یقین مانیے

Page 1

‫یمین مانیے‬


‫ممصود حسنی‬ ‫ابوزر برلی کتب خانہ‬ ‫جون ‪2016‬‬ ‫مندرجات‬ ‫یہ ہی ٹھیک رہے گا‬ ‫اس سے بڑھ کر‬ ‫کوئی بتائے میں کیا کروں‬ ‫دیکھتے جاؤ‘ سوچتے جاؤ‬ ‫یمین مانیے‬


‫یہ ہی ٹھیک رہے گا‬ ‫افسانہ‬ ‫اسے اپنے بےمثل اور یکتائے عالم ہونے کا شک گزرا۔ نر‬ ‫شیر ببر ہونے کے شک سے‘ اس کی رگ وپے سے تکبر‬ ‫کے آتش فشانی شعلے‘ بلند ہونے لگے۔ اس امر کے اعالن‬ ‫کے لیے‘ تکبر کی کامل شکتی کے ساتھ دھاڑا۔ اس منہ‬ ‫سے دھاڑ تو نہ سکا‘ ہاں البتہ اس کے منہ سے‘ صور‬


‫اسرافیل سے مماثل غرغراہٹ ضرور نکل گئی کہ مخلوق‬ ‫ارضی ڈر اور خوف سے لرز لرز گئی۔ اس سے‘ اس کی‬ ‫انا کو تسکین ملی اور انا نے اس کی میں کو مزید شکتی‬ ‫دان کی۔ پھر کیا تھا‘ جسم و جان تکبر کی مستی کے کھڈ‬ ‫میں جا گرے۔ ہاں یہ ہوش رہا‘ کہ کہاں دولتی چالنا ہے۔‬ ‫اس نے دور کے ایک عاللے میں پوری شان سے دولتی‬ ‫چالئی کہ وہ عاللہ مٹ گیا۔ چھوٹے بڑے کم زور اور طالت‬ ‫ور نر مادہ دم توڑ گیے۔ کچھار گھونسلے گھروندے زمین‬ ‫بوس ہو گیے۔ سرشاری میسر نہ آ سکی۔ سرشاری کے‬ ‫لیے دوبارہ سے‘ بال غرارئے‘ ایک اور دولتی جڑ دی۔‬ ‫ایک اور عاللہ خاک و خون میں نہا گیا۔‬ ‫بھوک اور سیری‘ حددوں کی چیزیں نہیں ہیں۔ توکل سیری‬ ‫کی من بھاتی کھا جا ہے‘ جب کہ بھوک‘ مزید کی گرفت‬ ‫میں رہتی ہے۔ اس نے لوٹ مار اور لتل وغارت کا بازار‬ ‫گرم کر دیا۔ اس نے ہر تکڑے کے‘ ناصرف ناخن کٹوا دیے‬ ‫بل کہ اپاہج کرکے‘ عزت وشرف سے سرفراز کیا۔ اس کا‬ ‫کھا کر‘ ہڈی اس کے سامنے پھینک دیتا تا کہ وہ مصروف‬ ‫رہے اور اس کی دیا کے‘ گن گاتا رہے۔ ہاں البتہ گاہے‬


‫بگاہے بھونکتا‘ ٹونکتا اور غراتا رہتا تا کہ سرکشی جنم ہی‬ ‫نہ لے اور کسی کو‘ میں کا دورہ نہ پڑے۔ ہڈی اور حفظ‬ ‫ماتمدم کے لیے‘ عاللے کے سبھی لگڑبگڑ اس کے سآتھ‬ ‫ہو لیے تھے۔ انہیں پیٹ اور جی بھر ہڈیاں میسر آ رہی‬ ‫تھیں۔‬ ‫کسی کی خوارک بند کر دیتا۔ کسی کی خوراک کی ترسیل‬ ‫کے رستے‘ بند کر دیتا۔ کسی پر جھپٹ پڑتا۔ خبرگیری کے‬ ‫توتے‘ اسے لمحہ لمحہ کی‘ اطراف کی خبریں پہنچاتے‬ ‫رہتے تھے۔ توتے کبھی کسی کے سگے نہیں رہے۔‬ ‫وفاداری ان کی فطرت میں داخل نہیں۔ وفاداری ان کی‬ ‫فطرت میں ہوتی تو توتے کیوں کہالتے۔ توتے ہمہ ولت‬ ‫چوری کے متمنی رہتے ہیں۔ وفاداری‘ چوری آمد کے ساتھ‬ ‫مشروط ہوتی ہے۔ آمد لوٹ مار سے وابستہ ہے۔‬ ‫لتل و غارت سے گدھ بھی البھ اٹھاتے ہیں۔ جنگلی حیات‬ ‫میں‘ حك سچ کی کوئی معنویت نہیں ہوتی۔ گدھوں کی آواز‘‬ ‫کوئل کی آواز سے بڑھ کر سریلی محسوس ہوتی ہے۔ آتا‬ ‫کل‘ گزرے کل کو‘ ان آوازوں کے حوالہ سے پہچانتا ہے۔‬


‫کوئل کی آواز‘ سات پردوں کے پیچھے جا چکی ہوتی ہے۔‬ ‫ڈھول کے سامنے ہر ساز کی آواز‘ اپنے وجود سے عاری‬ ‫ہو جاتی ہے۔‬ ‫چار پرانے بیٹھے ہوئے تھے۔ عصری حاالت و معامالت پر‬ ‫گفت گو کر رہے تھے۔ کم زوروں کی حالت زار کا رونا رو‬ ‫رہے تھے۔ سب مایوس اور بےبس ہو چکے تھے۔‬ ‫ان میں سے ایک بوال‪ :‬یار اپنے لیڈر سے کیا امید باندھیں‘‬ ‫وہ تو اپاہج گیڈر ہے۔ شیر کا ٹائیٹل تو اعزازی ہے۔ بولیں‬ ‫گے تو جوتے کھائیں گے۔‬ ‫دوسرا بوال‪ :‬جو چل رہا ہے چلنے دیں‘ جنگل میں جنگل کا‬ ‫لانون چلتا ہے۔‬ ‫تیسرا بوال‪ :‬کچھ تبدلی آئے گی۔‬ ‫چوتھے نے کہا‪ :‬ہاں یار‘ کچھ تو تبدیلی آئے گی۔‬ ‫پہال‪ :‬سب ایک جگہ جمع ہو کر دعا تو کر سکتے ہیں۔‬ ‫اگر اسی پتا چل گیا تو دولتی سے کیسے بچیں گے‬ ‫دوسرا ہاں یہ تو ہے‬


‫پہال تو پھر کیا کریں۔‬ ‫چوتھے‪ :‬گھروں میں بیٹھ کر دعا کر سکتے ہیں۔‬ ‫پہال‪ :‬یہ ٹھیک رہے گا۔‬ ‫تیسرا‪ :‬مخبری ہو گئی تو‬ ‫پہال‪ :‬ہاں بعید از لیاس نہیں‬ ‫دوسرا‪ :‬کچھ تو کرنا پڑے گا۔‬ ‫دوسرا‪ :‬کرنا کیا ہے‘ جو چل رہا ہے‘ چلنے دیں۔‬ ‫چوتھا‪ :‬ہاں یہ ہی درست رہے گا۔‬ ‫پھر سب یک زبان ہو کر بولے‪ :‬ہاں ہاں یہ ہی ٹھیک رہے‬ ‫گا‪ ،‬یہ ہی ٹھیک رہے گا اور وہ چاروں اپنے اپنے گھروں‬ ‫کو چل دیے۔‬

‫اس سے بڑھ کر‬


‫اس کی ہر طور کی مسکراہٹ میں دم تھا۔ ویسے زیادہ تر‬ ‫سات لسم کی پھلجڑیاں‘ اس کے لب و رخسار پر‘ نمایاں‬ ‫ہوتی تھیں۔‬ ‫غصیلی مسکراہٹ‪ :‬اس کی اس مسکراہٹ سے‘ سب ہی‬ ‫گھبراتے تھے۔ سامنے کھڑے شخص کی‘ یہ مسکراہٹ جڑ‬ ‫پٹ کر رکھ دیتی۔ مطلب بری میں‘ یہ مسکراہٹ بڑی کارگر‬ ‫ثابت ہوتی۔ خوف ڈر ایک طرف رکھیے‘ اس غضب ناکی‬ ‫میں‘ بال کی چاشنی تھی۔ شاہوں کی بیگمات دریا میں بیڑا‬ ‫غرق ہوتے دیکھ کر‘ سرشاری سی محسوس کرتی تھیں۔‬ ‫اسی طرح کسی کی اس مسکراہٹ کے حوالہ سے‘ بوکی‬ ‫گرتے دیکھ کر بڑا ہی لطف آتا۔‬ ‫طنزیہ مسکراہٹ‪ :‬یہ مسکراہٹ روزن پشت سے پسینے‬ ‫جاری کر دیتی۔ مخاطب آنکھ مالنے کے لابل نہ رہتا۔‬ ‫پوشیدہ مسکراہٹ‪ :‬یہ ظاہر تو نہ ہوتی‘ لیکن اس کی‬ ‫آنکھوں میں ابھرتی ضرور تھی۔ اس کے بعد سمجھو‘ اس‬ ‫بندے کا ستیاناس مارا گیا۔‬ ‫شاباشی مسکراہٹ‪ :‬شاباش دینے میں بڑی بخیل تھی‘ لیکن‬ ‫اس کی شاباشی مسکراہٹ میں لیامت پوشیدہ ہوتی۔‬


‫رومان پرور مسکراہٹ‪ :‬اس مسکراہٹ کا تعلك دینے سے‬ ‫باال ہوتا‘ لیکن شکوک کے داروازے ضرور کھل جاتے۔‬ ‫خوشی کی مسکراہٹ‪ :‬اس مسکراہٹ میں سامنے والے‬ ‫دانت نمایاں ہو جاتے‘ دیکھنے واال مسرور ہو جاتا۔‬ ‫مطلبی مسکراہٹ‪ :‬دیکھنے والے کو تذبذب میں ڈال دیتی۔‬ ‫تجربہ کار ہی سمجھ پاتا‘ کہ گوہر ممصود نہیں مل پائے گا‘‬ ‫بل کہ دینا اس کے ممدر میں لکھا جا چکا ہے۔ یہ ہو ہی‬ ‫نہیں سکتا کہ بال جھڑے‘ سالمت گھر لوٹ جائے۔‬ ‫اس کی ان مول مسکراہٹوں کے ساتھ‘ ان گنت لصے‬ ‫وابستہ تھے۔ کاش آج پنڈت رتن ناتھ سرشار زندہ ہوتے تو‬ ‫ایک اور فسانہءآزاد تخلیك ضرور پا جاتا۔ ایسی بڑی‬ ‫تخلیك‘ مجھ سے لوگوں کے بس کا روگ نہیں۔ شاید اس‬ ‫لسم کی کمیاں ہمیشہ سے محسوس کی جاتی رہی ہیں۔‬ ‫ایسی چیزیں ہی پرانی یادوں کو تازا کرتی رہتی ہیں۔‬ ‫یہ خاتون‘ الہور کی ایک یونی ورسٹی سے ایم فل کر رہی‬ ‫تھیں۔ انہیں نگران کھاؤ پیؤ اور جیب ہولی کراؤ ملے۔ آتا‬


‫جاتا تو خیر کچھ بھی نہیں تھا۔ خاتون کا معاملہ بھی بالکل‬ ‫یہ ہی تھا۔ استاد تیس فی صد‘ جب کہ شاگرد سو فی صد‬ ‫نمل پر یمین رکھتی تھی۔ خاتون انہیں شیشے میں نہ اتار‬ ‫سکی تھی‘ ہاں البتہ وہ اس کی مسکانوں سے‘ لطف اندوز‬ ‫ضرور ہوتے اور معمولی نوعیت کا ٹھرک بھی جھاڑ لیتے۔‬ ‫شاید وہ اسی لابل تھے۔ چلو جو بھی سہی‘ اطراف میں‬ ‫باذولی موجود تھی۔‬ ‫سنا ہے لمبے آدمی کی عمل گٹوں میں اور عورت کی عمل‘‬ ‫کھتی میں ہوتی ہے۔ وہ لد کی لمبی تھی‘ لیکن اس کے‬ ‫گٹوں میں عمل نہ تھی۔ کتھی میں رومال کی سی کسی چیز‬ ‫کی گرہ رکھتی تھی‘ لہذا وہاں عمل کے ہونے کا سوال ہی‬ ‫پیدا نہیں ہوتا۔ میں نے بڑا غور کیا‘ ہر بیس پچیس منٹ‬ ‫کے بعد گیس چھوڑتی کہ سانس لینا بھی دوبھر ہو جاتا۔‬ ‫سانس تو ایک طرف دماغ میں کجھلی سی ہونے لگتی ہے۔‬ ‫اچھا کرتی ہے‘ جو ایسی گٹھیا عمل کو نکال باہر کرتی ہے۔‬ ‫ایسی عمل سے تو صبر بھال۔‬ ‫پشتی پہاڑ‘ لطعی نارمل تھے۔ بدزیبا نہ تھے۔ کتنا مغزماری‬


‫کر لو‘ تھوڑی ہی دیر میں بات بھول جاتی۔ تب جا کر‬ ‫مجھے اندازا ہوا‘ کہ موصوفہ کی عمل روزن پشت میں‬ ‫ہے۔ جب عمل کا بوجھ محسوس کرتی یا محسوس ہوتا‘‬ ‫فورا سے پہلے‘ ایک جھٹکے سے نکال باہر کرتی۔‬ ‫خیر وہ تو ایک کم زور عورت ہے۔ مسکرا کر‘ عمل کے‬ ‫دشمنوں کی عمل پر پردے ڈال سکتی ہے۔ مجھے آج‬ ‫احساس ہوا‘ کہ میں بھی عمل سے پرے پرے ہوں۔ سودا‬ ‫لینے جاتا ہوں تو‘ انتہائی ماڑے کپڑے پہن کر جاتا ہوں تا‬ ‫کہ دوکان دار کو میری حالت زار پر ترس آ جائے اور وہ‬ ‫لیمت میں رعائت سے کام لے۔ آج کوئی چیز لینے‘ ذرا ہٹ‬ ‫کر چال گیا۔ میں نے سودا لیا اور دوکان دار سے رعایت‬ ‫کرنے کی گزارش کی۔‬ ‫اس نے جوابا کہا‪ :‬میاں جی فکر نہ کریں‘ ہم بندہ کوبندہ‬ ‫دیکھ کر‘ لیمت طلب کرتے ہیں۔ آپ کے کہنے سے پہلے‬ ‫رعایت کر دی ہے‘ فکر نہ کریں۔ اس کے اس جملے سے‬ ‫یہ معلوم ہوا‘ کاروباری رویے بھی دو طرح کے ہیں اور‬ ‫کپڑے اس میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔‬


‫کو‬ ‫مڑے ہوئے کے لیے سابمہ استعمال کرتے ہیں۔ کوبندہ‘‬ ‫مڑا ہوا بندہ‘ یعنی ٹیڑھا بندہ۔ میں نے گھر آ کر غور کیا‘ کہ‬ ‫میں ٹیڑھا شخص ہوں‘ تو اس میں کوئی شک نہ پایا۔ بالکل‬ ‫مرا ہوا نہیں ہوں‘ چند سکوں کی بچت کے لیے‘ بہروپ‬ ‫اختیار کرتا ہوں۔ یہ ٹیڑھاپن نہیں تو پھر اور کیا ہے۔‬ ‫میں تو کچھ بھی نہیں ہوں‘ یہاں سب کچھ ٹیڑھا ہے‘ تب ہی‬ ‫تو ذلت و خواری ہمارا ممدر بن گئی ہے۔ ہم ذلت برداشت‬ ‫کر سکتے ہیں‘ لیکن پیٹ سے سوچنا بند نہیں کر سکتے۔‬ ‫ممتدرہ طبمے تو ایسا کرتے آئے بیں‘ صاحبان کتاب و للم‬ ‫بھی‘ اسی راہ کے راہی چلے آ رہے ہیں۔ سچ اور حك‘‬ ‫ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ مذہبی طبمے اختالفی طبموں کو‘‬ ‫کافر لرار دینے پر کمر بستہ ہیں۔ مورکھ بادشاہوں کو‘ نبی‬ ‫لریب لرار دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ ہی حالت‘ شاہی‬ ‫شعرا کی رہی ہے۔ بادشاہوں اور ایسے شاعروں کے بارے‬ ‫منفی رائے دینے والے‘ غلط العمیدہ سمجھے جاتے ہیں۔‬ ‫گویا سچ کہنا ہی جرم چال آتا ہے۔ اس سے بڑھ کر بھال اور‬ ‫اندھیر کیا ہو سکتا ہے۔‬


‫‪...............‬‬

‫کوئی بتائے میں کیا کروں‬ ‫جب کبھی مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں مسلمان ہوں‘‬ ‫میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ دمحم ان پر ان حد درود و‬ ‫سالم میرے نبی اور راہ بر ہیں اور علی شیر خدا‘ میرے‬ ‫امام ہیں۔ ابوزر غفاری‘ سلمان فارسی اور بالل جیسے‬ ‫میرے اسالف ہیں۔ ابوبکر صدیك‘ عمر فاروق‘ عثمان غنی‬ ‫اور امیر معاویہ مسلمانوں کے چار خلیفہ ہیں۔ عمر بن‬ ‫عبدالعزیز جیسے عظیم حکم ران تھے۔ حسین ابن علی نے‘‬ ‫جو اسالم اور بنی نوع انسان کے لیے لربانی دی‘ اس کی‬ ‫مثال نہیں ملتی۔ اصحابہ کرام نے دنیا کے چپے چپے پر‘‬ ‫سفری صعوبتیں اٹھا اسالم کا پیغام پنچایا۔ کچھ کا یزید امام‬ ‫اور جنتی خلیفہ ہے‘ یہاں ان کا ذکر بد ممصود و مطلوب‬ ‫نہیں۔‬


‫دوسرے ہی لمحے‘ اپنے کردار پر نظر جاتی ہے‘ تو‬ ‫شرمندگی کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے۔ میں مسلمان ہوں۔۔۔۔۔۔ میں‘‬ ‫اس سے بڑھ کر مذاق بھال اور کون سا ہو سکتا ہے۔‬ ‫کھلے بندوں رشوت لیتا ہوں‘ مالوٹ کرتا ہوں‘ امانت‬ ‫خوری میرا اصول ہے۔ جھوٹ تو میرے روزمرہ میں داخل‬ ‫ہے۔ ناجائز اور ناجائز طریمے سے‘ التدار حاصل کرکے‘‬ ‫انی مچاتا ہوں۔ اس پر مجھے کبھی شرمندگی نہیں ہوئی۔‬ ‫بکریاں اڑانا پھنسانا اور ان سے موج مستی‘ میرے معمول‬ ‫میں داخل ہے۔ مائی باپ کو ایڑ پر رکھتا ہوں۔ ان کے‬ ‫بڑھاپے کی خوب مٹی پلید کرتا ہوں۔ جانتا ہوں‘ عمرہ یا‬ ‫حج کرکے سب کچھ بخشوا لوں گا۔‬ ‫لاتلوں لٹیروں کی نفی کرتا ہوں‘ تو کافر۔ مروجہ اسالم میں‬ ‫اکبر بادشاہ کو بھی مسلمان سمجھا جاتا ہے حاالں کہ اس‬ ‫کا اپنا مذہب‘ یعنی دین الہی تھا۔ اورنگ زیب میرا نبی لریب‬ ‫بادشاہ ہے۔ البال کے متعلك کچھ کہتا ہوں‘ تو کافر۔ کمال‬ ‫اے یار‘ خطبہ الہ آباد میں کہاں پاکستان کا ذکر ہے۔ ٹی‬ ‫ایس ایلٹ میرا پھوپھڑ ہے‘ اصغر سودائی کے اس نعرے‬ ‫کو بھول چکا ہوں‬


‫پاکستان کا مطلب کیا ال الہ اال ہللا‬ ‫میں صرف خودی کو جانتا ہوں‬ ‫خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تمدیر سے پہلے‬ ‫خدا خود بندے سے پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے‬ ‫خدا گویا اکبر بادشاہ ہے۔ وہ خدا جو تخلیك کار ہے‘ سلیز‬ ‫کے یوٹرس میں‘ کوڈ طے کر رہا ہے اسے کچھ پتا نہیں‘‬ ‫کہ میرے بندے کا کتنا بنتا ہے اور اسے کب دینا ہے۔ البال‬ ‫نے تو بین االلوامی ریاست کا نظریہ دیا تھا‘ اس نے کب‬ ‫اور کہاں حدوں کی ریاست کا نظریہ دیا ہے۔ اس سے‬ ‫متعلك سچ کہتا ہوں‘ تو کافر۔‬ ‫میں نہیں جانتا کہ میں کس لسم کا مسلمان ہوں۔ فمرا کو‘‬ ‫توبہ توبہ ہللا نہیں مانتا۔ یہ اچھے لوگ تھے‘ نیکی اور‬ ‫بھالئی کا درس دیتے رہے۔ توکل ان کا شعار تھا۔ بھالئی‬ ‫کی یاد تازہ کرنے کے لیے‘ ان کے ہاں چال جاتا ہوں‘ تو‬ ‫مشرک کے الماب سے ملموب ہوتا ہوں۔ کیا اچھائی کو ماننا‬ ‫اور اس کی عزت کرنا غلط ہے۔‬


‫حسینی رستے کو اپناتا ہوں تو کافر۔ بزرگوں کو کارساز‬ ‫اور حاجت روا نہیں مانتا تو زندیك۔ درود پڑھتا ہوں تو‬ ‫کافر‘ نہیں پڑھتا تو کافر۔ مسلمانی میرے لیے ایک پچیدہ‬ ‫معمہ بن گئی ہے۔ سوچتا ہوں‘ کیا کروں اور کدھر جاؤں۔‬ ‫اسالم چھوڑ نہیں سکتا‘ کہ یہ ہی سچا رستہ ہے۔ اسالم‬ ‫ایک سادہ اور دوٹوک دین ہے۔‬ ‫میں اسالم سے محبت کرتا ہوں‘ میں اسے چھوڑ نہیں‬ ‫سکتا۔ خدا کے لیے کوئی بتائے‘ کیا کروں کہ میں مسلمان‬ ‫ہو جاؤں‘ ویسا ہی جیسے ابوزر غفاری‘ سلمان فارسی یا‬ ‫بالل تھے۔ اس کرم کے لیے‘ ہمیشہ بتانے والے کا احسان‬ ‫مند رہوں گا۔‬ ‫‪..............‬‬

‫دیکھتے جاؤ‘ سوچتے جاؤ‬


‫زندگی ایسی سادہ اور آسان چیز نہیں‘ اس کے اطوار کو‬ ‫سمجھنا بڑا ہی دلیك کام ہے۔ ہر لمحہ‘ اس کا چہرا ہی بدل‬ ‫کر رکھ دیتا ہے۔ تھوڑی دیر پہلے‘ آدمی مال تھا‘ پتا چال چل‬ ‫بسا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ چنگا بھال تو تھا‘ یہ اچانک‬ ‫اسے کیا ہو گیا۔‬ ‫اسی طرح اس کے انداز رویے‘ ایک ہی ولت میں‘ مختلف‬ ‫ہوتے ہیں۔ ایک رو رہا ہے‘ تو دوسرا ہنس رہا ہے۔ ہنسے‬ ‫والے کو رونے والے پر اور رونے والے کو ہنسے والے‬ ‫پر‘ اعتراض کی اجازت نہیں۔ اگر اعتراض کریں گے‘ تو‬ ‫فساد کا دروازہ کھل جائے گا۔ یہ فساد‘ لمحوں کا بھی ہو‬ ‫سکتا ہے‘ اس کے اثرات نسلوں تک بھی جا سکتے ہیں۔‬ ‫اس نے پوچھا‪ :‬کیسے ہو‬ ‫ہللا کے فضل سے ٹھیک ہو‬ ‫اس نے سر ہالیا اور منہ میں کچھ بڑبڑاتا ہوا چال گیا۔‬


‫وہ اس بڑبڑاہٹ کا مفہوم نہ سمجھ سکا۔ اس کا مفہوم یہ‬ ‫تھا‘ کہ اب دیکھتا ہوں‘ ٹھیک ہو یا نہیں۔ تھوڑی ہی دیر‬ ‫میں‘ پلس آ گئی اور اسے پکڑ کر لے گئی۔‬ ‫پھر وہ تھانے پہنچا اور پوچھا کیسے ہو۔‬ ‫اس نے جوابا کہا‪ :‬مصیبت میں ہوں۔‬ ‫اب آئے نا اصل ٹھکانے پر‬ ‫جی کیا کہا‬ ‫کچھ نہیں‬ ‫فکر نہ کرو‘ ضمانت کروا لیتے ہیں۔ تم جانتے ہو‘ خرچا‬ ‫پانی تو لگتا ہی ہے۔‬ ‫میں گریب آدمی ہوں‘ خرچا پانی کدھر سے آئے گا۔‬ ‫اپنی اولات میں رہتے‘ غلط کام کیوں کرتے ہو۔‬ ‫مجھے نہیں پتا‘ میں نے کیا کیا ہے۔‬ ‫سارے مجرم اس طرح ہی کہتے ہیں۔‬ ‫تم غریب لوگ بھی بڑے عجیب ہوتے ہو۔ کہا تھا‘ بہن کو‬ ‫ہمارے ہاں کام کے لیے بھیج دیا کرو۔ تمہاری غیرت نے‬ ‫گوارا نہ کیا۔ اب بھگتو۔‬


‫آیا بڑا غیرت مند‬ ‫یہ ہی زندگی ہے۔ متضاد رویے متوازی چل رہے ہیں۔ یہ‬ ‫بات آج ہی سے تعلك نہیں کرتی‘ زندگی شروع ہی سے‬ ‫ایسی ہے۔ پوچھنے والے‘ خود اسی مرض میں مبتال ہیں۔‬ ‫ان حاالت میں بھی لوگ زندگی کر رہے ہیں‘ کرتے رہیں‬ ‫گے۔‬ ‫اس نے پی سی ایس میں کامیابی حاصل کی۔ ہنسنے کی‬ ‫بجائے‘ اس کے آنسو نکل گئے۔‬ ‫بیٹا مرا‘ دھاڑیں مار کر رونے کی بجائے‘ چپ لگ گئی اور‬ ‫سب کی طرف‘ بٹر بٹر دیکھنے لگا۔‬ ‫باپ مرا‘ ذہنی توازن ہی کھو بیٹھا۔‬ ‫بیٹی پیدا ہوئی‘ بیوی کو طالق دے دی‘ جیسے تخلیك کار‬ ‫اس کی بیوی تھی۔‬ ‫خاوند مرا بڑا ہی صدمہ ہوا۔ پچاس عورتوں میں اس لسم‬


‫کے بیانات جاری کرنے لگی۔‬ ‫ہائے میں مر گئی۔ زندگی بھر دکھ دیتے رہے۔ ایک لمحہ‬ ‫بھی سکھ نہ دے سکے۔ زندگی بھر غیروں کی محتاج رہی۔‬ ‫تم پر رہتی تو گھر ویران رہتا۔ اب مر کر دکھ دے گئے ہو‬ ‫کہ غیروں کی ہی محتاج رہوں۔‬ ‫نشہ پانی سے ہمیشہ منع کرتی رہی‘ تم نے میری ایک نہ‬ ‫سنی‘ اگر مان جاتے تو یہ دن تو نہ دیکھنا پڑتا۔‬ ‫جوئے نے تمہیں برباد کیا‘ پیسے بچاتے تو کفن دفن کا‬ ‫سامان ہی لے آتی۔ آج میرے پاس پھوٹی کوڑی تک نہیں۔‬ ‫میرے نصیب ہی سڑ گئے‘ جو تایا نے کچھ نہ دیکھا اور‬ ‫رشتہ دے دیا۔‬ ‫ہائے میں مر گئی۔۔۔۔۔۔۔۔ لوکو میں لٹی گئی۔‬ ‫یہاں جسے دیکھو‘ امریکہ کے خالف باتیں کر رہا ہے۔ اگر‬ ‫کوئی پیشاب سے بھی تلک پڑتا ہے‘ الزام امریکہ پر رکھتا‬ ‫ہے۔ اسے اس میں امریکہ کی‘ کسی ناکسی سطع پر‘‬ ‫سازش محسوس ہوتی ہے۔ دوسری طرف اگر امریکہ کا‬ ‫ویزا عام ہو جائے تو میرے سوا‘ میں اس لیے نہیں کہ‬


‫بیمار اور بوڑھا ہو چکا ہوں‘ امریکہ کا ویزا حاصل کرنے‬ ‫کے لیے‘ مرنے مارنے پر اتر آئے گا۔ شاید اس لیے کہ‬ ‫کالیاں یا تمریبا کالیاں‘ دیکھ دیکھ کر‘ صاحب اخگر اکتا‬ ‫سے گئے ہیں۔ سنا ہے‘ وہاں لکیر کی فمیری نہیں کرنا‬ ‫پڑتی‘ بل کہ لکیر مضبوط صاحبان اخگر کی فمیری کرتی‬ ‫ہیں۔ ڈالر کماؤ چٹیاں اڑاؤ‘ نہ کوئی روک نہ کوئی ٹوک۔‬ ‫مذہبی مین کا رویہ بھی‘ معاشرت سے الگ تر نہیں رہا۔‬ ‫ایک مذہبی مین سے کسی بی بی نے کہا‪ :‬مجھے کسی‬ ‫سے پیار ہو گیا ہے۔‬ ‫جوابا مذہبی مین نے کہا‪ :‬وہ کون جہنمی ہے۔‬ ‫بی بی نے جواب دیا‪ :‬آپ سے۔‬ ‫مذہبی مین فورا بول اٹھا‪ :‬چل جھوٹی۔‬ ‫اسی لماش کا ایک اور لطیفہ معروف ہے۔ مذہبی مین‬ ‫بیٹھے ہوئے تھے۔ طے ہوا عورت کو دیکھنا بھی نہیں اور‬ ‫اس کی بات بھی نہیں ہو گی۔ کچھ ہی دیر بعد ایک مذہبی‬ ‫مین بوال لڑکی۔۔۔۔۔‬


‫سب ایک آواز میں پکار اٹھے کہاں ہے‘ کہاں ہے۔‬ ‫مذہبی مین کے متعلك ایک اور کہاوت مشہور ہے۔‬ ‫کسی بی بی نے پوچھا‪ :‬اگر میں وزیر اعظم سے پیار‬ ‫کرنے لگوں تو‬ ‫سیدھی دوزخ میں جاؤ گی۔‬ ‫وزیر اعلی سے پیار کروں تو‬ ‫تو بھی دوزخ ٹھکانہ ہو گا۔‬ ‫اگر آپ سے‬ ‫بڑی سیانی ہو‘ جنت جانے کا پروگرام ہے۔‬ ‫چھوٹے والی روزانہ طعنہ دیتی تھی‘ نیچے سے کھاتا ہے۔‬ ‫میں نے تنگ آ کر‘ دس اکتوبر ‪ ٢٠١٠‬سے روٹی کھانا ہی‬ ‫چھوڑ دی۔ اب سوچتا ہوں‘ کتنی بڑی غلطی کی تھی۔ آدم‬ ‫علیہ اسالم نے‘ گندم کا دانہ کھایا‘ جنت بدر ہوئے۔ اگر میں‬ ‫روٹی نہ چھوڑتا تو شاید‘ میں بھی جہنم بدر ہو جاتا۔ روٹی‬ ‫بھی تو گندم سے ہی تیار ہوتی ہے۔ اگر گندم کا دانہ لکیر کا‬


‫استعارہ ہے‘ تو یہ الگ بات ہے۔ اب ہللا ہی جانتا ہے‘ وہ‬ ‫دانہ گندم کا تھا یا اس سے مراد لکیر تھی۔‬ ‫طالت ہی‘ زندگی کا سب سے بڑا سچ رہا ہے۔ ابراہیم‬ ‫لودھی‘ کیسا تھا‘ کوئی نہیں جانتا۔ اس کا اور اس کی ماں‬ ‫کے ساتھ بابر نے کیا کیا‘ کوئی نہیں جانتا۔ بابر تاریخ میں‬ ‫ہیرو ہے۔ لوگ فخر سے‘ اپنے بچوں کے نام بابر رکھتے‬ ‫ہیں۔‬ ‫بابر کا لول ہے‪ :‬بابر عیش کوش کہ دنیا دوبارہ نیست۔ بابر‬ ‫نے خون سے گلی بازار رنگ دئے‘ کوئی نہیں جانتا‘ بابر‬ ‫فاتح ٹھہرا‘ اس لیے ہمارا ہیرو ہے۔‬ ‫ہمایوں کے بھائی سازشیں کرتے رہے‘ وہ معاف کرتا رہا۔‬ ‫پوتے نے‘ تخت و تاج کے لیے بھائی تو بھائی‘ ان کی‬ ‫االدیں بھی ذبح کر دیں۔ اپنی الڈلی بیگم کا ممبرہ تاج محل‘‬ ‫بنایا تاریخ میں زندہ ہے اور بڑا نام رکھتا ہے۔‬ ‫تاریخ کے نبی لریب بادشاہ اورنگ زیب نے‘ بھائی تو‬


‫بھائی‘ باپ کو بھی نہ بخشا۔ بہن جس نے مخبری کرکے‘‬ ‫اس کی جان بچائی تھی‘ کو بھی لید کیے رکھا‘ کیوں‘ کوئی‬ ‫نہیں جانتا۔ تاریخ ہی نہ لکھنے دی۔ خانی خاں نے بھی‬ ‫چوری چھپے لکھی۔‬ ‫ہندوستان مسلم ریاست نہ تھی۔ مسلمان محض چند فی صد‬ ‫تھے۔ اسالم کا ماما بن کر‘ سرمد جیسے بندہءخدا کو شہید‬ ‫کر دیا۔ اصل معاملہ کوئی اور تھا‘ جو آج تک کھل نہیں‬ ‫سکا۔ سوال پیدا ہوتا ہے‘ بہن کو کیوں نظر بند کیے رکھا۔‬ ‫وہ لاضی اور جالد نہ تھا‘ جو خود ہی فیصلہ کیا اور سرمد‬ ‫کو اپنے ہاتھوں سے‘ لتل کر دیا۔ ممتدرہ لوت تھا‘ تاریخ‬ ‫میں زندہ ہے۔‬ ‫حسین ابن علی مفتوح تھے‘ زندہ ہیں اور اپنے الکھوں‬ ‫دیوانے رکھتے ہیں۔‬ ‫یزید ابن معاویہ کو جنتی اور حسین ابن علی کو باغی‬ ‫کہنے والے بھی موجود ہیں۔ حجت ہللا‘ اس کے رسول اور‬ ‫االمر کی اطاعت کو پیش کرتے ہیں۔ گویا دسترخوان پر‬


‫ایک طرف کھیر‘ اس کے ساتھ حلوہ اور اس سے آگے‬ ‫گوبر رکھ دو۔ کون کھائے گا۔ کوئی دسترخوان پر بیٹھنا‬ ‫بھی پسند نہیں کرے گا۔ اس حساب سے‘ نمررد‘ شداد اور‬ ‫فرعون درست تھے۔‬ ‫حیرت انگیز بات یہ کہ ٹیپو مفتوح ہے‘ لیکن بڑا نام رکھتا‬ ‫ہے۔ کیوں‬ ‫اپنے تاج و تخت کے لیے لڑا تھا۔ کیوں زندہ ہے‘ بہت بڑا‬ ‫سوالیہ ہے۔‬ ‫سوچتے جاؤ‘ دیکھتے جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔ آنکھوں کے روبرو چیز‬ ‫سمجھ میں نہ آ سکے گی کیوں کہ زندگی بڑی پچیدہ اور‬ ‫الجھی ہوئی گھتی ہے‘ جسے سمجھنا آسان کام نہیں۔‬

‫یمین مانیے‬


‫کچھ ہی دن ہوئے‘ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے اٹھ کر‬ ‫دروازہ کھوال۔ دو بڑے ٹوہری آدمی دروازے پر کھڑے‬ ‫تھے۔‬ ‫انہوں نے تمریبا با بارعب آواز میں کہا‪ :‬بڑے میاں‘ ممصود‬ ‫حسنی صاحب گھر پر ہیں۔‬ ‫میں نے جھک کر عرض کیا‪ :‬حضور تشریف رکھیے اور‬ ‫خود اندر چال گیا۔‬ ‫اندر بیٹھی ایک بوڑھی خاتون سے پوچھا‪ :‬بڑی بی‘‬ ‫ممصود حسنی صاحب گھر پر ہیں۔‬ ‫بڑی بی نے گھور کر میری طرف دیکھا‘ پھر یہ گل افشانی‬ ‫فرمائی‪ :‬تمہارا دماغ تو نہیں چل گیا۔‬ ‫اصل میں وہ لفظ بڑی بی پر سیخ پا ہوئی تھی۔ میرا دماغ‬ ‫نہیں چال؛ میرے ساتھ اتنا فرینک ہونے کی ضرورت نہیں‘‬ ‫میں ایسا ویسا آدمی نہیں ہوں‘ جو پوچھا ہے‘ پہلے اس کا‬ ‫جواب دو۔ بیٹھک میں بارعب شخصیات تشریف فرما ہیں‘‬ ‫جو حسنی صاحب سے ملنے کی خواہش مند ہیں۔‬


‫اب کہ اسے یمین ہو گیا کہ میں یادداشت کھو بیٹھا ہوں۔‬ ‫زور زور سے اور زار و لطار رونے لگی۔ اس کی آواز‬ ‫کافی بلند تھی۔ میں نے جعلی حیرت دکھاتے ہوئے کہا‪:‬‬ ‫بڑی بی کیا ہو گیا ہے‘ میں نے تو آپ کو کچھ نہیں کہا۔ آپ‬ ‫خواہ مخواہ رونے لگی ہیں۔ اس کی آواز اور بلند ہو گئی۔‬ ‫میں نے دوبارہ سے کہا‪ :‬رو بعد میں لینا‘ پہلے میرے‬ ‫سوال کا جواب دے دیں۔‬ ‫تم کون ہو‘ خود اپنا ہی پوچھ رہے ہو۔‬ ‫اچھا تو میں ہی ممصود حسنی ہوں۔ پھر میں نے اپنی بساط‬ ‫اور اولات کے مطابك لہمہ لگایا اور واپس بیھٹک میں آ‬ ‫گیا۔‬ ‫جب میں دوبارہ سے بیٹھک میں آ گیا‘ تو انہوں نے میری‬ ‫جانب سوالیہ نطروں سے دیکھا۔ میں فخریہ سا مسکرایا‘‬ ‫کیوں کہ مجھے کامل یمین ہو گیا تھا کہ میں ہی ممصود‬ ‫حسنی ہوں۔ بظاہر معمولی بات ہے‘ لیکن اپنی اصل میں‘ یہ‬ ‫معمولی بات نہیں۔ شخص‘ ہزاروں سال سے اپنی کھوج‬


‫میں ہے۔ اس کی شخصیت تو شاہوں کی تجوری میں ممید‬ ‫چلی آتی ہے۔ بال شبہ یہ خوش نصیبی کی بات تھی‘ کہ‬ ‫مجھے خود کو جاننے میں‘ ہزاروں سال نہیں لگے۔‬ ‫پھر میں نے ان سے کہا‘ جناب میں ہی ممصود حسنی ہوں۔‬ ‫ہر دو حضرات نے میری طرف دیکھا۔‬ ‫سچ کہہ رہا ہوں‘ میں ہی اصلی ممصود حسنی ہوں۔ وہ بھی‬ ‫سچے تھے کہ آج اصل اور نمل کی پہچان‘ تمریبا دم توڑ‬ ‫گئی ہے۔ انہوں نے پوچھا‪ :‬یہ آپ پہلے ہی بتا سکتے تھے۔‬ ‫میں تصدیك کرنے گیا تھا۔ بلکھڑ سا بندہ ہوں‘ بیگم نے‬ ‫تصدیك کر دی ہے کہ تم ہی مطلوبہ شخص ہو۔ انہیں میرے‬ ‫انداز اور طور طریمے پر حیرت ہوئی۔ ہونی بھی چاہیے‬ ‫تھی۔ بیشک یہ خبطیوں کی یا کی سی حرکت تھی۔‬ ‫سر سید احمد خان افسر تھے‘ وہ بھی حاضر سروس۔ میں‬ ‫حاضر یا غیرحاضر سروس افسر نہیں تھا‘ جو لباس بدل کر‬ ‫آتا۔ اسی پرانے لباس میں واپس آ گیا تھا۔‬


‫سر سید احمد خاں کا بہت پہلے سے ذکر سنتا آ رہا تھا‘‬ ‫حیرن تھا کہ وہ بیک ولت سید بھی ہیں اور خان بھی۔ جب‬ ‫بڑا ہوا ہوش آیا‘ ہوش سے مراد عمل نہ لی جائے۔ عمل آئی‬ ‫ہوتی تو اس جہنمیوں کی آئی جی سے شادی کیوں کرتا۔‬ ‫نومبر میں اسے گرمی لگتی ہے۔ بجلی چلی جائے تو میرا‬ ‫اگال پچھال سب پن کر رکھ دیتی ہے۔‬ ‫انہوں نے خان بہادری کے اظہار کے لیے‘ نام کے ساتھ‬ ‫لفظ خاں کا الحمہ سجا کر‘ سید ذات کو لیک لگائی۔ یہ ہی‬ ‫ایک خطاب نہیں‘ انہیں اور بھی چٹا بہادر کی طرف اسناد‬ ‫ملیں۔ کتنی عجیب بات ہے‘ ہم سچ بول ہی نہیں سکتے‘ بل‬ ‫کہ کوئی بھی بول نہیں سکتا۔ جو سچ بولے گا‘ پولے‬ ‫کھائے گا۔ سچ بولنے والے‘ ہمیشہ سے پولے کھاتے آ‬ ‫رہے ہیں۔‬ ‫چٹا ساب‘ بہادر کب تھا‘ یہ لفظ محض ٹی سی کی غرض‬ ‫سے‘ اضافی استعمال میں کیا جاتا رہا ہے۔ بہادری کی بات‬ ‫ہے‘ تو سکندر ایسا یودھا‘ یہاں سے چھتر کھا کر گیا‘ چٹا‬ ‫ساب کیا تھا۔ وہ تو برا ہو دھرتی کے غداروں کا یا ٰبیڑا‬


‫غرق ہو‘ چٹا ساب کی عیاری کا۔ دھرتی کے غداروں کا‬ ‫شروع ہی سے یہ ہی چاال رہا ہے۔ یہاں کے ممامی‬ ‫سربراہان‘ ناالئك اور عیاش رہے ہیں‘ ورنہ برصغر کے‬ ‫لوگ بال کے ذہین اور محنتی ہیں۔ ناالئك اور عیاش لیادت‬ ‫کے باعث نمصان کم زور عوام کو ہوتا رہا ہے۔ تگڑا ہی‬ ‫تحت پر بیٹھتا آیا ہے‘ جمہوریت یا اور کوئی نطام‘ محض‬ ‫دیکھاوا ہی رہے ہیں۔‬ ‫دوسرا میں بھی تو پرانا اور بوسیدہ ہو چکا ہوں۔ اب کوئی‬ ‫پہچان لے تو اس کی مہربانی‘ ورنہ گلہ شکوہ کیسا اور‬ ‫کیوں۔ یہ شو شا اور ٹہوہر ٹپا امیر‘ افسر اور چلتے پرزوں‬ ‫کے لیے ضروری ہے۔ گریب گربا اپنی اصل میں‘ ہی بھلے‬ ‫لگتے ہیں۔ اپنی عزت کی برلراری کے لیے دانستہ یہ بات‬ ‫نہیں کی‘ کہ ان میں سے ایک کے منہ سے نکل گیا تھا‪:‬‬ ‫ایسے ہوتے ہیں ممصود حسنی۔ ایسی باتیں اس لیے چھوڑ‬ ‫دیتے ہیں‘ آخر بھرم بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔‬ ‫میں اپنی بات نہیں کرتا‘ میں بےچارا کیا ہوں‘ یہاں سوچ‬ ‫سے بھی بڑے لوگ ہو گزرے ہیں لیکن صاحب جاہ کی‬


‫پہچان میں نہیں آ سکے۔ ماڑے‘ ڈر کے مارے کسک بھی‬ ‫نہیں سکے۔ تگڑا اپنے سوا‘ کسی کو تگڑا نہیں سمجھتا‘‬ ‫اوپر سے پھٹا پرانا اور گریب ہو۔ رشوت نہیں لے گا‘ کم‬ ‫زور کا حك نہیں دبائے گا‘ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم نہیں‬ ‫کرے گا‘ تو تگڑا کیسے ہو گا۔ تگڑا نہیں ہو گا تو عزت‬ ‫کیسے پائے گا۔ یہ نمطہ بڑی دیر بعد میری سمجھ میں آیا‬ ‫ہے۔‬ ‫یمین مانیے‘ اب مجھے اپنے ماڑے ہونے کا رائی بھر دکھ‬ ‫نہیں۔ میں سوا الکھ لعنت بھیجتا ہوں‘ ایسے تگڑے ہونے‬ ‫پر‘ دو نمبر کی جی حضوری سے‘ یہ رنگ روپ بھال۔ میں‬ ‫اپنے لیے سید کے ساتھ خان کا سرکاری الحمہ لگانے‬ ‫سے‘ بےالحمی زندگی کو ہزار گنا اچھا اور بہتر خیال کرتا‬ ‫ہوں۔‬



Turn static files into dynamic content formats.

Create a flipbook
Issuu converts static files into: digital portfolios, online yearbooks, online catalogs, digital photo albums and more. Sign up and create your flipbook.