں عمل کے ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں نے بڑا غور کیا‘ ہر بیس پچیس منٹ کے بعد گیس چھوڑتی کہ سانس لینا بھی دوبھر ہو جاتا۔ سانس تو ایک طرف دماغ میں کجھلی سی ہونے لگتی ہے۔ اچھا کرتی ہے‘ جو ایسی گٹھیا عمل کو نکال باہر کرتی ہے۔ ایسی عمل سے تو صبر بھال۔ پشتی پہاڑ‘ لطعی نارمل تھے۔ بدزیبا نہ تھے۔ کتنا مغزماری
کر لو‘ تھوڑی ہی دیر میں بات بھول جاتی۔ تب جا کر مجھے اندازا ہوا‘ کہ موصوفہ کی عمل روزن پشت میں ہے۔ جب عمل کا بوجھ محسوس کرتی یا محسوس ہوتا‘ فورا سے پہلے‘ ایک جھٹکے سے نکال باہر کرتی۔ خیر وہ تو ایک کم زور عورت ہے۔ مسکرا کر‘ عمل کے دشمنوں کی عمل پر پردے ڈال سکتی ہے۔ مجھے آج احساس ہوا‘ کہ میں بھی عمل سے پرے پرے ہوں۔ سودا لینے جاتا ہوں تو‘ انتہائی ماڑے کپڑے پہن کر جاتا ہوں تا کہ دوکان دار کو میری حالت زار پر ترس آ جائے اور وہ لیمت میں رعائت سے کام لے۔ آج کوئی چیز لینے‘ ذرا ہٹ کر چال گیا۔ میں نے سودا لیا اور دوکان دار سے رعایت کرنے کی گزارش کی۔ اس نے جوابا کہا :میاں جی فکر نہ کریں‘ ہم بندہ کوبندہ دیکھ کر‘ لیمت طلب کرتے ہیں۔ آپ کے کہنے سے پہلے رعایت کر دی ہے‘ فکر نہ کریں۔ اس کے اس جملے سے یہ معلوم ہوا‘ کاروباری رویے بھی دو طرح کے ہیں اور کپڑے اس میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
کو مڑے ہوئے کے لیے سابمہ استعمال کرتے ہیں۔ کوبندہ‘ مڑا ہوا بندہ‘ یعنی ٹیڑھا بندہ۔ میں نے گھر آ کر غور کیا‘ کہ میں ٹیڑھا شخص ہوں‘ تو اس میں کوئی شک نہ پایا۔ بالکل مرا ہوا نہیں ہوں‘ چند سکوں کی بچت کے لیے‘ بہروپ اختیار کرتا ہوں۔ یہ ٹیڑھاپن نہیں تو پھر اور کیا ہے۔ میں تو کچھ بھی نہیں ہوں‘ یہاں سب کچھ ٹیڑھا ہے‘ تب ہی تو ذلت و خواری ہمارا ممدر بن گئی ہے۔ ہم ذلت برداشت کر سکتے ہیں‘ لیکن پیٹ سے سوچنا بند نہیں کر سکتے۔ ممتدرہ طبمے تو ایسا کرتے آئے بیں‘ صاحبان کتاب و للم بھی‘ اسی راہ کے راہی چلے آ رہے ہیں۔ سچ اور حك‘ ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ مذہبی طبمے اختالفی طبموں کو‘ کافر لرار دینے پر کمر بستہ ہیں۔ مورکھ بادشاہوں کو‘ نبی لریب لرار دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ ہی حالت‘ شاہی شعرا کی رہی ہے۔ بادشاہوں اور ایسے شاعروں کے بارے منفی رائے دینے والے‘ غلط العمیدہ سمجھے جاتے ہیں۔ گویا سچ کہنا ہی جرم چال آتا ہے۔ اس سے بڑھ کر بھال اور اندھیر کیا ہو سکتا ہے۔
...............
کوئی بتائے میں کیا کروں جب کبھی مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں مسلمان ہوں‘ میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ دمحم ان پر ان حد درود و سالم میرے نبی اور راہ بر ہیں اور علی شیر خدا‘ میرے امام ہیں۔ ابوزر غفاری‘ سلمان فارسی اور بالل جیسے میرے اسالف ہیں۔ ابوبکر صدیك‘ عمر فاروق‘ عثمان غنی اور امیر معاویہ مسلمانوں کے چار خلیفہ ہیں۔ عمر بن عبدالعزیز جیسے عظیم حکم ران تھے۔ حسین ابن علی نے‘ جو اسالم اور بنی نوع انسان کے لیے لربانی دی‘ اس کی مثال نہیں ملتی۔ اصحابہ کرام نے دنیا کے چپے چپے پر‘ سفری صعوبتیں اٹھا اسالم کا پیغام پنچایا۔ کچھ کا یزید امام اور جنتی خلیفہ ہے‘ یہاں ان کا ذکر بد ممصود و مطلوب نہیں۔
دوسرے ہی لمحے‘ اپنے کردار پر نظر جاتی ہے‘ تو شرمندگی کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے۔ میں مسلمان ہوں۔۔۔۔۔۔ میں‘ اس سے بڑھ کر مذاق بھال اور کون سا ہو سکتا ہے۔ کھلے بندوں رشوت لیتا ہوں‘ مالوٹ کرتا ہوں‘ امانت خوری میرا اصول ہے۔ جھوٹ تو میرے روزمرہ میں داخل ہے۔ ناجائز اور ناجائز طریمے سے‘ التدار حاصل کرکے‘ انی مچاتا ہوں۔ اس پر مجھے کبھی شرمندگی نہیں ہوئی۔ بکریاں اڑانا پھنسانا اور ان سے موج مستی‘ میرے معمول میں داخل ہے۔ مائی باپ کو ایڑ پر رکھتا ہوں۔ ان کے بڑھاپے کی خوب مٹی پلید کرتا ہوں۔ جانتا ہوں‘ عمرہ یا حج کرکے سب کچھ بخشوا لوں گا۔ لاتلوں لٹیروں کی نفی کرتا ہوں‘ تو کافر۔ مروجہ اسالم میں اکبر بادشاہ کو بھی مسلمان سمجھا جاتا ہے حاالں کہ اس کا اپنا مذہب‘ یعنی دین الہی تھا۔ اورنگ زیب میرا نبی لریب بادشاہ ہے۔ البال کے متعلك کچھ کہتا ہوں‘ تو کافر۔ کمال اے یار‘ خطبہ الہ آباد میں کہاں پاکستان کا ذکر ہے۔ ٹی ایس ایلٹ میرا پھوپھڑ ہے‘ اصغر سودائی کے اس نعرے کو بھول چکا ہوں
پاکستان کا مطلب کیا ال الہ اال ہللا میں صرف خودی کو جانتا ہوں خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تمدیر سے پہلے خدا خود بندے سے پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے خدا گویا اکبر بادشاہ ہے۔ وہ خدا جو تخلیك کار ہے‘ سلیز کے یوٹرس میں‘ کوڈ طے کر رہا ہے اسے کچھ پتا نہیں‘ کہ میرے بندے کا کتنا بنتا ہے اور اسے کب دینا ہے۔ البال نے تو بین االلوامی ریاست کا نظریہ دیا تھا‘ اس نے کب اور کہاں حدوں کی ریاست کا نظریہ دیا ہے۔ اس سے متعلك سچ کہتا ہوں‘ تو کافر۔ میں نہیں جانتا کہ میں کس لسم کا مسلمان ہوں۔ فمرا کو‘ توبہ توبہ ہللا نہیں مانتا۔ یہ اچھے لوگ تھے‘ نیکی اور بھالئی کا درس دیتے رہے۔ توکل ان کا شعار تھا۔ بھالئی کی یاد تازہ کرنے کے لیے‘ ان کے ہاں چال جاتا ہوں‘ تو مشرک کے الماب سے ملموب ہوتا ہوں۔ کیا اچھائی کو ماننا اور اس کی عزت کرنا غلط ہے۔
حسینی رستے کو اپناتا ہوں تو کافر۔ بزرگوں کو کارساز اور حاجت روا نہیں مانتا تو زندیك۔ درود پڑھتا ہوں تو کافر‘ نہیں پڑھتا تو کافر۔ مسلمانی میرے لیے ایک پچیدہ معمہ بن گئی ہے۔ سوچتا ہوں‘ کیا کروں اور کدھر جاؤں۔ اسالم چھوڑ نہیں سکتا‘ کہ یہ ہی سچا رستہ ہے۔ اسالم ایک سادہ اور دوٹوک دین ہے۔ میں اسالم سے محبت کرتا ہوں‘ میں اسے چھوڑ نہیں سکتا۔ خدا کے لیے کوئی بتائے‘ کیا کروں کہ میں مسلمان ہو جاؤں‘ ویسا ہی جیسے ابوزر غفاری‘ سلمان فارسی یا بالل تھے۔ اس کرم کے لیے‘ ہمیشہ بتانے والے کا احسان مند رہوں گا۔ ..............
دیکھتے جاؤ‘ سوچتے جاؤ
زندگی ایسی سادہ اور آسان چیز نہیں‘ اس کے اطوار کو سمجھنا بڑا ہی دلیك کام ہے۔ ہر لمحہ‘ اس کا چہرا ہی بدل کر رکھ دیتا ہے۔ تھوڑی دیر پہلے‘ آدمی مال تھا‘ پتا چال چل بسا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ چنگا بھال تو تھا‘ یہ اچانک اسے کیا ہو گیا۔ اسی طرح اس کے انداز رویے‘ ایک ہی ولت میں‘ مختلف ہوتے ہیں۔ ایک رو رہا ہے‘ تو دوسرا ہنس رہا ہے۔ ہنسے والے کو رونے والے پر اور رونے والے کو ہنسے والے پر‘ اعتراض کی اجازت نہیں۔ اگر اعتراض کریں گے‘ تو فساد کا دروازہ کھل جائے گا۔ یہ فساد‘ لمحوں کا بھی ہو سکتا ہے‘ اس کے اثرات نسلوں تک بھی جا سکتے ہیں۔ اس نے پوچھا :کیسے ہو ہللا کے فضل سے ٹھیک ہو اس نے سر ہالیا اور منہ میں کچھ بڑبڑاتا ہوا چال گیا۔
وہ اس بڑبڑاہٹ کا مفہوم نہ سمجھ سکا۔ اس کا مفہوم یہ تھا‘ کہ اب دیکھتا ہوں‘ ٹھیک ہو یا نہیں۔ تھوڑی ہی دیر میں‘ پلس آ گئی اور اسے پکڑ کر لے گئی۔ پھر وہ تھانے پہنچا اور پوچھا کیسے ہو۔ اس نے جوابا کہا :مصیبت میں ہوں۔ اب آئے نا اصل ٹھکانے پر جی کیا کہا کچھ نہیں فکر نہ کرو‘ ضمانت کروا لیتے ہیں۔ تم جانتے ہو‘ خرچا پانی تو لگتا ہی ہے۔ میں گریب آدمی ہوں‘ خرچا پانی کدھر سے آئے گا۔ اپنی اولات میں رہتے‘ غلط کام کیوں کرتے ہو۔ مجھے نہیں پتا‘ میں نے کیا کیا ہے۔ سارے مجرم اس طرح ہی کہتے ہیں۔ تم غریب لوگ بھی بڑے عجیب ہوتے ہو۔ کہا تھا‘ بہن کو ہمارے ہاں کام کے لیے بھیج دیا کرو۔ تمہاری غیرت نے گوارا نہ کیا۔ اب بھگتو۔
آیا بڑا غیرت مند یہ ہی زندگی ہے۔ متضاد رویے متوازی چل رہے ہیں۔ یہ بات آج ہی سے تعلك نہیں کرتی‘ زندگی شروع ہی سے ایسی ہے۔ پوچھنے والے‘ خود اسی مرض میں مبتال ہیں۔ ان حاالت میں بھی لوگ زندگی کر رہے ہیں‘ کرتے رہیں گے۔ اس نے پی سی ایس میں کامیابی حاصل کی۔ ہنسنے کی بجائے‘ اس کے آنسو نکل گئے۔ بیٹا مرا‘ دھاڑیں مار کر رونے کی بجائے‘ چپ لگ گئی اور سب کی طرف‘ بٹر بٹر دیکھنے لگا۔ باپ مرا‘ ذہنی توازن ہی کھو بیٹھا۔ بیٹی پیدا ہوئی‘ بیوی کو طالق دے دی‘ جیسے تخلیك کار اس کی بیوی تھی۔ خاوند مرا بڑا ہی صدمہ ہوا۔ پچاس عورتوں میں اس لسم
کے بیانات جاری کرنے لگی۔ ہائے میں مر گئی۔ زندگی بھر دکھ دیتے رہے۔ ایک لمحہ بھی سکھ نہ دے سکے۔ زندگی بھر غیروں کی محتاج رہی۔ تم پر رہتی تو گھر ویران رہتا۔ اب مر کر دکھ دے گئے ہو کہ غیروں کی ہی محتاج رہوں۔ نشہ پانی سے ہمیشہ منع کرتی رہی‘ تم نے میری ایک نہ سنی‘ اگر مان جاتے تو یہ دن تو نہ دیکھنا پڑتا۔ جوئے نے تمہیں برباد کیا‘ پیسے بچاتے تو کفن دفن کا سامان ہی لے آتی۔ آج میرے پاس پھوٹی کوڑی تک نہیں۔ میرے نصیب ہی سڑ گئے‘ جو تایا نے کچھ نہ دیکھا اور رشتہ دے دیا۔ ہائے میں مر گئی۔۔۔۔۔۔۔۔ لوکو میں لٹی گئی۔ یہاں جسے دیکھو‘ امریکہ کے خالف باتیں کر رہا ہے۔ اگر کوئی پیشاب سے بھی تلک پڑتا ہے‘ الزام امریکہ پر رکھتا ہے۔ اسے اس میں امریکہ کی‘ کسی ناکسی سطع پر‘ سازش محسوس ہوتی ہے۔ دوسری طرف اگر امریکہ کا ویزا عام ہو جائے تو میرے سوا‘ میں اس لیے نہیں کہ
بیمار اور بوڑھا ہو چکا ہوں‘ امریکہ کا ویزا حاصل کرنے کے لیے‘ مرنے مارنے پر اتر آئے گا۔ شاید اس لیے کہ کالیاں یا تمریبا کالیاں‘ دیکھ دیکھ کر‘ صاحب اخگر اکتا سے گئے ہیں۔ سنا ہے‘ وہاں لکیر کی فمیری نہیں کرنا پڑتی‘ بل کہ لکیر مضبوط صاحبان اخگر کی فمیری کرتی ہیں۔ ڈالر کماؤ چٹیاں اڑاؤ‘ نہ کوئی روک نہ کوئی ٹوک۔ مذہبی مین کا رویہ بھی‘ معاشرت سے الگ تر نہیں رہا۔ ایک مذہبی مین سے کسی بی بی نے کہا :مجھے کسی سے پیار ہو گیا ہے۔ جوابا مذہبی مین نے کہا :وہ کون جہنمی ہے۔ بی بی نے جواب دیا :آپ سے۔ مذہبی مین فورا بول اٹھا :چل جھوٹی۔ اسی لماش کا ایک اور لطیفہ معروف ہے۔ مذہبی مین بیٹھے ہوئے تھے۔ طے ہوا عورت کو دیکھنا بھی نہیں اور اس کی بات بھی نہیں ہو گی۔ کچھ ہی دیر بعد ایک مذہبی مین بوال لڑکی۔۔۔۔۔
سب ایک آواز میں پکار اٹھے کہاں ہے‘ کہاں ہے۔ مذہبی مین کے متعلك ایک اور کہاوت مشہور ہے۔ کسی بی بی نے پوچھا :اگر میں وزیر اعظم سے پیار کرنے لگوں تو سیدھی دوزخ میں جاؤ گی۔ وزیر اعلی سے پیار کروں تو تو بھی دوزخ ٹھکانہ ہو گا۔ اگر آپ سے بڑی سیانی ہو‘ جنت جانے کا پروگرام ہے۔ چھوٹے والی روزانہ طعنہ دیتی تھی‘ نیچے سے کھاتا ہے۔ میں نے تنگ آ کر‘ دس اکتوبر ٢٠١٠سے روٹی کھانا ہی چھوڑ دی۔ اب سوچتا ہوں‘ کتنی بڑی غلطی کی تھی۔ آدم علیہ اسالم نے‘ گندم کا دانہ کھایا‘ جنت بدر ہوئے۔ اگر میں روٹی نہ چھوڑتا تو شاید‘ میں بھی جہنم بدر ہو جاتا۔ روٹی بھی تو گندم سے ہی تیار ہوتی ہے۔ اگر گندم کا دانہ لکیر کا
استعارہ ہے‘ تو یہ الگ بات ہے۔ اب ہللا ہی جانتا ہے‘ وہ دانہ گندم کا تھا یا اس سے مراد لکیر تھی۔ طالت ہی‘ زندگی کا سب سے بڑا سچ رہا ہے۔ ابراہیم لودھی‘ کیسا تھا‘ کوئی نہیں جانتا۔ اس کا اور اس کی ماں کے ساتھ بابر نے کیا کیا‘ کوئی نہیں جانتا۔ بابر تاریخ میں ہیرو ہے۔ لوگ فخر سے‘ اپنے بچوں کے نام بابر رکھتے ہیں۔ بابر کا لول ہے :بابر عیش کوش کہ دنیا دوبارہ نیست۔ بابر نے خون سے گلی بازار رنگ دئے‘ کوئی نہیں جانتا‘ بابر فاتح ٹھہرا‘ اس لیے ہمارا ہیرو ہے۔ ہمایوں کے بھائی سازشیں کرتے رہے‘ وہ معاف کرتا رہا۔ پوتے نے‘ تخت و تاج کے لیے بھائی تو بھائی‘ ان کی االدیں بھی ذبح کر دیں۔ اپنی الڈلی بیگم کا ممبرہ تاج محل‘ بنایا تاریخ میں زندہ ہے اور بڑا نام رکھتا ہے۔ تاریخ کے نبی لریب بادشاہ اورنگ زیب نے‘ بھائی تو
بھائی‘ باپ کو بھی نہ بخشا۔ بہن جس نے مخبری کرکے‘ اس کی جان بچائی تھی‘ کو بھی لید کیے رکھا‘ کیوں‘ کوئی نہیں جانتا۔ تاریخ ہی نہ لکھنے دی۔ خانی خاں نے بھی چوری چھپے لکھی۔ ہندوستان مسلم ریاست نہ تھی۔ مسلمان محض چند فی صد تھے۔ اسالم کا ماما بن کر‘ سرمد جیسے بندہءخدا کو شہید کر دیا۔ اصل معاملہ کوئی اور تھا‘ جو آج تک کھل نہیں سکا۔ سوال پیدا ہوتا ہے‘ بہن کو کیوں نظر بند کیے رکھا۔ وہ لاضی اور جالد نہ تھا‘ جو خود ہی فیصلہ کیا اور سرمد کو اپنے ہاتھوں سے‘ لتل کر دیا۔ ممتدرہ لوت تھا‘ تاریخ میں زندہ ہے۔ حسین ابن علی مفتوح تھے‘ زندہ ہیں اور اپنے الکھوں دیوانے رکھتے ہیں۔ یزید ابن معاویہ کو جنتی اور حسین ابن علی کو باغی کہنے والے بھی موجود ہیں۔ حجت ہللا‘ اس کے رسول اور االمر کی اطاعت کو پیش کرتے ہیں۔ گویا دسترخوان پر
ایک طرف کھیر‘ اس کے ساتھ حلوہ اور اس سے آگے گوبر رکھ دو۔ کون کھائے گا۔ کوئی دسترخوان پر بیٹھنا بھی پسند نہیں کرے گا۔ اس حساب سے‘ نمررد‘ شداد اور فرعون درست تھے۔ حیرت انگیز بات یہ کہ ٹیپو مفتوح ہے‘ لیکن بڑا نام رکھتا ہے۔ کیوں اپنے تاج و تخت کے لیے لڑا تھا۔ کیوں زندہ ہے‘ بہت بڑا سوالیہ ہے۔ سوچتے جاؤ‘ دیکھتے جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔ آنکھوں کے روبرو چیز سمجھ میں نہ آ سکے گی کیوں کہ زندگی بڑی پچیدہ اور الجھی ہوئی گھتی ہے‘ جسے سمجھنا آسان کام نہیں۔
یمین مانیے
کچھ ہی دن ہوئے‘ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے اٹھ کر دروازہ کھوال۔ دو بڑے ٹوہری آدمی دروازے پر کھڑے تھے۔ انہوں نے تمریبا با بارعب آواز میں کہا :بڑے میاں‘ ممصود حسنی صاحب گھر پر ہیں۔ میں نے جھک کر عرض کیا :حضور تشریف رکھیے اور خود اندر چال گیا۔ اندر بیٹھی ایک بوڑھی خاتون سے پوچھا :بڑی بی‘ ممصود حسنی صاحب گھر پر ہیں۔ بڑی بی نے گھور کر میری طرف دیکھا‘ پھر یہ گل افشانی فرمائی :تمہارا دماغ تو نہیں چل گیا۔ اصل میں وہ لفظ بڑی بی پر سیخ پا ہوئی تھی۔ میرا دماغ نہیں چال؛ میرے ساتھ اتنا فرینک ہونے کی ضرورت نہیں‘ میں ایسا ویسا آدمی نہیں ہوں‘ جو پوچھا ہے‘ پہلے اس کا جواب دو۔ بیٹھک میں بارعب شخصیات تشریف فرما ہیں‘ جو حسنی صاحب سے ملنے کی خواہش مند ہیں۔
اب کہ اسے یمین ہو گیا کہ میں یادداشت کھو بیٹھا ہوں۔ زور زور سے اور زار و لطار رونے لگی۔ اس کی آواز کافی بلند تھی۔ میں نے جعلی حیرت دکھاتے ہوئے کہا: بڑی بی کیا ہو گیا ہے‘ میں نے تو آپ کو کچھ نہیں کہا۔ آپ خواہ مخواہ رونے لگی ہیں۔ اس کی آواز اور بلند ہو گئی۔ میں نے دوبارہ سے کہا :رو بعد میں لینا‘ پہلے میرے سوال کا جواب دے دیں۔ تم کون ہو‘ خود اپنا ہی پوچھ رہے ہو۔ اچھا تو میں ہی ممصود حسنی ہوں۔ پھر میں نے اپنی بساط اور اولات کے مطابك لہمہ لگایا اور واپس بیھٹک میں آ گیا۔ جب میں دوبارہ سے بیٹھک میں آ گیا‘ تو انہوں نے میری جانب سوالیہ نطروں سے دیکھا۔ میں فخریہ سا مسکرایا‘ کیوں کہ مجھے کامل یمین ہو گیا تھا کہ میں ہی ممصود حسنی ہوں۔ بظاہر معمولی بات ہے‘ لیکن اپنی اصل میں‘ یہ معمولی بات نہیں۔ شخص‘ ہزاروں سال سے اپنی کھوج
میں ہے۔ اس کی شخصیت تو شاہوں کی تجوری میں ممید چلی آتی ہے۔ بال شبہ یہ خوش نصیبی کی بات تھی‘ کہ مجھے خود کو جاننے میں‘ ہزاروں سال نہیں لگے۔ پھر میں نے ان سے کہا‘ جناب میں ہی ممصود حسنی ہوں۔ ہر دو حضرات نے میری طرف دیکھا۔ سچ کہہ رہا ہوں‘ میں ہی اصلی ممصود حسنی ہوں۔ وہ بھی سچے تھے کہ آج اصل اور نمل کی پہچان‘ تمریبا دم توڑ گئی ہے۔ انہوں نے پوچھا :یہ آپ پہلے ہی بتا سکتے تھے۔ میں تصدیك کرنے گیا تھا۔ بلکھڑ سا بندہ ہوں‘ بیگم نے تصدیك کر دی ہے کہ تم ہی مطلوبہ شخص ہو۔ انہیں میرے انداز اور طور طریمے پر حیرت ہوئی۔ ہونی بھی چاہیے تھی۔ بیشک یہ خبطیوں کی یا کی سی حرکت تھی۔ سر سید احمد خان افسر تھے‘ وہ بھی حاضر سروس۔ میں حاضر یا غیرحاضر سروس افسر نہیں تھا‘ جو لباس بدل کر آتا۔ اسی پرانے لباس میں واپس آ گیا تھا۔
سر سید احمد خاں کا بہت پہلے سے ذکر سنتا آ رہا تھا‘ حیرن تھا کہ وہ بیک ولت سید بھی ہیں اور خان بھی۔ جب بڑا ہوا ہوش آیا‘ ہوش سے مراد عمل نہ لی جائے۔ عمل آئی ہوتی تو اس جہنمیوں کی آئی جی سے شادی کیوں کرتا۔ نومبر میں اسے گرمی لگتی ہے۔ بجلی چلی جائے تو میرا اگال پچھال سب پن کر رکھ دیتی ہے۔ انہوں نے خان بہادری کے اظہار کے لیے‘ نام کے ساتھ لفظ خاں کا الحمہ سجا کر‘ سید ذات کو لیک لگائی۔ یہ ہی ایک خطاب نہیں‘ انہیں اور بھی چٹا بہادر کی طرف اسناد ملیں۔ کتنی عجیب بات ہے‘ ہم سچ بول ہی نہیں سکتے‘ بل کہ کوئی بھی بول نہیں سکتا۔ جو سچ بولے گا‘ پولے کھائے گا۔ سچ بولنے والے‘ ہمیشہ سے پولے کھاتے آ رہے ہیں۔ چٹا ساب‘ بہادر کب تھا‘ یہ لفظ محض ٹی سی کی غرض سے‘ اضافی استعمال میں کیا جاتا رہا ہے۔ بہادری کی بات ہے‘ تو سکندر ایسا یودھا‘ یہاں سے چھتر کھا کر گیا‘ چٹا ساب کیا تھا۔ وہ تو برا ہو دھرتی کے غداروں کا یا ٰبیڑا
غرق ہو‘ چٹا ساب کی عیاری کا۔ دھرتی کے غداروں کا شروع ہی سے یہ ہی چاال رہا ہے۔ یہاں کے ممامی سربراہان‘ ناالئك اور عیاش رہے ہیں‘ ورنہ برصغر کے لوگ بال کے ذہین اور محنتی ہیں۔ ناالئك اور عیاش لیادت کے باعث نمصان کم زور عوام کو ہوتا رہا ہے۔ تگڑا ہی تحت پر بیٹھتا آیا ہے‘ جمہوریت یا اور کوئی نطام‘ محض دیکھاوا ہی رہے ہیں۔ دوسرا میں بھی تو پرانا اور بوسیدہ ہو چکا ہوں۔ اب کوئی پہچان لے تو اس کی مہربانی‘ ورنہ گلہ شکوہ کیسا اور کیوں۔ یہ شو شا اور ٹہوہر ٹپا امیر‘ افسر اور چلتے پرزوں کے لیے ضروری ہے۔ گریب گربا اپنی اصل میں‘ ہی بھلے لگتے ہیں۔ اپنی عزت کی برلراری کے لیے دانستہ یہ بات نہیں کی‘ کہ ان میں سے ایک کے منہ سے نکل گیا تھا: ایسے ہوتے ہیں ممصود حسنی۔ ایسی باتیں اس لیے چھوڑ دیتے ہیں‘ آخر بھرم بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ میں اپنی بات نہیں کرتا‘ میں بےچارا کیا ہوں‘ یہاں سوچ سے بھی بڑے لوگ ہو گزرے ہیں لیکن صاحب جاہ کی
پہچان میں نہیں آ سکے۔ ماڑے‘ ڈر کے مارے کسک بھی نہیں سکے۔ تگڑا اپنے سوا‘ کسی کو تگڑا نہیں سمجھتا‘ اوپر سے پھٹا پرانا اور گریب ہو۔ رشوت نہیں لے گا‘ کم زور کا حك نہیں دبائے گا‘ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم نہیں کرے گا‘ تو تگڑا کیسے ہو گا۔ تگڑا نہیں ہو گا تو عزت کیسے پائے گا۔ یہ نمطہ بڑی دیر بعد میری سمجھ میں آیا ہے۔ یمین مانیے‘ اب مجھے اپنے ماڑے ہونے کا رائی بھر دکھ نہیں۔ میں سوا الکھ لعنت بھیجتا ہوں‘ ایسے تگڑے ہونے پر‘ دو نمبر کی جی حضوری سے‘ یہ رنگ روپ بھال۔ میں اپنے لیے سید کے ساتھ خان کا سرکاری الحمہ لگانے سے‘ بےالحمی زندگی کو ہزار گنا اچھا اور بہتر خیال کرتا ہوں۔